Pages
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ
"ربیع الاول ۱۴۰۰ ھ میں چند مقتدر علماء اہل سنت نے اپنی خواہش بصورت فرمائش ظاہر فرمائی کہ میں قرآن مجید کا ایک ترجمہ سلیس اور عام فہم زبان میں لکھ دوں، اس وقت پہلی بار مجھ پر فالج کا حملہ ہوچکا تھا۔ میں نے جواب میں ان حضرات سے اپنی ضعیفی اور بیماری کا عذر کر کے اس کام سے معافی طلب کرلی۔ اور عرض کردیا کہ اگر چند سال قبل آپ لوگوں نے اس طرف توجہ دلائی ہوتی تو میں ضرور یہ کام شروع کردیتا مگر اب جب کہ ضعیفی کے ساتھ مرض فالج نے میری توانائیوں کو بالکل مضمحل کردیا ہے، اتنا بڑا کام میرے بس کی بات نہیں۔ پھر بعض عزیزوں نے کہا کہ اگر پورے قرآن مجید کا ترجمہ آپ نہیں لکھتے تو ''نوادر الحدیث'' کی طرح قرآن مجید کی چند آیتوں ہی کا ترجمہ اور تفسیر لکھ کر آیتوں کی مناسب تشریح کردیتے تو بہت اچھا اور بے حد مفید علمی کام ہوجاتا۔
یہ کام میرے نزدیک بہت سہل تھا۔ چنانچہ میں نے توکلاً علی اللہ اس کام کو شروع کردیا۔ مگر ابھی تقریباً ایک سو صفحات کا مسودہ لکھنے پایا تھا کہ ناگہاں ۱۳ دسمبر ۱۹۸۱ کو رات میں سوتے ہوئے فالج کا دوسری مرتبہ حملہ ہوا۔ اور بایاں ہاتھ اور بایاں پاؤں اس طرح مفلوج ہو گئے کہ ان میں حس و حرکت ہی باقی نہ رہی۔ فوراً ہی بذریعہ جیپ براؤن شریف سے دو طالب علموں کی مدد سے اپنے مکان پر گھوسی آگیااور دو ماہ پلنگ پر پڑا رہا۔ مگرالحمدللہ! کہ بہت جلد خداوند کریم کا فضل عظیم ہو گیا کہ ہاتھ پاؤں میں حس و حرکت پیدا ہو گئی اور تین ماہ کے بعد میں کھڑا ہونے لگا اور رفتہ رفتہ بحمدہ تعالیٰ اس قابل ہو گیا کہ جمعہ و جماعت کے لئے مسجد تک جانے لگا۔ چنانچہ وہ"
"مسودہ جو ناتمام رہ گیا تھا، اب بحالت مرض اس کو مکمل کر کے ''عجائب القرآن''کے نام سے ناظرین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
اس مجموعہ میں قرآن مجید کی مختلف سورتوں سے چن کر پینسٹھ ان عجیب عجیب چیزوں اور تعجب خیز و حیرت انگیز واقعات کو جن کا قرآن مجید میں مختصر تذکرہ ہے، نقل کر کے ان کی مناسب تفصیل و توضیح تحریر کردی ہے اور ان واقعات کے دامنوں میں جو عبرتیں اور نصیحتیں چھپی ہوئی ہیں، ان کو بھی ''درسِ ہدایت''کے عنوان سے پیش کردیا ہے۔
دعا ہے کہ خداوند کریم میری دوسری تصنیفات کی طرح اس انیسویں کتاب کو بھی مقبولیت دارین کی کرامتوں سے سرفراز فرما کر نافع الخلائق بنائے اور اس خدمت کو میرے اور میرے والدین نیز میرے اساتذہ و تلامذہ و مریدین و احباب کے لئے زاد ِ آخرت و ذریعہ مغفرت بنائے اور میرے نواسہ مولوی فیض الحق صاحب سلمہ المولیٰ تعالیٰ کو عالم باعمل بنائے۔ اور ان کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ وہ اس کتاب کی تدوین و تبییض اور طباعت وغیرہ میں میرے دست وبازو بنے رہے۔ (آمین)
یہ کتاب اس حال میں تحریر کررہا ہوں کہ کمزوری و نقاہت سے چلنا پھرنا دشوار ہو رہا ہے۔ مگر الحمدللہ کہ داہنا ہاتھ کام کررہا ہے اور دل و دماغ بالکل درست ہیں۔ علاج کا سلسلہ جاری ہے۔
قارئین و ناظرین کرام دعا فرمائیں کہ مولیٰ تعالیٰ مجھے جلد شفایاب فرمائے تاکہ میں آخرِ حیات تک درسِ حدیث و دینی تصانیف و مواعظ کا سلسلہ جاری رکھ سکوں۔"
"وماذلک علی اللہ بعزیز وھو حسبی ونعم الوکیل والحمدللہ رب العٰلمین وصلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد والہ وصحبہ اجمعین۔
عبدالمصطفی الاعظمی عفی عنہ"
"بسم اللہ الرحمن الرحیم
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہٖ الْکَرِیْمِ"
"یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وہ مقدس لاٹھی ہے جس کو ''عصاءِ موسیٰ''کہتے ہیں اس کے ذریعہ آپ کے بہت سے اُن معجزات کا ظہور ہوا جن کو قرآن مجید نے مختلف عنوانوں کے ساتھ بار بار بیان فرمایا ہے۔
اِس مقدس لاٹھی کی تاریخ بہت قدیم ہے جو اپنے دامن میں سینکڑوں اُن تاریخی واقعات کو سمیٹے ہوئے ہے جن میں عبرتوں اور نصیحتوں کے ہزاروں نشانات ستاروں کی طرح جگمگا رہے ہیں جن سے اہل نظر کو بصیرت کی روشنی اور ہدایت کا نور ملتا ہے۔
یہ لاٹھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قد برابر دس ہاتھ لمبی تھی۔ اور اس کے سر پر دو شاخیں تھیں جو رات میں مشعل کی طرح روشن ہوجایا کرتی تھیں۔ یہ جنت کے درخت پیلو کی لکڑی سے بنائی گئی تھی اور اس کو حضرت آدم علیہ السلام بہشت سے اپنے ساتھ لائے تھے۔ چنانچہ
حضرت سید علی اجہوزی علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ ؎"
"واٰدَمُ مَعَہٗ اُنْزِلَ الْعُوْدُ وَالْعَصَا لِمُوْسٰی مِنَ الْاٰسِ النَّبَاتِ الْمُکَرَّمِ
وَ اَوْرَاقُ تِیْنٍ وَّالْیَمِیْنُ بِمَکَّۃَ وَ خَتْمُ سُلَیْمٰنَ النَّبِیِّ اَلمُعَظَّم"
ترجمہ: حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ عود (خوشبودار لکڑی) حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا جو عزت والی پیلو کی لکڑی کا تھا،انجیر کی پتیاں، حجر اسود جو مکہ معظمہ میں ہے اور نبئ معظم حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی یہ پانچوں چیزیں جنت سے اُتاری گئیں۔
" (تفسیر الصاوی ،ج۱،ص۶۹،البقرۃ:۶۰ )"
"حضرت آدم علیہ السلام کے بعد یہ مقدس عصاء حضرات انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کو یکے بعد دیگرے بطور میراث کے ملتا رہا۔ یہاں تک کہ حضرت شعیب علیہ السلام کو ملا جو ''قومِ مدین''کے نبی تھے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر سے ہجرت فرما کر مدین تشریف لے گئے اور حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی صاحبزادی حضرت بی بی صفوراء رضی اللہ عنہا سے آپ کا نکاح فرما دیا۔ اور آپ دس برس تک حضرت شعیب علیہ السلام کی خدمت میں رہ کر آپ کی بکریاں چراتے رہے۔ اُس وقت حضرت شعیب علیہ السلام نے حکمِ خداوندی (عزوجل) کے مطابق آپ کو یہ مقدس عصا عطا فرمایا۔
پھر جب آپ اپنی زوجہ محترمہ کو ساتھ لے کر مدین سے مصر اپنے وطن کے لئے روانہ ہوئے۔ اور وادی مقدس مقام ''طُویٰ'' میں پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے اپنی تجلی سے آپ کو سرفراز فرما کر منصب ِ رسالت کے شرف سے سربلند فرمایا۔ اُس وقت حضرت حق جل مجدہ نے آپ سے جس طرح کلام فرمایا قرآن مجید نے اُس کو اِ س طرح بیان فرمایا کہ!"
وَمَا تِلْکَ بِیَمِیۡنِکَ یٰمُوۡسٰی ﴿17﴾قَالَ ہِیَ عَصَایَ ۚ اَتَوَکَّؤُا عَلَیۡہَا وَ اَہُشُّ بِہَا عَلٰی غَنَمِیۡ وَلِیَ فِیۡہَا مَاٰرِبُ اُخْرٰی ﴿18﴾
"ترجمہ کنز الایمان :۔اور یہ تیرے داہنے ہاتھ میں کیا ہے، اے موسیٰ عرض کی یہ میرا عصا ہے میں اس پر تکیہ لگاتا ہوں اور اس سے اپنی بکریوں پر پتے جھاڑتا ہوں اور میرے اِس میں اور کام ہیں۔(پ 16،طہ:17،18)
مَاٰرِبُ اُخْرٰی(دوسرے کاموں)کی تفسیر میں حضرت علامہ ابو البرکات عبداللہ بن احمد نسفی علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ مثلاً:۔
(۱)اس کو ہاتھ میں لے کر اُس کے سہارے چلنا (۲)اُ س سے بات چیت کر کے دل بہلانا (۳)دن میں اُس کا درخت بن کر آپ پر سایہ کرنا(۴)رات میں اس کی دونوں"
شاخوں کا روشن ہو کر آپ کو روشنی دینا (۵)اُس سے دشمنوں، درندوں اور سانپوں، بچھوؤں کو مارنا (۶)کنوئیں سے پانی بھرنے کے وقت اس کا رسی بن جانا اور اُس کی دونوں شاخوں کا ڈول بن جانا (۷)بوقتِ ضرورت اُس کا درخت بن کر حسبِ خواہش پھل دینا(۸)اس کو زمین میں گاڑ دینے سے پانی نکل پڑنا وغیرہ
(مدارک التنزیل،ج۳،ص۲۵۱،پ۱۶،طہ:۱۸)
حضرت موسیٰ علیہ السلام اِس مُقدّس لاٹھی سے مذکورہ بالا کام نکالتے رہے مگر جب آپ فرعون کے دربار میں ہدایت فرمانے کی غرض سے تشریف لے گئے اور اُس نے آپ کو جادوگر کہہ کر جھٹلایا تو آپ کے اس عصا کے ذریعہ بڑے بڑے معجزات کا ظہور شروع ہو گیا، جن میں سے تین معجزات کا تذکرہ قرآنِ مجید نے بار بار فرمایا جو حسب ذیل ہیں۔
اس کا واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے ایک میلہ لگوایا۔ اور اپنی پوری سلطنت کے جادوگروں کو جمع کر کے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو شکست دینے کے لئے مقابلہ پر لگا دیا۔ اور اس میلہ کے ازدحام میں جہاں لاکھوں انسانوں کا مجمع تھا، ایک طرف جادوگروں کا ہجوم اپنی جادوگری کا سامان لے کر جمع ہو گیا۔ اور اُن جادوگروں کی فوج کے مقابلہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام تنہا ڈٹ گئے۔ جادوگروں نے فرعون کی عزت کی قسم کھا کر اپنے جادو کی لاٹھیوں اور رسیوں کو پھینکا تو ایک دم وہ لاٹھیاں اور رسیاں سانپ بن کر پورے میدان میں ہر طرف پھنکاریں مار کر دوڑنے لگیں اور پورا مجمع خوف و ہراس میں بدحواس ہو کر اِدھر اُدھر بھاگنے لگا اور فرعون اور اس کے تمام جادوگر اس کرتب کو دکھا کر اپنی فتح کے گھمنڈ اور غرور کے نشہ میں بدمست ہو گئے اور جوشِ شادمانی سے تالیاں بجا بجا کر اپنی مسرت کا اظہار کرنے لگے کہ اتنے میں ناگہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خدا کے حکم سے اپنی مقدس لاٹھی کو اُن سانپوں کے ہجوم میں ڈال دیا تو یہ لاٹھی ایک بہت بڑا اور نہایت ہیبت ناک اژدہا بن کر جادوگروں کے
تمام سانپوں کو نگل گیا۔ یہ معجزہ دیکھ کر تمام جادوگر اپنی شکست کا اعتراف کرتے ہوئے سجدہ میں گرپڑے اور باآوازِ بلند یہ اعلان کرنا شروع کردیا کہ
امَنَّا بِرَبِّ ھٰرُوْنَ وَمُوْسٰی
"یعنی ہم سب حضرت ہارون اور حضرت موسیٰ علیہما السلام کے رب پر ایمان لائے۔
چنانچہ قرآنِ مجید نے اِس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:۔"
قَالُوۡا یٰمُوۡسٰۤی اِمَّاۤ اَنۡ تُلْقِیَ وَ اِمَّاۤ اَنۡ نَّکُوۡنَ اَوَّلَ مَنْ اَلْقٰی ﴿65﴾قَالَ بَلْ اَلْقُوۡا ۚ فَاِذَا حِبَالُہُمْ وَ عِصِیُّہُمْ یُخَیَّلُ اِلَیۡہِ مِنۡ سِحْرِہِمْ اَنَّہَا تَسْعٰی ﴿66﴾فَاَوْجَسَ فِیۡ نَفْسِہٖ خِیۡفَۃً مُّوۡسٰی ﴿67﴾قُلْنَا لَاتَخَفْ اِنَّکَ اَنۡتَ الْاَعْلٰی ﴿68﴾وَاَلْقِ مَا فِیۡ یَمِیۡنِکَ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوۡا ؕ اِنَّمَا صَنَعُوۡا کَیۡدُ سٰحِرٍ ؕ وَ لَایُفْلِحُ السّٰحِرُ حَیۡثُ اَتٰی ﴿69﴾فَاُلْقِیَ السَّحَرَۃُ سُجَّدًا قَالُوۡۤا اٰمَنَّا بِرَبِّ ہٰرُوۡنَ وَ مُوۡسٰی ﴿70﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔ بولے اے موسیٰ یا تو تم ڈالو یا ہم پہلے ڈالیں موسیٰ نے کہا بلکہ تمہیں ڈالو جبھی اُن کی رسیاں اور لاٹھیاں اُن کے جادو کے زور سے اُن کے خیال میں دوڑتی معلوم ہوئیں تو اپنے جی میں موسیٰ نے خوف پایا ہم نے فرمایا ڈر نہیں بیشک تو ہی غالب ہے اورڈال تو دے جو تیرے داہنے ہاتھ میں ہے اور اُن کی بناوٹوں کو نگل جائے گا وہ جو بنا کر لائے ہیں وہ تو جادوگر کا فریب ہے اور جادوگر کا بھلا نہیں ہوتا کہیں آوے تو سب جادوگر سجدے میں گرالئے گئے بولے ہم اس پر ایمان لائے جو ہارون اور موسیٰ کا رب ہے۔(پ16،طہ65تا70)
بنی اسرائیل کا اصل وطن مُلکِ شام تھا لیکن حضرت یوسف علیہ السلام کے دورِ حکومت میں یہ لوگ مصر میں آ کر آباد ہو گئے اور ملکِ شام پر قوم عمالقہ کا تسلط اور قبضہ ہو گیا۔ جو بدترین قسم کے کفار تھے۔ جب فرعون دریائے نیل میں غرق ہو گیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے خطرات سے اطمینان ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ قوم ِ عمالقہ سے جہاد کر کے ملکِ شام کو اُن کے قبضہ و تسلط سے آزاد
کرائیں۔ چنانچہ آپ چھ لاکھ بنی اسرائیل کی فوج لے کر جہاد کے لئے روانہ ہوگئے مگر ملکِ شام کی حدود میں پہنچ کر بنی اسرائیل پر قومِ عمالقہ کا ایسا خوف سوار ہو گیا کہ بنی اسرائیل ہمت ہار گئے اور جہاد سے منہ پھیر لیا۔ اس نافرمانی پر اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو یہ سزادی کہ یہ لوگ چالیس برس تک ''میدان تیہ''میں بھٹکتے اور گھومتے پھرے اور اس میدان سے باہر نہ نکل سکے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی اُن لوگوں کے ساتھ میدانِ تیہ میں تشریف فرما تھے۔ جب بنی اسرائیل اس بے آب و گیاہ میدان میں بھوک و پیاس کی شدت سے بے قرار ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دُعا سے اُن لوگوں کے کھانے کے لئے ''من و سلویٰ'' آسمان سے اُتارا۔ مَن شہد کی طرح ایک قسم کا حلوہ تھا، اور سلویٰ بھنی ہوئی بٹیریں تھیں۔ کھانے کے بعد جب یہ لوگ پیاس سے بے تاب ہونے لگے اور پانی مانگنے لگے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پتھر پر اپنا عصا مار دیا تو اُس پتھر میں بارہ چشمے پھوٹ کر بہنے لگے اور بنی اسرائیل کے بارہ خاندان اپنے اپنے ایک چشمے سے پانی لے کر خود بھی پینے لگے اور اپنے جانوروں کو بھی پلانے لگے اور پورے چالیس برس تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ تھا جو عصا اور پتھر کے ذریعہ ظہور میں آیا۔ قرآن مجید نے اس واقعہ اور معجزہ کا بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:۔
وَ اِذِ اسْتَسْقٰی مُوۡسٰی لِقَوْمِہٖ فَقُلْنَا اضْرِبۡ بِّعَصَاکَ الْحَجَرَ ؕ فَانۡفَجَرَتْ مِنْہُ اثْنَتَا عَشْرَۃَ عَیۡنًا ؕ قَدْ عَلِمَ کُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَہُمْ ؕ ۔
ترجمہ کنزالایمان :۔اور جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لئے پانی مانگا تو ہم نے فرمایا اس پتھر پر اپنا عصا مارو فوراً اس میں سے بارہ چشمے بہہ نکلے۔ ہر گروہ نے اپنا گھاٹ پہچان لیا۔ (پ1،البقرۃ: 60)
حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک مدت دراز تک فرعون کو ہدایت فرماتے رہے اور آیات و معجزات دکھاتے رہے مگر اس نے حق کو قبول
"نہیں کیا بلکہ اور زیادہ اس کی شرارت و سرکشی بڑھتی رہی۔ اور بنی اسرائیل نے چونکہ اس کی خدائی کو تسلیم نہیں کیا اِس لئے اس نے اُن مومنین کو بہت زیادہ ظلم و ستم کا نشانہ بنایا اِس دوران میں ایک دم حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی اُتری کہ آپ اپنی قوم بنی اسرائیل کو اپنے ساتھ لے کر رات میں مصر سے ہجرت کرجائیں۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو ہمراہ لے کر رات میں مصر سے روانہ ہو گئے۔
جب فرعون کو پتا چلا تو وہ بھی اپنے لشکروں کو ساتھ لے کر بنی اسرائیل کی گرفتاری کے لئے چل پڑا۔ جب دونوں لشکر ایک دوسرے کے قریب ہو گئے تو بنی اسرائیل فرعون کے خوف سے چیخ پڑے کہ اب تو ہم فرعون کے ہاتھوں گرفتار ہوجائیں گے اوربنی اسرائیل کی پوزیشن بہت نازک ہوگئی کیونکہ اُن کے پیچھے فرعون کا خونخوار لشکر تھا اور آگے موجیں مارتا ہوا دریا تھا۔ اس پریشانی کے عالم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام مطمئن تھے اور بنی اسرائیل کو تسلی دے رہے تھے۔ جب دریا کے پاس پہنچ گئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم فرمایا کہ تم اپنی لاٹھی دریا پر ماردو۔ چنانچہ جونہی آپ نے دریا پر لاٹھی ماری تو فوراً ہی دریا میں بارہ سڑکیں بن گئیں اور بنی اسرائیل ان سڑکوں پر چل کر سلامتی کے ساتھ دریا سے پار نکل گئے۔ فرعون جب دریا کے قریب پہنچا اور اس نے دریا کی سڑکوں کو دیکھا تو وہ بھی اپنے لشکروں کے ساتھ اُن سڑکوں پر چل پڑا۔ مگر جب فرعون اور اس کا لشکر دریا کے بیچ میں پہنچا تو اچانک دریا موجیں مارنے لگا اور سب سڑکیں ختم ہو گئیں اور فرعون اپنے لشکروں سمیت دریا میں غرق ہو گیا۔ اس واقعہ کو قرآن مجید نے اس طرح بیان فرمایا کہ:۔"
فَلَمَّا تَرَآءَ الْجَمْعٰنِ قَالَ اَصْحٰبُ مُوۡسٰۤی اِنَّا لَمُدْرَکُوۡنَ ﴿ۚ61﴾قَالَ کَلَّا ۚ اِنَّ مَعِیَ رَبِّیۡ سَیَہۡدِیۡنِ ﴿62﴾فَاَوْحَیۡنَاۤ اِلٰی مُوۡسٰۤی اَنِ اضْرِبۡ بِّعَصَاکَ الْبَحْرَ ؕ فَانۡفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیۡمِ ﴿ۚ63﴾وَ اَزْلَفْنَا ثَمَّ الْاٰخَرِیۡنَ ﴿ۚ64﴾وَ اَنۡجَیۡنَا مُوۡسٰی وَ مَنۡ مَّعَہٗۤ اَجْمَعِیۡنَ ﴿ۚ65﴾ثُمَّ
اَغْرَقْنَا الْاٰخَرِیۡنَ ﴿ؕ66﴾اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً ؕ وَمَا کَانَ اَکْثَرُہُمۡ مُّؤْمِنِیۡنَ ﴿67﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔پھر جب آمنا سامنا ہوا دونوں گروہوں کا موسیٰ والوں نے کہا ہم کو اُنہوں نے آلیا موسیٰ نے فرمایا۔ یوں نہیں بیشک میرا رب میرے ساتھ ہے وہ مجھے اب راہ دیتا ہے تو ہم نے موسیٰ کو وحی فرمائی کہ دریا پر اپنا عصا مار تو جبھی دریا پھٹ گیا تو ہر حصہ ہو گیا جیسے بڑا پہاڑ۔ اور وہاں قریب لائے ہم دوسروں کو اور ہم نے بچالیا موسیٰ اور اس کے سب ساتھ والوں کو پھر دوسروں کو ڈبو دیا بیشک اس میں ضرور نشانی ہے اور اُن میں اکثر مسلمان نہ تھے۔ (پ19،الشعراء: 61تا 67)
یہ ہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مقدس لاٹھی کے ذریعہ ظاہر ہونے والے وہ تینوں عظیم الشان معجزات جن کو قرآن کریم نے مختلف الفاظ اور متعدد عنوانوں کے ساتھ بار بار بیان فرما کر لوگوں کے لئے عبرت اور ہدایت کا سامان بنا دیا ہے۔"
(واللہ تعالٰی اعلم)
"یہ ایک ہاتھ لمبا ایک ہاتھ چوڑا چوکور پتھر تھا، جو ہمیشہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جھولے میں رہتا تھا۔ اس مبارک پتھر کے ذریعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دو معجزات کا ظہور ہوا۔ جن کا تذکرہ قرآن مجید میں بھی ہوا ہے۔
پہلامعجزہ:۔اس پتھر کا پہلا عجیب کارنامہ جو درحقیقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ تھا وہ اس پتھر کی دانشمندانہ لمبی دوڑ ہے اور یہی معجزہ اس پتھر کے ملنے کی تاریخ ہے۔
اس کا مفصل واقعہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل کا یہ عام دستور تھا کہ وہ بالکل ننگے بدن ہو کر مجمع عام میں غسل کیا کرتے تھے۔ مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام گو کہ اسی قوم کے ایک فرد تھے اور اسی ماحول میں پلے بڑھے تھے، لیکن خداوند قدوس نے اُن کو نبوت و رسالت کی عظمتوں سے سرفراز فرمایا تھا۔ اس لئے آپ کی عصمتِ نبوت بھلا اس حیا سوز بے غیرتی کو کب گوارا کرسکتی"
"تھی۔ آپ بنی اسرائیل کی اس بے حیائی سے سخت نالاں اور انتہائی بیزار تھے اس لئے آپ ہمیشہ یا تو تنہائی میں یا تہبند پہن کر غسل فرمایا کرتے تھے۔ بنی اسرائیل نے جب یہ دیکھا کہ آپ کبھی بھی ننگے ہو کر غسل نہیں فرماتے تو ظالموں نے آپ پر بہتان لگا دیا کہ آپ کے بدن کے اندرونی حصہ میں یا تو برص کا سفید داغ یا کوئی ایسا عیب ضرور ہے کہ جس کو چھپانے کے لئے یہ کبھی برہنہ نہیں ہوتے اور ظالموں نے اس تہمت کا اس قدر اعلان اور چرچا کیا کہ ہر کوچہ و بازار میں اس کا پروپیگنڈہ پھیل گیا۔ اس مکروہ تہمت کی شورِش کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قلب نازک پر بڑا صدمہ و رنج گزرا اور آپ بڑی کوفت اور اذیت میں پڑ گئے۔ تو خداوند قدوس اپنے مقدس کلیم کے رنج و غم کو بھلا کب گوارا فرماتا۔ اور اپنے ایک برگزیدہ رسول پر ایک عیب کی تہمت بھلا خالق عالم کو کب اور کیونکر اور کس طرح پسند ہو سکتی تھی۔ اَرحم الرَّاحمین نے آپ کی برأت اور بے عیبی ظاہر کردینے کا ایک ایسا ذریعہ پیدا فرما دیا کہ دم زدن میں بنی اسرائیل کے پروپیگنڈوں اور اُن کے شکوک و شبہات کے بادل چھٹ گئے اور آپ کی برأت اور بے عیبی کا سورج آفتاب عالمتاب سے زیادہ روشن و آشکارا ہو گیا۔
اور وہ یوں ہوا کہ ایک دن آپ پہاڑوں کے دامنوں میں چھپے ہوئے ایک چشمہ پر غسل کے لئے تشریف لے گئے اور یہ دیکھ کر کہ یہاں دور دور تک کسی انسان کا نام و نشان نہیں ہے، آپ اپنے تمام کپڑوں کو ایک پتھر پر رکھ کر اور بالکل برہنہ بدن ہو کر غسل فرمانے لگے، غسل کے بعد جب آپ لباس پہننے کے لئے پتھر کے پاس پہنچے تو کیا دیکھا کہ وہ پتھر آپ کے کپڑوں کو لئے ہوئے سرپٹ بھاگا چلا جا رہا ہے۔ یہ دیکھ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی اس پتھر کے پیچھے پیچھے دوڑنے لگے کہ ثوبی حجر، ثوبی حجر۔ یعنی اے پتھر!میرا کپڑا ۔ اے پتھر میرا کپڑا۔ مگر یہ پتھر برابر بھاگتار ہا۔ یہاں تک کہ شہر کی بڑی بڑی سڑکوں سے گزرتا ہوا گلی کوچوں میں پہنچ گیا۔ اور آپ بھی برہنہ بدن ہونے کی حالت میں برابر پتھر کو دوڑاتے چلے گئے ۔اس"
طرح بنی اسرائیل کے ہر چھوٹے بڑے نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ سر سے پاؤں تک آپ کے مقدس بدن میں کہیں بھی کوئی عیب نہیں ہے بلکہ آپ کے جسم اقدس کا ہر حصہ حسن و جمال میں اس قدر نقطہ کمال کو پہنچا ہوا ہے کہ عام انسانوں میں اس کی مثال تقریباً محال ہے۔ چنانچہ بنی اسرائیل کے ہر ہر فرد کی زبان پر یہی جملہ تھا کہ
وَاللہِ مَابِمُوْسٰی مِنْ بَاس
"یعنی خدا کی قسم موسیٰ بالکل ہی بے عیب ہیں۔
جب یہ پتھر پوری طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کی برأت کا اعلان کرچکا تو خود بخود ٹھہر گیا۔ آپ نے جلدی سے اپنا لباس پہن لیا اور اس پتھر کو اٹھا کر اپنے جھولے میں رکھ لیا۔"
(بخاری شریف، کتاب الانبیاء، باب ۳۰،ج۲، ص۴۴۲،رقم ۳۴۰۴ ،تفسیر الصاوی،ج۵،ص۱۶۵۹،پ۲۲،الاحزاب:۶۹)
اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کا ذکر قرآن مجید میں اس طرح بیان فرمایا کہ:۔
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ اٰذَوْا مُوۡسٰی فَبَرَّاَہُ اللہُ مِمَّا قَالُوۡا ؕ وَکَانَ عِنۡدَ اللہِ وَجِیۡہًا ﴿69﴾
" ترجمہ کنزالایمان:۔ اے ایمان والو اُن جیسے نہ ہونا جنہوں نے موسیٰ کو ستایا تو اللہ نے اسے بری فرما دیا اس بات سے جو اُنہوں نے کہی۔ اور موسیٰ اللہ کے یہاں آبرو والا ہے۔(پ22،الاحزاب:69)
دوسرا معجزہ:۔''میدان تیہ'' میں اسی پتھر پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا ماردیا تھا تو اس میں سے بارہ چشمے جاری ہو گئے تھے جس کے پانی کو چالیس برس تک بنی اسرائیل میدان تیہ میں استعمال کرتے رہے۔ جس کا پورا واقعہ پہلے گزر چکا ہے۔ قرآن مجید کی آیت"
فَقُلْنَا اضْرِبۡ بِّعَصَاکَ الْحَجَرَ
(پ1،البقرۃ:60) میں ''پتھر''سے یہی پتھر مراد ہے۔
ایک شبہ کا ازالہ:۔معجزات کے منکرین جو ہر چیز کو اپنی ناقص عقل کی عینک ہی سے دیکھا کرتے ہیں۔ اس پتھر سے پانی کے چشموں کا جاری ہونا محال قرار دے کر اس معجزہ کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہماری عقل اس کو قبول نہیں کرسکتی کہ اتنے چھوٹے سے پتھر سے بارہ چشمے جاری ہو گئے۔ حالانکہ یہ منکرین اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ بعض پتھروں میں خداوند تعالی نے یہ تاثیر پیدا فرمادی ہے کہ وہ بال مونڈدیتے ہیں، بعض پتھروں کا یہ اثر ہے کہ وہ سرکہ کو تیز اور ترش بنا دیتے ہیں، بعض پتھروں کی یہ خاصیت ہے کہ وہ لوہے کو دور سے کھینچ لیتے ہیں،بعض پتھروں سے موذی جانور بھاگ جاتے ہیں،بعض پتھروں سے جانوروں کا زہر اتر جاتاہے، بعض پتھر دل کی دھڑکن کے لئے تریاق ہیں، بعض پتھروں کو نہ آگ جلا سکتی ہے نہ گرم کرسکتی ہے، بعض پتھروں سے آگ نکل پڑتی ہے، بعض پتھروں سے آتش فشاں پھٹ پڑتا ہے تو جب خداوند قدوس نے پتھروں میں قسم قسم کے اثرات پیدا فرما دیئے ہیں تو پھر اس میں کون سی خلافِ عقل اور محال بات ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس پتھر میں اللہ تعالیٰ نے یہ اثر بخش دیا اور اس میں یہ خاصیت عطا فرما دی کہ وہ زمین کے اندر سے پانی جذب کر کے چشموں کی شکل میں باہر نکالتا رہے یا اس پتھر میں یہ تاثیر ہو کہ جو ہَوا اس پتھر سے ٹکراتی ہو وہ پانی بن کر مسلسل بہتی رہے یہ خداوند قادر و قدیر کی قدرت سے ہرگز ہرگز نہ کوئی بعید ہے نہ محال نہ خلافِ عقل۔ لہٰذا اس معجزہ پر ایمان لانا ضروریاتِ دین میں سے ہے اور اِس کا انکار کفر ہے۔ قرآن مجید میں ہے:۔
وَ اِنَّ مِنَ الْحِجَارَۃِ لَمَا یتَفَجَّرُ مِنْہُ الۡاَنْہٰرُ ؕ وَ اِنَّ مِنْہَا لَمَا یَشَّقَّقُ فَیَخْرُجُ مِنْہُ الْمَآءُ ؕ وَ اِنَّ مِنْہَا لَمَا یَہۡبِطُ مِنْ خَشْیَۃِ اللہِ ؕ
ترجمہ کنزالایمان:۔اور پتھروں میں تو کچھ وہ ہیں جن سے ندیاں بہہ نکلتی ہیں اور کچھ وہ ہیں جو پھٹ جاتے ہیں تو اُن سے پانی نکلتا ہے اور کچھ وہ ہیں کہ اللہ کے ڈر سے گر پڑتے ہیں۔ (پ1،البقرۃ:74)
بہرحال پتھروں سے پانی نکلنا یہ روزانہ کا چشم دید مشاہدہ ہے تو پھر بھلا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پتھر سے پانی کے چشموں کا جاری ہوجانا کیونکر خلافِ عقل اور محال قرار دیا جا سکتا ہے۔
"جب فرعون دریائے نیل میں غرق ہو گیا اور تمام بنی اسرائیل مسلمان ہو گئے اور جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اطمینان نصیب ہو گیا تو اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا کہ آپ بنی اسرائیل کا لشکر لے کر ارض مقدس (بیت المقدس)میں داخل ہو جائیں۔ اُس وقت بیت المقدس پر عمالقہ کی قوم کا قبضہ تھا جو بدترین کفار تھے اور بہت طاقتور و جنگجو اور نہایت ہی ظالم لوگ تھے چنانچہ
حضرت موسیٰ علیہ السلام چھ لاکھ بنی اسرائیل کو ہمراہ لے کر قوم عمالقہ سے جہاد کے لئے روانہ ہوئے مگر جب بنی اسرائیل بیت المقدس کے قریب پہنچے تو ایک دم بزدل ہو گئے اور کہنے لگے کہ اس شہر میں ''جبارین''(عمالقہ) ہیں جو بہت ہی زور آور اور زبردست ہیں۔ لہٰذا جب تک یہ لوگ شہر میں رہیں گے ہم ہرگز ہرگز شہر میں داخل نہیں ہوں گے بلکہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے یہاں تک کہہ دیا کہ اے موسیٰ آپ اور آپ کا خدا جا کر اس زبردست قوم سے جنگ کریں۔ ہم تو یہیں بیٹھے رہیں گے۔ بنی اسرائیل کی زبان سے یہ سن کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بڑا رنج و صدمہ ہوا اور آپ نے باری تعالیٰ کے دربار میں یہ عرض کیا کہ:۔"
رَبِّ اِنِّیۡ لَاۤ اَمْلِکُ اِلَّا نَفْسِیۡ وَاَخِیۡ فَافْرُقْ بَیۡنَنَا وَبَیۡنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیۡنَ ﴿25﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔اے رب میرے مجھے اختیار نہیں مگر اپنا اور اپنے بھائی کا تو تو ہم کو اُن بے حکموں سے جدا رکھ۔ (پ6،المائدۃ:25)اس دعا پر اللہ تعالیٰ نے اپنے غضب و جلال کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ:۔
فَاِنَّہَا مُحَرَّمَۃٌ عَلَیۡہِمْ اَرْبَعِیۡنَ سَنَۃً ۚ یَتِیۡہُوۡنَ فِی الۡاَرْضِ ؕ فَلَا تَاۡسَ عَلَی الْقَوْمِ الْفٰسِقِیۡنَ ﴿٪26﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔تو وہ زمین اُن پر حرام ہے چالیس برس تک بھٹکتے پھریں زمین میں تو تم اُن بے حکموں کا افسوس نہ کھاؤ۔ (پ6،المائدۃ:26)
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ چھ لاکھ بنی اسرائیل ایک میدان میں چالیس برس تک بھٹکتے رہے مگر اس میدان سے باہر نہ نکل سکے۔ اسی میدان کا نام ''میدان تیہ''ہے۔ اس میدان میں بنی اسرائیل کے کھانے کے لئے ''من و سلویٰ'' نازل ہوا۔ اور پتھر پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا مار دیا تو پتھر میں سے بارہ چشمے جاری ہو گئے۔ اس واقعہ کو قرآن مجید نے بار بار مختلف عنوانوں کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ جس میں سے سورہ مائدہ میں یہ واقعہ قدرے تفصیل کے ساتھ مذکور ہوا ہے جو بلاشبہ ایک عجیب الشان واقعہ ہے جو بنی اسرائیل کی نافرمانیوں اور شرارتوں کی تعجب خیز اور حیرت انگیز داستان ہے مگر اس کے باوجود بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی محبت و شفقت بنی اسرائیل پر ہمیشہ رہی کہ جب یہ لوگ میدان تیہ میں بھوکے پیاسے ہوئے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا مانگ کر اُن لوگوں کے کھانے کے لئے من و سلویٰ نازل کرایا۔ اور پتھر پر عصا مار کر بارہ چشمے جاری کرا دیئے اس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے صبر اور آپ کے حلم اور تحمل کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔"
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب اللہ تعالیٰ نے فرعون کی ہدایت کے لئے اُس کے دربار میں بھیجا تو دو معجزات آپ کو عطا فرما کر بھیجا۔ ایک ''عصا''دوسرا ''یدبیضا''(روشن ہاتھ)حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے گریبان میں ہاتھ ڈال کر باہر نکالتے تھے تو ایک دم آپ کا ہاتھ روشن ہو کر چمکنے لگتا تھا، پھر جب آپ اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال دیتے تو وہ اپنی اصلی حالت پر ہو جایا کرتا
تھا۔ اس معجزہ کو قرآنِ عظیم نے مختلف سورتوں میں بار بار ذکر فرمایا ہے۔ چنانچہ سورہ طٰہٰ میں ارشاد فرمایا کہ:۔
وَاضْمُمْ یَدَکَ اِلٰی جَنَاحِکَ تَخْرُجْ بَیۡضَآءَ مِنْ غَیۡرِ سُوۡٓءٍ اٰیَۃً اُخْرٰی ﴿ۙ22﴾لِنُرِیَکَ مِنْ اٰیٰتِنَا الْکُبْرٰی ﴿ۚ23﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔اور اپنا ہاتھ اپنے بازو سے ملا خوب سپید نکلے گا بے کسی مرض کے ایک اور نشانی کہ ہم تجھے اپنی بڑی بڑی نشانیاں دکھائیں۔ (پ16،طہ:22،23)
اسی معجزہ کا نام ''یدبیضا''ہے جو ایک عجیب اور عظیم معجزہ ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دستِ مبارک سے رات اور دن میں آفتاب کی طرح نور نکلتا تھا۔"
(تفسیر خزائن العرفان ،ص۵۶۳،پ۱۶،طہ۲۲ )
جب حضرت موسیٰ علیہ السلام چھ لاکھ بنی اسرائیل کے افراد کے ساتھ میدانِ تیہ میں مقیم تھے تو اللہ تعالیٰ نے اُن لوگوں کے کھانے کے لئے آسمان سے دو کھانے اتارے۔ ایک کا نام ''من'' اور دوسرے کا نام ''سلویٰ'' تھا۔ من بالکل سفید شہد کی طرح ایک حلوہ تھا۔ یا سفید رنگ کی شہد ہی تھی جو روزانہ آسمان سے بارش کی طرح برستی تھی اور سلویٰ پکی ہوئی بٹیریں تھیں جو دکھنی ہوا کے ساتھ آسمان سے نازل ہوا کرتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر اپنی نعمتوں کا شمار کراتے ہوئے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ:۔
وَاَنۡزَلْنَا عَلَیۡکُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوٰی
"ترجمہ کنزالایمان:۔اور تم پر مَن اور سلویٰ اُتارا ۔(پ1،البقرۃ:57)
اس مَن و سلویٰ کے بارے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ حکم تھا کہ روزانہ تم لوگ اس کو کھالیا کرو اور کل کے لئے ہرگز ہرگز اس کا ذخیرہ مت کرنا۔ مگر بعض ضعیف الاعتقاد لوگوں کو یہ"
ڈر لگنے لگا اگر کسی دن من و سلویٰ نہ اترا تو ہم لوگ اس بے آب و گیاہ، چٹیل میدان میں بھوکے مرجائیں گے۔ چنانچہ اُن لوگوں نے کچھ چھپا کر کل کے لئے رکھ لیا تو نبی کی نافرمانی سے ایسی نحوست پھیل گئی کہ جو کچھ لوگوں نے کل کے لئے جمع کیا تھا وہ سب سڑ گیا اور آئندہ کے لئے اس کا اُترنا بند ہو گیا اسی لئے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بنی اسرائیل نہ ہوتے تو نہ کھانا کبھی خراب ہوتا اور نہ گوشت سڑتا، کھانے کا خراب ہونا اور گوشت کا سڑنا اسی تاریخ سے شروع ہوا۔ ورنہ اس سے پہلے نہ کھانا بگڑتا تھا نہ گوشت سڑتا تھا۔
" (تفسیر روح البیان،ج۱،پ۱، البقرۃ ۵۷)"
"روایت ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کی قوم کے ستر ہزار آدمی ''عقبہ'' کے پاس سمندر کے کنارے ''ایلہ'' نامی گاؤں میں رہتے تھے اور یہ لوگ بڑی فراخی اور خوشحالی کی زندگی بسر کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اُن لوگوں کا اس طرح امتحان لیا کہ سنیچر کے دن مچھلی کا شکار اُن لوگوں پر حرام فرما دیا اور ہفتے کے باقی دنوں میں شکار حلال فرما دیا مگر اس طرح اُن لوگوں کو آزمائش میں مبتلا فرمادیا کہ سنیچر کے دن بے شمار مچھلیاں آتی تھیں اور دوسرے دنوں میں نہیں آتی تھیں تو شیطان نے اُن لوگوں کو یہ حیلہ بتا دیا کہ سمندر سے کچھ نالیاں نکال کر خشکی میں چند حوض بنالو اور جب سنیچر کے دن اُن نالیوں کے ذریعہ مچھلیاں حوض میں آجائیں تو نالیوں کا منہ بند کردو۔ اور اس دن شکار نہ کرو بلکہ دوسرے دن آسانی کے ساتھ اُن مچھلیوں کو پکڑلو۔ اُن لوگوں کو یہ شیطانی حیلہ بازی پسند آگئی اور اُن لوگوں نے یہ نہیں سوچا کہ جب مچھلیاں نالیوں اور حوضوں میں مقید ہو گئیں تو یہی اُن کا شکار ہو گیا۔ تو سنیچر ہی کے دن شکار کرنا پایا گیا جو اُن کے لئے حرام تھا۔اس موقع پر ان یہودیوں کے تین گروہ ہو گئے۔
(۱)کچھ لوگ ایسے تھے جو شکار کے اس شیطانی حیلہ سے منع کرتے رہے اور ناراض و بیزار"
"ہو کر شکار سے باز رہے۔
(۲)اور کچھ لوگ اس کام کو دل سے برا جان کر خاموش رہے دوسروں کو منع نہ کرتے تھے بلکہ منع کرنے والوں سے یہ کہتے تھے کہ تم لوگ ایسی قوم کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ تعالیٰ ہلاک کرنے والا یا سخت سزا دینے والا ہے۔
(۳)اور کچھ وہ سرکش و نافرمان لوگ تھے جنہوں نے حکم خداوندی کی اعلانیہ مخالفت کی اور شیطان کی حیلہ بازی کو مان کر سنیچر کے دن شکار کرلیا اور ان مچھلیوں کو کھایا اور بیچا بھی۔
جب نافرمانوں نے منع کرنے کے باوجود شکار کرلیا تو منع کرنے والی جماعت نے کہا کہ اب ہم ان معصیت کاروں سے کوئی میل ملاپ نہ رکھیں گے چنانچہ ان لوگوں نے گاؤں کو تقسیم کر کے درمیان میں ایک دیوار بنالی اور آمد و رفت کا ایک الگ دروازہ بھی بنالیا۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے غضب ناک ہو کر شکار کرنے والوں پر لعنت فرما دی۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ ایک دن خطا کاروں میں سے کوئی باہر نہیں نکلا۔ تو انہیں دیکھنے کے لئے کچھ لوگ دیوار پر چڑھ گئے تو کیا دیکھا کہ وہ سب بندروں کی صورت میں مسخ ہو گئے ہیں۔ اب لوگ ان مجرموں کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئے تو وہ بندر اپنے رشتہ داروں کو پہچانتے تھے اور ان کے پاس آ کر اُن کے کپڑوں کو سونگھتے تھے اور زار و زار روتے تھے ،مگر لوگ اُن بندر بن جانے والوں کو نہیں پہچانتے تھے۔ اُن بندر بن جانے والوں کی تعداد بارہ ہزار تھی۔ یہ سب تین دن تک زندہ رہے اور اس درمیان میں کچھ بھی کھا پی نہ سکے بلکہ یوں ہی بھوکے پیاسے سب کے سب ہلاک ہو گئے۔ شکار سے منع کرنے والا گروہ ہلاکت سے سلامت رہا۔ اور صحیح قول یہ ہے کہ دل سے برا جان کر خاموش رہنے والوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے ہلاکت سے بچا لیا۔"
" (تفسیرالصاوی ،ج۱،ص۷۲،پ۱،البقرۃ :۶۵ )"
اس واقعہ کا اجمالی بیان تو سورہ بقرہ کی اس آیت میں ہے:۔
وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِیۡنَ اعْتَدَوۡا مِنۡکُمْ فِی السَّبْتِ فَقُلْنَا لَہُمْ کُوۡنُوۡا قِرَدَۃً خٰسِئِیۡنَ ﴿ۚ65﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔اور بے شک ضرور تمہیں معلوم ہے تم کے وہ جنہوں نے ہفتہ میں سرکشی کی تو ہم نے ان سے فرمایا کہ ہو جاؤ بندر دھتکارے ہوئے۔ (پ1،البقرۃ:65)
اور مفصل واقعہ سورہ اعراف میں ہے جس کا ترجمہ یہ ہے:۔
اور ان سے حال پوچھو اس بستی کا کہ دریا کنارے تھی۔ جب وہ ہفتے کے بارے میں حد سے بڑھتے۔ جب ہفتے کے دن ان کی مچھلیاں پانی پر تیرتی ان کے سامنے آتیں اور جو دن ہفتے کا نہ ہوتا نہ آتیں اس طرح ہم انہیں آزماتے تھے ان کی بے حکمی کے سبب اور جب ان میں سے ایک گروہ نے کہا کیوں نصیحت کرتے ہو ان لوگوں کو جنہیں اللہ ہلاک کرنے والا ہے یا انہیں سخت عذاب دینے والا۔ بولے تمہارے رب کے حضور معذرت کو اور شاید انہیں ڈر ہو پھر جب وہ بھلا بیٹھے جو نصیحت انہیں ہوئی تھی ہم نے بچا لئے وہ جو برائی سے منع کرتے تھے۔ اور ظالموں کو بُرے عذاب میں پکڑا بدلہ ان کی نافرمانی کا۔ پھر جب انہوں نے ممانعت کے حکم سے سرکشی کی ہم نے ان سے فرمایا ہوجاؤ بندر دتکارے ہوئے۔"
" (پ۹،الاعراف:۱۶۳تا۱۶۶)"
درس ہدایت:۔معلوم ہوا کہ شیطانی حیلہ بازیوں میں پڑ کر اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانیوں کا انجام کتنا برا اور کس قدر خطرناک ہوتا ہے۔ اور خدا کے نبی جن بدنصیبوں پر لعنت فرما دیں وہ کیسے ہولناک عذابِ الٰہی میں گرفتار ہو کر دنیا سے نیست و نابود ہو کر عذاب نار میں گرفتار ہوجاتے ہیں۔ اور دونوں جہاں میں ذلیل و خوار ہوجاتے ہیں۔
(نعوذباللہ منہ)
اصحابِ ایلہ کے اس دل ہلا دینے والے واقعہ میں ہر مسلمان کے لئے بہت بڑی عبرتوں اور نصیحتوں کا سامان ہے۔ کاش!اس واقعہ سے مسلمانوں کے قلوب میں خوفِ خداوندی کی لہر
پیدا ہوجائے اور وہ اللہ و رسول (عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)کی نافرمانیوں کی پگڈنڈیوں میں بھٹکنے سے منہ موڑ کر صراط مستقیم کی شاہراہ پر چل پڑیں اور دونوں جہانوں کی سربلندیوں سے سرفراز ہو کر اعزاز و اکرام کی سلطنت کے تاجدار بن جائیں۔
"یہ بہت ہی اہم اور نہایت ہی شاندار قرآنی واقعہ ہے۔ اور اسی واقعہ کی وجہ سے قرآن مجید کی اس سورۃ کا نام ''سورہ بقرہ'' (گائے والی سورۃ)رکھا گیا ہے۔
اس کا واقعہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک بہت ہی نیک اور صالح بزرگ تھے اور ان کا ایک ہی بچہ تھا جو نابالغ تھا۔ اور ان کے پاس فقط ایک گائے کی بچھیا تھی۔ ان بزرگ نے اپنی وفات کے قریب اس بچھیا کو جنگل میں لے جا کر ایک جھاڑی کے پاس یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ یااللہ (عزوجل)میں اس بچھیا کو اس وقت تک تیری امانت میں دیتا ہوں کہ میرا بچہ بالغ ہوجائے۔ اس کے بعد ان بزرگ کی وفات ہو گئی اور بچھیا چند دنوں میں بڑی ہو کر درمیانی عمر کی ہو گئی اور بچہ جوان ہو کر اپنی ماں کا بہت ہی فرمانبردار اور انتہائی نیکوکار ہوا۔ اس نے اپنی رات کو تین حصوں میں تقسیم کررکھا تھا۔ ایک حصہ میں سوتا تھا، اور ایک حصہ میں عبادت کرتا تھا،اور ایک حصہ میں اپنی ماں کی خدمت کرتا تھا۔ اور روزانہ صبح کو جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لاتا اور ان کو فروخت کر کے ایک تہائی رقم صدقہ کردیتا اور ایک تہائی اپنی ذات پر خرچ کرتا اور ایک تہائی رقم اپنی والدہ کو دے دیتا۔
ایک دن لڑکے کی ماں نے کہا کہ میرے پیارے بیٹے! تمہارے باپ نے میراث میں ایک بچھیا چھوڑی تھی جس کو انہوں نے فلاں جھاڑی کے پاس جنگل میں خدا (عزوجل)کی امانت میں سونپ دیا تھا۔ اب تم اس جھاڑی کے پاس جا کر یوں دعا مانگو کہ اے حضرت ابراہیم و حضرت اسمعٰیل و حضرت اسحٰق (علیہم السلام)کے خدا! تو میرے باپ کی سونپی ہوئی امانت"
"مجھے واپس دے دے اور اس بچھیا کی نشانی یہ ہے کہ وہ پیلے رنگ کی ہے۔ اور اس کی کھال اس طرح چمک رہی ہو گی کہ گویا سورج کی کرنیں اس میں سے نکل رہی ہیں۔ یہ سن کر لڑکا جنگل میں اس جھاڑی کے پاس گیا اور دعا مانگی تو فوراً ہی وہ گائے دوڑتی ہوئی آ کر اس کے پاس کھڑی ہوگئی اور یہ اس کو پکڑ کر گھر لایا تو اس کی ماں نے کہا۔ بیٹا تم اس گائے کو لے جا کر بازار میں تین دینار میں فروخت کرڈالو۔ لیکن کسی گاہک کو بغیر میرے مشورہ کے مت دینا۔ ان دنوں بازار میں گائے کی قیمت تین دینار ہی تھی۔ بازار میں ایک گاہک آیا جو درحقیقت فرشتہ تھا۔ اس نے کہا کہ میں گائے کی قیمت تین دینار سے زیادہ دوں گا مگر تم ماں سے مشورہ کئے بغیر گائے میرے ہاتھ فروخت کرڈالو۔ لڑکے نے کہا کہ تم خواہ کتنی بھی زیادہ قیمت دو مگر میں اپنی ماں سے مشورہ کئے بغیر ہرگز ہرگز اس گائے کو نہیں بیچوں گا۔ لڑکے نے ماں سے سارا ماجرا بیان کیا تو ماں نے کہا کہ یہ گاہک شاید کوئی فرشتہ ہو۔ تو اے بیٹا! تم اس سے مشورہ کرو کہ ہم اس گائے کو ابھی فروخت کریں یا نہ کریں۔ چنانچہ اس لڑکے نے بازار میں جب اس گاہک سے مشورہ کیا تو اس نے کہا کہ ابھی تم اس گائے کو نہ فروخت کرو۔ آئندہ اس گائے کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لوگ خریدیں گے تو تم اس گائے کے چمڑے میں سونابھر کر اس کی قیمت طلب کرنا تو وہ لوگ اتنی ہی قیمت دے کر خریدیں گے۔
چنانچہ چند ہی دنوں کے بعد بنی اسرائیل کے ایک بہت مالدار آدمی کو جس کا نام عامیل تھا۔ اس کے چچا کے دونوں لڑکوں نے اس کو قتل کردیا۔ اور اس کی لاش کو ایک ویرانے میں ڈال دیا۔ صبح کو قاتل کی تلاش شروع ہوئی مگر جب کوئی سراغ نہ ملا تو کچھ لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور قاتل کا پتا پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ تم لوگ ایک گائے ذبح کرو اور اس کی زبان یا دم کی ہڈی سے لاش کو مارو تو وہ زندہ ہو کر خود ہی اپنے قاتل کا نام بتا دے گا۔ یہ سن کر بنی اسرائیل نے گائے کے رنگ ،اس کی عمر وغیرہ کے بارے میں بحث و کرید"
شروع کردی۔ اور بالآخر جب وہ اچھی طرح سمجھ گئے کہ فلاں قسم کی گائے چاہے تو ایسی گائے کی تلاش شروع کردی یہاں تک کہ جب یہ لوگ اس لڑکے کی گائے کے پاس پہنچے تو ہو بہو یہ ایسی ہی گائے تھی جس کی ان لوگوں کو ضرورت تھی۔ چنانچہ ان لوگوں نے گائے کو اس کے چمڑے میں بھر کر سونا اس کی قیمت دے کر خریدا اور ذبح کرکے اس کی زبان یا دم کی ہڈی سے مقتول کی لاش کو مارا تو وہ زندہ ہو کر بول اٹھا کہ میرے قاتل میرے چچا کے دونوں لڑکے ہیں جنہوں نے میرے مال کے لالچ میں مجھ کو قتل کردیا ہے یہ بتا کر پھر وہ مر گیا۔ چنانچہ ان دونوں قاتلوں کو قصاص میں قتل کردیا گیا اور مرد صالح کا لڑکا جو اپنی ماں کا فرمانبردار تھا کثیر دولت سے مالا مال ہو گیا۔
(تفسیر الصاوی،ج۱،ص۷۵،پ۱،البقرۃ:۷۱)
"اس پورے مضمون کو قرآن مجید کی مقدس آیتوں میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے:
ترجمہ کنزالایمان:۔اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے فرمایا خدا تمہیں حکم دیتا ہے کہ ایک گائے ذبح کرو بولے کہ آپ ہمیں مسخرہ بناتے ہیں۔ فرمایا خدا کی پناہ کہ میں جاہلوں سے ہوں۔ بولے اپنے رب سے دعا کیجئے کہ وہ ہمیں بتا دے گائے کیسی ۔ کہا وہ فرماتا ہے کہ وہ ایک گائے ہے نہ بوڑھی اور نہ اوسر بلکہ ان دونوں کے بیچ میں تو کرو جس کا تمہیں حکم ہوتا ہے۔ بولے اپنے رب سے دعا کیجئے ہمیں بتا دے اس کا رنگ کیاہے کہا وہ فرماتا ہے ، وہ ایک پیلی گائے ہے۔ جس کی رنگت ڈہڈہاتی دیکھنے والوں کو خوشی دیتی۔ بولے اپنے رب سے دعا کیجئے کہ ہمارے لئے صاف بیان کرے وہ گائے کیسی ہے بے شک گائیوں میں ہم کو شبہ پڑ گیا اور اللہ چاہے تو ہم راہ پاجائیں گے۔ کہا وہ فرماتا ہے کہ وہ ایک گائے ہے جس سے خدمت نہیں لی جاتی کہ زمین جوتے اور نہ کھیتی کو پانی دے، بے عیب ہے جس میں کوئی داغ نہیں۔ بولے اب آپ ٹھیک بات لائے۔ تو اسے ذبح کیا اور ذبح کرتے معلوم نہ ہوتے تھے۔ اور جب تم نے ایک خون کیا تو ایک دوسرے پر اس کی تہمت ڈالنے لگے۔ اور اللہ کو ظاہر کرنا جو تم چھپاتے تھے۔ تو ہم نے"
فرمایا اس مقتول کو اس گائے کا ایک ٹکڑا مارو۔ اللہ یونہی مردے جلائے گا اور تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے کہ کہیں تمہیں عقل ہو۔
"درس ہدایت:۔اس واقعہ سے بہت سی عبرت انگیز اور نصیحت خیز باتیں اور احکام معلوم ہوئے ان میں سے چند یہ ہیں جو یاد رکھنے کے قابل ہیں:۔
(۱)خدا کے نیک بندوں کے چھوڑے ہوئے مال میں بڑی خیر و برکت ہوتی ہے۔ دیکھ لو کہ اس مرد صالح نے صرف ایک بچھیاچھوۤڑ کر وفات پائی تھی مگر اللہ تعالیٰ نے اس میں اتنی برکت عطا فرمائی کہ ان کے وارثوں کو اس ایک بچھیا کے ذریعے بے شمار دولت مل گئی۔
(۲)اس مرد صالح نے اولاد پر شفقت کرتے ہوئے بچھیا کو اللہ کی امانت میں سونپا تھا تو اس سے معلوم ہوا کہ اولاد پر شفقت رکھنا اور اولاد کے لئے کچھ مال چھوڑ جانا یہ اللہ والوں کا طریقہ ہے۔
(۳)ماں باپ کی فرماں برداری اور خدمت گزاری کرنے والوں کو خداوند کریم غیب سے بے شمار رزق کا سامان عطا فرما دیتا ہے۔ دیکھ لو کہ اس یتیم لڑکے کو ماں کی خدمت اور فرماں برداری کی بدولت اللہ تعالیٰ نے کس قدر صاحب ِ مال اور خوش حال بنادیا۔
(۴)خداوند قدوس کے احکام میں بحث اور کرید کرنا مصیبتوں کا سبب ہوا کرتا ہے۔ دیکھ لو بنی اسرائیل کو ایک گائے ذبح کرنے کا حکم ہوا تھا۔ وہ کوئی سی بھی ایک گائے ذبح کردیتے تو فرض ادا ہو جاتا مگر ان لوگوں نے جب بحث اور کرید شروع کردی کہ کیسی گائے ہو؟ کیسا رنگ ہو؟ کتنی عمر ہو؟ تو مصیبت میں پڑ گئے کہ انہیں ایک ایسی گائے ذبح کرنی پڑی جو بالکل نایاب تھی۔ اسی لئے اس کی قیمت اتنی زیادہ ادا کرنی پڑی کہ دنیا میں کسی گائے کی اتنی قیمت نہ ہوئی، نہ آئندہ ہونے کی امید ہے۔
(۵)جو اپنا مال اللہ تعالیٰ کی امانت میں سونپ دے اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت فرماتا ہے اور اس"
"میں بے حساب خیر و برکت عطا فرما دیتا ہے۔
(۶)جو اپنے اہل و عیال کو اللہ تعالیٰ کے سپرد فرما دے اللہ تعالیٰ اس کے اہل و عیال کی ایسی پرورش فرماتا ہے کہ جس کو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔
(۷) امیرالمومنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ جو پیلے رنگ کا جوتا پہنے گا وہ ہمیشہ خوش رہے گا۔ اور اس کو غم بہت کم ہو گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے پیلی گائے کے لئے یہ فرمایا کہ"
''تَسُرُّ النّٰظِرِیۡنَ ﴿۶۹﴾''
کہ وہ دیکھنے والوں کو خوش کردیتی ہے۔
(تفسیر روح البیان،ج۱،ص۱۶۰،پ۱،البقرۃ:۶۹، )
(۸)اس سے معلوم ہوا کہ قربانی کا جانور جس قدر بھی زیادہ بے عیب اور خوبصورت اور قیمتی ہواسی قدر زیادہ بہتر ہے۔
(واللہ تعالٰی اعلم)
"یہ حضرت حزقیل علیہ السلام کی قوم کا ایک بڑا ہی عبرت خیز اور انتہائی نصیحت آمیز واقعہ ہے جس کو خداوند قدوس نے قرآن مجید کی سورہ بقرہ میں بیان فرمایا ہے۔
حضرت حزقیل علیہ السلام کون تھے؟:۔یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تیسرے خلیفہ ہیں جو منصب نبوت پر سرفراز کئے گئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات اقدس کے بعد آپ کے خلیفہ اول حضرت یوشع بن نون علیہ السلام ہوئے جن کو اللہ تعالیٰ نے نبوت عطا فرمائی۔ ان کے بعد حضرت کالب بن یوحنا علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خلافت سے سرفراز ہو کر مرتبہ نبوت پر فائز ہوئے۔ پھر ان کے بعد حضرت حزقیل علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جانشین اور نبی ہوئے۔
حضرت حزقیل علیہ السلام کا لقب ابن العجوز (بڑھیا کے بیٹے)ہے۔ اور آپ ذوالکفل بھی کہلاتے ہیں۔ ''ابن العجوز'' کہلانے کی وجہ یہ ہے کہ یہ اس وقت پیدا ہوئے تھے"
جب کہ ان کی والدہ ماجدہ بہت بوڑھی ہوچکی تھیں۔ اور آپ کا لقب ذوالکفل اس لئے ہوا کہ آپ نے اپنی کفالت میں لے کر ستر انبیاء کرام کو قتل سے بچالیا تھا جن کے قتل پر یہودی قوم آمادہ ہو گئی تھی۔ پھر یہ خود بھی خدا کے فضل و کرم سے یہودیوں کی تلوار سے بچ گئے اور برسوں زندہ رہ کر اپنی قوم کو ہدایت فرماتے رہے۔
" (تفسیر الصاوی،ج۱،ص۲۰۶،پ۲،البقرۃ ۲۴۳)"
"اس کا واقعہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل کی ایک جماعت جو حضرت حزقیل علیہ السلام کے شہر میں رہتی تھی، شہر میں طاعون کی وبا پھیل جانے سے ان لوگوں پر موت کا خوف سوار ہو گیا۔ اور یہ لوگ موت کے ڈر سے سب کے سب شہر چھوڑ کر ایک جنگل میں بھاگ گئے اور وہیں رہنے لگے تو اللہ تعالیٰ کو ان لوگوں کی یہ حرکت بہت زیادہ ناپسند ہوئی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایک عذاب کے فرشتہ کو اس جنگل میں بھیج دیا۔ جس نے ایک پہاڑ کی آڑ میں چھپ کر اور چیخ مار کر بلند آواز سے یہ کہہ دیا کہ ''موتوا''یعنی تم سب مرجاؤ اور اس مہیب اور بھیانک چیخ کو سن کر بغیر کسی بیماری کے بالکل اچانک یہ سب کے سب مر گئے جن کی تعداد ستر ہزار تھی۔ ان مردوں کی تعداد اس قدر زیادہ تھی کہ لوگ ان کے کفن و دفن کا کوئی انتظام نہیں کرسکے اور ان مردوں کی لاشیں کھلے میدان میں بے گور و کفن آٹھ دن تک پڑی پڑی سڑنے لگیں اور بے انتہا تعفن اور بدبو سے پورے جنگل بلکہ اس کے اطراف میں بدبو پیدا ہو گئی۔ کچھ لوگوں نے ان کی لاشوں پر رحم کھا کر چاروں طرف سے دیوار اٹھا دی تاکہ یہ لاشیں درندوں سے محفوظ رہیں۔
کچھ دنوں کے بعد حضرت حزقیل علیہ السلام کا اس جنگل میں ان لاشوں کے پاس گزر ہوا تو اپنی قوم کے ستر ہزار انسانوں کی اس موتِ ناگہانی اور بے گور و کفن لاشوں کی فراوانی"
"دیکھ کر رنج و غم سے ان کا دل بھر گیا۔ آبدیدہ ہو گئے اور باری تعالیٰ کے دربار میں دکھ بھرے دل سے گڑگڑا کر دعا مانگنے لگے کہ یا اللہ یہ میری قوم کے افراد تھے جو اپنی نادانی سے یہ غلطی کر بیٹھے کہ موت کے ڈر سے شہر چھوڑ کر جنگل میں آگئے۔ یہ سب میرے شہر کے باشندے ہیں ان لوگوں سے مجھے انس تھا اور یہ لوگ میرے دکھ سکھ کے شریک تھے۔ افسوس کہ میری قوم ہلاک ہو گئی اور میں بالکل اکیلا رہ گیا۔ اے میرے رب یہ وہ قوم تھی جو تیری حمد کرتی تھی اور تیری توحید کا اعلان کرتی تھی اور تیری کبریائی کا خطبہ پڑھتی تھی۔
آپ بڑے سوزِ دل کے ساتھ دعا میں مشغول تھے کہ اچانک آپ پر یہ وحی اتر پڑی کہ اے حزقیل (علیہ السلام)آپ ان بکھری ہوئی ہڈیوں سے فرما دیجئے کہ اے ہڈیو! بے شک اللہ تعالیٰ تم کو حکم فرماتا ہے کہ تم اکٹھا ہوجاؤ۔ یہ سن کر بکھری ہوئی ہڈیوں میں حرکت پیدا ہوئی اور ہر آدمی کی ہڈیاں جمع ہو کر ہڈیوں کے ڈھانچے بن گئے۔ پھر یہ وحی آئی کہ اے حزقیل (علیہ السلام)آپ فرما دیجئے کہ اے ہڈیو!تم کو اللہ کا یہ حکم ہے کہ تم گوشت پہن لو۔ یہ کلام سنتے ہی فوراً ہڈیوں کے ڈھانچوں پر گوشت پوست چڑھ گئے۔ پھر تیسری بار یہ وحی نازل ہوئی۔ اے حزقیل اب یہ کہہ دو کہ اے مردو! خدا کے حکم سے تم سب اٹھ کرکھڑے ہوجاؤ۔ چنانچہ آپ نے یہ فرما دیا تو آپ کی زبان سے یہ جملہ نکلتے ہی ستر ہزار لاشیں دم زدن میں ناگہاں یہ پڑھتے ہوئے کھڑی ہو گئیں کہ"
''سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ۔
پھر یہ سب لوگ جنگل سے روانہ ہو کر اپنے شہر میں آ کر دوبارہ آباد ہو گئے۔ اور اپنی عمروں کی مدت بھر زندہ رہے لیکن ان لوگوں پر اس موت کا اتنا نشان باقی رہ گیا کہ ان کی اولاد کے جسموں سے سڑی ہوئی لاش کی بدبو برابر آتی رہی اور یہ لوگ جو کپڑا بھی پہنتے تھے وہ کفن کی صورت میں ہوجاتا تھا۔ اور قبر میں جس طرح کفن میلا ہوجاتا تھا ایسا ہی میلا پن ان کے کپڑوں پر نمودار ہوجاتا تھا۔ چنانچہ یہ
اثرات آج تک ان یہودیوں میں پائے جاتے ہیں جو ان لوگوں کی نسل سے باقی رہ گئے ہیں۔
" (تفسیر روح البیان،ج۱،ص۳۷۸،پ۲،البقرۃ: ۲۴۳)"
یہ عجیب و غریب واقعہ قرآن مجید کی سورہ بقرہ میں خداوند قدوس نے اس طرح بیان فرمایا کہ:۔
اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ خَرَجُوۡا مِنۡ دِیَارِہِمْ وَہُمْ اُلُوۡفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ ۪ فَقَالَ لَہُمُ اللہُ مُوۡتُوۡا ۟ ثُمَّ اَحْیَاہُمْ ؕ اِنَّ اللہَ لَذُوۡ فَضْلٍ عَلَی النَّاسِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْکُرُوۡنَ ﴿243﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔اے محبوب کیا تم نے نہ دیکھا تھا انہیں جو اپنے گھروں سے نکلے اور وہ ہزاروں تھے موت کے ڈر سے تواللہ نے ان سے فرمایا مرجاؤ پھر اُنہیں زندہ فرما دیا بیشک اللہ لوگوں پر فضل کرنے والا ہے مگر اکثر لوگ ناشکرے ہیں۔ (پ2،البقرۃ:243)
درس ہدایت:۔بنی اسرائیل کے اس محیر العقول واقعہ سے مندرجہ ذیل ہدایات ملتی ہیں:
(۱)آدمی موت کے ڈر سے بھاگ کر اپنی جان نہیں بچا سکتا۔ لہٰذا موت سے بھاگنا بالکل ہی بیکار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو موت مقدر فرما دی ہے وہ اپنے وقت پر ضرور آئے گی نہ ایک سیکنڈ اپنے وقت سے پہلے آسکتی ہے نہ ایک سیکنڈ بعد آئے گی لہٰذابندوں کو لازم ہے کہ رضاء الٰہی پر راضی رہ کر صابر و شاکر رہیں اور خواہ کتنی ہی وبا پھیلے یا گھمسان کا رن پڑے اطمینان و سکون کا دامن اپنے ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور یہ یقین رکھیں کہ جب تک میری موت نہیں آتی مجھے کوئی نہیں مارسکتا اور نہ میں مرسکتا ہوں اور جب میری موت آجائے گی تو میں کچھ بھی کروں، کہیں بھی چلا جاؤں، بھاگ جاؤں یا ڈٹ کر کھڑا رہوں میں کسی حال میں بچ نہیں سکتا۔
(۲)اس آیت میں خاص طور پر مجاہدین کو ہدایت کی گئی ہے کہ جہاد سے گریز کرنا یا میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ جانا ہرگز موت کو دفع نہیں کرسکتا لہٰذا مجاہدین کو میدانِ جنگ میں دل مضبوط کر کے ڈٹے رہنا چاہے اور یہ یقین رکھنا چاہے کہ میں موت کے وقت سے پہلے نہیں مرسکتا،"
نہ کوئی مجھے مار سکتا ہے۔ یہ عقیدہ رکھنے والا اس قدر بہادر اور شیر دل ہوجاتا ہے کہ خوف اور بزدلی کبھی اس کے قریب نہیں آتی اور اس کے پائے استقلال میں کبھی بال برابر بھی کوئی لغزش نہیں آسکتی۔ اسلام کا بخشا ہوا یہی وہ مقدس عقیدہ ہے کہ جس کی بدولت مجاہدین اسلام ہزاروں کفار کے مقابلہ میں تنہا پہاڑ کی طرح جم کر جنگ کرتے تھے۔ یہاں تک کہ فتح مبین ان کے قدموں کا بوسہ لیتی تھی۔ اور وہ ہر جنگ میں مظفر و منصور ہو کر اجرِ عظیم اور مالِ غنیمت کی دولت سے مالا مال ہو کر اپنے گھروں میں اس حال میں واپس آتے تھے کہ ان کے جسموں پر زخموں کی کوئی خراش بھی نہیں ہوتی تھی اور وہ کفار کے دل بادل لشکروں کا صفایا کر دیتے تھے۔ شاعر مشرق نے اس منظر کی تصویر کشی کرتے ہوئے کسی مجاہد اسلام کی زبان سے یہ ترانہ سنایا ہے کہ ؎
"ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ میں اڑ جاتے تھے
پاؤں شیروں کے بھی میداں سے اکھڑ جاتے تھے
حق سے سرکش ہوا کوئی تو بگڑ جاتے تھے
تیغ کیا چیز ہے؟ ہم توپ سے لڑ جاتے تھے
نقش توحید کا ہر دل پہ بٹھایا ہم نے
زیرِ خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے"
(کلیات اقبال، بانگِ درا،ص۱۶۴)
لطیفہ:۔منقول ہے کہ بنو امیہ کا بادشاہ عبدالملک بن مروان جب ملک شام میں طاعون کی وبا پھیلی تو موت کے ڈر سے گھوڑے پر سوار ہو کر اپنے شہر سے بھاگ نکلا اور ساتھ میں اپنے خاص غلام اور کچھ فوج بھی لے لی اور وہ طاعون کے ڈر سے اس قدر خائف اور ہراساں تھا کہ زمین پر پاؤں نہیں رکھتا تھا بلکہ گھوڑے کی پشت پر سوتا تھا۔ دورانِ سفر ایک رات اس کو نیند نہیں
آئی۔ تو اس نے اپنے غلام سے کہا کہ تم مجھے کوئی قصہ سناؤ۔ تو ہوشیار غلام نے بادشاہ کو نصیحت کرنے کا موقع پا کر یہ قصہ سنایا کہ ایک لومڑی اپنی جان کی حفاظت کے لئے ایک شیر کی خدمت گزاری کیا کرتی تھی تو کوئی درندہ شیر کی ہیبت کی وجہ سے لومڑی کی طرف دیکھ نہیں سکتا تھا۔ اور لومڑی نہایت ہی بے خوفی اور اطمینان سے شیر کے ساتھ زندگی بسر کرتی تھی۔ اچانک ایک دن ایک عقاب لومڑی پر جھپٹا تو لومڑی بھاگ کر شیر کے پاس چلی گئی۔ اور شیر نے اس کو اپنی پیٹھ پر بٹھالیا۔ عقاب دوبارہ جھپٹا اور لومڑی کو شیر کی پیٹھ پر سے اپنے چنگل میں دبا کر اڑ گیا۔ لومڑی چلا چلا کر شیر سے فریاد کرنے لگی تو شیر نے کہا کہ اے لومڑی! میں زمین پر رہنے والے درندوں سے تیری حفاظت کرسکتا ہوں لیکن آسمان کی طرف سے حملہ کرنے والوں سے میں تجھے نہیں بچا سکتا۔ یہ قصہ سن کر عبدالملک بادشاہ کو بڑی عبرت حاصل ہوئی اور اس کی سمجھ میں آگیا کہ میری فوج ان دشمنوں سے تو میری حفاظت کرسکتی ہے جو زمین پر رہتے ہیں مگر جو بلائیں اور وبائیں آسمان سے مجھ پر حملہ آور ہوں، ان سے مجھ کو نہ میری بادشاہی بچا سکتی ہے نہ میرا خزانہ اور نہ میرا لشکر میری حفاظت کرسکتا ہے۔ آسمانی بلاؤں سے بچانے والا تو بجز خدا کے اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ یہ سوچ کر عبدالملک بادشاہ کے دل سے طاعون کا خوف جاتا رہا اور وہ رضاء الٰہی پر راضی رہ کر سکون و اطمینان کے ساتھ اپنے شاہی محل میں رہنے لگا۔
(تفسیر روح البیان،ج۱،ص۳۷۸،پ۲،البقرۃ:۲۴۴)
اکثر مفسرین کے نزدیک یہ واقعہ حضرت عزیر بن شرخیا علیہ السلام کا ہے جو بنی اسرائیل کے ایک نبی ہیں۔ واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ جب بنی اسرائیل کی بد اعمالیاں بہت زیادہ بڑھ گئیں تو ان پر خدا کی طرف سے یہ عذاب آیا کہ بخت نصر بابلی ایک کافر بادشاہ نے بہت بڑی فوج کے ساتھ بیت المقدس پر حملہ کردیا اور شہر کے ایک لاکھ باشندوں کو قتل کر دیا۔ اور ایک لاکھ کو ملک
شام میں ادھر ادھر بکھیر کر آباد کردیا۔ اور ایک لاکھ کو گرفتار کر کے لونڈی غلام بنالیا۔ حضرت عزیر علیہ السلام بھی انہیں قیدیوں میں تھے۔ اس کے بعد اس کافر بادشاہ نے پورے شہر بیت المقدس کو توڑ پھوڑ کر مسمار کردیا اور بالکل ویران بنا ڈالا۔
قوم عمالقہ کا ایک لڑکا ان کے بت ''نصر''کے پاس لاوارث پڑا ہوا ملا چونکہ اس کے باپ کا نام کسی کو نہیں معلوم تھا، اس لئے لوگوں نے اس کا نام بخت نصر (نصر کا بیٹا)رکھ دیا۔ خدا کی شان کہ یہ لڑکا بڑا ہو کر کہراسف بادشاہ کی طرف سے سلطنت بابل پر گورنر مقرر ہو گیا۔ پھر یہ خود دنیا کا بہت بڑا بادشاہ ہو گیا۔
" (تفسیر جمل،ج۱،ص۳۲۱،پ۳،البقرۃ: ۲۵۹ )"
کچھ دنوں کے بعد حضرت عزیر علیہ السلام جب کسی طرح ''بخت نصر'' کی قید سے رہا ہوئے تو ایک گدھے پر سوار ہو کر اپنے شہر بیت المقدس میں داخل ہوئے۔ اپنے شہر کی ویرانی اور بربادی دیکھ کر ان کا دل بھر آیا اور وہ رو پڑے۔ چاروں طرف چکر لگایا مگر انہیں کسی انسان کی شکل نظر نہیں آئی۔ ہاں یہ دیکھا کہ وہاں کے درختوں پر خوب زیادہ پھل آئے ہیں جو پک کر تیار ہوچکے ہیں مگر کوئی ان پھلوں کو توڑنے والا نہیں ہے۔ یہ منظر دیکھ کر نہایت ہی حسرت و افسوس کے ساتھ بے اختیار آپ کی زبان مبارک سے یہ جملہ نکل پڑا کہ
اَنّٰی یُحْیٖ ھٰذِہِ اللہُ بَعْدَ مَوْتِھَا
یعنی اس شہر کی ایسی بربادی اور ویرانی کے بعد بھلا کس طرح اللہ تعالیٰ پھر اس کو آباد کریگا؟ پھر آپ نے کچھ پھلوں کو توڑ کر تناول فرمایا، اور انگوروں کو نچوڑ کر اس کا شیرہ نوش فرمایا پھر بچے ہوئے پھلوں کو اپنے جھولے میں ڈال لیا اور بچے ہوئے انگور کے شیرہ کو اپنی مشک میں بھر لیا اور اپنے گدھے کو ایک مضبوط رسی سے باندھ دیا۔ اور پھر آپ ایک درخت کے نیچے لیٹ کر سو گئے اور اسی نیند کی حالت میں آپ کی وفات ہو گئی اور اللہ تعالیٰ نے درندوں، پرندوں، چرندوں اور جن و انسان سب کی آنکھوں سے آپ کو اوجھل کردیا کہ کوئی آپ کو نہ
"دیکھ سکا۔ یہاں تک کہ ستر برس کا زمانہ گزر گیا تو ملک فارس کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ اپنے لشکر کے ساتھ بیت المقدس کے اس ویرانے میں داخل ہوا۔ اور بہت سے لوگوں کو یہاں لا کر بسایا اور شہر کو پھر دوبارہ آباد کردیا۔ اور بچے کھچے بنی اسرائیل کو جو اطراف و جوانب میں بکھرے ہوئے تھے سب کو بلابلا کر اس شہر میں آباد کردیا۔ اور ان لوگوں نے نئی عمارتیں بنا کر اورقسم قسم کے باغات لگا کر اس شہر کو پہلے سے بھی زیادہ خوبصورت اور بارونق بنا دیا۔
جب حضرت عزیر علیہ السلام کو پورے ایک سو برس وفات کی حالت میں ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو زندہ فرمایا تو آپ نے دیکھا کہ آپ کا گدھا مرچکا ہے اور اس کی ہڈیاں گل سڑ کر ادھر ادھر بکھری پڑی ہیں۔ مگر تھیلے میں رکھے ہوئے پھل اور مشک میں رکھا ہوا انگور کا شیرہ بالکل خراب نہیں ہوا، نہ پھلوں میں کوئی تغیر نہ شیرے میں کوئی بو باس یا بدمزگی پیدا ہوئی ہے اور آپ نے یہ بھی دیکھا کہ اب بھی آپ کے سر اور داڑھی کے بال کالے ہیں اور آپ کی عمر وہی چالیس برس ہے۔ آپ حیران ہو کر سوچ بچار میں پڑے ہوئے تھے کہ آپ پر وحی اتری اور اللہ تعالیٰ نے آپ سے دریافت فرمایا کہ اے عزیر! آپ کتنے دنوں تک یہاں رہے؟ تو آپ نے خیال کر کے کہاکہ میں صبح کے وقت سویا تھا اور اب عصر کا وقت ہو گیا ہے، یہ جواب دیا کہ میں دن بھر یا دن بھر سے کچھ کم سوتا رہا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نہیں،اے عزیر! تم پورے ایک سو برس یہاں ٹھہرے رہے، اب تم ہماری قدرت کا نظارہ کرنے کے لئے ذرا اپنے گدھے کو دیکھو کہ اس کی ہڈیاں گل سڑ کر بکھر چکی ہیں اور اپنے کھانے پینے کی چیزوں پر نظر ڈالو کہ ان میں کوئی خرابی اور بگاڑ نہیں پیدا ہوا۔ پھر ارشاد فرمایا کہ اے عزیر! اب تم دیکھو کہ کس طرح ہم ان ہڈیوں کو اٹھا کر ان پر گوشت پوست چڑھا کر اس گدھے کو زندہ کرتے ہیں۔ چنانچہ حضرت عزیر علیہ السلام نے دیکھا کہ اچانک بکھری ہوئی ہڈیوں میں حرکت پیدا ہوئی اور ایک دم تمام ہڈیاں جمع ہو کر اپنے اپنے جوڑ سے مل کر گدھے کا ڈھانچہ بن گیا اور لمحہ بھر میں اس ڈھانچے پر گوشت"
پوست بھی چڑھ گیا اور گدھا زندہ ہو کر اپنی بولی بولنے لگا۔ یہ دیکھ کر حضرت عزیر علیہ السلام نے بلند آواز سے یہ کہا
اَعْلَمُ اَنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿259﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔ میں خوب جانتا ہوں کہ اللہ سب کچھ کرسکتا ہے۔ (پ3،البقرۃ:259)
اس کے بعد حضرت عزیر علیہ السلام شہر کا دورہ فرماتے ہوئے اس جگہ پہنچ گئے جہاں ایک سو برس پہلے آپ کا مکان تھا۔ تو نہ کسی نے آپ کو پہچانا نہ آپ نے کسی کو پہچانا۔ ہاں البتہ یہ دیکھا کہ ایک بہت ہی بوڑھی اور اپاہج عورت مکان کے پاس بیٹھی ہے جس نے اپنے بچپن میں حضرت عزیر علیہ السلام کو دیکھا تھا۔ آپ نے اس سے پوچھا کہ کیا یہی عزیر کا مکان ہے تو اس نے جواب دیا کہ جی ہاں۔ پھر بڑھیا نے کہا کہ عزیر کا کیا ذکر ہے؟ ان کو تو سو برس ہو گئے کہ وہ بالکل ہی لاپتہ ہوچکے ہیں یہ کہہ کر بڑھیا رونے لگی تو آپ نے فرمایا کہ اے بڑھیا!میں ہی عزیر ہوں تو بڑھیا نے کہا کہ سبحان اللہ آپ کیسے عزیر ہوسکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ اے بڑھیا! مجھ کو اللہ تعالیٰ نے ایک سو برس مردہ رکھا۔ پھر مجھ کو زندہ فرما دیا اور میں اپنے گھر آگیا ہوں تو بڑھیا نے کہا کہ حضرت عزیر علیہ السلام تو ایسے باکمال تھے کہ ان کی ہر دعا مقبول ہوتی تھی اگر آپ واقعی حضرت عزیر (علیہ السلام)ہیں تو میرے لئے دعا کردیجئے کہ میری آنکھوں میں روشنی آجائے اور میرا فالج اچھا ہوجائے۔ حضرت عزیر علیہ السلام نے دعا کردی تو بڑھیا کی آنکھیں ٹھیک ہوگئیں اور اس کا فالج بھی اچھا ہو گیا۔ پھر اس نے غور سے آپ کو دیکھا تو پہچان لیا اور بول اٹھی کہ میں شہادت دیتی ہوں کہ آپ یقینا حضرت عزیر علیہ السلام ہی ہیں پھر وہ بڑھیا آپ کو لے کر بنی اسرائیل کے محلہ میں گئی۔ اتفاق سے وہ سب لوگ ایک مجلس میں جمع تھے اور اسی مجلس میں آپ کا لڑکا بھی موجود تھا جو ایک سو اٹھارہ برس کا ہوچکا تھا۔ اور آپ کے چند پوتے بھی تھے جو سب بوڑھے ہوچکے تھے۔ بڑھیا نے مجلس میں شہادت دی اور اعلان کیا"
کہ اے لوگو! بلاشبہ یہ حضرت عزیر علیہ السلام ہی ہیں مگر کسی نے بڑھیا کی بات کو صحیح نہیں مانا۔ اتنے میں ان کے لڑکے نے کہا کہ میرے باپ کے دونوں کندھوں کے درمیان ایک کالے رنگ کا مسہ تھا جو چاند کی شکل کا تھا۔ چنانچہ آپ نے اپنا کرتا اتار کر دکھایا تو وہ مسہ موجود تھا۔ پھر لوگوں نے کہا کہ حضرت عزیر کو تو توراۃ زبانی یاد تھی اگر آپ عزیر ہیں تو زبانی توراۃ پڑھ کر سنایئے۔ آپ نے بغیر کسی جھجک کے فوراً پوری توراۃ پڑھ کر سنا دی۔ بخت نصر بادشاہ نے بیت المقدس کو تباہ کرتے وقت چالیس ہزار توراۃ کے عالموں کو چن چن کر قتل کردیا تھا اور توراۃ کی کوئی جلد بھی اس نے زمین پر باقی نہیں چھوڑی تھی۔ اب یہ سوال پیدا ہوا کہ حضرت عزیر نے توراۃ صحیح پڑھی ہے یا نہیں؟ تو ایک آدمی نے کہا کہ میں نے اپنے باپ سے سنا ہے کہ جس دن ہم لوگوں کو بخت نصر نے گرفتار کیا تھا اس دن ایک ویرانے میں ایک انگور کی بیل کی جڑ میں توریت کی ایک جلد دفن کردی گئی تھی اگر تم لوگ میرے دادا کے انگور کی جگہ کی نشان دہی کردو تو میں توراۃ کی ایک جلد برآمد کردوں گا۔ اس وقت پتا چل جائے گا کہ حضرت عزیر نے جو توراۃ پڑھی ہے وہ صحیح ہے یا نہیں؟ چنانچہ لوگوں نے تلاش کر کے اور زمین کھود کر توراۃ کی جلد نکال لی تو وہ حرف بہ حرف حضرت عزیر کی زبانی یاد کی ہوئی توراۃ کے مطابق تھی۔ یہ عجیب و غریب اور حیرت انگیز ماجرا دیکھ کر سب لوگوں نے ایک زبان ہو کر یہ کہنا شروع کردیا کہ بے شک حضرت عزیر یہی ہیں اور یقینا یہ خدا کے بیٹے ہیں۔ چنانچہ اسی دن سے یہ غلط اور مشرکانہ عقیدہ یہودیوں میں پھیل گیا کہ معاذ اللہ حضرت عزیر خدا کے بیٹے ہیں۔ چنانچہ آج تک دنیا بھر کے یہودی اس باطل عقیدہ پر جمے ہوئے ہیں کہ حضرت عزیر علیہ السلام خدا کے بیٹے ہیں۔ (معاذاللہ)
" (تفسیر جمل علی الجلالین، ج۱،ص۳۲۲،پ۳،البقرۃ:۲۵۹)"
اللہ تعالی نے قرآن مجید کی سورۃ البقرۃ میں اس واقعہ کو ان لفظوں میں بیان فرمایا ہے۔
اَوْکَالَّذِیۡ مَرَّ عَلٰی قَرْیَۃٍ وَّہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوۡشِہَا ۚ قَالَ اَنّٰی یُحْیٖ ہٰذِہِ اللہُ بَعْدَ مَوْتِہَا ۚ فَاَمَاتَہُ اللہُ مِائَۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہٗ ؕ قَالَ کَمْ لَبِثْتَ ؕ قَالَ لَبِثْتُ یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ ؕ قَالَ بَلۡ لَّبِثْتَ مِائَۃَ عَامٍ فَانۡظُرْ اِلٰی طَعَامِکَ وَشَرَابِکَ لَمْ یَتَسَنَّہۡ ۚ وَانۡظُرْ اِلٰی حِمَارِکَ ۟ وَلِنَجْعَلَکَ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ وَانۡظُرْ اِلَی الۡعِظَامِ کَیۡفَ نُنۡشِزُہَا ثُمَّ نَکْسُوۡہَا لَحْمًا ؕ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗ ۙ قَالَ اَعْلَمُ اَنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿259﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔ یا اس کی طرح جو گزرا ایک بستی پراور وہ ڈھئی پڑی تھی اپنی چھتوں پر۔ بولا اسے کیونکر جلائے گا اللہ اس کی موت کے بعد تو اللہ نے اسے مردہ رکھا سو برس پھر زندہ کر دیا فرمایا تو یہاں کتنا ٹھہرا ، عرض کی دن بھر ٹھہرا ہوں گا یا کچھ کم۔ فرمایا نہیں بلکہ تجھے سو برس گزر گئے اور اپنے کھانے اور پانی کو دیکھ کہ اب تک بُو نہ لایا اور اپنے گدھے کو دیکھ (کہ جس کی ہڈیاں تک سلامت نہ رہیں)اور یہ اس لئے کہ تجھے ہم لوگوں کے واسطے نشانی کریں اور ان ہڈیوں کو دیکھ کیونکر ہم انہیں اٹھان دیتے پھر انہیں گوشت پہناتے ہیں جب یہ معاملہ اس پر ظاہر ہو گیا بولا میں خوب جانتا ہوں کہ اللہ سب کچھ کرسکتا ہے۔ (پ3،البقرۃ:259)
درس ہدایت:۔(۱)ان آیتوں میں صاف صاف موجود ہے کہ ایک ہی جگہ پر ایک ہی آب و ہوا میں حضرت عزیر علیہ السلام کا گدھا تو مر کر گل سڑ گیا اور اس کی ہڈیاں ریزہ ریزہ ہو کر بکھر گئیں مگر پھلوں اور شیرہ انگور اور خود حضرت عزیر علیہ السلام کی ذات میں کسی قسم کا کوئی تغیر نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ سو برس میں ان کے بال بھی سفید نہیں ہوئے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک ہی قبرستان کے اندر ایک ہی آب و ہوا میں اگر بعض مردوں کی لاشیں گل سڑ کر فنا ہوجائیں اور بعض بزرگوں کی لاشیں سلامت رہ جائیں اور ان کے کفن بھی میلے نہ ہوں ایسا ہوسکتا ہے، بلکہ بارہا ایسا ہوا ہے اور حضرت عزیر علیہ السلام کا یہ قرآنی واقعہ اس کی بہترین دلیل"
ہے۔
(واللہ تعالیٰ اعلم)
(۲)بیت المقدس کی تباہی اور ویرانی دیکھ کر حضرت عزیر علیہ السلام غم میں ڈوب گئے اور فکرمند ہو کر یہ کہہ دیا کہ اس شہر کی بربادی اور ویرانی کے بعد کیونکر اللہ تعالیٰ اس شہر کو دوبارہ آباد فرمائے گا؟ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اپنے وطن اور شہر سے محبت کرنا اور الفت رکھنا یہ صالحین اور اللہ والوں کا طریقہ ہے۔
(واللہ تعالٰی اعلم)
"یہ شمشاد کی لکڑی کا ایک صندوق تھا جو حضرت آدم علیہ السلام پر نازل ہوا تھا۔ یہ آپ کی آخرِ زندگی تک آپ کے پاس ہی رہا۔ پھر بطور میراث یکے بعد دیگرے آپ کی اولاد کو ملتا رہا۔ یہاں تک کہ یہ حضرت یعقوب علیہ السلام کو ملا اور آپ کے بعد آپ کی اولاد بنی اسرائیل کے قبضے میں رہا۔ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مل گیا تو آپ اس میں توراۃ شریف اور اپنا خاص خاص سامان رکھنے لگے۔
یہ بڑا ہی مقدس اور بابرکت صندوق تھا۔ بنی اسرائیل جب کفار سے جہاد کرتے تھے اور کفار کے لشکروں کی کثرت اور ان کی شوکت دیکھ کر سہم جاتے اور ان کے سینوں میں دل دھڑکنے لگتے تو وہ اس صندوق کو اپنے آگے رکھ لیتے تھے تو اس صندوق سے ایسی رحمتوں اور برکتوں کا ظہور ہوتا تھا کہ مجاہدین کے دلوں میں سکون و اطمینان کا سامان پیدا ہوجاتا تھا اور مجاہدین کے سینوں میں لرزتے ہوئے دل پتھر کی چٹانوں سے زیادہ مضبوط ہوجاتے تھے۔ اورجس قدر صندوق آگے بڑھتا تھا آسمان سے"
نَصْرٌ مِّنَ اللہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ
"کی بشارت عظمیٰ نازل ہوا کرتی اور فتح مبین حاصل ہوجایا کرتی تھی۔
بنی اسرائیل میں جب کوئی اختلاف پیدا ہوتا تھا تو لوگ اسی صندوق سے فیصلہ کراتے تھے۔ صندوق سے فیصلہ کی آواز اور فتح کی بشارت سنی جاتی تھی۔ بنی اسرائیل اس"
"صندوق کو اپنے آگے رکھ کر اور اس کو وسیلہ بنا کر دعائیں مانگتے تھے تو ان کی دعائیں مقبول ہوتی تھیں اور بلاؤں کی مصیبتیں اور وباؤں کی آفتیں ٹل جایا کرتی تھیں۔ الغرض یہ صندوق بنی اسرائیل کے لئے تابوتِ سکینہ، برکت و رحمت کا خزینہ اور نصرتِ خداوندی کے نزول کا نہایت مقدس اور بہترین ذریعہ تھا مگر جب بنی اسرائیل طرح طرح کے گناہوں میں ملوث ہوگئے اور ان لوگوں میں معاصی و طغیان اور سرکشی و عصیان کا دور دورہ ہو گیا تو ان کی بداعمالیوں کی نحوست سے ان پر خدا کا یہ غضب نازل ہوگیا کہ قوم عمالقہ کے کفار نے ایک لشکر جرار کے ساتھ ان لوگوں پر حملہ کردیا، ان کافروں نے بنی اسرائیل کا قتل عام کر کے ان کی بستیوں کو تاخت و تاراج کرڈالا۔ عمارتوں کو توڑ پھوڑ کر سارے شہر کو تہس نہس کرڈالا، اور اس متبرک صندوق کو بھی اٹھا کر لے گئے۔ اس مقدس تبرک کو نجاستوں کے کوڑے خانہ میں پھینک دیا۔ لیکن اس بے ادبی کا قوم عمالقہ پر یہ وبال پڑا کہ یہ لوگ طرح طرح کی بیماریوں اور بلاؤں کے ہجوم میں جھنجھوڑ دیئے گئے۔ چنانچہ قوم عمالقہ کے پانچ شہر بالکل برباد اور ویران ہو گئے۔ یہاں تک کہ ان کافروں کو یقین ہو گیا کہ یہ صندوق رحمت کی بے ادبی کا عذاب ہم پر پڑ گیا ہے تو ان کافروں کی آنکھیں کھل گئیں۔ چنانچہ ان لوگوں نے اس مقدس صندوق کو ایک بیل گاڑی پر لاد کر بیلوں کو بنی اسرائیل کی بستیوں کی طرف ہانک دیا۔
پھر اللہ تعالیٰ نے چار فرشتوں کو مقرر فرما دیا جو اس مبارک صندوق کو بنی اسرائیل کے نبی حضرت شمویل علیہ السلام کی خدمت میں لائے۔ اس طرح پھر بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی نعمت دوبارہ ان کو مل گئی۔ اور یہ صندوق ٹھیک اس وقت حضرت شمویل علیہ السلام کے پاس پہنچا، جب کہ حضرت شمویل علیہ السلام نے طالوت کو بادشاہ بنا دیا تھا۔ اور بنی اسرائیل طالوت کی بادشاہی تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھے اور یہی شرط ٹھہری تھی کہ مقدس صندوق آجائے تو ہم طالوت کی بادشاہی تسلیم کرلیں گے۔ چنانچہ صندوق آگیا اور بنی اسرائیل طالوت کی بادشاہی پر"
رضامند ہو گئے۔
" (تفسیر الصاوی،ج۱،ص۲۰۹۔تفسیر روح البیان،ج۱، ص۳۸۵۔پ۲، البقرۃ۲۴۷)"
اس مقدس صندوق میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا اور ان کی مقدس جوتیاں اور حضرت ہارون علیہ السلام کا عمامہ، حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی، توراۃ کی تختیوں کے چند ٹکڑے ،کچھ من و سلویٰ، اس کے علاوہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی صورتوں کے حلیے وغیرہ سب سامان تھے۔
" (تفسیر روح البیان،ج۱،ص۳۸۶،پ۲،البقرۃ: ۲۴۸)"
قرآن مجید میں خداوند قدوس نے سورہ بقرہ میں اس مقدس صندوق کا تذکرہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:۔
وَقَالَ لَہُمْ نَبِیُّہُمْ اِنَّ اٰیَۃَ مُلْکِہٖۤ اَنۡ یَّاۡتِیَکُمُ التَّابُوۡتُ فِیۡہِ سَکِیۡنَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمْ وَبَقِیَّۃٌ مِّمَّا تَرَکَ اٰلُ مُوۡسٰی وَاٰلُ ہٰرُوۡنَ تَحْمِلُہُ الْمَلٰٓئِکَۃُ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لَّکُمْ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤْمِنِیۡنَ ﴿248﴾٪
"ترجمہ کنزالایمان:۔اور ان سے ان کے نبی نے فرمایا اس کی بادشاہی کی نشانی یہ ہے کہ آئے تمہارے پاس تابوت جس میں تمہارے رب کی طرف سے دلوں کا چین ہے اور کچھ بچی ہوئی چیزیں ہیں معزز موسیٰ اور معزز ہارون کے ترکہ کی، اٹھاتے لائیں گے اسے فرشتے بیشک اس میں بڑی نشانی ہے تمہارے لئے اگر ایمان رکھتے ہو۔(پ2،البقرۃ:248)
درسِ ہدایت:۔بنی اسرائیل کے صندوق کے اس واقعہ سے چند مسائل و فوائد پر روشنی پڑتی ہے جو یاد رکھنے کے قابل ہیں:۔
(۱)معلوم ہوا کہ بزرگوں کے تبرکات کی خداوند قدوس کے دربار میں بڑی عزت و عظمت ہے اور ان کے ذریعہ مخلوقِ خدا کو بڑے بڑے فیوض و برکات حاصل ہوتے ہیں۔ دیکھ لو! اس"
صندوق میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جوتیاں، آپ کا عصا اور حضرت ہارون علیہ السلام کی پگڑی تھی، تو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ صندوق اس قدر مقبول اور مکرم و معظم ہو گیا کہ فرشتوں نے اس کو اپنے نورانی کندھوں پر اٹھا کر حضرت شمویل علیہ السلام کے دربارِ نبوت میں پہنچایا اور خداوند قدوس نے قرآن مجید میں اس بات کی شہادت دی کہ
فِیْہِ سَکِّیْنَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ
"یعنی اس صندوق میں تمہارے رب کی طرف سے سکینہ یعنی مومنوں کے قلوب کا اطمینان اور ان کی روحوں کی تسکین کا سامان تھا۔ مطلب یہ کہ اس پر رحمتِ الٰہی کے انوار و برکات کا نزول اور اس پر رحمتوں کی بارش ہوا کرتی تھی تو معلوم ہوا کہ بزرگوں کے تبرکات جہاں اور جس جگہ بھی ہوں گے ضرور ان پر رحمت خداوندی کا نزول ہو گا۔ اور اس پر نازل ہونے والی رحمتوں اور برکتوں سے مومنین کو سکونِ قلب اور اطمینانِ روح کے فیوض و برکات ملتے رہیں گے۔
(۲)جس صندوق میں اللہ والوں کے لباس و عصا اور جوتیاں ہوں جب اس صندوق پر اطمینان کا سکینہ اور انوار و برکات کا خزینہ خدا کی طرف سے اترنا، قرآن سے ثابت ہے تو بھلا جس قبر میں ان بزرگوں کا پورا جسم رکھا ہو گا، کیا ان قبروں پر رحمت و برکت اور سکینہ و اطمینان نہیں اترے گا؟ ہر عاقل انسان جس کو خداوند عالم نے بصارت کے ساتھ ساتھ ایمانی بصیرت بھی عطا فرمائی ہے، وہ ضرور اس بات پر ایمان لائے گا کہ جب بزرگوں کے لباس اور ان کی جوتیوں پر سکینہ رحمت کا نزول ہوتا ہے تو ان بزرگوں کی قبروں پر بھی رحمتِ خداوندی کا خزینہ ضرور نازل ہو گا۔ اور جب بزرگوں کی قبروں پر رحمتوں کی بارش ہوتی ہے تو جو مسلمان ان مقدس قبروں کے پاس حاضر ہو گا ضرور اس پر بھی بارشِ انوار رحمت کے چند قطرات برس ہی جائیں گے کیونکہ جو موسلا دھار بارش میں کھڑا ہو گا ضرور اس کا کپڑا اور بدن بھیگے گا، جو دریا میں غوطہ لگائے گا ضرور اس کا بدن پانی سے تر ہو گا، جو عطر کی دوکان پر بیٹھے گا ضرور اس کو خوشبو نصیب ہو گی۔ تو ثابت ہو گیا کہ جو بزرگوں کی قبروں پر حاضری دیں گے ضرور وہ فیوض و برکات"
"کی دولتوں سے مالا مال ہوں گے اور ضرور ان پر خدا کی رحمتوں کا نزول ہو گا جس سے ان کے مصائب و آلام دور ہوں گے اور دین و دنیا کے فوائد و منافع حاصل ہوں گے۔
(۳)یہ بھی معلوم ہوا کہ جو لوگ بزرگوں کے تبرکات یا ان کی قبروں کی اہانت و بے ادبی کریں گے وہ ضرور قہرِ قہار اور غضب ِ جبار میں گرفتار ہوں گے کیونکہ قوم عمالقہ جنہوں نے اس صندوق کی بے ادبی کی تھی ان پر ایسا قہرِ الٰہی کا پہاڑ ٹوٹا کہ وہ بلاؤں کے ہجوم سے بلبلا اٹھے اور کافر ہوتے ہوئے انہوں نے اس بات کو مان لیا کہ ہم پر بلاؤں اور وباؤں کا حملہ اسی صندوق کی بے ادبی کی وجہ سے ہوا ہے۔ چنانچہ اسی لئے ان لوگوں نے اس مقدس صندوق کو بیل گاڑی پر لاد کر بنی اسرائیل کی بستی میں بھیج دیا تاکہ وہ لوگ غضب ِ الٰہی کی بلاؤں کے پنجہ قہر سے نجات پالیں۔
(۴)جب اس صندوق کی برکت سے بنی اسرائیل کو جہاد میں فتح مبین ملتی تھی تو ضرور بزرگوں کی قبروں سے بھی مومنین کی مشکلات دفع ہوں گی اور مرادیں پوری ہوں گی کیونکہ ظاہر ہے کہ بزرگوں کے لباس سے کہیں زیادہ اثرِ رحمت بزرگوں کے بدن میں ہو گا۔
(۵)اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو قوم سرکشی اور عصیان کے طوفان میں پڑ کر اللہ و رسول (عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کی نافرمان ہوجاتی ہے اس قوم کی نعمتیں چھین لی جاتی ہیں۔ چنانچہ آپ نے پڑھ لیا کہ جب بنی اسرائیل سرکش ہو کر خدا کے نافرمان ہو گئے اور قسم قسم کی بدکاریوں میں پڑ کر گناہوں کا بھوت ان کے سروں پر عفریت بن کر سوار ہو گیا تو ان کے جرموں کی نحوستوں نے انہیں یہ برا دن دکھایا کہ صندوق سکینہ ان کے پاس سے قوم عمالقہ کے کفار اٹھا لے گئے اور بنی اسرائیل کئی برسوں تک اس نعمت عظمیٰ سے محروم ہو گئے۔"
(واللہ تعالیٰ اعلم)
حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے ایک مرتبہ خداوند قدوس کے دربار میں یہ عرض کیا کہ یا اللہ تو مجھے دکھا دے کہ تو مردوں کو کس طرح زندہ فرمائے گا؟ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے
ابراہیم کیا اس پر تمہارا ایمان نہیں ہے، تو آپ نے عرض کیا کہ کیوں نہیں؟ میں اس پر ایمان تو رکھتا ہوں لیکن میری تمنا یہ ہے کہ اس منظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں تاکہ میرے دل کو قرار آجائے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم چار پرندوں کو پالو اور ان کو خوب کھلا پلا کر اچھی طرح ہلا ملا لو پھر تم انہیں ذبح کر کے اور ان کا قیمہ بنا کر اپنے گرد و نواح کے چند پہاڑوں پر تھوڑا تھوڑا گوشت رکھ دو۔ پھر ان پرندوں کو پکارو تو وہ پرندے زندہ ہو کر دوڑتے ہوئے تمہارے پاس آجائیں گے اور تم مردوں کے زندہ ہونے کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک مرغ، ایک کبوتر، ایک گدھ، ایک مور۔ ان چار پرندوں کو پالا۔ اور ایک مدت تک ان چاروں پرندوں کو کھلا پلا کر خوب ہلا ملا لیا۔ پھر ان چاروں پرندوں کو ذبح کر کے ان کے سروں کو اپنے پاس رکھ لیا اور ان چاروں کا قیمہ بنا کر تھوڑا تھوڑا گوشت اطراف و جوانب کے پہاڑوں پر رکھ دیا اور دور سے کھڑے ہو کر ان پرندوں کا نام لے کر پکارا کہ
یٰاَیُّھَا الدِّیْکُ
(اے مرغ)
یٰاَیَّتُھَا الْحَمَامَۃُ
(اے کبوتر)
یٰاَیُّھَا النَّسْرُ
(اے گدھ)
یٰاَیُّھَا الطَّاؤُسُ
"(اے مور)آپ کی پکار پر ایک دم پہاڑوں سے گوشت کا قیمہ اڑنا شروع ہو گیا اور ہرپرند کا گوشت، پوست ،ہڈی، پر، الگ ہو کر چار پرند تیار ہو گئے اور وہ چاروں پرند بلا سروں کے دوڑتے ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آگئے اور اپنے سروں سے جڑ کر دانہ چگنے لگے اور اپنی اپنی بولیاں بولنے لگے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی آنکھوں سے مردوں کے زندہ ہونے کا منظر دیکھ لیا اور ان کے دل کو اطمینان و قرار مل گیا۔
اس واقعہ کا ذکر خداوند کریم نے قرآنِ مجید کی سورئہ بقرہ میں ان لفظوں کے ساتھ بیان فرمایا ہے کہ:۔"
وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰہٖمُ رَبِّ اَرِنِیۡ کَیۡفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی ؕ قَالَ اَوَلَمْ تُؤْمِنۡ ؕ قَالَ بَلٰی وَلٰکِنْ لِّیَطْمَئِنَّ قَلْبِیۡ ؕ قَالَ فَخُذْ اَرْبَعَۃً مِّنَ الطَّیۡرِ فَصُرْہُنَّ اِلَیۡکَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلٰی کُلِّ جَبَلٍ
مِّنْہُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُہُنَّ یَاۡتِیۡنَکَ سَعْیًا ؕ وَاعْلَمْ اَنَّ اللہَ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ ﴿260﴾٪
"ترجمہ کنزالایمان:۔اور جب عرض کی ابراہیم نے اے رب میرے مجھے دکھا دے تو کیونکر مردے جلائے گا فرمایا کیا تجھے یقین نہیں عرض کی یقیں کیوں نہیں مگر یہ چاہتا ہوں کہ میرے دل کو قرار آجائے۔ فرمایا تو اچھا چار پرندے لے کر اپنے ساتھ ہلا لے پھر ان کا ایک ایک ٹکڑا ہر پہاڑ پر رکھ دے پھر انہیں بلا وہ تیرے پاس چلے آئیں گے پاؤں سے دوڑتے اور جان رکھ کہ اللہ غالب حکمت والا ہے۔ (پ3،البقرۃ:260)
درسِ ہدایت:۔مذکورہ بالا قرآنی واقعہ سے مندرجہ ذیل مسائل پر خاص طور سے روشنی پڑتی ہے۔ ان کو بغور پڑھیے اور ہدایت کا نور حاصل کیجئے اور دوسروں کو بھی روشنی دکھایئے۔
مردوں کو پکارنا:۔چاروں پرندوں کا قیمہ بنا کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پہاڑوں پر رکھ دیا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا کہ ثُمَّ ادْعُھُنَّ یعنی ان مردہ پرندوں کو پکارو۔ چنانچہ آپ نے چاروں کو نام لے کر پکارا تو اس سے یہ مسئلہ ثابت ہو گیا کہ مردوں کو پکارنا شرک نہیں ہے کیونکہ جب مردہ پرندوں کو اللہ تعالیٰ نے پکارنے کا حکم فرمایا اور ایک جلیل القدر پیغمبر نے ان مردوں کو پکارا تو ہرگز ہرگز یہ شرک نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ خداوند کریم کبھی بھی کسی کو شرک کا حکم نہیں دے گا نہ کوئی نبی ہرگز ہرگز کبھی شرک کا کام کرسکتا ہے۔ تو جب مرے ہوئے پرندوں کو پکارنا شرک نہیں تو وفات پائے ہوئے خدا کے ولیوں اور شہیدوں کا پکارنا کیونکر شرک ہوسکتا ہے، جو لوگ ولیوں اور شہیدوں کے پکارنے کو شرک کہتے ہیں اور یاغوث کا نعرہ لگانے والوں کو مشرک کہتے ہیں، انہیں تھوڑی دیر سر جھکا کر سوچنا چاہے کہ اس قرآنی واقعہ کی روشنی میں انہیں ہدایت کا نور نظر آجائے اور وہ اہل سنت کے طریقے پر صراط مستقیم کی شاہراہ پر چل پڑیں۔ (واللہ الموفق)"
تصوف کا ایک نکتہ:۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جن چار پرندوں کو ذبح کیا ان میں سے ہر پرند ایک بری خصلت میں مشہور ہے مثلاً مور کو اپنی شکل و صورت کی خوبصورتی پر گھمنڈ رہتا ہے اور مرغ میں کثرت شہوت کی بری خصلت ہے اور گدھ میں حرص اور لالچ کی بری عادت ہے اور کبوتر کو اپنی بلند پروازی اور اونچی اڑان پر نخوت و غرور ہوتا ہے۔ تو ان چاروں پرندوں کے ذبح کرنے سے ان چاروں خصلتوں کو ذبح کرنے کی طرف اشارہ ہے کہ چاروں پرند ذبح کئے گئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مردوں کے زندہ ہونے کا منظر نظر آیا اور ان کے دل میں نور اطمینان کی تجلی ہوئی۔ جس کی بدولت انہیں نفسِ مطمئنہ کی دولت مل گئی تو جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کا دل زندہ ہوجائے اور اس کو نفسِ مطمئنہ کی دولت نصیب ہوجائے اس کو چاہے کہ مرغ ذبح کرے یعنی اپنی شہوت پر چھری پھیر دے اور مور کو ذبح کرے یعنی اپنی شکل و صورت اور لباس کے گھمنڈ کو ذبح کرڈالے اور گدھ کو ذبح کرے یعنی حرص اور لالچ کا گلا کاٹ ڈالے اور کبوتر کو ذبح کرے یعنی اپنی بلند پروازی اور اونچے مرتبوں کے غرور و نخوت پر چھری چلا دے۔ اگر کوئی ان چاروں بری خصلتوں کو ذبح کرڈالے گا تو ان شاء اللہ تعالیٰ وہ اپنے دل کے زندہ ہونے کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا اور اس کو نفسِ مطمئنہ کی سرفرازی کا شرف حاصل ہوجائے گا۔
(واللہ تعالیٰ اعلم)
" (تفسیر جمل،ج۱،ص۳۲۸،پ۳،البقرۃ:۲۶۰)"
بنی اسرائیل کا نظام یوں چلتا تھا کہ ہمیشہ ان لوگوں میں ایک بادشاہ ہوتا تھا۔ جو ملکی نظام چلاتا تھا اور ایک نبی ہوتا تھا جو نظام شریعت اور دینی امور کی ہدایت و رہنمائی کیا کرتا تھا۔ اور یوں دستور چلا آتا تھا کہ بادشاہی یہود ابن یعقوب علیہ السلام کے خاندان میں رہتی تھی اور نبوت لادی بن یعقوب علیہ السلام کے خاندان کا طرئہ امتیاز تھا۔ حضرت شمویل علیہ السلام جب نبوت
"سے سرفراز کئے گئے تو ان کے زمانے میں کوئی بادشاہ نہیں تھا تو بنی اسرائیل نے آپ سے درخواست کی کہ آپ کسی کو ہمارا بادشاہ بنا دیجئے تو آپ نے حکم خداوندی کے مطابق ''طالوت''کو بادشاہ بنا دیا جو بنی اسرائیل میں سب سے زیادہ طاقتور اور سب سے بڑا عالم تھا۔ لیکن بہت ہی غریب و مفلس تھا۔ چمڑا پکا کر یا بکریوں کی چرواہی کر کے زندگی بسر کرتا تھا۔ اس پر بنی اسرائیل کو اعتراض ہوا کہ طالوت شاہی خاندان سے نہیں ہے لہٰذا یہ کیونکر اور کیسے ہمارا بادشاہ ہوسکتا ہے اس سے زیادہ تو بادشاہت کے حق دار ہم لوگ ہیں کیونکہ ہم لوگ شاہی خاندان سے ہیں۔ پھر طالوت کے پاس کچھ زیادہ مال بھی نہیں ہے۔ ایک غریب و مفلس انسان بھلا تختِ شاہی کے لائق کیونکر ہوسکتا ہے۔ بنی اسرائیل کے ان اعتراض کا جواب دیتے ہوئے حضرت شمویل علیہ السلام نے یہ تقریر فرمائی کہ:۔
ترجمہ کنزالایمان:۔ فرمایا اسے اللہ نے تم پر چن لیا اور اسے علم اور جسم میں کشادگی زیادہ دی اور اللہ اپنا ملک جسے چاہے دے۔ اور اللہ وسعت والا علم والا ہے اور ان سے ان کے نبی نے فرمایا اس کی بادشاہی کی نشانی یہ ہے کہ آئے تمہارے پاس تابوت جس میں تمہارے رب کی طرف سے دلوں کا چین ہے۔"
(پ۲،البقرۃ:۲۴۷،۲۴۸)
"چنانچہ تھوڑی ہی دیر کے بعد چار فرشتے صندوق لے کر آگئے اور صندوق کو حضرت شمویل علیہ السلام کے پاس رکھ دیا۔ یہ دیکھ کر تمام بنی اسرائیل نے طالوت کی بادشاہی کو تسلیم کرلیا اور آپ نے بادشاہ بن کر نہ صرف انتظام ملکی سنبھالا بلکہ بنی اسرائیل کی فوج بھرتی کر کے قوم عمالقہ کے کفار سے جہاد بھی فرمایا۔
اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کا ذکر قرآن مجید میں فرماتے ہوئے اس طرح ارشاد فرمایا جس کا ترجمہ یہ ہے کہ :۔
ترجمہ کنزالایمان:۔اور ان سے ان کے نبی نے فرمایا کہ بے شک اللہ نے طالوت کو تمہارا"
بادشاہ بنا کر بھیجا ہے۔ بولے اسے ہم پر بادشاہی کیوں کر ہوگی؟ اور ہم اس سے زیادہ سلطنت کے مستحق ہیں اور اسے مال میں بھی وسعت نہیں دی گئی فرمایا اسے اللہ نے تم پر چن لیا اور اسے علم اور جسم میں کشادگی زیادہ دی اور اللہ اپنا ملک جسے چاہے دے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے اور ان سے ان کے نبی نے فرمایا اس کی بادشاہی کی نشانی یہ ہے کہ آئے تمہارے پاس تابوت جس میں تمہارے رب کی طرف سے دلوں کا چین ہے اور کچھ بچی ہوئی چیزیں ہیں معزز موسیٰ اور معزز ہارون کے ترکہ کی اٹھاتے لائیں گے اسے فرشتے۔ بےشک اس میں بڑی نشانی ہے تمہارے لئے، اگر ایمان رکھتے ہو ۔
(پ۲،البقرۃ:۲۴۷،۲۴۸)
"درسِ ہدایت:۔(۱)اس واقعہ سے جہاں بہت سے مسائل پر روشنی پڑتی ہے ایک بہت ہی واضح درس یہ ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی نوازش کی کوئی حد نہیں ہے۔ وہ چاہے تو چھوٹے سے چھوٹے آدمی کو منٹوں بلکہ سیکنڈوں میں بڑے سے بڑا آدمی بنادے۔ دیکھ لو حضرت طالوت ایک بہت ہی کم درجے کے آدمی تھے اور اتنے مفلس تھے کہ یا تو دبگر تھے جو چمڑے کو دباغت دے کر اپنی روزی حاصل کرتے تھے یا بکریاں چرا کر اس کی اجرت سے گزر بسر کرتے تھے مگر لمحہ بھر میں اللہ تعالیٰ نے انہیں صاحب ِ تخت و تاج بنا کر بادشاہ بنا دیا۔
(۲)اس واقعہ سے اور قرآن مجید کی عبارت سے معلوم ہوا کہ جسمانی توانائی اور علم کی وسعت بادشاہی کے لئے مالداری سے زیادہ ضروری ہے کیونکہ بغیر جسمانی طاقت اور علم کے نظامِ ملکی کو چلانا اور سلطنت کا انتظام کرنا تقریباً محال اور ناممکن ہے۔ اس سے ظاہر ہوا کہ علم کا درجہ مال سے بہت بلند تر ہے۔"
(واللہ تعالیٰ اعلم)
جب طالوت بنی اسرائیل کے بادشاہ بن گئے تو آپ نے بنی اسرائیل کو جہاد کے لئے تیار کیا اور ایک کافر بادشاہ ''جالوت''سے جنگ کرنے کے لئے اپنی فوج کو لے کر میدان جنگ
"میں نکلے۔ جالوت بہت ہی قد آور اور نہایت ہی طاقتور بادشاہ تھا وہ اپنے سر پر لوہے کی جو ٹوپی پہنتا تھا اس کا وزن تین سو رطل تھا۔ جب دونوں فوجیں میدانِ جنگ میں لڑائی کے لئے صف آرائی کرچکیں تو حضرت طالوت نے اپنے لشکر میں یہ اعلان فرما دیا کہ جو شخص جالوت کو قتل کریگا، میں اپنی شہزادی کا نکاح اس کے ساتھ کردوں گا۔ اور اپنی آدھی سلطنت بھی اس کو عطا کردوں گا۔ یہ فرمان شاہی سن کر حضرت داؤد علیہ السلام آگے بڑھے جو ابھی بہت ہی کمسن تھے اور بیماری سے چہرہ زرد ہو رہا تھا۔ اور غربت و مفلسی کا یہ عالم تھا کہ بکریاں چرا کر اس کی اجرت سے گزر بسر کرتے تھے۔ روایت ہے کہ جب حضرت داؤد علیہ السلام گھر سے جہاد کے لئے روانہ ہوئے تھے تو راستہ میں ایک پتھر یہ بولا کہ اے حضرت داؤد! مجھے اٹھا لیجئے کیونکہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا پتھرہوں۔ پھر دوسرے پتھر نے آپ کو پکارا کہ اے حضرت داؤد مجھے اٹھا لیجئے کیونکہ میں حضرت ہارون علیہ السلام کا پتھر ہوں۔ پھر ایک تیسرے پتھر نے آپ کو پکار کر عرض کیا کہ اے حضرت داؤد علیہ السلام مجھے اٹھا لیجئے کیونکہ میں جالوت کا قاتل ہوں۔ آپ علیہ السلام نے ان تینوں پتھروں کو اٹھا کر اپنے جھولے میں رکھ لیا۔ جب جنگ شروع ہوئی تو حضرت داؤد علیہ السلام اپنی گوپھن لے کر صفوں سے آگے بڑھے اور جب جالوت پر آپ کی نظر پڑی تو آپ نے ان تینوں پتھروں کو اپنی گوپھن میں رکھ کر اور بسم اللہ پڑھ کر گوپھن سے تینوں پتھروں کو جالوت کے اوپر پھینکا اور یہ تینوں پتھر جا کر جالوت کی ناک اور کھوپڑی پر لگے اور اس کے بھیجے کو پاش پاش کر کے سر کے پیچھے سے نکل کر تیس جالوتیوں کو لگے اور سب کے سب مقتول ہو کر گر پڑے۔ پھر حضرت داؤد علیہ السلام نے جالوت کی لاش کو گھسیٹتے ہوئے لا کر اپنے بادشاہ حضرت طالوت کے قدموں میں ڈال دیا اس پر حضرت طالوت اور بنی اسرائیل بے حد خوش ہوئے۔
جالوت کے قتل ہوجانے سے اس کا لشکر بھاگ نکلاا ور حضرت طالوت کو فتح مبین ہو"
گئی اور اپنے اعلان کے مطابق حضرت طالوت نے حضرت داؤد علیہ السلام کے ساتھ اپنی لڑکی کا نکاح کردیا اوراپنی آدھی سلطنت کا ان کو سلطان بنا دیا۔ پھر پورے چالیس برس کے بعد جب حضرت طالوت بادشاہ کا انتقال ہو گیا تو حضرت داؤد علیہ السلام پوری سلطنت کے بادشاہ بن گئے اور جب حضرت شمویل علیہ السلام کی وفات ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو سلطنت کے ساتھ نبوت سے بھی سرفراز فرمادیا۔ آپ سے پہلے سلطنت اور نبوت دونوں اعزاز ایک ساتھ کسی کو بھی نہیں ملا تھا۔ آپ پہلے شخص ہیں کہ ان دونوں عہدوں پر فائز ہو کر ستر برس تک سلطنت اور نبوت دونوں منصبوں کے فرائض پورے کرتے رہے اور پھر آپ کے بعد آپ کے فرزند حضرت سلیمان علیہ السلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے سلطنت اور نبوت دونوں مرتبوں سے سرفراز فرمایا۔
(تفسیر جمل علی الجلالین،ج۱،ص۳۰۸،پ۲،البقرۃ۲۵۱)
اس واقعہ کا اجمالی بیان قرآن مجید کی سورئہ بقرہ میں اس طرح ہے کہ:۔
وَقَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوۡتَ وَاٰتٰىہُ اللہُ الْمُلْکَ وَالْحِکْمَۃَ وَعَلَّمَہٗ مِمَّا یَشَآءُ ؕ
ترجمہ کنزالایمان:۔اور قتل کیا داؤد نے جالوت کو اور اللہ نے اسے سلطنت اور حکمت عطا فرمائی اور اسے جو چاہا سکھایا۔(پ2،البقرۃ:251)
حضرت داؤد علیہ السلام نے باوجودیکہ ایک عظیم سلطنت کے بادشاہ تھے مگر ساری عمر وہ اپنے ہاتھ کی دستکاری کی کمائی سے اپنے خورد و نوش کا سامان کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ معجزہ عطا فرمایا تھا کہ آپ لوہے کو ہاتھ میں لیتے تو وہ موم کی طرح نرم ہوجایا کرتا تھا اور آپ اس سے زرہیں بنایا کرتے تھے اور ان کو فروخت کر کے اس رقم کو اپنا ذریعہ معاش بنائے ہوئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو پرندوں کی بولی سکھا دی تھی۔
(روح البیان،ج۱،ص۳۹۱،پ۲،البقرۃ:۲۵۱)
"درس ہدایت:۔(۱)حضرت طالوت کی سرگزشت کی طرح حضرت داؤد علیہ السلام کی مقدس زندگی سے یہی سبق ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب اپنا فضل و کرم فرماتا ہے تو ایک لمحہ میں رائی پہاڑ اور ذرہ کو آفتاب بنا دیتا ہے۔ غور کرو کہ حضرت داؤد علیہ السلام ایک کمسن لڑکے تھے اور خود نہایت ہی مفلس اور ایک غریب باپ کے بیٹے تھے۔ مگر اچانک اللہ تعالیٰ نے ان کو کتنے عظیم اور بڑے بڑے مراتب ودر جات کے اعزاز سے سرفراز فرما دیا کہ ان کے سر پر تاجِ شاہی رکھ کر اُنہیں بادشاہ بنا دیا۔ اور ایک بادشاہ کی شہزادی اُن کے نکاح میں آئی اور پھر نبوت کا مرتبہ بلند اُنہیں عطا فرما دیا کہ اس سے بڑھ کر انسان کے لئے کوئی بلند مرتبہ ہو سکتا ہی نہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ کی قدرتِ قاہرہ کا جلوہ دیکھو کہ جالوت جیسے جابر اور طاقتور بادشاہ کا قاتل حضرت داؤد علیہ السلام کو بنادیا جو ایک کمسن لڑکے اور بیمار تھے اور وہ بھی ان کے تین پتھروں سے قتل ہوا۔ حالانکہ جالوت کے سامنے ان چھوٹے چھوٹے تین پتھروں کی کیا حقیقت تھی؟ جب کہ وہ تین سو رطل وزن کی فولادی ٹوپی پہنے ہوئے تھا۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر چاہے تو ایک چیونٹی کو ہاتھی پر غالب کردے اور اللہ تعالیٰ اگر چاہے تو ہاتھی ایک چیونٹی کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔
(۲)واقعہ مذکورہ بالا میں آپ نے پڑھ لیا کہ طالوت دبگری یعنی چمڑا پکانے کا پیشہ کرتے تھے یا بکریاں چراتے تھے اور حضرت داؤد علیہ السلام بھی پہلے بکریاں چرایا کرتے تھے اور پھر جب اللہ تعالیٰ نے ان کو بادشاہ بنادیا اور نبوت کے شرف سے بھی سرفراز فرما دیا تو انہوں نے اپنا ذریعہ معاش زرہیں بنانے کے پیشے کو بنالیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ رزق حلال طلب کرنے کے لئے"
کوئی پیشہ اختیار کرنا خواہ وہ دبگری ہو یا چرواہی ہو یا لوہاری ہو یا کپڑا بننا ہو، الغرض کوئی پیشہ ہرگز ہرگز نہ ذلیل ہے نہ ان پیشوں کے ذریعہ روزی حاصل کرنے والوں کے لئے کوئی ذلت ہے۔ جو لوگ بنکروں اور دوسرے پیشہ وروں کو محض ان کے پیشہ کی بناء پر ذلیل و حقیر سمجھتے ہیں وہ انتہائی جہالت و گمراہی کے گڑھے میں گرے ہوئے ہیں۔ رزق حلال طلب کرنے کے لئے کوئی جائز پیشہ اختیار کرنا یہ انبیاء و مرسلین اور صالحین کا مقدس طریقہ ہے۔ لہٰذا ہرگز ہرگز پیشہ ور مسلمان کوحقیر ذلیل شمار نہیں کرنا چاہیے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ پیشہ ور مسلمان ان لوگوں سے ہزاروں درجہ بہتر ہے جو سرکاری نوکریوں اور رشوتوں اور دھوکہ دہی کے ذریعہ رقمیں حاصل کر کے اپنا پیٹ پالتے ہیں اور اپنے شریف ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں حالانکہ شرعاً اس سے زیادہ ذلیل کون ہو گا جس کی کمائی حلال نہ ہو یا مشتبہ ہو۔
(واللہ تعالیٰ اعلم)
"حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ ماجدہ حضرت مریم (رضی اللہ عنہا)کے والد کا نام ''عمران''اور ماں کا نام ''حنہ'' تھا۔ جب بی بی مریم اپنی ماں کے شکم میں تھیں اس وقت ان کی ماں نے یہ منت مان لی تھی کہ جو بچہ پیدا ہو گا میں اس کو بیت المقدس کی خدمت کے لئے آزاد کردوں گی۔ چنانچہ جب حضرت مریم پیدا ہوئیں تو ان کی والدہ ان کو بیت المقدس میں لے کر گئیں۔ اس وقت بیت المقدس کے تمام عالموں اور عابدوں کے امام حضرت زکریا علیہ السلام تھے جو حضرت مریم کے خالو تھے۔ حضرت زکریا علیہ السلام نے حضرت مریم رضی اللہ عنہاکو اپنی کفالت اور پرورش میں لے لیا اور بیت المقدس کی بالائی منزل میں تمام منزلوں سے الگ ایک محراب بنا کر حضرت مریم رضی اللہ عنہاکو اس محراب میں ٹھہرایا۔ چنانچہ حضرت مریم رضی اللہ عنہااس محراب میں اکیلی خدا کی عبادت میں مصروف رہنے لگیں اور حضرت زکریا علیہ السلام صبح و شام محراب میں ان کی خبر گیری اور خورد و نوش کا انتظام کرنے کے لئے آتے جاتے رہے۔
چند ہی دنوں میں حضرت مریم رضی اللہ عنہاکی محراب کے اندر یہ کرامت نمودار ہوئی کہ جب حضرت زکریا علیہ السلام محراب میں جاتے تو وہاں جاڑوں کے پھل گرمی میں اور گرمی کے پھل جاڑوں میں پاتے۔ حضرت زکریا علیہ السلام حیران ہو کر پوچھتے کہ اے مریم یہ پھل کہاں سے تمہارے پاس آتے ہیں؟ تو حضرت مریم رضی اللہ عنہا یہ جواب دیتیں کہ یہ پھل اللہ"
"کی طرف سے آتے ہیں اور اللہ جس کو چاہتا ہے بلا حساب روزی عطا فرماتا ہے۔
حضرت زکریا علیہ السلام کو خداوند قدوس نے نبوت کے شرف سے نوازا تھا مگر ان کے کوئی اولاد نہیں تھی اور وہ بالکل ضعیف ہوچکے تھے۔ برسوں سے ان کے دل میں فرزند کی تمنا موجزن تھی اور بارہا انہوں نے گڑگڑا کر خدا سے اولادِ نرینہ کے لئے دعا بھی مانگی تھی مگر خدا کی شانِ بے نیازی کہ باوجود اس کے اب تک ان کو کوئی فرزند نہیں ملا۔ جب انہوں نے حضرت مریم رضی اللہ عنہاکی محراب میں یہ کرامت دیکھی کہ اس جگہ بے موسم کا پھل آتا ہے تو اس وقت ان کے دل میں یہ خیال آیا کہ میری عمر اب اتنی ضعیفی کی ہوچکی ہے کہ اولاد کے پھل کا موسم ختم ہوچکا ہے۔ مگر وہ اللہ جو حضرت مریم کی محراب میں بے موسم کے پھل عطا فرماتا ہے وہ قادر ہے کہ مجھے بھی بے موسم کی اولاد کا پھل عطا فرمادے۔ چنانچہ آپ نے محراب مریم میں دعا مانگی اور آپ کی دعا مقبول ہو گئی۔ اور اللہ تعالیٰ نے بڑھاپے میں آپ کو ایک فرزند عطا فرمایا جن کا نام خود خداوند عالم نے ''یحییٰ'' رکھا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو نبوت کا شرف بھی عطا فرمایا۔ قرآن مجید میں خداوند قدوس نے اس واقعہ کو اس طرح بیان فرمایا:۔"
کُلَّمَا دَخَلَ عَلَیۡہَا زَکَرِیَّا الْمِحْرَابَ ۙ وَجَدَ عِنۡدَہَا رِزْقًا ۚ قَالَ یٰمَرْیَمُ اَنّٰی لَکِ ہٰذَا ؕ قَالَتْ ہُوَ مِنْ عِنۡدِ اللہِ ؕ اِنَّ اللہَ یَرْزُقُ مَنۡ یَّشَآءُ بِغَیۡرِ حِسَابٍ ﴿37﴾ ہُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّہٗ ۚ قَالَ رَبِّ ہَبْ لِیۡ مِنۡ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً ۚ اِنَّکَ سَمِیۡعُ الدُّعَآءِ ﴿38﴾فَنَادَتْہُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَہُوَ قَآئِمٌ یُّصَلِّیۡ فِی الْمِحْرَابِ ۙ اَنَّ اللہَ یُبَشِّرُکَ بِیَحْیٰـی مُصَدِّقًۢابِکَلِمَۃٍ مِّنَ اللہِ وَسَیِّدًا وَّحَصُوۡرًا وَّنَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿39﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔جب زکریا اس کے پاس اس کی نماز پڑھنے کی جگہ جاتے اس کے پاس نیا رزق پاتے کہا اے مریم یہ تیرے پاس کہاں سے آیا بولیں وہ اللہ کے پاس سے ہے بے
"شک اللہ جسے چاہے بے گنتی دے یہاں پکارا زکریا اپنے رب کو بولا اے رب میرے مجھے اپنے پاس سے دے ستھری اولاد بے شک تو ہی ہے دعا سننے والا، تو فرشتوں نے اسے آواز دی اور وہ اپنی نماز کی جگہ کھڑا نماز پڑھ رہا تھا بے شک اللہ آپ کو مژدہ دیتا ہے یحیی کا جو اللہ کی طرف کے ایک کلمہ کی تصدیق کریگا اور سردار اور ہمیشہ کے لئے عورتوں سے بچنے والا اور نبی ہمارے خاصوں میں سے۔(پ3،اٰل عمران:37تا39)
درسِ ہدایت:۔اس واقعہ سے مندرجہ ذیل عبرتوں کی تجلی ہوتی ہے جن سے ہر مسلمان کو سبق حاصل کرنا بہت ضروری ہے:۔"
"واقعہ مذکورہ سے معلوم ہوا کہ حضرت مریم رضی اللہ عنہاصاحب ِ کرامت اور مرتبہ ولایت پر فائز ہیں کیونکہ خداکی طرف سے ان کی محراب میں پھل آتے تھے اور وہ بھی جاڑوں کے پھل گرمی میں اور گرمی کے پھل جاڑوں میں۔ یہ ان کی ایک بہت ہی عظیم الشان اور واضح کرامت ہے جو ان کی ولایت کی شاہد عدل ہے۔
عبادت گاہ مقامِ مقبولیت ہے:۔اس واقعہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اللہ والے یا اللہ والیاں جس جگہ عبادت کریں وہ جگہ اس قدر مقدس ہوجاتی ہے کہ وہاں رحمت خداوندی عزوجل کا نزول ہوتا ہے اور وہاں پر دعائیں مقبول ہوا کرتی ہیں جیسا کہ حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا محراب مریم میں مقبول ہوئی۔ حالانکہ وہ اس سے پہلے بیت المقدس میں بار بار یہ دعا مانگ چکے تھے مگر ان کی مراد پوری نہیں ہوئی تھی۔
قبروں کے پاس دعا:۔جہاں اللہ کے مقبول بندے اور مقبول بندیاں چند دن بیٹھ کر عبادت کریں جب ان جگہوں پر دعائیں مقبول ہوتی ہیں تو ان مقبولان بارگاہِ الٰہی کی قبروں کے پاس جہاں ان بزرگوں کا پورا جسم برسہا برس تک رہا ہے، وہاں بھی ضرور دعائیں مقبول"
ہوں گی۔ چنانچہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ جب کسی مسئلہ کا حل میرے لئے مشکل ہوجاتا تھا تو میں بغداد جا کر حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی قبر مبارک کے پاس بیٹھ کر اپنے اور خدا کے درمیان امام ممدوح کی مبارک قبر کو وسیلہ بنا کر دعا مانگتا تھا تو میری مراد بر آتی تھی اور مسئلہ حل ہوجایا کرتا تھا۔
(الخیرات الحسان، الفصل الخامس والثلاثون فی نادب الائمہ معہ فی مماتہ الخ، ص ۲۳۰)
(اس قسم کے واقعات کے لئے پڑھیئے ہماری کتاب اولیاء رجال الحدیث و روحانی حکایات)
یہ ایک مقدس پتھر ہے جو کعبہ معظمہ سے چند گز کی دوری پر رکھا ہوا ہے۔ یہ وہی پتھر ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کعبہ مکرمہ کی تعمیر فرما رہے تھے تو جب دیواریں سر سے اونچی ہو گئیں تو اسی پتھر پر کھڑے ہو کر آپ نے کعبہ معظمہ کی دیواروں کو مکمل فرمایا۔ یہ آپ کا معجزہ تھا کہ یہ پتھر موم کی طرح نرم ہو گیا اور آپ کے دونوں مقدس قدموں کا اس پتھر پر بہت گہرا نشان پڑ گیا۔ آپ کے قدموں کے مبارک نشان کی بدولت اس مبارک پتھر کی فضیلت و عظمت میں اس طرح چار چاند لگ گئے کہ خداوند قدوس نے اپنی کتاب مقدس قرآن مجید میں دو جگہ اس کی عظمت کا خطبہ ارشاد فرمایا۔ ایک جگہ تو یہ ارشاد فرمایا کہ
فِیْہِ اٰیٰتٌ بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰھِیْمَ
(پ،۴، آل عمران:۹۷) یعنی کعبہ مکرمہ میں خدا کی بہت سی روشن اور کھلی ہوئی نشانیاں ہیں اور ان نشانیوں میں سے ایک بڑی نشانی ''مقام ابراہیم'' ہے اور دوسری جگہ اس پتھر کی عظمت کا اعلان کرتے ہوئے یہ فرمایا کہ:
وَ اتَّخِذُوۡا مِنۡ مَّقَامِ اِبْرٰہٖمَ مُصَلًّی ؕ
ترجمہ کنزالایمان:۔اور ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کا مقام بناؤ۔ (پ1،البقرۃ:125)
" چار ہزار برس کے طویل زمانے سے اس بابرکت پتھر پر حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے مبارک قدموں کے نشان موجود ہیں۔ اس طویل مدت سے یہ پتھر کھلے آسمان کے نیچے زمین پر رکھا ہوا ہے۔ اس پر چار ہزار برساتیں گزر گئیں، ہزاروں آندھیوں کے جھونکے اس سے ٹکرائے بارہا حرم کعبہ میں پہاڑی نالوں سے برسات میں سیلاب آیا اور یہ مقدس پتھر سیلاب کے تیز دھاروں میں ڈوبا رہا، کروڑوں انسانوں نے اس پر ہاتھ پھیرا مگر اس کے باوجود آج تک حضرت خلیل علیہ السلام کے جلیل القدر قدموں کے نشان اس پتھر پر باقی ہیں جو بلاشبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ایک بہت ہی بڑا اور نہایت ہی معظم معجزہ ہے۔ اور یقینا یہ پتھر خداوند قدوس کی آیات بینات اور کھلی ہوئی روشن نشانیوں میں سے ایک بہت بڑا نشان ہے۔ اور اس کی شان کا یہ عظیم الشان نشان ہر مسلمان کے لئے بہت بڑی عبرت کا سامان ہے کہ خداوند قدوس نے تمام مسلمانوں کو یہ حکم دیا کہ تم لوگ میرے مقدس گھر خانہ کعبہ کے طواف کے بعد اسی پتھر کے پاس دو رکعت نماز ادا کرو۔ تم لوگ نماز تو میرے لئے پڑھو اور سجدہ میرا ادا کرولیکن مجھے یہ محبوب ہے کہ سجدوں کے وقت تمہاری پیشانیاں اس مقدس پتھر کے پاس زمین پر لگیں کہ جس پتھر پر میرے خلیل جلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کا نشان بنا ہوا ہے۔
درس ہدایت:۔مسلمانو!مقام ابراہیم کی عظمت شان سے یہ سبق ملتا ہے کہ جس جگہ اللہ کے مقدس بندوں کا کوئی نشان موجود ہو وہ جگہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت زیادہ عزت و عظمت والی ہے اور اس جگہ خدا کی عبادت خدا کے نزدیک بہت ہی بہتر اور محبوب تر ہے۔
اب غور کرو کہ مقام ابراہیم جب حضرت خلیل اللہ علیہ السلام کے قدموں کے نشان کی وجہ سے اتنا معظم و مکرم ہو گیا تو خدا کے محبوب اکرم اور حبیب معظم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر انور کی عظمت و بزرگی اور اس کے تقدس و شرف کا کیا عالم ہو گا کہ جہاں حبیب خدا صلی اللہ علیہ وسلم"
کا صرف نشان ہی نہیں بلکہ خدا کے محبوب اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پورا جسم انور موجود ہے اور اس زمین کا ذرہ ذرہ انوار نبوت کی تجلیوں سے رشک آفتاب و غیرتِ ماہتاب بنا ہوا ہے۔ مسلمانو! کاش قرآن مجید کی یہ آیتیں لوگوں کی آنکھوں میں ایمانی بصیرت کا نور پیدا کریں تاکہ لوگ قبر انور کی تعظیم و تکریم کر کے دونوں جہاں میں مکرم و معظم بن جائیں اور اس کی توہین و بے ادبی کر کے شیطان کے پنجہ گمراہی میں گرفتار نہ ہوں اور جہنم کے عذاب مُھِیْن میں نہ پڑجائیں اور کاش ان چمکتی ہوئی آیات بینات سے نجدیوں اور وہابیوں کو عبرت حاصل ہو جو حضور علیہ الصلوٰۃو السلام کی قبر منور کو مٹی کا ڈھیر کہہ کر اس کی توہین و بے ادبی کرتے رہتے ہیں اور گنبد ِ خضراء کو منہدم کرنے اور گرا کر مسمار کردینے اور نشان قبر مٹا دینے کا پلان بناتے رہتے ہیں
(نعوذباللہ منہ)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کے سامنے اپنی نبوت اور معجزات کا اعلان کرتے ہوئے یہ تقریر فرمائی۔ جو قرآن مجید کی سورہ آلِ عمران میں ہے:۔
وَرَسُوۡلًا اِلٰی بَنِیۡۤ اِسْرَآءِیۡلَ ۬ۙ اَنِّیۡ قَدْ جِئْتُکُمۡ بِاٰیَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمْ ۙ اَنِّیۡۤ اَخْلُقُ لَکُمۡ مِّنَ الطِّیۡنِ کَہَیۡئَۃِ الطَّیۡرِ فَاَنۡفُخُ فِیۡہِ فَیَکُوۡنُ طَیۡرًۢا بِاِذْنِ اللہِ ۚ وَاُبْرِیُٔ الۡاَکْمَہَ وَالۡاَبْرَصَ وَاُحۡیِ الْمَوْتٰی بِاِذْنِ اللہِ ۚ وَاُنَبِّئُکُمۡ بِمَا تَاۡکُلُوۡنَ وَمَا تَدَّخِرُوۡنَ ۙ فِیۡ بُیُوۡتِکُمْ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لَّکُمْ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤْمِنِیۡنَ ﴿ۚ49﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔اور رسول ہو گا بنی اسرائیل کی طرف یہ فرماتا ہوا کہ میں تمہارے پاس ایک نشانی لایا ہوں تمہارے رب کی طرف سے کہ میں تمہارے لئے مٹی سے پرند کی سی مورت بناتا ہوں پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ فوراً پرند ہوجاتی ہے اللہ کے حکم سے، اور میں شفا دیتا ہوں مادر زاد اندھے اور سپید داغ والے کو، اور میں مردے جلاتا ہوں اللہ کے حکم سے، اور
"تمہیں بتاتا ہوں جو تم کھاتے اور جو اپنے گھروں میں جمع کر رکھتے ہو۔ بے شک ان باتوں میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو۔ (پ3،آل عمران:49)
اس تقریر میں آپ نے اپنے چار معجزات کا اعلان فرمایا:۔
(۱)مٹی کے پرند بنا کر ان میں پھونک مار کر ان کو اڑا دینا۔
(۲)مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو شفا دینا۔
(۳)مردوں کو زندہ کرنا۔
(۴)اور جو کچھ کھایا اور جو کچھ گھروں میں چھپا کر رکھا اس کی خبر دینا۔
اب ان معجزات کی کچھ تفصیل بھی پڑھ لیجئے:۔"
جب بنی اسرائیل نے یہ معجزہ طلب کیا کہ مٹی کا پرند بنا کر اڑا دیں تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے مٹی کے چمگادڑ بنا کر ان کو اڑا دیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے پرندوں میں سے چمگادڑ کو اس لئے منتخب فرمایا کہ پرندوں میں سب سے بڑھ کر مکمل اور عجیب و غریب یہی پرندہ ہے کیونکہ اس کے آدمی کی طرح دانت بھی ہوتے ہیں اور یہ آدمی کی طرح ہنستا بھی ہے اور یہ بغیر پر کے اپنے بازوؤں سے اڑتا ہے اور یہ پرندہ جانوروں کی طرح بچہ جنتا ہے اور اس کو حیض بھی آتا ہے۔روایت ہے کہ جب تک بنی اسرائیل دیکھتے رہتے یہ چمگادڑ اڑتے رہتے اور اگر ان کی نظروں سے اوجھل ہوجاتے تو گر کر مرجاتے تھے۔ ایسا اس لئے ہوتا تھا تاکہ خدا کے پیدا کئے ہوئے اور بندئہ خدا کے پیدا کئے پرند میں فرق اور امتیاز باقی رہے۔
(روح البیان،ج۲،ص۳۷،پ۳، آل عمران:۴۹)
مادر زاد اندھوں کو شفا دینا:۔ روایت ہے کہ ایک دن میں پچاس اندھوں اور کوڑھیوں کو آپ کی دعا سے اس شرط پر شفاء حاصل ہوئی کہ وہ ایمان لائیں گے۔
(تفسیر جمل،ج۱،ص۴۱۹،پ۳،آل عمران ۴۹)
"مردوں کو زندہ کرنا:۔روایت ہے کہ آپ نے چار مردوں کو زندہ فرمایا:۔
(۱)عاذر اپنے دوست کو۔ (۲)ایک بڑھیا کے لڑکے کو۔
(۳)ایک عُشر وصول کرنے والے کی لڑکی کو۔ (۴)حضرت سام بن نوح علیہ السلام کو۔
عاذر:۔یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ایک مخلص دوست تھے جب ان کا انتقال ہونے لگا تو ان کی بہن نے آپ کے پاس قاصد بھیجا کہ آپ کا دوست مررہا ہے۔ اس وقت آپ اپنے دوست سے تین دن کی دوری کی مسافت پر تھے۔ عاذر کے انتقال و دفن کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام وہاں پہنچے اور عاذر کی قبر کے پاس تشریف لے گئے اور عاذر کو پکارا تو وہ زندہ ہو کر اپنی قبر سے باہر نکل آئے اور برسوں زندہ رہے اور صاحب ِ اولاد بھی ہوئے۔
بڑھیا کا بیٹا:۔یہ مرگیا تھا اور لوگ اس کا جنازہ اٹھا کر اس کو دفن کرنے کے لئے جا رہے تھے۔ ناگہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ادھر سے گزر ہوا تو وہ آپ کی دعا سے زندہ ہو کر جنازہ سے اٹھ بیٹھا اور کپڑا پہن کر اپنے جنازہ کی چارپائی اٹھائے ہوئے اپنے گھر آیا اور مدتوں زندہ رہا اور اس کی اولاد بھی ہوئی۔
عاشر کی بیٹی:۔ایک چنگی وصول کرنے والے کی لڑکی مرگئی تھی۔ اس کی موت کے ایک دن بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعا سے زندہ ہو گئی اور بہت دنوں تک زندہ رہی اور اس کے کئی بچے بھی ہوئے۔"
اوپر کے تینوں مردوں کو آپ نے زندہ فرمایا تو بنی اسرائیل کے شریروں نے کہا کہ یہ تینوں درحقیقت مرے ہوئے نہیں تھے بلکہ ان تینوں پر سکتہ طاری تھا اس لئے وہ ہوش میں آگئے لہٰذا آپ کسی پرانے مردہ کو زندہ کر کے ہمیں دکھایئے تو آپ نے فرمایا کہ حضرت سام بن نوح علیہ السلام کو وفات پائے ہوئے چار ہزار برس کا زمانہ گزر گیا۔ تم لوگ مجھے ان کی قبر پر لے چلو میں ان کو خدا کے حکم سے زندہ کردیتا ہوں تو آپ نے ان کی قبر
"کے پاس جا کر اسم اعظم پڑھا تو فوراً ہی حضرت سام بن نوح علیہ السلام قبر سے زندہ ہو کر نکل آئے اور گھبرائے ہوئے پوچھا کہ قیامت قائم ہو گئی؟ پھر وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے پھر تھوڑی دیر بعد ان کا انتقال ہو گیا۔
جو کھایا اور چھپایا اس کو بتا دیا:۔حدیث شریف میں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے مکتب میں بنی اسرائیل کے بچوں کو ان کے ماں باپ جو کچھ کھاتے اور جو کچھ گھروں میں چھپا کر رکھتے وہ سب بتا دیا کرتے تھے۔ جب والدین نے بچوں سے دریافت کیا کہ تمہیں ان باتوں کی کیسے خبر ہوتی ہے؟ تو بچوں نے بتا دیا کہ ہم کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام مکتب میں بتا دیتے ہیں۔ یہ سن کر ماں باپ نے بچوں کو مکتب جانے سے روک دیا اور کہا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جادوگر ہیں۔ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام بچوں کی تلاش میں بستی کے اندر داخل ہوئے تو بنی اسرائیل نے اپنے بچوں کو ایک مکان کے اندر چھپا دیا کہ بچے یہاں نہیں ہیں آپ نے پوچھا کہ گھر میں کون ہیں؟ تو شریروں نے کہہ دیا کہ گھر میں سوّر بند ہیں۔ تو آپ نے فرمایا کہ اچھا سوّر ہی ہوں گے۔ چنانچہ لوگوں نے اس کے بعد مکان کا دروازہ کھولا تو مکان میں سے سوّر ہی نکلے۔ اس بات کا بنی اسرائیل میں چرچا ہو گیا اور بنی اسرائیل نے غیض و غضب میں بھر کر آپ کے قتل کا منصوبہ بنالیا۔ یہ دیکھ کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ حضرت بی بی مریم رضی اللہ عنہا آپ کو ساتھ لے کر مصر کو ہجرت کر گئیں۔ اس طرح آپ شریروں کے شر سے محفوظ رہے۔"
(تفسیر جمل علی الجلالین،ص۴۱۹،پ۳، آل عمران ۴۹)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جب یہودیوں کے سامنے اپنی نبوت کا اعلان فرمایا تو چونکہ یہودی توراۃ میں پڑھ چکے تھے کہ حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام ان کے دین کو منسوخ کردیں گے۔ اس لئے یہودی آپ کے دشمن ہو گئے۔ یہاں تک کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے
یہ محسوس فرمالیا کہ یہودی اپنے کفر پر اڑے رہیں گے اور وہ مجھے قتل کردیں گے تو ایک دن آپ نے لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ
مَنْ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللہِ ؕ
یعنی کون میرے مددگار ہوتے ہیں اللہ کے دین کی طرف۔ بارہ یا اُنیس حواریوں نے یہ کہا کہ
نَحْنُ اَنۡصَارُ اللہِ ۚ اٰمَنَّا بِاللہِ ۚ وَاشْہَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوۡنَ ﴿۵۲﴾
"یعنی ہم خدا کے دین کے مددگار ہیں۔ ہم اللہ پر ایمان لائے اور آپ گواہ ہوجائیں کہ ہم مسلمان ہیں۔
باقی تمام یہودی اپنے کفر پر جمے رہے یہاں تک کہ جوش عداوت میں ان یہودیوں نے آپ کے قتل کا منصوبہ بنالیا اور ایک شخص کو یہودیوں نے جس کا نام ''ططیانوس'' تھا آپ کے مکان میں آپ کو قتل کردینے کے لئے بھیجا۔ اتنے میں اچانک اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو ایک بدلی کے ساتھ بھیجا اور اس بدلی نے آپ کو آسمان کی طرف اٹھالیا۔ آپ کی والدہ جوشِ محبت میں آپ کے ساتھ چمٹ گئیں تو آپ نے فرمایا کہ اماں جان! اب قیامت کے دن ہماری اور آپ کی ملاقات ہو گی اور بدلی نے آپ کو آسمان پر پہنچا دیا۔ یہ واقعہ بیت المقدس میں شب قدر کی مبارک رات میں وقوع پذیر ہوا۔ اس وقت آپ کی عمر شریف بقول علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ ۳۳ برس کی تھی اور بقول علامہ زرقانی شارح مواہب ،اس وقت آپ کی عمر شریف ایک سو بیس برس کی تھی اور حضرت علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ نے بھی آخر میں اسی قول کی طرف رجوع فرمایا ہے۔"
" (تفسیر جمل علی الجلالین،ج۱،ص۴۲۷،پ۳، آل عمران:۵۷)"
''ططیانوس''جب بہت دیر مکان سے باہر نہیں نکلا تو یہودیوں نے مکان میں گھس کر دیکھا تو اللہ تعالیٰ نے ''ططیانوس''کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شکل کا بنا دیا یہودیوں نے ''ططیانوس''کو حضرت عیسیٰ سمجھ کر قتل کردیا۔ اس کے بعد جب ططیانوس کے گھر والوں نے غور سے دیکھا تو صرف چہرہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تھا باقی سارا بدن ططیانوس ہی کا تھا تو اس
کے اہل خاندان نے کہا کہ اگر یہ مقتول حضرت عیسیٰ ہیں تو ہمارا آدمی ططیانوس کہاں ہے؟ اور اگر یہ ططیانوس ہے تو حضرت عیسیٰ کہاں گئے؟ اس پر خود یہودیوں میں جنگ و جدال کی نوبت آگئی اور خود یہودیوں نے ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کردیا اور بہت سے یہودی قتل ہو گئے۔ خداوند قدوس نے قرآن مجید میں اس واقعہ کو اس طرح بیان فرمایا کہ:۔
وَمَکَرُوۡا وَمَکَرَ اللہُ ؕ وَاللہُ خَیۡرُ الْمٰکِرِیۡنَ ﴿٪54﴾اِذْ قَالَ اللہُ یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَمُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَجَاعِلُ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡکَ فَوْقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ۚ ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاَحْکُمُ بَیۡنَکُمْ فِیۡمَا کُنۡتُمْ فِیۡہِ تَخْتَلِفُوۡنَ ﴿55﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔اور کافروں نے مکر کیا اوراللہ نے ان کے ہلاک کی خفیہ تدبیر فرمائی اور اللہ سب سے بہتر چھپی تدبیر والا ہے یاد کرو جب اللہ نے فرمایا اے عیسیٰ میں تجھے پوری عمر تک پہنچاؤں گا اور تجھے اپنی طرف اٹھالوں گا اور تجھے کافروں سے پاک کر دوں گا اور تیرے پیروؤں کو قیامت تک تیرے منکروں پر غلبہ دوں گا پھر تم سب میری طرف پلٹ کر آؤ گے تو میں تم میں فیصلہ فرما دوں گا جس بات میں جھگڑتے ہو۔ (پ3،آل عمران:54،55)
آپ کے آسمان پر چلے جانے کے بعد حضرت مریم رضی اللہ عنہا نے چھ برس دنیا میں رہ کر وفات پائی"
(بخاری و مسلم)
کی روایت ہے کہ قربِ قیامت کے وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام زمین پر اتریں گے اور نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پر عمل کریں گے اور دجال و خنزیر کو قتل فرمائیں گے اور صلیب کو توڑیں گے اور سات برس تک دنیا میں عدل فرما کر وفات پائیں گے اور مدینہ منورہ میں گنبد ِ خضراء کے اندر مدفون ہوں گے۔
(تفسیر جمل علی الجلالین،ج۱،ص۴۲۷،پ۳، آل عمران:۵۷)
اور قرآن مجید میں عیسائیوں کا رد کرتے ہوئے یہ بھی نازل ہوا کہ
وَمَا قَتَلُوۡہُ یَقِیۡنًاۢ ﴿157﴾ۙبَلۡ رَّفَعَہُ اللہُ اِلَیۡہِ ؕ وَکَانَ اللہُ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا ﴿158﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔اور بیشک انہوں نے اس کو قتل نہ کیا بلکہ اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔ (پ6،النساء:157،158)
اور اس سے اوپر والی آیت میں ہے کہ:۔"
وَمَا قَتَلُوۡہُ وَمَا صَلَبُوۡہُ وَلٰکِنۡ شُبِّہَ لَہُمْ ؕ
"ترجمہ کنزالایمان:۔ انہوں نے نہ اسے قتل کیااور نہ اسے سولی دی بلکہ ان کے لئے اس کی شبیہ کا ایک بنا دیا گیا۔ (پ6،النساء:157)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام یہودیوں کے ہاتھوں مقتول نہیں ہوئے اور اللہ نے آپ کو آسمانوں پر اٹھا لیا، جو یہ عقیدہ رکھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قتل ہو گئے اور سولی پر چڑھائے گئے جیسا کہ نصاریٰ کا عقیدہ ہے تو وہ شخص کافر ہے کیونکہ قرآن مجید میں صاف صاف مذکور ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نہ مقتول ہوئے نہ سولی پر لٹکائے گئے۔"
"نجران (یمن)کے نصرانیوں کا ایک وفد مدینہ منورہ آیا۔ یہ چودہ آدمیوں کی جماعت تھی جو سب کے سب نجران کے اشراف تھے اور اس وفد کی قیادت کرنے والے تین شخص تھے :۔
(۱) ابو حارثہ بن علقمہ جو عیسائیوں کا پوپ اعظم تھا۔
(۲) اُہیب جو ان لوگوں کا سردار اعظم تھا ۔
(۳) عبدالمسیح جو سردار اعظم کا نائب تھا اور ''عاقب''کہلاتا تھا۔
یہ سب نمائندے نہایت قیمتی اور نفیس لباس پہن کر عصر کے بعد مسجد نبوی میں داخل ہوئے اور اپنے قبلہ کی طرف منہ کر کے اپنی نماز ادا کی۔ پھر ابو حارثہ اور ایک دوسرا شخص دونوں"
"حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ نے نہایت کریمانہ لہجے میں ان دونوں سے گفتگو فرمائی۔ اور حسب ذیل مکالمہ ہوا!
نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم:تم لوگ اسلام قبول کر کے اللہ تعالیٰ کے فرماں بردار بن جاؤ۔
ابو حارثہ : ہم لوگ پہلے ہی سے اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار ہوچکے ہیں۔
نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم:تم لوگوں کا یہ کہنا صحیح نہیں کیونکہ تم لوگ صلیب کی پرستش کرتے ہو اور اللہ کے لئے بیٹا بتاتے ہو، اور خنزیر کھاتے ہو۔
ابو حارثہ :آپ لوگ ہمارے پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو گالیاں کیوں دیتے ہو؟
نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم:ہم لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کیا کہتے ہیں
ابو حارثہ : آپ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بندہ کہتے ہیں حالانکہ وہ خدا کے بیٹے ہیں۔
نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم:ہاں!ہم یہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور وہ کلمۃ اللہ جو کنواری مریم کے شکم سے بغیر باپ کے اللہ تعالیٰ کے حکم
سے پیدا ہوئے۔
ابو حارثہ :کیا کوئی انسان بغیر باپ کے پیدا ہوسکتا ہے؟ جب آپ لوگ یہ مانتے ہیں کہ
کوئی انسان حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا باپ نہیں تو پھر آپ لوگوں کو یہ ماننا پڑے
گا کہ اُن کا باپ اللہ تعالیٰ ہے۔
نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم:اگر کسی کا با پ کوئی انسان نہ ہو تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کا باپ خدا ہی ہو۔ خداوند تعالیٰ اگر چاہے تو بغیر باپ کے بھی آدمی پیدا ہو سکتا ہے۔
دیکھوحضرت آدم علیہ السلام کو تو بغیر ماں باپ کے اللہ تعالیٰ نے مٹی سے پیدا
فرما دیا اگر اس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بغیر باپ کے پیدا کردیا تو اس
میں تعجب کی کون سی بات ہے؟"
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس پیغمبرانہ طرزِ استدلال اور حکیمانہ گفتگو سے چاہے تو یہ تھا کہ یہ وفد اپنی نصرانیت کو چھوڑ کر دامنِ اسلام میں آجاتا مگر ان لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جھگڑا شروع کردیا۔ یہاں تک کہ بحث و تکرار کا سلسلہ بہت دراز ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے سورہ آلِ عمران کی یہ آیت نازل فرمائی:۔
(روح البیان،ج۲،ص۴۳،پ۳،آل عمران:۵۹)
فَمَنْ حَآجَّکَ فِیۡہِ مِنۡۢ بَعْدِ مَا جَآءَ کَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَ نَا وَاَبْنَآءَکُمْ وَ نِسَآءَ نَا وَ نِسَآءَکُمْ وَاَنۡفُسَنَا وَاَنۡفُسَکُمْ ۟ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللہِ عَلَی الْکٰذِبِیۡنَ ﴿61﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔پھر اے محبوب جو تم سے عیسیٰ کے بارے میں حجت کریں بعد اس کے کہ تمہیں علم آچکا تو ان سے فرما دو آؤ ہم تم بلائیں اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور اپنی عورتیں اور تمہاری عورتیں اور اپنی جانیں اور تمہاری جانیں پھر مباہلہ کریں تو جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالیں۔ (پ3،آل عمران:61)
قرآن کی اس دعوتِ مباہلہ کو ابو حارثہ نے منظور کرلیا۔ اور طے پایا کہ صبح نکل کر میدان میں مباہلہ کریں گے لیکن جب ابو حارثہ نصرانیوں کے پاس پہنچا تو اس نے اپنے آدمیوں سے کہا کہ اے میری قوم! تم لوگوں نے اچھی طرح جان لیا اور پہچان لیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)نبی آخر الزمان ہیں اور خوب یاد رکھو کہ جو قوم کسی نبی برحق کے ساتھ مباہلہ کرتی ہے اس قوم کے چھوٹے بڑے سب ہلاک ہوجاتے ہیں۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ ان سے صلح کرکے اپنے وطن کو واپس چلے چلو اور ہرگز ہرگز ان سے مباہلہ نہ کرو۔ چنانچہ صبح کو ابو حارثہ جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سامنے آیا تو یہ دیکھا کہ آپ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو گود میں اٹھائے ہوئے اور حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی انگلی تھامے ہوئے ہیں اور حضرت فاطمہ و حضرت علی رضی اللہ عنہما آپ کے پیچھے چل رہے ہیں اور آپ ان لوگوں سے فرما رہے ہیں کہ"
میں جب دعا کروں تو تم لوگ ''آمین''کہنا یہ منظر دیکھ کر ابو حارثہ خوف سے کانپ اٹھا اور کہنے لگا کہ اے گروہ نصاریٰ! میں ایسے چہروں کو دیکھ رہا ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو ان چہروں کی بدولت پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ہٹ کر چل پڑے گا۔ لہٰذا اے میری قوم!ہرگز ہرگز مباہلہ نہ کرو ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے اور روئے زمین پر کہیں بھی کوئی نصرانی باقی نہ رہے گا۔ پھر اس نے کہا کہ اے ابو القاسم! ہم آپ سے مباہلہ نہیں کریں گے اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم اپنے ہی دین پر قائم رہیں۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان لوگوں سے کہا کہ تم لوگ اسلام قبول کرلوتاکہ تم لوگوں کو مسلمانوں کے حقوق حاصل ہوجائیں، نصرانیوں نے اسلام قبول کرنے سے صاف انکار کردیا۔ تو آپ نے فرمایا کہ پھر میرے لئے تمہارے ساتھ جنگ کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ یہ سن کر نصرانیوں نے کہا کہ ہم لوگ عربوں سے جنگ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ لہٰذا ہم اس شرط پر صلح کرتے ہیں کہ آپ ہم سے جنگ نہ کریں اور ہم کو اپنے ہی دین پر قائم رہنے دیں اور ہم بطور جزیہ آپ کو ہر سال ایک ہزار کپڑوں کے جوڑے دیتے رہیں گے۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شرط پر صلح فرمائی اور ان نصرانیوں کے لئے امن و امان کا پروانہ لکھ دیا اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ نجران والوں پر ہلاکت و بربادی آن پہنچی تھی۔ مگر یہ لوگ بچ گئے اگر یہ لوگ مجھ سے مباہلہ کرتے تو مسخ ہو کر بندر اور خنزیر بن جاتے اور ان کی وادی میں ایسی آگ بھڑک اٹھتی کہ نجران کی کل آبادی یہاں تک کہ چرندے اور پرندے جل بھن کر راکھ کا ڈھیر بن جاتے اور رُوئے زمین کے تمام عیسائی سال بھر میں فنا ہوجاتے۔
(روح البیان،ج۲،ص۴۴،پ۳،آل عمران:۶۱)
درسِ ہدایت:۔اس سے معلوم ہوا کہ خدا کے رسولوں کے ساتھ مباہلہ کرنا ہلاکت و بربادی ہے بلکہ انبیاء و اولیاء اور اللہ والوں کا مقابلہ کرنا اور ان لوگوں کی بددعا کا سامنا کرنا، بربادی و ہلاکت ہے بلکہ خدا کے ان محبوب بندوں کی ذرا سی بے ادبی اور دل آزاری بھی انسان کو فنا کے گھاٹ اتار دیتی ہے اور ایسی تباہی و بربادی لاتی ہے جس کا کوئی علاج ہی نہیں۔
چنانچہ منقول ہے کہ حضرت کمال الدین خجندی علیہ الرحمۃ ایک مرتبہ شاعروں کے مجمع میں تشریف لے گئے تو بساطی شاعر نے آپ کو دیکھ کر نہایت ہی بدتمیزی اور بے ہودگی کے انداز میں یہ مصرع بک دیا ؎
" از کجائی از کجائی اے لُوند"
"ترجمہ: تم کہاں سے آئے تم کہاں سے آئے اے بدمعاش!(معاذاللہ)
آپ نے یہ سمجھ کر کہ نشہ میں بک رہا ہے کچھ زیادہ ناراض نہیں ہوئے بلکہ تفریحاً جواب میں ایک مصرع کہہ دیا کہ!"
" از خجندم، از خجندم از خجند"
"ترجمہ: میں خجند سے آیا، میں خجند سے آیا، میں خجند سے آیا
پھر آپ نے مجمع سے مخاطب ہو کر فرمادیا کہ یہ نشہ میں بدمست ہے جو منہ میں آتا ہے کہہ دیتا ہے، اس سے کچھ نہ کہو یہ سن کر بساطی کمینے نے آپ کی ہجو میں ایک شعر یہ کہہ دیا کہ"
" اے ملحد خجندی ریش بزرگ داری
کز غایت بزرگی دہ ریش می تواں گفت"
"ترجمہ:اے ملحد خجندی تو بہت بڑی داڑھی رکھتا ہے کہ اس کی بڑائی کو دیکھ کر اس کو دس داڑھیاں کہہ سکتے ہیں۔ (معاذاللہ)
مجمع عام میں یہ ہجو سن کر آپ کو سخت ناگواری ہوئی اور آپ نے قہر آلود نظروں سے دیکھ کر بددعا دی تو بغیر کسی بیماری کے بساطی شاعر ایک دم مر کر زمین پر گر پڑا اور سب لوگ دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے۔"
(روح البیان،ج۲،ص۴۵،پ۳،آل عمران: ۶۳)
بزرگوں کے مزاج کے خلاف کوئی کام کرنا بھی بڑی بڑی مصیبتوں کا پیش خیمہ ہوا کرتا ہے۔ چنانچہ حضرت خواجہ ابوالحسن ہمدانی کا واقعہ ہے کہ یہ
ایک مرتبہ حضرت خواجہ جعفر خالدی علیہ الرحمۃ کی زیارت کو گئے اور گھر میں یہ کہہ گئے تھے کہ میرے لئے تنور میں مرغی بھون کر تیار رکھی جائے۔ حضرت خواجہ جعفر خالدی علیہ الرحمۃ نے ان کو حکم دیا کہ تم رات میرے یہاں بسر کرو۔ مگر ان کا دل چونکہ مرغی میں لگا ہوا تھا اس لئے کوئی خوبصورت بہانہ کر کے یہ اپنے گھر روانہ ہو گئے۔ حضرت خواجہ جعفر کے دل پر اس کا ملال گزرا۔ اس کی نحوست کا یہ اثر ہوا کہ جب خواجہ ابوالحسن ہمدانی دستر خوان پر مرغی کھانے کے لئے بیٹھے اور ذرا سی غفلت ہوئی تو ایک کتا گھر میں آگیا اور مرغی لے کر بھاگا اور اس کو ایک گندی نالی میں ڈال دیا۔ حضرت خواجہ ابوالحسن ہمدانی جب صبح کو حضرت خواجہ جعفر خالدی کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ان کو دیکھتے ہی فرمایا کہ جو شخص مشائخ کرام کی قلبی خواہش کا احترام نہیں کرتا، اس پر اسی طرح ایک کتا مسلط کردیا جاتا ہے جو اس کو ایذاء دیتا ہے۔ یہ سن کر خواجہ ابوالحسن ہمدانی شرم و ندامت سے پانی پانی ہو گئے۔
(روح البیان،ج۲،ص۴۶،پ۳،آل عمران: ۶۳)
حضرت خواجہ ابو علی دقاق علیہ الرحمۃ کا بیان ہے کہ جب بلخ والوں نے بلاقصور حضرت خواجہ محمد بن فضل قدس سرہ کو شہر بدر کردیا تو آپ نے شہر والوں کو یہ بددعا دی کہ یا اللہ ان لوگوں کوسچائی کی توفیق نہ دے۔ اس کا یہ انجام ہوا کہ برسوں تک اس شہر میں کوئی سچا آدمی باقی نہ رہا اور شہر کا ہر آدمی بلا کا جھوٹا ہو گیا اور یہ جھوٹوں کا شہر کہلانے لگا۔
(روح البیان،ج۲،ص۴۶،پ۳،آل عمران: ۶۳)
بہرحال بزرگوں کو اپنی کسی حرکت سے کبھی ناراض نہیں کرنا چاہے ورنہ ان بزرگوں کے قلب کا ادنیٰ سا غبار قہرِ الٰہی کی آندھی بن کر ،تمہیں ہلاکت و بربادی کے غار میں گرا کر، نیست و نابود کردے گا۔
" خدا کا قہر ہے اُن کی نگاہ کی گردش
گرا جو اُن کی نظر سے سنبھل نہیں سکتا"
"جنگ بدر کفر و اسلام کا مشہور ترین معرکہ ہے۔ ۱۷ رمضان ۲ ھ میں مکہ اور مدینہ کے درمیان مقام ''بدر'' میں یہ جنگ ہوئی۔ اس لڑائی میں تعداد اور اسلحہ کے لحاظ سے مسلمان بہت ہی کمتر اور پست حالی میں تھے۔ مسلمانوں میں بوڑھے، جوان اور بچے اور انصار و مہاجرین کل مل کر تین سو تیرہ مجاہدین اسلام علم نبوی کے زیرِ سایہ کفار کے ایک عظیم لشکر سے نبرد آزما تھے۔ سامانِ جنگ کی قلت کا یہ عالم تھا کہ پوری اسلامی فوج میں چھ زرہیں اور آٹھ تلواریں تھیں۔ اور کفار کا لشکر تقریباً ایک ہزار نہایت ہی جنگجو اور بہادروں پر مشتمل تھا اور ان بہادروں کے ساتھ ایک سو بہترین گھوڑے، سات سو اونٹ اور قسم قسم کے مہلک ہتھیار تھے۔ اس جنگ میں مسلمانوں کی گھبراہٹ اور بے چینی ایک قدرتی بات تھی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات بھر جاگ کر خدا عزوجل سے لو لگائے مصروف دعاتھے کہ
''الٰہی ! اگر یہ چند نفوس ہلاک ہو گئے تو پھر قیامت تک روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والے نہ رہیں گے۔''"
(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، مناشدۃ الرسول ربہ النصر،ج۱، ص ۵۵۴ ،ملخصاً)
دعا مانگتے ہوئے آپ کی چادر مبارک دوشِ انور سے زمین پر گر پڑی اور آپ پر رقت طاری ہو گئی۔ یہاں تک کہ آنسو جاری ہو گئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ کے یار غار تھے۔ آپ کو اس طرح بے قرار دیکھ کر اُن کے دل کا سکون و قرار جاتا رہا۔ انہوں نے چادر مبارک کو اٹھا کر آپ کے مقدس کندھے پر ڈال دیا اور آپ کا دست مبارک تھام کر بھرائی ہوئی آواز میں بڑے ادب کے ساتھ عرض کیا کہ حضور اب بس کیجئے۔ اللہ تعالیٰ ضرور اپنا وعدہ پورا فرمائے گا۔ اپنے یار غار صدیق جاں نثار(رضی اللہ عنہ )کی گزارش مان کر آپ نے دعا ختم کردی اور نہایت اطمینان کے ساتھ پیغمبرانہ لہجے میں یہ فرمایا کہ:۔
سَیُہۡزَمُ الْجَمْعُ وَ یُوَلُّوۡنَ الدُّبُرَ ﴿45﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔اب بھگائی جاتی ہے یہ جماعت اور پیٹھیں پھیر دیں گے۔ (پ27،القمر:45)
صبح کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آیاتِ جہاد کی تلاوت فرما کر ایسا ولولہ انگیز وعظ فرمایا کہ مجاہدین کی رگوں میں خون کا قطرہ قطرہ جوش و خروش کا سمندر بن کر طوفانی موجیں مارنے لگا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بشارت دی کہ اگر صبر کے ساتھ تم مجاہدین میدانِ جنگ میں ڈٹے رہے تو اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کے لئے آسمان سے فرشتوں کی فوج بھیج دے گا۔
چنانچہ پانچ ہزار فرشتوں کی فوج میدانِ جنگ میں اتر پڑی اور دم زدن میں میدانِ جنگ کا نقشہ ہی بدل گیا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مہاجرین کا جھنڈا لہرا رہے تھے اور حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ انصار کے علمبردار تھے۔ کفار کے ستر آدمی قتل ہو گئے۔ اور ستر گرفتار ہوئے باقی اپنا سارا سامان چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ کفار کے مقتولین میں قریش کے بڑے بڑے نامور سردار جو بہادری اور سپہ گری میں یکتائے روزگار تھے۔ ایک ایک کر کے سب موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے۔ یہاں تک کہ کفار قریش کی لشکری طاقت ہی فنا ہو گئی۔ مسلمانوں میں کل چودہ خوش نصیبوں کو شہادت کا شرف ملا جن میں چھ مہاجر اور آٹھ انصار تھے اور مسلمانوں کو بے شمار مالِ غنیمت ملا جو کفار چھوڑ کر فرار ہو گئے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے جنگ بدر اور فرشتوں کی فوج کا تذکرہ قرآن مجید میں ان لفظوں کے ساتھ فرمایا کہ:۔"
وَلَقَدْ نَصَرَکُمُ اللہُ بِبَدْرٍ وَّاَنۡتُمْ اَذِلَّۃٌ ۚ فَاتَّقُوا اللہَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوۡنَ ﴿123﴾اِذْ تَقُوۡلُ لِلْمُؤْمِنِیۡنَ اَلَنۡ یَّکْفِیَکُمْ اَنۡ یُّمِدَّکُمْ رَبُّکُمۡ بِثَلٰثَۃِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ مُنۡزَلِیۡنَ ﴿124﴾ؕبَلٰۤی ۙ اِنۡ تَصْبِرُوۡا وَتَتَّقُوۡا وَیَاۡتُوۡکُمۡ مِّنۡ فَوْرِہِمْ ہٰذَا یُمْدِدْکُمْ رَبُّکُمۡ بِخَمْسَۃِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ مُسَوِّمِیۡنَ ﴿125﴾وَمَا جَعَلَہُ اللہُ اِلَّا بُشْرٰی لَکُمْ وَلِتَطْمَئِنَّ قُلُوۡبُکُمۡ بِہٖ ؕ وَمَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنۡدِ اللہِ الْعَزِیۡزِ الْحَکِیۡمِ ﴿126﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔اور بیشک اللہ نے بدر میں تمہاری مدد کی جب تم بالکل بے سروسامان تھے۔ تو اللہ سے ڈروکہ کہیں تم شکر گزار ہو جب اے محبوب تم مسلمانوں سے فرماتے تھے کیا تمہیں یہ کافی نہیں کہ تمہارا رب تمہاری مدد کرے تین ہزار فرشتے اتار کر ہاں کیوں نہیں اگر تم صبر و تقویٰ کرو اور کافر اسی دم تم پر آپڑیں تو تمہارا رب تمہاری مدد کو پانچ ہزار فرشتے نشان والے بھیجے گا اور یہ فتح اللہ نے نہ کی مگر تمہاری خوشی کے لئے اور اسی لئے کہ اس سے تمہارے دلوں کو چین ملے اور مدد نہیں مگر اللہ غالب حکمت والے کے پاس سے۔ (پ4،آل عمران:123تا126)
جنگ بدر میں مسلمانوں کی تعداد اور سامانِ جنگ کی قلت کے باوجود فتح مبین نے مسلمانوں کے قدموں کا بوسہ لیا۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ فتح کثرتِ تعداد اور سامانِ جنگ کی فراوانی پر موقوف نہیں۔ بلکہ فتح کا دارومدار نصرتِ خداوندی پر ہے کہ وہ جب چاہتا ہے تو فرشتوں کی فوج آسمان سے میدانِ جنگ میں اتار کر مسلمانوں کی امداد و نصرت فرما دیتا ہے اور مسلمان قلتِ تعداد اور سامانِ جنگ نہ ہونے کے باوجود فتح مند ہو کر کفار کے لشکروں کو تہس نہس کر کے فنا کے گھاٹ اتار دیتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے دو شرطیں رکھی ہیں، ایک صبر اور دوسرا تقویٰ۔ اگر مسلمان صبر و تقویٰ کے دامن کو تھامے ہوئے خدا کی مدد پر بھروسہ کر کے جنگ میں اَڑ جائیں تو ان شاء اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر محاذ پر فتح مبین مسلمانوں کے قدم چومے گی اور کفار شکست کھا کر راہ فرار اختیار کریں گے یا مسلمانوں کی مار سے فنا ہو کر فی النار ہوجائیں گے۔ بس ضرورت ہے کہ مسلمان صبر و تقویٰ کے ہتھیاروں سے لیس ہو کر خدا کی مدد کا بھروسہ کر کے کفار کے حملوں کا مقابلہ کرنے کے لئے میدانِ جنگ میں استقامت کا پہاڑ بن کر کھڑے رہیں اور ہرگز ہرگز تعداد کی کمی اور سامانِ جنگ کی قلت و کثرت کی پرواہ نہ کریں کیونکہ فرمانِ خداوندی ہے کہ
وَمَا النَّصْرُ اِلاَّ مِنْ عِنْدِ اللہِ
کہ مدد فرمانے والا تو بس اللہ ہی ہے۔
سچ کہا ہے کہنے والے نے ؎
" کافر ہو تو تلوار پہ کرتا ہے بھروسا
مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی"
"روئے زمین پر سب سے پہلا قاتل قابیل اور سب سے پہلا مقتول ہابیل ہے ''قابیل و ہابیل'' یہ دونوں حضرت آدم علیہ السلام کے فرزند ہیں۔ ان دونوں کا واقعہ یہ ہے کہ حضرت حواء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہر حمل میں ایک لڑکا اور ایک لڑکی پیدا ہوتے تھے۔ اور ایک حمل کے لڑکے کا دوسرے حمل کی لڑکی سے نکاح کیا جاتا تھا۔ اس دستور کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام نے قابیل کا نکاح ''لیوذا'' سے جو ہابیل کے ساتھ پیدا ہوئی تھی کرنا چاہا۔ مگر قابیل اس پر راضی نہ ہوا کیونکہ اقلیما زیادہ خوبصورت تھی اس لئے وہ اس کا طلب گار ہوا۔
حضرت آدم علیہ السلام نے اس کو سمجھایا کہ اقلیما تیرے ساتھ پیدا ہوئی ہے۔ اس لئے وہ تیری بہن ہے۔ اس کے ساتھ تیرا نکاح نہیں ہو سکتا۔ مگر قابیل اپنی ضد پر اڑا رہا۔ بالآخر حضرت آدم علیہ السلام نے یہ حکم دیا کہ تم دونوں اپنی اپنی قربانیاں خداوند قدوس عزوجل کے دربار میں پیش کرو۔ جس کی قربانی مقبول ہو گی وہی اقلیما کا حق دار ہو گا۔ اس زمانے میں قربانی کی مقبولیت کی یہ نشانی تھی کہ آسمان سے ایک آگ اتر کر اس کو کھالیا کرتی تھی۔ چنانچہ قابیل نے گیہوں کی کچھ بالیں اور ہابیل نے ایک بکری قربانی کے لئے پیش کی۔ آسمانی آگ نے ہابیل کی قربانی کو کھالیا اور قابیل کے گیہوں کو چھوڑ دیا۔ اس بات پر قابیل کے دل میں بغض و حسد پیدا ہو گیا اور اس نے ہابیل کو قتل کردینے کی ٹھان لی اور ہابیل سے کہہ دیا کہ میں تجھ کو قتل کردوں گا۔ ہابیل نے کہا کہ قربانی قبول کرنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے اور وہ متقی بندوں ہی کی قربانی قبول کرتا ہے۔ اگر تو متقی ہوتا تو ضرور تیری قربانی قبول ہوتی۔ ساتھ ہی ہابیل نے یہ بھی کہہ دیا"
کہ اگر تو میرے قتل کے لئے ہاتھ بڑھائے گا تو میں تجھ پر اپنا ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا کیونکہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ میرا اور تیرا گناہ دونوں تیرے ہی پلے پڑیں اور تو دوزخی ہوجائے کیونکہ بے انصافوں کی یہی سزا ہے۔ آخر قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کردیا۔ بوقت قتل ہابیل کی عمر بیس برس کی تھی اور قتل کا یہ حادثہ مکہ مکرمہ میں جبل ثور کے پاس یا جبل حرا کی گھاٹی میں ہوا۔ اور بعض کا قول ہے کہ بصرہ میں جس جگہ مسجد ِ اعظم بنی ہوئی ہے منگل کے دن یہ سانحہ ہوا۔
(واللہ تعالیٰ اعلم)
روایت ہے کہ جب ہابیل قتل ہو گئے تو سات دنوں تک زمین میں زلزلہ رہا۔ اور وحوش و طیور اور درندوں میں اضطراب اور بے چینی پھیل گئی اور قابیل جو بہت ہی گورا اور خوبصورت تھا بھائی کا خون بہاتے ہی اس کا چہرہ بالکل کالا اور بدصورت ہو گیا۔ اور حضرت آدم علیہ السلام کو بے حد رنج و قلق ہوا۔ یہاں تک کہ ہابیل کے رنج و غم میں ایک سو برس تک کبھی آپ کو ہنسی نہیں آئی۔ اور سریانی زبان میں آپ نے ہابیل کا مرثیہ کہا جس کا عربی اشعار میں ترجمہ یہ ہے ؎
" تَغَیَّرَتِ الْبِلاَدُ وَمَنْ عَلَیْھَا فَوَجْہُ الْاَرْضِ مُغْبَرٌ قَبِیْح،
تَغَیَّرَ کُلُّ ذِیْ لَوْنٍ وَطَعْمٍ وَقَلَّ بَشَاشَۃُ الْوَجْہِ الصَّبِیْح،"
"ترجمہ: تمام شہروں اور اُن کے باشندوں میں تغیر پیدا ہو گیا اور زمین کا چہرہ غبار آلود اور قبیح ہو گیا۔ ہر رنگ اور مزہ والی چیز بدل گئی اور گورے چہرے کی رونق کم ہو گئی۔
حضرت آدم علیہ السلام نے شدید غضب ناک ہو کر قابیل کو پھٹکار کر اپنے دربار سے نکال دیا اور وہ بدنصیب اقلیما کو ساتھ لے کر یمن کی سرزمین ''عدن''میں چلا گیا۔ وہاں ابلیس اس کے پاس آکر کہنے لگا کہ ہابیل کی قربانی کو آگ نے اس لئے کھا لیا کہ وہ آگ کی پوجا کیا کرتا تھا لہٰذا تو بھی ایک آگ کا مندر بنا کر آگ کی پرستش کیا کر۔ چنانچہ قابیل پہلا وہ شخص ہے جس نے آگ کی عبادت کی۔ اور یہ روئے زمین پر پہلا شخص ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی"
اور سب سے پہلے زمین پر خون ناحق کیا اور یہ پہلا وہ مجرم ہے جو جہنم میں سب سے پہلے ڈالا جائے گا اور حدیث شریف میں ہے کہ روئے زمین پر قیامت تک جو بھی خون ناحق ہو گا قابیل اس میں حصہ دار ہو گا کیونکہ اسی نے سب سے پہلے قتل کا دستور نکالا اور قابیل کا انجام یہ ہوا کہ اس کے ایک لڑکے نے جو کہ اندھا تھا اس کو ایک پتھر مار کر قتل کردیا اور یہ بدبخت نبی زادہ ہونے کے باوجود آگ کی پرستش کرتے ہوئے کفر و شرک کی حالت میں اپنے لڑکے کے ہاتھ سے مارا گیا۔
( روح البیان،ج۲،ص۳۷۹،پ۶،المائدۃ: ۲۷ تا ۳۰)
ہابیل کے قتل ہوجانے کے پانچ برس بعد حضرت شیث علیہ السلام پیدا ہوئے جب کہ حضرت آدم علیہ السلام کی عمر شریف ایک سو تیس برس کی ہوچکی تھی۔ آپ نے اپنے اس ہونہار فرزند کا نام ''شیث''رکھا۔ یہ سریانی زبان کا لفظ ہے اور عربی میں اس کے معنی ''ھبۃ اللہ'' یعنی ''اللہ کا عطیہ''ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام نے پچاس صحیفے جو آپ پر نازل ہوئے تھے ان سب کی حضرت شیث علیہ السلام کو تعلیم دی اور ان کو اپنا وصی و خلیفہ اور سجادہ نشین بنایا۔ اور ان کی نسل میں خیر و برکت ہونے کی دعائیں مانگیں۔ ہمارے حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم ان ہی حضرت شیث علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔
" (روح البیان،ج۲،ص۳۷۶،پ۶،المائدۃ: ۳۰)"
اس واقعہ کو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اس طرح بیان فرمایا ہے کہ:۔
وَاتْلُ عَلَیۡہِمْ نَبَاَ ابْنَیۡ اٰدَمَ بِالْحَقِّ ۘ اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنۡ اَحَدِہِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الۡاٰخَرِ ؕ قَالَ لَاَقْتُلَنَّکَ ؕ قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللہُ مِنَ الْمُتَّقِیۡنَ ﴿27﴾لَئِنۡۢ بَسَطۡتَّ اِلَیَّ یَدَکَ لِتَقْتُلَنِیۡ مَاۤ اَنَا بِبَاسِطٍ یَّدِیَ اِلَیۡکَ لِاَقْتُلَکَ ۚ اِنِّیۡۤ اَخَافُ اللہَ رَبَّ الْعٰلَمِیۡنَ ﴿28﴾اِنِّیۡۤ اُرِیۡدُ اَنۡ تَبُوۡٓاَ بِاِثْمِیۡ وَ اِثْمِکَ فَتَکُوۡنَ مِنْ اَصْحٰبِ النَّارِ ۚ وَذٰلِکَ جَزٰٓؤُا الظّٰلِمِیۡنَ ﴿ۚ29﴾فَطَوَّعَتْ لَہٗ نَفْسُہٗ قَتْلَ اَخِیۡہِ فَقَتَلَہٗ فَاَصْبَحَ مِنَ الْخٰسِرِیۡنَ ﴿30﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔اور انہیں پڑھ کر سناؤ آدم کے دو بیٹوں کی سچی خبر جب دونوں نے ایک ایک نیاز پیش کی تو ایک کی قبول ہوئی اور دوسرے کی نہ قبول ہوئی۔ بولا قسم ہے میں تجھے قتل کردوں گا۔ کہا اللہ اسی سے قبول کرتا ہے جسے ڈر ہے بیشک اگر تو اپنا ہاتھ مجھ پر بڑھائے گا کہ مجھے قتل کرے تو میں اپناہاتھ تجھ پر نہ بڑھاؤں گا کہ تجھے قتل کروں میں اللہ سے ڈرتا ہوں جو مالک سارے جہان کا۔ میں تو یہ چاہتا ہوں کہ میرا اور تیرا گناہ دونوں تیرے ہی پلہ پڑے تو تو دوزخی ہوجائے۔ اور بے انصافوں کی یہی سزا ہے تو اس کے نفس نے اسے بھائی کے قتل کا چاؤ دلایا تو اسے قتل کردیا تو رہ گیا نقصان میں۔ (پ6،المائدۃ:27تا30)
درس ہدایت:۔اس واقعہ سے چند ہدایتوں کے سبق ملتے ہیں:۔
(۱)دنیا میں سب سے پہلا جو قتل اور خون ناحق ہوا وہ ایک عورت کے معاملہ میں ہوا۔ لہٰذا کسی عورت کے فتنہ عشق میں مبتلا ہونے سے خدا کی پناہ مانگنی چاہے۔
(۲)قابیل نے جذبہ حسد میں گرفتار ہو کر اپنے بھائی کو قتل کردیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ حسد انسان کی کتنی بری اور خطرناک قلبی بیماری ہے۔ اسی لئے قرآن مجید میں"
وَ مِنۡ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ ٪﴿5﴾
" (پ30،الفلق:5) فرما کر حکم دیا گیا کہ حاسد کے حسد سے خدا کی پناہ مانگتے رہو۔
(۳)خون ناحق کتنا بڑا جرم عظیم ہے کہ اس جرم کی وجہ سے ایک نبی علیہ السلام کا فرزند اپنے باپ حضرت آدم علیہ السلام کے دربار سے راندہ درگاہ ہو کر کفر و شرک میں مبتلا ہو کر مرگیا۔ اور قیامت تک ہونے والے ہر خونِ ناحق میں حصہ دار بن کر عذاب جہنم میں گرفتار رہے گا۔
(۴)اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص کوئی برا طریقہ ایجاد کرے تو قیامت تک جتنے لوگ اس برے طریقے پر عمل کریں گے سب کے گناہ میں وہ برابر کا شریک اور حصہ دار بنے گا۔
(۵)اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نیکوں کی اولاد کا نیک ہونا کوئی ضروری نہیں ہے، نیکوں کی"
اولاد بری بھی ہوسکتی ہے۔ کیونکہ حضرت آدم علیہ السلام خدا کے مقدس نبی اور صفی اللہ ہیں مگر ان کا بیٹا قابیل کتنا خراب ہوا، وہ آپ پڑھ چکے۔ ہمیشہ ہر شخص کو چاہے کہ فرزند صالح اور نیک اولاد کی دعائیں خدا سے مانگتا رہے۔
(واللہ تعالیٰ اعلم)
جب قابیل نے ہابیل کو قتل کردیا تو چونکہ اس سے پہلے کوئی آدمی مرا ہی نہیں تھا اس لئے قابیل حیران تھا کہ بھائی کی لاش کو کیا کروں۔ چنانچہ کئی دنوں تک وہ لاش کو اپنی پیٹھ پر لادے پھرا۔ پھر اس نے دیکھا کہ دو کوے آپس میں لڑے اور ایک نے دوسرے کو مار ڈالا۔ پھر زندہ کوے نے اپنی چونچ اور پنجوں سے زمین کرید کر ایک گڑھا کھودا اور اس میں مرے ہوئے کوے کو ڈال کر مٹی سے دبا دیا۔ یہ منظر دیکھ کر قابیل کو معلوم ہوا کہ مردے کی لاش کو زمین میں دفن کرنا چاہے۔ چنانچہ اُس نے قبر کھود کر اس میں بھائی کی لاش کو دفن کردیا۔
" (مدارک التنزیل،ج۱،ص۴۸۶،پ۶،المائدۃ ۳۱)"
قرآن مجید نے اس واقعہ کو ان لفظوں میں بیان فرمایا ہے کہ:۔
فَبَعَثَ اللہُ غُرَابًا یَّبْحَثُ فِی الۡاَرْضِ لِیُرِیَہٗ کَیۡفَ یُوَارِیۡ سَوْاَۃَ اَخِیۡہِ ؕ قَالَ یٰوَیۡلَتٰۤی اَعَجَزْتُ اَنْ اَکُوۡنَ مِثْلَ ہٰذَا الْغُرَابِ فَاُوَارِیَ سَوْاَۃَ اَخِیۡ ۚ فَاَصْبَحَ مِنَ النّٰدِمِیۡنَ ﴿ۚۛۙ31﴾ (پ6،المائدۃ:31)
" ترجمہ کنزالایمان:۔ تو اللہ نے ایک کوا بھیجا زمین کریدتا کہ اسے دکھائے کیونکر اپنے بھائی کی لاش چھپائے بولا ہائے خرابی میں اس کوے جیسا بھی نہ ہو سکا کہ میں اپنے بھائی کی لاش چھپاتا تو پچتا تارہ گیا۔
درس ہدایت:۔(۱)اس واقعہ سے سبق ملتا ہے کہ آدمی علم سیکھنے میں چھوٹے سے چھوٹے استاد کا یہاں تک کہ کوے کا بھی محتاج ہے۔"
(۲)اسی سے معلوم ہوا کہ انسان پر اُس کی دنیاوی زندگی کی راہ میں جب کوئی مشکل درپیش ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ ایسا رحیم و کریم ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے یہاں تک کہ چرندوں اور پرندوں کے ذریعے مشکلات حل کرنے کی راہ دکھا دیتا ہے۔
(واللہ تعالیٰ اعلم)
"حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں نے یہ عرض کیا کہ اے عیسیٰ بن مریم! کیا آپ کا رب یہ کرسکتا ہے کہ وہ آسمان سے ہمارے پاس ایک دستر خوان اتاردے؟ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ اس طرح کی نشانیاں طلب کرنے سے اگر تم لوگ مومن ہو تو خدا سے ڈرو۔ یہ سن کر حواریوں نے کہا کہ ہم نشانی طلب کرنے کے لئے یہ سوال نہیں کررہے ہیں بلکہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم شکم سیر ہو کر خوب کھائیں اور ہم کو اچھی طرح آپ کی صداقت کا علم ہوجائے تاکہ ہمارے دلوں کو قرار آجائے اور ہم اس بات کے گواہ بن جائیں تاکہ بنی اسرائیل کو ہماری شہادت سے یقین اور اطمینان کلی حاصل ہو جائے اور مومنین کا یقین اَور بڑھ جائے اور کفار ایمان لائیں۔
(۱)حواریوں کی اس درخواست پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بارگاہِ خداوندی میں اس طرح دعا مانگی:۔
ترجمہ کنزالایمان:۔ اے رب ہمارے ! ہم پر آسمان سے ایک خوان اتار کہ وہ ہمارے لیے عیدہو ہمارے اگلے پچھلوں کی اور تیری طرف سے نشانی اورہمیں رزق دے اور تو سب سے بہتر روزی دینے والا ہے۔"
(پ۷،المائدۃ:۱۱۴)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعا پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دستر خوان تو اتاردوں گا لیکن اس کے بعد بنی اسرائیل میں سے جو کفر کریگا میں اس کو ایسا عذاب دوں گا کہ تمام جہان والوں میں سے کسی کو ایسا عذاب نہیں دوں گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے چند فرشتے ایک دستر خوان
لے کر آسمان سے اترے جس میں سات مچھلیاں اور سات روٹیاں تھیں۔
" (تفسیر جلالین،ص۱۱۱،پ۷،المائدۃ:۱۱۵)"
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ فرشتے دستر خوان میں روٹی اور گوشت لے کر آسمان سے زمین پر نازل ہوئے اور بعض روایتوں میں یہ بھی آیا ہے کہ تلی ہوئی ایک بہت بڑی مچھلی تھی جس میں کانٹا نہیں تھا اور اس میں سے روغن ٹپک رہا تھا اور اس کے سر کے پاس نمک اور دم کے پاس سرکہ تھا اور اس کے اردگرد قسم قسم کی سبزیاں تھیں اور پانچ روٹیاں تھیں۔ ایک روٹی کے اوپر روغن زیتون، دوسری پر شہد، تیسری پر گھی، چوتھی پر پنیر، پانچویں پر گوشت کی بوٹیاں تھیں۔ دستر خوان کے ان سامانوں کو دیکھ کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ایک حواری شمعون نے کہا جو تمام حواریوں کا سردار تھا، کہ اے روح اللہ! یہ دستر خوان دنیا کے کھانوں میں سے ہے یا آخرت کے۔ تو آپ نے فرمایا کہ یہ نہ تو دنیا کے کھانوں میں سے ہے نہ آخرت کے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے تمہارے لئے اس کھانے کو ابھی ابھی ایجاد فرما کر بھیجا ہے۔
(تفسیر جمل علی الجلالین،ج۲،ص۳۰۴،پ۷،المائدۃ:۱۱۵)
پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ خوب شکم سیر ہو کر کھاؤ۔ اور خبردار اس میں کسی قسم کی خیانت نہ کرنا۔ اور کل کے لئے ذخیرہ بنا کر نہ رکھنا۔ مگر بنی اسرائیل نے اس میں خیانت بھی کرڈالی اور کل کے لئے ذخیرہ بنا کر بھی رکھ لیا۔ اس نافرمانی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا ان لوگوں پر یہ عذاب آیا کہ یہ لوگ رات کو سوئے تو اچھے خاصے تھے مگر صبح کو اٹھے تو مسخ ہو کر کچھ خنزیر اور کچھ بندر بن گئے پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان لوگوں کی موت کے لئے دعا مانگی تو تیسرے دن یہ لوگ مر کر دنیا سے نیست و نابود ہو گئے اور کسی کو یہ بھی نہیں معلوم ہوا کہ ان کی لاشوں کو زمین نگل گئی یا اللہ نے ان کو کیا کردیا۔
" (تفسیر جمل علی الجلالین،ج۲،ص۳۰۴،پ۷،المائدۃ:۱۱۵)"
اللہ تعالی نے اس عجیب اور عظیم الشان وا قعہ کا تذکرہ قرآن مجید کی سورئہ مائدہ میں فرمایا ہے۔ اور اسی واقعہ کی وجہ سے اس سورہ کا نام ''مائدہ'' رکھا گیا۔ ''مائدہ'' دسترخوان کو کہتے ہیں
قَالَ عِیۡسَی ابْنُ مَرْیَمَ اللہُمَّ رَبَّنَاۤ اَنۡزِلْ عَلَیۡنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَآءِ تَکُوۡنُ لَنَا عِیۡدًا لِّاَوَّلِنَا وَاٰخِرِنَا وَ اٰیَۃً مِّنۡکَ ۚ وَارْزُقْنَا وَاَنۡتَ خَیۡرُ الرّٰزِقِیۡنَ ﴿114﴾قَالَ اللہُ اِنِّیۡ مُنَزِّلُہَا عَلَیۡکُمْ ۚ فَمَنۡ یَّکْفُرْ بَعْدُ مِنۡکُمْ فَاِنِّیۡۤ اُعَذِّبُہٗ عَذَابًا لَّاۤ اُعَذِّبُہٗۤ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیۡنَ ﴿115﴾ (پ7،المائدۃ:114،115)
"ترجمہ کنزالایمان:۔ عیسیٰ بن مریم نے عرض کی اے اللہ اے رب ہمارے ہم پر آسمان سے ایک خوان اتار کہ وہ ہمارے لئے عید ہو ہمارے اگلے پچھلوں کی اور تیری طرف سے نشانی اور ہمیں رزق دے اور تو سب سے بہتر روزی دینے والا ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ میں اسے تم پر اتارتا ہوں پھر اب جو تم میں کفر کریگا تو بے شک میں اسے وہ عذاب دوں گا کہ سارے جہان میں کسی پر نہ کروں گا۔
درس ہدایت:۔واقعہ مذکورہ سے بہت سی عبرتیں اور نصیحتیں ملتی ہیں۔ جن میں سے یہ دو سبق تو بہت ہی واضح ہیں:۔
(۱)حضرات انبیاء علیہم السلام کی مخالفت اور نافرمانی کتنا خوفناک جرم عظیم ہے دیکھ لو!کہ بنی اسرائیل نے جب اپنے نبی علیہ السلام کی مخالفت و نافرمانی کرتے ہوئے آسمانی دستر خوان میں خیانت کی اور کل کے لئے ذخیرہ بنا کر رکھ لیا تو عذاب ِ الٰہی نے ان کو خنزیر بندر بنا کر دنیا سے اس طرح نیست و نابود کردیا کہ ان کی قبروں کا نشان بھی باقی نہ رہا۔
جو لوگ اللہ و رسول کی امانتوں میں خیانت کرتے ہیں۔ انہیں اس ہولناک عذاب سے عبرت حاصل کرنی چاہے اور توبہ کرلینی چاہے۔"
(واللہ تعالیٰ اعلم)
(۲)حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعا میں یہ جملہ کہ جس دن دستر خوان نازل ہو گا وہ دن
"ہمارے اگلوں اور پچھلوں کے لئے عید کا دن ہو گا۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ جس دن قدرتِ خداوندی کا کوئی خاص نشان ظاہر ہو، اس دن خوشی منانا اور مسرت و شادمانی کا اظہار کر کے عید منانا یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مقدس سنت ہے۔
حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کی رات اور اس کا دن یقینا خداوند قدوس کے ایک نشانِ اعظم کے ظہور کی رات اور دن ہے لہٰذا میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خوشی منانا اور اس تاریخ کو عید میلاد کہنا یقینا قرآن مجید کی تعلیم کے عین مطابق ہے۔ خوشی منانا، گھروں اور محفلوں کی آرائش کرنا، اچھے اچھے پکوان پکا کر خود بھی کھانا اور دوسروں کو کھلانا یہی سب عید کی نشانیاں، اور عید منانے کے طریقے ہیں جن پر بارہویں شریف کو اہل سنت و جماعت عمل کر کے عید میلاد کی خوشی مناتے ہیں اور جو لوگ اس سے چڑتے ہیں اور اس تاریخ کو اپنے گھر اندھیرا رکھتے ہیں، جھاڑو بھی نہیں لگاتے اور میلے کچیلے کپڑے پہن کر منہ لٹکائے پھرتے ہیں اور عید میلاد کی خوشی منانے والوں کو بدعتی کہہ کر پھبتیاں کستے ہیں، انہیں ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہے اور اہل سنت کو چاہے کہ خوب خوب خوشی منائیں اور کثرت سے میلاد شریف کی مجلس منعقد کریں اور خوب جھوم جھوم کر صلوٰۃ و سلام پڑھیں:۔"
" مثلِ فارس زلزلے ہوں نجد میں ذکر آیات ولادت کیجئے"
" (حدائق بخشش، حصہ اول ص ۱۴۰ )"
مفسرین کا بیان ہے کہ ''نمرود بن کنعان ''بڑا جابر بادشاہ تھا۔ سب سے پہلے اسی نے تاج شاہی اپنے سر پر رکھا۔ اس سے پہلے کسی بادشاہ نے تاج نہیں پہنا تھا یہ لوگوں سے زبردستی اپنی پرستش کراتا تھا کاہن اور نجومی اس کے دربار میں بکثرت اس کے مقرب تھے۔ نمرود نے ایک
رات یہ خواب دیکھا کہ ایک ستارہ نکلا اور اس کی روشنی میں چاند، سورج وغیرہ سارے ستارے بے نور ہو کر رہ گئے۔ کاہنوں اور نجومیوں نے اس خواب کی یہ تعبیر دی کہ ایک فرزند ایسا ہو گا جو تیری بادشاہی کے زوال کا باعث ہو گا۔ یہ سن کر نمرود بے حد پریشان ہو گیا اور اس نے یہ حکم دے دیا کہ میرے شہر میں جو بچہ پیدا ہو وہ قتل کردیا جائے۔ اور مرد عورتوں سے جدا رہیں۔ چنانچہ ہزاروں بچے قتل کردیئے گئے۔ مگر تقدیراتِ الٰہیہ کو کون ٹال سکتا ہے؟ اسی دوران حضرت ابراہیم علیہ السلام پیدا ہو گئے اور بادشاہ کے خوف سے ان کی والدہ نے شہر سے دور پہاڑ کے ایک غار میں ان کوچھپا دیا اسی غار میں چھپ کر ان کی والدہ روزانہ دودھ پلا دیا کرتی تھیں۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ سات برس کی عمر تک اور بعضوں نے تحریر فرمایا کہ سترہ برس تک آپ اسی غار میں پرورش پاتے رہے۔
(واللہ تعالیٰ اعلم)
" ( روح البیان،ج۳،ص۵۹،پ۷،الانعام:۷۵)"
اس زمانے میں عام طور پر لوگ ستاروں کی پوجا کیا کرتے تھے۔ ایک رات آپ علیہ السلام نے زہرہ یا مشتری ستارہ کو دیکھا تو قوم کو توحید کی دعوت دینے کے لئے آپ نے نہایت ہی نفیس اور دل نشین انداز میں لوگوں کے سامنے اس طرح تقریر فرمائی کہ اے لوگو! کیا ستارہ میرا رب ہے؟ پھر جب وہ ستارہ ڈوب گیا تو آپ نے فرمایا کہ ڈوب جانے والوں سے میں محبت نہیں رکھتا۔ پھر اس کے بعد جب چمکتا چاند نکلا تو آپ نے فرمایا کہ کیا یہ میرا رب ہے؟ پھر جب وہ بھی غروب ہو گیا تو آپ نے فرمایا کہ اگر میرا رب مجھے ہدایت نہ فرماتا تو میں بھی انہیں گمراہوں میں سے ہوتا۔ پھر جب چمکتے دمکتے سورج کو دیکھا تو آپ نے فرمایا کہ یہ تو ان سب سے بڑا ہے، کیا یہ میرا رب ہے؟ پھر جب یہ بھی غروب ہو گیا تو آپ نے فرمایا کہ اے میری قوم! میں ان تمام چیزوں سے بیزار ہوں جن کو تم لوگ خدا کا شریک ٹھہراتے ہو۔ اور میں نے اپنی ہستی کو اس ذات کی طرف متوجہ کرلیا ہے جس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا فرمایا ہے۔
بس میں صرف اسی ایک ذات کا عابد اور پجاری بن گیا ہوں اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ پھر ان کی قوم ان سے جھگڑا کرنے لگی تو آپ نے فرمایا کہ تم لوگ مجھ سے خدا کے بارے میں جھگڑتے ہو؟ اس خدا نے تو مجھے ہدایت دی ہے اور میں تمہارے جھوٹے معبودوں سے بالکل نہیں ڈرتا۔ سن لو! بغیر میرے رب کے حکم کے تم لوگ اور تمہارے دیوتا میرا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے۔ میرا رب ہر چیز کو جانتا ہے۔ کیا تم لوگ میری نصیحت کو نہیں مانو گے؟ اس واقعہ کو مختصر مگر بہت جامع الفاظ میں قرآن مجید نے یوں بیان فرمایا ہے :۔
فَلَمَّا جَنَّ عَلَیۡہِ الَّیۡلُ رَاٰکَوْکَبًا ۚ قَالَ ہٰذَا رَبِّیۡ ۚ فَلَمَّاۤ اَفَلَ قَالَ لَاۤ اُحِبُّ الۡاٰفِلِیۡنَ ﴿76﴾فَلَمَّا رَاَ الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ ہٰذَا رَبِّیۡ ۚ فَلَمَّاۤ اَفَلَ قَالَ لَئِنۡ لَّمْ یَہۡدِنِیۡ رَبِّیۡ لَاَکُوۡنَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّآلِّیۡنَ ﴿77﴾فَلَمَّا رَاَ الشَّمْسَ بَازِغَۃً قَالَ ہٰذَا رَبِّیۡ ہٰذَاۤ اَکْبَرُ ۚ فَلَمَّاۤ اَفَلَتْ قَالَ یٰقَوْمِ اِنِّیۡ بَرِیۡٓءٌ مِّمَّا تُشْرِکُوۡنَ ﴿78﴾اِنِّیۡ وَجَّہۡتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیۡ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرْضَ حَنِیۡفًا وَّمَاۤ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیۡنَ ﴿ۚ79﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔ پھر جب ان پر رات کا اندھیرا آیا ایک تارا دیکھا بولے اسے میرا رب ٹھہراتے ہو پھر جب وہ ڈوب گیا بولے مجھے خوش نہیں آتے ڈوبنے والے پھر جب چاند چمکتا دیکھا بولے اسے میرا رب بتاتے ہو پھر جب وہ ڈوب گیا کہا اگر مجھے میرا رب ہدایت نہ کرتا تو میں بھی انہیں گمراہوں میں ہوتا پھر جب سورج جگمگاتا دیکھا بولے اسے میرا رب کہتے ہو۔ یہ تو ان سب سے بڑا ہے پھر جب وہ ڈوب گیا کہا اے قوم میں بیزار ہوں ان چیزوں سے جنہیں تم شریک ٹھہراتے ہو میں نے اپنا منہ اس کی طرف کیا جس نے آسمان و زمین بنائے ایک اسی کا ہو کر اور میں مشرکوں میں نہیں۔(پ7،الانعام:76تا79)
درس ہدایت:۔غور کیجئے کہ کتنا دلکش طرزِ بیان اور کس قدر مؤثر طریقہ استدلال ہے کہ نہ کوئی سخت کلامی ہے، نہ کسی کی دل آزاری، نہ کسی کے جذبات کو ٹھیس لگا کر اس کو غصہ دلانا ہے،"
بس اپنے مقصد کو نہایت ہی حسین پیرایہ اور خوبصورت انداز میں منکرین کے سامنے دلیل کے ساتھ پیش کردینا ہے۔ ہمارے سخت گو اور تلخ زبان مقررین کے لئے اس میں ہدایت کا بہترین درس ہے۔ مولیٰ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے آمین۔
"جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا اژدہا بن کر جادوگروں کے سانپوں کو نگل گیا تو جادوگر سجدے میں گر کر ایمان لائے۔ مگر فرعون اور اس کے متبعین نے اب بھی ایمان قبول نہیں کیا۔ بلکہ فرعون کا کفر اور اس کی سرکشی اَور زیادہ بڑھ گئی اور اس نے بنی اسرائیل کے مومنین اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دل آزاری اور ایذا رسانی میں بھرپور کوشش شروع کردی اور طرح طرح سے ستانا شروع کردیا۔ فرعون کے مظالم سے تنگ دل ہو کر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خداوند قدوس کے دربار میں اس طرح دعا مانگی کہ
''اے میرے رب! فرعون زمین میں بہت ہی سرکش ہو گیا ہے اور اس کی قوم نے عہد شکنی کی ہے لہٰذا تو انہیں ایسے عذابوں میں گرفتار فرمالے جو ان کے لئے سزا وار ہو۔ اور میری قوم اور بعد والوں کے لئے عبرت ہو۔''"
(روح البیان،ج۳،ص۲۲۰،پ۹،الاعراف:۱۳۳)
"حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرعونیوں پر لگاتار پانچ عذابوں کو مسلط فرما دیا وہ پانچوں عذاب یہ ہیں:۔
(۱)طوفان:۔ ناگہاں ایک ابر آیا اور ہر طرف اندھیرا چھا گیا پھر انتہائی زور دار بارش ہونے لگی۔ یہاں تک کہ طوفان آگیا اور فرعونیوں کے گھروں میں پانی بھر گیا۔ اور وہ اس میں کھڑے رہ گئے اور پانی ان کی گردنوں تک آگیا ان میں سے جو بیٹھا وہ ڈوب کر ہلاک ہو گیا۔ نہ ہل سکتے تھے نہ کوئی کام کرسکتے تھے۔ ان کی کھیتیاں اور باغات طوفان کے دھاروں سے برباد ہو گئے۔ سنیچر سے سنیچر تک مسلسل سات روز تک وہ لوگ اسی مصیبت میں مبتلا رہے اور"
"باوجودیکہ بنی اسرائیل کے مکانات فرعونیوں کے گھروں سے ملے ہوئے تھے مگر بنی اسرائیل کے گھروں میں سیلاب کا پانی نہیں آیا اور وہ نہایت ہی امن و چین کے ساتھ اپنے گھروں میں رہتے تھے جب فرعونیوں کو اس مصیبت کے برداشت کرنے کی تاب و طاقت نہ رہی اور وہ بالکل ہی عاجز ہو گئے تو ان لوگوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے عرض کیا کہ آپ ہمارے لئے دعافرمایئے کہ یہ مصیبت ٹل جائے تو ہم ایمان لائیں گے اور بنی اسرائیل کو آپ کے پاس بھیج دیں گے۔ چنانچہ آپ نے دعا مانگی تو طوفان کی بلا ٹل گئی اور زمین میں ایسی سرسبزی اور شادابی نمودار ہوئی کہ اس سے پہلے کبھی بھی دیکھنے میں نہ آئی تھی۔ کھیتیاں بہت شاندار ہوئیں اور غلوں اور پھلوں کی پیداوار بے شمار ہوئی یہ دیکھ کر فرعونی کہنے لگے کہ یہ طوفان کا پانی تو ہمارے لئے بہت بڑی نعمت کا سامان تھا۔ پھر وہ اپنے عہد سے پھر گئے اور ایمان نہیں لائے اور پھر سرکشی اور ظلم و عصیان کی گرم بازاری شروع کردی۔
(۲)ٹڈیاں:۔ایک ماہ تک تو فرعونی نہایت عافیت سے رہے۔ لیکن جب ان کا کفر و تکبر اور ظلم و ستم پھر بڑھنے لگا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے قہر و عذاب کو ٹڈیوں کی شکل میں بھیج دیا کہ چاروں طرف سے ٹڈیوں کے جھنڈ کے جھنڈ آگئے جو ان کی کھیتیوں اور باغوں کو یہاں تک کہ ان کے مکانوں کی لکڑیاں تک کو کھا گئیں اور فرعونیوں کے گھروں میں یہ ٹڈیاں بھر گئیں جس سے ان کا سانس لینا مشکل ہو گیا مگر بنی اسرائیل کے مومنین کے کھیت اور باغ اور مکانات ان ٹڈیوں کی یلغار سے بالکل محفوظ رہے۔ یہ دیکھ کر فرعونیوں کو بڑی عبرت ہو گئی اور آخر اس عذاب سے تنگ آکر پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے آگے عہد کیا کہ آپ اس عذاب کے دفع ہونے کے لئے دعا فرما دیں تو ہم لوگ ضرور ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل پر کوئی ظلم و ستم نہ کریں گے۔ چنانچہ آپ کی دعا سے ساتویں دن یہ عذاب بھی ٹل گیا اور یہ لوگ پھر ایک ماہ تک نہایت ہی آرام و راحت میں رہے۔ لیکن پھر عہد شکنی کی اور ایمان نہیں لائے۔ ان لوگوں کے کفر اور"
"عصیان میں پھر اضافہ ہونے لگا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور مومنین کو ایذائیں دینے لگے اور کہنے لگے کہ ہماری جو کھیتیاں اور پھل بچ گئے ہیں وہ ہمارے لئے کافی ہیں۔ لہٰذا ہم اپنا دین چھوڑ کر ایمان نہیں لائیں گے۔
(۳)گھن:۔غرض ایک ماہ کے بعد پھر ان لوگوں پر ''قمل '' کا عذاب مسلط ہوگیا۔ بعض مفسرین کا بیان ہے کہ یہ گھن تھا جو ان فرعونیوں کے اناجوں اور پھلوں میں لگ کر تمام غلوں اور میوؤں کو کھا گیا اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہ ایک چھوٹا سا کیڑا تھا، جو کھیتوں کی تیار فصلوں کو چٹ کر گیا اور ان کے کپڑوں میں گھس کر ان کے چمڑوں کو کاٹ کاٹ کر انہیں مرغ بسمل کی طرح تڑپانے لگا۔ یہاں تک کہ ان کے سر کے بالوں، داڑھی، مونچھوں، بھنوؤں، پلکوں کو چاٹ چاٹ کر اور چہروں کو کاٹ کاٹ کر انہیں چیچک رو بنا دیا۔ یہ کیڑے ان کے کھانوں، پانیوں اور برتنوں میں گھس جاتے تھے۔ جس سے یہ لوگ نہ کچھ کھا سکتے تھے نہ کچھ پی سکتے تھے۔ نہ لمحہ بھر کے لئے سو سکتے تھے۔ یہاں تک کہ ایک ہفتہ میں اس قہر آسمانی و بلاء ناگہانی سے بلبلا کر یہ لوگ چیخ پڑے اور پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حضور حاضر ہو کر دعا کی درخواست کرنے لگے اور ایمان لانے کا عہد دینے لگے چنانچہ آپ نے ان لوگوں کی بے قراری اور گریہ و زاری پر رحم کھا کر دعا کردی۔ اور یہ عذاب بھی رفع دفع ہو گیا۔ لیکن فرعونیوں نے پھر اپنے عہد کو توڑ ڈالا۔ اور پہلے سے بھی زیادہ ظلم و عدوان پر کمربستہ ہو گئے۔ پھر ایک ماہ کے بعدان لوگوں پر مینڈک کا عذاب نازل ہو گیا۔
(۴)مینڈک:۔ان فرعونیوں کی بستیوں اور ان کے گھروں میں اچانک بے شمار مینڈک پیدا ہو گئے اور ان ظالموں کا یہ حال ہو گیا کہ جو آدمی جہاں بھی بیٹھتا اس کی مجلس میں ہزاروں مینڈک بھر جاتے تھے۔ کوئی آدمی بات کرنے یا کھانے کے لئے منہ کھولتا تو اس کے منہ میں مینڈک کود کر گھس جاتے۔ ہانڈیوں میں مینڈک، ان کے جسموں پر سینکڑوں مینڈک سوار"
رہتے۔ اٹھنے، بیٹھنے، لیٹنے کسی حالت میں بھی مینڈکوں سے نجات نہیں ملتی تھی۔ اس عذاب سے فرعونی رو پڑے اور پھر روتے گڑگڑاتے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بارگاہ میں دعا کی بھیک مانگنے کے لئے آئے اور بڑی بڑی قسمیں کھا کر عہد و پیمان کرنے لگے کہ ہم ضرور ایمان لائیں گے اور مومنین کو کبھی ایذاء نہیں دیں گے۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے ساتویں دن یہ عذاب بھی اٹھا لیا گیا مگر یہ مردود قوم راحت ملتے ہی پھر اپنا عہد توڑ کر اپنی پہلی خبیث حرکتوں میں مشغول ہوگئی۔ مومنین کو ستانے لگے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی توہین و بے ادبی کرنے لگے تو پھر عذابِ الٰہی نے ان ظالموں کو اپنی گرفت میں لے لیا اور ان لوگوں پر خون کا عذاب قہرالٰہی بن کر اتر پڑا۔
ایک دم بالکل اچانک ان لوگوں کے تمام کنوؤں، نہروں کا پانی خون ہو گیا تو ان لوگوں نے فرعون سے فریاد کی، تو اس سرکش نے کہا کہ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جادوگری اور نظربندی ہے۔ یہ سن کر فرعونیوں نے کہا کہ یہ کیسی اور کہاں کی نظر بندی ہے؟ کہ ہمارے کھانے پینے کے برتن خون سے بھرے پڑے ہیں اور مومنین پر اس کا ذرا بھی اثر نہیں تو فرعون نے حکم دیا کہ فرعونی لوگ مومنین کے ساتھ ایک ہی برتن سے پانی نکالیں۔ مگر خدا کی شان کہ مومنین اسی برتن سے پانی نکالتے تو نہایت ہی صاف شفاف اور شیریں پانی نکلتا اور فرعونی جب اسی برتن سے پانی نکالتے تو تازہ خالص خون نکلتا۔ یہاں تک کہ فرعونی لوگ پیاس سے بے قرار ہو کر مومنین کے پاس آئے اور کہا کہ ہم دونوں ایک ہی برتن سے ایک ہی ساتھ منہ لگا کرپانی پئیں گے مگر قدرت خداوندی کا عجیب جلوہ نظر آتا۔ ایک ہی برتن سے ایک ساتھ منہ لگا کر دونوں پانی پیتے تھے مگر مومنین کے منہ میں جو جاتا وہ پانی ہوتا تھا اور فرعون والوں کے منہ میں جو جاتا وہ خون ہوتا تھا۔ مجبور ہو کر فرعون اور فرعونی لوگ گھاس اور درختوں کی جڑیں اور چھالیں چبا چبا کر چوستے تھے مگر اس کی رطوبت بھی ان کے منہ میں جا کر خون بن جاتی تھی۔
الغرض فرعونیوں نے پھر گڑگڑا کر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دعا کی درخواست کی۔ تو آپ نے پیغمبرانہ رحم و کرم فرما کر پھر ان لوگوں کے لئے دعائے خیر فرما دی تو ساتویں دن اس خونی عذاب کا سایہ بھی ان کے سروں سے اٹھ گیا۔ الغرض ان سرکشوں پر مسلسل پانچ عذاب آتے رہے اور ہر عذاب ساتویں دن ٹلتا رہا اور ہر دو عذابوں کے درمیان ایک ماہ کا فاصلہ ہوتا رہا مگر فرعون اور فرعونیوں کے دلوں پر شقاوت و بدبختی کی ایسی مہر لگ چکی تھی کہ پھر بھی وہ ایمان نہیں لائے اور اپنے کفر پر اڑے رہے اور ہر مرتبہ اپنا عہد توڑتے رہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے قہر و غضب کا آخری عذاب آگیا کہ فرعون اور اس کے متبعین سب دریائے نیل میں غرق ہو کر ہلاک ہو گئے اور ہمیشہ کے لئے خدا کی دنیا ان عہد شکنوں اور مردودوں سے پاک و صاف ہو گئی اور یہ لوگ دنیا سے اس طرح نیست و نابود کردیئے گئے کہ روئے زمین پر ان کی قبروں کا نشان بھی باقی نہیں رہ گیا۔
(تفسیر الصاوی،ج۲،ص۸۰۳،پ۹،الاعراف: ۱۳۳)
قرآن مجید نے ان مذکورہ بالا پانچوں عذابوں کی تصویر کشی ان الفاظ میں فرمائی ہے:۔
"فَاَرْسَلْنَا عَلَیۡہِمُ الطُّوۡفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ ۟ فَاسْتَکْبَرُوۡا وَکَانُوۡا قَوْمًا مُّجْرِمِیۡنَ ﴿133﴾وَلَمَّا وَقَعَ عَلَیۡہِمُ الرِّجْزُ قَالُوۡا یٰمُوۡسَی ادْعُ لَنَا رَبَّکَ بِمَا عَہِدَ عِنۡدَکَ ۚ لَئِنۡ کَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ لَنُؤْمِنَنَّ لَکَ وَلَنُرْسِلَنَّ مَعَکَ بَنِیۡۤ اِسْرَآءِیۡلَ ﴿134﴾ۚفَلَمَّا کَشَفْنَا عَنْہُمُ الرِّجْزَ اِلٰۤی اَجَلٍ ہُمۡ بَالِغُوۡہُ اِذَا ہُمْ یَنۡکُثُوۡنَ ﴿135﴾فَانۡتَقَمْنَا مِنْہُمْ فَاَغْرَقْنٰہُمْ فِی الْیَمِّ بِاَنَّہُمْ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا وَکَانُوۡا عَنْہَا غٰفِلِیۡنَ ﴿136﴾
(پ9،الاعراف:133تا136)"
ترجمہ کنزالایمان:۔تو بھیجا ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈی اور گھن (یاکلنی یا جوئیں)اور مینڈک اور خون جدا جدا نشانیاں تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم قوم تھی اور جب ان پر عذاب
"پڑتا کہتے اے موسیٰ ہمارے لئے اپنے رب سے دعا کرو اس عہد کے سبب جو اس کا تمہارے پاس ہے بیشک اگر تم ہم پرسے عذاب اٹھا دو گے تو ہم ضرور تم پر ایمان لائیں گے اور بنی اسرائیل کو تمہارے ساتھ کردیں گے پھر جب ہم ان سے عذاب اٹھا لیتے ایک مدت کے لئے جس تک انہیں پہنچنا ہے جبھی وہ پھر جاتے تو ہم نے ان سے بدلہ لیا تو انہیں دریا میں ڈبو دیا اس لئے کہ ہماری آیتیں جھٹلاتے اور ان سے بے خبر تھے
درس ہدایت:۔(۱)ان واقعات سے یہ سبق ملتا ہے کہ عہد شکنی اور اللہ کے نبیوں کی تکذیب و توہین کتنا بڑا اور ہولناک جرم عظیم ہے کہ اس کی وجہ سے فرعونیوں پر بار بار عذابِ الٰہی قسم قسم کی صورتوں میں اترا۔ یہاں تک کہ آخر میں وہ دریا میں غرق کر کے دنیا سے فنا کردیئے گئے۔ لہٰذا ہر مسلمان کو عہد شکنی اور سرکشی اور گناہوں سے بچتے رہنا لازم ہے کہ کہیں بداعمالیوں کی نحوستوں سے ہم پر بھی قہرِ الٰہی عذاب کی صورت میں نہ اتر پڑے۔
(۲)حضرت موسیٰ علیہ السلام کا صبر و تحمل اور ان کی رقیق القلبی بلاشبہ انتہا کو پہنچی ہوئی تھی کہ بار بار عہد شکنی کرنے والے اپنے دشمنوں کی آہ و فغاں پر رحم کھا کر ان کے عذاب کو دفع کرنے کی دعا فر ماتے رہے اس سے معلوم ہوا کہ قوم کے ہادی اور ان کے پیشوا کے لئے صبر و تحمل اور عفو و درگزر کی خصلت انتہائی ضروری ہے اور علماء کرام کو جو حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے نائبین ہیں ان کے لئے بے حد لازم و ضروری ہے کہ وہ اپنے مخالفین اور بدخواہوں سے انتقام کا جذبہ نہ رکھیں بلکہ صبر و تحمل کر کے اپنے مجرموں کو بار بار معاف کرتے رہیں۔ کہ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مقدس سنت بھی ہے اور ہمارے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کا تو یہ ایک بڑا ہی خاص اور خصوصی طرہ امتیاز ہے کہ آپ نے کبھی بھی اپنی ذات کے لئے اپنے دشمنوں سے کوئی بھی انتقام نہیں لیا بلکہ ہمیشہ ان کو معاف فرما دیا کرتے تھے۔ اور یہ آپ کی مقدس تعلیم کا بہت ہی تابناک اور درخشاں ارشاد ہے کہ"
صِلْ مَنْ قَطَعَکَ وَاعْفُ عَمَّنْ ظَلَمَکَ وَاَحْسِنْ اِلٰی
مَنْ اَسَاءَ اِلَیْکَ
"یعنی تم سے جو تعلق کاٹے تم اس سے تعلق جوڑو۔ اور جو تم پر ظلم کرے اس کو معاف کردو۔ اور جو تمہارے ساتھ بُرا برتاؤ کرے تم اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔
حضرت شیخ سعدی علیہ الرحمۃ نے اسی حدیث کی ترجمانی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:۔"
بدی رابدی سہل باشد جزا اگر مردی اَحْسِنْ اِلٰی مَنْ اَسَا
یعنی برائی کا برا بدلہ دینا تو بہت آسان ہے لیکن اگر تم جوان مرد ہو تو برائی کرنے والے کے ساتھ بھلائی کرو۔
"حضرت صالح علیہ السلام قوم ثمود کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے۔ آپ نے جب قوم ثمود کو خدا (عزوجل)کا فرمان سنا کر ایمان کی دعوت دی تو اس سرکش قوم نے آپ سے یہ معجزہ طلب کیا کہ آپ اس پہاڑ کی چٹان سے ایک گابھن اونٹنی نکالیے جو خوب فربہ اور ہر قسم کے عیوب و نقائص سے پاک ہو۔ چنانچہ آپ نے چٹان کی طرف اشارہ فرمایا تو وہ فوراً ہی پھٹ گئی اور اس میں سے ایک نہایت ہی خوبصورت و تندرست اور خوب بلند قامت اونٹنی نکل پڑی جو گابھن تھی اور نکل کر اس نے ایک بچہ بھی جنا اور یہ اپنے بچے کے ساتھ میدانوں میں چرتی پھرتی رہی۔
اس بستی میں ایک ہی تالاب تھا جس میں پہاڑوں کے چشموں سے پانی گر کر جمع ہوتا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ اے لوگو! دیکھو یہ معجزہ کی اونٹنی ہے۔ ایک روز تمہارے تالاب کا سارا پانی یہ پی ڈالے گی اور ایک روز تم لوگ پینا۔ قوم نے اس کو مان لیا پھر آپ نے قوم ثمود کے سامنے یہ تقریر فرمائی کہ:۔"
یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللہَ مَا لَکُمۡ مِّنْ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ ؕ قَدْ جَآءَتْکُمۡ بَیِّنَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمْ ؕ ہٰذِہٖ نَاقَۃُ اللہِ لَکُمْ اٰیَۃً فَذَرُوۡہَا تَاۡکُلْ فِیۡۤ اَرْضِ اللہِ وَلَاتَمَسُّوۡہَا بِسُوۡٓءٍ فَیَاۡخُذَکُمْ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿73﴾ (پ8،الاعراف:73)
"ترجمہ کنزالایمان:۔اے میری قوم اللہ کو پوجو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آئی یہ اللہ کا ناقہ ہے تمہارے لئے نشانی تو اسے چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں کھائے اور اسے برائی سے ہاتھ نہ لگاؤ کہ تمہیں دردناک عذاب آئے گا۔
چند دن تو قوم ثمود نے اس تکلیف کو برداشت کیا کہ ایک دن اُن کو پانی نہیں ملتا تھا۔ کیونکہ اس دن تالاب کا سارا پانی اونٹنی پی جاتی تھی۔ اس لئے ان لوگوں نے طے کرلیا کہ اس اونٹنی کو قتل کرڈالیں۔
قدار بن سالف:۔چنانچہ اس قوم میں قدار بن سالف جو سرخ رنگ کا بھوری آنکھوں والا اور پستہ قد آدمی تھا اور ایک زنا کار عورت کا لڑکا تھا۔ ساری قوم کے حکم سے اس اونٹنی کو قتل کرنے کے لئے تیار ہو گیا۔ حضرت صالح علیہ السلام منع ہی کرتے رہے، لیکن قدار بن سالف نے پہلے تو اونٹنی کے چاروں پاؤں کو کاٹ ڈالا۔ پھر اس کو ذبح کردیا اور انتہائی سرکشی کے ساتھ حضرت صالح علیہ السلام سے بے ادبانہ گفتگو کرنے لگا۔ چنانچہ خداوند قدوس کا ارشاد ہے کہ:۔"
فَعَقَرُوا النَّاقَۃَ وَعَتَوْا عَنْ اَمْرِ رَبِّہِمْ وَقَالُوۡا یٰصٰلِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنۡ کُنۡتَ مِنَ الْمُرْسَلِیۡنَ ﴿77﴾ (پ8،الاعراف77)
"ترجمہ کنزالایمان:۔ پس ناقہ کی کوچیں کاٹ دیں اور اپنے رب کے حکم سے سرکشی کی اور بولے اے صالح ہم پر لے آؤ جس کا تم وعدہ دے رہے ہو اگر تم رسول ہو۔
زلزلہ کا عذاب:۔قوم ثمود کی اس سرکشی پر عذابِِ خداوندی کا ظہور اس طرح ہوا کہ پہلے ایک زبردست چنگھاڑ کی خوفناک آواز آئی۔ پھر شدید زلزلہ آیا جس سے پوری آبادی اتھل پتھل ہو کر چکنا چور ہو گئی۔ تمام عمارتیں ٹوٹ پھوٹ کر تہس نہس ہو گئیں اور قوم ثمود کا ایک ایک آدمی گھٹنوں کے بل اوندھا گر کر مر گیا۔ قرآن مجید نے فرمایا کہ:۔"
فَاَخَذَتْہُمُ الرَّجْفَۃُ فَاَصْبَحُوۡا فِیۡ دَارِہِمْ جٰثِمِیۡنَ ﴿78﴾
"ترجمہ کنزالایمان :۔ تو انہیں زلزلہ نے آلیا تو صبح کو اپنے گھروں میں اوندھے رہ گئے تو صالح نے ان سے منہ پھیرا۔(پ8،الاعراف:78)
حضرت صالح علیہ السلام نے جب دیکھا کہ پوری بستی زلزلوں کے جھٹکوں سے تباہ و برباد ہو کر اینٹ پتھروں کا ڈھیر بن گئی اور پوری قوم ہلاک ہو گئی تو آپ کو بڑا صدمہ اور قلق ہوا۔ اور آپ کو قوم ثمود اور اُن کی بستی کے ویرانوں سے اس قدر نفرت ہو گئی کہ آپ نے اُن لوگوں کی طرف سے منہ پھیر لیا۔ اور اُس بستی کو چھوڑ کر دوسری جگہ تشریف لے گئے اور چلتے وقت مردہ لاشوں سے یہ فرما کر روانہ ہو گئے کہ:۔"
یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسَالَۃَ رَبِّیۡ وَنَصَحْتُ لَکُمْ وَلٰکِنۡ لَّاتُحِبُّوۡنَ النّٰصِحِیۡنَ ﴿۷۹﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔اے میری قوم بے شک میں نے تمہیں اپنے رب کی رسالت پہنچا دی اور تمہارا بھلا چاہا مگر تم خیر خواہوں کے غرضی (پسند کرنے والے)ہی نہیں۔(پ۸،الاعراف:۷۹)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ قوم ثمود کی پوری بستی برباد و ویران ہو کر کھنڈر بن گئی اور پوری قوم فنا کے گھاٹ اتر گئی کہ آج اُن کی نسل کا کوئی انسان روئے زمین پر باقی نہیں رہ گیا۔"
(تفسیر الصاوی،ج۲،ص۶۸۸،پ۸،الاعراف:۷۳۔۷۷تا ۷۹ ملخصاً)
درس ہدایت:۔اس واقعہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ جب ایک نبی کی ایک اونٹنی کو قتل کردینے والی قوم عذابِ الٰہی کی تباہ کاریوں سے اس طرح فنا ہو گئی کہ ان کی نسل کا کوئی انسان بھی روئے زمین پر باقی نہ رہ گیا تو جو قوم اپنے نبی کی آل و اولاد کو قتل کرڈالے گی بھلا وہ عذابِ الٰہی کے قہر سے کب اور کس طرح محفوظ رہ سکتی ہے؟ چنانچہ تاریخ شاہد ہے کہ کربلا میں اہل بیت نبوت کو شہید کرنے والے یزیدی کوفیوں اور شامیوں کا یہی حشر ہوا کہ مختار بن عبید کے دورِ حکومت میں
"یزیدیوں کا بچہ بچہ قتل کردیا گیا اور ان کے گھروں کو تاخت و تاراج کر کے ان پر گدھوں کے ہل چلائے گئے اور آج روئے زمین پر ان یزیدیوں کی نسل کا کوئی ایک بچہ بھی باقی نہیں رہ گیا۔
ایک لاکھ چالیس ہزار یزیدی مقتول:۔حاکم محدث نے ایک حدیث روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی بھیجی تھی کہ قوم یہود نے حضرت زکریا علیہ السلام کو قتل کردیا تو ان کے ایک خون کے بدلے ستر ہزار یہودی قتل ہوئے اور آپ کے نواسہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک خون کے بدلے سترستر ہزار یعنی ایک لاکھ چالیس ہزار کوفی و شامی مقتول ہوں گے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ اس طرح پورا ہوا کہ مختار بن عبید کی لڑائی میں ستر ہزار کوفی و شامی قتل ہوئے اور پھر عباسی سلطنت کے بانی عبداللہ سفاح کے حکم سے ستر ہزار کوفی و شامی مارے گئے۔ کل مل کر ایک لاکھ چالیس ہزار مقتول ہوگئے۔"
(المستدرک ،کتاب التفسیر،باب اخبار القتل عوض الحسین۔۔۔۔۔۔الخ ،ج۳،ص۷،رقم ۲۳۰۱)
بہرحال یہ یاد رکھیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوبوں کی ہر ہر چیز کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے۔ لہٰذا خدا (عزوجل)کے محبوبوں کی آل و ازواج ہوں یا اصحاب و احباب یا ان سے نسبت و تعلق رکھنے والی کوئی بھی چیز ہو ان میں سے کسی کی بھی توہین اور بے ادبی سے خداوند قہار کا قہر و غضب ضرور کسی نہ کسی عذاب کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ لہٰذا ہر وہ چیز جس کو اللہ (عزوجل) کے محبوبوں سے نسبت حاصل ہوجائے اس کی تعظیم و تکریم لازم و ضروری ہے اور اس کی توہین و بے ادبی عذابِ الٰہی کی ہری جھنڈی اور تباہی و بربادی کا سگنل ہے۔
(والعیاذ باللہ منہ)
عذاب کی زمین منحوس:۔روایت ہے کہ جب جنگِ تبوک کے موقع پر سفر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم قوم ثمود کی بستیوں کے کھنڈرات کے پاس سے گزرے تو آپ نے فرمایا کہ خبردار کوئی شخص اس گاؤں میں داخل نہ ہو اور نہ اس گاؤں کے کنویں کا کوئی شخص پانی پئے اور
تم لوگ اس عذاب کی جگہ سے خوفِ الٰہی عزوجل میں ڈوب کر روتے ہوئے اور منہ ڈھانپے ہوئے جلد سے جلد گزر جاؤ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم پر بھی عذاب اتر پڑے۔
( روح البیان،ج۳،س۱۹۴،پ۸،الاعراف:۷۹)
قوم عاد مقام ''احقاف''میں رہتی تھی جو عمان و حضر موت کے درمیان ایک بڑا ریگستان ہے۔ ان کے مورثِ اعلیٰ کا نام عاد بن عوص بن ارم بن سام بن نوح ہے۔ پوری قوم کے لوگ ان کو مورثِ اعلیٰ ''عاد''کے نام سے پکارنے لگے۔ یہ لوگ بت پرست اور بہت بداعمال و بدکردار تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر حضرت ہود علیہ السلام کو ان لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجا مگر اس قوم نے اپنے تکبر اور سرکشی کی وجہ سے حضرت ہود علیہ السلام کو جھٹلا دیا اور اپنے کفر پر اڑے رہے۔ حضرت ہود علیہ السلام بار بار ان سرکشوں کو عذابِ الٰہی سے ڈراتے رہے، مگر اس شریر قوم نے نہایت ہی بے باکی اور گستاخی کے ساتھ اپنے نبی سے یہ کہہ دیا کہ:۔
اَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللہَ وَحْدَہٗ وَنَذَرَ مَاکَانَ یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَا ۚ فَاۡتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنۡ کُنۡتَ مِنَ الصّٰدِقِیۡنَ ﴿70﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم ایک اللہ کو پوجیں اور جو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے۔ انہیں چھوڑ دیں تو لاؤ جس کا ہمیں وعدہ دے رہے ہو اگر سچے ہو۔(پ8،الاعراف:70)
آخر عذابِ الٰہی کی جھلکیاں شروع ہو گئیں۔ تین سال تک بارش ہی نہیں ہوئی۔ اور ہر طرف قحط و خشک سالی کا دور دورہ ہو گیا۔ یہاں تک کہ لوگ اناج کے دانے دانے کو ترس گئے۔ اس زمانے کا یہ دستور تھا کہ جب کوئی بلا اور مصیبت آتی تھی تو لوگ مکہ معظمہ جا کر خانہ کعبہ میں دعائیں مانگتے تھے تو بلائیں ٹل جاتی تھیں۔ چنانچہ ایک جماعت مکہ معظمہ گئی۔ اس جماعت میں"
مرثد بن سعد نامی ایک شخص بھی تھا جو مومن تھا مگر اپنے ایمان کو قوم سے چھپائے ہوئے تھا۔ جب ا ن لوگوں نے کعبہ معظمہ میں دعا مانگنی شروع کی تو مرثد بن سعد کا ایمانی جذبہ بیدار ہو گیا۔ اور اس نے تڑپ کر کہا کہ اے میری قوم تم لاکھ دعائیں مانگو، مگر خدا کی قسم اس وقت تک پانی نہیں برسے گا جب تک تم اپنے نبی حضرت ہود علیہ السلام پر ایمان نہ لاؤ گے۔ حضرت مرثد بن سعد نے جب اپنا ایمان ظاہر کردیا تو قوم عاد کے شریروں نے ان کو مار پیٹ کر الگ کردیا اور دعائیں مانگنے لگے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے تین بدلیاں بھیجیں۔ ایک سفید، ایک سرخ، ایک سیاہ اور آسمان سے ایک آواز آئی کہ اے قوم عاد!تم لوگ اپنی قوم کے لئے ان تین بدلیوں میں سے ایک بدلی کو پسند کرلو۔ ان لوگوں نے کالی بدلی کو پسند کرلیا اور یہ لوگ اس خیال میں مگن تھے کہ کالی بدلی خوب زیادہ بارش دے گی۔ چنانچہ وہ ابر سیاہ قوم عاد کی آبادیوں کی طرف چل پڑا۔ قوم عاد کے لوگ کالی بدلی کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ حضرت ہود علیہ السلام نے فرمایا کہ اے میری قوم ! دیکھ لو عذابِ الٰہی ابر کی صورت میں تمہاری طرف بڑھ رہا ہے مگر قوم کے گستاخوں نے اپنے نبی کو جھٹلا دیا اور کہا کہ کہاں کا عذاب اور کیسا عذاب؟
ھٰذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا
یہ تو بادل ہے جو ہمیں بارش دینے کے لئے آرہا ہے۔
(روح البیان،ج۳،ص۱۸۷تا۱۸۹،پ ۸، الاعراف:۷۰)
یہ بادل پچھم کی طرف سے آبادیوں کی طرف برا بربڑھتا رہا اور ایک دم ناگہاں اس میں سے ایک آندھی آئی جو اتنی شدید تھی کہ اونٹوں کو مع ان کے سوا ر کے اڑا کر کہیں سے کہیں پھینک دیتی تھی۔ پھر اتنی زور دار ہو گئی کہ درختوں کو جڑوں سے اکھاڑ کر اڑا لے جانے لگی۔ یہ دیکھ کر قوم عاد کے لوگوں نے اپنے سنگین محلوں میں داخل ہو کر دروازوں کو بند کرلیا مگر آندھی کے جھونکے نہ صرف دروازوں کو اکھاڑ کر لے گئے بلکہ پوری عمارتوں کو جھنجھوڑ کر ان کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ سات رات اور آٹھ دن مسلسل یہ آندھی چلتی رہی۔ یہاں تک کہ قوم عاد کا ایک ایک
"آدمی مر کر فنا ہو گیا۔ اور اس قوم کا ایک بچہ بھی باقی نہ رہا۔
جب آندھی ختم ہوئی تو اس قوم کی لاشیں زمین پر اس طرح پڑی ہوئی تھیں جس طرح کھجوروں کے درخت اکھڑ کر زمین پر پڑے ہوں چنانچہ ارشاد ربانی ہے:۔"
وَ اَمَّا عَادٌ فَاُہۡلِکُوۡا بِرِیۡحٍ صَرْصَرٍ عَاتِیَۃٍ ۙ﴿6﴾سَخَّرَہَا عَلَیۡہِمْ سَبْعَ لَیَالٍ وَّ ثَمٰنِیَۃَ اَیَّامٍ ۙ حُسُوۡمًا ۙ فَتَرَی الْقَوْمَ فِیۡہَا صَرْعٰی ۙ کَاَنَّہُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِیَۃٍ ۚ﴿7﴾فَہَلْ تَرٰی لَہُمۡ مِّنۡۢ بَاقِیَۃٍ ﴿8﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔اور رہے عاد وہ ہلاک کئے گئے نہایت سخت گرجتی آندھی سے وہ ان پر قوت سے لگا دی سات راتیں اور آٹھ دن لگاتار تو ان لوگوں کو ان میں دیکھو بچھڑے ہوئے گویا وہ کھجور کے ڈنڈ(سوکھے تنے)ہیں گرے ہوئے تو تم ان میں کسی کو بچا ہوا دیکھتے ہو۔ (پ29،الحاقۃ:6تا8)
پھر قدرتِ خداوندی سے کالے رنگ کے پرندوں کا ایک غول نمودار ہوا۔ جنہوں نے ان کی لاشوں کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا۔ اور حضرت ہود علیہ السلام نے اس بستی کو چھوڑ دیا اور چند مومنین کو جو ایمان لائے تھے ساتھ لے کر مکہ مکرمہ چلے گئے۔ اور آخرِ زندگی تک بیت اللہ شریف میں عبادت کرتے رہے۔"
(تفسیر الصاوی،ج۲،ص۶۸۶،پ۸،الاعراف:۷۰)
درسِ ہدایت:۔قرآن کریم کے اس دردناک واقعہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ ''قوم عاد''جو بڑی طاقتور اور قد آور قوم تھی اور ان لوگوں کی مالی خوشحالی بھی نہایت مستحکم تھی کیونکہ لہلہاتی کھیتیاں اور ہرے بھرے باغات ان کے پاس تھے۔ پہاڑوں کو تراش تراش کر ان لوگوں نے گرمیوں اور سردیوں کے لئے الگ الگ محلات تعمیر کئے تھے۔ ان لوگوں کو اپنی کثرت اور طاقت پر بڑا اعتماد، اپنے تمول اور سامان عیش و عشرت پر بڑا ناز تھا۔ مگر کفر اور بداعمالیوں و بدکاریوں کی نحوست نے ان لوگوں کو قہرِ الٰہی کے عذاب میں اس طرح گرفتار کردیا کہ آندھی
کے جھونکوں اور جھٹکوں نے ان کی پوری آبادی کو جھنجھوڑ کر چکنا چور کردیا۔ اور اس پوری قوم کے وجود کو صفحہ ہستی سے اس طرح مٹا دیا کہ ان کی قبروں کا بھی کہیں نشان باقی نہ رہا۔ تو پھر بھلا ہم لوگوں جیسی کمزور قوموں کا کیا ٹھکانا ہے؟ کہ عذابِ الٰہی کے جھٹکوں کی تاب لاسکیں۔ اس لئے جن لوگوں کو اپنی اور اپنی نسلوں کی خیریت و بقا منظور ہے، انہیں لازم ہے کہ وہ اللہ و رسول عزوجل و کی نافرمانیوں اور بداعمالیوں سے ہمیشہ بچتے رہیں۔ اپنی کوشش اور طاقت بھر اعمال صالح اور نیکیاں کرتے رہیں، ورنہ قرآن مجید کی آیتیں ہمیں جھنجھوڑ کر یہ سبق دے رہی ہیں کہ نیکی کی تاثیر آبادی اور بدی کی تاثیر بربادی ہے۔ قرآن مجید میں پڑھ لو کہ
وَالْمُؤْتَفَکٰتُ بِالْخَاطِئَۃِ
یعنی بہت سی بستیاں اپنی بدکاریوں اور بد اعمالیوں کی وجہ سے ہلاک و برباد کردی گئیں۔ اور دوسری آیت میں یہ بھی پڑھ لو کہ:۔(پ۲۹،الحاقۃ:۹)
وَلَوْ اَنَّ اَہۡلَ الْقُرٰۤی اٰمَنُوۡا وَاتَّقَوۡا لَفَتَحْنَا عَلَیۡہِمۡ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَالۡارْضِ وَلٰکِنۡ کَذَّبُوۡا فَاَخَذْنٰہُمۡ بِمَا کَانُوۡا یَکْسِبُوۡنَ ﴿96﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔اور اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور ڈرتے تو ضرور ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے مگر انہوں نے تو جھٹلایا تو ہم نے انہیں ان کے کئے پر گرفتارکیا۔(پ9،الاعراف:96)
یہ حضرت لوط علیہ السلام کا شہر ''سَدُوم''ہے۔ جو ملک شام میں صوبہ ''حِمْصْ'' کا ایک مشہور شہر ہے۔ حضرت لوط علیہ السلام بن ہاران بن تارخ، یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے ہیں۔ یہ لوگ عراق میں شہر ''بابل'' کے باشندہ تھے پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام وہاں سے ہجرت کر کے ''فلسطین'' تشریف لے گئے اور حضرت لوط علیہ السلام ملک شام کے ایک شہر ''اُردن'' میں مقیم ہو گئے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت عطا فرما کر ''سدوم'' والوں کی ہدایت کے لئے بھیج دیا۔
(تفسیر الصاوی،ج۲،ص۶۸۹،پ۸، الاعراف:۸۰)
شہر سدوم:۔شہر سدوم کی بستیاں بہت آباد اور نہایت سرسبز و شاداب تھیں اور وہاں طرح طرح کے اناج اور قسم قسم کے پھل اور میوے بکثرت پیدا ہوتے تھے۔ شہر کی خوشحالی کی وجہ سے اکثر جابجا کے لوگ مہمان بن کر ان آبادیوں میں آیا کرتے تھے اور شہر کے لوگوں کو ان مہمانوں کی مہمان نوازی کا بار اٹھانا پڑتا تھا۔ اس لئے اس شہر کے لوگ مہمانوں کی آمد سے بہت ہی کبیدہ خاطر اور تنگ ہوچکے تھے۔ مگر مہمانوں کو روکنے اور بھگانے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی۔ اس ماحول میں ابلیس لعین ایک بوڑھے کی صورت میں نمودار ہوا۔ اور ان لوگوں سے کہنے لگا کہ اگر تم لوگ مہمانوں کی آمد سے نجات چاہتے ہو تو اس کی یہ تدبیر ہے کہ جب بھی کوئی مہمان تمہاری بستی میں آئے تو تم لوگ زبردستی اس کے ساتھ بدفعلی کرو۔ چنانچہ سب سے پہلے ابلیس خود ایک خوبصورت لڑکے کی شکل میں مہمان بن کر اس بستی میں داخل ہوا۔ اور ان لوگوں سے خوب بدفعلی کرائی اس طرح یہ فعلِ بد ان لوگوں نے شیطان سے سیکھا۔ پھر رفتہ رفتہ اس برے کام کے یہ لوگ اس قدر عادی بن گئے کہ عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی شہوت پوری کرنے لگے۔
( روح البیان،ج۳،ص۱۹۷،پ۸،الاعراف: ۸۴)
چنانچہ حضرت لوط علیہ السلام نے ان لوگوں کو اس فعلِ بد سے منع کرتے ہوئے اس طرح وعظ فرمایا کہ:۔
اَتَاۡتُوۡنَ الْفَاحِشَۃَ مَا سَبَقَکُمۡ بِہَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیۡنَ ﴿80﴾اِنَّکُمْ لَتَاۡتُوۡنَ الرِّجَالَ شَہۡوَۃً مِّنۡ دُوۡنِ النِّسَآءِ ؕ بَلْ اَنۡتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوۡنَ ﴿81﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔اپنی قوم سے کہا کیا وہ بے حیائی کرتے ہو جو تم سے پہلے جہان میں کسی نے نہ کی تم تو مردوں کے پاس شہوت سے جاتے ہو عورتیں چھوڑ کر بلکہ تم لوگ حد سے گزر گئے۔(پ8،الاعراف:80،81)
حضرت لوط علیہ السلام کے اس اصلاحی اور مصلحانہ وعظ کو سن کر ان کی قوم نے نہایت بے"
باکی اور انتہائی بے حیائی کے ساتھ کیا کہا؟ اس کو قرآن کی زبان سے سنئے:۔
وَمَاکَانَ جَوَابَ قَوْمِہٖۤ اِلَّاۤ اَنۡ قَالُوۡۤا اَخْرِجُوۡہُمۡ مِّنۡ قَرْیَتِکُمْ ۚ اِنَّہُمْ اُنَاسٌ یَّتَطَہَّرُوۡنَ ﴿82﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔ اور اس کی قوم کا کچھ جواب نہ تھا مگر یہی کہنا کہ ان کو اپنی بستی سے نکال دو یہ لوگ تو پاکیزگی چاہتے ہیں۔(پ8،الاعراف:82)
جب قوم لوط کی سرکشی اور بدفعلی قابل ہدایت نہ رہی تو اللہ تعالیٰ کا عذاب آگیا۔ چنانچہ حضرت جبرائیل علیہ السلام چند فرشتوں کو ہمراہ لے کر آسمان سے اتر پڑے۔ پھر یہ فرشتے مہمان بن کر حضرت لوط علیہ السلام کے پاس پہنچے اور یہ سب فرشتے بہت ہی حسین اور خوبصورت لڑکوں کی شکل میں تھے۔ ان مہمانوں کے حسن و جمال کو دیکھ کر اور قوم کی بدکاری کا خیال کر کے حضرت لوط علیہ السلام بہت فکرمند ہوئے۔ تھوڑی دیر بعد قوم کے بدفعلوں نے حضرت لوط علیہ السلام کے گھر کا محاصرہ کرلیا اور ان مہمانوں کے ساتھ بدفعلی کے ارادہ سے دیوار پر چڑھنے لگے۔ حضرت لوط علیہ السلام نے نہایت دل سوزی کے ساتھ ان لوگوں کو سمجھانا اور اس برے کام سے منع کرنا شروع کردیا۔ مگر یہ بدفعل اور سرکش قوم اپنے بے ہودہ جواب اور برے اقدام سے باز نہ آئی۔ تو آپ اپنی تنہائی اور مہمانوں کے سامنے رسوائی سے تنگ دل ہوکر غمگین و رنجیدہ ہو گئے۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت جبریل علیہ السلام نے فرمایا کہ اے اللہ عزوجل کے نبی آپ بالکل کوئی فکر نہ کریں۔ ہم لوگ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں جو ان بدکاروں پر عذاب لے کر اترے ہیں۔ لہٰذا آپ مومنین اور اپنے اہل و عیال کو ساتھ لے کر صبح ہونے سے قبل ہی اس بستی سے دور نکل جائیں اور خبردار کوئی شخص پیچھے مڑ کر اس بستی کی طرف نہ دیکھے ورنہ وہ بھی اس عذاب میں گرفتار ہوجائے گا۔ چنانچہ حضرت لوط علیہ السلام اپنے گھر والوں اور مومنین کو ہمراہ لے کر بستی سے باہر نکل گئے۔ پھر حضرت جبریل علیہ السلام اس"
شہر کی پانچوں بستیوں کو اپنے پروں پر اٹھا کر آسمان کی طرف بلند ہوئے اور کچھ اوپر جا کر ان بستیوں کو الٹ دیا اور یہ آبادیاں زمین پر گر کر چکنا چور ہو کر زمین پر بکھر گئیں۔ پھر کنکر کے پتھروں کا مینہ برسا اور اس زور سے سنگ باری ہو ئی کہ قوم لوط کے تمام لوگ مر گئے اور ان کی لاشیں بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر گئیں۔ عین اس وقت جب کہ یہ شہر الٹ پلٹ ہو رہا تھا۔ حضرت لوط علیہ السلام کی ایک بیوی جس کا نام ''واعلہ'' تھا جو درحقیقت منافقہ تھی اور قوم کے بدکاروں سے محبت رکھتی تھی اس نے پیچھے مڑ کر دیکھ لیا اور یہ کہا کہ ''ہائے رے میری قوم''یہ کہہ کر کھڑی ہو گئی پھر عذابِ الٰہی کا ایک پتھر اس کے اوپر بھی گر پڑا اور وہ بھی ہلاک ہو گئی۔ چنانچہ قرآن مجید میں حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:۔
فَاَنۡجَیۡنٰہُ وَاَہۡلَہٗۤ اِلَّا امْرَاَتَہٗ ۫ۖ کَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِیۡنَ ﴿83﴾وَاَمْطَرْنَا عَلَیۡہِمۡ مَّطَرًا ؕ فَانۡظُرْکَیۡفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُجْرِمِیۡنَ ﴿٪84﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔تو ہم نے اسے اور اس کے گھر والوں کو نجات دی مگر اس کی عورت وہ رہ جانے والوں میں ہوئی اور ہم نے اُن پر ایک مینہ برسایا تو دیکھو کیسا انجام ہوا مجرموں کا۔(پ8،الاعراف:83،84)
جو پتھر اس قوم پر برسائے گئے وہ کنکروں کے ٹکڑے تھے۔ اور ہر پتھر پر اُس شخص کا نام لکھا ہوا تھا جو اس پتھر سے ہلاک ہوا۔"
(تفسیر الصاوی،ج۲،ص۶۹۱،پ۸،الاعراف:۸۴)
"درس ہدایت:۔اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ لواطت کس قدر شدید اور ہولناک گناہ کبیرہ ہے کہ اس جرم میں قوم لوط کی بستیاں الٹ پلٹ کر دی گئیں اور مجرمین پتھراؤ کے عذاب سے مر کر دنیا سے نیست و نابود ہو گئے۔
منقول ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایک مرتبہ ابلیس لعین سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کو سب سے بڑھ کر کون سا گناہ ناپسند ہے؟ تو ابلیس نے کہا کہ سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو یہ گناہ"
ناپسند ہے کہ مرد، مرد سے بدفعلی کرے اور عورت، عورت سے اپنی خواہش پوری کرے۔ اور حدیث میں ہے کہ عورت کا اپنی فرج کو دوسری عورت کی فرج سے رگڑنا یہ ان دونوں کی زنا کاری ہے جو گناہ کبیرہ ہے۔
( روح البیان،ج۳،ص۱۹۸،پ۸، الاعراف:۸۴)
(لواطت کی ممانعت کا تفصیلی بیان ہماری کتاب ''جہنم کے خطرات'' میں پڑھیئے)
"فرعون کی ہلاکت کے بعد بنی اسرائیل اس کے پنجے سے آزاد ہو کر سب ایمان لائے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خداوند کریم کا یہ حکم ہوا کہ وہ چالیس راتوں کا کوہِ طور پر اعتکاف کریں اس کے بعد انہیں کتاب (توراۃ) دی جائے گی۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہِ طور پر چلے گئے اور بنی اسرائیل کو اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کے سپرد کردیا۔ آپ چالیس دن تک دن بھر روزہ دار رہ کر ساری رات عبادت میں مشغول رہتے۔
سامری:۔بنی اسرائیل میں ایک حرامی شخص تھا جس کا نام سامری تھا جو طبعی طور پر نہایت گمراہ اور گمراہ کن آدمی تھا۔ اس کی ماں نے برادری میں رسوائی و بدنامی کے ڈر سے اس کو پیدا ہوتے ہی پہاڑ کے ایک غار میں چھوڑ دیا تھا اور حضرت جبرئیل علیہ السلام نے اس کو اپنی انگلی سے دودھ پلا پلا کر پالا تھا۔ اس لئے یہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کو پہچانتا تھا۔ اس کا پورا نام ''موسیٰ سامری'' ہے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا نام بھی ''موسیٰ'' ہے۔ موسیٰ سامری کو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے پالا تھا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پرورش فرعون کے گھر ہوئی تھی۔ مگر خدا کی شان کہ فرعون کے گھر پرورش پانے والے موسیٰ علیہ السلام تو خدا کے رسول ہوئے اور حضرت جبرئیل علیہ السلام کا پالا ہوا موسیٰ سامری کافر ہوا اور بنی اسرائیل کو گمراہ کر کے اس نے بچھڑے کی پوجا کرائی۔ اس بارے میں کسی عارف نے کیا خوب کہا ہے:۔"
" اِذَاالْمَرْءُ لَمْ یُخْلَقْ سَعِیْدًا مِّنَ الْاَزَل
فَقَدْ خَابَ مَنْ رَبّٰی وَخَابَ الْمُؤَمِّل
فَمُوْسَی الَّذِیْ رَبَّاہُ جِبْرِیْلُ کَافِرُ
وَمُوْسَی الَّذِیْ رَبَّاہُ فِرْعَوْنُ مُرْسَل"
یعنی جب کوئی آدمی ازل ہی سے نیک بخت نہیں ہوتا تو وہ بھی نامراد ہوتا ہے۔ اور اسکی پرورش کرنے والے کی کوشش بھی ناکام اور نامراد ہوتی ہے۔ دیکھ لو موسیٰ سامری جو حضرت جبرئیل علیہ السلام کا پالا ہوا تھا وہ کافر ہوااور حضرت موسیٰ علیہ السلام جو فرعون کی پرورش میں رہے وہ خدا کے رسول ہوئے۔ اس کا راز یہی ہے کہ موسیٰ سامری ازلی شقی اور پیدائشی بدبخت تھا تو حضرت جبرئیل علیہ السلام کی تربیت اور پرورش نے اس کو کچھ بھی نفع نہ دیا،اور وہ کافر کا کافر ہی رہ گیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام چونکہ ازلی سعید اور نیک بخت تھے اس لئے فرعون جیسے کافر کی پرورش سے بھی ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔
(تفسیر الصاوی،ج۱،ص۶۳،پ۱،البقرۃ: ۵۱)
جن دنوں حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہِ طور پر معتکف تھے۔ سامری نے آپ کی غیر موجودگی کو غنیمت جانا اور یہ فتنہ برپا کردیا کہ اس نے بنی اسرائیل کے سونے چاندی کے زیورات کو مانگ کر پگھلایا اور اس سے ایک بچھڑا بنایا۔ اور حضرت جبرائیل علیہ السلام کے گھوڑے کے قدموں کی خاک جو اس کے پاس محفوظ تھی اس نے وہ خاک بچھڑے کے منہ میں ڈال دی تو وہ بچھڑا بولنے لگا۔ پھر سامری نے بنی اسرائیل سے یہ کہا کہ اے میری قوم! حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہِ طور پر خدا عزوجل کے دیدار کے لئے تشریف لے گئے ہیں۔ حالانکہ تمہارا خدا تو یہی بچھڑا ہے۔ لہٰذا تم لوگ اسی کی عبادت کرو۔ سامری کی اس تقریر سے بنی اسرائیل گمراہ ہو گئے اور بارہ ہزار آدمیوں کے سوا ساری قوم نے چاندی سونے کے بچھڑے کو بولتا دیکھ کر اس کو خدا مان لیا اور اس کے آگے
سر بسجود ہو کر اس بچھڑے کو پوجنے لگے۔ چنانچہ خداوند قدوس کا ارشاد ہے:۔
وَ اتَّخَذَ قَوْمُ مُوۡسٰی مِنۡۢ بَعْدِہٖ مِنْ حُلِیِّہِمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّہٗ خُوَارٌ ؕ
"ترجمہ کنزالایمان:۔ اور موسیٰ کے بعد اس کی قوم اپنے زیوروں سے ایک بچھڑا بنا بیٹھی بے جان کا دھڑ گائے کی طرح آواز کرتا۔ (پ۹،الاعراف:۱۴۸)
جب چالیس دنوں کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام خدا عزوجل سے ہم کلام ہو کر اور توراۃ شریف ساتھ لے کر بستی میں تشریف لائے اور قوم کو بچھڑا پوجتے ہوئے دیکھا تو آپ پر بے حد غضب و جلال طاری ہو گیا۔ آپ نے جوش غضب میں تورات شریف کو زمین پر ڈال دیا اور اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کی داڑھی اور سر کے بال پکڑ کر گھسیٹنا اور مارنا شروع کردیا اور فرمانے لگے کہ کیوں تم نے ان لوگوں کو اس کام سے نہیں روکا۔ حضرت ہارون علیہ السلام معذرت کرنے لگے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:۔"
قَالَ ابْنَ اُمَّ اِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُوۡنِیۡ وَکَادُوۡا یَقْتُلُوۡنَنِیۡ ۫ۖ فَلَا تُشْمِتْ بِیَ الۡاَعْدَآءَ وَلَا تَجْعَلْنِیۡ مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿150﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔کہا اے میرے ماں جائے قوم نے مجھے کمزور سمجھا اور قریب تھا کہ مجھے مار ڈالیں تو مجھ پر دشمنوں کو نہ ہنسا اور مجھے ظالموں میں نہ ملا۔ (پ9،الاعراف:150)
حضرت ہارون علیہ السلام کی معذرت سن کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا غصہ ٹھنڈا پڑ گیا۔ اس کے بعد آپ نے اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کے لئے رحمت اور مغفرت کی دعا فرمائی۔ پھر آپ نے اس بچھڑے کو توڑ پھوڑ کر اور جلا کر اور اس کو ریزہ ریزہ کر کے دریا میں بہا دیا۔
درس ہدایت:۔مذکورہ بالا قرآنی واقعہ سے خاص طو رپر دو سبق ملتے ہیں:۔
(۱)اس سے علماء کرام کو یہ سبق ملتا ہے کہ علماء کرام کو کبھی اپنے مذہب کے عوام کی طرف سے غافل نہیں رہنا چاہے بلکہ ہمیشہ عوام کو مذہبی باتیں بتاتے رہنا چاہے۔ آپ نے دیکھا کہ"
"سامری نے چالیس دن حضرت موسیٰ علیہ السلام کی غیر موجودگی سے فائدہ اٹھا کر ساری قوم کو بہکا کر گمراہ کردیا۔ اسی طرح اگر علمائے اہل سنت اپنی قوم کی ہدایت و خبر گیری سے غافل رہیں گے تو بدمذہبوں کو موقع مل جائے گا کہ ان لوگوں کو بہکا کر گمراہ کردیں۔
(۲)حضرت جبرئیل علیہ السلام کے گھوڑے کے پاؤں کی خاک میں جب یہ اثر تھا کہ بچھڑے کے منہ میں پڑتے ہی بچھڑا بولنے لگا تو اس سے معلوم ہوا کہ اللہ والوں کے قدموں کے نیچے کی خاک میں بھی خیر و برکت کے اثرا ت ہوا کرتے ہیں۔ لہٰذا خدا کے نیک بندوں کے غبار آلود قدموں کو دھو کر مکانوں میں پانی چھڑکنا جیسا کہ بعض خوش عقیدہ مریدین کا طریقہ ہے یہ کوئی لغو اور بیکار کام نہیں بلکہ اس سے فیوض و برکات اور فوائد حاصل ہونے کی امید ہے اور یہ شرعاً جائز بھی ہے۔"
(واللہ تعالیٰ اعلم)
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے توراۃ شریف کے احکام پڑھ کر بنی اسرائیل کو سنائے اور فرمایا کہ تم لوگ اس پر عمل کرو۔ جب بنی اسرائیل نے توراۃ شریف کے احکام کو سنا تو ایک دم انہوں نے ان احکام کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اس سرکشی پر اللہ تعالیٰ کا یہ غضب نازل ہوا کہ ناگہاں کوہِ طور جڑ سے اُکھڑ کر ہوا میں اُڑتا ہوا بنی اسرائیل کے سروں کے اوپر ہوا میں معلق ہو گیا جو تین میل لمبی اور تین میل چوڑی زمین میں ڈیرے ڈالے ہوئے مقیم تھے۔ جب بنی اسرائیل نے یہ دیکھا کہ پہاڑ ان کے سروں پر لٹک رہا ہے تو سب کے سب سجدہ میں گر کر عہد کرنے لگے کہ ہم نے توراۃ کے سب احکامات کو قبول کیا۔ اور ہم ان پر عمل بھی کریں گے۔ مگر ان لوگوں نے سجدہ میں اپنے رخسار اور بائیں بھنوؤں کو زمین پر رکھا اور داہنی آنکھ سے پہاڑ کو دیکھتے رہے کہ کہیں ہمارے اوپر گر تو نہیں رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب بھی یہودی اسی طرح سجدہ کرتے ہیں کہ بایاں رخسار اور بایاں بھنوؤں زمین پر رکھتے ہیں۔ بہرحال بنی اسرائیل نے جب توبہ
کرلی اور توراۃ کے احکام پر عمل کرنے کا عہد کرلیا تو پھر یہ پہاڑ اڑ کر اپنی جگہ پر چلا گیا۔ قرآن مجید نے اس واقعہ کو چند جگہوں پر بیان فرمایا ہے مثلاً سورہ اعراف میں ہے کہ:۔
وَ اِذۡ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَہُمْ کَاَنَّہٗ ظُلَّۃٌ وَّظَنُّوۡۤا اَنَّہٗ وَاقِعٌۢ بِہِمْ ۚ خُذُوۡا مَاۤ اٰتَیۡنٰکُمۡ بِقُوَّۃٍ وَّاذْکُرُوۡا مَا فِیۡہِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوۡنَ ﴿171﴾٪
"ترجمہ کنزالایمان:۔اور جب ہم نے پہاڑ ان پر اٹھایا گویا وہ سائبان ہے اور سمجھے کہ وہ ان پر گر پڑے گا لوجو ہم نے تمہیں دیا زور سے اور یاد کرو جو اس میں ہے کہ کہیں تم پرہیز گار ہو۔ (پ9،الاعراف:171)
درس ہدایت:۔اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ ناواقفوں یا سرکشوں کو کسی نیک کام کے کرنے یا اچھی بات کو قبول کرنے پر ڈرا دھمکا کر مجبور کرنا یہ عین حکمت اور خداوند قدوس کی مقدس سنت ہے۔"
(واللہ تعالیٰ اعلم)
"بلعم بن باعوراء:۔یہ شخص اپنے دور کا بہت بڑا عالم اور عابد و زاہد تھا۔ اور اس کو اسم اعظم کا بھی علم تھا۔ یہ اپنی جگہ بیٹھا ہوا اپنی روحانیت سے عرش اعظم کو دیکھ لیا کرتا تھا۔ اور بہت ہی مستجاب الدعوات تھا کہ اس کی دعائیں بہت زیادہ مقبول ہوا کرتی تھیں۔ اس کے شاگردوں کی تعداد بھی بہت زیادہ تھی، مشہور یہ ہے کہ اس کی درسگاہ میں طالب علموں کی دواتیں بارہ ہزار تھیں۔
جب حضرت موسیٰ علیہ السلام ''قوم جبارین'' سے جہاد کرنے کے لئے بنی اسرائیل کے لشکروں کو لے کر روانہ ہوئے تو بلعم بن باعوراء کی قوم اس کے پاس گھبرائی ہوئی آئی اور کہا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بہت ہی بڑا اور نہایت ہی طاقتور لشکر لے کر حملہ آور ہونے والے ہیں۔ اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ ہم لوگوں کو ہماری زمینوں سے نکال کر یہ زمین اپنی قوم بنی اسرائیل کو دے دیں۔ اس لئے آپ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لئے ایسی بددعا کر دیجئے کہ وہ شکست کھا کر واپس چلے جائیں۔ آپ چونکہ مستجاب الدعوات ہیں اس لئے آپ کی دعا ضرور"
"مقبول ہوجائے گی۔ یہ سن کر بلعم بن باعوراء کانپ اٹھا۔ اور کہنے لگا کہ تمہارا برا ہو۔ خدا کی پناہ! حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ عزوجل کے رسول ہیں۔ اور ان کے لشکر میں مومنوں اور فرشتوں کی جماعت ہے ان پر بھلا میں کیسے اور کس طرح بددعا کرسکتا ہوں؟ لیکن اس کی قوم نے رو رو کر اور گڑگڑا کر اس طرح اصرار کیا کہ اس نے یہ کہہ دیا کہ استخارہ کرلینے کے بعد اگر مجھے اجازت مل گئی تو بددعا کردوں گا۔ مگر استخارہ کے بعد جب اس کو بددعا کی اجازت نہیں ملی تو اس نے صاف صاف جواب دے دیا کہ اگر میں بددعا کروں گاتو میری دنیا و آخرت دونوں برباد ہوجائیں گی۔
اس کے بعد اس کی قوم نے بہت سے گراں قدر ہدایا اور تحائف اس کی خدمت میں پیش کر کے بے پناہ اصرار کیا۔ یہاں تک کہ بلعم بن باعوراء پر حرص اور لالچ کا بھوت سوار ہو گیا، اور وہ مال کے جال میں پھنس گیا۔ اور اپنی گدھی پر سوار ہو کر بددعا کے لئے چل پڑا۔ راستہ میں بار بار اس کی گدھی ٹھہر جاتی اور منہ موڑ کر بھاگ جانا چاہتی تھی۔ مگر یہ اس کو مار مار کر آگے بڑھاتا رہا۔ یہاں تک کہ گدھی کو اللہ تعالیٰ نے گویائی کی طاقت عطا فرمائی۔ اور اس نے کہا کہ افسوس! اے بلعم باعوراء تو کہاں اور کدھر جا رہا ہے؟ دیکھ! میرے آگے فرشتے ہیں جو میرا راستہ روکتے اور میر امنہ موڑ کر مجھے پیچھے دھکیل رہے ہیں۔ اے بلعم! تیرا برا ہو کیا تو اللہ کے نبی اور مومنین کی جماعت پر بددعا کریگا؟ گدھی کی تقریر سن کر بھی بلعم بن باعوراء واپس نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ ''حسبان'' نامی پہاڑ پر چڑھ گیا۔ اور بلندی سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لشکروں کو بغور دیکھا اور مال و دولت کے لالچ میں اس نے بددعا شروع کردی۔ لیکن خدا عزوجل کی شان کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لئے بددعا کرتا تھا۔ مگر اس کی زبان پر اس کی قوم کے لئے بددعا جاری ہوجاتی تھی۔ یہ دیکھ کر کئی مرتبہ اس کی قوم نے ٹوکا کہ اے بلعم! تم تو الٹی بددعا کررہے ہو۔ تو اس نے کہا کہ اے میری قوم! میں کیا کروں میں بولتا کچھ اور ہوں اور میری زبان سے کچھ اور ہی نکلتا ہے۔ پھر اچانک اس پر یہ غضب ِ الٰہی نازل ہو گیا کہ ناگہاں اس کی"
زبان لٹک کر اس کے سینے پر آگئی۔ اس وقت بلعم بن باعوراء نے اپنی قوم سے رو کر کہا کہ افسوس میری دنیا و آخرت دونوں برباد و غارت ہوگئیں۔ میرا ایمان جاتا رہا اور میں قہر قہار و غضب جبار میں گرفتار ہو گیا۔ اب میری کوئی دعا قبول نہیں ہوسکتی۔ مگر میں تم لوگوں کو مکر کی ایک چال بتاتا ہوں تم لوگ ایسا کرو تو شاید حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لشکروں کو شکست ہوجائے۔ تم لوگ ہزاروں خوبصورت لڑکیوں کو بہترین پوشاک اور زیورات پہنا کر بنی اسرائیل کے لشکروں میں بھیج دو۔ اگر ان کا ایک آد می بھی زنا کریگا تو پورے لشکر کو شکست ہوجائے گی۔ چنانچہ بلعم بن باعوراء کی قوم نے اس کے بتائے ہوئے مکر کا جال بچھایا۔ اور بہت سی خوبصورت دوشیزاؤں کو بناؤ سنگھار کرا کر بنی اسرائیل کے لشکروں میں بھیجا۔ یہاں تک کہ بنی اسرائیل کا ایک رئیس ایک لڑکی کے حسن و جمال پر فریفتہ ہو گیا اور اس کو اپنی گود میں اٹھا کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سامنے گیا۔ اور فتویٰ پوچھا کہ اے اللہ عزوجل کے نبی! یہ عورت میرے لئے حلال ہے یا نہیں؟ آپ نے فرمایا کہ خبردار! یہ تیرے لئے حرام ہے۔ فوراً اس کو اپنے سے الگ کردے۔ اور اللہ عزوجل کے عذاب سے ڈر۔ مگر اس رئیس پر غلبہ شہوت کا ایسا زبردست بھوت سوار ہو گیا تھا کہ وہ اپنے نبی علیہ السلام کے فرمان کو ٹھکرا کر اُس عورت کو اپنے خیمہ میں لے گیا۔ اور زنا کاری میں مشغول ہو گیا۔ اس گناہ کی نحوست کا یہ اثر ہوا کہ بنی اسرائیل کے لشکر میں اچانک طاعون (پلیگ)کی وبا پھیل گئی اور گھنٹے بھر میں ستر ہزار آدمی مر گئے اور سارا لشکر تتر بتر ہو کر ناکام و نامراد واپس چلا آیا۔ جس کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قلب ِ مبارک پر بہت ہی صدمہ گزرا۔
(تفسیر الصاوی،ج۲،ص۷۲۷،پ۹،الاعراف، :۱۷۵)
بلعم بن باعوراء پہاڑ سے اتر کر مردود بارگاہِ الٰہی ہو گیا۔ آخری دم تک اس کی زبان اس کے سینے پر لٹکتی رہی اور وہ بے ایمان ہو کر مر گیا۔ اس واقعہ کو قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔
وَاتْلُ عَلَیۡہِمْ نَبَاَ الَّذِیۡۤ اٰتَیۡنٰہُ اٰیٰتِنَا فَانۡسَلَخَ مِنْہَا فَاَتْبَعَہُ الشَّیۡطٰنُ فَکَانَ مِنَ الْغٰوِیۡنَ ﴿175﴾وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنٰہُ بِہَا وَلٰکِنَّہٗۤ اَخْلَدَ اِلَی الۡاَرْضِ وَاتَّبَعَ ہَوٰىہُ ۚ فَمَثَلُہٗ کَمَثَلِ الْکَلْبِ ۚ اِنۡ تَحْمِلْ عَلَیۡہِ یَلْہَثْ اَوْ تَتْرُکْہُ یَلْہَثۡ ؕ ذٰلِکَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا ۚ فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوۡنَ ﴿176﴾ (پ9،الاعراف:175،176)
"ترجمہ کنزالایمان:۔ اور اے محبوب انہیں اس کا احوال سناؤ جسے ہم نے اپنی آیتیں دیں تو وہ ان سے صاف نکل گیا تو شیطان اس کے پیچھے لگا تو گمراہوں میں ہو گیا۔ اور ہم چاہتے تو آیتوں کے سبب اسے اٹھا لیتے مگر وہ تو زمین پکڑ گیا اور اپنی خواہش کا تابع ہوا تو اس کا حال کتے کی طرح ہے تو اس پر حملہ کرے تو زبان نکالے اور چھوڑ دے تو زبان نکالے یہ حال ہے ان کا جنہوں نے ہماری آیتیں جھٹلائیں تو تم نصیحت سناؤ کہ کہیں وہ دھیان کریں۔
بلعم بن باعوراء کیوں ذلیل ہوا؟:۔روایت ہے کہ بعض انبیاء کرام نے خدا تعالیٰ سے دریافت کیا کہ تونے بلعم بن باعوراء کو اتنی نعمتیں عطا فرما کر پھر اس کو کیوں اس قعرِ مذلت میں گرا دیا؟ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اُس نے میری نعمتوں کا کبھی شکر ادا نہیں کیا۔ اگر وہ شکر گزار ہوتا تو میں اس کی کرامتوں کو سلب کر کے اس کو دونوں جہاں میں اس طرح ذلیل و خوار اور غائب و خاسر نہ کرتا۔"
(تفسیر روح البیان،ج۳،ص۱۳۹،پ۸،الاعراف :۱۰)
"درسِ ہدایت:۔بلعم بن باعوراء کی اس سرگزشت سے چند اسباقِ ہدایت ملتے ہیں:۔
(۱)اس سے اُن عالموں اور لیڈروں کو سبق حاصل کرنا چاہے جو مالداروں یا حکومتوں سے رقمیں لے کر خلافِ شریعت باتیں کرتے ہیں اور جان بوجھ کر اپنے دین و ایمان کا سودا کرتے ہیں۔ دیکھ لو بلعم بن باعوراء کیا تھا اور کیا ہو گیا؟ یہ کیوں ہوا؟ اس لئے اور صرف اس لئے کہ وہ مال و دولت کے لالچ میں گرفتار ہو گیا اور دانستہ اللہ عزوجل کے نبی پر بددعا کرنے کے لئے تیار"
ہو گیا۔ تو اس کا اس پر یہ وبال پڑا کہ دنیا و آخرت میں ملعون ہوکر اس طرح مردود مطرود ہو گیا کہ عمر بھر کتے کی طرح لٹکتی ہوئی زبان لئے پھرا اور آخرت میں جہنم کی بھڑکتی اور شعلہ بار آگ کا ایندھن بن گیا۔ لہٰذا ہر مسلمان خصوصاً علماء و مشائخ کو مال و دولت کے حرص اور لالچ کے جال سے ہمیشہ پرہیز کرنا چاہے اور ہرگز کبھی بھی مال کی طمع میں دین کے اندر مداہنت نہیں کرنی چاہے۔ ورنہ خوب سمجھ لو کہ قہرِ الٰہی عزوجل کی تلوار لٹک رہی ہے۔
(والعیاذ باللہ منہ)
(۲)اس سانحہ سے عام مسلمان بھی یہ سبق سیکھیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا لشکر جس میں ملائکہ اور مومنین تھے۔ ظاہر ہے کہ اس لشکر کے ناکام ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا کیونکہ یہ ایسا روحانی اور ملکوتی لشکر تھا کہ ان کے گھوڑوں کی ٹاپ سے پہاڑ لرزہ براندام ہوجاتے ،مگر صرف ایک بدنصیب کے گناہ کے سبب ایسی نحوست پھیل گئی کہ ملائکہ لشکر سے الگ ہوگئے اور طاعون کے عذاب نے پورے لشکر میں ایسی ابتری پھیلا دی کہ پورا لشکر بکھر گیا۔ اور یہ فوج ظفر موج ناکام و نامراد ہو کر پسپا ہو گئی۔ اس لئے مسلمانوں کو لازم ہے کہ اگر وہ کفار کے مقابلہ میں مظفر و منصور اور فتح یاب ہونا چاہتے ہیں تو ہر وقت گناہوں اور بدکاریوں کی نحوستوں سے بچتے رہیں ورنہ فرشتوں کی مدد ختم ہوجائے گی۔ اور مسلمانوں کا رعب کفار کے دلوں سے نکل جائے گا اور مسلمانوں کو نہ صرف ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا بلکہ ان کی عسکری طاقت ہی فنا ہوجائے گی اور پوری قوم صفحہ ہستی سے حرف ِ غلط کی طرح مٹ جائے گی۔
(نعوذباللہ منہ)
"حضرت یونس علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے شہر ''نینویٰ''کے باشندوں کی ہدایت کے لئے رسول بنا کر بھیجا تھا۔
نینویٰ:۔یہ موصل کے علاقہ کا ایک بڑا شہر تھا۔ یہاں کے لوگ بت پرستی کرتے تھے اور کفر و شرک میں مبتلا تھے۔ حضرت یونس علیہ السلام نے ان لوگوں کو ایمان لانے اور بت پرستی چھوڑنے"
"کا حکم دیا۔ مگر ان لوگوں نے اپنی سرکشی اور تمرد کی وجہ سے اللہ عزوجل کے رسول علیہ السلام کو جھٹلادیا اور ایمان لانے سے انکار کردیا۔ حضرت یونس علیہ السلام نے انہیں خبر دی کہ تم لوگوں پر عنقریب عذاب آنے والا ہے۔ یہ سن کر شہر کے لوگوں نے آپس میں یہ مشورہ کیا کہ حضرت یونس علیہ السلام نے کبھی کوئی جھوٹی بات نہیں کہی ہے۔ اس لئے یہ دیکھو کہ اگر وہ رات کو اس شہر میں رہیں جب تو سمجھ لو کہ کوئی خطرہ نہیں ہے اور اگر انہوں نے اس شہر میں رات نہ گزاری تو یقین کرلینا چاہے کہ ضرور عذاب آئے گا۔ رات کو لوگوں نے یہ دیکھا کہ حضرت یونس علیہ السلام شہر سے باہر تشریف لے گئے۔ اور واقعی صبح ہوتے ہی عذاب کے آثار نظر آنے لگے کہ چاروں طرف سے کالی بدلیاں نمودار ہوئیں اور ہر طرف سے دھواں اٹھ کر شہر پر چھا گیا۔ یہ منظر دیکھ کر شہر کے باشندوں کو یقین ہو گیا کہ عذاب آنے والا ہی ہے تو لوگوں کو حضرت یونس علیہ السلام کی تلاش و جستجو ہوئی مگر وہ دور دور تک کہیں نظر نہیں آئے۔ اب شہر والوں کو اور زیادہ خطرہ اور اندیشہ ہو گیا۔ چنانچہ شہر کے تمام لوگ خوف ِ خداوندی عزوجل سے ڈر کر کانپ اٹھے اور سب کے سب عورتوں، بچوں بلکہ اپنے مویشیوں کو ساتھ لے کر اور پھٹے پرانے کپڑے پہن کر روتے ہوئے جنگل میں نکل گئے اور رو رو کر صدقِ دل سے حضرت یونس علیہ السلام پر ایمان لانے کا اقرار و اعلان کرنے لگے۔ شوہر بیوی سے اور مائیں بچوں سے الگ ہو کر سب کے سب استغفار میں مشغول ہو گئے اور دربارِ باری میں گڑگڑا کر گریہ و زاری شروع کردی۔ جو مظالم آپس میں ہوئے تھے ایک دوسرے سے معاف کرانے لگے اور جتنی حق تلفیاں ہوئی تھیں سب کی آپس میں معافی تلافی کرنے لگے۔ غرض سچی توبہ کر کے خدا عزوجل سے یہ عہد کرلیا کہ حضرت یونس علیہ السلام جو کچھ خدا کا پیغام لائے ہیں ہم اس پر صدقِ دل سے ایمان لائے، اللہ تعالیٰ کو شہر والوں کی بے قراری اور مخلصانہ گریہ و زاری پر رحم آیا اور عذاب اٹھا لیا گیا۔ ناگہاں دھواں اور عذاب کی بدلیاں رفع ہو گئیں اور تمام لوگ پھر شہر میں آکر امن و چین کے ساتھ رہنے لگے۔
اس واقعہ کو ذکر کرتے ہوئے خداوند قدوس نے قرآن مجید میں یوں ارشاد فرمایا ہے کہ:۔"
فَلَوْ لَا کَانَتْ قَرْیَۃٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَہَاۤ اِیۡمٰنُہَاۤ اِلَّا قَوْمَ یُوۡنُسَؕ لَمَّاۤ اٰمَنُوۡا کَشَفْنَا عَنْہُمْ عَذَابَ الۡخِزْیِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَمَتَّعْنٰہُمْ اِلٰی حِیۡنٍ ﴿۹۸﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔تو ہوئی ہوتی نہ کوئی بستی کہ ایمان لاتی تو اس کا ایمان کام آتا ہاں یونس کی قوم جب ایمان لائے ہم نے ان سے رسوائی کا عذاب دنیا کی زندگی میں ہٹا دیا اور ایک وقت تک انہیں برتنے دیا۔ (پ۱۱،یونس:۹۸)
مطلب یہ ہے کہ جب کسی قوم پر عذاب آجاتا ہے تو عذاب آجانے کے بعد ایمان لانا مفید نہیں ہوتا مگر حضرت یونس علیہ السلام کی قوم پر عذاب کی بدلیاں آجانے کے بعد بھی جب وہ لوگ ایمان لائے تو ان سے عذاب اٹھا لیا گیا۔
عذاب ٹلنے کی دعا:۔طبرانی شریف کی روایت ہے کہ شہر نینویٰ پر جب عذاب کے آثار ظاہر ہونے لگے اور حضرت یونس علیہ السلام باجود تلاش و جستجو کے لوگوں کو نہیں ملے تو شہر والے گھبرا کر اپنے ایک عالم کے پاس گئے جو صاحب ِ ایمان اور شیخِ وقت تھے اور ان سے فریاد کرنے لگے تو انہوں نے حکم دیا کہ تم لوگ یہ وظیفہ پڑھ کر دعا مانگو"
یَاحَیُّ حِیْنَ لاَ حَیَّ و َیَاحَیُّ یُحْیِ الْمَوْتٰی وَیَاحَیُّ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ
چنانچہ لوگوں نے یہ پڑھ کر دعا مانگی تو عذاب ٹل گیا۔ لیکن مشہور محدث اور صاحب ِ کرامت ولی حضرت فضیل بن عیاض علیہ الرحمۃ کا قول ہے کہ شہر نینویٰ کا عذاب جس دعا کی برکت سے دفع ہوا وہ دعا یہ تھی کہ
اَللّٰھُمَّ اِنَّ ذُنُوْبَنَا قَدْ عَظُمَتْ وَجَلَّتْ وَاَنْتَ اَعْظَمُ وَاَجَلُّ فَافْعَلْ بِنَا مَا اَنْتَ اَھْلُہٗ وَلاَ تَفْعَلْ بِنَا مَانَحْنُ اَھْلُہٗ
بہرحال عذاب ٹل جانے کے بعد جب حضرت یونس علیہ السلام شہر کے قریب آئے تو آپ نے شہر میں عذاب کا کوئی اثر نہیں دیکھا۔ لوگوں نے عرض کیا کہ آپ اپنی قوم میں تشریف لے جایئے۔ تو آپ نے فرمایا کہ کس طرح اپنی قوم میں جا سکتا ہوں؟ میں تو ان لوگوں کو عذاب کی خبر دے کر شہر سے نکل گیا تھا، مگر عذاب نہیں آیا۔ تو اب وہ لوگ مجھے جھوٹا سمجھ کر قتل کردیں
گے۔ آپ یہ فرما کر اور غصہ میں بھر کر شہر سے پلٹ آئے اور ایک کشتی میں سوار ہو گئے یہ کشتی جب بیچ سمندر میں پہنچی تو کھڑی ہو گئی۔ وہاں کے لوگوں کا یہ عقیدہ تھا کہ وہی کشتی سمندر میں کھڑی ہو جایا کرتی تھی جس کشتی میں کوئی بھاگا ہوا غلام سوار ہوجاتا ہے۔ چنانچہ کشتی والوں نے قرعہ نکالا تو حضرت یونس علیہ السلام کے نام کا قرعہ نکلا۔ تو کشتی والوں نے آپ کو سمندر میں پھینک دیا اور کشتی لے کر روانہ ہو گئے اور فوراً ہی ایک مچھلی آپ کو نگل گئی اور مچھلی کے پیٹ میں جہاں بالکل اندھیرا تھا آپ مقید ہو گئے۔ مگر اسی حالت میں آپ نے آیت کریمہ
لَآ اِلٰہَ اِلآَّ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَo(پ۱۷،الانبیاء:۸۷)
کا وظیفہ پڑھنا شروع کردیا تو اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس اندھیری کوٹھڑی سے نجات دی اور مچھلی نے کنارے پر آکر آپ کو اُگل دیا۔ اس وقت آپ بہت ہی نحیف و کمزور ہوچکے تھے۔ خدا عزوجل کی شان کہ اُس جگہ کدو کی ایک بیل اُگ گئی اور آپ اُس کے سایہ میں آرام کرتے رہے پھر جب آپ میں کچھ توانائی آگئی تو آپ اپنی قوم میں تشریف لائے اور سب لوگ انتہائی محبت و احترام کے ساتھ پیش آ کر آپ پر ایمان لائے۔
(تفسیر الصاوی،ج۳،ص۸۹۳،پ۱۱، یونس:۹۸)
حضرت یونس علیہ السلام کی اس دردناک سرگزشت کو قرآن کریم نے ان لفظوں میں بیان فرمایا ہے:۔
وَ اِنَّ یُوۡنُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیۡنَ ﴿139﴾ؕاِذْ اَبَقَ اِلَی الْفُلْکِ الْمَشْحُوۡنِ ﴿140﴾ۙفَسَاہَمَ فَکَانَ مِنَ الْمُدْحَضِیۡنَ ﴿141﴾ۚفَالْتَقَمَہُ الْحُوۡتُ وَ ہُوَ مُلِیۡمٌ ﴿142﴾فَلَوْلَاۤ اَنَّہٗ کَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِیۡنَ ﴿143﴾ۙلَلَبِثَ فِیۡ بَطْنِہٖۤ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوۡنَ ﴿144﴾ۚؒفَنَبَذْنٰہُ بِالْعَرَآءِ وَ ہُوَ سَقِیۡمٌ ﴿145﴾ۚوَ اَنۡۢبَتْنَا عَلَیۡہِ شَجَرَۃً مِّنۡ یَّقْطِیۡنٍ ﴿146﴾ۚوَ اَرْسَلْنٰہُ اِلٰی مِائَۃِ اَلْفٍ اَوْ یَزِیۡدُوۡنَ ﴿147﴾ۚفَاٰمَنُوۡا فَمَتَّعْنٰہُمْ اِلٰی حِیۡنٍ ﴿148﴾ (پ23،الصافات:139تا148)
"ترجمہ کنزالایمان:۔اور بیشک یونس پیغمبروں سے ہے جب کہ بھری کشتی کی طرف نکل گیا تو قرعہ ڈالا تو دھکیلے ہوؤں میں ہوا پھر اسے مچھلی نے نگل لیا اور وہ اپنے آپ کو ملامت کرتا تھا تو اگر وہ تسبیح کرنے والا نہ ہوتا ضرور اس کے پیٹ میں رہتا جس دن تک لوگ اٹھائے جائیں گے پھر ہم نے اسے میدان پر ڈال دیا اور وہ بیمار تھا اور ہم نے اس پر کدو کا پیڑ اُگایا اور ہم نے اسے لاکھ آدمیوں کی طرف بھیجا بلکہ زیادہ تو وہ ایمان لے آئے تو ہم نے انہیں ایک وقت تک برتنے دیا۔
درسِ ہدایت:۔(۱)نینویٰ والوں کی سرگزشت سے یہ سبق ملتا ہے کہ جب کسی قوم پر کوئی بلا عذاب بن کر نازل ہو تو اُس بلا سے نجات پانے کا یہی طریقہ ہے کہ لوگوں کو توبہ و استغفار میں مشغول ہو کر دعائیں مانگنی چاہیں تو امید ہے کہ بندوں کی بے قراری اور اُن کی گریہ و زاری پر"
ارحم الرٰحمین
"رحم فرما کر بلاؤں کے عذاب کو دفع فرما دے گا۔
(۲)حضرت یونس علیہ السلام کی دل ہلا دینے والی مصیبت اور مشکلات سے یہ ہدایت ملتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو کس کس طرح امتحان میں ڈالتا ہے۔ لیکن جب بندے امتحان میں پڑ کر صبر وا ستقامت کا دامن نہیں چھوڑتے اور عین بلاؤں کے طوفان میں بھی خدا کی یاد سے غافل نہیں ہوتے تو ارحم الرٰحمین اپنے بندوں کی نجات کا غیب سے ایسا انتظام فرما دیتا ہے کہ کوئی اس کو سوچ بھی نہیں سکتا۔ غور کیجئے کہ حضرت یونس علیہ السلام کو جب کشتی والوں نے سمندر میں پھینک دیا تو ان کی زندگی اور سلامتی کا کون سا ذریعہ باقی رہ گیا تھا؟ پھر انہیں مچھلی نے نگل لیا تو اب بھلا ان کی حیات کا کون سا سہارا رہ گیا تھا؟ مگر اسی حالت میں آپ نے جب آیت کریمہ کا وظیفہ پڑھا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں مچھلی کے پیٹ میں بھی زندہ و سلامت رکھا اور مچھلی کے پیٹ سے انہیں ایک میدان میں پہنچا دیا اور پھر انہیں تندرستی و سلامتی کے ساتھ اُن کی قوم اور وطن میں پہنچا دیا۔ اور ان کی تبلیغ کی بدولت ایک لاکھ سے زائد آدمیوں کو ہدایت مل گئی۔"
حضرت یوسف علیہ السلام کو جب ان کے بھائیوں نے کنوئیں میں ڈال دیا تو ایک شخص جس کا نام مالک بن ذعر تھا جو مدین کا باشندہ تھا۔ ایک قافلہ کے ہمراہ اس کنوئیں کے پاس پہنچا اور اپنا ڈول کنوئیں میں ڈالا تو حضرت یوسف علیہ السلام نے اس ڈول کو پکڑ لیا اور مالک بن ذعر نے آپ کو کنوئیں میں سے نکال لیا تو آپ کے بھائیوں نے اُس سے کہا کہ یہ ہمارا بھاگا ہوا غلام ہے۔ اگر تم اس کو خرید لو تو ہم بہت ہی سستا تمہارے ہاتھ بیچ دیں گے۔ چنانچہ اُن کے بھائیوں نے صرف بیس درہم میں حضرت یوسف علیہ السلام کو بیچ ڈالا مگر شرط یہ لگا دی کہ تم اس کو یہاں سے اتنی دور لے جاؤ کہ اس کی خبر بھی ہمارے سننے میں نہ آئے۔ مالک بن ذعر نے ان کو خرید کر مصر کے بازار کا رخ کیا اور بازار میں ان کو فروخت کرنے کا اعلان کیا۔ ان دنوں مصر کا بادشاہ دیان بن ولید عملیقی تھا اور اس نے اپنے وزیراعظم قطفیر مصری کو مصر کی حکومت اور خزانے سونپ دیئے تھے اور مصر میں لوگ اس کو ''عزیز مصر'' کے خطاب سے پکارتے تھے۔ جب عزیز مصر کو معلوم ہوا کہ بازارِ مصر میں ایک بہت ہی خوبصورت غلام فروخت کے لئے لایا گیا ہے اور لوگ اس کی خریداری کے لئے بڑی بڑی رقمیں لے کر بازار میں جمع ہو گئے ہیں تو عزیز مصر نے حضرت یوسف علیہ السلام کے وزن برابر سونا، اور اتنی ہی چاندی، اور اتنا ہی مشک، اور اتنے ہی حریر قیمت دے کر خریدلیا اور گھر لے جا کر اپنی بیوی ''زلیخا''سے کہا کہ اس غلام کو نہایت ہی اعزاز و اکرام کے ساتھ رکھو۔ اس وقت آپ کی عمر شریف تیرہ یا سترہ برس کی تھی۔ ''زلیخا''حضرت یوسف علیہ السلام کے حسن و جمال پر فریفتہ ہو گئی اور ایک دن خوب بناؤ سنگھار کر کے تمام دروازوں کو بند کردیا اور حضرت یوسف علیہ السلام کو تنہائی میں لبھانے لگی۔ آپ نے معاذ اللہ کہہ کر فرمایا کہ میں اپنے مالک عزیز مصر کے احسان کو فراموش کر کے ہرگز اُس کے ساتھ کوئی خیانت نہیں کرسکتا۔ پھر جب خود زلیخا آپ کی طرف لپکی تو آپ بھاگ
نکلے۔ اور زلیخا نے دوڑ کر پیچھے سے آپ کا پیراہن پکڑ لیا جو پھٹ گیاا ور آپ کے پیچھے زلیخا دوڑتی ہوئی صدر دروازہ پر پہنچ گئی۔ اتفاق سے ٹھیک اسی حالت میں عزیز مصر مکان میں داخل ہوا۔ اور دونوں کو دوڑتے ہوئے دیکھ لیا تو زلیخا نے عزیز مصر سے کہا کہ اس غلام کی سزا یہ ہے کہ اس کو جیل خانہ بھیج دیا جائے یا اور کوئی دوسری سخت سزا دی جائے کیونکہ اس نے تمہاری گھر والی کے ساتھ برائی کا ارادہ کیا تھا۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ اے عزیز مصر!یہ بالکل ہی غلط بیانی کررہی ہے۔ اس نے خود مجھے لبھایا اور میں اس سے بچنے کے لئے بھاگا تو اس نے میرا پیچھا کیا۔ عزیز مصر دونوں کا بیان سن کر حیران رہ گیا اور بولا کہ اے یوسف علیہ السلام میں کس طرح باور کرلوں کہ تم سچے ہو؟ تو آپ نے فرمایا کہ گھر میں چار مہینے کا ایک بچہ پالنے میں لیٹا ہوا ہے جو زلیخا کے ماموں کا لڑکا ہے۔ اس سے دریافت کرلیجئے کہ واقعہ کیا ہے؟ عزیز مصر نے کہا کہ بھلا چار ماہ کا بچہ کیا جانے اور وہ کیسے بولے گا؟ تو آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس کو ضرور میری بے گناہی کی شہادت دینے کی قدرت عطا فرمائے گا کیونکہ میں بے قصور ہوں۔ چنانچہ عزیز مصر نے جب اُس بچے سے پوچھا تو اُس بچے نے باآوازِ بلند فصیح زبان میں یہ کہا کہ
اِنۡ کَانَ قَمِیۡصُہٗ قُدَّ مِنۡ قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَہُوَ مِنَ الۡکٰذِبِیۡنَ ﴿26﴾وَ اِنْ کَانَ قَمِیۡصُہٗ قُدَّ مِنۡ دُبُرٍ فَکَذَبَتْ وَہُوَ مِنۡ الصّٰدِقِیۡنَ ﴿27﴾ (پ12،یوسف:26،27)
"ترجمہ کنزالایمان:۔گواہی دی اگر ان کا کرتا آگے سے چرا ہے تو عورت سچی ہے اور انہوں نے غلط کہا اور اگر ان کا کرتا پیچھے سے چاک ہوا تو عورت جھوٹی ہے اور یہ سچے۔
بچے کی زبان سے عزیز مصر نے یہ شہادت سن کر جو دیکھا تو ان کا کرتا پیچھے سے پھٹا ہوا تھا۔ تو اس وقت عزیز مصر نے حضرت یوسف علیہ السلام کی بے گناہی کا اعلان کرتے ہوئے یہ کہا:۔"
اِنَّہٗ مِنۡ کَیۡدِکُنَّ ؕ اِنَّ کَیۡدَکُنَّ عَظِیۡمٌ ﴿28﴾یُوۡسُفُ اَعْرِضْ عَنْ ہٰذَا ٜ وَ اسْتَغْفِرِیۡ لِذَنۡۢبِکِ ۚۖ اِنَّکِ کُنۡتِ مِنَ الْخٰطِـِٕیۡنَ ﴿٪29﴾ (پ12،یوسف:28،29)
ترجمہ کنزالایمان:۔ بیشک یہ تم عورتوں کا چرتر(فریب)ہے بیشک تمہارا چرتر (فریب)بڑا ہے اے یوسف تم اس کا خیال نہ کرو اور اے عورت تو اپنے گناہ کی معافی مانگ بے شک تو خطا واروں میں ہے۔
حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے جب اُن کو کنوئیں میں ڈال کر اپنے والد حضرت یعقوب علیہ السلام سے جا کر یہ کہہ دیا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو بھیڑیا کھا گیا تو حضرت یعقوب علیہ السلام کو بے انتہا رنج و قلق اور بے پناہ صدمہ ہوا۔ اور وہ اپنے بیٹے کے غم میں بہت دنوں تک روتے رہے اور بکثرت رونے کی وجہ سے بینائی کمزور ہو گئی تھی۔ پھر برسوں کے بعد جب برادران یوسف علیہ السلام قحط کے زمانے میں غلہ لینے کے لئے دوسری مرتبہ مصر گئے اور بھائیوں نے آپ کو پہچان کر اظہارِ ندامت کرتے ہوئے معافی طلب کی تو آپ نے انہیں معاف کرتے ہوئے یہ فرمایا کہ آج تم پر کوئی ملامت نہیں اللہ تعالیٰ تمہیں معاف فرما دے وہ
ارحم الرٰحمین
"ہے۔
جب آپ نے اپنے بھائیوں سے اپنے والد ماجد حضرت یعقوب علیہ السلام کا حال پوچھا اور بھائیوں نے بتایا کہ وہ تو آپ کی جدائی میں روتے روتے بہت ہی نڈھال ہوگئے ہیں۔ اور ان کی بینائی بھی بہت کمزور ہو گئی ہے۔ بھائیوں کی زبانی والد ماجد کا حال سن کر حضرت یوسف علیہ السلام بہت ہی رنجیدہ اور غمگین ہوگئے پھر آپ نے اپنے بھائیوں سے فرمایا کہ:۔"
اِذْہَبُوۡا بِقَمِیۡصِیۡ ہٰذَا فَاَلْقُوۡہُ عَلٰی وَجْہِ اَبِیۡ یَاۡتِ بَصِیۡرًا ۚ وَاۡتُوۡنِیۡ بِاَہۡلِکُمْ اَجْمَعِیۡنَ ﴿٪۹۳﴾ (پ۱۳،یوسف:۹۳)
ترجمہ کنزالایمان:۔میرا یہ کرتا لے جاؤ اسے میرے باپ کے منہ پر ڈالو ان کی آنکھیں کھل جائیں گی اور اپنے سب گھر بھر میرے پاس لے آؤ۔
"چنانچہ برادران یوسف علیہ السلام اس کرتے کو لے کر مصر سے کنعان کو روانہ ہوئے۔ آپ کے بھائیوں میں سے یہودا نے کہا کہ اس کرتے کو میں لے کر حضرت یعقوب علیہ السلام کے پاس جاؤں گا۔ کیونکہ حضرت یوسف علیہ السلام کو کنوئیں میں ڈال کر اُن کا خون آلود کرتا بھی میں ہی اُن کے پاس لے کر گیا تھا۔ اور میں نے ہی یہ کہہ کر ان کو غمگین کیا تھا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو بھیڑیا کھا گیا۔ توچونکہ میں نے انہیں غمگین کیا تھا لہٰذا آج میں ہی یہ کرتا دے کر اور حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی کی خوشخبری سنا کر ان کو خوش کرنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ یہودا اس پیراہن کو لے کر اَسّی کوس تک ننگے سر برہنہ پا دوڑتا ہوا چلا گیا۔ راستہ کی خوراک کے لئے سات روٹیاں اُس کے پاس تھیں مگر فرطِ مسرت اور جلد پہنچنے کے شوق میں وہ ان روٹیوں کو بھی نہ کھا سکا۔ اور جلد سے جلد سفر طے کر کے والد ِ محترم کی خدمت میں پہنچ گیا۔
یہودا جیسے ہی کرتا لے کر مصر سے کنعان کی طرف روانہ ہوا۔ کنعان میں حضرت یعقوب علیہ السلام کو حضرت یوسف علیہ السلام کی خوشبو محسوس ہوئی اور آپ نے اپنے پوتوں سے فرمایا کہ:۔"
اِنِّیۡ لَاَجِدُ رِیۡحَ یُوۡسُفَ لَوْ لَا اَنۡ تُفَنِّدُوۡنِ ﴿94﴾ (پ13،یوسف:94)
"ترجمہ کنزالایمان:۔کہا بیشک میں یوسف کی خوشبو پاتا ہوں اگر مجھے یہ نہ کہو کہ سٹھ (بہک)گیا ۔
آپ کے پوتوں نے جواب دیا کہ خدا کی قسم آپ اب بھی اپنی اُس پرانی وارفتگی میں پڑے ہوئے ہیں بھلا کہاں یوسف ہیں اور کہاں اُن کی خوشبو؟ لیکن جب یہودا کرتا لے کر کنعان پہنچا اور جیسے ہی کرتے کو حضرت یعقوب علیہ السلام کے چہرے پر ڈالا تو فوراً ہی اُن کی آنکھوں میں روشنی آگئی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا کہ:۔"
فَلَمَّاۤ اَنۡ جَآءَ الْبَشِیۡرُ اَلْقٰىہُ عَلٰی وَجْہِہٖ فَارْتَدَّ بَصِیۡرًا ۚ قَالَ اَلَمْ اَقُلۡ لَّکُمْ ۚۙ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ
مِنَ اللہِ مَا لَاتَعْلَمُوۡنَ ﴿96﴾ (پ13،یوسف:96)
"ترجمہ کنزالایمان:۔پھر جب خوشی سنانے والا آیا اس نے وہ کرتا یعقوب کے منہ پر ڈالا اسی وقت اس کی آنکھیں پھر آئیں (دیکھنے لگیں )کہا میں نہ کہتا تھا کہ مجھے اللہ کی وہ شانیں معلوم ہیں جو تم نہیں جانتے۔
یہودا مصر سے حضرت یوسف علیہ السلام کا کرتا لے کر جیسے ہی کنعان کی طرف چلا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے کنعان میں بیٹھے ہوئے حضرت یوسف علیہ السلام کی خوشبو سونگھ لی۔ اس بارے میں حضرت شیخ سعدی علیہ الرحمۃ نے ایک بڑی ہی نصیحت آموز اور لذیذ حکایت لکھی ہے جو بہت ہی دلکش اور نہایت ہی کیف آور ہے۔
حکایت: یکے پرسید ازاں گم کردہ فرزند کہ اے عالی گہر! پیر خرد مند
حضرت یعقوب علیہ السلام سے جن کے فرزند گم ہو گئے تھے، کسی نے یہ پوچھا کہ اے عالی ذات اور بزرگ عقلمند ؎"
"ترجمہ کنزالایمان:۔پھر جب خوشی سنانے والا آیا اس نے وہ کرتا یعقوب کے منہ پر ڈالا اسی وقت اس کی آنکھیں پھر آئیں (دیکھنے لگیں )کہا میں نہ کہتا تھا کہ مجھے اللہ کی وہ شانیں معلوم ہیں جو تم نہیں جانتے۔
یہودا مصر سے حضرت یوسف علیہ السلام کا کرتا لے کر جیسے ہی کنعان کی طرف چلا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے کنعان میں بیٹھے ہوئے حضرت یوسف علیہ السلام کی خوشبو سونگھ لی۔ اس بارے میں حضرت شیخ سعدی علیہ الرحمۃ نے ایک بڑی ہی نصیحت آموز اور لذیذ حکایت لکھی ہے جو بہت ہی دلکش اور نہایت ہی کیف آور ہے۔"
یکے پرسید ازاں گم کردہ فرزند کہ اے عالی گہر! پیر خرد مند
حضرت یعقوب علیہ السلام سے جن کے فرزند گم ہو گئے تھے، کسی نے یہ پوچھا کہ اے عالی ذات اور بزرگ عقلمند ؎
" زمصرش بوئے پیراہن شمیدی چرادر چاہِ کنعانش ندیدی"
آپ نے مصر جیسے دور دراز مقام سے حضرت یوسف علیہ السلام کے کرتے کی خوشبو سونگھ لی۔ اور جب حضرت یوسف علیہ السلام کنعان ہی کی سرزمین میں ایک کنوئیں کے اندر تھے تو آپ کو اتنے قریب سے بھی اُن کی خوشبو محسوس نہیں ہوئی اس کی کیا وجہ ہے؟ تو حضرت یعقوب علیہ السلام نے یہ جواب دیا کہ ؎
" بگفتا حال ما برق جہان است د مے پیدا و دیگر دم نہان است
گہے برطارمِ اعلیٰ نشینم گہے برپشت پائے خود نہ بینم"
یعنی ہم اللہ والوں کا حال کوندنے والی بجلی کی مانند ہے کہ دم بھر میں ظاہر اور دم بھر میں پوشیدہ ہوجاتی ہے۔ کبھی تو ہم لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی صفاتِ نورانیہ کی تجلی ہوتی ہے تو ہم لوگ
آسمانوں پر جا بیٹھتے ہیں اور ساری کائنات ہمارے پیش نظر ہوجاتی ہے اور کبھی جب ہم پراستغراق کی کیفیت طاری ہوتی ہے تو ہم لوگ خدا کی ذات و صفات میں ایسے مستغرق ہوجاتے ہیں کہ تمام ماسویٰ اللہ سے بے نیاز ہوجاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہم اپنی پشت پا کو بھی نہیں دیکھ پاتے۔ یہی وجہ ہے کہ مصر سے تو پیراہن یوسف علیہ السلام کو ہم نے سونگھ کر اس کی خوشبو محسوس کرلی۔ کیونکہ اس وقت ہم پر کشفی کیفیت طاری تھی مگر کنعان کے کنوئیں میں سے ہم کو حضرت یوسف کی خوشبو اس لئے محسوس نہ ہو سکی کہ اُس وقت ہم پر استغراقی کیفیت کا غلبہ تھا اور ہمارا یہ حال تھا کہ ؎
" میں کس کی لوں خبر، مجھے اپنی خبر نہیں!"
"درس ہدایت:۔اس پورے واقعہ سے خاص طور پر دو سبق ملتے ہیں:۔
(۱)یہ کہ اللہ والوں کے لباس اور کپڑوں میں بھی بڑی برکت اور کرامت پنہاں ہوتی ہے۔ لہٰذا بزرگوں کے لباس و پوشاک کو تبرک بنا کر رکھنا اور ان سے برکت و شفاء حاصل کرنا اور ان کو خداوند قدوس کی بارگاہ میں وسیلہ بنا کر دعاء مانگنا یہ مقبولیت اور حصولِ سعادت کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔
(۲)اللہ والوں کا حال ہر وقت اور ہمیشہ یکساں ہی نہیں رہتا بلکہ کبھی تو ان پر اللہ تعالیٰ کی تجلیات کے انوار سے ایسا حال طاری ہوتا ہے کہ اس وقت وہ سارے عالم کے ذرے ذرے کو دیکھنے لگتے ہیں اور کبھی وہ اللہ تعالیٰ کی تجلیات میں اس طرح گم ہوجاتے ہیں کہ تجلیوں کے مشاہدے میں مستغرق ہو کر سارے عالم سے بے توجہ ہوجاتے ہیں۔ اس وقت ان پر ایسی کیفیت طاری ہوجاتی ہے کہ ان کو کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ یہاں تک کہ وہ اپنا نام تک بھول جاتے ہیں۔ تصوف کی یہ دو کشفی و استغراقی کیفیات ایسی ہیں جن کو ہر شخص نہیں سمجھ سکتا بلکہ ان کیفیات و احوال کو وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو صاحب نسبت و اہل ادراک ہیں جن پر خود یہ احوال و"
کیفیات طاری ہوتی رہتی ہیں۔ سچ ہے ؎
لذتِ مے نہ شناسی بخدا تا نہ چشی
اور اس حال و کیفیت کا طاری ہونا اس بات پر موقوف ہے کہ ذکر و فکر اور مراقبہ کے ساتھ ساتھ شیخ کامل کی باطنی توجہ سے دل کی صفائی اور انجلاء قلبی پیدا ہوجائے۔ سلطان تصوف حضرت مولانا رومی علیہ الرحمۃ نے اسی نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔
صد کتاب و صدورق در نار کُن روئے دل را جانب دلدار کُن
اور کسی دوسرے عارف نے یہ فرمایا کہ :
" از''کنز'' و''ہدایہ ''نہ تواں یافت خدارا
سی پارہ دل خواں کہ کتابے بہ ازیں نیست"
یعنی خالی ''کنزالدقائق''و ''ہدایہ''پڑھ لینے سے خدا نہیں مل سکتا بلکہ دل کے سپارے کو پڑھو کیونکہ اس سے بہتر کوئی کتاب نہیں ہے۔ مگر اس دور نفسانیت میں جب کہ تصوف کے عَلم برداروں نے اپنی بے عملی سے تصوف کے مضبوط و مستحکم محل کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے اور محض جھاڑ پھونک اور شعبدہ بازیوں پر پیری مریدی کا ڈھونگ چلا رہے ہیں اور خالی رنگ برنگ کے کپڑوں اور نئی نئی تراش خراش کی پوشاکوں اور تسبیح و عصا کو شیخیت کا معیار بنا رکھا ہے۔ بھلا تصوف کی حقیقی کیفیات و تجلیات کو لوگ کب اور کیسے اور کہاں سے سمجھ سکتے ہیں؟ اس لئے اس بارے میں ارباب تصوف اس کے سوا اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ ؎
حقیقت خرافات میں کھو گئی یہ اُمت روایات میں کھو گئی
اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کے قصہ کو ''احسن القصص'' یعنی تمام قصوں میں سب سے اچھا قصہ فرمایا ہے۔اس لئے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی مقدس زندگی کے اتار چڑھاؤ
"میں اور رنج و راحت اور غم و سرور کے مد و جزر میں ہر ایک واقعہ بڑی بڑی عبرتوں اور نصیحتوں کے سامان اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے اس لئے ہم اس قصہ عجیبہ کا خلاصہ تحریر کرتے ہیں۔ تاکہ ناظرین اس سے عبرت حاصل کریں اور خداوند قدوس کی قدرتوں کا مشاہدہ کریں۔
حضرت یعقوب بن اسحٰق بن ابراہیم علیہم السلام کے بارہ بیٹے تھے جن کے نام یہ ہیں:۔
(۱)یہودا (۲)روبیل (۳)شمعون (۴)لاوی (۵)زبولون (۶)یسجر
(۷)دان (۸)نفتائی (۹)جاد (۱۰)آشر (۱۱)یوسف (۱۲)بنیامین
حضرت بنیامین حضرت یوسف علیہ السلام کے حقیقی بھائی تھے۔ باقی دوسری ماؤں سے تھے۔ حضرت یوسف علیہ السلام اپنے تمام بھائیوں میں سب سے زیادہ اپنے باپ کے پیارے تھے اور چونکہ ان کی پیشانی پر نبوت کے نشان درخشاں تھے اس لئے حضرت یعقوب علیہ السلام ان کا بے حد اکرام اور ان سے انتہائی محبت فرماتے تھے۔ سات برس کی عمر میں حضرت یوسف علیہ السلام نے یہ خواب دیکھا کہ گیارہ ستارے اور چاند و سورج ان کو سجدہ کررہے ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے جب اپنا یہ خواب اپنے والد ماجد حضرت یعقوب علیہ السلام کو سنایا تو آپ نے ان کو منع فرما دیا کہ پیارے بیٹے!خبردار تم اپنا یہ خواب اپنے بھائیوں سے مت بیان کردینا ورنہ وہ لوگ جذبہ حسد میں تمہارے خلاف کوئی خفیہ چال چل دیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ ان کے بھائیوں کو ان پر حسد ہونے لگا۔ یہاں تک کہ سب بھائیوں نے آپس میں مشورہ کر کے یہ منصوبہ تیار کرلیا کہ ان کو کسی طرح گھر سے لے جا کر جنگل کے کنوئیں میں ڈال دیں۔ اس منصوبہ کی تکمیل کے لئے سب بھائی جمع ہو کر حضرت یعقوب علیہ السلام کے پاس گئے۔ اور بہت اصرار کر کے شکار اور تفریح کا بہانہ بنا کر ان کو جنگل میں لے جانے کی اجازت حاصل کرلی۔ اور ان کو گھر سے کندھوں پر بٹھا کر لے چلے۔ لیکن جنگل میں پہنچ کر دشمنی کے جوش میں ان کو زمین پر پٹخ دیا۔ اور سب نے بہت زیادہ مارا۔ پھر ان کا کرتا اتار کر اور ہاتھ پاؤں باندھ کر"
"ایک گہرے اور اندھیرے کنوئیں میں گرا دیا۔ لیکن فوراً ہی حضرت جبریل علیہ السلام نے کنوئیں میں تشریف لا کر ان کو غرق ہونے سے اس طرح بچالیا کہ ان کو ایک پتھر پر بٹھا دیا جو اس کنوئیں میں تھا۔ اور ہاتھ پاؤں کھول کر تسلی دیتے ہوئے ان کا خوف و ہراس دور کردیا۔ اور گھر سے چلتے وقت حضرت یعقوب علیہ السلام نے حضرت یوسف علیہ السلام کا جو کرتا تعویذ بنا کر آپ کے گلے میں ڈال دیا تھا وہ نکال کر ان کو پہنا دیا جس سے اس اندھیرے کنوئیں میں روشنی ہوگئی۔
حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی آپ کو کنوئیں میں ڈال کر اور آپ کے پیراہن کو ایک بکری کے خون میں لت پت کر کے اپنے گھر کو روانہ ہو گئے اور مکان کے باہر ہی سے چیخیں مار کر رونے لگے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام گھبرا کر گھر سے باہر نکلے۔ اور رونے کا سبب پوچھا کہ تم لوگ کیوں رو رہے ہو؟ کیا تمہاری بکریوں کو کوئی نقصان پہنچ گیا ہے؟ پھر حضرت یعقوب علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ میرا یوسف کہاں ہے؟ میں اس کو نہیں دیکھ رہا ہوں۔ تو بھائیوں نے روتے ہوئے کہا کہ ہم لوگ کھیل میں دوڑتے ہوئے دور نکل گئے اور یوسف علیہ السلام کو اپنے سامان کے پاس بٹھا کر چلے گئے تو ایک بھیڑیا آیا اور وہ اُن کو پھاڑ کر کھا گیا۔ اور یہ اُن کا کرتا ہے۔ ان لوگوں نے کرتے میں خون تو لگا لیا تھا لیکن کرتے کو پھاڑنا بھول گئے تھے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے اشک بار ہو کر اپنے نورِ نظر کے کرتے کو جب ہاتھ میں لے کر غور سے دیکھا تو کرتا بالکل سلامت ہے اورکہیں سے بھی پھٹا نہیں ہے تو آپ ان لوگوں کے مکر اور جھوٹ کو بھانپ گئے۔ اور فرمایا کہ بڑا ہوشیار اور سیانا بھیڑیا تھا کہ میرے یوسف کو تو پھا ڑ کر کھا گیا مگر ان کے کرتے پر ایک ذرا سی خراش بھی نہیں آئی اور آپ نے صاف صاف فرما دیا کہ یہ سب تم لوگوں کی کارستانی اور مکر و فریب ہے۔ پھر آپ نے دکھے ہوئے دل سے نہایت درد بھری آواز میں فرمایا۔"
فَصَبْرٌ جَمِیۡلٌ ؕ وَاللہُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوۡنَ ﴿18﴾ (پ12،یوسف:18)
حضرت یوسف علیہ السلام تین دن اس کنوئیں میں تشریف فرما رہے۔ یہ کنواں کھاری تھا۔ مگر آپ کی برکت سے اس کا پانی بہت لذیذ اور نہایت شیریں ہو گیا۔ اتفاق سے ایک قافلہ مدین سے مصر جا رہا تھا۔ جب اس قافلہ کا ایک آدمی جس کا نام مالک بن ذُعر خزاعی تھا، پانی بھرنے کے لئے آیا اور کنوئیں میں ڈول ڈالا تو حضرت یوسف علیہ السلام ڈول پکڑ کر لٹک گئے مالک بن ذُعر نے ڈول کھینچا تو آپ کنوئیں سے باہر نکل آئے۔ جب اس نے آپ کے حسن و جمال کو دیکھا تو
یٰبُشْرٰی ھٰذَا غُلاَمٌ
"کہہ کر اپنے ساتھیوں کو خوشخبری سنانے لگا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی جو اس جنگل میں روزانہ بکریاں چرایا کرتے تھے، برابر روزانہ کنوئیں میں جھانک جھانک کر دیکھا کرتے تھے۔ جب ان لوگوں نے آپ کو کنوئیں میں نہیں دیکھا تو تلاش کرتے ہوئے قافلہ میں پہنچے اور آپ کو دیکھ کر کہنے لگے کہ یہ تو ہمارا بھاگا ہوا غلام ہے جو بالکل ہی ناکارہ اور نافرمان ہے۔ یہ کسی کام کا نہیں ہے۔ اگر تم لوگ اس کو خریدو تو ہم بہت ہی سستا تمہارے ہاتھ فروخت کردیں گے مگر شرط یہ ہے کہ تم لوگ اس کو یہاں سے اتنی دور لے جا کر فروخت کرنا کہ یہاں تک اس کی خبر نہ پہنچے۔ حضرت یوسف علیہ السلام بھائیوں کے خوف سے خاموش کھڑے رہے اور ایک لفظ بھی نہ بولے۔ پھر ان کے بھائیوں نے ان کو مالک بن ذعر کے ہاتھ صرف بیس درہموں میں فروخت کردیا۔
مالک بن ذعر ان کو خرید کر مصر کے بازار میں لے گیا۔ اور وہاں عزیز مصر نے ان کو بہت گراں قیمت دے کر خرید لیا اور اپنے شاہی محل میں لے جا کر اپنی ملکہ ''زلیخا'' سے کہا کہ تم اس غلام کو نہایت اعزاز و اکرام کے ساتھ اپنی خدمت میں رکھو۔ چنانچہ آپ عزیزِ مصر کے شاہی محل میں رہنے لگے۔ اور ملکہ زلیخا ان سے بہت محبت کرنے لگی بلکہ ان کے حسن و جمال پر فریفتہ ہو کر عاشق ہو گئی اور اس کا جوشِ عشق یہاں تک بڑھا کہ ایک دن ''زلیخا'' عشق و محبت میں والہانہ طور پر آپ کو پُھسلانے او رلبھانے لگی۔ اور آپ کو ہم بستری کی دعوت دینے لگی۔ آپ"
"نے معاذ اللہ کہہ کر انکار فرمادیا۔ اور صاف کہہ دیا کہ میں اپنے مالک عزیزِ مصر کے ساتھ خیانت کر کے اس کے احسانوں کی ناشکری نہیں کرسکتا۔ اور آپ گھر میں سے بھاگ نکلے۔ تو ملکہ زلیخا نے دوڑ کر پیچھے سے آپ کا پیراہن پکڑ لیا۔ اور آپ کا پیراہن پیچھے سے پھٹ گیا۔ عین اسی حالت میں عزیز مصر مکان میں آگئے اور دونوں کو دیکھ لیا۔ تو زلیخا نے آپ پر تہمت لگادی۔ عزیزِ مصر حیران ہو گیا کہ ان دونوں میں سے کون سچا ہے۔ اتفاق سے مکان میں ایک چار ماہ کا بچہ پالنے میں لیٹا ہوا تھا۔ اس نے شہادت دی کہ اگر کرتا آگے سے پھٹا ہو تو یوسف علیہ السلام قصور وار ہیں اور اگر کرتا پیچھے سے پھٹا ہو تو زلیخا کی خطا ہے اور یوسف علیہ السلام بے قصور ہیں۔ جب عزیزِ مصر نے دیکھا تو کرتا پیچھے سے پھٹا ہوا تھا۔ فوراً عزیزِ مصر نے زلیخا کو خطا وار قرار دے کر ڈانٹا اور حضرت یوسف علیہ السلام سے یہ کہا کہ اس کا خیال و ملال نہ کیجئے۔ پھر زلیخا کے مشورہ سے عزیزِ مصر نے یوسف علیہ السلام کو قید خانہ میں بھجوا دیا۔ اس طرح اچانک حضرت یوسف علیہ السلام عزیزِ مصر کے شاہی محل سے نکل کر جیل خانہ کی کوٹھری میں چلے گئے۔ اور آپ نے جیل میں پہنچ کر یہ کہا کہ اے اللہ عزوجل! یہ قید خانہ کی کوٹھری مجھ کو اس بلا سے زیادہ محبوب ہے جس کی طرف زلیخا مجھے بلا رہی تھی۔ پھر آپ سات برس یا بارہ برس جیل خانہ میں رہے اور قیدیوں کو توحید اور اعمال صالحہ کی دعوت دیتے اور وعظ فرماتے رہے۔
یہ عجیب اتفاق کہ جس دن آپ قید خانہ میں داخل ہوئے اُسی دن آپ کے ساتھ بادشاہ مصر کے دو خادم ایک شراب پلانے والا، دوسرا باورچی دونوں جیل خانہ میں داخل ہوئے اور دونوں نے اپنا ایک ایک خواب حضرت یوسف علیہ السلام سے بیان کیا اور آپ نے اُن دونوں کے خوابوں کی تعبیر بیان فرما دی جو سو فیصدی صحیح ثابت ہوئی۔ اس لئے آپ کا نام معبر (تعبیر دینے والا)ہونا مشہور ہو گیا۔
اسی دوران مصر کے بادشاہ اعظم ریال بن ولید نے یہ خواب دیکھا کہ سات فربہ گایوں کو"
"سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات ہری بالیاں ہیں اور سات سوکھی بالیاں ہیں۔ بادشاہ اعظم نے اپنے درباریوں سے اس خواب کی تعبیر دریافت کی تو لوگوں نے اس خواب کو خواب پریشاں کہہ کر اس کی کوئی تعبیر نہیں بتائی۔ اتنے میں بادشاہ کا ساقی جو قید خانہ سے رہا ہو کر آگیا تھا، اس نے کہا کہ مجھے اس خواب کی تعبیر معلوم کرنے کے لئے جیل خانہ میں جانے کی اجازت دی جائے۔ چنانچہ یہ بادشاہ کا فرستادہ ہو کر قید خانہ میں حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس گیا اور بادشاہ کا خواب بیان کر کے تعبیر دریافت کی کہ سات دبلی گائیں سات موٹی گایوں کو کھا رہی ہیں اور سات ہری بالیاں ہیں اور سات سوکھی۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ سات برس مسلسل کھیتی کرو اور ان کے اناجوں کو بالیوں میں محفوظ رکھو۔ پھر سات برس تک سخت خشک سالی رہے گی، قحط کے ان سات برسوں میں پہلے سات برسوں کا محفوظ کیا ہوا اناج لوگ کھائیں گے اس کے بعد پھر ہریالی کا سال آئے گا۔
قاصد نے واپس جا کر بادشاہ سے اُس کے خواب کی تعبیر بتائی تو بادشاہ نے حکم دیا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو جیل خانہ سے نکال کر میرے دربار میں لاؤ۔ قاصد رہائی کا پروانہ لے کر جیل خانہ میں پہنچا تو آپ نے فرمایا کہ پہلے زلیخا اور دوسری عورتوں کے ذریعہ میری بے گناہی اور پاک دامنی کا اظہار کرالیا جائے اس کے بعد ہی میں جیل سے باہر نکلوں گا۔ چنانچہ بادشاہ نے اس کی تحقیقات کرائی تو تحقیقات کے دوران زلیخا نے اقرار کرلیا کہ میں نے خود ہی حضرت یوسف علیہ السلام کو پھسلایا تھا۔ خطا میری ہے۔ حضرت یوسف سچے اور پاک دامن ہیں۔ اس کے بعد بادشاہ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو دربار میں بلا کر کہہ دیا کہ آپ ہمارے معتمد اور ہمارے دربار کے معزز ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے کہا کہ آپ زمین کے خزانوں کے انتظامی امور اور حفاظتی نظام کے انتظام پر میرا تقرر کردیں۔ میں پورے نظام کو سنبھال لوں گا۔ بادشاہ نے خزانے کا انتظامی معاملہ اور ملک کے نظام و انصرام کا پورا شعبہ آپ"
"کے سپرد کردیا۔ اس طرح ملک مصر کی حکمرانی کا اقتدار آپ کو مل گیا۔
اس کے بعد آپ نے خزانوں کا نظام اپنے ہاتھ میں لے کر سات سال تک کھیتی کا پلان چلایا اور اناجوں کو بالیوں میں محفوظ رکھا۔ یہاں تک کہ قحط اور خشک سالی کا زور شروع ہو گیا تو پوری سلطنت کے لوگ غلے کی خریداری کے لئے مصر آنا شروع ہو گئے اور آپ نے غلوں کی فروخت شروع کردی۔
اسی سلسلے میں آپ کے بھائی کنعان سے مصر آئے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے تو ان لوگوں کو دیکھتے ہی پہلی نظر میں پہچان لیا مگر آپ کے بھائیوں نے آپ کو بالکل ہی نہیں پہچانا۔ آپ نے ان لوگوں کو غلہ دے دیا اور پھر فرمایا کہ تمہارا ایک بھائی (بنیامین)ہے آئندہ اس کو بھی ساتھ لے کر آنا۔ اگر تم لوگ آئندہ اس کو نہ لائے تو تمہیں غلہ نہیں ملے گا۔
بھائیوں نے جواب دیا کہ ہم اُس کے والد کو رضامند کرنے کی کوشش کریں گے پھر حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے غلاموں سے کہا کہ تم لوگ ان کی نقدیوں کو ان کی بوریوں میں ڈال دو تاکہ یہ لوگ جب اپنے گھر پہنچ کر ان نقدیوں کو دیکھیں گے تو امید ہے کہ ضرور یہ لوگ واپس آئیں گے۔ چنانچہ جب یہ لوگ اپنے والد کے پاس پہنچے تو کہنے لگے کہ ابا جان! اب کیا ہو گا؟ عزیز مصر نے تو یہ کہہ دیا ہے کہ جب تک تم لوگ ''بنیامین'' کو ساتھ لے کر نہ آؤ گے تمہیں غلہ نہیں ملے گا۔ لہٰذا آپ ''بنیا مین'' کو ہمارے ساتھ بھیج دیں تاکہ ہم ان کے حصہ کا بھی غلہ لے لیں۔ اور آپ اطمینان رکھیں کہ ہم لوگ ان کی حفاظت کریں گے۔ اس کے بعد جب ان لوگوں نے اپنی بوریوں کو کھولا تو حیران رہ گئے کہ ان کی رقمیں اور نقدیاں ان کی بوریوں میں موجود تھیں۔ یہ دیکھ کر برادران یوسف نے پھر اپنے والد سے کہا کہ ابا جان! اس سے بڑھ کر اچھا سلوک اور کیا چاہے؟ دیکھ لیجئے عزیزِ مصر نے ہم کو پورا پورا غلہ بھی دیا ہے اور ہماری نقدیوں کو بھی واپس کردیا ہے لہٰذا آپ بلا خوف و خطر ہمارے بھائی ''بنیامین'' کو ہمارے ساتھ بھیج دیں۔"
"حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرمایا کہ میں ایک مرتبہ ''یوسف''کے معاملہ میں تم لوگوں پر بھروسا کرچکا ہوں تو تم لوگوں نے کیا کرڈالا، اب دوبارہ میں تم لوگوں پر کیسے بھروسا کرلوں؟ میں اس طرح ''بنیامین''کو ہرگز تم لوگوں کے ساتھ نہیں بھیجوں گا۔ لیکن ہاں اگر تم لوگ حلف اٹھا کر میرے سامنے عہد کرو تو البتہ میں اس کو بھیج سکتا ہوں۔ یہ سن کر سب بھائیوں نے حلف لے کر عہد کیا اور آپ نے ان لوگوں کے ساتھ ''بنیامین''کو بھیج دیا ۔
جب یہ لوگ عزیز مصر کے دربار میں پہنچے تو حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائی ''بنیامین''کو اپنی مسند پر بٹھا لیا۔ اور چپکے سے ان کے کان میں کہہ دیا کہ میں تمہارا بھائی ''یوسف'' ہوں۔ لہٰذا تم کوئی فکر و غم نہ کرو۔ پھر آپ نے سب کو اناج دیا اور سب نے اپنی اپنی بوریوں کو سنبھال لیا۔ جب سب چلنے لگے تو آپ نے ''بنیامین''کو اپنے پاس روک لیا۔ اب برادرانِ یوسف سخت پریشان ہوئے۔ اپنے والد کے روبرو یہ عہد کر کے آئے تھے کہ ہم اپنی جان پر کھیل کر بنیامین کی حفاظت کریں گے اور یہاں ''بنیامین'' اُن کے ہاتھ سے چھین لئے گئے۔ اب گھر جائیں تو کیونکر اور یہاں ٹھہریں تو کیسے؟ یہ معاملہ دیکھ کر سب سے بڑا بھائی ''یہودا'' کہنے لگا کہ اے میرے بھائیو!سوچو کہ تم لوگ والد صاحب کو کیا کیا عہد و پیمان دے کر آئے ہو؟ اور اس سے پہلے تم اپنے بھائی یوسف کے ساتھ کتنی بڑی تقصیر کرچکے ہو۔ لہٰذا میں تو جب تک والد صاحب حکم نہ دیں اس زمین سے ہٹ نہیں سکتا۔ ہاں تم لوگ گھر جاؤ اور والد صاحب سے سارا ماجرا عرض کردو۔ چنانچہ یہودا کے سوا دوسرے سب بھائی لوٹ کر گھر آئے اور اپنے والد سے سارا حال بیان کیا۔ تو حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرمایا کہ یوسف کی طرح بنیامین کے معاملہ میں بھی تم لوگوں نے حیلہ سازی کی ہے۔ تو خیر، میں صبر کرتا ہوں اور صبر بہت اچھی چیز ہے۔ پھر آپ نے منہ پھیر کر رونا شروع کردیا۔ اور کہا کہ ہائے افسوس!اور حضرت یوسف علیہ السلام کو یاد کر کے اتنا روئے کہ شدت غم سے نڈھال ہو گئے اور روتے"
"روتے آنکھیں سفید ہو گئیں۔ آپ کی زبان سے یوسف علیہ السلام کا نام سن کر حضرت یعقوب علیہ السلام سے ان کے بیٹوں پوتوں نے کہا کہ اباجان!آپ ہمیشہ یوسف علیہ السلام کو یاد کرتے رہیں گے یہاں تک کہ لب ِ گور ہوجائیں یا جان سے گزر جائیں اپنے بیٹوں پوتوں کی بات سن کر آپ نے فرمایا کہ میں اپنے غم اور پریشانی کی فریاد اللہ عزوجل ہی سے کرتا ہوں اور میں جو کچھ جانتا ہوں وہ تم لوگوں کو معلوم نہیں۔ اے میرے بیٹو! تم لوگ جاؤ۔ اور یوسف اور اُس کے بھائی ''بنیامین'' کو تلاش کرو۔ اور خدا کی رحمت سے مایوس مت ہوجاؤ کیونکہ خدا کی رحمت سے مایوس ہوجانا کافروں کا کام ہے۔
چنانچہ برادران یوسف پھر مصر کو روانہ ہوئے اور جا کر عزیزِ مصر سے کہا کہ اے عزیزِ مصر! ہمارے گھر والوں کو بہت بڑی مصیبت پہنچ گئی ہے اور ہم چند کھوٹے سکے لے کر آئے ہیں۔ لہٰذا آپ بطورِ خیرات کے کچھ غلہ دے دیجئے اپنے بھائیوں کی زبان سے گھر کی داستان اور خیرات کا لفظ سن کر حضرت یوسف علیہ السلام پر رقت طاری ہو گئی اور آپ نے بھائیوں سے پوچھا کہ تم لوگوں کو یاد ہے کہ تم لوگوں نے یوسف اور اُس کے بھائی بنیامین کے ساتھ کیا کیا سلوک کیا ہے؟ یہ سن کر بھائیوں نے حیران ہو کر پوچھا کہ سچ مچ آپ یوسف علیہ السلام ہی ہیں؟ تو آپ نے فرمایا کہ ہاں۔ میں ہی یوسف ہوں۔ اور یہ بنیامین میرا بھائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہم پر بڑا فضل و احسان فرمایا ہے۔ یہ سن کر بھائیوں نے نہایت شرمندگی اور لجاجت کے ساتھ کہنا شروع کیا کہ بلاشبہ ہم لوگ واقعی بڑے خطاکار ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہم لوگوں پر بہت بڑی فضیلت بخشی ہے۔ بھائیوں کی شرمندگی اور لجاجت سے متاثر ہو کر آپ کا دل بھر آیا اور آپ نے فرمایا کہ آج میں تم لوگوں کو ملامت نہیں کروں گا۔ جاؤ میں نے سب کچھ معاف کردیا۔ اللہ تعالیٰ تمہیں معاف فرمائے۔ اب تم لوگ میرا یہ کرتا لے کر گھر جاؤ۔ اور ابا جان کے چہرے پر اس کو ڈال دو تو ان کی آنکھوں میں روشنی آجائے گی۔ پھر تم لوگ سب گھروالوں کو ساتھ لے کر"
"مصر چلے آؤ۔
بڑا بھائی یہودا کہنے لگا کہ یہ کرتا میں لے کر جاؤں گا کیونکہ حضرت یوسف علیہ السلام کا کرتا بکری کے خون میں رنگ کر میں ہی اُن کے پاس لے گیا تھا۔ تو جس طرح میں نے اُنہیں وہ کرتا دے کر غمگین کیا تھا۔ آج یہ کرتا لے جا کر ان کو خوش کردوں گا۔ چنانچہ یہودا یہ کرتا لے کر گھر پہنچا اور اپنے والد کے چہرے پر ڈال دیا تو اُن کی آنکھوں میں بینائی آگئی۔ پھر حضرت یعقوب علیہ السلام نے تہجد کے وقت کے بعد اپنے سب بیٹوں کے لئے دعا فرمائی اور یہ دعا مقبول ہوگئی۔ چنانچہ آپ پر یہ وحی اتری کہ آپ کے صاحبزادوں کی خطائیں بخش دی گئیں ۔
پھر مصر کو روانگی کا سامان ہونے لگا۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے والد اور سب اہل و عیال کو لانے کے لئے بھائیوں کے ساتھ دو سو سواریاں بھیج دیں تھیں۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے گھروالوں کو جمع کیا تو کل بہتر یا تہتر آدمی تھے جن کو ساتھ لے کر آپ مصر روانہ ہو گئے مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کی نسل میں اتنی برکت عطا فرمائی کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں بنی اسرائیل مصر سے نکلے تو چھ لاکھ سے زیادہ تھے۔ حالانکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا زمانہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے مصر جانے سے صرف چار سو سال بعد کا زمانہ ہے۔ جب حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے اہل و عیال کے ساتھ مصر کے قریب پہنچے تو حضرت یوسف علیہ السلام نے چار ہزار لشکر اور بہت سے مصری سواروں کو ساتھ لے کر آپ کا استقبال کیا اور صدہا ریشمی جھنڈے اور قیمتی پرچم لہراتے ہوئے قطاریں باندھے ہوئے مصری باشندے جلوس کے ساتھ روانہ ہوئے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے فرزند ''یہودا'' کے ہاتھ پر ٹیک لگائے تشریف لا رہے تھے۔ جب ان لشکروں اور سواروں پر آپ کی نظر پڑی تو آپ نے دریافت فرمایا کہ یہ فرعونِ مصر کا لشکر ہے؟ تو یہودا نے عرض کیا کہ جی نہیں۔ یہ آپ کے فرزند حضرت یوسف علیہ السلام ہیں جو اپنے لشکروں اور سواروں کے ساتھ آپ کے"
"استقبال کے لئے آئے ہوئے ہیں آپ کو متعجب دیکھ کر حضرت جبریل علیہ السلام نے فرمایا کہ اے اللہ عزوجل کے نبی ذرا سر اٹھا کر فضائے آسمانی میں نظر فرمایئے کہ آپ کے سرور و شادمانی میں شرکت کے لئے ملائکہ کا جمِ غفیر حاضر ہے جو مدتوں آپ کے غم میں روتے رہے ہیں۔ ملائکہ کی تسبیح اور گھوڑوں کی ہنہناہٹ اور طبل و بوق کی آوازوں نے عجیب سماں پیدا کردیا تھا۔
جب باپ بیٹے دونوں قریب ہو گئے اور حضرت یوسف علیہ السلام نے سلام کا ارادہ کیا تو حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا کہ آپ ذرا توقف کیجئے اور اپنے پدر بزرگوار کو اُن کے رقت انگیز سلام کا موقع دیجئے چنانچہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے ان لفظوں کے ساتھ سلام کہا کہ"
''اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا مُذْھِبَ الْاَحْزَانِ''
"یعنی اے تمام غموں کو دور کرنے والے آپ پر سلام ہو۔ پھر باپ بیٹوں نے نہایت گرمجوشی کے ساتھ معانقہ کیا اور فرط مسرت میں دونوں خوب روئے۔ پھر ایک استقبالیہ خیمہ میں تشریف لے گئے جو خوب مزین اور آراستہ کیا گیا تھا۔ وہاں تھوڑی دیر ٹھہر کر جب شاہی محل میں رونق افروز ہوئے تو حضرت یوسف علیہ السلام نے سہارا دے کر اپنے
والد ِ محترم کو تختِ شاہی پر بٹھایا۔ اور اُن کے اردگرد آپ کے گیارہ بھائی اور آپ کی والدہ سب بیٹھ گئے اور سب کے سب بیک وقت حضرت یوسف علیہ السلام کے آگے سجدے میں گر پڑے۔ اُس وقت حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے والد ِ بزگوار کو مخاطب کر کے یہ کہا:"
یاَ بَتِ ہٰذَا تَاۡوِیۡلُ رُءۡیَایَ مِنۡ قَبْلُ ۫ قَدْ جَعَلَہَا رَبِّیۡ حَقًّا ؕ وَقَدْ اَحْسَنَ بِیۡۤ اِذْ اَخْرَجَنِیۡ مِنَ السِّجْنِ وَجَآءَ بِکُمۡ مِّنَ الْبَدْوِ مِنۡۢ بَعْدِ اَنۡ نَّزَغَ الشَّیۡطٰنُ بَیۡنِیۡ وَبَیۡنَ اِخْوَتِیۡ ؕ اِنَّ رَبِّیۡ لَطِیۡفٌ لِّمَا یَشَآءُ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ الْعَلِیۡمُ الْحَکِیۡمُ ﴿۱۰۰﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔ اے میرے باپ یہ میرے پہلے خواب کی تعبیر ہے بیشک اسے میرے رب نے سچا کیا اور بیشک اس نے مجھ پر احسان کیا کہ مجھے قید سے نکالا اور آپ سب کو گاؤں سے لے آیا بعد اس کے کہ شیطان نے مجھ میں اور میرے بھائیوں میں ناچاقی کرادی تھی بیشک
"میرا رب جس بات کو چاہے آسان کردے بیشک وہی علم و حکمت والا ہے۔ (پ۱۳،یوسف:۱۰۰ )
یعنی میرے گیارہ بھائی ستارے ہیں اور میرے باپ سورج اور میری والدہ چاند ہے اور یہ سب مجھ کو سجدہ کررہے ہیں۔ یہی آپ کا خواب تھا جو بچپن میں دیکھا تھا کہ گیارہ ستارے اور سورج و چاند مجھے سجدہ کررہے ہیں۔ یہ تاریخی واقعہ محرم کی دس تاریخ عاشورہ کے دن وقوع پذیر ہوا۔"
اصحاب تواریخ کا بیان ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام مصر میں اپنے فرزند حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس چوبیس سال تک نہایت آرام و خوشحالی میں رہے۔ جب آپ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ نے یہ وصیت فرمائی کہ میرا جنازہ ملک شام میں لے جا کر مجھے میرے والد حضرت اسحٰق علیہ السلام کی قبر کے پہلو میں دفن کرنا۔ چنانچہ آپ کی وفات کے بعد آپ کے جسم مقدس کو لکڑی کے صندوق میں رکھ کر مصر سے شام لایا گیا۔ ٹھیک اسی وقت آپ کے بھائی حضرت ''غیص'' کی وفات ہوئی اور آپ دونوں بھائیوں کی ولادت بھی ایک ساتھ ہوئی تھی۔ اور دونوں ایک ہی قبر میں دفن کئے گئے اور دونوں بھائیوں کی عمریں ایک سو سینتالیس برس کی ہوئیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام اپنے والد اور چچا کو دفن فرما کر پھر مصر تشریف لائے اور اپنے والد ماجد کے بعد ۲۳ سال تک مصر پر حکومت فرماتے رہے۔ اس کے بعد آپ کی بھی وفات ہو گئی۔
آپ کی وفات کے بعد آپ کے مقام دفن میں سخت اختلاف پیدا ہو گیا۔ ہر محلے والے حصولِ برکت کے لئے اپنے ہی محلہ میں دفن پر اصرار کرنے لگے۔ آخر اس بات پر سب کا اتفاق ہو گیا کہ آپ کو بیچ دریائے نیل میں دفن کیا جائے تاکہ دریا کا پانی آپ کی قبر منور کو چھوتا ہوا گزرے۔ اور تمام مصر والے آپ کے فیوض و برکات سے فیضیاب ہوتے رہیں۔ چنانچہ آپ کو سنگ مرمر کے صندوق میں رکھ کر دریائے نیل کے بیچ میں دفن کیا گیا۔ یہاں تک کہ چار سو برس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آپ
کے تابوت شریف کو دریا سے نکال کر آپ کے آباؤ اجداد کی قبروں کے پاس ملک شام میں دفن فرمایا۔ بوقت وفات آپ کی عمر شریف ایک سو بیس برس کی تھی اور آپ کے والد محترم حضرت یعقوب علیہ السلام نے ۱۴۷ برس کی عمر پائی۔ اور آپ کے دادا حضرت اسحٰق علیہ السلام کی عمر شریف ۱۸۰ سال کی ہوئی اور آپ کے پردادا حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی عمر شریف ۱۷۵ سال کی ہوئی؟
(روح البیان،ج۴،ص۳۲۴، پ۱۳، یوسف:۱۰۰)
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام سرزمین شام میں حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا کے شکم مبارک سے پیدا ہوئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی حضرت سارہ کے کوئی اولاد نہ تھی۔ اس لئے انہیں رشک پیدا ہوا اور انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ آپ حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور ان کے بیٹے اسمٰعیل علیہ السلام کو میرے پاس سے جدا کر کے کہیں دور کردیجئے۔ خداوند قدوس کی حکمت نے ایک سبب پیدا فرمادیا۔ چنانچہ آپ پر وحی نازل ہوئی کہ آپ حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور اسمٰعیل علیہ السلام کو اُس سرزمین میں چھوڑ آئیں جہاں بے آب و گیاہ میدان اور خشک پہاڑیوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو ساتھ لے کر سفر فرمایا۔ اور اُس جگہ آئے جہاں کعبہ معظمہ ہے۔ یہاں اس وقت نہ کوئی آبادی تھی نہ کوئی چشمہ ،نہ دور دور تک پانی یا آدمی کا کوئی نام و نشان تھا۔ ایک توشہ دان میں کچھ کھجوریں اور ایک مشک میں پانی حضرت ابراہیم علیہ السلام وہاں رکھ کر روانہ ہو گئے۔ حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فریاد کی کہ اے اللہ عزوجل کے نبی اس سنسان بیابان میں جہاں نہ کوئی مونس ہے نہ غم خوار، آپ ہمیں بے یارومددگار چھوڑ کر کہاں جا رہے ہیں؟ کئی بار حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ کو پکارا مگر آپ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ آخر میں
"حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے سوال کیا کہ آپ اتنا فرما دیجئے کہ آپ نے اپنی مرضی سے ہمیں یہاں لا کر چھوڑا ہے یا خداوند قدوس کے حکم سے آپ نے ایسا کیا ہے؟ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ اے ہاجرہ ! میں نے جو کچھ کیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے کیا ہے۔ یہ سن کر حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا کہ اب آپ جایئے، مجھے یقین کامل اورپورا پورا اطمینان ہے کہ خداوند کریم مجھ کو اور میرے بچے کو ضائع نہیں فرمائے گا۔
اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک لمبی دعا مانگی اور وہاں سے ملک شام چلے آئے۔ چند دنوں میں کھجوریں اور پانی ختم ہوجانے پر حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر بھوک اور پیاس کا غلبہ ہوا اور ان کے سینے میں دودھ خشک ہوگیا اور بچہ بھوک و پیاس سے تڑپنے لگا۔ حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پانی کی تلاش و جستجو میں سات چکر صفا مروہ کی دونوں پہاڑیوں کے لگائے مگر پانی کا کوئی سراغ دور دور تک نہیں ملا۔ یہاں تک کہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام پیاس کی شدت سے ایڑیاں پٹک پٹک کر رو رہے تھے۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ کی ایڑیوں کے پاس زمین پر اپنا پیر مار کر ایک چشمہ جاری کردیا۔ اور اس پانی میں دودھ کی خاصیت تھی کہ یہ غذا اور پانی دونوں کا کام کرتا تھا۔ چنانچہ یہی زمزم کا پانی پی پی کر حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام زندہ رہے۔ یہاں تک کہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام جوان ہو گئے اور شکار کرنے لگے تو شکار کے گوشت اور زمزم کے پانی پر گزر بسر ہونے لگی۔ پھر قبیلہ جر ہم کے کچھ لوگ اپنی بکریوں کو چراتے ہوئے اس میدان میں آئے اور پانی کا چشمہ دیکھ کر حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی اجازت سے یہاں آباد ہو گئے اور اس قبیلہ کی ایک لڑکی سے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی شادی بھی ہو گئی۔ اور رفتہ رفتہ یہاں ایک آبادی ہو گئی۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خداوند قدوس کا یہ حکم ہوا کہ خانہ کعبہ کی تعمیر کریں۔ چنانچہ آپ نے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی مدد سے خانہ کعبہ کو تعمیر فرمایا۔ اس وقت حضرت ابراہیم"
علیہ السلام نے اپنی اولاد اور باشندگانِ مکہ مکرمہ کے لئے جو ایک طویل دعا مانگی۔ وہ قرآن مجید کی مختلف سورتوں میں مذکور ہے۔ چنانچہ سورہ ابراہیم میں آپ کی اس دعا کا کچھ حصہ اس طرح مذکور ہے۔
رَبَّنَاۤ اِنِّیۡۤ اَسْکَنۡتُ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ بِوَادٍ غَیۡرِ ذِیۡ زَرْعٍ عِنۡدَ بَیۡتِکَ الْمُحَرَّمِ ۙ رَبَّنَا لِیُـقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ فَاجْعَلْ اَفْئِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَہۡوِیۡۤ اِلَیۡہِمْ وَارْزُقْہُمۡ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّہُمْ یَشْکُرُوۡنَ ﴿37﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔اے میرے رب میں نے اپنی کچھ اولاد ایک نالے میں بسائی جس میں کھیتی نہیں ہوتی تیرے حرمت والے گھر کے پاس اے ہمارے رب اس لئے کہ وہ نماز قائم رکھیں تو تو لوگوں کے کچھ دل ان کی طرف مائل کردے اور انہیں کچھ پھل کھانے کو دے شاید وہ احسان مانیں۔ (پ13،ابراہیم:37)
یہ مکہ مکرمہ کی آبادی کی ابتدائی تاریخ ہے جو قرآن مجید سے ثابت ہوئی ہے۔"
اس دعا میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خداوند قدوس سے دو چیزیں طلب کیں ایک تو یہ کہ کچھ لوگوں کے دل اولاد ابراہیم علیہ السلام کی طرف مائل ہوں اور دوسرے ان لوگوں کو پھلوں کی روزی کھانے کو ملے۔ سبحان اللہ عزوجل آپ کی یہ دعائیں مقبول ہوئیں۔ چنانچہ اس طرح لوگوں کے دل اہل مکہ کی طرف مائل ہوئے کہ آج کروڑہا کروڑ انسان مکہ مکرمہ کی زیارت کے لئے تڑپ رہے ہیں اور ہر دور میں طرح طرح کی تکلیفیں اٹھا کر مسلمان خشکی اور سمندر اور ہوائی راستوں سے مکہ مکرمہ جاتے رہے۔ اور قیامت تک جاتے رہیں گے اور اہل مکہ کی روزی میں پھلوں کی کثرت کا یہ عالم ہے کہ باوجودیکہ شہر مکہ اور اس کے قرب و جوار میں کہیں نہ کوئی کھیتی ہے نہ کوئی باغ باغیچہ ہے۔ مگر مکہ مکرمہ کی منڈیوں اور بازاروں میں اس کثرت سے قسم قسم کے میوے اور پھل ملتے ہیں کہ فرط تعجب سے دیکھنے والوں
"کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ''طائف'' کی زمین میں ہر قسم کے پھلوں کی پیداوار کی صلاحیت پیدا فرما دی ہے کہ وہاں سے قسم قسم کے میوے اور پھل اور طرح طرح کی سبزیاں اور ترکاریاں مکہ معظمہ میں آتی رہتی ہیں اور اس کے علاوہ مصر و عراق بلکہ یورپ کے ممالک سے میوے اور پھل بکثرت مکہ مکرمہ آیا کرتے ہیں۔ یہ سب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعاؤں کی برکتوں کے اثرات و ثمرات ہیں جو بلاشبہ دنیا کے عجائبات میں سے ہیں۔
اس کے بعد آپ نے یہ دعا مانگی جس میں آپ نے اپنی اولاد کے علاوہ تمام مومنین کے لئے بھی دعا مانگی۔"
رَبِّ اجْعَلْنِیۡ مُقِیۡمَ الصَّلٰوۃِ وَمِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ ٭ۖ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَآءِ ﴿40﴾رَبَّنَا اغْفِرْ لِی وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِیۡنَ یَوْمَ یَقُوۡمُ الْحِسَابُ ﴿٪41﴾ (پ13،ابرٰھیم:40،41)
"ترجمہ کنزالایمان:۔اے میرے رب مجھے نماز کاقائم کرنے والا رکھ اور کچھ میری اولاد کو اے ہمارے رب اور میری دعا سن لے اے ہمارے رب مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اور سب مسلمانوں کو جس دن حساب قائم ہو گا۔
درسِ ہدایت:۔اس واقعہ سے دو باتیں خاص طور پر معلوم ہوئیں:۔
(۱)حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے رب تعالیٰ کے بہت ہی اطاعت گزار اور فرماں بردار تھے کہ وہ بچہ جس کو بڑی بڑی دعاؤں کے بعد بڑھاپے میں پایا تھا جو آپ کی آنکھوں کا نور اور دل کا سرور تھا، فطری طور پر حضرت ابراہیم علیہ السلام اس کو کبھی اپنے سے جدا نہیں کرسکتے تھے مگر جب اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہو گیا کہ اے ابراہیم! تم اپنے پیارے فرزند اور اس کی ماں کو اپنے گھر سے نکال کر وادیئ بطحا کی اُس سنسان جگہ پر لے جا کر چھوڑ آؤ جہاں سر چھپانے کو درخت کا پتّا اور پیاس بجھانے کو پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں ہے، نہ وہاں کوئی یار و مددگار ہے، نہ کوئی مونس و غم خوار ہے۔ دوسرا کوئی انسان ہوتا تو شاید اس کے تصور ہی سے اُس کے سینے میں دل دھڑکنے"
"لگتا، بلکہ شدتِ غم سے دل پھٹ جاتا۔ مگر حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام خدا کا یہ حکم سن کر نہ فکر مند ہوئے، نہ ایک لمحہ کے لئے سوچ بچار میں پڑے، نہ رنج و غم سے نڈھال ہوئے بلکہ فوراً ہی خدا کا حکم بجا لانے کے لئے بیوی اور بچے کو لے کر ملک شام سے سرزمین مکہ میں چلے گئے اور وہاں بیوی بچے کو چھوڑ کر ملک شام چلے آئے۔ اللہ اکبر! اس جذبہ اطاعت شعاری اور جوشِ فرماں برداری پر ہماری جاں قربان!
(۲)حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے فرزند حضرت اسمٰعیل علیہ السلام اور اُن کی اولاد کے لئے نہایت ہی محبت بھرے انداز میں اُن کی مقبولیت اور رزق کے لئے جو دعائیں مانگیں۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ اپنی اولاد سے محبت کرنا اور اُن کے لئے دعائیں مانگنا یہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کا مبارک طریقہ ہے جس پر ہم سب مسلمانوں کو عمل کرنا ہماری صلاح و فلاح دارین کا ذریعہ ہے۔"
واللہ تعالیٰ اعلم۔
جب سورۃ
''تَبَّتْ یَدَا''
نازل ہوئی اور ابو لہب اور اُس کی بیوی ''اُم جمیل'' کی اس سورۃ میں مذمت اُتری تو ابو لہب کی بیوی اُمّ جمیل غصہ میں آپے سے باہر ہو گئی۔ اور ایک بہت بڑا پتھر لے کر وہ حرم کعبہ میں گئی۔ اُس وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں تلاوتِ قرآن فرمارہے تھے اور قریب ہی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے۔ ''اُمّ جمیل''بڑبڑاتی ہوئی آئی اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرتی ہوئی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور مارے غصہ کے منہ میں جھاگ بھرتے ہوئے کہنے لگی کہ بتاؤ تمہارے رسول کہاں ہیں؟ مجھے معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے میری اور میرے شوہر کی ہجو کی ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرے رسول شاعر نہیں ہیں کہ کسی کی ہجو کریں۔ پھر وہ غیظ و غضب میں بھری ہوئی پورے حرم کعبہ میں چکر لگاتی پھری اور بکتی جھکتی
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ڈھونڈتی پھری۔ مگر جب وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکی تو بڑبڑاتی ہوئی حرم سے باہر جانے لگی اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہنے لگی کہ میں تمہارے رسول کا سر کچلنے کے لئے یہ پتھر لے کر آئی تھی مگر افسوس کہ وہ مجھے نہیں ملے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس واقعہ کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا کہ میرے پاس سے وہ کئی بار گزری مگر میرے اور اُس کے درمیان ایک فرشتہ اس طرح حائل ہو گیا کہ آنکھ پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے کے باوجود وہ مجھے نہ دیکھ سکی۔ اس واقعہ کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔
(خزائن العرفان، ص ۵۱۵،)
"وَ اِذَا قَرَاۡتَ الْقُرۡاٰنَ جَعَلْنَا بَیۡنَکَ وَ بَیۡنَ الَّذِیۡنَ لَایُؤْمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَۃِ حِجَابًا مَّسْتُوۡرًا ﴿ۙ45﴾
(پ15، بنی اسرائیل:45)"
"ترجمہ کنزالایمان:۔اور اے محبوب تم نے قرآن پڑھا ہم نے تم پر اور ان میں کہ آخرت پر ایمان نہیں لاتے ایک چھپا ہوا پردہ کردیا۔
درسِ ہدایت:۔اُمّ جمیل انکھیاری ہوتے ہوئے اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے کے باوجود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس ہی سے تلاش کرتی ہوئی بار بار گزری مگر وہ آپ کو نہیں دیکھ سکی۔ بلاشبہ یہ ایک عجیب بات ہے اور اس کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزہ کے سوا کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ اس قسم کے معجزات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بارہا صادر ہوئے ہیں اور بہت سے اولیاء اللہ سے بھی ایسی کرامتیں بارہا صادر ہوئی ہیں اور اولیاء کی یہ کرامتیں بھی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات ہی ہیں۔ کیونکہ ولی کی کرامت درحقیقت اُس کے نبی کا معجزہ ہوا کرتا ہے۔"
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّبَارِکْ وَسَلِّمْ
"حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھا لئے جانے کے بعد عیسائیوں کا حال بے حد خراب اور نہایت ابتر ہو گیا۔ لوگ بت پرستی کرنے لگے اور دوسروں کو بھی بت پرستی پر مجبور کرنے لگے۔ خصوصاً ان کا ایک بادشاہ ''دقیانوس''تو اس قدر ظالم تھا کہ جو شخص بت پرستی سے انکار کرتا تھا یہ اُس کو قتل کرڈالتا تھا۔
اصحابِ کہف کون تھے؟:۔اصحابِ کہف شہر ''اُفسوس''کے شرفاء تھے جو بادشاہ کے معزز درباری بھی تھے۔ مگر یہ لوگ صاحب ِ ایمان اور بت پرستی سے انتہائی بیزار تھے۔ ''دقیانوس''کے ظلم و جبر سے پریشان ہو کر یہ لوگ اپنا ایمان بچانے کے لئے اُس کے دربار سے بھاگ نکلے اور قریب کے پہاڑ میں ایک غار کے اندر پناہ گزیں ہوئے اور سو گئے، تو تین سو برس سے زیادہ عرصے تک اسی حال میں سوتے رہ گئے۔ دقیانوس نے جب ان لوگوں کو تلاش کرایا اور اُس کو معلوم ہوا کہ یہ لوگ غار کے اندر ہیں تو وہ بے حد ناراض ہوا۔ اور فرط غیظ و غضب میں یہ حکم دے دیا کہ غار کو ایک سنگین دیوار اُٹھا کر بند کردیا جائے تاکہ یہ لوگ اُسی میں رہ کر مرجائیں اور وہی غار ان لوگوں کی قبر بن جائے۔ مگر دقیانوس نے جس شخص کے سپرد یہ کام کیا تھا وہ بہت ہی نیک دل اور صاحب ِ ایمان آدمی تھا۔ اُس نے اصحاب ِکہف کے نام اُن کی تعداد اور اُن کا پورا واقعہ ایک تختی پر کندہ کرا کر تانبے کے صندوق کے اندر رکھ کر دیوار کی بنیاد میں رکھ دیا۔ اور اسی طرح کی ایک تختی شاہی خزانہ میں بھی محفوظ کرادی۔ کچھ دنوں کے بعد دقیانوس بادشاہ مر گیا اور سلطنتیں بدلتی رہیں۔ یہاں تک کہ ایک نیک دل اور انصاف پرور بادشاہ جس کا نام ''بیدروس'' تھا، تخت نشین ہوا جس نے اڑسٹھ سال تک بہت شان و شوکت کے ساتھ حکومت کی۔ اُس کے دور میں مذہبی فرقہ بندی شروع ہو گئی اور بعض لوگ مرنے کے بعد اُٹھنے اور قیامت کا انکار کرنے لگے۔ قوم کا یہ حال دیکھ کر بادشاہ رنج و غم میں ڈوب گیا اور وہ تنہائی میں"
"ایک مکان کے اندر بند ہو کر خداوند قدوس عزوجل کے دربار میں نہایت بے قراری کے ساتھ گریہ و زاری کر کے دعائیں مانگنے لگا کہ یا اللہ عزوجل کوئی ایسی نشانی ظاہر فرما دے تاکہ لوگوں کو مرنے کے بعد زندہ ہو کر اٹھنے اور قیامت کا یقین ہوجائے۔ بادشاہ کی یہ دعا مقبول ہو گئی اور اچانک بکریوں کے ایک چرواہے نے اپنی بکریوں کو ٹھہرانے کے لئے اسی غار کو منتخب کیا اور دیوار کو گرا دیا۔ دیوار گرتے ہی لوگوں پر ایسی ہیبت و دہشت سوار ہو گئی کہ دیوار گرانے والے لرزہ براندام ہو کر وہاں سے بھاگ گئے اور اصحابِ کہف بحکم الٰہی اپنی نیند سے بیدار ہو کر اٹھ بیٹھے اور ایک دوسرے سے سلام و کلام میں مشغول ہو گئے اور نماز بھی ادا کرلی۔ جب ان لوگوں کو بھوک لگی تو ان لوگوں نے اپنے ایک ساتھی یملیخاسے کہا کہ تم بازار جا کر کچھ کھانا لاؤ اور نہایت خاموشی سے یہ بھی معلوم کرو کہ ''دقیانوس''ہم لوگوں کے بارے میں کیا ارادہ رکھتا ہے؟ ''یملیخا''غار سے نکل کر بازار گئے اور یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ شہر میں ہر طرف اسلام کا چرچا ہے اور لوگ اعلانیہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا کلمہ پڑھ رہے ہیں۔یملیخا یہ منظر دیکھ کر محو حیرت ہو گئے کہ الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟کہ اس شہر میں تو ایمان واسلام کا نام لینا بھی جرم تھا آج یہ انقلاب کہاں سے اورکیونکر آگیا؟
پھر یہ ایک نانبائی کی دکان پر کھانا لینے گئے اور دقیانوسی زمانے کا روپیہ دکاندار کو دیا جس کا چلن بند ہوچکا تھا بلکہ کوئی اس سکہ کا دیکھنے والا بھی باقی نہیں رہ گیا تھا۔ دکاندار کو شبہ ہوا کہ شاید اس شخص کو کوئی پرانا خزانہ مل گیا ہے چنانچہ دکاندار نے ان کو حکام کے سپرد کردیا اور حکام نے ان سے خزانے کے بارے میں پوچھ گچھ شروع کردی اور کہا کہ بتاؤ خزانہ کہاں ہے؟ ''یملیخا'' نے کہا کہ کوئی خزانہ نہیں ہے۔ یہ ہمارا ہی روپیہ ہے۔ حکام نے کہا کہ ہم کس طرح مان لیں کہ روپیہ تمہارا ہے؟ یہ سکہ تین سو برس پرانا ہے اور برسوں گزر گئے کہ اس سکہ کا چلن بند ہو گیا اور تم ابھی جوان ہو۔ لہٰذا صاف صاف بتاؤ کہ عقدہ حل ہوجائے۔ یہ سن کریملیخا نے کہا"
"کہ تم لوگ یہ بتاؤ کہ دقیانوس بادشاہ کا کیا حال ہے؟ حکام نے کہا کہ آج روئے زمین پر اس نام کا کوئی بادشاہ نہیں ہے۔ ہاں سینکڑوں برس گزرے کہ اس نام کا ایک بے ایمان بادشاہ گزرا ہے جو بت پرست تھا۔ ''یملیخا'' نے کہا کہ ابھی کل ہی تو ہم لوگ اس کے خوف سے اپنے ایمان اور جان کو بچا کر بھاگے ہیں۔ میرے ساتھی قریب ہی کے ایک غار میں موجود ہیں۔ تم لوگ میرے ساتھ چلو میں تم لوگوں کو اُن سے ملادوں۔ چنانچہ حکام اور عمائدین شہر کثیر تعداد میں اُس غار کے پاس پہنچے۔ اصحاب ِ کہف ''یملیخا'' کے انتظار میں تھے۔ جب ان کی واپسی میں دیر ہوئی تو اُن لوگوں نے یہ خیال کرلیا کہ شاید یملیخا گرفتار ہو گئے اور جب غار کے منہ پر بہت سے آدمیوں کا شور و غوغا ان لوگوں نے سنا تو سمجھ بیٹھے کہ غالباً دقیانوس کی فوج ہماری گرفتاری کے لئے آن پہنچی ہے۔ تو یہ لوگ نہایت اخلاص کے ساتھ ذکر ِ الٰہی اور توبہ و استغفار میں مشغول ہو گئے۔
حکام نے غار پر پہنچ کر تانبے کا صندوق برآمد کیا اور اس کے اندر سے تختی نکال کر پڑھا تو اُس تختی پر اصحاب ِ کہف کا نام لکھا تھا اور یہ بھی تحریر تھا کہ یہ مومنوں کی جماعت اپنے دین کی حفاظت کے لئے دقیانوس بادشاہ کے خوف سے اس غار میں پناہ گزیں ہوئی ہے۔ تو دقیانوس نے خبر پا کر ایک دیوار سے ان لوگوں کو غار میں بند کردیا ہے۔ ہم یہ حال اس لئے لکھتے ہیں کہ جب کبھی بھی یہ غار کھلے تو لوگ اصحاب ِ کہف کے حال پر مطلع ہوجائیں۔ حکام تختی کی عبارت پڑھ کر حیران رہ گئے۔ اور ان لوگوں نے اپنے بادشاہ ''بیدروس'' کو اس واقعہ کی اطلاع دی۔ فوراً ہی بید روس بادشاہ اپنے امراء اور عمائدین شہر کو ساتھ لے کر غار کے پاس پہنچا تو اصحاب ِ کہف نے غار سے نکل کر بادشاہ سے معانقہ کیا اور اپنی سرگزشت بیان کی۔ بیدروس بادشاہ سجدہ میں گر کر خداوند قدوس کا شکر ادا کرنے لگا کہ میری دعا قبول ہو گئی اور اللہ تعالیٰ نے ایسی نشانی ظاہر کردی جس سے موت کے بعد زندہ ہو کر اُٹھنے کا ہر شخص کو یقین ہو گیا۔ اصحاب ِ"
کہف بادشاہ کو دعائیں دینے لگے کہ اللہ تعالیٰ تیری بادشاہی کی حفاظت فرمائے۔ اب ہم تمہیں اللہ کے سپرد کرتے ہیں۔ پھر اصحاب ِ کہف نے السلام علیکم کہا اور غار کے اندر چلے گئے اور سو گئے اور اسی حالت میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو وفات دے دی۔ بادشاہ بیدروس نے سال کی لکڑی کا صندوق بنوا کر اصحابِ کہف کی مقدس لاشوں کو اس میں رکھوا دیا اور اللہ تعالیٰ نے اصحاب ِ کہف کا ایسا رعب لوگوں کے دلوں میں پیدا کردیا کہ کسی کی یہ مجال نہیں کہ غار کے منہ تک جا سکے۔ اس طرح اصحاب ِ کہف کی لاشوں کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ نے سامان کردیا۔ پھر بیدروس بادشاہ نے غار کے منہ پر ایک مسجد بنوا دی اور سالانہ ایک دن مقرر کردیا کہ تمام شہر والے اس دن عید کی طرح زیارت کے لئے آیا کریں۔
(خازن، ج۳،ص۱۹۸۔۲۰۰)
اصحاب ِکہف کی تعداد:۔اصحابِ کہف کی تعداد میں جب لوگوں کا اختلاف ہوا تو یہ آیت نازل ہوئی کہ :۔
قُل رَّبِّیۡۤ اَعْلَمُ بِعِدَّتِہِمۡ مَّا یَعْلَمُہُمْ اِلَّا قَلِیۡلٌ (پ15،الکہف:22)
"ترجمہ کنزالایمان:۔ تم فرماؤ میرا رب ان کی گنتی خوب جانتاہے انہیں نہیں جانتے مگر تھوڑے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میں انہی کم لوگوں میں سے ہوں جو اصحابِ کہف کی تعداد کو جانتے ہیں۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اصحاب ِ کہف کی تعداد سات ہے اور آٹھوں اُن کا کتا ہے۔"
(تفسیرصاوی، ج ۴ ،ص۱۱۹۱،پ۱۵،الکہف:۲۲)
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اصحابِ کہف کا حال بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:۔
ؕاَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْکَہۡفِ وَ الرَّقِیۡمِ ۙ کَانُوۡا مِنْ اٰیٰتِنَا عَجَبًا ﴿9﴾اِذْ اَوَی الْفِتْیَۃُ اِلَی الْکَہۡفِ فَقَالُوۡا رَبَّنَاۤ اٰتِنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ رَحْمَۃً وَّہَیِّئْ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا ﴿10﴾فَضَرَبْنَا عَلٰۤی اٰذَانِہِمْ فِی الْکَہۡفِ سِنِیۡنَ عَدَدًا ﴿ۙ11﴾ثُمَّ بَعَثْنٰہُمْ لِنَعْلَمَ اَیُّ الْحِزْبَیۡنِ اَحْصٰی لِمَا لَبِثُوۡۤا
اَمَدًا ﴿٪12﴾نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیۡکَ نَبَاَہُمۡ بِالْحَقِّ ؕ اِنَّہُمْ فِتْیَۃٌ اٰمَنُوۡا بِرَبِّہِمْ وَزِدْنٰہُمْ ہُدًی ﴿٭ۖ13﴾ (پ15،الکہف:9۔13)
"ترجمہ کنزالایمان:۔کیا تمہیں معلوم ہوا کہ پہاڑ کی کھوہ اور جنگل کے کنارے والے ہماری ایک عجیب نشانی تھے جب ان جوانوں نے غار میں پناہ لی پھر بولے اے ہمارے رب ہمیں اپنے پاس سے رحمت دے اور ہمارے کام میں ہمارے لئے راہ یابی کے سامان کر تو ہم نے اس غار میں ان کے کانوں پر گنتی کے کئی برس تھپکا پھر ہم نے انہیں جگایا کہ دیکھیں دو گرہوں میں کون ان کے ٹھہرنے کی مدت زیادہ ٹھیک بتاتا ہے ہم ان کا ٹھیک ٹھیک حال تمہیں سنائیں وہ کچھ جو ان تھے کہ اپنے رب پر ایمان لائے اور ہم نے ان کو ہدایت بڑھائی۔
اس سے اگلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اصحاب ِ کہف کا پورا پورا حال بیان فرمایا ہے کہ جس کو ہم پہلے ہی تحریر کر چکے ہیں۔
اصحابِ کہف کے نام:۔ان کے ناموں میں بھی بہت اختلاف ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اُن کے نام یہ ہیں۔ یملیخا، مکشلینا، مشلینا، مرنوش، دبرنوش، شاذنوش اور ساتواں چرواہا تھا جو ان لوگوں کے ساتھ ہو گیا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اُس کا ذکر نہیں فرمایا۔ اور ان لوگوں کے کتے کا نام'' قطمیر ''تھا اور ان لوگوں کے شہر کا نام ''افسوس''تھا اور ظالم بادشاہ کا نام ''دقیانوس''تھا۔"
(مدارک التنزیل ،ج ۳، ص ۲۰۶،پ۱۵،الکہف:۲۲)
اور تفسیر صاوی میں لکھا ہے کہ اصحاب ِ کہف کے نام یہ ہیں۔ مکسملینا، یملیخا، طونس، نینوس، ساریونس، ذونوانس، فلستطیونس۔ یہ آخری چرواہے تھے جو راستے میں ساتھ ہو لئے تھے اور ان لوگوں کے کتے کا نام ''قطمیر'' تھا۔
(صاوی، ج۴،ص۱۱۹۱،پ۱۵،الکہف:۲۲ )
"اصحابِ کہف کے ناموں کے خواص:۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اصحاب ِ کہف کے ناموں کا تعویذ نو کاموں کے لئے فائدہ مند ہے:۔
(۱)بھاگے ہوئے کو بلانے کے لئے اور دشمنوں سے بچ کر بھاگنے کے لئے۔(۲) آگ بجھانے کے لئے کپڑے پر لکھ کر آگ میں ڈال دیں (۳)بچوں کے رونے اور تیسرے دن آنے والے بخار کے لئے۔(۴) درد سر کے لئے دائیں بازو پر باندھیں۔(۵)اُمّ الصبیان کے لئے گلے میں پہنائیں ۔(۶)خشکی اور سمندر میں سفر محفوظ ہونے کے لئے۔ (۷)مال کی حفاظت کے لیے۔ (۸)عقل بڑھنے کے لئے ۔(۹)گنہگاروں کی نجات کے لیے"
" (صاوی،ج۴،ص۱۱۹۱،پ۱۵،الکہف:۲۲ )"
اصحابِ کہف کتنے دنوں تک سوتے رہے:۔جب قرآن کی آیت
وَ لَبِثُوۡا فِیۡ کَہۡفِہِمْ ثَلٰثَ مِائَۃٍ سِنِیۡنَ وَازْدَادُوۡا تِسْعًا ﴿۲۵﴾
(پ۱۵،الکھف:۲۵) (اور وہ اپنے غار میں تین سو برس ٹھہرے نواوپر)نازل ہوئی۔ تو کفار کہنے لگے کہ ہم تین سو برس کے متعلق تو جانتے ہیں کہ اصحاب ِ کہف اتنی مدت تک غار میں رہے مگر ہم نو برس کو نہیں جانتے تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ شمسی سال جوڑ رہے ہو اور قرآن مجید نے قمری سال کے حساب سے مدت بیان کی ہے اور شمسی سال کے ہر سو برس میں تین سال قمری بڑھ جاتے ہیں۔
(صاوی،ج۴،ص۱۱۹۳،پ۱۵،الکہف:۲۵)
"درسِ ہدایت:۔(۱)مرنے کے بعد زندہ ہو کر اٹھنا حق ہے اور اصحابِ کہف کا واقعہ اس کی نشانی اور دلیل ہے۔ جو قرآن مجید میں موجود ہے۔
(۲)جو اپنے دین و ایمان کی حفاظت کے لئے اپنا وطن چھوڑ کر ہجرت کرتا ہے اللہ تعالیٰ غیب سے اُس کی حفاظت کا ایسا ایسا سامان فرما دیتا ہے کہ کوئی اس کو سوچ بھی نہیں سکتا۔
(۳)اللہ والوں کے ناموں میں برکت اور نفع بخش تاثیرات ہوتی ہیں۔"
" (۴)بیدروس ایک ایماندار اور نیک دل بادشاہ نے اصحابِ کہف کے غار کی زیارت کے لئے سالانہ ایک دن مقرر کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ بزرگانِ دین کے عرس کا دستور بہت قدیم زمانے سے چلا آرہا ہے۔
(۵)بزرگوں کے مزاروں کے پاس مسجد تعمیر کرنا اور وہاں عبادت کرنا بھی بہت پرانا مبارک طریقہ ہے کیونکہ بیدروس بادشاہ نے اصحابِ کہف کے غار کے پاس ایک مسجد بنا دی تھی جس کا ذکر قرآن مجید کی سورۃ کہف میں ہے۔"
(واللہ تعالٰی اعلم)
"ایک روایت ہے کہ جب فرعون مع اپنے لشکر کے دریائے نیل میں غرق ہو گیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل کے ساتھ مصر میں قرار نصیب ہوا تو ایک دن موسیٰ علیہ السلام کا اللہ تعالیٰ سے اس طرح مکالمہ شروع ہوا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام: خداوند! تیرے بندوں میں سب سے زیادہ تجھ کو محبوب کون سا بندہ ہے؟
اللہ تعالیٰ : جو میرا ذکر کرتا ہے اور مجھے کبھی فراموش نہ کرے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام: سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا کون ہے؟
اللہ تعالیٰ : جو حق کے ساتھ فیصلہ کرے اور کبھی بھی خواہش انسانی کی پیروی نہ کرے
حضرت موسیٰ علیہ السلام: تیرے بندوں میں سب سے زیادہ علم والا کون ہے؟
اللہ تعالیٰ : جو ہمیشہ اپنے علم کے ساتھ دوسروں سے علم سیکھتا رہے تاکہ اس
طرح اُسے کوئی ایک ایسی بات مل جائے جو اُسے ہدایت کی
طرف راہنمائی کرے یا اس کو ہلاکت سے بچا لے۔"
"حضرت موسیٰ علیہ السلام: اگر تیرے بندوں میں کوئی مجھ سے زیادہ علم والا ہو تو مجھے اس کا پتا
بتا دے؟
اللہ تعالیٰ : ''خضر''تم سے زیادہ علم والے ہیں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام: میں انہیں کہاں تلاش کروں؟
اللہ تعالیٰ : ساحل سمندر پر چٹان کے پاس۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام: میں وہاں کیسے اور کس طرح پہنچوں؟
اللہ تعالیٰ : تم ایک ٹوکری میں ایک مچھلی لے کر سفر کرو۔ جہاں وہ مچھلی گم
ہوجائے بس وہیں خضر سے تمہاری ملاقات ہو گی۔"
( مدارک التنزیل،ج۳،ص۲۱۷،پ۱۵، الکہف:۶۰)
"اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے خادم اور شاگرد حضرت یوشع بن نون بن افرائیم بن یوسف علیہم السلام کو اپنا رفیق سفر بنا کر ''مجمع البحرین'' کا سفر فرمایا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام چلتے چلتے جب بہت دور چلے گئے تو ایک جگہ سو گئے۔ اُسی جگہ مچھلی ٹوکری میں سے تڑپ کر سمندر میں کود گئی۔ اور جس جگہ پانی میں ڈوبی وہاں پانی میں ایک سوراخ بن گیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نیند سے بیدار ہو کر چلنے لگے۔ جب دوپہر کے کھانے کا وقت ہوا تو آپ نے اپنے شاگرد حضرت یوشع بن نون علیہ السلام سے مچھلی طلب فرمائی تو انہوں نے عرض کیا کہ چٹان کے پاس جہاں آپ سو گئے تھے ،مچھلی کود کر سمندر میں چلی گئی اور میں آپ کو بتانا بھول گیا۔ آپ نے فرمایا کہ ہمیں تو اس جگہ کی تلاش تھی۔ بہرحال پھر آپ اپنے قدموں کے نشانات کو تلاش کرتے ہوئے اُس جگہ پہنچ گئے جہاں حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات کی جگہ بتائی گئی تھی۔
وہاں پہنچ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دیکھا کہ ایک بزرگ کپڑوں میں لپٹے"
"ہوئے بیٹھے ہیں۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اُن کو سلام کیا تو انہوں نے تعجب سے فرمایا کہ اس زمین میں سلام کرنے والے کہاں سے آگئے؟ پھر انہوں نے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ تو آپ نے فرمایا کہ میں ''موسیٰ'' ہوں۔ تو انہوں نے دریافت کیا کہ کون موسیٰ؟ کیا آپ بنی اسرائیل کے موسیٰ ہیں؟ تو آپ نے فرمایا کہ جی ہاں تو حضرت خضر علیہ السلام نے کہا کہ اے موسیٰ! مجھے اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا علم دیا ہے جس کو آپ نہیں جانتے۔ اور آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایسا علم دیا جس کو میں نہیں جانتا۔ مطلب یہ تھا کہ میں علم ''اسرار'' جانتا ہوں۔ جس کا آپ کو علم نہیں اور آپ ''علم الشرائع'' جانتے ہیں جس کو میں نہیں جانتا۔
پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ اے خضر! کیا آپ مجھے اس کی اجازت دیتے ہیں کہ میں آپ کے پیچھے پیچھے چلوں تاکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو علوم دیئے ہیں آپ کچھ مجھے بھی تعلیم دیں۔ تو حضرت خضر علیہ السلام نے کہا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہ کرسکیں گے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں ان شاء اللہ تعالیٰ صبر کروں گا۔ اور کبھی بھی کوئی نافرمانی نہیں کروں گا۔ حضرت خضر علیہ السلام نے کہا کہ شرط یہ ہے کہ آپ مجھ سے کسی بات کے متعلق کوئی سوال نہ کریں۔ یہاں تک کہ میں خود آپ کو بتا دوں۔ غرض اس عہد و معاہدہ کے بعد حضرت خضر علیہ السلام نے حضرت موسیٰ اور یوشع بن نون علیہما السلام کو اپنے ساتھ لے کر سمندر کے کنارے کنارے چلنا شروع کردیا۔ یہاں تک کہ ایک کشتی پر نظر پڑی۔ اور کشتی والوں نے ان تینوں صاحبان کو کشتی پر سوار کرلیا اور کشتی کا کرایہ بھی نہیں مانگا۔ جب یہ لوگ کشتی میں بیٹھ گئے تو حضرت خضر علیہ السلام نے اپنے جَھولے میں سے کلہاڑی نکالی اور کشتی کو پھاڑ کر اُس کا ایک تختہ نکال کر سمندر میں پھینک دیا۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام برداشت نہ کرسکے اور حضرت خضر علیہ السلام سے یہ سوال کربیٹھے کہ:۔"
اَخَرَقْتَہَا لِتُغْرِقَ اَہۡلَہَا ۚ لَقَدْ جِئْتَ شَیْـًٔا اِمْرًا ﴿71﴾ (پ 15،الکہف:71)
"ترجمہ کنزالایمان:۔کیا تم نے اسے اس لئے چیرا کہ اس کے سواروں کو ڈبا دو بیشک یہ تم نے بُری بات کی۔
حضرت خضر علیہ السلام نے کہا کہ کیا میں نے آپ سے کہہ نہیں دیا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہ کرسکیں گے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے معذرت کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے بھول کر سوال کردیا۔ لہٰذا آپ میری بھول پر گرفت نہ کیجئے اور میرے کام میں مشکل نہ ڈالئے۔
پھر یہ حضرات کچھ دور آگے کو چلے۔ تو حضرت خضر علیہ السلام نے ایک نابالغ بچے کو دیکھا جو اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ حضرت خضر علیہ السلام نے گلا دبا کر اور زمین پر پٹک کر اُس بچے کو قتل کرڈالا یہ ہوش رُبا خونی منظر دیکھ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام میں صبر کی تاب نہ رہی اور آپ نے ذرا سخت لہجے میں حضرت خضر علیہ السلام سے کہہ دیا:۔"
"اَقَتَلْتَ نَفْسًا زَکِیَّۃًۢ بِغَیۡرِ نَفْسٍ ؕ لَقَدْ جِئْتَ شَیْـًٔا نُّکْرًا ﴿74﴾
(پ15،الکہف:74)"
"ترجمہ کنزالایمان:۔ موسیٰ نے کہا کیا تم نے ایک ستھری جان بے کسی جان کے بدلے قتل کردی بیشک تم نے بہت بری بات کی۔
حضرت خضر علیہ السلام نے پھر یہی جواب دیا کہ کیا میں نے آپ سے یہ نہیں کہہ دیا تھا کہ آپ ہرگز میرے ساتھ صبر نہ کرسکیں گے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ اچھا اب اگر اس کے بعد میں آپ سے کچھ پوچھوں تو آپ میرے ساتھ نہ رہیے گا۔ اس میں شک نہیں کہ میری طرف سے آپ کا عذر پورا ہوچکا ہے۔
پھر اس کے بعد ان حضرات نے ساتھ ساتھ چلنا شروع کردیا۔ یہاں تک کہ یہ لوگ ایک گاؤں میں پہنچے اور گاؤں والوں سے کھانا طلب کیا۔ مگر گاؤں والوں میں سے کسی نے بھی ان صالحین کی دعوت نہیں کی۔ پھر ان دونوں نے گاؤں میں ایک گرتی ہوئی دیوار پائی تو حضرت خضر علیہ السلام نے اسم اعظم پڑھ کر دیوار سیدھی کردی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام گاؤں والوں"
کی بداخلاقی سے بیزار تھے ہی ،آپ کو غصہ آگیا، برداشت نہ کرسکے اور یہ فرمایا:۔
لَوْ شِئْتَ لَتَّخَذْتَ عَلَیۡہِ اَجْرًا ﴿77﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔تم چاہتے تو اس پر کچھ مزدوری لے لیتے۔(پ16،الکہف:77)
یہ سن کر حضرت خضر علیہ السلام نے کہہ دیا کہ اب میرے اور آپ کے درمیان جدائی ہے اور جن چیزوں کو دیکھ کر آپ صبر نہ کرسکے اُن کا راز میں آپ کو بتادوں گا۔ سنئے جو کشتی میں نے پھاڑ ڈالی وہ چند مسکینوں کی تھی جس کی آمدنی سے وہ لوگ گزر بسر کرتے تھے اور آگے ایک ظالم بادشاہ رہتا تھا جو سالم اور اچھی کشتیوں کو چھین لیا کرتا تھا اور عیب دار کشتیوں کو چھوڑ دیا کرتا تھا تو میں نے قصداً ایک تختہ نکال کر اُس کشتی کو عیب دار کردیا تاکہ ظالم بادشاہ کے غضب سے محفوظ رہے۔ اور جس لڑکے کو میں نے قتل کردیا اس کے والدین بہت نیک اور صالح تھے۔ اور یہ لڑکا پیدائشی کافر تھا اور والدین اس لڑکے سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور اُس کی ہر خواہش پوری کرتے تھے تو ہمیں یہ خوف و خطرہ نظر آیا کہ وہ لڑکا کہیں اپنے والدین کو کفر میں نہ مبتلا کردے۔ اس لئے میں نے اُس لڑکے کو قتل کر کے اُس کے والدین کو کفر سے بچا لیا۔ اب اُس کے والدین صبر کریں گے تو اللہ تعالیٰ اُس لڑکے کے بدلے میں اس کے والدین کو ایک بیٹی عطا فرمائے گا، جو ایک نبی سے بیاہی جائے گی اور اس کے شکم سے ایک نبی پیدا ہو گا جو ایک امت کو ہدایت کریگا۔ اور گرتی ہوئی دیوار کو سیدھی کرنے کا راز یہ تھا کہ یہ دیوار دو یتیم بچوں کی تھی جس کے نیچے ان دونوں کا خزانہ تھا اور ان دونوں کا باپ ایک صالح اور نیک آدمی تھا۔ اگر ابھی یہ دیوار گرجاتی تو ان یتیموں کا خزانہ گاؤں والے لے لیتے۔ اس لئے آپ کے پروردگار نے یہ چاہا کہ یہ دونوں یتیم بچے جوان ہو کر اپنا خزانہ نکال لیں ،اس لئے ابھی میں نے دیوار کو گرنے نہیں دیا۔ یہ خداوند تعالیٰ کی ان بچوں پر مہربانی ہے اور اے موسیٰ علیہ السلام!آپ یقین و اطمینان رکھیں کہ میں نے جو کچھ بھی کیا ہے اپنی طرف سے نہیں کیا ہے بلکہ میں نے یہ سب کچھ"
اللہ تعالیٰ کے حکم سے کیا ہے۔ اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے وطن واپس چلے آئے۔
(مدارک التنزیل، ج۳،ص۲۱۹۔۲۲۱،پ ۱۵۔۱۶،الکہف ملخصاً)
حضرت خضر علیہ السلام کا تعارف:۔حضرت خضر علیہ السلام کی کنیت ابو العباس اور نام ''بلیا'' اور ان کے والد کا نام ''ملکان'' ہے۔ ''بلیا'' سریانی زبان کا لفظ ہے۔ عربی زبان میں اس کا ترجمہ ''احمد'' ہے۔ ''خضر'' ان کا لقب ہے اور اس لفظ کو تین طرح سے پڑھ سکتے ہیں۔
خَضِر، خَضْر، خِضْر۔ ''خضر''
"کے معنی سبز چیز کے ہیں۔ یہ جہاں بیٹھتے تھے وہاں آپ کی برکت سے ہری ہری گھاس اُگ جاتی تھی اس لئے لوگ ان کو ''خضر'' کہنے لگے۔
یہ بہت ہی عالی خاندان ہیں۔ اور ان کے آباؤ اجداد بادشاہ تھے۔ بعض عارفین نے فرمایا ہے کہ جو مسلمان ان کا اور ان کے والد کا نام اور ان کی کنیت یاد رکھے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ اُس کا خاتمہ ایمان پر ہو گا۔"
(صاوی، ج۴،ص۱۲۰۷،پ۱۵،الکہف:۶۵)
حضرت خضر علیہ السلام زندہ ولی ہیں:۔بعض لوگوں نے حضرت خضر علیہ السلام کو نبی بتایا ہے لیکن اکثر علماء کا قول یہ ہے کہ آپ ولی ہیں۔
( جلالین،ص۲۴۹، پ ۱۵، الکہف:۶۵)
اور جمہور علماء کا یہی قول ہے کہ آپ اب بھی زندہ ہیں اور قیامت تک زندہ رہیں گے کیونکہ آپ نے آب ِ حیات پی لیا ہے۔ آپ کے گرد بکثرت اولیاء کرام جمع رہتے ہیں اور فیض پاتے ہیں۔ چنانچہ عارف باللہ حضرت سید بکری نے اپنے قصیدہ ''درد السحر'' میں آپ کے بارے میں یہ تحریر فرمایا ہے کہ ؎
" حَییٌ وَحَقِّکَ لَمْ یَقُل بَوَفَاتِہٖ اِلَّا الَّذِیْ لَمْ یَلْقَ نُورَ جَمَالِہٖ
فَعَلَیْہِ مِنِّیْ کُلَّمَا ھَبَّ الصَّبَا اَزکٰی سَلَامٍ طَابَ فِیْ اِرْسَالِہ"
تیرے حق کی قسم!کہ حضرت خضر علیہ السلام زندہ ہیں اور اُن کی وفات کا قائل وہی ہو گا جو
"اُن کے نور جمال سے ملاقات نہیں کرسکا ہے تو میری طرف سے اُن پر جب جب بادِ صبا چلے ستھرا سلام ہو کہ پاکیزگی کے ساتھ بادِ صبا اس کو پہنچائے۔
حضرت خضر علیہ السلام حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوئے ہیں۔ اس لئے یہ صحابی بھی ہیں۔"
(صاوی، ج۴،ص۱۲۰۸،پ ۱۵، الکہف:۶۵)
ذوالقرنین کا نام ''سکندر''ہے۔ یہ حضرت خضر علیہ السلام کے خالہ زاد بھائی ہیں۔ حضرت خضر علیہ السلام ان کے وزیر اور جنگلوں میں علمبردار رہے ہیں۔ یہ حضرت سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں اور یہ ایک بڑھیا کے اکلوتے فرزند ہیں۔ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے دست حق پرست پر اسلام قبول کر کے مدتوں اُن کی صحبت میں رہے اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے ان کو کچھ وصیتیں بھی فرمائی تھیں۔ صحیح قول یہی ہے کہ یہ نبی نہیں ہیں بلکہ ایک بندئہ صالح ہیں جو ولایت کے شرف سے سرفراز ہیں۔
(صاوی،ج۴،ص۱۲۱۴،پ۱۶، الکہف:۸۳)
ذوالقرنین کیوں کہلائے؟:۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ ذوالقرنین (دو سینگوں والے)کے لقب سے اس لئے مشہور ہو گئے کہ انہوں نے دنیا کے دو سینگوں یعنی دونوں کناروں کا چکر لگایا تھا۔ اور بعض کا قول ہے کہ ان کے دور میں لوگوں کے دو قرن ختم ہو گئے سو برس کا ایک قرن ہوتا ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ ان کے دو گیسو تھے اس لئے ذوالقرنین کہلاتے ہیں۔ اور یہ بھی ایک قول ہے کہ ان کے تاج پر دو سینگ بنے ہوئے تھے۔ اور بعض اس کے قائل ہیں کہ خود ان کے سر پر دونوں طرف ابھار تھا جو سینگ جیسا نظر آتا تھا اور بعضوں نے یہ وجہ بتائی کہ چونکہ ان کے باپ اور ماں نجیب الطرفین اور شریف زادہ تھے اس لئے لوگ ان کو ذوالقرنین کہنے لگے۔
واللہ تعالیٰ اعلم۔
( مدارک التنزیل، ج۳،ص۲۲۲،پ۱۶، الکہف:۸۳)
اللہ تعالیٰ نے ان کو تمام روئے زمین کی بادشاہی عطا فرمائی تھی۔ دنیا میں کل چار بادشاہ ایسے ہوئے ہیں جن کو پوری زمین کی پوری بادشاہی ملی۔ ان میں دو مومنین تھے اور دو کافر۔ مومن تو حضرت سلیمان علیہ السلام اور ذوالقرنین ہیں اور کافر ایک بخت نصر اور دوسرا نمرود ہے۔ اور تمام روئے زمین کے ایک پانچویں بادشاہ اس امت میں ہونے والے ہیں جن کا اسم گرامی حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ ہے۔
( صاوی، ج۴،ص۱۲۱۶،پ۱۶،الکہف:۸۳)
"ذوالقرنین کے تین سفر:۔قرآن مجید میں حضرت ذوالقرنین کے تین سفروں کا حال بیان ہوا ہے جو سورہ کہف میں ہے۔ ہم قرآن مجید ہی سے ان تینوں سفروں کا حال تحریر کرتے ہیں، جن کی روداد بہت ہی عجیب اور عبرت خیز ہے۔
پہلا سفر:۔حضرت ذوالقرنین نے پرانی کتابوں میں پڑھا تھا کہ سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے ایک شخص آب ِ حیات کے چشمہ سے پانی پی لے گا تو اس کو موت نہ آئے گی۔ اس لئے حضرت ذوالقرنین نے مغرب کا سفر کیا۔ آپ کے ساتھ حضرت خضر علیہ السلام بھی تھے وہ تو آب ِ حیات کے چشمہ پر پہنچ گئے اور اس کا پانی بھی پی لیا مگر حضرت ذوالقرنین کے مقدر میں نہیں تھا، وہ محروم رہ گئے۔ اس سفر میں آپ جانب مغرب روانہ ہوئے تو جہاں تک آبادی کا نام و نشان ہے وہ سب منزلیں طے کر کے آپ ایک ایسے مقام پر پہنچے کہ انہیں سورج غروب کے وقت ایسا نظر آیا کہ وہ ایک سیاہ چشمہ میں ڈوب رہا ہے۔ جیسا کہ سمندری سفر کرنے والوں کو آفتاب سمندر کے کالے پانی میں ڈوبتا نظر آتا ہے۔ وہاں ان کو ایک ایسی قوم ملی جو جانوروں کی کھال پہنے ہوئے تھی۔ ا س کے سوا کوئی دوسرا لباس ان کے بدن پر نہیں تھا اور دریائی مردہ جانوروں کے سوا ان کی غذا کا کوئی دوسرا سامان نہیں تھا۔ یہ قوم ''ناسک''کہلاتی تھی۔ حضرت ذوالقرنین نے دیکھا کہ ان کے لشکر بے شمار ہیں اور یہ لوگ بہت ہی طاقت ور اور جنگجو ہیں۔ تو"
"حضرت ذوالقرنین نے ان لوگوں کے گرد اپنی فوجوں کا گھیرا ڈال کر ان لوگوں کو بے بس کردیا۔ چنانچہ کچھ تو مشرف بہ ایمان ہو گئے کچھ آپ کی فوجوں کے ہاتھوں مقتول ہو گئے۔
دوسرا سفر:۔پھر آپ نے مشرق کا سفر فرمایا یہاں تک کہ جب سورج طلوع ہونے کی جگہ پہنچے تو یہ دیکھا کہ وہاں ایک ایسی قوم ہے جن کے پاس کوئی عمارت اور مکانات نہیں ہیں۔ ان لوگوں کا یہ حال تھا کہ سورج طلوع ہونے کے وقت یہ لوگ زمین کی غاروں میں چھپ جاتے تھے۔ اور سورج ڈھل جانے کے بعد غاروں سے نکل کر اپنی روزی کی تلاش میں لگ جاتے تھے۔ یہ لوگ قوم ''منسک'' کہلاتے تھے۔ حضرت ذوالقرنین نے ان لوگوں کے مقابلہ میں بھی لشکر آرائی کی اور جو لوگ ایمان لائے ان کے ساتھ بہترین سلوک کیا اور جو اپنے کفر پر اڑے رہے ان کو تہ تیغ کردیا۔
تیسرا سفر:۔پھر آپ نے شمال کی جانب سفر فرمایا یہاں تک کہ ''سدین''(دو پہاڑوں کے درمیان)میں پہنچے تو وہاں کی آبادی کی عجیب و غریب زبان تھی۔ ان لوگوں کے ساتھ اشاروں سے بمشکل بات چیت کی جا سکتی تھی۔ ان لوگوں نے حضرت ذوالقرنین سے یاجوج ما جوج کے مظالم کی شکایت کی اور آپ کی مدد کے طالب ہوئے۔
یاجوج و ماجوج:۔یہ یافث بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے ایک فسادی گروہ ہے۔ اور ان لوگوں کی تعداد بہت ہی زیادہ ہے۔ یہ لوگ بلا کے جنگجو خونخوار اور بالکل ہی وحشی اور جنگلی ہیں جو بالکل جانوروں کی طرح رہتے ہیں۔ موسم ربیع میں یہ لوگ اپنے غاروں سے نکل کر تمام کھیتیاں اور سبزیاں کھا جاتے تھے۔ اور خشک چیزوں کو لاد کر لے جاتے تھے۔ آدمیوں اور جنگلی جانوروں یہاں تک کہ سانپ، بچھو، گرگٹ اور ہر چھوٹے بڑے جانور کو کھا جاتے تھے۔
سد ِ سکندری:۔حضرت ذوالقرنین سے لوگوں نے فریاد کی کہ آپ ہمیں یاجوج وماجوج کے شر اور اُن کی ایذاء رسانیوں سے بچایئے اور ان لوگوں نے ان کے عوض کچھ مال دینے کی"
بھی پیش کش کی تو حضرت ذوالقرنین نے فرمایا کہ مجھے تمہارے مال کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے سب کچھ دیا ہے۔ بس تم لوگ جسمانی محنت سے میری مدد کرو۔ چنانچہ آپ نے دونوں پہاڑوں کے درمیان بنیاد کھدوائی۔ جب پانی نکل آیا تو اس پر پگھلائے تانبے کے گارے سے پتھر جمائے گئے اور لوہے کے تختے نیچے اوپر چن کر اُن کے درمیان میں لکڑی اور کوئلہ بھروادیا۔ اور اُس میں آگ لگوادی۔ اس طرح یہ دیوار پہاڑ کی بلندی تک اونچی کردی گئی اور دونوں پہاڑوں کے درمیان کوئی جگہ نہ چھوڑی گئی۔ پھر پگھلایا ہوا تانبا دیوار میں پلا دیا گیا جو سب مل کر بہت ہی مضبوط اور نہایت مستحکم دیوار بن گئی۔
( خزائن العرفان،ص۵۴۵۔۵۴۷،پ۱۶، الکہف: ۸۶تا ۹۸)
قرآن مجید کی سورہ کہف میں
حَتّٰی اِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ
سے
مِنْ اَمْرِنَا یُسْرًا
پہلے سفر کا ذکر ہے پھر
ثُمَّ اَتْبَعَ سَبَبًا
سے خُبْرًا تک دوسرے سفر کا تذکرہ ہے اور
ثُمَّ اَتْبَعَ سَبَبًا
سے
وَعْدُ رَبِّیْ حَقًّا
تک تیسرے سفر کی روداد ہے۔
حدیث شریف میں ہے کہ یاجوج وماجوج روزانہ اس دیوار کو توڑتے ہیں اور دن بھر جب محنت کرتے کرتے اس کو توڑنے کے قریب ہوجاتے ہیں تو ان میں سے کوئی کہتا ہے کہ اب چلو باقی کو کل توڑ ڈالیں گے۔ دوسرے دن جب وہ لوگ آتے ہیں تو خدا کے حکم سے وہ دیوار پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہوجاتی ہے۔ جب اس دیوار کے ٹوٹنے کا وقت آئے گا تو ان میں سے کوئی کہے گا کہ اب چلو۔ ان شاء اللہ تعالیٰ کل اس دیوار کو توڑ ڈالیں گے۔ ان لوگوں کے ان شاء اللہ تعالیٰ کہنے کی برکت اور اس کلمہ کا یہ ثمرہ ہوگا کہ دوسرے دن دیوار ٹوٹ جائے گی۔ یہ قیامت قریب ہونے کا وقت ہو گا۔ دیوار ٹوٹنے کے بعد یاجوج وما جوج نکل پڑیں گے اور زمین میں ہر طرف فتنہ و فساد اور قتل و غارت کریں گے۔ چشموں اور تالابوں کا پانی پی ڈالیں گے اور جانوروں اور درختوں کو کھا ڈالیں گے۔ زمین
پر ہر جگہوں میں پھیل جائیں گے۔ مگر مکہ مکرمہ و مدینہ طیبہ و بیت المقدس ان تینوں شہروں میں یہ داخل نہ ہو سکیں گے۔ پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعا سے اُن لوگوں کی گردنوں میں کیڑے پیدا ہوجائیں گے اور یہ سب ہلاک ہوجائیں گے۔ قرآن مجید میں ہے؛۔
حَتّٰۤی اِذَا فُتِحَتْ یَاۡجُوۡجُ وَمَاۡجُوۡجُ وَ ہُمۡ مِّنۡ کُلِّ حَدَبٍ یَّنۡسِلُوۡنَ ﴿96﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔یہاں تک کہ جب کھولے جائیں گے یاجوج و ماجوج اور وہ ہر بلندی سے ڈھلکتے ہوں گے۔(پ17،الانبیاء:96)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت بی بی مریم کے شکم سے بغیر باپ کے پیدا ہوئے ہیں۔ جب ولادت کا وقت آیا تو حضرت بی بی مریم رضی اللہ تعالیٰ عنہا آبادی سے کچھ دور ایک کھجور کے سوکھے درخت کے نیچے تنہائی میں بیٹھ گئیں اور اُسی درخت کے نیچے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی۔ چونکہ آپ بغیر باپ کے کنواری مریم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے شکم سے پیدا ہوئے۔ اس لئے حضرت مریم بڑی فکر مند اور بے حد اداس تھیں اور بدگوئی و طعنہ زنی کے خوف سے بستی میں نہیں آرہی تھیں۔ اور ایک ایسی سنسان زمین میں کھجور کے سوکھے درخت کے نیچے بیٹھی ہوئی تھیں کہ جہاں کھانے پینے کا کوئی سامان نہیں تھا۔ ناگہاں حضرت جبریل علیہ السلام اُتر پڑے اور اپنی ایڑی زمین پر مار کر ایک نہر جاری کردی اور اچانک کھجور کا سوکھا درخت ہرا بھرا ہو کر پختہ پھل لایا۔ اور حضرت جبریل علیہ السلام نے حضرت مریم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو پکار کر اُن سے یوں کلام فرمایا:۔
فَنَادٰىہَا مِنۡ تَحْتِہَاۤ اَلَّا تَحْزَنِیۡ قَدْ جَعَلَ رَبُّکِ تَحْتَکِ سَرِیًّا ﴿24﴾وَ ہُزِّیۡۤ اِلَیۡکِ بِجِذْعِ النَّخْلَۃِ تُسٰقِطْ عَلَیۡکِ رُطَبًا جَنِیًّا ﴿۫25﴾ فَکُلِیۡ وَاشْرَبِیۡ وَقَرِّیۡ عَیۡنًا ۚ (پ16،مریم،24۔26)
"ترجمہ کنزالایمان:۔تو اسے اس کے تلے سے پکارا کہ غم نہ کھا بے شک تیرے رب نے تیرے نیچے ایک نہر بہا دی ہے اور کھجور کی جڑ پکڑ کر اپنی طرف ہلا تجھ پر تازی پکی کھجوریں گریں گی تو کھااور پی اور آنکھ ٹھنڈی رکھ۔
سوکھے درخت میں پھل لگ جانا اور نہر کا اچانک جاری ہونا، بلاشبہ یہ دونوں حضرت مریم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی کرامات ہیں۔
درسِ ہدایت:۔اس سے پہلے کے صفحات میں آپ پڑھ چکے ہیں کہ حضرت بی بی مریم رضی اللہ تعالیٰ عنہا جب بچی تھیں اور بیت المقدس کی محراب میں عبادت کرتی تھیں تو بغیر کسی محنت کے وہاں بلا موسم کے پھل ملا کرتے تھے۔ مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے بعد پکی ہوئی کھجوریں تو حضرت مریم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ضرور ملیں۔ لیکن خداوند تعالیٰ کا حکم ہوا کہ کھجور کی جڑیں ہلاؤ تب تم کو کھجوریں ملیں گی۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ آدمی جب تک صاحب اولاد نہیں ہوتا تو اس کو بلا محنت کے بھی روزی مل جایا کرتی ہے اور وہ کہیں نہ کہیں کھا پی لیا کرتا ہے۔ مگر جب آدمی صاحب ِ اولاد ہوجائے تو اُس پر لازم ہے کہ محنت کر کے روزی حاصل کرے۔ دیکھو حضرت مریم رضی اللہ تعالیٰ عنہا جب تک صاحب ِ اولاد نہیں ہوئی تھیں تو بلا کسی محنت و مشقت کے اُن کے محراب ِ عبادت میں پھلوں کی روزی ملا کرتی تھی۔ مگر جب اُن کے فرزند حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہو گئے تو اب خدا کا یہ حکم ہوا کہ کھجور کے درخت کو ہلاؤ اور محنت کرو اور اس کے بعد کھجوریں ملیں گی۔"
(واللہ تعالیٰ اعلم)
جب حضرت مریم رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو گود میں لے کر بنی اسرائیل کی بستی میں تشریف لائیں تو قوم نے آپ پر بدکاری کی تہمت لگائی۔ اور لوگوں نے کہنا شروع کردیا کہ اے مریم ! تم نے یہ بہت برا کام کیا۔ حالانکہ تمہارے والدین میں کوئی خرابی نہیں تھی۔
اور تمہاری ماں بھی بدکار نہیں تھی۔ بغیر شوہر کے تمہارے لڑکا کیسے ہو گیا؟ جب قوم نے بہت زیادہ طعنہ زنی اور بدگوئی کی تو حضرت مریم رضی اللہ تعالیٰ عنہا خود تو خاموش رہیں مگر ارشاد کیا کہ اس بچے سے تم لوگ سب کچھ پوچھ لو۔ تو لوگوں نے کہا کہ ہم اس بچے سے کیا اور کیونکر اور کس طرح گفتگو کریں؟ یہ تو ابھی بچہ ہے جو پالنے میں پڑا ہوا ہے۔ قوم کا یہ کلام سن کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے تقریر شروع کردی۔ جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یوں فرمایا ہے:۔
"قَالَ اِنِّیۡ عَبْدُ اللہِ ؕ۟ اٰتٰىنِیَ الْکِتٰبَ وَجَعَلَنِیۡ نَبِیًّا ﴿ۙ30﴾وَّ جَعَلَنِیۡ مُبٰرَکًا اَیۡنَ مَا کُنۡتُ ۪ وَ اَوْصٰىنِیۡ بِالصَّلٰوۃِ وَ الزَّکٰوۃِ مَا دُمْتُ حَیًّا ﴿۪ۖ31﴾وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَتِیۡ ۫ وَلَمْ یَجْعَلْنِیۡ جَبَّارًا شَقِیًّا ﴿32﴾وَالسَّلٰمُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدۡتُّ وَ یَوْمَ اَمُوۡتُ وَ یَوْمَ اُبْعَثُ حَیًّا ﴿33﴾ (پ16، مریم: 30۔33)"
"ترجمہ کنزالایمان:۔بچہ نے فرمایا میں ہوں اللہ کا بندہ اس نے مجھے کتاب دی اور مجھے غیب کی خبریں بتانے والا (نبی)کیا اور اس نے مجھے مبارک کیا میں کہیں ہوں اور مجھے نماز و زکوٰۃ کی تاکید فرمائی جب تک جیوں۔ اور اپنی ماں سے اچھا سلوک کرنے والا اور مجھے زبردست بدبخت نہ کیا اور وہی سلامتی مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن مروں گا اور جس دن زندہ اٹھایا جاؤں گا۔
درسِ ہدایت:۔(۱)یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا معجزہ ہے کہ پیدا ہوتے ہی فصیح زبان میں ایسی جامع تقریر فرمائی۔ اس تقریر میں سب سے پہلے آپ نے اپنے کو خدا کا بندہ کہا۔ تاکہ کوئی انہیں خدا یا خدا کا بیٹا نہ کہہ سکے۔ کیونکہ لوگ آئندہ آپ پر تہمت لگانے والے تھے۔ اور یہ تہمت اللہ تعالیٰ پر لگتی تھی۔ اس لئے آپ کے منصب ِ رسالت کا یہی تقاضا تھا کہ اپنی والدہ پر لگائی جانے والی تہمت کو رفع کرنے سے پہلے اس تہمت کو دفع کریں جو اللہ تعالیٰ پر لگائی جانے"
"والی تھی۔ اللہ اکبر!سچ ہے خداوند ِ قدوس جس کو نبوت کے شرف سے نوازتا ہے یقینا اس کی ولادت نہایت ہی پاک اور طیب و طاہر ہوتی ہے اور بچپن ہی سے اس کی نبوت کے اعلیٰ آثار ظاہر ہونے لگتے ہیں۔
(۲)سورہ مریم کے اس رکوع میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کا پوراذکر میلاد شریف میں بیان فرمایا ہے اورآخر میں سلام کا ذکر ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا میلاد پڑھ کر آخر میں صلوٰۃ وسلام پڑھنا یہ اللہ تعالیٰ کی مقدس سنت ہے اوریہی اہل سنت وجماعت کا مبارک عمل ہے ۔
(۳)حضرت عیسٰی علیہ السلام کی مذکورہ بالا تقریر سے معلوم ہوا کہ نماز ،زکوٰۃ اورماں باپ کے ساتھ حسن سلوک یہ ایسے فرائض ہیں جو حضرت عیسٰی علیہ السلام کی شریعت میں بھی فرض تھے ۔"
آپ کا نام ''اخنوخ''ہے۔ آپ حضرت نوح علیہ السلام کے والد کے دادا ہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام کے بعد آپ ہی پہلے رسول ہیں۔ آپ کے والد حضرت شیث بن آدم علیہما السلام ہیں۔ سب سے پہلے جس شخص نے قلم سے لکھا وہ آپ ہی ہیں۔ کپڑوں کے سینے اور سلے ہوئے کپڑے پہننے کی ابتداء بھی آپ ہی سے ہوئی۔ اس سے پہلے لوگ جانوروں کی کھالیں پہنتے تھے۔ سب سے پہلے ہتھیار بنانے والے، ترازو اور پیمانے قائم کرنے والے اور علم نجوم و حساب میں نظر فرمانے والے بھی آپ ہی ہیں۔ یہ سب کام آپ ہی سے شروع ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ پر تیس صحیفے نازل فرمائے۔ اور آپ اللہ تعالیٰ کی کتابوں کا بکثرت درس دیا کرتے تھے۔ اس لئے آپ کا لقب ''ادریس'' ہو گیا۔ اور آپ کا یہ لقب اس قدر مشہور ہو گیا کہ بہت سے لوگوں کو آپ کا اصلی نام معلوم ہی نہیں۔ قرآن مجید میں آپ کا نام ''ادریس'' ہی ذکر کیا گیا ہے۔
آپ کو اللہ تعالیٰ نے آسمان پر اُٹھا لیا ہے۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شب ِ معراج حضرت ادریس علیہ السلام کو چوتھے آسمان پر دیکھا۔ حضرت کعب احبار رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ سے مروی ہے۔ حضرت ادریس علیہ السلام نے ملک الموت سے فرمایا کہ موت کا مزہ چکھنا چاہتا ہوں، کیسا ہوتا ہے؟ تم میری روح قبض کر کے دکھاؤ۔ ملک الموت نے اس حکم کی تعمیل کی اور روح قبض کر کے اُسی وقت آپ کی طرف لوٹا دی اور آپ زندہ ہو گئے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اب مجھے جہنم دکھاؤ تاکہ خوف ِ الٰہی زیادہ ہو۔ چنانچہ یہ بھی کیا گیا جہنم کو دیکھ کر آپ نے داروغہ جہنم سے فرمایا کہ دروازہ کھولو، میں اس دروازے سے گزرنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور آپ اس پر سے گزرے۔ پھر آپ نے ملک الموت سے فرمایا کہ مجھے جنت دکھاؤ، وہ آپ کو جنت میں لے گئے۔ آپ دروازوں کو کھلوا کر جنت میں داخل ہوئے۔ تھوڑی دیر انتظار کے بعد ملک الموت نے کہا کہ اب آپ اپنے مقام پر تشریف لے چلئے۔ آپ نے فرمایا کہ اب میں یہاں سے کہیں نہیں جاؤں گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ
کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ
تو موت کا مزہ میں چکھ ہی چکا ہوں اور اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ
وَاِنْ مِّنْکُمْ اِلاَّ وَارِدُھَا
کہ ہر شخص کو جہنم پر گزرنا ہے تو میں گزر چکا۔ اب میں جنت میں پہنچ گیا اور جنت میں پہنچنے والوں کے لئے خداوند ِ قدوس نے یہ فرمایا ہے کہ
وَمَا ھُمْ مِّنْھَا بِمُخْرَجِیْنَ
کہ جنت میں داخل ہونے والے جنت سے نکالے نہیں جائیں گے۔ اب مجھے جنت سے چلنے کے لئے کیوں کہتے ہو؟ اللہ تعالیٰ نے ملک الموت کو وحی بھیجی کہ حضرت ادریس علیہ السلام نے جو کچھ کیا میرے اذن سے کیا اور وہ میرے ہی اذن سے جنت میں داخل ہوئے۔ لہٰذا تم انہیں چھوڑ دو۔ وہ جنت ہی میں رہیں گے۔ چنانچہ حضرت ادریس علیہ السلام آسمانوں کے اوپر جنت میں ہیں اور زندہ ہیں۔
" ( خزائن العرفان، ص ۵۵۶۔۵۵۷، مریم:۵۶۔ ۵۸)"
حضرت ادریس علیہ السلام کے آسمانوں پر اٹھائے جانے اور ان کو ملنے والی نعمتوں کا مختصر اور اجمالی تذکرہ قرآن مجید کی سورہ مریم میں ہے:۔
وَاذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِدْرِیۡسَ ۫ اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیۡقًا نَّبِیًّا ﴿٭ۙ56﴾وَّرَفَعْنٰہُ مَکَانًا عَلِیًّا ﴿57﴾اُولٰۤئِکَ الَّذِیۡنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ مِنۡ ذُرِّیَّۃِ اٰدَمَ (پ16،مریم:56 ۔ 58)
"ترجمہ کنزالایمان:۔اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو بیشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا اور ہم نے اسے بلند مکان پر اٹھا لیا یہ ہیں جن پر اللہ نے احسان کیا غیب کی خبریں بتانے والوں میں سے آدم کی اولاد سے۔
درسِ ہدایت:۔حضرت ادریس علیہ السلام کے واقعہ سے یہ ہدایت کا سبق ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا رسولوں اور نبیوں پر کتنا بڑا فضل و کرم اور انعام و اکرام ہے۔ اس لئے ہر مسلمان کے لئے واجب الایمان اور لازم العمل ہے کہ خداوند قدوس کے رسولوں اور نبیوں کی تعظیم و تکریم اور ان کا ادب و احترام رکھے اور ان کے ذکرِ جمیل سے خیر و برکت حاصل کرتا رہے۔ قرآن مجید کی مقدس آیتوں اور حدیثوں میں بار بار خدا کے ان برگزیدہ رسولوں اور نبیوں کا ذکر ِ جمیل اس بات کی دلیل ہے کہ ان بزرگوں کا ذکر ِ خیر اور تذکرہ موجب ِ رحمت و باعث خیر و برکت ہے۔"
(واللہ تعالیٰ اعلم)
فرعون کو نجومیوں نے یہ خبر دی تھی کہ بنی اسرائیل میں ایک ایسا بچہ پیدا ہو گا جو تیری سلطنت کی بربادی کا سبب ہو گا۔ اس لئے فرعون نے اپنی فوجوں کو یہ حکم دے دیا تھا کہ بنی اسرائیل میں جو لڑکا پیدا ہو اس کو قتل کردیا جائے اسی مصیبت و آفت کے دور میں حضرت موسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے تو ان کی والدہ نے فرعون کے خوف سے ان کو ایک صندوق میں رکھ کر صندوق کو مضبوطی سے بند کر کے دریائے نیل میں ڈال دیا۔ دریا سے نکل کر ایک نہر فرعون کے محل کے نیچے بہتی
تھی۔ یہ صندوق دریائے نیل سے بہتے ہوئے نہر میں چلا گیا۔ اتفاق سے فرعون اور اس کی بیوی ''آسیہ'' دونوں محل میں بیٹھے ہوئے نہر کا نظارہ کررہے تھے۔ جب ان دونوں نے صندوق کو دیکھا تو خدام کو حکم دیا کہ اس صندوق کو نکال کر محل میں لائیں۔ جب صندوق کھولا گیا تو اس میں سے ایک نہایت خوبصورت بچہ نکلا جس کے چہرہ پر حسن و جمال کے ساتھ ساتھ انوار ِ نبوت کی تجلیات چمک رہی تھیں۔ فرعون اور آسیہ دونوں اس بچے کو دیکھ کر دل و جان سے اس پر قربان ہونے لگے اور آسیہ نے فرعون سے کہا کہ:۔
"قُرَّتُ عَیۡنٍ لِّیۡ وَلَکَ ؕ لَا تَقْتُلُوۡہُ ٭ۖ عَسٰۤی اَنۡ یَّنۡفَعَنَاۤ اَوْ نَتَّخِذَہٗ وَلَدًا وَّ ہُمْ لَایَشْعُرُوۡنَ ﴿9﴾
(پ 20،القصص:9)"
"ترجمہ کنزالایمان:۔یہ بچہ میری اورتیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اسے قتل نہ کرو شاید یہ ہمیں نفع دے یا ہم اسے بیٹا بنالیں اور وہ بے خبر تھے۔
اس پورے واقعہ کو قرآن مجید نے سورہ طٰہٰ میں اس طرح بیان فرمایا ہے کہ ترجمہ یہ ہے:۔
''ترجمہ کنزالایمان: جب ہم نے تیری ماں کو الہام کیا جو الہام کرنا تھا کہ اس بچے کو صندوق میں رکھ کر دریا میں ڈال دے تو دریا اسے کنارے پر ڈالے کہ اسے وہ اٹھا لے جو میر ادشمن اور اس کا دشمن ہے۔ میں نے تجھ پر اپنی طرف کی محبت ڈالی اور اس لئے کہ تو میری نگاہ کے سامنے تیار ہو۔
چونکہ ابھی حضرت موسیٰ علیہ السلام شیر خوار بچے تھے۔ اس لئے ان کو دودھ پلانے والی کسی عورت کی تلاش ہوئی مگر آپ کسی عورت کا دودھ پیتے ہی نہیں تھے۔ ادھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ بے حد پریشان تھیں کہ نامعلوم میرا بچہ کہاں اور کس حال میں ہوگا؟ پریشان ہو کر انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بہن ''مریم'' کو جستجوئے حال کے لئے فرعون کے محل میں بھیجا۔ اور مریم نے جب یہ حال دیکھا کہ بچہ کسی عورت کا دودھ نہیں پیتا تو انہوں نے فرعون سے"
کہا کہ میں ایک عورت کو لاتی ہوں شاید کہ یہ اُس کا دودھ پینے لگیں۔ چنانچہ ''مریم'' حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو فرعون کے محل میں لے کر گئیں اور انہوں نے جیسے ہی جوش محبت میں سینے سے چمٹا کر دودھ پلایا تو آپ دودھ پینے لگے۔ اس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو اُن کا بچھڑا ہوا لال مل گیا۔ اس واقعہ کا تذکرہ قرآن مجید کی سورہ قصص میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔
وَ اَصْبَحَ فُؤَادُ اُمِّ مُوۡسٰی فٰرِغًا ؕ اِنۡ کَادَتْ لَتُبْدِیۡ بِہٖ لَوْلَاۤ اَنۡ رَّبَطْنَا عَلٰی قَلْبِہَا لِتَکُوۡنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیۡنَ ﴿10﴾وَقَالَتْ لِاُخْتِہٖ قُصِّیۡہِ ۫ فَبَصُرَتْ بِہٖ عَنۡ جُنُبٍ وَّ ہُمْ لَا یَشْعُرُوۡنَ ﴿ۙ11﴾وَحَرَّمْنَا عَلَیۡہِ الْمَرَاضِعَ مِنۡ قَبْلُ فَقَالَتْ ہَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰۤی اَہۡلِ بَیۡتٍ یَّکْفُلُوۡنَہٗ لَکُمْ وَ ہُمْ لَہٗ نَاصِحُوۡنَ ﴿12﴾فَرَدَدْنٰہُ اِلٰۤی اُمِّہٖ کَیۡ تَقَرَّ عَیۡنُہَا وَلَا تَحْزَنَ وَ لِتَعْلَمَ اَنَّ وَعْدَ اللہِ حَقٌّ وَّ لٰکِنَّ اَکْثَرَہُمْ لَا یَعْلَمُوۡنَ ﴿٪13﴾ (پ20،القصص:10۔13)
"ترجمہ کنزالایمان:۔اور صبح کو موسیٰ کی ماں کا دل بے صبر ہو گیا ضرور قریب تھا کہ وہ اس کا حال کھول دیتی اگر ہم نہ ڈھارس بندھاتے اس کے دل پر کہ اسے ہمارے وعدہ پر یقین رہے اور (اس کی ماں نے )اس کی بہن سے کہا اس کے پیچھے چلی جا تو وہ اسے دور سے دیکھتی رہی اور ان کو خبر نہ تھی اور ہم نے پہلے ہی سب دائیاں اس پر حرام کردی تھیں تو بولی کیا میں تمہیں بتادوں ایسے گھر والے کہ تمہارے اس بچہ کو پال دیں اور وہ اس کے خیر خواہ ہیں تو ہم نے اسے اس کی ماں کی طرف پھیرا کہ ماں کی آنکھ ٹھنڈی ہو اور غم نہ کھائے اور جان لے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا نام:۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا نام ''یوحانذ''اور باپ کا نام ''عمران''ہے۔ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بہن کا نام ''مریم''ہے۔ مگر یاد رکھو کہ یہ وہ مریم نہیں ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ ہیں۔ حضرت"
عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ ''مریم''حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بہن سے سینکڑوں برس بعد کو ہوئی ہیں۔
(صاوی ،ج ۳، ص ۴۶، ۴۵)
"درسِ ہدایت:۔(۱)اس واقعہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے تو دشمن سے وہ کام کرالیتا ہے جو دوست بھی نہیں کرسکتے۔ دیکھ لیجئے کہ فرعون حضرت موسیٰ علیہ السلام کا سب سے بڑا دشمن تھا۔ مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پرورش فرعون ہی کے گھر میں ہوئی۔
(۲)یہ بھی معلوم ہوا کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کی حفاظت فرماتا ہے تو کوئی بھی اُس کو نہ ضائع کرسکتا ہے نہ ضرر پہنچا سکتا ہے۔ غور کرو کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کس طرح بہ حفاظت، صحت و سلامتی کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے پھر اُن کی ماں کی گود میں پہنچا دیا۔"
(واللہ تعالیٰ اعلم)
"حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بت پرستی کے معاملہ میں پہلے تو اپنی قوم سے مناظرہ کر کے حق کو ظاہر کردیا۔ مگر لوگوں نے حق کو قبول نہیں کیا بلکہ یہ کہا کہ کل ہماری عید کا دن ہے اور ہمارا ایک بہت بڑا میلہ لگے گا، وہاں آپ چل کر دیکھیں کہ ہمارے دین میں کیا لطف اور کیسی بہار ہے۔
اس قوم کا یہ دستور تھا کہ سالانہ ان لوگوں کا ایک میلہ لگتا تھا۔ لوگ ایک جنگل میں جمع ہوتے اور دن بھر لہو و لعب میں مشغول رہ کر شام کو بت خانہ میں جا کر بتوں کی پوجا کرتے اور بتوں کے چڑھاوے، مٹھائیوں اور کھانوں کو پرشاد کے طور پر کھاتے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام قوم کی دعوت پر تھوڑی دور تو میلہ کی طرف چلے لیکن پھر اپنی بیماری کا عذر کر کے واپس چلے آئے اور قوم کے لوگ میلہ میں چلے گئے۔ پھر جو میلہ میں نہیں گئے آپ نے اُن لوگوں سے صاف صاف کہہ دیا۔"
وَتَاللہِ لَاَکِیۡدَنَّ اَصْنَامَکُمۡ بَعْدَ اَنۡ تُوَلُّوۡا مُدْبِرِیۡنَ ﴿57﴾ (پ17،الانبیاء:57)
ترجمہ کنزالایمان:۔اور مجھے اللہ کی قسم ہے میں تمہارے بتوں کا برا چاہوں گا بعد اس کے کہ تم
"پھر جاؤ پیٹھ دے کر۔
چنانچہ اس کے بعد آپ ایک کلہاڑی لے کر بت خانہ میں تشریف لے گئے اور دیکھا کہ اس میں چھوٹے بڑے بہت سے بت ہیں اور دروازہ کے سامنے ایک بہت بڑا بت ہے۔ ان جھوٹے معبودوں کو دیکھ کر توحید ِ الٰہی کے جذبہ سے آپ جلال میں آگئے اور کلہاڑی سے مار مار کر بتوں کو چکنا چور کر ڈالا اور سب سے بڑے بت کو چھوڑ دیا اور کلہاڑی اُس کے کندھے پر رکھ کر آپ بت خانہ سے باہر چلے آئے۔ قوم کے لوگ جب میلہ سے واپس آ کر بت پوجنے اور پرشاد کھانے کے لئے بت خانہ میں گُھسے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اُن کے دیوتا ٹوٹے پھوٹے پڑے ہوئے ہیں۔ ایک دم سب بوکھلا گئے اور شور مچا کر چلانے لگے۔"
مَنۡ فَعَلَ ہٰذَا بِاٰلِہَتِنَاۤ اِنَّہٗ لَمِنَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿59﴾ (پ17،الانبیاء:59)
"ترجمہ کنزالایمان:۔ کس نے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ کام کیا بیشک وہ ظالم ہے۔
تو کچھ لوگوں نے کہا کہ ہم نے ایک جوان کو جس کا نام ''ابراہیم''ہے اس کی زبان سے ان بتوں کو برا بھلا کہتے ہوئے سنا ہے۔ قوم نے کہا کہ اس جوان کو لوگوں کے سامنے لاؤ۔ شاید لوگ گواہی دیں کہ اُس نے بتوں کو توڑا ہے۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بلائے گئے۔ تو قوم کے لوگوں نے پوچھا کہ اے ابراہیم!کیا تم نے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ سلوک کیا ہے؟ تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ تمہارے اس بڑے بت نے کیا ہو گا کیونکہ کلہاڑی اس کے کاندھے پر ہے۔ آخر تم لوگ اپنے ان ٹوٹے پھوٹے خداؤں ہی سے کیوں نہیں پوچھتے کہ کس نے تمہیں توڑا ہے؟ اگر یہ بت بول سکتے ہوں تو ان ہی سے پوچھ لو۔ وہ خود بتا دیں کہ کس نے انہیں توڑا ہے۔ قوم نے سرجھکا کر کہا کہ اے ابراہیم! ہم ان خداؤں سے کیا اور کیسے پوچھیں؟ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ یہ بت بول نہیں سکتے۔ یہ سن کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جلال میں تڑپ کر فرمایا:۔"
قَالَ اَفَتَعْبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ مَا لَا یَنۡفَعُکُمْ شَیْـًٔا وَّلَا یَضُرُّکُمْ ﴿ؕ66﴾اُفٍّ لَّکُمْ وَلِمَا تَعْبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوۡنَ ﴿67﴾ (پ 17،الانبیاء:66۔67)
"ترجمہ کنزالایمان:۔ کہاتو کیا اللہ کے سوا ایسے کو پوجتے ہو جو نہ تمہیں نفع دے اور نہ نقصان پہنچائے۔ تف ہے تم پر اور ان بتوں پر جن کو اللہ کے سوا پوجتے ہو تو کیا تمہیں عقل نہیں۔
آپ کی اس حق گوئی کا نعرہ سن کر قوم نے کوئی جواب نہیں دیا۔ بلکہ شور مچایا اور چلا چلا کر بت پرستوں کو بلایا۔"
حَرِّقُوۡہُ وَ انۡصُرُوۡۤا اٰلِہَتَکُمْ اِنۡ کُنۡتُمْ فٰعِلِیۡنَ ﴿68﴾ (پ17،الانبیاء:68)
"ترجمہ کنزالایمان:۔ان کو جلادو اور اپنے خداؤں کی مدد کرو اگر تمہیں کرنا ہے۔
چنانچہ ظالموں نے اتنا لمبا چوڑا آگ کا الاؤ جلایا کہ اس آگ کے شعلے اتنے بلند ہو رہے تھے کہ اس کے اوپر سے کوئی پرندہ بھی اُڑ کر نہیں جا سکتا تھا۔ پھر آپ کو ننگے بدن کر کے ان ظلم و ستم کے مجسموں نے ایک گوپھن کے ذریعے اس آگ میں پھینک دیا اور اپنے اس خیال میں مگن تھے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جل کر راکھ ہو گئے ہوں گے، مگر احکم الحاکمین کا فرمان اس آگ کے لئے یہ صادر ہو گیا کہ"
قُلْنَا یٰنَارُ کُوۡنِیۡ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤی اِبْرٰہِیۡمَ ﴿ۙ69﴾ (پ17،الانبیاء :69)
"ترجمہ کنزالایمان:۔ ہم نے فرمایا اے آگ ہوجا ٹھنڈی اور سلامتی ابراہیم پر۔
چنانچہ نتیجہ یہ ہوا جس کو قرآن نے اپنے قاہرانہ لہجے میں ارشاد فرمایا کہ"
وَاَرَادُوۡا بِہٖ کَیۡدًا فَجَعَلْنٰہُمُ الْاَخْسَرِیۡنَ ﴿ۚ70﴾ (پ17،الانبیاء:70)
"ترجمہ کنزالایمان:۔اور انہوں نے اس کا برا چاہا تو ہم نے انہیں سب سے بڑھ کر زیاں کار کردیا۔
آگ بجھ گئی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام زندہ اور سلامت رہ کر نکل آئے اور ظالم"
لوگ کف ِ افسوس مل کر رہ گئے۔
روایت ہے کہ جب نمرود نے اپنی ساری قوم کے روبرو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینک دیا تو زمین و آسمان کی تمام مخلوقات چیخ مار مار کر بارگاہ ِ خداوندی میں عرض کرنے لگیں کہ خداوند!تیرے خلیل آگ میں ڈالے جارہے ہیں اور اُن کے سوا زمین میں کوئی اور انسان تیری توحید کا علمبردار اور تیرا پرستار نہیں، لہٰذا تو ہمیں اجازت دے کہ ہم ان کی امداد و نصرت کریں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ابراہیم میرے خلیل ہیں اور میں اُن کا معبود ہوں تو اگر حضرت ابراہیم تم سبھوں سے فریاد کر کے مدد طلب کریں تو میری اجازت ہے کہ سب ان کی مدد کرو۔ اور اگر وہ میرے سوا کسی اور سے کوئی مدد طلب نہ کریں تو تم سب سن لو کہ میں ان کا دوست اور حامی و مددگار ہوں۔ لہٰذا تم اب اُن کا معاملہ میرے اوپر چھوڑ دو۔ اس کے بعد آپ کے پاس پانی کا فرشتہ آیا اور کہا کہ اگر آپ فرمائیں تو میں پانی برسا کر اس آگ کو بجھا دوں۔ پھر ہوا کا فرشتہ حاضر ہوا اور اس نے کہا کہ اگر آپ کا حکم ہو تو میں زبردست آندھی چلا کر اس آگ کو اڑا دوں تو آپ نے ان دونوں فرشتوں سے فرمایا کہ مجھے تم لوگوں کی کوئی ضرورت نہیں۔ مجھ کو میرا اللہ کافی ہے اور وہی میرا بہترین کارساز ہے وہی جب چاہے گا اور جس طرح اس کی مرضی ہو گی میری مدد فرمائے گا۔
" ( صاوی،ج۴،ص۱۳۰۷،پ۱۷، الانبیاء:۶۸)"
کون سی دعاپڑھکرآپ آگ میں گئے:۔ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ جب کافروں نے آپ کو آگ میں ڈالا تو آپ نے اُس وقت یہ دعا پڑھی
لَا اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ سُبْحَانَکَ لَکَ الْحَمْدُ وَلَکَ الْمُلْکُ لاَ شَرِیْکَ لَکَ
اور جب آپ آگ کے شعلوں میں داخل ہو گئے تو حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے اور کہا کہ اے خلیل اللہ ! کیا آپ کو کوئی حاجت ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ تم سے کوئی حاجت نہیں ہے تو حضرت جبریل علیہ السلام نے
"کہا کہ پھر خدا ہی سے اپنی حاجت عرض کیجئے تو آپ نے جواب دیا کہ وہ میرے حال کو خوب جانتا ہے۔ لہٰذا مجھے اُس سے سوال کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر شریف سولہ یا بیس برس کی تھی۔
آپ کتنی دیر تک آگ میں رہے؟:۔اس بارے میں کہ آپ کتنی مدت تک آگ کے اندر رہے، تین اقوال ہیں۔
(۱)بعض مفسرین کا قول ہے کہ سات دنوں تک آپ آگ کے شعلوں میں رہے۔
(۲)اور بعض نے یہ تحریر کیا ہے کہ چالیس دن رہے ۔
(۳)اور بعض کہتے ہیں کہ پچاس دن تک آپ آگ میں رہے۔"
واللہ تعالیٰ اعلم
" (صاوی، ج۴،ص۱۳۰۷،پ ۱۷،الانبیاء:۶۸)"
درسِ ہدایت:۔اس واقعہ سے ان لوگوں کو تسلی ملتی ہے جو باطل کی طاغوتی طاقتوں کے بالمقابل استقامت کا پہاڑ بن کر ڈٹ جاتے ہیں۔
" آج بھی ہو جو ابراہیم کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا"
حضرت ایوب علیہ السلام حضرت اسحٰق علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں اور ان کی والدہ حضرت لوط علیہ السلام کے خاندان سے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر طرح کی نعمتوں سے نوازا تھا۔ حسن صورت بھی اور مال و اولاد کی کثرت بھی، بے شمار مویشی اور کھیت و باغ وغیرہ کے آپ مالک تھے۔ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو آزمائش و امتحان میں ڈالا تو آپ کا مکان گر پڑا اور آپ کے تمام فرزندان اس کے نیچے دب کر مر گئے اور تمام جانور جس میں سینکڑوں اُونٹ اور ہزارہا بکریاں تھیں، سب مر گئے۔ تمام کھیتیاں اور باغات بھی برباد ہو گئے۔ غرض آپ کے پاس کچھ
"بھی باقی نہ رہا۔ آپ کو جب ان چیزوں کے ہلاک و برباد ہونے کی خبر دی جاتی تھی تو آپ حمد ِ الٰہی کرتے اور شکر بجا لاتے تھے اور فرماتے تھے کہ میرا کیا تھا اور کیا ہے جس کا تھا اس نے لے لیا۔ جب تک اس نے مجھے دے رکھا تھا میرے پاس تھا، جب اس نے چاہا لے لیا۔ میں ہر حال میں اس کی رضا پر راضی ہوں۔ اس کے بعد آپ بیمار ہو گئے اور آپ کے جسم مبارک پر بڑے بڑے آبلے پڑ گئے۔ اس حال میں سب لوگوں نے آپ کو چھوڑ دیا، بس فقط آپ کی بیوی جن کا نام ''رحمت بنت افرائیم'' تھا۔ جو حضرت یوسف علیہ السلام کی پوتی تھیں، آپ کی خدمت کرتی تھیں۔ سالہا سال تک آپ کا یہی حال رہا، آپ آبلوں اور پھوڑوں کے زخموں سے بڑی تکلیفوں میں رہے۔
فائدہ:۔عام طور پر لوگوں میں مشہور ہے کہ معاذ اللہ آپ کو کوڑھ کی بیماری ہو گئی تھی۔ چنانچہ بعض غیر معتبر کتابوں میں آپ کے کوڑھ کے بارے میں بہت سی غیر معتبر داستانیں بھی تحریر ہیں، مگر یاد رکھو کہ یہ سب باتیں سرتا پا بالکل غلط ہیں اور ہر گز ہر گز آپ یا کوئی نبی بھی کبھی کوڑھ اور جذام کی بیماری میں مبتلا نہیں ہوا۔ اس لئے کہ یہ مسئلہ متفق علیہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کا تمام ان بیماریوں سے محفوظ رہنا ضروری ہے جو عوام کے نزدیک باعث نفرت و حقارت ہیں۔ کیونکہ انبیاء علیہم السلام کا یہ فرض منصبی ہے کہ وہ تبلیغ و ہدایت کرتے رہیں تو ظاہر ہے کہ جب عوام ان کی بیماریوں سے نفرت کر کے ان سے دور بھاگیں گے تو بھلا تبلیغ کا فریضہ کیونکر ادا ہو سکے گا؟ الغرض حضرت ایوب علیہ السلام ہرگز کبھی کوڑھ اور جذام کی بیماری میں مبتلا نہیں ہوئے بلکہ آپ کے بدن پر کچھ آبلے اور پھوڑے پھنسیاں نکل آئی تھیں جن سے آپ برسوں تکلیف اور مشقت جھیلتے رہے اور برابر صابر و شاکر رہے۔ پھر آپ نے بحکم الٰہی اپنے رب سے یوں دعا مانگی:۔"
اَنِّیۡ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَ اَنۡتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیۡنَ ﴿ۚۖ83﴾ (پ17،الانبیاء:83)
ترجمہ کنزالایمان:۔ مجھے تکلیف پہنچی اور تو سب مہر والوں سے بڑھ کر مہر والا ہے۔
"جب آپ خدا کی آزمائش میں پورے اترے اور امتحان میں کامیاب ہو گئے تو آپ کی دعا مقبول ہوئی اور ارحم الراحمین نے حکم فرمایا کہ اے ایوب علیہ السلام!اپنا پاؤں زمین پر مارو۔ آپ نے زمین پر پاؤں مارا تو فوراً ایک چشمہ پھوٹ پڑا۔ حکم ِ الٰہی ہوا کہ اس پانی سے غسل کرو، چنانچہ آپ نے غسل کیا تو آپ کے بدن کی تمام بیماریاں دور ہو گئیں۔ پھر آپ چالیس قدم دور چلے تو دوبارہ زمین پر قدم مارنے کا حکم ہوا اور آپ کے قدم مارتے ہی پھر ایک دوسرا چشمہ نمودار ہو گیا جس کا پانی بے حد ٹھنڈا، بہت شیریں اور نہایت لذیذ تھا۔ آپ نے وہ پانی پیا تو آپ کے باطن میں نور ہی نور پیدا ہو گیا۔ اور آپ کو اعلیٰ درجے کی صحت و نورانیت حاصل ہو گئی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کی تمام اولاد کو دوبارہ زندہ فرما دیا اور آپ کی بیوی کو دوبارہ جوانی بخشی اور ان کے کثیر اولاد ہوئی ،پھر آپ کا تمام ہلاک شدہ مال و مویشی اور اسباب و سامان بھی آپ کو مل گیا بلکہ پہلے جس قدر مال و دولت کا خزانہ تھا اس سے کہیں زیادہ مل گیا۔
اس بیماری کی حالت میں ایک دن آپ نے اپنی بیوی صاحبہ کو پکارا تو وہ بہت دیر کر کے حاضر ہوئیں اس پر غصہ میں آ کر آپ نے ان کو سو دُرّے مارنے کی قسم کھا لی تھی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے ایوب علیہ السلام آپ ایک سینکوں کی جھاڑو سے ایک مرتبہ اپنی بیوی کو مار دیجئے اس طرح آپ کی قسم پوری ہوجائے گی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس واقعہ کو اس طرح بیان فرمایا ہے:۔"
اُرْکُضْ بِرِجْلِکَ ۚ ہٰذَا مُغْتَسَلٌۢ بَارِدٌ وَّ شَرَابٌ ﴿42﴾ وَ وَہَبْنَا لَہٗۤ اَہۡلَہٗ وَ مِثْلَہُمۡ مَّعَہُمْ رَحْمَۃً مِّنَّا وَ ذِکْرٰی لِاُولِی الْاَلْبَابِ ﴿43﴾وَ خُذْ بِیَدِکَ ضِغْثًا فَاضْرِبۡ بِّہٖ وَلَا تَحْنَثْ ؕ اِنَّا وَجَدْنٰہُ صَابِرًا ؕ نِعْمَ الْعَبْدُ ؕ اِنَّہٗۤ اَوَّابٌ ﴿44﴾ (پ23،صۤ:42۔44)
ترجمہ کنزالایمان:۔ہم نے فرمایا زمین پر اپنا پاؤں مار یہ ہے ٹھنڈا چشمہ نہانے اور پینے کو اور ہم نے اسے اس کے گھر والے اور ان کے برابر اور عطا فرما دیئے اپنی رحمت کرنے اور عقلمندوں
"کی نصیحت کو اور فرمایا کہ اپنے ہاتھ میں ایک جھاڑو لے کر اس سے ماردے اور قسم نہ توڑ بیشک ہم نے اسے صابر پایا کیا اچھا بندہ بیشک وہ بہت رجوع لانے والا ہے۔
الغرض حضرت ایوب علیہ السلام اس امتحان میں پورے پورے کامیاب ہو گئے۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی نوازشوں اور عنایتوں سے ہر طرح سرفراز فرما دیا اور قرآن مجید میں ان کی مدح خوانی فرما کر ''اَوَّابٌ'' کے لاجواب خطاب سے ان کے سر مبارک پر سربلندی کا تاج رکھ دیا۔
درسِ ہدایت:۔حضرت ایوب علیہ السلام کے اس واقعہ امتحان میں یہ ہدایت ملتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کا بھی خدا کی طرف سے امتحان ہوا کرتا ہے اور جب وہ امتحان میں کامیاب اور آزمائش میں پورے اترتے ہیں تو خداوند قدوس ان کے مراتب و درجات میں اتنی اعلیٰ سربلندی عطا فرما دیتا ہے کہ کوئی انسان اس کو سوچ بھی نہیں سکتا اور اس واقعہ سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ امتحان کی آزمائش کے وقت صبر کرنا اور خداوند عالم عزوجل کی رضا پر راضی رہنا اس کا پھل کتنا اچھا، کتنا میٹھا اور کس قدر لذیذ ہوتا ہے۔"
واللہ تعالیٰ اعلم۔
حضرت سلیمان علیہ السلام حضرت داؤد علیہ السلام کے فرزند ہیں۔ یہ اپنے مقدس باپ کے جانشین ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی نبوت اور سلطنت دونوں سعادتوں سے سرفراز فرما کر تمام روئے زمین کا بادشاہ بنادیا اور چالیس برس تک آپ تختِ سلطنت پر جلوہ گر ر ہے۔ جن و انسان و شیاطین اور چرندوں، پرندوں، درندوں سب پر آپ کی حکومت تھی سب کی زبانوں کا آپ کو علم عطا کیا گیا اور طرح طرح کی عجیب و غریب صنعتیں آپ کے زمانے میں بروئے کار آئیں۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے:۔
وَوَرِثَ سُلَیۡمٰنُ دَاوٗدَ وَ قَالَ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنۡطِقَ الطَّیۡرِ وَ اُوۡتِیۡنَا مِنۡ کُلِّ شَیۡءٍ ؕ اِنَّ ہٰذَا لَہُوَ الْفَضْلُ الْمُبِیۡنُ ﴿16﴾ (پ19،النمل:16)
"ترجمہ کنزالایمان:۔اور سلیمان داؤد کا جانشین ہوا اور کہا اے لوگو ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی اور ہر چیز میں سے ہم کو عطا ہوا بیشک یہی ظاہر فضل ہے۔
اسی طرح قرآن مجید میں دوسری جگہ ارشاد ہوا۔"
وَ لِسُلَیۡمٰنَ الرِّیۡحَ غُدُوُّہَا شَہۡرٌ وَّ رَوَاحُہَا شَہۡرٌ ۚ وَ اَسَلْنَا لَہٗ عَیۡنَ الْقِطْرِ ؕ وَ مِنَ الْجِنِّ مَنۡ یَّعْمَلُ بَیۡنَ یَدَیۡہِ بِاِذْنِ رَبِّہٖ ؕ وَ مَنۡ یَّزِغْ مِنْہُمْ عَنْ اَمْرِنَا نُذِقْہُ مِنْ عَذَابِ السَّعِیۡرِ ﴿12﴾یَعْمَلُوۡنَ لَہٗ مَا یَشَآءُ مِنۡ مَّحَارِیۡبَ وَ تَمَاثِیۡلَ وَ جِفَانٍ کَالْجَوَابِ وَ قُدُوۡرٍ رّٰسِیٰتٍ ؕ (پ22،سبا:12،13)
"ترجمہ کنزالایمان:۔اور سلیمان کے بس میں ہوا کردی اس کی صبح کی منزل ایک مہینہ کی راہ اور شام کی منزل ایک مہینے کی راہ اور ہم نے اس کے لئے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ بہایا اور جنوں میں سے وہ جو اس کے آگے کام کرتے اس کے رب کے حکم سے اور جو ان میں ہمارے حکم سے پھرے ہم اسے بھڑکتی آگ کا عذاب چکھائیں گے اس کے لئے بناتے جو وہ چاہتا اونچے اونچے محل اور تصویریں اور بڑے حوضوں کے برابر لگن اور لنگر دار دیگیں۔
روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت سلیمان علیہ السلام جن و انس وغیرہ اپنے تمام لشکروں کو لے کر طائف یا شام میں ''وادی نمل''سے گزرے جہاں چیونٹیاں بکثرت تھیں تو چیونٹیوں کی ملکہ جو مادہ اور لنگڑی تھی اس نے تمام چیونٹیوں سے کہا کہ اے چیونٹیو!تم سب اپنے گھروں میں چلی جاؤ ورنہ حضرت سلیمان اور ان کا لشکر تمہیں بے خبری میں کچل ڈالے گا۔ چیونٹی کی اس تقریر کو حضرت سلیمان علیہ السلام نے تین میل کی دوری سے سن لیا اور مسکرا کر ہنس دیئے۔ چنانچہ رب تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا:۔"
حَتّٰۤی اِذَاۤ اَتَوْا عَلٰی وَادِ النَّمْلِ ۙ قَالَتْ نَمْلَۃٌ یّٰۤاَیُّہَا النَّمْلُ ادْخُلُوۡا مَسٰکِنَکُمْ ۚ لَا یَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیۡمٰنُ وَ جُنُوۡدُہٗ ۙ وَ ہُمْ لَا یَشْعُرُوۡنَ ﴿18﴾فَتَبَسَّمَ ضَاحِکًا مِّنۡ قَوْلِہَا (پ19،النمل:18،19)
"ترجمہ کنزالایمان:۔یہاں تک کہ جب چیونٹیوں کے نالے پر آئے ایک چیونٹی بولی اے چیونٹیو!اپنے گھروں میں چلی جاؤتمہیں کچل نہ ڈالیں سلیمان اور ان کے لشکر بے خبری میں تو اس کی بات سے مسکرا کر ہنسا۔
درسِ ہدایت:۔اس قرآنی واقعہ سے چند اسباق ہدایات معلوم ہوئے۔
(۱) چیونٹی کی آواز کو تین میل کی دوری سے سن لینا یہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا معجزہ ہے اور اس سے معلوم ہوا کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی بصارت و سماعت کو عام انسانوں کی بصارت و سماعت پر قیاس نہیں کرسکتے بلکہ حق یہ ہے کہ انبیاء کرام کا سننا اور دیکھنا اور دوسری طاقتیں عام انسانوں کی طاقتوں سے بڑھ چڑھ کر ہوا کرتی ہیں۔
(۲)چیونٹی کی تقریر سے معلوم ہوا کہ چیونٹیوں کا بھی یہ عقیدہ ہے کہ کسی نبی کے صحابی جان بوجھ کر کسی پر ظلم نہیں کرسکتے کیونکہ چیونٹی نے"
''وَھُمْ لاَ یَشْعُرُوْنَ ''
"کہا یعنی حضرت سلیمان علیہ السلام اور ان کی فوج اگر چیونٹیوں کو کچل ڈالیں گے تو بے خبری کے عالم میں لاشعوری طور پر ایسا کریں گے۔ ورنہ جان بوجھ کر ایک نبی کے صحابی ہوتے ہوئے وہ کسی پر ظلم و زیادتی نہیں کریں گے۔ افسوس کہ چیونٹیاں تو یہ عقیدہ رکھتی ہیں کہ نبی کے صحابی جان بوجھ کر کسی پر ظلم نہیں کرسکتے۔ مگر رافضیوں کا گروہ ان چیونٹیوں سے بھی گیا گزرا ثابت ہوا کہ ان ظالموں نے حضور سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس صحابہ پر تہمت لگائی کہ ان بزرگوں نے جان بوجھ کر حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور اہل بیت پر ظلم کیا۔ (معاذاللہ)
(۳)یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کا ہنسنا، تبسم اور مسکراہٹ ہی ہوتا ہے۔ جیسا کہ احادیث میں وارد ہوا ہے کہ یہ حضرات کبھی قہقہہ مار کر نہیں ہنستے۔"
" (خزائن العرفان،ص۶۸۰ا،پ۱۹،النمل:۱۹)"
لطیفہ:۔منقول ہے کہ ایک مرتبہ حضرت قتادہ محدث رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جو نہایت ہی بلند
پایہ عالم اور جامع العلوم علامہ تھے۔ بالخصوص علم حدیث اور تفسیر میں تو اپنا مثل نہیں رکھتے تھے۔ کوفہ تشریف لائے تو ان کی زیارت کے لئے ایک عظیم الشان مجمع جمع ہوگیا۔ آپ نے تقریر فرماتے ہوئے حاضرین سے کئی بار یہ فرمایا کہ
''سَلُوْا عَمَّا شِئْتُمْ''
یعنی مجھ سے جو چاہو پوچھ لو۔ حاضرین پر آپ کی علمی جلالت کا ایسا سکہ بیٹھا ہوا تھا کہ سب لوگ دم بخود و ساکت و خاموش بیٹھے رہے مگر جب آپ نے بار بار للکارا تو حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ جو ابھی بہت کم عمر تھے خود تو کمال ادب سے کچھ نہ بولے مگر آپ نے لوگوں سے کہا کہ آپ لوگ حضرت قتادہ علیہ الرحمۃ سے یہ پوچھئے کہ وادیئ نمل میں جس چیونٹی کی تقریر سن کر حضرت سلیمان علیہ السلام مسکرا کر ہنس پڑے تھے۔ وہ چیونٹی نر تھی یا مادہ!چنانچہ جب لوگوں نے یہ سوال کیا تو حضرت قتادہ علیہ الرحمۃ ایسے سٹپٹائے کہ بالکل لاجواب ہو کر خاموش ہو گئے پھر لوگوں نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ ''وہ چیونٹی مادہ تھی'' حضرت قتادہ علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ اس کا ثبوت؟ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا کہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ قرآن مجید میں اس چیونٹی کیلئے
قَالَتْ نَمْلَۃٌ
مونث کا صیغہ ذکر کیا گیا ہے۔ اگر یہ چیونٹی نر ہوتی تو
''وَقَالَ نَمْلٌ''
مذکر کا صیغہ ذکر کیا گیا ہوتا۔ حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس دلیل کو تسلیم کرلیا اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی دانائی اور قرآن فہمی پر حیران رہ گئے اور اپنے بڑے بول پر نادم ہوئے۔
یوں تو سبھی پرندے حضرت سلیمان علیہ السلام کے مسخر اور تابع فرمان تھے لیکن آپ کا ہُدہُد آپ کی فرماں برداری اور خدمت گزاری میں بہت مشہور ہے۔ اسی ہُدہُد نے آپ کو ملک سبا کی ملکہ ''بلقیس'' کے بارے میں خبر دی تھی کہ وہ ایک بہت بڑے تخت پر بیٹھ کر سلطنت کرتی ہے اور بادشاہوں کے شایانِ شان جو بھی سروسامان ہوتا ہے وہ سب کچھ اس کے پاس ہے مگر وہ
"اور اس کی قوم ستاروں کے پجاری ہیں۔ اس خبر کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام نے بلقیس کے نام جو خط ارسال فرمایا، اس کو یہی ہُدہُد لے کر گیا تھا۔ چنانچہ قرآن کریم کاارشاد ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا۔
''تم میرا یہ خط لے کر جاؤ۔ اور ان کے پاس یہ خط ڈال کر پھر ان سے الگ ہو کر تم دیکھو کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں۔''"
(پ ۱۹، النمل، ۲۸)
"چنانچہ ہُدہُد خط لے کر گیا اور بلقیس کی گود میں اس خط کو اوپر سے گرادیا۔ اس وقت اس نے اپنے گرد امراء اور ارکانِ سلطنت کا مجمع اکٹھا کیا پھر خط کو پڑھ کر لرزہ براندام ہوگئی اور اپنے اراکین سے یہ کہا کہ
ترجمہ کنزالایمان:''اے سردارو!بے شک میری طرف ایک عزت والا خط ڈالا گیا بے شک وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور بے شک وہ اللہ کے نام سے ہے جو نہایت مہربان رحم والا یہ کہ مجھ پر بلندی نہ چاہو اورگردن رکھتے میرے حضور حاضر ہو۔"
(پ ۱۹، النمل، ۲۹ تا ۳۱)
خط سنا کر بلقیس نے اپنی سلطنت کے امیروں اور وزیروں سے مشورہ کیا تو ان لوگوں نے اپنی طاقت اور جنگی مہارت کا اعلان و اظہار کر کے حضرت سلیمان علیہ السلام سے جنگ کا ارادہ ظاہر کیا۔ اس وقت عقلمند بلقیس نے اپنے امیروں اور وزیروں کو سمجھایا کہ جنگ مناسب نہیں ہے کیونکہ اس سے شہر ویران اور شہر کے عزت دار باشندے ذلیل و خوار ہوجائیں گے۔ اس لئے میں یہ مناسب خیال کرتی ہوں کہ کچھ ہدایا و تحائف اُن کے پاس بھیج دوں اس سے امتحان ہوجائے گا کہ حضرت سلیمان صرف بادشاہ ہیں یا اللہ عزوجل کے نبی بھی ہیں۔ اگر وہ نبی ہوں گے تو ہرگز میرا ہدیہ قبول نہیں کریں گے بلکہ ہم لوگوں کو اپنے دین کے اتباع کا حکم دیں گے اور اگر وہ صرف بادشاہ ہوں گے تو میرا ہدیہ قبول کر کے نرم ہو جائیں گے۔ چنانچہ بلقیس نے پانچ سو غلام پانچ سو لونڈیاں بہترین لباس اور زیوروں سے آراستہ کر کے بھیجے اور ان لوگوں کے ساتھ
پانچ سو سونے کی اینٹیں، اور بہت سے جواہرات اور مشک و عنبر اور ایک جڑاؤ تاج مع ایک خط کے اپنے قاصد کے ساتھ بھیجا۔ ہُدہُد سب دیکھ کر روانہ ہو گیا اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں آکر سب خبریں پہنچادیں۔ چنانچہ بلقیس کا قاصد جب چند دنوں کے بعد تمام سامانوں کو لے کر دربار میں حاضر ہوا تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے غضب ناک ہو کر قاصد سے فرمایا۔
قَالَ اَتُمِدُّوۡنَنِ بِمَالٍ ۫ فَمَاۤ اٰتٰىنَِۧ اللہُ خَیۡرٌ مِّمَّاۤ اٰتٰىکُمۡ ۚ بَلْ اَنۡتُمۡ بِہَدِیَّتِکُمْ تَفْرَحُوۡنَ ﴿36﴾اِرْجِعْ اِلَیۡہِمْ فَلَنَاۡتِیَنَّہُمْ بِجُنُوۡدٍ لَّا قِبَلَ لَہُمۡ بِہَا وَ لَنُخْرِجَنَّہُمۡ مِّنْہَاۤ اَذِلَّۃً وَّ ہُمْ صَاغِرُوۡنَ ﴿37﴾ (پ19،النمل:36،37)
"ترجمہ کنزالایمان:۔ فرمایا کیا مال سے میری مدد کرتے ہو تو جو مجھے اللہ نے دیا وہ بہتر ہے اس سے جو تمہیں دیا بلکہ تمہیں اپنے تحفہ پر خوش ہوتے ہو پلٹ جا ان کی طرف تو ضرور ہم ان پر وہ لشکر لائیں گے جن کی انہیں طاقت نہ ہو گی اور ضرور ہم ان کو اس شہر سے ذلیل کر کے نکال دیں گے یوں کہ وہ پست ہوں گے۔
چنانچہ اس کے بعد جب قاصد نے واپس آکر بلقیس کو سارا ماجرا سنایا تو بلقیس حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں حاضر ہو گئی اور حضرت سلیمان علیہ السلام کا دربار اور یہاں کے عجائبات دیکھ کر اس کو یقین آگیا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام خداعزوجل کے نبی برحق ہیں اور ان کی سلطنت اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے بلقیس کواپنے دین کی دعوت دی تو اُس نے نہایت ہی اخلاص کے ساتھ اسلام قبول کرلیا پھر حضرت سلیمان علیہ السلام نے بلقیس سے نکاح کر کے اس کو اپنے محل میں رکھ لیا۔
اس سلسلے میں ہُدہُد نے جو کارنامے انجام دیئے وہ بلاشبہ عجائبات عالم میں سے ہیں۔ جو یقینا حضرت سلیمان علیہ السلام کے معجزات میں سے ہیں۔"
ملکہ سبا ''بلقیس''کا تختِ شاہی اَسّی گز لمبا اور چالیس گز چوڑا تھا ،یہ سونے چاندی اور طرح طرح کے جواہرات اور موتیوں سے آراستہ تھا، جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے بلقیس کے قاصد اور اُس کے ہدایا و تحائف کو ٹھکرا دیا اور اُس کو یہ حکم نامہ بھیجا کہ وہ مسلمان ہو کر میرے دربار میں حاضر ہوجائے تو آپ کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ بلقیس کے یہاں آنے سے پہلے ہی اُس کا تخت میرے دربار میں آجائے چنانچہ آپ نے اپنے دربار میں درباریوں سے یہ فرمایا:۔
قَالَ یٰۤاَیُّہَا الۡمَلَؤُا اَیُّکُمْ یَاۡتِیۡنِیۡ بِعَرْشِہَا قَبْلَ اَنۡ یَّاۡتُوۡنِیۡ مُسْلِمِیۡنَ ﴿38﴾قَالَ عِفْرِیۡتٌ مِّنَ الْجِنِّ اَنَا اٰتِیۡکَ بِہٖ قَبْلَ اَنۡ تَقُوۡمَ مِنۡ مَّقَامِکَ ۚ وَ اِنِّیۡ عَلَیۡہِ لَقَوِیٌّ اَمِیۡنٌ ﴿39﴾ (پ 19،النمل: 38،39)
"ترجمہ کنزالایمان:سلیمان نے فرمایا اے درباریو! تم میں کون ہے کہ وہ اس کا تخت میرے پاس لے آئے قبل اس کے کہ وہ میرے حضور مطیع ہو کر حاضر ہوں ایک بڑا خبیث جن بولا میں وہ تخت حضور میں حاضر کردوں گا قبل اس کے کہ حضور اجلاس برخاست کریں اور میں بیشک اس پر قوت والا امانت دار ہوں۔
جنّ کا بیان سن کر حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ اس سے بھی جلد وہ تخت میرے دربار میں آجائے۔ یہ سن کر آپ کے وزیر حضرت ''آصف بن برخیا رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو اسم اعظم جانتے تھے اور ایک باکرامت ولی تھے۔ انہوں نے حضرت سلیمان علیہ السلام سے عرض کیا جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:۔"
"قَالَ الَّذِیۡ عِنۡدَہٗ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتٰبِ اَنَا اٰتِیۡکَ بِہٖ قَبْلَ اَنۡ یَّرْتَدَّ اِلَیۡکَ طَرْفُکَ ؕ
(پ19،النمل:40)"
"ترجمہ کنزالایمان:۔اس نے عرض کی جس کے پاس کتاب کا علم تھا کہ میں اسے حضور میں حاضر کردوں گا ایک پل مارنے سے پہلے۔
چنانچہ حضرت آصف بن برخیا نے روحانی قوت سے بلقیس کے تخت کو ملک سبا سے بیت المقدس تک حضرت سلیمان علیہ السلام کے محل میں کھینچ لیا اور وہ تخت زمین کے نیچے نیچے چل کر لمحہ بھر میں ایک دم حضرت سلیمان علیہ السلام کی کرسی کے قریب نمودار ہو گیا۔ تخت کو دیکھ کر حضرت سلیمان علیہ السلام نے یہ کہا:۔"
ہٰذَا مِنۡ فَضْلِ رَبِّیۡ ۟ۖ لِیَبْلُوَنِیۡۤ ءَاَشْکُرُ اَمْ اَکْفُرُ ؕ وَمَنۡ شَکَرَ فَاِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہٖ ۚ وَمَنۡ کَفَرَ فَاِنَّ رَبِّیۡ غَنِیٌّ کَرِیۡمٌ ﴿40﴾ (پ19،النمل:40)
"ترجمہ کنزالایمان:۔یہ میرے رب کے فضل سے ہے تاکہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری اور جو شکر کرے وہ اپنے بھلے کو شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرے تو میرا رب بے پرواہ ہے سب خوبیوں والا۔
درسِ ہدایت:۔اس قرآنی واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کو بڑی بڑی روحانی طاقت و قوت عطا فرماتا ہے۔ دیکھ لیجئے حضرت آصف بن برخیا رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پلک جھپکنے بھر کی مدت میں تخت بلقیس کو ملک سبا سے دربار سلیمان میں حاضر کردیا۔ اور خود اپنی جگہ سے ہلے بھی نہیں ۔اسی طرح بہت سے اولیاء کرام نے سینکڑوں میل کی دوری سے آدمیوں اور جانوروں کو لمحہ بھر میں بلا لیا ہے۔ یہ سب اولیاء کی اُس روحانی طاقت کا کرشمہ ہے جو خداوند قدوس اپنے ولیوں کو عطا فرماتا ہے اس لئے کبھی ہرگز اولیاء کرام کو اپنے جیسا نہ خیال کرنا اور نہ اُن کے اعضاء کی طاقتوں کو عام انسانوں کی طاقتوں پر قیاس کرنا۔ کہاں عوام اور کہاں اولیائ۔ اولیاء کرام کو اپنے جیسا سمجھ لینا یہ گمراہی کا سرچشمہ ہے۔ حضرت مولانا رومی علیہ الرحمۃ نے مثنوی شریف میں اسی مضمون پر روشنی ڈالتے ہوئے بڑی وضاحت کے ساتھ تحریر فرمایا ہے۔"
"جملہ عالم زیں سبب گمراہ شد کم کسے ز ابدال حق آگاہ شد
تمام دنیا اس وجہ سے گمراہ ہو گئی کہ خدا کے اولیاء سے بہت کم لوگ آگاہ ہوئے
اولیاء را ہمچوخود پنداشتند ہمسری با انبیاء برداشتند
لوگوں نے اولیاء کو اپنے جیسا سمجھ لیا اور انبیاء کے ساتھ برابری کربیٹھے
ایں ندانستند ایشاں از عمیٰ ہست فرقے درمیاں بے انتہا
ان لوگوں نے اپنے اندھے پن سے یہ نہیں جانا کہ عوام اور اولیاء کے درمیان بے انتہافرق ہے"
بہرحال خلاصہ کلام یہ ہے کہ اولیاء کرام کو عام انسانوں کی طرح نہیں سمجھنا چاہے بلکہ یہ عقیدہ رکھ کر اولیاء کرام کی تعظیم و تکریم کرنی چاہے کہ ان لوگوں پر خداوند کریم کا خاص فضل عظیم ہے اور یہ لوگ بے پناہ روحانی طاقتوں کے بادشاہ بلکہ شہنشاہ ہیں۔ یہ لوگ اللہ عزوجل کے حکم سے بڑی بڑی بلائیں اور مصیبتیں ٹال سکتے ہیں اور ان کی قبروں کا بھی ادب رکھنا لازم ہے کہ اولیاء کی قبروں پر فیوض و برکات خداوندی کی بارش ہوتی رہتی ہے اور جو عقیدت و محبت سے ان کی قبروں کی زیارت کرتا ہے وہ ضروران بزرگوں کے فیوض و برکات سے فیض یاب ہواکرتا ہے۔ اس زمانے میں فرقہ وہابیہ اولیاء کرام کی بے ادبی کرتا رہتا ہے۔ میں اپنے سنی بھائیوں کو یہ نصیحت و وصیت کرتا ہوں کہ ان گمراہوں سے ہمیشہ دور رہیں۔ اور ان لوگوں کے ظاہری سادہ لباسوں اور وضو و نمازوں سے فریب نہ کھائیں کہ ان لوگوں کے دل بہت گندے ہیں اور یہ لوگ نور ِ ایمان کی تجلیوں سے محروم ہوچکے ہیں۔
(معاذاللہ منہم)
ملک شام میں جس جگہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا خیمہ گاڑا گیا تھا۔ ٹھیک اُسی جگہ حضرت داؤد علیہ السلام نے بیت المقدس کی بنیاد رکھی۔ مگر عمارت پوری ہونے سے قبل ہی حضرت داؤد علیہ السلام کی وفات کا وقت آن پہنچا۔ اور آپ نے اپنے فرزند حضرت سلیمان علیہ السلام کو اس
عمارت کی تکمیل کی وصیت فرمائی۔ چنانچہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنّوں کی ایک جماعت کو اس کام پر لگایا اور عمارت کی تعمیر ہوتی رہی۔ یہاں تک کہ آپ کی وفات کا وقت بھی قریب آگیا اور عمارت مکمل نہ ہوسکی تو آپ نے یہ دعا مانگی کہ الٰہی میری موت جنوں کی جماعت پر ظاہر نہ ہونے پائے تاکہ وہ برابر عمارت کی تکمیل میں مصروف عمل رہیں اور ان سبھوں کو جو علم غیب کا دعویٰ ہے وہ بھی باطل ٹھہر جائے۔ یہ دعا مانگ کر آپ محراب میں داخل ہو گئے اور اپنی عادت کے مطابق اپنی لاٹھی ٹیک کر عبادت میں کھڑے ہوگئے۔ اور اسی حالت میں آپ کی وفات ہو گئی مگر جنّ مزدور یہ سمجھ کرکہ آپ زندہ کھڑے ہوئے ہیں برابر کام میں مصروف رہے اور عرصہ دراز تک آپ کا اسی حالت میں رہنا جنوں کے گروہ کے لئے کچھ باعث ِ حیرت اس لئے نہیں ہوا کہ وہ بارہا دیکھ چکے تھے کہ آپ ایک ایک ماہ بلکہ کبھی کبھی دو دو ماہ برابر عبادت میں کھڑے رہا کرتے ہیں۔ غرض ایک سال تک وفات کے بعد آپ اپنی لاٹھی کے سہارے کھڑے رہے یہاں تک کہ بحکم ِ الٰہی دیمکوں نے آپ کے عصا کو کھا لیا اور عصا کے گرجانے سے آپ کا جسم ِ مبارک زمین پر آگیا۔ اس وقت جنوں کی جماعت اور تمام انسانوں کو پتا چلا کہ آپ کی وفات ہو گئی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کو ان لفظوں میں بیان فرمایا ہے کہ:۔
"فَلَمَّا قَضَیۡنَا عَلَیۡہِ الْمَوْتَ مَا دَلَّہُمْ عَلٰی مَوْتِہٖۤ اِلَّا دَآبَّۃُ الْاَرْضِ تَاۡکُلُ مِنۡسَاَتَہٗ ۚ فَلَمَّا خَرَّ تَبَیَّنَتِ الْجِنُّ اَنۡ لَّوْ کَانُوۡا یَعْلَمُوۡنَ الْغَیۡبَ مَا لَبِثُوۡا فِی الْعَذَابِ الْمُہِیۡنِ ﴿14﴾
(پ22،سبا:14)"
ترجمہ کنزالایمان:۔ پھر جب ہم نے اس پر موت کا حکم بھیجا جنوں کو اس کی موت نہ بتائی مگر زمین کی دیمک نے کہ اس کا عصا کھاتی تھی پھر جب سلیمان زمین پر آیا جنوں کی حقیقت کھل گئی اگر غیب جانتے ہوتے تو اس خواری کے عذاب میں نہ ہوتے۔
درسِ ہدایت:۔(۱)اس قرآنی واقعہ سے یہ ہدایت ملتی ہے کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے مقدس بدن وفات کے بعد سڑتے گلتے نہیں ہیں۔ کیونکہ آپ نے ابھی ابھی پڑھ لیا کہ ایک سال تک حضرت سلیمان علیہ السلام وفات کے بعد عصا کے سہارے کھڑے رہے۔ اور اُن کے جسم مبارک میں کسی قسم کا کوئی تغیر رونما نہیں ہوا۔ یہی حال تمام انبیاء علیہم السلام کا اُن کی قبروں میں ہے کہ ان کے بدن کو مٹی کھا نہیں سکتی۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے جس کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے کہ:۔
اِنَّ اللہَ حَرَّمَ عَلَی الْاَرْضِ اَنْ تَاْکُلَ اَجْسَادَ الْاَنْبِیَاء فَنَبِیُّ اللہِ حَیٌّ یُرْزَقُ
(سنن ابن ماجہ ، کتاب الجنائز ، باب ذکر وفاتہ .....الخ، ج۳،ص۲۹۱،رقم ۱۶۳۷)
"بے شک اللہ نے زمین پر حرام فرما دیا ہے کہ وہ انبیاء کے جسموں کو کھائے لہٰذا اللہ کے نبی زندہ ہیں اور ان کو روزی دی جاتی ہے۔
اور حاشیہ مشکوٰۃ میں تحریر ہے کہ ہر نبی کی یہی شان ہے کہ وہ قبروں میں زندہ ہیں اور اللہ تعالیٰ اُن کو روزی عطا فرماتا ہے اور یہ حدیث صحیح ہے۔ اور امام بیہقی نے فرمایا ہے کہ انبیاء علیہم السلام مختلف اوقات میں متعدد مقامات پر تشریف لے جائیں یہ جائز و درست ہے۔"
(مرقاۃ المفاتیح، کتاب الصلوٰۃ، باب الجمعۃ، الفصل الثالث،ج۳، ص ۴۶۰ ، رقم ۱۳۶۶)
اسی لئے اہل سنت و جماعت کا یہی عقیدہ ہے کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اپنی اپنی مقدس قبروں میں حیاتِ جسمانی کے لوازم کے ساتھ زندہ ہیں۔ وہابیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ مرکر مٹی میں مل گئے۔ اسی لئے یہ گستاخ فرقہ انبیاء کرام کی قبروں کو مٹی کا ڈھیر کہہ کر ان مقدس قبروں کی توہین اور اُن کو منہدم کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ حد ہو گئی کہ عالم ِ اسلام کی انتہائی بے چینی کے باوجود گنبد ِ خضریٰ کو مسمار کردینے کی اسکیمیں برابر حکومت سعودیہ میں بنتی رہتی ہیں مگر خداوند کریم کا یہ فضل عظیم ہے کہ اب تک وہ اس پلان کو بروئے کار نہیں لاسکے ہیں
اور ان شاء اللہ تعالیٰ آئندہ بھی اُن کا یہ شیطانی پلان پورا نہ ہو سکے گا!کیونکہ
" جس کا حامی ہو خدا اُس کو گھٹا سکتا ہے کون
جس کا حافظ ہو خدا اُس کو مٹا سکتا ہے کون"
(۲)حضرت سلیمان علیہ السلام کی عمر شریف ۵۳ سال کی ہوئی۔ ۱۳ برس کی عمر میں آپ کو بادشاہی ملی اور چالیس برس تک آپ تختِ سلطنت پر جلوہ گر رہے آپ کا مزار اقدس بیت المقدس میں ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم۔
"قارون حضرت موسیٰ علیہ السلام کے چچا ''یصہر'' کا بیٹا تھا۔ بہت ہی شکیل اور خوبصورت آدمی تھا۔ اسی لئے لوگ اُس کے حسن و جمال سے متاثر ہو کر اُس کو ''منور''کہا کرتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ اُس میں یہ کمال بھی تھا کہ وہ بنی اسرائیل میں ''توراۃ'' کا بہت بڑا عالم، اور بہت ہی ملنسار و بااخلاق انسان تھا۔ اور لوگ اُس کا بہت ہی ادب و احترام کرتے تھے۔
لیکن بے شمار دولت اُس کے ہاتھ میں آتے ہی اُس کے حالات میں ایک دم تغیر پیدا ہو گیا اور سامری کی طرح منافق ہو کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا بہت بڑا دشمن ہو گیا اور اعلیٰ درجے کا متکبر اور مغرور ہو گیا۔ جب زکوٰۃ کا حکم نازل ہوا تو اُس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے روبرو یہ عہد کیا کہ وہ اپنے تمام مالوں میں سے ہزارہواں حصہ زکوٰۃ نکالے گا مگر جب اُس نے مالوں کا حساب لگایا تو ایک بہت بڑی رقم زکوٰۃکی نکلی۔ یہ دیکھ کر اس پر ایک دم حرص و بخل کا بھوت سوار ہو گیا اور نہ صرف زکوٰۃ کا منکر ہو گیا بلکہ عام طور پر بنی اسرائیل کو بہکانے لگا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اس بہانے تمہارے مالوں کو لے لینا چاہتے ہیں۔ یہاں تک کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے لوگوں کو برگشتہ کرنے کے لئے اُس خبیث نے یہ گندی اور گھناؤنی چال چلی کہ ایک عورت کو بہت زیادہ مال و دولت دے کر آمادہ کرلیا کہ وہ آپ پر بدکاری کا"
"الزام لگائے۔ چنانچہ عین اُس وقت جب کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام وعظ فرما رہے تھے۔ قارون نے آپ کو ٹوکا کہ فلانی عورت سے آپ نے بدکاری کی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ اُس عورت کو میرے سامنے لاؤ۔ چنانچہ وہ عورت بلائی گئی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ اے عورت! اُس اللہ کی قسم! جس نے بنی اسرائیل کے لئے دریا کو پھاڑ دیا۔ اور عافیت و سلامتی کے ساتھ دریا کے پار کرا کر فرعون سے نجات دی۔ سچ سچ کہہ دے کہ واقعہ کیا ہے؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جلال سے عورت سہم کر کانپنے لگی اور اس نے مجمع ِ عام میں صاف صاف کہہ دیا کہ اے اللہ عزوجل کے نبی! مجھ کو قارون نے کثیر دولت دے کر آپ پر بہتان لگانے کے لئے آمادہ کیا ہے۔ اُس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام آبدیدہ ہو کر سجدہ شکر میں گرپڑے اور بحالتِ سجدہ آپ نے یہ دعا مانگی کہ یا اللہ! قارون پر اپنا قہر و غضب نازل فرما دے۔ پھر آپ نے مجمع سے فرمایا کہ جو قارون کا ساتھی ہو وہ قارون کے ساتھ ٹھہرا رہے اور جو میرا ساتھی ہو وہ قارون سے جدا ہو جائے۔ چنانچہ دو خبیثوں کے سوا تمام بنی اسرائیل قارون سے الگ ہوگئے۔
پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے زمین کو حکم دیا کہ اے زمین!تو اس کو پکڑ لے تو قارون ایک دم گھٹنوں تک زمین میں دھنس گیا پھر آپ نے دوبارہ زمین سے یہی فرمایا تو وہ کمر تک زمین میں دھنس گیا۔ یہ دیکھ کر قارون رونے اور بلبلانے لگا اور قرابت و رشتہ داری کا واسطہ دینے لگا مگر آپ نے کوئی التفات نہ فرمایا۔ یہاں تک کہ وہ بالکل زمین میں دھنس گیا۔ دو منحوس آدمی جو قارون کے ساتھی ہوئے تھے، لوگوں سے کہنے لگے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے قارون کو اس لئے دھنسا دیا ہے تاکہ قارون کے مکان اور اُس کے خزانوں پر خود قبضہ کرلیں۔ تو آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی کہ قارون کا مکان اور خزانہ بھی زمین میں دھنس"
جائے۔چنانچہ قارون کا مکان جو سونے کا تھا اور اس کا سارا خزانہ، سبھی زمین میں دھنس گیا۔
( صاوی، ج۴، ص۱۵۴۶۔۱۵۴۷،پ۲۰، القصص:۸۱)
قارون کا خزانہ:۔اس کو قرآن کی زبان سے سنئے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم نے قارون کو اتنے خزانے دیئے تھے کہ اُن خزانوں کی کنجیاں ایک مضبوط اور طاقت ور جماعت بمشکل اٹھا سکتی تھی۔ قرآن مجید میں ہے:۔
اِنَّ قَارُوۡنَ کَانَ مِنۡ قَوْمِ مُوۡسٰی فَبَغٰی عَلَیۡہِمْ ۪ وَ اٰتَیۡنٰہُ مِنَ الْکُنُوۡزِ مَاۤ اِنَّ مَفَاتِحَہٗ لَتَنُوۡٓاُ بِالْعُصْبَۃِ اُولِی الْقُوَّۃِ ٭
"ترجمہ کنزالایمان:۔بیشک قارون موسیٰ کی قوم سے تھا پھر اس نے ان پر زیادتی کی اور ہم نے اس کو اتنے خزانے دیئے جن کی کنجیاں ایک زور آور جماعت پر بھاری تھیں۔(پ20،القصص:76)
حضرت موسٰی علیہ السلام کی نصیحت:۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے قارون کو جو نصیحت فرمائی وہ یہ ہے کہ جس کو قرآن مجید نے بیان فرمایا ہے۔ اسی خیر خواہی والی نصیحت کو سن کر قارون حضرت موسیٰ علیہ السلام کا دشمن ہو گیا۔ غور کیجئے کہ کتنی مخلصانہ اور کس قدر پیاری نصیحت ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ساتھ ساری قوم قارون کو سناتی رہی کہ:"
اِذْ قَالَ لَہٗ قَوْمُہٗ لَا تَفْرَحْ اِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ الْفَرِحِیۡنَ ﴿76﴾وَ ابْتَغِ فِیۡمَاۤ اٰتٰىکَ اللہُ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ وَ لَا تَنۡسَ نَصِیۡبَکَ مِنَ الدُّنْیَا وَ اَحْسِنۡ کَمَاۤ اَحْسَنَ اللہُ اِلَیۡکَ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْاَرْضِ ؕ
"ترجمہ کنزالایمان:۔جب اس سے اس کی قوم نے کہا اترا نہیں بیشک اللہ اترانے والوں کو دوست نہیں رکھتا اور جو مال تجھے اللہ نے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر طلب کر اور دنیا میں اپنا حصہ نہ بھول اور احسان کر جیساا للہ نے تجھ پر احسان کیا اور زمین میں فساد نہ چاہ۔(پ20،القصص:76،77)
قارون نے اپنے مال کے گھمنڈ میں اس مخلصانہ نصیحت کو ٹھکرا دیا اور خوب بن سنور کر تکبر اور"
"غرور سے اتراتا ہوا قوم کے سامنے آیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بدگوئی اور ایذاء رسانی کرنے لگا۔ اس کا نتیجہ کیا ہوا؟ اس کو قرآن کی زبان سے سنئے اور خدا کی اس قاہرانہ گرفت پر خوف ِ الٰہی سے تھرّاتے رہیے۔ اللہ اکبر۔
قارون زمین میں دھنس گیا:۔"
فَخَسَفْنَا بِہٖ وَ بِدَارِہِ الْاَرْضَ ۟ فَمَا کَانَ لَہٗ مِنۡ فِئَۃٍ یَّنۡصُرُوۡنَہٗ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ ٭ وَ مَا کَانَ مِنَ المُنۡتَصِرِیۡنَ ﴿81﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔تو ہم نے اسے اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا تو اس کے پاس کوئی جماعت نہ تھی کہ اللہ سے بچانے میں اس کی مدد کرتی اور نہ وہ بدلہ لے سکا۔ ( پ20،القصص:81)
درسِ ہدایت:۔یہ عبرتناک واقعہ ہمیں یہ درسِ ہدایت دیتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ مال و دولت عطا فرمائے تو اس فرض کو لازم جانے کہ اپنے اموال کی زکوٰۃ ادا کرتا رہے اور ہرگز ہرگز اپنے مال و دولت پر غرور اور گھمنڈ کر کے نہ اترائے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی دولت دیتا ہے اور جب وہ چاہتا ہے پل بھر میں دولت چھین بھی لیتا ہے۔ ہر وقت اس کا دھیان رکھتے ہوئے تواضع اور انکساری کی عادت رکھے اور ہرگز ہرگز کبھی انبیاء و اولیاء و صالحین کی ایذاء رسانی و بدگوئی نہ کرے کہ ان مقبولانِ بارگاہِ الٰہی کی دعا اور بددعا سے وہ ہوجایا کرتا ہے جس کا لوگ تصور اور خیال بھی نہیں کرسکتے۔"
واللہ تعالیٰ اعلم۔
فارس اور روم کی دونوں سلطنتوں میں جنگ چھڑی ہوئی تھی اور چونکہ اہل فارس مجوسی تھے۔ اس لئے عرب کے مشرکین اُن کا غلبہ پسند کرتے تھے اور رومی چونکہ اہل کتاب تھے اس لئے مسلمانوں کو ان کا فتح یاب ہونا اچھا لگتا تھا۔ خسرو پرویز بادشاہ ِ فارس اور قیصر روم دونوں بادشاہوں کی فوجیں سرزمینِ شام کے قریب معرکہ آرا ہوئیں اور گھمسان کی جنگ کے بعد اہل فارس غالب ہوئے ۔مسلمانوں کو یہ خبر بڑی گراں گزری اور کفارِ مکہ اس خبر سے مسرور ہو کر
مسلمانوں سے کہنے لگے کہ تم بھی اہل کتاب اور رومی نصاریٰ بھی اہل کتاب ،اور اہلِ فارس بھی آتش پرست اور ہم بھی بت پرست، ہمارے بھائی تمہارے بھائیوں پر غالب ہو گئے۔ اگر ہماری تمہاری جنگ ہوئی تو اسی طرح ہم بھی تم پر غالب ہوں گے۔ اس موقع پر قرآنِ مجید کی یہ آیتیں نازل ہوئیں جن میں غیب کی خبر دی گئی ہے:۔
الٓـمّٓ ﴿1﴾ۚغُلِبَتِ الرُّوۡمُ ۙ﴿2﴾فِیۡۤ اَدْنَی الْاَرْضِ وَ ہُمۡ مِّنۡۢ بَعْدِ غَلَبِہِمْ سَیَغْلِبُوۡنَ ۙ﴿3﴾فِی بِضْعِ سِنِیۡنَ ۬ؕ
"ترجمہ کنزالایمان:۔رومی مغلوب ہوئے پاس کی زمین میں اور اپنی مغلوبی کے بعد عنقریب غالب ہوں گے چند برس میں۔(پ21،الروم:1۔4)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان آیات کو سن کر کفارِ مکہ میں یہ اعلان کرا دیا کہ خدا کی قسم رومی اہل فارس پر غلبہ پاجائیں گے۔ لہٰذا اے اہل مکہ! تم اس وقت کے نتیجہ جنگ سے خوشی نہ مناؤ۔ چونکہ بظاہر رومیوں کے فتح یاب ہونے کے اسباب دور دور تک نظر نہ آتے تھے اس لئے ''ابی بن خلف'' آپ کے بالمقابل کھڑا ہو گیا اور آپ کے اور اُس کے درمیان سو سو اونٹ کی شرط لگ گئی کہ اگر نو سال کے اندر رومی غالب نہ آئے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک سو اونٹ دیں گے اور اگر رومی غالب آجائیں تو ابی بن خلف ایک سو اونٹ دے گا۔ اُس وقت تک جوا اسلام میں حرام نہیں ہوا تھا۔ خدا کی شان کہ سات ہی برس میں قرآن کی اس غیبی خبر کی صداقت کا ظہور ہو گیا اور خالص صلح حدیبیہ کے دن ۶ ھ میں رومی اہل فارس پر غالب ہو گئے اور رومیوں نے ''مدائن''میں گھوڑے باندھے اور عراق میں ''رومیہ'' نامی شہر بسایا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شرط کے سو اونٹ ابی بن خلف کی اولاد سے وصول کرلئے کیونکہ وہ اس درمیان میں مرچکا تھا۔ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ شرط کے اونٹوں کو جو انہوں نے ابی"
بن خلف کی اولاد سے وصول کئے ہیں سب صدقہ کردیں! اور اپنی ذات پر کچھ بھی صرف نہ کریں۔
(مدارک التنزیل،ج۳،ص۴۵۸،پ۲۱، الروم: ۳)
"درسِ ہدایت:۔فارس و روم کی جنگ میں رومی اس درجہ شکست کھا چکے تھے کہ ان کی عسکری طاقت ہی فنا ہو گئی تھی اور بظاہر اُن کے فتح یاب ہونے کا کوئی امکان ہی نہیں تھا۔ مگر سات ہی برس میں رومیوں کو ایسی فتح حاصل ہو گئی کہ کوئی اس کو سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ غیبی خبر آپ کی صحتِ نبوت اور قرآن کریم کے کلام الٰہی ہونے کی روشن دلیل ہے۔ سبحان اللہ! سچ ہے۔
ہزار فلسفیوں کی چناں چنیں بدلی! خدا کی بات بدلنی نہ تھی نہیں بدلی"
''غزوہ احزاب '' ۴ یا ۵ ھ میں پیش آیا۔ اس جنگ کا دوسرا نام ''غزوہ خندق''بھی ہے۔ جب ''بنونضیر''کے یہودیوں کو جلاوطن کردیا گیا تو یہودیوں کے سرداروں نے مکہ جا کر کفار مکہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ کرنے کی ترغیب دلائی اور وعدہ کیا کہ ہم تمہارا ساتھ دیں گے۔ چنانچہ ان یہودیوں نے کثیر تعداد میں ہتھیار اور رقم دے کر کفار مکہ کو مدینہ پر حملہ کرنے پر ابھار دیا۔ اور ابو سفیان نے مشرکین و یہودیوں کے بہت سے قبائل کو جمع کر کے ایک عظیم فوج کے ساتھ مدینہ پر دھاوا بول کر حملہ کردیا۔ مکہ سے قبیلہ ''خزاعہ'' کے چند لوگوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار کی ان تیاریوں کی اطلاع دے دی تو آپ نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے مشورہ سے مدینہ کے گرد ایک خندق کھدوانی شروع کردی۔ اس خندق کو کھودنے میں مسلمانوں کے ساتھ خود رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کام کیا۔ مسلمان خندق کھود کر فارغ ہی ہوئے تھے کہ مشرکین ایک لشکر ِ جرار لے کر ٹوٹ پڑے اور مدینہ طیبہ پر ہلہ بول دیا۔ اور تین طرف سے کافروں کا لشکر اس زور و شور کے ساتھ امنڈ پڑا کہ شہر
مدینہ کی فضاؤں میں ہر طرف گرد و غبار کا طوفان اٹھ گیا۔ اس خوفناک چڑھائی اور لشکر ِ کفار کی معرکہ آرائی کا نقشہ قرآن کی زبان سے سنیئے۔
اِذْ جَآءُوۡکُمۡ مِّنۡ فَوْقِکُمْ وَ مِنْ اَسْفَلَ مِنۡکُمْ وَ اِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَ بَلَغَتِ الْقُلُوۡبُ الْحَنَاجِرَ وَ تَظُنُّوۡنَ بِاللہِ الظُّنُوۡنَا ﴿10﴾ہُنَالِکَ ابْتُلِیَ الْمُؤْمِنُوۡنَ وَ زُلْزِلُوۡا زِلْزَالًا شَدِیۡدًا ﴿11﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔جب کافر تم پر آئے تمہارے اوپر سے اور تمہارے نیچے سے اور جب کہ ٹھٹک کر رہ گئیں نگاہیں اور دل گلوں کے پاس آگئے اور تم اللہ پر طرح طرح کے گمان کرنے لگے (امید و یاس کے)وہ جگہ تھی کہ مسلمانوں کی جانچ ہوئی اور خوب سختی سے جھنجھوڑے گئے۔ (پ 21،الاحزاب:10۔11)
اس لڑائی میں منافقین جو مسلمانوں کے دوش بدوش کھڑے تھے وہ کفار کے ان لشکروں کو دیکھتے ہی بزدل ہو کر پھسل گئے اور ان کے نفاق کا پردہ چاک ہو گیا۔ اور وہ جنگ سے جان چرا کر اپنے گھروں میں چھپ کر بیٹھے رہنے کی اجازت طلب کرنے لگے ۔لیکن اسلام کے سچے جاں نثار مہاجرین و انصار اس طرح سینہ سپر ہو کر ڈٹ گئے کہ کوہ سلع اور کوہ احد کی پہاڑیاں سر اٹھا اٹھا کر ان مجاہدین کی اولوالعزمیوں اور جاں نثاریوں کو حیرت کی نگاہ سے دیکھنے لگیں ۔ان فدا کاروں کی ایمانی جراء ت و اسلامی شجاعت کی تصویر صفحات قرآن پر بصورت تحریر دیکھئے خداوند عالم کا ارشاد ہے:۔"
وَلَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُوۡنَ الْاَحْزَابَ ۙ قَالُوۡا ہٰذَا مَا وَعَدَنَا اللہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَ صَدَقَ اللہُ وَ رَسُوۡلُہٗ ۫ وَمَا زَادَہُمْ اِلَّاۤ اِیۡمَانًا وَّ تَسْلِیۡمًا ﴿ؕ22﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔اور جب مسلمانوں نے کافروں کے لشکر دیکھے بولے یہ ہے وہ جو ہمیں وعدہ دیا تھا اللہ اور اس کے رسول نے اور سچ فرمایا اللہ اور اس کے رسول نے اور اس سے انہیں نہ بڑھا مگر ایمان اور اللہ کی رضا پر راضی ہونا۔(پ21،الاحزاب:22)
کفار نے جب مدینہ کے گرد خندق کو حائل دیکھا تو حیران رہ گئے اور کہنے لگے کہ یہ تو ایسی تدبیر ہے کہ جس سے عرب کے لوگ اب تک ناواقف تھے۔ بہرحال کافروں نے خندق کے کنارے سے مسلمانوں پر تیر اندازی اور سنگباری شروع کردی۔ کہیں کہیں سے کافروں نے خندق کو پار بھی کرلیا اور جم کر لڑائی بھی ہوئی۔ مسلمان کافروں کے اس محاصرہ سے گو پریشان تھے۔ مگر ان کے عزم وا ستقلال میں بال برابر بھی فرق نہیں آیا۔ وہ اپنے اپنے مورچوں پر جم کر دفاعی جنگ لڑتے رہے۔ اچانک ایک دم اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی اس طرح مدد فرمائی کہ ناگہاں مشرق کی جانب سے ایک ایسی طوفان خیز اور ہلاکت انگیز شدید آندھی آئی جو قہرِقہار و غضبِ جبار بن کر لشکر کفار پر خدا کی مار بن گئی۔ دیگیں چولہوں سے الٹ پلٹ ہو کر ادھر اُدھر لڑھک گئیں۔ خیمے اکھڑ اکھڑ کر اُڑ گئے اور ہر طرف گھٹاٹوپ اندھیرا چھا گیا۔ اور شدید سردی کی لہروں نے کافروں کو جھنجھوڑ ڈالا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی فوج بھیج دی جن کے رعب و دبدبہ سے کفار کے دل لرز گئے۔ اور اُن پر ایسی دہشت و وحشت سوار ہو گئی کہ انہیں راہِ فرار اختیار کرنے کے سوا کوئی چارہ ہی نہ رہا۔ چنانچہ لشکر ِ کفار کے سپہ سالار ابو سفیان نے ہانپتے کانپتے ہوئے اپنے لشکر میں اعلان کردیا کہ راشن ختم ہوچکا اور موسم نہایت خراب ہے اور یہودیوں نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا۔ لہٰذا اب مدینہ کا محاصرہ بیکار ہے۔ یہ کہہ کر کوچ کا نقارہ بجا دیا اور بہت سا سامان چھوڑ کر میدان جنگ سے بھاگ نکلا اور دوسرے قبائل بھی تتر بتر ہو کر ادھر ادھر بھاگ گئے اور پندرہ یا چوبیس روز کے بعد مدینہ کا مطلع کفار کے گرد و غبار سے صاف ہو گیا
(مدارج النبوت (فارسی) ج۲، ص ۱۷۲۔۱۷۳ ، بحث غزوہ خندق )
غزوہ احزاب کی یہی وہ آندھی ہے جس کا ذکر خداوند ِ قدوس نے قرآن میں اس طرح فرمایا ہے۔
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوۡا نِعْمَۃَ اللہِ عَلَیۡکُمْ اِذْ جَآءَتْکُمْ جُنُوۡدٌ فَاَرْسَلْنَا عَلَیۡہِمْ رِیۡحًا وَّ جُنُوۡدًا لَّمْ تَرَوْہَا ؕ
"ترجمہ کنزالایمان:۔اے ایمان والو! اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب تم پر کچھ لشکر آئے تو ہم نے ان پر آندھی اور وہ لشکر بھیجے جو تمہیں نظر نہ آئے۔(پ21،الاحزاب:9)
درسِ ہدایت:۔اس واقعہ سے ہم کو یہ سبق ملتا ہے کہ جب کفار کا مقابلہ جنگ میں ہو تو مسلمانوں کو کسی حال میں بھی ہرگز ہرگز مایوس نہ ہونا چاہے اور یہ یقین رکھ کر مقابلہ پر ڈٹے رہنا چاہے کہ ضرور ضرور نصرت خداوندی اور امداد غیبی مسلمانوں کی مدد کر ے گی بس شرط یہ ہے کہ اخلاص نیت کے ساتھ مسلمان ثابت قدم رہیں اور صبر و استقلال کے ساتھ میدانِ جنگ میں ڈٹے رہیں۔ چنانچہ جنگ بدر و جنگ اُحد و جنگ احزاب وغیرہ کفر و اسلام کی لڑائیوں میں یہ منظر نظر آیا کہ انتہائی مشکل حالات میں بھی جب مسلمان ثابت قدم رہے تو غیب سے نصرتِ خداوندی عزوجل اور امداد غیبی نے اس طرح جلوہ دکھایا کہ دم زدن میں جنگ کا پانسہ پلٹ گیا اور مسلمانوں کو فتح مبین حاصل ہو گئی اور کفار باوجود اپنی کثرت و شوکت کے شکست کھا کر بھاگ نکلے۔"
(واللہ تعالیٰ اعلم)
''سبا''عرب کا ایک قبیلہ ہے جو اپنے مورث اعلیٰ سبا بن یشجب بن یعرب بن قحطان کے نام سے مشہور ہے اس قوم کی بستی یمن میں شہر ''صنعاء''سے چھ میل کی دوری پر واقع تھی۔ اس آبادی کی آب و ہوا اور زمین اتنی صاف اور اس قدر لطیف و پاکیزہ تھی کہ اس میں مچھر نہ مکھی نہ پسو نہ کھٹمل نہ سانپ نہ بچھو۔ موسم نہایت معتدل نہ گرمی نہ سردی۔ یہاں کے باغات میں کثیر پھل آتے تھے۔ کہ جب کوئی شخص سرپر ٹوکرا لئے گزرتا تو بغیر ہاتھ لگائے قسم قسم کے پھلوں سے اس کا ٹوکرا بھر جاتاتھا۔غرض یہ قوم بڑی فارغ البالی اور خوشحالی میں امن و سکون اور آرام و چین سے زندگی بسر کرتی تھی مگر نعمتوں کی کثرت اور خوشحالی نے اس قوم کو سرکش بنا دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم کی ہدایت کے لئے یکے بعد دیگرے تیرہ نبیوں کو بھیجا جو اس قوم کو خدا کی نعمتیں
یاد دلا دلا کر عذابِ الٰہی سے ڈراتے رہے۔ مگر ان سرکشوں نے خدا کے مقدس نبیوں کو جھٹلا دیا اور اس قوم کا سردار جس کا نام ''حماد''تھا وہ اتنا متکبر اور سرکش آدمی تھا کہ جب اُس کا لڑکا مر گیا تو اس نے آسمان کی طرف تھوکا اور اپنے کفر کا اعلان کردیا۔ اور اعلانیہ لوگوں کو کفر کی دعوت دینے لگا اور جو کفر کرنے سے انکار کرتا، اُس کو قتل کردیتا تھا اور خدا عزوجل کے نبیوں سے نہایت ہی بے ادبی اور گستاخی کے ساتھ کہتا تھا کہ آپ لوگ اللہ عزوجل سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نعمتوں کو ہم سے چھین لے۔ جب حماد اور اس کی قوم کا طغیان و عصیان بہت زیادہ بڑھ گیا تو اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر سیلاب کا عذاب بھیجا۔ جس سے ان لوگوں کے باغات اور اموال و مکانات سب غرق ہو کر فنا ہو گئے اور پوری بستی ریت کے تودوں میں دفن ہو گئی اور اس طرح یہ قوم تباہ و برباد ہو گئی کہ ان کی بربادی ملک عرب میں ضرب المثل بن گئی۔ عمدہ اور لذیذ پھلوں کے باغات کی جگہ جھاؤ اور جنگلی بیروں کے خار دار اور خوفناک جنگل اُگ گئے اور یہ قوم عمدہ اور لذیذ پھلوں کے لئے ترس گئی۔
قوم سبا کی بستی کے کنارے پہاڑوں کے دامن میں بند باندھ کر ملکہ بلقیس نے تین بڑے بڑے تالاب نیچے اوپر بنا دیئے تھے۔ ایک چوہے نے خدا عزوجل کے حکم سے بند کی دیوار میں سوراخ کردیا اور وہ بڑھتے بڑھتے بہت بڑا شگاف بن گیا یہاں تک کہ بند کی دیوار ٹوٹ گئی اور ناگہاں زور دار سیلاب آگیا۔ بستی والے اس سوراخ اور شگاف سے غافل تھے اور اپنے گھروں میں چین کی بانسری بجا رہے تھے کہ اچانک سیلاب کے دھاروں نے ان کی بستی کو غارت کرڈالا۔ اور ہر طرف بربادی اور ویرانی کا دور دورہ ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے قوم سبا کے اس ہلاکت آفریں سیلاب کا تذکرہ فرماتے ہوئے قرآن مجید میں فرمایا:۔
لَقَدْ کَانَ لِسَبَاٍ فِیۡ مَسْکَنِہِمْ اٰیَۃٌ ۚ جَنَّتٰنِ عَنۡ یَّمِیۡنٍ وَّ شِمَالٍ ۬ؕ کُلُوۡا مِنۡ رِّزْقِ رَبِّکُمْ وَ اشْکُرُوۡا لَہٗ ؕ بَلْدَۃٌ طَیِّبَۃٌ وَّ رَبٌّ غَفُوۡرٌ ﴿15﴾فَاَعْرَضُوۡا فَاَرْسَلْنَا عَلَیۡہِمْ سَیۡلَ الْعَرِمِ وَ بَدَّلْنٰہُمۡ
بِجَنَّتَیۡہِمْ جَنَّتَیۡنِ ذَوَاتَیۡ اُکُلٍ خَمْطٍ وَّ اَثْلٍ وَّشَیۡءٍ مِّنۡ سِدْرٍ قَلِیۡلٍ ﴿16﴾ذٰلِکَ جَزَیۡنٰہُمۡ بِمَا کَفَرُوۡا ؕ وَ ہَلْ نُجٰزِیۡۤ اِلَّا الْکَفُوۡرَ ﴿17﴾ (پ 22،سبا:15۔ 17)
"ترجمہ کنزالایمان:۔بیشک سبا کے لئے ان کی آبادی میں نشانی تھی دو باغ دہنے اور بائیں اپنے رب کا رزق کھاؤ اور اس کا شکر ادا کرو پاکیزہ شہر اور بخشنے والا رب تو انہوں نے منہ پھیرا تو ہم نے ان پر زور کا اہلا (سیلاب)بھیجا اور ان کے باغوں کے عوض دو باغ انہیں بدل دیئے جن میں بکٹا (بدمزہ)میوہ اور جھاؤ اور کچھ تھوڑی سی بیریاں ہم نے انہیں یہ بدلہ دیا ان کی ناشکری کی سزا اور ہم کسے سزا دیتے ہیں اسی کو جو ناشکرا ہے۔
درسِ ہدایت:۔قوم سبا کی یہ ہلاکت و بربادی اُن کی سرکشی اور خدا عزوجل کی نعمتوں کی ناشکری کے سبب سے ہوئی۔ اُن کی بداعمالیاں اور خدا عزوجل کے نبیوں کے ساتھ بے ادبیاں اور گستاخیاں جب بہت بڑھ گئیں تو خداوند قہار و جبار کا قہر و غضب عذاب بن کر سیلاب کی صورت میں آگیا اور اُن کو تباہ و برباد کردیا گیا۔ سچ ہے نیکی کا اثر آبادی اور بدی کا اثر بربادی ہے۔ لہٰذا ہر نعمت پانے والی قوم کو لازم ہے کہ خدا کی نعمتوں کا شکر ادا کرے اور سرکشی و گناہ سے ہمیشہ کنارہ کشی اختیار کرے، ورنہ خطرہ ہے کہ عذاب ِ الٰہی نہ اتر پڑے کیونکہ جو قوم سرکشی اور بداعمالی کو اپنا طریقہ کار بنا لیتی ہے،اس کا لازمی اثر یہی ہوتا ہے کہ وہ قوم عذابِ الٰہی کی مار سے برباد اور اس کی آبادیاں تہس نہس ہو کر ویرانہ بن جاتی ہیں۔"
(نعوذباللہ منہ)
''انطاکیہ''ملک شام کا ایک بہترین شہر تھا۔ جن کی فصیلیں سنگین دیواروں سے بنی ہوئی تھیں اور پورا شہر پانچ پہاڑوں سے گھرا ہوا تھا۔ اور شہر کی آبادی کا رقبہ بارہ میل تک پھیلا ہوا تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے حواریوں میں سے د ومبلغوں کو تبلیغ دین کے لئے اس شہر میں بھیجا۔ ایک کا نام ''صادق''اور دوسرے کا نام ''مصدوق''تھا۔ جب یہ دونوں شہر میں پہنچے تو
"ایک بوڑھے چرواہے سے ان دونوں کی ملاقات ہوئی جس کا نام ''حبیب نجار'' تھا۔ سلام کے بعد حبیب نجار نے پوچھا کہ آپ لوگ کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں اور مقصد کیا ہے؟ تو ان دونوں صاحبان نے کہا کہ ہم دونوں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بھیجے ہوئے مبلغین ہیں اور اس بستی والوں کو توحید اور خدا پرستی کی دعوت دینے آئے ہیں تو حبیب نجار نے کہا کہ آپ لوگوں کے پاس اس کی کوئی نشانی بھی ہے؟ تو ان دونوں نے کہا کہ جی ہاں ہم لوگ مریضوں اور مادر زاد اندھوں اور کوڑھیوں کو خداعزوجل کے حکم سے شفا دیتے ہیں۔ یہ ان دونوں کی کرامت اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا معجزہ تھا۔ یہ سن کر حبیب نجار نے کہا کہ میرا ایک لڑکا مدتوں سے بیمار ہے۔ کیا آپ لوگ اس کو تندرست کردیں گے؟ ان دونوں نے کہا کہ جی ہاں !اس کو ہمارے پاس لاؤ۔ چنانچہ ان دونوں نے اس مریض لڑکے پر اپنا ہاتھ پھیر دیا اور وہ فوراً ہی تندرست ہو کر کھڑا ہو گیا۔ یہ خبر بجلی کی طرح سارے شہر میں پھیل گئی اور بہت سے مریض جمع ہو گئے اور سب شفا یاب بھی ہو گئے۔
اس شہر کا بادشاہ ''انطیخا'' نامی ایک بت پرست تھا وہ ان دونوں کی زبان سے توحید کی دعوت سن کر مارے غصہ کے آپے سے باہر ہو گیا۔ اور اُس نے دونوں مبلغوں کو گرفتار کر کے سو سو درے لگا کر جیل خانہ میں قید کردیا۔ اس کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے حواریوں کے سردار حضرت ''شمعون ''رضی اللہ عنہ کو انطاکیہ بھیجا۔ آپ کسی طرح بادشاہ کے دربار میں پہنچ گئے اور بادشاہ سے کہا کہ آپ نے ہمارے دو آدمیوں کو کوڑے لگا کر جیل خانہ میں قید کردیا ہے۔ کم سے کم آپ ان دونوں کی پوری بات تو سن لیتے۔ بادشاہ نے ان دونوں کو جیل خانہ سے بلوا کر گفتگو شروع کی تو ان دونوں نے کہا کہ ہم یہی کہنے کے لئے یہاں آئے ہیں کہ تم لوگ ان بتوں کی عبادت کو چھوڑ کر خدائے وحدہ، کی عبادت کرو جس نے تم کو اور تمہارے بتوں کو بھی پیدا کیا ہے۔ جب بادشاہ نے ان دونوں سے کوئی نشانی طلب کی تو ان دونوں صاحبوں نے ایک"
"ایسے مادر زاد اندھے کو جس کے سر میں آنکھیں تھیں ہی نہیں، ہاتھ پھیر دیا تو اس کی پیشانی میں آنکھوں کے دو سوراخ بن گئے۔ پھر ان دونوں صاحبان نے مٹی کے دو غلولے بنا کر ان سوراخوں میں رکھ کر دعا کردی تو یہ دونوں غلولے آنکھیں بن کر روشن ہو گئے اور مادر زاد اندھاانکھیارا بن گیا۔ حضرت شمعون نے فرمایا کہ اے بادشاہ ! کیا تمہارے بتوں میں بھی یہ قدرت ہے؟ بادشاہ نے کہا کہ نہیں تو حضرت شمعون نے فرمایا کہ پھر تم اُس کی عبادت کیوں نہیں کرتے جو ایسی قدرت والا ہے کہ اندھوں کو آنکھیں عطا فرما دیتا ہے۔ یہ سن کر بادشاہ نے کہا کہ کیا تمہارا خدا مردوں کو زندہ کرسکتا ہے؟ اگر وہ مردوں کو زندہ کرسکتا ہے تو ایک مردے کو زندہ کردے جو میرے ایک دہقان کا لڑکا ہے اور وہ کئی روز سے مرا پڑا ہے۔ اور میں نے اُس کے باپ کے انتظار میں ابھی تک اس کو دفن نہیں کیا ہے۔ بادشاہ ان تینوں صاحبان کو لے کر لڑکے کی لاش کے پاس گیا اور ان تینوں صاحبان نے دعا مانگی تو خدا کے حکم سے وہ مردہ زندہ ہوگیا۔ اور بلند آواز سے کہا کہ میں بت پرست تھا تو میں مرنے کے بعد جہنم کی وادیوں میں داخل کیا گیا۔ لہٰذا میں تم لوگوں کو عذابِ الٰہی سے ڈراتے ہوئے اللہ پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہوں اور تم لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ خدا کے پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا کلمہ پڑھ کر ان تینوں مبلغین کی بات مان کر ان لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو کیونکہ یہ تینوں صاحبان حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواری اور اُن کے فرستادہ ہیں۔
یہ منظر دیکھ کر اور مردہ کی تقریر سن کر سب کے سب حیران رہ گئے۔ اتنے میں حبیب نجار بھی دوڑتے ہوئے پہنچ گئے اور انہوں نے بھی بادشاہ اور سارے شہر والوں کو مبلغین کی تصدیق کے لئے پرزور تقریر کر کے آمادہ کرلیا۔ یہاں تک کہ بادشاہ اور اُس کے تمام درباریوں نے ایمان کی دعوت کو قبول کرلیا اور سب صاحب ِ ایمان ہو گئے مگر چند منحوس لوگ جو بتوں کی محبت میں عقل و ہوش کھوچکے تھے وہ ایمان نہیں لائے بلکہ حبیب نجار کو قتل کردیا تو ان مردودوں"
پر عذاب آیا اور عذاب ِ الٰہی سے ہلاک کردیئے گئے۔
" (تفسیر صاوی،ج۵، ص ۱۷۰۸۔۱۷۱۰، پ۲۲، یٰسۤ:۱۳)"
اس واقعہ کو قرآن مجید نے ان لفظوں میں بیان فرمایا ہے:۔
وَاضْرِبْ لَہُمۡ مَّثَلًا اَصْحٰبَ الْقَرْیَۃِ ۘ اِذْ جَآءَہَا الْمُرْسَلُوۡنَ ﴿ۚ13﴾اِذْ اَرْسَلْنَاۤ اِلَیۡہِمُ اثْنَیۡنِ فَکَذَّبُوۡہُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ فَقَالُوۡۤا اِنَّاۤ اِلَیۡکُمۡ مُّرْسَلُوۡنَ ﴿14﴾قَالُوۡا مَاۤ اَنۡتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا ۙ وَ مَاۤ اَنۡزَلَ الرَّحْمٰنُ مِنۡ شَیۡءٍ ۙ اِنْ اَنۡتُمْ اِلَّا تَکْذِبُوۡنَ ﴿15﴾قَالُوۡا رَبُّنَا یَعْلَمُ اِنَّاۤ اِلَیۡکُمْ لَمُرْسَلُوۡنَ ﴿16﴾وَمَا عَلَیۡنَاۤ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیۡنُ ﴿17﴾قَالُوۡۤا اِنَّا تَطَیَّرْنَا بِکُمْ ۚ لَئِنۡ لَّمْ تَنۡتَہُوۡا لَنَرْجُمَنَّکُمْ وَ لَیَمَسَّنَّکُمۡ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِـیۡمٌ ﴿18﴾قَالُوۡا طَآئِرُکُمْ مَّعَکُمْ ؕ اَئِنۡ ذُکِّرْتُمۡ ؕ بَلْ اَنۡتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوۡنَ ﴿19﴾وَ جَآءَ مِنْ اَقْصَا الْمَدِیۡنَۃِ رَجُلٌ یَّسْعٰی قَالَ یٰقَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِیۡنَ ﴿ۙ20﴾اتَّبِعُوۡا مَنۡ لَّا یَسْـَٔلُکُمْ اَجْرًا وَّ ہُمۡ مُّہۡتَدُوۡنَ ﴿21﴾ (پ22،یٰسۤ:13۔21)
ترجمہ کنزالایمان:۔ اور ان سے مثال بیان کرو اس شہر والوں کی جب ان کے پاس فرستادے (رسول)آئے جب ہم نے ان کی طرف دو بھیجے پھر انہوں نے ان کو جھٹلایا تو ہم نے تیسرے سے زور دیا اب ان سب نے کہا کہ بیشک ہم تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں بولے تم تو نہیں مگر ہم جیسے آدمی اور رحمن نے کچھ نہیں اتارا تم نرے جھوٹے ہو وہ بولے ہمارا رب جانتا ہے کہ بیشک ضرور ہم تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں اور ہمارے ذمہ نہیں مگر صاف پہنچا دینا بولے ہم تمہیں منحوس سمجھتے ہیں بیشک تم اگر باز نہ آئے تو ضرور ہم تمہیں سنگسار کریں گے اور بیشک ہمارے ہاتھوں تم پر دکھ کی مار پڑے گی۔ انہوں نے فرمایا تمہاری نحوست تو تمہارے ساتھ ہے کیا اس پر بدکتے ہو کہ تم سمجھائے گئے بلکہ تم حد سے بڑھنے والے لوگ ہو اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک مرد دوڑتا آیا بولا اے میری قوم! بھیجے ہوؤں کی پیروی کرو ایسوں کی پیروی کرو جو تم سے کچھ نیگ (اجر)نہیں مانگتے اور وہ راہ پر ہیں۔
درسِ ہدایت:۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے تینوں مبلغین یعنی صادق و مصدوق اور شمعون کی سرگزشت اور تبلیغ دین کی راہ میں ان حضرات کی دشواریاں اور قید و بند کے مصائب اور ہوش رُبا دھمکیوں کو دیکھ کر یہ سبق ملتا ہے کہ تبلیغ دین کرنے والوں کو بڑی بڑی مصیبتوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مگر جب آدمی اس راہ میں مستقل مزاج بن کر ثابت قدم رہتا ہے اور صبر و تحمل کے ساتھ اس دینی کام میں ڈٹا رہتا ہے تو اللہ تعالیٰ غیب سے اُس کی کامیابی کا سامان پیدا فرمادیتا ہے وہ مُقَلِّبُ الْقُلُوْب اور ہادی ہے وہ ایک لمحہ میں منکرین کے دلوں کو بدل دیتا ہے اور دلوں کی گمراہی دور فرما کر ہدایت کا نور بخش دیتا ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھا لئے جانے کے تھوڑے دنوں بعد کا واقعہ ہے کہ یمن میں ''صنعا'' شہر سے دو کوس کی دوری پر ایک باغ تھا جس کا نام ''ضردان''تھا۔ اس باغ کا مالک بہت ہی نیک نفس اور سخی آدمی تھا۔ اُس کا دستور یہ تھا کہ پھلوں کو توڑنے کے وقت وہ فقیروں اور مسکینوں کو بلاتا تھا اور اعلان کردیتا تھا کہ جو پھل ہوا سے گرپڑیں یاجوہماری جھولی سے الگ جاکرگریں وہ سب تم لوگ لے لیاکرو۔اس طرح اس باغ کابہت ساپھل فقراء ومساکین کو مل جایا کرتا تھا۔ باغ کا مالک مر گیا تو اُس کے تینوں بیٹے اس باغ کے مالک ہوئے مگر یہ تینوں بہت بخیل ہوئے۔ ان لوگوں نے آپس میں طے کرلیا کہ اگر فقیروں اور مسکینوں کو ہم لوگ بلائیں گے تو بہت سے پھل یہ لوگ لے جائیں گے اور ہم لوگوں کے اہل وعیال کی روزی میں تنگی ہوجائے گی۔ چنانچہ ان تینوں بھائیوں نے قسم کھا کر یہ طے کر لیا کہ سورج نکلنے سے قبل ہی چل کر ہم لوگ باغ کا پھل توڑ لیں تاکہ فقراء و مساکین کو خبر ہی نہ ہو۔ چنانچہ ان لوگوں کی بدنیتی کی نحوست نے یہ اثر بد دکھایا کہ ناگہاں رات ہی میں اللہ تعالیٰ نے باغ میں ایک آگ بھیج دی۔ جس نے پورے باغ کو جلا کر خاک سیاہ کرڈالا اور ان لوگوں کو اس
کی خبر بھی نہ ہوئی۔ یہ لوگ اپنے منصوبہ کے مطابق رات کے آخری حصے میں نہایت خاموشی کے ساتھ پھل توڑنے کے لئے روانہ ہو گئے اور راستہ میں چپکے چپکے باتیں کرتے تھے تاکہ فقیروں اور مسکینوں کو خبر نہ مل جائے۔ لیکن یہ لوگ جب باغ کے پاس پہنچے تو وہاں جلے ہوئے درختوں کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ چنانچہ ایک بول پڑا کہ ہم لوگ راستہ بھول کر کسی اور جگہ چلے آئے ہیں مگر ان میں سے جو بہ نسبت دوسرے بھائیوں کے کچھ نیک نفس تھا۔ اُس نے کہا کہ ہم راستہ نہیں بھولے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہم لوگوں کو پھلوں سے محروم کردیا ہے لہٰذا تم لوگ خدا کی تسبیح پڑھو تو ان سبھوں نے یہ پڑھنا شروع کردیا کہ
سُبْحٰنَ رَبِّنَآ اِنَّاکُنَّا ظٰلِمِیْنَ
یعنی ہمارے رب کے لئے پاکی ہے ہم لوگ یقینا ظالم ہیں کہ ہم نے فقراء و مساکین کا حق مار لیا پھر وہ تینوں بھائی ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے اور آخر میں یہ کہنے لگے کہ
عَسٰی رَبُّنَاۤ اَنۡ یُّبْدِلَنَا خَیۡرًا مِّنْہَاۤ اِنَّاۤ اِلٰی رَبِّنَا رَاغِبُوۡنَ ﴿32﴾ (پ29،القلم:32)
"ترجمہ کنزالایمان:۔امید ہے کہ ہمیں ہمارا رب اس سے بہتر بدل دے ہم اپنے رب کی طرف رغبت لاتے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ان لوگوں نے سچے دل سے توبہ کرلی تو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی توبہ قبول فرما لی اور پھر ان لوگوں کو اس کے بدلے ایک دوسرا باغ عطا فرما دیا جس میں بہت زیادہ اور بہت بڑے بڑے پھل آنے لگے۔ اس باغ کا نام ''حیوان''تھا اور اس میں ایک ایک انگور اتنا بڑا بڑا ہوتا تھا کہ اُس کا ایک خوشہ ایک خچر کا بوجھ ہوجایا کرتا تھا۔ ابوخالد یمانی کا بیان ہے کہ میں اُس باغ میں گیا تھا تو میں نے دیکھا کہ اُس باغ میں انگوروں کے خوشے حبشی آدمی کے قد کے برابر بڑے تھے۔"
(تفسیر صاوی،ج ۶،ص ۲۲۱۶،پ۲۹،القلم:۳۲)
اس واقعہ سے سبق ملتا ہے کہ سخاوت اور نیک نیتی کا اثر مال میں خیر و برکت اور مال کی فراوانی ہے اور بخیلی و بدنیتی کا ثمرہ مال کی ہلاکت و بربادی ہے۔ اور یہ بھی
معلوم ہوا کہ سچی توبہ کرلینے سے اللہ تعالیٰ زائل شدہ نعمت سے بڑی اور بڑھ کر نعمت عطا فرما دیا کرتا ہے۔ سچ ہے کہ
ذٰلِکَ فَضْلُ اللہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ وَاللہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ
"حضرت داؤد علیہ السلام کی ننانوے بیویاں تھیں۔ اس کے بعد آپ نے ایک دوسری عورت کو نکاح کا پیغام دیا جس کو ایک مسلمان نے پہلے سے پیغام دے رکھا تھا لیکن آپ کا پیغام پہنچنے کے بعد عورت کے اولیاء دوسرے کی طرف بھلا کب اور کیسے توجہ کرسکتے تھے، آپ سے نکاح ہوگیا۔ یہ بات نہ تو شرعاً ناجائز تھی، نہ اُس زمانے کے رسم و رواج کے خلاف تھی۔ لیکن حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی شان بہت ہی ارفع و اعلیٰ ہوتی ہے۔ یہ آپ کے منصب عالی کے مناسب نہ تھا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کی مرضی یہ ہوئی کہ آپ کو اس پر متنبہ اور آگاہ کردیا جائے۔
چنانچہ اس کا ذریعہ یہ بنایا کہ فرشتے مدعی اور مدعا علیہ بن کر آپ کے دربار میں ایک مقدمہ لے کر آئے اور بجائے دروازہ سے داخل ہونے کے دیوار پھاند کر مسجد میں آئے۔ آپ ان لوگوں کو دیوار پھاندتے دیکھ کر کچھ گھبرا گئے۔ تو فرشتوں نے کہا کہ آپ ڈریں نہیں۔ ہم دو فریق ہیں کہ ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے۔ لہٰذا آپ ہمارا ٹھیک ٹھیک فیصلہ کردیجئے اور ہمیں سیدھی راہ چلایئے۔ ہمارا مقدمہ یہ ہے کہ میرا یہ بھائی اس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس ایک ہی دنبی ہے۔ اب یہ کہتا ہے کہ تو اپنی ایک دنبی بھی میرے حوالہ کردے اور اس بات کے لئے مجھ پر دباؤ ڈالتا ہے۔ یہ سن کر حضرت داؤد علیہ السلام نے فوراً یہ فیصلہ فرما دیا کہ بے شک یہ زیادتی ہے کہ وہ تیری دنبی کو اپنی دنبیوں میں ملا لینے کو کہتا ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اکثر ساجھے والے ایک دوسرے پر زیادتی کرتے رہتے ہیں۔ بجز اُن لوگوں کے جو صاحب ِ ایمان اور نیک عمل ہوں اور ایسوں کی تعداد بہت ہی کم ہے۔ مقدمہ کا فیصلہ سنا کر"
حضرت داؤد علیہ السلام کا ماتھا ٹھنکا اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اس مقدمہ کی پیشی درحقیقت یہ میرا امتحان تھا۔ چنانچہ فوراً ہی آپ سجدہ میں گر پڑے اور خدا سے معافی مانگنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو معاف فرما دیا۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے:۔
فَغَفَرْنَا لَہٗ ذٰلِکَ ؕ وَ اِنَّ لَہٗ عِنۡدَنَا لَزُلْفٰی وَ حُسْنَ مَاٰبٍ ﴿25﴾یٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰکَ خَلِیۡفَۃً فِی الْاَرْضِ فَاحْکُمۡ بَیۡنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْہَوٰی فَیُضِلَّکَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللہِ ؕ (پ23،صۤ:25،26)
"ترجمہ کنزالایمان:۔ تو ہم نے اسے یہ معاف فرمادیا اور بیشک اس کے لئے ہماری بارگاہ میں ضرور قرب اور اچھا ٹھکانا ہے۔ اے داؤد بے شک ہم نے تجھے زمین میں نائب کیا تو لوگوں میں سچا حکم کر اور خواہش کے پیچھے نہ جانا کہ تجھے اللہ کی راہ سے بہکا دے گی۔
درسِ ہدایت:۔حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی شان بہت ہی عظیم الشان ہے اس لئے بہت ہی معمولی اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی خداوند ِ قدوس کی طرف سے ان حضرات کو آگاہی دی جاتی ہے اور یہ نفوسِ قدسیہ بھی بارگاہِ خداوندی میں اس قدر مطیع اور متواضع ہوتے ہیں کہ فوراً ہی دربار خداوندی میں سجدہ ریز ہو کر عفو تقصیر کی استدعا کرنے لگتے ہیں۔مثل مشہور ہے کہ"
حَسَنَاتُ الْاَبْرَارِ سَیِّئَاتُ الْمُقَرَّبِیْنَ
یعنی نیک لوگوں کی نیکیاں مقربین کے لئے خطاؤں کا درجہ رکھتی ہیں۔ کیوں نہ ہو۔
" جن کے رتبے ہیں سوا اُن کو سوا مشکل ہے"
حضرت سلیمان علیہ السلام کی ننانوے بیویاں تھیں۔ ایک مرتبہ آپ نے فرمایا کہ میں رات بھر اپنی ننانوے بیویوں کے پاس دورہ کروں گا اور سب کے ایک ایک لڑکا پیدا ہو گا تو میرے یہ سب لڑ کے اللہ کی ر ا ہ میں گھو ڑ و ں پر سو ا ر ہو کر جہا د کریں گے ۔ مگر یہ فر ما تے و قت
آپ نے ان شاء اللہ نہیں کہا۔ غالباً آپ اس وقت کسی ایسے شغل میں تھے کہ اس کا خیال نہ رہا۔ اس ''ان شاء اللہ ''کو چھوڑ دینے کا یہ اثر ہوا کہ صرف ایک عورت حاملہ ہوئی اور اُس کے بھی ایک ناقص الخلقت (کچا بچہ)ہوا۔ حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر حضرت سلیمان علیہ السلام نے ''ان شاء اللہ ''کہہ دیا ہوتا تو ان سب عورتوں کے لڑکے پیدا ہوتے اور وہ خدا کی راہ میں جہاد کرتے۔
(بخاری شریف، کتاب الجہاد، باب من طلب الولد للجہاد، ج۴،ص ۲۲، رقم ۲۸۱۹ )
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کو اجمالاً بہت مختصر طریقے پر اس طرح بیان فرمایا ہے:۔
وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَیۡمٰنَ وَ اَلْقَیۡنَا عَلٰی کُرْسِیِّہٖ جَسَدًا ثُمَّ اَنَابَ ﴿34﴾قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِیۡ وَہَبْ لِیۡ مُلْکًا لَّا یَنۡۢبَغِیۡ لِاَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِیۡ ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ الْوَہَّابُ ﴿35﴾ (پ23،صۤ:34،35)
"ترجمہ کنزالایمان:۔اور بیشک ہم نے سلیمان کو جانچا اور اس کے تخت پر ایک بے جان بدن ڈال دیا پھر رجوع لایا عرض کی اے میرے رب مجھے بخش دے اور مجھے ایسی سلطنت عطا کر کہ میرے بعد کسی کو لائق نہ ہو بیشک تو ہی بڑی دین والا۔
درسِ ہدایت:۔اس قرآنی واقعہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ مسلمان کو لازم ہے کہ آئندہ کے لئے جو کام کرنے کو کہے تو ''ان شاء اللہ تعالیٰ'' ضرور کہہ دے۔ اس مقدس جملہ کی برکت سے بڑی امید ہے کہ وہ کام ہوجائے گا۔ اور ''ان شاء اللہ تعالیٰ'' چھوڑ دینے کا انجام سراسر نقصان اور ناکامی و محرومی ہے۔ غور کیجئے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام جو خداوند ِقدوس کے پیارے نبی اور بے مثال بادشاہ بھی ہیں۔ مگر انہوں نے لاشعوری طور پر ان شاء اللہ تعالیٰ کہنا چھوڑ دیا تو ان کا مقصد جو اعلیٰ درجے کی عبادت تھی پورا نہیں ہوا اور وہ اس بات پر نہایت متاسف اور رنجیدہ ہو کر خدا کی طرف رجوع ہوئے ،وہ اپنی مغفرت کی دعا مانگنے لگے ،پھر بھلا ہم تم گنہگاروں کا کیا ٹھکانا ہے؟ کہ اگر ہم تم ان شاء اللہ تعالیٰ کہنا چھوڑ دیں گے تو بھلا کس طرح ہم اپنے مقصد میں"
"کامیاب ہوں گے؟لہٰذا ''ان شاء اللہ تعالیٰ'' کہنا ضرور یاد رکھئے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے رسول مقبول حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن مجید میں بڑی تاکید کے ساتھ یہ حکم دیا ہے کہ آئندہ کے لئے جو کام بھی کرنے کو کہے تو ضرور ''ان شاء اللہ تعالیٰ'' کہہ لیجئے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم فرمایا۔"
وَلَا تَقُوۡلَنَّ لِشَایۡءٍ اِنِّیۡ فَاعِلٌ ذٰلِکَ غَدًا ﴿ۙ23﴾اِلَّا اَنۡ یَّشَآءَ اللہُ ۫ وَاذْکُرۡ رَّبَّکَ اِذَا نَسِیۡتَ (پ15،الکہف:23)
ترجمہ کنزالایمان:۔اور ہرگز کسی بات کو نہ کہنا کہ میں کل یہ کردُوں گا مگر یہ کہ اللہ چاہے اور اپنے رب کی یاد کر جب تو بھول جائے۔
''اصحاب الاخدود''کے بارے میں مفسرین کا اختلاف ہے کہ یہ کون لوگ تھے؟ اور ان کا کیا واقعہ تھا۔ اس بارے میں حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اگلی امتوں میں ایک بادشاہ تھا جو خدائی کا دعویٰ کرتا تھا اور ایک جادوگر اُس کے دربار کا بہت ہی مقرب تھا۔ ایک دن جادوگر نے بادشاہ سے کہا کہ میں اب بوڑھا ہوچکا ہوں۔ لہٰذا تم ایک لڑکے کو میرے پاس بھیج دو تاکہ میں اُس کو اپنا جادو سکھا دوں۔ چنانچہ بادشاہ نے ایک ہوشیار لڑکے کو جادوگر کے پاس بھیج دیا۔ لڑکا روزانہ جادوگر کے پاس آنے جانے لگا لیکن راستہ میں ایک ایماندار راہب رہتا تھا۔ لڑکا ایک دن اُس راہب کے پاس بیٹھا تو اس کی باتیں لڑکے کو بہت پسند آگئیں۔ چنانچہ لڑکا جادوگر کے پاس آنے جانے میں روزانہ راہب کے پاس بیٹھنے لگا۔ ایک دن لڑکے نے دیکھا کہ ایک بڑا اور مہیب جانور کھڑا انسانوں کا راستہ روکے ہوئے ہے۔ لڑکے نے یہ منظر دیکھ کر اپنے دل میں کہا کہ آج یہ ظاہر ہوجائے گا کہ جادوگر افضل ہے یا راہب؟ چنانچہ لڑکے نے ایک پتھر اٹھا کر یہ دعا مانگی کہ یا اللہ عزوجل! اگر تیرے دربار میں یہ مذہب جادوگر سے زیادہ مقبول و محبوب ہو تو
"اس جانور کو اسی پتھر سے مقتول فرما دے۔ یہ دعا کر کے لڑکے نے جانور کو اس پتھر سے مار دیا تو یہ بہت بڑا جانور ایک چھوٹے سے پتھر سے قتل ہو کر مرگیا اور لوگوں کا راستہ کھل گیا۔
لڑکے نے راہب سے یہ پورا واقعہ بیان کیا تو راہب نے کہا کہ اے لڑکے! خدا عزوجل کے دربار میں تیرا مرتبہ بلند ہو گیا ہے۔ لہٰذا اب تو عنقریب امتحان میں ڈالا جائے گا۔ اس لئے کسی کو میرا پَتا نہ بتانا اور امتحان کے وقت صبر کرنا۔ اس کے بعد یہ لڑکا اس قدر صاحب ِ کرامت ہو گیا کہ اس کی دعاؤں سے مادر زاد اندھے اور کوڑھی شفا پانے لگے۔ رفتہ رفتہ بادشاہ کے دربار میں اس کا چرچا ہونے لگا تو بادشاہ کا ایک بہت ہی مقرب ہم نشین جو اندھا ہو گیا تھا، اس لڑکے کے پاس بہت سے ہدایا اور تحائف لے کر حاضر ہوا۔ اور اپنی بصار ت کے لئے دعا کا طالب ہوا۔ تو لڑکے نے کہا کہ اگر تو اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے تو میں تیرے لئے دعا کروں گا۔ چنانچہ وہ ایمان لایا او رلڑکے نے اس کے لئے دعا کردی تو فوراً ہی وہ انکھیارا ہو گیا اور بادشاہ کے دربار میں گیا تو بادشاہ نے پوچھا کہ تمہاری آنکھوں میں بصارت کیسے آگئی؟ تو مقرب ہم نشین نے کہا کہ میرے رب نے مجھے بصارت عطا فرما دی ہے۔ بادشاہ نے غضب ناک ہو کر کہا کہ کیا میرے سوا بھی تمہارا کوئی رب ہے؟ تو اُس نے کہا کہ ہاں۔ اللہ تعالیٰ میرا اور تیرا دونوں کا رب ہے۔ بادشاہ نے اس کو طرح طرح کی سزائیں دے کر پوچھا کہ کس نے تجھے یہ بتایا ہے؟ تو اس نے لڑکے کا نام بتا دیا۔ پھر بادشاہ نے لڑکے کو قید کر کے اُس کو اس قدر مارا پیٹا کہ اُس نے راہب کا نام بتا دیا۔ بادشاہ نے راہب کو گرفتار کر کے اُس سے کہا کہ تم اپنے عقیدہ کو چھوڑ دو مگر راہب نے صاف صاف کہہ دیا کہ میں اپنے اس عقیدہ پر آخری دم تک قائم رہوں گا۔ یہ سن کر بادشاہ آگ بگولہ ہو گیا اور اس نے راہب کے سر پر آرا چلوا کر اس کے دو ٹکڑے کردیئے۔ اس کے بعد بادشاہ نے اپنے مقرب ہم نشین کے سر پر بھی آرا چلوا دیا۔ پھر لڑکے کو سپاہیوں کے سپرد کیا اور حکم دیا کہ اس کو پہاڑ کی چوٹی پر چڑھا کر اوپر سے نیچے لڑھکا دو۔ لڑکے نے پہاڑ پر چڑھ کر"
"دعا مانگی تو ایک زلزلہ آیا اور بادشاہ کے سپاہی زلزلہ کے جھٹکوں سے ہلاک ہو گئے اور لڑکا سلامتی کے ساتھ پھر بادشاہ کے سامنے آکھڑا ہو گیا۔ پھربادشاہ نے غیظ و غضب میں بھر کر حکم دیا کہ اس لڑکے کو کشتی پر بٹھا کر سمندر میں لے جاؤ اور سمندر کی گہرائی میں لے جا کر اس کو سمندر میں پھینک دو۔ چنانچہ بادشاہ کے سپاہی اس کو کشتی میں بٹھا کر لے گئے۔ پھر جب لڑکے نے دعا مانگی تو کشتی غرق ہو گئی اور سب سپاہی ہلاک ہو گئے اور لڑکا صحت و سلامتی کے ساتھ بادشاہ کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا اور بادشاہ حیران رہ گیا۔ پھر لڑکے نے بادشاہ سے کہا کہ اگر تو مجھ کو شہید کرنا چاہتا ہے تو اس کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ تو مجھ کو سولی پر لٹکا کر اور یہ پڑھ کر مجھے تیر مار کہ ''بِسْمِ اللہِ رَبِّ الْغُلَامِ'' چنانچہ اسی ترکیب سے بادشاہ نے اس لڑکے کو تیر مار کر شہید کردیا۔
یہ منظر دیکھ کر ہزاروں کے مجمع نے بلند آواز سے یہ اعلان کرنا شروع کردیا کہ ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لائے۔ بادشاہ غصہ میں بوکھلا گیا اور اُس نے گڑھا کھدوا کر اُس میں آگ جلوائی۔ جب آگ کے شعلے خوب بلند ہونے لگے تو اس نے ایمانداروں کو پکڑوا کر اس آگ میں ڈالنا شروع کردیا۔ یہاں تک کہ ستتر مومنین کو اُس آگ میں جلا ڈالا۔ آخر میں ایک ایمان والی عورت اپنے بچے کو گود میں لئے ہوئے آئی اور جب بادشاہ نے اُس کو آگ میں ڈالنے کا ارادہ کیا تو وہ کچھ گھبرائی تو اس کے دودھ پیتے بچے نے کہا کہ اے میری ماں! صبر کر تو حق پر ہے۔ بچے کی آواز سن کر اس کے ماں کا جذبہ ایمانی بیدار ہو گیا اور وہ مطمئن ہو گئی۔ پھر ظالم بادشاہ نے اس مومنہ کو اُس کے بچے کے ساتھ آگ میں پھینک دیا۔
بادشاہ اور اُس کے ساتھی خندق کے کنارے مومنین کے آگ میں جلنے کا منظر کرسیوں پر بیٹھ کر دیکھ رہے تھے اور اپنی کامیابی پر خوشی منا رہے تھے اور قہقہے لگا رہے تھے کہ ایک دم قہر ِ الٰہی نے ظالموں کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ اور وہ اس طرح کہ خندق کی آگ کے شعلے اس قدر"
بھڑک کر بلند ہوئے کہ بادشاہ اور اُس کے ساتھیوں کو آگ نے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور سب کے سب لمحہ بھر میں جل کر راکھ کا ڈھیر ہو گئے اور باقی تمام دوسرے مومنین کو اللہ تعالیٰ نے کافراور ظالم کے شر سے بچالیا۔
" (تفسیر صاوی،ج۶، ص ۲۳۳۹۔۲۳۴۰، پ ۳۰،البروج:۴۔ا ۷ )"
اس واقعہ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان لفظوں کے ساتھ بیان فرمایا ہے:۔
قُتِلَ اَصْحٰبُ الْاُخْدُوۡدِ ۙ﴿4﴾النَّارِ ذَاتِ الْوَقُوۡدِ ۙ﴿5﴾اِذْ ہُمْ عَلَیۡہَا قُعُوۡدٌ ۙ﴿6﴾وَّ ہُمْ عَلٰی مَا یَفْعَلُوۡنَ بِالْمُؤْمِنِیۡنَ شُہُوۡدٌ ؕ﴿7﴾ (پ30،البروج:4۔7)
"ترجمہ کنزالایمان:کھائی والوں پر لعنت ہووہ اس بھڑکتی آگ والے جب وہ اس کے کناروں پر بیٹھے تھے اور وہ خود گواہ ہیں جو کچھ مسلمانوں کے ساتھ کررہے تھے۔
درسِ ہدایت:۔(۱)اس واقعہ سے یہ ہدایت کا سبق ملتا ہے کہ عموماً خدا کی طرف سے امتحان ہوا کرتا ہے اور بوقت امتحان مومنوں کا بلاؤں اور مصیبتوں پر صابر و شاکر رہنا ہی اس امتحان کی کامیابی ہے۔
(۲)یہ بھی معلوم ہوا کہ ایمان کامل کی یہی نشانی ہے کہ مومن خدا عزوجل کی راہ میں پڑنے والی تکلیفوں اور مصیبتوں سے گھبرا کر کبھی بھی اُس میں تذبذب نہیں پیدا ہوتا، بلکہ مومن خواہ پھولوں کے ہار کے نیچے ہو یا تلوار کے نیچے، پانی میں غرق کیا جائے یا آگ کے شعلوں میں جلایا جائے ہرحال میں بہرصورت وہ اپنے ایمان پر استقامت و استقلال کے ساتھ پہاڑ کی طرح قائم رہتا ہے اور اس کا خاتمہ ایمان ہی پر ہوتا ہے۔ یہ وہ سعادت عظمیٰ ہے کہ جس کو نصیب ہوجائے اس کی خوش بختیوں کی معراج ہوجاتی ہے اور وہ خدا عزوجل اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں وہ قرب حاصل کرلیتا ہے کہ آسمانوں کے فرشتے اس کے اعلیٰ مراتب کی سربلندیوں کے مداح اور ثناء خواں بن جاتے ہیں۔"
"وَاہِلہ:۔یہ حضرت نوح علیہ السلام کی بیوی تھی۔ اس کو ایک نبی برحق کی زوجیت کا شرف حاصل ہوا اور برسوں یہ اللہ تعالیٰ کے نبی علیہ السلام کی صحبت سے سرفراز رہی مگر اس کی بدنصیبی قابل عبرت ہے کہ اس کو ایمان نصیب نہیں ہوا بلکہ یہ حضرت نوح علیہ السلام کی دشمنی اور توہین و بے ادبی کے سبب سے بے ایمان ہو کر مرگئی اور جہنم میں داخل ہوئی۔
یہ ہمیشہ اپنی قوم میں جھوٹا پروپیگنڈہ کرتی رہتی تھی کہ حضرت نوح علیہ السلام مجنون اور پاگل ہیں، لہٰذا ان کی کوئی بات نہ مانو۔
وَاعِلہ:۔یہ حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی تھی۔ یہ بھی اللہ کے ایک جلیل القدر نبی علیہ السلام کی زوجیت و صحبت سے برسوں سرفراز رہی مگر اس کے سر پر بدنصیبی کا ایسا شیطان سوار تھا کہ سچے دل سے کبھی ایمان نہیں لائی بلکہ عمر بھر منافقہ رہی اور اپنے نفاق کو چھپاتی رہی۔ جب قوم ِ لوط پر عذاب آیا اور پتھروں کی بارش ہونے لگی، اُس وقت حضرت لوط علیہ السلام اپنے گھر والوں اور مومنین کو ساتھ لے کر بستی سے باہر چلے گئے تھے۔ ''واعلہ'' بھی آپ کے ساتھ تھی آپ نے فرما دیا تھا کہ کوئی شخص بستی کی طرف نہ دیکھے ورنہ وہ بھی عذاب میں مبتلا ہوجائے گا۔ چنانچہ آپ کے ساتھ والوں میں سے کسی نے بھی بستی کی طرف نہیں دیکھا اور سب عذاب سے محفوظ رہے لیکن واعلہ چونکہ منافق تھی اُس نے حضرت لوط علیہ السلام کے فرمان کو ٹھکرا کر بستی کی طرف دیکھ لیا اور شہر کو الٹ پلٹ ہوتے دیکھ کر چلانے لگی کہ''یَاقَوَمَاہ،''ہائے رے میری قوم، یہ زبان سے نکلتے ہی ناگہاں عذاب کا ایک پتھر اس کو بھی لگا اور یہ بھی ہلاک ہو کر جہنم رسید ہو گئی۔
آسیہ:۔آسیہ بنت مزاحم رضی اللہ عنہا یہ فرعون کی بیوی ہیں۔ فرعون تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا بدترین دشمن تھا لیکن حضرت آسیہ رضی اللہ عنہا نے جب جادوگروں کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلہ میں مغلوب ہوتے دیکھ لیا تو فوراً اُن کے دل میں ایمان کا نور چمک اُٹھا اور وہ ایمان"
"لے آئیں۔ جب فرعون کو خبر ہوئی تو اس ظالم نے ان پر بڑے بڑے عذاب کئے، بہت زیادہ زدو کوب کے بعد چومیخا کردیا یعنی چار کھونٹیاں گاڑ کر حضرت آسیہ رضی اللہ عنہا کے چاروں ہاتھوں پیروں میں لوہے کی میخیں ٹھونک کر چاروں کھونٹوں میں اس طرح جکڑ دیا کہ وہ ہل بھی نہیں سکتی تھیں اور بھاری پتھر سینہ پر رکھ کر دھوپ کی تپش میں ڈال دیا اور دانہ پانی بند کردیا لیکن ان مصائب و شدائد کے باوجود وہ اپنے ایمان پر قائم و دائم رہیں اور فرعون کے کفر سے خدا عزوجل کی پناہ اور جنت کی دعائیں مانگتی رہیں اور اسی حالت میں اُن کا خاتمہ بالخیر ہو گیا اور وہ جنت میں داخل ہو گئیں اور ابن کیسان کا قول ہے کہ وہ زندہ ہی اُٹھا کر جنت میں پہنچا دی گئیں۔
مریم:۔مریم بنت عمران رضی اللہ عنہا، یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ ہیں۔ چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان کے شکم سے بغیر باپ کے پیدا ہوئے اس لئے ان کی قوم نے طعن اور بدگوئیوں سے ان کو بڑی بڑی ایذائیں پہنچائیں مگر یہ صابر رہ کر اتنے بڑے بڑے مراتب و درجات سے سرفراز ہوئیں کہ خداوند ِ قدوس نے قرآن مجید میں ان کی مدح و ثنا کا بار بار خطبہ ارشاد فرمایا ۔ان چاروں عورتوں کے بارے میں قرآن مجید نے سورئہ تحریم میں فرمایا جس کا ترجمہ یہ ہے:۔
''اللہ تعالیٰ کافروں کی مثال دیتا ہے۔ جیسے حضرت نوح (علیہ السلام)کی عورت (واہلہ)اور حضرت لوط (علیہ السلام)کی عورت (واعلہ)یہ دونوں ہمارے دو مقرب بندوں کے نکاح میں تھیں۔ پھر ان دونوں نے ان دونوں سے دغا کیا تو وہ دونوں پیغمبران، ان دونوں عورتوں کے کچھ کام نہ آئے اور ان دونوں عورتوں کے بارے میں خدا کا یہ فرمان ہو گیا کہ تم دونوں جہنمی عورتوں کے ساتھ جہنم میں داخل ہوجاؤ۔ اور اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی مثال بیان فرماتا ہے۔ فرعون کی بیوی (آسیہ)جب انہوں نے عرض کی اے میرے رب! میرے لئے اپنے پاس جنت میں گھر بنا اور مجھے فرعون اور اس کے کام سے نجات دے اور مجھے ظالم لوگوں سے نجات بخش اور عمران کی بیٹی مریم جس نے اپنی پارسائی کی حفاظت کی تو ہم نے اس میں اپنی طرف کی"
روح پھونکی اور اس نے اپنے رب کی باتوں اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی اور فرمانبرداروں میں سے ہوئی۔
(پ۲۸، التحریم:۱۰ ۔ ۱۲)
درسِ ہدایت:۔واہلہ اور واعلہ دونوں نبی کی بیویاں ہو کر کفر و نفاق میں گرفتار ہو کر جہنم رسید ہوئیں اور فرعون جیسے کافر کی بیوی حضرت ''آسیہ''ایمان کامل کی دولت پاکر جنت میں داخل ہوئیں اور حضرت آسیہ حق ظاہر ہوجانے کے بعد اس طرح ایمان لائیں کہ فرعون کے سب آرام و راحت کو ٹھکر ادیا اور بے پناہ تکلیفوں اور ایذاؤں کے باوجود اپنے ایمان پر قائم رہیں، بلاشبہ یہ باتیں قابل ِ عبرت ہیں۔
حضرت حسن و حضرت حسین رضی اللہ عنہما بچپن میں ایک مرتبہ بیمار ہو گئے تو حضرت علی و حضرت فاطمہ و حضرت فضہ رضی اللہ عنہم نے ان شاہزادوں کی صحت کے لئے تین روزوں کی منت مانی۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں شاہزادوں کو شفا دے دی۔ جب نذر کے روزوں کو ادا کرنے کا وقت آیا تو سب نے روزے کی نیت کرلی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک یہودی سے تین صاع جو لائے۔ ایک ایک صاع تینوں دن پکایا لیکن جب افطار کا وقت آیا اور تینوں روزہ داروں کے سامنے روٹیاں رکھی گئیں تو ایک دن مسکین ،ایک دن یتیم، ایک دن قیدی دروازے پر آگئے اور روٹیوں کا سوال کیا تو تینوں دن سب روٹیاں سائلوں کو دے دی گئیں اور صرف پانی سے افطار کر کے اگلا روزہ رکھ لیا گیا۔ حضرت فضہ رضی اللہ عنہا حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر کی خادمہ تھیں۔
" (تفسیر خزائن العرفان،ص ۱۰۴۳،پ۲۹، الدھر: ۸۔۹)"
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری بیٹی کے گھر کی اس سرگزشت کو ان لفظوں میں بیان فرمایا:۔
وَ یُطْعِمُوۡنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیۡنًا وَّ یَتِیۡمًا وَّ اَسِیۡرًا ﴿8﴾اِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللہِ لَا نُرِیۡدُ مِنۡکُمْ جَزَآءً وَّ لَا شُکُوۡرًا ﴿9﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔اور کھانا کھلاتے ہیں اس کی محبت پر مسکین اور یتیم اور اسیر کو ان سے کہتے ہیں ہم تمہیں خاص اللہ کے لئے کھانا دیتے ہیں تم سے کوئی بدلہ یا شکر گزاری نہیں مانگتے۔ (پ29،الدھر:8۔9)
درسِ ہدایت:۔سبحان اللہ اس واقعہ سے اہل بیت نبوت کی سخاوت کا عجیب و غریب اور عدیم المثال حال معلوم ہوتا ہے۔ مسلسل تین روزے اور سحری و افطار میں صرف پانی پی کر روزے رکھنا اور خود بھوکے رہ کر روٹیاں سائلوں کو دے دینا یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اللہ اکبر کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ"
" بھو کے رہتے تھے خود اَوروں کو کھلا دیتے تھے
کیسے صابر تھے محمدصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے گھرانے والے"
یہ آپ ''قوم عاد کی آندھی''کے عنوان میں پڑھ چکے ہیں کہ قوم عاد کا مورث ِ اعلیٰ عاد بن عوص بن ارم بن سام بن نوح ہے۔ اس ''عاد''کے بیٹوں میں ''شداد''بھی ہے۔ یہ بڑی شان و شوکت کا بادشاہ ہوا ہے۔ اس نے اپنے وقت میں تمام بادشاہوں کو اپنے جھنڈے کے نیچے جمع کر کے سب کو اپنا مطیع و فرمانبردار بنا لیا تھا۔ اس نے پیغمبروں کی زبان سے جنت کا ذکر سن کر براہِ سرکشی دنیا میں ایک جنت بنانی چاہی اور اس ارادہ سے ایک بہت بڑا شہر بنایا جس کے محل سونے چاندی کی اینٹوں سے تعمیر کئے گئے اور زبرجد اور یاقوت کے ستون ان کی عمارتوں میں نصب کئے گئے اور ایسے ہی فرش مکانوں میں بنائے گئے۔ سنگریزوں کی جگہ آبدار موتی بچھائے گئے۔ ہر محل کے گرد جواہرات سے پر نہریں جاری کی گئیں۔ قسم قسم کے درخت زینت اور سائے کے لئے لگائے گئے۔ الغرض اُ س سرکش نے اپنے خیال سے جنت کی تمام چیزیں اور ہر قسم کی
"عیش و عشرت کے سامان اس شہر میں جمع کردیئے۔ جب یہ شہر مکمل ہوا تو شداد بادشاہ اپنے اعیان سلطنت کے ساتھ اس کی طرف روانہ ہوا۔ جب ایک منزل کا فاصلہ باقی رہ گیا تو آسمان سے ایک ہولناک آواز آئی جس سے اللہ تعالیٰ نے شداد اور اس کے تمام ساتھیوں کو ہلاک کردیا اور وہ اپنی بنوائی ہوئی جنت کو دیکھ بھی نہ سکا۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دورِ حکومت میں حضرت عبداللہ بن قلابہ اپنے گم شدہ اونٹ کو تلاش کرتے ہوئے صحرائے عدن سے گزر کر اس شہر میں پہنچے اور اس کی تمام زینتو ں اور آرائشوں کو دیکھا مگر وہاں کوئی رہنے بسنے والا انسان نہیں ملا۔ یہ تھوڑے سے جواہرات وہاں سے لے کر چلے آئے۔ جب یہ خبر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوئی تو انہوں نے عبداللہ بن قلابہ کو بلا کر پورا حال دریافت کیا اور انہوں نے جو کچھ دیکھا تھا سب کچھ بیان کردیا۔ پھر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کعب ِ احباررضی اللہ عنہ کو بلا کر دریافت کیا کہ کیا دنیا میں کوئی ایسا شہر موجود ہے تو انہوں نے فرمایا کہ ہاں جس کا ذکر قرآن مجید میں بھی آیا ہے۔ یہ شہر شداد بن عاد نے بنایاتھا لیکن یہ سب عذابِ الٰہی سے ہلاک ہوئے اور اس قوم میں سے کوئی ایک آدمی بھی باقی نہیں رہا اور آپ کے زمانے میں ایک مسلمان جس کی آنکھیں نیلی، قد چھوٹا اور اس کے ابرو پر ایک تل ہو گا، اپنے اونٹ کو تلاش کرتے ہوئے اس ویران شہر میں داخل ہوگا ، اتنے میں عبداللہ بن قلابہ آگئے۔ تو کعب احبار نے ان کو دیکھ کر فرمایا کہ بخدا وہ شخص جو شداد کی بنائی ہوئی جنت کو دیکھے گا، وہ یہی شخص ہے۔"
(فسیر خزائن العرفان ،ص۱۰۷۰۔۱۰۶۹،پ۳۰،الفجر:۸)
قوم عاد اور دوسری سرکش قوموں کا حال بیان کرتے ہوئے قرآن مجید نے ارشاد فرمایا:۔
اَلَمْ تَرَ کَیۡفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِعَادٍ ﴿6﴾۪ۙاِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ ﴿7﴾۪ۙالَّتِیۡ لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُہَا فِی الْبِلَادِ ﴿8﴾۪ۙوَ ثَمُوۡدَ الَّذِیۡنَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ ﴿9﴾۪ۙوَ فِرْعَوْنَ ذِی الْاَوْتَادِ ﴿10﴾۪ۙالَّذِیۡنَ طَغَوْا فِی الْبِلَادِ ﴿11﴾۪ۙفَاَکْثَرُوۡا فِیۡہَا الْفَسَادَ ﴿12﴾۪ۙفَصَبَّ عَلَیۡہِمْ رَبُّکَ سَوْطَ عَذَابٍ ۚ﴿ۙ13﴾ (پ30،الفجر:6۔13)
ترجمہ کنزالایمان:۔کیا تم نے نہ دیکھا تمہارے رب نے عاد کے ساتھ کیسا کیا وہ ارم حد سے زیادہ طول والے کہ ان جیسا شہروں میں پیدا نہ ہوا اور ثمود جنہوں نے وادی میں پتھر کی چٹانیں کاٹیں اور فرعون کہ چومیخا کرتا(سخت سزائیں دیتا) جنہوں نے شہروں میں سرکشی کی پھر ان میں بہت فساد پھیلایا تو ان پر تمہارے رب نے عذاب کا کوڑا بقوت مارا۔
اللہ تعالیٰ کو بندوں کی سرکشی اور تکبر و غرور بے حد ناپسند ہے اس لئے خداوند ِ قدوس کا دستور ہے کہ ہر سرکش اور متکبر قوم جس نے زمین میں اپنی سرکشی اور ظلم و عدوان سے فساد پھیلایا۔ اس قوم کو قہر الٰہی نے کسی نہ کسی عذاب کی صورت میں ظاہر ہو کر ہلاک و برباد کردیا۔ شداد اور قوم عاد کے دوسرے افراد سب اپنی سرکشی اور تکبر کی وجہ سے خدا کے مبغوض ٹھہرے اور جب ان لوگوں کا تمرد اور ظلم و عدوان اس درجہ بڑھ گیا کہ روئے زمین کا ذرہ ذرہ ان کے گناہوں اور بداعمالیوں سے بلبلا اُٹھا تو خداوند ِ قہار و جبار کے عذابوں نے ان سب سرکشوں اور ظالموں کو تباہ و برباد کرکے صفحہ ہستی سے حرف ِ غلط کی طرح مٹا دیا۔ لہٰذا ان قوموں کے عروج و زوال اور ان لوگوں کے عذاب ِ الٰہی سے پامال ہونے کی داستانوں سے عبرت و نصیحت حاصل کرنی چاہے۔ کیونکہ قرآن کریم میں ان اقوام کے انجام کے ذکر کا مقصد ہی یہ ہے کہ اہل قرآن ان کی داستان سن کر عبرت پکڑیں اور خوف ِ الٰہی سے ہر دم لرزہ براندام رہیں۔ مسلمانوں کو لازم ہے کہ قرآن مجید کی بکثرت تلاوت کریں اور اس کا ترجمہ بھی پڑھا کریں اور ان اقوام کی ہلاکت سے عبرت حاصل کریں۔ ہر وقت توبہ و استغفار کرتے رہیں اور ہر قسم کی بداعتقادیوں اور بداعمالیوں سے ہمیشہ بچتے رہیں۔ اعمال صالحہ کی کوشش کرتے رہیں اور مال و دولت کے غرور و گھمنڈ میں سرکشی و تکبر نہ کریں بلکہ ہمیشہ دل میں خوف ِ خدا عزوجل رکھ کر تواضع و انکساری کو اپنی عادت بنائیں اور جہاں تک ہو سکے اپنی زندگی میں اچھے اعمال کرتے رہیں۔
واللہ ھُوَ الموفق۔
یمن و حبشہ کا بادشاہ ''ابرہہ''تھا۔ اُس نے شہر ''صنعاء''میں ایک گرجا گھر بنایا تھا اور اس کی خواہش تھی کہ حج کرنے والے بجائے مکہ مکرمہ کے صنعاء میں آئیں اور اسی گرجا گھر کا طواف کریں اور یہیں حج کا میلہ ہوا کرے۔ عرب خصوصاً قریشیوں کو یہ بات بہت شاق گزری۔ چنانچہ قریش کے قبیلہ بنو کنانہ کے ایک شخص نے آپے سے باہر ہو کر صنعاء کا سفر کیا اور ابرہہ کے گرجا گھر میں داخل ہو کر پیشاب پاخانہ کردیا۔ اور اس کے درو دیوار کو نجاست سے آلودہ کرڈالا۔ اس حرکت پر ابرہہ بادشاہ کو بہت طیش آیا اور اس نے کعبہ معظمہ کو ڈھا دینے کی قسم کھالی۔ اور اس ارادہ سے اپنا لشکر لے کر روانہ ہو گیا۔ اس لشکر میں بہت سے ہاتھی تھے اور ان کا پیش رو ایک بہت بڑا کوہ پیکر ہاتھی تھا جس کا نام محمود تھا۔ ابرہہ نے اپنی فوج لے کر مکہ مکرمہ پر چڑھائی کردی اور اہل مکہ کے سب جانوروں کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ جس میں عبدالمطلب کے اونٹ بھی تھے۔ یہی عبدالمطلب جو ہمارے حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا ہیں، خانہ کعبہ کے متولی اور اہل مکہ کے سردار تھے۔ یہ بہت ہی رعب دار اور نہایت ہی جسیم و باشکوہ آدمی تھے۔ یہ ابرہہ کے پاس آئے، ابرہہ نے ان کی بہت تعظیم کی اور آنے کا مقصد پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ تم میرے اونٹوں کو مجھے واپس دے دو۔ یہ سن کر ابرہہ نے کہا کہ مجھے بڑا تعجب ہو رہا ہے کہ میں تو تمہارے کعبہ کو ڈھانے کے لئے فوج لے کر آیا ہوں جو تمہارا اور تمہارے باپ دادا کا ایک بہت مقدس و محترم مقام ہے۔ آپ نے اس کے بارے میں کچھ بھی مجھ سے نہیں کہا، صرف اپنے اونٹوں کا مطالبہ کررہے ہیں؟ حضرت عبدالمطلب نے فرمایا کہ میں اپنے اونٹوں ہی کا مالک ہوں اس لئے اونٹوں کے لئے کہہ رہا ہوں اور کعبہ کا جو مالک ہے وہ خود اس کی حفاظت فرمائے گا۔ مجھے اس کی کوئی فکر نہیں۔ ابرہہ نے آپ کے اونٹوں کو واپس کردیا۔ پھر آپ نے قریش سے فرمایا کہ تم لوگ پہاڑوں کی گھاٹیوں اور چوٹیوں پر پناہ گزیں
ہوجاؤ۔ چنانچہ قریش نے آپ کے مشورہ پر عمل کیا۔ اس کے بعد حضرت عبدالمطلب نے کعبہ کا دروازہ پکڑ کر بارگاہ ِ الٰہی میں کعبہ کی حفاظت کے لئے خوب رو رو کر دعا مانگی اور دعا سے فارغ ہوکر آپ بھی اپنی قوم کے ساتھ پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئے۔ ابرہہ نے صبح تڑکے اپنے لشکروں کو لے کر کعبہ مقدسہ پر دھاوا بول دینے کا حکم دے دیا اور ہاتھیوں کو چلنے کے لئے اٹھایا لیکن ہاتھیوں کا پیش رو محمود جو سب سے بڑا تھا وہ کعبہ کی طرف نہ چلا جس طرف اس کو چلاتے تھے چلتا تھا مگر کعبہ مکرمہ کی طرف جب اس کو چلاتے تھے تو وہ بیٹھ جاتا تھا۔ اتنے میں اللہ تعالیٰ نے سمندر کی جانب سے پرندوں کا لشکر بھیج دیا اور ہر پرندے کے پاس تین کنکریاں تھیں، دو پنجوں میں اور ایک چونچ میں۔ ابابیلوں کے اس لشکر نے ابرہہ کی فوجوں پر اس زور کی سنگ باری کی کہ ابرہہ کی فوج بدحواس ہو کر بھاگنے لگی۔ مگر کنکریاں گو چھوٹی چھوٹی تھیں لیکن وہ قہر الٰہی کے پتھر تھے کہ پرندے جب ان کنکریوں کو گراتے تو وہ سنگریزے فیل سواروں کے خود کو توڑ کر ،سر سے نکل کر، جسم کو چیر کر، ہاتھی کے بدن کو چھیدتے ہو ئے زمین پر گرتے تھے۔ ہر کنکری پر اس شخص کا نام لکھا تھا جو اس کنکری سے ہلاک کیا گیا۔ اس طرح ابرہہ کا پورا لشکر ہلاک و برباد ہو گیا اور کعبہ معظمہ محفوظ رہ گیا۔ یہ واقعہ جس سال وقوع پذیر ہوا اس سال کو اہل عرب ''عام الفیل''(ہاتھی والا سال)کہنے لگے اور اس واقعہ سے پچاس روز کے بعد حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی۔
(تفسیر خزائن العرفان، ص ۱۰۸۳،پ۳۰، الفیل)
اس واقعہ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان فرماتے ہوئے ایک سورہ نازل فرمائی جس کانام ہی ''سورہ فیل''ہے یعنی
اَلَمْ تَرَ کَیۡفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحٰبِ الْفِیۡلِ ؕ﴿1﴾اَلَمْ یَجْعَلْ کَیۡدَہُمْ فِیۡ تَضْلِیۡلٍ ۙ﴿2﴾وَّ اَرْسَلَ عَلَیۡہِمْ طَیۡرًا اَبَابِیۡلَ ۙ﴿3﴾تَرْمِیۡہِمۡ بِحِجَارَۃٍ مِّنۡ سِجِّیۡلٍ ﴿4﴾۪ۙفَجَعَلَہُمْ کَعَصْفٍ مَّاۡکُوۡلٍ ٪﴿5﴾ (پ30،الفیل:1۔5)
"ترجمہ کنزالایمان:۔اے محبوب کیا تم نے نہ دیکھا تمہارے رب نے ان ہاتھی والوں کا کیا حال کیا، کیا ان کا داؤ ں تباہی میں نہ ڈالا اور ان پر پرندوں کی ٹکڑیاں(فوجیں)بھیجیں کہ انہیں کنکر کے پتھروں سے مارتے تو انہیں کرڈالا جیسے کھائی کھیتی کی پتی(بھوسا)۔
درسِ ہدایت:۔اس سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید کی طرح کعبہ معظمہ کی حفاظت کا ذمہ بھی خداوند ِ قدوس نے اپنے ذمہ کرم پر لے رکھا ہے کہ کوئی طاغوتی طاقت نہ قرآن مجید کو فنا کرسکتی ہے نہ کعبہ کو صفحہ ہستی سے مٹا سکتی ہے کیونکہ خداوند ِ کریم ان دونوں کا محافظ ونگہبان ہے۔"
(واللہ تعالٰی اعلم)
ہجرت کے وقت انتہائی رنجیدگی کے عالم میں حضور تاجدار ِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے یار ِ غار صدیق جاں نثار رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر رات کی تاریکی میں مکہ سے ہجرت فرماکر اپنے وطن عزیز کو خیرباد کہہ دیا تھا اور مکہ سے نکلتے وقت خدا کے مقدس گھر خانہ کعبہ پر ایک حسرت بھری نگاہ ڈال کر یہ فرماتے ہوئے مدینہ روانہ ہوئے تھے کہ ''اے مکہ! خدا کی قسم! تو میری نگاہِ محبت میں تمام دنیا کے شہروں سے زیادہ پیارا ہے۔ اگر میری قوم مجھے نہ نکالتی تو میں ہرگز تجھے نہ چھوڑتا۔''اس وقت کسی کو یہ خیال بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ مکہ کو اس بے سروسامانی کے عالم میں خیرباد کہنے والا صرف آٹھ ہی برس بعد ایک فاتح اعظم کی شان و شوکت کے ساتھ اسی شہر مکہ میں نزولِ اجلال فرمائے گا اور کعبۃ اللہ میں داخل ہو کر اپنے سجدوں کے جمال و جلال سے خدا کے مقدس گھر کی عظمت کو سرفراز فرمائے گا۔ لیکن ہوا یہ کہ اہل مکہ نے صلح حدیبیہ کے معاہدہ کو توڑ ڈالا۔ اور صلح نامہ سے غداری کر کے ''عہد شکنی'' کے مرتکب ہو گئے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حلیف بنو خزاعہ کو مکہ والوں نے بے د ردی کے ساتھ قتل کردیا۔ بے چارے بنو خزاعہ اس ظالمانہ حملے کی تاب نہ لا کر حرم کعبہ میں پناہ لینے کے لئے بھاگے تو ان درندہ صفت
"انسانوں نے حرم الٰہی کے احترام کو بھی خاک میں ملا دیا اور حرم کعبہ میں بھی ظالمانہ طور پر بنو خزاعہ کا خون بہایا۔ اس حملہ میں بنو خزاعہ کے تئیس آدمی قتل ہو گئے۔ اس طرح اہل مکہ نے اپنی اس حرکت سے حدیبیہ کے معاہدہ کو توڑ ڈالا۔ اور یہی فتح مکہ کی تمہید ہوئی۔
چنانچہ ۱۰ رمضان ۸ھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے دس ہزار لشکر پرانوار ساتھ لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ مدینہ سے چلتے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام صحابہ کرام روزہ دار تھے لیکن جب آپ مقام ''کدید'' میں پہنچے تو پانی مانگا اور اپنی سواری پر بیٹھے ہوئے پورے لشکر کو دکھا کر آپ نے پانی نوش فرمایا اور سب کو روزہ چھوڑ دینے کا حکم فرمایا۔ چنانچہ آپ اور آپ کے اصحاب نے سفر اور جہاد میں ہونے کی وجہ سے روزہ رکھنا موقوف کردیا۔"
(بخاری شریف، کتاب المغازی، باب غزوۃ الفتح فی رمضان، رقم ۴۲۷۶، ج۵، ص ۱۴۶)
غرض فاتحانہ شان و شوکت کے ساتھ بانی کعبہ کے جانشین حضور رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے سرزمین مکہ میں نزول اجلال فرمایا اور حکم دیا کہ میرا جھنڈا مقام ''حجون''(جنۃ المعلیٰ) کے پاس گاڑا جائے اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے نام فرمان جاری کردیا کہ وہ فوجوں کے ساتھ مکہ کے بالائی حصہ یعنی ''کدا'' کی طرف سے مکہ میں داخل ہوں۔
(بخاری شریف،کتاب المغازی،باب این رکزالنبی صلی اللہ علیہ وسلم...الخ،رقم۴۲۸۰،ج۵،ص ۱۴۷)
"تاجدارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کی سرزمین میں قدم رکھتے ہی جو پہلا فرمان شاہی جاری فرمایا وہ یہ اعلان تھا کہ جس کے لفظ لفظ میں رحمتوں کے دریا موجیں ماررہے ہیں:
''جو شخص ہتھیار ڈال دے گا اُس کے لئے امان ہے۔ جو شخص اپنا دروازہ بند کر لے گا اُس کے لئے امان ہے جو کعبہ میں داخل ہوجائے گا اس کے لئے امان ہے۔''"
"اس موقع پر حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! ابو سفیان ایک فخر پسند آدمی ہے اس کے لئے کوئی ایسی امتیازی بات فرما دیجئے کہ اس کا سر فخر سے اونچا ہوجائے تو آپ نے فرمایا کہ ''جو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہوجائے اس کے لئے امان ہے۔''
حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب فاتحانہ حیثیت سے مکہ میں داخل ہونے لگے تو آپ اپنی اونٹنی ''قصواء''پر سوار تھے اور آپ ایک سیاہ رنگ کا عمامہ باندھے ہوئے تھے۔ اور بخاری میں ہے کہ آپ کے سر پر ''مغفر''تھا۔ آپ کے ایک جانب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور دوسری جانب اُسید بن حضیر رضی اللہ عنہ تھے اور آپ کے چاروں طرف جوش میں بھرا ہوا ہتھیاروں میں ڈوبا ہوا لشکر تھا جس کے درمیان کوکبہ نبوی تھا۔ اس شاہانہ جلوس کے جاہ و جلال کے باوجود شہنشاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان تواضع کا یہ عالم تھا کہ آپ سورہ فتح کی تلاوت فرماتے ہوئے اس طرح سر جھکائے ہوئے اونٹنی پر بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ کا سر اونٹنی کے پالان سے لگ لگ جاتا تھا۔ آپ کی یہ کیفیت تواضع خداوند ِ قدوس کا شکر ادا کرنے اور اس کی بارگاہ ِ عظمت میں اپنی عجز و نیازمندی کا اظہار کرنے کے لئے تھی۔"
حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب فاتحانہ حیثیت سے مکہ میں داخل ہونے لگے تو آپ اپنی اونٹنی ''قصواء''پر سوار تھے اور آپ ایک سیاہ رنگ کا عمامہ باندھے ہوئے تھے۔ اور بخاری میں ہے کہ آپ کے سر پر ''مغفر''تھا۔ آپ کے ایک جانب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور دوسری جانب اُسید بن حضیر رضی اللہ عنہ تھے اور آپ کے چاروں طرف جوش میں بھرا ہوا ہتھیاروں میں ڈوبا ہوا لشکر تھا جس کے درمیان کوکبہ نبوی تھا۔ اس شاہانہ جلوس کے جاہ و جلال کے باوجود شہنشاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان تواضع کا یہ عالم تھا کہ آپ سورہ فتح کی تلاوت فرماتے ہوئے اس طرح سر جھکائے ہوئے اونٹنی پر بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ کا سر اونٹنی کے پالان سے لگ لگ جاتا تھا۔ آپ کی یہ کیفیت تواضع خداوند ِ قدوس کا شکر ادا کرنے اور اس کی بارگاہ ِ عظمت میں اپنی عجز و نیازمندی کا اظہار کرنے کے لئے تھی۔
(زرقانی، ج ۲،ص ۳۲۰۔ ۳۲۱)
بیت اللہ میں داخلہ:۔پھر آپ اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر اور حضرت اُسامہ بن زید کو اونٹنی کے پیچھے بٹھا کر مسجد حرام کی طرف روانہ ہوئے اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان بن طلحہ حجبی رضی اللہ عنہ کعبہ کے کلید بردار بھی آپ کے ساتھ تھے۔ آپ نے مسجد حرام میں اپنی اونٹنی کو بٹھایا اور کعبہ کا طواف کیا اور حجر ِ اسود کو بوسہ دیا۔
(بخاری شریف، کتاب المغازی، باب دخول النبی صلی اللہ علیہ وسلم من اعلیٰ مکۃ، رقم ۴۲۸۹،ج۵،ص۱۴۸۔۱۴۹)
کعبہ کے اندرونِ حصار تین سو ساٹھ بتوں کی قطار تھی۔ آپ خود بہ نفس نفیس ایک چھڑی لے کر کھڑے ہوئے اور ان بتوں کو چھڑی کی نوک سے ٹھونکے مار مار کر گراتے جاتے تھے۔ اور
''جَآءَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ ''
کی آیت تلاوت فرماتے تھے۔ یعنی حق آگیا اور باطل مٹ گیا اور باطل مٹنے ہی کی چیز تھی۔
(بخاری شریف، کتاب المغازی، باب این رکز النبی صلی اللہ علیہ وسلم الرایۃ یوم الفتح، رقم الحدیث ۴۲۸۷، ج۵، ص ۱۴۸ )
پھر ان بتوں کو جو عین کعبہ کے اندر تھے آپ نے ان سب کو نکالنے کا حکم فرمایا۔ جب تمام بتوں سے کعبہ پاک ہو گیا تو آپ اپنے ساتھ اُسامہ بن زید اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ اور عثمان بن طلحہ حجبی رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر خانہ کعبہ کے اندر تشریف لے گئے اور تمام گوشوں پر تکبیر پڑھی اور دو رکعت نماز بھی پڑھی۔
(بخاری، ج ۱،ص ۲۱۸ و بخاری، ج ۲، ص ۶۱۴)
کعبہ مقدسہ کے اندر سے جب آپ باہر نکلے تو حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ کو بلا کر کعبہ کی کنجی ان کے ہاتھ میں عطا فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ
خُذُوْھَا خَالِدَۃً تَالِدَۃً لاَّیَنْزَعُھَا مِنْکُمْ اِلاَّ ظَالِمُ
(زرقانی، ج ۲، ص ۲۳۹)
"شہنشاہ دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا دربارِعام:۔اس کے بعد حرم الٰہی میں آپ نے سب سے پہلا دربار عام منعقد فرمایا جس میں افواج اسلام کے علاوہ ہزاروں کفار و مشرکین کے عوام و خواص کا ایک زبردست اژدھام تھا۔ اس دربار میں آپ نے ایک خطبہ دیا اور پھر اہل مکہ کو مخاطب کر کے آپ نے فرمایا کہ بولو، تم کو معلوم ہے کہ آج میں تم سے کیا معاملہ کرنے والا ہوں۔
اس دہشت انگیز اور خوفناک سوال سے تمام مجرمین حواس باختہ ہو کر کانپ اٹھے، لیکن جبینِ رحمت کے پیغمبرانہ تیور کو دیکھ کر سب یک زبان ہو کر بولے"
''اَخٌ کَرِیْمٌ وَابْنُ اَخٍ کَرِیْمٍ''
یعنی آپ کرم والے بھائی اور کرم والے باپ کے بیٹے ہیں۔ یہ سن کر فاتح مکہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کریمانہ لہجے میں ارشاد فرمایا کہ:۔
لاَ تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ فَاذْھَبُوْا اَنْتُمُ الطَّلَقَاءُ
آج تم پر کوئی ملامت نہیں۔ جاؤ تم سب آزاد ہو۔
( شرح الزرقانی، باب غزوۃ الفتح الأعظم ،ج۳،ص۴۴۹)
بالکل غیر متوقع طو رپر ایک دم اچانک یہ فرمان رحمت سن کر سب مجرموں کی آنکھیں فرط ِ ندامت سے اشکبار ہو گئیں۔ اور کفار کی زبانوں پر
لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ
کے نعروں سے حرم کعبہ کے در و دیوار پر بارش انوار ہونے لگی۔ مجرموں کی نظر میں ناگہاں ایک عجیب انقلاب برپا ہو گیا کہ سماں ہی بدل گیا۔ فضا ہی پلٹ گئی۔ اور ایک دم ایسا محسوس ہونے لگا کہ
" جہاں تاریک تھا ظلمت کدہ تھا سخت کالا تھا
کوئی پردے سے کیا نکلا گھر گھر اجالا تھا"
اس میں بڑا اختلاف یہ ہے کہ مکہ مکرمہ کون سی تاریخ میں فتح ہوا؟ امام بیہقی نے ۱۳ رمضان ،امام مسلم نے ۱۶ رمضان ،امام احمد نے ۱۸ رمضان بتایا، مگر محمد بن اسحٰق نے اپنے مشائخ کی ایک جماعت سے روایت کرتے ہوئے فرمایا کہ ۲۰ رمضان ۸ ھ کو مکہ فتح ہوا۔
(واللہ تعالیٰ اعلم)
" (شرح الزرقانی، باب غزوۃ الفتح الأعظم ،ج۳،ص۳۹۶۔۳۹۷)"
فتح مکہ کی پیشین گوئیاں اور بشارتیں قرآن کریم کی چند آیتوں میں مذکور ہیں ان میں سے سورہ نصر بھی ہے۔ چنانچہ خداوند ِ کریم نے ارشاد فرمایا:۔
"اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللہِ وَ الْفَتْحُ ۙ﴿1﴾وَ رَاَیۡتَ النَّاسَ یَدْخُلُوۡنَ فِیۡ دِیۡنِ اللہِ اَفْوَاجًا ۙ﴿2﴾فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَ اسْتَغْفِرْہُ ؕؔ اِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًا ٪﴿3﴾
(پ30،النصر:1۔3)"
"ترجمہ کنزالایمان:۔جب اللہ کی مدد اور فتح آئے اور لوگوں کو تم دیکھو کہ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہوتے ہیں تو اپنے رب کی ثناء کرتے ہوئے اس کی پاکی بولو اور اس سے بخشش چاہو بیشک وہ بہت توبہ قبول کرنے والا ہے۔
درسِ ہدایت:۔فتح مکہ کے واقعہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ حضور رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم"
"نے اس موقع پر عفو و درگزر اور رحم و کرم کا جو اعلان و اظہار فرمایا تاریخ عالم میں کسی فاتح کی زندگی میں اس کی مثال نہیں مل سکتی۔
غور فرمایئے کہ اشرافِ قریش کے ان ظالموں اور جفاکاروں میں وہ لوگ بھی تھے جو بارہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھر کی بارش کرچکے تھے ، وہ خونخوار بھی تھے جنہوں نے بارہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قاتلانہ حملے کئے تھے، وہ بے رحم و بے درد بھی تھے جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک کو شہید، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ انور کو لہولہان کرڈالا تھا۔ وہ اوباش بھی تھے جو برسہا برس تک اپنی بہتان تراشیوں اور شرمناک گالیوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک کو زخمی کرچکے تھے۔ وہ سفاک اور درندہ صفت بھی تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گلے میں چادر کا پھندا ڈال کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گلا گھونٹ چکے تھے۔ وہ ظلم و ستم کے مجسمے، اور پاپ کے پتلے بھی تھے، جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو نیزہ مار کر اونٹ سے گرا دیا تھا اور ان کا حمل ساقط ہو گیا تھا۔ وہ جفاکار و خونخوار بھی تھے جن کے جارحانہ حملوں اور ظالمانہ یلغار سے بار بار مدینہ کے در و دیوار ہل چکے تھے۔ وہ ستم گار بھی تھے جنہوں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیارے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو قتل کیا اور اُن کی ناک کان کاٹنے والے، ان کی آنکھیں پھوڑنے والے، ان کا جگر چبانے والے بھی اس مجمع میں موجود تھے۔ وہ بے رحم بھی تھے جنہوں نے شمع نبوت کے جاں نثار پر وانوں حضرت بلال، حضرت صہیب، حضرت عمار، حضرت خباب، حضرت خبیب، حضرت زید بن دشنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو رسیوں سے باندھ باندھ کر کوڑے مار مار کر جلتی ریتوں پر لٹایا تھا، کسی کو آگ کے دہکتے ہوئے کوئلوں پر سلایا تھا، کسی کو سولی پر لٹکا کر شہید کردیا تھا۔ یہ تمام جور و جفا اور ظلم و ستم گاری کے پیکر ،جن کے جسم کے رونگٹے رونگٹے اور بدن کے بال بال، ظلم و عدوان اور سرکشی و طغیان کے وبال سے شرمناک مظالم اور خوفناک جرموں کے پہاڑ بن"
"چکے تھے، آج یہ سب کے سب دس بارہ ہزار مہاجرین و انصار کے لشکر کی حراست میں مجرم بنے ہوئے کھڑے کانپ رہے تھے اور اپنے دلوں میں یہ سوچ رہے تھے کہ شاید آج ہماری لاشوں کو کتوں سے نچوا کر ہماری بوٹیاں چیلوں اور کوؤں کو کھلا دی جائیں گی اور انصار و مہاجرین کی غضب ناک فوجیں ہمارے بچے بچے کو خاک و خون میں ملا کر ہماری نسلوں کو نیست و نابود کر ڈالیں گی اور ہماری بستیوں کو تاخت و تاراج کر کے تہس نہس کردیں گی ،مگر ان سب مجرمین کو رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر معاف فرما دیا کہ انتقام تو کیسا؟ بدلا تو کہاں کا؟ آج تم پر کوئی ملامت بھی نہیں۔ اے آسمان بول! اے زمین بتا! اے چاند و سورج تم بولو! کیا تم نے روئے زمین پر ایسا فاتح اور رحم دل شہنشاہ کبھی دیکھا ہے؟ یا کبھی سنا ہے؟ سن لو تمہارے پاس اس کے سوا کوئی جواب نہیں ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سوا اور کوئی فاتح نہ ہوا ہے نہ ہوگا۔ کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہر کمال میں بے مثل و بے مثال ہیں۔
مسلمانو!یہ ہے ہمارے حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوئہ حسنہ اور سیرت مبارکہ۔ لہٰذا ہم مسلمانوں پر لازم ہے کہ اپنے پیارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوئہ حسنہ اور سیرت مقدسہ پر عمل کرتے ہوئے اپنے دشمنوں سے بدلہ اور انتقام لینے کا جذبہ اپنے دل سے نکال کر اپنے دشمنوں کو درگزر کرنے اور معاف کردینے کی کوشش کریں۔ کیونکہ لوگوں کی تقصیرات اور خطاؤں کو معاف کردینا، یہ ہمارے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی ہے اور یہی امت کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم بھی ہے۔ جیسا کہ آپ گزشتہ صفحات میں یہ حدیث پڑھ چکے ہیں کہ"
''صِلْ مَنْ قَطَعَکَ وَاعْفُ عَمَّنْ ظَلَمَکَ وَاَحْسِنْ اِلٰی مَنْ اَسَاءَ کَ''
یعنی جو تم سے تعلق کاٹے تم اس سے میل ملاپ رکھو اور جو تم پر ظلم کرے اس کو معاف کردیا کرو اور جو تمہارے ساتھ بدسلوکی کرے تم اس کے ساتھ احسان اور اچھا سلوک کرو اور قرآن مجید میں بھی عفوِتقصیر اور دشمنوں سے درگزر کردینے والوں کے بڑے بڑے درجات و مراتب بیان کئے گئے
ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
''وَالْعَافِیۡنَ عَنِ النَّاسِ '' (پ4،اٰل عمران:134)
یعنی لوگوں کی خطاؤں کو معاف کردینے والے اللہ تعالیٰ کے محبوب بندے ہیں اور بڑے درجات والے ہیں۔ خداوند کریم ہر مسلمان کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوئہ حسنہ اور سیرت مبارکہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
"روایت ہے کہ لبید بن اعصم یہودی اور اس کی بیٹیوں نے حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کردیا تھا جس کا اثر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک پر نمودار ہوا۔ لیکن آپ کے قلب اور عقل و اعتقاد پر کچھ بھی اثر نہیں ہو سکا۔ چند روز کے بعد حضرت جبریل علیہ السلام حاضر خدمت ہوئے اور انہوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک یہودی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کردیا ہے اور جادو کا جو کچھ سامان ہے وہ فلاں کنوئیں میں ایک پتھر کے نیچے دبا دیا گیا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا۔ انہوں نے کنوئیں کا پانی نکال کر پتھر اٹھایا تو اس کے نیچے سے کھجور کے گابھے کی تھیلی برآمد ہوئی۔ اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک جو کنگھی سے ٹوٹے تھے اور کنگھی کے ٹوٹے ہوئے کچھ دندانے اور ایک ڈوریا کمان کا چلہ جس میں گیارہ گرہیں لگی ہوئی تھیں اور ایک موم کا پُتلاجس میں گیارہ سوئیاں چبھی تھیں۔ یہ سب سامان پتھر کے نیچے سے نکلا اور یہ سب سامان حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا۔
اس کے بعد قرآن مجید کی دونوں سورتیں"
''قل اعوذبرب الفلق''
اور
''قل اعوذ برب الناس''
نازل ہوئیں۔ ان دونوں سورتوں میں گیارہ آیتیں ہیں۔ ہر ایک آیت کے پڑھنے سے ایک ایک گرہ کھلتی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ سب گرہیں کھل گئیں اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
بالکل شفایاب ہو گئے۔
(تفسیر خزائن العرفان،ص۱۰۹۸)
"اور جادو کا سارا سامان زیر زمین دفن کردیا گیا۔
درسِ ہدایت:۔تعویذات اور عملیات جس میں کوئی لفظ کفر و شرک کا نہ ہو جائز ہیں۔ اسی طرح گنڈے بنانا اور ان پر گرہیں لگا کر آیات قرآن اور اسماء الٰہیہ پڑھ کر پھونک مارنا بھی جائز ہے۔ جمہور صحابہ اور تابعین اسی پر ہیں ،اور حدیثِ عائشہ رضی اللہ عنہا میں ہے کہ جب حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں میں سے کوئی بیمار ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں سورتوں کو پڑھ کر اس پر دم فرماتے تھے ۔"
(تفسیر خزائن العرفان ، ص۷۶۳،پ۳۰،الفلق:۴)
اور بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو جب بستر مبارک پر تشریف لاتے تو اپنے دونوں ہاتھوں پر دم فرمایا کرتے اور اپنے سر سے پاؤں تک پورے جسم مبارک پر اپنے دونوں ہاتھوں کو پھرایا کرتے تھے جہاں تک دست مبارک پہنچ سکتے، یہ عمل تین مرتبہ فرماتے۔
(تفسیر خزائن العرفان ، ص۷۶۳،پ۳۰،الناس:۶)
خلاصہ یہ ہے کہ
''قل اعوذبرب الفلق ''
اور
''قل اعوذ برب الناس ''،
یہ دونوں سورتیں جن و شیاطین اور نظر بد و آسیب اور تمام امراض خصوصاً جادو ٹونے کا مجرب علاج ہیں۔ ان کو لکھ کر تعویذ بنائیں اور گلے میں پہنائیں۔ اور ان کو بار بار پڑھ کر مریض پردم کریں اور کھانے پانی اور دواؤں پر پڑھ کر پھونک ماریں اور مریض کو کھلائیں پلائیں۔ ان شاء اللہ تعالیٰ ہر مرض خصوصاً جادو ٹونا دفع ہو جائے گا اور مریض شفایاب ہوجائے گا۔ اسی طرح قرآن مجید کی دوسری تمام سورتوں کے خصوصی خواص ہیں جن کو ہم نے اپنی کتاب ''جنتی زیور'' میں تفصیل کے ساتھ تحریر کردیا ہے اور ان اعمال کی ہر سنی مسلمان پابند شریعت کو ہم نے اجازت بھی دے دی ہے۔ لہٰذا سنی مسلمانوں کو چاہے کہ وہ ان اعمال قرآنی کے فوائد و منافع سے خود بھی فیض یاب ہوں اور دوسرے لوگوں کو بھی فائدہ پہنچائیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ
''خَیْرُ النَّاسِ
مَنْ یَنْفَعُ النَّاسَ''
(کشف الخفاء ومزیل الالباس ،ج۱،ص۳۴۸،رقم الحدیث ۱۲۵۲)
یعنی بہترین آدمی وہ ہے جو لوگوں کو نفع پہنچائے۔
واللہ تعالٰی اعلم۔
"قُلْ اَعُوۡذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ۙ﴿1﴾مِنۡ شَرِّ مَا خَلَقَ ۙ﴿2﴾وَ مِنۡ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ ۙ﴿3﴾وَ مِنۡ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِ ۙ﴿4﴾وَ مِنۡ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ ٪﴿5﴾
(پ30،الفلق:1۔5)"
ترجمہ کنزالایمان:۔تم فرماؤ میں اس کی پناہ لیتا ہوں جو صبح کا پیدا کرنے والا ہے اس کی سب مخلوق کی شر سے اور اندھیری ڈالنے والے کے شر سے جب وہ ڈوبے اور اُن عورتوں کے شر سے جو گرہوں میں پھونکتی ہیں اور حسد والے کے شر سے جب وہ مجھ سے جلے۔
قُلْ اَعُوۡذُ بِرَبِّ النَّاسِ ۙ﴿1﴾مَلِکِ النَّاسِ ۙ﴿2﴾اِلٰہِ النَّاسِ ۙ﴿3﴾مِنۡ شَرِّ الْوَسْوَاسِ ۬ۙ الْخَنَّاسِ﴿4﴾۪ۙالَّذِیۡ یُوَسْوِسُ فِیۡ صُدُوۡرِ النَّاسِ ۙ﴿5﴾مِنَ الْجِنَّۃِ وَ النَّاسِ ٪﴿6﴾ (پ30،النّاس:1۔6)
ترجمہ کنزالایمان:۔تم کہو میں اس کی پناہ میں آیا جو سب لوگوں کا رب سب لوگوں کا بادشاہ سب لوگوں کا خدا اس کے شر سے جو دل میں بڑے خطرے ڈالے اور دبک رہے وہ جو لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتے ہیں جن اور آدمی۔
حضرت علامہ محمد بن سماک علیہ الرحمۃ بہت جلیل القدر محدث اور باکرامت ولی تھے۔ ایک مرتبہ یہ بہت سخت بیمار ہو گئے تو ان کے متوسلین ان کا قارورہ لے کر ایک نصرانی طبیب کے پاس چلے۔ راستے میں ان لوگوں کو ایک بہت ہی خوش پوشاک بزرگ ملے جن کے بدن سے بہترین خوشبو آرہی تھی۔ انہوں نے فرمایا کہ تم لوگ کہاں جا رہے ہو؟ ان لوگوں نے کہا کہ حضرت محمد بن سماک علیہ الرحمۃ بہت سخت علیل ہیں یہ اُن کا قارورہ ہے جس کو ہم فلاں طبیب
کے پاس لے جا رہے ہیں۔ یہ سن کر ان بزرگ نے فرمایا کہ سبحان اللہ!ایک اللہ عزوجل کے ولی کے لئے تم لوگ ایک اللہ عزوجل کے دشمن سے مدد طلب کررہے ہو؟ قارورہ پھینک کر واپس جاؤ اور محمد بن سماک علیہ الرحمۃ سے کہہ دو کہ مقام درد پر
وَ بِالْحَقِّ اَنۡزَلْنٰہُ وَ بِالْحَقِّ نَزَلَ ؕ (پ15،بنی اسرآئیل:105)
"پڑھ کر دم کریں۔
یہ فرما کر بزرگ غائب ہو گئے اور لوگوں نے واپس ہو کر حضرت محمد سماک علیہ الرحمۃ سے ذکر کیا تو آپ نے مقام درد پر ہاتھ رکھ کر آیت کے ان دونوں جملوں کو پڑھا تو فوراً ہی آرام ہو گیا۔ پھر حضرت محمد بن سماک علیہ الرحمۃ نے لوگوں سے فرمایا کہ وہ بزرگ جنہوں نے تم لوگوں کو یہ وظیفہ بتایا، تمہیں یہ خبر ہے کہ وہ کون بزرگ تھے؟ لوگوں نے کہا کہ جی نہیں۔ ہم لوگوں نے انہیں نہیں پہچانا۔ تو حضرت محمد بن سماک علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ وہ بزرگ حضرت خضر علیہ السلام تھے۔"
(تفسیر مدارک التنزیل، ج۳، ص ۱۹۵، پ ۱۵،بنی اسرائیل :۱۰۵)
قرآن مجید کی آیت کا اتنا سا ٹکڑا ہر مرض کی مکمل دوا اور مجرب علاج ہے۔ مرض کی جگہ پر ہاتھ رکھ کر پڑھ دیا جائے تو بیماری دور ہوجاتی ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ پڑھنے والا پابند شریعت اور صدق مقال و رزق حلال پر کاربند ہو۔ بلاشبہ یہ آیت شفاء امراض کے لئے قرآن مجید کے عجائب میں سے ہے۔
"واللہ تعالیٰ اعلم۔
وَصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہٖ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ اَجْمَعِیْنَ"