Pages
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ
"اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ؕ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ؕ''"
" یہ زمانہ جس پُرخطر دور سے گزر رہا ہے وہ سب پر ظاہر ہے کہیں الحاد و بے دینی کی ہوائیں چل رہے ہیں کہیں دیو بند یت ، مرزائیت کی آندھیاں اٹھ رہی ہیں ، ہر رو ز نئے نئے فرقے جنم لے رہی ہیں اور ہر فرقہ بغل میں قرآن دبا کر ہی دام فریب میں مبتلا کر نا چاہتا ہے جس کو دیکھو قرآن سنا سنا کر اپنی سچائی کااعلان کر رہا ہے ۔ جاہل سے جاہل بھی اپنے کو علامہ زمان سمجھ کر اکابرین اسلام بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی ذات بابرکات پر بھی زبان طعن دراز کرنے سے نہیں چُوکتا اور اپنے مقصد کیلئے قرآن کریم ہی کوپیش کرکے بھولے بھالے مسلمانوں کو گمراہ کرنے میں کوشاں ہے اور تر جمہ قرآن کی آڑ میں بے دینی پھیلا رہا ہے یہی وہ زمانہ ہے جس کے بارے میں نبی کریم سرورِ کائنا ت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ'' مسلمان کے لئے اس وقت زمین کی پیٹھ سے زمین کا پیٹ بہتر ہے خوش قسمت ہے وہ شخص جو اس زمانے میں دین سلامت لے گیا۔'' (حدیث)
مسلمانو! دین اسلام بہت بڑی دولت ہے اس کی حفاظت بہت ہی ضروری ہے۔ مفسر قرآن حضرت حکیم الامت مفتی احمد یار خاں صاحب قبلہ نے مسلمانوں کو ترجمہ قرآن پڑھنے کیلئے اور فتنے سے بچانے کے لئے یہ کتا ب تصنیف فرمائی ہے تا کہ اس کو پڑھ کر مسلمان قرآن کی صحیح فہم حاصل کرسکیں ۔ اس کتاب میں قرآن کی اصطلاحیں قرآن کے قواعد اور قرآنی مسائل اس عمدہ طریقے سے بیان کئے گئے ہیں کہ جن سے ترجمہ قرآن بہت آسان ہوجاتا ہے ۔
صاحبزادہ اقتدار احمد خاں مفتی دار العلوم مدرسہ غوثیہ نعیمیہ گجرات ۔"
"بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنْ کَانَ نَبِیًّا وَّاٰدَمُ بَیْنَ الْمَاءِ وَالطِّیْنِ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَعَلٰی اٰلِہِ الطَّیِّبِیْنَ وَاَصْحَابِہِ الطَّاھِرِیْنَ اِلٰی یَوْمِ الدِّیْنِ"
آج سے پچاس سال پہلے مسلمانوں کا یہ طریقہ تھا کہ عام مسلمان قرآن کریم کی تلاوت محض ثواب کی غرض سے کرتے تھے اور روزانہ کے ضروری مسائل پاکی پلیدی، روزہ نمازکے احکام میں بہت محنت اورکوشش کرتے تھے۔عام مسلمان قرآن شریف کا ترجمہ کرتے ہوئے ڈرتے تھے وہ سمجھتے تھے کہ یہ دریا ناپیدا کنارہے ۔ اس میں غوطہ وہی لگائے جو اس کا شنا ور ہو ،بے جانے بوجھے دریا میں کودنا جان سے ہاتھ دھونا ہے اور بے علم وفہم کے قرآن شریف کے ترجمہ کو ہاتھ لگانا اپنے ایمان کو بر باد کرنا ہے نیز ہر مسلمان کا خیال تھا کہ قرآن شریف کے ترجمہ کا سوال ہم سے نہ قبر میں ہوگا نہ حشر میں۔ ہم سے سوال عبادات ، معاملات کا ہوگا اسے کوشش سے حاصل کرو یہ تو عوام کی روش تھی رہے علماء کرام اور فضلائے عظام ، ان کا طریقہ یہ تھا کہ قرآن کریم کے ترجمہ کے لئے قریباً اکیس علوم میں محنت کرتے تھے مثلا صرف ، نحو ، معانی، بیان ، بدیع ، ادب ، لغت، منطق ، فلسفہ ، حساب ، جیومیڑی ، فقہ ،تفسیر ، حدیث ، کلام ، جغرافیہ ، تواریخ اور تصوف ، اصول وغیرہ ۔ ان علوم میں اپنی عمر کا کافی حصہ صرف کرتے تھے ۔ جب نہا یت جانفشانی اور عرق ریزی سے ان علوم میں پوری مہارت حاصل کرلیتے تب قرآن شریف کے ترجمہ کی طرف تو جہ کرتے پھر بھی اتنی احتیاط سے کہ آیات متشابہات کو ہاتھ نہ لگاتے تھے کیونکہ اس قسم کی آیتیں رب تعالیٰ اور اس کے محبو ب صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان راز ونیاز ہیں، اغیار کو یا ر کے معاملہ میں دخل دینا روا نہیں ؎
"میان طالب و مطلوب رمز یست! کراما کاتبیں راہم خبر نیست!"
" رہیں آیات محکمات ان کے ترجمہ میں کو شش تو کرتے مگر گزشتہ سارے علوم کا لحاظ رکھتے ہوئے مفسرین ، محدثین ، فقہاکے فرمان پر نظر کرتے ہوئے پھر بھی پوری کوشش کرنے کے باوجود قرآن کریم کے سامنے اپنے کو طفل مکتب جانتے تھے ۔
اس طریقہ کار کافائدہ یہ تھا کہ مسلمان بد مذہبی ، لا دینی کا شکار نہ ہوتے تھے وہ جانتے بھی نہ تھے کہ قادیانی کس بلا کانام ہے او ردیوبندی کہا ں کا بھوت ہے۔ غیر مقلدیت، نیچریت کس آفت کو کہتے ہیں۔چکڑالوی کس جانور کا نام ہے ۔ علماء کے وعظ خوف خدا عظمت و ہیبت حضور محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ، مسائل دینیہ اور علمی معلومات سے بھرے ہوتے تھے وعظ سننے والے وعظ سن کر مسائل ایسے یاد کرتے تھے جیسے آج طالب علم سبق پڑھکر تکرار کرتے ہیں کہ آج مولوی صاحب نے فلاں فلاں مسئلہ بیان فرمایا ہے غرضیکہ عجیب نوری زمانہ تھا اور عجب نورانی لوگ تھے ۔
اچانک زمانہ کا رنگ بدلا، ہوا کے رخ میں تبدیلی ہوئی بعض نادان دوستوں اور دوست نمادشمنوں نے عام مسلمانوں میں ترجمہ قرآن کرنے اور سیکھنے کا جذبہ پیدا کیا اور عوام کو سمجھا یا کہ قرآن عوام ہی کی ہدایت کے لئے آیا ہے اس کا سمجھنا بہت سہل ہے ۔ ہر شخص اپنی عقل وسمجھ سے ترجمہ کرے اور احکام نکالے اس کے لئے کسی علم کی ضرورت نہیں ۔ عوام میں یہ خیال یہاں تک پھیلایا کہ لوگو ں نے قرآن کو معمولی کتاب اور قرآن والے محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو معمولی بشر سمجھ کر قرآن کے ترجمے بے دھڑک شرو ع کردیئے اور نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے کمالات کاانکار بلکہ اس ذات"
"کریم سے برابر ی کا دعوی شرو ع کردیا ۔
اب عوام جہلا یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ خواندہ ، ناخواندہ ، انگریزی تعلیم یافتہ لغت کی تھوڑی باتیں یاد کر کے بڑے دعوے سے قرآن کا ترجمہ کر رہا ہے اور جو کچھ اس کی ناقص سمجھ میں آتا ہے اسے وحی الٰہی سمجھتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہو اکہ مسلمانوں میں روزانہ نئے نئے فرقے پیدا ہورہے ہیں جو ایک دوسرے کو کافر، مشرک، مرتد اور خارج از اسلام سمجھتے ہیں ۔
لطیفہ:
ایک اردوا سکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب نے دوران تقریر کہا کہ جس کو قرآن کا ترجمہ نہ آتا ہو وہ نمازہی نہ پڑھے کہ جب عرضی دینے والے کو یہ خبر ہی نہیں کہ درخواست میں کیا لکھا ہے تو درخواست ہی بیکار ہے میں نے کہا کہ پھر عربی زبان میں نماز پڑھنے کی کیا ضرورت ہے موجودہ انجیلوں کی طر ح قرآن کے اردوترجمے اور اردو خلاصے بنالو ،اس میں نماز پڑھ لیا کر و،رب تعالیٰ اردو جانتا ہے۔ اس پر وہ خاموش ہوگئے ۔
آج ہربد مذہب ہر شخص کو قرآن کی طر ف بلا رہا ہے کہ آؤ میرا دین قرآن سے ثابت ہے اسی پر فتن زمانہ کی خبر حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے دی تھی ۔ اور ایسے دجالوں کا ذکر سر کار نے فرمایا تھا:"
یَدْعُوْنَ اِلٰی کِتَابِ اللہِ
وہ گمراہ گر وہ ہر ایک کو قرآن کی طرف بلائے گا ۔
(سنن ابی داود،کتاب السنۃ،باب فی قتال الخوارج،الحدیث۴۷۶۵،ج۴،ص۳۲۰، دار احیاء التراث العربی بیروت)
رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
وَالَّذِیۡنَ اِذَا ذُکِّرُوۡا بِاٰیٰتِ رَبِّہِمْ لَمْ یَخِرُّوۡا عَلَیۡہَا صُمًّا وَّ عُمْیَانًا ﴿۷۳﴾
"مسلمان اللہ تعالیٰ کی آیتو ں پر گو نگے اندھے ہو کر نہیں گر پڑتے ۔(پ19،الفرقان:73)
کانپور میں ایک بد مذہب پیدا ہوا، مسمی عزیز احمد حسرت شاہ جس نے ماہوار رسالہ'' شحنہ شریعت''جاری کیا ۔ اس میں بالا لتزام لکھتا تھا کہ سارے نبی پہلے مشرک تھے، گنہگار تھے، معا ذ اللہ بدکر دار تھے، پھر تو بہ کر کے اچھے بنے اور حسب ذیل آیات سے دلیل پکڑتا تھا کہ رب تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:"
وَعَصٰۤی اٰدَمُ رَبَّہٗ فَغَوٰی ﴿۱۲۱﴾
آدم علیہ السلام نے رب کی نافرمانی کی لہٰذا گمراہ ہوگئے ۔ (پ۱۶،طٰہٰ:۱۲۱) حضور علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:
وَ وَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی ۪﴿۷﴾
یعنی رب نے تمہیں گمراہ پایا تو ہدایت دی۔(پ۳۰،الضحی:۷) حضر ت ابراہیم علیہ السلام نے چاند ، ستارے، سورج کو اپنا رب کہا ،یہ شرک ہے ۔
فَلَمَّا رَاَ الشَّمْسَ بَازِغَۃً قَالَ ہٰذَا رَبِّیْ (پ 7،الانعام78)
حضرت آدم وحوا کے بارے میں فرمایا :
جَعَا لَہ، شُرَکَآءَ فِیْمَآ اٰتٰہُمَا
ان دونوں نے اپنے بچہ میں رب کا شریک ٹھہرایا۔ (پ۹،الاعراف:۱۹۰) یوسف علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:
وَلَقَدْ ہَمَّتْ بِہٖ ۚ وَہَمَّ بِہَا لَوْلَاۤ اَنۡ رَّاٰبُرْہَانَ رَبِّہٖ ؕ (پ 12،یوسف:24)
یقینا زلیخا نے یوسف اور یوسف نے زلیخا کا قصد کرلیا اگر رب کی بر ہان نہ دیکھتے تو زنا کر بیٹھتے پھر لکھا کہ غیر عورت کو نظر بد سے دیکھنا اور برا ارادہ کرنا کتنا بر اکام ہے جو یوسف علیہ السلام سے سرزد ہو ا۔داؤد علیہ السلام نے اوریا کی بیوی پر نظر کی اور اوریا کو قتل کروا دیا ۔ یہا ں تک بکواس کی کہ آدم علیہ السلام اور ابلیس دونوں سے گناہ بھی ایک ہی طر ح کا ہوا اور سزا بھی یکساں ملی کہ ابلیس سے کہا
گیا:
فَاخْرُجْ مِنْہَا فَاِنَّکَ رَجِیۡمٌ ﴿ۙ۳۴﴾
تو جنت سے نکل جا تو مردود ہے ۔(پ۱۴،الحجر:۳۴) آدم علیہ السلام سے کہا گیا :
قُلْنَا اہۡبِطُوۡا مِنْہَا جَمِیۡعًا ۚ
ہم نے کہا کہ تم یہاں سے نکل جاؤ۔ (پ۱،البقرۃ:۳۸) غرضیکہ دو نوں کو دیس نکالے کی سزادی ہاں پھر آدم علیہ السلام نے تو بہ کرلی اور ابلیس نے توبہ نہ کی ۔ میں نے اس مرتد کو بہت سے جوابات دیئے مگر وہ یہ ہی کہتا رہا کہ میں قرآن پیش کر رہا ہوں کسی بزرگ ، عالم ،صوفی کے قول یا حدیث ماننے کو تیار نہیں ۔ آخر کار میں نے اسے کہا کہ بتا رب تعالیٰ بھی بے عیب ہے کہ نہیں؟بولا:ہاں!وہ بالکل بے عیب ہے،میں نے کہا کہ قرآن مجید میں ہے کہ خدا میں عیب بھی ہیں اور خدا چند ہیں۔خدا کے دادا بھی ہیں ۔ چنانچہ فرمایا ہے:
وَمَکَرُوۡا وَمَکَرَ اللہُ ؕ وَاللہُ خَیۡرُ الْمٰکِرِیۡنَ ﴿٪۵۴﴾
کفار نے فریب کیا اور خدا نے فریب کیا خدا اچھا فریب کرنے والا ہے ۔(پ۳،اٰل عمرٰن:۵۴) معا ذ اللہ ! دو سرے مقام پر فرماتا ہے:
یُخٰدِعُوۡنَ اللہَ وَہُوَ خَادِعُہُمْ ۚ
یہ خدا کو دھوکا دیتے ہیں اور خدا انہیں دھوکادیتا ہے (پ۵،النساء:۱۴۲)۔ دیکھو دھوکا ، فریب دہی، نمبر ۱۰ کے عیب ہیں مگر قرآن میں خدا کے لئے ثابت ہیں۔ اور فرماتا ہے :
وَاَنَّہ، تَعٰلٰی جَدُّ رَبِّنَا
ہمارے رب کا دادا بڑا خاندانی ہے ۔ (پ۲۹،الجن:۳) خدا کا دادا ثابت ہوا ۔اور فرماتا ہے:
فَتَبٰرَکَ اللہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیۡنَ ﴿ؕ۱۴﴾
اللہ برکت والا ہے جو تمام خالقوں سے اچھا ہے۔ (پ۱۸،المؤمنون:۱۴) معلوم ہوا کہ خالق بہت سے ہیں۔جب ترجمہ لفظی پر ہی معاملہ ہے تو اب رب کے لئے کیاکہے گا؟تب وہ خاموش ہواہم نے اس سے جو گفتگو کی وہ اپنی کتاب '' قہر کبریا بر منکرین عصمت انبیاء '' میں لکھ دی ہے جو جاء الحق کے ساتھ بطور ضمیمہ شائع ہوچکی ہے۔ دیکھا آپ نے ان اندھا دھند ترجموں کا یہ نتیجہ ہے۔
مرزا غلام احمد قادیانی نے دعوی نبوت کیا او راپنی نبوت کے ثبوت میں قرآن ہی کو پیش کیا ، کہا کہ قرآن کہتا ہے:
اَللہُ یَصْطَفِیۡ مِنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ رُسُلًا وَّ مِنَ النَّاسِ ؕ
اللہ تعالیٰ فرشتو ں اور انسانوں میں سے رسول پیغمبر چنتارہے گا(پ۱۷،الحج:۷۵) ۔ معلوم ہوا کہ پیغمبر، رسول آتے ہی رہیں گے وغیرہ وغیر ہ ۔غرضیکہ اندھا دھند ترجمے بے ایمانی کی جڑ ہیں۔ آنکھوں پر پٹی باند ھ لو جوچاہو بکواس کرو ا ور قرآن سے ثابت کر دو ۔ ابھی حال ہی میں ایک کتاب میری نظر سے گزری ہے '' جواہر القرآن''جو کسی ملحد غلام اللہ خاں (اللہ کے غلام) نے لکھی ہے اس میں بھی اندھا دھند ترجمہ کیا گیا ہے بتو ں کی آیات پیغمبر وں پر، کفار کی آیتیں مسلمانوں پر بے دھڑک چسپاں کر کے مصنف نے یہ ثابت کرنے کی کو شش کی ہے کہ دنیا بھر کے علماء، صوفیاء، مومنین اور صالحین مشرک تھے اور مسلمان موحد صرف میں ہی ہوں یا میری ذریت ۔ بخاری شریف جلد دوم میں باب باندھا ہے ۔
بَابُ الْخَوَارِجِ وَالْمُلْحِدِیْنَ
خارجیوں اور بے دینوں کا باب وہاں ترجمہ باب میں فرمایا
وَکَانَ ابْنُ عُمَرَ یَرَا ھُمْ شِرَارُخَلْقِ اللہِ وَقَالَ اِنَّہُمْ اِنْطَلَقُوْا اِلٰی اٰیَاتٍ نُزِلَتْ فِی الْکُفَّارِفَجَعَلُوْھَا عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ
عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما ان خارجیوں،ملحدوں کو اللہ کی مخلوق میں بد تر سمجھتے تھے اور فرماتے تھے کہ ان بے دینوں نے ان آیتو ں کو جو کفار کے حق میں نازل ہوئیں مسلمانوں پر چسپاں کیا ۔
(صحیح ا لبخاری،کتاب استتا بۃ ا لمرتدین...ا لخ،تحت الباب قتل الخوارج والملحدین...الخ، ج۴،ص۳۸۰،دار الکتب العلمیۃ بیروت)
یہ ہی طریقہ اس ملحد نے اختیار کیا ہے۔ غرضیکہ ترجمہ قرآن بے دھڑک کرنا ہی ایسی بڑی بیماری ہے جس کا انجام ایمان کا صفایا ہے ۔
" قرآن شریف عربی زبان میں اتر ا ،عربی زبان نہایت گہر ی زبان ہے ۔ اولاً توعربی زبان میں ایک لفظ کے کئی معنے آتے ہیں جیسے لفظ ''ولی'' کہ اس کے معنی ہیں دو ست، قریب،مددگار،معبود،ہادی،وارث، والی،اورقرآن میں یہ لفظ ہر معنے میں استعمال ہوا ہے ۔ اب اگر ایک مقام کے معنی دوسرے مقام پر جڑ دیئے جائیں تو بہت جگہ کفر لازم آجاوے گا پھر ایک ہی لفظ ایک معنی میں مختلف لفظوں کے ساتھ ملکر مختلف مضامین پیدا کرتا ہے مثلاً شہادت بمعنی گواہی اگر''عَلٰی'' کے ساتھ آئے تو خلاف گواہی بتاتا ہے اور اگر'' لام'' کے ساتھ آئے توموافق گواہی کے معنی دیتا ہے ۔ لفظ''قَالَ'' بمعنی کہا ۔ اگر ''لام'' کے ساتھ آوے تو معنی ہوں گے اس سے کہا۔ اگر ''فِیْ'' کے ساتھ آوے تو معنی ہوں گے اس کے بارے میں کہا ۔ اگر''مِنْ''کے ساتھ آوے تو معنی ہوں گے اس کی طر ف سے کہا ، ایسے ہی ''دعا''کہ قرآن میں اس کے معنی پکارنا ، بلانا ، مانگنا اور پوجنا ہیں۔جب مانگنے او ر دعا کرنے کے معنی میں ہو تو اگر'' لام'' کے ساتھ آوے گا تو اس کے معنی ہوں گے اسے دعا دی اور جب''عَلٰی'' کے ساتھ آوے تو معنی ہونگے اسے بد دعا دی ۔
ا سی طر ح عربی میں لام ،مِنْ،عَنْ، ب، سب کے معنی ہیں ''سے'' لیکن ان کے موقع استعمال علیحدہ ہیں اگر اس کا فر ق نہ کیا جائے تو معنی فاسد ہوجاتے ہیں پھر محاورہ عرب، فصاحت وبلاغت وغیرہ سب کا لحا ظ رکھنا ضروری ہے اور ظاہر ہے کہ علم کا مل کے بغیر یہ نہیں ہوسکتا اور جب عوام کے ہاتھ یہ کام پہنچ جائے تو جو کچھ ترجمہ کا"
حشر ہوگا وہ ظاہر ہے۔ اس لئے آج اس ترجمہ کی بر کت سے مسلمانوں میں بہت فرقے بن گئے ہیں ۔ یہ مترجم حضرات اس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ جو ان کے کیے ہوئے ترجمہ کو نہ مانے ، اسے مشرک مرتد ، کافر کہہ دیتے ہیں ۔ تمام علما ء وصلحاء کو کافر سمجھ کر اسلام کو صرف اپنے میں محدود سمجھنے لگے ہیں ، چنانچہ مولوی غلام اللہ خاں صاحب نے اپنی کتاب''جواہر القرآن''کے صفحہ ۱۴۱ ، ۱۴۳ پر لکھا کہ جو کوئی نبی ، ولی ، پیر ، فقیر کو مصیبتوں میں پکارے وہ کافر، مشرک ہے۔ اس کا کوئی نکاح نہیں اور صفحہ ۱۵۲ پر تحریر فرمایا ہے کہ اس قسم کی نذر نیاز شرک ہے۔ اس کا کھانا خنزیر کی طر ح حرام ہے ۔ اس فتویٰ سے سارے مسلمان بلکہ خود دیوبندوں کے اکابر مشرک ہوگئے بلکہ خود مصنف صاحب کی بھی خیر نہیں وہ بھی اس کی زد سے نہیں بچے چنانچہ یہاں گجرات سے ایک صاحب نے تحریری استفتاء مولوی غلام اللہ خاں صاحب کی خدمت میں بذریعہ جوابی ڈاک بھیجا جس میں سوال کیا کہ آپ نے اپنی کتاب ''جواہر القرآن ''کے صفحات مذکورہ پر لکھا ہے کہ پیرو ں کے پکارنے والے کا نکاح کوئی نہیں اور نذر نیاز کا کھانا خنزیر کی طر ح حرام ہے آپ کے محترم دوست اور دیوبندیوں کے مقتداء عالم عنایت اللہ شاہ صاحب گجراتی کے والد مولوی جلال شاہ صاحب ساکن دو لتا نگر ضلع گجرات ، اور سنا گیا ہے کہ آپ کے والدین بھی گیارہویں کھاتے تھے اور کھلاتے تھے ''ختم غوثیہ'' پڑھتے تھے جس میں یہ شعر موجود ہے ؎
"امدادکن امدادکن از بحر غم آزادکن در دین و دنیاشاد کن یا شیخ عبدالقادر"
جلال شاہ کے عینی گواہ ایک نہیں دو نہیں بہت زیادہ موجود ہیں فرمایا جاوے کہ ان کا نکاح ٹوٹا تھایا نہیں او راگر نکاح ٹوٹ گیا تھا تو آپ۔۔۔۔۔۔ کے کیسے ہوئے
کیونکہ آپ اس ٹوٹے ہوئے نکاح کی اولاد ہیں نیز گیارہویں کا کھانا جب خنزیر کی طرح حرام ہوا تو جو کوئی اسے حلال جانے وہ مرتد ہوا او رمرتد کا نکاح فوراً ٹوٹ جاتا ہے تو آپ دونوں بزرگو ں کے والد صاحبان اسے حلال جان کر کھاتے کھلاتے تھے ۔ اب آپ کے۔۔۔۔۔۔ ہونے کی کیا صورت ہے بصورت دیگر آپ دونوں بزرگو ں کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں ؟ اس کا جواب ابھی تک نہیں ملا اور امید بھی نہیں کہ ملے کیونکہ عربی کا مقولہ ہے :
مَنْ حَفَرَ لِاَخِیْہِ وَقَعَ فِیْہِ
"جو دو سرے کے گر نے کو گڑھا کھودتا ہے خود اس میں گرتا ہے دو سرے مسلمانوں کے نکاح تو بعد میں ٹوٹیں گے پہلے اپنے والدین کے نکاح کی خبر لیں ۔ کوئی صاحب ان بزرگوں سے اس معمہ کو حل کرادیں اور اس کا جواب دلوادیں ہم مشکور ہوں گے ۔
غرض کہ بے دھڑک ترجمے بڑی خرابیوں کی جڑ ہیں اس سے قادیانی، نیچر ی، چکڑالوی،غیرمقلد،وہابی،دیوبندی،مودودی،بابی،بہائی وغیرہ فرقے بنے۔ان سب فرقوں کی جڑ خود ساختہ ترجمے ہیں اس بد تر حالت کو دیکھتے ہوئے میرے محترم دوست حضرت سید الحاج محمد معصوم شاہ صاحب قبلہ قادری جیلانی نے بار ہا فرمائش کی کہ کوئی ایسی کتاب لکھی جائے جو موجودہ ترجمہ قرآن پڑھنے والوں کے لئے رہبر کا کام دے جس میں ایسے قواعد واصطلاحات اور مسائل بیان کردیئے جائیں جن کے مطالعہ سے ترجمہ پڑھنے والا دھو کا نہ کھائے چونکہ یہ کام بڑا تھا او ر میں کثر ت مشاغل کی وجہ سے بالکل فارغ نہ تھا اس لیے اس کام میں دیر لگتی رہی ۔ اتفاقًا اس ماہ رمضان المبارک میں میرے محترم دو ست قبلہ قاری الحاج احمد حسن صاحب خطیب عید گاہ گجرات میرے پاس ''جو اہر القرآن'' لائے اور فرمایا کہ آپ لوگ آرام کر رہے ہیں اور ملحد ین اس طرح مسلمانوں کو ترجمے دکھا کر گمراہ کر رہے ہیں ،تب میرے دل میں خیال پیدا ہوا"
کہ میں نے بارگاہ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ٹکڑے کھائے ہیں ، انہی کے نام پر پلا ہوں ان کے دروازے کا ادنیٰ چوکیدار ہوں اگر چوکیدار چور کو آتے دیکھ کر غفلت سے کام لے تو مجرم ہے اس وقت میرا خاموش رہنا واقعی جرم ہے ، اللہ تعالیٰ کے کرم اور حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت پر بھروسا کر کے اس طر ف توجہ کی ۔ اس کتاب کے تین باب ہوں گے ۔ پہلے باب میں قرآن کریم کی اصطلاحات بیان ہوں گی جس میں بتایا جاوے گا کہ قرآن کریم میں کون کون سالفظ کس کس جگہ کس کس معنی میں آیا ہے ۔ دوسرے باب میں قواعد قرآنیہ بیان ہوں گے جس میں ترجمہ قرآن کرنے کے قاعدے عرض کیے جاویں گے جس سے ترجمہ میں غلطی نہ ہو ۔ تیسرے باب میں کل مسائل قرآنیہ ۔ اس باب میں وہ مسائل بھی بیان ہوں گے جو آج کل مختلف فیہ ہیں جن مسائل کی وجہ سے دیوبندی ، وہابی ، عام مسلمین کو مشرک وکافر کہتے ہیں انہیں صریح آیات سے ثابت کیا جاویگا تا کہ پتالگے کہ یہ مسائل قرآن میں صراحۃً موجود ہیں اور مخالفین غلط ترجمہ سے لوگو ں کو دھوکہ دیتے ہیں ۔ اس کتاب کانام''علم القرآن لترجمۃ الفرقان'' رکھتا ہوں۔ اپنے رب کریم سے امید قبولیت ہے جو کوئی اس کتاب سے فائدہ اٹھائے وہ مجھ گنہگار کے لئے دعا کرے کہ رب تعالیٰ اسے میرے گناہوں کا کفار ہ اور تو شہ آخرت بنائے ۔
وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللہِ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ اُنِیْبُ
" احمد یار خاں نعیمی اشرفی
سر پر ست : مدرسہ غوثیہ نعیمیہ گجرات (پاکستا ن)
۲۲رمضان المبارک،۱۳۷۱ھ،دوشنبہ مبارک"
" ترجمہ قرآن سے پہلے اس قاعدے کو یاد رکھنا ضروری ہے ۔
آیات قرآنیہ تین طر ح کی ہیں بعض وہ جن کا مطلب عقل وفہم سے وراہے جس تک دماغوں کی رسائی نہیں انہیں ''متشابہات''کہتے ہیں۔ا ن میں سے بعض تو وہ ہیں جن کے معنی ہی سمجھ میں نہیں آتے جیسے المۤ،حٰمۤ،الرٰ،وغیرہ انہیں ''مقطعات'' کہا جاتاہے۔ بعض وہ آیا ت ہیں جن کے معنی تو سمجھ میں آتے ہیں مگر یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ان کا مطلب کیا ہے کیونکہ ظاہری معنی بنتے نہیں جیسے"
فَاَیۡنَمَا تُوَلُّوۡا فَثَمَّ وَجْہُ اللہِ ؕ
تم جد ھر منہ کر و ادھر اللہ کا وجہ (منہ) ہے۔ (پ۱،البقرۃ:۱۱۵)
یَدُ اللہِ فَوْقَ اَیۡدِیۡہِمْ ۚ
اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے ۔ (پ۲۶،الفتح:۱۰)
ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ ۟
"پھر رب نے عرش پر استوا فرمایا۔(پ۸،الاعراف:۵۴)
''وجہ'' کے معنی چہر ہ ۔''ید'' کے معنی ہاتھ ۔ ''استوا ''کے معنی برابر ہونا ہے مگر یہ چیز یں رب کی شان کے لائق نہیں ؛لہٰذا متشابہات میں سے ہیں اس قسم کی آیتوں پر ایمان لانا ضروری ہے مطلب بیان کرنا درست نہیں اور دو سری قسم کی آیات کو ''آیات صفات ''کہتے ہیں ۔
بعض آیات وہ ہیں جو اس درجہ کی مخفی نہیں۔انہیں قرآنی اصطلاح میں ''محکمات ''کہتے ہیں ۔ قرآن کریم فرماتا ہے :"
ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ عَلَیۡکَ الْکِتٰبَ مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ہُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ ؕ فَاَمَّا الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمْ زَیۡغٌ فَیَتَّبِعُوۡنَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَآءَ الْفِتْنَۃِ وَابْتِغَآءَ تَاۡوِیۡلِہٖ وَمَا یَعْلَمُ تَاۡوِیۡلَہٗۤ اِلَّا اللہُ
"رب وہ ہے جس نے آپ پر کتا ب اتاری اس کی کچھ آیات صفات معنی آرائی ہیں وہ کتاب کی اصل ہیں اور دوسری وہ ہیں جن کے معنی میں اشتباہ ہے وہ لو گ جن کے دلوں میں کجی ہے وہ اشتباہ والی کے پیچھے پڑتے ہیں گمراہی چاہنے اور اس کے معنی ڈھونڈنے کو اور اس کا ٹھیک پہلو اللہ ہی کو معلوم ہے ۔ (پ3،آل عمرٰن:7)
ان محکمات میں بعض آیات وہ ہیں جن کے معنی بالکل صاف وصریح ہیں۔ جن کے سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی جیسے"
قُلْ ہُوَ اللہُ اَحَدٌ ۚ﴿۱﴾ الخ ۔
"فرمادو وہ اللہ ایک ہے ۔ انہیں نصوص قطعیہ کہا جاتا ہے ۔اور بعض آیات وہ ہیں جن میں نہ تو متشابہات کی سی پوشیدگی ہے کہ ذہن کی رسائی وہاں تک نہ ہوسکے نہ نصوص قطعیہ کی طر ح ظہور ہے کہ تامل کرنا ہی نہ پڑے ۔ اس قسم کی آیتو ں میں تفسیر کی ضرورت ہے بغیر تفسیر کے صرف ترجمہ کبھی ہلاکت کا با عث ہوتا ہے ۔
اس تفسیر کی چار صورتیں ہیں ۔'' تفسیر قرآن بالقرآن'' کیونکہ خود قرآن بھی اپنی تفسیر کرتا ہے ۔ پھر'' تفسیر قرآن بالحدیث'' کیونکہ قرآن کو جیسا کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے سمجھا دوسرا نہیں سمجھ سکتا۔ پھر'' تفسیر قرآن بالاجماع'' یعنی علماء کا جس مطلب پر اتفاق ہوا وہی درست ہے۔پھر''تفسیرقرآن باقوال مجتہدین''ان تمام تفسیروں میں پہلی قسم کی تفسیر بہت مقدم ہے کیونکہ جب خود کلام فرمانے والا رب تعالیٰ ہی اپنے کلام کی تفسیر فرمادے تو اور طرف جانا ہرگز درست نہیں ۔ اگر پچا س آیتو ں میں"
ایک مضمون کچھ اجمال کے ساتھ بیان ہوا ہو اور ایک آیت میں اس کی تفصیل کردی گئی ہو تو یہ آیت ان پچاس آیتو ں کی تفسیر ہوگی اور ان پچاس کا وہی مطلب ہوگا جو اس آیت نے بیان کیا ۔ مثال سمجھو رب تعالیٰ نے بہت جگہ اہل کتاب کو مخاطب فرمایا ہے یا ان کا ذکر کیا ہے ۔
قُلْ یٰۤاَہۡلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآءٍۭ بَیۡنَنَا وَبَیۡنَکُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللہَ
"فرمادو کہ اے کتاب والو آؤ ایسے کلمہ کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے کہ ہم خدا کے سوا کسی کو نہ پوجیں۔ (پ3،آل عمرٰن:64)
اہل کتاب کا ذکر بہت جگہ ہے مگر پتا یہ نہ لگتا تھا کہ کتاب سے کونسی کتاب مراد ہے اور اہل کتاب کون لوگ ہیں کیونکہ قرآن کو بھی کتاب کہا گیا ہے اور باقی تمام انسانی اور رحمانی کتابوں کو بھی کتاب کہتے ہیں ۔ہم نے قرآن سے اس کی تفسیر پوچھی تو خود قرآن نے فرمایا :"
الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الْکِتٰبَ مِنۡ قَبْلِکُمْ
"وہ لوگ جوتم سے پہلے کتاب دیئے گئے (پ4،اٰل عمرٰن:186)
اس آیت نے ان تمام آیتو ں کی تفسیر فرمادی او ربتادیا کہ اہل کتاب نہ ہندو ، سکھ ہیں کہ ان کے پاس آسمانی کتاب ہی نہیں۔ نہ مسلمان مراد ہیں کیونکہ اس کتاب سے پہلی آسمانی کتابیں مراد ہیں صرف عیسائی،یہودی یعنی انجیل وتوریت کے ماننے والے مراد ہیں اسی طر ح قرآن شریف نے جگہ جگہ صراط مستقیم یعنی سیدھا راستہ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے ۔"
وَ اَنَّ ہٰذَا صِرَاطِیۡ مُسْتَقِیۡمًا فَاتَّبِعُوۡہُ ۚ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ
"یہ میرا سیدھا راستہ ہے اس کی پیروی کرو دوسرے راستوں کی پیروی نہ کرو۔ (پ8،الانعام:153)
مگر ان آیات میں نہ بتایا کہ سیدھا راستہ کونسا ہے ہم نے قرآن سے پوچھا تو اس نے اس کی تفسیر کی ہے ۔"
اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۵﴾صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ
"ہمیں سیدھے راستہ کی ہدایت دے ۔ ان لوگو ں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا ۔(پ1،الفاتحۃ:5۔6)
اس آیت نے بتایا کہ قرآن میں جہاں کہیں سیدھا راستہ بولاگیا ہے اس سے وہ دین اور وہ مذہب مراد ہے جو اولیاء اللہ، علماء دین،صالحین کا مذہب ہو یعنی مذہب اہل سنت، نئے دین ومذہب ٹیڑھے راستہ ہیں اگر چہ اس مذہب کے بانی سارا قرآن ہی پڑھ کر ثابت کریں کہ یہ مذہب سچا ہے جیسے قادیانی ، دیوبندی ، شیعہ وغیرہ ، اسی طرح قرآن شریف نے جگہ جگہ غیر اللہ کو پکارنے سے منع فرمایا اور پکارنے والے پر کفر و شرک کا فتوی دے دیا ۔"
وَلَا تَدْعُ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ مَا لَایَنۡفَعُکَ وَلَا یَضُرُّکَ ۚ فَاِنۡ فَعَلْتَ فَاِنَّکَ اِذًا مِّنَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۱۰۶﴾
اورخدا کے سوا کسی ایسے کو نہ پکارو جو نہ تمہیں نفع دے او رنہ نقصان پھر اگر تم نے ایسا کیا تو تم ظالموں میں سے ہوگے ۔(پ۱۱،یونس:۱۰۶)
وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ یَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ
اس سے بڑھ کر گمراہ کو ن ہے جو غیر خدا کو پکارتے ہیں۔ (پ۲۶،الاحقاف:۵)
وَضَلَّ عَنْہُمْ مَّا کَانُوْا یَدْعُوْنَ مِنْ قَبْلُ
اورغائب ہوگئے ان سے وہ جنہی پہلے یہ پکارتے تھے۔(پ۲۵،حٰمۤ السجدۃ:۴۸)
وَالَّذِیۡنَ تَدْعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِہٖ مَا یَمْلِکُوۡنَ مِنۡ قِطْمِیۡرٍ ﴿ؕ۱۳﴾
"تم خدا کے سوا جسے پکارتے ہو وہ چھلکے کے بھی مالک نہیں۔(پ۲۲،فاطر:۱۳)
اس قسم کی بیسیوں آیات ہیں جن میں غیر خدا کو پکارنے سے منع فرمایا گیا بلکہ پکارنے والوں کو مشرک کہا گیا اگر ان آیتوں کو مطلق رکھا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ حاضر، غائب ، زندہ ، مردہ ، کسی کو نہ پکارو لیکن یہ معنی خودقرآن کی دو سری آیات کے بھی خلاف ہیں اور عقل کے بھی۔ خود قرآن کریم نے فرمایا :"
اُدْعُوْہُمْ لِاٰ بَآئِہِمْ
انہیں ان کے باپوں کی نسبت سے پکارا کرو۔(پ۲۱،الاحزاب:۵)
وَالرَّسُوْلُ یَدْعُوْکُمْ فِیْ اُخْرٰکُمْ
اور رسول تم کو پچھلی جماعت میں پکارتے تھے۔(پ۴،اٰل عمران:۱۵۳)
ثُمَّ ادْعُہُنَّ یَاۡتِیۡنَکَ سَعْیًا ؕ
"اے ابراہیم پھر ان ذبح کئے ہوئے مردہ جانوروں کو پکارو وہ تم تک دوڑتے آئیں گے۔ (پ۳،البقرۃ:۲۶۰)
اس قسم کی بیسیوں آیتیں ہیں جن میں زندوں اور مردوں کے پکارنے کا ذکر ہے ۔ نیز ہم دن رات ایک دوسرے کو پکارتے ہیں ۔ نماز میں بھی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو پکار کر سلام عرض کرتے ہیں ۔"
'' اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہ،''
"اے نبی تم پر سلام اور اللہ کی رحمت اور برکتیں ہوں۔
لہٰذا ضرورت پڑی کہ ہم قرآن شریف سے ہی پوچھیں کہ ممانعت کی آیتو ں میں پکارنے سے کیا مراد ہے تو قرآن شریف نے اس کی تفسیر یوں فرمائی۔"
وَمَنۡ یَّدْعُ مَعَ اللہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ ۙ لَا بُرْہَانَ لَہٗ بِہٖ ۙ فَاِنَّمَا حِسَابُہٗ عِنۡدَ
رَبِّہ ٖؕ
اور جو کوئی اللہ کے ساتھ دو سرے معبود کو پکارے جس کی کوئی دلیل اس کے پاس نہیں تو اس کاحساب اس کے رب کے پاس ہوگا ۔(پ۱۸،المؤمنون:۱۱۷)
فَلَا تَدْعُوۡا مَعَ اللہِ اَحَدًا ﴿ۙ۱۸﴾
"اللہ کے ساتھ کسی کو نہ پکارو ۔(پ۲۹،الجن:۱۸)
ان آیتوں نے بتایا کہ جن آیتوں میں غیرخدا کو پکارنے سے روکا گیا ہے وہاں اسے خدا سمجھ کر پکارنا یا اللہ کے ساتھ ملا کر پکارنا مراد ہے یعنی پوجنا ۔ لہٰذا ان آیتوں کی تفسیر سے تمام ممانعت کی آیتو ں کا یہ مطلب ہوگا ۔ اس تفسیر سے مطلب ایسا صاف ہوگیا کہ کسی قسم کا کوئی اعتراض پڑسکتا ہی نہیں۔ نیز فرماتا ہے :"
وَ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنۡ یَّدْعُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللہِ مَنۡ لَّا یَسْتَجِیۡبُ لَہٗۤ اِلٰی یَوۡمِ الْقِیٰمَۃِ وَ ہُمْ عَنۡ دُعَآئِہِمْ غٰفِلُوۡنَ ﴿۵﴾ وَ اِذَا حُشِرَ النَّاسُ کَانُوۡا لَہُمْ اَعْدَآءً وَّ کَانُوۡا بِعِبَادَتِہِمْ کٰفِرِیۡنَ ﴿۶﴾
"اس سے بڑھ کر گمراہ کون ہے جو خدا کے سوا انہیں پکارے جو اس کی قیامت تک نہ سنے او رانہیں اسی کی پکار (پوجا) کی خبر تک نہیں او رجب لوگو ں کا حشر ہوگا تو وہ ان کے دشمن ہوں گے اور ان کی عبادت کے منکرہوجائیں گے ۔(پ26،الاحقاف:5۔6)
اس آیت میں صاف طو رپر پکارنے کو عبادت فرمایا کہ قیامت میں یہ بت ان مشرکوں کی عبادت یعنی اس پکار کے منکر ہوجائیں گے معلوم ہوا کہ پکارنے سے وہی پکارنا مراد ہے جو عبادت ہے ،یعنی ''اِلٰہ'' سمجھ کر پکارنا۔اس لئے عام مفسرین ممانعت کی آیات میں ''دعا'' کے معنی ''پوجا'' کرتے ہیں۔ جن وہابیوں نے ممانعت کی آیتو ں میں دعا کے معنی پکار کئے اور پھر بات بنانے کے لئے اپنے گھر سے قیدیں لگائیں کہ پکارنے سے مراد ہے دور سے پکارنا، مافوق الاسباب پکارسننے کے عقیدے"
"سے پکارنایا مردوں کو پکارنا بالکل غلط ہے۔ اولاً تو اس لئے کہ یہ قیدیں قرآن نے کہیں نہیں لگائیں ۔ دو سرے اس لئے کہ یہ تفسیر خود قرآنی تفسیر کے خلاف ہے ۔ تیسرے اس لئے کہ انبیاء کرام علیہم السلام صحابہ عظام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے مردہ کو بھی پکارا ہے اور دور سے سینکڑو ں میل سے پکارا ہے اور وہ پکار سنی گئی ہے جیسا کہ باب مسائل قرآنیہ میں بیان ہوگا ۔لہٰذا یہ تفسیر باطل ہے ۔
تفسیر قرآن بالقرآن کی اور مثال سمجھو کہ رب تعالیٰ نے جگہ جگہ خداکے سوا کو ولی ماننے سے منع فرمایا بلکہ فرمایا کہ جو کوئی غیر خدا کو ولی بنائے وہ گمراہ ہے، کافر ہے، مشرک ہے۔ فرماتا ہے :"
وَمَا لَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ مِنۡ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِیۡرٍ ﴿۱۰۷﴾
تمہارا خدا کے سوا نہ کوئی ولی ہے اور نہ مدد گار۔(پ۲۰،العنکبوت:۲۲)
مَثَلُ الَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللہِ اَوْلِیَآءَ کَمَثَلِ الْعَنۡکَبُوۡتِ ۖۚ اِتَّخَذَتْ بَیۡتًا ؕ وَ اِنَّ اَوْہَنَ الْبُیُوۡتِ لَبَیۡتُ الْعَنۡکَبُوۡتِ ۘ
"ان کی مثال جنہوں نے اللہ کے سوا اور ولی بنائے مکڑی کی سی ہے جس نے جالا بنا اور بے شک سب گھر و ں سے کمزور گھر مکڑی کا ہے ۔(پ20،العنکبوت:41)
پھر فرماتا ہے :"
اَفَحَسِبَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنۡ یَّتَّخِذُوۡا عِبَادِیۡ مِنۡ دُوۡنِیۡۤ اَوْلِیَآءَ ؕ اِنَّـاۤ اَعْتَدْنَا جَہَنَّمَ لِلْکٰفِرِیۡنَ نُزُلًا
تو کیا سمجھ رکھا ہے ان کافروں نے جنہوں نے میرے بندوں کو میرے سوا ولی بنایا ہم نے کافر وں کیلئے آگ تیار کی ہوئی ہے۔﴿102﴾ (پ16،الکہف:102)
اس قسم کی بے شمار آیتیں ہیں ولی کے معنی دوست بھی ہیں اور مدد گار بھی، مالک بھی وغیرہ ۔ اگر ان آیات میں ولی کے معنی مدد گار کئے جائیں او رکہا جائے کہ جو خدا کے سوا کسی کو مدد گار سمجھے وہ مشرک او رکافر ہے تو نقل وعقل دونوں کے خلاف ہے نقل کے تو اس لئے کہ خود قرآن میں اللہ کے بندوں کے مدد گار ہونے کا ذکر ہے۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :
وَاجْعَلۡ لَّنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ وَلِیًّا ۚۙ وَّاجْعَلۡ لَّنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ نَصِیۡرًا ﴿ؕ۷۵﴾
"خدا وند اہمارے لئے اپنی طرف سے کوئی ولی اور مدد گار مقرر فرمادے ۔(پ5،النسآء:75)
فرماتا ہے :"
فَاِنَّ اللہَ ہُوَ مَوْلٰىہُ وَ جِبْرِیۡلُ وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِیۡنَ ۚ وَ الْمَلٰٓئِکَۃُ بَعْدَ ذٰلِکَ ظَہِیۡرٌ ﴿۴﴾
"پس اپنے نبی کا مدد گار اللہ اور جبریل اورنیک مسلمان اوراس کے بعد فرشتے مدد گار ہیں ۔(پ28،التحریم:4)
فرماتا ہے :"
اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الَّذِیۡنَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَہُمْ رٰکِعُوۡنَ ﴿۵۵﴾
"تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول ہے اور وہ مومن بندے ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور زکوۃ دیتے ہیں اور وہ رکوع کرتے ہیں ۔ (پ6،المائدۃ:55)
فرماتا ہے :"
وَالْمُؤْمِنُوۡنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ ۘ
مومن مرد او رمومن عورتیں ان کے بعض بعض کے ولی ہیں۔(پ10،التوبۃ:71)
" اس قسم کی بہت آیات ملیں گی۔
عقل کے خلاف اس لئے ہے کہ دنیا ودین کا قیام ایک دو سرے کی مدد پرہی ہے ، اگرامداد باہمی بند ہوجائے تو نہ دنیاآباد رہے نہ دین ۔ پھر ایسی ضروری چیز کو رب شرک کیسے فرماسکتاہے ۔ آؤ اب اس ممانعت کی تفسیر قرآن کریم سے پوچھیں،جب قرآن کریم کی تحقیق کی تو پتالگا کہ کسی کو ولی ماننا چار طر ح کا ہے جن میں سے تین قسم کا ولی ماننا تو کفر وشر ک ہے او رچوتھی قسم کا ولی ماننا عین ایمان ہے ۔
(۱)رب تعالیٰ کو کمزور جان کر کسی او رکو مدد گار ماننا یعنی رب ہماری مدد نہیں کرسکتا ہے لہٰذا فلاں مدد گار ہے ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :"
وَ لَمْ یَکُنۡ لَّہٗ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَکَبِّرْہُ تَکْبِیۡرًا ﴿۱۱۱﴾٪
"اور نہیں ہے اللہ کا کوئی ولی کمزوری کی بنا پر اور اس کی بڑائی بولو۔(پ15،بنیۤ اسرآء یل:111)
(۲) خدا کے مقابل کسی کو مدد گار جاننا یعنی رب تعالیٰ عذاب دینا چاہے او ر ولی بچالے ۔ فرماتا ہے :"
اُولٰٓئِکَ لَمْ یَکُوۡنُوۡا مُعْجِزِیۡنَ فِی الۡاَرْضِ وَمَا کَانَ لَہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ مِنْ اَوْلِیَآءَ ۘ
"یہ کفار خدا کو عاجز نہیں کرسکتے زمین میں اور نہ کوئی خدا کے مقابل ان کاولی مدد گار ہے ۔(پ12،ہود:20)
رب تعالیٰ فرماتا ہے:"
اَلَاۤ اِنَّ الظّٰلِمِیۡنَ فِیۡ عَذَابٍ مُّقِیۡمٍ ﴿۴۵﴾
"خبردار ! کفار ہمیشہ کے عذاب میں ہیں۔(پ25،الشورٰی:45)
رب تعالیٰ فرماتا ہے ۔"
وَ مَا کَانَ لَہُمۡ مِّنْ اَوْلِیَآءَ یَنۡصُرُوۡنَہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ ؕ
"اور ان کا کوئی ولی نہ ہوگا جو اللہ کے مقابل ان کی مدد کرے ۔(پ25،الشوری:46)
رب تعالیٰ فرماتا ہے :"
قُلْ مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یَعْصِمُکُمۡ مِّنَ اللہِ اِنْ اَرَادَ بِکُمْ سُوۡٓءًا اَوْ اَرَادَ بِکُمْ رَحْمَۃً ؕ وَلَا یَجِدُوۡنَ لَہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ وَلِیًّا وَّلَا نَصِیۡرًا ﴿۱۷﴾
"فرمادو ! کہ کون ہے جو تمہیں اللہ سے بچائے اگر وہ تمہارا برا چاہے یا تم پر مہر فرمانا چاہے اور وہ اللہ کے مقابل کوئی ولی نہ پائیں گے اور نہ کوئی مددگار ۔(پ21،الاحزاب:17)
رب تعالیٰ فرماتا ہے :"
وَمَنۡ یَّلْعَنِ اللہُ فَلَنۡ تَجِدَ لَہٗ نَصِیۡرًا ﴿ؕ۵۲﴾
"اور جس پر خدا لعنت کردے اس کا مددگار کوئی نہیں ۔(پ5،النسآء:52)
رب تعالیٰ فرماتا ہے :"
وَ مَنۡ یُّضْلِلِ اللہُ فَمَا لَہٗ مِنۡ وَّلِیٍّ مِّنۡۢ بَعْدِہٖ ؕ
"جسے اللہ گمراہ کردے اس کے بعد اس کا کوئی ولی نہیں۔(پ25،الشوری:44)
ان آیات میں خدا کے مقابل ولی،مدد گا رکا انکار کیا گیا ہے ان کے علاوہ اور بہت سی ایسی ہی آیات ہیں جن میں ولی کے یہ معنی ہیں۔
(۳) کسی کو مدد گار سمجھ کر پوجنا یعنی ولی بمعنی معبود۔
رب تعالیٰ فرماتا ہے :"
وَالَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اَوْلِیَآءَ ۘ مَا نَعْبُدُہُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوۡنَاۤ اِلَی اللہِ زُلْفٰی ؕ
اور جنہوں نے رب کے سوا اور ولی بنائے کہتے ہیں ہم تو انہیں نہیں پوجتے مگر اس لئے کہ ہمیں وہ اللہ سے قریب کردیں ۔(پ23،الزمر:3)
وَالَّذِیۡنَ لَا یَدْعُوۡنَ مَعَ اللہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ
"اور وہ جو خدا کے ساتھ کسی دو سرے معبود کو نہیں پکارتے ۔(پ19،الفرقان:68)
اس آیت میں ولی بمعنی معبود ہے اس لئے اس کے ساتھ عبادت کا ذکر ہے۔ یہ تین طر ح کا ولی ماننا کفر و شرک ہے اور ایسا ولی ماننے والا مشرک ومرتد ہے چوتھی قسم کا ولی وہ کہ کسی کو اللہ کا بندہ سمجھ کر اللہ کے حکم سے اسے مدد گار مانا جائے اور اس کی مدد کو رب تعالیٰ کی مدد کا مظہرسمجھا جاوے یہ بالکل حق ہے جس کی آیات ابھی ابھی گزرچکیں۔
ان آیات نے تفسیر کر دی کہ ممانعت کی آیات میں پہلی تین قسم کے ولی مراد ہیں او رثبوت اولیاء کی آیات میں چوتھی قسم کے ولی مراد ہیں ۔ سبحان اللہ ! اس قرآنی تفسیر سے کوئی اعتراض باقی نہ رہا لیکن وہابی جب اس تفسیر سے آنکھیں بند کرلیتے ہیں تو اب ولی میں قید لگاتے ہیں کہ مافوق الاسباب کسی کو مدد گار ماننا شرک ہے یہ تفسیر نہایت غلط ہے اولا تواس لئے کہ ما فوق الا سباب کی قیدان کے گھر سے لگی ہے ۔ قرآن میں نہیں ہے دو سرے اس لیے کہ یہ تفسیر قرآن کے خلاف ہے جو ہم نے عرض کی تیسرے یہ کہ اللہ کے بندے مافوق الاسباب مدد کرتے ہیں ۔ جس کی آیات باب مسائل قرآنیہ میں عرض ہوں گی غرضیکہ یہ تفسیر باطل ہے اور قرآنی تفسیر بالکل صحیح ہے یہ تفسیر قرآن بالقرآن کی چند مثالیں عرض کیں ۔
تفسیر قرآن بالحدیث کی بہت سی مثالیں ہیں ۔رب تعالیٰ فرماتا ہے :"
وَاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَارْکَعُوۡا مَعَ الرَّاکِعِیۡنَ ﴿۴۳﴾
"نمازقائم کروزکوۃدواوررکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔(پ1،البقرۃ:43)
رب تعالیٰ فرماتا ہے :"
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبْلِکُمْ
"اے ایمان والو! تم پر رو زے فر ض کئے گئے جیسے تم سے پہلے والوں پر فرض کئے گئے تھے ۔(پ2،البقرۃ:183)
رب تعالیٰ فرماتا ہے:"
وَلِلہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیۡتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیۡہِ سَبِیۡلًا ؕ
"لوگوں پر اللہ کے لیے بیت اللہ کا حج ہے جو وہاں تک پہنچنے کی طا قت رکھتا ہو.(پ4،اٰل عمرٰن:97)
اس کے علاوہ تمام احکام کی آیتیں تفصیل اور تفسیر چاہتی ہیں مگر قرآن کریم نے ان کی نہ مکمل تفسیر فرمائی نہ تفصیل۔ نماز کے اوقات ، رکعات کی تعداد ، زکوۃ کے نصاب اورخودزکوۃ کی تعداداورشرائط، رو زے کے فرائض وممنوعات،حج کے شرائط وارکان تفصیلاًنہ بتائے،ان آیات میں ہم حدیث کے محتاج ہوئے اور تمام تفاصیل وہاں سے معلوم کیں غرضیکہ تفصیل طلب آیات میں بغیر تفسیر کے ترجمہ بے فائدہ بلکہ خطرناک ہے اور تفسیر محض اپنی رائے سے نہیں ہوسکتی ہم اپنی اس کتاب میں ترجمہ کرنے کے قواعد ، بعض ضروری قرآنی مسائل اور قرآن کریم کی کچھ ضروری اصطلاحیں بیان کریں گے مگر ہر چیز کی تفسیر خود قرآن شریف سے پیش کریں گے اگرتا ئید میں کوئی"
حدیث بھی پیش کی جاوے تو اسے بھی قرآن کی روشنی میں دیکھا جائے گا کیونکہ آج کل اس طرزاستدلال کو مسلمان بہت پسند کرتے ہیں اور اس سے زیادہ مانوس ہیں ضرورت زمانہ کا لحاظ رکھتے ہوئے اس پر قلم اٹھایا گیا ہے ۔
قرآن شریف میں بعض الفاظ کسی خاص معنی میں استعمال فرمائے گئے ہیں کہ اگر اس کے علاوہ ان کے دوسرے معنی کیے جائیں تو قرآن کا مقصد بدل جاتا ہے یا فوت ہوجا تا ہے ان اصطلاحوں کو بہت یاد رکھنا چاہئے تا کہ ترجمہ میں دھوکا نہ ہو ۔
ایمان امن سے بنا ہے جس کے لغوی معنی امن دینا ہے اصطلاح شریعت میں ایمان عقائد کا نام ہے جن کے اختیار کرنے سے انسان دائمی عذاب سے بچ جاوے جیسے تو حید، رسالت ، حشر و نشر ، فرشتے ، جنت ، دو زخ اور تقدیر کو ماننا وغیرہ وغیرہ جس کا کچھ ذکر اس آیت میں ہے ۔
کُلٌّ اٰمَنَ بِاللہِ وَمَلٰٓئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ ۟ لَا نُفَرِّقُ بَیۡنَ اَحَدٍ مِّنۡ رُّسُلِہٖ ۟
سب مومن اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے اور وہ کہتے ہیں کہ ہم خدا کے رسولوں میں فرق نہیں کرتے(پ3،البقرۃ:285)
لیکن اصطلاح قرآن میں ایمان کی اصل جس پر تمام عقیدوں کا دار ومدار ہے یہ ہے کہ بندہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو دل سے اپنا حاکم مطلق مانے ۔ اپنے کو ان کا غلام تسلیم کرے کہ مومن کے جان ، مال ، اولاد سب حضور کی ملک ہیں او رنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا سب مخلوق سے زیادہ ادب واحترام کرے ۔ اگر اس کو ما ن لیاتو توحید اورکتب، فرشتے وغیرہ تمام ایمانیات کو مان لیا اور اگر اس کو نہ مانا تو اگرچہ توحید ، فرشتے، حشر نشر ، جنت ودوزخ سب کو مانے مگر قرآن کے فتوے سے وہ مومن نہیں بلکہ کافرومشرک ہے ۔ ابلیس پکا موحد ، نمازی ، ساجد تھا ۔ فرشتے ، قیامت ، جنت ودوزخ سب کو مانتا تھا مگر رب تعالیٰ نے فرمایا :
وَکَانَ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ
شیطان کا فر وں میں سے ہے ۔ (البقرۃ:۳۴) کیوں؟ صرف اس لئے کہ نبی کی عظمت کا قائل نہ تھا۔ غرض ایمان کا مدار قرآن کے نزدیک عظمت مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر ہے ۔ ان آیات میں یہی اصطلاح استعمال ہوئی۔
(۱) فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوۡنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوۡکَ فِیۡمَا شَجَرَ بَیۡنَہُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوۡا فِیۡۤ اَنفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیۡتَ وَیُسَلِّمُوۡا تَسْلِیۡمًا ﴿۶۵﴾
"اے محبوب ! تمہارے رب کی قسم !یہ سارے توحید والے اور دیگر لوگ اس وقت تک مومن نہ ہونگے جب تک کہ تم کو اپنا حاکم نہ مانیں اپنے سارے اختلاف و جھگڑوں میں پھر تمہارے فیصلے سے دلوں میں تنگی محسوس نہ کریں او ررضا وتسلیم اختیار کریں ۔(پ5،النساء:65)
پتاچلا کہ صرف تو حید کا ماننا ایمان نہیں اور تمام چیز وں کا ماننا ایمان نہیں نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو حاکم ماننا ایمان ہے ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :"
(2)وَمِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّقُوۡلُ اٰمَنَّا بِاللہِ وَ بِالْیَوْمِ الۡاٰخِرِ وَمَا ہُمۡ بِمُؤۡمِنِیۡنَ ۘ﴿۸﴾
"لوگوں میں بعض وہ(منافق )بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور قیامت پر ایمان لائے مگر وہ مومن نہیں ۔(پ1،البقرۃ:8)
دیکھو اکثر منافق یہودی تھے جو خدا کی ذات وصفات اور قیامت وغیرہ کو مانتے تھے مگر انہیں رب نے کافر فرمایا کیونکہ وہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کونہیں مانتے تھے اس لیے انہوں نے اللہ کا اور قیامت کانام تو لیا مگر حضور مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا نام نہ لیا رب نے انہیں مومن نہیں مانا۔ فرماتا ہے :"
(3)یَشْہَدُ اِنَّ الْمُنٰفِقِیۡنَ لَکٰذِبُوۡنَ ۚ﴿۱﴾
"جب آپ کے پاس منافق آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اللہ بھی جانتا ہے کہ آپ اس کے رسول ہیں او راللہ گواہی دیتا ہے کہ منافق جھوٹے ہیں ۔ (پ28،المنٰفقون:1)
پتا چلا کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو فقط زبانی طور پر معمولی طریقہ سے مان لینے کا دعویٰ کردینا مومن ہونے کیلئے کافی نہیں،انہیں دل سے ماننے کا نام ایمان ہے۔ سبحان اللہ ! قول سچا مگر قائل جھوٹا کیونکہ یہاں دل کی گہرائیوں سے دیکھا جاتا ہے۔"
"ما دروں را بنگریم و حال را ما بروں را ننگریم و قال را"
(4) وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللہُ وَ رَسُوۡلُہٗۤ اَمْرًا اَنۡ یَّکُوۡنَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِہِمْ ؕ
اور نہ کسی مسلمان مرد نہ مسلمان عورت کو حق ہے کہ جب اللہ اور رسول کچھ حکم فرمادیں تو انہیں اپنے معاملہ کا کچھ اختیار رہے ۔(پ22،الاحزاب:36)
اس آیت نے بتایا کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے سامنے مومن کو اپنی جان کے معاملات کا بھی اختیار نہیں ، یہ آیت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نکاح کے بارے میں نازل ہوئی کہ وہ حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ نکاح کرنے کو تیار نہ تھیں۔
(التفسیر الکبیر،الجزء الخامس والعشرون،سورۃالاحزاب،تحت الآیۃ۳۶، ج۹،ص۱۶۹،دار احیاء التراث العربی بیروت)
مگر حضو رصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے نکاح ہوگیا۔ہر مومن حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا غلام اور ہر مومنہ ان سرکار کی لونڈی ہے ۔ یہ ہے حقیقت ایمان۔
(5) اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیۡنَ مِنْ اَنۡفُسِہِمْ وَ اَزْوَاجُہٗۤ اُمَّہٰتُہُمْ ؕ
"نبی مومنوں کے ان کی جان سے بھی زیادہ مالک ہیں او رنبی کی بیویاں مسلمانوں کی مائیں ہیں ۔(پ21،الاحزاب:6)
جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہماری جان سے بھی زیادہ ہمارے مالک ہوئے تو ہماری اولاد مال کے بدرجہ اولی مالک ہیں۔"
(۶) یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَرْفَعُوۡۤا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْہَرُوۡا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَہۡرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنۡ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَ اَنۡتُمْ لَا تَشْعُرُوۡنَ ﴿۲﴾
"اے ایمان والو! اپنی آوازیں ان نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو نہ ان کی بارگاہ میں ایسے چیخ کر بو لو جیسے بعض بعض کیلئے خطرہ ہے کہ تمہارے اعمال بر باد ہو جائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔(پ۲۶،الحجرات:۲)
پتا چلا کہ ان کی تھوڑی سی بے ادبی کرنے سے نیکیاں بر باد ہوجاتی ہیں اور اعمال کی بر بادی کفر وار تداد سے ہوتی ہے معلوم ہوا کہ ان کی ادنیٰ گستاخی کفر ہے ۔"
(7) قُلْ اَبِاللہِ وَاٰیٰتِہٖ وَرَسُوۡلِہٖ کُنۡتُمْ تَسْتَہۡزِءُوۡنَ ﴿۶۵﴾لَاتَعْتَذِرُوۡا قَدْکَفَرْتُمۡ بَعْدَ اِیۡمَانِکُمْ ؕ
"فرمادوکہ کیا تم اللہ اور اس کی آیتو ں اور اس کے رسول سے ہنستے ہو بہانے نہ بناؤ تم کافر ہوچکے مسلمان ہوکر ۔(پ10،التوبۃ65۔66)
جن منافقین کا اس آیت میں ذکر ہے انہوں نے ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے علم غیب کا مذاق اڑایا تھا کہ بھلا حضور کب روم پر غالب آسکتے ہیں اس گستاخی کو رب کی آیتو ں کی گستاخی قرار دے کر ان کے کفرکا فتوی صادر فرمایا کس نے ؟ کسی مولوی نے ؟ نہیں ! بلکہ خود اللہ جل شانہ نے ۔"
(8) یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقُوۡلُوۡا رَاعِنَا وَقُوۡلُوا انۡظُرْنَا وَاسْمَعُوۡا ؕ وَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۱۰۴﴾
"اے ایمان والو!میرے پیغمبرسے راعنا نہ کہاکرو انظر ناکہا کرو خوب سن لو اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے ۔(پ1،البقرۃ:104)
اس سے پتا لگا کہ جو کوئی توہین کے لئے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ایسا لفظ بولے جس میں گستاخی کا شائبہ بھی نکلتا ہو وہ ایمان سے خارج ہوجاتا ہے۔ (جیسے راعنا)
خلاصہ یہ ہے کہ رب تعالیٰ نے مسلمانوں کو قرآن میں ہر جگہ"
یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا
کہہ کر پکارا، موحدیا نمازی یا مولوی یا فاضل دیوبند کہہ کر نہ پکارا تا کہ پتا لگے کہ رب تعالیٰ کی تمام نعمتیں ایمان سے ملتی ہیں اور ایمان کی حقیقت وہ ہے جو ان آیتوں میں بیان ہوئی یعنی غلامی سرکار مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ۔ توحید نوٹ کا کا غذ ہے اور
نبوت اس کی مہر جیسے نوٹ کی قیمت سرکاری مہر سے ہے اس کے بغیر وہ قیمتی نہیں اسی طر ح ایمان کے نوٹ کی قیمت بازار قیامت میں جب ہی ہوگی جب اس پر حضور کے نام کی مہر لگی ہو ۔ ان سے منہ موڑکر توحید کی کوئی قیمت نہیں اسی لئے کلمہ میں حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کانام ہے اور قبر میں تو حید کا اقرار کرانے کے بعد حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی پہچان ہے ۔خیال رہے کہ حدیث وقرآن میں بھی مسلمانوں کو موحد نہ کہا گیا بلکہ مومن ہی سے خطاب فرمایا ۔
اسلام سلم سے بناجن کے معنی ہیں صلح،جنگ کامقابل۔ رب تعالیٰ فرماتاہے:
وَ اِنۡ جَنَحُوۡا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَہَا
"اگر وہ صلح کی طر ف مائل ہوں توتم بھی اس طر ف جھک جاؤ۔(پ10،الانفال:61)
لہٰذا اسلام کے معنی ہوئے صلح کرنا ۔ مگر عرف میں اسلام کے معنی اطاعت وفرمانبرداری ہے ،قرآن شریف میں یہ لفظ کبھی تو ایمان کے معنی میں آتا ہے او رکبھی اطاعت وفرمانبرداری کرنے کے لئے ، ان آیات میں اسلام بمعنی ایمان ہے ۔"
(1) اِنَّ الدِّیۡنَ عِنۡدَ اللہِ الۡاِسْلَامُ
پسندیدہ دین اللہ کے نزدیک اسلام ہے(پ3،اٰل عمرٰن:19)
(2)ہُوَ سَمّٰىکُمُ الْمُسْلِمِیۡنَ ۬ۙ
اس رب نے تمہارا نام مسلم رکھا(پ17،الحج:78)
(3) مَاکَانَ اِبْرٰہِیۡمُ یَہُوۡدِیًّا وَّلَا نَصْرَانِیًّا وَّلٰکِنۡ کَانَ حَنِیۡفًا مُّسْلِمًا ؕ
ابراہیم علیہ السلام نہ یہودی تھے نہ عیسائی لیکن وہ حنیف ایمان والے تھے۔(پ3،اٰل عمرٰن:67)
(4) قُلۡ لَّا تَمُنُّوۡا عَلَیَّ اِسْلَامَکُمۡ ۚ بَلِ اللہُ یَمُنُّ عَلَیۡکُمْ اَنْ ہَدٰىکُمْ لِلْاِیۡمَانِ اِنۡ کُنۡتُمْ صٰدِقِیۡنَ ﴿۱۷﴾
فرمادو کہ تم مجھ پر اپنے اسلام کا احسان نہ جتا ؤ بلکہ اللہ تم پر احسان فرماتا ہے کہ تمہیں ایمان کی ہدایت دی اگر تم سچے ہو ۔(پ26،الحجرات:17)
(5)تَوَفَّنِیۡ مُسْلِمًا وَّ اَلْحِقْنِیۡ بِالصّٰلِحِیۡنَ ﴿۱۰۱﴾
مجھے مومن اٹھا اور صالحوں سے ملا۔(پ13،یوسف:101)
(6)وَّ اَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُوۡنَ وَ مِنَّا الْقَاسِطُوۡنَ ؕ فَمَنْ اَسْلَمَ فَاُولٰٓئِکَ تَحَرَّوْا رَشَدًا ﴿۱۴﴾
"اورہم میں سے کچھ مسلمان ہیں اور کچھ ظالم جو اسلام لائے انہوں نے بھلائی تلاش کرلی ۔(پ29،الجن:14)
ان آیات اور ان جیسی دو سری آیات میں اسلام ایمان کے معنی میں ہے۔ لہٰذا جیسے ایمان کا دار ومدار امت کے لئے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی سچی غلامی پر ہے ایسے ہی اسلام کا مدار بھی اس سرکار کی غلامی پر ہے۔ لہٰذا حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی عظمت کا منکر نہ مومن ہے نہ مسلمان جیسے شیطان نہ مومن ہے نہ مسلم بلکہ کافر و مشرک ہے ۔
بعض آیات میں اسلام بمعنی اطا عت آیاہے جیسے"
(1) لَہٗۤ اَسْلَمَ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرْضِ
اس اللہ کے فرمانبردار ہیں تمام آسمانوں اور زمینوں کے لوگ ۔(پ3،اٰل عمرٰن:83)
کُلٌّ لَّہ، قَانِتُوْنَ
"ہر ایک اس کامطیع ہے یعنی تکوینی احکام میں۔(پ۲۱،الروم:۲۶)
یہا ں''قانتین'' نے''اسلم'' کی تفسیر کردی کیونکہ ساری چیز یں رب تعالیٰ کی تکوینی امور میں مطیع توہیں مگر سب مومن نہیں بعض کا فر بھی ہیں۔"
فَمِنۡکُمْ کَافِرٌ
"وَّ مِنۡکُمْ مُّؤْمِنٌ ؕ (پ28،التغابن:2)
(2) قُلۡ لَّمْ تُؤْمِنُوۡا وَ لٰکِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِیۡمَانُ فِیۡ قُلُوۡبِکُمْ ؕ"
"اے منافقو! یہ نہ کہو کہ تم ایمان لے آئے بلکہ یوں کہو کہ ہم نے اطا عت قبول کرلی اور ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ۔(پ26،الحجرات:14)
منافق مسلم بمعنی مطیع تو تھے مومن نہ تھے ۔"
(3) فَلَمَّاۤ اَسْلَمَا وَ تَلَّہٗ لِلْجَبِیۡنِ ﴿۱۰۳﴾ۚوَ نَادَیۡنٰہُ اَنْ یّٰۤاِبْرٰہِیۡمُ ﴿۱۰۴﴾ۙ
توجب دونوں ابراہیم واسماعیل نے ہمارے حکم پر گردن رکھی اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹادیا (ذبح کیلئے) اور ہم نے ندا کی اے ابراہیم(پ23،الصّٰفّٰت:103،104)
(4) اِذْ قَالَ لَہٗ رَبُّہٗۤ اَسْلِمۡ ۙ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۳۱﴾
"جب فرمایا ابراہیم سے ان کے رب نے مطیع ہوجاؤ عرض کیا کہ میں اللہ رب العالمین کا فرمانبردار ہوا۔(پ1،البقرۃ:131)
ان دونوں آخر ی آیات میں اسلام کے معنی ایمان نہیں بن سکتے کیونکہ انبیاء پیدا ئشی مومن ہوتے ہیں ان کے ایمان لانے کے کیا معنی ؟
ان آیات میں اسلام بمعنی اطاعت ہے ۔ پہلی آیت میں تکوینی امور کی اطاعت مراد ہے جیسے بیماری ، تندرستی ، موت، زندگی وغیرہ ۔ آخری دوسری دوآیات میں تشریعی احکام کی اطا عت مراد ہے لہٰذا منافق مومن نہ تھے مسلم تھے یعنی مجبوراً اسلامی قوانین کے مطیع ہوگئے تھے ۔"
قرآن کریم میں یہ لفظ بہت استعمال ہوا ہے بلکہ ایمان کے ساتھ تقویٰ کا اکثر حکم آتا ہے ۔ تقویٰ کے معنی ڈرنا بھی ہیں اور بچنا بھی اگر اس کا تعلق اللہ تعالیٰ یا قیامت کے دن سے ہو تو اس سے ڈرنا مراد ہوتا ہے کیونکہ رب سے اور قیامت سے کوئی نہیں بچ سکتا جیسے
(1) یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ
اے ایما ن والو! اللہ سے ڈرو!(پ3،البقرۃ:278)
(2) وَاتَّقُوۡا یَوْمًا لَّا تَجْزِیۡ نَفْسٌ عَنۡ نَّفْسٍ شَیْـًٔا
"اور اس دن سے ڈرو جس دن کو ئی نفس کسی نفس کی طر ف سے نہ بدلا دے گا ۔(پ1،البقرۃ:48)
اور اگر تقویٰ کے ساتھ آگ یا گناہ کا ذکر ہو تو وہاں تقویٰ سے بچنا مراد ہوگا جیسے"
(3)فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیۡ وَقُوۡدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ
"اور اس آگ سے بچو جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں۔(پ1،البقرۃ:24)
اگر تقوی کے بعد کسی چیز کا ذکر نہ ہو نہ رب تعالیٰ کا نہ دو زخ کا تو وہاں دونوں معنی یعنی ڈرنا اور بچنا درست ہیں جیسے"
(4) ہُدًی لِّلْمُتَّقِیۡنَ ۙ﴿۲﴾الَّذِیۡنَ یُؤْمِنُوۡنَ بِالْغَیۡبِ
ہدایت ہے ان پر ہیز گار وں کے لئے جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔(پ1،البقرۃ:2۔3)
(5) فَاصْبِرْ ؕۛ اِنَّ الْعَاقِبَۃَ لِلْمُتَّقِیۡنَ ﴿٪۴۹﴾
پس صبر کرو بیشک انجام پر ہیز گاروں کے لئے ہے ۔(پ12،ھود:49)
قرآن کی اصطلاح میں تقوی کی دو قسمیں ہیں تقویٰ بدن اور تقویٰ دل تقویٰ بدن کا مدار اطا عت خدا اور رسول پر ہے ۔ فرماتا ہے :
(1) فَمَنِ اتَّقٰی وَاَصْلَحَ فَلَاخَوْفٌ عَلَیۡہِمْ وَلَاہُمْ یَحْزَنُوۡنَ ﴿۳۵﴾
تو جس نے اللہ اور رسول کی اطاعت کی ان پر نہ خو ف ہے نہ وہ غمگین ہوں گے ۔(پ8،الاعراف:35)
(2) الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَکَانُوۡا یَتَّقُوۡنَ ﴿ؕ۶۳﴾
ولی اللہ وہ ہیں جوایمان لائے اور پرہیزگار ی کرتے تھے ۔(پ11،یونس:63)
(3) اِنۡ تَتَّقُوا اللہَ یَجْعَلۡ لَّکُمْ فُرْقَانًا
"اگر اللہ کی اطاعت کر و گے تو تمہارے لئے فرق بتا دے گا ۔ (پ9،الانفال:29)
دلی تقوی کا دار ومدار اس پر ہے کہ اللہ کے پیارو ں بلکہ جس چیز کو ان سے نسبت ہوجاوے اس کی تعظیم وادب دل سے کر ے ۔ تبرکات کا بے ادب دلی پرہیز گار نہیں ہو سکتا ۔ فرماتا ہے :"
(1) وَ مَنۡ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللہِ فَاِنَّہَا مِنۡ تَقْوَی الْقُلُوۡبِ ﴿۳۲﴾
جو کوئی اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرے تو یہ دل کی پرہیز گا ری سے ہے ۔(پ17،الحج:32)
(2) وَمَنۡ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللہِ فَہُوَ خَیۡرٌ لَّہٗ عِنۡدَ رَبِّہٖ ؕ
"اور جو کوئی اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرے تو اس کیلئے اس کے رب کے ہاں بہتری ہے ۔(پ17،الحج:30)
یہ بھی قرآن کریم ہی سے پوچھو کہ شعا ئر اللہ یعنی اللہ کی نشانیا ں کیا چیز ہیں۔فرماتا ہے :"
(3)اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنۡ شَعَآئِرِ اللہِ ۚ فَمَنْ حَجَّ الْبَیۡتَ اَوِاعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡہِ اَنۡ یَّطَّوَّفَ بِہِمَا ؕ
"صفا اور مروہ پہاڑ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں تو جو کو ئی بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ اس پر گناہ نہیں کہ ان پہاڑوں کا طواف کرے ۔(پ2،البقرۃ:158)
صفا اور مروہ وہ پہاڑ ہیں جن پر حضرت ہاجرہ پانی کی تلاش میں سات بار چڑھیں او راتریں ۔ اس اللہ والی کے قدم پڑجانے کی بر کت سے یہ دونوں پہاڑ شعائر اللہ بن گئے اور تا قیامت حاجیوں پرا س پاک بی بی کی نقل اتارنے میں ان پر چڑھنا اور اتر ناسات بار لازم ہوگیا ۔ بزرگو ں کے قدم لگ جانے سے وہ چیز شعائر اللہ بن جاتی ہے۔ فرماتا ہے :"
(4)وَ اتَّخِذُوۡا مِنۡ مَّقَامِ اِبْرٰہٖمَ مُصَلًّی ؕ
"تم لوگ مقام ابراہیم کو جاء نماز بناؤ ۔(پ1،البقرۃ:125)
مقام ابراہیم وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہوکر ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ معظمہ کی تعمیر کی وہ بھی حضرت خلیل علیہ السلام کی برکت سے شعائر اللہ بن گیااوراس کی تعظیم ایسی لازم ہوگئی کہ طواف کے نفل اس کے سامنے کھڑے ہوکر پڑھنا سنت ہوگئے کہ سجدہ میں سر اس پتھر کے سامنے جھکے۔
جب بزرگو ں کے قدم پڑجانے سے صفا مروہ اور مقام ابراہیم شعائر اللہ بن گئے اور قابل تعظیم ہوگئے تو قبو ر انبیاء واولیاء جس میں یہ حضرات دائمی قیام فرما ہیں یقینا شعائر اللہ ہیں اور ان کی تعظیم لازم ہے ۔
رب تعالیٰ فرما تاہے :"
(5) فَقَالُوا ابْنُوۡا عَلَیۡہِمۡ بُنْیَانًا ؕ رَبُّہُمْ اَعْلَمُ بِہِمْ ؕ قَالَ الَّذِیۡنَ غَلَبُوۡا عَلٰۤی اَمْرِہِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَیۡہِمۡ مَّسْجِدًا ﴿۲۱﴾
"پس لوگ بولے کہ ان اصحاب کہف پر کوئی عمارت بناؤ ان کا رب انہیں خوب جانتا ہے اور وہ بولے جواس کام میں غالب رہے کہ ہم تو ضرور ان پر مسجد بنائیں گے ۔(پ15،الکھف:21)
اصحاب کہف کے غار پر جو ان کا آرام گاہ ہے گذشتہ مسلمانوں نے مسجد بنائی اور رب نے ان کے کام پر ناراضگی کا اظہار نہ کیا پتا لگا کہ وہ جگہ شعا ئر اللہ بن گئی جس کی تعظیم ضروری ہوگئی۔"
(6) وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰہَا لَکُمۡ مِّنۡ شَعَآئِرِ اللہِ لَکُمْ فِیۡہَا خَیۡرٌ
"اور قربانی کے جانور(ہدی)ہم نے تمہارے لئے اللہ کی نشانیوں میں سے بنائے تمہارے لئے ان میں خیر ہے ۔(پ17،الحج:36)
جو جانور قربانی کے لئے یا کعبہ معظمہ کیلئے نامزد ہوجائے وہ شعائر اللہ ہے اس کا احترام چاہیے جیسے قرآن کا جزدان اور کعبہ کا غلاف اور زمزم کاپانی اورمکہ شریف کی زمین۔ کیوں ؟ اس لئے کہ ان کو رب یا رب کے پیاروں سے نسبت ہے ان سب کی تعظیم ضروری ہے ۔فرماتا ہے :"
(7) لَاۤ اُقْسِمُ بِہٰذَا الْبَلَدِ ۙ﴿۱﴾وَ اَنۡتَ حِلٌّۢ بِہٰذَا الْبَلَدِ ۙ﴿۲﴾
میں اس شہر مکہ معظمہ کی قسم فرماتا ہوں حالانکہ اے محبوب تم اس شہر میں تشریف فرماہو۔(پ30،البلد:1۔2)
(8) وَالتِّیۡنِ وَ الزَّیۡتُوۡنِ ۙ﴿۱﴾وَ طُوۡرِ سِیۡنِیۡنَ ۙ﴿۲﴾وَ ہٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِیۡنِ ۙ﴿۳﴾
قسم ہے انجیر کی اور زیتو ن کی اورطور سینا پہاڑ کی اور اس امانت والے شہر مکہ شریف کی۔(پ30،التین:1۔3)
(9) وَّادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّقُوۡلُوۡا حِطَّۃٌ نَّغْفِرْلَکُمْ خَطٰیٰکُمْ
"اوربیت المقدس کے دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے گھسو اور کہو معافی دے، ہم بخش دیں گے۔(پ1،البقرۃ:58)
طور سینا پہاڑ اور مکہ معظمہ اس لئے عظمت والے بن گئے کہ طو ر کو کلیم اللہ سے اور مکہ معظمہ کو حبیب اللہ علیہماالسلام سے نسبت ہوگئی۔
خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کے پیارو ں کی چیزیں شعائر اللہ ہیں جیسے قرآن شریف، خانہ کعبہ، صفا مروہ پہاڑ ،مکہ معظمہ ،بیت المقدس، طورسینا،مقابر اولیاء اللہ وانبیاء کرام ، آب زمزم وغیرہ اورشعائر اللہ کی تعظیم و تو قیر قرآنی فتوے سے دلی تقویٰ ہے جو کوئی نمازی رو زہ دار تو ہو مگر اس کے دل میں تبرکات کی تعظیم نہ ہو وہ دلی پر ہیز گا ر نہیں۔
ان آیات قرآنیہ سے معلوم ہو اکہ جہاں کہیں قرآن کریم میں تقویٰ کا ذکر ہے وہاں یہ تقویٰ دلی یعنی متبر ک چیزوں کی تعظیم ضرورمراد ہے ۔ یہ آیات کریمہ تقویٰ کی تمام آیات کی تفسیر ہیں۔جہاں تقوی کا ذکر ہو وہاں یہ قید ضروری ہے ۔
رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :"
اِنَّ الَّذِیۡنَ یَغُضُّوۡنَ اَصْوَاتَہُمْ عِنۡدَ رَسُوْلِ اللہِ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ امْتَحَنَ اللہُ قُلُوۡبَہُمْ لِلتَّقْوٰی ؕ لَہُمۡ مَّغْفِرَۃٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیۡمٌ ﴿۳﴾
"بے شک جو لوگ اپنی آوازیں رسول اللہ کے نزدیک پست کرتے ہیں یہ وہ ہیں جن کا دل اللہ نے پرہیز گاری کے لئے پرکھ لیا ہے ان کیلئے بخشش اور بڑا ثواب ہے ۔(پ26،الحجرات:3)
معلوم ہو اکہ مجلس میں حضور مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا احترام تقویٰ ہے۔ کیونکہ یہ بھی شعائر اللہ ہے اور شعائر اللہ کی حرمت دلی تقویٰ ہے ۔ ایمان جڑ ہے اور"
تقوی اس کی شاخیں،پھل وہی کھاسکتا ہے جو ان دونوں کی حفاظت کرے ۔ اسی طر ح بخشش کے پھل اسی کو نصیب ہوں گے جوایمان اور تقویٰ دونوں کا حامل ہو۔
کفر کے معنی چھپانا اور مٹا نا ہے اسی لئے جرم کی شرعی سز اکو کفارہ کہتے ہیں کہ وہ گناہ کو مٹادیتا ہے ایک دوا کانام کافور ہے کہ وہ اپنی تیز خوشبو سے دوسری خوشبوؤ ں کو چھپالیتا ہے۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :
اِنۡ تَجْتَنِبُوۡا کَبٰٓئِرَ مَا تُنْہَوْنَ عَنْہُ نُکَفِّرْ عَنۡکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَنُدْخِلْکُمۡ مُّدْخَلًا کَرِیۡمًا ﴿۳۱﴾
"اگر تم بڑے گناہوں سے بچو گے تو ہم تمہارے چھوٹے گناہ مٹا دیں گے اور تم کو اچھی جگہ میں داخل کر یں گے (پ5،النسآء:31)
قرآن شریف میں یہ لفظ چندمعنوں میں استعمال ہواہے ناشکری،انکار، اسلام سے نکل جانا۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :"
(1) لَئِنۡ شَکَرْتُمْ لَاَزِیۡدَنَّکُمْ وَلَئِنۡ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیۡ لَشَدِیۡدٌ ﴿۷﴾
اگر تم شکر کرو گے تو تم کو اور زیادہ دیں گے اور اگر تم ناشکری کرو گے تو ہمارا عذاب سخت ہے(پ13،ابرٰہیم:7)
(2) وَاشْکُرُوۡا لِیۡ وَلَا تَکْفُرُوۡنِ ﴿۱۵۲﴾
میرا شکر کرونا شکری نہ کرو(پ2،البقرۃ:152)
(3) وَ فَعَلْتَ فَعْلَتَکَ الَّتِیۡ فَعَلْتَ وَ اَنۡتَ مِنَ الْکٰفِرِیۡنَ ﴿۱۹﴾
فرعون نے موسی علیہ السلام سے کہا کہ تم نے اپنا وہ کام کیا جو کیا اور تم ناشکر ے تھے(پ19،الشعرآء:19)
ان آیات میں کفر بمعنی ناشکری ہے ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے:
(1) فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوۡتِ وَیُؤْمِنۡۢ بِاللہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی
پس جوکوئی شیطان کا انکا ر کرے اور اللہ پر ایمان لائے اس نے مضبوط گرہ پکڑلی۔(پ3،البقرۃ:256)
(2) یَکْفُرُ بَعْضُکُمْ بِبَعْضٍ وَّیَلْعَنُ بَعْضُکُمْ بَعْضًا
اس دن تمہارے بعض بعض کا انکار کریں گے اور بعض بعض پر لعنت کریں گے ۔(پ۲۰،عنکبوت:۲۵)
(3) وَّ کَانُوۡا بِعِبَادَتِہِمْ کٰفِرِیۡنَ ﴿۶﴾
"یہ معبود ان باطلہ ان کی عبادت کے انکاری ہوجاویں گے۔(پ26،الاحقاف:6)
ان تمام آیات میں کفر بمعنی انکار ہے نہ کہ اسلام سے پھر جانا ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :"
(1) قُلْ یٰۤاَیُّہَا الْکٰفِرُوۡنَ ۙ﴿۱﴾لَاۤ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوۡنَ ۙ﴿۲﴾
فرمادو کافر و میں تمہارے معبودوں کو نہیں پوجتا۔(پ30الکٰفرون:1۔2)
(2) فَبُہِتَ الَّذِیۡ کَفَرَ ؕ
پس وہ کافر (نمرود )حیران رہ گیا۔(پ3،البقرۃ:258)
(3) وَالْکٰفِرُوۡنَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ ﴿۲۵۴﴾
اور کافر لوگ ظالم ہیں ۔(پ3،البقرۃ:254)
(4) لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ اللہَ ہُوَ الْمَسِیۡحُ ابْنُ مَرْیَمَ
وہ لوگ کافر ہوگئے جنہوں نے کہا ، اللہ عیسی ابن مریم ہیں۔(پ6،المآئدۃ:17)
(5) لَاتَعْتَذِرُوۡا قَدْکَفَرْتُمۡ بَعْدَ اِیۡمَانِکُمْ ؕ
بہانے نہ بناؤ تم ایمان لانے کے بعد کافر ہوچکے(پ10،التوبۃ:66)
(6) فَمِنْہُمۡ مَّنْ اٰمَنَ وَمِنْہُمۡ مَّنۡ کَفَرَ ؕ
"ان میں سے بعض ایمان لے آئے بعض کافر رہے ۔(پ3،البقرۃ:253)
ان جیسی اور بہت سی آیات میں کفر ایمان کا مقابل ہے جس کے معنی ہیں بے ایمان ہوجانا، اسلام سے نکل جانا ۔ اس کفر میں ایمان کے مقابل تمام چیزیں معتبر ہوں گی یعنی جن چیزوں کا ماننا ایمان تھا ان میں سے کسی کا بھی انکار کرنا کفر ہے ۔ لہٰذا کفر کی صدہا قسمیں ہوں گی ۔ خدا کا انکار کفر، اس کی تو حید کا انکا ر یعنی شرک یہ بھی کفر، اسی طر ح فرشتے،دوزخ وجنت، حشر نشر ، نماز ، روزہ،قرآن کی آیتیں،غرضیکہ ضروریات دین میں سے کسی ایک کا انکار کفر ہے ۔ اسی لئے قرآن شریف میں مختلف قسم کے کافروں کی تردید فرمائی گئی ہے جیسا کہ ان شاء اللہ تعالیٰ شرک کی بحث میں آوے گا۔"
جیسے کہ صدہاچیزوں کے ماننے کا نام ایمان تھا لیکن ان سب کا مدار صرف ایک چیز پر تھا یعنی پیغمبر کوماننا کہ جس نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو کما حقہ مان لیا ۔ اس نے سب کچھ مان لیا ۔ اسی طر ح کفر کا مدار صرف ایک چیز پر ہے یعنی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کاانکار، ان کی عظمت کا انکار ، ان کی شان اعلی کا انکار ، اصل کفر تو یہ ہے باقی تمام اس کی شاخیں ہیں مثلا جورب کی ذات یا صفات کاانکار کرتا ہے وہ بھی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا منکر ہے کہ حضور نے فرمایا : اللہ ایک ہے۔ یہ کہتا ہے کہ دو ہیں۔اسی طر ح نماز، رو زہ وغیرہ کسی ایک کا انکار درحقیقت حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا
انکار ہے کہ وہ سر کار فرماتے ہیں کہ یہ چیزیں فرض ہیں۔وہ کہتا ہے کہ نہیں۔ اسی لئے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ادنی توہین ،ان کی کسی شے کی توہین، قرآنی فتوے سے کفر ہے ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :
(1) وَیَقُوۡلُوۡنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّنَکْفُرُ بِبَعْضٍ ۙ وَّیُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یَّتَّخِذُوۡا بَیۡنَ ذٰلِکَ سَبِیۡلًا ﴿۱۵۰﴾ۙ ۙاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْکٰفِرُوۡنَ حَقًّا
اور وہ کفار کہتے ہیں کہ ہم پیغمبر وں پر ایمان لائینگے اور بعض کا انکار کریں گے اور چاہتے ہیں کہ ایمان وکفر کے بیچ میں کوئی راہ نکالیں یہی لوگ یقینا کا فر ہیں(پ6،النسآء:150۔151)
(2) وَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۱۰۴﴾
کافروں ہی کے لئے درد ناک عذاب ہے۔(پ1،البقرۃ:104)
(3) وَالَّذِیۡنَ یُؤْذُوۡنَ رَسُوۡلَ اللہِ لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۶۱﴾
"اور جو لوگ رسول اللہ کو ایذا دیتے ہیں ان ہی کے لئے دردناک عذاب ہے ۔(پ10،التوبۃ:61)
یعنی صرف کافر کو دردناک عذاب ہے اور صرف اسے درد ناک عذاب ہے جو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو ایذا دے ۔لہٰذا پتا لگا کہ صرف وہ ہی کافر ہے جو رسول کو ایذادے اور جو حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی عظمت واحترام ، خدمت ، اطاعت کرے وہ سچا مومن ہے ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :"
وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَہَاجَرُوۡا وَجٰہَدُوۡا فِی سَبِیۡلِ اللہِ وَالَّذِیۡنَ اٰوَوۡا وَّنَصَرُوۡۤا اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُؤْمِنُوۡنَ حَقًّا ؕ لَہُمۡ مَّغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ کَرِیۡمٌ ﴿۷۴﴾
اورجوایمان لائے اورانہوں نے ہجرت کی اوراللہ کی راہ میں جہادکیااوروہ جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو جگہ دی اور ان کی مدد کی وہ سچے مسلمان ہیں ان کیلئے بخشش ہے اور عزت کی روزی ۔(پ10،الانفال:74)
رب تعالیٰ فرماتا ہے :
اَلَمْ یَعْلَمُوۡۤا اَنَّہٗ مَنۡ یُّحَادِدِ اللہَ وَرَسُوۡلَہٗ فَاَنَّ لَہٗ نَارَ جَہَنَّمَ خَالِدًا فِیۡہَا ؕ ذٰلِکَ الْخِزْیُ الْعَظِیۡمُ ﴿۶۳﴾
"کیا انہیں خبر نہیں کہ جو مخالفت کرے اللہ اور اس کے رسول کی تو اس کے لئے جہنم کی آگ ہے ہمیشہ اس میں رہے گا ۔ یہ بڑی رسوائی ہے ۔
بلکہ جس اچھے کام میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی اطا عت کا لحاظ نہ ہو بلکہ ان کی مخالفت ہو وہ کفر بن جاتا ہے اور جس برے کام میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت ہو وہ ایمان بن جاتا ہے مسجد بنانا اچھا کام ہے لیکن منافقین نے جب مسجد ضرار حضور کی مخالفت کرنے کی نیت سے بنائی توقرآن نے اسے کفر قرار دیا ہے۔ فرماتا ہے :"
وَالَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَّکُفْرًا وَّتَفْرِیۡقًۢا بَیۡنَ الْمُؤْمِنِیۡنَ وَ اِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللہَ وَرَسُوۡلَہٗ مِنۡ قَبْلُ ؕ
"اور وہ لوگ جنہوں نے مسجد بنائی نقصان پہنچا نے اور کفر کیلئے اور مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کو اور اس کے انتظار میں جو پہلے سے اللہ اور رسول کا مخالف ہے۔(پ11،التوبۃ:107)
نماز توڑنا گناہ ہے لیکن حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بلانے پر نماز توڑنا گناہ نہیں ہے بلکہ عبادت ہے۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :"
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیۡبُوۡا لِلہِ وَلِلرَّسُوۡلِ اِذَا دَعَاکُمۡ لِمَا یُحْیِیۡکُمْ
اے ایمان والو اللہ رسول کا بلاوا قبول کروجب وہ تمہیں بلائیں اس لئے کہ وہ تمہیں زندگی بخشتے ہیں۔(پ9،الانفال:24)
اسی لئے حضو رصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی آواز پر اونچی آواز کرنے اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ادنیٰ گستاخی کرنے کو قرآن نے کفر قرار دیا جس کی آیات ایمان کی بحث میں گز ر چکیں۔ شیطان کے پاس عبادات کافی تھیں مگر جب اس نے آدم علیہ السلام کے متعلق کہا کہ
قَالَ اَنَا خَیۡرٌ مِّنْہُ ؕ خَلَقْتَنِیۡ مِنۡ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَہٗ مِنۡ طِیۡنٍ ﴿۷۶﴾قَالَ فَاخْرُجْ مِنْہَا فَاِنَّکَ رَجِیۡمٌ ﴿۷۷﴾
"میں ان سے اچھا ہوں کہ تو نے مجھے آگ سے اور انہیں مٹی سے پیدا کیا رب نے فرمایا یہاں سے نکل جا تو مردود ہوگیا۔ (پ23،ص:76۔77)
تو فورا کافر ہوگیا اور موسیٰ علیہ السلام کے جادو گر وں نے موسیٰ علیہ السلام کا ادب کیا کہ جادو کرنے سے پہلے عرض کیا"
قَالُوۡا یٰمُوۡسٰۤی اِمَّاۤ اَنۡ تُلْقِیَ وَ اِمَّاۤ اَنۡ نَّکُوۡنَ نَحْنُ الْمُلْقِیۡنَ ﴿۱۱۵﴾
"عرض کیا کہ اے موسی یا پہلے آپ ڈالیں یا ہم ڈالنے والے ہوں ۔(پ9،الاعراف:115)
اس اجازت لینے کے ادب کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہیں ایک دن میں ایمان ،کلیم اللہ کی صحابیت ، تقویٰ ، صبر ، شہادت نصیب ہوئی۔رب نے فرمایا :"
فَاُلْقِیَ السَّحَرَۃُ سٰجِدِیۡنَ ﴿ۙ۴۶﴾
"جادو گر سجدے میں گرادیئے گئے ۔(پ19،الشعرآء:46)
یعنی خود سجدے میں نہیں گرے بلکہ رب کی طر ف سے ڈال دیئے گئے۔ کافر کے دل میں حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ادب آجائے توان شاء اللہ مومن ہوجائے گا ۔ اگر مومن کو بے ادبی کی بیماری ہوجائے تو اس کے ایمان چھوٹ جانے کاخطرہ ہے۔"
یوسف علیہ السلام کے بھائی قصور مند تھے مگر بے ادب نہ تھے آخر بخش دیئے گئے ۔ قابیل یعنی آدم علیہ السلام کا بیٹا جرم کے ساتھ نبی کا گستاخ بھی تھالہٰذا خاتمہ خراب ہو ا۔
" شرک کے لغوی معنی ہیں حصہ یا ساجھا ۔ لہٰذا شریک کے معنی ہیں حصہ دار یا ساجھی۔
رب تعالیٰ فرماتا ہے :"
(1) اَمْ لَہُمْ شِرْکٌ فِی السَّمٰوٰتِ ۚ
کیا ان بتوں کا ان آسمانوں میں حصہ ہے ۔(پ22،فاطر:40)
(2) ہَلْ لَّکُمْ مِّنْ مَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ مِّنْ شُرَکَآءَ فِیْ مَا رَزَقْنٰکُمْ فَاَنْتُمْ فِیْہِ سَوَآءٌ تَخَافُوْنَہُمْ کَخِیۡفَتِکُمْ اَنۡفُسَکُمْ ؕ
کیا تمہارے مملوک غلاموں میں سے کوئی شریک ہے اس میں جو ہم نے تمہیں دیا ہے کہ تم اس میں برابر ہو ان غلاموں سے تم ایساڈرو جیسا اپنے نفسوں سے ڈرتے ہو(پ21،الروم:28)
(3) رَّجُلًا فِیۡہِ شُرَکَآءُ مُتَشٰکِسُوۡنَ وَ رَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍ ؕ ہَلْ یَسْتَوِیٰنِ
"ایک وہ غلام جس میں برابر کے چند شریک ہوں اور ایک وہ غلام جو ایک ہی آدمی کا ہو ۔ کیا یہ دونوں برابر ہیں(پ23،زمر:29)
ان آیتوں میں شرک اور شریک لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی حصہ ، ساجھا اور حصہ دار وساجھی ۔ لہٰذا شرک کے لغوی معنی ہیں کسی کو خدا کے برابر جاننا ۔ قرآن کریم میں یہ لفظ ان دونوں معنی میں استعمال ہواہے ۔شرک بمعنی کفران آیات میں آیا :"
(1) اِنَّ اللہَ لَا یَغْفِرُ اَنۡ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ
اللہ تعالیٰ اس جرم کو نہ بخشے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیاجائے اس کے سوا جس کو چاہے بخش دے گا ۔(پ5،النسآء:48)
(2) وَ لَا تُنۡکِحُوا الْمُشْرِکِیۡنَ حَتّٰی یُؤْمِنُوۡا ؕ
نکاح نہ کرو مشرکوں سے یہاں تک کہ ایمان لے آویں۔(پ2،البقرۃ:221)
(3) وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیۡرٌ مِّنۡ مُّشْرِکٍ
مومن غلام مشرک سے اچھاہے۔(پ2،البقرۃ:221)
(4) مَاکَانَ لِلْمُشْرِکِیۡنَ اَنۡ یَّعْمُرُوۡا مَسٰجِدَ اللہِ شٰہِدِیۡنَ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمْ بِالْکُفْرِؕ
"مشرکوں کو یہ حق نہیں کہ اللہ کی مسجد یں آباد کریں اپنے پر کفر کی گواہی دیتے ہوئے ۔(پ10،التوبۃ:17)
ان آیات میں شرک سے مرادہر کفر ہے کیونکہ کوئی بھی کفر بخشش کے لائق نہیں اور کسی کافر مرد سے مومنہ عورت کا نکاح جائز نہیں او رہر مومن ہر کافر سے بہتر ہے خواہ مشرک ہو جیسے ہند و یا کوئی اور جیسے یہودی ، پارسی ، مجوسی۔
دوسرے معنی کا شرک یعنی کسی کو خدا کے برابر جاننا کفر سے خاص ہے کفر اس سے عام یعنی ہر شرک کفر ہے مگر ہر کفر شرک نہیں۔ جیسے ہر کوا کالا ہے مگر ہر کا لا کو انہیں۔ ہر سوناپیلا ہے مگر ہر پیلا سونانہیں ۔ لہٰذا دہر یہ کافر ہے مشرک نہیں اور ہند ومشرک بھی ہے کافر بھی۔ قرآن شریف میں شرک اکثر اسی معنی میں استعمال ہوا ہے جیسے"
(1)جَعَلَا لَہٗ شُرَکَآءَ فِیۡمَاۤ اٰتٰہُمَا
ان دونوں نے خدا کے برابر کر دیا اس نعمت میں جو رب تعالیٰ نے انہیں دی۔(پ9،الاعراف: 190)
(2) حَنِیۡفًا وَّمَاۤ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیۡنَ ﴿ۚ۷۹﴾
میں تمام برے دینوں سے بیزار ہوں اور میں مشرکین میں سے نہیں ہوں۔(پ7،الانعام:79)
(3) اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱۳﴾
بے شک شرک بڑا ظلم ہے ۔(پ21،لقمٰن:13)
(4) وَمَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُہُمْ بِاللہِ اِلَّا وَہُمۡ مُّشْرِکُوۡنَ ﴿۱۰۶﴾
"ان میں سے بہت سے لوگ اللہ پر ایمان نہیں لائے مگر وہ مشرک ہوتے ہیں۔(پ13,یوسف:106)
ان جیسی صدہا آیتو ں میں شرک اس معنی میں استعمال ہوا ہے بمعنی کسی کو خدا کے مساوی جاننا۔"
شرک کی حقیقت رب تعالیٰ سے مساوات پر ہے یعنی جب تک کسی کو رب کے برابر نہ جانا جائے تب تک شرک نہ ہوگا اسی لئے قیامت میں کفار اپنے بتوں سے کہیں گے ۔
تَاللہِ اِنۡ کُنَّا لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ﴿ۙ۹۷﴾
"خدا کی قسم ہم کھلی گمراہی میں تھے کہ تم کورب العالمین کے برابر ٹھہراتے تھے ۔(پ19،الشعرآء:97)
اس برابر جاننے کی چند صورتیں ہیں ایک یہ کہ کسی کو خدا کا ہم جنس مانا جائے جیسے عیسائی عیسی علیہ السلام کو اور یہودی عزیر علیہ السلام کو خدا کا بیٹا مانتے تھے اور مشرکین عرب فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں مانتے تھے چونکہ اولاد باپ کی ملک نہیں ہوتی بلکہ باپ کی ہم جنس اور مساوی ہوتی ہے ۔ لہٰذا یہ ماننے والا مشرک ہوگا ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے:"
(1) وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا سُبْحٰنَہٗ ؕ بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُوۡنَ ﴿ۙ۲۶﴾
یہ لوگ بولے کہ اللہ نے بچے اختیار فرمائے پاکی ہے اس کے لئے بلکہ یہ اللہ کے عزت والے بندے ہیں ۔(پ17،الانبیاء:26)
(2) وَقَالَتِ الْیَہُوۡدُ عُزَیۡرُۨ ابْنُ اللہِ وَقَالَتِ النَّصٰرَی الْمَسِیۡحُ ابْنُ اللہِ
یہودی بولے کہ عزیر اللہ کے بیٹے ہیں اور عیسائی بولے کہ مسیح اللہ کے بیٹے ہیں ۔(پ10،التوبۃ:30)
(3) وَ جَعَلُوۡا لَہٗ مِنْ عِبَادِہٖ جُزْءًا ؕ اِنَّ الْاِنۡسَانَ لَکَفُوۡرٌ مُّبِیۡنٌ ﴿ؕ٪۱۵﴾
بنادیا ان لوگوں نے اللہ کے لئے اس کے بندوں میں سے ٹکڑا بے شک آدمی کھلا ناشکرا ہے۔(پ25،الزخرف:15)
(4) وَ جَعَلُوا الْمَلٰٓئِکَۃَ الَّذِیۡنَ ہُمْ عِبٰدُ الرَّحْمٰنِ اِنَاثًا ؕ اَشَہِدُوۡا خَلْقَہُمْ ؕ
انہوں نے فرشتوں کو جو رحمن کے بندے ہیں عورتیں ٹھہرایا کیا ان کے بناتے وقت یہ حاضر تھے ۔(پ25،الزخرف:19)
(5) اَمِ اتَّخَذَ مِمَّا یَخْلُقُ بَنٰتٍ وَّ اَصْفٰىکُمۡ بِالْبَنِیۡنَ ﴿۱۶﴾
کیا اس نے اپنی مخلوق میں سے بیٹیا ں بنالیں اور تمہیں بیٹوں کے ساتھ خاص کیا۔(پ25،الزخرف: 16)
(6) وَ جَعَلُوۡا لِلہِ شُرَکَآءَ الْجِنَّ وَخَلَقَہُمْ وَ خَرَقُوۡا لَہٗ بَنِیۡنَ وَ بَنٰتٍۭ بِغَیۡرِ عِلْمٍ ؕ
اور اللہ کا شریک ٹھہرایا جنوں کو حالانکہ اس نے ان کو بنایا اور اس کیلئے بیٹے اور بیٹیاں گھڑلیں جہالت سے ۔(پ7،الانعام:100)
(7) لَیُسَمُّوۡنَ الْمَلٰٓئِکَۃَ تَسْمِیَۃَ الْاُنۡثٰی ﴿۲۷﴾
"یہ کفار فرشتوں کا نام عورتوں کا سا رکھتے تھے ۔(پ27،النجم:27)
ان جیسی بہت سی آیتوں میں اسی قسم کا شرک مراد ہے یعنی کسی کو رب کی اولاد ماننا دوسرے یہ کہ کسی کو رب تعالیٰ کی طر ح خالق مانا جائے جیسے کہ بعض کفار عرب کا عقیدہ تھا کہ خیر کا خالق اللہ ہے اور شرکا خالق دوسرا رب ،اب بھی پارسی یہی مانتے ہیں"
خالق خیر کو'' یزداں'' اور خالق شر کو ''اہر من ''کہتے ہیں ۔ یہ وہی پرانا مشر کا نہ عقیدہ ہے یا بعض کفار کہتے تھے کہ ہم اپنے برے اعمال کے خود خالق ہیں کیونکہ ان کے نزدیک بری چیزوں کا پیدا کرنا براہے لہٰذا اس کا خالق کوئی اور چاہیے اس قسم کے مشرکوں کی تردید کے لئے یہ آیات آئیں۔ خیال رہے کہ بعض عیسائی تین خالقوں کے قائل تھے جن میں سے ایک عیسی علیہ السلام ہیں ان تمام کی تردید میں حسب ذیل آیات ہیں۔
(1) وَاللہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوۡنَ ﴿۹۶﴾
اللہ نے تم کو اور تمہارے سارے اعمال کو پیدا کیا ۔(پ23،الصافات:96)
(2) اَللہُ خَالِقُ کُلِّ شَیۡءٍ ۫ وَّ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ وَّکِیۡلٌ ﴿۶۲﴾
اللہ ہر چیز کا خالق ہے اور وہ ہر چیز کا مختار ہے۔(پ24،الزمر:62)
(3) خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ
اللہ نے موت اور زندگی کو پیدا فرمایا ۔(پ29،الملک:2)
(3) اَنَّ اللہَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرْضَ
اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا۔(پ13،ابرٰھیم:19)
(4) لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ اللہَ ہُوَ الْمَسِیۡحُ ابْنُ مَرْیَمَ
بے شک کافر ہوگئے وہ جنہوں نے کہاکہ اللہ وہی مسیح مریم کابیٹاہے ۔(پ6،المآئدۃ:17)
(5) لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ اللہَ ثَالِثُ ثَلٰثَۃٍ
بے شک کافر ہوگئے وہ جو کہتے ہیں کہ اللہ تین خداؤں میں تیسرا ہے ۔(پ6،المآئدۃ:73)
(6)لَوْکَانَ فِیۡہِمَاۤ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللہُ لَفَسَدَت
اگر زمین وآسمان میں خدا کے سوا اور معبود ہوتے تو یہ دونوں بگڑجاتے۔َا (پ17،الانبیآء:22)
(7) ہٰذَا خَلْقُ اللہِ فَاَرُوۡنِیۡ مَاذَا خَلَقَ الَّذِیۡنَ مِنۡ دُوۡنِہٖ ؕ
"یہ اللہ کی مخلوق ہے پس مجھے دکھا ؤ کہ اس کے سوااوروں نے کیا پیداکیا ۔(پ21،لقمٰن:11)
ان جیسی تمام آیتو ں میں اسی قسم کے شر ک کا ذکر ہے اور اسی کی تردید ہے۔ اگر یہ مشرک غیر خدا کو خالق نہ مانتے ہوتے تو ان سے یہ مطالبہ کرنا کہ ان معبودوں کی مخلوق دکھاؤ درست نہ ہوتا ۔
تیسرے یہ کہ خود زمانہ کو مؤثر مانا جائے اور خدا کی ہستی کا انکار کیا جائے جیسا کہ بعض مشرکین عرب کا عقیدہ تھا ۔ موجودہ دہر یہ انہی کی یادگارہیں۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :"
(1) وَقَالُوۡا مَا ہِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوۡتُ وَ نَحْیَا وَمَا یُہۡلِکُنَاۤ اِلَّا الدَّہۡرُ ۚ وَ مَا لَہُمۡ بِذٰلِکَ مِنْ عِلْمٍ ۚ
"وہ بولے وہ تو نہیں مگر یہ ہی ہماری دنیا کی زندگی مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور ہمیں ہلاک نہیں کرتا مگر زمانہ اور انہیں اس کا علم نہیں ۔(پ25،الجاثیۃ:24)
اس قسم کے دہر یوں کی تردید کے لئے تمام وہ آیات ہیں جن میں حکم دیا گیا ہے کہ عالم کی عجائبات میں غور کر و کہ ایسی حکمت والی چیز یں بغیر خالق کے نہیں ہوسکتیں۔"
(1) یُغْشِی الَّیۡلَ النَّہَارَ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ ﴿۳﴾
ڈھکتا ہے رات سے دن کو اس میں نشانیاں ہیں فکر والوں کے لئے۔(پ13،الرعد:3)
(2) اِنَّ فِیۡ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیۡلِ وَالنَّہَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الۡاَلْبَابِ ﴿۱۹۰﴾
بے شک آسمان وزمین کی پیدائش اور دن رات کے گھٹنے بڑھنے میں نشانیاں ہیں عقل مندوں کے لئے ۔(پ4،اٰل عمرٰن:190)
(3) وَ فِی الْاَرْضِ اٰیٰتٌ لِّلْمُوۡقِنِیۡنَ ﴿ۙ۲۰﴾وَ فِیۡۤ اَنۡفُسِکُمْ ؕ اَفَلَا تُبْصِرُوۡنَ ﴿۲۱﴾
اور زمین میں نشانیاں ہیں یقین والوں کے لئے اور خود تمہاری ذاتوں میں ہیں تو تم دیکھتے کیوں نہیں ۔(پ26،الذٰریٰت:20،21)
(4) اَفَلَا یَنۡظُرُوۡنَ اِلَی الْاِبِلِ کَیۡفَ خُلِقَتْ ﴿ٝ۱۷﴾وَ اِلَی السَّمَآءِ کَیۡفَ رُفِعَتْ ﴿ٝ۱۸﴾وَ اِلَی الْجِبَالِ کَیۡفَ نُصِبَتْ ﴿ٝ۱۹﴾وَ اِلَی الْاَرْضِ کَیۡفَ سُطِحَتْ ﴿۲۰﴾ٝ
"کیا یہ نہیں دیکھتے اونٹ کی طر ف کہ کیسے پیدا کیا گیا اور آسمان کی طرف کہ کیسا اونچا کیاگیااورپہاڑوں کی طرف کہ کیسے گاڑاگیا اور زمین کی طر ف کہ کیسے بچھائی گئی ۔(پ30،الغاشیۃ:17۔20)
اس قسم کی بیسیوں آیات میں ان دہر یوں کی تردید ہے ۔
چوتھے یہ عقیدہ کہ خالق ہر چیز کا تو رب ہی ہے مگر وہ ایک بار پیدا کر کے تھک گیا،اب کسی کام کانہیں رہا،اب اس کی خدائی کی چلانے والے یہ ہمارے معبودین باطلہ ہیں۔ اس قسم کے مشرکین عجیب بکواس کرتے تھے ۔ کہتے تھے کہ چھ دن میں آسمان زمین پیدا ہوئے اور ساتواں دن اللہ نے آرام کا رکھا تھکن دور کرنے کو"
اب بھی وہ آرام ہی کر رہا ہے۔ چنانچہ فرقہ تعطیلیہ اسی قسم کے مشرکوں کی یاد گار ہے۔ ان کی تردید ان آیا ت میں ہے :
(1) وَ لَقَدْ خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیۡنَہُمَا فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ٭ۖ وَّ مَا مَسَّنَا مِنۡ لُّغُوۡبٍ ﴿۳۸﴾
اور بے شک ہم نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے چھ دن میں بنایا اور ہم کو تھکن نہ آئی(پ26،قۤ:38)
(2) اَفَعَیِیۡنَا بِالْخَلْقِ الْاَوَّلِ ؕ بَلْ ہُمْ فِیۡ لَبْسٍ مِّنْ خَلْقٍ جَدِیۡدٍ ﴿٪۱۵﴾
تو کیا ہم پہلی بار بنا کر تھک گئے بلکہ وہ نئے بننے سے شبہ میں ہیں۔(پ26،قۤ:15)
(3) اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّ اللہَ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَلَمْ یَعْیَ بِخَلْقِہِنَّ بِقٰدِرٍ عَلٰۤی اَنْ یُّحْیَِۧ الْمَوْتٰی ؕ
اور کیا ان لوگو ں نے غور نہ کیا کہ اللہ نے آسمانوں او رزمین کو پیدافرمایا اور انہیں پیدا کر کے نہ تھکا وہ قادر اس پر بھی ہے کہ مردو ں کو زندہ کر ے ۔(پ26،الاحقاف:33)
(4) اِنَّمَاۤ اَمْرُہٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیْـًٔا اَنْ یَّقُوۡلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوۡنُ ﴿۸۲﴾
"اس کی شان یہ ہے کہ جب کسی چیز کا ارادہ فرماتا ہے تو اس سے کہتا ہے ہو جا تو وہ ہوجاتی ہے ۔(پ23،یٰسۤ:82)
اس قسم کے مشرکوں کی تردید کیلئے اس جیسی کئی آیات ہیں جن میں فرمایا گیا کہ ہم کو عالم کے بنانے میں کسی قسم کی کوئی تھکاوٹ نہیں پہنچتی ۔ اس قسم کے مشرک قیامت کے منکر اس لئے بھی تھے کہ وہ سمجھتے تھے ایک دفعہ دنیا پیدا فرما کر حق تعالیٰ کافی تھک چکا ہے اب دو بارہ کیسے بنا سکتا ہے۔ معاذاللہ ! اس لئے فرمایا گیا کہ ہم تو صرف"
''کُنْ''سے ہر چیز پیدا فرماتے ہیں تھکن کیسی؟ ہم دوبارہ پیدا کرنے پر بدرجہ اولیٰ قادرہیں کہ اعادہ سے ایجاد مشکل ہے ۔
یہ عقیدہ ہے کہ ہر ذرہ کا خالق ومالک تو اللہ تعالیٰ ہی ہے مگر وہ اتنے بڑے عالم کو اکیلا سنبھالنے پر قادر نہیں اس لئے اس نے مجبور اً اپنے بندوں میں سے بعض بندے عالم کے انتظام کے لئے چن لئے ہیں جیسے دنیاوی بادشاہ اور ان کے محکمے ، اب یہ بندے جنہیں عالم کے انتظام میں دخیل بنایا گیا ہے وہ بندے ہونے کے باوجود رب تعالیٰ پردھونس رکھتے ہیں کہ اگر ہماری شفاعت کریں تو رب کو مرعوب ہوکر ماننی پڑے اگر چاہیں تو ہماری بگڑی بنادیں، ہماری مشکل کشائی کردیں،جو وہ کہیں رب تعالیٰ کو ان کی ماننی پڑے ورنہ اس کا عالم بگڑجاوے جیسے اسمبلی کے ممبرکہ اگر چہ وہ سب بادشاہ کی رعایا تو ہیں مگر ملکی انتظام میں ان کو ایسا دخل ہے کہ ملک ان سب کی تدبیر سے چل رہا ہے ۔ یہ وہ شرک ہے جس میں عرب کے بہت سے مشرکین گرفتا ر تھے اور اپنے بت ودّ ، یغوث، لات ومنات وعزی وغیرہ کو رب کا بندہ مان کر اور سارے عالم کا رب تعالیٰ کو خالق مان کر مشرک تھے ۔ اس عقیدے سے کسی کو پکارنا شرک ، اس کی شفاعت ماننا شرک، اسے حاجت روا مشکل کشا ماننا شرک ، اس کے سامنے جھکنا شر ک، اس کی تعظیم کرنا شرک ، غرضیکہ یہ برابری کا عقیدہ رکھ کر اس کے ساتھ جو تعظیم وتو قیر کا معاملہ کیا جاوے وہ شرک ہے ۔ ان کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے :
وَمَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُہُمْ بِاللہِ اِلَّا وَہُمۡ مُّشْرِکُوۡنَ ﴿۱۰۶﴾
ان مشرکین میں سے بہت سے وہ ہیں کہ اللہ پر ایمان نہیں لاتے مگر شرک کرتے ہوئے۔(پ13،یوسف:106)
کہ خدا کو خالق ، رازق مانتے ہوئے پھر مشرک ہیں ، انہی پانچویں قسم کے مشرکین کے بارے میں فرمایا گیا :
(1) وَلَئِنۡ سَاَلْتَہُمۡ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ لَیَقُوۡلُنَّ اللہُ ۚ فَاَنّٰی یُؤْفَکُوۡنَ ﴿۶۱﴾
اگر آپ ان مشرکوں سے پوچھیں کہ کس نے آسمان و زمین پیدا کئے او رکام میں لگائے سورج اور چاند تو وہ کہیں گے اللہ نے تو فرماؤ کہ کیوں بھولے جاتے ہیں ۔(پ21العنکبوت:61)
(2) قُلْ مَنۡۢ بِیَدِہٖ مَلَکُوۡتُ کُلِّ شَیۡءٍ وَّ ہُوَ یُجِیۡرُ وَ لَا یُجَارُ عَلَیۡہِ اِنۡ کُنۡتُمْ تَعْلَمُوۡنَ ﴿۸۸﴾سَیَقُوۡلُوۡنَ لِلہِ ؕ قُلْ فَاَنّٰی تُسْحَرُوۡنَ ﴿۸۹﴾
فرمادو کہ ہر چیز کی بادشاہی کس کے قبضے میں ہے جو پناہ دیتا ہے اور پناہ نہیں دیا جاتا بتا ؤ اگر تم جانتے ہو تو کہیں گے اللہ ہی کی ہے کہو پھر کہا ں تم پر جادو پڑا جاتا ہے ۔(پ18المؤمنون:88۔89)
(3) وَ لَئِنۡ سَاَلْتَہُمۡ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ لَیَقُوۡلُنَّ خَلَقَہُنَّ الْعَزِیۡزُ الْعَلِیۡمُ ﴿ۙ۹﴾
اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمان اور زمین کس نے پیدا کئے تو کہیں گے کہ انہیں غالب جاننے والے اللہ نے پیدا کیا ہے ۔(پ25،الزخرف:9)
(4) قُلۡ لِّمَنِ الْاَرْضُ وَمَنۡ فِیۡہَاۤ اِنۡ کُنۡتُمْ تَعْلَمُوۡنَ ﴿۸۴﴾سَیَقُوۡلُوۡنَ لِلہِ ؕ قُلْ اَفَلَا تَذَکَّرُوۡنَ ﴿۸۵﴾
فرماؤ کس کی ہے زمین اور اس کی چیزیں اگر تم جانتے ہو تو کہیں گے اللہ کی فرماؤ کہ تم نصیحت حاصل کیوں نہیں کرتے ۔(پ18،المؤمنون:84۔85)
(5) قُلْ مَنۡ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیۡمِ ﴿۸۶﴾سَیَقُوۡلُوۡنَ لِلہِ ؕ قُلْ اَفَلَا تَتَّقُوۡنَ ﴿۸۷﴾
فرماؤ کہ سات آسمان اور بڑے عرش کا رب کون ہے ؟ توکہیں گے اللہ کا ہے فرماؤ کہ تم ڈرتے کیوں نہیں ۔(پ18،المؤمنون:86۔87)
(6) قُلْ مَنۡ یَّرْزُقُکُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ وَالۡاَرْضِ اَمَّنۡ یَّمْلِکُ السَّمْعَ وَ الۡاَبْصَارَ وَ مَنۡ یُّخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ یُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ وَمَنۡ یُّدَبِّرُ الۡاَمْرَ ؕ فَسَیَقُوۡلُوۡنَ اللہُ ۚ فَقُلْ اَفَلَا تَتَّقُوۡنَ ﴿۳۱﴾
فرماؤ تمہیں آسمان وزمین سے رزق کو ن دیتا ہے یا کان آنکھ کاکون مالک ہے اورکون زندے کو مردے سے اور مردے کو زندہ سے نکالتا ہے اور کاموں کی تدبیر کو ن کرتاہے تو کہیں گے اللہ!فرماؤتوتم ڈرتے کیوں نہیں ؟(پ11،یونس:31)
(7) وَلَئِنۡ سَاَلْتَہُمۡ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ لَیَقُوۡلُنَّ اللہُ ۚ فَاَنّٰی یُؤْفَکُوۡنَ ﴿۶۱﴾
اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ کس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور کس نے سورج وچاند تا بعدار کیا تو کہیں گے اللہ نے تو فرماؤ تم کدھر پھر ے جاتے ہو۔(پ21،العنکبوت:61)
(8) وَلَئِنۡ سَاَلْتَہُمۡ مَّنۡ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ مِنۡۢ بَعْدِ مَوْتِہَا لَیَقُوۡلُنَّ اللہُ ؕ
اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ کس نے آسمان سے پانی اتاراپس زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کیا تو کہیں گے اللہ نے ۔(پ21،العنکبوت:63)
ان جیسی بہت سی آیات سے معلوم ہوا کہ یہ پانچویں قسم کے مشرک اللہ تعالیٰ کو سب کا خالق ،مالک ، زندہ کرنے والا ، مارنے والا ، پناہ دینے والا, عالم کا مدبر مانتے تھے مگر پھر مشرک تھے یعنی ذات، صفات کا اقرار کرنے کے باوجود مشرک رہے کیوں ؟ یہ بھی قرآن سے پوچھئے ۔ قرآن فرماتا ہے کہ ان عقائد کے باوجود وہ دو سبب سے مشرک تھے ایک یہ کہ وہ صرف خدا کو عالم کا مالک نہیں مانتے تھے بلکہ اللہ کوبھی اور دوسرے اپنے معبودوں کو بھی۔ یہاں'' للہ ''میں لام ملکیت کا ہے یعنی وہ اللہ کی ملکیت مانتے تھے مگر اکیلے کی نہیں بلکہ ساتھ ہی دوسرے معبودوں کی بھی،اسی لیے وہ یہ نہ کہتے تھے کہ ملکیت وقبضہ صرف اللہ کا ہے ، اور وں کا نہیں بلکہ وہ کہتے تھے اللہ کا بھی ہے اور دوسروں کا بھی، دو سرے اسلئے کہ وہ سمجھتے تھے کہ اللہ اکیلا یہ کام نہیں کرتا بلکہ ہمارے بتوں کی مدد سے کرتا ہے ۔ خود مجبور ہے اسی لئے ان دونوں عقیدوں کی تردید کے لئے حسب ذیل آیات ہیں:
(1) وَ قُلِ الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیۡ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ شَرِیۡکٌ فِی الْمُلْکِ وَ لَمْ یَکُنۡ لَّہٗ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَکَبِّرْہُ تَکْبِیۡرًا ﴿۱۱۱﴾٪
"اور فرماؤ کہ سب خوبیاں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے اپنے لئے اولاد نہ بنائی او رنہ اس کے ملک میں کوئی شریک ہے او رنہ کوئی کمزوری کی وجہ سے ا س کا ولی مدد گار ہے تو اس کی بڑائی بولو ۔(پ15،بنیۤ اسرآء یل:111)
اگر یہ مشرکین ملک اور قبضہ میں خدا کے سوا کسی کوشریک نہیں مانتے تھے تو یہ تردید کس کی ہو رہی ہے او رکس سے یہ کلام ہو رہاہے ۔"
(2) تَاللہِ اِنۡ کُنَّا لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ﴿ۙ۹۷﴾اِذْ نُسَوِّیۡکُمۡ بِرَبِّ الْعٰلَمِیۡنَ ﴿۹۸﴾
"دوزخ میں مشرکین اپنے بتوں سے کہیں گے اللہ کی قسم ہم کھلی گمراہی میں تھے ۔کیونکہ ہم تم کو رب العالمین کے برابر سمجھتے تھے۔(پ19،الشعرآء:97۔98)
یہ مشرک مسلمانوں کی طر ح اللہ تعالیٰ کو ہر شے کا خالق، مالک بلا شرکت غیرکے مانتے تھے تو برابر ی کرنے کے کیا معنی ہیں ،فرماتا ہے:"
(3)اَمْ لَہُمْ اٰلِہَۃٌ تَمْنَعُہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِنَا ؕ لَا یَسْتَطِیۡعُوۡنَ نَصْرَ اَنۡفُسِہِمْ وَ لَا ہُمۡ مِّنَّا یُصْحَبُوۡنَ ﴿۴۳﴾
"کیا ان کے کچھ خدا ہیں جو ان کو ہم سے بچاتے ہیں وہ اپنی جانوں کو نہیں بچاسکتے اور نہ ہماری طر ف سے ان کی کوئی یاری ہو۔(پ17،الانبیآء:43)
اس آیت میں مشرکین کے اسی عقیدے کی تردید کی ہے کہ ہمارے معبود ہمیں خدا سے مقابلہ کر کے بچاسکتے ہیں :"
(4) اَمِ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللہِ شُفَعَآءَ ؕ قُلْ اَوَ لَوْ کَانُوۡا لَا یَمْلِکُوۡنَ شَیْـًٔا وَّ لَا یَعْقِلُوۡنَ ﴿۴۳﴾قُلۡ لِّلہِ الشَّفَاعَۃُ جَمِیۡعًا ؕ
"بلکہ انہوں نے اللہ کے مقابل کچھ سفارشی بنا رکھے ہیں فرماد و کہ کیا اگر چہ وہ کسی چیز کے مالک نہ ہوں اور نہ عقل رکھیں فرمادو ساری شفاعتیں اللہ کے ہاتھ میں ہیں ۔(پ 24الزمر:43،44)
اس آیت میں مشرکین کے اسی عقیدے کی تردید ہے کہ ہمارے معبود بغیر اذن الٰہی دھونس کی شفاعت کر کے ہمیں اس کے غضب سے بچاسکتے ہیں اسی لئے اس جگہ بتوں کے مالک نہ ہونے اور رب کی ملکیت کا ذکر ہے یعنی ملک میں شریک ہونے کی وجہ سے اس کے ہاں کوئی شفیع نہیں ہے:"
(5) وَیَعْبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ مَا لَایَضُرُّہُمْ وَ لَایَنۡفَعُہُمْ وَ یَقُوۡلُوۡنَ ہٰۤؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنۡدَ اللہِ
"او رپوجتے ہیں وہ اللہ کے سوا ان چیزوں کو جو نہ انہیں نقصان دیں نہ نفع اور کہتے ہیں کہ یہ ہمارے شفیع ہیں اللہ کے نزدیک ۔(پ11،یونس:18)
اس آیت میں بھی مشرکین کے اسی عقیدے کی تردید ہے کہ ہمارے بت دھونس کی شفاعت کریں گے کیونکہ وہ رب تعالیٰ کے ساتھ اس کی مِلک میں او رعالم کاکام چلانے میں شریک ہیں ۔
خلاصہ یہ ہے کہ مشرکین عرب کا شرک ایک ہی طرح کا نہ تھا بلکہ اس کی پانچ صورتیں تھیں:
(۱)خالق کا انکار اور زمانہ کو مؤثر ماننا (۲) چند مستقل خالق ماننا (۳) اللہ کو ایک مان کر اس کی اولاد ماننا (۴) اللہ کو ایک مان کر اسے تھکن کی وجہ سے معطل ماننا (۵) اللہ کو خالق و مالک مان کر اسے دوسرے کا محتاج ماننا ،جیسے اسمبلی کے ممبر، شاہان موجودہ کیلئے اور انہیں ملکیت اور خدائی میں دخیل ماننا ۔ ان پانچ کے سوا اور چھٹی قسم کا شر ک ثابت نہیں۔
ان پانچ قسم کے مشرکین کے لئے پانچ ہی قسم کی تردید یں قرآن میں آئی ہیں جن پانچوں کا ذکر سورہ اخلاص میں اس طر ح ہے کہ قُلْ ھُوَاللہُ میں دہر یوں کا رد کہ اللہ عالم کا خالق ہے ۔ اَحَدٌ میں ان مشرکوں کا رد جو عالم کے دوخالق مستقل مانتے تھے تا کہ عالم کا کام چلے۔"
لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ
میں ان مشرکین کا رد جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام وحضرت عزیر علیہ السلام کو رب تعالیٰ کا بیٹا یا فرشتوں کو رب تعالیٰ کی بیٹیاں مانتے
تھے۔
وَلَمْ یَکُنْ لَّہ، کُفُوًا اَحَدٌ
"میں ان لوگو ں کا رد جو خالق کو تھکاہوا مان کر مدبر عالم اوروں کو مانتے تھے ۔
(۱) اعتراض: مشرکین عرب بھی اپنے بتو ں کو خدا کے ہاں سفارشی اور خدا رسی کا وسیلہ مانتے تھے اور مسلمان بھی نبیوں ، ولیوں کو شفیع اوروسیلہ مانتے ہیں تو وہ کیوں مشرک ہوگئے اور یہ کیوں مومن رہے ؟ ان دونوں میں کیا فر ق ہے ؟
جواب : دو طر ح فرق ہے کہ مشرکین خدا کے دشمنوں یعنی بتو ں وغیرہ کو سفارشی اور وسیلہ سمجھتے تھے جو کہ واقعہ میں ایسے نہ تھے اور مومنین اللہ کے محبو بوں کو شفیع او روسیلہ سمجھتے ہیں لہٰذا وہ کافر ہوئے اور یہ مومن رہے جیسے گنگاکے پانی اور بت کے پتھر کی تعظیم ، ہولی، دیوالی ، بنارس ، کاشی کی تعظیم شرک ہے مگرآب زمزم ، مقام ابراہیم ، رمضان ، محرم، مکہ معظمہ ، مدینہ طیبہ کی تعظیم ایمان ہے ۔ حالانکہ زمزم اور گنگا جل دو نوں پانی ہیں۔ مقام ابراہیم اور سنگ اسود ۔ اور بت کا پتھر دونوں پتھر ہیں وغیرہ وغیرہ ، دوسرے یہ کہ وہ اپنے معبودوں کو خدا کے مقابل دھونس کا شفیع مانتے تھے اور جبری وسیلہ مانتے تھے، مومن انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام رحمۃاللہ تعالیٰ علیہم کو محض بندہ محض اعزازی طور پر خدا کے اذن وعطا سے شفیع یا وسیلہ مانتے ہیں ۔ اذن اور مقابلہ ایمان وکفر کا معیا ر ہے ۔
(۲)اعتراض : مشرکین عر ب کا شرک صرف اس لئے تھا کہ وہ مخلوق کو فریاد رس، مشکل کشا، شفیع ، حاجت روا،دور سے پکار سننے والا، عالم غیب،وسیلہ مانتے تھے وہ اپنے بتوں کو خالق، مالک ، رازق ، قابض موت وحیات بخشنے والا نہیں مانتے تھے ۔ اللہ کا بندہ مان کر یہ پانچ باتیں ان میں ثابت کرتے تھے قرآن کے فتوے سے وہ مشرک"
"ہوئے۔ لہٰذاموجودہ مسلمان جو نبیوں علیہم السلام ، ولیوں رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم کے لئے یہ مذکورہ بالا چیزیں ثابت کرتے ہیں وہ انہیں کی طر ح مشرک ہیں اگر چہ انہیں خدا کا بندہ مان کر ہی کریں چونکہ یہ کام مافوق الاسباب مخلوق کے لئے ثابت کرتے تھے ،مشرک ہوئے۔
جواب : یہ محض غلط اور قرآن کریم پر افترا ہے۔جب تک رب تعالیٰ کے ساتھ بندے کو برابر نہ مانا جاوے ، شرک نہیں ہوسکتا۔ وہ بتوں کو رب تعالیٰ کے مقابل ان صفتوں سے موصوف کرتے تھے ۔ مومن رب تعالیٰ کے اذن سے انہیں محض اللہ کا بندہ جان کر مانتا ہے لہٰذا وہ مومن ہے ۔ ان اللہ کے بندوں کے لئے یہ صفات قرآن کریم سے ثابت ہیں ،قرآنی آیات ملاحظہ ہوں۔
عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں باذن الٰہی مردوں کو زندہ ، اندھوں ، کوڑھیوں کو اچھا کر سکتا ہوں، میں باذن الٰہی ہی مٹی کی شکل میں پھونک مار کر پرندہ بنا سکتا ہوں جو کچھ تم گھر میں کھاؤیا بچا ؤ بتا سکتا ہوں ۔ یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ میری قمیص میرے والد کی آنکھوں پر لگا دو ۔ انہیں آرام ہوگا، جبریل علیہ السلام نے حضرت مریم رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے کہا کہ میں تمہیں بیٹا دوں گا ۔ ان تمام میں مافوق الاسباب مشکل کشائی حاجت روائی علم غیب سب کچھ آگیا ۔ حضرت جبریل علیہ السلام کی گھوڑی کی ٹاپ کی خاک نے بے جان بچھڑے میں جان ڈال دی،یہ مافوق الاسباب زندگی دینا ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصاء دم میں لاٹھی اور دم میں زندہ سانپ بن جاتا تھا آپ کے ہاتھ کی بر کت سے، حضرت آصف آنکھ جھپکنے سے پہلے تخت بلقیس یمن سے شام میں"
"لے آئے، حضرت سلیمان علیہ السلام نے تین میل کے فاصلے سے چیونٹی کی آواز سن لی ، حضرت یعقوب علیہ السلام نے کنعان بیٹھے ہوئے یوسف علیہ السلام کو سات قفلوں سے بندمقفل کو ٹھڑی میں برے ارادے سے بچایا،حضرت ابراہیم علیہ السلام نے روحوں کو حج کیلئے پکارا اور تاقیامت آنے والی روحوں نے سن لیا یہ تمام معجزات قرآن کریم سے ثابت ہیں جن کی آیات ان شاء اللہ باب احکام قرآنی میں پیش کی جائیں گی ۔ یہ توسب شرک ہوگئیں بلکہ معجزات اور کرامات توکہتے ہی انہیں ہیں جواسباب سے ورا ہو ۔ اگر مافوق الاسباب تصرف ماننا شرک ہوجاوے تو ہر معجزہ وکرامت ماننا شرک ہوگا۔ ایسا شرک ہم کو مبارک رہے جو قرآن کریم سے ثابت ہو اور سارے انبیاء و اولیاء کا عقیدہ ہو۔
فرق وہی ہے کہ باذن اللہ یہ چیزیں بندوں کو ثابت ہیں اور رب کے مقابل ماننا شرک ہے انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاء عظام رحمہم اللہ کے معجزات اور کرامات تو ہیں ہی ۔ ایک ملک الموت اور ان کے عملہ کے فرشتے سارے عالم کو بیک وقت دیکھتے ہیں او رہر جگہ بیک وقت تصرف کرتے ہیں ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :"
(1) قُلْ یَتَوَفّٰىکُمۡ مَّلَکُ الْمَوْتِ الَّذِیۡ وُکِّلَ بِکُمْ
فرمادو کہ تم سب کو موت کا فرشتہ موت دیگا جو تم پر مقرر کیا گیا ہے ۔(پ21،السجدۃ:11)
(2) حَتّٰۤی اذَا جَآءَتْہُمْ رُسُلُنَا یَتَوَفَّوْنَہُمْ
"یہاں تک کہ جب ان کے پاس ہمارے قاصد آئینگے انہیں موت دینے (پ8،الاعراف:37)
ابلیس ملعون کو یہ قوت دی گئی ہے کہ وہ گمراہ کرنے کیلئے تمام کو بیک وقت دیکھتا ہے وہ بھی اور اس کی ذریت بھی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:"
(3) اِنَّہٗ یَرٰىکُمْ ہُوَ وَقَبِیۡلُہٗ مِنْ حَیۡثُ لَا تَرَوْنَہُمْ ؕ
"وہ شیطان اور اس کا قبیلہ تم سب کو وہاں سے دیکھتا ہے جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے ۔(پ8،الاعراف:27)
جو فرشتے قبر میں سوال و جواب کرتے ہیں، جو فرشتہ ماں کے پیٹ میں بچہ بناتا ہے، وہ سب جہان پر نظر رکھتے ہیں کیونکہ بغیر اس قوت کے وہ اتنا بڑا انتظام کرسکتے ہی نہیں اور تمام کا م مافوق الاسباب ہیں ۔ جواہر القرآن کے اس فتوے سے اسلامی عقائد شرک ہوگئے ۔ فر ق وہ ہی ہے جو عرض کیا گیا کہ رب کے مقابل یہ قوت ماننا شرک ہے اور رب کے خدام اور بندوں میں باذن الٰہی رب کی عطا سے یہ طاقتیں ماننا عین ایمان ہے ۔"
" بدعت کے لغوی معنی ہیں نئی چیزاصطلاح شریعت میں بدعت کہتے ہیں دین میں نیا کام جو ثواب کیلئے ایجاد کیا جائے اگر یہ کام خلاف دین ہو تو حرام ہے اور اگر اس کے خلاف نہ ہو تودرست یہ دونوں معنی قرآن شریف میں استعمال ہوئے ہیں۔
رب تعالیٰ فرماتا ہے۔"
(1) بَدِیۡعُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرْضِ ؕ
وہ اللہ آسمانوں اور زمین کا ایجاد فرمانے والا ہے ۔(پ1،البقرۃ:117)
(2)قُلْ مَا کُنۡتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ
"فرمادو کہ میں انوکھا رسول نہیں ہوں۔ (پ26،الاحقاف:9)
ان دونوں آیتو ں میں بدعت لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی انوکھا نیا رب تعالیٰ فرماتا ہے :"
وَ جَعَلْنَا فِیۡ قُلُوۡبِ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُ رَاۡفَۃً وَّ رَحْمَۃً ؕ وَ رَہۡبَانِیَّۃَۨ ابْتَدَعُوۡہَا مَا کَتَبْنٰہَا عَلَیۡہِمْ اِلَّا ابْتِغَآءَ رِضْوَانِ اللہِ فَمَا رَعَوْہَا حَقَّ رِعَایَتِہَا ۚ فَاٰتَیۡنَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنْہُمْ اَجْرَہُمْ ۚ وَکَثِیۡرٌ مِّنْہُمْ فٰسِقُوۡنَ ﴿۲۷﴾
"اور عیسیٰ علیہ السلام کے پیروؤں کے دل میں ہم نے نرمی اور رحمت رکھی اور ترک دنیا یہ بات جو انہوں نے دین میں اپنی طر ف سے نکالی ۔ ہم نے ان پر مقرر نہ کی تھی ہاں یہ بدعت انہوں نے اللہ کی رضا چاہنے کو پیدا کی پھر اسے نہ نباہا جیسا اس کے نباہنے کا حق تھا تو ان کے مومنوں کو ہم نے ان کا ثواب عطا کیا اور ان میں سے بہت سے فاسق ہیں۔(پ27،الحدید:27)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ عیسائیوں نے رہبانیت اور تارک الدنیا ہونا اپنی طر ف سے ایجاد کیا ۔ رب تعالیٰ نے ان کو اس کا حکم نہ دیا ۔ بد عت حسنہ کے طور پر انہوں نے یہ عبادت ایجاد کی اللہ تعالیٰ نے انہیں اس بدعت کا ثواب دیا مگر جو اسے نباہ نہ سکے یا جو ایمان سے پھر گئے وہ عذاب کے مستحق ہوگئے معلوم ہوا کہ دین میں نئی بدعتیں ایجاد کرنا جو دین کے خلاف نہ ہوں ثواب کا با عث ہیں مگر انہیں ہمیشہ کرنا چاہیے جیسے چھ کلمے ، نماز میں زبان سے نیت ،قرآن کے رکوع وغیرہ ،علم حدیث، محفل میلا د شریف ،اور ختم بزرگان، کہ یہ دینی چیزیں اگر چہ حضور صلی ا للہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ کے بعد ایجاد ہوئیں مگر چونکہ دین کے خلاف نہیں اور ان سے دینی فائدہ ہے لہٰذا باعث ثواب ہیں جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے کہ جو اسلام میں اچھا طریقہ ایجاد کرے اسے بہت ثواب ہوگا ۔"
" قرآن شریف کی اصطلاحوں میں سے ایک اصطلاح لفظ الٰہ بھی ہے اس کی پہچان مسلمان کے لئے بہت ہی ضروری ہے کیونکہ کلمہ میں اسی کا ذکر ہے : لا الہ الا اللہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں نماز شر وع کرتے ہی پڑھتے ہیں: لاالہ غیرک یا اللہ ! تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں غرضیکہ ایمان اور نماز بلکہ سارے اعمال اسی کی پہچان پر موقوف ہیں اگرہمیں الٰہ کی خبر نہ ہو تو دوسروں سے نفی کس چیز کی کریں گے اور رب تعالیٰ کیلئے ثبوت کس چیز کا کرینگے غرضیکہ اس کی معرفت بہت اہم ہے ۔
الٰہ کے متعلق ہم تین چیز یں عرض کرتے ہیں :
(۱) الٰہ کے معنی وہابیوں نے کیا سمجھے اور اس میں کیا غلطی کی(۲) الٰہ ہونے کی پہچان شریعت اورقرآن میں کیا ہے یعنی کیسے پہچا نیں کہ الٰہ حق کو ن ہے اور الٰہ باطل کون (۳)ا لوہیت کامدار کس چیز پر ہے یعنی وہ کونسی صفات ہیں جن کے مان لینے سے اسے الٰہ ماننا پڑتا ہے ۔ان تینوں باتو ں کو بہت غور سے سوچنا چاہیے۔
(۱) وہابیوں نے الٰہ کا مدار دو چیزوں پر سمجھا ہے علم غیب اور مافوق الاسباب حاجات میں تصرف یعنی جس کے متعلق یہ عقیدہ ہو کہ وہ غیب کی بات جان لیتا ہے یا وہ بغیر ظاہری اسباب کے عالم میں تصرف یعنی عملدر آمد کرتا ہے حاجتیں پوری اور مشکلیں حل کرتاہے وہی الٰہ ہے، دیکھو جواہر القرآن صفحہ۱۱۲ ( قانون لفظ الہ)مصنفہ مولوی غلام اللہ خاں صاحب۔
اس سے ان کا مقصود یہ ہے کہ عام مسلمان انبیاء علیہم السلام،اولیاء رحمہم اللہ کو عالم"
"غیب بھی مانتے ہیں او رمافوق الاسباب متصرف بھی لہٰذا یہ لوگ کلمہ کے ہی منکر ہیں اور مشرک ہیں۔
لیکن یہ معنی بالکل غلط قرآن کے خلاف ، خود وہابیہ کے عقیدوں کے خلاف ، صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور عام مسلمین کے عقائد کے خلاف ہیں ، اس لئے کہ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ فرشتے باذن پروردگار عالم میں تصرف کرتے ہیں کوئی زندوں کو مردہ کرتا ہے (ملک الموت) کوئی ماں کے پیٹ میں بچہ بناتا ہے کوئی بارش بر ساتا ہے کوئی حساب قبر لیتا ہے اوریہ سارے کام مافوق اسباب ہیں ۔ تو وہابیہ کے نزدیک یہ سارے الٰہ ہوگئے اسی طر ح انبیاء کرام علیہم السلام ما فوق اسباب حاجتیں پوری کرتے ہیں مشکلیں حل کرتے ہیں عیسیٰ علیہ السلام اندھوں، کوڑھوں کو اچھا اور مردو ں کو زندہ کرتے تھے ۔ یوسف علیہ السلام اپنی قمیص سے باذن پروردگار نابینا آنکھ کو بینا کرتے تھے وغیرہ وغیرہ، یہ سب الٰہ ٹھہرے او ران کا ماننے والا"
لاالہ الا اللہ
"کا منکر ہو احضرت عیسیٰ علیہ السلام گھر میں کھائی بچائی چیزوں کی خبر یں دیتے تھے ۔ آصف برخیاتخت بلقیس آن کی آن میں شام میں لے آتے ہیں یہ بھی الٰہ ہوئے ۔ غرضیکہ اس تعریف سے کوئی قرآن ماننے والا مسلمان نہیں ہوسکتا ۔ شاید جو اہر القرآن والے نے یہ تعریف سوتے میں لکھی ہے یا نشہ میں۔
مذکورہ بالا امور کی آیات ان شاء اللہ تیسرے با ب میں پیش ہوں گی۔
(۲) الٰہ بر حق کی بڑی پہچان صر ف یہ ہے کہ جس کو نبی کی زبان الٰہ کہے ، وہ الٰہ بر حق ہے او ر جس کی الوہیت کا پیغمبر انکار کریں وہ الٰہ باطل ہے ۔ تمام کافرو ں نے سورج ، چاند ، ستا روں ، پتھرو ں کو الٰہ کہا نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا انکار کیا سارے"
جھوٹے اورنبی سچے ،رب تعالیٰ کی الوہیت کا سارے فرعونیوں نے انکار کیا کلیم اللہ صلوۃ اللہ علیہ وسلامہ نے اقرار کیا ۔ سارے فرعونی جھوٹے اور موسیٰ علیہ السلام سچے الٰہ کی پہچان اس سے اعلی ناممکن ہے نبی الٰہ کی دلیل مطلق او ربرہان ناطق ہیں آیات ملاحظہ ہوں ۔
(1)فَاُلْقِیَ السَّحَرَۃُ سٰجِدِیۡنَ ﴿ۙ۴۶﴾قَالُوۡۤا اٰمَنَّا بِرَبِّ الْعٰلَمِیۡنَ ﴿ۙ۴۷﴾رَبِّ مُوۡسٰی وَ ہٰرُوۡنَ ﴿۴۸﴾
"پس جادو گر سجدے میں ڈال دیئے گئے وہ بولے کہ ہم ایمان لائے جہانوں کے رب پر ، جو رب ہے حضرت موسی وہارون کا ۔(پ19،الشعرآء:46۔48)
رب العالمین کی پہچان یہ بتائی کہ جو حضرت موسیٰ وہارون علیہما السلام کا رب ہے ورنہ فرعون کہہ سکتا تھا کہ رب العالمین تو میں ہوں یہ مجھ پر ایمان لارہے ہیں فرعون نے ڈوبتے وقت کہا تھا :اٰمَنْتُ بِرَبِّ مُوْسٰی وَھٰرُوْنَ میں حضرت موسیٰ و ہارون کے رب پر ایمان لایا۔اس نے بھی رب تعالیٰ کی معرفت بذریعہ ان دو پیغمبر وں کے کی اگر چہ اس کاایمان اس لئے قبول نہ ہوا کہ عذاب دیکھ کر ایمان لایا ۔ جب ایمان کا وقت گزرچکا تھا ۔"
(2) اِذْ قَالَ لِبَنِیۡہِ مَا تَعْبُدُوۡنَ مِنۡۢ بَعْدِیۡ ؕ قَالُوۡا نَعْبُدُ اِلٰہَکَ وَ اِلٰـہَ اٰبَآئِکَ اِبْرٰہٖمَ وَ اِسْمٰعِیۡلَ وَ اِسْحٰقَ اِلٰـہًا وَّاحِدًا
"جب فرمایا یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں سے کہ میرے بعد کسے پوجوگے ؟ تو وہ بولے کہ آپ کے اور آپ کے باپ دادوں ابراہیم، اسمٰعیل اور اسحاق علیہم السلام کے رب کی عبادت کریں گے۔(پ1 البقرۃ:133)
ان بزرگو ں نے بھی سچے الٰہ کی پہچان یہی عرض کی کہ جو پیغمبر وں کا بتایا ہوا الٰہ ہے وہی سچا ہے جیسے دھوپ آفتاب کی بڑی دلیل ہے ایسے ہی انبیاء کرام علیہم السلام"
نور الٰہی کی تجلی اولی ہیں ان کافر مان رب تعالیٰ کی قوی برہان ہے اگر کوئی نبی کا فرمان چھوڑ کر اپنی عقل ودانش سے خدا کو پہچانے نہ وہ مومن ہے نہ موحد ۔
اِلٰہ اِلٰہٌ سے بنا جس کے لغوی معنی ہیں انتہائی بلندی یا حیرانی ۔ الٰہ وہ جو انتہائی بلند و بر تر ہو یا جس کی ذات یا صفات میں مخلوق کی عقل حیران رہ جائے قرآن کی اصطلاح میں الٰہ بمعنی مستحق عبادت ہے یعنی معبود جہاں کہیں اِلٰہ آوے اس کے معنی معبود ہونگے لااِلٰہ نہیں ہے کوئی مستحق عبادت اِلَّا اللہ خدا کے سوا۔ مستحق عبادت وہ جس میں یہ صفات ہوں پیدا کرنا ،رزق،زندگی، موت کا مالک ہونا ۔ خود مخلو ق کی صفات سے پاک ہونا جیسے کھانا ،پینا ،مرنا ، سونا، مخلوق ہونا، کسی عیب کا حامل ہونا وغیرہ دانا غیب مطلق ہونا ۔ عالم کا مالک حقیقی ہونا وغیرہ۔ فرماتا ہے :
(1) اَمِ اتَّخَذُوۡۤا اٰلِہَۃً مِّنَ الْاَرْضِ ہُمْ یُنۡشِرُوۡنَ ﴿۲۱﴾
"کیا انہوں نے زمین میں سے معبود بنالیے وہ کچھ پیدا کرتے ہیں ۔(پ17،الانبیآء:21)
یعنی چونکہ ان بتوں میں پیدا کرنے کی قابلیت نہیں وہ توخود مخلوق ہیں لہٰذا وہ خدا نہیں۔"
(2) اَللہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَۚ اَلْحَیُّ الْقَیُّوۡمُ ۬ۚ لَا تَاۡخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّلَا نَوْمٌ ؕ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الۡاَرْضِ ؕ
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ آپ زندہ ہے اور وں کو قائم رکھنے والا ہے اسے نہ اونگھ آوے نہ نیند اس کی ہی وہ چیزیں ہیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں ۔(پ3،البقرۃ:255)
(3) مَا کَانَ مَعَہٗ مِنْ اِلٰہٍ اِذًا لَّذَہَبَ کُلُّ اِلٰہٍۭ بِمَا خَلَقَ
اور نہ اس کے ساتھ کوئی معبود ہے یوں ہوتا تو ہر خدا پنی مخلوق لے جاتا ۔(پ18،المؤمنون:91)
(4) وَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اٰلِہَۃً لَّا یَخْلُقُوۡنَ شَیْـًٔا وَّ ہُمْ یُخْلَقُوۡنَ وَلَا یَمْلِکُوۡنَ لِاَنۡفُسِہِمْ ضَرًّا وَّ لَا نَفْعًا وَّ لَا یَمْلِکُوۡنَ مَوْتًا وَّلَا حَیٰوۃً وَّ لَا نُشُوۡرًا ﴿۳﴾
"انہوں نے خدا کے سوا اور خدا ٹھہرالئے جو کچھ نہیں پید اکرتے او رخود پیدا کئے جاتے ہیں اور نہیں مالک ہیں اپنی جانوں کیلئے نقصان ونفع کے اور نہیں مالک ہیں مرنے جینے کے اور نہ اٹھنے کے۔(پ18،الفرقان:3)
ان جیسی بہت سی آیات سے یہ ہی پتا لگتا ہے کہ الٰہ حقیقی ہونے کا مدار مذکورہ بالا صفات پر ہے۔ مشرکین کے بتو ں اور اللہ تعالیٰ کے دیگر بندو ں میں چو نکہ یہ صفات موجود نہیں ہیں او رمخلوق کی صفتیں موجود ہیں جیسے کھانا ،پینا ، مرنا، سونا، صاحب اولاد ہونا ۔ لہٰذا وہ الٰہ نہیں ہوسکتے ۔"
وَ اُمُّہٗ صِدِّیۡقَۃٌ ؕ کَانَا یَاۡکُلٰنِ الطَّعَامَ
"اور عیسیٰ علیہ السلام کی ماں بہت سچی تھیں یہ دونوں کھانا کھاتے تھے ۔(پ6،المآئدۃ:75)
یعنی مسیح اور ان کی والدہ صاحبہ چونکہ کھانا کھاتے لہٰذا الٰہ نہیں ۔
مشرکین عر ب نے اپنے معبودوں میں چونکہ حسب ذیل باتیں مانیں لہٰذا انہیں الٰہ مان لیا اور مشرک ہوگئے ۔
(۱) رب تعالیٰ کے مقابل دوسروں کی اطاعت کر نا حق سمجھ کر یعنی ان کا معبود جو کہے وہی حق ہے۔ خواہ رب کے خلاف ہی ہو ۔"
(1) اَرَءَیۡتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہُ ؕ اَفَاَنۡتَ تَکُوۡنُ عَلَیۡہِ وَکِیۡلًا ﴿ۙ۴۳﴾
تو دیکھوتو جس نے اپنی خواہش نفسانی کو اپنا الٰہبنالیا تو کیا تم اس کی نگہبانی کے ذمہ دار ہوگئے ۔(پ19،الفرقان:43)
(2) اِتَّخَذُوۡۤا اَحْبَارَہُمْ وَرُہۡبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ وَالْمَسِیۡحَ ابْنَ مَرْیَمَ ۚ وَ مَاۤ اُمِرُوۡۤا اِلَّا لِیَعْبُدُوۡۤا اِلٰـہًا وَّاحِدًا
"عیسائیوں نے اپنے پادریوں اور جو گیوں کو اللہ کے سوا خدا بنالیا او رمسیح بیٹے مریم کو او رانہیں حکم نہ تھا مگر یہ کہ ایک خدا کو پوجیں۔(پ10،التوبۃ:31)
ظاہر ہے کہ عیسائیوں نے نہ تو اپنی خواہش کو نہ اپنے پادریوں کو خدا مانا مگر چونکہ رب تعالیٰ کے مقابلہ میں ان کی اطاعت کی اس لئے انہیں گویا الٰہ بنالیا۔
(۲) کسی کو یہ سمجھناکہ یہ ہم کو رب تعالیٰ کے مقابلہ میں اس سے بچالے گا یعنی وہ عذاب دینا چاہے تو یہ نہ دینے دیں۔"
(1) اَمْ لَہُمْ اٰلِہَۃٌ تَمْنَعُہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِنَا ؕ لَا یَسْتَطِیۡعُوۡنَ نَصْرَ اَنۡفُسِہِمْ وَ لَا ہُمۡ مِّنَّا یُصْحَبُوۡنَ ﴿۴۳﴾
"کیا ان کے کچھ خدا ہیں جو ان کو ہمارے مقابل ہم سے بچالیں وہ تو اپنی جانوں کو نہیں بچاسکتے اور نہ ہماری طر ف سے ان کی مدد کی جائے ۔ (پ17،الانبیآء:43)
(۳) کسی کو دھونس کا شفیع سمجھنا کہ رب تعالیٰ کے مقابل اس کی مرضی کیخلاف ہمیں اس سے چھڑا لیگا ۔"
(1) اَمِ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللہِ شُفَعَآءَ ؕ قُلْ اَوَ لَوْ کَانُوۡا لَا یَمْلِکُوۡنَ شَیْـًٔا وَّ لَا یَعْقِلُوۡنَ ﴿۴۳﴾قُلۡ لِّلہِ الشَّفَاعَۃُ جَمِیۡعًا
کیا انہوں نے اللہ کے مقابل سفارشی بنا رکھے ہیں فرمادو کہ کیا اگر چہ وہ کسی چیز کے مالک نہ ہوں اور نہ عقل رکھیں فرمادو کہ شفاعت تو سب اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔(پ24،الزمر:43،44)
(2) مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یَشْفَعُ عِنْدَہٗۤ اِلَّا بِاِذْنِہٖ ؕ
وہ کو ن ہے جو رب کے پاس اس کی اجازت کے بغیر شفاعت کر سکے ۔(پ3البقرۃ:255)
(۴)کسی کو شفیع سمجھ کر پوجنا اسے تعبدی سجدہ کرنا ۔
وَیَعْبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ مَا لَایَضُرُّہُمْ وَ لَایَنۡفَعُہُمْ وَ یَقُوۡلُوۡنَ ہٰۤؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنۡدَ اللہِ
"اور وہ اللہ کے سواا ن چیزوں کو پوجتے ہیں جو نہ انہیں نقصان دے نہ نفع اور کہتے ہیں کہ یہ ہمارے سفارشی ہیں اللہ کے نزدیک۔(پ11،یونس:18)
(۵)کسی کو خدا کی اولاد ماننا، پھر اس کی اطا عت کرنا ۔"
وَ جَعَلُوۡا لِلہِ شُرَکَآءَ الْجِنَّ وَخَلَقَہُمْ وَ خَرَقُوۡا لَہٗ بَنِیۡنَ وَ بَنٰتٍۭ بِغَیۡرِ عِلْمٍ ؕ
"اور بنایا ان مشرکین نے جنات کو اللہ کا شریک حالانکہ اس نے انہیں پیدا کیا اور بنایا اس کے لئے بیٹے اوربیٹیاں ۔ (پ7،الانعام:100)
غرضیکہ الٰہ کا مدار صرف اسی پر ہے کہ کسی کو اللہ تعالیٰ کے برابر ماننا اور برابر ی کی وہ ہی صورتیں ہیں جو اوپر کی آیا ت سے معلوم ہوئیں۔ ہم مخلوق کو سمیع ، بصیر، زندہ ، قادر ، مالک ،وکیل، حاکم ،شاہد اور متصرف مانتے ہیں مگر مشرک نہیں کیونکہ کسی کو ان صفات میں رب تعالیٰ کی طر ح نہیں مانتے ۔
اعتراض:رب تعالیٰ بتو ں او رنبیوں ، ولیوں کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے :"
مَا کَانَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُ ؕ سُبْحٰنَ اللہِ وَتَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِکُوۡنَ ﴿۶۸﴾
"اور ان کے لئے کوئی اختیار نہیں اللہ پاک اور برتر ہے اس سے جو شرک کرتے ہیں۔ (پ20،القصص:68)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ کسی کو اختیارماننا ہی شرک ہے تم بھی نبیوں ، ولیوں کو اختیار مانتے ہو۔ تم نے انہیں الٰہ بنالیا ۔"
جواب : یہا ں اختیار سے مراد پید اکرنے کا اختیارہے، اسی لئے فرمایا گیا :
وَ رَبُّکَ یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ وَ یَخْتَارُ ؕ مَا کَانَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُ ؕ
"آپ کا رب جو چاہے پیدا کرے اور اختیار فرمائے انہیں کوئی اختیار نہیں ۔(پ20،القصص:68)
بااختیار سے مراد ہے رب تعالیٰ کے مقابل اختیار ورنہ تم بھی بادشاہوں ، حاکموں کوبا اختیار مانتے ہو ۔ اسی لئے ان سے ڈرتے ہو ۔
اعتراض : رب تعالیٰ نے نبیوں ، ولیوں اور بتوں کے لئے فرمایا:"
وَیَعْبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ مَا لَایَضُرُّہُمْ وَ لَایَنۡفَعُہُمْ
"وہ ا للہ کے سوا ان چیز وں کو پوجتے ہیں جو نہ انہیں نقصان دے نہ نفع ۔(پ11،یونس:18)
معلوم ہوا کہ کسی کو نافع اور ضار ماننا اسے الٰہ ماننا ہے اور تم بھی نبیوں ، ولیوں کو نافع اور ضار مانتے ہو تم بھی مشرک ہوئے ۔
جواب: ان جیسی آیات میں رب تعالیٰ کے مقابلہ میں نافع ماننا مراد ہے کہ رب تعالیٰ چاہے ہمیں نقصان پہنچا نا اور یہ ہمیں نفع پہنچادیں ، اس کی تفسیر یہ آیت ہے :"
وَ اِنۡ یَّخْذُلْکُمْ فَمَنۡ ذَا الَّذِیۡ یَنۡصُرُکُمۡ مِّنۡۢ بَعْدِہٖ ؕ
"اگر خدا تمہیں رسوا کرے تو اس کے بعد تمہیں مدد کون دے گا ۔(پ4،اٰل عمرٰن: 160)
ورنہ تم بھی بادشاہ حاکموں ، بلکہ سانپ ، بچھو، دواؤں کو نافع اور نقصان دہ مانتے ہو۔ نیز فرماتا ہے :"
وَ اِنۡ یَّمْسَسْکَ اللہُ بِضُرٍّ فَلَا کَاشِفَ لَہٗۤ اِلَّا ہُوَ ؕ وَ اِنۡ یَّمْسَسْکَ بِخَیۡرٍ فَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۱۷﴾
اگر تجھے اللہ سختی پہنچائے تو اس کے سوا کوئی دور کرنیوالا نہیں اور جو تجھے بھلائی پہنچائے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے۔(پ7،الانعام:17)
" یہ آیت ان تمام آیتو ں کی تفسیر ہے کہ نفع نقصان سے مراد رب تعالیٰ کے مقابل نفع او رنقصان ہے ۔
اعتراض : رب تعالیٰ فرماتا ہے :"
یٰۤاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَ لَا یُبْصِرُ وَ لَا یُغْنِیۡ عَنۡکَ شَیْـًٔا ﴿۴۲﴾
"براہیم علیہ السلام نے کہاکہ اے باپ تم اسے کیوں پوجتے ہو جو نہ سنے نہ دیکھے نہ تم سے کچھ مصیبت دور کرے ۔(پ16،مریم:42)
معلوم ہوا کہ کسی کو غائبانہ پکار سننے والا ،غائبانہ دیکھنے والا ، نافع وضا ر ماننا، اسے الٰہ ماننا ہے۔ یہ شرک ہے ۔تم بھی نبیوں ، ولیوں میں یہ صفات مانتے ہو ۔ لہٰذا انہیں الٰہ مانتے ہو ۔
جواب : اس آیت میں دور سے سننے، دیکھنے کا ذکر کہا ں ہے؟ یہا ں تو کفار کی حماقت کا ذکر ہے کہ وہ ایسے پتھروں کو پوجتے ہیں جن میں دیکھنے ،سننے کی بھی طاقت نہیں۔ یہ مطلب نہیں کہ جو سنے، دیکھے ،وہ خدا ہے ورنہ پھرتو ہر زندہ انسان خدا ہونا چاہیے کہ وہ سنتا ،دیکھتا ہے۔"
فَجَعَلْنٰہُ سَمِیۡعًۢا بَصِیۡرًا ﴿ۚ ۲﴾ (الدہر:2) ،
رب تعالیٰ فرماتا ہے :
اَلَہُمْ اَرْجُلٌ یَّمْشُوۡنَ بِہَاۤ ۫ اَمْ لَہُمْ اَیۡدٍ یَّبْطِشُوۡنَ بِہَاۤ ۫ اَمْ لَہُمْ اَعْیُنٌ یُّبْصِرُوۡنَ بِہَاۤ ۫
"کیا ان بتوں کے پاؤں ہیں جن سے وہ چلیں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے وہ پکڑیں یا ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھیں ۔(پ9،الاعراف:195)
اس میں بھی ان کفار کی حماقت کا ذکر ہے کہ وہ بے آنکھ ، بے ہاتھ اور بے پاؤں کی مخلوق کو پوجتے ہیں حالانکہ ان بتو ں سے خود یہ بہترہیں کہ ان کے ہاتھ ، پاؤں، آنکھ ، کان وغیرہ تو ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ جس کے آنکھ ، کان ہوں وہ خدا"
"ہوجائے ۔
اعتراض : رب تعالیٰ فرماتاہے :"
وَ اِنۡ تَجْہَرْ بِالْقَوْلِ فَاِنَّہٗ یَعْلَمُ السِّرَّ وَاَخْفٰی ﴿۷﴾اَللہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ
"اگر تم اونچی بات کہو تو وہ پوشیدہ اور چھپی باتو ں کو جان لیتا ہے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔(پ16،طہ:7،8)
اس آیت سے معلوم ہو اکہ ا لٰہ کی شان یہ ہے کہ اونچی نیچی ، ظاہر، چھپی سب باتوں کو جانے، اگر کسی نبی ولی میں یہ طا قت مانی گئی تو اسے الٰہ مان لیا گیا او رشرک ہوگیا ۔
جواب : خدا کی یہ صفات ذاتی ، قدیم ، غیر فانی ہیں ۔ اسی طر ح کسی میں یہ صفات ماننا شرک ہے ۔ اس نے اپنے بندوں کو ظاہر پوشیدہ باتیں جاننے کی قوت بخشی ہے یہ قوت بہ عطاء الٰہی عارضی غیر میں ماننا عین ایمان ہے ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :"
مَا یَلْفِظُ مِنۡ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیۡہِ رَقِیۡبٌ عَتِیۡدٌ ﴿۱۸﴾
"بندہ کوئی بات منہ سے نہیں نکالتا مگر اس کے پاس ایک محافظ تیار بیٹھا ہے ۔(پ26،قۤ:18)
یعنی اعمالنا مہ لکھنے والا فرشتہ انسا ن کا ہر ظاہر اور پوشیدہ کلام لکھتا ہے ۔اگر اسی فرشتے کو ہر ظاہر باطن بات کا علم نہ ہوتا تو لکھتا کیسے ہے ؟"
وَ اِنَّ عَلَیۡکُمْ لَحٰفِظِیۡنَ ﴿ۙ۱۰﴾کِرَامًا کَاتِبِیۡنَ ﴿ۙ۱۱﴾یَعْلَمُوۡنَ مَا تَفْعَلُوۡنَ ﴿۱۲﴾
اور بے شک تم پر کچھ نگہبان ہیں معزز لکھنے والے جانتے ہیں ہر وہ جوتم کرو ۔(پ30،الانفطار:10۔12) پتا لگا کہ اعمال نامہ لکھنے والے فرشتے ہمارے چھپے اور ظاہر عمل کو جانتے ہیں ورنہ تحریر کیسے کریں ۔
اعتراض : رب تعالیٰ فرماتا ہے :
وَّ اَنَّہٗ کَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْاِنۡسِ یَعُوۡذُوۡنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوۡہُمْ رَہَقًا ۙ﴿۶﴾
"اورکچھ انسانوں کے مرد کچھ جنوں کے مردوں کی پنا ہ لیتے تھے اور اس سے ان کا اور تکبر بڑھ گیا ۔(پ29،الجن:6)
معلوم ہوا کہ خدا کے سوا کسی کی پناہ لینا کفر و شرک ہے ۔ فرماتا ہے :"
وَّ ہُوَ یُجِیۡرُ وَ لَا یُجَارُ عَلَیۡہِ
"وہ رب پناہ دیتا ہے اور اس پر پناہ نہیں دی جاتی ۔ (پ18،المؤمنون:88)
جواب : ان آیات میں رب تعالیٰ کے مقابل پناہ لینا مراد ہے نہ کہ اس کے اذن سے اس کے بندوں کی پناہ ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :"
وَلَوْ اَنَّہُمْ اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمْ جَآءُوۡکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُوۡلُ لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّابًا رَّحِیۡمًا ﴿۶۴﴾
"اگر یہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کر کے تمہارے پاس آجاویں اور اللہ سے بخشش چاہیں اور آپ بھی ان کی مغفرت کی دعا کریں تو اللہ کو توبہ قبول کرنیوالا مہربان پائیں ۔(پ5،النسآء:64)
اگر یہ مراد نہ ہو تو ہم سردی گرمی میں کپڑوں مکانوں سے پناہ لیتے ہیں، بیماری میں حکیم سے ، مقدمہ میں حاکموں سے یہ سب شرک ہوجاوے گا ۔
اعتراض : خدا کے سوا کسی کو علم غیب ماننا شرک ہے۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :"
قُل لَّا یَعْلَمُ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَیۡبَ اِلَّا اللہُ ؕ
"فرمادو جو آسمانوں اور زمین میں ہے ان میں غیب کوئی نہیں جانتا اللہ کے سوا ۔(پ20،النمل:65)
علم غیب دلیل الوہیت ہے جسے علم غیب مانا اسے الٰہ مان لیا ۔(جواہر القرآن )"
جواب : اگر علم غیب دلیل الوہیت ہے تو ہر مومن الٰہ ہے کیونکہ ایمان با لغیب کے بغیر کوئی مومن نہیں ہوتا
اَلَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ(البقرۃ:3)
اور بغیر علم کے ایمان ناممکن ہے اور ملک الموت، ابلیس ، فرشتہ کا تب تقدیر بھی الٰہ ہوگئے کہ ان سب کو بہت علوم غیبیہ دیئے گئے ہیں۔ رب فرماتا ہے :
اِنَّہٗ یَرٰىکُمْ ہُوَ وَقَبِیۡلُہٗ مِنْ حَیۡثُ لَا تَرَوْنَہُمْ ؕ
"وہ ابلیس اور اس کے قبیلہ والے تم کو وہاں سے دیکھتے ہیں کہ تم انہیں دیکھ نہیں سکتے ۔(پ8،الاعراف:27)
غیب کے متعلق نفی کی آیا ت بھی ہیں اور ثبوت کی بھی ۔ نفی کی آیات میں واجب، قدیم، کل ،ذاتی علم مراد ہے اور ثبوت کی آیات میں عطائی، ممکن، بعض، عارضی علم مراد۔ رب فرماتا ہے :"
(1) وَلَا رَطْبٍ وَّ لَا یَابِسٍ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ مُّبِیۡنٍ ﴿۵۹﴾
نہیں ہے کوئی خشک وتر چیز مگر وہ روشن کتاب لوح محفوظ میں ہے ۔(پ7،الانعام:59)
(2) وَتَفْصِیۡلَ الْکِتٰبِ لَارَیۡبَ فِیۡہِ
قرآن لوح محفوظ کی تفصیل ہے اس میں شک نہیں ۔(پ11،یونس:37)
(3) وَ نَزَّلْنَا عَلَیۡکَ الْکِتٰبَ تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیۡءٍ
"ہم نے آپ پرقرآن اتاراتمام چیزوں کاروشن بیان(پ14،النحل:89)
اگر کسی کو علم غیب نہیں دینا تھا تو لکھا کیوں ؟ اور جب لکھا گیا تو جو فرشتے لوح محفوظ کے حافظ ہیں تو انہیں علم ہے یا نہیں ؟ضرور ہے تو چا ہیے کہ یہ سب الٰہ بن جائیں ۔ رب تعالیٰ نے فرمایا کہ حکم صرف اللہ کا ہے :"
(1) اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلہِ
نہیں ہے حکم مگر اللہ کا۔(پ7،الانعام:57)
(2) اَلَّا تَتَّخِذُوۡا مِنۡ دُوۡنِیۡ وَکِیۡلًا
میرے سوا کسی کو وکیل نہ بناؤ ۔(پ15،بنیۤ اسرآء یل:2)
(3)وَکَفٰی بِاللہِ حَسِیۡبًا ﴿۶﴾
"اللہ کافی حساب لینے والاہے۔ (پ4،النسآء:6)
تو چاہیے کہ وکیل ہونا ، حکم ہونا ، حسیب ہونا ، الوہیت کی دلیل ہو ۔ جسے وکیل مانا ۔ اسے خدا مان لیا۔"
"؎ گرہمیں مکتب وہمیں مُلّا کار طفلاں تمام خواہد شد!"
لفظ'' وَلِیْ'' وَلْیٌ یا وَلَایَۃٌ سے بنا ہے ۔ وَلْیٌ کے معنی قرب اور ولایت کے معنی حمایت ہیں، لہٰذا وَلْیٌ کے لغوی معنی قریب ، والی ، حمایتی ہیں۔ قرآن شریف میں یہ لفظ اتنے معنی میں استعمال ہوا ہے ۱۔دوست ،۲۔قریب ،۳۔مددگار ،۴۔والی، ۵۔وارث ، ۶۔معبود ، ۷۔ مالک ، ۸۔ ہادی
(1) اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الَّذِیۡنَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَہُمْ رٰکِعُوۡنَ ﴿۵۵﴾
تمہارا دوست یا مدد گار صرف اللہ اور اسکے رسول اور وہ مومن ہیں جونماز قائم کرتے ہیں اور زکوۃ دیتے ہیں اوررکوع کرتے ہیں۔(پ6،المائدۃ:55)
(2)نَحْنُ اَوْلِیٰٓـؤُکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَۃِ
ہم ہی تمہارے دوست ہیں دنیا اور آخرت میں۔(پ24،حٰمۤ السجدۃ:31)
(3) فَاِنَّ اللہَ ہُوَ مَوْلٰىہُ وَ جِبْرِیۡلُ وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِیۡنَ ۚ وَ الْمَلٰٓئِکَۃُ بَعْدَ ذٰلِکَ ظَہِیۡرٌ ﴿۴﴾
پس نبی کا مدد گار اللہ ہے اور جبریل اور نیک مومن او راس کے بعد فرشتے مدد گار ہیں ۔(پ28،التحریم:4)
(4) وَاجْعَلۡ لَّنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ وَلِیًّا ۚۙ وَّاجْعَلۡ لَّنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ نَصِیۡرًا ﴿ؕ۷۵﴾
پس بنادے تو ہمارے لئے اپنے پاس سے والی اور بنادے ہمارے لئے اپنے پاس سے مدد گار ۔(پ5،النسآء:75)
(5) اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیۡنَ مِنْ اَنۡفُسِہِمْ وَ اَزْوَاجُہٗۤ اُمَّہٰتُہُمْ
"نبی زیادہ قریب یا زیادہ مالک ہیں مسلمانوں کے بمقابلہ ان کی جانوں کے اور ان کی بیویاں ان کی مائیں ہیں ۔(پ21،الاحزاب:6)
ان آیتوں میں ولی کے معنی قریب ، دو ست ، مدد گار، مالک ہیں۔"
(6) اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَہَاجَرُوۡا وَ جٰہَدُوۡا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنۡفُسِہِمْ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ وَالَّذِیۡنَ اٰوَوۡا وَّنَصَرُوۡۤا اُولٰٓئِکَ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ ؕ
"بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور جہاد کیا اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں اوروہ جنہوں نے جگہ دی اور مدد کی ان کے بعض بعض کے وارث ہیں(پ10،الانفال:72)
اس آیت میں ولی بمعنی وارث ہے کیونکہ شروع اسلام میں مہاجرو انصار ایک دوسرے کے وارث بنادیئے گئے تھے ۔"
(7) وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَلَمْ یُہَاجِرُوۡا مَا لَکُمۡ مِّنۡ وَّلَایَتِہِمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ حَتّٰی یُہَاجِرُوۡا
اور جو ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت نہ کی انہیں ان کی وراثت سے کچھ نہیں یہاں تک کہ ہجرت کریں۔(پ10،الانفال:72)
اس آیت میں بھی ولی سے مراد وارث ہے کیونکہ اول اسلام میں غیرمہاجر،مہاجرکا وارث نہ ہوتاتھا۔
(8) وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ
اور کافر بعض بعض کے وارث ہیں۔(پ10،الانفال:73)
(9) وَاُوْلُوا الۡاَرْحَامِ بَعْضُہُمْ اَوْلٰی بِبَعْضٍ
رشتہ دار بعض بعض کے وارث ہیں(پ10،الانفال:75)
(10) فَہَبْ لِیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ وَلِیًّا ۙ﴿۵﴾یَّرِثُنِیۡ وَیَرِثُ مِنْ اٰلِ یَعْقُوۡبَ
"تومجھے اپنے پاس سے کوئی ایسا وارث دے جو میرا اور آل یعقوب کا وارث وجانشین ہو۔ (پ16،مریم:5،6)
ان آیات میں بھی ولی سے مراد وارث ہے جیسا کہ بالکل ظاہر ہے ۔"
(11) اَللہُ وَلِیُّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا یُخْرِجُہُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ۬ؕ وَالَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَوۡلِیٰٓـُٔہُمُ الطَّاغُوۡتُ ۙیُخْرِجُوۡنَہُمۡ مِّنَ النُّوۡرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ ؕ
"اللہ تعالیٰ مومنوں کا حامی والی ہے کہ انہیں اندھیروں سے روشنی کی طر ف نکالتا ہے اور کافروں کے حامی والی شیطان ہیں جوانہیں روشنی سے اندھیرے کی طر ف نکالتے ہیں ۔(پ3،البقرۃ:257)
اس آیت میں ولی بمعنی حامی والی ہے ، بعض آیات میں ولی بمعنی معبود آیا ہے ملاحظہ ہو:"
(12) وَالَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اَوْلِیَآءَ ۘ مَا نَعْبُدُہُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوۡنَاۤ اِلَی اللہِ زُلْفٰی ؕ
جنہوں نے اللہ کے سوا اور معبود بنالئے اور کہتے ہیں کہ نہیں پوجتے ہم ان کو مگر اس لئے کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کردیں۔(پ23،الزمر:3)
جنہوں نے اللہ کے سوا اور معبود بنالئے اور کہتے ہیں کہ نہیں پوجتے ہم ان کو مگر اس لئے کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کردیں۔
اس آیت میں ولی بمعنی معبود ہے اس لئے آگے فرمایا گیا:
مَانَعْبُدُہُمْ
(13) اَفَحَسِبَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنۡ یَّتَّخِذُوۡا عِبَادِیۡ مِنۡ دُوۡنِیۡۤ اَوْلِیَآءَ ؕ اِنَّـاۤ اَعْتَدْنَا جَہَنَّمَ لِلْکٰفِرِیۡنَ نُزُلًا ﴿۱۰۲﴾
"تو کیا یہ کافر یہ سمجھتے ہیں کہ میرے سوا میرے بندوں کو معبود بنالیں بے شک ہم نے کافروں کی مہمانی کیلئے دوزخ تیا رکر رکھی ہے ۔(پ16،الکہف:102)
اس آیت میں بھی ولی بمعنی معبود ہے ۔ اس لئے ان ولی بنانے والوں کو کافر کہا گیا ۔ کیونکہ کسی کو دوست اور مدد گار بنانے سے انسان کافر نہیں ہوتا جیسا کہ پچھلی آیتوں سے معلوم ہوا ہے ۔ معبود بنانے سے کافر ہوتا ہے :"
(14) مَثَلُ الَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللہِ اَوْلِیَآءَ کَمَثَلِ الْعَنۡکَبُوۡتِ ۖۚ اِتَّخَذَتْ بَیۡتًا
"ان کی مثال جنہوں نے خدا کے سوا کوئی معبود بنالیا مکڑی کی طر ح ہے جس نے گھر بنایا ۔(پ20،العنکبوت:41)
اس آیت میں بھی ولی بمعنی معبود ہے کہ یہاں کفار کی مذمت بیان ہو رہی ہے اور کافر ہی دوسروں کو معبود بناتے ہیں ۔"
ولی بمعنی دو ست یامدد گار دو طرح کے ہیں ایک اللہ کے ولی ،دوسرے اللہ کے مقابل ولی۔ اللہ کے ولی وہ ہیں جو اللہ سے قرب رکھتے ہیں اور اس کے دوست ہوں او راسی وجہ سے دنیا والے انہیں دوست رکھتے ہیں ولی من دون اللہ کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ خدا کے دشمنوں کو دوست بنایا جائے جیسے کافر وں یابتوں یا شیطان کو ،
دوسرے یہ کہ اللہ کے دوستوں یعنی نبی ،ولی کو خدا کے مقابل مدد گار سمجھا جائے کہ خدا کا مقابلہ کرکے یہ ہمیں کام آئیں گے ۔ ولی اللہ کو ماننا عین ایمان ہے اور ولی من دون اللہ بنانا عین کفر وشرک ہے ۔ ولی اللہ کے لئے یہ آیت ہے :
(1)اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللہِ لَاخَوْفٌ عَلَیۡہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوۡنَ ﴿ۚ۶۲﴾الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَکَانُوۡا یَتَّقُوۡنَ ﴿ؕ۶۳﴾
"خبردار ! اللہ کے دوست نہ ان پر خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہونگے وہ ہیں جو ایمان لائے اور پرہیز گاری کرتے ہیں۔(پ11،یونس:62،63)
اس آیت میں ولی اللہ کا ذکر ہے۔"
(2) لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوۡنَ الْکٰفِرِیۡنَ اَوْلِیَآءَ مِنۡ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیۡنَ
مسلمان کافروں کو دوست نہ بنائیں مسلمانوں کے سوا۔(پ3،اٰل عمرٰن:28)
(3) مَا لَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ مِنۡ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِیۡرٍ ﴿۱۰۷﴾
"اللہ کے مقابل نہ تمہارا کوئی دوست ہے اور نہ مدد گار (پ1،البقرۃ:107)
ان دو آیتو ں میں ولی من دون اللہ کا ذکر ہے۔ پہلی آیت میں دشمنان خدا کو دوست بنانے کی ممانعت ہے ۔ دوسری میں خدا کے مقابل دوست کی نفی ہے یعنی رب تعالیٰ کے مقابل دنیا میں کو ئی مد د گار نہیں نہ ولی ، نہ پیر ، نہ نبی۔ یہ حضرات جس کی مدد کرتے ہیں اللہ کے حکم اور اللہ کے ارادے سے کرتے ہیں ۔
ولی یا اولیاء کے ان معانی کابہت لحاظ رکھنا چاہیے۔ بے موقع تر جمہ بدعقیدگی کا باعث ہوتا ہے مثلا ۔ اگرنمبر۱کی آیت"
اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللہُ وَرَسُوْلُہ، (المائدۃ:55)
کا
ترجمہ یہ کردیا جائے کہ تمہارے معبود اللہ، رسول اور مومنین ہیں شرک ہوگیا اور اگر
وَمَا لَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ مِنۡ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِیۡرٍ ﴿۱۰۷﴾
کے یہ معنی کردیئے جائیں کہ خدا کے سوا کوئی مددگا ر نہیں تو کفر ہوگیاکیونکہ قرآن نے بہت سے مدد گا روں کا ذکر فرمایا ہے اس آیت کا انکار ہوگیا۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے کافر وں ، ملعونوں کا کوئی مددگار نہیں۔ معلوم ہواکہ مومنوں کے مدد گار ہیں۔
(1) وَمَنۡ یَّلْعَنِ اللہُ فَلَنۡ تَجِدَ لَہٗ نَصِیۡرًا ﴿ؕ۵۲﴾
اور جس پر خدا لعنت کردے اس کے لئے مدد گار کوئی نہیں پاؤگے۔(پ5،النسآء:52)
(2) وَ مَنۡ یُّضْلِلِ اللہُ فَمَا لَہٗ مِنۡ وَّلِیٍّ مِّنۡۢ بَعْدِہٖ ؕ
اور جسے اللہ گمراہ کردے اس کے پیچھے کوئی مدد گار نہیں۔
(3) وَمَنۡ یُّضْلِلْ فَلَنۡ تَجِدَ لَہٗ وَلِیًّا مُّرْشِدًا ﴿٪۱۷﴾
جسے اللہ گمراہ کردے اس کیلئے ہادی مرشد آپ نہ پائیں گے ۔
دُعَا دَعْوٌ یادَعْوَتٌ سے بناہے جس کے معنی بلانا یا پکارنا ہے ۔قرآن شریف میں لفظ دعا پانچ معنی میں استعمال ہوا ہے ۔۱۔پکارنا، ۲۔بلانا، ۳۔مانگنا یا دعا کرنا، ۴۔پوجنا یعنی معبود سمجھ کر پکارنا، ۵۔ تمنا آرزو کرنا۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :
(1) اُدْعُوۡہُمْ لِاٰبَآئِہِمْ ہُوَ اَقْسَطُ عِنۡدَ اللہِ
انہیں ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو یہ اللہ کے نزدیک عدل ہے ۔
(2) وَّ الرَّسُوۡلُ یَدْعُوۡکُمْ فِیۡۤ اُخْرٰىکُمْ
اور پیغمبر تم کو تمہارے پیچھے پکارتے تھے ۔
(3) لَا تَجْعَلُوۡا دُعَآءَ الرَّسُوۡلِ بَیۡنَکُمْ کَدُعَآءِ بَعْضِکُمۡ بَعْضًا ؕ (پ18،النور:63)
"رسول کے پکارنے کو بعض کے بعض کو پکارنے کی طر ح نہ بناؤ ۔
ان جیسی تمام آیات میں دعا بمعنی پکارنا ہے ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :"
(1) اُدْعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ (پ14،النحل:125)
اپنے رب کے راستہ کی طر ف لوگو ں کو حکمت اور اچھی نصیحت سے بلاؤ ۔
(۲)وَادْعُوْاشُہَدَآءَ کُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ (پ۱،البقرۃ:۲۳)
اور بلاؤ اپنے مدد گار وں کو اللہ کے سوا۔
(3) وَلْتَکُنۡ مِّنۡکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوۡنَ اِلَی الْخَیۡرِ (پ4،اٰل عمرٰن:104)
"اور تم میں ایک گر وہ ایسا ہونا چاہیے جو بھلائی کی طر ف بلائے ۔
ان جیسی آیات میں دعا کے معنی بلانے کے ہیں ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :"
(1) اُدْعُوۡا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْیَۃً (پ8،الاعراف:55)
اپنے رب سے عاجزی سے خفیہ طو ر پر دعا مانگو ۔
(2) اِنَّ رَبِّیۡ لَسَمِیۡعُ الدُّعَآءِ ﴿۳۹﴾ (پ13،ابراہیم:39)
بے شک میرا رب دعا کا سننے والاہے ۔
(3) رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَآءِ (پ13،ابراہیم:40)
اے ہمارے رب میری دعا سن لے ۔
(4) فَاِذَا رَکِبُوۡا فِی الْفُلْکِ دَعَوُا اللہَ مُخْلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ (پ21،العنکبوت:65)
جب وہ کشتی پر سوار ہوتے ہیں توخداسے دعامانگتے ہیں دین کو اس کیلئے خالص کر کے ۔
(5) وَّ لَمْ اَکُنۡۢ بِدُعَآئِکَ رَبِّ شَقِیًّا ﴿۴﴾ (پ16،مریم:4)
اے میرے رب میں تجھ سے دعا مانگنے میں کبھی نامراد نہ رہا ۔
(6) اُجِیۡبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ (پ2،البقرۃ:186)
میں دعا مانگنے والے کی دعا کو قبول کرتا ہوں جب مجھ سے دعا کرتا ہے۔
(7) وَمَا دُعَآءُ الْکٰفِرِیۡنَ اِلَّا فِیۡ ضَلٰلٍ ﴿۱۴﴾ (پ13،الرعد:14)
اور نہیں ہے کافرو ں کی دعا مگر بربادی میں۔
(8) ہُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّہٗ (پ3،اٰل عمرٰن:38)
"وہا ں زکریا نے اپنے رب سے دعا کی ۔
ان جیسی تمام آیات میں دعا کے معنی دعا مانگنا ہیں۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :"
وَ لَکُمْ فِیۡہَا مَا تَشْتَہِیۡۤ اَنۡفُسُکُمْ وَ لَکُمْ فِیۡہَا مَا تَدَّعُوۡنَ ﴿ؕ۳۱﴾ (پ24،حمۤ السجدۃ:31)
"اور تمہارے لئے جنت میں وہ ہوگا جو تمہارے دل چا ہیں اور تمہارے لئے وہاں وہ ہوگا جس کی تم تمنا کرو ۔
اس آیت میں دعا بمعنی آرزو کرنا، چاہنا ،خواہش کرنا ہے۔"
(1) اِنَّ الَّذِیۡنَ تَدْعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ عِبَادٌ اَمْثَالُکُمْ (پ9،الاعراف:194)
جنہیں تم خدا کے سوا پوجتے ہو وہ تم جیسے بندے ہیں ۔
(2) وَّ اَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلہِ فَلَا تَدْعُوۡا مَعَ اللہِ اَحَدًا ﴿ۙ۱۸﴾ (پ29،الجن:18)
بے شک مسجدیں اللہ کی ہیں تو اللہ کے ساتھ کسی کو نہ پوجو۔
(3) وَ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنۡ یَّدْعُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللہِ مَنۡ لَّا یَسْتَجِیۡبُ لَہٗۤ اِلٰی یَوۡمِ الْقِیٰمَۃِ (پ26،الاحقاف:5)
اس سے بڑھ کر گمراہ کون ہے جو خدا کے سوا ایسوں کو پوجتا ہے جو اس کی عبادت قبول نہ کرے قیامت تک ۔
(4) قَالُوۡا ضَلُّوۡا عَنَّا بَلۡ لَّمْ نَکُنۡ نَّدْعُوۡا مِنۡ قَبْلُ شَیْـًٔا ؕ (پ24،المؤمن:74)
کافر کہیں گے کہ وہ غائب ہوگئے ہم سے بلکہ ہم ا س سے پہلے کسی چیز کو نہ پوجتے تھے ۔
"(5) وَالَّذِیۡنَ یَدْعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ لَا یَخْلُقُوۡنَ شَیْـًٔا وَّہُمْ یُخْلَقُوۡنَ ﴿ؕ۲۰﴾اَمْوَاتٌ غَیۡرُ اَحْیَآءٍ
(پ14،النحل:20،21)"
اور وہ جن کی یہ مشرکین پوجا کرتے ہیں اللہ کے سوا وہ کسی چیز کو پیدا نہیں کرتے بلکہ وہ پیدا کئے جاتے ہیں یہ مردے ہیں زندہ نہیں ۔
(6) وَ اِذَا رَاَ الَّذِیۡنَ اَشْرَکُوۡا شُرَکَآءَہُمْ قَالُوۡا رَبَّنَا ہٰۤؤُلَآءِ شُرَکَآؤُنَا الَّذِیۡنَ کُنَّا نَدْعُوْ مِنۡ دُوۡنِکَ (پ14،النحل:86)
"اورجب مشرکین اپنے معبودوں کو دیکھیں گے تو کہیں گے اے رب ہمارے یہ ہمارے وہ معبود ہیں جنہیں ہم تیرے سوا پوجا کرتے تھے ۔
ان جیسی تمام وہ آیات جن میں غیر خدا کی دعا کو شرک وکفر کہا گیا یا اس پر جھڑکا گیا ان سب میں دعا کے معنی عبادت (پوجا) ہے اور یدعون کے معنی ہیں وہ پوجتے ہیں اس کی تفسیر قرآن کی ان آیتو ں نے کی ہے جہاں دعا کے ساتھ عبادت یا الٰہ کا لفظ آگیا ہے ،فرماتا ہے :"
(1) ہُوَ الْحَیُّ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ فَادْعُوۡہُ مُخْلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ؕ اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیۡنَ ﴿۶۵﴾قُلْ اِنِّیۡ نُہِیۡتُ اَنْ اَعْبُدَ الَّذِیۡنَ تَدْعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ (پ24،المؤمن:66)
"وہ ہی زندہ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں تو اسے پوجو۔ اس کے لئے دین کو خالص کر کے سب خوبیاں اللہ رب العالمین کیلئے ہیں تم فرماؤ میں منع کیا گیا ہوں کہ انہیں پوجوں جنہیں تم اللہ کے سوا پوجتے ہو۔
اس آیت میں لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَا وراَنْ اَعْبُدَنے صاف بتادیا کہ یہاں دعا سے پوجنا مراد ہے نہ کہ پکارنا۔"
(2) وَ قَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوۡنِیۡۤ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَسْتَکْبِرُوۡنَ عَنْ عِبَادَتِیۡ سَیَدْخُلُوۡنَ جَہَنَّمَ دَاخِرِیۡنَ ﴿٪۶۰﴾ (پ24،المؤمن:60)
"اور تمہارے رب نے فرمایا کہ مجھ سے دعا کرومیں تمہاری دعاقبول کرو ں گا بیشک وہ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں وہ عنقریب ذلیل ہو کر دو زخ میں جائیں گے
یہاں دعا سے مراد دعا مانگنا ہے اور دعا بھی عبادت ہے اس لئے ساتھ ہی عبادت کا ذکر ہو افقط پکارنا مراد نہیں ۔"
(3) وَ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنۡ یَّدْعُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللہِ مَنۡ لَّا یَسْتَجِیۡبُ لَہٗۤ اِلٰی یَوۡمِ الْقِیٰمَۃِ وَ ہُمْ عَنۡ دُعَآئِہِمْ غٰفِلُوۡنَ ﴿۵﴾ وَ اِذَا حُشِرَ النَّاسُ کَانُوۡا لَہُمْ اَعْدَآءً وَّ کَانُوۡا بِعِبَادَتِہِمْ کٰفِرِیۡنَ ﴿۶﴾ (پ26،الاحقاف:5ـ6)
اور اس سے بڑھ کر گمراہ کون ہے جو خدا کے سوا اس کی پوجا کرتا ہے جو قیامت تک اس کی نہ سنیں اور جب لوگوں کا حشر ہوگا تو یہ ان کے دشمن ہوں گے اور ان کی عبادت سے منکر ہوجاویں گے۔
" یہاں بھی دعا سے مراد پکارنا نہیں بلکہ پوجنا یعنی معبود سمجھ کرپکارنا مراد ہے کیونکہ ساتھ ہی ان کے اس فعل کو عبادت کہا گیا ہے۔ ان آیات نے ان تمام کی شرح کردی جہاں غیر خدا کی دعاکو شرک فرمایا گیا اور بتا دیا کہ وہاں دعا سے مراد پوجنا یا دعا مانگنا ہے اور دعا بھی عبادت ہے اگر غیر خدا کو پکارنا شرک ہوتا تو جن آیتو ں میں پکارنے کا حکم دیا گیا ۔ ان سے ان آیات کا تعارض ہوجاتا ۔ پکارنے کی آیات ہم نے ابھی پیش کردیں اس لئے عام مفسرین ان ممانعت کی آیتو ں میں دعا کے معنی عبادت کرتے ہیں ان کی یہ تفسیر قرآن کی ان آیتوں سے حاصل ہے ۔
اعتراض: دعا کے معنی کسی لغت میں عبادت نہیں دعا کے معنی بلانا، نداکر نا عام لغت میں مذکور ہیں لہٰذا ان تمام آیتوں میں اس کے معنی پکارنا ہی ہیں (جواہر القرآن )
جواب : اس کے دو جواب ہیں ایک یہ کہ دعاکے لغوی معنی پکارنا ہیں او راصطلاحی معنی عبادت ہیں۔ قرآن میں یہ لفظ دونوں معنوں میں استعمال ہوا جہاں دعا کی اجاز ت ہے وہا ں لغوی پکارنا مراد ہیں اور جہاں غیر خدا کی دعا سے ممانعت ہے وہاں عرفی معنی پوجنا مراد ہیں ۔ جیسے لغت میں صلوۃ کے معنی دعا ہیں او رعرفی معنی نماز۔ قرآن میں"
اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ
میں صلوٰۃسے مراد نمازہے اور
صَلِّ عَلَیْہِمْ
اور
صَلُّوْاعَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا
میں صلوٰۃسے مراددعا ہے ۔ تمہارا اعتراض ایسا ہے جیسے کوئی نماز کا انکار کردے اور کہے قرآن میں جہاں بھی صلوٰۃآیاہے وہاں دعامرادہے کیونکہ یہی اس کے لغوی معنی ہیں ایسے ہی طواف کے لغوی معنی گھومنا ہیں اوراصطلاحی معنی ایک خاص عبادت ہیں قرآن میں یہ لفظ دونوں معنوں میں استعمال ہو اہے ۔
دوسرے یہ کہ واقعی دعا کے معنی پکارنا ہیں مگر پکارنے کی بہت سی نوعیتیں ہیں جن میں سے کسی کو خدا سمجھ کر پکارنا عبادت ہے ، ممانعت کی آیات میں یہی مراد ہے یعنی کسی کو خدا سمجھ کر نہ پکارے ۔ اس کی تصریح قرآن کی اس آیت نے فرمادی:
وَمَنۡ یَّدْعُ مَعَ اللہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ ۙ لَا بُرْہَانَ لَہٗ بِہٖ ۙ فَاِنَّمَا حِسَابُہٗ عِنۡدَ رَب
"اور جو خدا کے ساتھ دوسرے خدا کو پکارے جس کی اس کے پاس کوئی دلیل نہیں تو اس کا حساب رب کے پاس ہے ۔ ِّہٖ (پ18،المؤمنون:117)
اس آیت نے خوب صاف فرمادیا کہ پکارنے سے خدا سمجھ کر پکارنا مراد ہے ۔
اعتراض : ان ممانعت کی آیتو ں میں پکارنا ہی مراد ہے مگر کسی کو دور سے پکارنا مراد ہے یہ سمجھ کر کہ وہ سن رہا ہے یہ ہی شرک ہے ۔(جواہر القرآن)
جواب :یہ بالکل غلط ہے ۔ قرآن کی ان آیتو ں میں دور نزدیک کا ذکر نہیں ۔ یہ قید آپ نے اپنے گھر سے لگائی ہے نیز یہ قید خود قرآن کی اپنی تفسیر کے بھی خلاف ہے لہٰذا مردود ہے نیز اگر دور سے پکارنا شرک ہو تو سب مشرک ہوجائیں گے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مدینہ منورہ سے حضرت ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پکارا حالانکہ وہ نہا وند میں تھے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ بنا کر تمام دور کے لوگوں کو پکارا اور تمام روحوں نے جو قیامت تک پیدا ہونیوالی تھیں انہوں نے سن لیا جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے ۔ آج نمازی حضور علیہ السلام کو پکارتا ہے:"
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیّ
اے نبی!علیہ الصلوۃ والسلام آپ پر سلام ہو ۔اگر یہ شرک ہوجاوے تو ہر نمازی کی نماز تو پیچھے ختم ہوا کرے ایمان پہلے ختم ہوجاوے آج ریڈیو کے ذریعہ دور سے لوگو ں کو پکارتے ہیں او روہ سن لیتے ہیں اگر کہا جائے کہ ریڈیوکی بجلی کی طاقت ایک سبب ہے اور سبب کے ماتحت دور
"سے سننا شرک نہیں تو ہم بھی کہیں گے کہ نبوت کے نور کی طاقت ایک سبب ہے اور سبب کے ماتحت سننا شر ک نہیں غرضیکہ یہ اعتراض نہایت ہی لغوہے ۔
اعتراض: ممانعت کی آیتو ں میں مردو ں کو پکارنا مراد ہے یعنی مرے ہوئے کو پکارنا یہ سمجھ کر کہ وہ سن رہاہے شرک ہے ۔ (جواہر القرآن)
جواب : یہ بھی غلط ہے چند وجہ سے ایک یہ کہ یہ قید تمہارے گھر کی ہے قرآن میں نہیں آئی۔ رب تعالیٰ نے مردہ ، زندہ ، غائب ، حاضر ، دور نزدیک کی قید لگا کر ممانعت نہ فرمائی ۔ لہٰذا یہ قید باطل ہے ۔ دوسرے یہ کہ یہ تفسیر خود قرآن کی تفسیر کے خلاف ہے ۔ اس نے فرمایا کہ دعا سے مراد عبادت ہے ۔ تیسرے یہ کہ اگر مردو ں کو پکارنا شرک ہو تو ہرنمازی نمازمیں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو پکارتا ہے:"
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ
اے نبی!علیہ الصلوۃ والسلام آپ پر سلام ہو،حالانکہ حضور وفات پاچکے ہیں ہم کو حکم ہے کہ قبر ستان جا کر یوں سلام کریں :
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ ،
"اے مسلمانوں کے گھر والو! تم پر سلام ہو۔
ابراہیم علیہ السلام نے ذبح کی ہوئی چڑیوں کو پکارا اور انہوں نے سن لیا ۔ رب تعالیٰ نے فرمایا :"
ثُمَّ ادْعُہُنَّ یَاۡتِیۡنَکَ سَعْیًا
"پھر ان مرے ہوئے پرندوں کو پکار و وہ دوڑتے ہوئے تم تک آجائیں گے ۔(پ3،البقرۃ:260)
حضرت صالح علیہ السلام اور حضرت شعیب علیہ السلام نے قوم کو ان کی ہلاکت کے بعد پکارا ، صالح علیہ السلام کا قصہ سورہئ اعراف میں اس طر ح بیان ہوا :"
فَاَخَذَتْہُمُ الرَّجْفَۃُ فَاَصْبَحُوۡا فِیۡ دَارِہِمْ جٰثِمِیۡنَ ﴿۷۸﴾فَتَوَلّٰی عَنْہُمْ وَقَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسَالَۃَ رَبِّیۡ وَنَصَحْتُ لَکُمْ وَلٰکِنۡ لَّاتُحِبُّوۡنَ النّٰصِحِیۡنَ ﴿۷۹﴾
"تو انہیں زلزلے نے پکڑلیا تو وہ اپنے گھرو ں میں اوندھے پڑے رہ گئے تو صالح نے ان سے منہ پھیر ا اور کہا اے میری قوم بے شک میں نے تم تک اپنے رب کا پیغام پہنچادیا اور تمہارا بھلا چاہا مگر تم خیر خواہوں کو پسند نہیں کرتے ۔ (پ8،الاعراف:78۔79)
شعیب علیہ السلام کا واقعہ اسی سورہ اعراف میں کچھ آگے یوں بیان فرمایا :"
فَتَوَلّٰی عَنْہُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیۡ وَنَصَحْتُ لَکُمْ ۚ فَکَیۡفَ اٰسٰی عَلٰی قَوْمٍ کٰفِرِیۡنَ ﴿٪۹۳﴾
"شعیب نے ہلاکت کفار کے بعد ان سے منہ پھیرا اور کہا اے میری قوم ! میں نے تجھے اپنے رب کے پیغام پہنچا دیئے اور تمہاری خیر خواہی کی تو میں کا فر قوم پر کیسے غم کرو ں ؟ (پ9،الاعراف:93)
ان دونوں آیتو ں میں فَتَوَلّٰی کی ف سے معلوم ہوا کہ ان دونوں پیغمبر وں علیہما الصلوۃ والسلام کا یہ خطاب قوم کی ہلاکت کے بعد تھا ۔ خود ہمارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے بد ر کے دن مرے ہوئے ابوجہل، ابولہب،امیہ ابن خلف وغیرہ کفار سے پکار کر فرمایا اور حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عرض کرنے پر فرمایا کہ تم ان مردوں سے زیادہ نہیں سنتے ۔"
(صحیح البخاری،کتاب الجنائز،باب ماجاء فی عذاب القبر، الحدیث۱۳۷۰،ج۱،ص۴۶۲،دار الکتب العلمیۃ)
کہیے ! اگر قرآن کے فتوے سے مردوں کو پکارنا شرک ہے تو ان انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے اس پکارنے کا کیا جواب دوگے ۔ غرضیکہ یہ اعتراض محض باطل ہے ۔
"اعتراض : کسی کو دور سے حاجت روائی کے لئے پکارنا شرک ہے اور ممانعت کی آیتو ں میں یہی مراد ہے لہٰذا اگر کسی نبی ولی کو دور سے یہ سمجھ کر پکارا گیا کہ وہ ہمارے حاجت روا ہیں تو شرک ہوگیا ۔ ( جواہر القرآن)
جواب : یہ اعتراض بھی غلط ہے ۔ اولًا تو اس لئے کہ قرآن کی ممانعت والی آیتو ں میں یہ قید نہیں تم نے اپنے گھر سے لگائی ہے ۔لہٰذا معتبر نہیں ۔ دو سرے اس لئے کہ یہ تفسیر خود قرآن کی اپنی تفسیر کے خلاف ہے جیسا کہ ہم نے بیان کر دیا ۔ تیسرے اس لئے کہ ہم نے بتادیا کہ اللہ کے بندے دور سے سنتے ہیں خواہ نورنبوت سے یا نور ولایت سے۔ دوسرے باب میں ہم عرض کریں گے کہ قرآن کہہ رہا ہے کہ اللہ کے بندے حاجت روا ، مشکل کشا بھی ہیں ۔ جب یہ دونوں باتیں علیحد ہ علیحد ہ صحیح ہیں تو ان کا مجموعہ شرک کیونکر ہوسکتا ہے ۔قرآن فرمارہا ہے کہ اللہ کے بندے وفات کے بعد سن بھی لیتے ہیں اور جواب بھی دیتے ہیں جوخاص خاص کو محسوس ہوتا ہے ۔ رب فرماتا ہے :"
وَسْـَٔلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنۡ قَبْلِکَ مِنۡ رُّسُلِنَاۤ ٭ اَجَعَلْنَا مِنۡ دُوۡنِ الرَّحْمٰنِ اٰلِـہَۃً یُّعْبَدُوۡنَ ﴿٪۴۵﴾
"اے حبیب ان رسولوں سے پوچھوجو ہم نے آپ سے پہلے بھیجے کیا ہم نے خدا کے سوا ایسے معبود بنائے ہیں جن کی عبادت کی جاوے ۔(پ25،الزخرف:45)
غور کر و کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں انبیاء سابقین علیہم الصلوۃ والسلام وفات پاچکے تھے۔ مگر رب تعالیٰ فرمارہا ہے کہ اے محبوب ! ان وفات یافتہ رسولوں سے پوچھ لوکہ کیا کوئی خدا کے سوا اور معبود ہے اور پوچھا اس سے جاتا ہے جو سن بھی لے اور جواب بھی دے ۔پتا لگا کہ اللہ کے بندے بعد وفات سنتے اور بولتے ہیں معراج کی رات سارے وفات یافتہ رسولوں نے حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے پیچھے نماز پڑھی ۔ حجۃ"
"الوداع کے موقعہ پر وفات یافتہ رسولوں نے حج میں شرکت کی اور حج ادا کیا۔ اس بارے میں بہت سی صحیح احادیث موجود ہیں ۔
خلاصہ یہ ہے کہ دعا قرآن کریم میں بہت سے معنوں میں استعمال ہوا ہے ہر جگہ اس کے وہ معنی کرنا چاہئیں جو وہاں کے مناسب ہیں ۔ جن وہابیوں نے ہرجگہ اس کے معنی پکارنا کئے ہیں وہ ایسے فحش غلط ہیں جس سے قرآنی مقصد فو ت ہی نہیں بلکہ بدل جاتا ہے۔ اسی لئے وہابیوں کو اس پکارنے میں بہت سی قیدیں لگانی پڑتی ہیں کبھی کہتے ہیں غائب کو پکارنا ،کبھی کہتے ہیں مردہ کو پکارنا،کبھی کہتے ہیں دور سے سنانے کیلئے پکارنا، کبھی کہتے ہیں مافوق الاسباب سنانے کے لئے دور سے پکارنا شرک ہے مگر پھر بھی نہیں مانتے پھر تعجب ہے کہ جب کسی کو پکارنا عبادت ہوا تو عبادت کسی کی بھی کی جائے شرک ہے ، زندہ کی یا مردہ کی ، قریب کی یادور کی پھر یہ قیدیں بے کار ہیں ۔ غرضکہ یہ معنی نہایت ہی غلط ہیں ۔ ان جگہوں میں دعا سے مراد پوجنا ہے ۔ اس معنی پر نہ کسی قید کی ضرورت ہے نہ کوئی دشواری پیش آسکتی ہے ۔
نوٹ ضروری: اللہ کے پیارے وفات کے بعد زندوں کی مدد کرتے ہیں۔
قرآن شریف سے ثابت ہے ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :"
وَ اِذْ اَخَذَ اللہُ مِیۡثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیۡتُکُمۡ مِّنۡ کِتٰبٍ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآءَکُمْ رَسُوۡلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنۡصُرُنَّہٗ
یاد کرو جب اللہ نے پیغمبر وں سے عہد لیا کہ جو میں تمہیں کتا ب وحکمت دوں پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول جو تمہاری کتابوں کی تصدیق کرے تو تم اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ۔ (پ3،اٰل عمرٰن:81)
اس آیت سے پتا لگاکہ میثاق کے دن رب تعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام سے دو وعدے لئے ۔ ایک حضو رصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانا ، دوسرے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی مدد کرنا ۔ اور رب تعالیٰ جانتا تھا کہ نبی آخر الزمان صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ان میں سے کسی کی زندگی میں نہ تشریف لائینگے پھر بھی انہیں ایمان لانے اور مدد کرنے کا حکم دیا معلوم ہوا کہ روحانی ایمان اور روحانی مدد مراد ہے اور انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام نے دونوں وعدوں کو پورا کیا کہ معراج کی رات سب نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے پیچھے نماز پڑھی یہ ایمان کاثبوت ہے ۔ بہت سے پیغمبر وں نے حج الوداع میں شرکت کی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے شب معراج دین مصطفی کی اس طر ح مدد کی کہ پچا س نمازوں کی پانچ کرادیں ۔ اب بھی وہ حضرات انبیائعلیہم الصلوۃ والسلام مسلمانوں کی اور حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے دین کی روحانی مدد فرمارہے ہیں اگر یہ مدد نہ ہوا کرتی تو یہ عہد لغو ہوتا عیسی علیہ السلام آخر زمانہ میں اس عہد کو ظاہر طور پر بھی پورا فرمانے کے لئے تشریف لائیں گے ۔
قرآن شریف کی اصطلاحوں میں عبادت بھی بہت اہم اور نازک اصطلاح ہے ۔کیونکہ یہ لفظ قرآن شریف میں بہت کثرت سے آیا ہے اور اس کے معنے میں نہایت باریکی ہے ۔ اطاعت ، تعظیم ، عبادت ان تینوں میں نہایت لطیف فرق ہے بعض لوگ اس نازک فرق کا اعتبار نہیں کرتے ۔ ہر تعظیم کو بلکہ ہر اطاعت کو عبادت کہہ کر سارے مسلمانوں بلکہ اپنے بزرگوں کو بھی مشرک وکافر کہہ دیتے ہیں ۔ اس لئے اس کا مفہوم ، اس کا مقصو د ، بہت غور سے سنیئے ۔
عبادت عبدٌ سے بنا ہے بمعنی بندہ، عبادت کے لغوی معنی ہیں بندہ بننا یا اپنی بندگی کا اظہار کرنا جس سے لازم آتا ہے معبود کی الوہیت کا اقرار کرنا مفسرین نے اس کی تعریف انتہائی تعظیم بھی کی ہے اورانتہائی عاجزی بھی۔دونوں تعریفیں درست ہیں کیونکہ عابدکی انتہائی عاجزی سے معبودکی انتہائی تعظیم لازم ہے اور معبود کی انتہائی تعظیم سے عابد کی انتہائی عاجزی مستلزم۔ انتہائی تعظیم کی حد یہ ہے کہ معبود کی وہ تعظیم کی جاوے جس سے زیادہ تعظیم ناممکن ہو او راپنی ایسی عاجزی کی جاوے جس سے نیچے کوئی درجہ متصور نہ ہو اس لئے عبادت کی شرط یہ ہے کہ بندگی کر نیوالا معبود کو الٰہ اور اپنے کو اس کا بندہ سمجھے یہ سمجھ کر جو تعظیم بھی اس کی کریگا عبادت ہوگی ۔ اگر اسے الٰہ نہیں سمجھتا ۔ بلکہ نبی ، ولی ، باپ ، استاد ، پیر ، حاکم ، بادشاہ سمجھ کر تعظیم کرے تو اس کا نام اطا عت ہوگا ۔ توقیر ، تعظیم ، تبجیل ہوگا ، عبادت نہ ہوگا غرضیکہ اطاعت وتعظیم تو اللہ تعالیٰ اور بندوں سب کی ہوسکتی ہے لیکن عبادت اللہ تعالیٰ ہی کی ہوسکتی ہے بندے کی نہیں اگر بندے کی عبادت کی تو شرک ہوگیا اور اگر بندے کی تعظیم کی تو جیسا بندہ ویسا اس کی تعظیم کا حکم ۔کوئی تعظیم کفر ہے، جیسے گنگا جمنا ، ہولی ، دیوالی کی تعظیم ۔ کوئی تعظیم ایمان ہے جیسے پیغمبر کی تعظیم، کوئی تعظیم ثواب ہے، کوئی گناہ ۔ اسی لئے قرآن کریم میں عبادت کے ساتھ ہمیشہ اللہ تعالیٰ یا رب یاالٰہ کا ذکر ہے اور اطاعت وتعظیم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا بھی ذکر ہے اورنبی کا بھی ، ماں باپ کا بھی حاکم کا بھی فرماتا ہے :
(1) وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ وَ بِالْوَالِدَیۡنِ اِحْسَانًا
آپ کے رب نے فیصلہ فرمادیا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو ۔(پ15،بنیۤ اسرآء یل:23)
(2) مَا قُلْتُ لَہُمْ اِلَّا مَاۤ اَمَرْتَنِیۡ بِہٖۤ اَنِ اعْبُدُوا اللہَ رَبِّیۡ وَرَبَّکُمْ
نہیں کہا تھا میں نے ان سے مگر وہ'' ہی'' جس کاتو نے مجھے حکم دیا کہ اللہ کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارارب ہے ۔(پ7،المائدۃ:117)
(3) یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اعْبُدُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمْ
"اے لوگو! اپنے اس رب کی عبادت کر و
جس نے تمہیں پیدا کیا ۔(پ1،البقرۃ:21)"
(4) نَعْبُدُ اِلٰہَکَ وَ اِلٰـہَ اٰبَآئِکَ اِبْرٰہٖمَ وَ اِسْمٰعِیۡلَ وَ اِسْحٰقَ
ہم عبادت کر ینگے آپ کے الٰہ کی اور آپ کے باپ دادوں ابراہیم، اسمٰعیل اور اسحق کے الٰہ کی۔ علیہم السلام(پ1،البقرۃ:133)
(5) قُلْ یٰۤاَیُّہَا الْکٰفِرُوۡنَ ۙ﴿۱﴾لَاۤ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوۡنَ ۙ﴿۲﴾
"فرمادو اے کافر و جن کی تم پوجا کرتے ہو ان کی پوجا میں نہیں کرتا ۔(پ30،الکا فرون:1۔2)
ان جیسی ساری عبادت کی آیتو ں میں صرف اللہ تعالیٰ کا ذکر ہوگا لیکن اطاعت وتعظیم میں سب کا ذکر ہوگا۔"
(1) اَطِیۡعُوا اللہَ وَاَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمْرِ مِنۡکُمْ
اطا عت کرواللہ کی اور اطاعت کرورسول کی اور اپنے میں سے حکم والوں کی ۔(پ5،النسآء:59)
(2) مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوۡلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ
جس نے رسول کی فرمانبرداری کی اس نے اللہ کی فرمانبرداری کی ۔(پ5،النسآء:80)
(3) وَ تُعَزِّرُوۡہُ وَ تُوَقِّرُوۡہُ
نبی کی مدد کرو اور ان کی تعظیم وتو قیر کر و۔(پ26،الفتح:9)
(4) فَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِہٖ وَعَزَّرُوۡہُ وَنَصَرُوۡہُ
پس جو ایمان لائے نبی پر اور تعظیم کی ان کی اور مدد کی ۔(پ9،الاعراف:157)
(5) وَ مَنۡ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللہِ فَاِنَّہَا مِنۡ تَقْوَی الْقُلُوۡبِ ﴿۳۲﴾
"اور جو اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرے تو یہ دلی پرہیز گاری ہے ۔(پ17،الحج:32)
غرضیکہ تعظیم واطاعت بندے کی بھی ہوسکتی ہے لیکن عبادت صرف اللہ کی جب عبادت میں یہ شرط ہے کہ الٰہ جان کر کسی کی تعظیم کرنا تو یہ بھی سمجھ لو کہ الٰہ کون ہے اس کی پوری تحقیق ہم الٰہ کی بحث میں کر چکے کہ الٰہ وہ ہے جسے خالق مانا جائے یا خالق کے برابر ۔ برابری خواہ خدا کی اولاد مان کر ہو یا اس طر ح مستقل مالک ، حاکم ، حی ، قیوم مان کریا اللہ تعالیٰ کو اس کا حاجت مند مان کر ہو ۔ ایک ہی کام اس عقیدے سے ہو تو عبادت ہے اور اس عقیدے کے بغیر ہو تو عبادت نہیں۔
دیکھو رب تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا کہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کرو :"
(1) فَاِذَا سَوَّیۡتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡ فَقَعُوۡا لَہٗ سٰجِدِیۡنَ ﴿۲۹﴾
پس جب میں انہیں برابر کردو ں اور ان میں اپنی روح پھونک دو ں تو تم ان کیلئے سجدہ میں گر جاؤ۔(پ14،الحجر:29)
(2) وَرَفَعَ اَبَوَیۡہِ عَلَی الْعَرْشِ وَخَرُّوۡا لَہٗ سُجَّدًا
"اور یوسف علیہ السلام نے اپنے والدین کو تخت پراٹھالیا اور وہ سب ان کے سامنے سجدے میں گر گئے ۔(پ13،یوسف:100)
ان آیتو ں سے پتا لگا کہ فرشتو ں نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کیا ۔ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے انہیں سجدہ کیا اور بھی امتوں میں سجدہ کا رواج تھا کہ چھوٹے بڑوں کو سجدہ کرتے تھے پھر یہ بھی فرمایا :"
(3) لَا تَسْجُدُوۡا لِلشَّمْسِ وَ لَا لِلْقَمَرِ وَ اسْجُدُوۡا لِلہِ
"سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو ۔اور اللہ کوسجدہ کر و۔(پ24،حٰمۤ السجدۃ:37)
اس قسم کی بہت آیتو ں میں سجدہ کرنے کو منع فرمایا گیا بلکہ اسے کفر قرار دیا ۔ پچھلی آیتو ں میں سجدہ تعظیمی مراد ہے اور ان آیتو ں میں سجدہ تعبدی مراد ہے ۔ بندوں کو تعبدی سجدہ نہ اس سے پہلے کسی دین میں جائز تھا نہ ہمارے اسلام میں جائز، ہمیشہ سے یہ شرک ہے سجدہ تعظیمی پہلے دینوں میں جائز تھا ہمارے اسلام میں حرام، لہٰذا کسی کو سجدہ تعظیمی کرنا اب حرام ہے شرک نہیں ۔ لیکن سجدہ تعبدی کرنا شرک ہے ۔ ایک ہی کام الوہیت کے عقیدے سے شرک ہے اور بغیر عقیدہ الوہیت شرک نہیں مسلمان سنگ اسود، مقام ابراہیم ، آب زمزم کی تعظیم کرتے ہیں مشرک نہیں مگر ہندو بت یا گنگا جل کی تعظیم کرے تو مشرک ہے کیونکہ مومن کا عقیدہ ان چیز وں کی الوہیت کا نہیں اور کفار کا عقیدہ الوہیت کا ہے ۔"
عبادت بہت طر ح کی ہے ۔ جانی ، مالی ، بدنی ، وقتی وغیرہ مگر اس کی قسمیں دو ہیں ۔ ایک وہ جس کا تعلق براہ راست رب تعالیٰ سے ہو کسی بندے سے نہ ہو ، جیسے نماز، روزہ ، حج ، زکوۃ ، جہاد وغیرہ کہ بندہ ان کاموں سے صرف رب تعالیٰ کو راضی کرنے کی نیت کرتا ہے بندے کی رضا کا اس میں دخل نہیں ۔ دوسرے وہ جن کا تعلق بندے سے بھی ہے اور رب تعالیٰ سے بھی یعنی جن بندوں کی اطاعت کا رب تعالیٰ نے حکم دیا ہے
ان کی اطاعت خدا کو راضی کرنے کے لئے رب کی عبادت ہے ۔ جیسے والدین کی فرمانبرداری ، مرشد استاد کی خوشی ، نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر درود شریف ، اہل قرابت کے حقوق کی ادائیگی غرضیکہ کوئی جائز کام ہو ۔ اگر اس میں رب تعالیٰ کو راضی کرنے کی نیت کرلی جائے تووہ رب تعالیٰ کی عبادت بن جاتے ہیں اور ان پر ثواب ملتا ہے حتی کہ جو اپنے بیوی بچو ں کو کماکر اس لئے کھلائے کہ یہ سنت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہے، رب تعالیٰ اس سے راضی ہوتا ہے تو کمانا بھی عبادت ہے اور جو خدا کا رزق اس لئے کھائے کہ رب تعالیٰ کا حکم ہے
کُلُوْا وَاشْرَبُوْا،
اور حضو رصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے ،ادا ء فرض کا ذریعہ ہے تو کھانا بھی عبادت ہے ۔ اسی لئے مجاہد فی سبیل اللہ غازی کا کھانا ، پینا ، سونا، جاگنا عبادت ہے بلکہ ان کے گھوڑوں کی رفتار بھی عبادت ہے۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :
وَالْعٰدِیٰتِ ضَبْحًا ۙ﴿۱﴾
قسم ہے ان گھوڑوں کی جو دو ڑتے ہیں سینے کی آواز نکالتے ۔ (پ30،العٰدیٰت:1)
فَالْمُوۡرِیٰتِ قَدْحًا ۙ﴿۲﴾
پھر سم مار کر پتھر وں سے آگ نکالتے ہیں ۔ (پ30،العٰدیٰت:2)
فَالْمُغِیۡرٰتِ صُبْحًا ۙ﴿۳﴾
"پھر صبح ہوتے ہی کفار کو تا خت وتاراج کرتے ہیں۔(پ30،العٰدیٰت:3)
لہٰذا ماں باپ کو راضی کرنا ۔ ان کی اطاعت کرنا ، رب تعالیٰ کی عبادت ہے ، نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر جان ومال قر بان کرنا اس سرکار کی اطاعت ہے اور رب تعالیٰ کی عبادت بلکہ اعلیٰ ترین عبادت ہے ۔ موجود ہ وہابی اس الوہیت کی قید سے بے خبر رہ کر نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و تو قیر کو شرک کہہ دیتے ہیں ان کے ہاں محفل میلاد"
"شریف شرک، قبر وں پر جانا شرک ، عید کو سویاں پکانا شرک، نعلین کو بوسہ دینا شرک ، گویا قدم قدم پر شرک ہے اور ساری مشرکین وکفار کی آیات مسلمانوں پر چسپاں کر تے ہیں ۔
اعتراض : کسی کو حاجت روا مشکل کشا سمجھ کر اس کی تعظیم کرنا عبادت ہے اور اس کے سامنے جھکنا بندگی ہے۔ (جواہر القرآن ۔ تقویۃ الایمان)
جواب : یہ غلط ہے ہم حکام وقت کی تعظیم کرتے ہیں یہ سمجھ کر کہ بہت سی مشکلات میں ان کے پاس جانا پڑتا ہے کیا یہ عبادت ہے ؟ ہر گز نہیں حکیم ، استاد کی تعظیم کی جاتی ہے کہ ان سے کام نکلتے رہتے ہیں ۔ یہ عبادت نہیں ۔
اعتراض: کسی کو مافوق الاسباب متصرف مان کر اس کی تعظیم کرنا عبادت ہے اور یہ ہی شرک ہے ۔
جواب: یہ بھی غلط ہے فرشتے مافوق الاسباب تصرف کرتے ہیں ۔ یہ جان نکالتے ہیں ماں کے پیٹ میں بچے بناتے ہیں بارش برساتے ہیں عذاب الٰہی لاتے ہیں ۔ یہ سمجھ کر فرشتوں کی تغٰظیم کرنا ان کی عبادت ہے؟ نہیں ۔ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے انگلیوں سے پانی کے چشمے باذن اللہ جاری کردیئے ۔ چاند پھاڑ ڈالا ۔ ڈوبا سورج واپس بلالیا، کنکروں، پتھر وں سے کلمہ پڑھوایا ۔ درختو ں، جانوروں سے اپنی گواہی دلوائی،حضرت عیسی علیہ السلام نے باذن اللہ مردے زندہ کئے ۔ اندھے ، کوڑھی اچھے کئے یہ سارے کام مافوق الاسباب کئے ۔ اس لئے ان کی تعظیم کرنا عبادت ہے ۔ ہرگز نہیں کیونکہ انہیں خدا کے برابر کوئی نہیں مانتا۔ خدا کے برابر ماننا ہی عبادت کے لئے شرط اول ہے ۔ یہ سب اللہ کے بندے اللہ کے اذن وارادے سے کرتے ہیں ۔اسی لئے حضرت صالح و"
حضرت ہو د، حضرت شعیب ، حضرت نوح اور تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے اپنی قوم کو پہلی تبلیغ یہ ہی فرمائی :
یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللہَ مَا لَکُمۡ مِّنْ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ
"اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی اور معبودنہیں ۔(پ8،الاعراف:59)
یعنی میری اطاعت کرنا ، تعظیم کرنا ، تو قیر بجالانا ، مجھے تمام قوم سے افضل سمجھنا لیکن مجھے خدا یا خدا کی اولاد، خدا کے برابر یا خدا کو میرا محتاج نہ سمجھنا اور ایسا عقیدہ رکھ کر میری تعظیم نہ کرنا کیونکہ اس عقیدے سے کسی کی تعظیم وتوقیر عبادت ہے اور عبادت خدا کے سوا کسی کی درست نہیں ۔ اللہ تعالیٰ قرآن شریف کی سچی سمجھ عطا فرمائے ۔ اس میں بہت بڑ ے لوگ ٹھوکریں کھاجاتے ہیں ۔"
" قرآن شریف میں یہ لفظ بہت زیادہ استعمال ہوا ہے ۔ عبادت کے ساتھ بھی آیا ہے ۔ تصرف اور مدد کے ساتھ بھی ، ولی اور نصیر کے ساتھ بھی ۔ شہید اور وکیل کے ساتھ بھی ، شفیع کے ساتھ بھی ۔ ہدایت ، ضلالت کے ساتھ بھی جیسے کہ قرآن کی تلاوت کرنے والوں پر مخفی نہیں اور ہم بھی ہر طرح کی آیات گزشتہ مضامین میں پیش کرچکے ہیں ۔
اس لفظ دون کے معنی سواء اور علاوہ ہیں،مگر یہ معنی قرآن کی ہر آیت میں درست نہیں ہوتے ۔ اگر ہر جگہ اس کے معنی سواء کئے جا ئیں تو کہیں تو آیات میں سخت تعارض ہوگا اور کہیں قرآن میں صراحۃًجھوٹ لازم آئے گاجس کے دفع کے لئے سخت دشواری ہوگی قرآن کریم میں تامل کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لفظ تین معنی میں"
"استعمال ہوا ہے ۔
(۱) سواء، علاوہ(۲) مقابل(۳)اللہ کو چھوڑ کر ۔ جہاں من دون اللہ عبادت کے ساتھ ہو یا ان الفاظ کے ہمراہ آوے جو عبادت یا معبود کے معنی میں استعمال ہوئے ہوں تو اس کے معنی سواء ہوں گے کیونکہ خدا کے سوا ء کسی کی عبادت نہیں ہوسکتی، جیسے اس آیت میں ۔"
(1) فَلَاۤ اَعْبُدُ الَّذِیۡنَ تَعْبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ وَلٰکِنْ اَعْبُدُ اللہَ الَّذِیۡ یَتوَفّٰىکُمْ
پس نہیں پوجتا میں انہیں جن کو تم پوجتے ہو اللہ کے سوا اور لیکن میں تو اس اللہ کو پوجوں گا جو تمہیں موت دیتا ہے ۔(پ11،یونس:104)
(2) وَ یَعْبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ مَا لَا یَنۡفَعُہُمْ وَ لَا یَضُرُّہُمْ
او رپوجتے ہیں وہ کافر اللہ کے سوا ء انہیں جو نہ انہیں نفع دیں نہ نقصان ۔(پ19،الفرقان:55)
(3) اُحْشُرُوا الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا وَ اَزْوَاجَہُمْ وَمَا کَانُوۡا یَعْبُدُوۡنَ ﴿ۙ۲۲﴾مِنۡ دُوۡنِ اللہِ
"جمع کرو ظالموں کو اور ان کی بیویوں کو اور ان کو جن کی پوجا کر تے تھے یہ اللہ کے سواء۔(پ23،الصّٰفّٰت:22،23)
اس جیسی بہت سی آیات میں مِنْ دُوْنِ اللہِ کے معنی اللہ کے سواء ہیں کیونکہ یہ عبادت کے ساتھ آئے ہیں اور عبادت غیر اللہ کسی کی بھی نہیں ہوسکتی ۔"
(4) قُلْ اَرَءَیۡتُمْ شُرَکَآءَکُمُ الَّذِیۡنَ تَدْعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ ؕ اَرُوۡنِیۡ مَاذَا خَلَقُوۡا
فرماؤ کہ تم بتا ؤ کہ تمہارے وہ شرکاء جن کی تم پوجاکرتے ہو خدا کے سواء مجھے دکھاؤ کہ انہوں نے کیا پیدا کیا ۔(پ22،فاطر:40)
(5) وَادْعُوۡا شُہَدَآءَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیۡنَ ﴿۲۳﴾
اور بلا لو اپنے معبودوں کو اللہ کے سوا اگر تم سچے ہو ۔(پ1،البقرۃ:23)
(6) اَفَحَسِبَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنۡ یَّتَّخِذُوۡا عِبَادِیۡ مِنۡ دُوۡنِیۡۤ اَوْلِیَآءَ
"تو کافر وں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ میرے بندوں کومیرے سوا معبود بنائیں ۔(پ16،الکہف:102)
ان جیسی آیا ت میں چونکہ دون کا لفظ تدعون اور اولیاء کے ساتھ آیا ہے اور یہاں تدعون کے معنی عبادت ہیں اور اولیاء کے معنی معبود لہٰذا یہاں بھی دون بمعنی علاوہ اور سواہوگا ۔ لیکن جہاں ''دون'' مدد یا نصرت یا دوستی کے ساتھ آوے گا تو وہاں اس کے معنی صرف سواء کے نہ ہوں گے ۔ بلکہ اللہ کے مقابل یا اللہ کو چھوڑ کر ہوں گے یعنی اللہ کے سواء اللہ کے دشمن۔ اس تفسیر اور معنی میں کوئی دشواری نہ ہوگی جیسے"
(1) اَلَّا تَتَّخِذُوۡا مِنۡ دُوۡنِیۡ وَکِیۡلًا ؕ﴿۲﴾
کہ میرے مقابل کسی کو وکیل نہ بناؤ۔(پ15،بنیۤ اسرآء یل:2)
(2) اَمِ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللہِ شُفَعَآءَ
کیا ان لوگوں نے اللہ کے مقابل کچھ سفارشی بنا رکھے ہیں۔(پ24،الزمر:43)
(3) وَمَا لَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ مِنۡ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِیۡرٍ ﴿۱۰۷﴾
اور اللہ کے مقابل نہ تمہارا کوئی دوست ہے اور نہ مدد گار ۔(پ1،البقرۃ:107)
(4) وَّلَا یَجِدُوۡنَ لَہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ وَلِیًّا وَّلَا نَصِیۡرًا ﴿۱۷۳﴾
اور وہ اللہ کے مقابل اپنا نہ کوئی دوست پائینگے اور نہ مدد گار ۔(پ6،النسآء:173)
(5) لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوۡنَ الْکٰفِرِیۡنَ اَوْلِیَآءَ مِنۡ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیۡنَ
مومن مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست نہ بنائیں ۔(پ3،اٰل عمرٰن:28)
(6) وَمَنۡ یَّتَّخِذِ الشَّیۡطٰنَ وَلِیًّا مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِیۡنًا ﴿۱۱۹﴾
اور جو شیطان کو دوست بنائے خدا کو چھوڑ کر وہ کھلے ہوئے گھاٹے میں پڑگیا ۔(پ5،النسآء:119)
(7) وَمَا کَانَ لَہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ مِنْ اَوْلِیَآءَ
"اور نہیں ہے ان کافروں کے لئے اللہ کے مقابل کوئی مدد گار ۔(پ12،ہود:20)
ان جیسی تمام ان آیتوں میں جہاں مدد، نصرت ، ولایت، دوستی وغیرہ کے ساتھ لفظ دون آیا ہے ۔ ان میں اس کے معنی صرف سواء یا علاوہ کے نہیں بلکہ وہ سواء مراد ہے جو رب تعالیٰ کا دشمن یا مقابل ہے ۔ لہٰذا اس دون کے معنے مقابل کرنا نہایت موزوں ہے جن مفسرین نے یا تر جمہ کرنیوالوں نے ان مقامات میں سواء ترجمہ کیا ہے ان کی مراد بھی سواء سے ایسے ہی سواء مرا دہیں ۔ اس دون کی تفسیر یہ آیات ہیں:"
(1) وَ اِنۡ یَّخْذُلْکُمْ فَمَنۡ ذَا الَّذِیۡ یَنۡصُرُکُمۡ مِّنۡۢ بَعْدِہٖ
اوراگر رب تمہیں رسوا کرے تو کون ہے جو پھر تمہاری مدد کرے ۔(پ4،اٰل عمرٰن:160)
(2) لَہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ وَلِیًّا وَّلَا نَصِیۡرًا ﴿۱۷﴾
تم فرماؤ کہ وہ کون ہے جو تمہیں اللہ سے بچائے اگر ارادہ کرے رب تمہارے لئے برائی کا اور ارادہ کرے مہربانی کا اور وہ اللہ کے مقابل کوئی نہ دوست پائیں گے نہ مد د گار ۔(پ21،الاحزاب:17)
(3) اَمْ لَہُمْ اٰلِہَۃٌ تَمْنَعُہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِنَا ؕ
"کیا ان کے کچھ ایسے خدا ہیں جو انہیں ہم سے بچالیں۔(پ17،الانبیآء:43)
ان آیات نے تفسیر فرمادی کہ جہاں مد د یادوستی کے ساتھ لفظ دون آئے گا وہاں مقابل اور رب کو چھوڑ کر معنی دے گا نہ کہ صرف سواء یاعلاوہ کے ۔
نیز اگر اس جگہ دون کے معنی سواء کئے جائیں تو آیات میں تعارض بھی ہوگا کیونکہ مثلاً یہاں تو فرمایا گیا رب کے سوا تمہارا کوئی ولی اور مدد گار نہیں اور جو آیات ولی کی بحث میں پیش کی گئیں وہاں فرمایا گیا کہ تمہارا ولی اللہ اوررسول اور نیک مومنین ہیں یا تمہارے ولی فرشتے ہیں یا فرمایا گیا کہ اے مولیٰ اپنی طر ف سے ہمارے مدد گار فرما ۔ ا س تعارض کا اٹھانا بہت مشکل ہوگا ۔
نیز اگر ان آیات میں دون کے معنی سواء کئے جائیں تو عقل کے بالکل خلاف ہوگا اور رب کا کلام معا ذ اللہ جھوٹا ہوگا ۔
مثلاً یہا ں فرمایا گیا کہ"
اَمِ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللہِ شُفَعَآءَ ؕ
انہوں نے خدا کے سوا سفارشی بنالیئے ۔ سفارشی تو خدا کے سواہی ہوگا۔(پ۲۴،الزمر:۴۳)
خدا تو سفارشی ہوسکتا ہی نہیں یا فرمایاگیا:
اَلَّا تَتَّخِذُوۡا مِنۡ دُوۡنِیۡ وَکِیۡلًا ؕ﴿۲﴾ (بنیۤ اسرآء یل:2)
" میرے سوا کسی کو وکیل نہ بناؤ حالانکہ دن رات وکیل بنایا جاتا ہے اب وکیل کے معنی کی تو جیہیں کرو اور شفعاء کے متعلق بحث کرتے پھرو لیکن اگر یہاں دون کے معنی مقابل کرلئے جائیں تو کلام نہایت صاف ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقابل نہ کوئی سفارشی ہے نہ وکیل، نہ کوئی حمایتی ہے نہ کوئی مدد گار نہ کوئی دوست جو کوئی جو کچھ ہے وہ رب تعالیٰ کے ارادہ اور اسی کے حکم سے ہے لہٰذا جہاں بندوں سے ولایت، حمایت، مدد، دوستی کی نفی ہے وہاں رب تعالیٰ کے مقابل ہوکر ہے کہ رب تعالیٰ چاہے ہلاک کرنا اور یہ مدد کر کے بچالیں او رجہاں ان چیز وں کا بندوں کے لئے ثبوت ہے وہاں اذن الٰہی سے مدد نصرت وغیرہ ہے ۔
اعتراض : ان آیات میں مِنْ دُوْنِ اللہِ سے اللہ کے سواء ہی مراد ہیں اور مطلب یہ ہے کہ اللہ کے سوا ء غائبانہ مافوق الاسباب مدد کرنے والا کوئی نہیں ۔ یہ ہی عقیدہ شرک ہے جن آیتو ں میں اللہ کے بندوں کی مدد اور ولایت کا ثبوت ہے ۔ وہاں حاضرین زندوں کی اسباب غائبانہ مدد مراد ہے ۔(جواہر القرآن)
جواب:یہ تو جیہہ بالکل غلط ہے چند وجہوں سے ایک یہ کہ نفی مدد کی آیتوں میں کوئی قید نہیں ہے مطلق ہیں تم نے اپنے جیب سے اس میں تین قیدیں لگائیں غائبانہ، مافوق الاسباب ، مردو ں کی مدد ، قرآن کی آیت خبر واحد سے بھی مقید نہیں ہوسکتی اور تم صرف اپنے گمان وہم سے مقید کر رہے ہو ۔ او راگردون کوبمعنی مقابل لیا جاوے تو کوئی قید"
"لگانی نہیں پڑتی ۔
دوسرے یہ کہ تمہاری یہ تفسیر خود قرآن کی اپنی تفسیر کے خلاف ہے قرآن کی مذکورہ بالا آیات نے بتایا کہ یہاں دون بمعنی مقابل ہے ۔ لہٰذا تمہاری یہ تفسیر تحریف ہے ۔ تفسیر نہیں ۔ تیسرے یہ کہ ان قیدوں کے با وجود آیت درست نہیں ہوتی کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مدینہ منورہ سے بیٹھے ہوئے حضرت ساریہ رضی اللہ تعالی عنہ کی مافوق الاسباب مدد فرمادی کہ انہیں دشمن کی خفیہ تدبیر سے مطلع فرمادیا۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے والد ماجد حضرت یعقوب علیہ السلام کی مافوق الاسباب دور سے مدد فرمادی کہ اپنی قمیص کے ذریعہ باذن پر ور دگار ان کی آنکھیں روشن فرمادیں اور ظاہر ہے کہ قمیص آنکھ کی شفا کا سبب نہیں لہٰذا یہ مدد مافوق الاسباب ہے ۔ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی وفات کے بعد ہماری مافوق الاسباب یہ مدد کی کہ پچاس نمازوں کی پانچ کرادیں۔
اس قسم کی سینکڑوں مددیں ہیں جو اللہ کے پیاروں نے غائبانہ مافوق الاسباب فرمائیں ۔ تمہاری اس تفسیر کی رو سے سب شرک ہوگئیں غرضیکہ تمہاری یہ تفسیر درست نہیں ہوسکتی ۔چوتھے یہ کہ تم اپنی قیدوں پر خود قائم نہ رہو گے ۔ اچھا بتاؤ ۔اگر غائبانہ امداد تو منع ہے کیا حاضر انہ امداد جائز ہے تو بتا ؤ کسی زندہ ولی سے اس کے پاس جاکر فر زند مانگنا یا رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ اطہر پر جاکر حضور سے جنت مانگنا ودوزخ سے پناہ مانگنا جائز ہے تم اسے بھی شرک کہتے ہو تو تمہاری یہ قیدیں خود تمہارے مذہب کے خلاف ہیں بہر حال یہ قیود باطل ہیں ان آیات میں دون بمعنی مقابل ہے ۔"
قرآن کریم میں یہ لفظ بہت جگہ استعمال ہوا ہے نذر کے لغوی معنی ہیں ڈرانا یا ڈرسنانا ۔ شرعی معنی ہیں غیر لازم عبادت کو اپنے پر لازم کرلینا ، عرفی معنی ہیں نذرانہ وہدیہ قرآن کریم میں یہ لفظ ان تینوں معانی میں استعمال ہوا ہے۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے:
(1) اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰکَ بِالْحَقِّ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا
ہم نے تمہیں حق کے ساتھ بھیجا خوشخبری دینے والا ڈرسنا نے والا۔(پ22،فاطر:24)
(2) وَ اِنۡ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیۡہَا نَذِیۡرٌ ﴿۲۴﴾
نہیں ہے کوئی جماعت مگر گذرے ان میں ڈرا نے والے ۔(پ22،فاطر:24)
(۳)اَلَمْ یَاْتِکُمْ رُسُلٌ مِّنْکُمْ یَتْلُوْنَ عَلَیْکُمْ اٰیٰتِ رَبِّکُمْ وَیُنْذِرُوْنَکُمْ لِقَآءَ یَوْمِکُمْ ہٰذَا
کیا تمہارے پاس تم میں سے رسول نہ آئے جو تم پر تمہارے رب کی آیات تلاوت کرتے ہیں اور تمہیں اس دن کے ملنے سے ڈراتے ۔(پ۲۴،الزمر:۷۱)
(4) فَاَنۡذَرْتُکُمْ نَارًا تَلَظّٰی ﴿ۚ۱۴﴾
اور ڈرایا میں نے تم کو بھڑکتی ہوئی آگ سے ۔(پ30،الیل:14)
(5) اِنَّا اَنۡزَلْنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ اِنَّا کُنَّا مُنۡذِرِیۡنَ ﴿۳﴾
"ہم نے قرآن شریف اتارا برکت والی رات میں ہم ہیں ڈرانے والے ۔(پ25،الدخان:3)
ان جیسی بہت سی آیات میں نذر لغوی معنی میں استعمال ہو ا ہے بمعنی ڈرانا، دھمکانا۔ اس معنی میں یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے بھی آتا ہے اور انبیا ء کرام کے لئے بھی اورعلماء دین کے لئے بھی۔یہ لفظ شرعی معنی میں بھی استعمال ہو اہے رب تعالیٰ فرماتا ہے :"
(1) وَمَاۤ اَنۡفَقْتُمۡ مِّنۡ نَّفَقَۃٍ اَوْ نَذَرْتُمۡ مِّنۡ نَّذْرٍ فَاِنَّ اللہَ یَعْلَمُہٗ
جو کچھ تم خرچ کر ویانذر مانو کوئی نذر، اللہ اسے جانتا ہے ۔(پ3،البقرۃ:270)
(2) رَبِّ اِنِّیۡ نَذَرْتُ لَکَ مَا فِیۡ بَطْنِیۡ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّیۡ
اے میرے رب میں نے نذر مانی تیرے لئے اس بچے کی جو میرے پیٹ میں ہے آزاد ۔ پس قبول فرما مجھ سے ۔(پ3،ال عمرٰن:35)
(3) وَلْیُوۡفُوۡا نُذُوۡرَہُمْ وَلْیَطَّوَّفُوۡا بِالْبَیۡتِ الْعَتِیۡقِ ﴿۲۹﴾
چاہیے کہ یہ لوگ اپنی نذریں پوری کریں اور پرانے گھر کا طواف کریں ۔(پ17،الحج:29)
(4) اِنِّیۡ نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْمًا فَلَنْ اُکَلِّمَ الْیَوْمَ اِنۡسِیًّا ﴿ۚ۲۶﴾
"میں نے اللہ کے لئے روزے کی نذر مانی ہے پس آج کسی سے کلام نہ کرو ں گی۔ (پ16،مریم:26)
ان جیسی آیات میں نذر سے شرعی معنی مراد ہیں یعنی منت ماننا اور غیر ضروری عبادت کو لازم کرلینا یہ نذر عبادت ہے اس لئے خدا کے سوا کسی بندے کے لئے نہیں ہوسکتی اگر کوئی کسی بندے کی نذر مانتا ہے تو مشرک ہے کیونکہ غیر خدا کی عبادت شرک ہے
چونکہ عبادت میں شرط یہ ہے کہ معبود کو الٰہ یعنی خدا یا خدا کے برابر ماناجائے، اس لئے اس نذر میں بھی یہی قید ہوگی کہ کسی کو خدایا خدا کے برابر مان کر نذر مانی جائے، اگر ناذ ر کا یہ عقیدہ نہیں ہے بلکہ جس کی نذر مانی اسے محض بندہ سمجھتا ہے تو وہ شرعی نذر نہیں اسی لئے فقہانے اس نذر میں تقرب کی قید لگائی ۔ تقرب کے معنی عبادت ہیں ۔
یہ بھی خیال رہے کہ اگر کوئی کسی بندے کے نام پر شرعی نذر کرے یعنی اس کی"
الوہیت کا قائل ہو کر اس کی منت مانے تو اگر چہ یہ شخص مشرک ہوگا اور اس کا یہ کام حرام ہوگا مگر وہ چیز حلال رہے گی اس چیز کو حرام جاننا سخت غلطی ہے اور قرآن کریم کے خلاف ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :
(1) مَا جَعَلَ اللہُ مِنۡۢ بَحِیۡرَۃٍ وَّلَا سَآئِبَۃٍ وَّلَا وَصِیۡلَۃٍ وَّلَا حَامٍ ۙ وَّلٰکِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا یَفْتَرُوۡنَ عَلَی اللہِ الْکَذِبَ ؕ
"نہیں بنایا اللہ نے بحیرہ اور نہ سائبہ اور نہ وصیلہ اور نہ حام یہ مشرکین اللہ پر جھوٹ گھڑتے ہیں ۔(پ7،المآئدۃ:103)
کفار عرب ان چا رقسم کے جانور وصیلہ حام وغیر ہ کو اپنے بتو ں کے نام کی نذر کرتے تھے اور انہیں کھانا حرام جانتے تھے ۔ رب تعالیٰ نے ان کی تردید فرمادی اور فرمایا کہ یہ حلال ہیں جیسے آج کل ہندوؤں کے چھوڑے ہوئے سانڈ ھ حلال ہیں ۔ اللہ کے نام پر ذبح کر و اور کھاؤ ۔"
(2) وَ جَعَلُوۡا لِلہِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَ الۡاَنْعَامِ نَصِیۡبًا فَقَالُوۡا ہٰذَا لِلہِ بِزَعْمِہِمْ وَہٰذَا لِشُرَکَآئِنَا
اور ٹھہر ایا ان کا فروں نے اللہ کا اس کھیتی اور جانوروں میں ایک حصہ پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کا حصہ ہے اپنے خیال پر اور یہ ہمارے شریکوں کا ہے ۔(پ8،الانعام:136)
(3) وَ قَالُوۡا ہٰذِہٖۤ اَنْعَامٌ وَّ حَرْثٌ حِجْرٌ ٭ۖ لَّا یَطْعَمُہَاۤ اِلَّا مَنۡ نَّشَآءُ
"اور کافر کہتے ہیں کہ یہ جانور اور کھیتی منع ہے اسے نہ کھائے مگر وہ جسے ہم چاہیں۔(پ8،الانعام:138)
ان آیات سے معلوم ہوا کہ کفار عرب اپنے جانوروں کھیتوں میں بتو ں کی نذر"
مان لیتے تھے او رکچھ حصہ بتو ں کے نام پر نامز د کردیتے تھے پھر انہیں کھانا یا تو بالکل حرام جانتے تھے جیسے بحیرہ، سائبہ جانور اور یا ان کے کھانے میں پا بندی لگاتے تھے کہ مرد کھائیں عورتیں نہ کھائیں فلاں کھائے فلاں نہ کھائے ۔ ان دونوں حرکتوں کی رب نے تردید ان آیات میں فرمادی:
(1) وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ہٰذَا حَلٰلٌ وَّ ہٰذَا حَرَامٌ
اور نہ کہو اپنی زبانوں کے جھوٹ بتانے سے کہ یہ حلال ہے اوریہ حرام۔(پ14،النحل:116)
(2) قُلْ اَرَءَیۡتُمۡ مَّاۤ اَنۡزَلَ اللہُ لَکُمۡ مِّنۡ رِّزْقٍ فَجَعَلْتُمۡ مِّنْہُ حَرَامًا وَّحَلٰلًا
فرماؤ کہ بھلا دیکھو تو جو اللہ نے تمہارا رزق اتارا تم نے اس میں کچھ حلال بنایا کچھ حرام۔(پ11، یونس: 59)
(3) قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیۡنَۃَ اللہِ الَّتِیۡۤ اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ وَالطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ
فرماؤ کس نے حرام کی اللہ کی زینت جو اس نے اپنے بندوں کے لئے نکالی اور ستھرا رزق۔(پ8،الاعراف:32)
(4) َّحَرَّمُوۡا مَا رَزَقَہُمُ اللہُ افْتِرَآءً عَلَی اللہِ
ان کافروں نے حرام سمجھ لیا اسے جو اللہ نے انہیں رزق دیا اللہ پر جھوٹ باندھتے ہوئے ۔(پ8،الانعام:140)
(5) یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُلُوۡا مِنۡ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ وَاشْکُرُوۡا لِلہِ اِنۡ کُنۡتُمْ اِیَّاہُ تَعْبُدُوۡنَ ﴿۱۷۲﴾
اے مسلمانو! کھاؤ وہ ستھری چیز یں جو ہم تمہیں رزق دیں اور اللہ کا شکر کرو اگر تم اس کی عبادت کرتے ہو۔(پ2،البقرۃ:172)
(6) وَمَا لَکُمْ اَلَّا تَاۡکُلُوۡا مِمَّا ذُکِرَاسْمُ اللہِ عَلَیۡہِ
اور تمہارا کیا حال ہے کہ نہیں کھاتے اس میں سے جس پر اللہ کانام لیا گیا ۔(پ8،الانعام:119)
(8) اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیۡکُمُ الْمَیۡتَۃَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنۡزِیۡرِ وَمَاۤ اُہِلَّ بِہٖ لِغَیۡرِ اللہِ
اللہ نے صرف مردار کو اور خون کو اور سورکے گو شت کو اور اس جانور کو جو غیر خدا کے نام پر ذبح کیاجائے تم پر حرام فرمایا۔(پ2،البقرۃ:173)
(9) قَدْ خَسِرَ الَّذِیۡنَ قَتَلُوۡۤا اَوْلَادَہُمْ سَفَہًۢا بِغَیۡرِ عِلْمٍ وَّحَرَّمُوۡا مَا رَزَقَہُمُ اللہُ افْتِرَآءً عَلَی اللہِ
"بے شک نقصان میں رہے وہ جنہوں نے اپنی اولاد کو نادانی اور جہالت سے قتل کر ڈالااور اللہ کے دیئے ہوئے رزق کو حرام کرلیا اللہ پر تہمت لگاتے ہوئے ۔(پ8،الانعام:140)
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے کفار عرب کے اس عقیدے کی پرزور تردید فرمائی کہ جس جانور اور جس کھیتی وغیر ہ کو بت کے نام پر لگادیا جاوے وہ حرام ہوجاتا ہے۔ فرمایا: تم اللہ پر تہمت لگاتے ہو اللہ نے یہ چیزیں حرام نہ کیں تم کیوں حرام جانتے ہو، جس سے معلوم ہو اکہ بتوں کے نام کی نذر ماننا شرک تھا اور ان کا یہ فعل سخت جرم تھا مگر اس چیز کو حلال ٹھہرایا اس کے حرام جاننے پر عتاب کیا ،اسے حلال رزق اور طیب روزی فرمایا ۔ ان بتوں کے نام پر چھوٹے ہوئے جانوروں کے متعلق حکم فرمایا کہ اللہ کے نام پر ذبح کرو اور کھاؤ کافروں کی باتوں میں نہ آؤ ۔ ایسے ہی آج بھی جس چیز کو غیر خدا کے نام پر شرعی طور پر نذر کر دیا جائے وہ بھی حلال طیب ہے اگرچہ یہ نذر شرک ہے ۔
نذر کے تیسرے معنی عرفی ہیں یعنی کسی بزرگ کو کوئی چیز ہدیہ ، نذرانہ ، تحفہ پیش کرنا یا پیش کرنے کی نیت کرنا کہ اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو حضو ر غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ"
عنہ کے نام کی دیگ پکاؤں گا یعنی دیگ بھرکھانا خیرات کر وں گا اللہ کے لئے اور ثواب اس کا سرکار بغداد کی رو ح شریف کو نذرانہ کرو ں گایہ بالکل جائز ہے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے ایسی نذریں بارگاہ رسالت میں مانی اور پیش کی ہیں او رحضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے قبول فرمائی ہیں نہ یہ کام حرام نہ چیز حرام ۔ اسی کو عوام کی اصطلاح میں نیاز کہتے ہیں بمعنی نذرانہ ۔ اس کا قرآن شریف میں بھی ثبوت ہے اور احادیث صحیحہ میں بھی۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :
وَمِنَ الۡاَعْرَابِ مَنۡ یُّؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الۡاٰخِرِ وَیَتَّخِذُ مَا یُنۡفِقُ قُرُبٰتٍ عِنۡدَ اللہِ وَصَلَوٰتِ الرَّسُوۡلِ ؕ اَلَاۤ اِنَّہَا قُرْبَۃٌ لَّہُمْ ؕ سَیُدْخِلُہُمُ اللہُ فِیۡ رَحْمَتِہٖ ؕ اِنَّ اللہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿٪۹۹﴾
"کچھ گاؤں والے وہ ہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان لاتے ہیں اور جو خرچ کریں اسے اللہ کی نزدیکیوں اور رسول سے دعا ئیں لینے کا ذریعہ سمجھتے ہیں یقینا ان کیلئے با عث قرب ہے اللہ جلد انہیں اپنی رحمت میں داخل کریگا ۔ بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔(پ11،التوبۃ:99)
اس آیت میں بتایا کہ مؤمنین اپنے صدقہ میں دونیتیں کرتے ہیں ۔ ایک اللہ کی نزدیکی اور اس کی عبادت، دوسرے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی دعائیں لینا اور خود حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا خوش ہونا ۔ یہ ہی فاتحہ بزرگان دینے والے، ان کی نذر ماننے والے کا مقصد ہوتا ہے کہ خیرات اللہ کے لئے ہو اور ثواب اس بزرگ کے لئے تا کہ ان کی رو ح خوش ہو کرہمیں دعا کرے ۔
اسی لئے عوام کہتے ہیں ، نذر اللہ، نیاز حسین ، اس میں کوئی قباحت نہیں ۔ جب نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ایک غزوہ سے بخیر یت واپس تشریف لائے تو ایک لڑکی نے عرض کیا :"
یَا رَسُوْلَ اللہِ اِنِّی کُنْتُ نَذَرْتُ اِنْ رَدَّکَ اللہُ صَالِحًا اَنْ اَضْرِبَ بَیْنَ یَدَیْکَ بِالدُّفِ وَاَتَغَنّٰی بِہٖ فَقَالَ لَہَا رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنْ کُنْتِ نَذَرْتِ فَاضْرِ بِیْ وَاِلَّا فَـلَا ۔ ( مشکوۃ باب مناقب عمر)
(مشکاۃ المصابیح،کتاب المناقب،باب مناقب عمر رضی اللہ عنہ،الحدیث۶۰۴۸، المجلدالثانی،ص۴۱۹،دارالکتب العلمیۃ بیروت)
" حضور میں نے منت مانی تھی کہ اگر اللہ عزوجل آپ کو بخیر یت واپس لائے تو میں آپ کے سامنے دف بجاؤں اور گاؤں،سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : اگر تم نے نذرمانی ہے تو بجاؤ ورنہ نہیں۔
اس حدیث میں لفظ نذر اسی نذرانہ کے معنی میں ہے نہ کہ شرعی نذرکیونکہ گانا بجاناعبادت نہیں صرف اپنے سرور وخوشی کا نذرانہ پیش کرنا مقصود تھا جو سرکار میں قبول فرمایا گیا ۔ یہ عرفی نذر ہے جو ایک صحابیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مانتی ہیں اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اس کے پورے کرنے کا حکم دیتے ہیں ۔
اسی مشکوۃ کے حاشیہ میں بحوالہ ملا علی قاری ہے"
وان کان السرور بمقدمہ الشریف نفسہ قربۃ.
(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح،کتاب مناقب والفضائل، باب مناقب عمر رضی اللہ عنہ،تحت الحدیث۶۰۴۸،ج۱۰، ص۴۰۳،دارالفکربیروت)
" ''حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری پر خوشی منانا عبادت ہے۔''
غرضکہ اس قسم کی عرفی نذریں عوام وخواص میں عام طو پر مروج ہیں۔ استا د ، ماں ، باپ ،شیخ سے عرض کرتے ہیں کہ یہ نقدی آپ کی نذر ہے اسے شرک کہنا انتہا درجہ کی بیوقوفی ہے ۔"
لفظ خاتم ختم سے بناہے جس کے لغوی معنی ہیں مہر لگانا ۔اصطلاح میں اس کے معنی ہیں تمام کرنا، ختم کرنا، بند کرنا،کیونکہ مہر یا تو مضمون کے آخر پر لگتی ہے جس سے مضمون بند ہوجاتا ہے یا پارسل بند ہونے پر لگتی ہے جب نہ کوئی شے اس میں داخل ہوسکے نہ اس سے خارج ،اسی لئے تمام ہونے کو ختم کہا جاتا ہے قرآن شریف میں یہ لفظ دونوں معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔ چنانچہ رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
(1) خَتَمَ اللہُ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ وَعَلٰی سَمْعِہِمۡ
اللہ تعالیٰ نے ان کفار کے دلوں اور کانوں پر مہر لگادی ۔(پ1،البقرۃ:7)
(2) اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤی اَفْوَاہِہِمْ وَ تُکَلِّمُنَاۤ اَیۡدِیۡہِمْ وَ تَشْہَدُ اَرْجُلُہُمْ بِمَا کَانُوۡا یَکْسِبُوۡنَ ﴿۶۵﴾
آج ہم ان کے منہ پرمہر لگادیں گے اور ہم سے ان کے ہاتھ بولیں گے او ران کے پاؤں گواہی دیں گے جو وہ کرتے تھے ۔(پ23،یٰسۤ:65)
(3) فَاِنۡ یَّشَاِ اللہُ یَخْتِمْ عَلٰی قَلْبِکَ
تو اگر اللہ چاہے توآپ کے دل پر رحمت وحفاظت کی مہر لگادے ۔(پ25،الشورٰی:24)
یُسْقَوْنَ مِنۡ رَّحِیۡقٍ مَّخْتُوۡمٍ ﴿ۙ۲۵﴾خِتٰمُہٗ مِسْکٌ ؕ
"نتھاری شراب پلائے جائیں گے جو مہر کی ہوئی ہے اس کی مہر مشک پر ہے ۔(پ۳۰،المطففین:۲۵)
ان جیسی تمام آیتوں میں ختم بمعنی مہر استعمال فرمایا گیا ہے کہ جب کفار کے دل وکان پر مہر لگ گئی تونہ باہر سے وہاں ایمان داخل ہونہ وہاں سے کفر باہر نکلے یوں ہی جنت میں"
شَرَابًاطَہُوْرًا
ایسے بر تنوں سے پلائی جائے گی جن پر حفاظت کے لئے
مہر ہے تا کہ کوئی توڑ کرنہ باہر سے کوئی آمیز ش کر سکے نہ اندر سے کچھ نکال سکے۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :
مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ
"محمد تمہارے مردو ں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے ۔(پ22،الاحزاب:40)
اس جگہ خاتم عرفی معنی میں استعمال ہوا یعنی آخری اور پچھلا ۔ لہٰذا اب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی کو نبوت ملنانا ممکن ہے۔ اس معنی کی تائید حسب ذیل آیات سے ہوتی ہے اوران آیتوں سے معلوم ہوتاہے کہ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔"
(1) اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیۡنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیۡکُمْ نِعْمَتِیۡ (پ6،المآئدۃ:3)
آج میں نے تمہارے لئے دین مکمل کردیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی ۔
(2) ثُمَّ جَآءَکُمْ رَسُوۡلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنۡصُرُنَّہٗ
پھر تشریف لائیں تمہارے پا س وہ رسول جو تمہاری کتا بوں کی تصدیق کریں توتم سب نبی ان پر ایمان لانا اور ان کی مدد کرنا۔(پ3،ال عمرٰن:81)
(3) وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدْ خَلَتْ مِنۡ قَبْلِہِ الرُّسُلُ
محمد( صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم )رسول ہی ہیں ان سے پہلے سارے رسول گزر چکے ۔(پ4،ال عمرٰن:144)
(4) فَکَیۡفَ اِذَا جِئْنَا مِنۡ کُلِّ اُمَّۃٍ ۭبِشَہِیۡدٍ وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی ہٰٓؤُلَآءِ شَہِیۡدًا﴿ؕؔ۴۱﴾
"تو کیسی ہوگی جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اوراے محبوب تمہیں ان سب پر گواہ ونگہبان لائیں گے ۔(پ5،النساء:41)
ان آیتوں سے تین باتیں معلوم ہوئیں ۔ ایک یہ کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا دین مکمل ہے اور دین کے مکمل ہوچکنے کے بعد کسی نبی کی ضرورت نہیں۔ دوسرے یہ کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم تمام نبیوں کی تصدیق کرتے ہیں کسی نبی کی بشارت یا خوشخبری نہیں دیتے اور پچھلے نبی کی تصدیق ہوتی ہے آئندہ کی بشارت اگر آپ کے بعد کوئی اور نبی ہوتا تو اس کے بشیر بھی ہوتے۔ تیسرے یہ کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم سارے پیغمبروں اور ان کی امتوں پر گواہ ہیں لیکن کوئی نبی حضور کا گواہ یا حضو رکی امت کا گواہ نہیں جس سے معلوم ہوا کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں۔ چوتھے یہ کہ سارے نبی آپ سے پہلے گزرچکے کوئی باقی نہیں رہا ۔
اعتراض: خاتم النبیین کے معنی ہیں نبیوں سے افضل جیسے کہا کرتے ہیں فلاں شخص خَاتَمُ الشُّعَرَآءِ یا خَاتَمُ الْمُحَدِّثِیْنَ ہے اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ شاعروں یا محدثوں میں آخری شاعر یاآخری محدث ہے بلکہ محدثوں میں افضل ہے۔ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فرمایا:"
'' اَنْتَ خَاتَمُ المُھَاجِرِیْنَ''
(فضائل الصحابۃ لابن حنبل،باب فضائل ابی الفضل العباس بن عبدالمطلب، الحدیث۱۸۱۲، ج۲،ص۹۴۱،مؤسسۃ الرسالۃ بیروت)'
'تم مہاجرین میں خاتم یعنی افضل ہو۔'' نہ یہ معنی کہ آخری مہاجر ہو کیونکہ ہجرت تو قیامت تک جاری رہے گی لہٰذاآپ کے بعد نبی آسکتے ہیں،ہاں آپ سب سے افضل ہیں اورخاتم النبیین کے معنی یہی ہیں ۔
جواب :خاتم ختم سے بنا ہے جس کے معنی افضل نہیں ورنہ
خَتَمَ اللہُ عَلَی قُلُوْبِہِمْ (پ 1،البقرۃ:7)
"کے معنی یہ ہوتے کہ اللہ نے کافروں کے دل افضل کردیئے۔ جب ختم میں افضلیت کے معنی نہیں تو خاتم میں جوا س سے مشتق ہے یہ معنی کہا ں سے آگئے لوگو ں کا کسی کو خاتم الشعراء کہنا مبالغہ ہوتا ہے گویا اب اس شان کا شاعر نہ آوے گا کہا کرتے ہیں فلاں پر شعر گوئی ختم ہوگئی ۔ رب تعالیٰ کا کلام مبالغہ اور جھوٹ سے پاک ہے ، حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان مہاجرین میں جنہوں نے مکہ مکر مہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی آخری مہاجرہی کیونکہ ان کی ہجرت فتح مکہ کے دن ہوئی جس کے بعد یہ ہجرت بند ہوگئی لہٰذا وہاں بھی خاتم آخر کے معنی میں ہے ۔
سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایا"
لَا ھِجْرَۃَ بَعْدَ الْیَوْمِ
"آج کے بعد اب مکہ سے ہجرت نہ ہوگی ،اگر وہاں خاتم کے معنی افضل ہوں تو لازم آئے گا کہ حضر ت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے بھی افضل ہوجاویں کیونکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم بھی مہاجرہیں ۔
اعتراض: اگر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم آخری نبی ہیں تو پھر عیسیٰ علیہ السلام کیوں آپ کے بعد آویں گے ۔آخری نبی کے بعد کوئی نبی نہ چاہیے ؟
جواب: آخر ی نبی کے معنی یہ ہیں کہ آپ کے زمانہ یا آپ کے بعد کوئی نبی باقی نہ رہے۔ آخری اولاد کے معنی یہ ہیں کہ پھر کوئی بچہ پیدا نہ ہو، نہ یہ کہ پچھلے سب مرجاویں نیز حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تشریف لانا اب نبوت کی حیثیت سے نہ ہوگا بلکہ حضور کے امتی کی حیثیت سے یعنی وہ اپنے وقت کے نبی ہیں اور اس وقت کے امتی۔"
"جیسے کوئی جج دوسرے جج کی کچہری میں گواہی دینے کے لئے جاوے تو وہ اگرچہ اپنے علاقہ میں جج ہے مگر اس علاقہ میں گواہ عیسیٰ علیہ السلام محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے علاقہ میں ان کے دین کی نصرت ومدد کرنے تشریف لاویں گے ۔
نوٹ ضروری:جب ختم بمعنی مہر ہوتا ہے تو اس کے بعد علٰی ضرورہوتا ہے خواہ ظاہر ہو یا پوشیدہ جیسے کہ ہماری پیش کر دہ آیات سے ظاہر ہے اور جب ختم بمعنی آخر ہونا یا تمام کرنا ہوگا تو علٰی کی ضرورت نہیں خاتم النبین میں علی نہ ظاہر ہے نہ پوشیدہلہٰذا یہاں آخری نبی مراد ہیں ۔
نوٹ ضروری : خاتم النبیین کے معنی ''آخری نبی ''خود حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائے اور اس پر امت کا اجماع رہا اب آخر ی زمانہ میں مولوی محمد قاسم دیوبندی اور مرزا غلام احمد قادیانی نے اس کے نئے معنے ایجاد کئے یعنی اصلی نبی، افضل نبی اور ان اجماعی معنی کاانکار کیا اسی لئے ان دونوں پر عرب وعجم کے علماء نے فتوی کفردیا اور جیسے قرآن مجیدکے الفاظ کا انکار کفر ہے ویسے ہی اس کے اجماعی معنی کاانکار بھی کفر ہے اگر کوئی کہے کہ"
اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ (پ 1،البقرۃ:43)
"پر میرا ایمان ہے یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے ہیں مگر صلوٰۃ کے معنی نماز نہیں بلکہ اس کے معنے دعاہیں ۔ ہاں نماز بھی اس معنی میں داخل ہے اور زکوٰۃ کے معنی صدقہ واجبہ نہیں بلکہ اس کے معنی پاکی ہے ہا ں صدقہ وخیرات بھی اس میں داخل ہے تو وہ کافر ہے کیونکہ اگر چہ وہ قرآن کے لفظوں کا انکار نہیں کرتا مگر متواتر معنی کا انکار کرتاہے اس صورت میں خواہ نماز کو فر ض ہی مانے مگر جب قرآن میں الصلوٰۃ کے معنی نماز نہیں کرتا تو وہ کافر ہے ۔
نیز نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے سارے صفات کو ماننا ایمان کے لئے"
ضروری ہے جیسے کہ حضور نبی ہیں، رسول ہیں ،شفیع المذنبین ہیں اور رحمت للعالمین ہیں ایسے ہی آپ خاتم النبیین بمعنی آخری نبی ہیں جیسے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کا ماننا ضروری ہے اور نبوت کے وہی معنی ہیں جو مسلمان مانتے ہیں ایسے ہی آپ کو خاتم النبیّین اسی معنی سے ماننا ضروری ہے جو مسلمانوں کا عقیدہ ہے۔ نیز جیسے لا الہ الا اللہ میں الٰہ نکرہ ہے نفی کے بعد تو معنی یہ ہے کہ خدا کے سوا کسی طر ح کا کوئی معبود نہیں، نہ اصلی نہ ظلی،نہ بروزی نہ مراتی نہ مذاتی ۔ ایسے ہی ''لانبی بعدی'' میں نبی نکرہ نفی کے بعد ہے جس کے معنی ہیں کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی طرح کا نبی اصلی ، نقلی ، بروزی وغیر ہ آنا ایسا ہی ناممکن ہے جیسا دوسرا الٰہ ہونا ،جو کوئی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے بعد نبوت کا امکان بھی مانے ، وہ بھی کافر ہے لہٰذا دیوبندی اور قادیانی اس ختم نبوت کے انکار کی وجہ سے دونوں مرتد ہیں ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے:
فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِہٖ فَقَدِ اہْتَدَوْا
اے صحابیو! اگر ایسا ایمان لائیں جیسا تمہارا ایمان ہے تو ہدایت پاجائینگے (پ۱،البقرۃ:۱۳۷) اور صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہ مانا لہٰذا نبی ماننا گمراہی ہے ۔
پہلے باب میں معلوم ہوچکا کہ قرآن شریف میں ایک لفظ چند معنی میں آتا ہے ،ہر مقام پر لفظ کے وہی معنی کرنا چاہئیں جو اس جگہ مناسب ہوں۔ اب ہم وہ قاعدے بیان کرتے ہیں جن سے معلوم ہوجائے کہ لفظ کے معنے معلوم کرنے کے
قاعدے کیا ہیں؟ کیسے معلوم کریں کہ یہاں فلاں معنی ہیں۔ ان قواعد کو بغور مطالعہ کرو تاکہ ترجمہ قرآن میں غلطی واقع نہ ہو۔
" الف: جب وحی کی نسبت نبی کی طر ف ہوگی تو ا سکے معنی ہوں گے رب تعالیٰ کابذریعہ فرشتہ پیغمبر سے کلام فرمانا یعنی وحی الٰہی عرفی ۔
ب:جب وحی کی نسبت غیرنبی کی طر ف ہو تواس سے مرادہوگادل میں ڈالنا، خیال پیدا کردینا ۔ الف کی مثال ان آیا ت میں ہے :"
(1) اِنَّاۤ اَوْحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ کَمَاۤ اَوْحَیۡنَاۤ اِلٰی نُوۡحٍ وَّالنَّبِیّٖنَ مِنۡۢ بَعْدِہٖ
بے شک ہم نے وحی کی تمہاری طر ف جیسے وحی کی تھی نوح اور ان کے بعد والے پیغمبر وں کی طر ف ۔(پ6،النسآء:163)
(2) وَ اُوۡحِیَ اِلٰی نُوۡحٍ اَنَّہٗ لَنۡ یُّؤْمِنَ مِنۡ قَوْمِکَ اِلَّا مَنۡ قَدْ اٰمَنَ
"اور وحی کی گئی نوح کی طر ف کہ اب ایمان نہ لا ئیگا مگر وہ جو ایمان لاچکے ۔(پ12،ھود:36)
ان جیسی صدہا آیتوں میں وحی سے مراد ہے وحی ربانی جو پیغمبر وں پر آتی ہے۔ ''ب '' کی مثال یہ آیات ہیں:"
(1) وَ اَوْحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِیۡ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوۡتًا وَّمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا یَعْرِشُوۡنَ ﴿ۙ۶۸﴾
اور تمہارے رب نے شہد کی مکھی کے دل میں ڈالا کہ پہاڑوں میں گھر بنا اور درختوں میں اور چھتو ں میں ۔(پ14،النحل:68)
(2) وَ اِنَّ الشَّیٰطِیۡنَ لَیُوۡحُوۡنَ اِلٰۤی اَوْلِیٰٓـِٕہِمْ
اور بے شک شیطان اپنے دوستوں کے دلوں میں ڈالتا ہے ۔(پ8،الانعام:121)
(3) وَاَوْحَیۡنَاۤ اِلٰۤی اُمِّ مُوۡسٰۤی اَنْ اَرْضِعِیۡہِ
"اور ہم نے موسیٰ علیہ السلام کی ماں کے دل میں ڈال دیا کہ انہیں دودھ پلاؤ ۔(پ20،القصص:7)
ان آیتو ں میں چونکہ وحی کی نسبت شہد کی مکھی یا موسیٰ علیہ السلام کی ماں یا شیطان کی طر ف ہے اور یہ سب نبی نہیں اس لئے یہاں وحی نبوت مراد نہ ہوگی بلکہ فقط دل میں ڈال دینا مراد ہوگا کبھی وحی اس کلام کو بھی کہا جاتا ہے جو نبی سے بلا واسطہ فرشتہ ہو ۔ جیسے اس آیت میں ہے ۔"
فَکَانَ قَابَ قَوْسَیۡنِ اَوْ اَدْنٰی ۚ﴿۹﴾فَاَوْحٰۤی اِلٰی عَبْدِہٖ مَاۤ اَوْحٰی ﴿ؕ۱۰﴾
"پس ہوگئے وہ محبوب دوکمانوں کے فاصلہ پر اب وحی فرمائی اپنے بندے کو جو وحی کی ۔(پ27،النجم:9۔10)
معراج کی رات قرب خاص کے موقعہ پر جب فرشتہ کا واسطہ نہ رہا تھا جو رب تعالیٰ سے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ہم کلامی ہوئی اسے وحی فرمایاگیا۔"
" الف: جب'' عبد ''کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طر ف ہو تو اس سے مراد مخلوق عابد یا بندہ ہوتا ہے ۔
ب: جب'' عبد '' کی نسبت بندے کی طرف ہو تو اس کے معنی خادم نوکر ہوں گے ۔
'' الف ''کی مثال ان آیات میں ہے :"
(1) سُبْحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الۡاَقْصَا
پاک ہے وہ جو اپنے بندہ خاص کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا ۔(پ15،بنیۤ اسرآء یل:1)
(2) وَاذْکُرْ عَبْدَنَاۤ اَیُّوۡبَ
اور یاد کرو ہمارے بندہ ایوب کو ۔(پ23،ص:41)
(3) اِنَّ عِبَادِیۡ لَیۡسَ لَکَ عَلَیۡہِمْ سُلْطٰنٌ
"میرے خاص بندوں پر اے ابلیس تیرا غلبہ نہ ہوگا ۔(پ15،بنیۤ اسرآء یل:65)
ان تمام آیتو ں میں چونکہ عبدکی نسبت رب تعالیٰ کی طر ف ہے اس لئے یہاں ''عبد '' کے معنی بندہ ئعا بد ہوں گے ۔
'' ب ''کی مثال ان آیات میں ہے :"
(1) وَ اَنۡکِحُوا الْاَیَامٰی مِنۡکُمْ وَ الصّٰلِحِیۡنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَ اِمَآئِکُمْ
اور نکاح کردو ان میں سے ان کا جو بے نکاح ہوں اور اپنے لائق غلاموں اور لونڈیوں کا ۔(پ18،النور:32)
(2) قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اَسْرَفُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوۡا مِنۡ رَّحْمَۃِ اللہِ
"فرمادو کہ اے میرے وہ غلاموجنہوں نے زیادتی کی اپنی جانوں پر مت ناامید ہو اللہ کی رحمت سے (پ24،الزمر:53)
ان آیتو ں میں چونک'' عبد '' کی نسبت بندوں کی طر ف ہے اس لئے اس کے معنی مخلوق نہ ہوں گے بلکہ خادم ، غلام ہوں گے لہٰذا عبدالنبی اور عبدالرسول کے معنی ہیں نبی کا خادم۔"
" الف: جب رب کی نسبت اللہ کی طر ف ہو تو اس سے مراد ہے حقیقی پالنے والا یعنی اللہ تعالیٰ ۔
ب: جب کسی بندے کو رب کہا جاوے تو اس کے معنی ہوں گے مربی ، محسن ، پرورش کرنے والا۔
ّ'' الف''کی مثال یہ آیات ہیں:"
(1) اَلۡحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۱﴾
ساری حمد یں اللہ کے لئے ہیں جو جہان کا رب ہے ۔(پ1،الفاتحۃ:1)
(2) رَبَّکُمْ وَ رَبَّ اٰبَآئِکُمُ الْاَوَّلِیۡنَ ﴿۱۲۶﴾
وہ اللہ تمہارا اور تمہارے پچھلے باپ دادوں کا رب ہے ۔(پ23،الصّٰفّٰت:126)
(3) قُلْ اَعُوۡذُ بِرَبِّ النَّاسِ ۙ﴿۱﴾مَلِکِ النَّاسِ ۙ﴿۲﴾
"فرمادو میں پناہ لیتا ہوں انسانوں کے رب کی ۔(پ30،الناس:1،2)
ان آیا ت میں چونکہ اللہ تعالیٰ کو رب کہا گیا لہٰذا اس سے مراد حقیقی پالنے والا ہے ۔
''ب'' کی مثال ان آیتو ں میں ہے :"
(1) ارْجِعْ اِلٰی رَبِّکَ فَسْـَٔلْہُ مَا بَالُ النِّسْوَۃِ الّٰتِیۡ قَطَّعْنَ اَیۡدِیَہُنَّ
اپنے مربی (بادشاہ) کی طر ف لوٹ جاپھر اس سے پوچھ کہ کیا حال ہے ان عورتوں کا جنہوں نے ہاتھ کاٹے تھے ۔(پ12،یوسف:50)
(2) قَالَ مَعَاذَ اللہِ اِنَّہٗ رَبِّیۡۤ اَحْسَنَ مَثْوَایَ
فرمایا یوسف نے اللہ کی پناہ وہ بادشاہ میرا رب ہے اس نے مجھے اچھی طر ح رکھا ۔(پ12،یوسف:23)
ان آیتو ں میں چونکہ بندوں کو رب کہا گیا ہے اس لئے اس کے معنے مربی اور پرورش کرنے والا ہیں۔
"الف: جب ''ضلال'' کی نسبت غیرنبی کی طرف ہو تواس کے معنی گمراہ ہوں گے۔
ب:جب ''ضلال'' کی نسبت نبی کی طر ف ہو تو اس کے معنی وار فتہ محبت یا راہ سے ناواقف ہوں گے ۔
'' الف'' کی مثال یہ ہے :"
(1) مَنۡ یُّضْلِلِ اللہُ فَلَاہَادِیَ لَہٗ
جسے خدا گمراہ کرے اسے ہدایت دینے والا کوئی نہیں ۔(پ9،الاعراف:186)
(2) غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمْ وَلَا الضَّآ لِّیۡنَ ٪﴿۷﴾
ان کا راستہ نہ چلا جن پر غضب ہو انہ گمراہوں کا ۔(پ1،الفاتحۃ:7)
(3) وَمَنۡ یُّضْلِلْ فَلَنۡ تَجِدَ لَہٗ وَلِیًّا مُّرْشِدًا ﴿٪۱۷﴾
"جسے رب گمراہ کردے تم اس کیلئے ہادی رہبر نہ پاؤ گے ۔(پ15،الکھف:17)
ان جیسی تمام آیتو ں میں چونکہ ضلال کا تعلق نبی سے نہیں غیر نبی سے ہے تو اس کے معنی ہیں گمراہی خواہ کفر ہو یا شرک یا کوئی اور گمراہی سب اس میں داخل ہوں گے ۔
''ب''کی مثالیں :"
(1) وَ وَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی ۪﴿۷﴾
اے محبوب رب نے تمہیں اپنی محبت میں وارفتہ پایا تو اپنی راہ دے دی ۔(پ30،الضحی:7)
(2) قَالُوۡا تَاللہِ اِنَّکَ لَفِیۡ ضَلٰلِکَ الْقَدِیۡمِ ﴿۹۵﴾
وہ فرزندان یعقوب بولے کہ خدا کی قسم تم تو اپنی پرانی خودر فتگی میں ہو۔(پ13،یوسف:95)
(3) قَالَ فَعَلْتُہَاۤ اِذًا وَّ اَنَا مِنَ الضَّآلِّیۡنَ ﴿ؕ۲۰﴾
"فرمایا موسیٰ نے کہ میں نے قبطی کو مارنے کا کام جب کیا تھا جب مجھے راہ کی خبر نہ تھی۔(پ19،الشعرآء:20)
یعنی نہ جانتا تھا کہ گھونسہ مارنے سے قبطی مرجائے گا ۔ان جیسی تمام آیتو ں میں ''ضلال'' کے معنی گمراہی نہیں ہوسکتے کیونکہ نبی ایک آن کے لئے گمراہ نہیں ہوتے۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :"
(1) مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰی ۚ﴿۲﴾
تمہارے صاحب محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نہ بہکے نہ بے راہ چلے ۔(پ27،النجم:2)
(2)لَیۡسَ بِیۡ ضَلٰلَۃٌ وَّلٰکِنِّیۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ رَّبِّ الْعٰلَمِیۡنَ ﴿۶۱﴾
"حضر ت شعیب نے فرمایا کہ مجھ میں گمراہی نہیں لیکن میں رب العالمین کی طرف سے رسول ہوں ۔(پ8،الاعراف:61)
ان آیتوں سے معلوم ہوا کہ نبی گمراہ نہیں ہوسکتے۔ آیت ۲ میں''لکن'' بتارہا ہے کہ نبوت اور گمراہی جمع نہیں ہوسکتی ۔"
الف: ''مکر ''یا ''خداع'' کی نسبت جب اللہ تعالیٰ کی طرف ہوتو اس کے معنے دھوکہ یا فریب نہ ہوں گے کیونکہ یہ عیب ہیں بلکہ اس کے معنی ہوں گے دھوکے کی سزا دینا یا خفیہ تدبیر کرنا ۔
ب:جب اس کی نسبت بندوں کی طر ف ہو تو مکر کے معنی دھوکہ ، مکاری ، دغا بازی اور خداع کے معنی فریب ہوں گے ۔ ان دونوں کی مثالیں یہ ہیں ۔
(1) یُخٰدِعُوۡنَ اللہَ وَہُوَ خَادِعُہُمْ
وہ اللہ کو دھوکا دینا چاہتے ہیں او ررب انہیں سزادے گا (پ5،النسآء:142) یا رب ان پر خفیہ تدبیر فرمائے گا ۔
(2) یُخٰدِعُوۡنَ اللہَ وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۚ وَمَا یَخْدَعُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡفُسَہُمۡ
منافقین دھوکہ دیا چاہتے ہیں اللہ کو اور مسلمانوں کو اور نہیں دھوکہ دیتے مگر اپنی جانوں کو۔(پ1،البقرۃ:9)
(3) وَمَکَرُوۡا وَمَکَرَ اللہُ ؕ وَاللہُ خَیۡرُ الْمٰکِرِیۡنَ ﴿٪۵۴﴾
"اور منافقوں نے مکر کیا اور اللہ نے ان کے خلاف خفیہ تدبیر فرمائی اور اللہ تمام تدبیر یں کرنے والوں میں بہتر ہے ۔(پ3،ال عمرٰن:54)
ان تمام آیتوں میں جہاں مکر یا خدا ع کا فاعل کفار ہیں ۔ اس سے مراد دھوکا فریب ہے او رجہاں اس کا فاعل رب تعالیٰ ہے وہاں مراد یا تو مکر کی سز اہے یا خفیہ تدبیر۔"
"الف: جب ''تقویٰ'' کی نسبت رب کی طر ف ہو تو اس سے مراد ڈرنا ہوگا۔
ب:جب'' تقویٰ'' کی نسبت آگ یا کفر یا گناہ کی طرف ہو تو اس سے مراد بچنا ہوگا ۔
رب تعالیٰ فرماتا ہے :"
(1) یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ
اے لوگو ! ڈرو اپنے اس رب سے جس نے تمہیں پیدا کیا۔(پ4،النسآء:1)
(2) فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیۡ وَقُوۡدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ
"او ربچو اس آگ سے جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں ۔(پ1،البقرۃ:24)
پہلے''اِتَّقُوْا''کے معنی ڈرنا ہے کیونکہ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے اور دوسرے''اِتَّقُوْا'' کے معنی بچنا ہے کیونکہ اس کے بعد آگ کا ذکر ہے ۔"
" الف: جب''مِنْ دُوْنِ اللہِ'' عبادت کے ساتھ آوے تو اس کے معنی ہوں گے اللہ کے سوا ء ۔
ب: جب ''مِنْ دُوْنِ اللہِ'' مدد ، نصرت ، ولایت ، دعا بمعنی پکارنا کے ساتھ آوے ۔تو اس کے معنی ہوں گے اللہ کے مقابل یعنی اللہ کے سوا ء وہ لوگ جو اللہ کے مقابل ہیں۔''الف''کی مثال یہ ہے :"
(1) اِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ حَصَبُ جَہَنَّمَ
تم اور وہ چیزیں جنہیں تم اللہ کے سوا پوجتے ہو دوزخ کا ایندھن ہیں ۔(پ17،الانبیآء:98)
(2) وَمَنۡ یَّدْعُ مَعَ اللہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ
اور جو کوئی اللہ کے سو ا دوسرے معبود کو پوجے ۔(پ18،المؤمنون:117)
(3) وَّ اَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلہِ فَلَا تَدْعُوۡا مَعَ اللہِ اَحَدًا ﴿ۙ۱۸﴾
بے شک مسجدیں اللہ کی ہیں تو تم خدا کے ساتھ کسی کو نہ پوجو ۔(پ29،الجن:18)
ان جیسی تمام آیتوں میں ''مِنْ دُوْنِ اللہِ'' کے معنی اللہ کے سوا ہیں کیونکہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت جائز نہیں۔'' ب''کی مثال یہ آیات ہیں :
(1) وَمَا لَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ مِنۡ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِیۡرٍ ﴿۱۰۷﴾
اور تمہارا اللہ کے مقابل نہ کوئی دوست ہے اور نہ مدد گار ۔(پ1،البقرۃ:107)
(2) اَمْ لَہُمْ اٰلِہَۃٌ تَمْنَعُہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِنَا
کیا ان کے پاس ایسے معبود ہیں جو ہمارے مقابل انہیں بچا لیں۔(پ17،الانبیآء:43)
(3) اَلَّا تَتَّخِذُوۡا مِنۡ دُوۡنِیۡ وَکِیۡلًا ؕ﴿۲﴾
میرے مقابل کسی کو وکیل نہ بناؤ ۔(پ15،بنیۤ اسرآء یل:2)
(4) اَمِ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللہِ شُفَعَآءَ
"بلکہ بنالئے انہو ں نے اللہ کے مقابل حمایتی ۔(پ24،الزمر:43)
ان جیسی تمام آیتوں میں'' مِنْ دُوْنِ اللہِ'' سے مراد اللہ کے مقابل ہوگا یعنی اللہ کے مقابل تمہارا کوئی مدد گار ، ناصر ، سفارشی ، وکیل نہیں جو رب سے مقابلہ کر کے تمہیں اس کے عذاب سے بچالے ۔ اگر ان آیات میں اس کے معنی اللہ کے سوا کئے گئے یعنی خدا کے سوا تمہارا کوئی مدد گار نہیں تو ان آیتوں سے تعا رض ہوگا جن میں بندوں کو مدد گار بتایا گیا ہے جیسا کہ پہلے با ب میں گزر چکا ۔ اس معنی کی تائید ان آیتو ں سے ہو رہی ہے :"
(1) قُلْ مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یَعْصِمُکُمۡ مِّنَ اللہِ اِنْ اَرَادَ بِکُمْ سُوۡٓءًا
وہ کون ہے جو تمہیں اللہ سے بچالے اگر وہ تمہاری برائی چاہے ۔(پ21،الاحزاب:17)
(2) وَ اِنۡ یَّخْذُلْکُمْ فَمَنۡ ذَا الَّذِیۡ یَنۡصُرُکُمۡ مِّنۡۢ بَعْدِہٖ
"اور اگرتمہیں رب ر سوا کرے تو کون ہے جو اس کے بعد تمہاری مدد کرے ۔(پ4،اٰل عمرٰن:160)
ان آیتو ں نے بتایا کہ کوئی بندہ رب کے خلاف ہو کر اس کے مقابل رب سے کسی کو نہ بچاسکے نہ کسی کی مدد کر سکے ہاں اس کے ارادے ، اس کے اذن سے بندے ولی بھی ہیں، شفیع بھی ہیں ، مدد گار بھی ہیں، وکیل بھی ہیں ۔"
" الف: جب ''ولی'' ر ب کے مقابل آوے تواس سے مراد معبود یا مالک حقیقی ہے اور ایسا ولی اختیار کرنا شرک وکفر ہے۔
ب: جب ''ولی'' رب کے مقابل نہ ہو تو اس سے مراد دوست یا مدد گار، وغیرہ ہیں۔''الف'' کی مثال یہ ہے:"
(1) اَفَحَسِبَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنۡ یَّتَّخِذُوۡا عِبَادِیۡ مِنۡ دُوۡنِیۡۤ اَوْلِیَآءَ
کیا کافروں نے سمجھ رکھا ہے کہ میرے بندوں کو میرے سوا معبود بنائیں ۔(پ16،الکھف:102)
(2) مَثَلُ الَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللہِ اَوْلِیَآءَ کَمَثَلِ الْعَنۡکَبُوۡتِ ۖۚ اِتَّخَذَتْ بَیۡتًا
ان کی مثال جنہوں نے خدا کے سوا کوئی معبود بنالیا مکڑی کی طر ح ہے جس نے گھر بنایا۔(پ20،العنکبوت:41)
(3) وَالَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اَوْلِیَآءَ
اور وہ جنہوں نے اللہ کے سوا کوئی معبود بنالئے۔(پ23،الزمر:3)
ان جیسی آیتو ں میں ولی بمعنی معبو د ہے یا مالک حقیقی ۔''ب'' کی مثال یہ ہے:
(1) اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الَّذِیۡنَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَہُمْ رٰکِعُوۡنَ ﴿۵۵﴾
تمہارا دو ست یا مدد گار اللہ اور اس کا رسول اور وہ مومن ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اورزکوٰۃ دیتے ہیں اور رکوع کرتے ہیں ۔(پ6،المآئدۃ:55)
(2) وَاجْعَلۡ لَّنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ وَلِیًّا ۚۙ وَّاجْعَلۡ لَّنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ نَصِیۡرًا ﴿ؕ۷۵﴾
"پس ہمارے لئے اپنی طرف سے ولی بنادے اور ہمارے لئے اپنی طرف سے مدد گار مقرر فرمادے ۔(پ5،النسآء:75)
ان جیسی آیا ت میں ''ولی'' سے مراد معبود نہیں ، بلکہ دوست یا مدد گار و غیرہ مراد ہیں کیونکہ یہاں رب کے مقابل ولی نہیں فرمایا گیاہے اس کی پوری تحقیق پہلے باب میں''ولی'' کے بیان میں گزرچکی ہے۔"
" الف: جب ''دعا'' کے بعد دشمنِ خدا کا ذکر ہو یا دعاکا فاعل کافر ہو یا دعا پر رب تعالیٰ کی ناراضگی کا اظہار ہو یا دعا کرنے والو ں کو رب تعالیٰ نے کا فر، مشرک، گمراہ فرمایا ہو تو دعا سے مراد عبادت ،پوجنا وغیرہ ہوگا نہ کہ محض پکارنا یا بلانا ۔
ب: جب'' دعا'' کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہو تو وہاں اس کے معنی پکارنا ، پوجنا، دعا مانگنا ہوگا حسب موقع معنی کئے جائیں گے ۔
''الف'' کی مثال یہ ہے :"
(1) وَ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنۡ یَّدْعُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللہِ مَنۡ لَّا یَسْتَجِیۡبُ لَہٗۤ اِلٰی یَوۡمِ الْقِیٰمَۃِ
اور اس سے بڑھ کر کون گمراہ ہے جو خدا کے سواایسوں کو پوجے جو اس کی قیامت تک نہ سنیں ۔(پ26،الاحقاف:5)
(2) وَّ اَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلہِ فَلَا تَدْعُوۡا مَعَ اللہِ اَحَدًا ﴿ۙ۱۸﴾
بے شک مسجد یں اللہ کی ہیں تو اللہ کے ساتھ کسی کو نہ پوجو۔(پ29،الجن:18)
(3) ہُوَ الْحَیُّ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ فَادْعُوۡہُ
"وہ ہی زندہ ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں بس اسے پوجو ۔(پ24،المؤمن:65)
ان جیسی تمام آیات میں ''دعا'' کے معنی پوجنا ہیں پکارنا یا بلانا نہیں۔معنی یہ ہوں گے کہ خدا کے سوا کسی کونہ پوجو۔ یہ مطلب نہیں کہ کسی کو نہ پکارویا نہ بلاؤ۔
''ب'' کی مثال یہ آیات ہیں :"
(1) اُدْعُوۡا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْیَۃً
اپنے رب سے دعا مانگو عاجزی سے پوشیدہ ۔(پ8،الاعراف:55)
(2) اُجِیۡبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ
"دعا کرنے والوں کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھ سے دعا مانگتے ہیں ۔(پ2،البقرۃ:186)
ان جیسی آیات میں دعاسے مراد دعا مانگنا بھی ہوسکتا ہے اور پوجنا بھی ، پکارنابھی، ایک ہی لفظ مختلف موقعوں پر مختلف معانی میں ہوتا ہے اگر بے موقع معنی کئے جاویں تو کبھی کفر لازم آجاتا ہے اس کی تحقیق پہلے باب میں دعا کے بیان میں گزرچکی۔"
الف: جب'' شرک'' کا مقابلہ ایمان سے ہوگا تو شرک سے مراد ہر کفر ہوگا ۔
" ب: جب'' شرک'' کا مقابلہ اعمال سے ہوگا تو شرک سے مراد مشرکوں کاسا کام ہوگا نہ کہ کفر ۔
''الف'' کی مثال یہ ہے :"
(1) وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیۡرٌ مِّنۡ مُّشْرِکٍ
مومن غلام مشرک یعنی کافر سے بہتر ہے ۔(پ2،البقرۃ:221)
(2) وَ لَا تُنۡکِحُوا الْمُشْرِکِیۡنَ حَتّٰی یُؤْمِنُوۡا
مشرک یعنی کسی کا فر سے نکاح نہ کرو یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں۔(پ2،البقرۃ:221)
(3) اِنَّ اللہَ لَا یَغْفِرُ اَنۡ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ
"بے شک اللہ مشرک کو نہ بخشے گا اس کے سوا جسے چاہے بخش دے گا ۔(پ5،النسآء:48)
ان تمام آیتو ں میں شرک سے مراد کفر ہے کیوں کہ مومنہ کا کسی کافر مرد سے نکاح جائز نہیں۔ کوئی کفر جس پر انسا ن مرجاوے بخشا نہ جاوے گا۔ مومن ہر کافر سے بہتر ہے ۔اگر یہاں شرک کے معنی صرف بت پرستی کیا جاوے تو غلط ہوگا ۔
'' ب'' کی مثال یہ ہے:"
(1) وَ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَلَا تَکُوۡنُوۡا مِنَ الْمُشْرِکِیۡنَ ﴿ۙ۳۱﴾
"نماز قائم کرو اور مشرکوں میں سے نہ ہو ۔(پ21،الروم:31)
اس آیت میں او راس حدیث میں"
مَنْ تَرَکَ الصَّلٰوۃَ مُتَعَمِّدًا فَقَدْکَفَرَ
جس نے جان بوجھ کرنمازچھوڑدی وہ کافرہوگیا۔یہ ہی مرادہے کہ نمازنہ پڑھنامشرکوں، کافروں کاساکام ہے کیوں کہ نماز نہ پڑھنا گناہ تو ہے کفر یا شرک نہیں ۔
" الف:جب'' صلوٰۃ'' کے بعد'' علیٰ''آوے تو اس کے معنی رحمت یا دعاءِ رحمت ہوں گے یا نماز جنازہ ۔
ب:جب'' صلوٰۃ ''کے بعد''علیٰ''نہ آوے توصلوٰۃکے معنی نمازہوں گے۔
'' الف'' کی مثال یہ ہے :"
(1) ہُوَ الَّذِیۡ یُصَلِّیۡ عَلَیۡکُمْ وَ مَلٰٓئِکَتُہٗ
وہ اللہ ہے جو تم پر رحمت کرتا ہے او راس کے فرشتے دعا ءِ رحمت کر تے ہیں ۔(پ22،الاحزاب:43)
(2) وَصَلِّ عَلَیۡہِمْ ؕ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّہُمْ
آپ ان کے لئے دعا کریں ۔ آپ کی دعا ان کے دل کا چین ہے ۔(پ11،التوبۃ:103)
(3) وَلَا تُصَلِّ عَلٰۤی اَحَدٍ مِّنْہُمۡ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَاتَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ
ان منافقوں میں سے کسی پر نہ آپ نماز جنازہ پڑھیں نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوں ۔(پ10،التوبۃ:84)
(4) اِنَّ اللہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ
"بے شک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں نبی پر ۔(پ22،الاحزاب:56)
ان جیسی تمام آیتوں میں صلوٰۃ سے مراد دعا یا رحمت یا نماز جنازہ ہی مرادہوگا کیونکہ کہ ان میں صلوٰۃ کے بعد'' علیٰ'' آرہا ہے ۔
''ب''کی مثال یہ ہے :"
(1) وَاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ
نماز قائم کرو اور زکوۃ دو ۔(پ1،البقرۃ:43)
(2) اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیۡنَ کِتٰبًا مَّوْقُوۡتًا ﴿۱۰۳﴾
"بے شک نمازمسلمانوں پر وقت کے مطابق واجب ہے ۔(پ5،النسآء:103)
ان جیسی تمام آیتو ں میں صلوٰۃ سے مراد نماز ہے کیونکہ یہاں صلوٰۃ سے علیٰ کا تعلق نہیں دوسری آیت میں اگر چہ'' علیٰ''ہے مگر علیٰ کا تعلق کتاباً سے ہے ، نہ کہ صلوٰۃ سے لہٰذا یہاں بھی مراد نماز ہی ہے ۔"
جب قرآن شریف میں مُردے ، اندھے، بہرے، گو نگے ، قبر والے کے ساتھ نہ لوٹنے ، نہ ہدایت پانے، نہ سنا نے وغیرہ کا ذکر ہوگا تو ان لفظوں سے مراد کافر ہونگے یعنی دل کے مردے ، دل کے اندھے وغیر ہ عام مردے وغیر ہ مراد نہ ہوں گے اور ان کے نہ سنانے سے مراد ان کا ہدایت نہ پانا ہوگا نہ کہ واقع میں نہ سننا ۔ اور ان آیات کامطلب یہ ہوگا کہ آپ ان دل کے مردے ، اندھے ، بہر ے کافروں کو نہیں سنا سکتے جس سے وہ ہدایت پرآجاویں یہ مطلب نہ ہوگا کہ آپ مردو ں کو نہیں سنا سکتے مثال یہ ہے ۔
(1) صُمٌّۢ بُکْمٌ عُمْیٌ فَہُمْ لَا یَرْجِعُوۡنَ ﴿ۙ۱۸﴾
یہ کافر بہرے ، گونگے، اندھے ہیں پس وہ نہ لوٹیں گے ۔(پ1،البقرۃ:18)
(2) اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ
تم ان مردو ں(کافروں)کو نہیں سنا سکتے اور نہ تم بہروں کو سناسکتے ہو۔(پ20،النمل:80)
(3) وَمَنۡ کَانَ فِیۡ ہٰذِہٖۤ اَعْمٰی فَہُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ اَعْمٰی وَ اَضَلُّ سَبِیۡلًا ﴿۷۲﴾
"جو اس دنیا میں اندھا ہے وہ آخرت میں بھی اندھا ہے اورراستے سے بہکا ہوا ہے ۔(پ15،بنیۤ اسرآء یل:72)
یہ آیا ت قرآن شریف میں بہت جگہ آئی ہیں اور ان سب میں مردو ں، اندھوں ،بہروں سے مراد کفار ہی ہیں نہ کہ ظاہری آنکھو ں کے اندھے او ربے جان مردے ۔ ان آیات کی تفسیر ان آیتو ں سے ہو رہی ہے۔"
(1) اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِیۡنَ ﴿۸۰﴾وَمَاۤ اَنۡتَ بِہٰدِی الْعُمْیِ عَنۡ ضَلٰلَتِہِمْ ؕ اِنۡ تُسْمِعُ اِلَّا مَنۡ یُّؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا فَہُمۡ مُّسْلِمُوۡنَ ﴿۸۱﴾
"بے شک تم نہیں سنا سکتے مردوں کو اور نہ سناسکتے ہو بہروں کو جب پھر یں پیٹھ دے کر اورنہ تم اندھوں کو ہدایت کرنے والے ہو ۔ نہیں سنا سکتے تم مگر ان کو جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں اور وہ مسلمان ہیں۔(پ20،النمل:80،81)
اس آیت میں مردے اور اندھے ،بہر ے کا مقابلہ مومن سے کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوا کہ مردو ں سے مراد کا فرہیں۔"
(2) وَ الَّذِیۡنَ لَا یُؤْمِنُوۡنَ فِیۡۤ اٰذَانِہِمْ وَقْرٌ وَّ ہُوَ عَلَیۡہِمْ عَمًی ؕ اُولٰٓئِکَ یُنَادَوْنَ مِنۡ مَّکَانٍۭ بَعِیۡدٍ ﴿٪۴۴﴾
اورجو ایمان نہیں لائے ان کے کانوں میں ٹینٹ ہیں اوروہ ان پر اندھا پن ہے گویا وہ دور جگہ سے پکارے جارہے ہیں۔(پ24،حٰمۤ السجدۃ:44)
اس آیت نے بتایا کہ کافر گویا اندھا، بہرا ہے ۔
(3) اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ لَعَنَہُمُ اللہُ فَاَصَمَّہُمْ وَ اَعْمٰۤی اَبْصَارَہُمْ ﴿۲۳﴾
"یہ کفار وہ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کردی پس انہیں بہرا کردیا اور ان کی آنکھوں کو اندھا کردیا ۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ لعنت سے آدمی اندھا، بہر ا ہوجاتا ہے یعنی دل کا اندھا ،بہرا ۔(پ26،محمد:23)"
(4) وَسْـَٔلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنۡ قَبْلِکَ مِنۡ رُّسُلِنَاۤ ٭ اَجَعَلْنَا مِنۡ دُوۡنِ الرَّحْمٰنِ اٰلِـہَۃً یُّعْبَدُوۡنَ ﴿٪۴۵﴾
"جورسول ہم نے آپ سے پہلے بھیجے ان سے پوچھئے کہ کیا ہم نے اللہ کے سوااور معبود بنائے ہیں جن کی پوجا کی جاوے ۔(پ۲۵،الزخرف:۴۵)
اس آیت نے بتایا کہ اللہ کے پیارے بندے وفات کے بعد سنتے بھی ہیں اور جواب بھی دیتے ہیں ۔ اگر گزشتہ وفات یا فتہ پیغمبر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا کلام نہ سنتے یا جواب نہ دیتے تو ان سے پوچھنے کے کیا معنی تھے۔ مردو ں کے سننے کی اور آیات بھی ہیں جو پہلے باب میں دعا کے معنی میں بیان کی جاچکیں۔
ہماری ان مذکورہ آیتوں نے بتادیا کہ جہاں مردو ں کے سننے سنانے کی نفی کی گئی ہے وہاں مردو ں سے مراد کافر ہیں ۔ ان آیتو ں سے یہ ثابت کرنا کہ مردے سنتے نہیں بالکل جہالت ہے ورنہ التحیات میں حضور کو سلام او رقبر ستان میں مردوں کو سلام نہ کرایا جاتا کیونکہ نہ سننے والے کو سلام کرنا منع ہے ۔ اسی لئے سوتے ہوئے کو سلام نہیں کرسکتے ۔"
جب مومن کو ایمان کا حکم دیاجائے یانبی کو تقویٰ کا حکم ہو تو اس سے مراد ایمان اور تقویٰ پر قائم رہنا ہوگا کیونکہ وہاں ایمان وتقویٰ تو پہلے ہی موجو د ہے اور تحصیل حاصل محال ہے ۔ اس کی مثال یہ ہے :
(1) یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اٰمِنُوۡا
اے ایمان والو ! ایمان لاؤ یعنی ایمان پر قائم رہو۔(پ5،النسآء:136)
(2) یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللہَ
اے نبی اللہ سے ڈرو یعنی اللہ سے ڈرے جاؤ ۔(پ21،الاحزاب:1)
(3) اٰمِنُوۡا بِاللہِ وَ رَسُوۡلِہٖ
"اے مومنو! اللہ ورسول پر ایمان لاؤ یعنی ایمان پر قائم رہو۔(پ27،الحدید:7)
ان جیسی تمام آیات میں ایمان وتقویٰ پر استقامت مراد ہے تا کہ ترجمہ درست ہو ، نیز مسلمانوں کو احکام عمل کرنے کے لئے دیئے جاتے ہیں او رنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو احکام اس لئے دیئے جاتے ہیں تا کہ وہ عمل کرائیں۔ جیسے جہاز کے مسافر پار اترنے کے لئے جہاز میں سوار ہوتے ہیں اور کپتا ن پار اتارنے کے لئے وہاں بیٹھتا ہے اسی لئے مسافر کرایہ دے کر اور کپتا ن تنخواہ لے کر سوار ہوتے ہیں ۔"
الف:جب'' خلق'' کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس سے مراد پیدا کرنا ہوگی یعنی نیست کو ہست کرنا ۔
"ب:جب ''خلق'' کی نسبت بندے کی طرف ہو تو اس سے مراد ہوگی بنانا ، گھڑنا۔
'' الف'' کی مثال یہ آیات ہیں :"
(1) خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا
اللہ نے پیدا کیا موت اورزندگی کوتا کہ تمہارا امتحان کرے کہ کون اچھے عمل والا ہے ۔(پ29،الملک:2)
(2) وَ خَلَقَ کُلَّ شَیۡءٍ ۚ وَ ہُوَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ﴿۱۰۱﴾ (پ7،الانعام:101)
اور پیدا کیا اللہ نے ہر چیز کو اور وہ ہر چیز کا جا ننے والا ہے۔
(3) خَلَقَکُمْ وَالَّذِیۡنَ مِنۡ قَبْلِکُمْ
"اللہ نے پیدا کیا تم کو اور تم سے پہلے والوں کو۔ (پ1،البقرۃ:21)
ان جیسی تمام آیتوں میں ''خلق'' کے معنی پیدا کرنا ہے کیونکہ اس کا فاعل اللہ تعالیٰ ہے ۔
''ب'' کی مثال یہ ہے ۔"
(1) اَنِّیۡۤ اَخْلُقُ لَکُمۡ مِّنَ الطِّیۡنِ کَہَیۡئَۃِ الطَّیۡرِ
عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں بنا تا ہوں تمہارے لئے مٹی سے پرندہ کی شکل۔(پ3،اٰل عمرٰن:49)
(2) اِنَّمَا تَعْبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ اَوْثَانًا وَّ تَخْلُقُوۡنَ اِفْکًا
تم خدا کے سوا بتو ں کو پوجتے ہو اور جھوٹ گھڑتے ہو ۔(پ20،العنکبوت:17)
(3) فَتَبٰرَکَ اللہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیۡنَ ﴿ؕ۱۴﴾
پس بڑی بر کت والا ہے اللہ سب سے بہتر بنا نے ولاہے۔(پ18،المؤمنون:14)
" الف: حکم ، گواہی ، وکالت ، حساب لینا ، مالک ہونا ۔ ان چیز وں کو جہاں قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص کیا گیا ہے وہاں حقیقی ، دائمی ، مستقل مراد ہوگا مثلا کہا جاوے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا مالک ہے یا خدا کے سواء کسی کو وکیل نہ بناؤ تو مراد حقیقی دائمی مالک و مستقل وکیل ہے ۔
ب: جب ان چیز وں کو بندوں کی طرف نسبت کیا جاوے تو ان سے مراد عارضی ، عطائی ،مجازی ہوں گے ۔
'' الف'' کی مثال یہ ہے :"
(1) اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلہِ
نہیں ہے حکم مگر اللہ تعالیٰ کا ۔(پ7،الانعام:57)
(2) وَکَفٰی بِاللہِ شَہِیۡدًا ﴿۷۹﴾
او راللہ ہی کافی گواہ ہے۔(پ5،النسآء:79)
(3) اَلَّا تَتَّخِذُوۡا مِنۡ دُوۡنِیۡ وَکِیۡلًا ؕ﴿۲﴾
میرے سوا کسی کو وکیل نہ بناؤ ۔(پ15،بنیۤ اسرآء یل:2)
(4) وَکَفٰی بِرَبِّکَ وَکِیۡلًا ﴿۶۵﴾
آپ کا رب کافی وکیل ہے ۔(پ15،بنیۤ اسرآء یل:65)
(5) وَمَاۤ اَرْسَلْنٰکَ عَلَیۡہِمْ وَکِیۡلًا ﴿۵۴﴾
ہم نے آپ کو ان کافروں پر وکیل بناکر نہ بھیجا ۔(پ15،بنیۤ اسرآء یل:54)
(6) ۚ وَ مَاۤ اَنۡتَ عَلَیۡہِمۡ بِوَکِیۡلٍ ﴿۱۰۷﴾
آپ ان کافروں پر وکیل نہیں ۔(پ7،الانعام:107)
(7) وَکَفٰی بِاللہِ حَسِیۡبًا ﴿۶﴾
اور اللہ کافی ہے حساب لینے والا۔(پ4،النسآء:6)
(8) وَلِلہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الۡاَرْضِ
صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ملکیت ہیں وہ چیزیں جو آسمانوں او رزمین میں ہیں۔(پ4،اٰل عمرٰن:129)
(9) فَاتَّخِذْہُ وَکِیۡلًا ﴿۹﴾
"پس اللہ تعالیٰ ہی کو وکیل بناؤ۔(پ29،المزمل:9)
ان جیسی ساری آیتو ں میں حقیقی مالک ،حقیقی وکیل، حقیقی گواہ ، حقیقی حساب لینے والا مراد ہے۔ اور مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی حقیقی حاکم نہیں، کوئی حقیقی مالک ، حقیقی وکیل، حقیقی گواہ نہیں جیسے کہ سکندر نامے میں ہے ؎"
"پناہ بلندی و پستی توئی
ہمہ نیست اند، آنچہ ہستی توئی"
''ب'' کی مثال ان آیا ت میں ہے :
(1) وَ اِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیۡنِہِمَا فَابْعَثُوۡا حَکَمًا مِّنْ اَہۡلِہٖ وَحَکَمًا مِّنْ اَہۡلِہَا
اور اگر تم خاوند وبیوی کی مخالفت کا اندیشہ کرو تو ایک حکم پنچ خاوند والوں کی طر ف سے اور دوسرا حکم پنچ عورت والوں کی طر ف سے بھیجو۔(پ5،النسآء:35)
(2) وَ اِذَا حَکَمْتُمۡ بَیۡنَ النَّاسِ اَنۡ تَحْکُمُوۡا بِالْعَدْلِ
اور جب تم لوگوں کے درمیان حکومت (فیصلہ) کرو تو انصاف سے کرو ۔(پ5،النسآء:58)
(3) فَـلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ
پس آپ کے رب کی قسم یہ لوگ مومن نہ ہوں گے ، یہاں تک کہ آپ کو اپنے اختلافا ت میں حاکم مان لیں ۔(پ۵،النسآء:۶۵)
(4) وَلَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمْوَالَکُمۡ بَیۡنَکُمۡ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوۡابِہَاۤ اِلَی الْحُکَّامِ
اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اور نہ حاکموں کے پاس ان کامقدمہ لے جاؤ۔(پ1،البقرۃ:188)
(5) وَّ اَشْہِدُوۡا ذَوَیۡ عَدْلٍ مِّنۡکُمْ
اور اپنے میں سے دو پر ہیز گاروں کو گواہ بناؤ ۔(پ28،الطلاق:2)
(6) کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیۡکَ حَسِیۡبًا ﴿ؕ۱۴﴾
آج تو اپنے پر خود ہی کافی حساب لینے والا ہے ۔(پ15،بنیۤ اسرآء یل:14)
(7) وَّالْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا مَلَکَتْ اَیۡمَانُکُمْ
اور حرام ہیں تم پر شوہر والی عورتیں سواء ان کے جن کے تم مالک ہو۔(پ5،النسآء:24)
(8) وَاسْتَشْہِدُوۡا شَہِیۡدَیۡنِ مِنۡ رِّجَالِکُمْ
اور اپنے مردو ں میں سے دوگواہ بنالو۔(پ3،البقرۃ:282)
(9) شَہَادَۃُ بَیۡنِکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ حِیۡنَ الْوَصِیَّۃِ اثْنٰنِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنۡکُمْ
"تمہاری آپس کی گواہی جب تم میں سے کسی کو موت آوے وصیت کرتے وقت تو تم میں سے دو معتبر شخص ہیں۔(پ7،المآئدۃ:106)
ان جیسی تما م آیتوں میں عارضی ، غیر مستقل ، عطائی ملکیت ،گواہی ، وکالت ، حکومت، حساب لینا ، بندوں کے لئے ثابت کیا گیا ہے یعنی اللہ کے بندے مجازی طور پر حاکم ہیں، وکیل ہیں،گواہ ہیں لہٰذا آیات میں تعارض نہیں ، جیسے سمیع ، بصیر ، حی وغیرہ اللہ کی صفتیں ہیں ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے:"
اِنَّہ، ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ
اللہ تعالیٰ ہی سننے والا دیکھنے والا ہے (پ۱۵، بنیۤ اسراء یل:۱)او ر بندوں کی بھی صفتیں یہ ہیں ۔ فرماتا ہے:
فَجَعَلْنٰہُ سَمِیۡعًۢا بَصِیۡرًا ﴿ۚ ۲﴾
ہم نے انسان کو سننے والا ، دیکھنے والا بنادیا ، اللہ کا سننا، دیکھنا(پ۲۹،الدھر:۲) ۔دائمی، غیر محدود ، مستقل ،ذاتی ہے اور بندوں کا دیکھنا، سننا ، زندہ ہونا ۔ عارضی ، محدو د ، عطائی ، غیر مستقل ہے ۔ اسی لئے خدا تعالیٰ کانام بھی ''علی'' ہے۔
وَھُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ
(پ۳،البقرۃ:۲۵۵) اور حضرت علی مرتضی کانام علی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے''مولنا'
'اَنْتَ مَوْلٰنـَا
(پ۳،البقرۃ:۲۸۶) اور عالموں کو مولانا صاحب کہا جاتا ہے مگر اللہ کا علی یامولیٰ ہونا اور طر ح کا ہے اور بندوں کا علی او ر مولیٰ ہونا کچھ اور قسم کا یہ فر ق ضروری ہے ۔
الف:جہاں علم غیب کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص کیا جاوے یا اس کی بندوں
"سے نفی کی جاوے تو اس علم غیب سے ذاتی ، دائمی، جمیع علوم غیبیہ، قدیمی مراد ہوگا ۔
ب:جہاں علم غیب بندوں کے لئے ثابت کیا جاوے یا کسی نبی کا قول قرآن میں نقل کیا جاوے کہ فلاں پیغمبر نے فرمایا کہ میں غیب جانتا ہوں وہاں مجازی، حادث ، عطائی علم غیب مراد ہوگا جیسا کہ قاعدہ نمبر ۱۵ میں دیگر صفات کے بارے میں بیان کردیا گیا ۔
''الف'' کی مثال یہ ہے :"
(1) قُل لَّا یَعْلَمُ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَیۡبَ اِلَّا اللہُ
تم فرمادو کہ آسمانوں اورزمین میں غیب کوئی نہیں جانتا اللہ کے سوا۔(پ20،النمل:65)
(2) عِنۡدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیۡبِ لَا یَعْلَمُہَاۤ اِلَّا ہُوَ
اس رب کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے سواکوئی نہیں جانتا ۔(پ7،الانعام:59)
(3) اِنَّ اللہَ عِنۡدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ
قیامت کا علم اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے۔(پ21،لقمٰن:34)
(4) وَمَا تَدْرِیۡ نَفْسٌ مَّاذَا تَکْسِبُ غَدًا ؕ وَمَا تَدْرِیۡ نَفْسٌۢ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوۡتُ
اور کوئی جان نہیں جانتی کہ کل کیا کمائے گی اور کوئی جان نہیں جانتی کہ کس زمین میں مرے گی ۔(پ21،لقمٰن:34)
(5) وَلَوْ کُنۡتُ اَعْلَمُ الْغَیۡبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیۡرِ
"اور اگر میں غیب جانتا ہوتا تو بہت خیر جمع کرلیتا ۔(پ9،الاعراف:188)
ان جیسی تمام آیات میں علم غیب ذاتی یا قدیمی یا مستقل مراد ہے اس کی نفی"
بندوں سے کی جارہی ہے ۔ب کی مثال یہ آیات ہیں:
(1) ہُدًی لِّلْمُتَّقِیۡنَ ۙ﴿۲﴾الَّذِیۡنَ یُؤْمِنُوۡنَ بِالْغَیۡبِ
قرآن ان پر ہیز گار وں کا ہادی ہے جو غیب پر ایمان لائیں (پ1،البقرۃ:2،3) (ظاہر ہے کہ غیب پر ایمان جان کر ہی ہوگا )
(2) عٰلِمُ الْغَیۡبِ فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیۡبِہٖۤ اَحَدًا ﴿ۙ۲۶﴾اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنۡ رَّسُوۡلٍ
اللہ غیب کا جاننے والا ہے پس نہیں مطلع کرتا اپنے غیب پرکسی کو سوا پسندیدہ رسول کے۔(پ29،الجن:26،27)
(3) وَعَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ ؕ وَکَانَ فَضْلُ اللہِ عَلَیۡکَ عَظِیۡمًا ﴿۱۱۳﴾
اور سکھا دیا آپ کو وہ جوآپ نہ جانتے تھے اور آپ پر اللہ کا بڑا فضل ہے ۔(پ5،النسآء:113)
(4) وَاَعْلَمُ مِنَ اللہِ مَا لَاتَعْلَمُوۡنَ ﴿۶۲﴾
یعقوب علیہ السلام نے فرمایا کہ جانتا ہوں میں اللہ کی طرف سے وہ جوآپ نہیں جانتے(پ8،الاعراف:62)
(5) وَاُنَبِّئُکُمۡ بِمَا تَاۡکُلُوۡنَ وَمَا تَدَّخِرُوۡنَ ۙ فِیۡ بُیُوۡتِکُمْ
اور خبر دیتا ہوں میں تمہیں جو تم اپنے گھروں میں کھاتے ہو او رجو جمع کرتے ہو۔(پ3،اٰل عمرٰن:49)
(6) قَالَ لَا یَاۡتِیۡکُمَا طَعَامٌ تُرْزَقٰنِہٖۤ اِلَّا نَبَّاۡتُکُمَا بِتَاۡوِیۡلِہٖ قَبْلَ اَنۡ یَّاۡتِیَکُمَا ؕ ذٰلِکُمَا مِمَّا عَلَّمَنِیۡ رَبِّیۡ
یوسف علیہ السلام نے فرمایاجو کھانا تمہیں ملا کرتا ہے وہ تمہارے پا س نہ آئیگا کہ میں اس کی تعبیر اس کے آنے سے پہلے تمہیں بتا دوں گا یہ ان علموں میں سے ہے جو میرے رب نے مجھے سکھایا ہے (پ13،یوسف:37)۔
(7) وَ مَا ہُوَ عَلَی الْغَیۡبِ بِضَنِیۡنٍ ﴿ۚ۲۴﴾
"اور وہ نبی غیب بتانے پر بخیل نہیں۔(پ30،التکویر:24)
ان جیسی تمام آیتو ں میں علم غیب عطائی، غیر مستقل ،حادث ، عارضی مراد ہے کیونکہ یہ علم غیب بندہ کی صفت ہے جب بندہ خود غیر مستقل اور حادث ہے تو اس کی تمام صفات بھی ایسی ہی ہوں گی۔"
" الف: جن آیتوں میں شفاعت کی نفی ہے وہا ں یا تو دھونس کی شفاعت مراد ہے یاکفار کے لئے شفاعت یا بتوں کی شفاعت مراد ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے سامنے جبراً شفاعت کوئی نہیں کرسکتا یا کافروں کی شفاعت نہیں یا بت شفیع نہیں ۔
ب:جہاں قرآن شریف میں شفاعت کاثبوت ہے وہاں اللہ کے پیاروں کی مومنوں کے لئے محبت والی شفاعت بالا ذن مراد ہے یعنی اللہ کے پیارے بندے مومنو ں کو اللہ تعالیٰ کی اجازت سے محبو بیت کی بنا پر بخشوائیں گے ۔
''الف ''کی مثال یہ ہے :"
(1) یَوْمٌ لَّا بَیۡعٌ فِیۡہِ وَلَا خُلَّۃٌ وَّلَا شَفَاعَۃٌ ؕ
وہ قیامت کادن جس میں نہ خرید وفروخت ہے نہ دوستی نہ شفاعت ۔(پ3،البقرۃ:254)
(2) وَاتَّقُوۡا یَوْمًا لَّا تَجْزِیۡ نَفْسٌ عَنۡ نَّفْسٍ شَیْـًٔا وَّلَا یُقْبَلُ مِنْہَا عَدْلٌ وَّلَا تَنۡفَعُہَا شَفَاعَۃٌ وَّلَا ہُمْ یُنۡصَرُوۡنَ ﴿۱۲۳﴾
اور اس دن سے ڈرو کہ کوئی جان دوسرے کا بدلہ نہ ہوگی اور نہ اس کو کچھ لے کر چھوڑدیں اور نہ اسے کوئی شفاعت نفع دے اور نہ ان کی مدد ہو ۔(پ1،البقرۃ:123)
(3) فَمَا تَنۡفَعُہُمْ شَفَاعَۃُ الشَّافِعِیۡنَ ﴿ؕ۴۸﴾
پس نہ نفع دے گی ان کو شفاعت کرنے والوں کی شفاعت ۔(پ29،المدثر:48)
(4) اَمِ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللہِ شُفَعَآءَ
کیا کافروں نے اللہ کے مقابل سفارشی بنارکھے ہیں۔(پ24،الزمر:43)
(5) مَا لِلظّٰلِمِیۡنَ مِنْ حَمِیۡمٍ وَّ لَا شَفِیۡعٍ یُّطَاعُ ﴿ؕ۱۸﴾
اور ظالموں کانہ کوئی دوست نہ کوئی سفارشی جس کا کہا مانا جائے ۔(پ24،المؤمن:18)
(6) وَلَا یَمْلِکُ الَّذِیۡنَ یَدْعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِہِ الشَّفَاعَۃَ اِلَّا مَنۡ شَہِدَ بِالْحَقِّ وَ ہُمْ یَعْلَمُوۡنَ ﴿۸۶﴾
شفاعت کا اختیار نہیں سواء ان کے جو حق کی گواہی دیں اورعلم رکھیں۔(پ25،الزخرف:86)
(۷) مَالَکُمْ مِّنْ دُوْنِہٖمِنْ وَّلِیٍّ وَّلَا شَفِیْعٍ
"اللہ سے الگ ہو کر نہ تمہارا کوئی دوست ہے نہ سفارشی ۔(پ۲۱،السجدۃ:۴)
ان جیسی تمام آیتو ں میں کفارکی شفاعت،بتوں کی شفاعت،جبری شفاعت کا انکار ہے ۔ ان آیتو ں کو نبیوں ،ولیوں یامومنوں کی شفاعت سے کوئی تعلق نہیں۔
ب کی مثال یہ ہے :"
(1) وَصَلِّ عَلَیۡہِمْ ؕ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّہُمْ
اور آپ انہیں دعا دیں بے شک آپ کی دعا ان کے دل کاچین ہے ۔(پ11،التوبۃ:103)
(2) مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یَشْفَعُ عِنْدَہٗۤ اِلَّا بِاِذْنِہٖ
وہ کون ہے جو رب کے نزدیک اس کی بے اجازت شفاعت کرے ۔(پ3،البقرۃ:255)
(3) لَا یَمْلِکُوۡنَ الشَّفَاعَۃَ اِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنۡدَ الرَّحْمٰنِ عَہۡدًا ﴿ۘ۸۷﴾
یہ لوگ شفاعت کے مالک نہیں سواء ان کے جنہوں نے رب کے نزدیک عہدلے لیا ہے ۔(پ16،مریم:87)
(4) وَلَا یَشْفَعُوۡنَ ۙ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰی
یہ حضرات نہ شفاعت کریں گے مگر اس کی جس سے رب راضی ہو ا(مومن کی)۔(پ17،الانبیآء:28)
(5) لَّا تَنۡفَعُ الشَّفَاعَۃُ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَرَضِیَ لَہٗ قَوْلًا ﴿۱۰۹﴾
"شفاعت نفع نہ دے گی مگر ان کو جس کے لئے رب نے اجازت دی اور اس کے کلام سے رب راضی ہوا ۔(پ16،طٰہٰ:109)
ان جیسی بہت سی آیتو ں میں مسلمانوں کی شفاعت مراد ہے جو اللہ کے پیارے بندے کریں گے تا کہ آیات میں تعارض نہ ہو۔
نوٹ ضروری : جس حدیث میں ارشاد ہے کہ سنت چھوڑنے والا شفاعت سے محروم ہے۔ اس سے بلندی درجات کی شفاعت مراد ہے یعنی اس کے درجے بلند نہ کرائے جائیں گے کیونکہ دوسری روایت میں ہے کہ گناہ کبیرہ والوں کے لئے شفاعت ہے یعنی بخشش کی شفاعت ، نیز بعض روایات میں ہے کہ زکوٰۃ نہ دینے والے اپنے جانور اور مال کندھے پر لادے ہوئے حاضر بارگاہ نبوی ہوں گے اور شفاعت کی درخواست کریں گے مگر انہیں شفاعت سے منع کردیا جاوے گا ۔ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جوزکوٰۃ کے منکر ہو کر کافر ہوگئے تھے اور کافر کی شفاعت نہیں جیسے خلافت صدیقی میں بعض لوگ زکوٰۃ کے منکر ہوگئے یا مراد ہے شفاعت نہ کرنا نہ کہ نہ کرسکنا ، اس کا بہت خیال چاہیے یہاں بہت دھوکا لگتا ہے ۔"
" الف :جب غیر خدا کو پکارنے سے منع فرمایا جاوے ، یا پکارنے والوں کی برائی بیان ہوتواس پکارنے سے مراد معبود سمجھ کر پکارنا ہے یعنی پوجنا ۔
ب:جہاں غیر خدا کو پکارنے کا حکم ہے یا اس پکارنے پر ناراضگی کا اظہار نہ ہو تو اس سے مراد بلانایا پکارنا ہی ہوگا۔
'' الف'' کی مثال یہ ہے :"
(1) وَ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنۡ یَّدْعُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللہِ
اور اس سے زیادہ گمراہ کون ہے جو خدا کے سوا پوجے ۔(پ26،الاحقاف:5)
(2) فَلَا تَدْعُوۡا مَعَ اللہِ اَحَدًا ﴿ۙ۱۸﴾
"اور اللہ کے ساتھ کسی کونہ پوجو۔(پ29،الجن:18)
ان جیسی صدہا آیتوں میں دعا کے معنی پوجنا ہے یعنی معبود سمجھ کر پکارنا نہ کہ محض پکارنا ۔
''ب'' کی مثال ان آیات میں ہے :"
(1) وَ ادْعُوۡا مَنِ اسْتَطَعْتُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ
اللہ کے سوا جس کو طاقت رکھتے ہو بلا لو۔(پ11،یونس:38)
(2) اُدْعُوۡہُمْ لِاٰبَآئِہِمْ
"پکارو انہیں ان کے باپوں کی نسبت سے ۔(پ21،الاحزاب:5)
ان جیسی صدہا آیات میں دعا کے معنی پکارنا یا بلانا ہے ۔ اس کی پوری تحقیق پہلے باب میں دعا کی بحث میں گذرچکی ، وہاں مطالعہ کرو ۔"
" الف:جب غیر خدا کو ولی بنانے سے منع کیا جائے یا ولی ماننے والوں پر ناراضگی اورعتاب ہو یا ایسے کو مشرک کافر کہا جائے تو ولی سے مراد معبود یا رب کے مقابل مدد گار ہوگا یا آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ قیامت میں کا فروں کا مدد گار کوئی نہیں۔
ب:جب غیرخدا کو ولی بنانے کا حکم دیا جاوے یاا س پر ناراضگی کا اظہار نہ ہو تو ولی سے مراد دوست ، مدد گار باذن اللہ یا قریب ہوگا ۔
''الف'' کی مثال یہ ہے :"
(1) وَ الظّٰلِمُوۡنَ مَا لَہُمۡ مِّنۡ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیۡرٍ ﴿۸﴾
اور ظالموں کیلئے نہ کوئی دوست ہے نہ مدد گار ۔(پ25،الشورٰی:8)
(2) وَمَا لَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ مِنۡ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِیۡرٍ ﴿۱۰۷﴾
"اللہ کے مقابل تمہارا نہ کوئی دوست ہے او رنہ مدد گار۔(پ1،البقرۃ:107)
ان جیسی صدہاآیتوں میں اللہ کے مقابل مدد گار مراد ہے ، ایسا مدد گار ماننا کفر ہے ۔
''ب'' کی مثال ان آیات میں ہے :"
(1) اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الَّذِیۡنَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَہُمْ رٰکِعُوۡنَ ﴿۵۵﴾
تمہارا مدد گار اللہ اور اس کا رسول اوروہ مسلمان ہیں جو زکوٰۃ دیتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں۔(پ6،المآئدۃ:55)
(2) وَاجْعَلۡ لَّنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ وَلِیًّا ۚۙ وَّاجْعَلۡ لَّنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ نَصِیۡرًا ﴿ؕ۷۵﴾
ہمارے لئے اپنی طرف سے دوست بنا اورہمارے لئے اپنی طرف سے مدد گار بنادے ۔(پ7،النسآء:75)
ان جیسی بے شمار آیتو ں میں اللہ کے اذن سے مدد گار مراد ہیں ۔ اس کی پوری تفصیل پہلے باب میں ولی کی بحث میں گذرچکی ۔ وہا ں مطالعہ کرو ۔
" الف: جہاں وسیلہ کاانکار ہے وہاں بتو ں کا وسیلہ یا کفار کے لئے وسیلہ مراد ہے ۔ یا وہ وسیلہ مراد ہے جس کی پوجا پاٹ کی جاوے ۔
ب:جہاں وسیلہ کا ثبوت ہے ، وہاں رب کے پیاروں کا وسیلہ یا مومنوں کے لیے وسیلہ مراد ہے تا کہ آیتوں میں تعارض واقع نہ ہو۔
'' الف'' کی مثال یہ ہے:"
مَا نَعْبُدُہُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوۡنَاۤ اِلَی اللہِ زُلْفٰی
"نہیں پوجتے ہیں ہم ان بتوں کو مگر اس لئے تا کہ وہ ہمیں خدا سے قریب کردیں۔(پ23،الزمر:3)
اس سے معلوم ہو اکہ مشرکین عرب اپنے بتو ں کو جو اللہ کے دشمن ہیں خدا رسی کا وسیلہ سمجھ کر پوجتے تھے یعنی ان کے شرک کی وجہ دو ہوئیں ۔ ایک دشمنان خدا کو اس تک پہنچنے کا وسیلہ سمجھنا ، دوسرے انہیں پوجنا ، صرف وسیلہ اختیار کرنے کی وجہ سے مشرک نہ ہوئے ۔''ب'' کی مثال یہ ہے :"
(1) وَابْتَغُوۡۤا اِلَیۡہِ الْوَسِیۡلَۃَ
اس رب کی طرف وسیلہ ڈھونڈو ۔(پ6،المآئدۃ:35)
(2) وَلَوْ اَنَّہُمْ اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمْ جَآءُوۡکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُوۡلُ لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّابًا رَّحِیۡمًا ﴿۶۴﴾
اور اگر یہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کر کے آپکے حضور آجاویں پھر خدا سے معافی مانگیں اور ر سول بھی ان کے لئے دعا مغفرت کریں تو اللہ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پاویں ۔(پ5،النسآء:64)
(3) وَیُزَکِّیۡہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ
او روہ رسول انہیں پاک کرتے ہیں اورانہیں کتاب اور حکمت سکھاتے ہیں۔(پ4،اٰل عمرٰن:164)
(4) قُلْ یَتَوَفّٰىکُمۡ مَّلَکُ الْمَوْتِ الَّذِیۡ وُکِّلَ بِکُمْ
"فرماؤ کہ تمہیں موت دے گا وہ موت کا فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے ۔(پ21،السجدۃ:11)
ان جیسی تما م آیتو ں میں وسیلہ کا ثبوت ہے مگر وہی وسیلہ مراد ہے جو اللہ کے اذن اور اجازت سے اس کا پیارا بندہ رب تک پہنچا ئے ۔
نوٹ ضروری: وسیلہ اسلام میں بڑی اہم چیز ہے کیونکہ سارے اعمال موت پر ختم ہوجاتے ہیں مگر وسیلہ پکڑنا موت ، قبر ، حشر ہرجگہ ضروری ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے نام پر موت ہو ، قبر میں ان کے نام پر کامیابی ہو، حشر میں ان کے طفیل نجات ہو ، نیز اور اعمال کی ضرورت صرف انسانوں کو ہے مگر وسیلہ کی ضرورت ہر مخلوق کو دیکھو کعبہ معظمہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے وسیلہ کے بغیر قبلہ نہ بنا اور حضور کے ہاتھوں کے بغیر بتوں کی گندگی سے پاک نہ ہوسکا۔وسیلہ کا انکار اسلام کے بڑے اہم مسئلہ کا انکار ہے ۔"
" الف:جن آیتوں میں فرمایا گیا ہے کہ انسان کوصرف اپنے عمل ہی کام آویں گے یا فرمایا گیا ہے کہ نہیں ہے انسان کے لئے مگر وہ جو خود کرے ، اس سے مراد بدنی فرض عبادتیں ہیں یا یہ مطلب ہے کہ قابل اعتماد اپنے اعمال ہیں کسی کے بھیجنے کا یقین نہیں ۔
ب:جن آیتو ں میں فرمایا گیا ہے کہ دوسروں کی نیکی اپنے کام آتی ہے۔"
" اس سے مراد اعمال کا ثواب ہے یا مصیبت دور ہونا یا درجے بلند ہونا ۔
''الف''کی مثال یہ ہے۔"
(1) وَ اَنۡ لَّیۡسَ لِلْاِنۡسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی ﴿ۙ۳۹﴾
نہیں ہے انسا ن کیلئے مگر وہ جو کوشش کرے ۔(پ27،النجم:39)
(2) لَہَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیۡہَا مَا اکْتَسَبَتْ
"اس نفس کیلئے مفید ہیں وہ عمل جو خود کرے اور اس کو مضر ہیں وہ گناہ جو خود کرے ۔(پ3،البقرۃ:286)
ان دنوں آیتوں کا منشایہ ہے کہ کوئی کسی کی طر ف سے فرض نماز نہیں پڑھ سکتا، فرضی روزہ نہیں رکھ سکتا ، ان آیتوں میں اسی لئے سعی او رکسب کا ذکر ہے یا منشاء یہ ہے کہ اپنی ملکیت انہی عملوں پر ہے جو خود کرلئے جاویں کیا خبر کوئی دوسرا ثواب بھیجے یا نہ بھیجے ۔ اس کے بھروساپر خود غافل رہنا بیوقوفی ہے ۔''ب'' کی مثال یہ ہے :"
(1) وَکَانَ تَحْتَہٗ کَنۡزٌ لَّہُمَا وَکَانَ اَبُوۡہُمَا صَالِحًا ۚ فَاَرَادَ رَبُّکَ اَنْ یَّبْلُغَاۤ اَشُدَّہُمَا وَ یَسْتَخْرِجَا کَنۡزَہُمَا
حضرت خضرنے فرمایاکہ اس دیوار کے نیچے دو یتیموں کا خزانہ ہے او ران کا باپ نیک تھاپس تمہارے رب نے چاہاکہ یہ بالغ ہوں تو اپنا خزانہ نکالیں۔(پ16،الکھف:82)
(2) وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ اتَّبَعَتْہُمْ ذُرِّیَّتُہُمۡ بِاِیۡمَانٍ اَلْحَقْنَا بِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَ مَاۤ اَلَتْنٰہُمۡ مِّنْ عَمَلِہِمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ
اور جو ایمان لا ئے اوران کی اولاد نے ایمان کے ساتھ ان کی پیروی کی ہم نے ان کی اولاد ان سے ملادی اور ان کے عمل میں انہیں کچھ کمی نہ دی ۔(پ27،الطور:21)
" پہلی آیت سے معلوم ہو اکہ جس گرتی ہوئی دیوار کی مرمت حضرت خضر و موسیٰ علیہما السلام نے کی ۔ وجہ صرف یہ تھی کہ اس کے نیچے خزانہ تھا جو ایک نیک آدمی کاتھا ۔ اس کے دو چھوٹے بچے تھے ، رب تعالیٰ نے چاہا کہ دیوار کھڑی رہے اور خزانہ محفوظ رہے تا کہ بچے جوان ہو کر نکال لیں ۔ اس لئے دو پیغمبر وں کو اس کی مرمت کے لئے بھیجا ، ان نابالغ یتیموں پر یہ مہربانی ان کے باپ کی نیکی کی وجہ سے ہوئی۔
دوسری آیت سے معلوم ہو اکہ نیکوں کی مومن اولاد جنت میں اپنے ماں باپ کے ساتھ رہے گی اگرچہ اولا د کے اعمال باپ سے کم درجہ کے ہوں ۔ ایسے ہی نابالغ بچے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے فرزندان حضرت طیب وطاہر وقاسم وابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہم جنت میں حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ ہوں گے حالانکہ کوئی نیکی نہ کی۔ معلوم ہوا کہ کسی کی نیکی دوسرے کے کام آجاتی ہے۔ اسی وجہ سے ایصال ثواب ، فاتحہ وغیرہ کرتے ہیں بلکہ حج بدل بھی دوسرے کی طر ف سے کرسکتے ہیں۔اور زکوۃ میں دوسرے کے نائب بن سکتے ہیں۔"
" الف: جن آیتو ں میں فرمایا گیا ہے کہ قیامت میں کوئی کسی کا بو جھ نہیں اٹھائے گا اس کامطلب ہے کہ بخوشی نہ اٹھائے گا یا اس طر ح نہ اٹھائے گا جس سے مجرم آزاد ہوجائے گا ۔
ب: جن آیتو ں میں فرمایا گیا ہے کہ قیامت میں بعض لوگ بعض کابوجھ اٹھائیں گے اس کا مطلب یہ ہے کہ مجبوراً اٹھائیں گے یا یہ بھی اٹھائیں گے اور مجرم بھی"
"یہ تو اٹھائیں گے گناہ کرانے کی وجہ سے اور مجرم بوجھ اٹھائے گا گناہ کرنے کی وجہ سے ۔
''الف''کی مثال یہ آیت ہے :"
(1) وَلَا تَکْسِبُ کُلُّ نَفْسٍ اِلَّا عَلَیۡہَا ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی
اور نہ کمائے گا کوئی نفس مگر اپنے ذمہ پر اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گی ۔(پ8،الانعام:164)
(2) اِنْ اَحْسَنۡتُمْ اَحْسَنۡتُمْ لِاَنۡفُسِکُمْ ۟ وَ اِنْ اَسَاۡتُمْ فَلَہَا
اگر تم بھلائی کرو گے تو اپنے لئے بھلائی کرو گے اور اگر بر اکروگے تو اپنا ۔(پ15، بنیۤ ا سرآء یل:7)
(3) مَنِ اہۡتَدٰی فَاِنَّمَا یَہۡتَدِیۡ لِنَفْسِہٖ ۚ وَمَنۡ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیۡہَا
جو راہ پر آیا وہ اپنے ہی بھلے کو راہ پر آیا اور جو بہکا وہ اپنے ہی برے کوبہکا۔(پ15، بنیۤ اسرآء یل:15)
(4) وَقَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّبِعُوۡا سَبِیۡلَنَا وَلْنَحْمِلْ خَطٰیٰکُمْ ؕ وَمَا ہُمۡ بِحَامِلِیۡنَ مِنْ خَطٰیٰہُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ ؕ اِنَّہُمْ لَکٰذِبُوۡنَ ﴿۱۲﴾
او رکافر مسلمانوں سے بولے ہماری راہ پر چلو اور ہم تمہارے گناہ اٹھالیں گے حالانکہ وہ ان کے گناہوں میں سے کچھ نہ اٹھائیں گے بے شک وہ جھوٹے ہیں۔(پ20،العنکبوت:12)
(5) لَہَا مَا کَسَبَتْ وَلَکُمۡ مَّا کَسَبْتُمْ ۚ وَلَا تُسْـَٔلُوۡنَ عَمَّا کَانُوۡا یَعْمَلُوۡنَ ﴿۱۳۴﴾
اس جماعت کے لئے وہ ہے جو وہ خود کماگئی تمہارے لئے تمہاری کمائی ہے اور تم ان کے اعمال سے نہ پوچھے جاؤگے ۔(پ1،البقرۃ:134)
" ان تمام آیتوں سے معلوم ہوا کہ کسی کی پکڑ دوسرے کی وجہ سے نہ ہوگی اورکوئی کسی کا نہ گناہ اٹھائے نہ نیکی سے فائدہ پائے بلکہ اپنی کرنی اپنی بھرنی ہے ۔
'' ب'' کی مثال یہ ہے:"
(1) وَ لَیَحْمِلُنَّ اَثْقَالَہُمْ وَاَثْقَالًا مَّعَ اَثْقَالِہِمْ ۫ وَ لَیُسْـَٔلُنَّ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ عَمَّا کَانُوۡا یَفْتَرُوۡنَ ﴿٪۱۳﴾
اوربے شک ضرور اپنے بوجھ اٹھائیں گے اوراپنے بوجھوں کے ساتھ اور بوجھ اور ضرور قیامت کے دن پوچھے جائیں گے جو کچھ بہتان اٹھاتے تھے۔(پ9،الانفال:25)
(2) یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا قُوۡۤا اَنۡفُسَکُمْ وَ اَہۡلِیۡکُمْ نَارًا وَّ قُوۡدُہَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَۃُ ۔
اے ایمان والو! اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔(پ28،التحریم:6)
(3) وَاتَّقُوۡا فِتْنَۃً لَّا تُصِیۡبَنَّ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا مِنۡکُمْ خَآصَّۃً ۚ وَاعْلَمُوۡۤا اَنَّ اللہَ شَدِیۡدُ الْعِقَابِ ﴿۲۵﴾
اور اس فتنہ سے ڈرتے رہو جو ہرگز تم میں سے خاص ظالموں کو ہی نہ پہنچے گا ، اور جان لو کہ اللہ کاعذاب سخت ہے ۔
(4)وَلَا تَکُوۡنُوۡۤا اَوَّلَ کَافِرٍۭ بِہٖ
"تم قرآن کے پہلے کافر نہ بنو۔(پ1،البقرۃ:41)
ان آیات سے معلوم ہو اکہ قیامت میں بعض گنہگار دوسرے مجرموں کا بھی بوجھ اٹھائیں گے اوریہ بھی پتا لگا کہ بعض کے گناہوں کی وجہ سے دنیا میں بھی دوسروں پر مصیبت آجاتی ہے یہ بھی معلوم ہوا کہ اپنی نجات کے لئے اپنے گھر والوں کو ہدایت"
دینا ضروری ہے۔ مطابقت اسی طر ح ہوگی جو ہم نے عرض کردیا کہ بخوشی کوئی کسی کا بوجھ نہ اٹھائے گا اور کوئی دوسرے کا بوجھ اس طر ح نہ اٹھائے گا کہ اصلی مجرم بالکل آزاد ہوجائے ہاں گمراہ کرانے والا بری باتوں کا موجد سارے مجرموں کا بوجھ اٹھائے گا یہ ضرور خیال رکھنا چاہیے ۔
" الف: جن آیتوں میں فرمایا گیا ہے کہ رسولوں میں فرق نہ کرو۔وہاں ایمان میں فرق کرنا مراد ہے یعنی ایسے فرق نہ کرو کہ بعض کو مانو اور بعض کو نہ مانو یا مراد یہ ہے کہ اپنی طرف سے فرق پیدا نہ کرو یعنی ان کے فضائل اپنی طرف سے نہ گھٹاؤ یا ایسا فرق نہ کرو جس سے بعض پیغمبر وں کی توہین ہوجاوے ۔
ٍ ب: جن آیتوں میں فرمایا گیا کہ پیغمبروں میں فرق ہے وہاں درجات اور مراتب کا فرق مراد ہے یعنی بعض کے درجے بعض سے اعلیٰ ہیں۔
'' الف'' کی مثال یہ ہے :"
(1) لَا نُفَرِّقُ بَیۡنَ اَحَدٍ مِّنۡ رُّسُلِہٖ
مسلمان کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے رسولوں میں فر ق نہیں کرتے ۔(پ3،البقرۃ:285)
(2) وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللہِ وَرُسُلِہٖ وَلَمْ یُفَرِّقُوۡا بَیۡنَ اَحَدٍ مِّنْہُمْ اُولٰٓئِکَ سَوْفَ یُؤْتِیۡہِمْ اُجُوۡرَہُمْ ؕ وَکَانَ اللہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴿۱۵۲﴾٪
اور وہ جو اللہ تعالیٰ او راس کے رسولوں پر ایمان لائے اور ان رسولوں میں سے کسی میں فرق نہ کرے ۔ یہ وہ ہیں جنہیں رب ان کا ثواب دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔(پ6،النسآء:152)
ان آیتوں میں ایمان کا فرق مراد ہے یعنی بعض پیغمبر وں کو ماننا او ربعض کو نہ ماننا یہ کفر ہے۔ ایمان کے لئے سب نبیوں کو ماننا ضروی ہے اس کی تفسیر اس آیت نے کی ۔
(3)اِنَّ الَّذِیۡنَ یَکْفُرُوۡنَ بِاللہِ وَرُسُلِہٖ وَیُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یُّفَرِّقُوۡا بَیۡنَ اللہِ وَرُسُلِہٖ وَیَقُوۡلُوۡنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّنَکْفُرُ بِبَعْضٍ ۙ وَّیُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یَّتَّخِذُوۡا بَیۡنَ ذٰلِکَ سَبِیۡلًا ﴿۱۵۰﴾
"بے شک وہ لوگ جو کفر کرتے ہیں اللہ اور اس کے رسولوں کا اور کہتے ہیں کہ ہم بعض پر ایمان لاتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس کے درمیان میں رستہ بنالیں۔(پ6،النسآء:150)
اس آیت نے بتادیا کہ پیغمبروں کے درمیان ایمان لانے میں فر ق کرنا منع ہے۔
''ب'' کی مثال یہ ہے:"
(1) تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ ۘ مِنْہُمۡ مَّنۡ کَلَّمَ اللہُ وَرَفَعَ بَعْضَہُمْ دَرَجٰتٍ
یہ رسول ہیں کہ ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر بزرگی دی ان میں سے بعض وہ ہیں جن سے اللہ نے کلام کیا اور بعض وہ ہیں جنہیں درجوں میں بلندکیا ۔(پ3،البقرۃ:253)
(2) یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیۡرًا ﴿۴۵﴾ۙوَّ دَاعِیًا اِلَی اللہِ بِاِذْنِہٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیۡرًا ﴿۴۶﴾
اے نبی ہم نے آپ کوبھیجاگواہ خوش خبریاں دیتا اور ڈر سناتا اور اللہ کی طرف اس کے اذن سے بلاتا اور چمکانے والا سورج۔(پ22،الاحزاب:45۔46)
(3) وَمَاۤ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۰۷﴾
اور نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر تمام جہانوں کی رحمت ۔(پ17،الانبیآء:107)
" ان آیات سے معلوم ہوا کہ بعض پیغمبر بعض سے افضل ہیں اور خصوصاً ہمارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سارے رسولوں میں ایسے ہیں جیسے تاروں میں سورج اور سارے جہان کی رحمت ہیں یہ صفات اور وں کو نہ ملیں۔
نوٹ ضروری : بعض احادیث میں آیا ہے کہ ہم کو یونس علیہ السلام پر بھی بزرگی نہ دو اور بعض میں آیا ہے کہ ہم تمام اولاد آدم کے سردار ہیں ۔ ان احادیث میں مطابقت اسی طر ح ہے کہ ایسی بزرگی دینا جس سے یونس علیہ السلام کی توہین ہوجاوے منع ہے اور اس طرح حضور کی شان بیان کرنا کہ ان حضرات کی عظمت بر قرار رہے اور حضور کی شان معلوم ہوجائے ۔ بالکل جائز بلکہ ضروری ہے ۔"
" الف: قرآن شریف میں جہاں حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے کہلوایا گیا ہے کہ مجھے خبر نہیں کہ میرے اور تمہارے ساتھ کیا ہوگا ۔ وہاں اٹکل، حساب، قیاس، اندازے سے جاننا مراد ہے۔ یعنی میں اندازے یا قیاس سے یہ نہیں جانتا ۔
ب: اور جہاں ا سکے خلاف ہے وہا ں وحی ، الہام کے ذریعہ سے علم دینا مراد ہے ۔
'' الف ''کی مثال یہ ہے :"
(1) وَمَاۤ اَدْرِیۡ مَا یُفْعَلُ بِیۡ وَلَا بِکُمْ ؕ
"اور میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا کیاجاوے گا اور تمہارے ساتھ کیا ۔
اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ آخرت کے معاملات نجوم ، رمل ، قیاس ، حساب، اٹکل سے معلوم نہیں ہوسکتے میں باوجود یکہ پیغمبرہوں اور پیغمبر کی عقل تما م دنیا سے بڑھ"
چڑھ کر ہوتی ہے لیکن میری کامل عقل ان باتوں کے جاننے کے لئے کافی نہیں میں بھی عقل سے یہ چیزیں نہیں جانتا تو تم کیسے جان سکتے ہو ۔ مجھے یہ علم وحی کے ذریعہ ہوا اور تم صاحب وحی نہیں ہو تو ایسی باتوں میں عقل پر زور نہ دیا کرو ، اس کی تفسیر اسی آیت کے آخر میں یوں ہو رہی ہے۔
اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوۡحٰۤی اِلَیَّ وَمَاۤ اَنَا اِلَّا نَذِیۡرٌ مُّبِیۡنٌ ﴿۹﴾ (پ26،الاحقاف:9)
"میں نہیں پیروی کرتا مگر اس کی جو میری طر ف وحی ہوتی ہے اور میں نہیں مگر صاف ڈرسنانے والا۔
معلوم ہو اکہ آخرت کی پکڑ اور نجات وغیرہ وحی سے معلوم ہوتے ہیں جو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر آتی ہے اس لئے اس آیت میں درایت کی نفی کی گئی۔ درایت کے معنی ہیں عقل سے جاننا، خدا تعالیٰ کے علم کو درایت نہیں کہتے کیونکہ وہ عقل سے پاک ہے ، اس کا علم عقلی نہیں حضور ی ہے ۔اس کی مثال یہ آیت ہے:"
وَکَذٰلِکَ اَوْحَیۡنَا اِلَیۡکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا ؕ مَا کُنۡتَ تَدْرِیۡ مَا الْکِتٰبُ وَ لَا الْاِیۡمَانُ
"اوریونہی ہم نے تمہیں وحی بھیجی ایک جاں فزا چیز اپنے حکم سے اس سے پہلے نہ تم کتا ب جانتے تھے نہ ایمان تفصیل دار۔(پ25،الشورٰی:52)
اس آیت کا مطلب بھی یہ ہی ہے کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن اور ایمان کو عقل ، قیاس، انداز ے سے معلوم نہ فرمایا ۔ بلکہ اس کا ذریعہ وحی الٰہی ہے۔ یہاں بھی داریت کی نفی ہے نہ کہ مطلق علم کی ورنہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ظہور نبوت سے پہلے عبادات کرتے تھے ایمان سے خبردار تھے ۔ عیسی علیہ السلام کا ماں کی گودمیں توحید ، رسالت ، احکام سے واقف ہونا قرآن شریف سے ثابت ہے کہ آپ نے اپنی پیدائش سے چند گھنٹے بعد قوم سے فرمایا۔"
قَالَ اِنِّیۡ عَبْدُ اللہِ ؕ۟ اٰتٰىنِیَ الْکِتٰبَ وَجَعَلَنِیۡ نَبِیًّا ﴿ۙ۳۰﴾
"فرمایا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں مجھے اس نے کتاب دی اور نبی فرمایا۔(پ16،مریم:30)
جب کلمۃ اللہ صلوات اللہ علیہ وسلامہ بچپن میں رب سے بے خبر نہیں تو جو حبیب اللہ ہو ں وہ کیسے بے خبر ہوں گے ۔لہٰذا اس آیت کے معنی وہ ہی ہیں جوعرض کئے گئے یعنی قیاس سے معلوم کرنا ۔
'' ب ''کی مثال اس آیت میں ہے :"
(1) لِّیَغْفِرَ لَکَ اللہُ مَا تَقَدَّمَ مِنۡ ذَنۡۢبِکَ وَ مَا تَاَخَّرَ
"تاکہ بخش دے اللہ تمہارے طفیل تمہارے وہ گناہ جو اگلے ہیں اور پچھلے ہیں۔(پ26،الفتح:2)
یہاں تمہارے گناہ سے مرا دامت کے وہ گناہ ہیں جن کا بخشوانا حضور کے ذمہ کرم پر ہے جیسے وکیل کہتا ہے میرا مقدمہ فتح ہوگیا یعنی وہ مقدمہ جس کی پیروی میرے ذمہ ہے نہ یہ مطلب کہ میں اس میں گرفتار ہوں کیونکہ نبی گناہ سے معصوم ہیں۔"
(1) اِنَّاۤ اَعْطَیۡنٰکَ الْکَوْثَرَ ؕ﴿۱﴾
ہم نے تم کو کوثر دے دیا۔(پ30،الکوثر:1)
(۲) وَ رَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ ؕ﴿۴﴾
"ہم نے تمہارا ذکر اونچا کردیا ۔(پ۳۰،الانشراح:۴)
ان جیسی بہت سی آیا ت سے معلوم ہو اکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اپنے انجام سے باخبر کئے گئے ہیں مگر یہ علم وحی کا ہے نہ کہ محض عقلی ، لہٰذا آیات میں تعارض نہیں۔ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم تو اپنی امت کے انجام کی بھی خبر رکھتے ہیں قرآن میں حضور کو شاہد فرمایا اور گواہ وہی ہوتا ہے جو واقعہ سے خبردار ہو ۔ اسی لئے فرمایا :حسن حسین"
جوانا ن جنت کے سردار ہیں ،ابو بکر جنتی ہیں، فاطمۃ الزہرا جنتی ہیں۔
(مشکاۃ المصابیح،کتاب المناقب،باب مناقب اھل بیت النبی،الحدیث۶۱۷۱، المجلد الثانی، ص۴۴۱ والحدیث۶۰۳۳، ص۴۱۷،دار الکتب العلمیۃبیروت)
" الف: جن آیا ت میں فرمایا گیا ہے کہ نبی ہدایت نہیں کرتے وہاں مراد ہے اللہ کی مرضی کے خلاف ،اس کے مقابل ہدایت نہیں کرتے کہ رب چاہے کسی کو گمراہ کرنا اور نبی ہدایت کردیں یہ ناممکن ہے ۔
ب : جہاں فرمایا گیا ہے کہ نبی ہدایت کرتے ہیں وہاں مراد ہے باذن الٰہی ہدایت کرتے ہیں ۔
'' الف'' کی مثال یہ ہے:"
(1) اِنَّکَ لَا تَہۡدِیۡ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللہَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ ہُوَ اَعْلَمُ بِالْمُہۡتَدِیۡنَ ﴿۵۶﴾
"بے شک تم ہدایت نہیں کرتے جسے محبت کر و لیکن اللہ ہدایت کرتا ہے جسے چاہے اور وہ خوب جانتا ہے ہدایت والوں کو۔(پ20،القصص:56)
لطیفہ: اس جگہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے لئے اَحْبَبْتَ فرمایا اور اللہ کیلئے یَشَاءُ فرمایا دونوں جگہاَحْبَبْتَ یا دو نوں جگہ یَشَاءُ نہیں بولا گیا ۔ اس لئے کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ساری مخلوق ہی سے محبت فرماتے ہیں ۔کیونکہ رحمت للعالمین ہیں اورآپ کو پسند ہے کہ سب کو ہی ہدایت ملے مگر آپ کی اس محبت پر ہدایت نہیں ملتی لیکن آپ اسی کی ہدایت چاہتے ہیں جس کی ہدایت رب چاہے جو فنا فی اللہ ہو وہ اپنی"
مشیت رب کی مشیت میں فنا کر دیتا ہے ۔ اس کے بغیر چاہے چاہتا بھی نہیں رب تعالیٰ بھی ربوبیت کے لحاظ سے ساری مخلوق سے محبت کرتا ہے کیونکہ رب العالمین ہے اسی لئے ہادی بھیجے مگر چاہتا اس کی ہدایت ہے جس کی ہدایت میں حکمت ہے تو ہدایت نہ حضور کی محض محبت سے ملتی ہے نہ اللہ کی محض محبت سے ، ہاں رب کے ارادہ سے اور پھرحضور کے ارادے سے ہدایت نصیب ہوتی ہے ۔
(1) وَ اِنۡ کَانَ کَبُرَ عَلَیۡکَ اِعْرَاضُہُمْ فَاِنِ اسْتَطَعْتَ اَنۡ تَبْتَغِیَ نَفَقًا فِی الۡاَرْضِ اَوْ سُلَّمًا فِی السَّمَآءِ فَتَاۡتِیَہُمۡ بِاٰیَۃٍ ؕ وَ لَوْ شَآءَ اللہُ لَجَمَعَہُمْ عَلَی الْہُدٰی فَلَا تَکُوۡنَنَّ مِنَ الْجٰہِلِیۡنَ ﴿۳۵﴾
اور اگر ان کفار کا پھر نا آپ پر شاق گزرا ہے تو اگر تم سے ہوسکے تو زمین میں کوئی سرنگ تلاش کر لو یا آسمان میں زینہ پھر ان کیلئے نشانی لے آؤ اور اگر اللہ چاہتا تو ان سب کو ہدایت پر جمع کردیتا پس تم نادان نہ بنو۔(پ7،الانعام:35)
(2) لَیۡسَ عَلَیۡکَ ہُدٰىہُمْ وَلٰکِنَّ اللہَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ
"آپ پر ان کی ہدایت نہیں لیکن اللہ جسے چاہے ہدایت دے ۔(پ3،البقرۃ:272)
ان جیسی تمام آیتو ں میں رب کے خلاف مرضی ہدایت دینا مراد ہے یہ نہ نبی سے ممکن ہے نہ قرآن سے ۔''ب ''کی مثال یہ ہے :"
(1) وَ اِنَّکَ لَتَہۡدِیۡۤ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیۡمٍ ﴿ۙ۵۲﴾
اور تم اے محبوب ہدایت کرتے ہو سیدھے راستے کی ۔(پ25،الشورٰی:52)
(2) اِنَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنَ یَہۡدِیۡ لِلَّتِیۡ ہِیَ اَقْوَمُ
بے شک قرآن ہدایت دیتا ہے اس راستہ کی جو سیدھا ہے ۔(پ15،بنی اسرآء یل:9)
(3) یَتْلُوۡا عَلَیۡہِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیۡہِمْ
وہ نبی مسلمانوں پر اللہ کی آیتیں تلاوت کرتے ہیں اور انہیں پاک کرتے ہیں۔(پ4،اٰل عمرٰن:164)
(4) شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الْقُرْاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰی وَالْفُرْقَانِ
"ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا لوگوں کیلئے ہدایت اور راہنمائی اور فیصلہ کی روشن باتیں ہیں۔(پ2،البقرۃ:185)
ان جیسی تمام آیات میں جن میں قرآن یا توریت یا نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو ہادی فرمایا گیا ہے ۔ ہدایت سے مراد اللہ کی مرضی سے راہ دکھانا ہے ۔"
" الف : جن آیا ت میں فرمایا گیا ہے کہ غیر خدا کے نام پر پکارا ہوا جانور حرا م ہے وہاں ذبح کے وقت کسی کانام پکارنا مراد ہے ۔
ب: جن آیات میں فرمایا گیاہے کہ ٰ غیر خدا کے نام پر پکارا ہواجانور حرام نہیں ہے حلا ل ہے ان میں زندگی کی حالت میں کسی کا نام پکارنا مرا دہے جیسے بتوں کے نام پر چھوڑا ہو ا جانور یا زید کی بکر ی، عبدالرحیم کی گائے ۔"
(1) وَمَاۤ اُہِلَّ بِہٖ لِغَیۡرِ اللہِ
اور حرام ہے وہ جانور جس پر ذبح کے وقت غیر خدا کا نام پکارا گیا ہو ۔(پ2،البقرۃ:173)
(2) وَمَا لَکُمْ اَلَّا تَاۡکُلُوۡا مِمَّا ذُکِرَاسْمُ اللہِ عَلَیۡہِ
اور تمہارا کیا حال ہے کہ وہ جانور نہیں کھاتے جس پر بو قت ذبح خدا کا نام پکارا گیا ۔(پ8،الانعام:119)
(3) وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ
"اور حرام ہے وہ جانور جو بتو ں پر ذبح کیا جائے ۔(پ6،المآئدۃ:3)
ان تمام آیتوں میں اس جانور کے کھانے سے منع فرمایا گیا ہے جو کسی غیر خد ا کے نام پر ذبح کیا جاوے کہ حرام کرنے والی یہ ہی چیز ہے۔
ب کی مثال یہ ہے :"
(1) مَا جَعَلَ اللہُ مِنۡۢ بَحِیۡرَۃٍ وَّلَا سَآئِبَۃٍ وَّلَا وَصِیۡلَۃٍ وَّلَا حَامٍ ۙ وَّلٰکِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا یَفْتَرُوۡنَ عَلَی اللہِ الْکَذِبَ
"نہیں مقرر کیا اللہ نے کان چراہوا اور نہ بجار اور نہ وصیلہ اور نہ حام لیکن کافر لوگ اللہ پر جھوٹ افترا باند ھتے ہیں۔
یہ جانور جو اس آیت میں مذکور ہوئے مشرکین عرب کی طرف سے بتوں کے نام پر چھوڑے جاتے تھے یعنی زندگی میں ان پر غیر خدا کانام پکارا جاتا تھا اور مشرکین انہیں حرام سمجھتے تھے ان کے حرام سمجھنے کی تردید ا س آیت میں کردی گئی ہے اور انہیں حلال فرمایاگیا ۔ لہٰذا آج مشرکین کے چھوڑے ہوئے بجار حلال ہیں اللہ کے نام پر ذبح کرو اورکھاؤ۔(پ7،المآئدۃ:103)"
" الف : جہاں نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے کہلوایا گیا ہے کہ میں اپنے اور تمہارے نفع کا مالک نہیں ہوں وہاں اللہ کے بغیر مرضی ملکیت مراد ہے ۔
ب: جہاں فرمایا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم غنی کردیتے ہیں"
"وہاں بعطاء الٰہی،اللہ عزوجل کے ارادے سے غنی کرنا او ردینا مراد ہے ۔
'' الف'' کی مثال یہ ہے:"
(1) قُلۡ لَّاۤ اَمْلِکُ لِنَفْسِیۡ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَآءَ اللہُ
تم فرماؤ کہ میں اپنی جان کے بھلے اور برے کا خود مختار نہیں مگر جو اللہ چاہے۔(پ9،الاعراف:188)
(2) وَمَاۤ اُغْنِیۡ عَنۡکُمۡ مِّنَ اللہِ مِنۡ شَیۡءٍؕ
اور میں تم سے دفع نہیں کرسکتا اللہ کے مقابل کوئی چیز (پ13،یوسف:67)
(3) مَّا کَانَ یُغْنِیۡ عَنْہُمۡ مِّنَ اللہِ مِنۡ شَیۡءٍ اِلَّا حَاجَۃً فِیۡ نَفْسِ یَعْقُوۡبَ قَضٰىہَا
"یعقوب نہیں دفع کر سکتے تھے ان سے اللہ کی کوئی مصیبت مگر یعقوب کے دل کی حاجت تھی جو پوری کردی ۔(پ13،یوسف:68)
ان جیسی تمام آیتو ں میں یہ مراد ہے کہ رب تعالیٰ کے اذن کے بغیر میں کچھ نہیں کرسکتا ہر چیز میں اس کی اجازت کا حاجتمند ہوں ۔
''ب'' کی مثال یہ ہے:"
(1) اَغْنٰہُمُ اللہُ وَرَسُوۡلُہٗ مِنۡ فَضْلِہٖ
غنی کردیا انہیں اللہ نے اور اس کے رسول نے اپنے فضل سے ۔(پ10،التوبۃ:74)
(2) وَلَوْ اَنَّہُمْ رَضُوْا مَاۤ اٰتٰىہُمُ اللہُ وَرَسُوۡلُہٗ
اور اگر وہ راضی ہوتے اس پر جو انہیں اللہ اور اس کے رسول نے دیا ۔(پ10،التوبۃ:59)
(3) اِذْ تَقُوۡلُ لِلَّذِیۡۤ اَنْعَمَ اللہُ عَلَیۡہِ وَ اَنْعَمْتَ عَلَیۡہِ اَمْسِکْ عَلَیۡکَ زَوْجَکَ
"جب آپ کہتے تھے اس سے جس پر اللہ نے انعام کیا اورآپ نے اسے نعمت دی کہ اپنی بیوی کو روکو ۔(پ22،الاحزاب:37)
ان آیتوں سے پتالگا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم غنی کرتے ہیں نعمت دیتے ہیں ان میں یہ ہی مراد ہے کہ اللہ کے حکم ، اللہ کے ارادہ اور اذن سے نعمتیں بھی دیتے اور فضل بھی کرتے ہیں ۔ لہٰذادونوں قسم کی آیتوں میں تعارض نہیں۔"
" الف : جب رفع کا مفعول کوئی زمینی جسم ہو تو رفع کے معنی ہوں گے اونچی جگہ میں اٹھانا چڑھانا ، اونچا کرنا۔
ب: جب رفع کا مفعول کوئی زمینی جسم نہ ہو تو اس کے معنی ہوں گے روحانی بلندی، مرتبہ کا اونچا ہونا ۔
'' الف'' کی مثال یہ آیات ہیں:"
(1) یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَمُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا
اے عیسی میں تمہیں وفات دینے والا ہوں اورا پنی طرف اٹھانے والاہوں اور کافروں سے تمہیں پاک کرنیوالا ہوں ۔(پ3، ال عمرٰن:55)
(2) وَرَفَعَ اَبَوَیۡہِ عَلَی الْعَرْشِ
اٹھالیا یوسف نے اپنے ماں باپ کو تخت پر ۔(پ13،یوسف:100)
(3) وَرَفَعْنَا فَوْقَہُمُ الطُّوۡرَ
اور ہم نے بنی اسرائیل کے اوپر طو ر پہاڑ اٹھالیا۔(پ6،نساء:154)
(4) وَ اِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰہٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیۡتِ
"اورجب ابراہیم بیت اللہ کی دیوار یں اونچی کر رہے تھے ۔(پ1،البقرۃ:127)
ان آیتوں میں چونکہ رفع کا مفعول عیسی علیہ السلام یا یوسف علیہ السلام کے والدین یا طور پہاڑ یاکعبہ کی دیوار ہے اور یہ سب زمینی جسم ہیں لہٰذاان میں رفع کرنے کے معنی ہونگے بلند جگہ میں پہنچا نا ، اٹھانا، اونچا کرنا ۔ درجے بلند کرنا مراد نہ ہوگا ۔
''ب'' کی مثال یہ آیت ہے :"
(1) وَ رَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ ؕ﴿۴﴾
ہم نے آپ کا ذکر اونچا کردیا ۔(پ30،الانشراح:4)
(2) مِنْہُمۡ مَّنۡ کَلَّمَ اللہُ وَرَفَعَ بَعْضَہُمْ دَرَجٰتٍ ؕ
ان پیغمبر وں میں بعض وہ ہیں جن سے اللہ نے کلام کیا اور بعض کے درجے اونچے کئے ۔(پ3،البقرۃ:253)
(3) فِیۡ بُیُوۡتٍ اَذِنَ اللہُ اَنۡ تُرْفَعَ وَ یُذْکَرَ فِیۡہَا اسْمُہٗ
"ان گھروں میں جنہیں بلند کرنے کا اللہ نے حکم دیا ور ان میں اللہ کانام لیا جاتا ہے ۔(پ18،النور:36)
ان تمام آیتوں میں چونکہ رفع کا مفعول زمینی جسم نہیں ہے بلکہ ذکر یا درجے یا خداتعالیٰ کانام ہے اس لئے یہاں مکانی بلندی مراد نہ ہوگی بلکہ روحانی بلندی مراد ہے، کیونکہ یہ ہی اس کے لائق ہے لہٰذا عیسی علیہ السلام کے بارے میں جو آیت آئی"
اِنِّیْ رَافِعُکَ
(اٰل عمرٰن:۵۵) اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم تمہیں آسمان پر اٹھانے والے ہیں یہ نہیں کہ تمہارے درجے بلند کرنے والے ہیں جیسا کہ قادیانی کہتے ہیں کیونکہ عیسی علیہ السلام زمینی جسم ہیں اور جسم کے لئے بلندی مکانی مناسب ہے ۔
" اعتراض: اگر اس آیت میں مکانی بلندی مراد ہے تو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کسی جگہ یعنی آسمانوں میں رہتا ہو کیونکہ فرمایا گیا ہے رَافِعُکَ اِلَیَّ اپنی طرف اٹھانے والا ہوں خدا کی طرف کونسی ہے ؟
جواب: یہاں خدا کی طر ف اٹھانے سے مراد آسمان کی طر ف اٹھانا ہے کیونکہ اگرچہ زمین وآسمان ہر چیز خدا تعالیٰ ہی کی ہے لیکن آسمان خصوصیت سے تجلی گاہ الٰہی ہے کہ نہ وہاں کسی کی ظاہری بادشاہت ہے نہ کفر و شرک وگناہ لہذا آسمان پر جانا گویا خدا کے پاس جانا ہے ۔ اسی لئے فرمایا گیا:"
ء اَمِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَآءِ
(پ۲۹،الملک:۱۶) یا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا :
اِنِّیۡ ذَاہِبٌ اِلٰی رَبِّیۡ سَیَہۡدِیۡنِ ﴿۹۹﴾
" میں اپنے رب کی طرف جارہا ہوں وہ مجھے ہدایت کریگا (پ۲۳،الصّٰفٰت:۹۹) حالانکہ آپ شام کے ملک میں جارہے تھے مگر چونکہ شام آپ کا عبادت گاہ تھا ۔ اس لئے وہاں جانا رب کے پاس جانا قراردیا گیا ۔ اسی لئے مسجدوں کو اللہ کا گھر کہا جاتا ہے خدا وہاں رہتا نہیں مگر چونکہ وہاں کسی کاکام نہیں ہوتا اور نہ مسجد کسی انسان کی ملک ہے ۔لہٰذا وہ خدا کا گھر ہے ۔
اعتراض : اس آیت میں فرمایا گیا:"
اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ
"میں تمہیں وفات دوں گا اور اٹھاؤں گا۔ (پ۳،ال عمرٰن:۵۵)یہاں وفات کا ذکر پہلے ہے اور اٹھانے کا ذکر بعد میں معلوم ہواکہ عیسی علیہ السلام کو موت کے بعد اٹھایا گیا نہ کہ موت سے پہلے۔ (قادیانی)
جواب: اگر یہاں وفات کے معنی موت مان لئے جا ئیں تو بھی واؤ کیلئے ترتیب لازم نہیں بہت جگہ ترتیب کے خلاف ہوتا ہے ۔لہٰذا یہاں معنی یہ ہوئے کہ میں پہلے تمہیں اٹھاؤں گا پھر موت دو ں گا جیسا کہ ان آیتوں میں ہے ۔"
(1) وَاسْجُدِیۡ وَارْکَعِیۡ
اے مریم تم سجدہ کرو اور رکوع کرو ۔(پ3،اٰل عمرٰن:43)
(2) خَلَقَکُمْ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ
اللہ نے پیدا کیا تم کو اور ان کو جوتم سے پہلے تھے ۔(پ1،البقرۃ:21)
(3) نَمُوۡتُ وَ نَحْیَا
ہم مریں گے اور جئیں گے(پ25،الجاثیۃ:24)
(4) خَلَقَ الْاَرْضَ وَالسَّمٰوٰتِ الْعُلٰی ؕ﴿۴﴾
اللہ نے پیدا کیا زمین کو اور اونچے آسمانوں کو ۔(پ16،طہ:4)
(5) خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیٰوۃَ
اس اللہ نے پیدا کیا موت اور زندگی کو۔(پ29،الملک:2)
(6) وَ لَقَدْ اُوۡحِیَ اِلَیۡکَ وَ اِلَی الَّذِیۡنَ مِنْ قَبْلِکَ ۚ
"اور بے شک وحی کی گئی تمہاری طرف اور ان پیغمبر وں کی طر ف جو تم سے پہلے تھے ۔(پ24،الزمر:65)
ان تمام آیتوں میں واؤ ترتیب کے خلاف ہے ۔ ایسے ہی اس آیت میں ہے اور اگر واؤیہاں ترتیب بتائے تب"
مُتَوَفِّیْکَ
میں جو وفات یا تو فّی مذکورہے ۔ اس سے موت مراد نہیں سلانا یا پورا لینا مراد ہے قرآن شریف میں یہ لفظ دونوں معنوں میں استعمال ہوا ہے تو معنی یہ ہوئے کہ اے عیسی میں تمہیں سلا کر اپنی طر ف اٹھاؤں گا یا میں تمہیں پورا پورا جسم مع روح اپنی طرف اٹھاؤں گا ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے:
وَ اِبْرٰہِیۡمَ الَّذِیۡ وَفّٰۤی ﴿ۙ۳۷﴾
یہاں وَفّٰی کے معنی ہیں پورا کیا۔ فرماتا ہے:
یَتَوَفّٰکُمْ بِالَّیْلِ وَیَعْلَمُ مَاجَرَحْتُمْ بِالنَّھَارِ(پ27،النجم:37)
یہاں وفات کے معنی سلانا ہیں یعنی رب تعالیٰ تم کو رات میں سلا دیتا ہے، وہی معنی یہاں مراد ہیں۔
" الف : جن آیتوں میں خدا کے سوا دوسرے سے ڈرنے کی ممانعت فرمائی گئی یا فرمایا گیاکہ صرف اللہ ہی سے ڈرو ۔ وہاں عذاب کا خوف ، حساب کا ڈر، پکڑ کا خوف، الوہیت اور کبر یائی کا خوف مراد ہے کہ کسی کو معبود سمجھ کر نہ ڈرو یارب تعالیٰ کے مقابل کسی سے خوف نہ کرو ۔
ب: جن آیتوں میں دوسرے سے ڈرنے کاحکم دیا گیا یا فرمایا گیا کہ فلاں پیغمبر فلاں سے ڈرے ، وہاں تکلیف کاڈر ، ایذ اپہنچا نے کا خوف یا فتنہ کا خوف مراد ہے تاکہ آیتوں میں تعارض نہ ہو خلاصہ یہ ہے کہ کبریائی کی ہیبت مومن کے دل میں صرف اللہ تعالیٰ ہی کی چاہیے اور دوسری قسم کے فتنہ، تکلیف کا خوف مخلوق کا ہوسکتا ہے ۔
'' الف'' کی مثال یہ آیات ہیں :"
(1) وَاَوْفُوۡا بِعَہۡدِیۡۤ اُوۡفِ بِعَہۡدِکُمْ وَ اِیَّایَ فَارْہَبُوۡنِ ﴿۴۰﴾
تم میرا عہد پورا کرو میں تمہارا عہد پورا کرو ں گا اور صرف مجھ سے ہی ڈرو ۔(پ1،البقرۃ:40)
(2) فَلَا تَخْشَوْہُمْ وَاخْشَوْنِیۡ ٭
پس ان کا فروں سے نہ ڈرو مجھ سے ڈرو ۔(پ2،البقرۃ:150)
(3) الَّذِیۡنَ یُـبَلِّغُوۡنَ رِسٰلٰتِ اللہِ وَ یَخْشَوْنَہٗ وَلَا یَخْشَوْنَ اَحَدًا اِلَّا اللہَ ؕ
جو اللہ تعالیٰ کے پیغام پہنچا تے اور اس سے ڈرتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے ۔(پ22،الاحزاب:39)
(4) فَلَا تَخَافُوۡہُمْ وَخَافُوۡنِ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤْمِنِیۡنَ ﴿۱۷۵﴾
پس ان سے نہ ڈر ومجھ سے ڈرو اگر تم مسلمان ہو۔(پ4،ال عمرٰن:175)
(5) اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللہِ لَاخَوْفٌ عَلَیۡہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوۡنَ ﴿ۚ۶۲﴾
"خبردار ہو کہ اللہ کے دوستوں پر نہ خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔(پ11،یونس:62)
ان جیسی تمام وہ آیتیں جن میں غیر خدا سے ڈرنے کی ممانعت ہے ۔ ان میں الوہیت کا خوف مراد ہے یا مخلوق کاوہ خوف جو رب کی اطاعت سے روک دے یہ ڈر ممنوع ہے ۔'' ب'' کی مثال یہ آیات ہیں:"
(1)اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِکُمْ وَ اَوْلَادِکُمْ عَدُوًّا لَّکُمْ فَاحْذَرُوۡہُمْ ۚ
تمہاری بعض بیویاں اور بعض اولاد تمہاری دشمن ہیں ان سے ڈرتے رہو ۔(پ28،التغابن:14)
(2) قَالَا رَبَّنَاۤ اِنَّنَا نَخَافُ اَنۡ یَّفْرُطَ عَلَیۡنَاۤ اَوْ اَنۡ یَّطْغٰی ﴿۴۵﴾
حضرت موسی وہارون نے عرض کیا کہ اے ہمارے رب ہم ڈرتے ہیں کہ فرعون ہم پر زیادتی کریگا یا سرکشی ۔(پ16،طہ:45)
(3) فَلَمَّا رَاٰہَا تَہْتَزُّ کَاَنَّہَا جَآنٌّ وَّلّٰی مُدْبِرًا وَّلَمْ یُعَقِّبْط یٰمُوْسٰی لَا تَخَفْ
پھر موسی نے اس لاٹھی کو دیکھا لہراتا ہوا گو یا سانپ ہے تو پیٹھ پیر کر بھاگے اور مڑ کر نہ دیکھا اے موسی نہ ڈرو۔(پ19،النمل:10)
(4) فَاَوْجَسَ فِیۡ نَفْسِہٖ خِیۡفَۃً مُّوۡسٰی ﴿۶۷﴾
موسی علیہ السلام اپنے دل میں ڈرگئے ۔(پ16،طہ:67)
(5) قَالَ رَبِّ اِنِّیۡ قَتَلْتُ مِنْہُمْ نَفْسًا فَاَخَافُ اَنۡ یَّقْتُلُوۡنِ ﴿۳۳﴾
کہا موسی علیہ السلام نے اے میرے رب میں نے ان میں ایک آدمی مارڈالاہے تو میں ڈرتاہوں کہ وہ مجھے قتل کر دیں گے ۔(پ20،القصص:33)
(6) فَاَوْجَسَ مِنْہُمْ خِیۡفَۃً ؕ قَالُوۡا لَا تَخَفْ ؕ
"تو ابراہیم اپنے دل میں ان فرشوں سے ڈرگئے وہ بولے آپ ڈریئے نہیں ۔(پ26،الذٰریٰت:28)
ان جیسی بہت سی وہ آیتیں جن میں مخلوق سے ڈرنے کا حکم ہے یا ان سے ڈرنے کا ثبوت ہے ا ن میں وہی خوف مراد ہے جو عرض کیا گیا یعنی تکلیف کا خوف یا فتنہ کا ڈر ۔ اس قسم کے ڈرنہ ایمان کے خلاف ہیں اور نہ ولایت اور نبوت کے منافی ۔ دیکھو موسی علیہ السلام اور ابراہیم علیہ السلام نبی ہیں مگر سانپ سے ، فرعون سے ، ملائکہ سے خوف فرماتے ہیں لہٰذا انبیاء اور اولیاء اللہ سے خوف کرنا کہ یہ ناراض ہوکر بد دعائیں دیں گے اور ہم کو نقصان پہنچ جائیگا ۔ ایمان کے خلاف نہیں بلکہ ایمان کو قوی کرتا ہے موسی علیہ السلام کی بد دعا سے فرعونیوں کابیڑا غرق ہوا، نوح علیہ السلام کی بد دعا سے ساری دنیا کے کافر ہلاک کردیئے گئے۔ معلوم ہوا کہ ان کی بد دعا خطر ناک ہے بلکہ خدا تعالیٰ نے بغیر کسی بندے کی بد دعا کے کسی کو ہلاک نہ کیا ۔ ؎"
ہیچ قومے راخدا رسوا نہ کرد تادلے صاحب دلے نامد بدرد
الف : جن آیتو ں میں نبی سے کہلوایا گیا ہے کہ ہم تم جیسے بشر ہیں وہاں مطلب یہ ہے کہ خالص بندے ہونے میں تم جیسے بشر ہیں کہ جیسے تم نہ خدا ہو نہ خدا کے
"بیٹے،نہ خداکے ساجھی،شریک ایسے ہی ہم نہ خداہیں نہ اس کے بیٹے نہ اس کے ساجھی۔ خالص بندے ہیں ۔
ب: جن آیتوں میں نبی کو بشر کہنے پر کفر کا فتوے دیا گیا ہے اور انہیں بشرکہنے والوں کو کافر کہا گیا ہے ان کامطلب یہ ہے کہ جونبی کی ہمسری اور برابر ی کا دعوی کرتے ہوئے انہیں بشر کہے یا ان کی اہانت کرنے کے لئے بشر کہے یا یوں کہے کہ جیسے ہم محض بشر ہیں نبی نہیں ایسے ہی تم نبوت سے خالی ہو محض بشر ہو ۔وہ کافر ہے۔
'' الف'' کی مثال یہ ہے :"
(1) قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوۡحٰۤی اِلَیَّ
فرمادو کہ میں تم جیسا بشر ہوں کہ میری طر ف وحی کی گئی ۔(پ16،الکھف:110)
(2) قَالَتْ لَہُمْ رُسُلُہُمْ اِنۡ نَّحْنُ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ وَلٰکِنَّ اللہَ یَمُنُّ عَلٰی مَنۡ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ ؕ
"ان کے رسولوں نے ان سے کہا کہ ہم تو تمہاری طر ح انسا ن ہیں مگر اللہ اپنے بندوں میں جس پر چاہے احسان فرماتا ہے ۔(پ13،ابرٰھیم:11)
ان جیسی تمام آیات میں یہی مراد ہے کہ ہم'' اِلٰہ'' نہ ہونے میں اور خالص بندہ ہونے میں تم جیسے بشر ہیں اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ عام انسان پیغمبر کے برابر ہوجاویں ۔ ان آیات کی تائیدان آیتوں سے ہورہی ہے ۔"
(1) وَمَا مِنۡ دَآبَّۃٍ فِی الۡاَرْضِ وَلَا طٰٓئِرٍ یَّطِیۡرُ بِجَنَاحَیۡہِ اِلَّاۤ اُمَمٌ اَمْثَالُکُمۡ ؕ
اورنہیں ہے کوئی زمین میں چلنے والا اور نہ کوئی پر ندہ کہ اپنے پروں پر اڑتا ہو مگر تم جیسی امتیں ہیں ۔(پ7،الانعام:38)
(2) مَثَلُ نُوۡرِہٖ کَمِشْکٰوۃٍ فِیۡہَا مِصْبَاحٌ ؕ
"اس اللہ کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق جس میں چراغ ہے ۔(پ18،النور:35)
ان آیتو ں میں تمام جانوروں کو انسانوں کی مثل فرمایا گیا حالانکہ انسا ن اشرف المخلوقات ہے اور اللہ تعالیٰ کے نور کو طاق اور چراغ سے مثال دی گئی ۔ حالانکہ کہاں طا ق اور چراغ اور کہاں رب کا نورجیسے ان دونوں آیتوں کی وجہ سے یہ نہیں کہا جاسکتاکہ ہم جانوروں کی طرح یارب کانور طاق اور چراغ کی طر ح ۔اسی طرح نہیں کہا جاسکتاکہ ہم نبی کے برابریاان کی طر ح ہیں۔ یہ تمثیل فقط سمجھانے کیلئے ہے۔
''ب'' کی مثال یہ ہے :"
(1) فَقَالُوۡۤا اَبَشَرٌ یَّہۡدُوۡنَنَا ۫ فَکَفَرُوۡا وَ تَوَلَّوۡا وَّ اسْتَغْنَی اللہُ
پس کافر بولے کیا بشر ہمیں ہدایت کریگا لہٰذا وہ کافر ہوگئے پھر وہ پھر گئے اور اللہ بے پرواہ ہے ۔(پ28،التغابن:6)
(2) قَالَ لَمْ اَکُنۡ لِّاَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَہٗ مِنۡ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوۡنٍ ﴿۳۳﴾
شیطان نے کہا مجھے زیبا نہیں کہ بشر کو سجدہ کروں جسے تو نے بجتی مٹی سے بنایا جو سیاہ لیسدار گارے سے تھی ۔(پ14،الحجر:33)
(3) فَقَالَ الْمَلَؤُا الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ قَوْمِہٖ مَا ہٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ
تو جس قوم کے سرداروں نے کفر کیا وہ بولے یہ تو نہیں مگر تم جیسا آدمی ۔(پ18،المؤمنون:24)
(4) وَلَئِنْ اَطَعْتُمۡ بَشَرًا مِّثْلَکُمْ ۙ اِنَّکُمْ اِذًا لَّخٰسِرُوۡنَ ﴿ۙ۳۴﴾
کفار نے کہا کہ اگر تم کسی اپنے جیسے آدمی کی اطاعت کروگے تو تم ضرور گھاٹے میں رہوگے ۔(پ18،المؤمنون:34)
(5) فَقَالُوۡۤا اَنُؤْمِنُ لِبَشَرَیۡنِ مِثْلِنَا وَ قَوْمُہُمَا لَنَا عٰبِدُوۡنَ ﴿ۚ۴۷﴾
"فرعونی بولے کیا ہم ایمان لائیں اپنے جیسے دو آدمیوں پر اور ان کی قوم ہماری بندگی کر رہی ہے ۔
ان جیسی تمام آیتو ں میں فرمایا گیا کہ پیغمبر کو بشر کہنا اولاً شیطان کا کام تھا پھر ہمیشہ کفار نے کہا مومنوں نے یہ کبھی نہ کہا اور ان کفار کے کفر کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ انبیاء علیہم السلام سے برابری کے دعویدار ہوکر انہیں اپنی طر ح بشر کہتے تھے ۔
نوٹ ضروری: حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا بارہا اپنی بندگی اور بشریت کا اعلان کرنا اس لئے تھا کہ عیسائیوں نے عیسی علیہ السلام میں دو معجزے دیکھ کر انہیں خدا کا بیٹا کہہ دیا ، ایک توان کا بغیر باپ پیدا ہونا اور دوسرے مردے زندہ کرنا مسلمانوں نے صدہا معجزے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے دیکھے ، چاند پھٹتا ہوا ۔ سورج لوٹتا ہوا دیکھا کنکر کلمہ پڑھتے دیکھے انگلیوں سے پانی کے چشمے بہتے دیکھے۔ اندیشہ تھا کہ وہ بھی حضور کو خدا یا خدا کا بیٹا کہہ دیں ۔ اس احتیاط کے لئے بار بار اپنی بشریت کا اعلان فرمایا۔(پ18،المؤمنون:47)"
اس باب میں ان ضروری مسائل کا ذکر ہوگا جس کا بعض لوگ انکار کرتے ہیں حالانکہ وہ قرآن شریف سے صراحۃً ثابت ہے اور ان کے ثبوت میں صرف قرآنی آیات ہی پیش کی جاویں گی ۔ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل قبول فرمائے ۔
" جو عجیب وغریب حیرت انگیز کام نبی(علیہ السلام) سے صادر ہو تو اگر نبوت کے ظہور سے پہلے صادر ہوا وہ ارہا ص ہے۔ جیسے عیسیٰ علیہ السلام کابچپن شریف میں کلام فرمانا یا ہمارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کوکنکروں،پتھروں کابچپن میں سلام کرنا۔
اگر ظہو ر نبوت کے بعد ہو تو اسے معجزہ کہتے ہیں۔ جیسے موسی علیہ السلام کا عصا اور ید بیضا ۔یا نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا چاند کو چیرنا، سورج کو واپس لانا ،اور جو ولی(رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) سے صادر ہو اسے کرامت کہتے ہیں اورجو عجیب وغریب کا م کافر سے ہو وہ استدراج کہلاتا ہے ۔ جیسے دجال کا پانی برسانا، مردے زندہ کرنا۔
ابھی تک اللہ عزوجل کے فضل وکرم سے مسلمانوں میں کوئی فرقہ ایسا پیدا نہیں ہوا جو معجزات کا انکار کرتا ہو ۔ قادیانی صرف حضرت عیسی علیہ السلام کے معجزات کا انکار کرتے ہیں وہ صرف اس لئے کہ ان کے مسیح موعود میں کوئی معجزہ نہیں ۔تو وہ کہتے ہیں کہ چونکہ اصلی مسیح میں کوئی معجزہ نہ تھا اس لئے ان کے مثل مسیح میں کوئی معجزہ نہیں، ورنہ معجزات کے وہ بھی قائل ہیں۔ خود قرآن کریم کو حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کامعجزہ مانتے ہیں۔ ہاں بہت لوگ کرامات اولیاء اللہ کے منکر ہوگئے اور کہنے لگے کہ ساری کرامات گھڑے ہوئے قصے کہانی ہیں، قرآن سے ثبوت نہیں۔ ہم وہ آیات قرآنیہ پیش کرتے ہیں جن میں کرامات کا صریحی ذکر ہے ۔"
(1) کُلَّمَا دَخَلَ عَلَیۡہَا زَکَرِیَّا الْمِحْرَابَ ۙ وَجَدَ عِنۡدَہَا رِزْقًا ۚ قَالَ یٰمَرْیَمُ اَنّٰی لَکِ ہٰذَا ؕ قَالَتْ ہُوَ مِنْ عِنۡدِ اللہِ ؕ
"جب مریم کے پاس زکر یاعلیہ السلام آتے تو بے موسم پھل پاتے تو کہا اے مریم تمہارے پاس یہ کہا ں سے آئے تو بولیں یہ رب کے پاس سے آئے ہیں۔(پ3،ال عمرٰن:37)
حضرت مریم بنی اسرائیل کی ولیہ ہیں ان کی کرامت یہ بیان ہوئی کہ مقفل کوٹھڑی میں بے موسم پھل انہیں غیب سے عطا ہوئے یہ کرامت ولی ہے ۔"
(2) وَ لَبِثُوۡا فِیۡ کَہۡفِہِمْ ثَلٰثَ مِائَۃٍ سِنِیۡنَ وَازْدَادُوۡا تِسْعًا ﴿۲۵﴾
"اصحاب کہف غار میں تین سو بر س ٹھہرے نو اوپر ۔(پ15،الکھف:25)
اصحاب کہف نبی نہیں بلکہ بنی اسرائیل کے ولی ہیں ان کی کرامت یہ بیان ہوئی کہ غار میں تین سو نو برس سوتے رہے ۔ اتنا عرصہ بے غذا سونا اور فنا نہ ہونا کرامت ہے ۔"
(1) وَ تَحْسَبُہُمْ اَیۡقَاظًا وَّ ہُمْ رُقُوۡدٌ ٭ۖ وَّ نُقَلِّبُہُمْ ذَاتَ الْیَمِیۡنِ وَ ذَاتَ الشِّمَالِ ٭ۖ وَکَلْبُہُمۡ بَاسِطٌ ذِرَاعَیۡہِ بِالْوَصِیۡدِ ؕ
"اورتم انہیں جاگتا سمجھو اور وہ سورہے ہیں اور ہم انہیں دائیں بائیں کروٹیں بدلتے ہیں اور ان کا کتا اپنی کلائیاں پھیلا ئے ہوئے غار کی چو کھٹ پر ہے ۔(پ15،الکھف:18)
اس آیت میں اصحاب کہف جو اولیاء ہیں ۔ ان کی تین کرامتیں بیان ہوئیں ایک تو جاگنے کی طر ح اب تک سونا ۔ دوسرے رب کی طر ف سے کروٹیں بدلنا اور زمین کا ان کے جسموں کو نہ کھانا اور بغیر غذاباقی رہنا تیسرے ان کے کتے کا اب تک لیٹے رہنا یہ بھی ان کی کرامت ہے نہ کہ کتے کی ۔"
(2) قَالَ الَّذِیۡ عِنۡدَہٗ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتٰبِ اَنَا اٰتِیۡکَ بِہٖ قَبْلَ اَنۡ یَّرْتَدَّ اِلَیۡکَ طَرْفُکَ ؕ
"اور بولا وہ جس کے پاس کتا ب کا علم تھا کہ میں تخت بلقیس آپ کے پاس لے آؤں گا آپ کے پلک جھپکنے سے پہلے ۔(پ19،النمل:40)
اس آیت میںآصف بن بر خیا کی جو بنی اسرائیل کے نبی نہیں بلکہ ولی ہیں کئی کرامتیں بیان ہو ئیں۔ بغیر کسی کے پوچھے یمن پہنچ جانا ۔ وہاں سے اتنا وزنی تخت لے آنا اور یہ دور دراز سفر شام سے یمن تک جانا آناایک آن میں طے کرلینا ۔"
(3) فَانۡطَلَقَا ۟ حَتّٰۤی اِذَا رَکِبَا فِی السَّفِیۡنَۃِ خَرَقَہَا ؕ قَالَ اَخَرَقْتَہَا لِتُغْرِقَ اَہۡلَہَا ۚ
"دونوں موسیٰ وخضر علیہما السلام چلے یہاں تک کہ جب کشتی میں سوار ہوئے تو خضر نے کشتی کو توڑدیا موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ کیا تم نے اس لئے تو ڑ دیا کہ کشتی والے ڈوب جائیں ۔(پ15،الکھف:71)
اس آیت کریمہ میں خضر علیہ السلام جوکہ غالباً کسی قوم کے ولی ہیں ۔ ان کی یہ کرامت بیان کی کہ انہوں نے کشتی توڑ ڈالی مگر کشتی نہ ڈوبی ۔ حالانکہ موسی علیہ السلام کو خطرہ پیدا ہوگیا تھا ۔"
(1) وَ اَمَّا الْغُلٰمُ فَکَانَ اَبَوٰہُ مُؤْمِنَیۡنِ فَخَشِیۡنَاۤ اَنۡ یُّرْہِقَہُمَا طُغْیَانًا وَّکُفْرًا ﴿ۚ۸۰﴾
"حضرت خضر نے فرمایا کہ اس بچے کے ماں باپ مومن ہیں ہم نے خوف کیا کہ وہ انہیں سر کشی اور کفر پر چڑھادے ۔(پ16،الکھف:80)
اس آیت میں حضرت خضر کی یہ کرامت بیان ہوئی کہ انہوں نے مقتول بچے اور اس کے والدین کے انجام کو جان لیا کہ وہ مومن رہیں گے اور یہ کافر ہوگا حالانکہ یہ علوم خمسہ میں سے ہے ۔"
(2) وَکَانَ تَحْتَہٗ کَنۡزٌ لَّہُمَا وَکَانَ اَبُوۡہُمَا صَالِحًا ۚ
"خضر نے فرمایا کہ اس دیوار کے نیچے دو یتیموں کا خزانہ ہے اور ان کاباپ نیک آدمی تھا ۔(پ16،الکھف:82)
اس آیت میں خضر علیہ السلام کی یہ کرامت بیان ہوئی کہ انہوں نے زمین کے نیچے کا دفینہ معلوم کرلیا۔ان جیسی بہت سی آیات میں اولیاء اللہ کی کرامات بیان ہو ئیں ، ان کا علم غیب،طی الارض یعنی بہت جلدسفرطے کرنا،بے آب وغذا بہت عرصہ زندہ رہنا، غرضیکہ بہت کرامات کا ذکر ہے ۔"
"اللہ کے مقبول بندے باذن الٰہی مشکل کشا حاجت روادافع بلاہیں
اللہ کے پیارے اللہ کے حکم سے بندو ں کی حاجتیں پوری کرتے ہیں مشکلیں حل کرتے ہیں قرآن کریم اس کا اعلان فرمارہاہے ۔ دور ونزدیک ہر جگہ سے مافوق الاسباب مشکل کشائی اور مدد کرتے ہیں۔"
(1) اِذْہَبُوۡا بِقَمِیۡصِیۡ ہٰذَا فَاَلْقُوۡہُ عَلٰی وَجْہِ اَبِیۡ یَاۡتِ بَصِیۡرًا ۚ
میرا یہ کر تہ لے جاؤ اسے میرے باپ کے منہ پر ڈال دو ان کی آنکھیں کھل جائیں گی۔(پ13،یوسف:93)
(2) فَلَمَّاۤ اَنۡ جَآءَ الْبَشِیۡرُ اَلْقٰىہُ عَلٰی وَجْہِہٖ فَارْتَدَّ بَصِیۡرًا ۚ
"پھر جب خوشی سنا نے والا آیا تو وہ قمیص یعقوب کے منہ پر ڈال دی ۔ اسی وقت ان کی آنکھیں لوٹ آئیں ۔(پ13،یوسف:96)
یعقوب علیہ السلام نابینا ہوگئے تھے ان کی اس مصیبت کو یوسف علیہ السلام نے اپنی قمیص کے ذریعہ دور فرمایا اور ان کی مشکل کشائی کی قمیص سے شفا دینا مافوق الاسباب مدد ہے"
(3) وَلَقَدْ ہَمَّتْ بِہٖ ۚ وَہَمَّ بِہَا لَوْلَاۤ اَنۡ رَّاٰبُرْہَانَ رَبِّہٖ ؕ
"اوربے شک زلیخا نے قصد کرلیا یوسف کا اور یوسف علیہ السلام بھی ارادہ کرلیتے اگر اپنے رب کی دلیل نہ دیکھتے ۔(پ12،یوسف:24)
یوسف علیہ السلام کو زلیخا نے سات کو ٹھڑیوں میں بند کر کے اپنی طرف مائل کرنا چاہا تو آپ نے سامنے یعقوب علیہ السلام کو دیکھا کہ آپ اشارے سے منع فرمارہے ہیں جس سے آپ کے دل میں ادھر میلان نہ پیدا ہو ا۔ یہ رب تعالیٰ کی بر ہان تھی جس کا ذکر اس آیت میں ہے تو یعقوب علیہ السلام نے کنعان سے بیٹھے ہوئے مصر کی بندکوٹھڑی میں یوسف علیہ السلام کی یہ مدد کی کہ انہیں بڑی آفت اور ارادہ گناہ سے بچالیا۔ یہ ہے اللہ والوں کی مشکل کشائی اور مافوق الاسباب امداد ۔"
(1) وَاُبْرِیُٔ الۡاَکْمَہَ وَالۡاَبْرَصَ وَاُحۡیِ الْمَوْتٰی بِاِذْنِ اللہِ ۚ
"عیسی علیہ السلام نے کہا کہ میں اللہ کے حکم سے شفادیتاہوں مادرزاداندھوں اور کوڑھیوں کو اور مردو ں کو زندہ کرتا ہوں ۔(پ3،ال عمرٰن:49)
اندھا،کوڑھی ہونا بلاہے جسے عیسی علیہ السلام اللہ کے حکم سے دفع کردیتے ہیں لہٰذا اللہ کے پیارے دافع البلا ہوتے ہیں یعنی مافوق الاسباب مشکل کشائی فرماتے ہیں۔"
(2) فَقُلْنَا اضْرِبۡ بِّعَصَاکَ الْحَجَرَ ؕ فَانۡفَجَرَتْ مِنْہُ اثْنَتَا عَشْرَۃَ عَیۡنًا ؕ
"ہم نے موسی علیہ السلام سے کہا کہ اپنی لاٹھی سے پتھر کو ماروپس فوراً اس پتھر سے بارہ چشمے جاری ہوگئے ۔(پ1،البقرۃ:60)
بنی اسرئیل تیہ کے میدان میں پیا س کی آفت میں پھنسے تو رب تعالیٰ نے"
براہ راست انہیں پانی نہ دیا بلکہ موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا کہ آپ ان کے لئے دافع البلا بن جائیں تاکہ انہیں پانی ملے معلوم ہوا کہ اللہ کے بندے بحکم الٰہی پیاس کی بلا دور کرتے ہیں مافوق الاسباب ۔
(3) قَالَ اِنَّمَاۤ اَنَا رَسُوۡلُ رَبِّکِ ٭ۖ لِاَہَبَ لَکِ غُلٰمًا زَکِیًّا
"جبریل نے مریم سے کہا کہ میں تمہارے رب کا قاصد ہوں آیا ہوں تا کہ تمہیں ستھرا بیٹا دوں ۔(پ16،مریم:19)
معلوم ہوا کہ حضر ت جبریل علیہ السلام اللہ عزوجل کے حکم سے بیٹا بخشتے ہیں یعنی بندوں کی حاجتیں پوری کرتے ہیں۔"
(1) وَلَوْ اَنَّہُمْ اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمْ جَآءُوۡکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُوۡلُ لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّابًا رَّحِیۡمًا ﴿۶۴﴾
"اے محبوب اگر یہ مجرم لوگ اپنی جانوں پر ظلم کر کے آپ کے پاس آجاویں اور خدا سے مغفرت مانگیں اور آپ بھی ان کی سفارش کریں تو اللہ کوتوبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں ۔(پ5،النساء:64)
ا س آیت نے بتا یاکہ جو گناہو ں کی بیماری میں پھنس جاوے وہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے شفاخانہ میں پہنچے وہاں شفا ملے گی آپ دافع البلاء ہیں اور مافوق الاسباب گناہ بخشوادیتے ہیں۔"
(2) اُرْکُضْ بِرِجْلِکَ ۚ ہٰذَا مُغْتَسَلٌۢ بَارِدٌ وَّ شَرَابٌ ﴿۴۲﴾
"اے ایوب زمین پر اپنا پاؤں مارو یہ ہے ٹھنڈا چشمہ نہانے اور پینے کو ۔(پ23،ص:42)
ایوب علیہ السلام کی بیماری اس طر ح دور فرمائی گئی کہ ان سے فرمایا گیا ۔ اپنا"
پاؤں زمین پر رگڑو ۔ رگڑنے سے پانی کا چشمہ پیدا ہوا ۔ فرمایا اسے پی لو ۔ اور غسل فرمالو۔ پینے سے اندرونی تکلیف دور ہوئی اور غسل سے بیرونی بیماری کو شفا ہوئی معلوم ہوا کہ پیغمبر وں کے پاؤں کا دھوون اللہ کے حکم سے شفا ہے ۔ آج آب زمزم اس لئے شفا ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ایڑی سے پیدا ہوا ۔ مدینہ پاک کی مٹی کو خاک شفا کہتے ہیں کیونکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں مبارک سے مس ہوگئی معلوم ہوا کہ بزرگ دافع بلا ہیں او ریہ بر کتیں مافو ق الاسباب ہیں۔
(1) فَقَبَضْتُ قَبْضَۃً مِّنْ اَثَرِ الرَّسُوۡلِ فَنَبَذْتُہَا وَکَذٰلِکَ سَوَّلَتْ لِیۡ نَفْسِیۡ ﴿۹۶﴾
"پس میں نے فر شتے کے اثرسے ایک مٹھی مٹی لے لی پس یہ مٹی اس بچھڑے میں ڈالدی میرے دل نے یہی چاہا ۔(پ16،طہ:96)
سامری نے حضرت جبریل علیہ السلام کی گھوڑی کے ٹاپ کے نیچے کی خاک اٹھالی اور سونے کے بچھڑے کے منہ میں ڈالی جس سے اس میں زندگی پیدا ہوگئی اور وہ آواز کرنے لگا یہ ہی اس آیت میں مذ کورہے معلوم ہو اکہ بزرگو ں کے تبرکات بے جان دھات میں جان ڈال سکتے ہیں باذن اللہ !"
(1) اَنۡ یَّاۡتِیَکُمُ التَّابُوۡتُ فِیۡہِ سَکِیۡنَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمْ وَبَقِیَّۃٌ مِّمَّا تَرَکَ اٰلُ مُوۡسٰی وَاٰلُ ہٰرُوۡنَ تَحْمِلُہُ الْمَلٰٓئِکَۃُ
"نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس صندوق آوے گا جس میں تمہارے رب کی طر ف سے دل کاچین ہے او رکچھ بچی ہوئی چیز یں ہیں معزز موسی او رمعزز ہارون کے ترکہ کی اٹھائے لائیں گے اسے فر شتے ۔(پ2،البقرۃ:248)
بنی اسرائیل کو ایک صندو ق رب تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوا تھا جس میں حضرت موسی علیہ السلام کی پگڑی ، حضرت ہارون علیہ السلام کی نعلین شریف وغیرہ تھے اور"
انہیں حکم تھا کہ جنگ میں اسے اپنے سامنے رکھیں فتح ہوگی۔ اس آیت میں یہی واقعہ مذکور ہے جس سے معلوم ہوا کہ بزرگو ں کے تبر کات ان کی وفات کے بعد دافع البلاء ہیں خیال رہے مٹی سے جان پڑنا تبر کات سے فتح ہونا مافوق الاسباب مدد ہے ۔
(1) وَمَا کَانَ اللہُ لِیُعَذِّبَہُمْ وَاَنۡتَ فِیۡہِمْ ؕ
اور اللہ تعالیٰ انہیں عذاب نہیں دے گا حالانکہ آپ ان میں ہیں ۔(پ9،الانفال:33)
(2) لَوْ تَزَیَّلُوۡا لَعَذَّبْنَا الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنْہُمْ
اگر مسلمان مکہ سے نکل جاتے تو ہم کافروں پر عذاب بھیجتے ۔(پ26،الفتح:25)
(3) فَاَخْرَجْنَا مَنۡ کَانَ فِیۡہَا مِنَ الْمُؤْمِنِیۡنَ ﴿ۚ۳۵﴾
"پس نکال دیا ہم نے قوم لوط کی بستی سے ان مومنوں کو جو وہا ں تھے ۔(پ27،الذٰریت:35)
ان آیات میں فرمایا کہ دنیا پر عذاب نہ آنے کی وجہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا تشریف فرما ہونا ہے نیز مکہ والوں پر فتح مکہ سے پہلے اس لئے عذاب نہ آیا کہ وہا ں کچھ غریب مسلمان تھے قوم لوط پر عذاب جب آیا تو مومنین کو وہاں سے پہلے ہی نکال دیا معلوم ہو اکہ انبیاء کرام علیہم السلام او رمومنین کے طفیل سے عذاب الٰہی نہیں آتا۔ یہ حضرات دافع البلاء ہیں بلکہ آج بھی ہمارے اس قدر گناہوں کے باوجود جو عذاب نہیں آتا یہ سب اس سبز گنبد کی بر کت سے ہے ۔ اعلیٰ حضرت نے کیا خوب فرمایا ؎"
"تمہیں حاکم برایا تمہیں قاسم عطایا تمہیں دافع بلایا تمہیں شافع خطایا
کوئی تم سا کون آیا"
اعتراض: قرآن شریف سے ثابت ہے کہ بہت دفعہ پیغمبر وں نے کسی کو دعا یا بد دعا دی ۔ مگر قبول نہ ہوئی پھر وہ مشکل کشا،دافع البلا کیسے ہوئے؟
جواب: یہ حضرات اللہ کے حکم سے دافع البلاء اورمشکل کشاہیں جہاں اذن الٰہی نہ ہو وہا ں بلاد فع نہ ہوگی۔ ہر چیز کا یہی حال ہے کہ خدا کے حکم سے نفع یا نقصان دیتی ہے غرضیکہ انبیاء واولیا ء مافوق الاسباب مدد کرتے ہیں مشکلیں آسان ، مصیبت دور فرما تے ہیں ۔
"تمہارے منہ سے جو نکلی وہ بات ہو کے رہی !
اللہ کے پیاروں کی زبان کن کی کنجی ہے جو ان کے منہ سے نکل جاتا ہے وہ اللہ کے حکم سے پورا ہوجاتا ہے ۔ اس پر قرآن شریف کی آیتیں گواہ ہیں۔"
(1) قَالَ فَاذْہَبْ فَاِنَّ لَکَ فِی الْحَیٰوۃِ اَنۡ تَقُوۡلَ لَا مِسَاسَ ۪ وَ اِنَّ لَکَ مَوْعِدًا لَّنْ تُخْلَفَہٗ ۚ
"موسی علیہ السلام نے فرمایا اچھا جا تیری سزا دنیا کی زندگی میں یہ ہے کہ تو کہتا پھر یگا کہ چھونہ جانا اور بے شک تیرے لئے ایک وعدے کا وقت ہے جوتجھ سے خلاف نہ ہوگا (پ16،طہ:97)
موسیٰ علیہ السلام سامری سے ناراض ہوگئے کیونکہ اس نے بچھڑا بنا کر لوگوں کو مشرک کردیا تھا توآپ کے منہ سے نکل گیا جا تیرے جسم میں یہ تاثیرپیدا ہوجائے گی کہ جس سے تو چھوجاوے تو اسے بھی بخا ر آجاوے او رتجھے بھی ایسا ہی ہواو روہ لوگوں سے کہتا پھرتا تھا کہ مجھے کوئی نہ چھونا اور فرمایا کہ یہ تو دنیا کی سزا ہے ۔ آخرت کی سزا اس کے علاوہ ہے۔"
(2) وَ اَمَّا الۡاٰخَرُ فَیُصْلَبُ فَتَاۡکُلُ الطَّیۡرُ مِنۡ رَّاۡسِہٖ ؕ قُضِیَ الۡاَمْرُ الَّذِیۡ فِیۡہِ تَسْتَفْتِیٰنِ ﴿ؕ۴۱﴾
اور لیکن دوسرا قید ی پس سولی دیا جائیگا او رپھر پرندے اس کا سر کھائیں گے فیصلہ ہوچکا اس بات کا جس کا تم سوال کرتے ہو۔(پ12،یوسف:41)
یوسف علیہ السلام سے جیل میں ایک قیدی نے اپنا خواب بیان کیا آپ نے تعبیر دی کہ تجھے سولی ہوگی ۔ وہ بولا کہ میں نے خواب تو کچھ بھی نہ دیکھا تھا میں تو مذاق میں کہتا تھا آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ تو نے خواب دیکھا ہو یا نہ دیکھا ہو جو میرے منہ سے نکل گیا وہ رب تعالیٰ کے ہاں فیصلہ ہوگیا،پتا لگا کہ ان کی زبان رب کا قلم ہے ۔
(1) رَبَّنَا اطْمِسْ عَلٰۤی اَمْوَالِہِمْ وَاشْدُدْ عَلٰی قُلُوۡبِہِمْ فَلَا یُؤْمِنُوۡا حَتّٰی یَرَوُا الْعَذَابَ الۡاَلِیۡمَ ﴿۸۸﴾
"موسی علیہ السلام نے عرض کیا کہ اے ہمارے رب فرعونیوں کے مال برباد کردے اور ان کے دل سخت کردے پس یہ نہ ایمان لاویں جب تک کہ درد ناک عذاب دیکھ لیں ۔(پ11،یونس:88)
موسیٰ علیہ السلام نے فرعونیوں کے لئے تین بد دعائیں کیں ایک یہ کہ ان کے مال ہلاک ہو جائیں ۔ دوسرے اپنے جیتے جی یہ ایمان نہ لاویں ۔ تیسرے یہ کہ مرتے وقت ایمان لاویں اور پھر ایمان قبول نہ ہو۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ فرعونیوں کا روپیہ پیسہ، پھل، غلہ سب پتھر ہوگیا اور ایمان کی توفیق زندگی میں نہ ملی ۔اور ڈوبتے وقت فرعون ایمان لایا اور بولا"
اٰمَنْتُ بِرَبِّ مُوْسٰی وَھٰرُوْنَ
میں حضرت موسی اور ہارون کے رب پر ایمان لاتا ہوں مگر ایمان قبول نہ ہوا۔ دیکھو فرعون کے سواکوئی کافر قوم ایمان لاکر نہ مری جو کلیم اللہ علیہ السلام کے منہ سے نکلا وہ ہی ہو ا۔
(1) وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰہٖمُ رَبِّ اجْعَلْ ہٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا وَّارْزُقْ اَہۡلَہٗ مِنَ الثَّمَرٰتِ
جب ابراہیم نے عرض کیا کہ مولیٰ اس جگہ کو امن والا شہر بنادے اور یہاں کے باشندوں کوطر ح طر ح کے پھل دے ۔(پ1،البقرۃ:126)
(2) وَمِنۡ ذُرِّیَّتِنَاۤ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ ۪
ابراہیم نے دعا کی کہ ہماری اولاد میں ہمیشہ ایک جماعت فرمانبردار رکھ۔(پ1،البقرۃ:128)
(3) رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیۡہِمْ رَسُوۡلًا مِّنْہُمْ یَتْلُوۡا عَلَیۡہِمْ اٰیٰتِکَ
اے رب ہمارے اسی مسلم جماعت میں وہ رسول آخری بھیج جوان پر تیری آیتیں تلاوت کرے ۔(پ1،البقرۃ:129)
(4) رَبَّنَاۤ اِنِّیۡۤ اَسْکَنۡتُ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ بِوَادٍ غَیۡرِ ذِیۡ زَرْعٍ عِنۡدَ بَیۡتِکَ الْمُحَرَّمِ ۙ رَبَّنَا لِیُـقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ فَاجْعَلْ اَفْئِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَہۡوِیۡۤ اِلَیۡہِمْ وَارْزُقْہُمۡ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّہُمْ یَشْکُرُوۡنَ ﴿۳۷﴾
"اے میرے رب میں نے اپنی کچھ اولاد ایک جنگل میں بسائی ہے جس میں کھیتی نہیں تیرے حرمت والے گھر کے پاس اے رب ہمارے اس لئے کہ نماز قائم رکھیں تو توکچھ لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کردے اور انہیں کچھ پھل کھانے کو دے شائد وہ احسان مانیں ۔(پ13،ابرٰھیم:37)
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کی حسب ذیل دعاؤں کا ذکر فرمایا :
(۱) اس جنگل کو شہر بنادے (۲) شہرامن والا ہو(۳) یہاں کے باشندوں کو روزی اورپھل دے (۴) ہماری اولاد سب کافر نہ ہوجائے ۔ہمیشہ کچھ مسلمان ضرورر ہیں
(۵) اس مومن اولاد میں نبی آخر الزمان پیدا ہوں(۶) لوگوں کے دل اس بستی کی طرف مائل فرمادے۔(۷)یہ لوگ نماز قائم رکھیں ۔
آج بھی دیکھ لو کہ یہ سات دعائیں کیسی قبول ہوئیں ۔ وہاں آج تک مکہ شریف آبا د ہے آپ کی ساری اولاد کا فر نہ ہوئی سید صاحبان سب گمراہ نہیں ہوسکتے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اسی مومن جماعت میں پیدا ہوئے ۔ وہاں باوجود یکہ کھیتی باڑی نہیں مگر رزق اورپھل کی کثرت ہے ہر جگہ قحط سے لوگ مرتے ہیں مگر وہاں آج"
تک کوئی قحط سے نہیں مرا مسلمانوں کے دل مکہ شریف کی طر ف کیسے مائل ہیں وہ دن رات دیکھنے میں آرہا ہے کہ فاسق وفاجر بھی مکہ پر فدا ہیں۔
نوٹ ضروری : حضرت ابراہیم علیہ السلام کے منہ سے نکل گیا کہ
بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ
بے کھیتی والاجنگل تا ثیر تو دیکھو کہ اب تک وہ جگہ ریتلی ہی ہے کہ وہاں کھیتی ہوسکتی ہی نہیں۔ یہ ان کی زبان کی تاثیر ہے ۔ اور کیوں نہ ہو رب تعالیٰ نے فرمایا: اپنالڑکا ذبح کردو ۔عرض کیا: بہت اچھا۔ فرمایا: اپنے کو نمرو د کی آگ میں ڈال دو۔ عرض کیا: بہت اچھا۔ فرمایا: اپنے بچے بیوی کو ویران جنگل میں بے آب ودانہ چھوڑ آؤ ۔ عرض کیا: بہت اچھا۔ یہ نہ پوچھا کہ کیوں ؟ جب وہ رب تعالیٰ کی اتنی مانتے ہیں تو رب تعالیٰ بھی ان کی مانتا ہے ۔خلیل نے کہاجلیل نے مانا غرضکہ انکی زبان کن کی کنجی ہے ۔
(1) وَ قَالَ نُوْحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیۡنَ دَیَّارًا ﴿۲۶﴾اِنَّکَ اِنۡ تَذَرْہُمْ یُضِلُّوۡا عِبَادَکَ وَ لَا یَلِدُوۡۤا اِلَّا فَاجِرًا کَفَّارًا ﴿۲۷﴾رَبِّ اغْفِرْ لِیۡ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِمَنۡ دَخَلَ بَیۡتِیَ مُؤْمِنًا وَّ لِلْمُؤْمِنِیۡنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ ؕ وَ لَا تَزِدِ الظّٰلِمِیۡنَ اِلَّا تَبَارًا ﴿٪۲۸﴾
"اور نوح نے عرض کیا کہ اے رب میرے زمین پر کافروں میں سے کوئی رہنے والا نہ چھوڑ،بے شک اگر تو انہیں چھوڑ ے گا تو تیرے بندوں کو گمراہ کر دیں گے اور نہ جنیں گے مگر بدکار ناشکرکو۔اے میرے رب مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اور اسے جو ایمان کے ساتھ میرے گھر میں ہے اور سب مسلمان مردوں اور سب مسلمان عورتوں کو اور کافروں کو نہ بڑھا (پ29،نوح:26۔28) مگر تباہی
سورہ نوح کی ان آخری تین آیتوں میں نوح علیہ السلام کی تین دعائیں ذکر"
"ہوئیں۔سارے کافروں کوہلاک کردے کہ اب ان کی اولاد بھی کافر ہی ہوگی۔ میری اور میرے ماں باپ کی مغفرت کر اور جو میرے گھر میں پناہ لے لے اسے بھی بخش دے۔ ان دعاؤں کو رب تعالیٰ نے حرف بحرف قبول فرمایا ۔سارے عالم کے کافر غرق کردیے گئے ۔آپ کے ماں باپ کی مغفرت کی گئی اور جس نے کشتی میں پناہ لی اسے بچالیاگیا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ نے نبوت کی عینک سے ان کی ہونے والی اولاد تک کا حال معلوم کرلیاکہ وہ کافر ہی ہوگی۔ خلاصہ یہ ہوا کہ ان حضرات کی زبانیں ''کن'' کی کنجی ہیں۔
یہ بھی خیال رہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی جو دعاارادہ الٰہی کے خلاف ہوتی ہے اس سے انہیں روک دیا جاتاہے تا کہ ان کی زبان خالی نہ جاوے اور یہ انتہائی عظمت ہوتی ہے۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے:"
(1) یٰۤـاِبْرٰہِیۡمُ اَعْرِضْ عَنْ ہٰذَا ۚ اِنَّہٗ قَدْ جَآءَ اَمْرُ رَبِّکَ ۚ وَ اِنَّہُمْ اٰتِیۡہِمْ عَذَابٌ غَیۡرُ مَرْدُوۡدٍ ﴿۷۶﴾
اے ابراہیم اس دعا سے اعراض کرو قوم لوط پر عذاب آنے والا ہے نہیں لوٹ سکتا ۔(پ12،ھود:76)
(2) وَلَا تُصَلِّ عَلٰۤی اَحَدٍ مِّنْہُمۡ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَاتَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ ؕ
"آپ منافقین میں سے کسی پر جو مرجائے نماز نہ پڑھیں اور اس کی قبر پر کھڑے نہ ہوں۔(پ10،التوبۃ:84)
ابراہیم علیہ السلام نے قوم لوط کے لئے دعا فرمائی لیکن چونکہ ان کی نجات ارادہ الٰہی کے خلاف تھی لہٰذا انہیں اس سے روک دیا گیا ۔ ہمارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو"
"منافق پر جنازہ سے روک دیا گیا کیونکہ اس نماز میں میت کے لئے دعا بخشش ہوتی ہے اور منافقین کی بخشش ارادہ الٰہی کے خلاف ہے لہٰذا آپ کو اور آپ کے صدقے سے سب کو اس سے منع کردیاگیا ۔
خلاصہ یہ ہے کہ ان حضرات کی دعا قبول ہوتو بھی ان کی عظمت اور اگر ان کی دعا کسی وجہ سے قبول نہ بھی ہوسکے تو بھی ان کی عظمت ہے ، ان کی مثل کوئی ہوسکتا ہی نہیں ۔"
اللہ کے پیارے بندے نزدیک ودور کی چیزیں دیکھتے ہیں اور دو ر کی آہستہ آواز بھی باذن الٰہی سنتے ہیں۔ قرآن کریم اس پر گواہ ہے ۔
(1) قَالَتْ نَمْلَۃٌ یّٰۤاَیُّہَا النَّمْلُ ادْخُلُوۡا مَسٰکِنَکُمْ ۚ لَا یَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیۡمٰنُ وَ جُنُوۡدُہٗ ۙ وَ ہُمْ لَا یَشْعُرُوۡنَ ﴿۱۸﴾فَتَبَسَّمَ ضَاحِکًا مِّنۡ قَوْلِہَا
"ایک چیونٹی بولی کہ اے چیونٹیواپنے گھروں میں چلی جاؤ تمہیں کچل نہ ڈالیں سلیمان اور ان کالشکر بے خبری میں تو سلیمان اس چیونٹی کی آواز سن کر مسکراکر ہنسے ۔(پ19،النمل:18،19)
چیونٹی کی آواز نہایت باریک جو ہم کو قریب سے بھی معلوم نہیں ہوتی حضرت سلیمان علیہ السلام نے کئی میل دور سے سنی کیونکہ وہ اس وقت چیونٹیوں سے کہہ رہی تھی جب آپ کا لشکر ابھی اس جنگل میں داخل نہ ہواتھا اور لشکر تین میل میں تھا تو آپ نے یہ آواز یقینا تین میل سے زیادہ فاصلہ سے سنی۔ رہا چیونٹیوں کا یہ کہنا کہ'' وہ بے خبری"
میں کچل دیں۔'' اس سے مراد بے علمی نہیں ہے بلکہ ان کا عد ل وانصاف بتا نا مقصو د ہے کہ وہ بے قصور چیونٹی کوبھی نہیں مارتے ۔اگر تم کچلی گئیں تو اس کی وجہ صرف ان کی بے تو جہی ہوگی کہ تمہارا خیال نہ کریں اور تم کچلی جاؤ ۔
(1) وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِیۡرُ قَالَ اَبُوۡہُمْ اِنِّیۡ لَاَجِدُ رِیۡحَ یُوۡسُفَ لَوْ لَا اَنۡ تُفَنِّدُوۡنِ ﴿۹۴﴾
"جب قافلہ مصر سے جدا ہوا یہاں ان کے باپ نے کہا کہ بے شک میں یوسف کی خوشبو پاتا ہوں اگر تم مجھے سٹھا ہوا نہ کہو۔(پ13،یوسف:94)
یعقوب علیہ السلام کنعان میں ہیں او ریوسف علیہ السلام کی قمیص مصر سے چلی ہے اور آپ نے خوشبو یہاں سے پالی ۔ یہ نبوت کی طا قت ہے ۔"
(2) قَالَ الَّذِیۡ عِنۡدَہٗ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتٰبِ اَنَا اٰتِیۡکَ بِہٖ قَبْلَ اَنۡ یَّرْتَدَّ اِلَیۡکَ طَرْفُکَ ؕ
"اس نے کہا جس کے پاس کتا ب کا علم تھا کہ میں اسے آپ کے پاس حاضر کردوں گا آپ کے پلک مارنے سے پہلے ۔(پ19،النمل:40)
آصف شام میں ہیں اور بلقیس کا تخت یمن میں اور فوراً لانے کی خبر دے رہے ہیں اور لانا جانے کے بغیر ناممکن ہے۔ معلوم ہوا کہ وہ اس تخت کو یہاں سے دیکھ رہے ہیں یہ ہے ولی کی نظر ۔"
(3) وَاُنَبِّئُکُمۡ بِمَا تَاۡکُلُوۡنَ وَمَا تَدَّخِرُوۡنَ ۙ فِیۡ بُیُوۡتِکُمْ ؕ
"عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں تمہیں خبر دیتا ہوں اس کی جو تم اپنے گھروں میں کھاتے ہو اور جو جمع کرتے ہو۔(پ3،اٰل عمرٰن:49)
عیسیٰ علیہ السلام کی آنکھ گھروں کے اندر جو ہو رہا ہے اسے دور سے دیکھ رہی ہے کہ کون کھا رہا ہے اور کیا رکھ رہاہے یہ ہے نبی کی قوت نظر۔"
(4) اِنَّہٗ یَرٰىکُمْ ہُوَ وَقَبِیۡلُہٗ مِنْ حَیۡثُ لَا تَرَوْنَہُمْ ؕ
وہ ابلیس اور اس کا قبیلہ تم سب کو دیکھتے ہیں جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھتے۔(پ8،الاعراف:27)
(1) قُلْ یَتَوَفّٰىکُمۡ مَّلَکُ الْمَوْتِ الَّذِیۡ وُکِّلَ بِکُمْ
"فرمادو تم سب کو موت کا فرشتہ موت دیگا جوتم پر مقرر کیا گیا ہے ۔(پ21،السجدۃ:11)
شیطان اور اس کی ذریت کو گمراہ کرنے کے لئے ،ملک الموت کو جان نکالنے کے لئے یہ طاقت دی کہ عالم کے ہر انسان بلکہ ہر جاندار کو دیکھ لیتے ہیں تو انبیاء واولیاء کو جو رہبر و ہادی ہیں سارے عالم کی خبر ہونا لازم ہے تا کہ دوا کی طا قت بیماری سے کم نہ ہو۔"
(2) وَ اَذِّنۡ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاۡتُوۡکَ رِجَالًا وَّعَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ
"اورلوگوں کو حج کا اعلان سنا دو وہ آئیں گے تمہارے پاس پیدل اور ہر اونٹنی پر ۔(پ17،الحج:27)
ابراہیم علیہ السلام کی آواز تمام انسانوں نے سنی جو قیامت تک ہونے والے ہیں ۔"
(3) وَکَذٰلِکَ نُرِیۡۤ اِبْرٰہِیۡمَ مَلَکُوۡتَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَلِیَکُوۡنَ مِنَ الْمُوۡقِنِیۡنَ ﴿۷۵﴾
"اوراس طر ح ہم ابراہیم کو دکھاتے ہیں آسمانوں او رزمین کی بادشاہت اور اس لئے کہ وہ عین الیقین والوں میں سے ہوجائیں۔(پ7،الانعام:75)
اس آیت سے معلوم ہواکہ ابراہیم علیہ السلام کی آنکھوں کو رب تعالیٰ نے وہ بینائی بخشی کہ انہوں نے''تحت الثرٰی''سے ''عرش اعلیٰ'' تک دیکھ لیا۔ کیونکہ خدا کی بادشاہی تو ہر جگہ ہے اور ساری بادشاہی انہیں دکھائی گئی ۔"
(4) اَلَمْ تَرَ کَیۡفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحٰبِ الْفِیۡلِ ؕ﴿۱﴾
کیا نہ دیکھا آپ نے کہ آپ کے رب نے ہاتھی والوں سے کیا کیا ؟(پ30،الفیل:1)
(1) اَلَمْ تَرَ کَیۡفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِعَادٍ ﴿۶﴾
"کیا نہ دیکھا آپ نے اے محبوب کہ آپ کے رب نے قوم عاد سے کیا کیا؟(پ30،الفجر:6)
اصحاب فیل کی تباہی نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت شریف سے چالیس دن پہلے ہے اور قوم عاد وثمود پر عذاب آنا حضور کی ولاد ت شریف سے ہزاروں بر س پہلے ہے لیکن ان دونوں قسم کے واقعوں کے لئے رب تعالیٰ نے استفہام انکاری کے طور پر فرمایا:''اَلَمْ تَرَ''کیا آپ نے یہ واقعات نہ دیکھے یعنی دیکھے ہیں معلوم ہو ا کہ نبی کی نظر گذشتہ آئندہ سب کو دیکھتی ہے اس لئے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے معراج کی رات دوزخ میں مختلف قوموں کو عذاب پاتے دیکھا ۔ حالانکہ ان کا عذاب پانا قیامت کے بعد ہوگا ۔ اس لئے رب تعالیٰ نے فرمایا :"
(2) سُبْحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الۡاَقْصَا الَّذِیۡ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ البَصِیۡرُ ﴿۱﴾
"پاک ہے وہ اللہ جو راتوں رات لے گیا اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصی تک جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے تا کہ ہم اسے اپنی نشانیاں دکھائیں بے شک وہ بندہ سننے والا دیکھنے والاہے ۔(پ15،بنی اسرآء یل:1)
معلوم ہو اکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی نظر نے اگلے پچھلے واقعات ،اللہ کی ذات ،صفات ، نشانیاں، قدرت سب کو دیکھا ۔
اعتراض: یعقوب علیہ السلام کی نظر او رقوت شامہ اگر اتنی تیز تھی کہ مصر کے حالات معلوم کرلیئے تو چالیس سال تک فراق یوسف میں کیوں روتے رہے ان کے رونے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ یوسف علیہ السلام سے بے خبر تھے ۔"
جواب : اس کاآسان جواب تویہ ہے کہ انبیاء کی تمام قوتیں اللہ تعالیٰ کی مشیت میں ہیں جب چاہتا ہے تب انہیں ادھر متوجہ کردیتا ہے اور جب چاہتا ہے ادھر متوجہ نہیں فرماتا ۔ بے علمی او ر ہے بے تو جہی کچھ اور۔ تحقیقی جواب یہ ہے کہ یعقوب علیہ السلام کا گر یہ عشق الٰہی میں تھا یوسف علیہ السلام اس کا سبب ظاہر ی تھے مجاز حقیقت کا پل ہے ورنہ آپ یوسف علیہ السلام کے ہر حال سے واقف تھے خود قرآن کریم نے ان کے کچھ قول ایسے نقل فرمائے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سب کچھ جانتے تھے ۔ فرماتا ہے ۔
(1) قَالَ اِنَّمَاۤ اَشْکُوۡا بَثِّیۡ وَحُزْنِیۡۤ اِلَی اللہِ وَاَعْلَمُ مِنَ اللہِ مَا لَا تَعْلَمُوۡنَ ﴿۸۶﴾ یٰبَنِیَّ اذْہَبُوۡا فَتَحَسَّسُوۡا مِنۡ یُّوۡسُفَ وَاَخِیۡہِ وَلَا تَایۡـَٔسُوۡا مِنۡ رَّوْحِ اللہِ ؕ
میں اپنی پر یشانی او رغم کی فریاد اللہ سے کرتاہوں اوراللہ کی طر ف سے وہ باتیں جانتا ہوں جوتم نہیں جانتے اے بچو!جاؤ یوسف او راس کے بھائی کا سراغ لگاؤاور اللہ سے ناامید نہ ہو۔(پ13،یوسف:86،87)
(2) عَسَی اللہُ اَنۡ یَّاۡتِـیَنِیۡ بِہِمْ جَمِیۡعًا ؕ
"قریب ہے کہ اللہ ان تینوں یہود ا،بنیامین، یوسف کو میرے پاس لائے گا ۔(پ13،یوسف:83)
پہلی آیت میں فرمایا گیا کہ برادارن یوسف علیہ السلام بنیامین کو مصر میں چھوڑ کر آئے تھے مگر آپ فرماتے ہیں یوسف اور اس کے بنیامین بھائی کا سراغ لگاؤ یعنی وہ دونوں ایک ہی جگہ ہیں دوسری آیت سے معلوم ہو اکہ دو بارہ مصر میں بظاہر یہودا اور بینا مین دو نوں گئے تھے مگر آپ فرماتے ہیں کہ اللہ ان تینوں کو میرے پاس لائے گا تیسرے کو ن تھے وہ یوسف علیہ السلام ہی تو تھے ۔"
(3) وَکَذٰلِکَ یَجْتَبِیۡکَ رَبُّکَ وَیُعَلِّمُکَ مِنۡ تَاۡوِیۡلِ الۡاَحَادِیۡثِ
"اے یوسف تمہیں اللہ اسی طر ح نبوت کے لئے چنے گا او ر تمہیں باتوں کا انجام بتائے گا۔(پ12،یوسف:6)
خود تعبیر دے چکے ہیں کہ تم نبی بنوگے اور علم تعبیر دیئے جاؤگے اور ابھی تک وہ تعبیر ظاہر نہ ہوئی تھی اور آپ جانتے تھے کہ یہ خواب سچا ہے ضرور ظاہر ہوگا ۔
اعتراض: حضرت سلیمان علیہ السلام کو بلقیس کے ملک کی خبر نہ ہوئی ہدہد نے کہا"
اَحَطۡتُّ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِہٖ وَ جِئْتُکَ مِنۡ سَبَاٍۭ بِنَبَاٍ یَّقِیۡنٍ ﴿۲۲﴾
"میں وہ بات دیکھ آیا ہوں جو آپ نے نہ دیکھی اورمیں آپ کے پاس سبا سے سچی خبر لایا ہوں ۔(پ19،النمل:22)
اس کے جواب میں آپ نے فرمایا :"
قَالَ سَنَنۡظُرُ اَصَدَقْتَ اَمْ کُنۡتَ مِنَ الْکٰذِبِیۡنَ ﴿۲۷﴾
"فرمایا اب ہم دیکھیں گے کہ تو نے سچ کہا یا تو جھوٹوں میں سے ہے ۔(پ19،النمل:27)
اگر آپ ملک بلقیس سے واقف ہوتے تو بلقیس کے پاس خط بھیج کر یہ تحقیق کیوں فرماتے کہ ہدہد سچا ہے یا جھوٹا معلوم ہوا کہ آپ بلقیس سے بے خبر تھے اور ہدہد خبر دار تھا پتا لگا کہ نبی کے علم سے جانور کا علم زیادہ ہوسکتا ہے۔( وہابی دیوبندی)
جواب : ان آیات میں رب تعالیٰ نے کہیں نہ فرمایا کہ سلیمان علیہ السلام کو علم نہ تھا ہدہد نے بھی آکر یہ نہ کہا کہ آپ کو بلقیس کی خبر نہیں وہ کہتا ہے"
اَحَطْتُّ بِمَا لَمْ تُحِطْ
میں وہ چیز دیکھ کرآیاجو آپ نے نہ دیکھی۔ یعنی نہ آپ وہاں گئے تھے نہ دیکھ کر آئے تھے۔ یہ کہاں سے پتا لگا کہ آپ بے خبر بھی تھے اگر بے خبر ہوتے تو جب آصف کوحکم دیا کہ بلقیس کا تخت لاؤ تو آصف نے کہا کہ حضور میں نے وہ جگہ دیکھی نہیں نہ مجھے خبر ہے کہ
اس کا تخت کہا ں رکھا ہے آپ ہدہد کو میرے ساتھ بھیجیں وہ راستہ دکھائے تو میں لادوں گا نہ کسی سے راستہ پوچھا نہ پتا دریافت کیا بلکہ آناً فاناً حاضر کردیا ۔ اگر وہ تخت ان کی نگاہوں کے سامنے نہ تھاتو لے کیسے آئے جب آصف کی نگاہ سے تخت غائب نہیں تو حضرت سلیمان علیہ السلام سے کیسے غائب ہوگا ۔ مگر ہر کام کا ایک وقت اور ایک سبب ہوتا ہے بلقیس کے ایمان لانے کا یہ ہی وقت تھا او رہدہد کو اس کا سبب بنانا منظور تھا تاکہ پتالگے کہ پیغمبر وں کے درباری جانور بھی لوگو ں کو ایمان دیا کرتے ہیں اس لیے اس سے پہلے آپ کو بلقیس کی خبر نہ دی۔آپ کا تحقیق فرمانا بے علمی کی دلیل نہیں ورنہ رب تعالیٰ بھی قیامت میں تمام مخلوق کے اعمال کی تحقیق فرما کر فیصلہ کر ے گا ۔ تو چاہئے کہ وہ بھی بے خبر ہو۔
اس مسئلہ کی تحقیق پہلے بابو ں میں ہوچکی ہے کہ مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے کہ مردے سنتے ہیں او رزندوں کے حالات دیکھتے ہیں کچھ اجمالی طور سے یہاں عرض کیا جاتا ہے ۔
(1) فَاَخَذَتْہُمُ الرَّجْفَۃُ فَاَصْبَحُوۡا فِیۡ دَارِہِمْ جٰثِمِیۡنَ ﴿۷۸﴾فَتَوَلّٰی عَنْہُمْ وَقَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسَالَۃَ رَبِّیۡ وَنَصَحْتُ لَکُمْ وَلٰکِنۡ لَّاتُحِبُّوۡنَ النّٰصِحِیۡنَ ﴿۷۹﴾
پس پکڑلیاقوم صالح کو زلزلے نے تو وہ صبح کو اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے پھر صالح نے ان سے منہ پھیرا اورکہا کہ اے میری قوم میں نے تمہیں اپنے رب کی رسالت پہنچادی اور تمہاری خیر خواہی کی لیکن تم خیرخواہوں کوپسند نہیں کرتے ۔(پ8،الاعراف:78۔79)
(2) فَتَوَلّٰی عَنْہُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیۡ وَنَصَحْتُ لَکُمْ ۚ فَکَیۡفَ اٰسٰی عَلٰی قَوْمٍ کٰفِرِیۡنَ ﴿٪۹۳﴾
"توشعیب نے ان مرے ہوؤں سے منہ پھیر ا اور کہا اے میری قوم میں تمہیں اپنے رب کی رسالت پہنچا چکا اور تمہیں نصیحت کی تو کیوں کرغم کرو ں کافروں پر ۔(پ9،الاعراف:93)
ان آیتو ں سے معلوم ہوا کہ صالح علیہ السلام اور شعیب علیہ السلام نے ہلاک شدہ قوم پر کھڑے ہوکر ان سے یہ باتیں کیں۔"
(3) وَسْـَٔلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنۡ قَبْلِکَ مِنۡ رُّسُلِنَاۤ ٭ اَجَعَلْنَا مِنۡ دُوۡنِ الرَّحْمٰنِ اٰلِـہَۃً یُّعْبَدُوۡنَ ﴿٪۴۵﴾
"ان رسولوں سے پوچھو جو ہم نے آپ سے پہلے بھیجے کیا ہم نے رحمن کے سوا اور خدا ٹھہرائے ہیں جو پوجے جاویں ۔(پ25،الزخرف:45)
گزشتہ نبی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں وفات پاچکے تھے فرمایا جارہاہے کہ وفات یافتہ رسولوں سے پوچھو کہ ہم نے شرک کی اجازت نہ دی تو ان کی امتیں ان پر تہمت لگاکر کہتی ہیں کہ ہمیں شرک کا حکم ہمارے پیغمبروں نے دیا ہے۔
اگر مردے نہیں سنتے توان سے پوچھنے کے کیا معنی ؟ بلکہ اس تیسری آیت سے تو یہ معلوم ہوا کہ خاص بزرگو ں کو مردے جواب بھی دیتے ہیں اور وہ جواب بھی سن لیتے ہیں ۔ اب بھی کشف قبور کرنے والے مردوں سے سوال کرلیتے ہیں ۔ اس لئے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے بدر کے مقتول کافروں سے پکارکرفرمایا کہ بولو میرے تمام فرمان سچے تھے یا نہیں ۔ فاروق اعظم نے عرض کیا کہ بے جان مردو ں سے آپ کلام کیوں فرماتے ہیں تو فرمایا وہ تم سے زیادہ سنتے ہیں ۔"
(صحیح البخاری،کتاب الجنائز، باب فی عذاب القبر، الحدیث1370،ج1،ص462،دار الکتب العلمیۃبیروت)
دوسری روایت میں ہے کہ دفن کے بعد جب زندے واپس ہوتے ہیں تو مردہ ان کے پاؤں کی آہٹ سنتا ہے۔
(مکاشفۃ القلوب،الباب الخامس والاربعون فی بیان القبر وسؤالہ،ص۱۷۱،دار الکتب العلمیۃبیروت)
" اسی لئے ہم نمازوں میں حضو ر صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کرتے ہیں اور کھانا کھانے والے ، استنجا کرنے والے، سوتے ہوئے کو سلام کرنا منع ہے کیونکہ وہ جواب نہیں دے سکتے تو جو جواب نہ دے سکے اسے سلام کرنا منع ہے اگر مردے نہ سنتے ہوتے تو قبر ستا ن جاتے وقت ا نہیں سلام نہ کیا جاتا اور نماز میں حضور کو سلام نہ ہوتا۔
ضروری ہدایت:زندگی میں لوگوں کی سننے کی طاقت مختلف ہوتی ہے بعض قریب سے سنتے ہیں جیسے عام لوگ او ر بعض دور سے بھی سن لیتے ہیں جیسے پیغمبر اور اولیائ۔ مرنے کے بعد یہ طاقت بڑھتی ہے گھٹتی نہیں لہٰذا عام مردو ں کو ان کے قبرستان میں جاکرپکار سکتے ہیں دور سے نہیں لیکن انبیاء واولیاء علیہم الصلوۃ والسلام کو دور سے بھی پکارسکتے ہیں کیونکہ وہ جب زندگی میں دور سے سنتے تھے تو بعدوفات بھی سنیں گے۔ لہٰذا حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو ہرجگہ سے سلام عرض کرو مگر دوسرے مردو ں کو صرف قبر پر جاکر دور سے نہیں۔
دوسری ہدایت: اگرچہ مرنے کے بعد رو ح اپنے مقام پر رہتی ہے لیکن اس کا تعلق قبر سے ضرورر ہتا ہے کہ عام مردو ں کو قبر پرجا کر پکارا جاوے تو سنیں گے مگر اور جگہ سے نہیں ۔جیسے سونے والا آدمی کہ اس کی ایک روح نکل کر عالم میں سیر کرتی ہے لیکن اگر اس کے جسم کے پاس کھڑے ہوکر آواز دو تو سنے گی ۔ دوسری جگہ سے نہیں سنتی۔"
" اعتراض: حضو رصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو جو نماز و غیرہ میں سلام کیا جاوے اس میں یہ نیت نہ ہو کہ آپ سن رہے ہیں بلکہ جیسے کسی سے سلام کہلاکر بھیجتے ہیں یا کسی کو خط میں سلام لکھتے ہیں ایسے ہی سلام کیا جائے کیونکہ دور کے آدمی کا سلام فرشتے پہنچا تے ہیں او رپاس والے کا سلام خود حضور سنتے ہیں جیسا کہ حدیث شر یف میں ہے۔(وہابی)
جواب : اس کے چند جواب ہیں ایک یہ کہ تمہارے عقیدے کے یہ بھی خلاف ہے کہ تم تو کہتے ہو کہ مردے سنتے ہی نہیں اور آیات پیش کرتے ہو اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبر انور میں سے سن لیا تو تمہارے قول کے خلاف ہوگیا ۔ دو سرے یہ کہ جب کسی کے ہاتھ سلام کہہ کر بھیجتے ہیں تو اسے خطاب کر کے السلام علیکم نہیں کہتے بلکہ جانے والے کو کہتے ہیں کہ ہمارا سلام کہہ دینا ہم لوگ نماز وغیرہ میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو خط تو لکھتے نہیں تمہارے قول کے مطابق فرشتوں سے کہلا کر بھیجتے ہیں تو اس صورت میں یہ نہ کہا جاتا کہ اے نبی تم پر سلام ہو بلکہ یوں کہا جانا چاہئے کہ اے فرشتو! حضور سے ہمارا سلام کہنا،خطاب فرشتوں سے ہونا چاہیے تھا۔ تیسرے یہ کہ تمہاری پیش کردہ حدیث میں یہ نہیں ہے کہ دور والے کاسلام نہیں سنتے صرف یہ ہے کہ دور والے کا سلام ملائکہ پیش کرتے ہیں ہو سکتا ہے کہ ملائکہ بھی پیش کرتے ہوں اورسرکار خود بھی سنتے ہوں، جیسے کہ فرشتے رب تعالیٰ کی بارگاہ میں بندوں کے اعمال پیش کرتے ہیں تو خدا کیا ان کے اعمال خود نہیں جانتا ضرور جانتا ہے مگر پیشی بھی ہوتی ہے ۔
اعتراض:مردے نہیں سنتے قرآن کریم فرما رہاہے:"
(1) وَ مَاۤ اَنۡتَ بِمُسْمِعٍ مَّنۡ فِی الْقُبُوۡرِ ﴿۲۲﴾
تم قبر والوں کو نہیں سنا سکتے ۔(پ22،فاطر:22)
(2) اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِیۡنَ ﴿۸۰﴾وَمَاۤ اَنۡتَ بِہٰدِی الْعُمْیِ عَنۡ ضَلٰلَتِہِمْ ؕ
"پس تم نہیں سنا سکتے مردو ں کو اور نہیں سنا سکتے بہروں کو پکار جب وہ پیٹھ دے کر پھر یں او رنہ اندھوں کو ان کی گمراہی سے راہ پر لاؤ ۔(پ20،النمل:80،81)
ان آیات میں صاف بتایا گیا کہ قبر والے اور مردے نہیں سنتے ۔
جواب : اس اعتراض کے چند جواب ہیں ایک یہ کہ تم بھی نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے سننے کے قائل ہو کہ جو قبر انور پر سلام پڑھاجاوے وہ سرکار سن لیتے ہیں وہ بھی اس آیت کے خلاف ہوا ۔ دوسرے یہ کہ آیت میں یہ بھی ہے کہ تم اندھوں کو گمراہی سے نہیں نکال سکتے حالانکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی بر کت سے ہزاروں اندھے ہدایت پر آگئے۔ تیسرے یہ کہ یہاں قبر والوں او رمردو ں ، اندھوں اور بہروں سے مراد وہ کفار ہیں جن پر مہر ہوچکی جن کے ایمان کی تو قع نہیں اسے خود قرآن کریم بتا رہا ہے۔ چنانچہ تمہاری پیش کردہ انہی آیات کے آخر میں یہ ہے ۔"
(1) اِنۡ تُسْمِعُ اِلَّا مَنۡ یُّؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا فَہُمۡ مُّسْلِمُوۡنَ ﴿۸۱﴾
"تم اس کو سناتے ہو جو ہماری آیتو ں پر ایمان لاویں اور وہ مسلمان ہوں۔(پ20،النمل:81)
یہ سورہ نمل اور سورہ روم میں دو نوں جگہ ہے اگر وہاں اندھے، بہرے ، مردے سے مراد یہ اندھے اور مردے ہوتے تو ان کے مقابل ایمان اور اسلام کا ذکر کیوں ہوتا ۔ پتا لگا کہ اس سے دل کے مردے، دل کے اندھے مراد ہیں۔ انہیں مردہ بہرہ اس لئے فرمایا کہ جیسے مردے پکار سے نفع او رنصیحت حاصل نہیں کرتے ۔ایسے ہی یہ لوگ ہیں نیز قرآن کریم کا فروں کے بارے میں فرماتا ہے :"
(2) صُمٌّۢ بُکْمٌ عُمْیٌ فَہُمْ لَا یَرْجِعُوۡنَ ﴿ۙ۱۸﴾
یہ کفار بہر ے ، گونگے ، اندھے ہیں پس وہ نہ لوٹیں گے ۔(پ1،البقرۃ:18)
(3) اَوَ مَنۡ کَانَ مَیۡتًا فَاَحْیَیۡنٰہُ وَجَعَلْنَا لَہٗ نُوۡرًا یَّمْشِیۡ بِہٖ فِی النَّاسِ کَمَنۡ مَّثَلُہٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیۡسَ بِخَارِجٍ مِّنْہَا ؕ کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلْکٰفِرِیۡنَ مَا کَانُوۡا یَعْمَلُوۡنَ ﴿۱۲۲﴾
"اور کیا وہ جو مردہ تھا تو ہم نے اسے زندہ کردیا اور اس کے لئے ایک نور کردیا جس سے لوگوں میں چلتا ہے وہ اس جیسا ہوگا جواندھیروں میں ہے ان سے نکلنے والا نہیں یوں ہی کافروں کی آنکھ میں ان کے اعمال بھلے کردیئے گئے ہیں۔(پ8،الانعام:122)
اس آیت میں مردے سے مراد کافر ، زندگی سے مراد ہدایت ، اندھیروں سے مراد کفر، روشنی سے مراد ایمان ہے۔ یہ آیت تمہاری پیش کردہ آیات کی تفسیر ہے ۔"
(4) وَمَنۡ کَانَ فِیۡ ہٰذِہٖۤ اَعْمٰی فَہُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ اَعْمٰی وَ اَضَلُّ سَبِیۡلًا ﴿۷۲﴾
"جواس دنیا میں اندھا ہے وہ آخرت میں بھی اندھا ہے اور راستے سے بہکا ہوا ہے ۔(پ15،بنی اسرآء یل:72)
ا س میں بھی اندھے سے مراد دل کا اندھا ہے نہ کہ آنکھ کا اندھا ، بہر حال جن آیتوں میں اندھوں ، مردو ں ، بہروں کے نہ سننے نہ ہدایت پانے کا ذکر ہے ۔ وہاں کفار مراد ہیں بلکہ مردے مدد بھی کرتے ہیں آیات ملاحظہ ہوں ۔"
(1) وَ اِذْ اَخَذَ اللہُ مِیۡثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیۡتُکُمۡ مِّنۡ کِتٰبٍ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآءَکُمْ رَسُوۡلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنۡصُرُنَّہٗ ؕ
اور وہ وقت یا د کرو جب اللہ نے نبیوں کا عہد لیا کہ جب میں تم کو کتاب اور حکمت دوں پھر تمہارے پاس رسول تشریف لاویں جوتمہاری کتابوں کی تصدیق کریں تو تم ان پر ایمان لانا اور ان کی مدد کرنا ۔(پ3،اٰل عمرٰن:81)
اس آیت سے معلوم ہواکہ اللہ تعالیٰ نے تمام پیغمبروں سے عہد لیا کہ تم محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانا اور ان کی مدد کرنا حالانکہ وہ پیغمبر آپ کے زمانہ میں وفات پاچکے تو پتا لگا کہ وہ حضرات بعد وفات حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان بھی لا ئے اور روحانی مدد بھی کی چنانچہ سب نبیوں نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے معراج کی رات نماز پڑھی یہ اس ایمان کا ثبوت ہوا حج وداع میں بہت سے پیغمبر آپ کے ساتھ حج میں شریک ہوئے او رموسی علیہ السلام نے اسلام والوں کی مدد کی کہ پچاس نماز وں کی پانچ کرادیں آخرمیں عیسی علیہ السلام بھی ظاہر ی مدد کے لئے آئیں گے اموات کی مدد ثابت ہوئی۔
(2) وَلَوْ اَنَّہُمْ اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمْ جَآءُوۡکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُوۡلُ لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّابًا رَّحِیۡمًا ﴿۶۴﴾
"اور اگر یہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو تمہارے پاس آجاویں پھر خدا سے مغفرت مانگیں اور رسول بھی ان کیلئے دعاء مغفرت کریں تو اللہ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں ۔(پ5،النساء:64)
ا س آیت سے معلوم ہو اکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی مدد سے تو بہ قبول ہوتی ہے اوریہ مدد زندگی سے خاص نہیں بلکہ قیامت تک یہ حکم ہے یعنی بعد وفات بھی ہماری تو بہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہی کی مدد سے قبول ہوگی بعد وفات مدد ثابت ہو ئی ۔ اسی لئے آج بھی حاجیوں کو حکم ہے کہ مدینہ منورہ میں سلام پڑھتے وقت یہ آیت پڑھ لیا کریں اگر یہ آیت فقط زندگی کے لئے تھی تو اب وہاں حاضری کا اور اس آیت کے پڑھنے کا حکم کیوں ہے ۔"
(3) وَمَاۤ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۰۷﴾
"اور نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر جہانوں کے لئے رحمت ۔(پ17،الانبیاء:107)
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم تمام جہانوں کی رحمت ہیں اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد بھی جہان تو رہے گا اگر آپ کی مدد اب بھی باقی نہ ہو تو عالم رحمت سے خالی ہوگیا ۔"
(4) وَمَاۤ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا
"اور نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر تمام لوگوں کے لئے بشیر اور نذیر بناکر ۔(پ22،سبا:28)
اس''لِلنَّاسِ''میں وہ لوگ بھی داخل ہیں جو حضور صلی اللہ تعالیٰ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد آئے او رآپ کی یہ مدد تا قیامت جاری ہے ۔"
(5) وَکَانُوۡا مِنۡ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوۡنَ عَلَی الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ۚ فَلَمَّا جَآءَہُمۡ مَّا عَرَفُوۡا کَفَرُوۡا بِہٖ ۫
"اور یہ بنی اسرائیل کافروں کے مقابلہ میں اسی رسول کے ذریعہ سے فتح کی دعا کرتے تھے پھر جب وہ جانا ہوا رسول ان کے پاس آیا تو یہ ان کاانکار کر بیٹھے ۔(پ1،البقرۃ:89)
معلوم ہواکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے بھی لوگ آپ کے نام کی مدد سے دعائیں کرتے اور فتح حاصل کرتے تھے ۔ جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی مدد دنیا میں آنے سے پہلے شامل حال تھی تو بعد بھی رہے گی اسی لئے آج بھی حضور کے نا م کا کلمہ مسلمان بناتا ہے۔ درود شریف سے آفات دور ہوتی ہیں۔ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے تبرکات سے فائدہ ہوتاہے۔ موسیٰ علیہ السلام کے تبرکات سے بنی اسرئیل جنگوں میں فتح حاصل کرتے تھے ۔ یہ سب بعد وفات کی مدد ہے بلکہ"
حقیقت یہ ہے کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ وآلہ وسلم ! اب بھی بحیات حقیقی زندہ ہیں ایک آن کے لئے موت طاری ہوئی اور پھر دائمی زندگی عطا فرما دی گئی قرآن کریم تو شہیدوں کی زندگی کا بھی اعلان فرما رہا ہے۔ حضو ر صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کاثبوت یہ ہے کہ زندوں کے لئے کہا جاتا ہے کہ فلاں عالم ہے ، حافظ ہے ، قاضی ہے اور مردوں کے لئے کہا جاتا ہے کہ وہ عالم تھا ، زندوں کے لئے'' ہے'' او ر مردوں کے لئے ''تھا'' استعمال ہوتا ہے۔ نبی کا کلمہ جو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم آپ کی زندگی میں پڑھتے تھے وہی کلمہ قیامت تک پڑھا جاوے گا کہ حضور اللہ کے رسول ہیں۔ صحابہ کرام بھی کہتے تھے کہ حضور اللہ کے رسول ہیں۔ شفیع المذنبین ، رحمۃ للعالمین ہیں اور ہم بھی یہ ہی کہتے ہیں اگر آپ زندہ نہ ہوتے توہمارا کلمہ بدل جانا چاہئے تھا ہم کلمہ یوں پڑھتے کہ حضور اللہ تعالیٰ کے رسول تھے ،جب آپ کا کلمہ نہ بدلا تو معلوم ہو اکہ آپ کا حال بھی نہ بدلا لہٰذا آپ اپنی زندگی شریف کی طر ح ہی سب کی مدد فرماتے ہیں ہاں اس زندگی کا ہم کو احساس نہیں ۔
جس تاریخ یا جس دن میں کبھی کوئی نعمت آئی ہو تا قیامت وہ تاریخ معظم ہوجاتی ہے۔ اس تاریخ میں یادگاریں منانا ، خوشیاں منانا ، خوشی میں عبادتیں کرنا حکم قرآن ہے۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :
(1) شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الْقُرْاٰنُ
رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا ۔(پ2،البقرۃ:185)
(2) اِنَّاۤ اَنۡزَلْنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃِ الْقَدْرِ﴿۱﴾ۚۖوَ مَاۤ اَدْرٰىکَ مَا لَیۡلَۃُ الْقَدْرِ ؕ﴿۲﴾لَیۡلَۃُ الْقَدْرِ ۬ۙ خَیۡرٌ مِّنْ اَلْفِ شَہۡرٍ ؕ﴿ؔ۳﴾
"بے شک ہم نے قرآن شب قدر میں اتارا اور تمہیں کیا خبر کہ شب قدر کیا ہے شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔(پ30،القدر:1۔3)
ان آیتو ں سے معلوم ہو اکہ شب قدر اور ماہ رمضان کی اتنی عظمت ہے کہ شب قدر تو ہزار ماہ سے افضل ہوگئی او رماہ رمضان باقی مہینوں سے بہترہوگیا اور اس کانام قرآن میں آیا اس کے سوا کسی مہینہ کا نام قرآن میں نہ آیا محض اس لئے کہ یہ مہینہ اور یہ رات قرآن کے نزول کا وقت ہے قرآن تو ایک دفعہ اتر چکا مگر ان کی یہ عظمت ہمیشہ کیلئے ہوگئی ۔"
(3) وَ اَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ ﴿٪۱۱﴾
اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو ۔(پ30،الضحی:11)
(4) قُلْ بِفَضْلِ اللہِ وَبِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوۡا ؕ ہُوَ خَیۡرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوۡنَ ﴿۵۸﴾
"فرمادو کہ اللہ کے فضل اوراس کی رحمت پر خوب خوشیاں مناؤ وہ ان کی دھن دولت سے بہتر ہے ۔(پ11،یونس:58)
ان آیات سے معلوم ہوا کہ جس تا ریخ میں اللہ کی نعمت ملی ہو اس کی یاد گار مناؤ، خوشیاں مناؤ ۔"
(5) وَذَکِّرْہُمْ بِاَیّٰىمِ اللہِ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوۡرٍ ﴿۵﴾
اے موسیٰ بنی اسرائیل کو اللہ کے دن یاد دلادو جن دنوں میں ان پر نعمتیں اتریں بے شک اس میں نشانیاں ہیں ہر بڑے صبر والے شکرگزار کو ۔(پ13،ابرٰھیم:5)
(6) قَالَ عِیۡسَی ابْنُ مَرْیَمَ اللہُمَّ رَبَّنَاۤ اَنۡزِلْ عَلَیۡنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَآءِ تَکُوۡنُ لَنَا عِیۡدًا لِّاَوَّلِنَا وَاٰخِرِنَا وَ اٰیَۃً مِّنۡکَ ۚ
"عیسیٰ ابن مریم نے عرض کیا کہ یا رب ہم پر آسمان سے دستر خوان اتار کہ وہ ہمارے لئے اگلوں پچھلوں کی عید ہو اور یہ تیری طر ف سے نشانی ہو۔(پ7،المآئدۃ:114)
ان آیتو ں سے معلوم ہوا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم ہوا کہ بنی اسرائیل کو انعامات کی تاریخیں یادد لاتے رہوان کی یاد گاریں قائم کرو اور عیسیٰ علیہ السلام نے غیبی دستر خوان کے آنے کی تاریخ کو اپنے اگلے پچھلے سارے عیسائیوں کے لئے عید قرار دیا۔ لہٰذامیلاد شریف، گیارہویں شریف ، بزرگوں کے عرس ، فاتحہ ، چالیسواں ، تیجہ وغیرہ سب جائز ہیں کیونکہ یہ اللہ کی نعمت کی یاد گار یں ہیں او ریاد گاریں منانا حکم قرآنی ہے۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :"
(7) وَ اذْکُرُوۡا نِعْمَۃَ اللہِ عَلَیۡکُمْ
"اللہ کی نعمت یا د کرو جو تم پر ہے ۔(پ6،المآئدۃ:7)
اعتراض: مسلم وبخاری کی روایت میں ہے کہ جمعہ کا روزہ نہ رکھو۔"
(صحیح البخاری،کتاب الصوم،باب صوم یوم الجمعۃ،الحدیث ۱۹۸۴،ج۱،ص۶۵۲، دار الکتب العلمیۃبیروت)
"بعض روایتوں میں ہے کہ جمعہ کو رو زے سے خاص نہ کرو ۔
معلوم ہوا کہ کسی دن کی تعیین منع ہے ۔ چونکہ میلا د اور عرس میں تاریخ مقرر ہوتی ہے لہٰذا منع ہے۔ (وہابی)
جواب :اس کا جواب اسی حدیث میںآگے ہے کہ اگر جمعہ کسی ایسی تاریخ میں آجائے جس کے روزے کے تم عادی ہو تو رکھو یعنی اگر کسی کی عادت بارہویں کے روزے کی ہے اور جمعہ بارہویں کو آگیا تو رکھ لے ، نیز فرماتے ہیں نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم"
"کہ'' صرف جمعہ کو رو زہ نہ رکھے بلکہ آگے پیچھے ایک دن اور بھی ملائے ''معلوم ہوا کہ مقرر کرنا منع نہیں بلکہ جمعہ کے روزہ کی ممانعت ہے ممانعت کی وجہ کچھ اور ہے۔ کیا وجہ ہے؟ اس کے متعلق علماء کے بہت سے قول ہیں ایک یہ بھی ہے کہ جمعہ مسلمانوں کی عید ہے اور عید کو روزہ منع ہوتا ہے اس مناسبت سے اس کا روزہ منع ہے یعنی یہ مشابہ عید کے ہے دوسرے یہ کہ جمعہ کا دن کام کاج کا ہے غسل کرنا، کپڑے تبدیل کرنا،جمعہ کی تیاری کرنا،خطبہ سننا ، نماز جمعہ پڑھنا، ممکن ہے کہ روزے کی وجہ سے تکلیف ہو لہٰذا ان کاموں کی وجہ سے روزہ نہ رکھے جیسے حاجی کو نویں تاریخ بقر عید کا روزہ اور حاجی کو بقرعیدکی نماز مکروہ ہے اس لئے کہ وہ دن اس کے کام کے ہیں روزے سے اس کے کاموں میں حرج ہوگا ۔ تیسرے یہ کہ صرف جمعہ کے روزے میں یہود سے مشابہت ہے کہ وہ صرف ہفتہ کا روزہ رکھتے ہیں تم اگر جمعہ کا روزہ رکھو تو آگے پیچھے ایک دن اور ملا لو تا کہ مشابہت نہ رہے۔ چوتھے یہ کہ خود نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ دو شنبہ کارو زہ کیساہے فرمایاکہ اسی دن ہماری ولادت ہے اسی دن نزول وحی کی ابتداء ہوئی۔ لہٰذا روزہ رکھو اور خود نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے عاشورہ کا روزہ اسی خوشی میں رکھا کہ اس تاریخ میں موسیٰ علیہ السلام کو فر عون سے نجات ملی اگریادگاریں منانابراہوتاتویہ یادگاریں کیوں منائی جاتیں؟
اعتراض : چونکہ میلا د شریف او رعرس میں لوگ بہت حرام کام بھی کرتے ہیں لہٰذا یہ منع ہے۔
جواب : قاعدہ غلط ہے کوئی سنت حرام کام کے ملنے سے ناجائز نہیں ہوجاتی نکاح سنت ہے مگر لوگوں نے اس میں ہزار وں خرافات ملادیں تو نکاح کو نہیں روکا جاتا بلکہ ان چیزوں سے منع کیا جاتا ہے۔"
جس جگہ کوئی ولی رہتے ہوں یا رہے ہوں یا کبھی بیٹھے ہوں وہ جگہ حرمت والی ہے، وہاں عبادت اور دعا زیادہ قبول ہوتی ہے اس کی تعظیم کرو،دعا مانگو ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :
(1) وَ اِذْ قُلْنَا ادْخُلُوۡا ہٰذِہِ الْقَرْیَۃَ فَکُلُوۡا مِنْہَا حَیۡثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَّادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّقُوۡلُوۡا حِطَّۃٌ نَّغْفِرْلَکُمْ خَطٰیٰکُمْ ؕ وَسَنَزِیۡدُ الْمُحْسِنِیۡنَ ﴿۵۸﴾
"اور یاد کرو جب ہم نے کہا کہ داخل ہو تم اس بستی میں پھر اس میں جہاں چاہو بے روک ٹوک خوب کھاؤ اور دروازے میں سجدہ کرتے داخل ہو اور کہو ہمارے گناہ معاف ہوں ہم تمہاری خطائیں بخش دیں گے اور نیکی والوں کو اور زیادہ دیں گے ۔(پ1،البقرۃ:58)
اس آیت میں بتا یا گیا کہ جب بنی اسرائیل کی تو بہ قبول ہونے کا وقت آیا تو ان سے کہا گیا کہ بیت المقدس کے دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے گھسو اور گناہ کی معافی مانگو، بیت المقدس نبیوں کی بستی ہے اس کی تعظیم کرالی گئی کہ سجدہ کرتے ہوئے جاؤ اور وہاں جاکر تو بہ کرو۔"
(2) وَمَنۡ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا ؕ
جو اس مکہ میں داخل ہوگیا امن والا ہوگیا۔(پ4،اٰل عمرٰن:97)
(3) اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا اٰمِنًا وَّ یُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِہِمْ ؕ اَفَبِالْبَاطِلِ یُؤْمِنُوۡنَ وَ بِنِعْمَۃِ اللہِ یَکْفُرُوۡنَ ﴿۶۷﴾
"کیا انہوں نے یہ نہ دیکھا کہ ہم نے حرم شریف کو امن والا بنایا او ران کے آس پاس کے لوگ اچک لئے جاتے ہیں کیا باطل پر ایمان لاتے ہیں او راللہ کی نعمت کا انکار کرتے ہیں۔(پ21،العنکبوت:67)
ان آیتو ں سے پتہ چلا کہ حضرت خلیل اللہ علیہ السلام کی بستی جو کعبہ معظمہ کا شہر ہے بہت حرمت والا اور عظمت والا ہے ۔"
(4) ہُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّہٗ ۚ قَالَ رَبِّ ہَبْ لِیۡ مِنۡ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً ۚ اِنَّکَ سَمِیۡعُ الدُّعَآءِ ﴿۳۸﴾
وہاں مریم کے پاس زکریا نے دعا مانگی عرض کیا کہ اے رب مجھے اپنی طرف سے ستھری اولاد دے بے شک تو دعا کا سننے والاہے ۔(پ3،اٰل عمرٰن:38)
(5) قَالَ الَّذِیۡنَ غَلَبُوۡا عَلٰۤی اَمْرِہِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَیۡہِمۡ مَّسْجِدًا ﴿۲۱﴾
"اور جو اس معاملہ پر غالب آئے وہ بولے کہ ہم اصحاب کہف پر مسجد بنائیں گے۔(پ15،الکہف:21)
ان آیتو ں سے معلوم ہو اکہ حضرت زکریا علیہ السلام نے مریم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس کھڑے ہوکر اولاد کی دعا مانگی تا کہ قرب ولی کی وجہ سے دعا جلد قبول ہو اور مسلمانوں نے اصحاب کہف کے غار پرمسجد بنائی تا کہ ان کی برکت سے زیادہ قبول ہوا کرے ۔"
(6) لَاۤ اُقْسِمُ بِہٰذَا الْبَلَدِ ۙ﴿۱﴾وَ اَنۡتَ حِلٌّۢ بِہٰذَا الْبَلَدِ ۙ﴿۲﴾
میں قسم کھاتا ہوں اس شہر مکہ کی جبکہ اے محبوب تم اس شہر میں تشریف فرما ہو۔(پ30،البلد:1۔2)
(7) وَالتِّیۡنِ وَ الزَّیۡتُوۡنِ ۙ﴿۱﴾وَ طُوۡرِ سِیۡنِیۡنَ ۙ﴿۲﴾وَ ہٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِیۡنِ ۙ﴿۳﴾
"قسم ہے انجیر کی ،زیتو ن کی او رطور سینا پہاڑ کی اور اس امانت والے شہر کی۔(پ30،التین:1۔3)
ان آیتوں سے معلوم ہواکہ جس جگہ اللہ کے بندے ہوں وہ جگہ ایسی حرمت والی ہوجاتی ہے کہ اس کی رب قسم فرماتاہے۔
ان آیات سے یہ بھی پتہ لگا کہ بزرگو ں کے چلّے جہاں انہوں نے عبادت کی وہاں جاکر نماز پڑھنا ،دعاکرنا، اس جگہ کی تعظیم کرنا با عث ثواب ہے اسی لئے مدینہ منورہ میں ایک عبادت کا ثواب پچاس ہزار ہے اورمکہ مکرمہ میں ایک کا ثواب ایک لاکھ۔ کیوں ؟ اس لئے کہ یہ جگہ اللہ کے پیاروں کی ہے، ریل اگر چہ مساوی لائن سے گزرتی ہے مگر ملتی صرف اسٹیشن پر ہے، اللہ کے بندوں کی جگہ رحمت خدا کے اسٹیشن ہیں۔"
اسلام میں آج بہت سے فرقے ہیں اور ہر فرقہ اپنے کوحق کہتا ہے اور ہر ایک قرآن سے اپنا مذہب ثابت کرتا ہے ۔ قرآن سے پوچھو کہ سچا مذہب کو ن ہے وہ فرماتا ہے :
(1) یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَکُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ ﴿۱۱۹﴾
اے مسلمانو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو ۔(پ11،التوبۃ:119)
(2) اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۵﴾صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ۬
ہم کو سیدھے رستے کی ہدایت دے اور ان کا رستہ جن پر تو نے انعام کیا ۔(پ1،الفاتحۃ:5۔6)
(3) اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ ہَدَی اللہُ فَبِہُدٰىہُمُ اقْتَدِہۡ ؕ
یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت دی تو تم ان ہی کی راہ پر چلو۔(پ7،الانعام:90)
(4) قَالُوۡا نَعْبُدُ اِلٰہَکَ وَ اِلٰـہَ اٰبَآئِکَ اِبْرٰہٖمَ وَ اِسْمٰعِیۡلَ وَ اِسْحٰقَ
اولاد یعقوب نے کہا کہ ہم آپ کے معبود اور آپ کے باپ دادوں ابراہیم اسمٰعیل اسحاق کے معبودوں کو پوجیں گے ۔(پ1،البقرۃ: 133)
(5) لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیۡ رَسُوۡلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ
تمہارے لئے اللہ کے رسول میں اچھی پیروی ہے ۔(پ21،الاحزاب:21)
(6) قُلْ بَلْ مِلَّۃَ اِبْرٰہٖمَ حَنِیۡفًا ؕ
فرمادو بلکہ ہم پیروی کریں گے ابراہیم کے دین کی جو ہربرائی سے دور ہے ۔(پ1،البقرۃ:135)
(7) وَمَنۡ یُّشَاقِقِ الرَّسُوۡلَ مِنۡۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدٰی وَیَتَّبِعْ غَیۡرَ سَبِیۡلِ الْمُؤْمِنِیۡنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہٖ جَہَنَّمَ ؕ وَسَآءَتْ مَصِیۡرًا ﴿۱۱۵﴾
اور جو رسول کی مخالفت کرے اس کے بعد کہ حق اس پر کھل چکا اور مسلمانوں کی راہ سے جدا راہ چلے ہم اسے اس کے حال پر چھوڑدیں گے اور اسے دوزخ میں داخل کریں گے وہ کیا ہی برا ٹھکانہ ہے ۔(پ5،النسآء:115)
(8)وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ عَلَیۡکُمْ شَہِیۡدًا ؕ
"اور ایسے ہی ہم نے تم کو درمیانی امت بنایا کہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور یہ رسول تم پر نگہبان گواہ ہیں۔(پ2،البقرۃ:143)
ان مذکورہ آیتو ں سے معلوم ہوا کہ سچے مذہب کی پہچانیں دوہیں ایک تو یہ کہ اس مذہب میں سچے لوگ یعنی اولیا ء اللہ ، صالحین ، علماء ربانی ہوں ،دوسرے یہ کہ وہ عام مومنین کا مذہب ہو، چھوٹے چھوٹے فرقے جن میں اولیا ء صالحین نہیں وہ غلط راستے ہیں اس آیت کی تفسیر وہ حدیث ہے"
اِتَّبِعُوا السَّوَادِ الْاَعْظَمِ
(المستدرک للحاکم،کتاب العلم، باب من شذ شذ فی النار،الحدیث۴۰۴،ج۱،ص۳۱۷، دار المعرفۃ بیروت)
"بڑے گروہ کی پیروی کرو یعنی حضو رصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ سے اب تک جس مذہب پر عام مسلمان رہے ہوں وہ قبول کرو۔ یہ دونوں علامتیں آج صرف مذہب اہل سنت میں پائی جاتی ہیں ۔ شیعہ ، وہابی ، دیوبندی ، چکڑالوی میں نہ اولیاء اللہ تھے نہ ہیں۔ تمام چشتی، قادری ، سہر وردی ، نقشبندی اسی سنی مذہب میں گزرے ہیں اوراسی مذہب میں آج ہیں نیز حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم ، ان سے حاجتیں مانگنا، حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو علم غیب ماننا وغیرہ تمام چیز یں عام مسلمان کا مذہب رہا اور ہے۔ اس کی تحقیق کے لئے ہماری کتاب جاء الحق کا مطالعہ کرو ۔
لطیفہ: ہر قوم کی تاریخ اس کے نام سے معلوم کرو ،قوموں کے موجودہ نام تاریخی نام ہیں ہم اس پر کچھ روشنی ڈالتے ہیں۔
مرزائی: اس فرقہ کی پیدا ئش مرزا غلام احمد قادیانی کے وقت سے ہے یعنی"
"بارہویں صدی کی پیدا وار ہے اس جماعت کی عمر سو بر س ہے ۔
چکڑالوی : اس فرقہ کی پیدائش عبداللہ چکڑالوی پنجابی کے وقت سے ہو ئی یعنی اس کی عمر ایک سو پندرہ سال ہے ۔
اثنا عشری شیعہ: اس فرقہ کی پیدائش بارہ اماموں کے وقت سے ہوئی کیونکہ اثنا عشر کے معنی ہیں بارہ امام، جب بارہ امام پیدا ہوئے تو یہ فرقہ ظہور میں آیا اس لئے اس کی عمر تقریبا گیارہ سو بر س ہے یعنی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے تین سو سال بعد میں ہوا، خیال رہے کہ ان شیعہ کے عقیدہ میں امام مہدی پیدا ہوچکے ہیں جو قرآن لے کر چھپ گئے ہیں قریب قیامت آئیں گے ۔
وہابی : خواہ دیوبند ی ہوں یا غیر مقلد اس فرقے کی پیدا وار عبدالوہاب نجدی کے وقت میں ہوئی لہذا اس کی عمرایک سو پچھتر سال ہے یعنی گیارہویں صدی میں پیدا ہوا۔
بابی،بہائی : ان دونوں فرقو ں کی پیدا واربہا ء اللہ اور عبداللہ باب کے زمانہ میں ہوئی ان کی عمر سو برس سے بھی کم ہے ۔
اہل سنت والجماعت: جب سے سنت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم دنیا میں آئی تب سے یہ مذہب آیا یعنی جو عمر سنت رسول اللہ کی ہے وہی اس مذہب کی ہے اور چونکہ مسلمانوں کی عام جماعت کا یہی مذہب ہے لہذا اس فرقے کانام ہوا اہل سنت وجماعت یعنی سنت رسول او رجماعت مسلین والا فرقہ ۔
قرآن پاک کی مذکورہ آیات سے معلوم ہواکہ یہ ہی فرقہ حق ہے اگرچہ قرآن"
پاک کا ترجمہ سب کرتے ہیں حدیثیں سب دبائے پھرتے ہیں اور علماء سارے فر قوں میں ہیں مگر صادقین یعنی اولیاء کاملین ، حضور غوث پاک ، خوا جہ اجمیر ، خوا جہ بہاؤالدین نقشبند، شیخ شہاب الدین سہروردی گزشتہ اولیاء اللہ او رموجودہ اولیاء کرام، تونسہ شریف، سیال شریف، گولڑہ شریف،علی پور شریف،بٹالہ شریف وغیرہ تمام آستانے والے اسی مذہب پر ہیں ۔لہذا ان آیات نے صاف طور پر بتایا کہ یہ ہی مذہب حق ہے۔ اللہ تعالیٰ اسی پر ہم سب کو رکھے اوراسی پر خاتمہ کرے۔ آمین
"بعض لوگ صوفیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے تعویذ ، دم ، جھاڑ پھونک کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ کھانے کمانے کے ڈھنگ ہیں قرآن میں اس کاثبوت نہیں بلکہ جو ہواپیٹ میں سے نکلتی ہے وہ گرم او ربیماری والی ہوتی ہے وہ پھونک بیمارکرے گی شفانہ دے گی مگر یہ خیال قرآن کے خلاف ہے ۔
قرآن کریم نے دم کر نے او رپھونکنے کی تاثیر کا اعلان فرمایا ہے آیات ملاحظہ ہو ں پھونکنے میں تاثیر ہے ۔"
(1) فَاِذَا سَوَّیۡتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡ فَقَعُوۡا لَہٗ سٰجِدِیۡنَ ﴿۲۹﴾
"رب تعالیٰ نے فرمایا تو جب میں آدم کے جسم کو ٹھیک کرلوں اور ان میں اپنی طرف سے روح پھونک دو ں تو ان کیلئے سجدے میں گرجانا۔(پ14،الحجر:29)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ رب تعالیٰ نے روح پھونک کر آدم علیہ السلام کو زندگی"
بخشی رب تعالیٰ کا پھونکنا وہ ہے جو اس کی شان کے لائق ہو مگر لفظ پھونکنے کااستعمال فرمایا گیا بلکہ جان کو رو ح اسی واسطے کہتے ہیں کہ وہ پھونکی ہوئی ہوا ہے ۔ روح کے معنی ہوا ، پھونک ہیں ۔
(۲) وَ مَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرٰنَ الَّتِیۡۤ اَحْصَنَتْ فَرْجَہَا فَنَفَخْنَا فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِنَا وَ صَدَّقَتْ بِکَلِمٰتِ رَبِّہَا وَکُتُبِہٖ وَ کَانَتْ مِنَ الْقٰنِتِیۡنَ ﴿٪۱۲﴾
"اللہ بیان فرماتا ہے اور عمران کی بیٹی مریم کا جس نے اپنی پارسائی کی حفاظت کی تو ہم نے اپنی طر ف سے اس میں روح پھونک دی اور اس نے اپنے رب کی باتوں اور کتابوں کی تصدیق کی اور فرماں برداروں میں ہوئی ۔(پ۲۸،التحریم:۱۲)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ حضرت جبریل علیہ السلام نے گریبان میں دم کیا جس سے آپ حاملہ ہوئیں اور عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہو ئے اسی لئے آپ کا لقب روح اللہ بھی ہے اور کلمۃ اللہ بھی، یعنی اللہ کا دم یا اللہ کا کلمہ۔ حضرت جبریل علیہ السلام نے کچھ پڑھ کر حضرت مریم رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر دم کیا جس سے یہ فیض دیا ۔ اب بھی شفا وغیرہ کے لئے پڑھ کر دم ہی کرتے ہیں۔"
(3) اَنِّیۡۤ اَخْلُقُ لَکُمۡ مِّنَ الطِّیۡنِ کَہَیۡئَۃِ الطَّیۡرِ فَاَنۡفُخُ فِیۡہِ فَیَکُوۡنُ طَیۡرًۢا بِاِذْنِ اللہِ ۚ
فرمایا عیسیٰ نے کہ میں بناتا ہوں تمہارے لئے پرندے کی صورت پھر اس میں دم کرتا ہوں تو وہ اللہ کے حکم سے پرندہ بن جاتا ہے اورکوڑھی اندھے کو اچھا کرتا ہوں اورمردے جلاتا ہوں اللہ کے حکم سے ۔(پ3،اٰل عمرٰن:49)
اس آیت سے معلوم ہو اکہ عیسیٰ علیہ السلام دم کر کے مردے زندہ کرتے تھے، کوڑھی اور اندھوں کو اچھا کرتے تھے، یہاں بھی دم سے ہی یہ فیض دیئے گئے ۔
(4) وَ نُفِخَ فِی الصُّوۡرِ فَصَعِقَ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنۡ فِی الْاَرْضِ
اور پھونکا جائے گا صورمیں تو بیہوش ہوجائیں گے وہ جو آسمانوں او رزمین میں ہیں۔(پ23،الزمر:68)
(5)یَّوْمَ یُنۡفَخُ فِی الصُّوۡرِ فَتَاۡتُوۡنَ اَفْوَاجًا ﴿ۙ۱۸﴾
"جس دن پھونکا جاوے گا صور میں پس آؤ گے تم فوج در فو ج ۔(پ30،النبا:18)
معلوم ہوا قیامت کے دن صور میں پھونکا جاوے گا جس سے مردے زندہ ہوں گے غرضیکہ ابتداء،انتہاء اور بقا ہمیشہ فیض دم سے ہوا اور ہوتا ہے او رہوگا اسی لئے آج بھی صوفیاء قرآن کریم پڑھ کر دم کرتے ہیں خود نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم بیماروں پر قرآن شریف پڑھ کر دم فرماتے تھے کیونکہ جیسے پھولوں سے چھوکر ہوا میں خوشبوپیدا ہوجاتی ہے ایسے ہی جس زبان سے قرآن شریف پڑھا گیا ہو اس سے چھوکر جو ہو ا آوے گی وہ شفادے گی، اسی طر ح تبرکات سے شفا ملتی ہے جیسا کہ اسی باب کے شرو ع میں آیا ت سے ثابت کیا گیا ہے ۔"
قرآن کریم صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی حقانیت وصداقت کا اعلان فرما رہا ہے ، فرماتا ہے :
(1) الٓـمّٓ ۚ﴿۱﴾ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیۡبَ ۚۖۛ فِیۡہِ ۚۛ
"وہ بلند رتبہ کتاب (قرآن ) شک کی جگہ نہیں اس میں۔(پ1،البقرۃ:1۔2)
اللہ تعالیٰ نے اعلان فرمایاکہ قرآن میں کوئی شک وتردد نہیں۔ شک کی چار صورتیں ہو سکتی ہیں یا تو بھیجنے والا غلطی کرے یا لانے والا غلطی کرے یا جس کے پاس آیا ہو وہ غلطی کرے یا جنہوں نے اس سے سن کر لوگو ں کو پہنچا یاانہوں نے دیانت سے کام نہ لیا ہو۔ اگر ان چاروں درجوں میں کلام محفوظ ہے تو واقعی شک وشبہ کے لائق نہیں۔قرآن شریف کا بھیجنے والا اللہ تعالیٰ،لانے والے حضرت جبریل علیہ السلام ،لینے والے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اور حضور سے لے کر ہم تک پہنچا نے والے صحابہ کرام ہیں ( رضی اللہ عنہم اجمعین) اگر قرآن شریف اللہ تعالیٰ ، جبریل علیہ السلام ، نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تک تو محفو ظ رہے لیکن صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سچے نہ ہوں او ران کے ذریعہ قرآن ہم کو پہنچے تو یقینا قرآن میں شک پیدا ہوگیا کیونکہ فاسق کی کوئی بات قابل اعتبار نہیں ہوتی ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :"
اِنۡ جَآءَکُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوۡۤا
"اگر تمہارے پاس فاسق کوئی خبر لاوے تو تحقیق کرلیا کرو۔(پ26،الحجرات:6)
اب قرآن کا بھی اعتبار نہ رہے گا قرآن پر یقین جب ہی ہوسکتا ہے کہ صحابہ کرام کے تقویٰ ودیانت پر یقین ہو۔"
(2) ہُدًی لِّلْمُتَّقِیۡنَ ۙ﴿۲﴾الَّذِیۡنَ یُؤْمِنُوۡنَ بِالْغَیۡبِ
"قرآن ہدایت ہے ان متقیوں کو جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔(پ1،البقرۃ:2۔3)
یعنی اے کافر و!جن پر ہیز گارو ں یعنی جماعت صحابہ کو تم دیکھ رہے ہو انہیں"
قرآن نے ہی ہدایت دی اور یہ لوگ قرآن ہی کی ہدایت سے ایسے اعلیٰ متقی بنے ہیں۔ قرآن کریم نے ہی ان کی کایاپلٹ دی اگر قرآن کا کمال دیکھنا ہو تو ان صحابہ کرام کا تقویٰ دیکھو ۔ اس آیت میں قرآن نے صحابہ کرام کے ایمان وتقویٰ کو اپنی حقانیت کی دلیل بنایا اگر وہاں ایمان وتقویٰ نہ ہو تو قرآن کا دعویٰ بلادلیل رہ گیا ۔
(3) وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَہَاجَرُوۡا وَجٰہَدُوۡا فِی سَبِیۡلِ اللہِ وَالَّذِیۡنَ اٰوَوۡا وَّنَصَرُوۡۤا اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُؤْمِنُوۡنَ حَقًّا ؕ لَہُمۡ مَّغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ کَرِیۡمٌ ﴿۷۴﴾
"اور وہ جو ایمان لائے او رانہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور وہ جنہوں نے رسول کو جگہ دی اور ان کی مدد کی وہ سچے مسلمان ہیں ان کے لئے بخشش ہے اور عزت کی روزی ۔(پ10،الانفال:74)
اس آیت میں صحابہ کرام، مہاجرین اور انصار کا نام لے کر انہیں سچا مومن ، متقی او رمغفور فرمایا گیا ۔"
(4) لِلْفُقَرَآءِ الْمُہٰجِرِیۡنَ الَّذِیۡنَ اُخْرِجُوۡا مِنۡ دِیَارِہِمْ وَ اَمْوَالِہِمْ یَبْتَغُوۡنَ فَضْلًا مِّنَ اللہِ وَ رِضْوَانًا وَّ یَنۡصُرُوۡنَ اللہَ وَ رَسُوۡلَہٗ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوۡنَ ۚ﴿۸﴾
"ان فقیر ہجرت والوں کے لئے جو اپنے گھروں اور مالوں سے نکالے گئے اللہ کا فضل اور اس کی رضا چاہتے ہیں اور اللہ ورسول کی مدد کرتے ہیں وہ ہی سچے ہیں۔(پ28،الحشر:8)
اس آیت میں تمام مہاجرصحابہ کو نام وپتہ بتا کر سچا کہا گیا ہے یعنی یہ ایمان میں سچے اور اقوال کے پکے ہیں ۔"
(5) وَ الَّذِیۡنَ تَبَوَّؤُا الدَّارَ وَ الْاِیۡمَانَ مِنۡ قَبْلِہِمْ یُحِبُّوۡنَ مَنْ ہَاجَرَ اِلَیۡہِمْ وَ لَا یَجِدُوۡنَ فِیۡ صُدُوۡرِہِمْ حَاجَۃً مِّمَّاۤ اُوۡتُوۡا وَ یُؤْثِرُوۡنَ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ ؕ۟ وَ مَنۡ یُّوۡقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوۡنَ ﴿ۚ۹﴾
"اور وہ جنہوں نے پہلے سے اس شہر اور ایمان میں گھر بنالیا دوست رکھتے ہیں انہیں جوان کی طرف ہجرت کر کے آئے او راپنے دلوں میں کوئی حاجت نہیں پاتے اس چیز کی جو دیئے گئے اور اپنی جان پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں اگر چہ انہیں بہت محتاجی ہو اور جو اپنے نفس کے بخل سے بچا یا گیا وہ ہی کامیاب ہے ۔(پ28،الحشر:9)
اس آیت میں انصار مدینہ کونام لے کر پتہ بتا کر کامیاب فرمایا گیا۔ معلوم ہواکہ سارے مہاجرین وانصار سچے اور کامیاب ہیں۔"
(6) لَا یَسْتَوِیۡ مِنۡکُمْ مَّنْ اَنۡفَقَ مِنۡ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قَاتَلَ ؕ اُولٰٓئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیۡنَ اَنۡفَقُوۡا مِنۡۢ بَعْدُ وَ قَاتَلُوۡا ؕ وَکُلًّا وَّعَدَ اللہُ الْحُسْنٰی ؕ
"تم میں برابر نہیں وہ جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے خرچ او رجہاد کیا وہ مرتبہ میں ان سے بڑے ہیں جنہوں نے بعد فتح خرچ اور جہادکیا اوران سب سے اللہ جنت کا وعدہ فرما چکا ہے ۔(پ27،الحدید:10)
اس آیت نے بتا یا کہ سارے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے رب تعالیٰ نے جنت کا وعدہ فرمالیا ہے لیکن وہ خلفاء راشدین جو فتح مکہ سے پہلے حضو ر صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے جاں نثار رہے وہ بہت درجے والے ہیں ان کے درجہ تک کسی کے وہم وگمان کی رسائی نہیں کیونکہ رب تعالیٰ نے ساری دنیا کو قلیل یعنی تھوڑا فرمایا اور اتنے بڑے عرش کو عظیم یعنی بڑا فرمایا لیکن ان خلفائے راشدین کے درجہ کو چھوٹا نہ کہا،بڑا نہ فرمایا بلکہ"
اعظم یعنی بہت ہی بڑا فرمایا ۔
(7) وَ سَیُجَنَّبُہَا الْاَتْقَی ﴿ۙ۱۷﴾الَّذِیۡ یُؤْتِیۡ مَالَہٗ یَتَزَکّٰی ﴿ۚ۱۸﴾وَ مَا لِاَحَدٍ عِنۡدَہٗ مِنۡ نِّعْمَۃٍ تُجْزٰۤی ﴿ۙ۱۹﴾اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْہِ رَبِّہِ الْاَعْلٰی ﴿ۚ۲۰﴾وَ لَسَوْفَ یَرْضٰی ﴿٪۲۱﴾
"اور دو زخ سے بہت دور رکھا جائے گا وہ سب سے بڑا پرہیز گار جو اپنا مال دیتا ہے تاکہ ستھرا ہو اور کسی کا اس پر کچھ احسان نہیں جس کا بدلہ دیا جاوے صرف اپنے رب کی رضا چاہتاہے اوربے شک قریب ہے کہ وہ راضی ہوگا ۔(پ30،اللیل:17۔21)
یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں نازل ہوئی جب آپ نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھاری قیمت دے کر خریدا اور آزاد کیا،کفار نے حیرت سے کہا کہ شاید حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا آپ پر کوئی احسان ہوگا جس کا بدلہ ادا کرنے کے لئے آپ نے اتنی بڑی قیمت سے خرید کر آزاد کیا۔ ان کفار کی تردید میں یہ آیت نازل ہوئی اس میں صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حسب ذیل خصوصی صفات بیان ہوئے :
ان کا دوزخ سے بہت دور رہنا ،ان کا سب سے بڑا متقی ہونا یعنی اتقی، ان کابے مثل سخی ہونا، ان کے اعمال طیبہ طاہرہ کاریا سے پاک ہونا خالص رب عزوجل کے لیے ہونا اور جنت میں انہیں رب تعالیٰ کی طر ف سے ایسی نعمتیں ملنا جس سے وہ راضی ہوجاویں۔
لطیفہ: اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے لئے فرمایا"
وَ لَسَوْفَ یُعْطِیۡکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی ؕ﴿۵﴾
آپ کو آپ کا رب اتنا دے گا کہ آپ راضی ہوجاویں گے۔(الضحٰی:۵) اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے فرمایا
وَ لَسَوْفَ یَرْضٰی ﴿٪۲۱﴾
عنقریب صدیق راضی ہوجاویں گے۔(اللیل:۲۱) معلوم ہوا کہ آپ کو نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے
بہت ہی قرب ہے ۔
(9) یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ حَسْبُکَ اللہُ وَمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیۡنَ
"اے نبی آپ کو اللہ اور آپ کی پیروی کرنے والے یہ مومن کافی ہیں۔(پ10،الانفال:64)
یہ آیت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایمان لانے پر نازل ہوئی جس میں فرمایاگیا کہ حقیقتاً آپ کو اللہ کافی ہے اور عالم اسباب میں عمر کافی ہیں۔"
(10)وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمْ
جو صحابہ ان نبی کے ساتھی ہیں وہ کافروں پر سخت ،آپس میں نرم ہیں۔(پ26،الفتح:29)
(11) ذٰلِکَ مَثَلُہُمْ فِی التَّوْرٰىۃِ ۚۖۛ وَ مَثَلُہُمْ فِی الْاِنۡجِیۡلِ ۚ۟ۛ کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْاَہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوۡقِہٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیۡظَ بِہِمُ الْکُفَّارَ ؕ
"یہ جماعت صحابہ وہ ہیں جن کی مثال تو ریت وانجیل میں اس کھیت سے دی گئی ہے جس نے اپنا پٹھا نکالا... (یہاں تک کہ فرمایا)تاکہ ان سے کافروں کے دل جلیں۔(پ26،الفتح:29)
اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم تمہارے صحابہ کے نام کے ڈنکے ہم نے توریت وانجیل میں بجادیئے وہ تو میری ہر ی بھری کھیتی ہیں جنہیں دیکھ کر میں تو خوش ہوتا ہوں اور میرے دشمن رافضی جلتے ہیں۔
لطیفہ : قرآن کریم نے بعض لوگو ں پر صاف صاف فتویٰ کفر دیا ایک تو نبی کی توہین کرنے والے ، اور دوسرے صحابہ کرام کے دشمن،صحابہ کرام کے دشمنوں پر رب تعالیٰ نے کفر کافتویٰ دیا کسی اور سے نہ دلوایا ۔"
(12) ثَانِیَ اثْنَیۡنِ اِذْ ہُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوۡلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحْزَنْ
"ابو بکر دومیں کے دوسرے ہیں جبکہ وہ غار میں ہیں جب فرماتے تھے رسول اپنے ساتھی سے غم نہ کر ۔(پ10،التوبۃ:40)
یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں اتری، اس میں اس واقعہ کا ذکر ہے کہ جب غار میں یار کولے کر بیٹھے اورمارسے اپنے کو کٹوایا ۔ اس آیت نے ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صحابیت کا صراحۃً اعلان فرمایا ، ان کی صحابیت ایسی ہی قطعی اور یقینی ہے جیسے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت او رنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کیونکہ جس قرآن نے تو حید ورسالت کا صراحۃً اعلان کیا ،اسی قرآن نے صدیق کی صحابیت کا ڈنکا بجایا لہذا ان کی صحابیت وعدالت پر ایمان لانا ایساہی ضروری ہے جیسے اللہ تعالیٰ کی توحید پر ایمان لانااور ان کی صحابیت کا منکر ایسا ہی بے دین ہے جیسے توحید ونبوت کامنکر ۔"
(13) وَلَا تَہِنُوۡا وَلَا تَحْزَنُوۡا وَاَنۡتُمُ الۡاَعْلَوْنَ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤْمِنِیۡنَ ﴿۱۳۹﴾
نہ سست پڑو تم لوگ نہ غمگین ہو اورتم ہی بلند ہو اگر تم سچے مومن ہو۔(پ4،اٰل عمران:139)
(14) وَعَدَ اللہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمۡ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبْلِہِمْ ۪ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَہُمْ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًا ؕ
اللہ نے وعدہ دیا ان کو جو تم میں سے ایمان لائے او راچھے کام کئے ضرور انہیں زمین میں خلافت دے گا جیسی ان سے پہلوں کو دی اور ضرور جمادے گا ان کے لئے ان کا وہ دین جو ان کیلئے پسند کیااور ضرور ان کے اگلے خوف کو امن سے بدل دے گا ۔(پ18،النور:55)
" ان دوآیتوں میں مسلمانوں سے دوشرطوں پر چند وعدے کئے گئے ہیں شرطیں ایمان اورتقویٰ کی ہیں ان سے وعدہ ہے۔(۱)بلندی(۲)خلافت دنیا(۳)خوف کے بعد امن بخشنا (۴) دین کو مضبوط کرنا۔ اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کو بلندی بھی دی زمین میں خلافت بھی بخشی، امن بھی عطا کیا اوران کے زمانہ میں دین کو ایسا مضبوط فرمایا کہ آج اس مضبوطی کی وجہ سے اسلام قائم ہے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے دونوں شرطیں بھی پوری کیں اور مومن بھی رہے اور پرہیز گار متقی بھی، ورنہ انہیں یہ چار نعمتیں نہ دی جاتیں۔
یہ چند آیات بطور نمونہ پیش کی گئیں ورنہ قرآن کریم کی بہت سی آیات ان حضرات کے فضائل میں ہیں اور کیوں نہ ہوں یہ حضرات نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے کمال کا مظہر ہیں جیسے حضو ر صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ذات رب تعالیٰ کے کمال کا نمونہ ہے جیسے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی تنقیص رب تعالیٰ کے کمال کا انکار ہے ایسے ہی ان کاانکار حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے کمال کا انکار ہے استاد کا زور علمی شاگردو ں کی لیاقت سے معلوم ہوتا ہے۔ اگر صف اول کی نماز فاسد ہو تو پچھلی صفوں کی نماز درست نہیں ہوسکتی کیونکہ اما م کو دیکھنے والی صف اول ہی ہے، اگر انجن کے پیچھے والا ڈبہ انجن سے کٹ کر رہ جائے تو پچھلے ڈبے کبھی سفر نہیں کرسکتے ، وہ حضرات اسلام کی صف اول ہیں اور ہم آخری صفیں وہ گاڑی کا اگلا ڈبہ ہم پچھلے ۔اگر وہ ایمان سے ر ہ گئے تو ہم کیسے مومن ہوسکتے ہیں؟
اعتراض: ان آیتوں کے نزول کے وقت تو یہ سب مومن تھے مگر حضور صلی اللہ"
"تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی وفات کے بعد خلافت کا حق چھین کر اور حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی میراث تقسیم نہ کرنے کی وجہ سے اسلام سے نکل گئے یہ آیات اسوقت کی ہیں بعد سے انہیں کوئی تعلق نہیں۔
جواب: اس اعتراض کے چند جواب ہیں
ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے اگر خلفاء راشدین کاانجام اچھا نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ ان کے فضائل قرآن شریف میں بیان نہ فرماتا نیز رب تعالیٰ نے ان مذکورہ آیتو ں میں خبر دی کہ یہ دوزخ سے بہت دور رہیں گے، ہم انہیں اتنا دیں گے کہ وہ راضی ہوجاویں گے ہم نے ان سب سے جنت کا وعدہ کرلیا۔ یہ باتیں انجام بخیر سے ہی حاصل ہوسکتی ہیں۔
دوسرے یہ کہ اگر یہ حضرات ایمان سے پھر گئے ہوتے تو اہلبیت اطہار خصوصاً حضرت علی مر تضی رضی اللہ تعالیٰ عنہم ان کے ہاتھ پر بیعت نہ کرتے خلیفہ رسول وہ ہوسکتا ہے جو مومن متقی ہوبلکہ جیسے حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صفین میں جنگ کی اور امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کر بلا میں جان دے دی مگر یزید کے ہاتھ میں ہاتھ نہ دیا ،اس وقت بھی وہ جنگ کرتے ۔
تیسرے یہ کہ جیسے صدیق اکبر وفاروق اعظم وعثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے بعد ان کی خلافتیں میراث کے طور پر ان کی اولاد کو نہ ملیں بلکہ جس پر سب کااتفاق ہوگیا وہ خلیفہ ہوگیا اسی طر ح نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی خلافت میں نہ میراث تھی نہ کسی کی ملکیت بلکہ رائے عامہ پر ہی انتخاب ہوا ۔"
چوتھے یہ کہ پیغمبر کی میراث مال نہیں بلکہ علم ہے۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے:
وَوَرِثَ سُلَیۡمٰنُ دَاوٗدَ وَ قَالَ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنۡطِقَ الطَّیۡرِ
"او روارث ہوئے سلیمان داؤد کے اور فرمایا کہ ہم کو پرندوں کی بولی کا علم دیا گیا ۔(پ19،النمل:16)
دیکھو داؤد علیہ السلام کے بہت بیٹے تھے مگر وارث صرف حضرت سلیمان علیہ السلام ہوئے اور مال کے نہیں بلکہ علم کے وارث ہوئے اسی لئے نبی کی بیویاں بھی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی میراث نہ پاسکیں اور حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اپنے زمانہ خلافت میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی میراث تقسیم نہ فرمائی ۔
اعتراض : تم کہتے ہو کہ سارے صحابہ متقی پر ہیز گار ہیں حالانکہ قرآن شریف ا نہیں فاسق کہہ رہا ہے۔ فرماتا ہے :"
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ جَآءَکُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوۡۤا
"اے مومنو ! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق کسی قسم کی خبر لائے تو تحقیق کرلیا کرو ۔
ولید بن عقبہ صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آکر خبر دی تھی کہ فلاں قوم نے زکوۃ نہ دی ۔ اس پر یہ آیت اتری جس میں ولید صحابی کو فاسق کہا گیا اور فاسق متقی نہیں ہوسکتا ۔
جواب : اس کے دو جواب ہیں، ایک یہ کہ یہاں ان کوفاسق نہ کہا گیا بلکہ ایک قانون بیان کیا گیا کہ آئندہ اگر کوئی فاسق خبر لائے تو تحقیقات کرلیا کرو ۔ دوسرے یہ کہ اس خاص وقت میں ان کو فاسق گنہگار کہا گیا صحابی سے گناہ سر زد ہوسکتا ہے وہ"
معصوم نہیں ہاں اس پرقائم نہیں رہتے تو بہ کی توفیق مل جاتی ہے جیسے حضرت ماعزرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے زنا ہوگیا مگر بعد میں ایسی تو بہ نصیب ہوئی کہ سبحان اللہ!
سارے مسلمانوں کا عقیدہ تھا اور ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو رب تعالیٰ نے بغیر باپ کے پیدا فرمایا اور اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا مگر اب موجودہ زمانہ میں قادیانیوں نے اس کا انکار کیا ،ان کی دیکھا دیکھی بعض بھولے جاہل مسلمان بھی اس ظاہری مسئلہ کے منکر ہوگئے اور کہنے لگے کہ قرآن سے یہ ثابت نہیں حالانکہ قرآن شریف اس کا بہت زور شورسے اعلان فرمارہاہے ،رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
(1) اِنَّ مَثَلَ عِیۡسٰی عِنۡدَ اللہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ ؕ خَلَقَہٗ مِنۡ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ ﴿۵۹﴾اَلْحَقُّ مِنۡ رَّبِّکَ فَلَا تَکُنۡ مِّنَ الْمُمْتَرِیۡنَ ﴿۶۰﴾
"بے شک عیسیٰ کی کہاوت اللہ کے نزدیک آدم کی طر ح ہے کہ اسے مٹی سے بنایا پھر اس سے فرمایا کہ ہوجا وہ فوراً ہوجاتا ہے یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے تو تم شک والوں میں سے نہ ہو۔(پ۳،اٰل عمرٰن:۵۹۔۶۰)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کی پیدا ئش کو آدم علیہ السلام کی پیدائش سے تشبیہ دی کہ جیسے آدم علیہ السلام بغیر نطفے کے پیدا ہوئے ایسے ہی آپ بھی۔ جب آدم علیہ السلام خدا کے بیٹے نہ ہوئے تو اے عیسائیو! عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بیٹے کب ہو سکتے ہیں ؟ اگر عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش عام انسانوں کی طر ح ہوتی تو انہیں آدم علیہ السلام سے تشبیہ نہ دی جاتی ۔"
"(2) قَالَتْ اَنّٰی یَکُوۡنُ لِیۡ غُلٰمٌ وَّ لَمْ یَمْسَسْنِیۡ بَشَرٌ
قَالَ کَذٰلِکِ ۚ قَالَ رَبُّکِ ہُوَ عَلَیَّ ہَیِّنٌ ۚ وَ لِنَجْعَلَہٗۤ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ وَ رَحْمَۃً مِّنَّا ۚ"
"مریم نے جبریل سے کہا کہ میرے بیٹا کیسے ہوسکتا ہے مجھے تو کسی مردنے چھوا بھی نہیں
فرمایا ایسے ہی ہوگا تمہارے رب نے فرمایا کہ یہ کام مجھ پر آسان ہے اور تا کہ بنائیں ہم اس بچہ کو لوگوں کے لئے نشان اور اپنی طرف سے رحمت۔(پ16، مریم :20)(پ16،مریم:21)
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ حضرت مریم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بیٹا ملنے کی خبر پر حیرت کی کہ بغیر مرد کے بیٹا کیسے پیدا ہوگا اور انہیں رب کی طرف سے جواب ملا کہ اس بچہ سے رب تعالیٰ کی قدرت کا اظہار مقصود ہے لہذا ایسے ہی بغیر باپ کے ہوگا، اگر آپ کی پیدائش معمول کے مطابق تھی تو تعجب کے کیا معنی اور رب تعالیٰ کی نشانی کیسی؟"
(3) فَاَتَتْ بِہٖ قَوْمَہَا تَحْمِلُہٗ ؕ قَالُوۡا یٰمَرْیَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَیْـًٔا فَرِیًّا ﴿۲۷﴾
"تو انہیں گود میں اپنی قوم کے پاس لائیں بولے اے مریم تو نے بہت بری بات کی۔(پ16،مریم:27)
معلوم ہواکہ عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش پر لوگوں نے حضرت مریم کو بہتان لگایا اگر آپ خاوند والی ہوتیں تو اس بہتان کی کیا وجہ ہوتی ۔"
(4) فَاَشَارَتْ اِلَیۡہِ ؕ قَالُوۡا کَیۡفَ نُکَلِّمُ مَنۡ کَانَ فِی الْمَہۡدِ صَبِیًّا ﴿۲۹﴾قَالَ اِنِّیۡ عَبْدُ اللہِ ؕ۟
پھر مریم نے بچہ کی طرف اشارہ کر دیا وہ بولے ہم کیسے بات کریں اس سے جو پالنے میں بچہ ہے بچہ نے فرمایا میں اللہ کا بندہ ہوں ۔(پ16،مریم:29۔30)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ رب تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو بچپن میں ہی گویائی دی اور آپ علیہ السلام نے خود اپنی ماں کی پاکدامنی اور رب تعالیٰ کی قدرت بیان فرمائی اگر آپ کی پیدائش باپ سے ہے تو اس معجزے اور گواہی کی ضرورت نہ تھی۔
(5) اِنَّمَا الْمَسِیۡحُ عِیۡسٰی ابْنُ مَرْیَمَ رَسُوۡلُ اللہِ وَکَلِمَتُہٗ ۚ اَلْقٰىہَاۤ اِلٰی مَرْیَمَ وَرُوۡحٌ مِّنْہُ
"عیسیٰ مریم کا بیٹا اللہ کا رسول ہی ہے اور اس کا ایک کلمہ کہ مریم کی طرف بھیجا اور رب کی طر ف سے ایک روح۔(پ6،النسآء:171)
اس آیت میں عیسیٰ علیہ السلام کو مریم کا بیٹا فرمایا حالانکہ اولاد کی نسبت باپ کی طر ف ہوتی ہے نہ کہ ماں کی طرف آپ کا اگر والد ہوتا تو آپ کی نسبت اسی کی طرف ہونی چاہیے تھی نیز قرآن کریم نے کسی عورت کانام نہ لیا اور نہ کسی کی پیدائش کا واقعہ اس قدر تفصیل سے بیان فرمایا چونکہ آپ کی پیدائش عجیب طر ح صرف ماں سے ہے لہذا ان بی بی کا نام بھی لیا اور واقعہ پیدائش پورے ایک رکوع میں بیان فرمایا ،نیز انہیں کلمۃ اللہ اور اللہ کی روح فرمایا، معلوم ہوا کہ آپ کی پیدائش ایک کلمہ سے ہے اور آپ کی روح مافوق الاسباب آئی ہے ۔"
(6) وَیُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَہۡدِ وَکَہۡلًا وَّمِنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۴۶﴾
"عیسیٰ کلام کریں گے لوگوں سے پالنے سے اور پکی عمرمیں اور خاص نیکوں میں ہوں گے ۔(پ3،اٰل عمرٰن:46)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام کی خصوصیت بچپن اوربڑھاپے میں کلام کرنا ہے بچپن میں کلام کرنا تو اس لئے معجزہ ہے کہ بچے اتنی عمر میں بولا نہیں کرتے"
"اور بڑھاپے میں کلام کرنا اس لئے معجزہ ہے کہ آپ بڑھاپے سے پہلے آسمان پرگئے اور وہاں سے آکربوڑھے ہو کر کلام کریں گے ۔
ان آیات مذکورہ بالا سے روز روشن کی طرح آپکا بغیر باپ کے پیدا ہونا ظاہر ہوا ۔
اعتراض: اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ انسا ن بلکہ سارے حیوانات کو نطفے سے پیدا فرمادے او رقانون کی مخالفت ناممکن ہے لہذا عیسیٰ علیہ السلام کا خلاف قانون پیدا ہونا غیر ممکن ہے ۔رب تعالیٰ صاف فرما رہاہے :"
(1) اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنۡسَانَ مِنۡ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ ٭ۖ نَّبْتَلِیۡہِ فَجَعَلْنٰہُ سَمِیۡعًۢا بَصِیۡرًا ﴿ۚ ۲﴾
بے شک ہم نے پیدا کیا انسان کو ماں باپ کے مخلوط نطفے سے کہ ہم اسے آزمائیں پس ہم نے اسے سننے دیکھنے والا بنادیا ۔(پ29،الدہر:2)
(2) وَ ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ مِنَ الْمَآءِ بَشَرًا فَجَعَلَہٗ نَسَبًا وَّ صِہۡرًا ؕ
اور وہی ہے جس نے پانی سے بنایا آدمی پھر اس کے رشتے اور سسرال مقرر کردی۔(پ19،الفرقان:54)
(3) وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ کُلَّ شَیۡءٍ حَیٍّ ؕ اَفَلَا یُؤْمِنُوۡنَ ﴿۳۰﴾
اورہم نے ہر جاندار چیز پانی سے بنائی تو کیا وہ ایمان نہ لائیں گے ۔(پ17،الانبیآء:30)
(4) فَلَنۡ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللہِ تَبْدِیۡلًا ۬ۚ
اور تم ہر گز اللہ کے قانون کو بدلتا ہوا نہ پاؤگے ۔(پ22،فاطر:43)
(5) وَ لَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِیۡلًا ﴿٪۷۷﴾
اور تم ہمارا قانون بدلتا ہوا نہ پاؤگے ۔(پ15،بنیۤ اسرآء یل:77)
" ان آیتو ں سے دو باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ تمام انسان اور حیوانات کی پیدائش کا قانون یہ ہے کہ اس کی پیدائش نطفے سے ہو ۔ دوسرے یہ کہ خدا کے قانون میں تبدیلی ناممکن ہے اگر عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش بغیر باپ مانی جائے توان آیات کے خلاف ہوگا ۔
جواب: اس اعتراض کے دو جواب ہیں ایک الزامی ، دوسرا تحقیقی ۔
الزامی جواب تو یہ ہے کہ آدم علیہ السلام بغیر نطفے کے پیدا ہوئے ہمارے سروں میں جوئیں ، چارپائی میں کھٹمل ، پیٹ اور زخم میں کیڑے بغیر نطفے کے دن رات پیدا ہوتے ہیں ، برسات میں کیڑے، پھل میں جانور بغیر نطفے کے پیدا ہوتے ہیں بتا ؤ یہ قانون کے خلاف کیوں ہوا ۔
تحقیقی جواب یہ ہے کہ معجزات اور کرامات اولیاء خود قانون الٰہی ہیں یعنی رب تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ نبی اور ولی پر حیرت انگیز باتیں ظاہر ہو ں تو آپ کا بغیر باپ کے پیدا ہونا اس معجزے کے قانون کے ماتحت ہے تمہاری پیش کردہ آیات کا مطلب یہ ہے کہ مخلوق خدا کے قانون میں تبدیلی نہیں کرسکتی اگر خالق خود کرے تو وہ قادر ہے ۔ انسان کی پیدائش نطفے سے ہونا قانون ہے اور عیسیٰ علیہ السلام کا بغیر نطفے کے ہونا قدرت ہے ہم قانون کو بھی مانتے ہیں او رقدرت کو بھی،رب تعالیٰ قانون کا پابند نہیں ہم پابند ہیں ۔
دیکھو قانون یہ ہے کہ آگ جلادے مگر ابراہیم علیہ السلام کو نہ جلایا یہ قدرت ہے۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :"
قُلْنَا یٰنَارُ کُوۡنِیۡ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤی اِبْرٰہِیۡمَ ﴿ۙ۶۹﴾
"ہم نے کہاکہ اے آگ ابراہیم پر ٹھنڈی او رسلامتی والی ہوجا ۔(پ17،الانبیآء:69)
اسی طر ح او ربہت سارے معجزات کا حال ہے اللہ تعالیٰ قادر وقیوم ہے جو چاہے کرے اس کی قدرتوں کا انکار کرنا اپنے ایما ن سے ہاتھ دھونا ہے۔ رب تعالیٰ ہم سب کو اس راستہ پر چلائے جو اس کے نیک بندوں کا ہے او راس زمانہ کی ہواؤں سے ہمارا ایمان محفو ظ رکھے۔آمین آمین یا رب العالمین!"
وصلی اللہ تعالٰی علی خیر خلقہ سیدنا محمد واٰلہ واصحابہ اجمعین آمین برحمتہ وھو ارحم الرحمین.
"ناچیز احمد یا ر خاں، ۵ذیقعد ۱۳۷۱ھ، یوم دو شنبہ مبارکہ
'' یہ کتاب ۲۲ رمضان المبارک ۱۳۷۱ھ، دو شنبہ کو شرو ع ہو کر ۵ذیقعد ۱۳۷۱ھ، دوشنبہ کو یعنی ایک ماہ بارہ دن میں اختتام کو پہنچی۔ جو کوئی اس سے فائدہ اٹھائے وہ مجھ گنہگار کے لئے حسن خاتمہ کی دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صلی ا للہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے صدقہ سے مجھے کلمہ طیبہ پر خاتمہ نصیب کرے اور مجھ گنہگار کی مغفرت فرمادے، اسی لالچ میں یہ محنت کی ہے ۔''
احمدیارخاں"