Pages
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ
"اے خداوند جہاں! اے خالق لیل و نہار
ہو نہیں سکتی تری حمد و ثنا ہے بے شمار"
" تودوعالم کاحقیقی مالک و مختار ہے
ذرے ذرے پر تراچلتا ہے حکم و اقتدار"
"تو نے بخشی ہے فلک کے چاند تاروں کو چمک
تیری قدرت سے گل وغنچہ پہ آتاہے نکھار"
" رحمت عالم کے دامان کرم کا واسطہ!
بخش دے میرے گناہوں کو'ہوں نادم'شرمسار"
"کھول دے میری دعاؤں کے لئے باب قبول
عرض کرتا ہوں ترے آگے بچشم اشکبار"
بسم اللہ الرحمن الرحيم
"روضہ پر نور پر ہم کو بلائیں یا رسول صلي اللہ عليہ وسلم
پھر وہاں سے عمر بھر واپس نہ آئیں یا رسول صلي اللہ عليہ وسلم"
" منظر طیبہ بنا دیتا ہے دل کو بے قرار
یاد آتی ہیں مدینہ کی فضائیں یا رسول صلي اللہ عليہ وسلم"
"گلستان زندگی نذر خزاں ہونے لگا!
بھیج دو باغ مدینہ کی ہوائیں یا رسول صلي اللہ عليہ وسلم"
"گنبد خضراء کودیکھیں دشت صحراؤں میں پھریں
تیری آغوش کرم میں مسکرائیں یا رسول صلي اللہ عليہ وسلم"
"آپ کے دربار اقدس میں ہزاروں کی طرح
ہم بھی آکر داستان غم سنائیں یا رسول صلي اللہ عليہ وسلم"
"معاملات نہ ہوں گر درست انسان کے
تو جانور سے بھی بدتر ہے آدمی کی حیات"
"عورت ۔ خدا کی بڑی بڑی نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت ہے۔
عورت ۔ دنیا کی آباد کاری اور دینداری میں مردوں کے ساتھ تقریباً برابر کی شریک ہے۔
عورت ۔ مرد کے دل کا سکون' روح کی راحت' ذہن کا اطمینان' بدن کا چین ہے۔
عورت ۔ دنیا کے خوبصورت چہرہ کی ایک آنکھ ہے۔ اگر عورت نہ ہوتی تو دنیا کی صورت کانی ہوتی۔
عورت ۔ آدم علیہ السلام و حضرت حوا کے سوا تمام انسانوں کی ''ماں'' ہے اس لئے وہ سب کے لئے قابل احترام ہے۔
عورت ۔ کا وجود انسانی تمدن کے لئے بے حد ضروری ہے اگر عورت نہ ہوتی تو مردوں کی زندگی جنگلی جانوروں سے بد تر ہوتی۔
عورت ۔ بچپن میں بھائی بہنوں سے محبت کرتی ہے۔ شادی کے بعد شوہر سے محبت کرتی ہے۔ ماں بن کر اپنی اولاد سے محبت کرتی ہے۔ اس لئے عورت دنیا میں پیار و محبت کاایک ''تاج محل'' ہے۔"
"بسم اللہ الرحمن الرحيم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم"
"اسلام سے پہلے عورتوں کا حال بہت خراب تھا دنیا میں عورتوں کی کوئی عزت و وقعت ہی نہیں تھی مردوں کی نظر میں اس سے زیادہ عورتوں کی کوئی حیثیت ہی نہیں تھی کہ وہ مردوں کی نفسانی خواہش پوری کرنے کا ایک ""کھلونا"" تھیں عورتیں دن رات مردوں کی قسم قسم کی خدمت کرتی تھیں اور طرح طرح کے کاموں سے یہاں تک کہ دوسروں کی محنت مزدوری کرکے جو کچھ کماتی تھیں وہ بھی مردوں کو دے دیا کرتی تھیں مگر ظالم مرد پھر بھی ان عورتوں کی کوئی قدر نہیں کرتے تھے بلکہ جانوروں کی طرح ان کو مارتے پیٹتے تھے ذرا ذرا سی بات پر عورتوں کے کان ناک وغیرہ اعضاء کاٹ لیا کرتے تھے اور کبھی قتل بھی کر ڈالتے تھے عرب کے لوگ لڑکیوں کو زندہ دفن کردیا کرتے تھے اور باپ کے مرنے کے بعد اس کے لڑکے جس طرح باپ کی جائیداد اور سامان کے مالک ہو جایا کرتے تھے اسی طرح اپنے باپ کی بیویوں کے مالک بن جایا کرتے تھے اور ان عورتوں کو زبردستی لونڈیاں بنا کر رکھ لیا کرتے تھے عورتوں کو ان کے ماں باپ بھائی بہن یا شوہر کی میراث میں سے کوئی حصہ نہیں ملتا تھا نہ عورتیں کسی چیز کی مالک ہوا کرتی تھیں عرب کے بعض قبیلوں میں یہ ظالمانہ دستور تھا کہ بیوہ ہو جانے کے بعد عورتوں کو گھر سے باہر نکال کر ایک چھوٹے سے تنگ و تاریک جھونپڑے میں ایک سال تک قید میں رکھا جاتا تھا وہ جھونپڑے سے باہر نہیں نکل سکتی تھیں نہ غسل کرتی"
"تھیں نہ کپڑے بدل سکتی تھیں کھانا پانی اور اپنی ساری ضرورتیں اسی جھونپڑے میں پوری کرتی تھیں بہت سی عورتیں تو گھٹ گھٹ کر مر جاتی تھیں اور جو زندہ بچ جاتی تھیں تو ایک سال کے بعد ان کے آنچل میں اونٹ کی مینگنیاں ڈال دی جاتی تھیں اور ان کو مجبور کیا جاتا تھا کہ وہ کسی جانور کے بدن سے اپنے بدن کو رگڑیں پھر سارے شہر کا اسی گندے لباس میں چکر لگائیں اور ادھر ادھر اونٹ کی مینگنیاں پھینکتی ہوئی چلتی رہیں یہ اس بات کا اعلان ہوتا تھا کہ ان عورتوں کی عدت ختم ہوگئی ہے اسی طرح کی دوسری بھی طرح طرح کی خراب اور تکلیف دہ رسمیں تھیں جو غریب عورتوں کے لئے مصیبتوں اور بلاؤں کا پہاڑ بنی ہوئی تھیں اور بے چاری مصیبت کی ماری عورتیں گھٹ گھٹ کر اور رو رو کر اپنی زندگی کے دن گزارتی تھیں ہندوستان میں تو بیوہ عورتوں کے ساتھ ایسے ایسے دردناک ظالمانہ سلوک کئے جاتے تھے کہ جن کو سوچ سوچ کر کلیجہ منہ کو آجاتا ہے ہندو دھرم میں ہر عورت کے لئے فرض تھا کہ وہ زندگی بھر قسم قسم کی خدمتیں کرکے "" پتی پوجا"" (شوہر کی پوجا) کرتی رہے اور شوہر کی موت کے بعد اس کی "" چتا"" کی آگ کے شعلوں پر زندہ لیٹ کرـ"" ستی"" ہو جائے یعنی شوہر کی لاش کے ساتھ زندہ عورت بھی جل کر راکھ ہو جائے غرض پوری دنیا میں بے رحم اور ظالم مرد عورتوں پر ایسے ایسے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے تھے کہ ان ظلموں کی داستان سن کر ایک دردمند انسان کے سینے میں رنج وغم سے دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے ان مظلوم اور بیکس عورتوں کی مجبوری و لاچاری کا یہ عالم تھا کہ سماج میں نہ عورتوں کے کوئی حقوق تھے نہ ان کی مظلومیت پر دادوفریاد کے لئے کسی قانون کا کوئی سہارا تھا ہزاروں برس تک یہ ظلم و ستم کی ماری دکھیاری عورتیں اپنی اس بے کسی اور لاچاری پر روتی بلبلاتی اور آنسوبہاتی رہیں مگر دنیا میں کوئی بھی ان عورتوں کے زخموں پر مرہم رکھنے والا اور ان کی مظلومیت کے آنسوؤں کو"
پونچھنے والا دور دور تک نظر نہیں آتا تھا نہ دنیا میں کوئی بھی ان کے دکھ درد کی فریاد سننے والا تھا نہ کسی کے دل میں ان عورتوں کے لئے بال برابر بھی رحم و کرم کا کوئی جذبہ تھا عورتوں کے اس حال زار پر انسانیت رنج و غم سے بے چین اور بے قرار تھی مگر اس کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں تھا کہ وہ رحمت خداوندی کا انتظار کرے کہ ارحم الراحمین غیب سے کوئی ایسا سامان پیدا فرمادے کہ اچانک ساری دنیا میں ایک انوکھا انقلاب نمودار ہوجائے اور لاچار عورتوں کا سارا دکھ درد دور ہو کر ان کا بیڑاپار ہو جائے چنانچہ رحمت کا آفتاب جب طلوع ہو گیا تو ساری دنیا نے اچانک یہ محسوس کیا کہ ؎
"جہاں تاریک تھا' ظلمت کدہ تھا' سخت کالا تھا
کوئی پردے سے کیا نکلا کہ گھرگھرمیں اجالا تھا"
جب ہمارے رسول رحمت حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم خدا کی طرف سے ''دین اسلام'' لے کر تشریف لائے تو دنیا بھر کی ستائی ہوئی عورتوں کی قسمت کا ستارہ چمک اٹھا۔ اور اسلام کی بدولت ظالم مردوں کے ظلم و ستم سے کچلی اور روندی ہوئی عورتوں کادرجہ اس قدر بلند و بالا ہوگیا کہ عبادات و معاملات بلکہ زندگی اور موت کے ہر مرحلہ اور ہر موڑ پر عورتیں مردوں کے دوش بدوش کھڑی ہو گئیں اور مردوں کی برابری کے درجہ پر پہنچ گئیں مردوں کی طرح عورتوں کے بھی حقوق مقرر ہوگئے اور ان کے حقوق کی حفاظت کیلئے خداوندی قانون آسمان سے نازل ہوگئے اوران کے حقوق دلانے کے لئے اسلامی قانون کی ماتحتی میں عدالتیں قائم ہوگئیں عورتوں کو مالکانہ حقوق حاصل ہوگئے چنانچہ عورتیں اپنے مہر کی رقموں' اپنی تجارتوں' اپنی جائدادوں کی مالک بنادی گئیں اور اپنے ماں باپ'بھائی
بہن اولاد اور شوہر کی میراثوں کی وارث قرار دی گئیں۔ غرض وہ عورتیں جو مردوں کی جوتیوں سے زیادہ ذلیل و خوار اور انتہائی مجبور و لاچار تھیں وہ مردوں کے دلوں کا سکون اور ان کے گھروں کی ملکہ بن گئیں چنانچہ قرآن مجید نے صاف صاف لفظوں میں اعلان فرمادیا کہ۔
خَلَقَ لَکُمۡ مِّنْ اَنۡفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوۡۤا اِلَیۡہَا وَ جَعَلَ بَیۡنَکُمۡ مَّوَدَّۃً وَّ رَحْمَۃً
" ''اﷲ نے تمہارے لئے تمہاری جنس سے بیویاں پیدا کر دیں تاکہ تمہیں ان سے تسکین حاصل ہو اور اس نے تمہارے درمیان محبت و شفقت پیدا کردی۔''(پ21،روم:21)
اب کوئی مرد بلا وجہ نہ عورتوں کو مار پیٹ سکتا ہے نہ ان کو گھروں سے نکال سکتا ہے اور نہ کوئی ان کے مال و اسباب یا جائدادوں کو چھین سکتا ہے بلکہ ہر مرد مذہبی طور پر عورتوں کے حقوق ادا کرنے پر مجبور ہے چنانچہ خداوند قدوس نے قرآن مجید میں فرمایا کہ۔"
وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیۡ عَلَیۡہِنَّ بِالْمَعْرُوۡفِ ۪
"''عورتوں اور مردوں پر ایسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر اچھے سلوک کے ساتھ۔''
اور مرد کے لئے فرمان جاری فرمادیا کہ (پ2،البقرہ:228)"
وَعَاشِرُوۡہُنَّ بِالْمَعْرُوۡفِ ۚ
'' اور اچھے سلوک سے عورتوں کے ساتھ زندگی بسر کرو۔'' (پ۴،النساء:۱۹)
تمام دنیا دیکھ لے کہ دین اسلام نے میاں بیوی کی اجتماعی زندگی کی صدارت اگرچہ مرد کو عطا فرمائی ہے اور مردوں کو عورتوں پر حاکم بنادیا ہے تاکہ نظام خانہ داری میں اگر کوئی بڑی مشکل آن پڑے تو مرد اپنی خداداد طاقت و صلاحیت سے اس مشکل کو حل کردے
"لیکن اس کے ساتھ ساتھ جہاں مردوں کے کچھ حقوق عورتوں پر واجب کر دیئے ہیں۔ وہاں عورتوں کے بھی کچھ حقوق مردوں پر لازم ٹھہرا دیئے گئے ہیں۔ اس لئے عورت اور مرد دونوں ایک دوسرے کے حقوق میں جکڑے ہوئے ہیں تاکہ دونوں ایک دوسرے کے حقوق کو ادا کر کے اپنی اجتماعی زندگی کو شادمانی و مسرت کی جنت بنادیں۔ اور نفاق و شقاق اور لڑائی جھگڑوں کے جہنم سے ہمیشہ کے لئے آزاد ہو جائیں۔
عورتوں کو درجات و مراتب کی اتنی بلند منزلوں پر پہنچا دینا یہ حضور نبی رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا وہ احسان عظیم ہے کہ تمام دنیا کی عورتیں اگر اپنی زندگی کی آخری سانس تک اس احسان کا شکریہ ادا کرتی رہیں پھر بھی وہ اس عظیم ا لشان احسان کی شکر گزاری کے فرض سے سبکدوش نہیں ہو سکتیں۔ سبحان اﷲ!تمام دنیا کے محسن ا عظم حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی شان رحمت کا کیا کہنا؟"
"وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ماویٰ ضعیفوں کا ملجیٰ
یتیموں کا والی غلاموں کا مولیٰ"
عورت کی زندگی کے راستہ میں یوں تو بہت سے موڑ آتے ہیں مگر اس کی زندگی کے چار دور خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
" (۱)عورت کا بچپن(۲)عورت بالغ ہونے کے بعد(۳) عورت بیوی بن جانے کے بعد(۴)عورت ماں بن جانے کے بعد
اب ہم عورت کے ان چاروں زمانوں کا اور ان وقتوں میں عورت کے فرائض اور ان کے حقوق کا مختصر تذکرہ صاف صاف لفظوں میں تحریر کرتے ہیں۔ تاکہ ہر عورت ان حقوق و فرائض کو ادا کرکے اپنی زندگی کو دنیا میں بھی خوشحال بنائے اور آخرت میں بھی جنت کی لازوال نعمتوں اوردولتوں سے سر فراز ہو کر مالا مال ہو جائے۔"
عورت بچپن میں اپنے ماں باپ کی پیاری بیٹی کہلاتی ہے اس زمانے میں جب تک وہ نا بالغ بچی رہتی ہے شریعت کی طرف سے نہ اس پر کوئی چیز فرض ہوتی ہے نہ اس پر کسی قسم کی ذمہ داریوں کا کوئی بوجھ ہوتا ہے وہ شریعت کی پابندیوں سے بالکل آزاد رہتی ہے اور اپنے ماں باپ کی پیاری اور لاڈلی بیٹی بنی ہوئی کھاتی پیتی' پہنتی اوڑھتی اور ہنستی کھیلتی رہتی ہے اور وہ اس بات کی حقدار ہوتی ہے کہ ماں باپ' بھائی بہن اور سب رشتہ ناتا والے اس سے پیارو محبت کرتے رہیں اور اس کی دل بستگی اور دل جوئی میں لگے رہیں اور اس کی صحت و صفائی اور اس کی عافیت اور بھلائی میں ہر قسم کی انتہائی کوشش کرتے رہیں تاکہ وہ ہر قسم کی فکروں اور رنجوں سے فارغ البال اور ہر وقت خوش و خرم اورخوشحال رہے جب وہ کچھ بولنے لگے تو ماں باپ پر لازم ہے کہ اس کو اﷲ و رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا نام سنائیں پھر اس کو کلمہ وغیرہ پڑھائیں جب وہ کچھ اور زیادہ سمجھدار ہو جائے تو اس کو صفائی ستھرائی کے ڈھنگ اور سلیقے سکھائیں اس کو نہایت پیار ومحبت اور نرمی کے ساتھ انسانی شرافتوں کی باتیں بتائیں اور اچھی اچھی باتوں کا شوق اور بری باتوں سے نفرت دلائیں
جب پڑھنے کے قابل ہو جائے تو سب سے پہلے اس کو قرآن شریف پڑھائیں۔ جب کچھ اور زیادہ ہوشیار ہوجائے تو اس کو پاکی و ناپاکی وضووغسل وغیرہ کا اسلامی طریقہ بتائیں اور ہر بات اور ہر کام میں اس کو اسلامی آداب سے آگاہ کرتے رہیں۔ جب وہ سات برس کی ہو جائے تو اس کو نماز وغیرہ ضروریات دین کی باتیں تعلیم کریں اور پردہ میں رہنے کی عادت سکھائیں اور برتن دھونے' کھانے پینے' سینے پرونے اور چھوٹے موٹے گھریلو کاموں کا ہنر بتائیں اور عملی طور پر اس سے یہ سب کام لیتے رہیں اور اس کی کاہلی اور بے پروائی اور شرارتوں پرروک ٹوک کرتے رہیں اور خراب عورتوں اور بد چلن گھرانوں کے لوگوں سے میل جول پر پابندی لگادیں اور ان لوگوں کی صحبت سے بچاتے رہیں۔ عاشقانہ اشعار اور گیتوں اورعاشقی معشوقی کے مضامین کی کتابوں سے،گانے بجانے اور کھیل تماشوں سے دور رکھیں تاکہ بچیوں کے اخلاق و عادات اور چال چلن خراب نہ ہو جائیں۔ جب تک بچی بالغ نہ ہو جائے ان باتوں کا دھیان رکھنا ہر ماں باپ کا اسلامی فرض ہے۔ اگر ماں باپ اپنے ان فرائض کو پورا نہ کریں گے تو وہ سخت گناہ گار ہوں گے۔
جب عورت بالغ ہو گئی تو اﷲ و رسول (جل جلالہ و صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم ) کی طرف سے شریعت کے تمام احکام کی پابند ہو گئی۔ اب اس پر نماز' روزہ اور حج و زکوٰۃ کے تمام مسائل پر عمل کرنا فرض ہو گیا اور اﷲ تعالیٰ کے حقوق اور بندوں کے حقوق کو ادا کرنے کی وہ ذمہ دار ہو گئی اب اس پر لازم ہے کہ وہ خدا کے تمام فرضوں کو ادا کرے اور چھوٹے بڑے تمام گناہوں سے بچتی رہے۔اور یہ بھی اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنے ماں باپ اور بڑوں کی تعظیم و خدمت بجا لائے اور اپنے چھوٹے بھائیوں بہنوں اور دوسرے
عزیزواقارب سے پیارو محبت کرے۔ پڑوسیوں اور رشتے ناتے کے تمام چھوٹوں' بڑوں کے ساتھ ان کے مراتب و درجات کے لحاظ سے نیک سلوک اور اچھا برتاؤ کرے۔ اچھی اچھی عادتیں سیکھے اور تمام خراب عادتوں کو چھوڑ دے اور اپنی زندگی کو پورے طور پر اسلامی ڈھانچے میں ڈھال کر سچی پکی پابند شریعت اور ایمان والی عورت بن جائے اور اس کے ساتھ ساتھ محنت و مشقت اور صبر و رضا کی عادت ڈالے مختصریہ کہ شادی کے بعد اپنے اوپر آنے والی تمام گھریلو ذمہ داریوں کی معلومات حاصل کرتی رہے کہ شوہر والی عورت کو کس طرح اپنے شوہر کے ساتھ نباہ کرنا اور اپنا گھر سنبھالنا چاہے وہ اپنی ماں اور بڑی بوڑھی عورتوں سے پوچھ پوچھ کر اس کا ڈھنگ اور سلیقہ سیکھے اور اپنے رہن سہن اور چال چلن کو اس طرح سدھارے اور سنوارے کہ نہ شریعت میں گناہ گار ٹھہرے نہ برادری و سماج میں کوئی اس کو طعنہ مارسکے۔
کھانے پینے' پہننے اوڑھنے' سونے جاگنے' بات چیت غرض ہر کام ہر بات میں جہاں تک ہو سکے خود تکلیف اٹھائے مگر گھر والوں کو آرام و راحت پہنچائے۔ بغیر ماں باپ کی اجازت کے نہ کو ئی سامان اپنے استعمال میں لائے نہ کسی دوسرے کو دے۔ نہ گھر کا ایک پیسہ یا ایک دانہ ماں باپ کی اجازت کے بغیر خرچ کرے۔ نہ بغیر ماں باپ سے پوچھے کسی کے گھر یا ادھر ادھر جائے۔ غرض ہر کام' ہر بات میں ماں کی اجازت اور رضامندی کو اپنے لئے ضروری سمجھے۔ کھانے' پینے' سینے پرونے' اپنے بدن' اپنے کپڑے اور مکان و سامان کی صفائی غرض سب گھریلو کام دھندوں کا ڈھنگ سیکھ لے اور اس کی عملی عادت ڈال لے تاکہ شادی کے بعد اپنے سسرال میں نیک نامی کے ساتھ زندگی بسر کر سکے اور میکے والوں اور سسرال والوں کے دونوں گھر کی چہیتی اور پیاری بنی رہے۔
" پردہ کا خاص طور پر خیال اور دھیان رکھے۔ غیر محرم مردوں اور لڑکوں کے سامنے آنے جانے' تاک جھانک اور ہنسی مذاق سے انتہائی پرہیز رکھے۔ عاشقانہ اشعار' اخلاق کو خراب کر نے والی کتابوں اور رسائل و اخبارات کو ہر گز نہ دیکھے بد کردار اور بے حیاء عورتوں سے بھی پردہ کرے اور ہر گز کبھی ان سے میل جول نہ رکھے کھیل تماشوں سے دور رہے اور مذہبی کتابیں خصوصاََ سیرت المصطفیٰ و سیرت رسول عربی' تمہید ایمان اور میلاد شریف کی کتابیں مثلاََ ''زینۃ المیلاد ''وغیرہ علمائے اہلسنّت کی تصنیفات پڑھتی رہے۔
فرض عبادتوں کے ساتھ نفلی عبادتیں بھی کرتی رہے۔ مثلاََ تلاوت قرآن و تسبیح فاطمہ میلاد شریف پڑھتی پڑھاتی رہے اور گیارھویں شریف و بارھویں شریف و محرم شریف وغیرہ کی نیاز و فاتحہ بھی کر تی رہے کہ ان اعمال سے دنیا و آ خرت کی بے شمار برکتیں حاصل ہوتی ہیں ۔ ہر گز ہر گز ان کی بات نہ سنے اور اہل سنت و جماعت کے عقائد و اعمال پر نہایت مضبوطی کے ساتھ قائم رہے۔"
نکاح :۔جب لڑکی بالغ ہو جائے تو ماں باپ پر لازم ہے کہ جلد ازجلد مناسب رشتہ تلاش کر کے اس کی شادی کردیں۔ رشتہ کی تلاش میں خاص طور سے اس بات کا دھیان رکھنا بے حد ضروری ہے کہ ہر گز ہر گز کسی بد مذہب کے ساتھ رشتہ نہ ہونے پائے بلکہ دیندار اور پابند شریعت اور مذہب اہلسنّت کے پابند کو اپنی رشتہ داری کے لئے منتخب کریں بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ عورت سے شادی کرنے میں چار چیزیں دیکھی جاتی ہیں۔
(۱) دولتمندی (۲) خاندانی شرافت(۳)خوبصورتی(۴) دینداری
''لیکن تم دینداری کو ان سب چیزوں پر مقدم سمجھو۔''
(صحیح البخاری، کتاب النکاح ۔۶۷۔باب الاکفاء فی الدین (۱۶)رقم الحدیث ۵۰۹۰، ج۳،ص۴۲۹)
اولاد کی تمنا اور اپنی ذات کو بدکاری سے بچانے کی نیت کے لئے نکاح کر نا سنت ہے اور بہت بڑے اجر و ثواب کا کام ہے اﷲتعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا کہ۔
وَ اَنۡکِحُوا الْاَیَامٰی مِنۡكُمْ وَ الصّٰلِحِیۡنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَ اِمَآئِكُمْ ؕ
" ''یعنی تم لوگ بے شوہر والی عورتوں کا نکاح کر دو اور اپنے نیک چلن غلاموں اور لونڈیوں کا بھی نکاح کر دو۔'' (پ18،النور:32)
حدیث شریف میں ہے کہ توراۃ شریف میں لکھا ہے کہ ----- ''جس شخص کی لڑکی بارہ برس کی عمر کو پہنچ گئی اور اس نے اس لڑکی کا نکاح نہیں کیا اور وہ لڑکی بدکاری کے گناہ میں پڑگئی تو اس کا گناہ لڑکی والے کے سرپر بھی ہوگا۔''"
(مشکوۃ المصابیح ، کتاب النکاح، باب الولیّ فی النکاح الخ ، رقم ۳۱۳۹،ج۲، ص۲۱۲)
" دوسری حدیث میں ہے کہ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ۔
''اﷲ تعالیٰ نے تین شخصوں کی امداد اپنے ذمہ کرم پر لی ہے۔ (۱)وہ غلام جو اپنے آقا سے آزاد ہونے کے لئے کسی قدر رقم ادا کرنے کا عہد کرے اور اپنے عہد کو پورا کرنے کی نیت رکھتا ہو۔ (۲) خدا کی راہ میں جہاد کرنے والا (۳) وہ نکاح کرنے والا یا نکاح کرنے والی جو نکاح کے ذریعہ حرام کاری سے بچنا چاہتا ہو۔''"
( الجامع الترمذی، کتاب فضائل الجہاد ، باب ماجاء فی المجاہد والناکح الخ، رقم ۱۶۶۱، ج۳،ص۲۴۷)
عورت' جب تک اس کی شادی نہیں ہوتی وہ اپنے ماں باپ کی بیٹی کہلاتی ہے مگر شادی ہو جانے کے بعد عورت اپنے شوہر کی بیوی بن جاتی ہے اور اب اس کے فرائض اور
اس کی ذمہ داریاں پہلے سے بہت زیادہ بڑھ جاتی ہیں وہ تمام حقوق و فرائض جو بالغ ہونے کے بعد عورت پر لازم ہو گئے تھے اب ان کے علاوہ شوہر کے حقوق کا بھی بہت بڑا بوجھ عورت کے سر پر آجاتا ہے جس کا اداکرنا ہر عورت کے لئے بہت ہی بڑا فریضہ ہے یاد رکھو کہ شوہر کے حقوق کو اگر عورت نہ ادا کرے گی تو اس کی دنیاوی زندگی تباہ و برباد ہوجائے گی اور آخرت میں وہ دوزخ کی بھڑکتی ہوئی آگ میں جلتی رہے گی اور اس کی قبر میں سانپ بچھو اس کو ڈستے رہیں گے اور دونوں جہاں میں ذلیل و خوار اور طرح طرح کے عذابوں میں گرفتار رہے گی۔ اس لئے شریعت کے حکم کے مطابق ہر عورت پر فرض ہے کہ وہ اپنے شوہر کے حقوق کو ادا کرتی رہے اور عمر بھر اپنے شوہر کی فرماں برداری و خدمت گزاری کرتی رہے۔
اﷲتعالیٰ نے شوہروں کو بیویوں پر حاکم بنایا ہے اور بہت بڑی بزرگی دی ہے اس لئے ہر عورت پر فرض ہے کہ وہ اپنے شوہر کا حکم مانے اور خوشی خوشی اپنے شوہر کے ہر حکم کی تابعداری کرے کیونکہ اﷲتعالیٰ نے شوہرکا بہت بڑا حق بنایا ہے یاد رکھو کہ اپنے شوہر کو راضی و خوش رکھنا بہت بڑی عبادت ہے اور شوہر کو نا خوش اور ناراض رکھنا بہت بڑا گناہ ہے۔رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ ''اگر میں خدا کے سوا کسی دوسرے کے لئے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو میں عورتوں کو حکم دیتا کو وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کیا کریں۔''
(جامع الترمذی، کتاب الرضاع (۱۰)باب ماجاء فی حق الزوج علی المرأۃ ، رقم ۱۱۶۲،ج۲،ص۳۸۶)
اور رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ''جس عورت کی موت ایسی حالت میں آئے کہ مرتے وقت اس کا شوہر اس سے خوش ہو وہ عورت جنت میں
جائے گی۔''
(سنن ابن ماجہ، کتاب النکاح ،۴۴۔باب حق الزوج علی المرأۃ ، رقم ۱۸۵۴،ج۲،ص۴۱۲)
اور یہ بھی فرمایا کہ ''جب کوئی مرد اپنی بیوی کو کسی کام کے لئے بلائے تو وہ عورت اگر چہ چولھے کے پاس بیٹھی ہو اس کو لازم ہے کہ وہ اٹھ کر شوہر کے پاس چلی آئے۔''
(جامع الترمذی ، کتاب الرضاع، باب ماجاء فی حق الزوج علی المرأۃ (ت:۱۰) رقم ۱۶۶۳،ج۲،ص۳۸۶)
" حدیث شریف کا مطلب یہ ہے کہ عورت چاہے کتنے بھی ضروری کام میں مشغول ہو مگر شوہر کے بلانے پر سب کاموں کو چھوڑ کر شوہر کی خدمت میں حاضر ہو جائے۔
اور رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے عورتوں کو یہ بھی حکم دیا کہ ''اگر شوہر اپنی عورت کو یہ حکم دے کہ پیلے رنگ کے پہاڑ کو کالے رنگ کا بنادے اور کالے رنگ کے پہاڑ کو سفید بنادے تو عورت کو اپنے شوہر کا یہ حکم بھی بجا لانا چاہے۔''"
(سنن ابن ماجہ ، کتاب النکاح ، ۴/۴۔باب حق الزوج علی المرأۃ ، رقم ۱۸۵۲،ج۲،ص۴۱۱)
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مشکل سے مشکل اور دشوار سے دشوار کام کا بھی اگر شوہر حکم دے تو جب بھی عورت کو شوہر کی نافرمانی نہیں کرنی چاہے بلکہ اس کے ہر حکم کی فرماں برداری کے لئے اپنی طاقت بھر کمر بستہ رہنا چاہے اور رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا یہ بھی فرمان ہے کہ ''شوہر بیوی کو اپنے بچھونے پر بلائے اور عورت آنے سے انکار کردے اور اس کا شوہر اس بات سے ناراض ہو کر سورہے تو رات بھر خدا کے فرشتے اس عورت پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔''
(صحیح مسلم، کتاب النکاح ، باب تحریم امتناعھا من فراش زوجھا، رقم ۱۴۳۶،ص۷۵۳)
پیاری بہنو! ان حدیثوں سے سبق ملتا ہے کہ شوہر کا بہت بڑا حق ہے اور ہر عورت
"پر اپنے شوہر کا حق ادا کرنا فرض ہے شوہر کے حقوق بہت زیادہ ہیں ان میں سے نیچے لکھے ہوے چند حقوق بہت زیادہ قابل لحاظ ہیں۔
۱۔عورت بغیر اپنے شوہر کی اجازت کے گھر سے باہر کہیں نہ جائے نہ اپنے رشتہ داروں کے گھر نہ کسی دوسرے کے گھر۔
۲۔شوہر کی غیر موجودگی میں عورت پر فرض ہے کہ شوہر کے مکان اور مال و سامان کی حفاظت کرے اور بغیر شوہر کی اجازت کسی کو بھی نہ مکان میں آنے دے نہ شوہر کی چھوٹی بڑی چیز کسی کو دے۔
۳۔شوہر کا مکان اور مال و سامان یہ سب شوہر کی امانتیں ہیں اور بیوی ان سب چیزوں کی امین ہے اگر عورت نے اپنے شوہر کی کسی چیز کو جان بوجھ کر برباد کردیا تو عورت پر امانت میں خیانت کرنے کا گناہ لازم ہوگا اور اس پر خداکا بہت بڑا عذاب ہوگا۔
۴۔عورت ہر گز ہر گز کوئی ایسا کام نہ کرے جو شوہر کو ناپسند ہو۔
۵۔بچوں کی نگہداشت ' ان کی تربیت اور پرورش خصوصاََ شوہر کی غیر موجودگی میں عورت کے لئے بہت بڑا فریضہ ہے۔
۶۔ عورت کو لازم ہے کہ مکان اور اپنے بدن اور کپڑوں کی صفائی ستھرائی کا خاص طور پر دھیان رکھے۔ پھوہڑ میلی کچیلی نہ بنی رہے بلکہ بناؤ سنگھار سے رہا کرے تاکہ شوہر اس کودیکھ کر خوش ہو جائے۔حدیث شریف میں ہے کہ ''بہترین عورت وہ ہے کہ جب شوہر اس کی طرف دیکھے تو وہ اپنے بناؤ سنگھار اور اپنی اداؤں سے شوہر کا دل خوش کردے اور اگر شوہر کسی بات کی قسم کھا جائے تو وہ اس قسم کو پوری کردے اور اگر شوہر غائب رہے تو وہ اپنی ذات اور شوہر کے مال میں حفاظت اور خیر خواہی کا کردار ادا کرتی رہے۔''"
(سنن ابن ماجہ ، کتاب النکاح، باب فضل النساء ، رقم ۱۸۵۷،ج۲،ص۴۱۴)
"یاد رکھوکہ میاں بیوی کا رشتہ ایک ایسا مضبوط تعلق ہے کہ ساری عمر اسی بندھن میں رہ کر زندگی بسر کرنی ہے۔ اگر میاں بیوی میں پورا پورا اتحاد اور ملاپ رہا تو اس سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں۔ اور اگر خدا نہ کرے میاں بیوی کے درمیان اختلاف پیدا ہو گیا اور جھگڑے تکرار کی نوبت آگئی تو اس سے بڑھ کرکوئی مصیبت نہیں کہ میاں بیوی دونوں کی زندگی جہنم کا نمونہ بن جاتی ہے اور دونوں عمر بھر گھٹن اور جلن کی آگ میں جلتے رہتے ہیں۔
اس زمانے میں میاں بیوی کے جھگڑوں کا فساد اس قدر زیادہ پھیل گیا ہے کہ ہزاروں مرد اور ہزاروں عورتیں اس بلا میں گرفتار ہیں اور مسلمانوں کے ہزاروں گھر اس اختلاف کی آگ میں جل رہے ہیں اور میاں بیوی دونوں اپنی زندگی سے بیزار ہو کر دن رات موت کی دعائیں مانگا کرتے ہیں۔ اس لئے ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ اس مقام پر چندایسی نصیحتیں لکھ دیں کہ اگرمرد وعورت ان پر عمل کرنے لگیں تو اﷲتعالیٰ سے امید ہے کہ میاں بیوی کے جھگڑوں سے مسلم معاشرہ پاک ہو جائے گا اور مسلمانوں کا ہر گھر امن و سکون اور آرام و راحت کی جنت بن جائے گا۔
(۱)ہر عورت شوہر کے گھر میں قدم رکھتے ہی اپنے اوپر یہ لازم کرلے وہ ہر وقت اور ہر حال میں اپنے شوہر کا دل اپنے ہاتھ میں لئے رہے اور اس کے اشاروں پر چلتی رہے اگر شوہر حکم دے کہ دن بھر دھوپ میں کھڑی رہو یا رات بھر جاگتی ہوئی مجھے پنکھا جھلتی رہو تو عورت کے لئے دنیا و آخرت کی بھلائی اسی میں ہے کہ تھوڑی تکلیف اٹھا کر اور صبر کر کے اس حکم پر بھی عمل کرے اور کسی وقت اور کسی حال میں بھی شوہر کے حکم کی نافرمانی نہ کرے۔
(۲)ہر عورت کو چاہے کہ وہ اپنے شوہر کے مزاج کو پہچان لے اور بغور دیکھتی رہے کہ اس"
"کے شوہر کو کیا کیا چیزیں اور کون کون سی باتیں ناپسند ہیں اور وہ کن کن باتوں سے خوش ہوتا ہے اور کون کون سی باتوں سے ناراض ہوتا ہے اٹھنے بیٹھنے' سونے جاگنے' پہننے اوڑھنے اور بات چیت میں اس کی عادت اور اس کا ذوق کیا اور کیسا ہے؟ خوب اچھی طرح شوہر کا مزاج پہچان لینے کے بعد عورت کو لازم ہے کہ وہ ہر کام شوہر کے مزاج کے مطابق کرے ہر گز ہر گز شوہر کے مزاج کے خلاف نہ کوئی بات کرے نہ کوئی کام۔
(۳)عورت کو لازم ہے کہ شوہر کوکبھی جلی کٹی باتیں نہ سنائے نہ کبھی اس کے سامنے غصہ میں چلا چلا کر بولے نہ اس کی باتوں کا کڑوا تیکھا جواب دے نہ کبھی اس کو طعنہ مارے نہ کوسنے دے نہ اس کی لائی ہوئی چیزوں میں عیب نکالے نہ شوہر کے مکان و سامان وغیرہ کو حقیر بتائے نہ شوہر کے ماں باپ یا اس کے خاندان یا اس کی شکل و صورت کے بارے میں کوئی ایسی بات کہے جس سے شوہر کے دل کو ٹھیس لگے اور خواہ مخواہ اس کو سن کر برا لگے اس قسم کی باتوں سے شوہر کا دل دکھ جاتا ہے اور رفتہ رفتہ شوہر کو بیوی سے نفرت ہونے لگتی ہے جس کا انجام جھگڑے لڑائی کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا یہاں تک کہ میاں بیوی میں زبردست بگاڑ ہو جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یا توطلاق کی نوبت آجاتی ہے یا بیوی اپنے میکے میں بیٹھ رہنے پر مجبور ہو جاتی ہے اور اپنی بھاوجوں کے طعنے سن سن کر کوفت اور گھٹن کی بھٹی میں جلتی رہتی ہے اور میکے اور سسرال والوں کے دونوں خاندانوں میں بھی اسی طرح اختلاف کی آگ بھڑک اٹھتی ہے کہ کبھی کورٹ کچہری کی نوبت آجاتی ہے اور کبھی مار پیٹ ہو کر مقدمات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور میاں بیوی کی زندگی جہنم بن جاتی ہے اور دونوں خاندان لڑ بھڑ کر تباہ و برباد ہوجاتے ہیں۔
(۴)عورت کو چاہے کہ شوہر کی آمدنی کی حیثیت سے زیادہ خرچ نہ مانگے بلکہ جو کچھ ملے"
"اس پر صبر و شکر کے ساتھ اپنا گھر سمجھ کر ہنسی خوشی کے ساتھ زندگی بسر کرے اگر کوئی زیور یا کپڑا یا سامان پسند آجائے اور شوہر کی مالی حالت ایسی نہیں ہے کہ وہ اس کو لا سکے تو کبھی ہر گز ہر گز شوہر سے اس کی فرمائش نہ کرے اور اپنی پسند کی چیزیں نہ ملنے پر کبھی ہر گز کوئی شکوہ شکایت نہ کرے نہ غصہ سے منہ پھلائے نہ طعنہ مارے' نہ افسوس ظاہر کرے۔ بلکہ بہترین طریقہ یہ ہے کہ عورت شوہر سے کسی چیز کی فرمائش ہی نہ کرے کیونکہ بار بار کی فرمائشوں سے عورت کا وزن شوہر کی نگاہ میں گھٹ جاتا ہے۔ ہاں اگر شوہر خود پوچھے کہ میں تمھارے لئے کیا لاؤں تو عورت کو چاہے کہ شوہر کی مالی حیثیت دیکھ کر اپنی پسند کی چیز طلب کرے اور جب شوہر چیز لائے تو وہ پسند آئے یا نہ آئے مگر عورت کو ہمیشہ یہی چاہے کہ وہ اس پر خوشی کا اظہار کرے۔ ایسا کرنے سے شوہر کا دل بڑھ جائے گا اور اس کا حوصلہ بلند ہو جائے گا اور اگر عورت نے شوہر کی لائی ہوئی چیز کو ٹھکرادیا اور اس میں عیب نکالا یا اس کو حقیر سمجھا تو اس سے شوہر کا دل ٹوٹ جائے گا جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ شوہرکے دل میں بیوی کی طرف سے نفرت پیدا ہوجائے گی اور آگے چل کر جھگڑے لڑائی کا بازار گرم ہو جائے گا اور میاں بیوی کی شادمانی و مسرت کی زندگی خاک میں مل جائے گی۔
(۵)عورت پر لا زم ہے کہ اپنے شوہر کی صورت وسیرت پر نہ طعنہ مارے نہ کبھی شوہر کی تحقیر اور اس کی ناشکری کرے اور ہر گز ہرگز کبھی اس قسم کی جلی کٹی بولیاں نہ بولے کہ ہائے اﷲ! میں کبھی اس گھر میں سکھی نہیں رہی۔ ہائے ہائے میری تو ساری عمر مصیبت ہی میں کٹی۔ اس اجڑے گھر میں آکر میں نے کیا دیکھا۔ میرے ماں باپ نے مجھے بھاڑ میں جھونک دیا کہ مجھے اس گھر میں بیاہ دیا مجھ نگوڑی کو اس گھر میں کبھی آرام نصیب نہیں ہوا۔ ہائے میں کس پھکڑّ اور دلدر سے بیاہی گئی۔ اس گھر میں تو ہمیشہ اُلّوہی بولتا رہا۔اس قسم کے طعنوں"
اور کوسنوں سے شوہر کی دل شکنی یقینی طور پر ہوگی جو میاں بیوی کے نازک تعلقات کی گردن پر چُھری پھیر دینے کے برابر ہے ظاہر ہے کہ شوہر اس قسم کے طعنوں اور کوسنوں کو سن سن کر عورت سے بیزار ہو جائے گا اور محبت کی جگہ نفرت و عداوت کا ایک ایسا خطرناک طوفان اٹھ کھڑا ہو گا کہ میاں بیوی کے خوشگوار تعلقات کی ناؤ ڈوب جائے گی جس پر تمام عمر پچھتانا پڑے گا مگر افسوس کہ عورتوں کی یہ عادت بلکہ فطرت بن گئی ہے کہ وہ شوہروں کو طعنے اور کوسنے دیتی ہی رہتی ہیں اور اپنی دنیا و آخرت کو تباہ و برباد کرتی رہتی ہیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ میں نے جہنم میں عورتوں کو بکثرت دیکھا۔ یہ سن کر صحابہ کرام علیھم الرضوان نے پوچھا کہ یا رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم! اس کی کیا وجہ ہے کہ عورتیں بکثرت جہنم میں نظر آئیں۔ تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ عورتوں میں دو بُری خصلتوں کی وجہ سے۔ ایک تو یہ کہ عورتیں دوسروں پر بہت زیادہ لعن طعن کرتی رہتی ہیں دوسری یہ کہ عورتیں اپنے شوہروں کی ناشکری کرتی رہتی ہیں چنانچہ تم عمر بھر ان عورتوں کے ساتھ اچھے سے اچھا سلوک کرتے رہو۔ لیکن اگر کبھی ایک ذرا سی کمی تمہاری طرف سے دیکھ لیں گی تو یہی کہیں گی کہ میں نے کبھی تم سے کوئی بھلائی دیکھی ہی نہیں۔
(صحیح البخاری، کتاب الایمان ۔۲۱۔باب کفران العشیروکفر دون کفر، رقم ۲۹، ج۱،ص۲۳ وایضافی کتاب النکاح۸۹،باب کفران العشیر وھو الزوج الخ، رقم ۵۱۹۱، ج۳،ص۴۶۳)
(۶)بیوی کو لازم ہے کہ ہمیشہ اٹھتے بیٹھتے بات چیت میں ہر حالت میں شوہر کے سامنے با ادب رہے اور اس کے اعزازواکرام کا خیال رکھے۔ شوہر جب کبھی بھی باہر سے گھر میں آئے تو عورت کو چاہے کہ سب کام چھوڑ کر اٹھ کھڑی ہو اور شوہر کی طرف متوجہ ہو جائے اس کی مزاج پرسی کرے اور فوراََ ہی اس کے آرام و راحت کا انتظام کرے اور اسکے ساتھ
"دلجوئی کی باتیں کرے اور ہرگز ہرگز ایسی کوئی بات نہ سنائے نہ کوئی ایسا سوال کرے جس سے شوہر کا دل دکھے۔
(۷)اگر شوہر کو عورت کی کسی بات پرغصہ آجائے تو عورت کو لازم ہے کہ اس وقت خاموش ہو جائے اور اس وقت ہر گز کوئی ایسی بات نہ بولے جس سے شوہر کا غصہ اور زیادہ بڑھ جائے اور اگر عورت کی طرف سے کوئی قصور ہو جائے اور شوہر غصہ میں بھر کر عورت کو برا بھلا کہہ دے اور ناراض ہو جائے تو عورت کو چاہے کہ خود روٹھ کر اور گال پھُلا کر نہ بیٹھ جائے بلکہ عورت کو لازم ہے کہ فوراََ ہی عاجزی اور خوشامد کرکے شوہر سے معافی مانگے اور ہاتھ جوڑ کر' پاؤں پکڑ کر جس طرح وہ مانے اسے منالے۔ اگر عورت کا کوئی قصور نہ ہو بلکہ شوہر ہی کا قصور ہو جب بھی عورت کو تن کر اور منہ بگاڑ کر بیٹھ نہیں رہنا چاہے بلکہ شوہر کے سامنے عاجزی و انکساری ظاہر کرکے شوہر کو خوش کرلینا چاہے کیونکہ شوہر کا حق بہت بڑا ہے اس کا مرتبہ بہت بلند ہے اپنے شوہر سے معافی تلافی کرنے میں عورت کی کوئی ذلت نہیں ہے بلکہ یہ عورت کے لئے عزت اور فخر کی بات ہے کہ وہ معافی مانگ کر اپنے شوہر کو راضی کرلے۔
(۸)عورت کو چاہے کہ وہ اپنے شوہر سے اس کی آمدنی اور خرچ کا حساب نہ لیا کرے کیوں کہ شوہروں کے خرچ پر عورتوں کے روک ٹوک لگانے سے عموماً شوہر کو چِڑ پیدا ہو جاتی ہے اور شوہروں پر غیرت سوار ہو جاتی ہے کہ میری بیوی مجھ پر حکومت جتاتی ہے اور میری آمدنی خرچ کا مجھ سے حساب طلب کرتی ہے اس چِڑ کا انجام یہ ہو تا ہے کہ رفتہ رفتہ میاں بیوی کے دلوں میں اختلاف پیدا ہو جایا کرتا ہے اسی طرح عورت کو چاہے کہ اپنے شوہر کے کہیں آنے جانے پر روک ٹوک نہ کرے نہ شوہر کے چال چلن پر شبہ اور بدگمانی کرے"
"کہ اس سے میاں بیوی کے تعلقات میں فساد و خرابی پیدا ہو جاتی ہے اور خواہ مخواہ شوہر کے دل میں نفرت پیدا ہو جاتی ہے۔
(۹) جب تک ساس اور خسر زندہ ہیں عورت کے لئے ضروری ہے کہ ان دونوں کی بھی تابعداری اور خدمت گزاری کرتی رہے اور جہاں تک ممکن ہو سکے ان دونوں کو راضی اور خوش رکھے۔ ورنہ یاد رکھو! کہ شوہر ان دونوں کا بیٹا ہے اگر ان دونوں نے اپنے بیٹے کو ڈانٹ ڈپٹ کر چانپ چڑھادی تو یقینا شوہر عورت سے ناراض ہوجائے گا اور میاں بیوی کے درمیان باہمی تعلقات تہس نہس ہو جائیں گے اسی طرح اپنے جیٹھوں' دیوروں اور نندوں، بھاوجوں کے ساتھ بھی خوش اخلاقی برتے اور ان سبھوں کی دل جوئی میں لگی رہے اور کبھی ہرگز ہرگز ان میں سے کسی کو ناراض نہ کرے۔ورنہ دھیان رہے کہ ان لوگوں سے بگاڑ کا نتیجہ میاں بیوی کے تعلقات کی خرابی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ عورت کو سسرال میں ساس اور خسر سے الگ تھلگ رہنے کی ہرگز کبھی کوشش نہیں کرنی چاہے۔ بلکہ مل جل کر رہنے میں ہی بھلائی ہے۔ کیونکہ ساس اور خسر سے بگاڑ اور جھگڑے کی یہی جڑ ہے اور یہ خود سوچنے کی بات ہے کہ ماں باپ نے لڑکے کو پالا پوسا اور اس امید پر اس کی شادی کی کہ بڑھاپے میں ہم کو بیٹے اور اس کی دلہن سے سہارا اور آرام ملے گا لیکن دلہن نے گھر میں قدم رکھتے ہی اس بات کی کوشش شروع کردی کہ بیٹا اپنے ماں باپ سے الگ تھلگ ہو جائے تو تم خود ہی سوچو کہ دلہن کی اس حرکت سے ماں باپ کو کس قدر غصہ آئے گا اور کتنی جھنجھلاہٹ پیدا ہوگی اس لئے گھر میں طرح طرح کی بدگمانیاں اور قسم قسم کے فتنہ و فساد شروع ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ میاں بیوی کے دلوں میں پھوٹ پیدا ہو جاتی ہے اور جھگڑے تکرار کی نوبت آجاتی ہے اور پھر پورے گھر والوں کی زندگی تلخ اور تعلقات درہم برہم ہو جاتے ہیں لہٰذا بہتری"
"اسی میں ہے کہ ساس اور خسر کی زندگی بھر ہرگز کبھی عورت کو الگ رہنے کا خیال بھی نہیں کرنا چاہے ہاں اگر ساس اور خسر خود ہی اپنی خوشی سے بیٹے کو اپنے سے الگ کردیں تو پھر الگ رہنے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن الگ رہنے کی صورت میں بھی الفت و محبت اور میل جول رکھنا انتہائی ضروری ہے تاکہ ہر مشکل میں پورے کنبے کو ایک دوسرے کی امداد کا سہاراملتا رہے اور اتفاق و اتحاد کے ساتھ پورے کنبے کی زندگی جنت کا نمونہ بنی رہے۔
(۱۰)عورت کو اگر سسرال میں کوئی تکلیف ہو یا کوئی بات ناگوار گزرے تو عورت کو لازم ہے کہ ہر گز میکے میں آکر چغلی نہ کھائے کیونکہ سسرال کی چھوٹی چھوٹی سی باتوں کی شکایت میکے میں آکرماں باپ سے کرنی یہ بہت خراب اور بُری بات ہے سسرال والوں کو عورت کی اس حرکت سے بے حد تکلیف پہنچتی ہے یہاں تک کہ دونوں گھروں میں بگاڑ اور لڑائی جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں جس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ عورت شوہر کی نظروں میں بھی قابل نفرت ہوجاتی ہے اور پھر میاں بیوی کی زندگی لڑائی جھگڑوں سے جہنم کا نمونہ بن جا تی ہے ۔
(۱۱)عورت کو چاہے کہ جہاں تک ہوسکے اپنے بدن اور کپڑوں کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھے۔ میلی کچیلی اور پھوہڑ نہ بن رہے بلکہ اپنے شوہر کی مرضی اور مزاج کے مطابق بناؤ سنگھار بھی کرتی رہے۔ کم سے کم ہاتھ پاؤں میں مہندی' کنگھی چوٹی' سرمے کاجل وغیرہ کا اہتمام کرتی رہے۔ بال بکھرے اور میلے کچیلے چڑیل بنی نہ پھرے کہ عورت کا پھوہڑپن عام طور پر شوہر کی نفرت کا باعث ہوا کرتا ہے خدا نہ کرے کہ شوہر عورت کے پھوہڑپن کی وجہ سے متنفر ہو جائے اور دوسری عورتوں کی طرف تاک جھانک شروع کردے تو پھرعورت کی زندگی تباہ وبرباد ہوجائے گی اور پھر اس کو عمر بھر رونے دھونے اور سر پیٹنے کے سوا کوئی چارہِ کار نہیں رہ جائے گا۔"
" (۱۲)عورت کے لئے یہ بات بھی خاص طور پر قابل لحاظ ہے کہ جب تک شوہر اور ساس اور خسر وغیرہ نہ کھا پی لیں خود نہ کھائے بلکہ سب کو کھلا پلا کر خود سب سے اخیر میں کھائے۔ عورت کی اس ادا سے شوہر اور اس کے سب گھر والوں کے دل میں عورت کی قدرومنزلت اور محبت بڑھ جائے گی۔
(۱۳)عورت کو چاہے کہ سسرال میں جاکر اپنے میکے والوں کی بہت زیادہ تعریف اور بڑائی نہ بیان کرتی رہے کیونکہ اس سے سسرال والوں کو یہ خیال ہو سکتا ہے کہ ہماری بہو ہم لوگوں کو بے قدرسمجھتی ہے اورہمارے گھروالوں اور گھر کے ماحول کی توہین کرتی ہے اس لئے سسرال والے بھڑک کر بہو کی بے قدری اور اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔
(۱۴)گھر کے اندر ساس' نندیں یا جیٹھانی' دیورانی یا کوئی دوسری عورتیں آپس میں چپکے چپکے باتیں کررہی ہوں تو عورت کو چاہے کہ ایسے وقت میں ان کے قریب نہ جائے اور نہ یہ جستجو کرے کہ وہ آپس میں کیا باتیں کررہی ہیں اور بلاوجہ یہ بدگمانی بھی نہ کرے کہ کچھ میرے ہی متعلق باتیں کر رہی ہوں گی کہ اس سے خواہ مخواہ دل میں ایک دوسرے کی طرف سے کینہ پیدا ہو جاتا ہے جو بہت بڑا گناہ ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے فساد ہونے کا سبب بن جایا کرتا ہے۔
(۱۵)عورت کو یہ بھی چاہے کہ سسرال میں اگر ساس یا نندوں کو کوئی کام کرتے دیکھے تو جھٹ پٹ اٹھ کر خود بھی کام کرنے لگے اس سے ساس نندوں کے دل میں یہ اثر پیدا ہوگا کہ وہ عورت کو اپنا غمگسار اور رفیق کار بلکہ اپنا مددگار سمجھنے لگیں گی جس سے خود بخود ساس نندوں کے دل میں ایک خاص قسم کی محبت پیدا ہو جائے گی خصوصاََ ساس' خسر اور نندوں کی بیماری کے وقت عورت کو بڑھ چڑھ کر خدمت اور تیمارداری میں حصہ لینا چاہے کہ ایسی"
"باتوں سے ساس' خسر' نندوں بلکہ شوہر کے دل میں عورت کی طرف سے جذبۂ محبت پیدا ہوجاتا ہے اور عورت سارے گھر کی نظروں میں وفاداروخدمت گزار سمجھی جانے لگتی ہے اور عورت کی نیک نامی میں چار چاند لگ جاتے ہیں۔
(۱۶)عورت کے فرائض میں یہ بھی ہے کہ اگر شوہر غریب ہو اور گھریلو کام کاج کے لئے نوکرانی رکھنے کی طاقت نہ ہو تو اپنے گھر کا گھریلو کام کاج خود کرلیا کرے اس میں ہر گز ہرگز نہ عورت کی کوئی ذلت ہے نہ شرم ۔بخاری شریف کی بہت سے روایتوں سے پتاچلتا ہے کہ خود رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی مقدس صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالی عنہا کا بھی یہی معمول تھا کہ وہ اپنے گھر کا سارا کام کاج خود اپنے ہاتھوں سے کیا کرتی تھیں کنویں سے پانی بھر کر اور اپنی مقدس پیٹھ پر مشک لاد کر پانی لایا کرتی تھیں خود ہی چکی چلا کر آٹا بھی پیس لیتی تھیں اسی وجہ سے ان کے مبارک ہاتھوں میں کبھی کبھی چھالے پڑ جاتے تھے اسی طرح امیرالمومنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالی عنہ کی صاحبزادی حضرت اسماء رضی اﷲ تعالی عنہا کے متعلق بھی روایت ہے کہ وہ اپنے غریب شوہر حضرت زبیر رضی اﷲ تعالی عنہ کے یہاں اپنے گھر کا سارا کام کاج اپنے ہاتھوں سے کرلیا کرتی تھیں یہاں تک کہ اونٹ کو کھلانے کے لئے باغوں میں سے کھجوروں کی گٹھلیاں چن چن کر اپنے سر پر لاتی تھیں اور گھوڑے کے لئے گھاس چارہ بھی لاتی تھیں اور گھوڑے کی مالش بھی کرتی تھیں۔
(۱۷)ہر بیوی کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ اپنے شوہر کی آمدنی اور گھر کے اخراجات کو ہمیشہ نظر کے سامنے رکھے اور گھر کا خرچ اس طرح چلائے کہ عزت و آبرو سے زندگی بسر ہوتی رہے۔ اگر شوہر کی آمدنی کم ہو تو ہرگز ہرگز شوہر پر بیجا فرمائشوں کا بوجھ نہ ڈالے۔ اس لئے کہ اگر عورت نے شوہر کو مجبور کیا اور شوہر نے بیوی کی محبت میں قرض کا بوجھ اپنے سر پر اٹھا"
"لیا اور خدا نہ کرے اس قرض کا ادا کرنا دشوار ہوگیا تو گھریلو زندگی میں پریشانیوں کا سامنا ہو جائے گا اور میاں بیوی کی زندگی تنگ ہو جائے گی اس لئے ہر عورت کو لازم ہے کہ صبروقناعت کے ساتھ جو کچھ بھی ملے خدا کا شکر ادا کرے اور شوہر کی جتنی آمدنی ہو اسی کے مطابق خرچ کرے اور گھر کے اخراجات کو ہر گز ہرگز آمدنی سے بڑھنے نہ دے۔
(۱۸)عورت کو لازم ہے کہ سسرال میں پہنچنے کے بعد ضد اور ہٹ دھرمی کی عادت بالکل ہی چھوڑدے۔ عموما عورتوں کی عادت ہوتی ہے کہ جہاں کوئی بات ان کی مرضی کے خلاف ہوئی فوراً غصہ میں آگ بگولا ہو کر الٹ پلٹ شروع کردیتی ہیں یہ بہت بری عادت ہے لیکن میکے میں چونکہ ماں باپ اپنی بیٹی کاناز اٹھاتے ہیں اس لئے میکے میں تو ضد اور ہٹ دھرمی اور غصہ وغیرہ سے عورت کو کچھ زیادہ نقصان نہیں پہنچتا لیکن سسرال میں ماں باپ سے نہیں بلکہ ساس' خسر اور شوہر سے واسطہ پڑتا ہے ان میں سے کون ایسا ہے جو عورت کے ناز اٹھانے کو تیار ہوگا۔ اس لئے سسرال میں عورت کی ضد اور ہٹ دھرمی اور غصہ اور چڑچڑاپن عورت کے لئے بے حد نقصان کا سبب بن جاتا ہے کہ پورے سسرال والے عورت کی ان خراب عادتوں کی وجہ سے بالکل ہی بیزار ہو جاتے ہیں اور عورت سب کی نظروں میں ذلیل و خوار ہو جاتی ہے۔
(۱۹)عموما سسرال کا ماحول میکے کے ماحول سے الگ تھلگ ہوتا ہے اور سب نئے نئے لوگوں سے عورت کا واسطہ پڑتا ہے اس لئے سچ پوچھو تو سسرال ہر عورت کے لئے ایک امتحان گاہ ہے جہاں اس کی ہر حرکت و سکون پر نظر رکھی جائے گی اور اس کے ہر عمل پر تنقید کی جائے گی۔ نیا ماحول ہونے کی وجہ سے ساس اور نندوں سے کبھی کبھی خیالات میں ٹکراؤ بھی ہوگا اور اس موقع پر بعض وقت ساس اور نندوں کی طرف سے جلی کٹی اور طعنوں کو سنوں"
"کی کڑوی کڑوی باتیں بھی سننی پڑیں گی ایسے موقعوں پر صبر اور خاموشی عورت کی بہترین ڈھال ہے عورت کو چاہے کہ ساس اور نندوں کو ہمیشہ برائی کا بدلہ بھلائی سے دیتی رہے اور ان کے طعنوں کو سنوں پر صبر کر کے بالکل ہی جواب نہ دے اور چپ سادھ لے یہ بہترین طریقہ عمل ہے ایسا کرتے رہنے سے ان شاء اﷲتعالیٰ ایک دن ایسا آئے گا کہ ساس اور نندیں خود ہی شرمندہ ہو کر اپنی حرکتوں سے باز آجائیں گی۔
(۲۰)عورت کو سسرال میں خاص طور پر بات چیت میں اس چیز کا دھیان رکھنا چاہے کہ نہ تو اتنی زیادہ بات چیت کرے جو سسرال والوں اور پڑوسیوں کو ناگوار گزرے اور نہ اتنی کم بات کرے کہ منت و خوشامد کے بعد بھی کچھ نہ بولے اس لئے کہ یہ غرور و گھمنڈ کی علامت ہے جو کچھ بولے سوچ سمجھ کر بولے اور اتنی نرم اور پیار بھرے لہجوں میں بات کرے کہ کسی کو ناگوار نہ گزرے اور کوئی ایسی بات نہ بولے جس سے کسی کے دل پر بھی ٹھیس لگے تاکہ عورت سسرال والوں اور رشتہ ناتا والوں اور پڑوسیوں سب کی نظروں میں ہر دلعزیز بنی رہے۔"
"(۱)جو اپنے شوہر کی فرماں برداری اور خدمت گزاری کو اپنا فرض منصبی سمجھے۔
(۲)جو اپنے شوہر کے تمام حقوق ادا کرنے میں کوتاہی نہ کرے!
(۳)جو اپنے شوہر کی خوبیوں پر نظر رکھے اور اس کے عیوب اور خامیوں کو نظرانداز کرتی رہے۔"
"(۴)جو خود تکلیف اٹھا کر اپنے شوہر کو آرام پہنچانے کی کوشش کرتی رہے۔
(۵)جو اپنے شوہر سے اس کی آمدنی سے زیادہ کا مطالبہ نہ کرے اور جو مل جائے اس پر صبرو شکر کے ساتھ زندگی بسر کرے۔
(۶)جو اپنے شوہر کے سوا کسی اجنبی مرد پر نگاہ نہ ڈالے اورنہ کسی کی نگاہ اپنے اوپر پڑنے دے۔
(۷)جو پردے میں رہے اور اپنے شوہر کی عزت و ناموس کی حفاظت کرے۔
(۸)جو شوہر کے مال اور مکان و سامان اور خود اپنی ذات کو شوہر کی امانت سمجھ کر ہر چیز کی حفاظت و نگہبانی کرتی رہے۔
(۹)جو اپنے شوہر کی مصیبت میں اپنی جانی و مالی قربانی کے ساتھ اپنی وفاداری کا ثبوت دے۔
(۱۰)جو اپنے شوہر کی زیادتی اور ظلم پر ہمیشہ صبر کرتی رہے۔
(۱۱)جو مَیکا اور سسرال دونوں گھروں میں ہر دلعزیز اور باعزت ہو!
(۱۲)جو پڑوسیوں اور ملنے جلنے والی عورتوں کے ساتھ خوش اخلاقی اور شرافت ومروت کا برتاؤ کرے اور سب اس کی خوبیوں کے مداح ہوں!
(۱۳)جو مذہب کی پابند اور دیندار ہو اور حقوق اﷲوحقوق العباد کو ادا کرتی رہے۔
(۱۴)جوسسرال والوں کی کڑوی کڑوی باتوں کو برداشت کرتی رہے۔
(۱۵)جو سب گھروالوں کو کھلا پلا کر سب سے آخر میں خود کھائے پئے۔
ساس بہو کا جھگڑا:۔ہمارے سماج کا یہ ایک بہت قابل افسوس اور درد ناک سانحہ ہے کہ تقریباً ہر گھر میں صدیوں سے ساس بہو کی لڑائی کا معرکہ جاری ہے۔ دنیا کی بڑی سے"
"بڑی لڑائیوں یہاں تک کہ عالمی جنگوں کا خاتمہ ہو گیا مگر ساس بہو کی جنگ عظیم یہ ایک ایسی منحوس لڑائی ہے کہ تقریباً ہر گھر اس لڑائی کا میدان جنگ بنا ہواہے!
کس قدر تعجب اور حیرت کی بات ہے کہ ماں کتنے لاڈ پیار سے اپنے بیٹوں کو پالتی ہے اور جب لڑکے جوان ہو جاتے ہیں تو لڑکوں کی ماں اپنے بیٹوں کی شادی اور ان کا سہرا دیکھنے کے لئے سب سے زیادہ بے چین اور بے قرار رہتی ہے اور گھر گھر کا چکر لگا کر اپنے بیٹے کی دلہن تلاش کرتی پھرتی ہے۔ یہاں تک کہ بڑے پیار اور چاہ سے بیٹے کی شادی رچاتی ہے اور اپنے بیٹے کی شادی کا سہرا دیکھ کر خوشی سے پھولے نہیں سماتی مگر جب غریب دلہن اپنا مَیکا چھوڑ کر اور اپنے ماں باپ' بھائی بہن اور رشتہ ناتا والوں سے جدا ہو کر اپنے سسرال میں قدم رکھتی ہے تو ایک دم ساس بہو کی حریف بن کر اپنی بہو سے لڑنے لگتی ہے اور ساس بہو کی جنگ ہوجاتی ہے اور بے چارہ شوہر ماں اور بیوی کی لڑائی کی چکی کے دو پاٹوں کے درمیان کچلنے اور پسنے لگتا ہے۔ غریب شوہر ایک طرف ماں کے احسانوں کے بوجھ سے دبا ہوا اور دوسری طرف بیوی کی محبت میں جکڑا ہوا ماں اور بیوی کی لڑائی کا منظر دیکھ دیکھ کر کوفت کی آگ میں جلتا رہتا ہے اور اس کے لئے بڑی مشکل یہ آن پڑتی ہے کہ اگر وہ اس لڑائی میں اپنی ماں کی حمایت کرتا ہے تو بیوی کے رونے دھونے اور اس کے طعنوں اور مَیکا چلی جانے کی دھمکیوں سے اس کا بھیجا کھولنے لگتا ہے۔ اور اگر بیوی کی پاسداری میں ایک لفظ بول دیتا ہے تو ماں اپنی چیخ و پکار اور کوسنوں سے سارا گھر سر پر اٹھالیتی ہے اور ساری برادری میں ''عورت کا مرید'' ''زن پرست'' ''بیوی کا غلمٹا'' کہلانے لگتا ہے اور ایسے گرم گرم اور دل خراش طعنے سنتا ہے کہ رنج و غم سے اس کے سینے میں دل پھٹنے لگتاہے۔"
اس میں شک نہیں کہ ساس بہو کی لڑائی میں ساس بہو اور شوہر تینوں کا کچھ نہ کچھ قصور ضرور ہوتا ہے لیکن میرا برسوں کا تجربہ یہ ہے کہ اس لڑائی میں سب سے بڑا ہاتھ ساس کا ہوا کرتا ہے حالانکہ ہر ساس پہلے خود بھی بہو رہ چکی ہوتی ہے۔ مگر وہ اپنے بہو بن کر رہنے کا زمانہ بالکل بھول جاتی ہے اور اپنی بہو سے ضرور لڑائی کرتی ہے اور اس کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ جب تک لڑکے کی شادی نہیں ہوتی۔ سو فیصدی بیٹے کا تعلق ماں ہی سے ہوا کرتا ہے۔ بیٹا اپنی ساری کمائی اور جو سامان بھی لاتا ہے وہ اپنی ماں ہی کے ہاتھ میں دیتا ہے اور ہر چیز ماں ہی سے طلب کرکے استعمال کرتا ہے اور دن رات سینکڑوں مرتبہ اماں۔ اماں کہہ کر بات بات میں ماں کو پکارتا ہے۔ اس سے ماں کا کلیجہ خوشی سے پھول کر سیر بھر کا ہو جایا کرتا ہے اور ماں اس خیال میں مگن رہتی ہے کہ میں گھر کی مالکن ہوں۔ اور میرا بیٹا میرا فرماں بردار ہے لیکن شادی کے بعد بیٹے کی محبت بیوی کی طرف رخ کر لیتی ہے۔ اور بیٹا کچھ نہ کچھ اپنی بیوی کو دینے اور کچھ نہ کچھ اس سے مانگ کر لینے لگتا ہے تو ماں کو فطری طور پر بڑا جھٹکا لگتا ہے کہ میرا بیٹا کہ میں نے اس کو پال پوس کربڑاکیا۔اب یہ مجھ کو نظر انداز کر کے اپنی بیوی کے قبضہ میں چلا گیا۔ اب اماں ۔ اماں پکارنے کی بجائے بیگم بیگم پکارا کرتا ہے۔ پہلے اپنی کمائی مجھے دیتا تھا ۔ اب بیوی کے ہاتھ سے ہر چیز لیادیا کرتا ہے۔ اب گھر کی مالکن میں نہیں رہی اس خیال سے ماں پر ایک جھلاہٹ سوارہوجاتی ہے اور وہ بہو کو جذبہ حسد میں اپنی حریف اور مد مقابل بنا کر اس سے لڑائی جھگڑا کرنے لگتی ہے اور بہو میں طرح طرح کے عیب نکالنے لگتی ہے اور قسم قسم کے طعنے اور کوسنے دینا شروع کر دیتی ہے بہو شروع شروع میں تو یہ خیال کرکے کہ یہ میرے شوہر کی ماں ہے کچھ دنوں تک چپ رہتی ہے مگرجب ساس حد سے زیادہ بہو کے حلق میں انگلی ڈالنے لگتی ہے تو بہو کو بھی پہلے تو نفرت کی
"متلی آنے لگتی ہے پھر وہ بھی ایک دم سینہ تان کر ساس کے آگے طعنوں اور کوسنوں کی قے کرنے لگتی ہے اور پھر معاملہ بڑھتے بڑھتے دونوں طرف سے ترکی بہ ترکی سوال و جواب کا تبادلہ ہونے لگتا ہے یہاں تک کہ گالیوں کی بمباری شروع ہو جاتی ہے۔ پھر بڑھتے بڑھتے اس جنگ کے شعلے ساس اور بہو کے خاندانوں کوبھی اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ اور دونوں خاندانوں میں بھی جنگ عظیم شروع ہوجاتی ہے۔
میرے خیال میں اس لڑائی کے خاتمہ کی بہترین صورت یہی ہے کہ اس جنگ کے تینوں فریق یعنی ساس' بہو اور بیٹا تینوں اپنے اپنے حقوق و فرائض ادا کرنے لگیں تو ان شاء اﷲتعالیٰ ہمیشہ کے لئے اس جنگ کا خاتمہ یقینی ہے ان تینوں کے حقوق و فرائض کیا ہیں ؟ان کو بغور پڑھو۔
ساس کے فرائض:۔ہر ساس کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنی بہو کو اپنی بیٹی کی طرح سمجھے اور ہر معاملہ میں اس کے ساتھ شفقت و محبت کا برتا ؤ کرے اگر بہو سے اس کی کمسنی یا نا تجربہ کاری کی وجہ سے کوئی غلطی ہو جائے تو طعنے مارنے اور کوسنے دینے کے بجائے اخلاق و محبت کے ساتھ اس کو کام کا صحیح طریقہ اور ڈھنگ سکھائے اور ہمیشہ اس کا خیال رکھے کہ یہ کم عمر اور نا تجربہ کار لڑکی اپنے ماں باپ سے جداہو کر ہمارے گھر میں آئی ہے اس کے لئے یہ گھر نیا اور اس کا ماحول نیا ہے اس کا یہاں ہمارے سوا کون ہے؟اگر ہم نے اس کا دل دکھایا تو اس کو تسلی دینے والا اوراس کے آنسو پونچھنے والا یہاں دوسرا کون ہے ؟ بس ہر ساس یہ سمجھ لے اور ٹھان لے کہ مجھے اپنی بہو سے ہر حال میں شفقت و محبت کرنی ہے بہو مجھے خواہ کچھ نہیں سمجھے مگر میں تو اس کو اپنی بیٹی ہی سمجھوں گی تو پھر سمجھ لو کہ ساس بہو کا جھگڑا آدھے سے زیادہ ختم ہو گیا۔"
"بَہو کے فرائض:۔ہر بہو کو لازم ہے کہ اپنی ساس کو اپنی ماں کی جگہ سمجھے اورہمیشہ ساس کی تعظیم اور اس کی فرماں برداری و خدمت گزاری کو اپنا فرض سمجھے۔ ساس اگر کسی معاملہ میں ڈانٹ ڈپٹ کرے تو خاموشی سے سن لے۔ اور ہر گز ہرگز' خبردار خبردارکبھی ساس کو پلٹ کر الٹا سیدھا جواب نہ دے بلکہ صبر کرے اسی طرح اپنے خسر کو بھی اپنے باپ کی جگہ جان کر اس کی تعظیم وخدمت کو اپنے لئے لازم سمجھے۔ اور ساس خسر کی زندگی میں ان سے الگ رہنے کی خواہش نہ ظاہر کرے اور اپنی دیورانیوں اور جیٹھانیوں اور نندوں سے بھی حسب مراتب اچھا برتاؤ رکھے اور یہ ٹھان لے کہ مجھے ہر حال میں انہی لوگوں کے ساتھ زندگی بسر کرنی ہے۔
بیٹے کے فرائض:۔ہر بیٹے کو لازم ہے کہ جب اس کی دلہن گھر آجائے تو حسب دستور اپنی دلہن سے خوب خوب پیار و محبت کرے لیکن ماں باپ کے ادب و احترام اور ان کی خدمت و اطاعت میں ہر گز ہر گز بال برابر بھی فرق نہ آنے دے۔ اب بھی ہر چیز کا لین دین ماں ہی کے ہاتھ سے کرتا رہے اور اپنی دلہن کو بھی یہی تاکید کرتا رہے کہ بغیر میری ماں اور میرے باپ کی رائے کے ہرگز ہر گز نہ کوئی کام کرے نہ بغیر ان دونوں سے اجازت لئے گھر کی کوئی چیز استعمال کرے۔ اس طرز عمل سے ساس کے دل کو سکون و اطمینان رہے گا کہ اب بھی گھر کی مالکہ میں ہی ہوں اور بیٹا بہو دونوں میرے فرماں بردار ہیں۔ پھر ہرگزہرگز کبھی بھی وہ اپنے بیٹے اور بہو سے نہیں لڑے گی جو لڑکے شادی کے بعد اپنی ماں سے لاپروائی برتنے لگتے ہیں اور اپنی دلہن کو گھر کی مالکہ بنا لیا کرتے ہیں۔ عموماً اسی گھر میں ساس بہو کی لڑائیاں ہوا کرتی ہیں لیکن جن گھروں میں ساس بہو اور بیٹے اپنی مذکورہ بالا فرائض کا خیال رکھتے ہیں۔ ان گھروں میں ساس بہو کی لڑائیوں کی نوبت ہی نہیں آتی۔"
"اس لئے بے حد ضروری ہے کہ سب اپنے اپنے فرائض اور دوسروں کے حقوق کا خیال و لحاظ رکھیں خداوند کریم سب کو توفیق دے اور ہر مسلمان کے گھر کو امن و سکون کی بہشت بنادے۔(آمین)
بیوی کے حقوق :۔اﷲتعالیٰ نے جس طرح مردوں کے کچھ حقوق عورتوں پر لازم فرمائے ہیں اسی طرح عورتوں کے بھی کچھ حقوق مردوں پر لازم ٹھہرادیئے ہیں۔ جن کا ادا کرنا مردوں پر فرض ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے۔"
وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیۡ عَلَیۡہِنَّ بِالْمَعْرُوۡفِ ۪
یعنی عورتوں کے مردوں کے اوپر اسی طرح کچھ حقوق ہیں جس طرح مردوں کے عورتوں پر' اچھے برتاؤ کے ساتھ(پ2،البقرہ:228) 'اسی طرح رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا ہے کہ ''تم میں اچھے لوگ وہ ہیں جو عورتوں کے ساتھ اچھی طرح پیش آئیں۔''
(مشکوٰۃ المصابیح ، کتاب النکاح ، باب عشرۃ النساء وما لکل واحدۃ من الحقوق ، رقم ۳۲۶۴، ج۲،ص۲۴۰)
اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ بھی فرمان ہے کہ ''میں تم لوگوں کو عورتوں کے بارے میں وصیت کرتا ہوں لہٰذا تم لوگ میری وصیت کو قبول کرو۔''
(صحیح البخاری،کتاب احادیث الانبیاء ، باب خلق آدم صلوات اللہ علیہ الخ ، رقم ۳۳۳۱، ج۲،ص۴۱۲)
اور ایک حدیث شریف میں یہ بھی ہے کہ کوئی مومن مرد کسی مومنہ عورت سے بغض و نفرت نہ رکھے کیونکہ اگر عورت کی کوئی عادت بری معلوم ہوتی ہو تو اسکی کوئی دوسری عادت پسندیدہ بھی ہوگی۔
(صحیح مسلم ، کتاب الرضاع ۔۱۸۔باب الوصیۃ بالنساء ، رقم ۱۴۶۹،ص۷۷۵)
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ایسا نہیں ہوگا کہ کسی عورت کی تمام عادتیں خراب ہی ہوں بلکہ اس میں کچھ اچھی کچھ بری ہر قسم کی عادتیں ہوں گی تو مرد کو چاہے کہ عورت کی
"صرف خراب عادتوں ہی کو نہ دیکھتا رہے بلکہ خراب عادتوں سے نظر پھر اکر اس کی اچھی عادتوں کو بھی دیکھا کرے۔ بہر حال اﷲعزوجل و رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے عورتوں کے کچھ حقوق مردوں کے اوپر لازم قرار دے دیئے ہیں۔ لہٰذا ہر مرد پر ضروری ہے کہ نیچے لکھی ہوئی ہدایتوں پر عمل کرتا رہے ورنہ خدا کے دربار میں بہت بڑا گنہگار اور برادری اور سماج کی نظروں میں ذلیل وخوار ہوگا۔
(۱)ہر شوہر کے اوپر اس کی بیوی کا یہ حق فرض ہے کہ وہ اپنی بیوی کے کھانے' پہننے اور رہنے اور دوسری ضروریات زندگی کا اپنی حیثیت کے مطابق اور اپنی طاقت بھر انتظام کرے اور ہر وقت اس کا خیال رکھے کہ یہ اﷲکی بندی میرے نکاح کے بندھن میں بندھی ہوئی ہے اور یہ اپنے ماں' باپ' بھائی بہن اور تمام عزیزواقارب سے جدا ہو کر صرف میری ہو کررہ گئی ہے اور میری زندگی کے دکھ سکھ میں برابر کی شریک بن گئی ہے اس لئے اس کی زندگی کی تمام ضروریات کا انتظام کرنا میرا فرض ہے۔یاد رکھو! جو مرد اپنی لاپروائی سے اپنی بیویوں کے نان و نفقہ اور اخراجات زندگی کا انتظام نہیں کرتے وہ بہت بڑے گنہگار' حقوق العباد میں گرفتار اور قہر قہار و عذاب نار کے سزاوار ہیں۔
(۲)عورت کا یہ بھی حق ہے کہ شوہر اس کے بستر کا حق ادا کرتا رہے۔ شریعت میں اس کی کوئی حد مقرر نہیں ہے مگر کم سے کم اس قدر تو ہونا چاہے کہ عورت کی خواہش پوری ہو جایا کرے اور وہ ادھر ادھر تاک جھانک نہ کرے جو مرد شادی کرکے بیویوں سے الگ تھلگ رہتے ہیں اور عورت کے ساتھ اس کے بستر کا حق نہیں ادا کرتے وہ حق العباد یعنی بیوی کے حق میں گرفتار اور بہت بڑے گنہگار ہیں۔ اگر خدا نہ کرے شوہر کسی مجبوری سے اپنی عورت کے اس حق کو نہ ادا کر سکے تو شوہر پر لازم ہے کہ عورت سے اس کے اس حق کو معاف"
کرالے بیوی کے اس حق کی کتنی اہمیت ہے اس بارے میں حضرت امیر المومنین فاروق اعظم رضی اﷲتعالی عنہ کا ایک واقعہ بہت زیادہ عبرت خیزونصیحت آمیز ہے۔ منقول ہے کہ امیرالمومنین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ رات کو رعایا کی خبر گیری کے لئے شہر مدینہ میں گشت کر رہے تھے اچانک ایک مکان سے دردناک اشعار پڑھنے کی آواز سنی۔ آپ اسی جگہ کھڑے ہوگئے اور غور سے سننے لگے تو ایک عورت یہ شعر بڑے ہی دردناک لہجہ میں پڑھ رہی تھی کہ ؎
"فَوَ اللہِ لَوْلاَ اللہُ تُخْشٰی عَوَاقِبُہٗ
لَزُحْزِحَ مِنْ ھٰذَا السَّرِیْرِ جَوَانِبُہٗ"
" ''یعنی خدا کی قسم اگر خدا کے عذابوں کا خوف نہ ہوتا تو بلاشبہ اس چارپائی کے کنارے جنبش میں ہو جاتے۔''
امیر المومنین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے صبح کو تحقیقات کی تو معلوم ہوا کہ عورت کا شوہر جہاد کے سلسلہ میں عرصہ دراز سے باہر گیا ہوا ہے اور یہ عورت اس کو یاد کرکے رنج و غم میں یہ شعر پڑھتی رہتی ہے امیرالمومنین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دل پر اس کا اتنا گہرا اثر پڑا کہ فوراً ہی آپ نے تمام سپہ سالاروں کو یہ فرمان لکھ بھیجا کہ کوئی شادی شدہ فوجی چار ماہ سے زیادہ اپنی بیوی سے جدا نہ رہے۔"
(تاریخ ا لخلفاء للسیوطی ، عمر فاروق رضی اللہ عنہ ،فصل فی نبذ من اخبارہ وقضایاہ،، ص۱۱۰)
(۳)عورت کو بلا کسی بڑے قصور کے کبھی ہر گز ہر گز نہ مارے۔ رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ کوئی شخص عورت کو اس طرح نہ مارے جس طرح اپنے غلام کومارا کرتا ہے پھر دوسرے وقت اس سے صحبت بھی کرے۔
(صحیح البخاری ، کتاب النکاح ۔ ۹۴۔باب مایکرہ من ضرب النساء ، رقم ۵۲۰۴، ج۳، ص۴۶۵)
" ہاں البتہ اگر عورت کوئی بڑا قصور کر بیٹھے تو بدلہ لینے یا دکھ دینے کے لئے نہیں بلکہ عورت کی اصلاح اور تنبیہ کی نیت سے شوہر اس کو مارسکتا ہے مگر مارنے میں اس کا پوری طرح دھیان رہے کہ اس کو شدید چوٹ یا زخم نہ پہنچے۔
فقہ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو چار باتوں پر سزادے سکتا ہے اور وہ چار باتیں یہ ہیں۔
(۱)شوہر اپنی بیوی کو بناؤ سنگھار اور صفائی ستھرائی کا حکم دے لیکن پھر بھی وہ پھوہڑ اور میلی کچیلی بنی رہے۔
(۲)شوہر صحبت کرنے کی خواہش کرے اور بیوی بلاکسی عذر شرعی منع کرے۔
(۳)عورت حیض اور جنابت سے غسل نہ کرتی ہو۔
(۴) بلاوجہ نماز ترک کرتی ہو۔"
(الفتاوی القاضی خان،کتاب النکاح،فصل فی حقوق الزوجیۃ،ج۱،ص۲۰۳)
"ان چاروں صورتوں میں شوہر کو چاہے کہ پہلے بیوی کو سمجھائے اگر مان جائے تو بہتر ہے ورنہ ڈرائے دھمکائے۔اگر اس پر بھی نہ مانے تو اس شرط کے ساتھ مارنے کی اجازت ہے کہ منہ پر نہ مارے۔ اور ایسی سخت مار نہ مارے کہ ہڈی ٹوٹ جائے یا بدن پر زخم ہوجائے۔
(۴)میاں بیوی کی خوشگوار زندگی بسر ہونے کے لئے جس طرح عورتوں کو مردوں کے جذبات کا لحاظ رکھنا ضروری ہے اسی طرح مردوں کو بھی لازم ہے کہ عورتوں کے جذبات کا خیال رکھیں ورنہ جس طرح مرد کی ناراضگی سے عورت کی زندگی جہنم بن جاتی ہے اس طرح عورت کی ناراضگی بھی مردوں کے لئے وبال جان بن جاتی ہے۔ اس لئے مرد کو لازم ہے کہ عورت کی سیرت و صورت پر طعنہ نہ مارے اور عورت کے میکا والوں پر بھی طعنہ زنی اور"
"نکتہ چینی نہ کرے۔ نہ عورت کے ماں باپ اور عزیز و اقارب کو عورت کے سامنے برابھلا کہے کیونکہ ان باتوں سے عورت کے دل میں مرد کی طرف سے نفرت کا جذبہ پیدا ہوجاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ میاں بیوی کے درمیان ناچاقی پیدا ہو جاتی ہے اور پھر دونوں کی زندگی دن رات کی جلن اور گھٹن سے تلخ بلکہ عذاب جان بن جاتی ہے۔
(۵)مرد کو چاہے کہ خبردار خبردار کبھی بھی اپنی عورت کے سامنے کسی دوسری عورت کے حسن و جمال یا اس کی خوبیوں کا ذکر نہ کرے ورنہ بیوی کو فوراً ہی بدگمانی اور یہ شبہ ہو جائے گا کہ شاید میرے شوہر کا اس عورت سے کوئی سانٹھ گانٹھ ہے یا کم سے کم قلبی لگاؤ ہے اور یہ خیال عورت کے دل کا ایک ایسا کانٹا ہے کہ عورت کو ایک لمحہ کے لئے بھی صبر و قرار نصیب نہیں ہو سکتا۔ یاد رکھو! کہ جس طرح کوئی شوہر اس کو برداشت نہیں کر سکتا کہ اس کی بیوی کا کسی دوسرے مرد سے ساز باز ہو اسی طرح کوئی عورت بھی ہرگز ہرگز کبھی اس بات کی تاب نہیں لا سکتی کہ اس کے شو ہرکاکسی دوسری عورت سے تعلق ہو بلکہ تجربہ شاہد ہے کہ اس معاملہ میں عورت کے جذبات مرد کے جذبات سے کہیں زیادہ بڑھ چڑھ کر ہوا کرتے ہیں لہٰذا اس معاملہ میں شوہر کو لازم ہے کہ بہت احتیاط رکھے ورنہ بد گمانیوں کا طوفان میاں بیوی کی خوشگوار زندگی کو تباہ و برباد کردے گا۔
(۶)مرد بلا شبہ عورت پر حاکم ہے۔ لہٰذا مرد کو یہ حق حاصل ہے کہ بیوی پر اپنا حکم چلائے مگر پھر مرد کے لئے یہ ضروری ہے کہ اپنی بیوی سے کسی ایسے کام کی فرمائش نہ کرے جو اس کی طاقت سے باہر ہو یا وہ کام اس کو انتہائی ناپسند ہو۔ کیونکہ اگر چہ عورت جبراً قہراً وہ کام کردے گی۔ مگر اس کے دل میں ناگواری ضرور پیدا ہو جائے گی جس سے میاں بیوی کی خوش مزاجی کی زندگی میں کچھ نہ کچھ تلخی ضرور پیدا ہو جائے گی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ رفتہ رفتہ میاں"
"بیوی میں اختلاف پیدا ہوجائے گا۔
(۷)مرد کو چاہے کہ عورت کی غلطیوں پر اصلاح کے لئے روک ٹوک کرتا رہے۔ کبھی سختی اور غصہ کے انداز میں اور کبھی محبت اور پیار اور ہنسی خوشی کے ساتھ بھی بات چیت کرے جو مرد ہر وقت اپنی مونچھ میں ڈنڈا باندھے پھرتے ہیں۔ ماسوائے ڈانٹ پھٹکار اور مار پیٹ کے اپنی بیوی سے کبھی کوئی بات ہی نہیں کرتے۔ تو ان کی بیویاں شوہروں کی محبت سے مایوس ہو کر ان سے نفرت کرنے لگتی ہیں۔ اور جو لوگ ہر وقت بیویوں کا ناز اٹھاتے رہتے ہیں اور بیوی لاکھ غلطیاں کرے مگر پھر بھی بھیگی بلی کی طرح اس کے سامنے میاؤں میاؤں کرتے رہتے ہیں ان لوگوں کی بیویاں گستاخ اور شوخ ہو کر شوہروں کو اپنی انگلیوں پر نچاتی رہتی ہیں۔ اس لئے شوہروں کو چاہے کہ حضرت شیخ سعدی علیہ ا لرحمۃ کے اس قول پر عمل کریں کہ"
"درشتی و نرمی بہم در بہ است
چو فاصد کہ جراح و مرہم نہ است"
" یعنی سختی اور نرمی دونوں اپنے اپنے موقعے پر بہت اچھی چیز ہیں جیسے فصد کھولنے والا زخم بھی لگاتا ہے اور مرہم بھی رکھ دیتا ہے مطلب یہ ہے کہ شوہر کو چاہے کہ نہ بہت ہی کڑوا بنے نہ بہت ہی میٹھا۔ بلکہ سختی اور نرمی موقع موقع سے دونوں پر عمل کرتا رہے۔
(۸)شوہر کو یہ بھی چاہے کہ سفر میں جاتے وقت اپنی بیوی سے انتہائی پیار و محبت کے ساتھ ہنسی خوشی سے ملاقات کرکے مکان سے نکلے اور سفر سے واپس ہو کر کچھ نہ کچھ سامان بیوی کے لئے ضرور لائے کچھ نہ ہوتوکچھ کھٹا میٹھا ہی لیتا آئے اور بیوی سے کہے کہ یہ خاص تمہارے لئے ہی لایا ہوں۔ شوہر کی اس ادا سے عورت کا دل بڑھ جائے گا اور وہ اس خیال"
"سے بہت ہی خوش اور مگن رہے گی کہ میرے شوہر کو مجھ سے ایسی محبت ہے کہ وہ میری نظروں سے غائب رہنے کے بعد بھی مجھے یاد رکھتا ہے اور اس کو میرا خیال لگا رہتا ہے ظاہر ہے کہ اس سے بیوی اپنے شوہر کے ساتھ کس قدر زیادہ محبت کرنے لگے گی۔
(۹)عورت اگر اپنے مَیکا سے کوئی چیز لا کریا خود بناکر پیش کرے۔ تو مرد کو چاہے کہ اگرچہ وہ چیز بالکل ہی گھٹیا درجے کی ہو۔ مگر اس پر خوشی کا اظہار کرے اور نہایت ہی پرتپاک اور انتہائی چاہ کے ساتھ اس کو قبول کرے اور چند الفاظ تعریف کے بھی عورت کے سامنے کہہ دے تاکہ عورت کا دل بڑھ جائے اور اس کا حوصلہ بلند ہو جائے۔ خبردار خبردار عورت کے پیش کئے ہوئے تحفوں کو کبھی ہر گز ہرگز نہ ٹھکرائے نہ ان کو حقیر بتائے نہ ان میں عیب نکالے۔ ورنہ عورت کا دل ٹوٹ جائے گا اور اس کا حوصلہ پست ہو جائے گا۔ یادرکھو کہ ٹوٹا ہوا شیشہ تو جوڑا جا سکتا ہے مگر ٹوٹا ہوا دل بڑی مشکل سے جڑتا ہے اور جس طرح شیشہ جڑ جانے کے بعد بھی اس کا داغ نہیں مٹتا اسی طرح ٹوٹا ہوا دل جڑ جائے پھر بھی دل میں داغ دھبہ باقی ہی رہ جاتا ہے۔
(۱۰)عورت اگر بیمار ہو جائے تو شوہر کا یہ اخلاقی فریضہ ہے کہ عورت کی غم خواری اور تیمارداری میں ہر گز ہر گز کوئی کوتاہی نہ کرے بلکہ اپنی دلداری و دلجوئی اور بھاگ دوڑ سے عورت کے دل پر نقش بٹھا دے کہ میرے شوہر کو مجھ سے بے حد محبت ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ عورت شوہر کے اس احسان کو یاد رکھے گی۔ اور وہ بھی شوہر کی خدمت گزاری میں اپنی جان لڑادے گی۔
(۱۱)شوہر کو چاہے کہ اپنی بیوی پر اعتماد اور بھروسا کرے اور گھریلو معاملات اس کے سپرد کرے تاکہ بیوی اپنی حیثیت کو پہچانے اور اس کا وقار اس میں خود اعتمادی پیدا کرے"
"اور وہ نہایت ہی دلچسپی اور کوشش کے ساتھ گھریلو معاملات کے انتظام کو سنبھالے رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگران اور محافظ ہے اور اس معاملہ میں عورت سے قیامت میں خداوند قدوس پوچھ گچھ فرمائے گا۔
بیوی پر اعتماد کرنے کا یہ فائدہ ہوگا کہ وہ اپنے آپ کو گھر کے انتظامی معاملات میں ایک شعبہ کی ذمہ دار خیال کرے گی اور شوہر کوبڑی حد تک گھریلو بکھیڑوں سے نجات مل جائے گی اورسکون و اطمینان کی زندگی نصیب ہوگی!
(۱۲)عورت کا اس کے شوہر پر ایک حق یہ بھی ہے کہ شوہر عورت کے بستر کی راز والی باتوں کو دوسروں کے سامنے نہ بیان کرے بلکہ اس کو راز بنا کر اپنے دل ہی میں رکھے کیونکہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا ہے کہ خدا کے نزدیک بد ترین شخص وہ ہے جو اپنی بیوی کے پاس جائے۔ پھر اس کے پردہ کی باتوں کو لوگوں پر ظاہر کرے اور اپنی بیوی کو دوسروں کی نگاہوں میں رسوا کرے۔"
(صحیح مسلم ، کتاب النکاح۔۲۱۔باب تحریم افشاء سرالمرأۃ ،رقم ۱۴۳۷،ص۷۵۳)
(۱۳)شوہر کو چاہے کہ بیوی کے سامنے آئے تو میلے کچیلے گندے کپڑوں میں نہ آئے بلکہ بدن اور لباس و بستر وغیرہ کی صفائی ستھرائی کا خاص طور پر خیال رکھے کیونکہ شوہر جس طرح یہ چاہتا ہے کہ اس کی بیوی بناؤ سنگھار کے ساتھ رہے اسی طرح عورت بھی یہ چاہتی ہے کہ میرا شوہر میلا کچیلا نہ رہے۔ لہٰذا میاں بیوی دونوں کو ہمیشہ ایک دوسرے کے جذبات و احساسات کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو اس بات سے سخت نفرت تھی کہ آدمی میلا کچیلا بنا رہے اور اس کے بال الجھے رہیں۔ اس حدیث پر میاں بیوی دونوں کو عمل کرنا چاہے۔
" (۱۴)عورت کا اس کے شوہر پر یہ بھی حق ہے کہ شوہر عورت کی نفاست اور بناؤ سنگھار کا سامان یعنی صابن'تیل کنگھی' مہندی' خوشبو وغیرہ فراہم کرتا رہے۔ تاکہ عورت اپنے آپ کو صاف ستھری رکھ سکے۔ اور بناؤ سنگھار کے ساتھ رہے۔
(۱۵)شوہر کو چاہے کہ معمولی معمولی بے بنیاد باتوں پر اپنی بیوی کی طرف سے بدگمانی نہ کرے بلکہ اس معاملہ میں ہمیشہ احتیاط اور سمجھداری سے کام لے یاد رکھو کہ معمولی شبہات کی بنا پر بیوی کے اوپر الزام لگانا یا بدگمانی کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔
حدیث شریف میں ہے کہ ایک دیہاتی نے رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے دربار میں حاضر ہو کر کہا کہ میری بیوی کے شکم سے ایک بچہ پیدا ہوا ہے جو کالا ہے اور میرا ہم شکل نہیں ہے۔ اس لئے میرا خیال ہے کہ یہ بچہ میرا نہیں ہے۔ دیہاتی کی بات سن کر حضور علیہ ا لصلوۃو السلام نے فرمایا کہ کیا تیرے پاس کچھ اونٹ ہیں؟ اس نے عرض کیا کہ میرے پاس بہت زیادہ اونٹ ہیں۔آپ نے فرمایا کہ تمہارے اونٹ کس رنگ کے ہیں؟ اس نے کہا سرخ رنگ کے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ کیا ان میں کچھ خاکی رنگ کے بھی ہیں یا نہیں؟ اس نے کہا جی ہاں کچھ اونٹ خاکی رنگ کے بھی ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ تم بتاؤ کہ سرخ اونٹوں کی نسل میں خاکی رنگ کے اونٹ کیسے اور کہاں سے پیدا ہو گئے؟ دیہاتی نے جواب دیا کہ میرے سرخ رنگ کے اونٹوں کے باپ داداؤں میں کوئی خاکی رنگ کا اونٹ رہا ہوگا۔ اس کی رگ نے اس کو اپنے رنگ میں کھینچ لیا ہوگا۔ اس لئے سرخ اونٹوں کا بچہ خاکی رنگ کا ہو گیا۔ یہ سن کر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ ممکن ہے تمہارے باپ داداؤں میں بھی کوئی کالے رنگ کا ہوا ہو۔ اور اس کی رگ نے تمہارے بچے کو کھینچ کر اپنے رنگ کا"
بنالیا ہو۔ اور یہ بچہ اس کا ہم شکل ہو گیا۔
(صحیح البخاری، کتاب الطلاق ، باب اذا عرض بنفی الولد ، رقم ۵۳۰۵،ج۳،ص۴۹۷)
" اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ محض اتنی سی بات پرکہ بچہ اپنے باپ کا ہم شکل نہیں ہے حضور علیہ ا لصلوہ و السلام نے اس دیہاتی کو اس کی اجازت نہیں دی کہ وہ اپنے اس بچے کے بارے میں یہ کہہ سکے کہ یہ میرا بچہ نہیں ہے۔ لہٰذا اس حدیث سے ثابت ہوا کہ محض شبہ کی بنا پر اپنی بیوی کے اوپر الزام لگا دینا جائز نہیں ہے بلکہ بہت بڑا گناہ ہے۔
(۱۶)اگر میاں بیوی میں کوئی اختلاف یا کشیدگی پیدا ہو جائے تو شوہر پر لازم ہے کہ طلاق دینے میں ہر گز ہر گز جلدی نہ کرے۔ بلکہ اپنے غصہ کو ضبط کرے اور غصہ اتر جانے کے بعد ٹھنڈے دماغ سے سوچ سمجھ کر اور لوگوں سے مشورہ لے کر یہ غور کرے کیا میاں بیوی میں نباہ کی کوئی صورت ہو سکتی ہے یا نہیں؟ اگر بناؤ اور نباہ کی کوئی شکل نکل آئے تو ہر گز ہر گز طلاق نہ دے۔ کیونکہ طلاق کوئی اچھی چیز نہیں ہے رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا ہے کہ حلال چیزوں میں سب سے زیادہ خدا کے نزدیک ناپسندیدہ چیز طلاق ہے۔"
(سنن ابی داؤد، کتاب الطلاق ، باب کراہیۃ الطلاق ، رقم ۲۱۷۸،ج۲،ص۳۷۰)
" اگر خدانخواستہ ایسی سخت ضرورت پیش آجائے کہ طلاق دینے کے سوا کوئی چارہ نہ رہے تو ایسی صورت میں طلاق دینے کی اجازت ہے۔ ورنہ طلاق کوئی اچھی چیز نہیں ہے!
بعض جاہل ذرا ذرا سی باتوں پر اپنی بیوی کو طلاق دے دیتے ہیں اور پھر پچھتاتے ہیں اور عالموں کے پاس جھوٹ بول بول کر مسئلہ پوچھتے پھرتے ہیں' کبھی کہتے ہیں کہ غصہ میں طلاق دی تھی' کبھی کہتے ہیں کہ طلاق دینے کی نیت نہیں تھی' غصہ میں بلا"
"اختیار طلاق کا لفظ منہ سے نکل گیا' کبھی کہتے ہیں کہ عورت ماہواری کی حالت میں تھی' کبھی کہتے ہیں کہ میں نے طلاق دی مگر بیوی نے طلاق لی نہیں۔ حالانکہ ان گنواروں کو معلوم ہونا چاہے کہ ان سب صورت میں طلاق پڑ جاتی ہے اور بعض تو ایسے بد نصیب ہیں کہ تین طلاق دے کر جھوٹ بولتے ہیں کہ میں نے ایک ہی بار کہا تھا اور یہ کہہ کر بیوی کو رکھ لیتے ہیں اور عمر بھر زناکاری کے گناہ میں پڑے رہتے ہیں۔ ان ظالموں کو اس کا احساس ہی نہیں ہوتا کہ تین طلاق کے بعد عورت بیوی نہیں رہ جاتی۔ بلکہ وہ ایک ایسی اجنبی عورت ہو جاتی ہے کہ بغیر حلالہ کرائے اس سے دوبارہ نکاح نہیں ہو سکتا۔ خداوند کریم ان لوگوں کو ہدایت دے۔ (آمین)
(۱۷)اگر کسی کے پاس دو بیویاں یا اس سے زیادہ ہوں تو اس پر فرض ہے کہ تمام بیویوں کے درمیان عدل اور برابری کا سلوک اور برتاؤ کرے کھانے'پینے' مکان'سامان' روشنی' بناؤ سنگھارکی چیزوں غرض تمام معاملات میں برابری برتے۔ اسی طرح ہر بیوی کے پاس رات گزارنے کی باری مقرر کرنے میں بھی برابری کا خیال ملحوظ رکھے۔ یاد رکھو! کہ اگر کسی نے اپنی تمام بیویوں کے ساتھ یکساں اور برابر سلوک نہیں کیا تو وہ حق العباد میں گرفتار اور عذاب جہنم کا حق دار ہوگا۔
حدیث شریف میں ہے کہ ''جس شخص کے پاس دو بیویاں ہوں اور اس نے ان کے درمیان عدل اور برابری کا برتاؤ نہیں کیا تو وہ قیامت کے دن میدان محشر میں اس حالت میں اٹھایا جائے گا کہ اس کا آدھا بدن مفلوج (فالج لگا ہوا) ہوگا۔''"
(جامع الترمذی، کتاب النکاح ، باب ماجاء فی التسویۃ بین الضرائر ،رقم ۱۱۴۴،ج۲،ص۳۷۵)
(۱۸)اگر بیوی کے کسی قول و فعل 'بدخوئی'بداخلاقی' سخت مزاجی' زبان درازی وغیرہ
"سے شوہر کو کبھی کبھی کچھ اذیت اورتکلیف پہنچ جائے تو شوہر کو چاہے کہ صبر و تحمل اور برداشت سے کام لے۔ کیونکہ عورتوں کا ٹیڑھاپن ایک فطری چیز ہے۔
رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا ہے کہ عورت حضرت آدم علیہ السلام کی سب سے ٹیڑھی پسلی سے پیدا کی گئی اگر کوئی شخص ٹیڑھی پسلی کو سیدھی کرنے کی کوشش کریگا تو پسلی کی ہڈی ٹوٹ جائے گی مگر وہ کبھی سیدھی نہیں ہو سکے گی۔ ٹھیک اسی طرح اگرکوئی شخص اپنی بیوی کو بالکل ہی سیدھی کرنے کی کوشش کریگا تو یہ ٹوٹ جائے گی یعنی طلاق کی نوبت آجائے گی۔ لہٰذا اگر عورت سے فائدہ اٹھانا ہے تو اس کے ٹیڑھے پن کے باوجود اس سے فائدہ اٹھالو یہ بالکل سیدھی کبھی ہو ہی نہیں سکتی۔جس طرح ٹیڑھی پسلی کی ہڈی کبھی سیدھی نہیں ہو سکتی۔''"
(صحیح البخاری، کتاب النکاح ، باب الوصاۃ بالنساء ، رقم ۵۱۸۵،ج۳،ص۴۵۷)
" (۱۹)شوہر کو چاہے کہ عورت کے اخراجات کے بارے میں بہت زیادہ بخیلی اور کنجوسی نہ کرے نہ حد سے زیادہ فضول خرچی کرے۔ اپنی آمدنی کو دیکھ کر بیوی کے اخراجات مقرر کرے۔ نہ اپنی طاقت سے بہت کم' نہ اپنی طاقت سے بہت زیادہ۔
(۲۰) شوہر کو چاہے کہ اپنی بیوی کو گھر کی چہاردیواری کے اندر قید کر کے نہ رکھے بلکہ کبھی کبھی والدین اور رشتہ داروں کے یہاں آنے جانے کی اجازت دیتا رہے اور اس کی سہیلیوں اور رشتہ داری والی عورتوں اور پڑوسنوں سے بھی ملنے جلنے پر پابندی نہ لگائے۔ بشرطیکہ ان عورتوں کے میل جول سے کسی فتنہ وفساد کا اندیشہ نہ ہو اور اگر ان عورتوں کے میل ملاپ سے بیوی کے بدچلن یا بد اخلاق ہوجانے کا خطرہ ہو تو ان عورتوں سے میل جول پر پابندی لگادیناضروری ہے اور یہ شوہر کا حق ہے۔"
مسلمان عورتوں کا پردہ :۔اﷲ و رسول (جل جلالہ و صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم) نے انسانی فطرت کے تقاضوں کے مطابق بدکاری کے دروازوں کو بند کرنے کے لئے عورتوں کو پردے میں رکھنے کا حکم دیا ہے۔ پردے کی فرضیت اور اس کی اہمیت قرآن مجید اور حدیثوں سے ثابت ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں اﷲتعالیٰ نے عورتوں پر پردہ فرض فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ۔
وَقَرْنَ فِیۡ بُیُوۡتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْاُوۡلٰی
" ''تم اپنے گھروں کے اندر رہو اور بے پردہ ہو کر باہر نہ نکلو جس طرح پہلے زمانے کے دور جاہلیت میں عورتیں بے پردہ باہر نکل کر گھومتی پھرتی تھیں۔'' (پ22،الاحزاب:33)
اس آیت میں اﷲتعالیٰ نے صاف صاف عورتوں پر پردہ فرض کرکے یہ حکم دیا ہے کہ وہ گھروں کے اندر رہا کریں اور زمانہ جاہلیت کی بے حیائی و بے پردگی کی رسم کو چھوڑ دیں۔ زمانہ جاہلیت میں کفار عرب کا یہ دستور تھا کہ ان کی عورتیں خوب بن سنور کر بے پردہ نکلتی تھیں ۔ اور بازاروں اور میلوں میں مردوں کے دوش بدوش گھومتی پھرتی تھیں۔اسلام نے اس بے پردگی کی بے حیائی سے روکااور حکم دیا کہ عورتیں گھروں کے اندر رہیں اور بلا ضرورت باہر نہ نکلیں اور اگر کسی ضرورت سے انہیں گھر سے باہر نکلنا ہی پڑے تو زمانہ جاہلیت کے مطابق بناؤ سنگار کرکے بے پردہ نہ نکلیں۔ بلکہ پردہ کے ساتھ باہر نکلیں۔ حدیث شریف میں ہے رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ ''عورت پردے میں رہنے کی چیز ہے جس وقت وہ بے پردہ ہو کر باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کو جھانک جھانک کر دیکھتا ہے۔''"
(الجامع الترمذی، کتاب الرضاع ، باب۱۸،رقم ۱۱۷۶،ج۲،ص۳۹۲)
اور ایک حدیث میں ہے کہ ''بناؤ سنگھار کر کے اترااترا کر چلنے والی عورت کی مثال اس تاریکی کی ہے جس میں بالکل روشنی ہی نہ ہو۔''
(جامع الترمذی ، کتاب الرضاع ، باب ماجاء فی کراہیۃ خروج النساء فی الزینۃ ، رقم ۱۱۷۰، ج۲،ص۳۸۹)
اسی طرح حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲتعالی عنہ سے روایت ہے کہ ''حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا جو عورت خوشبولگا کر مردوں کے پاس سے گزرے تاکہ لوگ اس کی خوشبو سونگھیں وہ عورت بدچلن ہے۔''
(سنن النسائی،کتاب الزینۃ،باب مایکرہ للنساء من الطیب،ج۸،ص۱۵۳)
پیاری بہنو! آج کل جو عورتیں بناؤ سنگھار اور عریاں لباس پہن کر خوشبو لگائے بلا پردہ بازاروں میں گھومتی ہیں اور سینما' تھیٹروں میں جاتی ہیں وہ ان حدیثوں کی روشنی میں اپنے بارے میں خود ہی فیصلہ کرلیں کہ وہ کون ہیں؟ اور کتنی بڑی گناہگار ہیں؟
اے اﷲعزوجل کی بندیو! تم خدا کے فضل سے مسلمان ہو۔ اﷲعزوجل و رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے تمہیں ایمان کی دولت سے مالا مال کیا ہے۔ تمہارے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ تم اﷲعزوجل و رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے احکام کو سنو اور ان پر عمل کرو۔ اﷲعزوجل و رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے تمہیں پردے میں رہنے کا حکم دیا ہے۔ اس لئے تم کو لازم ہے کہ تم پردہ میں رہا کرو اور اپنے شوہر اور اپنے باپ داداؤں کی عزت و عظمت اور ان کے ناموس کو برباد نہ کرو۔ یہ دنیا کی چند روزہ زندگی آنی فانی ہے۔ یاد رکھو! ایک دن مرنا ہے اور پھر قیامت کے دن اﷲعزوجل و رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو منہ دکھانا ہے۔ قبر اور جہنم کے عذابوں کو یاد کرو حضرت خاتون جنت بی بی فاطمہ زہرا رضی اﷲ تعالیٰ عنہا اور امت کی ماؤں یعنی رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی مقدس بیویوں کے نقش قدم پرچل کر اپنی دنیا و آخرت کو
"سنوارو۔ اور خدا کے لئے یہود و نصاریٰ اور مشرکین کی عورتوں کے طریقوں پر چلنا چھوڑ دو۔
پردہ عزت ہے بے عزتی نہیں:۔آج کل بعض ملحد قسم کے دشمنان اسلام مسلمان عورتوں کو یہ کہہ کر بہکایا کرتے ہیں کہ اسلام نے عورتوں کو پردہ میں رکھ کر عورتوں کی بے عزتی کی ہے اس لئے عورتوں کو پردوں سے نکل کر ہر میدان میں مردوں کے دوش بدوش کھڑی ہو جانا چاہے۔ مگر پیاری بہنو! خوب اچھی طرح سمجھ لو کہ ان مردوں کا یہ پروپیگنڈہ اتنا گندا اور گھناؤنا فریب اور دھوکہ ہے کہ شاید شیطان کو بھی نہ سوجھا ہوگا۔
اے اﷲعزوجل کی بندیو! تمہیں انصاف کرو کہ تمام کتابیں کھلی پڑی رہتی ہیں اور بے پردہ رہتی ہیں مگر قرآن شریف پر ہمیشہ غلاف چڑھا کر اس کو پردے میں رکھا جاتا ہے تو بتاؤ کیا قرآن مجید پر غلاف چڑھانا یہ قرآن کی عزت ہے یا بے عزتی؟ اسی طرح تمام دنیا کی مسجدیں ننگی اور بے پردہ رکھی گئی ہیں مگر خانہ کعبہ پر غلاف چڑھاکر اس کو پردہ میں رکھا گیا ہے تو بتاؤ کیا کعبہ مقدسہ پر غلاف چڑھانا اس کی عزت ہے یا بے عزتی؟ تمام دنیا کو معلوم ہے کہ قرآن مجید اور کعبہ معظمہ پر غلاف چڑھا کر ان دونوں کی عزت و عظمت کا اعلان کیا گیا ہے کہ تمام کتابوں میں سب سے افضل و اعلیٰ قرآن ہے۔ اور تمام مسجدوں میں افضل و اعلیٰ کعبہ معظمہ ہے اسی طرح مسلمان عورتوں کو پر دہ کا حکم دے کر اﷲعزوجل و رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی طرف سے اس بات کا اعلان کیا گیا ہے کہ اقوام عالم کی تمام عورتوں میں مسلمان عورت تمام عورتوں سے افضل و اعلیٰ ہے۔
پیاری بہنو! اب تمہیں کو اس کا فیصلہ کرنا ہے کہ اسلام نے مسلمان عورتوں کو پردوں میں رکھ کر ان کی عزت بڑھائی ہے یا ان کی بے عزتی کی ہے؟"
کن لوگوں سے پردہ فرض ہے؟:۔ہر غیر محرم مرد خواہ اجنبی ہو خواہ رشتہ دار باہر رہتا ہو یا گھر کے اندر ہر ایک سے پردہ کرنا عورت پر فرض ہے۔ ہاں ان مردوں سے جو عورت کے محرم ہیں پردہ کرنا عورت پر فرض نہیں۔ محرم وہ مرد ہیں جن سے عورت کا نکاح کبھی بھی اور کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہو سکتا۔ مثلاً باپ' دادا' چچا' ماموں' نانا'بھائی' بھتیجا' بھانجا' پوتا' نواسہ' خسر ان لوگوں سے پردہ کرنا ضروری نہیں ہے۔ غیر محرم وہ مرد ہیں جن سے عورت کا نکاح ہو سکتا ہے جیسے چچا زاد بھائی' ماموں زاد بھائی' پھوپھی زاد بھائی' خالہ زاد بھائی' جیٹھ اور دیور وغیرہ یہ سب عورت کے غیر محرم ہیں۔اور ان سب لوگوں سے پردہ کرنا عورت پر فرض ہے۔ ہمارے یہاں یہ بہت ہی غلط خلاف شریعت رواج ہے کہ عورتیں اپنے دیوروں سے بالکل پردہ نہیں کرتیں۔ بلکہ دیوروں سے ہنسی مذاق' اور ان کے ساتھ ہاتھا پائی تک کرنے کو برانہیں سمجھتیں۔ حالانکہ دیور عورت کا محرم نہیں ہے۔ اس لئے دوسرے تمام غیر محرم مردوں کی طرح عورتوں کو دیوروں سے پردہ کرنا فرض ہے۔ بلکہ حدیث شریف میں تو یہاں تک دیوروں سے پردہ کی تاکید ہے کہ
''اَلْحَمْوُالْمَوْتُ''
یعنی دیور عورت کے حق میں ایسا ہی خطرناک ہے جیسے موت۔ اور عورت کو دیور سے اسی طرح دور بھاگنا چاہے جس طرح لوگ موت سے بھاگتے ہیں۔
(صحیح البخاری ، کتاب النکاح ۔۱۱۲۔باب لایخلون رجل بامرأۃ الخ،رقم ۵۲۳۲، ج۳، ص۴۷۲)
بہر حال خوب اچھی طرح سمجھ لو کہ غیر محرم سے پردہ فرض ہے' چاہے وہ اجنبی مرد ہو یا رشتہ دار' دیور' جیٹھ بھی غیر محرم ہیں اس لئے ان لوگوں سے بھی پردہ کرنا ضروری ہے اسی طرح کفار و مشرکین کی عورتوں سے بھی مسلمان عورتوں کو پردہ کرنا لازم ہے۔ اور ان کو گھروں میں آنے جانے سے روک دینا چاہے۔
مسئلہ:۔عورت کا پیر بھی عورت کا غیر محرم ہے اس لئے مریدہ کو اپنے پیر سے بھی پردہ کرنا فرض ہے۔اور پیر کے لئے بھی یہ جائز نہیں کہ اپنی مریدہ کو بے پردہ دیکھے یا تنہائی میں اس کے پاس بیٹھے۔ بلکہ پیر کے لئے یہ بھی جائز نہیں کہ عورت کا ہاتھ پکڑ کر اس کو بیعت کرے۔ جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالی عنہا نے عورتوں کی بیعت کے متعلق فرمایا کہ حضور علیہ ا لصلوۃ و السلام
یٰاَۤ یُّھَا ا لنَّبِیُّ اِذَا جَآءَ کَ الْمُؤمِنَاتُ
سے عورتوں کاامتحان فرماتے تھے جو عورت اس آیت کا اقرار کرلیتی تھی تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم اس سے فرماتے تھے کہ میں نے تجھ سے یہ بیعت لے لی۔ یہ بیعت بذریعہ کلام ہوتی تھی۔ خدا کی قسم کبھی بھی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا ہاتھ کسی عورت کے ہاتھ سے بیعت کے وقت نہیں لگا۔
(صحیح البخاری ، کتاب المغازی، باب غزوۃ الحدیبیۃ،رقم ۴۱۸۲،ج۳،ص۷۵)
بہترین شوہر کی شان:۔شوہروں کے بارے میں اوپر لکھی ہوئی ہدایات کی روشنی میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بہترین شوہر کون ہے؟ تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ۔
"(۱)جو اپنی بیوی کے ساتھ نرمی' خوش خلقی اور حسن سلوک کے ساتھ پیش آئے!
(۲)جو اپنی بیوی کے حقوق کو ادا کرنے میں کسی قسم کی غفلت اور کوتاہی نہ کرے!
(۳)جو اپنی بیوی کا اس طرح ہوکر رہے کہ کسی اجنبی عورت پر نگاہ نہ ڈالے۔
(۴)جو اپنی بیوی کو اپنے عیش و آرام میں برابر کا شریک سمجھے۔
(۵)جو اپنی بیوی پر کبھی ظلم اور کسی قسم کی بے جا زیادتی نہ کرے۔
(۶)جو اپنی بیوی کے تند مزاجی اور بد اخلاقی پر صبر کرے۔
(۷)جو اپنی بیوی کی خوبیوں پر نظر رکھے اور معمولی غلطیوں کو نظر انداز کرے۔"
"(۸)جو اپنی بیوی کی مصیبتوں، بیماریوں اور رنج و غم میں دل جوئی، تیمارداری اور وفاداری کا ثبوت دے۔
(۹) جو اپنی بیوی کو پردہ میں رکھ کر عزت و آبرو کی حفاظت کرے۔
(۱۰)جو اپنی بیوی کو دینداری کی تاکید کرتا رہے اور شریعت کی راہ پر چلائے۔
(۱۱)جو اپنی بیوی اور اہل و عیال کو کما کما کر رزق حلال کھلائے۔
(۱۲)جو اپنی بیوی کے مَیْکا والوں اور اسکی سہیلیوں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرے۔
(۱۳)جو اپنی بیوی کو ذلت و رسوائی سے بچائے رکھے۔
(۱۴)جو اپنی بیوی کے اخراجات میں بخیلی اورکنجوسی نہ کرے ۔
(۱۵)جو اپنی بیوی پر اسطرح کنٹرول رکھے کہ وہ کسی برائی کی طرف رخ بھی نہ کر سکے۔"
عورت جب صاحب اولاد اور بچوں کی ماں بن جائے تو اس پر مزید ذمہ داریوں کابوجھ بڑھ جاتا ہے کیونکہ شوہر اور والدین وغیرہ کے حقوق کے علاوہ بچوں کے حقوق بھی عورت کے سر پر سوار ہو جاتے ہیں جن کو ادا کرنا ہر ماں کا فرض منصبی ہے۔ جو ماں اپنے بچوں کا حق ادا نہ کرے گی یقیناً وہ شریعت کے نزدیک بہت بڑی گناہگار' اور سماج کی نظروں میں ذلیل و خوار ٹھہرے گی۔
(۱)ہر ماں پر لازم ہے کہ اپنے بچوں سے پیار و محبت کرے اور ہر معاملہ میں ان کے ساتھ مشفقانہ برتاؤ کرے اور ان کی دلجوئی و دل بستگی میں لگی رہے اور ان کی پرورش اور تربیت میں پوری پوری کوشش کرے۔
"(۲)اگر ماں کے دودھ میں کوئی خرابی نہ ہو تو ماں اپنا دودھ اپنے بچوں کو پلائے کہ دودھ کا بچوں پر بڑا اثر پڑتا ہے۔
(۳)بچوں کی صفائی ستھرائی۔ ان کی تندرستی و سلامتی کا خاص طور پر دھیان رکھے۔
(۴)بچوں کو ہر قسم کے رنج و غم اور تکلیفوں سے بچاتی رہے۔
(۵)بے زبان بچے اپنی ضروریات بتا نہیں سکتے۔ اس لئے ماں کا فرض ہے کہ بچوں کے اشارات کو سمجھ کر ان کی ضروریات کو پوری کرتی رہے۔
(۶)بعض مائیں چلا کر یا بلی کی بولی بول کر یا سپاہی کا نام لے کر' یا کوئی دھماکہ کرکے چھوٹے بچوں کو ڈرایا کرتی ہیں۔ یہ بہت ہی بری باتیں ہیں۔ بار بار ایسا کرنے سے بچوں کا دل کمزور ہو جاتا ہے اور وہ بڑے ہونے کے بعد ڈرپوک ہو جایا کرتے ہیں۔
(۷)بچے جب کچھ بولنے لگیں تو ماں کو چاہے کہ انہیں بار بار اﷲعزوجل و رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا نام سنائے ان کے سامنے بار بار کلمہ پڑھے۔ یہاں تک کہ وہ کلمہ پڑھنا سیکھ جائیں۔
(۸)جب بچے بچیاں تعلیم کے قابل ہو جائیں تو سب سے پہلے ان کو قرآن شریف اور دینیات کی تعلیم دلائیں۔
(۹)بچوں کو اسلامی آداب و اخلاق اور دین و مذہب کی باتیں سکھائیں۔
(۱۰)اچھی باتوں کی رغبت دلائیں اور بری باتوں سے نفرت دلائیں۔
(۱۱)تعلیم و تربیت پر خاص طور پر توجہ کریں اور تربیت کا دھیان رکھیں۔ کیونکہ بچے سادہ ورق کے مانند ہوتے ہیں۔ سادہ کاغذ پر جو نقش و نگار بنائے جائیں وہ بن جاتے ہیں اور بچوں بچیوں کا سب سے پہلا مدرسہ ماں کی گود ہے۔ اس لئے ماں کی تعلیم و تربیت کا"
"بچوں پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ لہٰذا ہر ماں کا فرض منصبی ہے کہ بچوں کو اسلامی تہذیب و تمدن کے سانچے میں ڈھال کر ان کی بہترین تربیت کرے اگر ماں اپنے اس حق کو نہ ادا کرے گی تو گناہ گار ہوگی!
(۱۲)جب بچہ یا بچی سات برس کے ہو جائیں تو ان کو طہارت اور وضو و غسل کا طریقہ سکھائیں اور نماز کی تعلیم دے کر ان کو نمازی بنائیں اور پاکی و ناپاکی اور حلال و حرام اور فرض و سنت وغیرہ کے مسائل ان کو بتائیں۔
(۱۳)خراب لڑکوں اور لڑکیوں کی صحبت' ان کے ساتھ کھیلنے سے بچوں کو روکیں اور کھیل تماشوں کے دیکھنے سے'ناچ گانے' سینما تھیٹر' وغیرہ لغویات سے بچوں اور بچیوں کو خاص طور پر بچائیں۔
(۱۴)ہر ماں باپ کا فرض ہے کہ بچوں اور بچیوں کو ہر برے کاموں سے بچائیں اور ان کو اچھے کاموں کی رغبت دلائیں تاکہ بچے اور بچیاں اسلامی آداب و اخلاق کے پابند اور ایمانداری و دینداری کے جوہر سے آراستہ ہو جائیں اور صحیح معنوں میں مسلمان بن کر اسلامی زندگی بسر کریں۔
(۱۵)یہ بھی بچوں کا حق ہے کہ ان کی پیدائش کے ساتویں دن ماں باپ ان کا سر منڈا کر بالوں کے وزن کے بر ابرچاندی خیرات کریں اور بچے کا کوئی اچھا نام رکھیں۔ خبردار خبردار ہر گز ہر گز بچوں بچیوں کا کوئی برا نام نہ رکھیں۔
(۱۶)جب بچہ پیدا ہو تو فوراً ہی اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت پڑھیں تاکہ بچہ شیطان کے خلل سے محفوظ رہے اور چھوہارہ وغیرہ کوئی میٹھی چیز چبا کر اس کے منہ میں ڈال دیں تاکہ بچہ شیریں زبان اور بااخلاق ہو۔"
"(۱۷)نیا میوہ' نیا پھل' پہلے بچوں کو کھلائیں پھر خود کھائیں کہ بچے بھی تازہ پھل ہیں۔ نئے پھل کو نیا پھل دینا اچھا ہے۔
(۱۸)چند بچے بچیاں ہوں تو جو چیزیں دیں سب کو یکساں اور برابردیں۔ ہر گز کمی بیشی نہ کریں۔ ورنہ بچوں کی حق تلفی ہوگی۔ بچیوں کو ہر چیز بچوں کے برابر ہی دیں۔ بلکہ بچیوں کی دلجوئی و دلداری کا خاص طور پر خیال رکھیں۔ کیونکہ بچیوں کا دل بہت نازک ہوتا ہے۔
(۱۹)لڑکیوں کو لباس اور زیور سے آراستہ اور بناؤ سنگھار کے ساتھ رکھیں تاکہ لوگ رغبت کے ساتھ نکاح کا پیغام دیں۔ ہاں اس کا خیال رکھیں کہ وہ زیورات پہن کر باہر نہ نکلیں کہ چوروں ڈاکوؤں سے جان کا خطرہ ہے۔ بچیوں کو بالا خانوں پر نہ رہنے دیں کہ اس میں بے حیائی کا خطرہ ہے۔
(۲۰)حتی الامکان بارہ برس کی عمر میں بچیوں کی شادی کردیں مگر خبردار ہر گز ہر گز کسی بددین یا بد مذہب مثلاً رافضی' خارجی' وہابی' غیر مقلد وغیرہ کے یہاں لڑکوں یا لڑکیوں کی شادی نہ کریں ورنہ اولاد کی بہت بڑی حق تلفی ہوگی اور ماں باپ کے سروں پر بہت بڑے گناہ کا بوجھ ہوگا اور وہ عذاب جہنم کے حقدار ہوں گے۔ اسی طرح فاسقوں' فاجروں' شرابیوں' بدکاروں' حرام کی کمائی کھانے والوں' سود خوروں اور ناجائز کام دھندا کرنے والوں کے یہاں بھی لڑکوں اور لڑکیوں کی شادیاں نہ کریں اور رشتہ تلاش کرنے میں سب سے پہلے اور سب سے زیادہ مذہب اہل سنت اور دین دار ہونے کا خاص طور پر دھیان رکھیں۔
اولاد کی پرورش کرنے کا طریقہ:۔ہر ماں باپ کو یہ جان لینا چاہے کہ بچپن میں جو اچھی بری عادتیں بچوں میں پختہ ہو جاتی ہیں وہ عمر بھر نہیں چھوٹتی ہیں۔اس لئے"
"ماں باپ کو لازم ہے کہ بچوں کو بچپن ہی میں اچھی عادتیں سکھائیں اور بری عادتوں سے بچائیں بعض لوگ یہ کہہ کر ابھی بچہ ہے۔ بڑ ا ہوگا تو ٹھیک ہو جائے گا۔ بچوں کو شرارتوں اور غلط عادتوں سے نہیں روکتے۔ وہ لوگ در حقیقت بچوں کے مستقبل کو خراب کرتے ہیں اور بڑے ہونے کے بعد بچوں کے برے اخلاق اور گندی عادتوں پر روتے اور ماتم کرتے ہیں اس لئے نہایت ضروری ہے کہ بچپن ہی میں بچوں کی کوئی شرارت یا بری عادت دیکھیں تو اس پر روک ٹوک کرتے رہیں بلکہ سختی کے ساتھ ڈانٹتے پھٹکارتے رہیں۔اورطرح طرح سے بری عادتوں کی برائیوں کو بچوں کے سامنے ظاہر کر کے بچوں کو ان خراب عادتوں سے نفرت دلاتے رہیں اور بچوں کی خوبیوں اور اچھی اچھی عادتوں پر خوب خوب شاباش کہہ کر ان کا من بڑھائیں بلکہ کچھ انعام دے کر ان کا حوصلہ بلند کریں۔اس سے قبل بچوں کے حقوق کے بیان میں بچوں کے لئے بہت سی مفید باتیں ہم لکھ چکے ہیں اب اس سے کچھ زائد باتیں بھی ہم لکھتے ہیں۔ ماں باپ پر لازم ہے کہ ان باتوں کا خاص طور پر دھیان رکھیں۔ تاکہ بچوں اور بچیوں کا مستقبل روشن اور شاندار بن جائے۔
(۱)بچوں کو دودھ پلانے اور کھانا کھلانے کے لئے وقت مقرر کرلو۔ جو عورتیں ہر وقت بچوں کو دودھ پلاتی یا جلدی جلدی بچوں کو دن رات میں بار بار کھانا کھلاتی رہتی ہیں ان کے بچوں کا ہاضمہ خراب اور معدہ کمزور ہو جایا کرتا ہے اور بچے قے دست کی بیماریوں میں مبتلا ہو کر کمزور ہو جایا کرتے ہیں۔
(۲)بچوں کو صاف ستھرا رکھو مگر بہت زیادہ بناؤ سنگھار مت کرو۔ کہ اس سے اکثر نظر لگ جایاکرتی ہے۔
(۳)بچوں کو ہر دم گود میں نہ لئے رہو بلکہ جب تک وہ بیٹھنے کے قابل نہ ہوں پالنے میں"
"زیادہ تر سلائے رکھو۔ اور جب وہ بیٹھنے کے قابل ہوں تو ان کو رفتہ رفتہ مسندوں اور تکیوں کا سہارا دے کر بٹھانے کی کوشش کرو۔ ہر دم گود میں لئے رہنے سے بچے کمزور ہو جایا کرتے ہیں۔ اور وہ گود میں رہنے کی عادت پڑجانے سے بہت دیر میں چلتے اور بیٹھتے ہیں۔
(۴)بعض عورتیں اپنے بچوں کو مٹھائی کثرت سے کھلایا کرتی ہیں۔ یہ سخت مضر ہے۔ مٹھائی کھانے سے دانت خراب اور معدہ کمزور' اور بکثرت صفراوی بیماریاں اور پھوڑے پھنسی کا روگ بچوں کو لگ جاتا ہے۔ مٹھائیوں کی جگہ گلوکوز کے بسکٹ بچوں کے لئے اچھی غذا ہے۔
(۵) بچوں کے سامنے زیادہ کھانے کی برائی بیان کرتے رہو اور ہر وقت کھاتے پیتے رہنے سے بھی بچوں کو نفرت دلاتے رہو۔ مثلاًیوں کہا کرو کہ جو زیادہ کھاتا ہے وہ جنگلی اور بدو ہوتا ہے اور ہر وقت کھاتے پیتے رہنا یہ بندروں کی عادت ہے۔
(۶)بچوں کی ہر ضد پوری مت کرو کہ اس سے بچوں کا مزاج بگڑ جاتا ہے اور وہ ضدی ہو جاتے ہیں اور یہ عادت عمر بھر نہیں چھوٹتی۔
(۷)بچوں کے ہاتھ سے فقیروں کو کھانا اور پیسہ دلایا کرو۔ اسی طرح کھانے پینے کی چیزیں بچوں کے ہاتھ سے اس کے بھائی بہنوں کو یا دوسرے بچوں کو دلایا کرو تاکہ سخاوت کی عادت ہو جائے اور خود غرضی اور نفس پروری کی عادت پیدا نہ ہو اور بچہ کنجوس نہ ہو جائے۔
(۸)چلا کر بولنے اور جواب دينے سے ہمیشہ بچوں کو روکو۔ خاص کر بچیوں کو تو خوب خوب ڈانٹ پھٹکار کرو۔ ورنہ بڑی ہونے کے بعد بھی یہی عادت پڑی رہے گی تو میکے اور سسرال دونوں جگہ سب کی نظروں میں ذلیل و خوار بنی رہے گی اور منہ پھٹ اور بدتمیز کہلائے گی۔"
"(۹)غصہ کرنا اور بات بات پر روٹھ کر منہ پھلانا۔ بہت برا ہے اور بہت زور سے ہنسنا خواہ مخواہ بھائی بہنوں سے لڑنا جھگڑنا۔ چغلی کھانا۔ گالی بکنا ان حرکتوں پر لڑکوں اور خاص کر لڑکیوں کو بہت زیادہ تنبیہ کیا کرو۔ ان بری عادتوں کا پڑجانا عمر بھر کے لئے رسوائی کا سامان ہے۔
(۱۰)اگر بچہ کہیں سے کسی کی کوئی چیز اٹھالائے اگر چہ کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو۔ اس پر سب گھر والے خفا ہوجائیں اور سب گھر والے بچے کو چور چور کہہ کر شرم دلائیں اور بچے کو مجبور کریں کہ وہ فوراًاس چیز کو جہاں سے وہ لایا ہے اسی جگہ اس کو رکھ آئے پھر چوری سے نفرت دلانے کے لئے اس کا ہاتھ دھلائیں اور کان پکڑ کر اس سے توبہ کرائیں تاکہ بچوں کے ذہن میں اچھی طرح یہ بات جم جائے کہ پرائی چیز لینا چوری ہے اور چوری بہت ہی برا کام ہے۔
(۱۱)بچے غصہ میں اگر کوئی چیز توڑیں پھوڑیں۔ یا کسی کو مار بیٹھیں تو بہت زیادہ ڈانٹو۔ بلکہ مناسب سزادو تاکہ بچے پھر ایسا نہ کریں اس موقع پر لاڈ پیار نہ کرو۔
(۱۲)کبھی کبھی بچوں کو بزرگوں اور نیک لوگوں کی حکایتیں سنایا کرو۔ مگر خبردار خبردار عاشقی معشوقی کے قصے کہانیاں بچوں کے کان میں نہ پڑیں۔ نہ ایسی کتابیں بچوں کے ہاتھوں میں دو جن سے اخلاق خراب ہوں۔
(۱۳)لڑکوں اور لڑکیوں کو ضرور کوئی ایسا ہنر سکھا دو جس سے ضرورت کے وقت وہ کچھ کما کر بسر اوقات کر سکیں۔ مثلاًسلائی کا طریقہ' یا موزہ بنیان' سوئیٹر بننا' یا رسی بٹنا یا چرخہ کاتنا' خبردار خبردار ان ہنر کی باتوں کو سکھانے میں شرم و عار محسوس نہ کرو۔
(۱۴)بچوں کو بچپن ہی سے اس بات کی عادت ڈالو کہ وہ اپنا کام خود اپنے ہاتھ سے کریں"
"وہ اپنا بچھونا خود اپنے ہاتھ سے بچھائیں۔ اور صبح کو خود اپنے ہاتھ سے اپنا بستر لپیٹ کر اس کی جگہ پر رکھیں۔ اپنے کپڑوں اور زیوروں کو خود سنبھال کر رکھیں۔
(۱۵)لڑکیوں کو برتن دھونے اور کھانے پینے گھروں اور سامان کی صفائی ستھرائی اور سجاوٹ کپڑا دھونے' کپڑا رنگنے' سینے پرونے کا سب کام ماں کو لازم ہے کہ بچپن ہی سے سکھانا شروع کر دے اور لڑکیوں کو محنت مشقت اٹھانے کی عادت پڑجائے اس کی کوشش کرنی چاہے۔
(۱۶)ماں کو لازم ہے کہ بچوں کے دل میں باپ کا ڈر بٹھاتی رہے تاکہ بچوں کے دلوں میں باپ کا ڈر رہے۔
(۱۷)بچے اور بچیاں کوئی کام چھپ چھپا کر کریں تو ان کی روک ٹوک کرو کہ یہ اچھی عادت نہیں۔
(۱۸)بچوں سے کوئی محنت کا کام لیا کرو مثلاً لڑکوں کے لئے لازم ہے کہ وہ کچھ دور دوڑ لیا کریں اور لڑکیاں چرخہ چلائیں۔ یا چکی پیس لیں تاکہ ان کی صحت ٹھیک رہے۔
(۱۹)بچوں اور بچیوں کو کھانے' پہننے اور لوگوں سے ملنے ملانے اور محفلوں میں اٹھنے بیٹھنے کا طریقہ اور سلیقہ سکھانا ماں باپ کے لئے ضروری ہے۔
(۲۰)چلنے میں تاکید کرو کہ بچے جلدی جلدی اور دوڑتے ہوئے نہ چلیں اور نظر اوپر اٹھا کر ادھر ادھر دیکھتے ہوئے نہ چلیں۔ اور نہ بیچ سڑک پر چلیں۔ بلکہ ہمشہ سڑک کے کنارے کنارے چلیں۔
ماں باپ کے حقوق :۔ہر مرد و عورت پر اپنے ماں باپ کے حقوق کو بھی ادا کرنا فرض ہے۔ خاص کر نیچے لکھے ہوئے چند حقوق کا خیال تو خاص طور پر رکھنا بے حد ضروری"
"ہے۔
(۱)خبردار خبردار ہرگز ہرگز اپنے کسی قول و فعل سے ماں باپ کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ دیں۔ اگرچہ ماں باپ اولاد پر کچھ زیادتی بھی کریں مگر پھر بھی اولاد پر فرض ہے کہ وہ ہرگز ہرگز کبھی بھی اور کسی حال میں بھی ماں باپ کا دل نہ دکھائیں۔
(۲)اپنی ہر بات اور اپنے ہر عمل سے ماں باپ کی تعظیم و تکریم کرے اور ہمیشہ ان کی عزت و حرمت کا خیال رکھے۔
(۳)ہر جائز کام میں ماں باپ کے حکموں کی فرماں برداری کرے۔
(۴)اگر ماں باپ کو کوئی بھی حاجت ہو تو جان و مال سے انکی خدمت کرے۔
(۵)اگر ماں باپ اپنی ضرورت سے اولاد کے مال وسامان میں سے کوئی چیز لے لیں تو خبردار خبردار ہر گز ہر گز برا نہ مانیں۔ نہ اظہار ناراضگی کریں۔ بلکہ یہ سمجھیں کہ میں اورمیرا مال سب ماں باپ ہی کا ہے حدیث شریف میں ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ایک شخص سے یہ فرمایا کہ"
اَنْتَ وَ مَالُکَ لِاَبِیْکَ
یعنی تو اور تیرا مال سب تیرے باپ کا ہے۔
(سنن ابن ماجہ،کتاب التجارات،باب ماللرجل من مال ولدہ،الحدیث۲۲۹۲،ج۳،ص۸۱)
"(۶)ماں باپ کا انتقال ہوجائے تو اولاد پر ماں باپ کایہ حق ہے کہ ان کے لئے مغفرت کی دعائیں کرتے رہیں اور اپنی نفلی عبادتوں اور خیر و خیرات کا ثواب ان کی روحوں کو پہنچاتے رہیں کھانوں اور شیرینی وغیرہ پر فاتحہ دلا کر ان کی ارواح کو ایصال ثواب کرتے رہیں۔
(۷)ماں باپ کے دوستوں اور ان کے ملنے جلنے والوں کے ساتھ احسان اور اچھا برتاؤ"
"کرتے رہیں۔
(۸)ماں باپ کے ذمہ جو قرض ہو اس کو ادا کریں یا جن کاموں کی وہ وصیت کر گئے ہوں۔ ان کی وصیتوں پر عمل کریں۔
(۹)جن کاموں سے زندگی میں ماں باپ کو تکلیف ہوا کرتی تھی ان کی وفات کے بعد بھی ان کاموں کو نہ کریں کہ اس سے انکی روحوں کو تکلیف پہنچے گی۔
(۱۰)کبھی کبھی ماں باپ کی قبروں کی زیارت کے لئے بھی جایاکریں۔ ان کے مزاروں پر فاتحہ پڑھیں۔ سلام کریں اور ان کے لئے دعائے مغفرت کریں اس سے ماں باپ کی ارواح کو خوشی ہوگی اور فاتحہ کا ثواب فرشتے نور کی تھالیوں میں رکھ کر ان کے سامنے پیش کریں گے اور ماں باپ خوش ہو کر اپنے بیٹے بیٹیوں کو دعائیں دیں گے۔
دادا' دادی'نانا'نانی'چچا' پھوپھی' ماموں'خالہ وغیرہ کے حقوق بھی ماں باپ ہی کی طرح ہیں یوں ہی بڑے بھائی کا حق بھی باپ ہی جیسا ہے چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ۔"
وحق کبیرالاخوۃ حق الوالد علی ولدہٖ۔
(شعب الایمان للبیھقی ۵۵،باب فی برالوالدین ،فصل فی صلۃ الرحم ،رقم ۷۹۲۹، ج۶، ص۲۱۰)
"یعنی بڑے بھائی کا حق چھوٹے بھائی پر ایسا ہے جیسا کہ باپ کا حق بیٹے پر ہے۔
اس زمانے میں لڑکے اور لڑکیاں ماں باپ کے حقوق سے بالکل جاہل اور غافل ہیں۔ ان کی تعظیم و تکریم اور فرماں برداری و خدمت گزاری سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ بلکہ کچھ تو اتنے بڑے بدبخت اور نالائق ہیں کہ ماں باپ کو اپنے قول وفعل سے اذیت اور تکلیف دیتے ہیں۔ اور اسی طرح گناہ کبیرہ میں مبتلا ہو کر قہر قہار و غضب جبار میں گرفتار'اور عذاب جہنم کے حق دار بن رہے ہیں۔"
خوب یاد رکھو! کہ تم اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا یا برا جو سلوک بھی کروگے ویسا ہی سلوک تمہاری اولاد بھی تمہارے ساتھ کرے گی اور یہ بھی جان لو کہ ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے سے رزق میں ترقی اور عمر میں خیر و برکت نصیب ہوتی ہے۔ یہ اﷲتعالیٰ کے سچے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا فرمان ہے جو ہرگز ہرگز کبھی غلط نہیں ہوسکتا۔ اس بات پر ایمان رکھو کہ ؎
"ہزار فلسفیوں کی چنیں چناں بدلی
نبی کی بات بدلنی نہ تھی' نہیں بدلی"
" رشتہ داروں کے حقوق :اﷲتعالیٰ نے قرآن شریف میں اور حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے حدیث شریف میں باربار رشتہ داروں کے ساتھ احسان اور اچھے برتاؤ کا حکم فرمایا ہے لہٰذا ان لوگوں کے حقوق کو بھی ادا کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر لازم اور ضروری ہے۔ خاص طور پر ان چند باتوں پر عمل کرنا تو لازمی ہے۔
(۱)اگر اپنے عزیزواقربامفلس ومحتاج ہوں اور کھانے کمانے کی طاقت نہ رکھتے ہوں تو اپنی طاقت بھر اوراپنی گنجائش کے مطابق ان کی مالی مدد کرتے رہیں۔
(۲)کبھی کبھی اپنے رشتہ داروں کے یہاں آتے جاتے بھی رہیں اور ان کی خوشی اور غمی میں ہمیشہ شریک رہیں۔
(۳)خبردار خبردار ہرگزہرگز رشتہ داروں سے قطع تعلق کرکے رشتہ کو نہ کاٹیں۔ رشتہ داری کاٹ ڈالنے کا بہت بڑاگناہ ہے رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا ہے کہ۔"
لایدخل الجنۃ قاطع۔
(صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ الخ، باب صلۃ الرحم وتحریم قطیعتھا ، رقم ۲۵۵۶،ص۱۳۸۳)
" ''یعنی اپنے رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنے والا جنت میں نہیں داخل ہو گا۔ ''
اگر رشتہ داروں کی طرف سے کوئی تکلیف بھی پہنچ جائے تو اس پر صبر کرنا اور پھر بھی ان سے میل جول اور تعلق کو برقرار رکھنا بہت بڑے ثواب کا کام ہے۔
حدیث شریف میں ہے کہ جوتم سے تعلق توڑے تم اس سے میل ملاپ رکھو اور جو تم پر ظلم کرے اس کو معاف کردو۔ اور جو تمہارے ساتھ بدسلوکی کرے تم اس کے ساتھ نیک سلوک کرتے رہو۔"
(المسند للامام احمد بن حنبل،حدیث عقبہ بن عامر،الحدیث۱۷۴۵۷، ج۶، ص۱۴۸، کنزالعمال،کتاب الاخلاق،باب صلۃ الرحم،الحدیث ۶۹۲۶،ج۳،ص۱۴۵)
اور ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے سے آدمی اپنے اہل و عیال کا محبوب بن جاتا ہے۔ اور اس کی مالداری بڑھ جاتی ہے۔ اور اس کی عمر میں درازی اور برکت ہوتی ہے۔
(جامع الترمذی ، کتاب البر والصلۃ ، باب ماجاء فی تعلیم النسب ، رقم ۱۹۸۶،ج۳،ص۳۹۴)
ان حدیثوں سے یہ سبق ملتا ہے کہ رشتہ داروں کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا کتنا بڑاا جر و ثواب ہے اور دنیا و آخرت میں اس کے فوائد و منافع کس قدر زیادہ ہیں اور رشتہ داروں کے ساتھ بدسلوکی اور ان سے تعلق کاٹ لینے کا گناہ کتنا بھیانک اور خوفناک ہے اوردونوں جہاں میں اس کا نقصان اوروبال کس قدر زیادہ خطرناک ہے ۔ اس لئے ہر مسلمان مرد وعورت پر لازم ہے کہ اپنے رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنے اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ اور نیک سلوک کرنے کا خاص طور پر دھیان رکھے۔ یاد رکھو کہ شریعت کے احکام پر عمل کرنا ہی مسلمان کے لئے دونوں جہان میں صلاح و فلاح کا سامان ہے شریعت کو چھوڑ کر کبھی بھی کوئی مسلمان دونوں جہان میں پنپ نہیں سکتا۔
" جو لوگ ذراذرا سی باتوں پر اپنی بہنوں'بیٹیوں' پھوپھیوں' خالاؤں' ماموؤں' چچاؤں' بھتیجوں' بھانجوں وغیرہ سے یہ کہہ کر قطع تعلق کر لیتے ہیں کہ آج سے میں تیرا رشتہ دار نہیں اور تو بھی میرا رشتہ دار نہیں۔ اور پھر سلام کلام' ملنا جلنا بند کردیتے ہیں یہاں تک کہ رشتہ داروں کی شادی وغمی کی تقریبات کا بائیکاٹ کر دیتے ہیں۔حد ہوگئی کہ بعض بدنصیب اپنے قریبی رشتہ داروں کے جنازہ اور کفن دفن میں بھی شریک نہیں ہوتے تو ان حدیثوں کی روشنی میں تم خود ہی فیصلہ کرو کہ یہ لوگ کتنے بڑے بدبخت' حرماں نصیب اور گناہ گار ہیں؟ (توبہ توبہ نعوذباﷲ)
پڑوسیوں کے حقوق :۔اﷲتعالیٰ نے قرآن مجید میں اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے احادیث میں ہمسایوں اور پڑوسیوں کے بھی کچھ حقوق مقرر فرمائے ہیں۔ جن کو ادا کرنا ہر مسلمان مرد وعورت کے لئے لازم و ضروری ہے۔ قرآن مجید میں ہے۔"
وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَالْجَارِ الْجُنُبِ ۔
"''یعنی قریبی اور دور والے پڑوسیوں کے ساتھ نیک سلوک اور اچھا برتاؤ رکھو۔'' (پ5،النساء:36)
اور حدیث شریف میں آیا ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام مجھ کو ہمیشہ پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں وصیت کرتے رہے۔ یہاں تک کہ مجھے یہ خیال ہونے لگا کہ شاید عنقریب پڑوسی کو اپنے پڑوسی کا وارث ٹھہرا دیں گے۔"
(صحیح مسلم ، کتاب البر والصلۃ ، باب الوصیۃ بالجاروالاحسان الیہ ، رقم۲۶۶۴،ص۱۴۱۳)
ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ ایک دن حضور علیہ ا لصلوۃ والسلام وضو فرما رہے تھے تو صحابہ کرام علیھم الرضوان آپ کے وضو کے دھووَن کو لوٹ لوٹ کر اپنے چہروں پر ملنے لگے یہ
منظر دیکھ کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ تم لوگ ایسا کیوں کرتے ہو؟صحابہ علیھم الرضوان نے عرض کیا کہ ہم لوگ اﷲعزوجل کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی محبت کے جذبے میں یہ کررہے ہیں۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ جس کویہ بات پسند ہو کہ وہ اﷲعزوجل و رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم سے محبت کرے۔ یا اﷲعزوجل و رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم اس سے محبت کریں اس کو لازم ہے کہ وہ ہمیشہ ہر بات میں سچ بولے۔ اور اس کو جب کسی چیز کا امین بنایاجائے تو وہ امانت کو ادا کرے اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔
(شعب الایمان ، باب فی تعظیم النبی صلی اللہ علیہ وسلم ... الخ ، رقم ۱۵۳۳،ج۲،ص۲۰۱)
اور رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ وہ شخص کامل درجے کا مسلمان نہیں جو خود پیٹ بھر کر کھالے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہ جائے۔
(شعب الایمان،باب فی الزکوٰۃ، فصل فی کراہیۃ امساک الفضل... الخ ، رقم ۳۳۸۹، ج۳، ص۲۲۵)
" بہر حال اپنے پڑوسیوں کے لئے مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھنا چاہے۔
(۱)اپنے پڑوسی کے دکھ سکھ میں ہمیشہ شریک رہے اور بوقت ضرورت ان کی ہر قسم کی امدادبھی کرتا رہے۔
(۲)اپنے پڑوسیوں کی خبر گیری اور ان کی خیر خواہی اور بھلائی میں ہمیشہ لگا رہے۔
(۳)کچھ ہدیوں اور تحفوں کا بھی لین دین رکھے چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ جب تم لوگ شوربا پکاؤ تو اس میں کچھ زیادہ پانی ڈال کر شوربے کو بڑھاؤ تاکہ تم لوگ اس کے ذریعہ اپنے پڑوسیوں کی خبر گیری اور ان کی مدد کر سکو۔"
(صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ والاداب ،باب الوصیۃ بالجاروالاحسان الیہ، رقم ۲۶۲۵،ص۱۴۱۳)
"عام مسلمانوں کے حقوق:۔جاننا چاہے کہ اپنے رشتہ داروں کے علاوہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہر مسلمان کے دوسرے مسلمان پر بھی کچھ حقوق ہیں ۔ ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ ان کو ادا کرے۔ ان حقوق میں سے چند یہ ہیں۔
(۱)ملاقات کے وقت ہر مسلمان اپنے مسلمان بھائیوں کو سلام کرے اور مرد مرد سے اور عورت عورت سے مصافحہ کرے تو یہ بہت ہی اچھا اور بہترین عمل ہے۔
مگر اس کا دھیان رہے کہ کافروں' مشرکوں اور مرتدوں' اسی طرح جو ا کھیلنے اور شراب پینے اور اس قسم کے گناہوں میں مشغول رہنے والوں کو دیکھے تو ہر گز ہرگز ان لوگوں کو سلام نہ کرے۔ کیونکہ کسی کو سلام کرنا یہ اس کی تعظیم ہے اور حدیث شریف میں ہے کہ جب کوئی مسلمان کسی فاسق کی تعظیم کرتا ہے تو غضب الہٰی سے عرش کانپ جاتاہے۔"
(الکامل فی ضعفاء الرجال،سابق بن عبداللہ الرقی،ج۴،ص۵۴۹)
"(۲)مسلمانوں کے سلام کا جواب دے ۔ یاد رکھو کہ سلام کرنا سنت ہے اور سلام کا جواب دینا واجب ہے ۔
(۳)مسلمان چھینک کر ''الحمدﷲ'' کہے تو ''یرحمک اﷲ'' کہہ کر اس کا جواب دے۔
(۴)کوئی مسلمان بیمار ہو جائے تو اس کی بیمار پرسی کرے۔
(۵)اپنی طاقت بھر ہر مسلمان کی خیر خواہی اور اس کی مدد کرے۔
(۶)مسلمانوں کی نماز جنازہ اور ان کے دفن میں شریک ہو۔
(۷)ہر مسلمان کا مسلمان ہونے کی حیثیت سے اعزازواکرام کرے۔
(۸)کوئی مسلمان دعوت دے تو اس کی دعوت کو قبول کرے۔
(۹)مسلمان کے عیبوں کی پردہ پوشی کرے اور ان کو اخلاص کے ساتھ ان عیبوں سے باز"
"رہنے کی نصیحت کرے۔
(۱۰)اگر کسی بات میں کسی مسلمان سے رنجش ہوجائے تو تین دن سے زیادہ اس سے سلام و کلام بند نہ رکھے۔
(۱۱)مسلمانوں میں جھگڑا ہو جائے توصلح کرادے۔
(۱۳)کسی مسلمان کو جانی یا مالی نقصان نہ پہنچائے نہ کسی مسلمان کی آبروریزی کرے۔
(۱۳)مسلمانوں کو اچھی باتوں کا حکم دیتا رہے اور بری باتوں سے منع کرتا رہے۔
(۱۴)ہر مسلمان کا تحفہ قبول کرے اور خود بھی اس کو کچھ تحفہ میں دیا کرے۔
(۱۵) اپنے سے بڑوں کا ادب و احترام' اور چھوٹوں پر رحم و شفقت کرتا رہے۔
(۱۶)مسلمانوں کی جائز سفارشوں کو قبول کرے۔
(۱۷)جو بات اپنے لئے پسند کرے وہی ہر مسلمان کے لئے پسند کرے۔
(۱۸)مسجدوں یا مجلسوں میں کسی مسلمان کو اٹھاکر اس کی جگہ نہ بیٹھے۔
(۱۹)راستہ بھولے ہوؤں کو سیدھا راستہ بتائے۔
(۲۰)کسی مسلمان کو لوگوں کے سامنے ذلیل و رسوا نہ کرے۔
(۲۱)کسی مسلمان کی غیبت نہ کرے۔ نہ اس پر بہتان لگائے۔
انسانی حقوق:۔بعض ایسے بھی حقوق ہیں جو ہر آدمی کے دوسرے آدمی پر ہیں خواہ وہ کافر ہو یا مسلمان' نیکو کار ہو یابدکار۔ ان حقوق میں سے چند یہ ہیں۔
(۱)بلاخطا ہرگزہرگز کسی انسان کی جان و مال کو نقصان نہ پہنچائے۔
(۲)بلا کسی شرعی وجہ کے کسی انسان کے ساتھ بد زبانی و سخت کلامی نہ کرے۔
(۳)کسی مصیبت زدہ کو دیکھے یا کسی کو بھوک پیاس یا بیماری میں مبتلا پائے تو اس کی مدد"
"کرے۔ کھانا پانی دے دے۔دوا علاج کردے۔
(۴)جن جن صورتوں میں شریعت نے سزاؤں یالڑائیوں کی اجازت دی ہے ان صورتوں میں خبردار خبردار حد سے زیادہ نہ بڑھے اور ہرگزہرگز ظلم نہ کرے۔ یہ شریعت اسلام کی مقدس تعلیم کی رو سے ہر انسان کا ہر انسان پر حق ہے جو انسانی حیثیت سے ایک دوسرے پر لازم ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ۔"
الراحمون یرحمھم الرحمن ارحموا من فی الارض یرحمکم من فی السمآء
(جامع الترمذی ، کتاب البر والصلۃ ، باب ماجاء فی رحمۃ المسلمین ،رقم ۱۹۳۱،ج۳،ص۳۷۱)
" ''یعنی رحم کرنے والوں پر رحمٰن رحم فرماتا ہے۔ تم لوگ زمین والوں پر رحم کرو تو آسمان والا تم لوگوں پر رحم فرمائے گا۔ ''
اور ایک دوسری حدیث میں رحمۃ للعالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے یہ ارشاد فرمایا کہ۔"
الخلق عیال اللہ فاحب الخلق الی اللہ من احسن الی عیالہٖ۔
(کنزالعمال، کتاب الزکوٰۃ ، الباب الثانی فی السخاء والصدقۃ ، الفصل الاول ،رقم۱۶۱۶۷، ج۶، ص۱۶۴)
" ''یعنی تمام مخلوق اﷲ کی عیال ہے جو اس کی پرورش کی محتاج ہے اور تمام مخلوق میں سب سے زیادہ اﷲ کے نزدیک وہ پیارا ہے جو اﷲ کی عیال یعنی اس کی مخلوق کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔
جانوروں کے حقوق :۔اﷲ تعالیٰ رحمٰن و رحیم اور ارحم الراحمین ہے اور اس کے پیارے رسول رحمۃ للعالمین ہیں۔ اس لئے اسلام جو خدا کا بھیجا ہوا اور رسول کا لایا ہوا دین ہے اس لئے اس دین میں جانوروں کے بھی کچھ حقوق ہیں جن کا ادا کرنا ہر مسلمان پر ضروری ہے۔ جانوروں کے چند حقوق یہ ہیں۔"
"(۱)جن جانوروں کا گوشت کھانا حرام ہے جب تک وہ ایذانہ پہنچائیں بلا ضرورت ان کو قتل کرنا منع ہے۔
(۲)جن جانوروں کا گوشت حلال ہے ان کو بھی جبکہ کھانے کے لئے نہ ہو بلکہ محض تفریح کے لئے بلا ضرورت قتل کرنا۔ جیسا کہ بعض شکاری لوگ کھانے یا کوئی فائدہ اٹھانے کے لئے نہیں شکار کرتے بلکہ شکار کھیلتے ہیں یعنی محض کھیل کود کے طور پر جانوروں کا خون کر کے ان کو ضائع کر دیتے ہیں۔ یہ شریعت میں جائز نہیں ہے۔
(۳)جو پالتو جانور کام کرتے ہیں ان کو گھاس چارہ اور پانی دینا فرض ہے۔ اور ان کی طاقت سے زیادہ ان سے کام لینا یا بھوکا پیاسا رکھنا اور بلا ضرورت خصوصاً ان کے چہروں پر مارنا گناہ اور ناجائز ہے۔
(۴)پرندوں کے بچوں کو گھونسلوں سے نکال لینا یا پرندوں کو پنجروں میں بند کردینا اور بلا ضرورت ان پرندوں کے ماں باپ اور جوڑے کو دکھ پہنچانا بہت بڑی بے رحمی اور ظلم ہے جو کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے۔
(۵)بعض لوگ کسی جاندار کو باندھ کر لٹکا دیتے ہیں اور اس پر غلیل یا بندوق سے نشانہ بازی کی مشق کرتے ہیں یہ بھی پرلے درجے کی بے رحمی اور ظلم ہے جو ہر مسلمان کے لئے حرام ہے۔
(۶)جن جانوروں کو ذبح کرنا ہو یا موذی ہونے کی وجہ سے قتل کرنا ہو تو مسلمان کے لئے لازم ہے کہ اس کو تیز دھار ہتھیار سے بہت جلد ذبح یا قتل کردے۔ کسی جانور کو تڑپا تڑپا کر یا بھوکا پیاسا رکھ کر مارڈالنا یہ بھی بڑی بے رحمی ہے جو ہر گز ہرگزاسلام میں جائز نہیں ہے۔
راستوں کے حقوق:۔بخاری شریف میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے صحابہ کرام سے فرمایا کہ تم لوگ راستوں پر بیٹھنے سے بچو۔ تو صحابہ کرام علیھم الرضوان نے"
"عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم! راستوں میں بیٹھنے سے تو ہم لوگوں کے لئے کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ کیونکہ ان راستوں ہی میں تو ہم لوگ بیٹھ کر بات چیت کیا کرتے ہیں۔ تو رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ اگر تم لوگ راستوں پر بیٹھو تو راستوں کا حق ادا کرتے رہو۔لوگوں نے کہا کہ یا رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم! راستوں کے حقوق کیا ہیں؟ تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ راستوں کے حقوق پانچ ہیں جو یہ ہیں۔
(۱)نگاہ نیچی رکھنا۔ مطلب یہ ہے کہ راستہ چونکہ عام گزرگاہ ہوتا ہے اس لئے راستہ پر بیٹھنے والوں کو لازم ہے کہ نگاہیں نیچی رکھیں۔ تاکہ غیر محرم عورتوں اور مسلمانوں کے عیوب مثلاً کوڑھی' سفیدداغ والے' یا لنگڑے لولے کو باربار گھور گھور کر نہ دیکھیں جس سے ان لوگوں کی دل آزاری ہو۔
(۲)کسی مسافریا راہ گیر کو ایذا نہ پہنچائیں۔ مطلب یہ ہے کہ راستوں میں اس طرح نہ بیٹھیں کہ راستہ تنگ ہو جائے۔ یوں ہی راستہ چلنے والوں کا مذاق نہ اڑائیں۔ نہ ان کی تحقیر اور عیب جوئی کرے۔ نہ دوسری کسی قسم کی تکلیف پہنچائیں۔
(۳)ہرگزرنے والے کے سلام کا جواب دیتے رہیں۔
(۴)راستہ چلنے والوں کو اچھی باتیں بتاتے رہیں۔
(۵)خلاف شریعت اور بری باتوں سے لوگوں کو منع کرتے رہیں۔"
(صحیح البخاری ۔۷۹۔کتاب الاستئذان ، باب (۲)رقم ۶۲۲۹،ج۴،ص۱۶۵)
حقوق کو ادا کرو' یا معاف کرالو!:۔اگر کسی کا تمہارے اوپر کوئی حق تھا اور تم اس کو کسی وجہ سے ادا نہیں کر سکے تو اگر وہ حق ادا کرنے کے قابل کوئی چیز ہو مثلاً کسی کا تمہارے اوپر قرض رہ گیا تھا تو اس کو ادا کرنے کی تین صورتیں ہیں یا تو خود حق والے کو اس کا
حق دے دو۔یعنی جس سے قرض لیا تھا اسی کو قرض ادا کردویا اس سے قرض معاف کرالو اور اگر وہ شخص مر گیا ہو تو اس کے وارثوں کو اس کا حق یعنی قرض ادا کر دو۔ اور اگر وہ حق ادا کرنے کی چیز نہ ہو بلکہ معاف کرانے کے قابل ہو مثلاًکسی کی غیبت کی ہو یا کسی پر تہمت لگائی ہو تو ضروری ہے کہ اس شخص سے اس کو معاف کرالو۔ اور اگر کسی وجہ سے حق داروں سے نہ ان کے حقوق کو معاف کراسکانہ ادا کرسکا۔ مثلاً صاحبان حق مرچکے ہوں تو ان لوگوں کے لئے ہمیشہ بخشش کی دعاکرتا رہے اور اﷲتعالیٰ سے توبہ و استغفار کرتا رہے تو امید ہے کہ قیامت کے دن اﷲتعالیٰ صاحبان حق کو بہت زیادہ اجرو ثواب دے کر اس بات کے لئے راضی کردے گا کہ وہ اپنے حقوق کو معاف کردیں۔ اور اگر تمہارا کوئی حق دوسروں پر ہو ۔ اور اس حق کے ملنے کی امید ہو تو نرمی کے ساتھ تقاضا کرتے رہو۔ اور اگر وہ شخص مرگیا ہو تو بہتر یہی ہے کہ تم اپنے حق کو معاف کردو۔ ان شاء اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے بدلے میں بہت بڑا اور بہت زیادہ اجرو ثواب ملے گا۔
(واﷲتعالیٰ۱علم)
" عام طور پر لوگ بندوں کے حقوق ادا کرنے کی کوئی اہمیت نہیں سمجھتے۔ حالانکہ بندوں کے حقوق کا معاملہ بہت ہی اہم' نہایت ہی سنگین اور بے حد خوفناک ہے۔ بلکہ ایک حیثیت سے دیکھا جائے توحقوق اﷲ (اﷲ کے حقوق) سے زیادہ حقوق العباد (بندوں کے حقوق) سخت ہیں۔ اﷲتعالیٰ تو ارحم الراحمین ہے وہ اپنے فضل و کرم سے اپنے بندوں پر رحم فرما کر اپنے حقوق معاف فرما دے گا مگر بندوں کے حقوق کو اﷲتعالیٰ اس وقت تک نہیں معاف فرمائے گا۔ جب تک بندے اپنے حقوق کو نہ معاف کردیں۔ لہٰذا بندوں کے حقوق کو ادا کرنا یا معاف کرالینا بے حد ضروری ہے ورنہ قیامت میں بڑی مشکلوں کا سامنا ہوگا۔
حدیث شریف میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ایک مرتبہ صحابہ"
کرام علیھم الرضوان سے فرمایا کہ کیا تم لوگ جانتے ہو کہ مفلس کون شخص ہے؟ تو صحابہ کرام علیھم الرضوان نے عرض کیا کہ جس شخص کے پاس درہم اور دوسرے مال وسامان نہ ہوں وہی مفلس ہے تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ میری امت میں اعلیٰ درجے کا مفلس وہ شخص ہے کہ وہ قیامت کے دن نماز' روزہ اور زکوٰۃ کی نیکیوں کولے کر میدان حشر میں آئے گا مگر اس کا یہ حال ہوگا کہ اس نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہوگی کسی پر تہمت لگائی ہوگی۔ کسی کا مال کھالیا ہوگا۔ کسی کا خون بہایا ہوگا' کسی کو مارا ہوگا تو یہ سب حقوق والے اپنے اپنے حقوق کو طلب کریں گے تو اﷲتعالیٰ اس کی نیکیوں سے تمام حقوق والوں کو ان کے حقوق کے برابرنیکیاں دلائے گا۔ اگر اس کی نیکیوں سے تمام حقوق والوں کے حقوق نہ ادا ہو سکے بلکہ نیکیاں ختم ہوگئیں اور حقوق باقی رہ گئے تو اﷲتعالیٰ حکم دے گا کہ تمام حقوق والوں کے گناہ اس کے سر پر لاد دو۔ چنانچہ سب حق والوں کے گناہوں کو یہ سر پر اٹھائے گا پھر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ تو یہ شخص سب سے بڑا مفلس ہوگا۔
(صحیح مسلم ، کتاب البروالصلۃ ، باب تحریم الظلم، رقم ۲۵۸۱،ص۱۳۹۴)
اس لئے انتہائی ضروری ہے کہ یا تو حقوق کو ادا کردو۔ یا معاف کرالو۔ ورنہ قیامت کے دن حقوق والے تمہاری سب نیکیوں کو چھین لیں گے اور ان کے گناہوں کا بوجھ تم اپنے سر پر لے کر جہنم میں جاؤ گے۔ خدا کے لئے سوچو کہ تمہاری بے کسی و بے بسی اور مفلسی کا قیامت میں کیا حال ہوگا۔
"محمد یعنی وہ حرف نخستین کلک فطرت کا
کیا جس نے مکمل نسخۂ ''اخلاق انسانی''"
" ہرمرد وعورت پر لازم ہے کہ بری خصلتوں اور خراب عادتوں سے اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو بچائے رکھے اور نیک خصلتوں اور اچھی عادتوں کو خود بھی اختیار کرے اور اپنے سب متعلقین کو بھی اس پر کاربند ہونے کی انتہائی تاکید کرے۔ یوں تواچھی عادتوں اور بری عادتوں کی تعداد بہت زیادہ ہے مگر ہم یہاں ان چند بری خصلتوں اور خراب عادتوں کا ذکر کرتے ہیں۔ جن میں اکثر مسلمان خصوصاََ عورتیں گرفتار ہیں اور ان بری عادتوں کی وجہ سے لوگ اپنے دین ودنیا کو تباہ و برباد کرکے دونوں جہاں کی سعادتوں سے محروم ہورہے ہیں۔
(۱) غصہ:۔بے محل اور بے موقع بات پر بکثرت غصہ کرنا' یہ بہت خراب عادت ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انسان غصہ میں آکر دنیا کے بہت سے بنے بنائے کاموں کو بگاڑ دیتا ہے اور کبھی کبھی غصہ کی جھلاہٹ میں خداوند کریم کی ناشکری اور کفر کا کلمہ بکنے لگتا ہے۔ اور اپنے ایمان کی دولت کو غارت اور برباد کر ڈالتا ہے۔ اسی لئے رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے اپنی امت کو بے محل اور بات بات پر غصہ کرنے سے منع فرمایا ۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ ایک شخص بارگاہ نبوت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ"
علیہ واٰلہٖ وسلّم!مجھے کسی عمل کا حکم دیجئے مگر بہت ہی تھوڑا ہو تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ ''غصہ مت کر'' اس نے کہا کہ کچھ اور ارشاد فرمایئے تو آپ نے پھر یہی فرمایا کہ ''غصہ مت کر'' غرض کئی بار اس شخص نے دریافت کیا مگر ہر مرتبہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے یہی فرمایا کہ ''غصہ مت کر'' یہ بخاری شریف کی حدیث ہے۔
(صحیح البخاری، کتاب الادب ، باب الحذرمن الغضب،رقم ۶۱۱۶،ج۴،ص۱۳۱)
ایک حدیث میں آیا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے یہ ارشاد فرمایا کہ پہلوان وہ نہیں ہے جو لوگوں کو پچھاڑ دیتا ہے بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصہ کی حالت میں اپنے نفس پر قابو رکھے۔
(صحیح البخاری، کتاب الادب ، باب الحذرمن الغضب،رقم ۶۱۱۴،ج۴،ص۱۳۰)
غصہ کب بُرا' کب اچھا ہے؟:۔غصہ کے معاملہ میں یہاں یہ بات اچھی طرح سمجھ لو کہ غصہ بذات خود نہ اچھا ہے نہ برا۔ درحقیقت غصہ کی اچھائی اور برائی کا دارو مدار موقع اور محل کی اچھائی اور برائی پر ہے اگر بے محل غصہ کیا اور اس کے اثرات برے ظاہر ہوئے تو یہ غصہ برا ہے ۔ اور اگر بر محل غصہ کیا اور اس کے اثرات اچھے ظاہر ہوئے تو یہ غصہ اچھا ہے۔ مثلاََ کسی بھوکے پیاسے دودھ پیتے بچے کے رونے پر تم کو غصہ آگیا اور تم نے بچے کا گلا گھونٹ دیا تو چونکہ تمہارا یہ غصہ بالکل ہی بے محل ہے اس لئے یہ غصہ برا ہے اور اگر کسی ڈاکو کو ڈاکہ ڈالتے وقت دیکھ کر تم کو غصہ آگیا اور تم نے بندوق چلا کر اس ڈاکو کا خاتمہ کردیا تو چونکہ تمہارا یہ غصہ بالکل بر محل ہے۔ لہٰذایہ غصہ برا نہیں بلکہ اچھا ہے۔ حدیث شریف میں جس غصہ کی مذمت اور برائی بیان کی گئی ہے۔ یہ وہی غصہ ہے جو بے محل ہو اور جس کے اثرات برے ہوں۔ بالکل ظاہر بات ہے کہ غصہ میں رحم کی جگہ بے رحمی اور عدل
"کی جگہ ظلم، شکر کی جگہ ناشکری، ایمان کی جگہ کفر، ہو تو بھلا کون کہہ سکتا ہے کہ یہ غصہ اچھا ہے؟ یقینا یہ غصہ برا ہے اور یہ بہت ہی بری خصلت اور نہایت ہی خراب عادت ہے اس سے بچنا ہر مسلمان مردوعورت کے لئے لازم ہے۔
غصہ کا علاج:۔جب بے محل غصہ کی جھلاہٹ آدمی پر سوار ہو جائے تو رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ اس کو چاہے کہ وہ فوراً ہی وضو کرے۔ اس لئے کہ بے محل اور مضر غصہ دلانے والا شیطان ہے اور شیطان آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آگ پانی سے بجھ جاتی ہے اس لئے وضو غصہ کی آگ کو بجھا دیتا ہے۔"
(سنن ابی داود ، کتاب الادب ، باب مایقال عند الغضب ، رقم ۴۷۸۴، ج۴،ص۳۲۷)
اور ایک حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ اگر کھڑے ہونے کی حالت میں غصہ آجائے تو آدمی کو چاہے کہ فوراً بیٹھ جائے تو غصہ اتر جائے گا۔ اور اگر بیٹھنے سے بھی غصہ نہ اترے تو لیٹ جائے تاکہ غصہ ختم ہو جائے۔
(المسند للامام احمد بن حنبل ، مسند ابی ذر ، رقم ۲۱۴۰۶،ج۸،ص۸۰)
(۲)حسد:کسی کو کھاتا پیتا یا پھلتا پھولتا آسودہ حال دیکھ کر دل جلانا اور اس کی نعمتوں کے زوال کی تمنا کرنا۔ اس خراب جذبہ کا نام ''حسد'' ہے۔ یہ بہت ہی خبیث عادت اور نہایت ہی بری بلا، اور گناہ عظیم ہے۔ حسد کرنے والے کی ساری زندگی جلن اور گھٹن کی آگ میں جلتی رہتی ہے اور اسے چین اور سکون نصیب نہیں ہوتا۔ اﷲتعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے پیارے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو حکم دیا ہے کہ۔ ''حسد کرنے والے کے حسد سے آپ خدا کی پناہ مانگتے رہے''۔ (پ۳۰،الفلق:۵)
اور رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ ''حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتی ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھا لیتی ہے۔''
(سنن ابی داود ، کتاب الادب ، باب فی الحسد ، رقم ۴۹۰۳،ج۴،ص۳۶۰)
اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ تم لوگ ایک دوسرے پر حسد نہ کرو اور ایک دوسرے سے قطع تعلق نہ کرو اور ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو۔ اور اے اﷲ کے بندو! تم آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو۔
(صحیح مسلم ، کتاب البر والصلۃ ، باب تحریم التحاسد والتباغض، رقم ۲۵۵۹،ص۱۳۸۴)
" حسد اس لئے بہت بڑا گناہ ہے کہ حسد کرنے والا گویا اﷲ تعالیٰ پر اعتراض کررہا ہے کہ فلاں آدمی اس نعمت کے قابل نہیں تھا اس کو یہ نعمت کیوں دی ہے؟ اب تم خود ہی سمجھ لو کہ اﷲتعالیٰ پر کوئی اعتراض کرنا کتنا بڑا گناہ ہوگا۔
حسد کا علاج:۔حضرت امام غزالی رحمتہ اﷲ تعالی علیہ نے فرمایا ہے کہ حسد قلب کی بیماریوں میں سے ایک بہت بڑی بیماری ہے اور اس کا علاج یہ ہے کہ حسد کرنے والاٹھنڈے دل سے یہ سوچ لے کہ میرے حسد کرنے سے ہرگز ہرگز کسی کی دولت و نعمت برباد نہیں ہوسکتی۔ اور میں جس پر حسد کررہا ہوں میرے حسد سے اس کا کچھ بھی نہیں بگڑ سکتا۔ بلکہ میرے حسد کا نقصان دین و دنیا میں مجھ کو ہی پہنچ رہا ہے کہ میں خواہ مخواہ دل کی جلن میں مبتلا ہوں اور ہر وقت حسد کی آگ میں جلتا رہتا ہوں اور میری نیکیاں برباد ہورہی ہیں اور میں جس پر حسد کر رہا ہوں میری نیکیاں قیامت میں اس کو مل جائیں گی۔پھر یہ بھی سوچے کہ میں جس پر حسد کررہا ہوں۔ اس کو خداوند کریم نے یہ نعمتیں دی ہیں اور اس پر ناراض ہو کر حسد میں جل رہا ہوں تو میں گویا خداوند تعالیٰ کے فعل پراعتراض کرکے اپنا دین"
و ایمان خراب کررہا ہوں۔ یہ سوچ کر پھر اپنے دل میں اس خیال کو جمائے کہ اﷲتعالیٰ علیم و حکیم ہے۔ جو شخص جس چیز کا اہل ہوتا ہے اﷲ تعالیٰ اسکو وہی چیز عطا فرماتا ہے۔ میں جس پر حسد کر رہا ہوں۔ اﷲ کے نزدیک چونکہ وہ ان نعمتوں کا اہل تھا۔ اس لئے اﷲتعالیٰ نے اس کو یہ نعمتیں عطا فرمائی ہیں اور میں چونکہ ان کا اہل نہیں تھا اس لئے اﷲتعالیٰ نے مجھے نہیں دیں۔ اس طرح حسد کا مرض دل سے نکل جائے گا اور حاسدکو حسد کی جلن سے نجات مل جائے گی۔
(احیاء علوم الدین ، کتاب ذم الغضب والحقد والحسد ، بیان الدواء الذی ینقی مرض الحسد عن القلب ، ج۳،ص۳۴۲)
"سچ ہے ؎
اس کے الطاف تو ہیں عام شہیدی سب پر
تجھ سے کیا ضدتھی اگر تو کسی قابل ہوتا"
"(۳) لا لچ:۔یہ بہت ہی بری خصلت اور نہایت خراب عادت ہے اﷲتعالیٰ کی طرف سے بندے کو جو رزق و نعمت اور مال و دولت یا جاہ ومرتبہ ملا ہے اس پر راضی ہو کر قناعت کر لینا چاہے۔ دوسروں کی دولتوں اور نعمتوں کو دیکھ دیکھ کر خود بھی اس کو حاصل کرنے کے پھیر میں پریشان حال رہنا اور غلط و صحیح ہر قسم کی تدبیروں میں دن رات لگے رہنا یہی جذبہ حرص و لالچ کہلاتا ہے اور حرص و طمع در حقیقت انسان کی ایک پیدائشی خصلت ہے۔
چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ اگر آدمی کے پاس دومیدان بھر کر سونا ہوجائے تو پھر وہ ایک تیسرے میدان کو طلب کریگا کہ وہ بھی سونے سے بھر جائے اور ابن آدم کے پیٹ کو قبر کی مٹی کے سوا کوئی چیز نہیں بھر سکتی اور جو شخص اس سے توبہ کرے اﷲ تعالیٰ اس"
کی توبہ کو قبول فرمالے گا۔
(صحیح مسلم ، کتاب الزکاۃ ، باب لوان لابن آدم وادیین لابتغی ثالثاً ، رقم ۱۰۴۸،ص۵۲۱)
اور ایک حدیث میں ہے کہ ابن آدم بوڑھا ہو جاتاہے۔ مگر اس کی دو چیزیں جوان رہتی ہیں ایک امید دوسری مال کی محبت۔
(صحیح البخاری ، کتاب الرقاق ، باب من بلغ ستّین سنۃ، رقم ۶۴۲۰،ج۴،ص۲۲۴)
" لالچ اور حرص کا جذبہ خوراک' لباس' مکان' سامان' دولت' عزت' شہرت' غرض' ہر نعمت میں ہوا کرتا ہے۔ اگر لالچ کا جذبہ کسی انسان میں بڑھ جاتا ہے تو وہ انسان طرح طرح کی بداخلاقیوں اور بے مروتی کے کاموں میں پڑجاتا ہے اور بڑے سے بڑے گناہوں سے بھی نہیں چوکتا۔ بلکہ سچ پوچھئے تو حرص و طمع اور لالچ درحقیقت ہزاروں گناہوں کا سر چشمہ ہے اس سے خدا کی پناہ مانگنی چاہے۔
لالچ کاعلاج :۔اس قلبی مرض کا علاج صبر و قناعت ہے یعنی جو کچھ خدا کی طرف سے بندے کو مل جائے اس پر راضی ہو کر خدا کا شکر بجا لائے اور اس عقیدہ پر جم جائے کہ انسان جب ماں کے پیٹ میں رہتا ہے۔ اسی وقت فرشتہ خدا کے حکم سے انسان کی چار چیزیں لکھ دیتا ہے۔ انسان کی عمر' انسان کی روزی' انسان کی نیک نصیبی' انسان کی بدنصیبی' یہی انسان کا نوشتہ تقدیر ہے۔ لاکھ سرما رو مگر وہی ملے گا جو تقدیر میں لکھ دیا گیا ہے اس کے بعد یہ سمجھ کر کہ خدا کی رضا اور اس کی عطا پر راضی ہوجاؤ اور یہ کہہ کر لالچ کے قلعے کو ڈھا دو کہ جو میری تقدیر میں تھا وہ مجھے ملا اور جو میری تقدیر میں ہوگا وہ آئندہ ملے گا اور اگر کچھ کمی کی وجہ سے قلب میں تکلیف ہو اور نفس ادھر ادھر لپکے تو صبر کر کے نفس کی لگام کھینچ لو۔ اسی طرح رفتہ رفتہ قلب میں قناعت کا نور چمک اٹھے گا اور حرص و لالچ کا اندھیرا بادل چھٹ جائے گا یاد رکھو! ؎"
"حرص ذلت بھری فقیری ہے
جو قناعت کرے' تو نگر ہے"
(۴)کنجوسی بخیلی بہت ہی منحوس خصلت ہے۔ بخیل مال رکھتے ہوئے کھانے پینے' پہننے اوڑھنے' وطن اور سفر ہر جگہ ہر حال میں ہر چیز میں ہر قسم کی تکلیفیں اٹھاتا ہے اور ہر جگہ ذلیل ہوتا ہے اور کوئی بھی اس کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتا ہے رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا ہے کہ سخی اﷲ سے قریب ہے۔ جنت سے قریب ہے۔ انسانوں سے قریب ہے۔ جہنم سے دور ہے اور بخیل اﷲ سے دور ہے۔ جنت سے دور ہے۔ انسانوں سے دور ہے۔ جہنم سے قریب ہے اور یقیناََ سخی جاہل' عبادت گزار بخیل سے زیادہ اﷲعزوجل کو پیارا ہے۔
(جامع الترمذی، کتاب البر والصلۃ ، باب ماجاء فی السَخَاء ، رقم ۱۹۶۸،ج۳،ص۳۸۸)
اور حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ دھوکہ باز اور بخیل اور احسان جتانے والا جنت میں نہیں داخل ہوگا۔
(جامع الترمذی ، کتاب البر والصلۃ ، باب ماجاء فی البخل، رقم ۱۹۷۰،ج۳،ص۳۸۸)
اور یہ بھی حدیث میں آیا ہے کہ دو خصلتیں ایسی ہیں جو دونوں ایک ساتھ مومن میں اکٹھا جمع نہیں ہوں گی۔ ایک کنجوسی دوسری بد اخلاقی۔
(جامع الترمذی ، کتاب البر والصلۃ ، باب ماجاء فی البخل، رقم ۱۹۶۹،ج۳، ص۳۸۷)
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ یہ دونوں خصلتیں بری ہیں اور یہ دونوں بری خصلتیں مومن میں ایک ساتھ نہیں پائی جائیں گی۔ مومن اگر بخیل ہوگا تو بد اخلاق نہیں ہوگا۔اور اگربد اخلاق ہوگا تو بخیل نہیں ہوگا۔ اور اگر تم کسی ایسے منحوس آدمی کو دیکھو کہ وہ بخیل بھی ہے اوربد اخلاق بھی
"ہے تو سمجھ لو کہ اس کے ایمان میں کچھ فتور ضرور ہے اور یہ کامل درجے کا مسلمان نہیں ہے۔
بخل کا علاج:۔حضرت امام غزالی رحمۃ اﷲتعالی علیہ نے فرمایا کہ کنجوسی ایک ایسا مرض ہے کہ اس کا علاج بے حد دشوار ہے خصوصاََ بڈھا آدمی بخیل ہو تو وہ تقریباً لاعلاج ہے اور کنجوسی کا سبب مال کی محبت ہے۔ جب تک مال کی محبت دل سے زائل نہیں ہوگی۔کنجوسی کی بیماری رفع نہیں ہو سکتی۔ پھر بھی اس کے دو علاج بہت ہی کامیاب اور کار آمد ہیں اور وہ یہ ہیں اول یہ کہ آدمی سوچے کہ مال کے مقاصد کیا ہیں؟ اور میں کس لئے پیدا کیا گیا ہوں؟ اور مجھے دنیا میں مال جمع کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ عالم آخرت کے لئے بھی ذخیرہ جمع کر نا چاہے جب یہ خیال دل میں جم جائے گا تو پھر دل میں دنیا کی بے ثباتی اور عالم آخرت کا دھیان پیدا ہوگا اور ناگہاں دل میں ایک ایسا نور پیدا ہو جائے گا کہ دنیا سے اور دنیا کے مال و اسباب سے بے رغبتی اور نفرت پیدا ہونے لگے گی پھر بخیلی اور کنجوسی کی بیماری خود بخود دفع ہو جائے گی اور جذبہ سخاوت اس طرح پیدا ہوجائے گا کہ خدا کی راہ میں مال خرچ کرتے ہوئے اس کو لذت محسوس ہونے لگے گی۔
اور دوسرا علاج یہ ہے کہ بخیلوں اور سخی لوگوں کی حکایات پڑھے اور عالموں سے بکثرت اس قسم کے واقعات سنتا رہے کہ بخیلوں کا انجام کتنا بُرا ہوا ہے اور سخی لوگوں کا انجام کتنا اچھا ہوا ہے اس قسم کے واقعات و حکایات پڑھتے پڑھتے' سنتے سنتے بخیلی سے نفرت اور سخاوت کی رغبت دل میں پیدا ہو جاتی ہے اور رفتہ رفتہ کنجوسی کا مرض زائل ہو جاتا ہے۔"
(احیاء علوم الدین ، کتاب ذم البخل وذم حب المال ، بیان علاج البخل ، ج۳،ص۳۲۲)
(۵)تکبر:۔یہ شیطانی خصلت اتنی بری اور اس قدر تباہ کن عادت ہے کہ یہ بھوت بن کر جس انسان کے سر پر سوار ہو جائے سمجھ لو کہ اس کی دنیا و آخرت کی تباہی یقینی ہے
"شیطان اپنی اس منحوس خصلت کی وجہ سے مردود بارگاہ الٰہی عزوجل ہوا۔ اور خداوند قہارو جبار نے لعنت کا طوق اس کے گلے میں پہنا کر اس کو جنت سے نکال دیا۔
تکبر کے معنی یہ ہیں کہ آدمی دوسروں کو اپنے سے حقیر سمجھے۔ یہی جذبہ شیطان ملعون کے دل میں پیدا ہو گیا تھا کہ جب اﷲتعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کے سامنے فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم فرمایا تو فرشتے چونکہ تکبر کی نحوست سے پاک تھے سب فرشتوں نے سجدہ کرلیا لیکن شیطان کے سر میں تکبر کا سودا سمایا ہوا تھا اس نے اکڑ کر کہہ دیا کہ۔"
قَالَ اَنَا خَیۡرٌ مِّنْہُ ؕ خَلَقْتَنِیۡ مِنۡ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَہٗ مِنۡ طِیۡنٍ ﴿76﴾
" ''یعنی میں حضرت آدم سے اچھا ہوں۔ اے اﷲ! تو نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے اور آدم کو مٹی سے پیدا فرمایا''(پ۲۳،صۤ:۷۶)
اس ملعون نے حضرت آدم علیہ السلام کو اپنے سے حقیر سمجھا اور سجدہ نہیں کیا۔
یاد رکھو کہ جس آدمی میں تکبر کی شیطانی خصلت پیدا ہو جائے گی اس کا وہی انجام ہوگا جو شیطان کا ہوا کہ وہ دونوں جہان میں خداوند قہار و جبار کی پھٹکار سے مردود اور ذلیل و خوار ہوگیا۔ یاد رکھو کہ تکبر خدا کو بے حد ناپسند ہے اور یہ بہت ہی بڑا گناہ ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ جس شخص کے دل میں رائی برابر ایمان ہوگا وہ جہنم میں نہیں داخل ہوگا اور جس شخص کے دل میں رائی برابر تکبر ہو گا وہ جنت میں نہیں داخل ہوگا۔"
(صحیح مسلم ، کتاب الایمان ، باب تحریم الکبر وبیانہ ، رقم ۹۱،ص۶۱)
ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ میدان محشر میں تکبر کرنے والوں کو اس طرح لایا جائے گا کہ ان کی صورتیں انسانوں کی ہوں گی مگر ان کے قد چیونٹیوں کے برابر ہوں گے اور ذلت و رسوائی میں یہ گھرے ہوئے ہوں گے اور یہ لوگ گھسیٹتے ہوئے جہنم کی طرف
لائے جائیں گے اور جہنم کے اس جیل خانہ میں قید کردیئے جائیں گے جس کا نام''بولس'' (ناامیدی) ہے اور وہ ایسی آگ میں جلائے جائیں گے جو تمام آگوں کو جلادے گی جس کا نام ''نارالانیار'' ہے اور ان لوگوں کو جہنمیوں کا پیپ پلایا جائے گا۔
(جامع الترمذی ، کتاب صفۃ القیامۃ ، باب ت، ۱۱۲،رقم ۲۵۰۰،ج۴،ص۲۲۱)
" پیاری بہنو اور عزیز بھائیو! کان کھول کر سن لو کہ تم لوگ جو کھانے، کپڑے، چال چلن، مکان وسامان، تہذیب و تمدن، مال و دولت ہر چیز میں اپنے کو دوسروں سے اچھا اور دوسروں کو حقیر سمجھتے رہتے ہو۔ اسی طرح بعض علماء اور بعض عبادت گزار علم و عبادت میں اپنے کو دوسروں سے بہتر اور دوسروں کو اپنے سے حقیر سمجھ کر اکڑتے ہیں۔ یہی تکبر ہے خدا کے لئے اس شیطانی عادت کو چھوڑ دو اور تواضع و انکساری کی عادت ڈالو۔ یعنی دوسروں کو اپنے سے بہتر اور اپنے کو دوسروں سے کمتر سمجھو۔
حدیث شریف میں ہے کہ جو شخص اﷲعزوجلکے لئے تواضع و انکساری کریگا اﷲتعالیٰ اس کو بلند فرمادے گا۔ وہ خود کو چھوٹا سمجھے گا مگر اﷲتعالیٰ تمام انسانوں کی نگاہوں میں اس کو عظمت والا بنادے گا اور جو شخص گھمنڈ اور تکبر کریگا۔ اﷲتعالیٰ اس کو پست کردے گا وہ خود کو بڑا سمجھے گا مگر اﷲتعالیٰ اس کو تمام انسانوں کی نظر میں کتے اور خنزیر سے زیادہ ذلیل بنادے گا۔"
(المسند للامام احمد بن حنبل ، مسند ابی سعید الخدری ، رقم ۱۱۷۲۴،ج۴،ص۱۵۲)
گھمنڈ کا علاج:۔گھمنڈ کا علاج یہ ہے کہ غریبوں اور مسکینوں کی صحبت میں رہنے لگے اور ان لوگوں کی خدمت کرے۔ تواضع و انکساری کا طریقہ اختیار کرے اور اپنے دل میں یہ ٹھان لے کہ میں ہر مسلمان کی تعظیم اور اس کا اعزاز و اکرام کروں گا۔ خواہ اس کے کپڑے کتنے ہی میلے کیوں نہ ہوں میں اس کو اپنے برابر بٹھاؤں گا اور ہر وقت اس کا
" دھیان رکھے کہ خداوند کریم کا شکر ہے کہ مجھ کو اس نے دوسروں سے اچھا بنایا ہے لیکن وہ جب چاہے مجھ کو سارے جہان سے بدتر بنا سکتا ہے اپنی کمتری اور کو تاہی کا خیال اگر دل میں جم گیا تو تکبر کا بھوت لاکھوں کوس دور بھاگ جائے گا۔ (واﷲاعلم)
(۶)چغلی:یعنی کسی کی بات سن کر کسی دوسرے سے اس طور پر کہہ دینا کہ دونوں میں اختلاف اور جھگڑا ہو جائے۔ یہ بہت بڑا گناہ اور بہت خراب عادت ہے۔ تجربہ ہے کہ مردوں سے زیادہ عورتیں اس گناہ میں مبتلا ہیں۔ حدیث شریف میں چغلخوری کو رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے گناہ کبیرہ بتایا ہے۔"
(کتاب الکبائر للامام الذھبی ، الکبیرۃ الثالثۃ والاربعون ، النمام ، ص۱۸۲)
یہاں تک کہ ایک حدیث میں یہ آیا ہے کہ چغل خور جنت میں نہیں داخل ہوگا ۔
(صحیح مسلم ، کتاب الایمان ، باب بیان غلظ تحریم النمیمۃ ، رقم ۱۰۵،ص۶۶)
اور ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ تم لوگوں میں سب سے زیادہ خدا کے نزدیک ناپسندیدہ وہ ہے جو ادھر ادھر کی باتوں میں لگائی بجھائی کرکے مسلمان بھائیوں میں اختلاف اور پھوٹ ڈالتا ہے۔
(المسند للامام احمد بن حنبل ، حدیث عبدالرحمن بن عثم ، رقم ۱۸۰۲۰، ج۶، ص۲۹۱)
اور ایک حدیث میں یہ بھی فرمان رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم ہے کہ چغل خور کو آخرت سے پہلے اس کی قبر میں عذاب دیا جائے گا۔
(صحیح البخاری،کتاب الوضو،باب من الکبائر... إلخ،الحدیث۲۱۶،ج۱،ص۹۵)
"اس کے علاوہ چغلی کی برائی کے بارے میں بہت سی حدیثیں آئی ہیں۔
مسلمان بھائیو اور بہنو! کسی کی کوئی بات سنو تو خوب سمجھ لو کہ تم اس بات کے امین ہوگئے اگر دوسروں تک اس بات کے پہنچانے میں کوئی دین و دنیا کا فائدہ ہو جب تو تم"
"ضرور اس بات کا چرچا کرو لیکن اگر اس بات کو دوسروں تک پہنچانے میں دو مسلمانوں کے درمیان اختلاف اور جھگڑے کا اندیشہ ہو تو خبردار خبردار ہر گز کبھی بھی اس بات کا نہ چرچا کرو نہ کسی دوسرے سے کہو ورنہ تم پر امانت میں خیانت کرنے اور چغلخوری کا گناہ ہوگا اور اس گناہ کا دنیا میں بھی تم پر یہ و بال پڑے گا کہ تم سب کی نگاہوں میں بے وقار اور ذلیل و خوار ہوجاؤ گے اور آخرت میں بھی عذاب جہنم کے حق دار ٹھہرو گے۔
(۷)غیبت:۔کسی کو غائبانہ برا کہنا' یا پیٹھ پیچھے اس کا کوئی عیب بیان کرنا یہی غیبت ہے چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے صحابہ کرام علیھم الرضوان سے فرمایا کہ کیا تم لوگ جانتے ہو کہ غیبت کیا چیز ہے۔ صحابہ علیھم الرضوان نے کہا کہ اﷲعزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم زیادہ جاننے والے ہیں۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشادفرمایا کہ تمہارا اپنے بھائی کی ان باتوں کو بیان کرنا جن کو وہ ناپسند سمجھتا ہے۔ یہی غیبت ہے تو صحابہ علیھم الرضوان نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّمیہ بتایئے کہ اگر میرے اس دینی بھائی میں واقعی وہ باتیں موجود ہوں۔ تو کیا ان باتوں کا ذکر کرنا بھی غیبت کہلائے گا؟ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ اگر اس کے اندر وہ باتیں واقعی ہوں گی جبھی تو تم اس کی غیبت کرنے والے کہلاؤ گے اور اگر اس میں وہ باتیں نہ ہوں اور تم اپنی طرف سے گھڑ کر کہو گے جب تو تم اس پر بہتان لگانے والے ہو جاؤ گے جو ایک دوسرا گناہ کبیرہ ہے جس کا کرنے والا جہنم کا ایندھن بنے گا۔"
(صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ ، باب تحریم الغیبۃ ، رقم ۲۵۸۹،ص۱۳۹۷)
یاد رکھو غیبت اتنا بڑا گناہ ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے یہاں تک فرمایا کہ
اَلْغِیْبَۃُ اَشَدُّ مِنَ الزِّنَا
یعنی غیبت زنا سے بڑا گناہ ہے۔
(الترغیب والترہیب ، کتاب الادب وغیرہ ، باب الترہیب من الغیبۃ والبھت بیانھما والترغیب فی ردھما ، رقم ۲۴،ج۳،ص۳۳۱)
حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ بھی ارشاد ہے کہ میں نے معراج کی رات میں کچھ لوگوں کو اس حال میں دیکھا کہ وہ جہنم میں اپنے ناخنوں سے اپنے چہروں کو کھرچ کھرچ کر نوچ رہے ہیں میں نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا میں لوگوں کی غیبت اور آبروریزی کیا کرتے تھے۔
(الترغیب والترہیب ، کتاب الادب وغیرہ ، باب الترہیب من الغیبۃ والبھت، رقم ۲۱،ج۳،ص۳۳۰)
یاد رکھو کہ پیٹھ پیچھے کسی آدمی کی ان باتوں کو بیان کرنا جن کو وہ پسند نہیں کرتا یہ غیبت ہے خواہ اس کا کوئی ظاہری عیب ہو یا باطنی' اس کا پیدائشی عیب ہو یا اس کا اپنا پیدا کیا ہوا عیب ہو۔ اس کے بدن' اس کے کپڑوں' اس کے خاندان و نسب' اس کے اقوال و افعال چال ڈھال ' اس کی بول چال غرض کسی عیب کو بھی بیان کرنا یا طعنہ مارنا یہ سب غیبت ہی میں داخل ہے لہٰذا اس غیبت کے گناہ سے ہر مسلمان مرد وعورت کو بچنا لازم اور ضروری ہے۔
قرآن مجید میں اﷲتعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ۔
وَلَا یَغْتَبۡ بَّعْضُكُمۡ بَعْضًا ؕ اَیُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنۡ یَّاۡكُلَ لَحْمَ اَخِیۡہِ مَیۡتًا فَکَرِہۡتُمُوۡہُ ؕ۔
" ''اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو۔ کیا تم میں کوئی یہ پسند کریگا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے؟ تو یہ تمہیں گوارا نہ ہو گا۔(پ26،الحجرات:12)
مطلب یہ ہے کہ غیبت اس قدر گھناؤنا گناہ ہے جیسے اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا تو جس طرح تم ہر گز ہر گز کبھی یہ گوارا نہیں کرسکتے کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کی لاش کا گوشت کاٹ کاٹ کر کھاؤ۔ اسی طرح ہرگز ہرگز کبھی کسی کی غیبت مت کیا کرو۔
کن کن لوگوں کی غیبت جائز ہے؟:۔حضرت علامہ ابو زکریا محی الدین"
"بن شرف نووی (متوفی۶۷۶ھ) نے مسلم شریف کی شرح میں لکھا ہے کہ شرعی اغراض و مقاصد کے لئے کسی کی غیبت کرنی جائز اور مباح ہے اور اس کی چھ صورتیں ہیں۔
اول)مظلوم کا حاکم کے سامنے کسی ظالم کے ظالمانہ عیوب کو بیان کرنا۔ تاکہ اس کی داد رسی ہوسکے۔
دوئم)کسی شخص کی برائیوں کو روکنے کے لئے کسی صاحب اقتدار کے سامنے اس کی برائیوں کو بیان کرنا تاکہ وہ اپنے رعب داب سے اس شخص کو برائیوں سے روک دے۔
سوئم)مفتی کے سامنے فتویٰ طلب کرنے کے لئے کسی کے عیوب کو پیش کرنا۔
چہارم)مسلمانوں کو شروفساد اور نقصان سے بچانے کے لئے کسی کے عیوب کو بیان کردینا مثلاََ جھوٹے راویوں' جھوٹے گواہوں' بدمذہبوں کی گمراہیوں' جھوٹے مصنفوں اور واعظوں کے جھوٹ اور ان لوگوں کے مکر و فریب کو لوگوں سے بیان کردینا۔ تاکہ لوگ گمراہی کے نقصان سے بچ جائیں اسی طرح شادی بیاہ کے بارے میں مشورہ کرنے والے سے فریق ثانی کے واقعی عیبوں کو بتا دینا یا خریداروں کو نقصان سے بچانے کے لئے سامان یا سودا بیچنے والے کے عیوب سے لوگوں کو آگاہ کردینا۔
پنجم)جو شخص علی الاعلان فسق و فجور اور قسم قسم کے گناہوں کا مرتکب ہو مثلاََ چور' ڈاکو' زنا کار' خیانت کرنے والا' ایسے اشخاص کے عیوب کو لوگوں سے بیان کردینا' تاکہ لوگ نقصان سے محفوظ رہیں اور ان لوگوں کے پھندوں میں نہ پھنسیں۔
ششم)کسی شخص کی پہچان کرانے کے لئے اس کے کسی مشہور عیب کو اس کے نام کے ساتھ ذکر کردینا۔ جیسے حضرات محدثین کا طریقہ ہے کہ ایک ہی نام کے چند راویوں میں امتیاز اور ان کی پہچان کے لئے اعمش (چندھا) اعرج (لنگڑا) اعمیٰ (اندھا) احول"
(بھینگا) وغیرہ عیبوں کو انکے ناموں کے ساتھ ذکر کردیتے ہیں۔ جس کا مقصد ہرگزہرگز نہ توہین و تنقیص ہے نہ ایذا رسانی بلکہ اس کا مقصد صرف راویوں کی شناخت اور ان کی پہچان کا نشان بتانا ہے۔
(شرح صحیح مسلم ، کتاب البر والصلۃ والادب ، باب تحریم الغیبۃ ، تحت حدیث الغیبۃ ذکر ک افاک...الخ، ج۱،ص۳۲۲)
اوپر ذکر کی ہوئی صورتوں میں چونکہ کسی کے عیبوں کو بیان کر دینا ہے اسلئے بلا شبہ یہ غیبت تو ہے۔ لیکن ان صورتوں میں شریعت نے جائز رکھا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کی غیبت کر دے تونہ کوئی حرج ہے نہ کوئی گناہ بلکہ بعض صورتوں میں اس قسم کی غیبت مسلمانوں پر واجب ہو جاتی ہے۔ مثلاََ ایسے موقعوں پر کہ اگر تم نے کسی کے عیب کو بیان نہ کر دیا تو کسی مسلمان کے نقصان میں پڑ جانے کا یقین یا غالب گمان ہو۔ مثال کے طور پر ایک مسلمان رقم لے کر جا رہا ہو اور ایک سفید پوش ڈاکو تسبیح و مصلیٰ لئے بزرگ بن کر اس مسلمان کے ساتھ ساتھ چل رہا ہو اور مسلمان بالکل ہی اس ڈاکو کے بارے میں لاعلم ہو اور تم کو یقین ہے کہ یہ ڈاکو ضرور ضرور اس بھولے بھالے مسلمان کو دھوکہ دے کر لوٹ لے گا اور تم اس ڈاکو کے عیب کو جانتے ہو تو اس صورت میں ایک بھولے بھالے مسلمان کو نقصان سے بچانے کے لئے ڈاکو کے عیب کو اس مسلمان سے بیان کر دینا تم پر واجب ہے۔ حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہنے اسی بات کو اسطرح بیان فرمایا ہے کہ
"اگر بینی کہ نابینا و چاہ است
اگر خاموش می مانی گناہ است"
یعنی تم اگر دیکھو کہ ایک اندھا جارہا ہے اور اس کے آگے کنواں ہے تو تم پر لازم ہے کہ اندھے کو بتا دو کہ تیرے آگے کنواں ہے اس سے بچ کر چل۔ اور اگر تم اس کو دیکھ
"کر چپ رہ گئے اور اندھا کنویں میں گر پڑاتو یقیناً تم گنہگار ٹھہرو گے۔
(۸)بہتان:۔جھوٹ موٹ اپنی طرف سے گڑھ کر کسی پر کوئی الزام یا عیب لگانا اس کو افترائ' تہمت اور بہتان کہتے ہیں۔ یہ بہت خبیث اور ذلیل عادت ہے اور بہت بڑا گناہ ہے۔ خاص کر کسی پاک دامن مرد یا عورت پر زنا کاری کی تہمت لگانا یہ تو اتنا بڑا گناہ ہے کہ شریعت کے قانون میں اس شخص کو اسی (۸۰) کوڑے مارے جائیں گے اور عمر بھر کسی معاملہ میں اس کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی اور قیامت کے دن یہ شخص دوزخ کے عذاب میں گرفتار ہوگا۔
(۹)جھوٹ:۔یہ وہ گندی گھناؤنی اور ذلیل عادت ہے کہ دین و دنیا میں جھوٹے کا کہیں کوئی ٹھکانا نہیں۔ جھوٹا آدمی ہر جگہ ذلیل و خوار ہوتا ہے اور ہر مجلس اور ہر انسان کے سامنے بے وقار اور بے اعتبار ہو جاتا ہے اور یہ بڑا گناہ ہے کہ اﷲتعالیٰ نے قرآن مجید میں اعلان فرما دیا ہے کہ۔"
لَّعْنَتَ اللہِ عَلَی الْکٰذِبِیۡنَ ﴿61﴾۔
یعنی کان کھول کر سن لو کہ جھوٹوں پر خدا کی لعنت ہے (پ3،آل عمران:61)اور وہ خدا کی رحمتوں سے محروم کردیے جاتے ہیں۔ قرآن مجید کی بہت سی آیتوں اور بہت سی حدیثوں میں جھوٹ کی برائیوں کا بیان ہے۔ اس لئے یاد رکھو کہ ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے کہ اس لعنتی عادت سے زندگی بھر بچتا رہے۔ بہت سے ماں باپ بچوں کو چپ کرانے کیلئے ڈرانے کے طور پر کہہ دیا کرتے ہیں کہ چپ رہو گھر میں ''ماؤں'' بیٹھا ہے یا چپ رہو صندوق میں لڈو رکھے ہوئے ہیں تم رؤوگے تو سب لڈو دھول مٹی ہو جائیں گے۔ حالانکہ نہ گھر میں ''ماؤں'' ہوتا ہے نہ صندوق میں لڈو ہوتے ہیں نہ رونے سے لڈو دھول مٹی ہو جاتے ہیں تو خوب سمجھ
"لو یہ سب بھی جھوٹ ہی ہے۔ اس قسم کی بولیاں بول کر والدین گناہ کبیرہ کرتے رہتے ہیں اور اس قسم کی باتوں کو لوگ جھوٹ نہیں سمجھتے۔ حالانکہ یقیناَ ہر وہ بات جو واقعہ کے خلاف ہو جھوٹ ہے اور ہر جھوٹ حرام ہے خواہ بچے سے جھوٹی بات کہو یا بڑے سے۔ آدمی سے جھوٹی بات کہو یا جانور سے۔ جھوٹ بہرحال جھوٹ ہے اور جھوٹ حرام ہے۔
کب اور کونسا جھوٹ جائز ہے :۔کافر یا ظالم سے اپنی جان بچانے کے لئے یا دو مسلمانوں کو جنگ سے بچانے اور صلح کرانے کے لئے اگر کوئی جھوٹی بات بول دے تو شریعت نے اس کی رخصت دی ہے۔ مگر جہاں تک ہو سکے اس موقع پر بھی ایسی بات بولے اور ایسے الفاظ منہ سے نکالے کہ کھلا ہوا جھوٹ نہ ہو بلکہ کسی معنی کے لحاظ سے وہ صحیح بھی ہو اس کو عربی زبان میں ''توریہ''کہتے ہیں۔ مثلاََ ڈاکو نے تم سے پوچھا کہ تمھارے پاس مال ہے کہ نہیں؟ اور تم کو یقین ہے کہ اگر میں اقرار کر لوں گا تو ڈاکو مجھے قتل کر کے میرا مال لوٹ لے گا تو اس وقت یہ کہہ دو ''میرے پاس کوئی مال نہیں ہے'' اور نیت یہ کرلو کہ میری جیب یا میرے ہاتھ میں کوئی مال نہیں ہے۔
بکس یا جھولے میں ہے تو اس معنی کے لحاظ سے تمہارا یہ کہنا کہ میرے پاس کوئی مال نہیں ہے یہ سچ ہے اور اس معنی کے لحاظ سے میری ملکیت میں کوئی مال نہیں ہے یہ جھوٹ ہے۔ اسی قسم کے الفاظ کو عربی میں ''توریہ'' کہا جاتا ہے۔ اور جہاں جہاں یہ لکھا ہوا ہے کہ فلاں فلاں موقعوں پر مسلمان جھوٹ بول سکتا ہے۔ اسی کا یہی مطلب ہے کہ ''توریہ'' کے الفاظ بولے۔ اور اگر کھلا ہوا جھوٹ بولنے پر کوئی مسلمان مجبور کردیا جائے تو اس کو لازم ہے کہ وہ دل سے اس جھوٹ کو برا جانتے ہوئے جان و مال کو بچانے کے لئے صرف زبان سے جھوٹ بول دے اور اس سے توبہ کرلے۔ (واﷲتعالیٰ اعلم)"
(۱۰)عیب جوئی:۔ادھر ادھر کان لگا کر لوگوں کی باتوں کو چھپ چھپ کر سننایا تاک جھانک کر لوگوں کے عیبوں کو تلاش کرنا۔ یہ بڑی ہی چھچھوری حرکت اور خراب عادت ہے۔ دنیا میں اس کا انجام بدنامی اور ذلت و رسوائی ہے اور آخرت میں اس کی سزا جہنم کا عذاب ہے ایسا کرنے والوں کے کانوں اور آنکھوں میں قیامت کے دن سیسہ پگھلا کر ڈالا جائے گا۔ قرآن مجید میں اور حدیثوں میں خداوند قدوس اور ہمارے رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ
'' وَلَا تَجَسَّسُوْا''
(الترغیب والترہیب، کتاب الادب وغیرہ ، الترہیب من الحسد وفضل السلامۃ الصدر ، رقم ۱،ج۳،ص۳۴۶)
"یعنی کسی کے عیبوں کو تلاش کرنا حرام اور گناہ ہے مردوں کی بہ نسبت عورتوں میں یہ عیب زیادہ پایا جاتا ہے لہٰذا پیاری بہنو! تم اس گناہ سے خود بھی بچو اور دوسری عورتوں کو بھی بچاؤ۔
(۱۱)گالی گلوچ:۔اس گندی عادت کی برائی ہر چھوٹا بڑا جانتا ہے۔ یقیناً پھوہڑ اور فحش الفاظ اور گندے کلاموں کو بولنا یہ کمینوں اور رذیل و ذلیل لوگوں کا طریقہ ہے۔ اور شریعت میں حرام و گناہ ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ"
سَبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوْقٌ ۔
(صحیح مسلم، کتاب الایمان ، باب بیان قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔الخ، رقم ۶۴،ص۵۲)
"یعنی کسی مسلمان سے گالی گلوچ کرنا یہ فاسق کا کام ہے۔
آج کل عورت ومرد سبھی اس بلا میں مبتلا ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بڑوں کی فحش کلامیوں اور گالیوں کو سن سن کر بچے بھی گندی اور پھوہڑ گالیاں بکنے لگتے ہیں اور پھر بچپن سے بڑھاپے تک اس گندی عادت میں گرفتار رہتے ہیں لہٰذا ہر مردو عورت پر لازم ہے کہ"
"کبھی ہرگزہرگز گالیاں اور گندے الفاظ منہ سے نہ نکالیں ۔ کون نہیں جانتا کہ کبھی کبھی گالی گلوچ کی وجہ سے خوں ریز لڑائیاں ہو جایا کرتی ہیں اور مسلمانوں کی جان و مال کا عظیم نقصان ہو جایا کرتا ہے اس لئے مسلم معاشرہ کو تباہ کرنے میں بدزبانیوں اور گالیوں کا بہت بڑا دخل ہے۔ لہٰذا اس عادت کو ترک کردینا بے حد ضروری ہے خاص کر عورتوں کو اپنی سسرال میں اس کا ہر وقت خیال رکھنا چاہے۔ کیونکہ سینکڑوں عورتوں کو طلاق ان کی بدزبانیوں اور گالیوں کی وجہ سے ہو جایا کرتی ہے اور پھر میکا اور سسرال والوں میں مستقل جھگڑوں کی بنیاد پڑ جاتی ہے اور دونوں خاندان تباہی و بربادی کے غار میں گر کر ہلاک ہوجاتے ہیں۔
(۱۲)فضول بکواس:۔مردوں اور عورتوں کی بری عادتوں میں سے ایک بہت بری عادت بہت زیادہ بولنا اور فضول بکواس ہے۔ کم بولنا اور ضرورت کے مطابق بات چیت یہ بہت ہی پسندیدہ عادت ہے۔ ضرورت سے زیادہ بات اور فضول کی بکواس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ کبھی کبھی ایسی باتیں بھی زبان سے نکل جاتی ہیں جس سے بہت بڑے بڑے فتنے پیدا ہو جاتے ہیں اور شروفساد کے طوفان اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ اس لئے رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا ہے کہ"
وَکُرِہَ لَکُمْ قِیْلَ وَ قَالَ وَ کَثْرَۃَ السُّوَالِ وَ اِضَاعَۃَ الْمَالِ۔
(صحیح البخاری،کتاب الزکاۃ،باب قول اللہ تعالٰی لایسألون الناس إلحافاً، الحدیث۱۴۷۷، ج۱،ص۴۹۸)
یعنی اﷲتعالیٰ کو یہ ناپسند ہے کہ بلا ضرورت قیل اورقال اور فضول اقوال آدمی کی زبان سے نکلیں۔ اسی طرح کثرت سے لوگوں کے سامنے کسی چیز کا سوال کرتے رہنا اور فضول کاموں میں اپنے مالوں کو برباد کرنا یہ بھی اﷲتعالیٰ کو ناپسند ہے یہ بھی سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ
علیہ واٰلہٖ وسلّم کا فرمان ہے کہ اپنی زبانوں کو فضول باتوں سے ہمیشہ بچائے رکھو۔
(الترغیب والترہیب ، کتاب الادب وغیرہ ، الترغیب فی الصمت الاعن خیر والترہیب من کثرۃ الکلام ، رقم ۵،ج۳،ص۳۳۶)
" کیونکہ بہت سی فضول باتیں ایسی بھی زبانوں سے نکل جاتی ہیں جو بولنے والوں کو جہنم میں پہنچا دیتی ہیں۔ اسی لئے تمام بزرگوں نے یہ فرمایا ہے کہ تین عادتوں کو لازم پکڑو۔ کم بولنا، کم سونا، کم کھانا کیونکہ زیادہ بولنا، زیادہ سونا، زیادہ کھانا، یہ عادتیں بہت ہی خراب ہیں اور ان عادتوں کی وجہ سے انسان دین و دنیا میں ضرور نقصان اٹھاتا ہے۔
(۱۳)ناشکری:خداوند کریم کے انعاموں اور انسانوں کے احسانوں کی نا شکری، اس منحوس اور بری عادت میں نوے فیصد مرد وعورت گرفتار ہیں۔ بلکہ عورتیں تو ننانوے فیصد اس بلا میں مبتلا ہیں۔ ذرا کسی گھرانے کو یا کسی عورت کے کپڑوں یا زیورات کو اپنے سے خوشحال اور اچھا دیکھ لیا تو خدا کی ناشکری کرنے لگتی ہیں اور کہنے لگتی ہیں کہ خدا نے ہمیں نا معلوم کس جرم کی سزا میں مفلس اور غریب بنا دیا۔ خدا کا ہم پر کوئی فضل ہی نہیں ہوتا۔ میں نگوڑی ایسے پھوٹے کرم لے کر آئی ہوں کہ نہ میکے میں سکھ نصیب ہوا نہ سسرال میں ہی کچھ دیکھا۔ فلانی فلانی گھی دودھ میں نہا رہی ہے۔ اور میں فاقوں سے مر رہی ہوں۔ اسی طرح عورتوں کی عادت ہے کہ اس کا شوہر اپنی طاقت بھر کپڑے، زیورات، سازو سامان دیتا رہتا ہے لیکن اگر کبھی کسی مجبوری سے عورت کی کوئی فرمائش پوری نہیں کر سکا تو عورتیں کہنے لگتی ہیں کہ تمہارے گھر میں ہائے ہائے کبھی سکھ نصیب نہیں ہوا۔ اس اجڑے گھر میں ہمیشہ ننگی بھوکی ہی رہ گئی کبھی بھی تمہاری طرف سے میں نے کوئی بھلائی دیکھی ہی نہیں۔ میری قسمت پھوٹ گئی تمہارے جیسے فتو فقیر سے بیاہی گئی میرے ماں باپ نے مجھے بھاڑ کیونکہ بہت سی فضول باتیں ایسی بھی زبانوں سے نکل جاتی ہیں جو بولنے والوں کو جہنم میں پہنچا دیتی ہیں۔ اسی لئے تمام بزرگوں نے یہ فرمایا ہے کہ تین عادتوں کو لازم پکڑو۔ کم بولنا، کم سونا، کم کھانا کیونکہ زیادہ بولنا، زیادہ سونا، زیادہ کھانا، یہ عادتیں بہت ہی خراب ہیں اور ان عادتوں کی وجہ سے انسان دین و دنیا میں ضرور نقصان اٹھاتا ہے۔
(۱۳)ناشکری:خداوند کریم کے انعاموں اور انسانوں کے احسانوں کی نا شکری، اس منحوس اور بری عادت میں نوے فیصد مرد وعورت گرفتار ہیں۔ بلکہ عورتیں تو ننانوے فیصد اس بلا میں مبتلا ہیں۔ ذرا کسی گھرانے کو یا کسی عورت کے کپڑوں یا زیورات کو اپنے سے خوشحال اور اچھا دیکھ لیا تو خدا کی ناشکری کرنے لگتی ہیں اور کہنے لگتی ہیں کہ خدا نے ہمیں نا معلوم کس جرم کی سزا میں مفلس اور غریب بنا دیا۔ خدا کا ہم پر کوئی فضل ہی نہیں ہوتا۔ میں نگوڑی ایسے پھوٹے کرم لے کر آئی ہوں کہ نہ میکے میں سکھ نصیب ہوا نہ سسرال میں ہی کچھ دیکھا۔ فلانی فلانی گھی دودھ میں نہا رہی ہے۔ اور میں فاقوں سے مر رہی ہوں۔ اسی طرح عورتوں کی عادت ہے کہ اس کا شوہر اپنی طاقت بھر کپڑے، زیورات، سازو سامان دیتا رہتا ہے لیکن اگر کبھی کسی مجبوری سے عورت کی کوئی فرمائش پوری نہیں کر سکا تو عورتیں کہنے لگتی ہیں کہ تمہارے گھر میں ہائے ہائے کبھی سکھ نصیب نہیں ہوا۔ اس اجڑے گھر میں ہمیشہ ننگی بھوکی ہی رہ گئی کبھی بھی تمہاری طرف سے میں نے کوئی بھلائی دیکھی ہی نہیں۔ میری قسمت پھوٹ گئی تمہارے جیسے فتو فقیر سے بیاہی گئی میرے ماں باپ نے مجھے بھاڑ"
میں جھونک دیا۔ اس قسم کی ناشکری کرتی اور جلی کٹی باتیں سناتی رہتی ہیں۔ چنانچہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ میں نے جہنم میں زیادہ تعداد عورتوں کی دیکھی تو صحابہ علیھم الرضوان نے کہا یا رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم! اس کی کیا وجہ ہے کہ عورتیں زیادہ جہنمی ہوگئیں تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ اس کا سبب یہ ہے کہ عورتیں ایک دوسرے پر بہت زیادہ لعنت ملامت کرتی رہتی ہیں اور ناشکری کرتی رہتی ہیں۔ تو صحابہ علیھم الرضوان نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم! کیا عورتیں خدا کی ناشکری کیاکرتی ہیں؟ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ عورتیں احسان کی ناشکری کرتی ہیں اور اپنے شوہروں کی ناشکری کرتی ہیں۔ ان عورتوں کی یہ عادت ہے کہ تم زندگی بھر میں ان کے ساتھ احسان کرتے رہو لیکن اگر کبھی کچھ بھی کمی دیکھیں گی تو یہی کہہ دیں گی کہ میں نے کبھی بھی تمہاری طرف سے کوئی بھلائی دیکھی ہی نہیں۔
(صحیح البخاری ، کتاب الایمان ، باب کفران العشیر ۔۔۔الخ، رقم ۲۹،ج۱،ص۲۳)
عزیز بہنو! سن لو خدا کے انعاموں' اور شوہر یا دوسروں کے احسانوں کی ناشکری بہت ہی خراب عادت' اور بہت بڑا گناہ ہے۔ ہر مسلمان مرد وعورت کے لئے لازم ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے سے کمزور اور گری ہوئی حالت والوں کو دیکھا کرے کہ اگر میرے پاس گھٹیاکپڑے اور زیور ہیں تو خدا کا شکر ہے کہ فلاں اور فلانی سے تو ہم بہت ہی اچھی حالت میں ہیں کہ ان لوگوں کو بدن ڈھانپنے کے لئے پھٹے پرانے کپڑے بھی نصیب نہیں ہوتے۔ اسی طرح اگر میرے شوہر نے میرے لئے معمولی غذا کا انتظام کیا ہے تو اس پر بھی شکر ہے کیونکہ فلانی فلانی عورتیں تو فاقہ کیا کرتی ہیں۔ بہر حال اگر تم اپنے سے کمزور اورغریبوں پر نظر رکھو گی تو شکر ادا کرو گی اور اگر تم اپنے سے مالداروں پر نظر کرو گی تو تم ناشکری کی بلامیں
پھنس کر اپنے دین و دنیا کو تباہ و برباد کر ڈالو گی۔ اس لئے لازم ہے کہ نا شکری کی عادت چھوڑ کر ہمیشہ خدا کے انعاموں اور شوہر وغیرہ کے احسانوں کا شکریہ ادا کرتے رہنا چاہے۔ اﷲتعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے۔
لَئِنۡ شَکَرْتُمْ لَاَزِیۡدَنَّكُمْ وَلَئِنۡ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیۡ لَشَدِیۡدٌ
" ''یعنی اگر تم شکر ادا کرتے رہو گے تو میں زیادہ سے زیادہ نعمتیں دیتا رہوں گا۔ (پ13،ابراہیم:7)اور اگر تم نے ناشکری کی تو میرا عذاب بہت ہی سخت ہے۔''
اس آیت نے اعلان کردیا کہ شکر ادا کرنے سے خدا کی نعمتیں بڑھتی ہیں اور ناشکری کرنے سے خدا کا عذاب اتر پڑتا ہے۔
(۱۴)جھگڑا تکرار:۔بات بات پر ساس سسر اور بہو یا شوہر یا عام مسلمان مردوں اور عورتوں سے جھگڑا تکرار کرلینا یہ بھی بہت بری عادت ہے اور گناہ کا کام ہے۔حدیث شریف میں ہے کہ جھگڑالو آدمی خدا کو بے حد ناپسند ہے۔"
(جامع الترمذی،کتاب تفسیرالقرآن،باب۲۳،الحدیث۲۹۸۷،ج۴،ص۴۵۶)
اس لئے اگر کسی سے کوئی اختلاف ہو جائے یا مزاج کے خلاف کوئی بات ہو جائے تو سہولت اور معقول گفتگو سے معاملات کو طے کر لینا نہایت ہی عمدہ اور بہترین عادت ہے جھگڑے تکرار کی عادت کمینوں اور بد تہذیب لوگوں کا طریقہ ہے اور یہ عادت انسان کے لئے ایک بہت ہی بڑی مصیبت ہے کیونکہ جھگڑالو آدمی کا کوئی بھی دوست نہیں ہوتا بلکہ وہ ہر شخص کی نگاہوں میں قابل نفرت ہو جاتا ہے اور لوگ اس کے جھگڑے کے ڈر سے اس کو منہ نہیں لگاتے اس سے بات نہیں کرتے۔
(۱۵)کاہلی:۔یہ ایسی منحوس عادت ہے کہ اس کی وجہ سے سینکڑوں دوسری خراب عادتیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ مکان' سامان' کپڑوں اور بدن کی گندگی' برتنوں سامانوں کی بے ترتیبی' وقت پر کھانے پینے سے محرومی' شوہر اور سسرال والوں سے ناراضگی' بچوں کا پھوہڑپن' طرح طرح کی بیماریاں وغیرہ وغیرہ یہ ساری بلائیں اور مصیبتیں اسی کاہلی کے سب انڈے بچے ہیں۔ اسی لئے اس عادت کو ہرگز ہرگز اپنے قریب نہیں آنے دینا چاہے بلکہ دینی و دنیاوی کاموں میں ہر وقت چاق و چوبند ہوکر لگے رہنا چاہے۔ خوب یاد رکھو! کہ محنتی آدمی ہر شخص کا پیارا ہوتا ہے اور کاہل آدمی ہر ایک در سے پھٹکارا جاتا ہے اور ہر کام میں مار پڑتی ہے۔ کاہل آدمی نہ دنیا کا کام کرسکتا ہے نہ دین کا اسی لئے رسول خدا صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم یہ دعا مانگا کرتے تھے کہ۔
اَللّٰھُمَّ اِنِیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْکَسْلِ ۔
(جامع الترمذی، کتاب الدعواۃ ، باب ۷۱،رقم ۳۴۹۶،ج۵،ص۲۹۴)
" یعنی اے اﷲ! میں کاہلی سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔
(۱۶)ضد:۔اپنی کسی بات پر اس طرح اڑ جانا کہ کوئی لاکھ سمجھائے مگر کسی کی بات اور سفارش قبول نہ کرے۔ اس بری خصلت کا نام ''ضد'' ہے یہ اس قدر خراب اور منحوس عادت ہے کہ آدمی کی دنیا و آخرت کو تباہ و برباد کر ڈالتی ہے ایسے آدمی کو دنیا میں سب لوگ ''ضدی '' اور ''ہٹ دھرم'' کہنے لگتے ہیں۔ اور کوئی بھی اس کو منہ لگانے اور اس سے بات کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ یہی وہ خبیث عادت تھی جس نے ابو جہل کو جہنم میں دھکیل دیا کہ ہمارے پیغمبر صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم اور مومنوں نے اس کو لاکھوں مرتبہ سمجھایا اور اس نے شق القمر اور کنکریوں کے کلمہ پڑھنے کا معجزہ بھی دیکھ لیا مگر پھر بھی اپنی ضد پر اڑا رہا۔ اور ایمان نہ"
"لایا۔ قرآن وحدیث میں یہ حکم ہے کہ ہر مسلمان مرد و عورت پر لازم ہے کہ اپنے بزرگوں اور مخلص دوستوں کا مشورہ ضرور مان لے اور مسلمانوں کی جائز سفارش کو قبول کرکے اپنی رائے اور اپنی بات کو چھوڑ دے اور حق ظاہر ہوجانے کے بعدہر گز ہرگز اپنی رائے اور اپنی بات پر ضد کرکے اڑا نہ رہے بہت سے آدمی خاص طور سے عورتیں اس بری عادت میں مبتلا ہیں۔ خدا کے لئے ان سب کو چاہے کہ اس بری عادت کو چھوڑ کر دونوں جہان کی سعادتوں سے سر فراز ہوں۔
(۱۷)بد گمانی:۔بہت سے مردوں اور عورتوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ جہاں انہوں نے دو آدمیوں کو الگ ہو کر چپکے چپکے باتیں کرتے ہوئے دیکھا تو فوراََ ان کو یہ بدگمانی ہو جاتی ہے کہ یہ میرے ہی متعلق کچھ باتیں ہو رہی ہیں اور میرے ہی خلاف کوئی سازش ہورہی ہے اسی طرح عورتیں اگر اپنے شوہروں کو اچھا لباس پہن کر کہیں جاتے ہوئے دیکھتی ہیں یا شوہروں کو کسی عورت کے بارے میں کچھ کہتے ہوئے سن لیتی ہیں تو ان کو فوراََ اپنے شوہروں کے بارے میں یہ بدگمانی ہو جاتی ہے کہ ضرور میرے شوہر کی فلانی عورت سے کچھ ساز باز ہے اسی طرح شوہروں کا حال ہے کہ اگر ان کی بیویاں میکے میں زیادہ ٹھہر گئیں یا میکا کے رشتہ داروں سے بات یا ان کی خاطر ومدارات کرنے لگیں تو شوہروں کو یہ بدگمانی ہو جاتی ہے کہ میری بیوی فلاں فلاں مردوں سے محبت کرتی ہے کہیں کوئی بات تو نہیں ہے۔ بس اس بد گمانی میں طرح طرح کی جستجو اور ٹوہ لگانے کی فکر میں مبتلا ہو کر دن رات دماغ میں الم غلم قسم کے خیالات کی کھچڑی پکانے لگتے ہیں اور کبھی کبھی رائی کا پہاڑ اور پھانس کا بانس بنا ڈالتے ہیں۔
پیاری بہنو اور بھائیو! یاد رکھو کہ بدگمانیوں کی یہ عادت بہت بری بلا اور بہت بڑا گناہ ہے"
قرآن مجید میں اﷲتعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ
اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ
" یعنی بعض گمان گناہ ہیں۔(پ26،الحجرات:12)
لہٰذا جب تک کھلی ہوئی دلیل سے تم کو کسی بات کا یقین نہ ہو جائے ہر گز ہر گز محض بے بنیاد گمانوں سے کوئی رائے قائم نہ کر لیا کرو۔
(۱۸)کان کا کچا:بہت سے مردوں اور عورتوں میں یہ خراب عادت ہوا کرتی ہے کہ اچھا برا یا سچا جھوٹا جو آدمی بھی کوئی بات کہہ دے اس پر یقین کرلیتے ہیں اور بلا چھان بین اور تحقیقات کے اس بات کو مان کر اس پر طرح طرح کے خیالات و نظریات کا محل تعمیر کرنے لگتے ہیں یہ وہ عادت بد ہے جو آدمی کو شکوک و شبہات کے دلدل میں پھنسا دیتی ہے اور خواہ مخواہ آدمی اپنے مخلص دوستوں کو دشمن بنا لیتا ہے اور خود غرض و فتنہ پرور لوگ اپنی چالوں میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اس لئے خداوند قدوس نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ"
اِنۡ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوۡۤا
" ''یعنی جب کوئی فاسق آدمی تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تم خوب اچھی طرح جانچ پڑتال کرلو۔''(پ26،الحجرات:6)
مطلب یہ ہے کہ ہر شخص کی خبر پر بھروسا کر کے تم یقین مت کر لیا کرو بلکہ خوب اچھی طرح تحقیقات اور چھان بین کر کے خبروں پر اعتماد کرو۔ ورنہ تم سے بڑی بڑی غلطیاں ہوتی رہیں گی۔ لہٰذا خبردار! خبردار! کان کے کچے مت بنو۔ اور ہر آدمی کی بات سن کر بلا تحقیقات کئے نہ مان لیا کرو۔"
(۱۹)ریا کاری:۔کچھ مردوں اور عورتوں کی یہ خراب عادت ہوتی ہے کہ وہ دین یا دنیا کا جو کام بھی کرتے ہیں وہ شہرت و ناموری اور دکھاوے کے لئے کرتے ہیں۔ اس خراب عادت کا نام ''ریاکاری'' ہے اور یہ سخت گناہ ہے حدیث شریف میں ہے کہ ریا کاری کرنے والوں کو قیامت کے دن خدا کا منادی اس طرح میدان محشر میں پکارے گا کہ اے بدکار۔ اے بد عہد۔ اے ریاکار! تیرا عمل غارت ہوگیا اور تیرا ثواب برباد ہو گیا۔ تو خدا کے دربار سے نکل جا اور اس شخص سے اپنا ثواب طلب کر جس کے لئے تو نے عمل کیا تھا۔
(سنن ابن ماجہ، کتاب الزھد ، باب الریاء والسمعۃ، رقم ۴۲۰۳،ج۴،ص۴۷۰)
اسی طرح ایک دوسری حدیث میں ہے کہ جس عمل میں ذرہ بھر بھی ریا کاری کا شائبہ ہو اس عمل کو اﷲتعالیٰ قبول نہیں فرماتا ہے۔
(الترغیب والترہیب ، الترہیب من الریائ...الخ ، رقم ۲۷،ج۱،ص۳۶)
اور یہ بھی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشار فرمایا کہ جہنم میں ایک ایسی وادی ہے جس کو اﷲتعالیٰ نے ریا کاری کرنے والے قاریوں کے لئے تیار فرمایا ہے۔
(جامع الترمذی ، کتاب الزھد ، باب ماجاء فی الریاء ، رقم ۲۳۹۰،ج۴،ص۱۷۰)
(۲۰)تعریف پسندی:۔کچھ مرد اور عورتیں اس خراب عادت میں مبتلا ہیں کہ جو شخص ان کے منہ پر ان کی تعریف کردے وہ اس سے خوش ہو جاتے ہیں اور جو شخص ان کے عیبوں کی نشاندہی کردے اس پر مارے غصہ کے آگ بگولا ہو جاتے ہیں۔ آدمی کی یہ خصلت بھی نہایت ناقص اور بہت بری عادت ہے۔ اپنی تعریف کو پسند کرنا اور اپنی تنقید پر ناراض ہو جانا یہ بڑی بڑی گمراہیوں اور گناہوں کا سر چشمہ ہے اس لئے اگر کوئی شخص تمہاری تعریف کرے تو تم اپنے دل میں سوچو اگر واقعی وہ خوبی تمہارے اندر موجود ہو تو تم اس پر خدا کا شکر ادا کرو کہ اس نے تم کو اس کی توفیق عطا فرمائی اور ہرگز اپنی اس خوبی پر اکڑ کر اترا کر
خوش نہ ہوجاؤ۔ اور اگر کوئی شخص تمہارے سامنے تمہاری خامیوں کو بیان کرے تو ہرگز ہرگز اس پر ناراضگی کا اظہار نہ کرو۔ بلکہ اس کو اپنا مخلص دوست سمجھ کر اس کی قدر کرو اور اپنی خامیوں کی اصلاح کرلو اور اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لو کہ ہر تعریف کرنے والا دوست نہیں ہوا کرتا۔ اور ہر تنقید کرنے والا دشمن نہیں ہوا کرتا۔ قرآن و حدیث کی مقدس تعلیم سے پتا چلتا ہے کہ اپنی تعریف پر خوش ہو کر پھول جانے والا آدمی اﷲتعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو بے حد ناپسند ہے اور اس قسم کے مردوں اور عورتوں کے اردگرد اکثر چاپلوسی کرنے والوں کا مجمع اکٹھا ہو جایا کرتا ہے اور یہ خود غرض لوگ تعریفوں کا پل باندھ کر آدمی کو بے وقوف بنایا کرتے ہیں۔اور جھوٹی تعریفوں سے آدمی کو الو بنا کر اپنا مطلب نکال لیا کرتے ہیں۔ اور پھر لوگوں سے اپنی مطلب برآری اور بیوقوف بنانے کی داستان بیان کر کے لوگوں کو خوش طبعی اور ہنسنے ہنسانے کا سامان فراہم کرتے رہتے ہیں۔ لہٰذا ہر مردو عورت کو چاپلوسی کرنے والوں اور منہ پر تعریف کرنے والوں کی عیارانہ چالوں سے ہوشیار رہنا چاہے۔ اور ہرگز ہرگز اپنی تعریف سن کر خوش نہ ہونا چاہے۔
(۱)حلم:۔غصہ کو برداشت کر لینا اور غصہ دلانے والی باتوں پر غصہ نہ کرنا اس کو حلم اور بردباری کہتے ہیں یہ مسلمان کی بہت ہی بلند مرتبہ عادت ہے اور اس عادت والے کو خداوند قدوس دنیا و آخرت میں بڑے بڑے مراتب و درجات عطا فرماتا ہے چنانچہ قرآن مجید میں رب العزۃ جل جلالہ نے فرمایا کہ۔
وَالْکٰظِمِیۡنَ الْغَیۡظَ وَالْعَافِیۡنَ عَنِ النَّاسِ ؕ وَاللہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیۡنَ ﴿134﴾ۚ
" ''یعنی غصہ پی جانے والوں' اور لوگوں کو معاف کردینے والوں( اور اس قسم کے اچھے اچھے کام کرنے والوں) کو اﷲتعالیٰ اپنا محبوب بنا لیتا ہے۔''(پ4،آل عمران :134)
اﷲاکبر! غصہ کو ضبط اور برداشت کرنے والوں کو خداوند قدوس اپنا محبوب بنا لیتا ہے۔ سبحان اﷲعزوجل! کوئی بندہ یا بندی اﷲتعالیٰ کا محبوب اور پیارا بن جائے اس سے بڑھ کر اور کون سی دوسری نعمت ہوسکتی ہے؟
لہٰذا پیاری بہنو اور بھائیو! تم اپنی یہ عادت بنا لو کہ کوئی کتنی ہی سخت بات تم کو کہہ دے مگر تم اس کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرلو اور غصہ آجائے تو غصہ کو پی جاؤ اور ہرگز ہرگز اپنے غصہ کا اظہار نہ کرو۔ نہ کوئی انتقام لو۔ اگر تم نے یہ عادت ڈالی تو پھر یقین کر لو کہ تم خدا اور اس کی تمام مخلوق کے پیارے بن جاؤ گے اور خداوند کریم بڑے بڑے درجات و مراتب کا تم کو تاج پہنا کر نیک بختی اور خوش نصیبی کا تاجدار بنادے گا۔
(۱)تواضع و انکساری:۔اپنے کو دوسروں سے چھوٹا اور کمتر سمجھ کر دوسروں کی تعظیم و تکریم کے ساتھ خاطر ومدارت کرنا اس عادت کو تواضع اور انکساری کہتے ہیں۔ یہ نیک عادت درحقیقت جو ہر نایاب ہے کہ اﷲتعالیٰ جس کو اس عادت کی توفیق عطا فرما دیتا ہے گویا اس کو خیر کثیر کا خزانہ عطا فرما دیتا ہے جو شخص ہر ایک کو اپنے سے بہتر اور اپنے کو سب سے کمتر سمجھے گا وہ ہمیشہ گھمنڈ اور تکبر کی شیطانی خصلت سے بچا رہے گا اور اﷲتعالیٰ اس کو دونوں جہان میں سر بلندی اور عظمت کا بادشاہ بلکہ شہنشاہ بنادے گا۔ حدیث شریف میں ہے کہ یعنی جو شخص اﷲ کی رضاجوئی کے لیے تواضع اور انکساری کی خصلت اختیار کریگا اﷲتعالیٰ اس کو سر بلندی عطا فرمائے گا۔"
(الترغیب والترہیب ، کتاب الادب وغیرہ، الترغیب فی التواضع والترہیب من الکبر
والعجب والافتخار،رقم ۶،ج۳،ص۳۵۱)
حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ
"مرا پیر دانائی روشن شہاب
دواندوز فرمود بر روئی آب
یکی آنکہ برخویش خود بین مباش
دگر آنکہ بر غیر بدبین مباش"
" یعنی مجھ کو میرے پیر عارف خدا اور روشن دل شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے دریائی سفر میں کشتی پر یہ دو نصیحت فرمائی ہیں ایک یہ کہ اپنے کو اچھا اور بڑا نہ سمجھو۔ اور دوسری یہ کہ دوسروں کو برا اور کمتر نہ سمجھو بلکہ سب کو اپنے سے بہتر اور اپنے کو سب سے کمتر سمجھ کر دوسروں کے سامنے تواضع اور انکساری کا مظاہرہ کرتے رہو اور خبردار ہرگز ہرگز کبھی بھی تکبر اور گھمنڈ کی شیطانی ڈگر پر چل کر دوسروں کو اپنے سے حقیر نہ سمجھو۔
یاد رکھو کہ تواضع اور عاجزی و انکساری کی عادت رکھنے والا آدمی ہر شخص کی نظروں میں عزیز ہو جاتا ہے۔ اور متکبر آدمی سے ہر شخص نفرت کرنے لگتا ہے۔ اس لئے ہر مرد وعورت کو لازم ہے کہ تواضع کی عادت اختیار کرے اور کبھی بھی تکبر اور گھمنڈ نہ کرے۔
(۳)عفوودرگزر:۔ہرگزاگر کوئی شخص تمھارے ساتھ ظلم و زیادتی کر بیٹھے یا ایذا پہنچائے یا کسی سے خطا یا قصور ہو جائے یا تمہیں کسی طرح کا نقصان پہنچائے تو بدلہ و انتقام لینے کی بجائے اسکو معاف کر دینا۔ یہ بہت ہی بہترین خصلت اور نہایت ہی نفیس عادت ہے۔ لوگوں کی خطاؤں کو معاف کردینا یہ قرآن مجید کا مقدس حکم اور رسولوں کا مبارک طریقہ ہے۔ خداوند قدوس نے قرآن مجید میں فرمایا کہ"
فَاعْفُوۡا وَاصْفَحُوۡا
" ''یعنی لوگوں کی خطاؤں کو معاف کر دو اور درگزر کی خصلت اختیار کرو۔'' (پ1،البقرۃ:1۰9)ہمارے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے مکہ کے ان مجرموں اور خطاکاروں کو جنہوں نے برسوں تک آپ پر طرح طرح کے ظلم کئے تھے۔ فتح مکہ کے دن جب یہ سب مجرمین آپ کے سامنے لرزتے اور کانپتے ہوئے آئے تو آپ نے ان سب مجرموں کی خطاؤں کو معاف فرما دیا اور کسی سے بھی کوئی انتقام اور بدلہ نہیں لیا۔ جس کا یہ اثر ہوا کہ تمام کفار مکہ نے اس اخلاق محمدی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم سے متاثر ہو کر کلمہ پڑھ لیا۔
عزیز بھائیو اور پیاری بہنو! تم بھی اپنی یہی عادت بنا لو کہ گھر میں یا گھر کے باہر ہر جگہ لوگوں کے قصور معاف کر دیا کرو۔ اس سے لوگوں کی نظروں میں تمھارا و قار بڑھ جائیگا اور خداوند کریم بھی تم پر مہربان ہو کر تمھاری خطاؤں کو بخش دے گا۔
(۴)صبروشکر:۔مصیبتوں اور جسمانی و روحانی تکلیفوں پر اپنے نفس کو اسطرح قابو میں رکھنا کہ نہ زبان سے کوئی برالفظ نکلے نہ گھبرا گھبرا کر اور پریشان حال ہو کر ادھر ادھر بھٹکتاا ور بھاگتا پھرے بلکہ بڑی سے بڑی آفتوں اور مصیبتوں کے سامنے عزم و استقلال کے ساتھ جم کر ڈٹے رہنا۔ اس کا نام صبر ہے صبر کا کتنا بڑا ثواب اور اجر ہے۔ اس کو بچہ بچہ جانتا ہے۔ قرآن مجید میں اﷲتعالیٰ کا فرمان ہے کہ۔"
اِنَّ اللہَ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ﴿۱۵۳﴾
" ''یعنی صبر کرنے والے کے ساتھ اﷲتعالیٰ کی مدد ہوا کرتی ہے۔'' (پ1،البقرۃ:153)
اور خداوند کریم نے اپنے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم سے یہ ارشاد فرمایا کہ۔"
فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ
" یعنی اے محبوب! آپ اسی طرح صبر کریں جس طرح تمام ہمت والے رسولوں نے صبر کیا ہے۔(پ26،الاحقاف:35)
اس دنیا میں رنج و راحت اور غم و خوشی کا چولی دامن کا ساتھ ہے ہر شخص کو اس دنیاوی زندگی میں تکلیف اور آرام دونوں سے پالا پڑنا ضروری ہے اس لیے ہر انسان پر لازم ہے کہ کوئی نعمت و راحت ملے تو اس پر خدا کا شکر ادا کرے اور کوئی تکلیف و رنج پہنچے تو اس پر صبر کرے۔ غرض صبر کی عادت ایک نہایت ہی بہترین عادت ہے اور مثل مشہور ہے کہ صبر کا پھل میٹھا ہوا کرتا ہے۔ اس لیے ہر مرد وعورت کو چاہیے کہ صبر کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑے۔
(۵)قناعت:۔انسان کو جو کچھ خدا کی طرف سے مل جائے اس پر راضی ہو کر زندگی بسر کرتے ہوئے حرص اور لالچ کو چھوڑ دینا۔اس کو ''قناعت'' کہتے ہیں قناعت کی عادت انسان کے لیے خدا کی بہت بڑی نعمت ہے۔ قناعت پسند انسان سکون و اطمینان کی دولت سے مالا مال رہتا ہے اور حریص اور لالچی انسان ہمیشہ پریشان رہتا ہے کسی نے کیا خوب کہا ہے"
"اے قناعت تونگرم گردان
کہ ورائی تو ہیچ نعمت نیست"
یعنی اے قناعت کی عادت تو مجھ کو تو نگر اور مالدار بنادے۔ کیونکہ تجھ سے بڑھ کر دنیا میں کوئی نعمت نہیں ہے۔ ہر انسان خصوصاً عورتوں کو چاہے کہ ان کو بیٹے شوہروں کی طرف سے جو کچھ مل جائے اس پر راضی رہ کر قناعت کریں۔ اور دوسری عورتوں کی دیکھا دیکھی حرص اور لالچ کی عادت سے ہمیشہ دور رہیں تو ان شاء اﷲتعالیٰ ان کی زندگی نہایت
"ہی سکون و اطمینان کے ساتھ بسر ہوگی اور نہ وہ خود پریشان حال رہیں گی۔ نہ اپنے شوہر کو پریشانی میں ڈالیں گی۔
(۶)رحم وشفقت:۔خدا کی ہر مخلوق' انسان ہو یا جانور اگر وہ رحم کے قابل ہوں تو ان پر رحم کرنا' اور ان کے ساتھ مہربانی و شفقت کا سلوک اور برتاؤ کرنا یہ انسان کی بہترین خصلت' اور اعلیٰ درجے کی قابل تعریف عادت ہے اور دنیا و آخرت میں اس پر بے حد ثواب ملتا ہے۔ حدیث شریف میں رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا ہے کہ۔
رحم کرنے والوں پر رحمٰن رحم فرماتا ہے اے لوگو! تم زمین والوں پر رحم کرو تو آسمان والا تم پر رحم فرمائے گا۔"
(جامع الترمذی ، کتاب البر والصلۃ ، باب ماجاء فی رحمۃ المسلمین ، رقم ۱۹۳۱، ج۳، ص۳۷۱)
"؎ کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خدا مہرباں ہو گا عرش بریں پر"
نرم خوئی' مہربانی اور رحم وکرم کی عادت خداوند کریم کی بہت ہی بڑی نعمت ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ جس کو رفق اور نرم دلی کی عادت خداوند کریم کی طرف سے عطا کر دی گئی اس کو دنیا و آخرت کی بھلائیوں کا بہت بڑا حصہ مل گیا۔ اور جو نرم دلی اور رحم و مہربانی کی خصلت سے محروم کردیا گیا۔ وہ دنیا و آخرت کی بھلائیوں سے محروم ہو گیا۔
(شرح السنۃ ، کتاب البر والصلۃ ، باب الرفق ، رقم ۳۳۸۵،ج۶،ص۴۷۲)
(۷)خوش اخلاقی:۔ہر ایک کے ساتھ خوش روئی اور خوش اخلاقی کے ساتھ پیش آنا یہ وہ پیغمبرانہ خصلت ہے جس کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا
ہے کہ یقیناً تم سب مسلمانوں میں سب سے زیادہ مجھے وہ شخص محبوب ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں۔
(صحیح البخاری ، کتاب المناقب ، باب صفۃ النبی علیہ الصلوۃ والسلام، رقم ۳۵۵۹،ج۲،ص۴۸۹)
ایک شخص نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا کہ یا رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم! سب سے بہترین چیز جو اﷲتعالیٰ نے انسان کو عطا فرمائی ہے وہ کیا چیز ہے؟ تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ ''اچھے اخلاق''
(شعب الایمان ، باب فی تعظیم النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، رقم ۱۵۲۹، ج۲، ص۲۰۰)
اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن مومن کے میزان عمل میں سب سے زیادہ وزن دار نیکی اچھے اخلاق ہوں گے
(جامع الترمذی ، کتاب البر والصلۃ ، باب ماجاء فی حسن الخلق ، رقم ۲۰۱۰، ج۳، ص۴۰۴)
ہر مرد و عورت کو لازم ہے کہ اپنے گھر والوں اور پڑوسیوں' بلکہ ہر ملنے جلنے والے کے ساتھ خوش اخلاقی کے ساتھ پیش آئے۔ خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اور مسکراتے ہوئے لوگوں سے ملنا جلنا بہت بڑی سعادت اور خوش نصیبی کی عادت اور ثواب کا کام ہے جو لوگ ہر وقت گال پھلائے' منہ لٹکائے' اور پیشانی پر بل ڈالے ہوئے تیوری چڑھائے ہوئے ہر آدمی سے بد اخلاقی کے ساتھ پیش آتے ہیں وہ بہت ہی منحوس و مغرور ہیں اور وہ دنیا و آخرت کی سعادتوں اور خوش نصیبیوں سے محروم ہیں۔ نہ ان کو کبھی خوشی نصیب ہوتی ہے۔ نہ ان سے مل کر دوسروں کا دل خوش ہوتا ہے بلکہ ایسے مردوں اور عورتوں کے چہروں پر ہر وقت ایسی رعونت اور نحوست برستی رہتی ہے کہ ان کا چہرہ دیکھ کے ایسا معلوم ہو تا ہے کہ یہ ابھی ابھی سو کر اٹھے ہیں اور ابھی منہ بھی نہیں دھویا ہے۔
(۸)حیاء:۔ہر آدمی خصوصاَ عورتوں کے حق میں حیاء کی عادت وہ انمول زیور ہے جو عورت کی عفت و پاک دامنی کا دارومدار اور نسوانیت کے حسن و جمال کی جان ہے جس مرد یا عورت میں حیاء کا جوہر ہوگا وہ تمام عیب لگانے والے اور برے کاموں سے فطری طور پر رک جائے گا اور تمام رذائل سے پاک صاف رہ رہ کر اچھے اچھے کاموں اور فضائل ومحاسن کے زیورات سے آراستہ ہو جائے گا۔ چنانچہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ
الحیاء شعبۃ من الایمان ۔
یعنی حیاء درخت ایمان کی ایک بہت بڑی شاخ ہے ۔
(صحیح البخاری، کتاب الایمان ، باب امور الایمان، رقم ۹،ج۱،ص۱۵)
(۹)صفائی ستھرائی:۔یہ مبارک عادت بھی مردوں اور عورتوں کے لیے نہایت ہی بہترین خصلت ہے جو انسانیت کے سر کا ایک بہت ہی قیمتی تاج ہے۔ امیری ہو یا فقیری ہر حال میں صفائی و ستھرائی انسان کے وقار و شرف کا آئینہ دار' اور محبوب پروردگار ہے۔ اس لئے ہر مسلمان کا یہ اسلامی نشان ہے کہ وہ اپنے بدن' اپنے مکان و سامان' اپنے دروازے اور صحن وغیرہ ہر ہر چیز کی پاکی اور صفائی ستھرائی کا ہر وقت دھیان رکھے۔ گندگی اور پھوہڑ پن انسان کی عزت و عظمت کے بد ترین دشمن ہیں اس لیے ہر مردو عورت کو ہمیشہ صفائی ستھرائی کی عادت ڈالنی چاہیے۔ صفائی ستھرائی سے صحت و تندرستی بڑھتی رہتی ہے اور سینکڑوں بلکہ ہزاروں بیماریاں دور ہو جاتی ہیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ اﷲتعالیٰ پاک ہے اور پاکیزگی کو پسند فرماتا ہے۔
(مشکوٰۃ المصابیح ، کتاب اللباس ، الفصل الثالث ، رقم ۴۴۸۷،ج۲،ص۴۹۷)
رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو پھوہڑ اور میلے کچیلے رہنے والے لوگوں سے بے حد نفرت تھی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم اپنے صحابہ کرام علیھم الرضوان کو ہمیشہ صفائی ستھرائی کا
"حکم دیتے رہتے اور اس کی تاکید فرماتے رہتے تھے۔
پھوہڑ عورتیں جو صفائی ستھرائی کا خیال نہیں رکھتی ہیں وہ ہمیشہ شوہروں کی نظروں میں ذلیل و خوار رہتی ہیں بلکہ بہت سی عورتوں کو ان کے پھوہڑپن کی وجہ سے طلاق مل جاتی ہے اس لیے عورتوں کو صفائی ستھرائی کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہے۔
(ہ۱)سادگی:۔خوراک' پوشاک' سامان زندگی' رہن سہن ہر چیز میں بے جا تکلفات سے بچنا' اور زندگی کے ہر شعبہ میں سادگی رکھنا یہ بہت ہی پیاری عادت اور نہایت ہی نفیس خصلت ہے۔ سادہ طرز زندگی میں امیری ہو یا فقیری' ہر جگہ ہر حال میں راحت ہی راحت ہے اس عادت والا آدمی نہ کسی پر بوجھ بنتا ہے نہ خود قسم قسم کے بوجھوں سے زیر بار ہو تا ہے۔ زندگی کے ہر شعبہ میں سادگی ہی رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّماور آپکی مقدس بیویوں کا وہ مبارک طریقہ ہے جو تمام دنیا کے مردوں اور عورتوں کے لئے مشعل راہ ہے۔ ہر مسلمان مرد اور عورت کو چاہے کہ سادگی کی زندگی بسر کر کے رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی اس سنت کریمہ پر عمل کرے اور دنیا و آخرت کی راحتوں اور سعادتوں سے سرفراز ہو۔
(۱۱)سخا وت:۔اپنی طاقت اور حیثیت کے لحاظ سے سخاوت کی عادت ایک نہایت ہی نفیس خصلت ہے۔ چنانچہ کنجوسی کے بیان میں سخاوت کی فضیلت اور اس کے بارے میں حدیث شریف ہم تحریر کر چکے ہیں۔
(۱۲)شیریں کلامی:۔ہر آدمی سے بات چیت کرنے میں نرم لہجہ اور شیریں زبانی کے ساتھ گفتگو کی عادت یہ انسانی خصائل میں سے بہترین عادت ہے۔ اس سے ہر آدمی کا دل جیتا جا سکتا ہے گفتگو میں کڑوا لہجہ' چیخنا چلانا' ڈانٹ پھٹکار منہ بگاڑ کر جواب دینا یہ"
"اتنی مردود عادتیں ہیں کہ اس سے آدمی ہر ایک کی نظر میں قابل نفرت ہو جاتا ہے۔
گناہوں کا بیان
گناہوں کی دو قسمیں ہیں۔ گناہ صغیرہ (چھوٹے چھوٹے گناہ) گناہ کبیرہ (بڑے بڑے گناہ)گناہ صغیرہ نیکیوں اور عبادتوں کی برکت سے معاف ہو جاتے ہیں۔ لیکن گناہ کبیرہ اس وقت تک معاف نہیں ہوتے جب تک کہ آدمی سچی توبہ کر کے اہل حقوق سے ان کے حقوق کو معاف نہ کرالے۔
گناہ کبیرہ کس کو کہتے ہیں ؟:۔گناہ کبیرہ اس گناہ کو کہتے ہیں جس سے بچنے پر خداوند قدوس نے مغفرت کا وعدہ فرمایا ہے۔"
(کتاب الکبائر،ص۷)
اور بعض علمائے کرام نے فرمایا کہ ہر وہ گناہ جس کے کرنے والے پراﷲعزوجل و رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے وعید سنائی' یا لعنت فرمائی۔ یا عذاب و غضب کا ذکر فرمایا وہ گناہ کبیرہ ہے۔
(کتاب الکبائر،ص۸)
"گناہ کبیرہ کون کون ہیں؟:۔گناہ کبیرہ کی تعداد بہت زیادہ ہے مگر ان میں سے چند مشہور کبیرہ گناہوں کا ہم یہاں ذکر کرتے ہیں جو یہ ہیں۔
(۱)شرک کرنا۔(۲)جادو کرنا۔(۳)خون ناحق کرنا۔(۴)سود کھانا۔ (۵)یتیم کا مال کھانا۔(۶)جہاد کفار سے بھاگ جانا۔ (۷)پاک دامن مومن مردوں اور عورتوں پر زنا کی تہمت لگانا۔ (۸)زنا کرنا۔(۹) اغلام بازی کرنا۔ (۱۰)چوری کرنا۔(۱۱)شراب پینا۔(۱۲)جھوٹ بولنا اور جھوٹی گواہی دینا۔ (۱۳)ظلم کرنا۔ (۱۴)ڈاکہ ڈالنا۔(۱۵)ماں باپ کو تکلیف دینا ۔ (۱۶)حیض و نفاس کی حالت میں بیوی سے صحبت کرنا۔(۱۷)جوا کھیلنا۔ (۱۸)صغیرہ گناہوں پر اصرار کرنا۔"
(۱۹)اﷲعزوجل کی رحمت سے ناامید ہو جانا۔ (۲۰)اﷲعزوجل کے عذاب سے بے خوف ہو جانا۔(۲۱)ناچ دیکھنا۔ (۲۲)عورتوں کا بے پردہ ہو کر پھرنا۔ (۲۳)ناپ تول میں کمی کرنا۔(۲۴)چغلی کھانا ۔ (۲۵)غیبت کرنا۔(۲۶)دو مسلمانوں کو آپس میں لڑا دینا۔(۲۷)امانت میں خیانت کرنا۔(۲۸)کسی کا مال یا زمین و سامان وغیرہ غصب کرلینا۔(۲۹)نماز و روزہ اور حج و زکوٰۃ وغیرہ فرائض کو چھوڑ دینا۔(۳۰)مسلمانوں کو گالی دینا۔
(فیوض الباری شرح بخاری ، کتاب الایمان ، ج۱،ص۱۶۰۔۱۶۱)
" ان سے نا حق طور پر مار پیٹ کرنا وغیرہ وغیرہ سینکڑوں گناہ کبیرہ ہیں۔جن سے بچنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے اور ساتھ ہی دوسروں کو بھی ان گناہوں سے روکنا لازم اور ضروری ہے۔
حدیث شریف میں ہے کہ اگر کسی مسلمان کو کو ئی گناہ کرتے دیکھے تو اس پر لازم ہے کہ اپنا ہاتھ بڑھا کر اسکو گناہ کرنے سے روک دے۔ اور اگر ہاتھ سے اس کو روکنے کی طاقت نہیں رکھتا تو زبان سے منع کر دے اور اگر اسکی بھی طاقت نہ ہو تو کم سے کم اپنے دل سے اس گناہ کو برا سمجھ کر اس سے بیزاری ظاہر کردے ان سے نا حق طور پر مار پیٹ کرنا وغیرہ وغیرہ سینکڑوں گناہ کبیرہ ہیں۔جن سے بچنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے اور ساتھ ہی دوسروں کو بھی ان گناہوں سے روکنا لازم اور ضروری ہے۔
حدیث شریف میں ہے کہ اگر کسی مسلمان کو کو ئی گناہ کرتے دیکھے تو اس پر لازم ہے کہ اپنا ہاتھ بڑھا کر اسکو گناہ کرنے سے روک دے۔ اور اگر ہاتھ سے اس کو روکنے کی طاقت نہیں رکھتا تو زبان سے منع کر دے اور اگر اسکی بھی طاقت نہ ہو تو کم سے کم اپنے دل سے اس گناہ کو برا سمجھ کر اس سے بیزاری ظاہر کردے اور یہ ایمان کا نہایت ہی کمزور درجہ ہے۔
اور یہ ایمان کا نہایت ہی کمزور درجہ ہے۔"
(صحیح مسلم، کتاب الایمان ، باب بیان کون النھی عن المنکر من الایمان ۔۔۔الخ، رقم ۴۹،ص۴۴)
ایک اور حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ کوئی آدمی کسی قوم میں رہ کر گناہ کا کام کرے اور وہ قوم قوت رکھتے ہوئے بھی اس آدمی کو گناہ کرنے سے نہ روکے تو اﷲتعالیٰ اس ایک آدمی کے گناہ کے سبب پوری قوم کو ان کے مرنے سے پہلے عذاب میں مبتلا فرمائے گا۔
(الترغیب والترہیب، کتاب الحدود،الترغیب فی الامر بالمعروف والنھی عن المنکر ، والترہیب من ترکھما والمداھنۃ فیھما ،رقم ۱۸،ج۳،ص۱۶۱)
" گناہوں سے آخرت کا نقصان' اور عذاب جہنم کی سزاؤں' اور قبر میں قسم قسم کے عذابوں میں مبتلا ہونا۔ اس کو تو ہر شخص جانتا ہے مگر یاد رکھو کہ گناہوں کی نحوست سے آدمی کو دنیا میں بھی طرح طرح کے نقصان پہنچتے رہتے ہیں جن میں سے چند یہ ہیں۔
(۱)روزی کم ہو جانا۔(۲)بلاؤں کا ہجوم۔(۳)عمر گھٹ جانا۔(۴)دل میں اور بعض مرتبہ تمام بدن میں اچانک کمزوری پیدا ہو کر صحت خراب ہو جانا۔ (۵)عبادتوں سے محروم ہو جانا۔ (۶)عقل میں فتور پیدا ہو جانا۔ (۷)لوگوں کی نظروں میں ذلیل و خوار ہو جانا۔ (۸)کھیتوں اور باغوں کی پیداوار میں کمی ہو جانا۔(۹)نعمتوں کا چھن جانا۔(۱۰)ہر وقت دل کا پریشان رہنا۔(۱۱)اچانک لاعلاج بیماریوں میں مبتلا ہو جانا۔(۱۲)اﷲ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں' اور اس کے نبیوں' اور اس کے نیک بندوں کی لعنتوں میں گرفتار ہو جانا۔(۱۳)چہرے سے ایمان کا نور نکل جانے سے چہرے کا بے رونق ہو جانا۔(۱۴)شرم و غیرت کا جاتا رہنا۔(۱۵)ہر طرف سے ذلتوں' رسوائیوں اور ناکامیوں کا ہجوم ہو جانا۔(۱۶)مرتے وقت منہ سے کلمہ نہ نکلنا وغیرہ وغیرہ گناہوں کی نحوست سے بڑے بڑے دنیاوی نقصان ہوا کرتے ہیں۔"
عبادتوں سے آخرت کے فوائد تو ہر شخص کو معلوم ہیں کہ اﷲتعالیٰ اپنے عبادت گزار بندو ں کو آخرت میں جنت کی بے شمار نعمتیں عطا فرمائے گا۔ لیکن اس سے غافل نہ رہو کہ عبادت سے آخرت کے فائدوں کے علاوہ عبادت کی برکت سے بہت سے دنیاوی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں مثلاَ:۔
"(۱)روزی بڑھنا(۲)مال وسامان واولاد ہر چیز میں برکت ہونا (۳)بہت سی دنیاوی تکلیفوں اور پریشانیوں کا رفع ہو جانا (۴)بہت سی بلاؤں کا ٹل جانا (۵)سب کے دلوں میں اس کی محبت پیدا ہو جانا (۶)نور ایمان کی وجہ سے چہرے کا با رونق ہو جانا (۷)عمر کا بڑھ جانا (۸)پیداوار میں خیروبرکت ہو جانا (۹)بارش ہونا
(۱۰)ہر جگہ عزت و آبرو ملنا (۱۱)فاقہ سے بچا رہنا (۱۲)دن بدن نعمتوں میں ترقی ہونا (۱۳)بہت سی بیماریوں سے شفا پا جانا (۱۴)آئندہ آنے والی نسلوں کو فائدہ پہنچنا (۱۵)شادمانی و مسرت اور اطمینان قلب کی زندگی نصیب ہونا۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے دنیاوی فائدے ہیں جو عبادت کی برکت سے حاصل ہوتے ہیں۔"
"رحمت کبریا عبادت ہے
راحت مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم عبادت ہے
حسن نور خدا عبادت ہے
طلعت جاں فزا عبادت ہے
حاصل زیست معرفت حق کی
خلق کا مدعا عبادت ہے
دونوں عالم کا ہے بھلا اس سے
دولت بے بہا عبادت ہے
یہ خدا سے تجھے ملائے گی
قبلہ حق نما عبادت ہے"
"روشنی معرفت کی گر چاہو
چشم دل کی ضیاء عبادت ہے
روح کو ملتی ہے توانائی
ہر مرض کی دوا عبادت ہے
اعظمیؔ کر علاج عصیاں کا
معصیت کی شفاء عبادت ہے"
"محبت خصومات میں کھو گئی
یہ امت رسومات میں کھو گئی"
جب تک اسلام عرب کی زمین تک محدود رہا۔ اس وقت تک مسلمانوں کا معاشرہ اور ان کا طرز زندگی بالکل ہی سیدھا سادہ اور ہر قسم کی رسومات اور بدعات و خرافات سے پاک صاف رہا۔ لیکن جب اسلام عرب سے باہر دوسرے ملکوں میں پہنچا تو دوسری قوموں اور دوسرے مذہب والوں کے میل جول اور ان کے ماحول کا اسلامی معاشرہ اور مسلمانوں کے طریقہ زندگی پر بہت زیادہ اثر پڑا اور کفار و مشرکین اور یہود و نصاریٰ کی بہت سی غلط سلط اور من گھڑت رسموں کا مسلمانوں پر ایسا جارحانہ حملہ ہوا، اور مسلمان ان مشرکانہ رسموں میں اس قدر ملوث ہو گئے کہ اسلامی معاشرہ کا چہرہ مسخ ہو گیا اور مسلمان رسم و رواج کی بلاؤں میں گرفتار ہو کر خیرالقرون کی سیدھی سادھی اسلامی طرز زندگی سے بہت دور ہوگئے۔ چنانچہ خوشی غمی' پیدائش و موت' ختنہ' شادی بیاہ' وغیرہ مسلمانوں کی جملہ تقریبات بلکہ مسلمانوں کی زندگی و موت کے ہر مرحلہ اور موڑ پر قسم قسم کی رسموں کی فوجوں کا اس طرح عمل دخل ہوگیا ہے کہ مسلمان اپنی تقریبات کو باپ داداؤں کی ان روایتی رسموں سے الگ کر ہی نہیں سکتے اور یہ حال ہوگیا ہے کہ ؎
"یہ امت روایات میں کھو گئی
حقیقت خرافات میں کھو گئی"
" ہمارے یہاں مسلمانوں کی تقریبات میں جن رسموں کا رواج پڑ گیا ہے ان کے بارے میں تین قسم کے مکتبِ خیال کے لوگ ہیں جو اپنے اپنے مسلک کا اعلان کرتے رہتے ہیں۔
اول لال' پیلے' ہرے رنگ کے لباسوں والے گیسو دراز قسم کے رنگین مزاج باباؤں کا گروہ جو تصوف کا لبادہ اوڑھے ہوئے صوفی بنے پھرتے ہیں ان حقیقت و معرفت کے ٹھیکیداروں نے تو تمام خرافات اور خلاف شریعت رسومات کو جائز ٹھہرا رکھا ہے۔ یہاں تک کہ ڈھولک اور طبلہ کی تھاپ' اور ہار مونیم اور سارنگی کے راگ پر ان لوگوں کو معرفت کی معراج حاصل ہوتی ہے۔ ان لوگوں نے اپنی جہالت سے مسلم معاشرہ کو تہس نہس' اور اسلام کے مقدس چہرے کو خرافات و بدعات اور خلاف شریعت رسومات کے داغ دھبوں سے مسخ کر ڈالا ہے۔ یہ لوگ بلا شبہ خطاکار ہیں۔ لہٰذا مسلمانوں پر لازم ہے کہ ان لوگوں کی صحبت' اور ان لوگوں کی پیروی سے ہمیشہ بچتے رہیں۔
دوم وہابیوں دیوبندیوں کا فرقہ ہے جنہوں نے اصلاح کے نام سے اسلامی معاشرہ اور دین اسلام کی حجامت بنا ڈالی ہے۔ ان لوگوں نے یہ ظلم کیا ہے کہ مسلم معاشرہ کی جائز و ناجائز تمام رسومات کو حرام و بدعت بلکہ کفر و شرک ٹھہرا دیا ہے۔ اور یہ لوگ یہاں تک حد سے بڑھ گئے کہ دولھا کے سر پر سہرا باندھنے کو کفر و شرک لکھ دیا ہے اور زیب و زینت کے لیے دیواروں پر دیوار گیری اور چھتوں میں چھت گیری لگانے کو بدعت اور حرام لکھ مارا۔ اور دوسری بہت سی جائز چیزوں مثلاََ قبروں پر چادر ڈالنے' بزرگوں کی نیازو فاتحہ دلانے ' مردوں کا تیجہ' چالیسواں کرنے کو بدعت و حرام قرار دے دیا۔ میلاد شریف کی مجلسوں کو حرام و بدعت بلکہ کَنْہِیا کے جنم سے بدتر لکھ دیا۔ قیام و سلام کو نا جائز و ممنوع قرار دیا۔ بزرگان دین"
کے عرسوں کو ناجائز و حرام لکھا۔ محرم میں ذکر شہادت اور سبیلوں سے منع کیا۔ اور لطف یہ ہے کہ ان لوگوں سے جب ان رسومات کے کفر و شرک اور بدعت و حرام ہونے پر دلیل طلب کی جاتی ہے تو یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم لوگوں نے احتیاطاً ان چیزوں کو کفر و شرک اور حرام و بدعت لکھ دیا ہے تاکہ لوگ ڈر کر ان چیزوں کو چھوڑ دیں۔ خدا کے لئے کوئی ان سے پوچھے کہ اﷲتعالیٰ کی حلال کی ہوئی چیزوں کو کفر و شرک' اور حرام و ناجائز ٹھہرانا یہ احتیاط ہے یا اعلیٰ درجے کی بے احتیاطی ہے؟ اﷲتعالیٰ نے جن چیزوں کو حلال بتایا ہے ان کو کفر وشرک اور حرام بتانا۔ یہ اﷲتعالیٰ پر افتراء وتہمت ہے اور قرآن مجید میں اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے کہ۔
فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنۡ کَذَبَ عَلَی اللہِ ۔
" یعنی اس سے زیادہ ظالم اور کون ہوگا؟ جو اﷲتعالیٰ پر جھوٹی تہمت لگائے۔(پ24،الزمر:32)
بہر حال خلاصہ کلام یہ ہے کہ جن رسموں کو اﷲعزوجل و رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے حرام نہیں بتایا۔ ان کو خواہ مخواہ کھینچ تان کر حرام ٹھہرانا یہ خود بہت بڑا گناہ ہے۔ لہٰذا مسلمانوں پر لازم ہے کہ ان لوگوں سے بھی الگ تھلگ رہیں۔ اور ہر گز ہرگز ان لوگوں کی پیروی نہ کریں۔
سوم ہم سب اہلسنّت و جماعت کا مقدس طبقہ ہيں۔ جس کے بڑے بڑے علمبرداروں میں حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی و مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی' ومولانا فضل رسول بدایونی' ومولانا فضل حق خیر آبادی'ومولانا بحر العلوم لکھنوی و اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی وغیرہ بزرگان دین ہیں۔ اہلسنّت و جماعت کے ان مقدس بزرگوں کا مسلمانوں کی رسموں کے بارے میں یہ فتویٰ ہے کہ مسلمانوں کی وہ رسمیں جن کو شریعت نے منع کیا ہے وہ یقیناََ حرام و ناجائز ہیں۔ مثلاََ ناچ گانا۔ باجا بجانا۔ آتش"
بازی دولھا کو چاندی سونے کے زیورات پہنانا۔ تقریبات میں عورتوں مردوں کا بے پردگی کے ساتھ جمع ہونا۔ گھر کے اندر عورتوں کے درمیان دولھا کو بلانا اور عورتوں کا بے پردہ ان کے سامنے آنا۔ اور سالیوں وغیرہ کا ہنسی مذاق کرنا۔ دولھا کے جوتوں کو چرا لینا پھر زبردستی دولھا سے انعام وصول کرنا وغیرہ وغیرہ لیکن شریعت نے جن رسموں کو جائز بتایا۔ یا وہ رسمیں جن کے بارے میں شریعت خاموش ہے ان کو ہرگز ہرگز ناجائز اور حرام نہیں کہا جاسکتا۔ خلاصہ یہ ہے کہ جب تک کسی رسم کی ممانعت شریعت سے نہ ثابت ہو۔ اس وقت تک اسے حرام و ناجائز نہیں کہہ سکتے۔ خواہ مخواہ مسلمانوں کی تمام رسموں کو کھینچ تان کر ممنوع اور حرام قرار دینا، اور بلاوجہ مسلمانوں کو بدعتی اور حرام کا مرتکب کہنا یہ بہت بڑی زیادتی اور دین میں حد سے بڑھ جانا ہے ۔ کیونکہ ہر شخص یہ جانتا ہے کہ مسلمانوں کی رسموں اور رواجوں کی بنیاد عرف پر ہے۔ یہ کوئی مسلمان بھی نہیں سمجھتا کہ یہ سب رسمیں شرعاََ واجب یا سنت یا مستحب ہیں۔ بعض مولویوں کا یہ کہنا کہ چونکہ فلاں رسم کو لوگ فرض سمجھنے لگے ہیں اور اس کو کبھی ترک نہیں کرتے ہیں اس لئے لوگوں کو ہم اس رسم سے روکتے ہیں کہ لوگ ایک غیر فرض کو فرض سمجھنے لگے ہیں ۔ مسلمانو! خوب سمجھ لو کہ یہ ایک بہت بڑا دھوکہ ہے۔ اور درحقیقت یہ لوگ خود بھی دھوکے میں ہیں۔ اور دوسروں کو بھی دھوکہ دے رہے ہیں۔ یاد رکھو کہ کسی چیز کو ہمیشہ کرتے رہنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اسکا کرنے والااس کو فرض سمجھتا ہے کسی چیز کو ہمیشہ کرتے رہنا یہ اور بات ہے۔ اور اسکو فرض سمجھ لینا اور بات ہے۔ دیکھو وضو کرنے والا ہمیشہ وضو میں کانوں اور گردن کا مسح ضرور کرتا ہے کبھی بھی گردن اور کانوں کے مسح کو نہیں چھوڑتا۔ تو کیا کوئی بھی اس پر یہ الزام لگا سکتا ہے؟ کہ وہ سر کے مسح کی طرح گردن اور کانوں کے مسح کو بھی فرض سمجھتا ہے۔ حالانکہ کانوں اور گردن کا مسح سنت و مستحب ہے اور کیا کوئی بھی اسکی
"جرات کر سکتا ہے کہ لوگوں کو کانوں اور گردن کے مسح سے منع کر دے کہ لوگ ایک غیر فرض کو فرض سمجھنے لگے ہیں۔
بس اسی طرح سمجھ لو کہ لوگ ہمیشہ عید کے دن سویاں اور شب برات کو حلوا پکاتے ہیں اور میلاد شریف میں ہمیشہ شیرینی بانٹتے ہیں اور کبھی بھی اس کو ترک نہیں کرتے مگر اسکو ہمیشہ کرنے سے یہ الزام نہیں آتا کہ لوگ ان کاموں کو فرض سمجھنے لگے ہیں۔ جس طرح گردن اور کانوں پر ہمیشہ مسح کرنے والا ہمیشہ کرنے کے باوجود یہی عقیدہ رکھتا ہے کہ کانوں اور گردن کا مسح فرض نہیں ہے بلکہ سنت و مستحب ہے۔ اسی طرح ہمیشہ عید کو سویاں اور شب برات کو حلوا پکانے والا یہی عقیدہ رکھتا ہے کہ یہ فرض نہیں ہیں بلکہ جائز و مباح ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ کسی چیز کو فرض سمجھنا یا فرض نہ سمجھنا اس کا تعلق عقیدہ سے ہے نہ کہ عمل سے۔ کہاں عمل؟ اور کہاں عقیدہ؟ عمل اور چیز ہے اور عقیدہ اور چیز۔ دونوں میں بڑافرق ہے!
بہر حال خلاصہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں رواج پا جانے والی تمام رسومات حرام و ناجائز نہیں۔ بلکہ کچھ رسمیں جائز اور کچھ ناجائز ہیں۔ اور جائز رسموں کو کرنے میں کوئی حرج نہیں ہاں یہ ضرور ہے کہ جائز رسموں کی پابندی اسی حد تک کر سکتا ہے کہ کسی فعل حرام میں مبتلا نہ ہو۔
چند بری رسمیں:۔اکثر جاہلوں میں رواج ہے کہ بچوں کی پیدائش یا عقیقہ یا ختنہ یا شادی بیاہ کے موقعوں پر محّلہ یا رشتہ کی عورتیں جمع ہوتی ہیں اور گاتی بجاتی ہیں۔ یہ ناجائز و حرام ہے کہ اولاََ ڈھول بجانا ہی حرام۔ پھر عورتوں کا گانا اور زیادہ برا۔ عورت کی آواز نامحرموں کو پہنچنا اور وہ بھی گانے کی۔ اور وہ بھی عشق اور ہجر و وصال کے اشعار اور گیت ظاہر ہے کہ یہ کتنے فتنوں کا سر چشمہ ہے۔ اسی طرح عورتوں کا رتجگا بھی ہے کہ رات بھر عورتیں"
"گاتی بجاتی رہتی ہیں اور گلگلے پکتے رہتے ہیں پھر صبح کو گاتی بجاتی ہوئی مسجد میں طاق بھرنے کے لئے جاتی ہیں۔ اس میں بہت سی خرافات پائی جاتی ہیں۔ نیاز گھر میں بھی ہو سکتی ہے اور اگر مسجد ہی میں ہوتو مرد لے جاسکتے ہیں۔ عورتوں کو جانے کی کیا ضرورت ہے؟ ان عورتوں کے ہاتھ میں ایک آٹے کا بنا ہوا چار بتیوں والا چراغ بھی ہوتا ہے جو گھی سے جلایا جاتا ہے غور کیجئے کہ جب صبح ہو گئی تو چراغ کی کیا ضرورت؟ اور اگر چراغ کی حاجت ہے تو مٹی کا چراغ کافی ہے۔ آٹے کا چراغ بنانااور تیل کی جگہ گھی جلانا بالکل ہی اسراف اور فضول خرچی اور مال کو برباد کرنا ہے جو شرعاََ حرام ہے۔ دولہا دلہن کو ابٹن ملوانا۔ مائیوں بٹھانا جائز ہے لیکن دولھا کے ہاتھ پاؤں میں زینت کے لئے مہندی لگانا جائز نہیں ہے۔ یوں ہی دولھا کو ریشمی پوشاک یا زیورات پہننا پہنانا حرام ہے۔ خالص پھولوں کا سہرا جائز ہے۔ بلاوجہ اس کو ممنوع نہیں کہا جا سکتا۔ ہاں سونے چاندی کے تاروں' گوٹوں' لچھوں اور کَلابَتُّو وغیرہ کا بنا ہوا ہار یا سہرادولہا کے لئے حرام اور دلہن کے لئے جائز ہے۔ ناچ باجا' آتش بازی حرام ہیں۔
شادیوں میں دو قسم کے ناچ کرائے جاتے ہیں۔ ایک رنڈیوں کا ناچ جو مردوں کی محفل میں ہوتا ہے۔ دوسرا وہ ناچ جو خاص عورتوں کی محفل میں ہوتا ہے کہ کوئی ڈومنی یا مراثن ناچتی ہے اور کمر کولہے مٹکا مٹکا کر اور ہاتھوں سے چمکا چمکا کر تماشا کرتی ہے۔ یہ دونوں قسم کے ناچ ناجائز و حرام ہیں۔ رنڈی کے ناچ میں جو گناہ اور خرابیاں ہیں ان کو سب جانتے ہیں۔ کہ ایک نامحرم عورت کو سب مرد بے پردہ دیکھتے ہیں۔ یہ آنکھوں کا زنا ہے۔ اس کی شہوت انگیز آواز کو سنتے ہیں۔ یہ کانوں کا زنا ہے۔ اس سے باتیں کرتے ہیں۔ یہ زبان کا زنا ہے۔ بعض اس کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہیں یہ ہاتھوں کا زنا ہے۔ بعض اس کی"
"طرف چل کر داد دیتے ہیں اور انعام کا روپیہ دیتے ہیں۔ یہ پاؤں کا زنا ہے۔ بعض بدکاری بھی کرلیتے ہیں۔ یہ اصل زناہے۔
آتش بازی خواہ شب برات میں ہو یا شادی بیاہ میں ہر جگہ ہر حال میں حرام ہے۔ اور اس میں کئی گناہ ہیں۔ یہ اپنے مال کو فضول برباد کرنا ہے قرآن مجید میں فضول مال خرچ کرنے والے کو شیطان کا بھائی فرمایا گیا ہے اور ان لوگوں سے اﷲعزوجل و رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم بیزار ہیں۔ پھر اس میں ہاتھ پاؤں کے جلنے کا اندیشہ یا مکان میں آگ لگ جانے کا خوف ہے اور بلاوجہ جان یا مال کو ہلاکت اور خطرے میں ڈالنا شریعت میں حرام ہے۔
اسی طرح شادی بیاہ میں دولھا کو مکان کے اندر بلانا اور عورتوں کا سامنے آکر یا تاک جھانک کر اس کو دیکھنا، اس سے مذاق کرنا، اس کے ساتھ چوتھی کھیلنا یہ سب رسمیں حرام و ناجائز ہیں شادی یا دوسرے موقعوں پر خاصدان، عطردار، سرمہ دانی سلائی وغیرہ چاندی سونے کا استعمال کرنا، بہت باریک کپڑے پہننا یا بجتے ہوئے زیور پہننا یہ سب رسمیں ناجائز ہیں۔
عقیقہ بس اسی قدر سنت ہے کہ لڑکے کے عقیقہ میں دو بکرے اور لڑکی کے عقیقہ میں ایک بکرا ذبح کرنا اور اس کا گوشت کچا یا پکا کر تقسیم کردینا اور بچے کے بالوں کے وزن کے برابر چاندی خیرات کر دینا اور بچے کے سر میں زعفران لگا دینا۔ یہ سب کام تو ثواب کے ہیں باقی اس کے علاوہ جو رسمیں ہوتی ہیں کہ نائی سر مونڈنے کے بعد سب کنبہ و برادری کے سامنے کٹوری ہاتھ میں لے کر اپنا حق مانگتا ہے اور لوگ اس کٹوری میں پیسے ڈالتے ہیں۔ اور برادری کے لوگ جو کچھ نائی کی کٹوری میں ڈالتے ہیں وہ گھر والے کے ذمہ ایک"
"قرض ہوتا ہے کہ جب ان دینے والوں کے یہاں عقیقہ ہو گا تو یہ لوگ اتنی ہی رقم ان کے نائی کی کٹوری میں ڈالیں گے۔ اسی طرح سوپ میں کچا اناج رکھ کر نائی کے سامنے رکھا جاتا ہے۔ اسی طرح عقیقہ میں لوگوں نے یہ رسم مقرر کر لی ہے کہ جس وقت بچے کے سر پر استرا رکھا جائے فوراََ اسی وقت بکرا بھی ذبح کیا جائے۔ یہ سب رسمیں بالکل ہی لغو ہیں۔ شریعت میں فقط اتنی بات ہے کہ نائی کو سر مونڈنے کی اجرت دے دی جائے اور بکرا خواہ سر منڈنے سے پہلے ذبح کریں خواہ بعد میں سب جائز و درست ہے۔ اسی طرح ختنہ میں بعض جگہ اس رسم کی بے حد پابندی کی جاتی ہے بچے کا لباس' بستر' چادر سب کچھ سرخ رنگ کا تیار کیا جاتا ہے اور چوبیس گھنٹے بچہ کے ہاتھ میں چاقو یا چھری کارکھنا لازم سمجھا جاتا ہے۔ یہ سب رسمیں من گھڑت خرافات ہیں شریعت سے ان باتوں کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
جہیز:۔ماں باپ کچھ کپڑے' کچھ زیورات' کچھ سامان' برتن' پلنگ' بستر' میز کرسی' تخت' جائے نماز قرآن مجید' دینی کتابیں وغیرہ لڑکی کو دے کر اس کو سسرال بھیجتے ہیں یہ لڑکی کا جہیز کہلاتا ہے۔ بلا شبہ یہ جائز بلکہ سنت ہے کیونکہ ہمارے حضور رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے بھی اپنی پیاری بیٹی حضرت بی بی فاطمہ رضی اﷲ تعالی عنہا کو جہیز میں کچھ سامان دے کر رخصت فرمایا تھا لیکن یاد رکھو کہ جہیز میں سامان کا دینا یہ ماں باپ کی محبت وشفقت کی نشانی ہے اور ان کی خوشی کی بات ہے۔ ماں باپ پر لڑکی کو جہیز دینا یہ فرض و واجب نہیں ہے۔ لڑکی اور داماد کے لئے ہرگز ہرگز یہ جائز نہیں ہے کہ وہ زبردستی ماں باپ کو مجبور کرکے اپنی پسند کا سامان جہیز میں وصول کریں ماں باپ کی حیثیت اس قابل ہو یا نہ ہو مگر جہیز میں اپنی پسند کی چیزوں کا تقاضا کرنا اور ان کو مجبور کرنا کہ وہ قرض لے کربیٹی دامادکی خواہش پوری کریں۔ یہ خلاف شریعت بات ہے بلکہ آج کل ہندوؤں کے تلک جیسی رسم مسلمانوں میں بھی چل"
"پڑی ہے کہ شادی طے کرتے وقت ہی یہ شرط لگادیتے ہیں کہ جہیز میں فلاں فلاں سامان' اور اتنی اتنی رقم دینی پڑے گی چنانچہ بہت سے غریبوں کی لڑکیاں اسی لئے بیاہی نہیں جارہی ہیں کہ ان کے ماں باپ لڑکی کے جہیز کی مانگ پوری کرنے کی طاقت نہیں رکھتے یہ رسم یقیناً خلاف شریعت ہے اور جبراً قہراً ماں باپ کو مجبور کرکے زبردستی جہیز لینا یہ ناجائز ہے۔ لہٰذا مسلمانوں پر لازم ہے کہ اس بری رسم کو ختم کردیں۔
تہواروں کی رسمیں:۔مسلمانوں میں یہ رواج ہے کہ عید کے دن سویاں پکاتے ہیں بقر عید کے دن گوشت بھری پوریاں قسم قسم کے کباب تیار کرتے ہیں۔ شب برات میں حلوا پکاتے ہیں۔ محرم میں کھچڑا پکاتے ہیں۔ شربت بناتے ہیں رجب کے مہینے میں تبارک کی روٹیاں پکاتے ہیں۔ اور بزرگوں کی فاتحہ دلاتے ہیں۔ آپس میں مل جل کر کھاتے کھلاتے ہیں۔ عزیزوں اور رشتہ داروں کے یہاں تحفہ بھیجتے ہیں۔ ایک دوسرے کے بچوں کو تہواریاں دیتے ہیں ان سب رسموں میں چونکہ شریعت کے خلاف کوئی بات نہیں ہے اس لئے یہ سب رسمیں جائز ہیں بعض فرقوں والے ان چیزوں کو ناجائز بتاتے ہیں۔ اور نیاز وفاتحہ کے کھانوں کو حرام ٹھہراتے ہیں اور خواہ مخواہ مسلمانوں کے سر پر یہ الزام تھوپتے ہیں کہ مسلمان ان رسموں کو فرض و واجب سمجھتے ہیں اور طرح طرح سے کھینچ تان کر ان جائز رسموں کو ممنوع و حرام بتاتے ہیں۔ یہ ان لوگوں کا ظلم اور زیادتی ہے کہ خدا کی حلال کی ہوئی چیزوں کو بلا کسی شرعی دلیل کے حرام ٹھہراتے ہیں۔ ان رسموں کو ہرگز ہرگز کوئی مسلمان فرض و واجب نہیں سمجھتا بلکہ ہر مسلمان ان باتوں کو ایک جائز رسم و رواج ہی سمجھ کر کیا کرتا ہے اور یقیناََیہ سب باتیں جائز ہیں بلکہ اگر اچھی نیت سے ہوں تو مستحب اور کارثواب بھی ہیں۔ (واﷲتعالیٰ اعلم)"
"مہینوں اور دنوں کی نحوست:۔جاہل عورتوں میں یہ رسم و رواج ہے کہ وہ ذوالقعدہ کے مہینہ کو ''خالی کا چاند'' اور صفر کے مہینہ کو ''تیرہ تیزی'' کہتے ہیں اور ان دونوں مہینوں کو منحوس سمجھتی ہیں اور ان دونوں مہینوں میں شادی بیاہ اور ختنہ وغیرہ کو نا مبارک جانتی ہیں۔ اسی طرح ہر مہینے کی ۳۔ ۱۳۔ ۲۳۔ تاریخوں اور ۸۔ ۱۸۔ ۲۸۔تاریخوں کو منحوس سمجھ کر ان تاریخوں میں شادی بیاہ اور دوسری تمام تقریبات کرنے کو بہت ہی برا اور نحوست والا کام سمجھتی ہیں کچھ جاہل مرد اور عورتیں قمر و عقرب میں شادی بیاہ کرنے کو منحوس اور نامبارک مانتے ہیں۔ اسی طرح بدھ کے دن کو منحوس سمجھ کر کچھ لوگ اس دن سفر نہیں کرتے۔ کچھ عورتیں ان مہینوں اور تاریخوں کی نحوست سے بچنے کے لئے طرح طرح کے ٹوٹکے کرتی کراتی ہیں۔ کہیں کہیں رواج ہے کہ ہر تیرہویں کو کچھ گھونگنیاں پکا کر تقسیم کرتے ہیں تاکہ اس تاریخ کی منحوسیت سے حفاظت رہے۔ کان کھول کر سن لو۔ اور یاد رکھو کہ اس قسم کے اعتقادات سراسر شریعت کے خلاف ہیں۔ اور گناہ کی باتیں ہیں اس لئے ان اعتقادوں سے توبہ کرنا چاہے اسلام میں ہرگز ہرگز نہ کوئی مہینہ منحوس ہے نہ کوئی تاریخ نہ کوئی دن ۔ہر مہینہ ہر تاریخ ہر دن اﷲتعالیٰ کا پیدا کیا ہوا ہے اور اﷲتعالیٰ نے ان میں سے کسی کو نہ منحوس بنایا ہے نہ نامبارک ۔ یہ سب اعتقاد مشرکوں' نجومیوں اور رافضیوں کے من گھڑت عقیدوں کی پیداوار ہیں جو جاہل عورتوں میں چل پڑے ہیں۔ ان رسموں کو مٹانا بہت ضروری ہے اس لئے عزیز بہنو! تم خود بھی ان اعتقادوں سے بچو اور دوسروں کو بھی بچاؤ۔ اﷲتعالیٰ اس جہاد کا تم کو بہت بڑا ثواب دے گا۔
محرم کی رسمیں:۔محرم کے مہینے میں صرف اتنی بات ہے کہ حضرت امام حسین رضی اﷲتعالی عنہ اور شہدائے کربلا رضی اﷲتعالی عنہم کے مقدس روضوں کی تصویر نقشہ بناکر رکھنا اور"
ان کو دیکھنا یہ تو جائز ہے۔ کیونکہ یہ ایک غیر جاندار چیز کی تصویر یا نقشہ ہے لہٰذا جس طرح کعبہ، بیت المقدس، نعلین شریفین وغیرہ کی تصویریں اور ان کے نقشے بنا کر رکھنے کو شریعت نے جائز ٹھہرایا ہے۔ اسی طرح شہدائے کربلا کے روضوں کی تصویریں اور نقشے بھی یقیناً جائز ہی رہیں گے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ محرم کے مہینے میں جو بہت سی بدعتیں اور خرافاتی رسمیں چل پڑی ہیں۔ وہ یقیناً ناجائز اور گناہ کے کام ہیں۔ مثلاً ہر سال سینکڑوں ہزاروں روپے کے خرچ سے روضہ کربلا کا نقشہ بنا کر اس کو پانی میں ڈبو دینا یا زمین میں دفن کردینا۔ یا جنگلوں میں پھینک دینا یہ یقیناً حرام و ناجائز ہے۔ کیونکہ یہ اپنے مال کو برباد کرنا ہے اور ہر مسلمان جانتا ہے کہ مال کو ضائع اور برباد کرنا حرام و ناجائز ہے۔ اسی طرح کی دوسری بہت سی خرافات و لغویات مثلاً ڈھول تاشہ بجانا، تعزیوں کو ماتم کرتے ہوئے گلی گلی پھراناسینے کو ہاتھوں یا زنجیروں یا چھریوں سے پیٹ پیٹ کر اور مار مار کر اچھلتے کودتے ہوئے ماتم کرنا۔ تعزیوں کے نیچے اپنے بچوں کو لٹاناتعزیوں کی تعظیم کے لیے تعزیوں کے سامنے سجدہ کرنا، تعزیوں کے نیچے کی دھول اٹھااٹھا کر بطور تبرک چہروں، سروں اور سینوں پر ملنا۔ اپنے بچوں کو محرم کا فقیر بنا کر محرم کی نیاز کے لئے بھیک منگوانا۔ بچوں کو کربلا کا پیک اور قاصد بنا کر اور ایک خاص قسم کا لباس پہنا کر ادھر ادھر دوڑاتے رہنا، سوگ منانے کے لئے خاص قسم کے کالے کپڑے پہن کر ننگے سر ننگے پاؤں گریبان کھولے ہوئے یا گریبان پھاڑ کر گلی گلی بھاگے بھاگے پھرنا وغیرہ وغیرہ قسم کی لغویات و خرافات کی رسمیں جو مسلمانوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ سب ممنوع و ناجائز ہیں اور یہ سب زمانہ جاہلیت اور رافضیوں کی نکالی ہوئی رسمیں ہیں جن سے توبہ کر کے خود بھی ان حرام رسموں سے بچنا اور دوسروں کو بچانا ہر مسلمان پر لازم ہے اسی طرح تعزیوں کا جلوس دیکھنے کے لیے عورتوں کا بے پردہ گھروں سے نکلنا
اور مردوں کے مجمعوں میں جانا اور تعزیوں کو جھک جھک کر سلام کرنا۔ یہ سب کام بھی شریعت میں منع اور گناہ ہیں۔
محرم کی دسویں تاریخ جس کا نام ''روزعاشوراء'' ہے۔ دنیا میں یہ بڑا ہی عظمت وفضیلت والا دن ہے۔ یہی وہ دن ہے کہ اس میں حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی۔ اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی طوفان میں سلامتی کے ساتھ ''جودی پہاڑ'' پر پہنچی۔ اسی دن حضرت ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے اور اسی دن آپ کو ''خلیل اﷲ' ' کا لقب ملا۔ اور اسی دن آپ نے نمرود کی آگ سے نجات پائی یہی وہ دن ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام کی بلائیں ختم ہوئیں۔ یہی وہ دن ہے کہ حضرت ادریس وحضرت عیسیٰ علیہما السلام آسمانوں پر اٹھائے گئے۔ یہی وہ دن ہے کہ بنی اسرائیل کے لئے دریا پھٹ گیا۔ اور فرعون لشکر سمیت دریا میں غرق ہوگیا۔ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون سے نجات ملی۔ اسی دن حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ سے زندہ وسلامت باہر تشریف لائے۔ اسی دن حضرت امام حسین اور ان کے رفقاء نے میدان کربلا میں جام شہادت نوش فرما کر حق کے پرچم کو سر بلند فرمایا۔ محرم کی دسویں تاریخ جس کا نام ''روزعاشوراء'' ہے۔ دنیا میں یہ بڑا ہی عظمت وفضیلت والا دن ہے۔ یہی وہ دن ہے کہ اس میں حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی۔ اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی طوفان میں سلامتی کے ساتھ ''جودی پہاڑ'' پر پہنچی۔ اسی دن حضرت ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے اور اسی دن آپ کو ''خلیل اﷲ' ' کا لقب ملا۔ اور اسی دن آپ نے نمرود کی آگ سے نجات پائی یہی وہ دن ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام کی بلائیں ختم ہوئیں۔ یہی وہ دن ہے کہ حضرت ادریس وحضرت عیسیٰ علیہما السلام آسمانوں پر اٹھائے گئے۔ یہی وہ دن ہے کہ بنی اسرائیل کے لئے دریا پھٹ گیا۔ اور فرعون لشکر سمیت دریا میں غرق ہوگیا۔ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون سے نجات ملی۔ اسی دن حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ سے زندہ وسلامت باہر تشریف لائے۔ اسی دن حضرت امام حسین اور ان کے رفقاء نے میدان کربلا میں جام شہادت نوش فرما کر حق کے پرچم کو سر بلند فرمایا۔
(ماثبت من السنۃ (مترجم)ص۱۷،غنیۃ الطالبین،ص۸۷)
شب عاشوراء کی نفل نماز:۔عاشوراء کی رات میں چار رکعت نماز نفل اس ترکیب سے پڑھے کہ ہر رکعت میں الحمد کے بعد آیۃ الکرسی ایک بار اور سورۂ اخلاص (قل ھو اﷲ) تین تین بار پڑھے اور نماز سے فارغ ہو کر ایک سو مرتبہ قل ھواﷲ کی سورہ پڑھے۔ گناہوں سے پاک ہوگا اور بہشت میں بے انتہا نعمتیں ملیں گی۔
"عاشوراء کا روزہ:۔نویں اور دسویں محرم دونوں کا روزہ رکھنا چاہے اور اگر نہ ہوسکے تو عاشورا ہی کے دن روزہ رکھے۔ اس روزہ کا ثواب بہت بڑا ہے۔
عاشورا کے دن دس چیزوں کو علماء نے مستحب لکھا ہے بعض عالموں نے ان کو ارشاد نبوی کہا ہے اور بعض نے حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا قول بتایا ہے۔ بہر حال یہ سب اچھے اعمال ہیں لہٰذا ان کو کرنا چاہے۔
(۱)روزہ رکھنا۔ (۲)صدقہ کرنا۔(۳)نماز نفل پڑھنا۔(۴) ایک ہزار مرتبہ قل ھواﷲ پڑھنا۔(۵)علماء کی زیارت۔(۶)یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرنا۔(۷)اپنے اہل و عیال کے رزق میں وسعت کرنا۔ (۸)غسل کرنا۔(۹)سرمہ لگانا۔ (۱۰)ناخن تراشنا ۔
اور بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ ان دس چیزوں کے علاوہ تین چیزیں اور بھی مستحب ہیں۔ (۱)مریضوں کی بیمار پرسی کرنا۔(۲)دشمنوں سے ملاپ کرنا۔(۳)دعائے عاشوراء پڑھنا۔
حضرت عبداﷲبن مسعود صحابی رضی اﷲ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا ہے کہ جو شخص عاشوراء کے دن اپنے بال بچوں کے کھانے پینے میں خوب زیادہ فراخی اور کشادگی کریگا یعنی زیادہ کھانا تیار کرا کر خوب پیٹ بھر کے کھلائے گااﷲتعالیٰ سال بھر تک اس کے رزق میں وسعت اور خیر و برکت عطا فرمائے گا۔"
(ماثبت من السنۃ(مترجم)ص۱۷)
مجالس محرم:۔عشرۂ محرم بالخصوص دسویں محرم عاشوراء کے دن مجلس منعقد کرنا اور صحیح روایتوں کے ساتھ شہداء کربلا رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کے فضائل و واقعات کربلا کو بیان کرنا جائز اور باعث ثواب ہے اور حدیث شریف میں ہے کہ جن مجالس میں صالحین کا ذکر ہو، وہاں رحمت نازل ہوتی ہے۔ پھر چونکہ ان واقعات میں صبرو تحمل اور تسلیم و رضاا ور پابندی شریعت کا بے مثال عملی نمونہ بھی ہے۔ اس لئے کربلا کے واقعات کو بار بار بیان کرنے سے
"مسلمانوں کو دین پر استقامت حاصل ہوگی جو اسلام کا عطر اور ایمان کی روح ہے مگر ہاں اس کا خیال رہے کہ ان مجلسوں میں صحابہ کرام رضی اﷲتعالی عنہم کا بھی ذکر خیر ہو جانا چاہے۔ تاکہ اہلسنّت اور شیعوں کی مجلسوں میں فرق و امتیاز رہے۔ میلاد شریف اور گیارہویں شریف کی محفلوں کا بھی یہی مسئلہ ہے کہ یہ سب جائز و درست اور بہت ہی بابرکت محفلیں ہیں اور یقیناََ باعث ثواب اور مستحب ہیں۔ اس لئے ان کو نہایت اخلاص و محبت سے کرنا چاہے اور ان محفلوں اور مجلسوں میں نہایت ہی محبت و عقیدت کے ساتھ حاضری دینا چاہے ان محفلوں سے لوگوں کو روکنا یہ وہابیوں کا طریقہ ہے۔ ہر گز ان لوگوں کی بات نہیں ماننی چاہے۔ کیونکہ یہ لوگ گمراہ ہیں۔
فاتحہ:۔محرم کے دس دنوں تک خصوصاََ عاشوراء کے دن شربت پلا کر' کھانا کھلا کر' شیرینی پر یا کھچڑا پکا کر شہدائے کر بلا کی فاتحہ دلانا اور ان کی روحوں کو ثواب پہنچانا یہ سب جائز اور ثواب کے کام ہیں۔ اور ان سب چیزوں کا ثواب یقیناََ شہدائے کربلاکی روحوں کو پہنچتا ہے اور اس فاتحہ و ایصال ثواب کے مسئلہ میں حنفی' شافعی' مالکی' حنبلی اہلسنّت کے چاروں اماموں کا اتفاق ہے ۔"
(شرح العقائد النسفیۃ، مبحث دعاء الاحیاء للاموات،ص۱۷۲)
" پہلے زمانوں میں فرقہ معتزلہ اور اس زمانے میں فرقہ وہابیہ اس مسئلہ میں اہلسنّت کے خلاف ہیں اور فاتحہ و ایصال ثواب سے منع کرتے رہتے ہیں۔ تم مسلمانان اہلسنّت کو لازم ہے کہ ہرگز ہرگز نہ ان کی باتیں سنو،نہ ان لوگوں سے میل جول رکھو ورنہ تم خود بھی گمراہ ہوجاؤ گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرو گے۔
دسویں محرم کو دعائے عاشوراء پڑھنے سے عمر میں خیروبرکت اور زندگی میں فلاح و نعمت حاصل ہوتی ہے۔ ہماری کتاب ''موسم رحمت'' میں پوری اور مکمل دعائے عاشوراء لکھی ہوئی ہے اس کتاب کو ضرور پڑھو۔"
محرم کا کھچڑا:۔عاشوراء کے دن کھچڑا پکانا فرض یا واجب نہیں ہے لیکن اس کے حرام و ناجائز ہونے کی بھی کوئی دلیل شرعی نہیں ہے بلکہ ایک روایت ہے کہ خاص عاشوراء کے دن کھچڑا پکانا حضرت نوح علیہ السلام کی سنت ہے۔ چنانچہ منقول ہے کہ جب طوفان سے نجات پاکر حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑ پر ٹھہری تو عاشورا کا دن تھا۔ آپ نے کشتی میں سے تمام اناجوں کو باہر نکالا تو فول (بڑی مٹر) گیہوں' جو' مسور' چنا' چاول' پیاز' سات قسم کے غلے موجود تھے آپ نے ان ساتوں اناجوں کو ایک ہی ہانڈی میں ملا کر پکایا۔ چنانچہ علامہ شہاب الدین قلیوبی نے فرمایا کہ مصر میں جو کھانا عاشوراء کے دن ''طبیخ الحبوب'' (کھچڑا) کے نام سے پکایا جاتا ہے۔ اس کی اصل دلیل یہی حضرت نوح علیہ السلام کا عمل ہے۔
(کتاب القلیوبی، فائدۃ فی یوم عاشوراء ،ص۱۳۶)
"شب برات کا حلوا:۔شب برات کا حلوا پکانا نہ تو فرض و سنت ہے نہ حرام و ناجائز بلکہ حق بات یہ ہے کہ شب برات میں دوسرے تمام کھانوں کی طرح حلوا پکانا بھی ایک مباح اور جائز کام ہے اور اگر اس نیک نیتی کے ساتھ ہو کہ ایک عمدہ اور لذیذ کھانا فقراء ومساکین اور اپنے اہل و عیال کو کھلا کر ثواب حاصل کرے تو یہ ثواب کا کام بھی ہے۔
درحقیقت اس رات میں حلوے کا دستوریوں نکل پڑا کہ یہ مبارک رات صدقہ وخیرات اور ایصال ثواب و صلہ رحمی کی خاص رات ہے۔ لہٰذا انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ اس رات میں کوئی مرغوب اور لذیذ کھانا پکایا جائے۔ بعض عالموں کی نظر بخاری شریف کی اس حدیث پر پڑی کہ۔"
کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یحب الحلواء والعسل۔
(صحیح البخاری، کتاب الاطعمۃ، باب الحلواء والعسل، رقم ۵۴۳۱،ج۳،ص۵۳۶)
یعنی'' رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم حلوا (شیرینی) اور شہد کو پسند فرماتے تھے۔''
" لہٰذا ان علمائے کرام نے اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے اس رات میں حلوا پکایا۔ پھر رفتہ رفتہ عوام میں بھی اس کا چرچا اور رواج ہوگیا۔ چنانچہ حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب قبلہ محدث دہلوی علیہ الرحمۃ کے ملفوظات میں ہے کہ ہندوستان میں شب برات کو روٹی اور حلوا پر فاتحہ دلانے کا دستور ہے۔ اور سمر قند و بخارا میں ''قتلما'' پر جو ایک میٹھا کھانا ہے۔
الغرض شب برات کا حلوا ہو یا عید کی سویاں' محرم کا کھچڑا ہو یا ملیدہ' محض ایک رسم و رواج کے طریقہ پر لوگ پکاتے کھاتے اورکھلاتے ہیں۔ کوئی بھی یہ عقیدہ نہیں رکھتا کہ یہ فرض یا سنت ہیں۔ اس لئے اس کو ناجائز کہنا درست نہیں۔ یاد رکھو کسی حلال کو حرام ٹھہرانااﷲ پر جھوٹی تہمت لگانا ہے جو ایک بدترین گناہ ہے۔ قرآن مجید میں ہے۔"
قُلْ اَرَءَیۡتُمۡ مَّاۤ اَنۡزَلَ اللہُ لَكُمۡ مِّنۡ رِّزْقٍ فَجَعَلْتُمۡ مِّنْہُ حَرَامًا وَّحَلٰلًا ؕ قُلْ آٰللہُ اَذِنَ لَكُمْ اَمْ عَلَی اللہِ تَفْتَرُوۡنَ ﴿59﴾
یعنی کہہ دو بھلا بتاؤ تو وہ جو اﷲ نے تمہارے لئے رزق اتارا۔ اس میں تم نے اپنی طرف سے کچھ حرام کچھ حلال ٹھہرالیا۔ (اے پیغمبر) فرمادو کیا اﷲ نے اس کا تمہیں حکم دیا ہے' یا اﷲ پر تم لوگ تہمت لگاتے ہو؟(پ 11 ،یونس:59)
"غلامی میں نہ کام آتی ہیں تدبیریں نہ شمشیریں
جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں"
" جاننا چاہے کہ مسائل شریعت چار قسم کے ہیں پہلی قسم وہ مسائل ہیں جن کا تعلق ایمان و عقیدہ سے ہے جیسے توحید' رسالت' قیامت وغیرہ کا بیان۔ دوسری قسم وہ چیزیں ہیں جو بدنی و مالی عبادتوں سے تعلق رکھتی ہیں جیسے نماز روزہ اور حج وزکوٰۃ وغیرہ۔ تیسری قسم وہ باتیں ہیں جن کا تعلق ایک دوسرے کے ساتھ لین دین اور معاملات سے ہے۔ جیسے خریدوفروخت' نکاح و طلاق' حکومت و سیاست وغیرہ چوتھی قسم ان اوصاف کا بیان جو انسان کے اخلاق و عادات اور نفسانی جذبات سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ جیسے شجاعت' سخاوت' صبر و شکر وغیرہ۔
مسائل شریعت کی یہ چاروں قسمیں انسان کی صلاح و فلاح دارین کے لئے انتہائی ضروری ہیں لیکن واضح رہے کہ جب تک عقیدے صحیح اور درست نہیں ہوں گے اس وقت تک کوئی عمل مقبول نہیں ہو سکتا۔ اس لئے ضروری ہے کہ پہلے اسلام کے عقیدوں کو اچھی طرح جان کر اس پر ایمان لائیں اور سچے دل سے ان کو مان کر زبان سے اقرار بھی کریں۔یوں سمجھو کہ عقائد جڑ ہیں اور اعمال شاخیں ہیں اگر درخت کی جڑ ہی کٹ جائے گی تو شاخیں کبھی ہری بھری نہیں رہ سکتیں۔ اس لئے پہلے ہم عقائدِ اسلام کو بیان کرتے ہیں۔ اس کے بعد ان شاء اﷲتعالیٰ نماز و روزہ اور زکوٰۃ وحج وغیرہ اعمال اسلام کا بیان بھی ہم"
لکھیں گے اور ان فرائض کے علاوہ دوسرے اسلامی مسائل کو بھی ہم بیان کریں گے۔ اﷲتعالیٰ ہر مسلمان کے عقیدوں کو درست فرمائے اور علم کی توفیق دے۔ (آمین)
لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ ( صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم)
اﷲ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ محمد( صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم)اﷲعزوجل کے برگزیدہ رسول ہیں۔
اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ
میں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ(عزوجل) کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد( صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم) اس کے خاص بندے اور رسول ہیں۔
" سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ وَاللہُ اَکْبَرُ ؕ وَلَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ
اِلاَّ بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ ؕ"
پاک ہے اﷲ (عزوجل) اور ساری خوبیاں اﷲ (عزوجل) ہی کے لئے ہیں۔ اﷲ (عزوجل) کے سوا کوئی معبود نہیں اور اﷲ (عزوجل) سب سے بڑا ہے اور گناہ سے باز رہنے اور نیکی کی قوت اﷲ (عزوجل) ہی سے ہے جو بلند مرتبہ والا عظمت والا ہے۔
لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْد ُؕ یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ وَھُوَ حَیٌّ لاَّ یَمُوْتُ اَبَدًا اَبَدًا ؕ ذُو الْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ بِیَدِہِ الْخَیْرُ وَھُوَعَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ؕ
اﷲ (عزوجل) کے سوا کوئی معبود نہیں وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کی بادشاہی ہے اور اسی کے لئے ساری خوبیاں، وہ زندہ کرتا اور موت دیتا ہے اور وہ زندہ ہے کبھی بھی نہیں مرے گا۔ وہ عظمت اور بزرگی والا ہے۔اسی کے ہاتھ میں خیر ہے۔ اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
اَسْتَغْفِرُ اللہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ اَذْنَبْتُہٗ عَمَدًا اَوْخَطَأً سِرًّا اَوْ عَلَانِیَۃً وَّاَتُوْبُ اِلَیْہِ مِنَ الذَّنْبِ الَّذِیْۤ اَعْلَمُ وَمِنَ الذَّنْبِ الَّذِیْ لَآ اَعْلَمُ اِنَّکَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ وَسَتَّارُ الْعُیُوْبِ وَغَفَّارُ الذُّنُوْبِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ ؕ
میں اﷲ(عزوجل) سے بخشش مانگتا ہوں جو میرا پروردگار ہے ہر گناہ سے جو میں نے کیا، خواہ جان کر یا بے جانے، چھپ کر، خواہ کھلم کھلا اور میں اس کی طرف توبہ کرتا ہوں اس گناہ سے جسے میں جانتا ہوں اور اس گناہ سے بھی جو میں نہیں جانتا، یقیناً تو ہی ہر غیب کو خوب جاننے والا ہے اور توہی عیبوں کو چھپانے والا اور گناہوں کو بخشنے والا ہے اور گناہ سے باز رہنے اور نیکی کی قوت اﷲ(عزوجل) ہی سے ہے جو بلند مرتبہ والا، عظمت والا ہے۔
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْۤ اَعُوْذُبِکَ مِنْ اَنْ اُشْرِکَ بِکَ شَیْأاً وَّاَنَا اَعْلَمُ بِہٖ وَاَسْتَغْفِرُکَ لِمَا لَا اَعْلَمُ بِہٖ تُبْتُ عَنْہُ وَتَبَرَّاْتُ مِنَ الْکُفْرِ وَالشِّرْکِ وَالْکِذْبِ وَالْغِیْبَۃِ وَالْبِدْعَۃِ، وَالنَّمِیْمَۃِ وَالْفَوَاحِشِ وَالْبُھْتَانِ وَالْمَعَاصِیْ کُلِّھَا وَ اَسْلَمْتُ وَاَقُوْلُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ ؕ
اے اﷲ(عزوجل )میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں تیرے ساتھ کسی کو شریک کروں اور وہ میرے علم میں ہو اور میں تجھ سے بخشش مانگتا ہوں اس گناہ سے جس
کا مجھے علم نہیں میں نے اس سے توبہ کی اور میں بیزار ہوا کفر سے اور شرک اور جھوٹ اور غیبت سے اور بری نو ایجادات سے اور چغلی سے اور بے حیائی کے کاموں سے اور کسی پر بہتان باندھنے سے اور ہر قسم کی نافرمانی سے اور میں اسلام لایا اور میں کہتا ہوں سوائے اﷲ(عزوجل) کے کوئی معبود نہیں محمد( صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم) اﷲ(عزوجل) کے برگزیدہ رسول ہیں۔
اٰمَنْتُ بِاللہِ کَمَا ھُوَ بِاَسْمَآئِہٖ وَصِفَاتِہٖ وَقَبِلْتُ جَمِیْعَ اَحْکَامِہٖ اِقْرَارٌم بِاللِّسَانِ وَتَصْدِیْقٌ بِالْقَلْبِ
میں ایمان لایا اﷲ(عزوجل )پر جیسا کہ وہ اپنے ناموں اور اپنی صفتوں کے ساتھ ہے اور میں نے قبول کئے اس کے تمام احکام مجھے اس کا زبان سے اقرار ہے اور دل سے یقین۔
" اٰمَنْتُ بِاللہِ وَمَلٰئِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْقَدْرِ خَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ
مِنَ اللہِ تَعَالٰی وَالْبَعْثِ بَعْدَالْمَوْتِ ؕ"
" میں ایمان لایا اﷲ(عزوجل) پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اور قیامت کے دن پر اور اس پر کہ ہر بھلائی اور برائی اﷲتعالیٰ نے مقدر فرما دی ہے اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا ہے۔
تنبیہ:۔ان چھ کلموں اور ایمان مجمل و ایمان مفصل کو زبانی یاد کر لو۔ اور معنوں کو خوب سمجھ کر سچے دل سے یقین کے ساتھ ان پر ایمان لاؤ۔ کیونکہ یہی وہ کلمے ہیں جن پر اسلام کی بنیاد ہے۔ جب تک ان کلموں پر ایمان نہ لائے کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا۔
یہ مسلمانوں کی بہت بڑی کم نصیبی ہے کہ ہزاروں لاکھوں مسلمان ان کلموں سے"
ناواقف یا غافل ہیں۔ حالانکہ ہر مسلمان ماں باپ پر لازم ہے کہ وہ اپنے بچوں اور بچیوں کو یہ اسلامی کلمے زبانی یاد کرادیں۔ اور ان کلموں کے معنی بچوں کو بتا کر ذہن نشین کرادیں۔ تاکہ یہ اسلامی عقیدے بچپن ہی سے دلوں میں جم جائیں اور زندگی کی آخری سانس تک ہر مسلمان مرد و عورت ان عقیدوں پر پہاڑ کی طرح مضبوطی کے ساتھ قائم رہے اور دنیا کی کوئی طاقت ان کو اسلام سے برگشتہ نہ کر سکے اور جن بالغ مردوں اور عورتوں کو یہ کلمے نہ یاد ہوں ان پر بھی لازم ہے کہ وہ جلد سے جلد ان کلموں کو یاد کرلیں اور ان کے معنوں کو سمجھ کر سچے دل سے ان کو جان پہچان کر اور مان کر ان پر ایمان رکھیں اور ہر وقت ان عقیدوں کا دھیان رکھیں۔ کیونکہ یہی عقیدے اسلام کی پوری عمارت کی بنیاد ہیں۔ جس طرح کسی عمارت کی بنیاد ہل جائے یا کمزور ہو جائے تو وہ عمارت قائم نہیں رہ سکتی۔ ٹھیک اسی طرح اگر اسلام کے ان عقیدوں میں کوئی شک و شبہ پیدا ہو جائے تو اسلام کی عمارت بالکل ہی تہس نہس اور برباد ہوجائے گی۔
عقیدہ :۱ تمام عالم زمین و آسمان وغیرہ سارا جہان پہلے بالکل ناپید تھا۔ کوئی چیز بھی نہیں تھی پھر اﷲتعالیٰ نے اپنی قدرت سے سب کو پیدا کیا تو یہ سب کچھ موجود ہوا۔
(شرح العقائد النسفیۃ ، مبحث العالم بجمیع اجزائہ محدث ، ص۲۴/ پ۷،الانعام:۱۰۱)
عقیدہ:۲جس نے تمام عالم اور دوسرے جہان کو پیدا کیا اسی پاک ذات کا نام اﷲعزوجل ہے۔
(پ۱،البقرۃ:۲۹/ پ۷،الانعام:۱/پ۲۴،المؤمنون:۶۲/ المسامرۃ بشرح المسایرۃ، الاصل العاشر العلم بانہ تعالیٰ واحدلاشریک لہ،ص۴۴)
عقیدہ:۳ اﷲتعالیٰ ایک ہے۔ کوئی اس کا شریک نہیں۔
(پ۲۶،محمد:۱۹/پ۱۵،الکھف:۲۶)
وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا ۔
(المسامرۃ بشرح المسایرۃ ، الاصل الثانی : اللہ قدیم ، ص۲۲۔۲۵)
وہ بے پروا ہے۔ کسی کا محتاج نہیں۔ سارا عالم اس کا محتاج ہے۔
(شرح الملا علی القاری علی الفقہ الاکبر ، لایثبہ اللہ شئی من خلقہ، ص۱۵/ پ۲۶، محمد:۳۸)
کوئی چیز اس کے مثل نہیں وہ سب سے یکتا اور نرالا ہے۔
(پ۲۵،الشورٰی :۱۱/پ۳۰،الاخلاص:۱۔۴)
اور وہی سب کا خالق و مالک ہے۔
(پ۷،المائدۃ:۱۲۰/پ۷،الانعام:۱۰۲)
عقیدہ:۴وہ زندہ ہے۔
(پ۳،البقرۃ:۲۵۵)
وہ قدرت والا ہے وہ ہر چیز کو جانتا ہے۔
(پ۲۲،فاطر:۴۴)
سب کچھ دیکھتا ہے سب کچھ سنتا ہے ۔
(پ۲۵،الشورٰی:۱۱)
سب کی زندگی اور موت کا مالک ہے جس کو جب تک چاہے زندہ رکھے اور جب چاہے موت دے۔ وہی سب کو جلاتاا ور مارتا ہے۔
(پ۱۱،التوبۃ:۱۱۶)
وہی سب کو روزی دیتا ہے وہی جس کو چاہے عزت اور ذلت دیتا ہے۔
(پ۳،اٰل عمران:۲۶،۳۷)
اور وہ جو کچھ چاہے کرتا ہے ۔
(پ۱۷،الحج:۱۸)
وہی عبادت کے لائق ہے۔
(پ۳،البقرۃ:۲۵۵)
کوئی اس کا مثل اور مقابل نہیں۔
(پ۲۵،الشورٰی:۱۱)
نہ اس نے کسی کو جنا نہ وہ کسی سے جنا گیا۔
(پ۳۰،الاخلاص:۳)
نہ وہ بیوی بچوں والا ہے ۔
(پ۲۹،الجن:۳)
عقیدہ :۵ وہ کلام فرماتا ہے ۔
(پ۳،البقرۃ:۲۵۳)
لیکن اس کا کلام ہم لوگوں کے کلام کی طرح کا نہیں ہے۔ وہ زبان' آنکھ' کان وغیرہ اعضاء سے اور ہر عیب اور نقصان سے پاک ہے ہر کمال اس کی ذات میں موجود ہے۔
(المسامرہ بشرح المسایرۃ ،ختم المصنف ، کتاب بیان عقیدۃ اہل السنۃ ، ص۳۹۲۔۳۹۳)
عقیدہ :۶اس کی سب صفتیں ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ رہیں گی۔ کوئی صفت اس کی کبھی نہ ختم ہو سکتی ہے نہ گھٹ بڑھ سکتی ہے۔
(المعتقد المنتقد مع المستند المعتمد ، مسئلۃ صفاتہ تعالیٰ غیر محدثۃ ولا مخلوقۃ ، ص۴۹/شرح العقائد النسفیۃ ، مبحٹ اثبات الصفات ، ص۴۵۔۴۷)
عقیدہ :۷وہ اپنی پیدا کی ہوئی ہر چیز پر بڑا مہربان ہے۔ وہی سب کو پالتا ہے۔
(پ۱،الفاتحۃ:۱۔۲)
وہ بڑائی والا اور بڑی عزت والا ہے۔
(پ۲۸،الحشر:۲۳)
سب کچھ اسی کے قبضہ اور اختیار میں ہے جس کو چاہے پست کردے ۔جس کو چاہے بلند کردے۔
(پ۳،اٰل عمران:۲۶)
جس کی چاہے روزی کم کردے جس کی چاہے زیادہ کردے۔
(پ۲۱،العنکبوت:۶۲)
وہ انصاف والا ہے ۔
(شعب الایمان ، باب فی الایمان باللہ ، فصل فی معرفۃ اسماء اللہ وصفاتہ ،رقم ۱۰۲،ج۱،ص۱۱۴)
کسی پر ظلم نہیں کرتا۔
(پ۵،النسا:۴۰ / پ۱۵، الکہف:۴۹)
وہ بڑے تحمل اور برداشت والا ہے۔
(شعب الایمان ، باب فی الایمان باللہ ، فصل فی معرفۃ اسماء اللہ وصفاتہ ،رقم ۱۰۲،ج۱،ص۱۱۴)
وہ گناہوں کا بخشنے والا۔
(پ۲۴،الزمر:۵۳)
اور بندوں کی دعاؤں کو قبول فرمانے والا ہے۔
(پ۲۰،النمل:۶۲/پ۲،البقرۃ:۱۸۶)
وہ سب پر حاکم ہے اس پر کوئی حکم چلانے والا نہیں۔
(پ۷،الانعام:۱۸/ پ۱۲،ھود:۴۵/المستند المعتمدعلی المعتقد المنتقد، ص۹۹،حاشیہ ۱۳۱)
نہ اس کو اس کے ارادہ سے کوئی روکنے والا ہے ۔
(پ۲۶،ق:۲۹)
وہ سب کا کام بنانے والا ہے۔ دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے اسی کے حکم سے ہوتا ہے بغیر اس کے حکم کے کوئی ذرہ ہل نہیں سکتا۔ اس کے کسی حکم اور اس کے کسی کام میں کسی کو روک ٹوک کی مجال نہیں۔
(بہارشریعت،ج۱،ص۸)
وہ تمام عالم اور سارے جہان کی حفاظت' اور اس کا انتظام فرماتا ہے۔
(پ۱۳،یوسف:۶۴/ پ۲۲،سبا:۲۱)
نہ وہ سوتا ہے نہ اونگھتا ہے۔
(پ۳،البقرۃ:۲۲۵)
نہ کبھی غافل ہوتا ہے۔
(پ۲،البقرۃ:۱۴۴)
عقیدہ :۸اﷲتعالیٰ پر کوئی چیز واجب اور لازم نہیں ہے وہ جو کچھ کر تا ہے وہ اس کا فضل اور اس کی مہربانی ہے۔
" (المسامرۃ بشرح المسایرۃ ، الاصل الرابع فی بیان انہ لایجب علی اللہ تعالٰی فعل شی ، ص۱۵۴
المعتقد المنتقد مع المستند المعتمد ، یستحیل وجوب شی علیہ تعالٰی ، ص۷۱)"
عقیدہ :۹وہ مخلوق کی تمام صفتوں سے پاک ہے۔
(شرح الفقہ الاکبر،ص۳۱)
وہ بڑا ہی رحیم وکریم ہے۔ وہ اپنے بندوں کو کسی ایسے کام کا حکم نہیں دیتا۔ جو بندوں سے نہ ہو سکے۔
(پ۳،البقرۃ:۲۸۶)
"وہ اپنے بندوں کی بداعمالیوں اور گناہوں سے ناراض ہوتا ہے اور بندوں کی نیکیوں اور عبادتوں سے خوش ہوتا ہے۔ اسی لئے اس نے گناہ گاروں کے لئے دوزخ کا عذاب اور نیکو کاروں کے لئے جنت کا ثواب بنایا ہے۔
عقیدہ :۱۰اﷲتعالیٰ جہت اور مکان و زمان اور حرکت و سکون اور شکل و صورت وغیرہ مخلوقات کی تمام صفات و کیفیات سے پاک ہے۔
14u4"
" (شرح العقائد النسفیۃ ، الدلیل علی کونہ تعالٰی لیس جسما ،ص۳۸۔۴۱،
المسامرۃ بشرح المسایرۃ، الاصل السابع انہ تعالٰی لیس مختصا بجھۃ ، ص۳۰۔۳۱)"
عقیدہ :۱۱دنیا کی زندگی میں سر کی آنکھوں سے اﷲتعالیٰ کا دیدار صرف ہمارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو حاصل ہوا۔ ہاں دل کی نگاہ سے یا خواب میں اﷲتعالیٰ کا دیدار دوسرے انبیاء علیہم السلام بلکہ بہت سے اولیاء کرام کو بھی نصیب ہوا۔ اور آخرت میں ہر سنی مسلمان کو اﷲتعالیٰ اپنا دیدار کرائے گا مگر یاد رکھو کہ اﷲتعالیٰ کا دیدار بلاکیف ہے۔ یعنی دیکھیں گے مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ کیسے؟ اور کس طور پر دیکھیں گے۔ ان شاء اﷲتعالیٰ جب دیکھیں گے۔ اس وقت بتادیں گے۔ اس میں بحث کرنا جائز نہیں۔ یہ ایمان رکھو کہ قیامت میں ضرور اس کا دیدار ہوگا' جو آخرت کی نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت ہے۔
(شرح الملا علی القاری علی الفقہ الاکبر ، جواز رؤیۃ الباری جل شانہ فی الدنیا ، ص۱۲۳۔۱۲۴/المعتقد المنتقدمع المستند المعتمد،منہ (۱۶)انہ تعالٰی مرئی بالا بصار فی الآخرۃ، ص۵۶،۵۸،شرح العقائد النسفیۃ،مبحث رؤیۃ اللہ تعالی والدلیل علیھا، ص۷۴۔۷۵)
عقیدہ :۱۲اﷲتعالیٰ کے ہر کام میں بے شمار حکمتیں ہیں خواہ ہم کو معلوم ہوں یانا معلوم ہوں۔
(المسامرۃ بشرح المسایرۃ ، للہ تعالٰی فی کل فصل حکمۃ ، س۲۱۵)
" اﷲتعالیٰ کے کسی کام کو برا سمجھنا یا اس پر اعتراض کرنا یا ناراض ہونا یہ کفر کی بات ہے۔
خبردار! خبردار! کبھی ہرگز ہرگز اﷲتعالیٰ کے کسی کام پر نہ اعتراض کرو ،نہ ناراض رہو بلکہ یہی ایمان رکھو کہ اﷲتعالیٰ جو کچھ کرتا ہے وہی اچھا ہے۔ خواہ ہماری سمجھ میں آئے یا نہ آئے کیونکہ اﷲتعالیٰ علیم و حکیم یعنی بہت زیادہ جاننے والا اور بہت زیادہ حکمتوں والا ہے اور وہ اپنے بندوں پر بہت زیادہ مہربان ہے۔"
عقیدہ :۱اﷲتعالیٰ نے اپنے بندوں کی ہدایت کے لئے بہت سے پیغمبروں کو دنیا میں بھیجا۔ یہ سب پیغمبر تمام گناہوں سے پاک ہیں ۔
(المسامرۃ بشرح المسایرۃ ، الکلام علی العصمۃ ، ص۲۲۷)
اور اﷲتعالیٰ کے بہت ہی نیک بندے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کے سب پیغمبروں کا یہی کام ہے کہ وہ اﷲتعالیٰ کے پیغام اور اس کے احکام کو بندوں تک پہنچاتے ہیں۔
(شرح العقائد النسفیۃ،کتاب مبحث النبوات،ص۱۴۰)
اﷲتعالیٰ نے ان پیغمبروں کی سچائی ظاہر کرنے کے لئے ان کے ہاتھوں پر ایسی ایسی حیرت اور تعجب میں ڈالنے والی چیزیں ظاہر فرمائیں جو بہت ہی مشکل اور عادت کے خلاف ہیں جو دوسرے لوگ نہیں کرسکتے۔ ان چیزوں کو ''معجزہ'' کہتے ہیں۔
(شرح العقائد النسفیۃ ، والنوع الثانی خبر الرسول المؤید بالمعجزۃ ، ص۱۷، مبحث النبواۃ ، ص۱۳۵)
جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا کہ وہ اژدہا بن کر فرعون کے سامنے جادوگروں کے سانپوں کو نگل گیا۔
(روح البیان،طٰہٰ:۷۰،ج۵،ص۴۰۵)
اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مردوں کو زندہ کرنا۔
(پ۳،اٰل عمران:۴۹)
اور ہمارے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا چاند کو دو ٹکڑے کردینا۔
(المواہب اللدنیۃ المقصد الرابع فی المعجزات ،الفصل الاول فی معجزاتہ صلی اللہ علیہ وسلم ،ج۲،ص۵۲۳)
ڈوبے ہوئے سورج کو واپس لوٹادینا۔
(المواہب اللدنیۃ المقصد الرابع فی المعجزاتہ صلی اللہ علیہ وسلم ،ج۲،ص۵۲۸۔۵۲۹)
کنکریوں سے اپنا کلمہ پڑھوالینا۔
(الخصائص الکبری،با ب التسبیح الحصی والطعام،ج۲،ص۱۲۵)
انگلیوں سے پانی کا چشمہ جاری کردینا۔
(صحیح البخاری، کتاب المناقب ، باب علامات النبوۃ فی الاسلام ،رقم ۳۵۷۶،ج۲،ص۴۹۳)
یہ سب معجزات ہیں۔ ان پیغمبروں کو نبی کہتے ہیں۔ اور ان نبیوں میں سے جو خداوند تعالیٰ کی طرف سے کوئی نئی آسمانی کتاب اور نئی شریعت لے کر آئے وہ ''رسول'' کہلاتے ہیں۔
(النبراس، تعریف الرسول صلی اللہ علیہ وسلم ،ص۵۴/ المسامرۃ بشرح المسایرۃ ، الکلام علی العصمۃ ، ص۲۳۱)
نبی سب مرد تھے' نہ کوئی جن نبی ہوا' نہ کوئی عورت۔
(پ۱۴،النحل:۴۳/ تفسیر بیضاوی مع حاشیۃ محی الدین شیخ زادہ ، ج۵،ص۲۷۴)
نبی سب انسانوں سے زیادہ عقلمند ہوتے ہیں اور بے عیب بھی۔
(المسامرۃبشرح المسایرہ،شروط النبوۃ،ص۲۲۶)
عقیدہ :۲سب سے پہلے پیغمبر حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور سب سے آخری پیغمبر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم ہیں۔
(شرح العقائد النسفیۃ ، اول الانبیاء آدم علیہ السلام واخرھم محمد علیہ السلام ،ص۱۳۶)
اور باقی تمام نبی و رسول ان دونوں کے درمیان ہوئے۔ ان پیغمبروں میں سے جو بہت مشہور ہیں۔ اور قرآن مجید اور احادیث میں جن کا باربار ذکر آیا ہے۔ وہ یہ ہیں:۔
" (۱)حضرت نوح علیہ السلام (پ۱۷، الانبیآء : ۷۶)
(۲)حضرت ابراہیم علیہ السلام (پ۱۷،الانبیاء:۶۹)
(۳)حضرت اسمٰعیل علیہ السلام (پ۱۷،الانبیاء:۸۵)
(۴)حضرت اسحاق علیہ السلام (پ۱۷،الانبیاء:۷۲)
(۵)حضرت یعقوب علیہ السلام (پ۱۷،الانبیاء:۷۲)
(۶)حضرت یوسف علیہ السلام (پ۱۲،یوسف:۴)
(۷)حضرت داؤد علیہ السلام (پ۱۷،الانبیاء:۷۹)
(۸)حضرت سلیمان علیہ السلام (پ۱۷،الانبیاء:۸۱)
(۹)حضرت ایوب علیہ السلام (پ۱۷،الانبیاء:۸۳)
(۱۰)حضرت موسیٰ علیہ السلام (پ۱۷،الانبیاء:۴۸)
(۱۱)حضرت ہارون علیہ السلام (پ۱۷،الانبیاء:۴۸)
(۱۲)حضرت زکریا علیہ السلام (پ۷،الانعام:۸۵)
(۱۳)حضرت یحیی علیہ السلام (پ۷،الانعام:۸۵)
(۱۴)حضرت عیسیٰ علیہ السلام (پ۷،الانعام:۸۵)
(۱۵)حضرت الیاس علیہ السلام (پ۷،الانعام:۸۵)
(۱۶)حضرت الیسع علیہ السلام (پ۷،الانعام:۸۶)
(۱۷)حضرت یونس علیہ السلام (پ۷،الانعام:۸۶)"
" (۱۸)حضرت لوط علیہ السلام (پ۷،الانعام:۸۶)
(۱۹)حضرت ادریس علیہ السلام (پ۱۷،الانبیآء :۸۵)
(۲۰)حضرت صالح علیہ السلام (پ۱۹،النمل:۴۵)
(۲۱)حضرت ہود علیہ السلام (پ۱۹،الشعرآء: ۱۲۴)
(۲۲)حضرت شعیب علیہ السلام (پ۱۲،ھود:۸۴)
(۲۳)حضرت محمد رسول اﷲ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم (پ۴،اٰل عمران:۱۴۴)"
عقیدہ :۳ نبیوں پر اﷲتعالیٰ نے جو صحیفے اور آسمانی کتابیں اتاریں۔
(النبراس ، بیان الکتب المنزلۃ، ص۲۹۰)
ان میں سے چار بہت مشہور ہیں:
" ''توریت'' حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام پر۔(پ۶،المائدۃ:۴۴)
''زبور'' حضرت داود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر۔(پ۱۵،بنی اسرائیل:۵۵)
''انجیل'' حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام پر۔(پ۶،المائدۃ:۴۶)"
''قرآن مجید'' جو سب سے افضل کتاب ہے وہ سب سے افضل رسول حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم پر۔
(پ۲۹،الدھر:۲۳)
عقیدہ :۴خدا کے نبیوں کی کوئی تعداد معین کرنی جائز نہیں ہے کیونکہ اس بارے میں مختلف روایتیں آئی ہیں۔ اور نبیوں کی کسی معین تعداد پر ایمان لانے میں یہ احتمال ہے کہ کسی نبی کی نبوت کا انکار ہو جائے ۔
(شرح العقائد النسفیۃ، مبحث اول الانبیاء آدم علیہ السلام ،ص۱۳۹۔۱۴۰/الفتاوٰی الرضویہ الجدیدۃ، کتاب السیر ، ج۱۵،ص۲۴۸/شرح الملا علی القاری علی الفقہ الاکبر، الانبیآء منزھون عن الکبائر والصغائر، ص۵۷/الشفاء فصل فی بیان ما ھو من المقالات کفر ، ص۲۴۵)
"یا غیر نبی کو نبی مان لیا جائے اور یہ دونوں باتیں کفر ہیں۔ اس لئے یہ اعتقاد رکھنا چاہے کہ اﷲتعالیٰ کے ہر نبی پر ہمارا ایمان ہے۔
عقیدہ :۵مسلمان کے لئے جس طرح اﷲتعالیٰ کی ذات و صفات پر ایمان لانا ضروری ہے۔ اسی طرح ہر نبی کی نبوت پر بھی ایمان لانا ضروری ہے۔
عقیدہ :۶ہر نبی اور فرشتہ کا معصوم ہونا ضروری ہے۔ نبی اور فرشتہ کے سوا کوئی معصوم نہیں۔"
(النبراس ، مبحث مسئلہ عصمۃ الانبیاء علیہم السلام ،ص۲۸۳النبراس ، مبحث الملائکہ علیہم السلام ،ص۲۸۷)
اماموں کو نبیوں کی طرح معصوم سمجھنا بددینی و گمراہی ہے۔ نبیوں اور فرشتوں کے معصوم ہونے کا یہ مطلب ہے کہ اﷲتعالیٰ نے ان حضرات کو گناہوں سے محفوظ رکھنے کا وعدہ فرمالیا ہے۔ اس سبب سے ان حضرات کا گناہ میں مبتلا ہونا شرعاً محال ہے برخلاف اماموں اور اولیاء کے۔ اﷲتعالیٰ انہیں گناہوں سے بچاتا ہے۔ لیکن اگر کبھی ان حضرات سے کوئی گناہ صادر ہو جائے تو یہ شرعاً محال نہیں۔
(بہارشریعت،ج۱،ح۱،ص۱۳)
عقیدہ :۷اﷲتعالیٰ نے پیغمبروں پر شریعت کے جتنے احکام تبلیغ کے لئے نازل فرمائے ان پیغمبروں نے ان تمام حکموں کو خدا کے بندوں تک پہنچادیا ہے۔
(الیواقیت والجواہر ، المبحث الثانی والثلاثون فی ثبوت رسالۃ نبینا محمد صلی اللہ علیہ وسلم، ج۲،ص۲۵۲)
جو شخص یہ کہے کہ کسی نبی نے کسی حکم کو تقیہ یعنی خوف کی وجہ سے یا اور کسی وجہ سے چھپالیا اور خدا کے بندوں تک نہیں پہنچایا وہ کافر ہے۔
(المعتقد المنتقد مع المستند المعتمد، منہ تبلیغ جمیع ما امروا بتبلیغہ، ص۱۱۳۔۱۱۴)
عقیدہ :۸حضرات انبیاء علیہم السلام کے جسموں کا برص و جذام وغیرہ ایسے امراض سے جن سے نفرت ہوتی ہے پاک ہونا ضروری ہے۔
(المسامرۃ بشرح المسایرۃ ، شروط النبوۃ ، ص۲۲۶)
عقیدہ :۹اﷲتعالیٰ نے اپنے نبیوں خاص کر حضور خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو بہت سی غیب کی باتوں کا علم عطا فرمایا ہے۔
(پ۴،اٰل عمران: ۱۷۹/پ۵،النسآء :۱۱۳)
یہاں تک کہ زمین و آسمان کا ہر ذرہ ہر نبی کی نظروں کے سامنے ہے۔ مگر حضرات انبیاء علیہم السلام کا یہ علم غیب اﷲتعالیٰ کے عطا فرمانے سے ہے۔
(پ۷،الانعام:۵۰/پ۲۹،الجن:۲۶۔۲۷)
لہٰذا ان کا علم عطائی ہوا۔ اور اﷲتعالیٰ کے علم کا عطائی ہونا محال ہے۔ کیونکہ اﷲتعالیٰ کا کوئی کمال کسی کا دیا ہوا نہیں ہو سکتا۔ بلکہ اﷲتعالیٰ کا علم اور اس کا ہر کمال ذاتی ہے۔
(پ۷،الانعام:۵۹/پ۲۲،سبا:۳/پ۱۱،یونس:۲۰)
اﷲتعالیٰ اور نبیوں کے علم غیب میں ایک بہت بڑا فرق تو یہی ہے کہ نبیوں کا علم غیب عطائی (اﷲ کا دیا ہوا) ہے اور اﷲتعالیٰ کا علم غیب ذاتی ہے یعنی کسی کا دیا ہوا نہیں ہے۔ کہاں عطائی اور کہاں ذاتی' دونوں میں بڑا فرق ہے۔ جو لوگ انبیاء بلکہ حضرت سید الانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے مطلق علم غیب کا انکار کرتے ہیں۔ وہ قرآن کی بعض آیتوں کو مانتے ہیں اور بعض آیتوں کے ساتھ کفر کرتے ہیں۔
(پ۱،البقرۃ:۸۵)
قرآن مجید میں دونوں قسم کی آیتیں ہیں۔ بعض آیتوں میں یہ ہے کہ خدا کے نبیوں کو علم غیب حاصل ہے اور بعض آیتوں میں یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ کے سوا کسی کو بھی علم غیب نہیں ہے۔ بلاشبہ یہ دونوں آیتیں حق ہیں اور ان دونوں آیتوں پر ایمان لانا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے اور ان دونوں آیتوں میں سے کسی کا بھی انکار کرنا کفر ہے۔ جہاں جہاں
"قرآن میں یہ ہے کہ نبیوں کو علم غیب حاصل ہے اس کا یہی مطلب ہے کہ نبیوں کو خدا کے عطا فرمانے سے غیب کا علم حاصل ہے اور جہاں جہاں قرآن میں یہ ہے کہ اﷲ تعالی کے سوا کسی کو بھی علم غیب نہیں ہے اس کا یہی مطلب ہے کہ بغیر اﷲتعالیٰ کے بتائے ہوئے کسی کو بھی کسی چیز کا علم غیب حاصل نہیں ہے۔ ہرگز ہرگز ان دونوں قسم کی آیتوں میں کوئی تعارض اور ٹکراؤ نہیں ہے۔
عقیدہ :۱۰حضرات انبیائے کرام تمام مخلوق یہاں تک کہ فرشتوں کے رسولوں سے بھی افضل ہیں۔"
(بہارشریعت،ج۱،ح۱،ص۱۵)
ولی کتنے ہی بڑے مرتبے والا ہو مگر ہرگز ہرگز کسی نبی کے برابر نہیں ہو سکتا۔( جو کسی غیر نبی کو کسی نبی سے افضل یا برابر بتائے وہ کافر ہے۔)
(الشفاء بتعریف حقوق المصطفی ، فصل فی بیان ماھومن المقالات کفر ، ص۲۵۱)
عقیدہ :۱۱حضرات انبیاء علیہم السلام کے مختلف درجے ہیں۔ اﷲتعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے۔
(پ۳،البقرۃ:۲۵۳)
سب سے افضل و اعلیٰ ہمارے حضور سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم ہیں۔
(پ۲۲،سبا:۲۸/شرح العقائدالنسفیہ،مبحث افضل الانبیاء علیہم السلام،ص۱۴۱)
پھر حضور کے بعد سب سے بڑا مرتبہ حضرت ابراہیم خلیل اﷲ علیہ السلام کا ہے پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام ' پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام کا درجہ ہے۔ ان پانچوں حضرات کو مرسلین اولوالعزم کہتے ہیں۔ اور یہ پانچوں باقی تمام انبیاء ومرسلین سے افضل ہیں۔
(حاشیۃ الصاوی علی تفسیر الجلالین، پ۲۶،الاحقاف:تحت آیت ۳۵،ج۵، ص۱۹۴۷ / شرح الملاء علی القاری علی الفقہ الاکبر،تفضیل بعض الانبیاء علی بعض ،ص۱۱۶)
عقیدہ :۱۲حضرات انبیاء علیہم السلام اپنی اپنی قبروں میں تمام لوازمِ حیات کے ساتھ
زندہ ہیں۔
(سنن ابن ماجہ، کتاب الجنائز ،باب ذکروفاتہ ودفنہ صلی اللہ علیہ وسلم ،رقم۱۶۳۷،ج۲،ص۲۹۱)
اﷲتعالیٰ نے ان کو زندگی عطا فرمادی۔ خدا کے نبیوں کی حیات شہیدوں کی حیات سے کہیں بڑھ چڑھ کر ارفع واعلیٰ ہے۔
(حاشیۃ الصاوی علی تفسیر الجلالین ،پ۳،آل عمران:۱۶۹،ج۱، ص۳۳۳، وآیت:۱۸۵،ج۱،ص۳۴۰)
یہی وجہ ہے کہ شہیدوں کا ترکہ تقسیم کردیا جاتا ہے اور ان کی بیویاں عدت کے بعد دوسروں سے نکاح کر سکتی ہیں۔ مگر انبیاء علیہم السلام کا نہ ترکہ تقسیم ہوتا ہے۔
(سنن ابن ماجہ،کتاب السنۃ ، باب فضل العلماء والبحث علی طلب العلم ، رقم ۲۲۳،ج۱،ص۱۴۵/صحیح مسلم، کتاب الجہاد والسیر، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم لانورث ، رقم ۱۷۵۹،ص۹۶۶)
نہ ان کی بیویاں عدت کے بعد دوسروں سے نکاح کرسکتی ہیں۔
(پ۲۲،الاحزاب:۵۳/الخصائص الکبری ، باب اختصاصہ صلی اللہ علیہ وسلم،بتحریم النکاح ازواجہ من بعدہ ، ج۲،ص۱۹۰۔۱۹۱)
عقیدہ :۱۳ہمارے آقا و مولیٰ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم ''خاتم النبیین'' ہیں۔ یعنی اﷲتعالیٰ نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی ذات پر سلسلہ نبوت کو ختم فرما دیا۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے زمانہ میں یا اس کے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں ہو سکتا۔ جو شخص حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے زمانہ میں یا حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے بعد کسی کو نبوت ملنے کو مانے یا کسی نئے نبی کے آنے کو ممکن مانے وہ شخص کافر ہے۔
(پ۲۲، الاحزاب:۴۰،المعتقد المنتقد مع المستند المعتمد،تکمیل الباب ، ص۱۲۰)
عقیدہ :۱۴ہمارے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو اﷲتعالیٰ نے جاگتے میں جسم کے ساتھ مکہ مکرمہ سے بیت المقدس تک اور وہاں سے ساتوں آسمانوں کے اوپر اور وہاں سے جہاں تک اﷲتعالیٰ کو منظور ہوا رات کے ایک مختصر حصہ میں پہنچایا اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے عرش و کرسی اور لوح و قلم اور خدا کی بڑی بڑی نشانیوں کو دیکھا۔ اور خدا کے دربار میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو وہ قرب خاص حاصل ہوا کہ کسی نبی اور فرشتہ کو نہ کبھی حاصل ہوا نہ کبھی حاصل ہوگا۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے اس آسمانی سفر کو ''معراج'' کہتے ہیں۔
(التفسیرات الاحمدیۃ ، بنی اسرآء یل تحت آیت :۱،مسئلۃ المعراج ، ص۵۰۲۔۵۰۵/ النبراس،بیان المعراج، ص۲۹۲۔۲۹۵)
معراج میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے اپنے سر کی آنکھوں سے جمال الٰہی عزوجل کا دیدار کیا
(پ۲۸،النجم:۱۳۔۱۷/فتح الباری شرح صحیح البخاری، کتاب مناقب الانصار، باب المعراج، رقم ۳۸۸۸،ج۸،ص۱۸۶)
اور بغیر کسی واسطہ کے اﷲتعالیٰ کا کلام سنا۔ اور تمام ملکوت السموات والارض کے ذرہ ذرہ کو تفصیل کے ساتھ ملاحظہ فرمایا۔
(روح المعانی، پ۶،النسآء:۱۶۴،ج۳،ص۲۸)
عقیدہ :۱۵ہمارے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو اﷲتعالیٰ نے قیامت کے دن شفاعت کبریٰ اور مقام محمود کا شرف عطا فرمایا ہے۔ جب تک ہمارے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم شفاعت کا دروازہ نہیں کھولیں گے کسی کو بھی مجال شفاعت نہ ہوگی بلکہ تمام انبیاء و مرسلین حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم ہی کے دربار میں اپنی اپنی شفاعت پیش کریں گے۔ اﷲعزوجل کے دربار میں درحقیقت حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم ہی شفیع اوّل و شافع اعظم ہیں۔
(روح البیان، پ۱۵،الاسراء:۷۹،ج۵،ص۱۹۲/ روح المعانی،پ۱۵، الاسراء:۸۹، ج۸،ص۲۰۲۔۲۰۴)
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی شفاعت کے بعد تمام انبیاء و اولیاء وصلحا و شہداء وغیرہ سب شفاعت کریں گے ۔
(المعتقد المنتقد مع المستند المعتمد ، تکمیل الباب ، ص۱۲۹)
عقیدہ :۱۶حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت مدار ایمان بلکہ عین ایمان ہے۔ جب تک حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی محبت ماں باپ اولاد بلکہ تمام جہاں سے زیادہ نہ ہو۔ کوئی شخص کامل مسلمان نہیں ہو سکتا۔
(پ۱۰،التوبۃ:۲۴/ صحیح البخاری، کتاب الایمان، باب حب الرسول صلی اللہ علیہ وسلم من الایمان،رقم ۱۵،ج۱،ص۱۷)
عقیدہ :۱۷حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی تعظیم و توقیر ہر مسلمان پر فرض اعظم بلکہ جان ایمان ہے۔
(پ۲۶،الفتح:۹/الشفاء بتعریف حقوق المصطفی صلی اللہ علیہ وسلم،الجزء الثانی، فصل واعلم ان حرمۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم، ص۳۲ )
حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے تمام صحابہ و اہل بیت اور تمام متعلقین و متوسلین سے محبت رکھے۔ اور ان سب کی تعظیم و تکریم کرے اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے تمام دشمنوں سے عداوت و دشمنی رکھے۔ اگرچہ وہ اپنا باپ یا بیٹا یا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔ اس لئے کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ رسول سے بھی محبت ہو اور ان کے دشمنوں سے بھی الفت ہو۔
(الشفاء بتعریف حقوق المصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ،الجزء الثانی ، فصل فی علامات محبتہ صلی اللہ علیہ وسلم ،ص۲۱/ پ۲۸،المجادلۃ:۲۲/ پ۱۰،التوبۃ:۲۳)
"عقیدہ :۱۸حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم اﷲتعالیٰ کے نائب مطلق ہیں۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا فرمان اﷲتعالیٰ کا فرمان ہے۔
اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی اطاعت اﷲعزوجل کی اطاعت ۔"
(پ۵،النسآء:۸۰)
اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی نافرمانی اﷲتعالیٰ کی نافرمانی ہے۔
(المعجم الاوسط ، من اسمہ ابراہیم ، رقم ۲۴۰۱،ج۲،ص۳۲)
تمام جہان کو اﷲتعالیٰ نے حضور کے زیر تصرف کردیا ہے۔ اورآسمان وزمین کے تمام خزانوں کی کنجیاں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مقدس ہاتھوں میں دے کر آپ کو اپنی تمام نعمتوں اور عطاؤں کا قاسم بنادیا ہے۔
(صحیح مسلم ،کتاب الفضائل ، باب اثبات حوض نبینا صلی اللہ علیہ وسلم وصفاتہ ، رقم ۲۲۹۶،ص۱۲۵۸/ المواہب اللدنیۃ ، الفصل الثانی ، اعطی مفاتیح الخزائن ، ج۲،ص۶۳۹)
چنانچہ ہر قسم کی عطائیں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم ہی کے دربار سے تقسیم ہوتی ہیں۔
(صحیح البخاری، کتاب العلم ، باب من یرد اللہ بہ خیرا یفقھہ فی الدین ، رقم ۷۱،ج۱،ص۴۲)
سبحان اﷲ ! ؎
"رب ہے معطی' یہ ہیں قاسم
رزق اس کا ہے کھلاتے یہ ہیں"
عقیدہ :۱۹حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے کسی قول وفعل و عمل و حالت کو جو حقارت کی نظر سے دیکھے یا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی شان میں کوئی ادنیٰ سی گستاخی یا توہین و بے ادبی کرے یا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو جھٹلائے یا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے کلام میں شک کرے۔
(حاشیۃ الصاوی علی تفسیر الجلالین ، پ ۱۸ النور:۶۳،ج۴،ص۱۴۲۱/الشفاء بتعریف حقوق المصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ، الجزء الثانی ، فصل فی بیان ماھو من المقالات کفر، ص۲۴۶)
یا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم میں کوئی عیب نکالے۔ یا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی کسی سنت کو برا سمجھے یا مذاق اڑائے وہ اسلام سے خارج اور کافر ہے۔
(البحرالرائق ، کتاب السیر ، با ب احکام المرتدین، ج۵،ص۲۰۳۔۲۰۴/ الفتاوی الھندیہ ، کتاب السیر ، الباب التاسع فی احکام المرتدین مطلب موجبات الکفرانواع ، ج۲،ص۲۶۳۔۲۶۴)
ہمارے حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو جن خوش نصیب مسلمانوں نے ایمان کی حالت میں دیکھا اور ایمان ہی پر ان کا خاتمہ ہوا۔ ان بزرگوں کو صحابی کہتے ہیں۔
(فتح الباری شرح صحیح البخاری،کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، باب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم ومن صحب النبی صلی اللہ علیہ وسلم...الخ، ج۸،ص۳۔۴ )
ان حضرات کا درجہ ساری امت میں سب سے زیادہ بلند ہے اور اﷲتعالیٰ نے ان شمع نبوت کے پروانوں کو بڑی بڑی بزرگیاں عطافرمائی ہیں۔ یہاں تک کہ بڑے سے بڑے درجہ کے اولیاء بھی کسی کم سے کم درجے کے صحابی کے مرتبوں تک نہیں پہنچ سکتے۔
(بہارشریعت،ج۱،ح۱،ص۷۴)
ان صحابہ علیھم الرضوان میں درجات و مراتب کے لحاظ سے سب سے بڑھ کر چار صحابی ہیں۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲتعالی عنہ۔ یہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے بعد ان کے جانشین ہوئے اور دین اسلام کی جڑوں کو مضبوط کیا۔ اسی لئے یہ خلیفۂ اول کہلاتے ہیں نبیوں کے بعد تمام امتوں میں یہ سب سے افضل و اعلیٰ ہیں۔ ان کے بعد حضرت عمر رضی اﷲ تعالی عنہ کا درجہ ہے۔ یہ ہمارے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے دوسرے خلیفہ ہیں۔ ان کے بعد حضرت عثمان رضی اﷲ تعالی عنہ کا درجہ ہے۔ یہ ہمارے پیغمبر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے تیسرے خلیفہ ہیں۔
(سنن ابی داؤد، کتاب السنۃ ، باب فی التفضیل ، رقم ۴۶۲۸،ج۴،ص۲۷۳)
ان کے بعد حضرت علی رضی اﷲتعالی عنہ کا مرتبہ ہے۔ یہ ہمارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے چوتھے خلیفہ ہیں۔
(المواہب اللدنیۃ ، المقصد السابع فی وجوب صحبتہ صلی اللہ علیہ وسلم ، الفصل الثالث، عثمان وعلی ، ج۳،ص۳۸۹)
عقیدہ :۔حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی نسبت اور تعلق کی وجہ سے تمام صحابہ کرام علیھم الرضوان کا ادب و احترام اور ان بزرگوں کے ساتھ محبت و عقیدت تمام مسلمانوں پر فرض ہے اسی طرح حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی آل و اولاد اور بیویاں اور اہل بیت اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے خاندان والے اور تمام وہ چیزیں جن کو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم سے نسبت و تعلق ہو سب لائق تعظیم اور واجب الاحترام ہیں۔
(المواہب اللدنیۃ، المقصد السابع فی وجوب صحبتہ صلی اللہ علیہ وسلم ، الفصل الثالث، حب الصحابۃ وعلاماتہ ، ج۳،ص۳۹۳)
عقیدہ :۱خدا کی توحید اوراس کے رسولوں پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ فرشتوں کے وجود پر بھی ایمان لانا ضروریات دین میں سے ہے۔ فرشتوں کے وجود کا انکار کرنا کفر ہے۔
(الفتاوی الرضویۃ الجدیدۃ ، ج۲۹،ص۳۸۴)
عقیدہ :۲اﷲتعالیٰ نے اپنی کچھ مخلوقات کو نور سے پیدا کرکے ان کو ہماری نظروں سے چھپادیا ہے اور ان کو یہ طاقت دی ہے کہ وہ جس شکل میں چاہیں اس شکل میں ظاہر ہوجائیں وہ کبھی انسان کی شکل اختیار کرلیتے ہیں اور کبھی دوسری شکلوں میں بھی ظاہر ہوتے ہیں۔
(الیواقیت والجواہر، المبحث التاسع والثلاثون فی بیان صفۃ الملا ئکۃ واجنحتھاوحقائقھا۔۔۔الخ،الجزء الثانی ،ص۲۹۵/النبراس،مبحث الملائکۃعلیہم السلام،ص۲۸۷)
عقیدہ :۳فرشتے اﷲتعالیٰ کی معصوم مخلوق ہیں۔ وہ وہی کرتے ہیں جو خدا کا حکم ہوتا ہے وہ خدا کے حکم کے خلاف کبھی کچھ نہیں کرتے۔ وہ ہر قسم کے چھوٹے بڑے گناہوں سے پاک ہیں۔
(پ۲۸،التحریم:۶/ النبراس،مبحث الملائکہ علیہم السلام، ص۲۸۷)
عقیدہ :۴اﷲتعالیٰ نے ان فرشتوں کو مختلف کاموں میں لگا دیا ہے اور جن جن کو جو جو کام
سپرد فرمادیئے ہیں۔ وہ ان کاموں میں لگے ہوئے ہیں۔ فرشتوں کی تعداد اﷲتعالیٰ ہی جانتا ہے جس نے ان کو پیدا فرمایا ہے اور اﷲتعالیٰ کے بتانے سے رسول بھی جانتے ہیں۔ ان میں چار فرشتے بہت مشہور ہیں۔ جو سب فرشتوں سے افضل و اعلیٰ ہیں۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام ' حضرت میکائیل علیہ السلام ' حضرت اسرافیل علیہ السلام اور حضرت عزرائیل علیہ السلام ۔
(پ۳۰،النّٰزعٰت:۱۔۵ / التفسیر الکبیر، المسألۃ فی شرح کثرۃ الملائکۃ، ج۱،ص۳۸۶)
عقیدہ :۵کسی فرشتہ کی شان میں ادنیٰ سی گستاخی کرنے سے آدمی کافر ہوجاتا ہے۔
(مجمع الانھر، کتاب السیر والجھاد، باب المرتد، ثم ان الفاظ الکفر انواع، ج۲،ص۵۰۷/ البحرالرائق، کتاب السیر ، باب احکام المرتدین ، ج۵،ص۲۰۴۔۲۰۵)
اﷲتعالیٰ نے کچھ مخلوق کو آگ سے پیدا فرما کر ان کو یہ طاقت دی ہے کہ وہ جونسی شکل چاہیں بن جائیں۔ اس مخلوق کا نام ''جن'' ہے یہ بھی ہم کو دکھائی نہیں دیتے۔ یہ انسانوں کی طرح کھاتے پیتے' جیتے مرتے ہیں۔ ان کے بچے بھی پیدا ہوتے ہیں۔
(پ۱۴،الحجر:۲۷/ التفسیر الکبیر، المسألۃ الثالثۃفی ان ابلیس ھل کان من الملائکۃ ام لا ۔۔۔۔ج۱،ص۴۲۹/ النبراس،مبحث الملائکۃ علیہم السلام،ص۲۸۷/ الیواقیت والجواہر، المبحث الثالث والعشرون فی اثبات وجودالجن۔۔۔الخ، الجزء الاول،ص۱۸۳)
اور ان میں مسلمان بھی ہیں اور کافر بھی۔ نیک بھی ہیں اور فاسق بھی۔
(پ۲۹،الجن:۱۴۔۱۵/ تفسیر روح البیان،ج۱۰،ص۱۹۴،الیواقیت والجواہر،المبحث الثالث والعشرون فی اثبات وجود الجن ووجوب الایمان بھم،الجزء الاول،ص۱۸۲)
جن کے وجود کا انکار کرنے والا کافر ہے ۔
(الفتاوٰی الرضویۃ الجدیدۃ،ج۲۹،ص۳۸۴)
"کیونکہ جن ایک مخلوق ہیں یہ قرآن مجید سے ثابت ہے۔
لہٰذا جن کے وجود کا انکار درحقیقت قرآن مجید کا انکار ہے۔"
عقیدہ :۱اﷲتعالیٰ نے جتنے صحیفے اور کتابیں آسمان سے نازل فرمائی ہیں سب حق ہیں اور سب اﷲتعالیٰ کا کلام ہیں۔ ان کتابوں میں جو کچھ ارشاد خداوندی ہوا۔ سب پر ایمان لانا اور ان کو سچ ماننا ضروری ہے۔
(النبراس، بیان الکتب المنزلۃ،ص۲۹۰)
کسی ایک کتاب کا انکار کرنا کفر ہے۔
(الشفاء بتعریف حقوق المصطفی صلی اللہ علیہ وسلم، فصل واعلم ان من استخف بالقرآن، الجزء الثانی، ص۲۶۴)
ہاں البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اگلی کتابوں کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے امتوں کے سپرد فرمائی تھی مگر امتوں سے ان کتابوں کی حفاظت نہ ہوسکی۔ بلکہ شریر لوگوں نے ان کتابوں میں اپنی خواہش کے مطابق کمی بیشی کردی۔ لہٰذا جب کوئی بات ان کتابوں کی ہمارے سامنے پیش ہو تو وہ اگر قرآن مجید کے مطابق ہو جب تو ہم اس کی تصدیق کریں گے اور اگر وہ قرآن کے مخالف ہو تو ہم یقین کرلیں گے کہ یہ شریروں کی تحریف ہے اور ہم اس بات کو رد کردیں گے۔ اور اگر مخالفت یا موافقت کچھ بھی معلوم نہ ہو تو یہ حکم ہے کہ ہم اس بات کی نہ تصدیق کریں نہ تکذیب کریں بلکہ یہ کہہ دیں کہ اﷲتعالیٰ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ہمارا ایمان ہے۔
(تفسیر روح البیان، پ۱۴،الحجر:۹،ج۴،ص۴۴۳۔۴۴۴/ تفسیر الخازن، پ۱۴، الحجر:۹،ج۳،ص۹۵)
عقیدہ :۲دین اسلام چونکہ ہمیشہ رہنے والا دین ہے۔ لہٰذا قرآن مجید کی حفاظت کی
ذمہ داری اﷲتعالیٰ نے امت کے سپرد نہیں فرمائی بلکہ اس کی حفاظت خود اﷲتعالیٰ نے اپنے ذمہ رکھی ہے چنانچہ اس نے ارشاد فرمایا کہ۔
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ ﴿9﴾
" ''یعنی بے شک ہم نے قرآن اتارا۔ اور یقیناً ہم خود اس کے نگہبان ہیں۔''(پ14،الحجر:9)
اس لئے قرآن مجید میں کوئی کمی بیشی کردے یہ محال ہے ۔"
(حاشیۃ الجمل علی الجلالین،پ۱۴،الحجر:۹،ج۴،ص۱۸۳)
اور جو یہ کہے کہ قرآن میں کسی نے کچھ ردوبدل یا کم یا زیادہ کردیا ہے۔ وہ کافر ہے۔
(الشفاء بتعریف حقوق المصطفی صلی اللہ علیہ وسلم، فصل واعلم ان من استخف بالقرآن، ص۲۶۴)
عقیدہ :۳اگلی کتابیں صرف نبیوں ہی کو یاد ہوا کرتی تھیں۔ لیکن یہ ہمارے نبی اور قرآن کا معجزہ ہے کہ قرآن مجید کو مسلمان کا بچہ بچہ یاد کرلیتا ہے۔
(تفسیر روح البیان، پ۲۱،العنکبوت:۴۹،ج۶،ص۴۸۱/ تفسیر الخازن، پ۲۷،القمر:۱۷،ج۴،س۲۰۴)
عالم میں جو کچھ بھلا' برا ہوتا ہے۔ سب کو اﷲتعالیٰ اس کے ہونے سے پہلے ہمیشہ سے جانتا ہے اور اس نے اپنے اسی علم ازلی کے موافق پر بھلائی برائی مقدر فرمادی ہے''تقدیر'' اسی کا نام ہے جیسا ہونے والا ہے اور جو جیسا کرنے والا تھا اس کو پہلے ہی اﷲتعالیٰ نے اپنے علم سے جانا اور اسی کو لوح محفوظ پر لکھ دیا۔ تو یہ نہ سمجھو کہ جیسا اس نے لکھ دیا مجبوراً ہم کو ویسا ہی کرنا پڑتا ہے بلکہ واقعہ یہ ہے جیسا ہم کرنے والے تھے ویسا ہی اس نے بہت پہلے لکھ دیا۔ زید کے ذمہ برائی لکھی اس لئے کہ زید برائی کرنے والا تھا۔ اگر زید
بھلائی کرنے والا ہوتا تو وہ زید کے لئے بھلائی لکھتا ۔ تو اﷲتعالیٰ نے تقدیر لکھ کر کسی کو بھلائی یا برائی کرنے پر مجبور نہیں کر دیا ہے۔
(النبراس،مسئلۃالقضاء والقدر،ص۱۷۴۔۱۷۵/ شرح الملاء علی القاری علی الفقہ الاکبر، لم یجبراللہ احدًا من خلقہ،ص۴۸۔۵۳)
عقیدہ :۱تقدیر پر ایمان لانا بھی ضروریات دین میں سے ہے تقدیر کے انکار کرنے والوں کو نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے اس امت کا ''مجوس'' بتایا ہے۔
(المعتقد المنتقدمع المستند المعتمد،منہ (۱۴)الاعتقادبقضائہ وقدرہ، ص۵۱۔۵۲)
عقیدہ :۲تقدیر کے مسائل عام لوگوں کی سمجھ میں نہیں آسکتے۔ اس لئے تقدیر کے مسائل میں زیادہ غور و فکر اور بحث و مباحثہ کرنا ہلاکت کا سبب ہے۔ امیرالمومنین حضرت ابوبکر صدیق وامیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالی عنہما تقدیر کے مسئلہ میں بحث کرنے سے منع فرما گئے ہیں۔ پھر بھلا ہم تم کس گنتی میں ہیں کہ اس مسئلہ میں بحث و مباحثہ کریں۔ ہمارے لئے یہی حکم ہے کہ ہم تقدیر پر ایمان لائیں۔ اور اس مشکل اور نازک مسئلہ میں ہرگز ہرگز کبھی بحث ومباحثہ اور حجت و تکرار نہ کریں کہ اسی میں ایمان کی سلامتی ہے۔
(جامع الترمذی، کتاب القدر، باب ماجاء من التشدید فی الخوض فی القدر، رقم ۲۱۴۰،ج۴،ص۵۱/ المعجم الکبیر ،رقم ۱۴۲۳،ج۲،ص۹۵) واﷲ تعالیٰ اعلم۔
مرنے کے بعد اور قیامت سے پہلے دنیا و آخرت کے درمیان ایک اور عالم ہے۔ جس کو ''عالم برزخ'' کہتے ہیں۔
(پ۱۸،المؤمنون:۱۰۰/ شرح الصدور،باب مقر الأرواح،ص۲۳۶)
تمام انسانوں اور جنوں کو مرنے کے بعد اسی عالم میں رہنا ہوتا ہے۔ اس عالم برزخ میں
اپنے اپنے اعمال کے اعتبار سے کسی کو آرام ملتا ہے اور کسی کو تکلیف۔
(بہارشریعت،ج۱،ح۱،ص۲۴)
عقیدہ :۱مرنے کے بعد بھی روح کا تعلق بدن کے ساتھ باقی رہتا ہے۔ اگر چہ روح بدن سے جدا ہوگئی ہے مگر بندے پر جو آلام یا صدمہ گزرے گا روح ضرور اس کو محسوس کرے گی اور متاثر ہوگی۔ جس طرح دنیاوی زندگی میں بدن پر جو راحت اور تکلیف پڑتی ہے اس کی لذت اور تکلیف روح کو پہنچتی ہے۔ اسی طرح عالم برزخ میں بھی جو انعام یا عذاب بدن پر واقع ہوتا ہے۔ اس کی لذت اور تکلیف روح کو پہنچتی ہے۔
(شرح العقائد النسفیۃ، مبحث عذاب القبر،ص۱۰۱)
عقیدہ :۲مرنے کے بعد مسلمانوں کی روحیں ان کے درجات کے اعتبار سے مختلف مقامات میں رہتی ہیں۔ بعض کی قبر پر' بعض کی زمزم شریف کے کنویں میں' بعض کی آسمان و زمین کے درمیان' بعض کی آسمانوں میں'بعض کی عرش کے نیچے قندیلوں میں' بعض کی اعلیٰ علیّین میں مگر روحیں کہیں بھی ہوں اپنے جسموں سے بدستور ان کو تعلق رہتا ہے جو کوئی اِن کی قبر پر آئے اس کو وہ دیکھتے پہچانتے اور اس کی باتوں کو سنتے ہیں۔
(شرح الصدور، باب مقر الأرواح، ص۲۳۵۔۲۳۸/الفتاوی الرضویۃ الجدیدۃ،ج۹،ص۶۵۸)
اسی طرح کافروں کی روحیں بعض ان کے مرگھٹ یا قبر پر رہتی ہیں' بعض کی یمن کے ایک نالہ برہوت میں' بعض کی ساتوں زمین کے نیچے' بعض کی ''سجین'' میں۔لیکن روحیں کہیں بھی ہوں ان کے جسموں سے ان روحوں کا تعلق برقرار رہتا ہے چنانچہ جو ان کے مرگھٹ پر گزرے یا ان کی قبر پر آئے اس کو دیکھتے پہچانتے اور اس کی باتوں کو سنتے ہیں۔
(شرح الصدور، باب مقر الارواح، ص۲۳۶۔۲۳۷/الفتاوی الرضویۃ الجدیدۃ،ج۹،ص۶۵۸)
عقیدہ :۳یہ خیال کہ مرنے کے بعد روح کسی دوسرے بدن میں چلی جاتی ہے خواہ وہ کسی آدمی کا بدن ہو یا کسی جانور کا جس کو فلا سفر ''تناسخ ''اور ہندو ''آواگون'' کہتے ہیں یہ خیال بالکل ہی باطل اور اس کا ماننا کفر ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب السیر، الباب التاسع فی احکام المرتدین، ج۲،ص۲۶۴ / النبراس،باب والبعث حق،ص۲۱۳)
عقیدہ :۴جب آدمی مرجاتا ہے تو اگر گاڑا جائے تو گاڑنے کے بعد اور اگر نہ گاڑا جائے تو وہ جہاں بھی ہو اور جس حال میں بھی ہو اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں جن میں سے ایک کا نام ''منکر''اور دوسرے کا نام ''نکیر'' ہے یہ دونوں فرشتے مردہ سے سوال کرتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے؟ تیرا دین کیا ہے؟ اور حضرت محمد رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ یہ کون ہیں؟ اگر مردہ ایماندار ہو تو ٹھیک ٹھیک جواب دیتا ہے کہ میرا رب اﷲعزوجل ہے۔ میرا دین اسلام ہے اور حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم اﷲعزوجل کے رسول ہیں۔
(النبراس،مبحث عذاب القبر وثوابہ،ص۲۰۶،۲۱۰/سنن الترمذی، کتاب الجنائز،باب ماجاء فی عذاب القبر،رقم ۱۰۷۳،ج۲،ص۳۳۷)
پھر اس کے لئے جنت کی طرف ایک کھڑکی کھول دیتے ہیں۔ جس سے ٹھنڈی ٹھنڈی جنت کی ہوائیں اور خوشبوئیں قبر میں آتی رہتی ہیں۔ اور مردہ آرام و چین کے مزہ میں پڑ کر اپنی قبر میں سکھ کی نیند سو رہتا ہے اور اگر مردہ ایماندار نہ ہو تو سب سوالوں کے جواب میں یہی کہتا ہے کہ مجھے کچھ نہیں معلوم ہے ۔ پھر اس کی قبر میں دوزخ کی طرف ایک کھڑکی کھول دی جاتی ہے اور جہنم کی گرم گرم ہوائیں اور بدبو قبر میں آتی رہتی ہیں۔ اور مردہ طرح طرح کے سخت عذابوں میں گرفتار ہوکر تڑپتا اور بے قرار رہتا ہے فرشتے اس کو گرزوں سے مارتے ہیں اور
اس کے برے اعمال سانپ بچھو بن کر اسے عذاب پہنچاتے رہتے ہیں۔
(مشکاۃ المصابیح، کتاب الجنائز، باب مایقال عند من حضرہ الموت، الفصل الثالث، رقم ۱۶۳۰،ج۱،ص۴۵۸)
عقیدہ :۵مردہ بھی کلام کرتا ہے مگر اس کے کلام کو انسان اور جن کے سوا تمام مخلوقات' جانور وغیرہ سنتے ہیں۔ اگر کوئی آدمی سن لے تو وہ بیہوش ہو جائے گا۔
(صحیح البخاری،کتاب الجنائز،باب کلام المیت علی الجنازۃ،رقم ۱۳۸۰،ج۱،ص۴۶۵)
عقیدہ :۶ایمان دار اور نیکوں کی قبریں کسی کی ستر ستر ہاتھ چوڑی ہو جاتی ہیں۔
(سنن الترمذی،کتاب الجنائز،باب ماجاء فی عذاب القبر،رقم۱۰۷۳،ج۲،ص۳۳۷)
اور کسی کسی کی قبریں اتنی چوڑی ہو جاتی ہیں کہ جہاں تک اس کی نگاہ جاتی ہے۔
(مشکاۃ المصابیح ، کتاب الجنائز ، باب مایقال عند من حضرہ الموت،الفصل الثالث، رقم۱۶۳۰،ج۱،ص۴۵۸)
اور کافروں اور بعض گنہگاروں کی قبر اس قدر زور سے دباتی ہے اور اس قدر تنگ ہو جاتی ہے کہ ادھر کی پسلیاں ادھر اور ادھر کی پسلیاں ادھر ہو جاتی ہیں۔
(جامع الترمذی،کتاب الجنائز، باب ماجاء فی عذاب القبر،رقم ۱۰۷۳،ج۲،ص۳۳۷)
عقیدہ :۷قبر میں جو کچھ عذاب و ثواب مردے کو دیا جاتا ہے اور جو کچھ اس پر گزرتی ہے وہ سب چیزیں مردہ کو معلوم ہوتی ہیں۔ زندہ لوگوں کو اس کا کوئی علم نہیں ہوتا۔ جیسے سوتا ہوا آدمی خواب میں آرام و تکلیف اور قسم قسم کے مناظر سب کچھ دیکھتا ہے ۔ لذت بھی پاتا ہے اور تکلیف بھی اٹھاتا ہے۔ مگر اس کے پاس ہی میں جاگتا ہوا آدمی ان سب باتوں سے بے خبر بیٹھا رہتا ہے۔
توحید و رسالت کی طرح قیامت پر بھی ایمان لانا ضروریاتِ دین میں سے ہے جو شخص قیامت کا انکار کرے وہ کھلا ہوا کافر ہے۔
(المعتقد المنتقدمع المعتمد المستند،من اقر بالجنۃ والناروالحشرلکن اولھا۔۔۔الخ،ص۱۸۰)
ہر مسلمان کے لئے اس عقیدہ پر ایمان لانا فرض عین ہے کہ ایک دن یہ زمین آسمان بلکہ کل عالم اور سارا جہان فنا ہو جائے گا۔ اسی دن کا نام ''قیامت'' ہے۔
(پ۲۷،الرحمن:۲۶/ پ۲۰،القصص:۸۸)
" قیامت سے پہلے چند نشانیاں ظاہر ہوں گی۔ جن میں سے چند یہ ہیں۔
(۱)دنیا میں تین جگہ آدمی زمین میں دھنسا دیئے جائیں گے۔ ایک مشرق میں،دوسرامغرب میں،تیسراجزیرۂ عرب میں ۔"
(صحیح البخاری، کتاب الفتن واشراط الساعۃ، باب فی الآیات التی تکون قبل الساعۃ،رقم۲۹۰۱،ص۱۵۵۱)
(۲)علم اٹھ جائے گا۔
(صحیح البخاری، کتاب العلم، باب رفع العلم وظھور الجھل،رقم۸۰،ج۱،ص۴۷ )
(۳)جہالت کی کثرت ہوگی۔
(صحیح البخاری، کتاب العلم، باب رفع العلم وظھور الجھل،رقم۸۰،ج۱،ص۴۷ )
(۴)علانیہ زنا کاری بکثرت ہونے لگے گی۔
(صحیح المسلم، کتاب العلم، باب رفع العلم وقبضہ وظھورالجھل والفتن فی آخر الزمان، رقم۲۶۷۱،ص۳۴ ۱۴)
(۵)مردوں کی تعداد کم ہو جائے گی اور عورتیں بہت زیادہ ہوں گی۔ یہاں تک کہ ایک
مرد کی سرپرستی میں پچاس عورتیں ہوں گی۔
(صحیح البخاری، کتاب العلم، باب رفع العلم وظھور الجھل،رقم۸۱،ج۱،ص۴۷ )
(۶)ملک عرب میں کھیتی باغ اور نہریں ہو جائیں گی۔
(صحیح مسلم ، کتاب الزکاۃ، باب الترغیب فی الصدقۃ قبل ان لایوجد من یقبلھا، رقم۱۵۷،ص۵۰۵)
(۷)دین پر قائم رہنا اتنا ہی دشوار ہوگا جیسے مٹھی میں انگارا لینا۔
(جامع ترمذی، کتاب الفتن، باب ۷۳،رقم۲۲۶۷،ج۴،ص۱۱۵)
یہاں تک کہ آدمی قبرستان میں جاکر تمنا کریگا کہ کاش میں اس قبر میں ہوتا۔
(صحیح مسلم، کتاب الفتن واشراط الساعۃ، باب لاتقوم الساعۃ حتی یمر الرجل بقبر الرجل فیتمنی ان یکون مکان المیت من البلاء،رقم۱۵۷،ص۱۵۵۵)
(۸)لوگ علم دین پڑھیں گے مگر دین کے لئے نہیں۔
(جامع الترمذی، کتاب الفتن ، باب ماجاء فی علامۃ حلول المسخ والخسف،رقم ۲۲۱۷،ج۴،ص۹۰)
(۹) مرد اپنی عورت کا فرمانبردار ہوگا اور ماں باپ کی نافرمانی کرے گا۔
(جامع الترمذی، کتاب الفتن ، باب ماجاء فی علامۃ حلول المسخ والخسف،رقم ۲۲۱۸،ج۴،ص۹۰)
(۱۰)مسجدوں میں لوگ شور مچائیں گے۔
(جامع الترمذی، کتاب الفتن ، باب ماجاء فی علامۃ حلول المسخ والخسف،رقم ۲۲۱۸،ج۴،ص۸۹)
(۱۱)گانے بجانے کا رواج بہت زیادہ ہوجائے گا۔
(جامع الترمذی، کتاب الفتن ، باب ماجاء فی علامۃ حلول المسخ والخسف،رقم ۲۲۱۸،ج۴،ص۹۰)
(۱۲)اگلے لوگوں پر لوگ لعنت کریں گے اور برا کہیں گے۔
(جامع الترمذی، کتاب الفتن ، باب ماجاء فی علامۃ حلول المسخ والخسف،رقم ۲۲۱۸،ج۴،ص۹۰)
(۱۳)جانور آدمیوں سے کلام کریں گے۔
(جامع الترمذی، کتاب الفتن ، باب ماجاء فی کلام السباع،رقم ۲۱۸۸،ج۴،ص۷۶)
(۱۴)ذلیل لوگ جن کو تن کا کپڑا' پاؤں کی جوتیاں نصیب نہ تھیں بڑے بڑے محلوں میں فخر کریں گے۔
(صحیح مسلم، کتاب الایمان،باب بیان الایمان والاسلام والاحسان ووجوب الایمان باثبات قدر اللہ عزوجل، رقم ۸،ص۲۱۔۲۲)
(۱۵)وقت میں برکت ختم ہو جائے گی۔ یہاں تک کہ برس مثل مہینے کے اور مہینہ مثل ایک ہفتہ کے۔ اور ایک ہفتہ مثل ایک دن کے گزر جائے گا۔ وغیرہ وغیرہ۔
(شرح السنۃ، کتاب الفتن، باب الدجال لعنہ اللہ ،رقم ۴۱۵۹،ج۷،ص۴۴۲)
الغرض اﷲعزوجل ورسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے جتنی نشانیاں قیامت کی بتلائی ہیں سب یقیناً ظاہر ہو کر رہیں گی یہاں تک کہ حضرت امام مہدی کا ظہور ہوگا۔
(جامع الترمذی، کتاب الفتن، باب ۵۳ماجاء فی المھدی، رقم۲۲۳۹،ج۴،ص۹۹)
دجال نکلے گا ۔
(جامع الترمذی، کتاب الفتن، باب ماجاء من این یخرج الدجال، رقم۲۲۴۴،ج۴،ص۱۰۲)
اور اس کو قتل کرنے کے لئے
(جامع الترمذی، کتاب الفتن، باب ماجاء فی قتل عیسٰی ابن مریم الدجال، رقم۲۲۵۱،ج۴،ص۱۰۶)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اتریں گے۔
(جامع الترمذی، کتاب الفتن، باب ماجاء فی نزول عیسٰی ابن مریم علیہ السلام، رقم۲۲۴۰،ج۴،ص۱۰۰)
یاجوج وماجوج جو بہت ہی زبردست لوگ ہیں وہ نکل کر تمام زمین پر پھیل جائیں گے۔
(صحیح مسلم، کتاب الفتن واشراط الساعۃ، باب ذکر الدجال،رقم۲۱۳۷،ص۱۵۶۹)
اور بڑے بڑے فساد اور بربادی برپا کریں گے۔ پھر خدا کے قہر سے ہلاک ہوجائینگے۔
(سنن ابن ماجہ،کتاب الفتن، باب فتنۃ الدجال وخروج عیسٰی ابن مریم ۔۔۔الخ، رقم۴۰۷۹،ج۴،ص۴۰۹/صحیح مسلم ، کتاب الفتن، باب ذکر الدجال وصفتہ وما معہ، رقم ۲۱۳۷،ص۱۵۶۸)
پچھم سے آفتاب نکلے گا۔
(جامع الترمذی، کتاب الفتن، باب ماجاء فی طلوع الشمس من مغربھا، رقم۲۱۹۳، ج۴،ص۷۸)
قرآن کے حروف اڑ جائیں گے۔
(سنن ابن ماجہ، کتاب الفتن،باب ذھاب القرآن والعلم،رقم ۴۰۴۹،ج۴،ص۳۸۴)
یہاں تک کہ روئے زمین کے تمام مسلمان مرجائیں گے اور تمام دنیا کافروں سے بھر جائے گی۔
(صحیح مسلم، کتاب الفتن واشراط الساعۃ،باب ذکر الدجال وصفتہ وما معہ،رقم ۲۱۳۷،ص۱۵۶۸)
اس طرح جب قیامت کی تمام نشانیاں ظاہر ہو چکیں گی تو اچانک خدا کے حکم سے حضرت اسرافیل علیہ السلام صور پھونکیں گے جس سے زمین آسمان ٹوٹ پھوٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے۔
(صحیح مسلم، کتاب الفتن واشراط الساعۃ،باب فی خروج الدجال ومکثہ فی الارض...الخ،رقم ۱۱۶،ص۱۵۷۲)
چھوٹے بڑے سب پہاڑ چور چور ہو کر بکھر جائیں گے۔ تمام دریاؤں میں طوفان اٹھ کھڑا
ہوگا۔ اور زمین پھٹ جانے سے ایک دریا دوسرے دریاؤں سے مل جائے گا۔ تمام مخلوقات مر جائے گی اور سارا عالم نیست و نابود اور پوری دنیا تہس نہس ہو کر برباد ہو جائیگی۔ پھر ایک مدت کے بعد جب اﷲتعالیٰ کو منظور ہو گا کہ تمام عالم پھر پیدا ہو جائے تو دوسری بار پھر حضرت اسرافیل علیہ السلام صور پھونکیں گے۔ پھر سارا عالم دوبارہ پیدا ہو جائے گا اور تمام مردے زندہ ہو کر میدان محشر میں جمع ہوں گے۔ جہاں سب کے اعمال میزان عمل میں تولے جائیں گے حساب کتاب ہوگا۔
(شعب الایمان،باب فی حشرالناس بعد مایبعثون من قبورھم ،رقم۳۵۳،ج۱،ص۳۱۲)
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم شفاعت فرمائیں گے۔
(صحیح البخاری، کتاب التوحید، باب کلام الرب عزوجل یوم القیامۃ مع الانبیاء وغیرہم، رقم ۷۵۰۹،ج۴،ص۵۷۶)
اور اپنی امت کو حوض کوثر کا پانی پلائیں گے۔
(شعب الایمان،باب فی حشر الناس بعد مایبعثون من قبورہم،رقم ۳۶۰،ج۱،ص۳۲۱)
نیکو ں کا نامہ اعمال داہنے ہاتھوں میں اور بدوں کا نامہ اعمال بائیں ہاتھوں میں دیا جائیگا۔
(النبراس شرح العقائد النسفیۃ، وقراء ۃ الکتاب حق، ص۲۱۶)
پھر یہ لوگ پل صراط پر چلائے جائیں گے۔ جن لوگوں کے اعمال اچھے ہوں گے وہ سلامتی کے ساتھ پل سے پار ہو کر جنت میں پہنچ جائیں گے اور جو بد اعمال اور گنا ہگار ہوں گے وہ اس پل سے دوزخ میں گر پڑیں گے۔
(صحیح مسلم، کتاب الایمان،باب معرفۃ طریق الرؤیۃ ، رقم ۱۸۳،ص۱۱۲)
عقیدہ :۱جہنم پیدا ہو چکی ہے۔
(شرح العقائدالنسفیۃ،والحوض حق ، والجنۃ حق والنار حق،ص۱۰۶)
اور اس میں طرح طرح کے عذابوں کے سامان موجود ہیں ۔ دوزخی لوگوں میں سے جن لوگوں کے دلوں میں ذرہ بھر بھی ایمان ہوگا۔ وہ اپنے گناہوں کی سزا بھگت کر پیغمبروں اور دوسرے بزرگوں کی شفاعت سے جہنم سے نکل کر جنت میں داخل ہوں گے۔
(صحیح البخاری، کتاب التوحید، باب کلام الرب عزوجل یوم القیامۃ مع الانبیاء وغیرھم، رقم ۷۵۰۹،۷۵۱۰،ج۴،ص۵۷۶)
مسلمان کتنا ہی بڑا گناہگار کیوں نہ ہو مگر وہ ہمیشہ دوزخ میں نہیں رکھا جائے گا بلکہ کچھ دنوں تک اپنے گناہوں کی سزا پاکر وہ جنت میں داخل کردیا جائے گا۔ ہاں البتہ کفار و مشرکین ہمیشہ ہمیشہ جہنم ہی میں رہیں گے اور طرح طرح کے عذابوں میں گرفتار رہیں گے اور ان کو موت بھی نہیں آئے گی۔
(شرح العقائد النسفیۃ ، مبحث اہل الکبائرمن المؤمنین لایخلدون فی النار، ص۱۱۷۔۱۱۸)
عقیدہ :۲جنت بھی بنائی جا چکی ہے۔
(شرح العقائدالنسفیۃ،والحوض حق ، والجنۃ حق والنار حق،ص۱۰۶)
اور اس میں طرح طرح کی نعمتوں کا سارا سامان اﷲتعالیٰ نے پیدا فرما رکھا ہے۔ جنتیوں کو نہ کوئی خوف ہوگا نہ کسی طرح کا کوئی رنج و غم ہوگا۔
(جامع الترمذی، کتاب صفۃ الجنۃ، باب ما جاء فی سوق الجنۃ، رقم۲۵۵۸،ج۴،ص۲۴۷ )
ان کی ہر خواہش اور تمنا کو خداوند کریم پوری فرمائے گا اور وہ بہشت کے باغوں میں قسم قسم کے میووں اور طرح طرح کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے رہیں گے۔
(بہارشریعت،ج۱،ح۱،ص۴۴)
اور ہمیشہ ہمیشہ جنت میں رہیں گے نہ کبھی وہ جنت سے نکالے جائیں گے نہ مریں گے!
(جامع الترمذی، کتاب صفۃ الجنۃ باب ماجاء فی خلود اھل الجنۃ، رقم۲۵۲۶،ج۴،ص۲۵۱)
عقیدہ :۳شرک اور کفر کے گناہ کو اﷲتعالیٰ کبھی معاف نہیں فرمائے گا۔ ان کے علاوہ دوسرے چھوٹے بڑے گناہوں کو جس کے لئے چاہے گا اپنے فضل و کرم سے معاف فرمادے گا۔
(پ۵،النساء:۴۸)
اور جس کو چاہے گا عذاب دے گا۔
(پ۴،اٰل عمران:۱۲۹)
"عذاب دینا اس کا عدل ہے اور معاف کر دینا اس کا فضل ہے۔ اﷲتعالیٰ ہر مسلمان پر اپنا فضل فرمائے۔ (آمین)
ضروری ہدایت:۔پیاری بہنو اور عزیز بھائیو!تم قیامت کی ہولناکیوں اور جنت و دوزخ کی نعمتوں اور عذابوں کا مختصر حال پڑھ چکے۔ یقین کرو اورایمان رکھو کہ ہم کو تم کو اور سب کو یہ دن دیکھنے ہیں لہٰذا خدا کے لئے دنیا کے عیش و آرام میں پڑ کر آخرت کو مت بھول جاؤ۔ صرف خوراک' پوشاک' زیورات' مکانات اور دنیاوی راحت و آرام کے سامان ہی کی فکر میں دن رات مت رہا کرو بلکہ آخرت کی زندگی کا بھی کچھ سامان کرو اور زیادہ سے زیادہ اچھے اعمال اور عبادتیں کرکے آخرت کا سامان تیار کرو اور جہنم کے عذابوں سے بچنے اور جنت کی نعمتوں کے پانے کی تدبیریں کرو۔ دنیا آنی فانی ہے۔ یاد رکھو کہ ایک دن بالکل ہی ناگہاں اور اچانک ملک الموت تمہارے پاس آکر یہ فرمادیں گے کہ اے شخص تیرے گھر میں ہزاروں من اناج رکھے ہوئے ہیں مگر اب تو ان میں سے ایک دانہ بھی نہیں کھا سکتا۔ ٹھنڈے ٹھنڈے میٹھے میٹھے پانیوں کے مٹکے بھرے ہوئے رکھے ہیں مگر اب تو ان پانیوں کا ایک قطرہ بھی نہیں پی سکتا۔ تیرے گھر میں ہزاروں لاکھوں روپے رکھے ہوئے ہیں مگر اب تو ان میں سے ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کر سکتا۔ اب تو کچھ بول بھی نہیں سکتا۔ اٹھ کر اب تو چل پھر بھی نہیں سکتا۔ یہ کہہ کر ایک دم ملک الموت روح قبض کرنے لگیں گے اور اس وقت تم"
کچھ بھی نہ کر سکو گے سوچو کہ اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا؟ اور تم اس وقت کس قدر افسوس کرو گے اور پچھتاؤ گے کہ ہائے یہ کیا ہوا؟کاش میں تندرستی اور سلامتی کی حالت میں کچھ عبادتیں اور خیر خیرات کرلیتا۔ مگر اب اس پچھتانے اور افسوس کرنے سے کیا فائدہ؟ اس لئے میری بہنو! اور میرے بھائیو! ملک الموت کے آنے سے پہلے جو کچھ اعمال صالحہ اور صدقہ و خیرات کرسکتے ہو وہ کرکے قبر اور دوزخ کے عذابوں سے بچنے کا سامان کرلو۔ اور جنت میں جانے' اور بہشت کی نعمتوں کے پانے کے ذریعے بنا لو ورنہ بہت افسوس کرو گے اور اس وقت مجھے یاد کرو گے کہ ہمارا عالم دین بالکل سچ کہتا تھا۔ کاش ہم اس کی نصیحتوں کو مان لیتے تو ہمارا بھلا ہو جاتا۔ اس لئے پھر کہتا ہوں اور باربار کہتا ہوں کہ؎
"واسطے حق کے نہ ایسی راہ چل
حشر کے دن جس سے ہو تجھ کو خلل
نیکیوں میں سست ہے بدیوں میں چست
چھوڑ ان باتوں کو طور اپنے بدل
قبر میں رہنے کی بھی کچھ فکر کر
اونچے اونچے یاں تو بنوائے محل
روشنی کا قبر میں سامان کر
ہیں محض بیکار یہ شمع و کنول
عاقبت بن جائے ایسے کام کر
جلدان دنیاکے پھندوں سے نکل
مال و دولت سب دھرے رہ جائیں گے"
"کام آئے گاوہاں تیرا عمل
ہائے تو بوتا ہے کانٹے ہرطرف
کس طرح پائے گاتوجنت کے پھل
سو برس جینے کی تجھ کو آس ہے
ہے کھڑی سر پر ترے تیری اجل
عمر گھٹتی ہے گناہوں میں تری
غارمیں گرتا ہے توجلدی سنبھل"
" اس زمانے میں جہالت کی وجہ سے کچھ مرد اور عورتیں اس قدر بے لگام ہیں کہ جو ان کے منہ میں آتا ہے بول دیا کرتے ہیں۔ چنانچہ بعض کفر کے الفاظ بھی لوگوں کی زبانوں سے نکل جاتے ہیں۔ اور لوگ کافر ہوجاتے ہیں۔ اور ان کا نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔ مگر انہیں خبر بھی نہیں ہوتی کہ وہ کافر ہو گئے۔ اور ان کا نکاح ٹوٹ گیا۔ اس لئے ہم یہاں چند کفر کی بولیوں کا ذکر کرتے ہیں۔ تاکہ لوگوں کو ان کفریات کا علم ہو جائے اور لوگ ان باتوں کو بولنے سے ہمیشہ زبان روکے رہیں۔ اور اگر خدا نخواستہ یہ کفر کے الفاظ ان کے منہ سے نکل گئے ہوں تو فوراً توبہ کر کے نئے سرے سے کلمہ پڑھ کر مسلمان بنیں اور دوبارہ نکاح کریں۔
(۱)خدا کے لئے مکان اور جگہ ثابت کرنا کفر ہے بعض لوگ یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ اوپر اﷲ نیچے پنچ یا اوپر اﷲ نیچے تم یہ کہنا کفر ہے ۔"
(الفتاوٰی الھندیۃ ، کتاب السیر، الباب التاسع فی احکام المرتدین، مطلب موجبات الکفرانواع،ج۲،ص۲۵۹/ الفتاوی القاضی خان ، کتاب السیر، باب مایکون کفرًا من للمسلم، ج۴،ص۴۷۰)
(۲)کسی سے کہا گناہ نہ کرو ورنہ خدا جہنم میں ڈال دے گا۔ اس نے کہا ''میں جہنم سے نہیں ڈرتا'' یا یہ کہا ''مجھے خدا کے عذاب کی کوئی پروا نہیں'' یا ایک نے دوسرے سے کہا کہ کیا تو خدا سے نہیں ڈرتا؟ اس نے غصہ میں کہہ دیا کہ ''میں خدا سے نہیں ڈرتا'' یہ کہہ دیا کہ ''خدا کہاں ہے'' یہ سب کفر کی بولیاں ہیں۔
(الفتاوی الھندیۃ ، کتاب السیر ، الباب التاسع فی احکام المرتدین مطلب موجبات الکفر انواع، ج۲،ص۲۶۰۔۲۶۲)
(۳)کسی سے کہا کہ ان شاء اﷲ تم اس کام کو کرو گے اس نے کہہ دیا کہ ''اجی میں بغیر ان شاء اﷲ کے کروں گا۔'' کافر ہوگیا۔
(الفتاوی الھندیۃ ، کتاب السیر ، الباب التاسع فی احکام المرتدین مطلب موجبات الکفر انواع، ج۲،ص۲۶۱)
(۴)کسی مالدار کو دیکھ کر یہ کہہ دیا کہ ''آخر یہ کیسا انصاف ہے کہ اس کو مالدار بنادیا مجھے غریب بنا دیا۔'' یہ کہنا کفر ہے۔
" (۵)اولاد وغیرہ کے مرنے پر رنج اور غصہ میں اس قسم کی بولیاں بولنے لگے کہ خدا کو بس میرا بیٹا ہی مارنے کے لئے ملا تھا۔ دنیا بھر میں مارنے کے لئے میرے بیٹے کے سوا خدا کو دوسرا کوئی ملتا ہی نہیں تھا۔ خدا کو ایسا ظلم نہیں کرنا چاہے تھا۔ اﷲعزوجل نے بہت برا کیا کہ میرے اکلوتے بیٹے کو مار کر میرا گھر بے چراغ کردیا۔ اس قسم کی بولیاں بول دینے سے آدمی کافر ہو جاتا ہے۔
(۶)خدا کے کسی کام کو برا کہنا یا خدا کے کاموں میں عیب نکالنا یا خدا کامذاق اڑانا یا خدا کی بے ادبی کرنا یا خدا کی شان میں کوئی پھوہڑ لفظ بولنا یا خدا کو ایسے لفظوں سے یاد کرنا جو اس کی شان کے لائق نہیں ہیں۔ یہ سب کفر کی باتیں ہیں۔"
(۷)کسی نبی یا فرشتہ کی حقارت کرنا یا ان کی جناب میں گستاخی کرنا یا ان کو عیب لگانا یا ان کا مذاق اڑانا یا ان پر طعنہ مارنا یا ان کے کسی کام کو بے حیائی بتانا بے ادبی کے ساتھ ان کا نام لینا کفر ہے۔
(البحر الرائق، کتاب السیر،باب احکام المرتدین،ج۵،ص۲۰۳۔۲۰۵)
(۸) جو شخص حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو آخر نبی نہ مانے
(الشفاء بتعریف حقوق المصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ، فصل فی بیان ما ھو من المقالات کفر ، ص۲۴۶۔۲۴۷)
یا حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی کسی چیز یا کسی بات کی توہین کرے یا حقیر جانے یا عیب لگائے یا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے مقدس بال یا ناخن کی بے ادبی کرے یا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے لباس مبارک کو گندہ اور میلا بتائے یا حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی کسی سنت کی تحقیر کرے مثلاً داڑھی بڑھانا' مونچھیں کم کرنا'
(البحر الرائق، کتاب السیر، باب احکام المرتدین، ج۵،ص۲۰۴/الفتاوی التاتارخانیۃ ، کتاب احکام المرتدین، فصل فیما یعود الی الانبیاء علیہم السلام ، ج۵، ص۴۸۱۔۴۸۲/ الفتاوی الھندیۃ، کتاب السیر ، الباب التاسع فی احکام المرتدین ، مطلب موجبات الکفر انواع،ج۲،ص۲۶۳۔۲۶۵)
عمامہ کا شملہ لٹکانا۔
(مجمع الانھر، کتاب السیروالجھاد،باب ثم ان الفاظ الکفر انواع، ج۲،ص۵۱۰)
کھانے کے بعدانگلیوں کو چاٹ لینا یا حضور کی کسی سنت کا مذاق اڑائے یا اس کو برا سمجھے تو وہ کافر ہو جائے گا۔
(الفتاوی التاتارخانیۃ ، کتاب احکام المرتدین، فصل فیما یعود الی الانبیاء علیہم السلام ، ج۵، ص۴۸۲)
(۹)جو شخص کسی قاتل یا خونی ڈاکو کو دیکھ کر توہین کی نیت سے کہہ دے کہ' ملک الموت'
آگئے تو وہ کافر ہو جائے گا۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب السیر،الباب التاسع فی احکام المرتدین مطلب موجبات الکفر انواع،ج۲،ص۲۶۶)
(۱۰)قرآن کی کسی آیت کے ساتھ مسخرہ پن کرنا کفر ہے۔
(البحرالرائق، کتاب السیر، باب احکام المرتدین، ج۵،ص۲۰۵)
جیسے بعض داڑھی منڈے کہہ دیا کرتے ہیں کہ قرآن میں کَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ آیا ہے اور معنی یہ بتاتے ہیں کہ کلہ صاف کراتے رہو۔
(بہارشریعت،ح۹،ص۱۷۱)
یا اکیلے نماز پڑھنے والے کہہ دیا کرتے ہیں کہ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی اور معنی یہ بتاتے ہیں کہ نماز تنہا پڑھا کرو۔ ان باتوں کے بول دینے سے آدمی کافر ہو جائے گا کیونکہ یہ قرآن کے ساتھ مسخرہ پن بھی ہے اور قرآن کے معنی کو بدل ڈالنا بھی ہے اور یہ دونوں باتیں کفر ہیں۔
(شرح الملاء علی القاری علی الفقہ الاکبر، فصل من ذالک فیما یتعلق بالقرآن والصلاۃ،ص۱۶۸/الفتاوی الھندیۃ، کتاب السیر،باب احکام المرتدین، ج۲، ص۲۶۶ ۔۲۶۷)
(۱۱)اسلام میں شک کرنا اور یہ کہنا کہ معلوم نہیں میں مسلمان ہوں یا کافر یا اپنے اسلام پر افسوس کرنا مثلاً یہ کہنا کہ میں مسلمان ہوگیا یہ اچھا نہیں ہوا کاش میں ہندو ہوتا یا عیسائی ہوتا تو بہت اچھا ہوتا تو کفار کے دین کو اچھا بتانا یا کسی کفر کی بات کو اچھا سمجھنا یا کسی کو کفر کی بات سکھانا یا یہ کہنا کہ نہ میں ہندو ہوں نہ مسلمان' میں تو انسان ہوں یا یہ کہنا کہ میں نہ مسجد سے تعلق رکھتا ہوں نہ مندر سے یا یہ کہنا کہ مسجد اور مندر دونوں ڈھونگ ہیں میں کسی کو نہیں مانتا یا یہ کہنا کہ کعبہ تو معمولی پتھروں کا ایک پرانا گھر ہے اس میں کیا دھرا ہے کہ میں اس کی تعظیم کروں یا یہ کہنا کہ نماز پڑھنا بے کار آدمیوں کا کام ہے۔ ہم کو نماز کی کہاں فرصت ہے؟ یایہ کہنا کہ روزہ وہ رکھے جس کو کھانا نہ ملے یا یہ کہنا کہ جب خدا نے کھانے کو دیا ہے تو روزہ رکھ
"کر بھو کے کیوں مریں؟ یا اذان کی آواز سن کر یہ کہنا کہ کیا خواہ مخواہ کا شور مچا رکھا ہے یا یہ کہنا کہ نماز پڑھنے کا کچھ نتیجہ نہیں بہت پڑھ لی کیا فائدہ ہوا؟ یا یہ کہنا کہ نماز پڑھنا نہ پڑھنا دونوں برابر ہیں یا یہ کہنا کہ میں تو صرف رمضان میں نماز پڑھتا ہوں۔ باقی دنوں میں نہ کبھی پڑھی نہ پڑھوں گا۔ یا یہ کہنا کہ نماز مجھے موافق نہیں آتی۔ میں جب نماز پڑھتا ہوں تو کوئی نہ کوئی نقصان ضرور اٹھاتا ہوں یا یہ کہنا کہ زکوٰۃ خدائی ٹیکس ہے جو ملا لوگوں نے مالداروں پر لگا رکھا ہے۔ یایہ کہنا کہ حج تو ایک تفریحی سفر ہے۔ یا بلیک مارکیٹ کا دھندا ہے۔ میں ایسا کام کیوں کروں؟ وغیرہ وغیرہ اس قسم کی تمام بکواسیں کھلا ہوا کفر ہیں۔ ان سب بولیوں سے آدمی کافر ہو جائے گا۔
(۱۲)یہ کہنا کہ رام و رحیم دونوں ایک ہی ہیں اور وید و قرآن میں کچھ فرق نہیں یا یہ کہنا کہ مسجد اور مندر دونوں خدا کے گھر ہیں۔ دونوں جگہ خداملتا ہے' کفر ہے۔
(۱۳)بت یا چاند سورج کو سجدہ کرنا۔"
(الدرالمختار وردالمحتار،کتاب الجہاد،باب المرتد،ج۶،ص۳۴۳)
یا زنار (جنیو) باندھنا یا سر پر چٹیا رکھنا یا قشقہ لگانا
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب السیر، الباب التاسع فی احکام المرتدین، مطلب موجبات الکفر انواع، ج۲،ص۲۷۶،۲۷۷)
یا ہولی دیوالی پوجنا یا رام لیلا ،جنم اشٹمی ،رام نومی وغیرہ کے جلوسوں اور میلوں میں کفر کی شان و شوکت بڑھانے یا کافروں کو خوش کرنے کے لئے شریک ہونا' یا ان کفری تہواروں کی تعظیم کرنا یا کوئی چیز ان تہواروں کے دن مشرکین کے گھر بطور تحفہ اور ہدیہ کے بھیجنا جب کہ مقصود اس دن کی تعظیم ہو تو یہ کفر ہے۔
(۱۴)جو شخص یہ کہہ دے کہ میں شریعت کو نہیں مانتا
(فتاوی رضویہ(جدید)،ج۱۴،ص۶۹۱)
یا شریعت کا کوئی حکم یا فتویٰ سن کر یہ کہہ دے کہ یہ سب ہوائی باتیں ہیں۔ یا یہ کہہ دے کہ شریعت کے حکم اور فتویٰ کو چولھے بھاڑ میں ڈال دو یا کہہ دے کہ میں شرع و رع کو نہیں جانتا
(مجمع الانھر، کتاب السیروالجھاد،باب ثم ان الفاظ الکفرانواع،ج۲،ص۵۱۰)
یا یہ کہہ دے کہ ہم شریعت پر عمل نہیں کریں گے ہم تو برادری کی رسموں کی پابندی کریں گے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب السیر،الباب التاسع فی أحکام المرتدین،ج۲،ص۲۷۲)
"یا یہ کہہ دے کہ بسم اﷲ اور سبحان اﷲ روٹی کی جگہ کام نہ دے گا۔ ہمیں روٹی چاہیے بسم اﷲ اور سبحان اﷲ نہیں چاہیے تو وہ شخص کافر ہو جائے گا۔
(۱۵)شراب پیتے وقت یا زنا کرتے وقت یا جوا کھیلتے وقت ''بسم اﷲ'' کہنا کفر ہے۔"
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب السیر، الباب التاسع فی احکام المرتدین مطلب موجبات الکفرانواع،ج۲،ص۲۷۳ )
" (۱۶)مسلمان کو مسلمان جاننا اور کافر کو کافر جاننا ضروریات دین میں سے ہے۔ کسی مسلمان کو کافر کہنا یا کسی کافر کو مسلمان کہنا کفر ہے۔
(۱۷)جو کسی کافر کے لئے اس کے مرنے کے بعد مغفرت کی دعا مانگے یا کسی مردہ کافر و مرتد کو مرحوم و مغفور کہے یا کسی مردہ ہندو کہ ''بیکنٹھ باشی'' کہے وہ خود کافر ہے۔
(۱۸)خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال کہنا یا خدا کی حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام کہنا۔"
(الفتاوی الھندیۃ ، کتاب السیر ، الباب التاسع فی احکام المرتدین مطلب موجبات الکفر انواع،ج۲،ص۲۷۲)
یا خدا کی فرض کی ہوئی چیزوں میں سے کسی چیز کا انکار کرنا یہ سب کفر ہیں۔
(۱۹)ضروریات دین میں سے کسی چیز کا انکار کرنا مثلاً توحید' رسالت' قیامت' ملا ئکہ' جنت' دوزخ' آسمانی کتابیں ان میں سے کسی چیز کا بھی انکار کرنا کفر ہے۔
(المسامرۃ ،ص۳۴۲)
" (۲۰)قرآن مجید کو ناقص بتانا اور یہ کہنا کہ اس میں سے کچھ آیتیں نکال دی گئی ہیں یا قرآن مجید کی کسی آیت کا انکار کرنا یا قرآن میں کوئی عیب بتانا قرآن مجید کی بے ادبی کرنا' یہ سب کفر ہیں۔
بہنو اور بھائیو! غور کرو یہ سب الفاظ اور ان کے علاوہ دوسرے بہت سے الفاظ ہیں جن کے بولنے سے آدمی کافر ہوجاتا ہے لہٰذا بول چال میں خاص طور پر دھیان رکھو۔ زیادہ شیخی مت بگھا رو۔ اور اپنی زبان کو قابو میں رکھو۔ اور خبردار بے لگام بن کر قینچی کی طرح زبان چلا چلا کر جو منہ میں آئے اول فول نہ بکتے رہو۔ رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا ہے کہ اپنی زبان کی حفاظت کرو۔ اور اس کو قابو میں رکھو۔ کیونکہ بہت سی زبان سے نکلی ہوئی باتیں آدمی کو جہنم میں داخل کردیتی ہیں۔ توبہ توبہ نعوذباﷲ منہ اﷲتعالیٰ مسلمان کو کفری کلاموں اور کفریات کے کاموں سے بچائے رکھے۔ ''آمین''۔"
" ولایت دربار خداوندی میں ایک خاص قرب کا نام ہے جو اﷲتعالےٰ اپنے فضل و کرم سے اپنے خاص بندوں کو عطا فرماتا ہے۔
عقیدہ :۱تمام امتوں کے اولیاء میں ہمارے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی امت کے اولیاء سب سے افضل ہیں۔ اور اس امت کے اولیاء میں سب سے افضل و اعلیٰ حضرات خلفائے راشدین یعنی حضرت ابو بکر صدیق و حضرت عمر فاروق و حضرت عثمان و حضرت علی"
مرتضیٰ رضی اﷲتعالی عنہم ہیں اور ان میں جو خلافت کی ترتیب ہے وہی افضلیت کی بھی ترتیب ہے۔ یعنی سب سے افضل حضرت صدیق اکبر ہیں۔ پھر فاروق اعظم۔ پھر عثمان غنی۔ پھر علی مرتضی!(رضی اﷲتعالیٰ عنہم)
(شرح العقائد النسفی، مبحث افضل البشر بعد نبیناصلی اللہ علیہ وسلم،ص۱۴۹۔۱۵۰)
"عقیدہ :۲اولیائے کرام حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے سچے نائب ہیں۔ اﷲتعالیٰ نے اولیائے کرام کو بہت بڑی طاقت اور عالم میں ان کو تصرفات کے اختیارات عطافرمائے ہیں۔ اور بہت سے غیب کے علوم ان پر منکشف ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض اولیاء کو اﷲتعالیٰ لوح محفوظ کے علوم پر بھی مطلع فرما دیتا ہے۔ لیکن اولیاء کو یہ سارے کمالات حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے واسطہ سے حاصل ہوتے ہیں۔
عقیدہ :۳اولیاء کی کرامت حق ہے۔ اس کا منکر گمراہ ہے۔ کرامت کی بہت سی قسمیں ہیں۔ مثلاً مُردوں کو زندہ کرنا۔ اندھوں اور کوڑھیوں کو شفاء دینا' لمبی مسافتوں کو منٹ دو منٹ میں طے کرلینا۔ پانی پر چلنا۔ ہواؤں میں اڑنا۔ دور دور کی چیزوں کو دیکھ لینا۔ مفصل بیان کے لئے پڑھو ہماری کتاب ''کرامات صحابہ'' علیھم الرضوان"
(شرح العقائدالنسفی، مبحث کرامات الاولیاء حق ،ص۱۴۵۔۱۴۷)
"عقیدہ :۴اولیائے کرام کو دورو نزدیک سے پکارنا جائز اور سلف صالحین کا طریقہ ہے۔
عقیدہ :۵اولیائے کرام اپنی اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور ان کا علم اور ان کا دیکھنا ان کا سننا دنیاوی زندگی سے زیادہ قوی ہوتا ہے۔
عقیدہ :۶اولیائے کرام کے مزارات پر حاضری مسلمانوں کے لئے باعث سعادت و برکت ہے اور ان کی نیاز وفاتحہ اور ایصال ثواب مستحب اور خیر و برکت کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ اولیائے کرام کا عرس کرنا یعنی لوگوں کا ان کے مزاروں پر جمع ہو کر قرآن خوانی"
"و فاتحہ خوانی و نعت خوانی و وعظ و ایصال ثواب یہ سب اچھے اور ثواب کے کام ہیں۔ ہاں البتہ عرسوں میں جو خلاف شریعت کام ہونے لگے ہیں۔ مثلاً قبروں کو سجدہ کرنا' عورتوں کا بے پردہ ہو کر مردوں کے مجمع میں گھومتے پھرنا' عورتوں کاننگے سر مزاروں کے پاس جھومنا' چلانا اور سر پٹک پٹک کر کھیلنا کودنا۔ اور مردوں کا تماشا دیکھنا' باجا بجانا' ناچ کرانا یہ سب خرافات ہر حالت میں مذموم و ممنوع ہیں۔ اور ہر جگہ ممنوع ہیں اور بزرگوں کے مزاروں کے پاس اور زیادہ مذموم ہیں لیکن ان خرافات و ممنوعات کی وجہ سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ بزرگوں کا عرس حرام ہے جو حرام اور ممنوع کام ہیں ان کو روکنا لازم ہے۔ ناک پر اگر مکھی بیٹھ گئی ہے تو مکھی کو اڑا دینا چاہیے ناک کاٹ کر نہیں پھینک دینا چاہیے۔ اسی طرح اگر جاہلوں اور فاسقوں نے عرس میں کچھ حرام کام اور ممنوع کاموں کو شامل کردیا ہے تو ان حرام و ممنوع کاموں کو روکا جائے عرس ہی کو حرام نہیں کہہ دیا جائے گا۔
پیری مریدی:۔علماء اور مشائخ سے مرید ہونااور ان کے ہاتھوں پر توبہ کر کے نیک اعمال کرنے کا عہد کرنا جائز اور ثواب کا کام ہے مگر مرید ہونے سے پہلے پیر کے بارے میں خوب اچھی طرح جانچ پڑتال کرلیں ورنہ اگر پیر بدعقیدہ اور بد مذہب ہو ا تو ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ آج کل بہت سے ایمان کے ڈاکو پیروں کے لباس میں پھرتے رہتے ہیں۔ لہٰذا مرید بننے میں بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ یوں تو پیر بننے کے لئے بہت سی شرطوں کی ضرورت ہے مگر کم سے کم چار شرطوں کا پیر میں ہونا تو بے حد ضروری ہے۔ اول سنی صحیح العقیدہ ہو' دوم اتنا علم رکھتا ہو کہ اپنی ضرورت کے مسائل کتابوں سے نکال سکے۔ سوم فاسق معلن نہ ہو۔ چہارم اس کا سلسلہ اور شجرہ طریقت رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم تک متصل ہو ورنہ اوپر سے فیض نہ ہوگا۔"
لہٰذا خوب سمجھ لو اور یاد رکھو کہ بد مذہب مثلاً رافضی، خارجی، وہابی وغیرہ سے مرید ہونا حرام اور گناہ ہے اسی طرح بالکل ہی جاہل جو حلال و حرام اور فرض و واجب اور ضروریات دین کا علم نہ رکھتا ہو اس سے مرید ہونا بھی ناجائز ہے۔ یوں ہی نماز و روزہ چھوڑنے والا۔ داڑھی منڈانے والا یا حد شریعت سے کم داڑھی رکھنے والا یا گناہ کبیرہ اور خلاف شریعت اعمال کرنے والا بھی پیر بنانے کے لائق نہیں۔ اور ایسے فاسق سے مرید ہونا بھی درست نہیں بلکہ گناہ ہے۔ ایسے ہی وہ شخص جس کا سلسلہ اور شجرہ بیعت درمیان میں کہیں سے بھی کٹا ہوا ہو۔ مثلاً اس کو خود ہی خلافت و اجازت کسی بزرگ سے نہ حاصل ہو یا اس کے شجرہ کے پیروں میں سے کوئی بلا خلافت و اجازت والا ہو' یا گمراہ ہو تو ایسے شخص سے بیعت ہونا بھی درست نہیں ہے۔
"وہ سجدہ روح زمیں جس سے کانپ اٹھتی تھی
اسی کو آج ترستے ہیں منبر و محراب"
" یہ وہ اصطلاحی بولیاں ہیں کہ ان کو جان لینے سے اس کتاب کے سمجھنے میں مدد ملے گی اور مسائل کے سمجھنے میں ہر جگہ بہت ہی سہولت اور آسانی ہو جائے گی۔ اس لئے مسئلوں کو پڑھنے سے پہلے ان اصطلاحوں کو خوب سمجھ کر اچھی طرح یاد کرلو!
فرض:۔وہ ہے جو شریعت کی یقینی دلیل سے ثابت ہو اس کا کرنا ضروری اور بلا کسی عذر کے اس کو چھوڑنے والا فاسق اور جہنمی اور اس کا انکار کرنے والا کافر ہے۔ جیسے نماز و روزہ اور حج و زکوٰۃ وغیرہ۔
پھر فرض کی دو قسمیں ہیں ایک فرض عین' دوسرے فرض کفایہ۔ فرض عین وہ ہے جس کا ادا کرنا ہر عاقل و بالغ مسلمان پر ضروری ہے جیسے نماز پنجگانہ وغیرہ۔ اور فرض کفایہ وہ ہے جس کا کرنا ہر ایک پر ضروری نہیں بلکہ بعض لوگوں کے ادا کرلینے سے سب کی طرف سے ادا ہو جائے گا اور اگر کوئی بھی ادا نہ کرے تو سب گنا ہگار ہونگے جیسے نماز جنازہ وغیرہ"
(بہار شریعت،ج۱،ح ۲،ص۷)
واجب:۔وہ ہے جو شریعت کی ظنی دلیل سے ثابت ہو اس کا کرنا ضروری ہے اور اس کو بلا کسی تاویل اور بغیر کسی عذر کے چھوڑ دینے والا فاسق اور عذاب کا مستحق ہے لیکن اس کا
انکار کرنے والا کافر نہیں بلکہ گمراہ اور بد مذہب ہے۔
(بہار شریعت،ج۱،ح ۲،ص۸)
سنت موکدہ:۔وہ ہے جس کو حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ہمیشہ کیا ہو۔ البتہ بیان جواز کے لئے کبھی چھوڑ بھی دیا ہو اس کو ادا کرنے میں بہت بڑا ثواب اور اس کو کبھی اتفاقیہ طور پر چھوڑ دینے سے اﷲعزوجل و رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا عتاب اور اس کو چھوڑ دینے کی عادت ڈالنے والے پر جہنم کا عذاب ہو گا۔ جیسے نماز فجر کی دو رکعت سنت' اور نماز ظہر کی چار رکعت فرض سے پہلے اور دو رکعت فرض کے بعد سنتیں۔ اور نماز مغرب کی دو رکعت سنت اور نماز عشاء کی دو رکعت سنت' یہ نماز پنجگانہ کی بارہ رکعت سنتیں یہ سب سنت موکدہ ہیں۔
(بہار شریعت،ج۱،ح ۲،ص۸)
سنت غیر موکدہ:۔وہ ہے جس کو حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے کیا ہو اور بغیر کسی عذر کے کبھی کبھی اس کو چھوڑ بھی دیا ہو۔ اس کو ادا کرنے والا ثواب پائے گا اوراس کو چھوڑ دینے والا عذاب کا مستحق نہیں۔ جیسے عصر کے پہلے کی چار رکعت سنت اور عشاء سے پہلے کی چار رکعت سنت کہ یہ سب سنت غیر موکدہ ہیں۔ سنت غیر موکدہ کو سنت زائدہ بھی کہتے ہیں۔
(بہار شریعت،ج۱،ح ۲،ص۸)
مستحب:۔ہر وہ کام ہے جو شریعت کی نظر میں پسندیدہ ہو اور اس کو چھوڑ دینا شریعت کی نظر میں برا بھی نہ ہو۔ خواہ اس کام کو رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے کیا ہو یا اس کی ترغیب دی ہو۔ یا علماء صالحین نے اسے پسند فرمایا اگرچہ احادیث میں اس کا ذکر نہ آیا ہو۔ یہ سب مستحب ہیں۔ مستحب کو کرنا ثواب اور اس کو چھوڑ دینے پر نہ کوئی عذاب ہے نہ کوئی
عتاب۔ جیسے وضو کرنے میں قبلہ رو ہو کر بیٹھنا' نماز میں بحالت قیام سجدہ گاہ پر نظر رکھنا' خطبہ میں خلفاء راشدین وغیرہ کا ذکر' میلاد شریف' پیران کبار کے وظائف وغیرہ'مستحب کو مندوب بھی کہتے ہیں۔
(بہار شریعت،ج۱،ح ۲،ص۸)
مباح:۔وہ ہے جس کا کرنا اور چھوڑ دینا دونوں برابر ہو۔ جس کے کرنے میں نہ کوئی ثواب ہو اور چھوڑدینے میں نہ کوئی عذاب ہو۔ جیسے لذیذ غذاؤں کا کھانا اور نفیس کپڑوں کا پہننا وغیرہ۔
(بہار شریعت،ج۱،ح ۲،ص۹)
حرام:۔وہ ہے جس کا ثبوت یقینی شرعی دلیل سے ہو۔ اس کا چھوڑنا ضروری اور باعث ثواب ہے اور اس کا ایک مرتبہ بھی قصداً کرنے والا فاسق و جہنمی اور گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے اور اس کا انکار کرنے والا کافر ہے۔
(بہار شریعت،ج۱،ح ۲،ص۹)
" خوب سمجھ لو کہ حرام فرض کا مقابل ہے یعنی فرض کا کرنا ضروری ہے اور حرام کا چھوڑ دینا ضروری ہے۔
مکروہ تحریمی:۔وہ ہے جو شریعت کی ظنی دلیل سے ثابت ہو۔ اس کا چھوڑنا لازم اور باعث ثواب ہے اور اس کا ایک مرتبہ بھی قصداً کرنے والا فاسق و جہنمی اور گناہ کبیرہ حرام کے کرنے سے کم ہے۔ مگر چند بار اس کو کر لینا گناہ کبیرہ ہے۔"
(بہار شریعت،ج۱،ح ۲،ص۹)
اچھی طرح ذہن نشین کر لو کہ یہ واجب کا مقابل ہے یعنی واجب کو کرنا لازم ہے اور مکروہ تحریمی کو چھوڑنا لازم ہے۔
اسا ء ت:۔وہ ہے جس کا کرنا برا اور کبھی اتفاقیہ کر لینے والا لائق عتاب اور اس کو کرنے کی عادت بنا لینے والامستحق عذاب ہے۔
(بہار شریعت،ج۱،ح ۲،ص۹)
" واضح رہے کہ یہ سنت موکدہ کا مقابل ہے یعنی سنت موکدہ کو کرنا ثواب اور چھوڑنا برا ہے اور اساء ت کو چھوڑنا ثواب اور کرنا برا ہے۔
مکروہ تنزیہی:۔وہ ہے جس کا کرنا شریعت کو پسند نہیں مگر اس کے کرنے والے پر عذاب نہیں ہوگا۔ یہ سنت غیر موکدہ کا مقابل ہے۔"
(بہار شریعت،ج۱،ح ۲،ص۹)
خلاف اولیٰ:۔وہ ہے کہ اس کو چھوڑ دینا بہتر تھا لیکن اگر کر لیا تو کوئی مضائقہ نہیں۔ یہ مستحب کا مقابل ہے۔
(بہار شریعت،ج۱،ح ۲،ص۹)
ہر مسلمان مرد اور عورت کو یہ جان لینا چاہیے کہ ایمان اور عقیدوں کو صحیح کر لینے کے بعد سب فرضوں میں سب سے بڑا فرض نماز ہے۔ کیونکہ قرآن مجید اور احادیث میں بہت زیادہ بار بار اس کی تاکید آئی ہے۔ یاد رکھو کہ جو نماز کو فرض نہ مانے یا نماز کی توہین کرے یا نماز کو ایک ہلکی اور بے قدر چیز سمجھ کر اس کی طرف بے توجہی برتے وہ کافر اور اسلام سے خارج ہے اور جو شخص نماز نہ پڑھے وہ بہت بڑا گناہ گار' قہرقہار اور غضب جبار میں گرفتار اور عذاب جہنم کا حقدار ہے اور وہ اس لائق ہے کہ بادشاہ اسلام پہلے اس کو تنبیہ و سزا دے۔ پھر بھی وہ نماز نہ پڑھے تو اس کو قید کردے۔ یہاں تک کہ توبہ کرے اور نماز پڑھنے لگے بلکہ امام مالک و شافعی و احمد رحمۃ اﷲتعالی علیہم کے نزدیک بادشاہ اسلام کو اس کے قتل کا حکم ہے۔
(درمختار،کتاب الصلاۃ، ج۲،ص۸)
شریعت کا یہ مسئلہ ہے کہ بچہ جب سات برس کا ہو جائے تو اس کو نماز سکھا کر نماز پڑھنے کا حکم دیں۔ اور جب بچے کی عمر دس برس کی ہو جائے تو مار مار کر اس سے نماز پڑھوائیں۔
(شعب الایمان للبیہقی،باب فی حقوق الاولاد والاھلین،رقم ۸۶۵۰،ج۶،ص۳۹۸)
مسئلہ:۔نماز خالص بدنی عبادت ہے۔ اس میں نیابت جاری نہیں ہو سکتی۔ یعنی ایک کی طرف سے دوسرا نہیں پڑھ سکتا۔ نہ یہ ہو سکتا ہے کہ زندگی میں نماز کے بدلے کچھ مال بطور فدیہ ادا کرکے نماز سے چھٹکارا حاصل کرلے۔ ہاں البتہ اگر کسی پر کچھ نمازیں رہ گئی ہیں اور انتقال کر گیا اور وصیت کر گیا کہ اس کی نمازوں کا فدیہ ادا کیا جائے تو امید ہے کہ ان شاء اﷲ یہ قبول ہو۔ اور یہ وصیت بھی وارثوں کو اس کی طرف سے پوری کرنی چاہیے کہ قبول و عفو کی امید ہے۔
(درمختاروردالمحتار،کتاب الصلاۃ،مطلب فیما یعیر الکافر بہ مسلمامن الافعال،ج۲،ص۱۲۔۱۳)
"شرائط نماز :۔اس سے پہلے کہ ہم نماز کا طریقہ بتائیں ان چھ چیزوں کو بتا دینا ضروری ہے جن کے بغیر نماز شروع نہیں ہوسکتی۔ ان چھ چیزوں کو ''شرائط نماز'' کہتے ہیں اور وہ یہ ہیں۔
پہلی پاکی۔ دوسری شرمگاہ کو چھپانا۔ تیسری نماز کا وقت۔ چوتھی قبلہ کی طرف منہ کرنا۔ پانچویں نیت۔ چھٹی تکبیر تحریمہ۔"
(الدرالمختاروردالمحتار، کتاب الصلاۃ،باب شروط الصلاۃ،مطلب فی استقبال القبلۃ،ج۲،ص۹۰۔۱۳۳)
پہلی شرط)یعنی ''پاکی'' کا مطلب ہے کہ نمازی کا بدن،اسکے کپڑے، نماز کی جگہ سب پاک ہوں اور کوئی نجاست جیسے پیشاب، پاخانہ، خون، لید، گوبر، مرغی کی بیٹ وغیرہ نہ لگی ہو۔ اور نمازی بے غسل اور بے وضو بھی نہ ہو۔
"دوسری شرط)یعنی ''شرمگاہ چھپانے'' کا یہ مطلب ہے کہ مرد کا بدن ناف سے لے کر گھٹنوں کے نیچے تک شرمگاہ ہے اس لئے نماز کی حالت میں کم سے کم ناف سے لے کر گھٹنوں کے نیچے تک چھپا رہنا ضروری ہے اور عورت کا پورا بدن شرمگاہ ہے اس لئے نماز کی حالت میں عورت کے تمام بدن کا ڈھکا رہنا ضروری ہے۔ صرف چہرہ اور ہتھیلی اور ٹخنوں کے نیچے قدم کے کھلے رہنے کی اجازت ہے۔ ٹخنے کو بھی چھپا رہنا چاہیے۔
تیسری شرط)یعنی ''وقت'' کا یہ مطلب ہے کہ جس نماز کے لئے جو وقت مقرر ہے وہ نماز اسی وقت میں پڑھی جائے۔
چوتھی شرط)یعنی ''قبلہ کو منہ کرنا'' اس کا مطلب ظاہر ہے کہ نماز میں خانہ کعبہ کی طرف اپنا چہرہ کرے۔
پانچویں شرط)یعنی ''نیت'' کا یہ مطلب ہے کہ جس وقت کی جو نماز فرض یا واجب یا سنت یا نفل یا قضا پڑھتا ہو۔ دل میں اس کا پکا ارادہ کرنا کہ میں فلاں نماز پڑھ رہا ہوں اور اگر دل میں ارادہ کے ساتھ زبان سے بھی کہہ لے تو بہتر ہے۔
چھٹی شرط)''تکبیر تحریمہ'' یعنی اﷲ اکبر کہنا۔ یہ نماز کی آخری شرط ہے کہ اس کے کہتے ہی نماز شروع ہو گئی۔ اب اگر نماز کے سوا دوسرا کوئی کام کیا یا کچھ بولا تو نماز ٹوٹ گئی۔ پہلی پانچوں شرطوں کا تکبیر تحریمہ سے پہلے اور نماز ختم ہونے تک موجود رہنا ضروری ہے اگر ایک شرط بھی نہ پائی گئی تو نماز نہیں ہو گی۔"
وضو کرنے والے کو چاہیے کہ اپنے دل میں وضو کا پکا ارادہ کرکے قبلہ کی طرف منہ کرکے کسی اونچی جگہ بیٹھے اور
بسم اﷲالرحمٰن الرحیم
پڑھ کر پہلے دونوں ہاتھ تین مرتبہ گٹوں تک دھوئے۔ پھر مسواک کرے۔ اگر مسواک نہ ہو تو انگلی سے اپنے دانتوں اور مسوڑھوں کو مل کر صاف کرے۔ اور اگر دانتوں یا تالو میں کوئی چیز اٹکی یا چپکی ہو تو اس کو انگلی یا مسواک یا خلال سے نکالے اور چھڑائے۔ پھر تین مرتبہ کلی کرے۔ اور اگر روزہ دار نہ ہو تو غرغرہ بھی کرے لیکن اگر روزہ دار ہو تو غرغرہ نہ کرے کہ حلق کے اندر پانی چلے جانے کا خطرہ ہے پھر داہنے ہاتھ سے تین دفعہ ناک میں پانی چڑھائے اور بائیں ہاتھ سے ناک صاف کرے پھر دونوں ہاتھوں میں پانی لے کر تین مرتبہ اس طرح چہرہ دھوئے کہ ماتھے پر بال جمنے کی جگہ سے لے کر ٹھوڑی کے نیچے تک اور داہنے کان کی لو سے بائیں کان کی لو تک سب جگہ پانی بہ جائے اور کہیں ذرا بھی پانی بہنے سے نہ رہ جائے۔ اگر داڑھی ہو تو اسے بھی دھوئے اور داڑھی میں انگلیوں سے خلال بھی کرے لیکن اگر احرام باندھے ہو تو خلال نہ کرے پھر تین مرتبہ کہنی سمیت یعنی کہنی سے کچھ اوپر داہنا ہاتھ دھوئے پھر اسی طرح تین مرتبہ بایاں ہاتھ دھوئے اگر انگلی میں تنگ انگوٹھی یا چھلہ ہو یا کلائیوں میں تنگ چوڑیاں ہو ں تو ان سبھوں کو ہلا کر دھوئے تاکہ سب جگہ پانی بہ جائے پھر ایک بار پورے سر کا مسح کرے اس کا طریقہ یہ ہے کہ دونوں ہاتھوں کو پانی سے تر کرکے انگوٹھے اور کلمہ کی انگلی چھوڑ کر دونوں ہاتھوں کی تین تین انگلیوں کی نوک کو ایک دوسرے سے ملائے اور ان چھؤں انگلیوں کو اپنے ماتھے پر رکھ کر پیچھے کی طرف سر کے آخری حصہ تک لے جائے۔ اس طرح کہ کلمہ کی دونوں انگلیاں اور دونوں انگوٹھے اور دونوں ہتھیلیاں سر سے نہ لگنے پائیں۔ پھر سر کے پچھلے حصہ سے ہاتھ ماتھے کی طرف اس طرح لائے کہ دونوں ہتھیلیاں سر کے دائیں بائیں حصہ
پر ہوتی ہوئی ماتھے تک واپس آجائیں۔ پھر کلمہ کی انگلی کے پیٹ سے کانوں کے اندر کے حصوں کا اور انگوٹھے کے پیٹ سے کان کے اوپر کا مسح کرے اور انگلیوں کی پیٹھ سے گردن کا مسح کرے۔ پھر تین بار داہنا پاؤں ٹخنے سمیت یعنی ٹخنے سے کچھ اوپر تک دھوئے پھر بایاں پاؤں اسی طرح تین دفعہ دھوئے پھر بائیں ہاتھ کی چھنگلیا سے دونوں پیروں کی انگلیوں کا اس طرح خلال کرے کہ پیر کی داہنی چھنگلیا سے شروع کرے اور بائیں چھنگلیا پر ختم کرے۔ وضو کر لینے کے بعد ایک مرتبہ یہ دعا پڑھے۔
(اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ مِنَ الَتَّوَّابِیْنَ وَاجْعَلْنِیْ مِنَ الْمُتَطَھِّرِیْنَ
اور کھڑے ہو کر وضو کا بچا ہوا پانی تھوڑا سا پی لے کہ یہ بیماریوں سے شفا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ وضو میں ہر عضو کو دھوتے ہوئے بِسْمِ اﷲ پڑھ لیا کرے اور درود شریف و کلمہ شہادت بھی پڑھتا رہے اور یہ بھی بہت بہتر ہے کہ وضو پورا کر لینے کے بعد آسمان کی طرف منہ کر کے
سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَ بِحَمْدِکَ اَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ اَسْتَغْفِرُکَ وَاَتُوْبُ اِلَیْکَ )
(درمختارمع ردالمحتار،کتاب الطہارۃ،مطلب فی بیان ارتقاء الحدیث الضعیف۔۔۔ الخ، ج۱،ص۲۷۵)
"اور سورۂ انا انزلنا پڑھے مگر ان دعاؤں کا پڑھنا ضروری نہیں پڑھ لے تو اچھااور ثواب ہے۔ نہ پڑھے تو کوئی حرج نہیں۔
اوپر جو کچھ بیان ہوا ہے یہ وضو کرنے کا طریقہ ہے لیکن یاد رکھو کہ وضو میں کچھ چیزیں ایسی ہیں کہ جن کے چھوٹنے یا ان میں کچھ کمی ہو جانے سے وضو نہ ہو گا اور کچھ باتیں سنت ہیں کہ جن کو اگر چھوڑ دیا جائے تو گناہ ہوگا۔ اور کچھ چیزیں مستحب ہیں کہ ان کے چھوڑ دینے سے وضو کا ثواب کم ہو جاتا ہے۔ چنانچہ نیچے ہم ان چیزوں کا بیان لکھتے ہیں۔ ان کو پڑھ کر خوب یاد کرلو۔"
وضو کے فرائض:۔وضو میں چار چیزیں فرض ہیں(۱)پورے چہرے کا ایک بار دھونا۔ (۲)ایک ایک بار دونوں ہاتھوں کا کہنیوں سمیت دھونا۔(۳)ایک ایک بار
چوتھائی سرکا مسح کرنا یعنی گیلا ہاتھ سر پر پھیر لینا۔(۴)ایک بار ٹخنوں سمیت دونوں پیروں کو دھونا۔
(پ۶،المائدۃ:۶،الفتاوی الھندیۃ، کتاب الطہارۃ، الباب الاول فی الوضوء،الفصل الاول فی فرائض الوضوء ،ج۱،ص۵۳)
مسئلہ:۔وضو یا غسل میں کسی عضو کو دھونے کا مطلب یہ ہے کہ جس عضو کو دھوؤ اس کے ہر حصہ پر کم سے کم دو بوند پانی بہہ جائے اگر کوئی حصہ بھیگ تو گیا مگر اس پر پانی نہیں بہا تووضو یا غسل نہیں ہو گا۔ بہت سے لوگ بدن پر پانی ڈال کر ہاتھ پھرا کر بدن پر پانی چپڑ لیتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ بدن دھل گیا۔ یہ غلط طریقہ ہے۔ بدن پر ہر جگہ پانی کا کم سے کم دو بوند بہہ جانا ضروری ہے۔
(درمختار،مع ردالمحتار،کتاب الطہارۃ، باب ارکان الوضوء الاربعۃ،مطلب فی الفرض القطعی والظنی، ج۱،ص۲۱۷۔۲۱۸)
اور مسح کرنے کا یہ مطلب ہے کہ گیلا ہاتھ پھیر لیا جائے۔ سر کے مسح میں بعض جاہلوں کا یہ طریقہ ہے کہ مسح کیلئے ہاتھوں میں پانی لے کر اس کو چومتے ہیں۔ پھر مسح کرتے ہیں۔ یہ ایک لغو کام ہے۔ مسح میں گیلا ہاتھ سر پر پھرا لینا چاہیے۔
(ردالمحتار،کتاب الطہارۃ،مطلب فی معنی الاشتقاق وتقسیمہ الی ثلثۃ اقسام...الخ، ج۱،ص۲۲۲)
وضو کی سنتیں:۔وضو میں سولہ چیزیں سنت ہیں۔(۱)وضو کی نیت کرنا (۲)بسم اﷲ پڑھنا (۳)پہلے دونوں ہاتھوں کو تین دفعہ دھونا (۴)مسواک کرنا (۵)داہنے ہاتھ سے تین مرتبہ کلی کرنا (۶)داہنے ہاتھ سے تین مرتبہ ناک میں پانی چڑھانا (۷)بائیں ہاتھ سے ناک صاف کرنا (۸)داڑھی کا انگلیوں سے خلال کرنا (۹)ہاتھ پاؤں کی انگلیوں کا خلال کرنا(۱۰)ہر عضو کو تین تین بار دھونا
(۱۱)پورے سر کا ایک بار مسح کرنا (۱۲)ترتیب سے وضو کرنا (۱۳)داڑھی کے جو بال منہ کے دائرہ کے نیچے ہیں ان پر گیلا ہاتھ پھرا لینا (۱۴)اعضا کو لگاتار دھونا کہ ایک عضو سوکھنے سے پہلے ہی دوسرے عضو کو دھولے (۱۵)کانوں کا مسح کرنا (۱۶)ہر مکروہ بات سے بچنا ۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الطہارۃ، الفصل الثانی فی سنن الوضوء ،ج۱،ص۶۔۸)
وضو کے مستحبات:۔وضو میں جو چیزیں مستحب ہیں ان کی تعداد بہت زیادہ ہے جن میں سے کچھ ضمناً وضو کے طریقہ میں ذکر ہو چکیں۔ باقی کو اگر تفصیل کے ساتھ جاننا ہو تو بڑی کتابوں مثلاً ہمارے استاد حضرت صدر الشریعۃ مولانا امجد علی صاحب قبلہ رحمۃاﷲتعالی علیہ کی کتاب ''بہار شریعت'' کا مطالعہ کیجئے۔
بہر حال چند مستحبات یہ ہے (۱)جو اعضا جوڑے ہیں مثلاً دونوں ہاتھ دونوں پاؤں تو ان میں داہنے سے دھونے کی ابتدا کریں مگر دونوں رخسارے کہ ان دونوں کو ایک ہی ساتھ دھونا چاہے۔ یوں ہی دونوں کانوں کا ایک ہی ساتھ مسح ہونا چاہے(۲)انگلیوں کی پیٹھ سے گردن کا مسح کرنا (۳)اونچی جگہ بیٹھ کر وضو کرنا (۴)وضو کا پانی پاک جگہ گرانا (۵)اپنے ہاتھ سے وضو کا پانی بھرنا(۶)دوسرے وقت کے لئے پانی بھر کر رکھ دینا (۷)بلا ضرورت وضو کرنے میں دوسرے سے مدد نہ لینا (۸)ڈھیلی انگوٹھی کو بھی پھرا لینا (۹)صاحب عذر نہ ہو تو وقت سے پہلے وضو کر لینا (۱۰)اطمینان سے وضو کرنا (۱۱) کانوں کے مسح کے وقت انگلیاں کان کے سوراخوں میں داخل کرنا (۱۲)کپڑوں کو ٹپکتے ہوئے قطرات سے بچانا (۱۳)وضو کا برتن مٹی کا ہو (۱۴)اگر تانبے وغیرہ کا ہو تو قلعی کیا ہوا ہو (۱۵)اگر وضو کا برتن لوٹا ہو تو
بائیں طرف رکھیں (۱۶)اگر لوٹے میں دستہ لگا ہوا ہو تو دستہ کو تین بار دھو لیں (۱۷)اور ہاتھ دستہ پر رکھیں لوٹے کے منہ پر ہاتھ نہ رکھیں (۱۸) ہر عضو کو دھو کر اس پر ہاتھ پھیر دینا تاکہ قطرے بدن یا کپڑے پر نہ ٹپکیں (۱۹)ہر عضو کو دھوتے ہوئے دل میں وضو کی نیت کا حاضر رہنا (۲۰)ہر عضو کو دھوتے وقت بِسْمِ اﷲ اور درود شریف و کلمہ شہادت پڑھنا (۲۱)ہر عضو کو دھوتے وقت الگ الگ عضو کے دھونے کی دعاؤں کو پڑھتے رہنا (۲۲)اعضائے وضو کو بلا ضرورت پونچھ کر خشک نہ کرے اور اگر پونچھے تو کچھ نمی باقی رہنے دے (۲۳)وضو کرکے ہاتھ نہ جھٹکے کہ یہ شیطان کا پنکھا ہے (۲۴)وضو کے بعد اگر مکروہ وقت نہ ہو تو دو رکعت نماز پڑھ لے اس کو تحیۃ الوضو کہتے ہیں۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الطہارۃ،الفصل الثالث فی المستحبات الوضوء، ج۱،ص۸۔۹)
وضو کے مکروہات:۔وضو میں اکیس باتیں مکروہ ہیں۔ یعنی یہ چیزیں وضو میں نہ ہونی چاہیں۔(۱)عورت کے وضو یا غسل کے بچے ہوئے پانی سے وضو کرنا (۲)وضو کے لئے نجس جگہ پر بیٹھنا (۳)نجس جگہ وضو کاپانی گرانا (۴)مسجد کے اندر وضو کرنا (۵)وضو کے اعضا سے وضو کے برتن میں قطرے ٹپکانا (۶)پانی میں کھنکار یا تھوک ڈالنا (۷)قبلہ کی طرف تھوکنا یا کھنکار ڈالنا (۸)بلا ضرورت دنیا کی بات کرنا (۹) ضرورت سے زیادہ پانی خرچ کرنا (۱۰)اس قدر کم پانی خرچ کرنا کہ سنت ادا نہ ہو (۱۱)منہ پر پانی مارنا (۱۲)منہ پر پانی ڈالتے وقت پھونکنا (۱۳)صرف ایک ہاتھ سے منہ دھونا(۱۴)ہونٹ یا آنکھوں کو زور سے بند کرکے منہ دھونا (۱۵)حلق اور گلے کا مسح کرنا (۱۶)دائیں ہاتھ سے کلی کرنا یا ناک میں پانی ڈالنا (۱۷)داہنے ہاتھ سے ناک صاف کرنا (۱۸)اپنے لئے کوئی وضو کا برتن مخصوص کرلینا (۱۹)تین نئے
"نئے پانیوں سے تین دفعہ سر کا مسح کرنا (۲۰)جس کپڑے پر استنجا کا پانی خشک کیا ہو اس سے وضو کے اعضاء پونچھنا(۲۱)دھوپ میں گرم ہونے والے پانی سے وضو کرنا ان کے علاوہ ہر سنت کو چھوڑنا مکروہ ہے۔
مسئلہ:۔وضو نہ ہو تو نماز و سجدہ تلاوت اور قرآن شریف چھونے کے لئے وضو کرنا فرض ہے اور خانہ کعبہ کے طواف کے لئے وضو واجب ہے۔"
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الطہارۃ،الفصل الثالث فی المستحبات الوضوء، ج۱،ص۹)
مسئلہ:۔جنب کو کھانے پینے سونے کے لئے وضو کرلینا سنت ہے اسی طرح اذان و اقامت و خطبۂ جمعہ و عیدین اور روضہ مبارکۂ رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم كی زیارت کے وقت،وقوف عرفہ اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کے لئے وضو کر لینا سنت ہے۔
(ردالمحتار،کتاب الطہارۃ، مطلب فی اعتبارات المرکب التّام، ج۱،ص۲۰۶)
مسئلہ:۔سونے کے لئے' سونے کے بعد' میت کو نہلانے یا اٹھانے کے بعد' جماع سے پہلے' غصہ آجانے کے وقت' زبانی قرآن شریف پڑھنے' علم حدیث اور دوسرے دینی علوم پڑھنے پڑھانے کے لئے یا دینی کتابیں چھونے کے لئے' شرمگاہ چھونے یا کافر کے بدن چھو جانے یا صلیب یا بت چھو جانے کے بعد' جھوٹ بولنے' غیبت کرنے اور ہر گناہ کے بعد توبہ کرتے وقت' کسی عورت کے بدن سے اپنا بدن بے پردہ چھو جانے سے یا کوڑھی اور برص والے کا بدن چھو جانے سے' بغل کھجانے اور اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد' ان سب صورتوں میں وضو کرلینا مستحب ہے۔
(ردالمحتار،کتاب الطہارۃ، مطلب فی اعتبارات المرکب التّام، ج۱،ص۲۰۶)
وضو توڑنے والی چیزیں:۔(۱)پیشاب یا پاخانہ کرنا(۲)پیشاب یا پاخانہ کے راستوں سے کسی بھی چیز یا پاخانہ کے راستہ سے ہوا کا نکلنا (۳)بدن کے کسی
حصہ یا کسی مقام سے خون یا پیپ نکل کر ایسی جگہ بہنا کہ جس کا وضو یا غسل میں دھونا فرض ہے(۴)کھانا پانی یا خون یا پت کی منہ بھر کر قے ہو جانا(۵)اسطرح سو جانا کہ بدن کے جوڑ ڈھیلے پڑ جائیں (۶)بے ہوش ہوجانا(۷)غشی طاری ہو جانا (۸)کسی چیز کا اس حد تک نشہ چڑھ جانا کہ چلنے میں قدم لڑ کھڑائیں (۹)دکھتی ہوئی آنکھ سے پانی کا کیچڑ نکلنا (۱۰)رکوع وسجدہ والی نمار میں قہقہہ لگا کر ہنسنا۔
(الفتاوی الھندیۃ ، کتاب الطہارۃ،الفصل الخامس فی نواقض الوضوء، ج۱، ص۹۔۱۳/ بہارشریعت،ج۱،ح ۲،ص۲۴)
مسئلہ:۔وضو کے بعد کسی کا ستر دیکھ لیا یا اپنا ستر کھل گیا یا خود بالکل ننگے ہو کر وضو کیا یا نہانے کے وقت ننگے ہی ننگے وضو کیا تو وضو نہیں ٹوٹا۔ یہ جو جاہلوں میں مشہور ہے کہ اپنا ستر کھل جانے یا دوسرے کا ستر دیکھ لینے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ یہ بالکل غلط ہے ہاں البتہ یہ وضو کے آداب میں سے ہے کہ ناف سے زانو کے نیچے تک سب ستر چھپا ہوا ہو بلکہ استنجا کے بعد فوراً ہی چھپا لینا چاہے کیونکہ بغیر ضرورت ستر کھلا رہنا منع ہے اور دوسرے کے سامنے ستر کھولنا حرام ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ ، کتاب الطہارۃ،الباب الاول،الفصل الخامس فی نواقض الوضوء، ج۱، ص۱۳)
مسئلہ:۔اگر ناک صاف کی اس میں سے جما ہوا خون نکلا تو وضو نہیں ٹوٹا اور اگر بہتا ہوا خون نکلا تو وضو ٹوٹ گیا۔
(ردالمحتار،کتاب الطہارۃ،مطلب نواقض الوضوء،ج۱،ص۲۹۲)
مسئلہ:۔چھالا نوچ ڈالا اگر اس میں کا پانی بہہ گیا تو وضو ٹوٹ گیا اور اگر پانی نہیں بہا تو وضو نہیں ٹوٹتا۔
(الفتاوی الھندیۃ ، کتاب الطہارۃ،الفصل الخامس فی نواقض الوضوء، ج۱، ص۱۱)
"مسئلہ:۔کان میں تیل ڈالا تھااور ایک دن بعد وہ تیل کان یا ناک سے نکلا تو وضو نہیں ٹوٹا۔
مسئلہ:۔زخم پر گڑھا پڑ گیا اور اس میں سے کچھ تری چمکی مگر بہی نہیں تو وضو نہیں ٹوٹا۔"
(الفتاوی الھندیۃ ، کتاب الطہارۃ،الفصل الخامس فی نواقض الوضوء، ج۱، ص۱۰)
مسئلہ:۔کھٹمل' مچھر' مکھی' پسو نے خون چو ساتو وضو نہیں ٹوٹا۔
(الفتاوی الھندیۃ ، کتاب الطہارۃ،الفصل الخامس فی نواقض الوضوء، ج۱، ص۱۱)
مسئلہ:۔قے میں صرف کیچوا گرا تو وضو نہیں ٹوٹا۔
(درمختار،کتاب الطہارۃ،باب ارکان الوضواربعۃ،ج۱،ص۲۸۸)
اور اگر اس کے ساتھ کچھ پانی وغیرہ بھی نکلا تو دیکھیں گے منہ بھر ہے یا نہیں اگر منہ بھر ہو تو وضو ٹوٹ جائے گا اور اگر بھر منہ سے کم ہو تو وضو نہیں ٹوٹے گا۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ،الباب الاول،الفصل الثانی،ج۱،ص۱۱)
مسئلہ:۔وضو کرنے کے درمیان اگر وضو ٹوٹ گیا تو پھر شروع سے وضو کرے یہاں تک کہ اگر چلو میں پانی لیا اور ہوا خارج ہو گئی تو یہ چلو کا پانی بیکار ہوگیا۔ اس پانی سے کوئی عضو نہ دھوئے۔ بلکہ دوسرے پانی سے پھر سے وضو کرے۔
(فتاوی رضویہ،ج۱،ص۲۵۵۔۲۵۶)
مسئلہ:۔دکھتی ہوئی آنکھ' دکھتی ہوئی چھاتی' دکھتے ہوئے کان سے جو پانی نکلے وہ نجس ہے اوراس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔
(درمختار،کتاب الطہارۃ،مطلب فی ندب مراعاۃ الخلاف اذا لم یرتکب مکروہ مذھبہ،،ج۱،ص۳۰۵)
مسئلہ:۔ کسی کے تھوک میں خون نظر آیا تو اگر تھوک کا رنگ زردی مائل ہے تو وضو نہیں ٹوٹا۔ اگر تھوک سرخی مائل ہوگیا تو وضو ٹوٹ گیا۔
(درمختار،کتاب الطہارۃ،مطلب نواقض الوضوء،ج۱،ص۲۹۱۔۲۹۲)
مسئلہ:۔وضو کے بعد ناخن یا بال کٹایا تو وضو نہیں ٹوٹا نہ وضو کو دُہرانے کی ضرورت ہے۔ نہ ناخن کو دھونے اور نہ سر کو مسح کرنے کی ضرورت ہے۔
(الفتاوٰی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ،الباب الاول،الفصل الاول،ج۱،ص۴)
مسئلہ:۔اگر وضو کرنے کی حالت میں کسی عضو کے دھونے میں شک ہوا اور یہ زندگی کا پہلا واقعہ ہے تو اس عضو کو دھو لے اور اگر اس قسم کا شک پڑا کرتا ہے تو اس کی طرف کوئی توجہ نہ کرے۔ یوں ہی اگر وضو پورا ہو جانے کے بعد شک پڑ جائے تو اس کا کچھ خیال نہ کرے۔
(الدرالمختار،کتاب الطہارۃ،مطلب فی ندب مراعاۃ الخلاف...الخ،ج۱،ص۳۰۹۔۳۱۰)
مسئلہ:۔جو باوضو تھا اب اسے شک ہے کہ وضو ہے یا ٹوٹ گیا تو اس کو وضو کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہاں وضو کرلینا بہتر ہے جبکہ یہ شبہ بطور وسوسہ نہ ہوا کرتا ہو اور اگر وسوسہ سے ایسا شبہ ہو جایا کرتا ہو تو اس شبہ کو ہر گز نہ مانے۔ اس صورت میں احتیاط سمجھ کر وضو کرنا احتیاط نہیں بلکہ وسوسہ کی اطاعت ہے۔
(الدرالمختار،کتاب الطہارۃ،مطلب فی ندب مراعاۃ الخلاف...الخ، ج۱، ص۳۰۹۔۳۱۰)
مسئلہ:۔اگر بے وضو تھا۔ اب اسے شک ہے کہ میں نے وضو کیا یا نہیں تو وہ یقیناً بلا وضو ہے۔اس کو وضو کرنا ضروری ہے۔
( الدرالمختار،کتاب الطہارۃ،مطلب فی ندب مراعاۃ الخلاف...الخ،،ج۱،ص۳۱۰)
مسئلہ:۔یہ یاد ہے کہ وضو میں کوئی عضو دھونے سے رہ گیا مگر معلوم نہیں کہ وہ کونسا عضو تھا تو بایاں پاؤں دھولے۔
(ردالمحتار،کتاب الطہارۃ،باب ارکان الوضوء اربعۃ،ج۱،ص۳۱۰)
مسئلہ:۔شیر خوار بچے نے قے کی اور دودھ ڈال دیا اگر وہ منہ بھر قے ہے نجس ہے درہم سے زیادہ جگہ میں جس چیز کو لگ جائے ناپاک کردے گا لیکن اگر یہ دودھ معدہ سے نہیں آیا بلکہ سینہ تک پہنچ کر پلٹ آیا ہے تو پاک ہے۔
(ردالمحتار مع درمختار،کتاب الطہارۃ،مطلب نواقض الوضوء،ج۱،ص۲۹۰)
مسئلہ:۔سوتے میں جو رال منہ سے گرے اگر چہ پیٹ سے آئے' اگر چہ وہ بدبودار ہو پاک ہے۔
(درمختار،کتاب الطہارۃ،مطلب نواقض الوضوء،ج۱،ص۲۹۰)
مسئلہ:۔مُردے کے منہ سے جو پانی بہے ناپاک ہے۔
(درمختار،کتاب الطہارۃ،مطلب نواقض الوضوء،ج۱،ص۲۹۰))
مسئلہ:۔منہ سے اتنا خون نکلا کہ تھوک سرخ ہوگیا۔ اگر لوٹے یا کٹورے کو منہ لگا کر کلی کو پانی لیا۔ تو لوٹا' کٹورا اور کل پانی نجس ہو جائے گا چلو سے پانی لے کر کلی کرے اور پھر ہاتھ دھو کر کلی کے لئے پانی لے۔
(درمختاروردالمحتار،کتاب الطہارۃ،مطلب نواقض الوضوء،ج۱،ص۲۹۱)
غسل میں تین چیزیں فرض ہے۔ اگر ان میں سے کسی ایک کو چھوڑ دیا یا ان میں سے کسی میں کوئی کمی کردی تو غسل نہیں ہوگا۔
(درمختاروردالمحتار،کتاب الطہارۃ،مطلب فی ابحاث الغسل ،ج۱،ص۳۱۱)
(۱)کلی:۔کہ منہ کے پرزے پرزے میں پانی پہنچ جائے فرض ہے یعنی ہونٹ سے حلق کی جڑ تک پورے تالو' دانتوں کی جڑ' زبان کے نیچے' زبان کی کروٹیں غرض منہ کے اندر کے پرزے پرزے کے ذرے ذرے میں پانی پہنچ کر بہہ جائے۔ اکثر لوگ یہ جانتے ہیں کہ تھوڑا سا پانی منہ میں ڈال کر اگل دینے کو کلی کہتے ہیں۔ یاد رکھو کہ غسل میں اس طرح کلی
کر لینے سے غسل نہیں ہوگا بلکہ غسل میں فرض ہے۔ بھر بھر منہ میں پانی لے کر خوب زیادہ منہ کو حرکت دے تاکہ منہ کے اندر ہر ہر حصہ میں پانی پہنچ جائے۔ اگر روزہ دار نہ ہو تو غسل کی کلی میں غرغرہ بھی کرے ہاں روزہ کی حالت میں غرغرہ نہ کرے کہ حلق کے اندر پانی چلے جانے کا خطرہ ہے۔
(درمختاروردالمحتار،کتاب الطہارۃ،مطلب فی ابحاث الغسل ،ج۱،ص۳۱۲)
(۲)ناک میں پانی چڑھانا:۔غسل میں اس طرح ناک میں پانی چڑھانا فرض ہے کہ سانس اوپر کو کھینچ کر ناک کے نتھنوں میں جہاں تک نرم حصہ ہے اس کے اندر پانی چڑھائے کہ نتھنوں کے اندر ہر جگہ اور ہر طرف پانی پہنچ کر بہہ جائے اور ناک کے اندر کی کھال یا ایک بال بھی سوکھا نہ رہ جائے ورنہ غسل نہیں ہوگا۔
(درمختاروردالمحتار،کتاب الطہارۃ،مطلب فی ابحاث الغسل ،ج۱،ص۳۱۲)
(۳)تمام بدن پر پانی بہانا:۔یعنی سر کے بالوں سے پاؤں کے تلوؤں تک بدن کے آگے پیچھے دائیں بائیں' اوپر نیچے' ہر ہر ذرے 'ہر ہر رونگٹے اور ہر ایک بال کے پورے پورے حصہ پر پانی بہانا غسل میں فرض ہے بعض لوگ سر پر پانی ڈال کر بدن پرادھر ادھر ہاتھ پھرا لیتے ہیں۔ اور پانی بدن پر پوت لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ غسل ہو گیا۔ حالانکہ بدن کے بہت سے ایسے حصے ہیں کہ اگر احتیاط کے ساتھ غسل میں ان کا دھیان نہ رکھا جائے تو وہاں پانی نہیں پہنچتا۔ اور وہ سوکھا ہی رہ جاتا ہے۔ یاد رکھو کہ اس طرح نہانے سے غسل نہیں ہوگا اور آدمی نماز پڑھنے کے قابل نہیں ہوگا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ غسل کرتے وقت خاص طور پر ان چند جگہوں پر پانی پہنچانے کا دھیان رکھیں۔ سر اور داڑھی مونچھ بھوؤں کے ایک ایک بال اور بدن کے ہر ہر رونگٹے کی جڑ سے نوک تک دھل جانے کا خیال رکھیں۔ اسی طرح
کان کا جو حصہ نظر آتا ہے اس کی گراریوں اور سوراخ۔ اسی طرح ٹھوڑی اور گلے کا جوڑ۔ پیٹ کی بلٹیں۔ بغلیں ناف کے غار' ران اور پیڑو کا جوڑ' جنگاسا؛ دونوں سرینوں کے ملنے کی جگہ' ذکر اور خصیوں کے ملنے کی جگہ' خصیوں کے نیچے کی جگہ' عورت کے ڈھلکے ہو ئے پستان کے نیچے کا حصہ' عورت کی شرمگاہ کا ہر حصہ ان سب کو خیال سے پانی بہا بہا کر دھوئیں تاکہ ہر جگہ پانی پہنچ کر بہہ جائے۔
(درمختاروردالمحتار،کتاب الطہارۃ،مطلب فی ابحاث الغسل ،ج۱،ص۳۱۲/ بہارشریعت،ج۱،ح۲،ص۳۵)
غسل کا طریقہ:۔غسل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ نیت یعنی دل میں نہانے کا ارادہ کرکے پہلے گٹوں تک دونوں ہاتھوں کو تین مرتبہ دھوئے پھر استنجا کی جگہ کو دھوئے خواہ نجاست لگی ہو یا نہ ہو۔ پھر بدن پر اگر کہیں نجاست لگی ہو تو اس کو بھی دھوئے اس کے بعد وضو کرے کلی کرنے اور ناک میں پانی چڑھانے میں خوب مبالغہ کرے۔ پھر ہاتھ سے پانی لے لے کر سارے بدن پر ہاتھ پھرا پھرا کر بدن کو ملے خصوصاً جاڑوں میں تاکہ بدن کا کوئی حصہ پانی بہنے سے نہ رہ جائے پھر داہنے کندھے پر تین بار پانی بہائے پھر تین بار بائیں کندھے پر پانی بہائے پھر سر پر اور پورے بدن پر تین بار پانی بہائے اور تمام بدن کے ہر ہر حصہ کو خوب مل مل کر دھوئے اور اچھی طرح دھیان رکھے کہ کہیں ذرہ برابر بدن کی کھال یا کوئی رونگٹا اور بال پانی بہنے سے نہ رہ جائے۔
(فتاوی رضویہ،ج۱،ص۴۴۸۔۴۵۰)
ضروری تنبیہ:۔بہت سے لوگ ایسا کرتے ہیں کہ نجس تہبند باندھ کر غسل کرتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ نہانے میں ناپاک تہبند اور بدن سب پاک ہو جائے گا حالانکہ ایسا نہیں بلکہ پانی ڈال کر تہبند اور بدن پر ہاتھ پھیرنے سے تہبند کی نجاست اور زیادہ پھیلتی ہے
"اور سارے بدن بلکہ نہانے کے برتن تک کو نجس کر دیتی ہے اس لئے نہانے میں لازم ہے کہ پہلے بدن کو اور اس کپڑے کو جس کو پہن کر نہاتے ہیں دھو کر پاک کر لیں ورنہ غسل تو کیا ہوگا اس تر ہاتھ سے جن چیزوں کو چھوئیں گے وہ بھی ناپاک ہو جائیں گی۔ اور سارا بدن اور تہبند بھی ناپاک ہی رہ جائے گا۔
مسئلہ:۔غسل میں سر کے بال گندھے ہوئے نہ ہوں تو ہر بال پر جڑ سے نوک تک پانی بہنا ضروری ہے اور اگر گندھے ہوئے ہوں تو مرد پر فرض ہے کہ ان کو کھول کر جڑ سے نوک تک ہر بال پر پانی بہائے اور عورت پر صرف بال کی جڑوں کو تر کر لینا ضروری ہے گندھے ہوئے بالوں کو کھولنا ضروری نہیں۔ ہاں اگر چوٹی اتنی سخت گندھی ہوئی ہو کہ بے کھولے جڑیں تر نہ ہوں گی تو چوٹی کو کھولنا ضروری ہے۔"
(درمختاروردالمحتار،کتاب الطہارۃ،مطلب فی ابحاث الغسل،ج۱،ص۳۱۵۔۳۱۶)
مسئلہ:۔غسل میں کانوں کی بالیوں اور ناک کی کیل کے سوراخوں میں بالیوں اور کیل کو پھرا کر پانی پہنچانا ضروری ہے۔
(فتاوی رضویہ،ج۱،ص۴۴۸)
کن کن چیزوں سے غسل فرض ہو جاتا ہے:۔جن چیزوں سے غسل فرض ہو جاتا ہے وہ پانچ ہیں۔ (۱)منی کا اپنی جگہ سے شہوت کے ساتھ جدا ہو کر نکلنا(۲)احتلام یعنی سوتے میں منی نکل جانا (۳)ذکر کے سر کا عورت کے آگے یا پیچھے یا مرد کے پیچھے داخل ہونادونوں پر غسل فرض کر دیتا ہے(۴)حیض کا ختم ہو جانا (۵)نفاس سے فارغ ہونا۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ،الباب الثانی فی الغسل، الفصل الثالث فی المعانی الموجبۃ للغسل وھی ثلاثۃ،ج۱،ص۱۴۔۱۶)
مسئلہ:۔جمعہ' عید' بقر عید' عرفہ کے دن اور احرام باندھتے وقت غسل کرلینا سنت ہے۔
(الفتاوی الھندیۃکتاب الطہارۃ، الباب الثانی فی الغسل، الفصل الثالث فی المعانی الموجبۃ للغسل، ج۱،ص۱۶)
مسئلہ:۔میدان عرفات اور مزدلفہ میں ٹھہرنے حرم کعبہ اور روضہ منورہ کی حاضری' طواف کعبہ۔ منیٰ میں داخل ہونے' جمروں کو کنکریاں مارنے کے لئے غسل کرلینا مستحب ہے۔ اسی طرح شب قدر' شب برات' عرفہ کی رات میں' مردہ نہلانے کے بعد' جنون اور غشی سے ہوش میں آنے کے بعد' گناہ سے توبہ کرنے کے لئے' نماز استسقاء کے لئے' گرہن کے وقت نماز کے لئے' خوف' تاریکی' آندھی کے وقت ان سب صورتوں میں غسل کرلینا مستحب ہے۔
(درمختاروردالمحتار،کتاب الطہارۃ،مطلب یوم عرفۃ افضل من یوم الجمعۃ، ج۱،ص۳۴۱۔۳۴۲)
مسئلہ:۔جس پر غسل فرض ہو اس کو بغیر نہائے (۱)مسجد میں جانا(۲)طواف کرنا (۳)قرآن مجید کا چھونا (۴)قرآن شریف کا پڑھنا (۵) کسی آیت کو لکھنا حرام ہے اور فقہ و حدیث اور دوسرے دینی کتابوں کا چھونا مکروہ ہے مگر آیت کی جگہوں پر ان کتابوں میں بھی ہاتھ لگانا حرام ہے۔
(درمختاروردالمحتار،کتاب الطہارۃ،مطلب یطلق الدعاء علی مایشمل الثناء ،ج۱،ص۳۴۶۔۳۵۶)
مسئلہ:۔درود شریف اور دعاؤں کے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں مگر بہتر ہے کہ وضو یا کلی کرلے۔ (بہارشریعت،ج۱،ح۲،ص۴۳)
مسئلہ:۔غسل خانہ کے اندر اگرچہ چھت نہ ہوننگے بدن نہانے میں کو ئی حرج نہیں ہاں عورتوں کو بہت احتیاط کی ضرورت ہے مگر ننگے نہائے تو قبلہ کی طرف منہ نہ کرے اور اگر تہبند باندھے ہوئے ہو تو نہاتے وقت قبلہ کی طرف منہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ (مراقی الفلاح،کتاب الطہارۃ،فصل آداب الغسل،ص۲۵)
مسئلہ:۔عورتوں کو بیٹھ کر نہانا بہتر ہے۔ مرد کھڑے ہو کر نہائے یا بیٹھ کر دونو ں میں کوئی حرج نہیں۔ (بہار شریعت،ج۱،ح۲،ص۳۷)
مسئلہ:۔غسل کے بعد فوراً کپڑے پہن لے۔ دیر تک ننگے بدن نہ رہے۔ (بہارشریعت،ج۱،ح۲،ص۳۷)
"مسئلہ:۔جس طرح مردوں کو مردوں کے سامنے ستر کھول کر نہانا حرام ہے اسی طرح عورتوں کو بھی عورتوں کے سامنے ستر کھول کر نہانا جائز نہیں کیونکہ دوسروں کے سامنے بلا ضرورت ستر کھولنا حرام ہے۔
(ردالمحتار،کتاب الطہارۃ،مطلب فی ابحاث الغسل،ج۱،ص۳۱۸/بہارشریعت،ج۱،ح۲،ص۳۸)"
مسئلہ:۔جس پر غسل واجب ہے اسے چاہے کہ نہانے میں تاخیر نہ کرے بلکہ جلد سے جلد غسل کرے کیونکہ حدیث شریف میں ہے جس گھر میں جنب یعنی ایسا آدمی ہو جس پر غسل فرض ہے اس گھر میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے اور اگر غسل کرنے میں اتنی دیر کر چکا کہ نماز کا آخر وقت آگیا تو اب فوراً نہانا فرض ہے۔ اب تاخیر کریگا تو گناہگار ہوگا۔ (بہارشریعت،ج۱،ح۲،ص۴۲)
مسئلہ:۔جس شخص پر غسل فرض ہے اگر وہ کھانا کھانا چاہتا ہے یا عورت سے جماع کرنا چاہتا ہے تو اس کو چاہے کہ وضو کرلے یا کم سے کم ہاتھ منہ دھولے اور کلی کرے اور اگر ویسے ہی کھا پی لیا تو گناہ نہیں مگر مکروہ ہے اور محتاجی لاتا ہے اور بے نہائے یا بے وضو کئے جماع کر لیا تو بھی کچھ گناہ نہیں مگر جس شخص کو احتلام ہوا ہو اس کو بے نہائے عورت کے پاس نہیں جانا چاہے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ،الباب الثانی فی الغسل، الفصل الثالث فی المعانی الموجبۃ۔۔۔الخ،ج۱،ص۱۶)
اگر کسی وجہ سے پانی کے استعمال پر قدرت نہ ہو تو وضو اور غسل دونوں کے لئے تیمم کر لینا جائز ہے۔ مثلاً ایسی جگہ ہو کہ وہاں چاروں طرف ایک میل تک پانی کا پتا نہ ہو۔ یا پانی تو قریب ہی میں ہو مگر دشمن یا درندہ جانور کے خوف یا کسی دوسری وجہ سے پانی نہ لے سکتا ہو۔ پانی کے استعمال سے بیماری بڑھ جانے کا اندیشہ اور گمان غالب ہو۔ تو ان صورتوں میں بجائے وضو اور غسل کے تیمم کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ،الباب الرابع فی التیمم،الفصل الاول،ج۱،ص۲۷۔۲۸)
تیمم کا طریقہ:۔تیمم کا طریقہ یہ ہے کہ بسم اﷲ پڑھ کر پہلے دل میں تیمم کی نیت کرے اور زبان سے یہ بھی کہہ دے کہ
نَوَیْتُ اَنْ اَتَیَمَّمَ تَقَرُّباً اِلَی اللہِ تَعَالٰی
پھر دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو کشادہ کرکے زمین یا دیوار پر دونوں ہاتھوں کو مارے پھر دونوں ہاتھوں کو پورے چہرے پر اس طرح پھرائے کہ جہاں تک وضو میں چہرہ دھونا فرض ہے پورے چہرہ پر ہر جگہ ہاتھ پھر جائے۔ اگر بلاق یا نتھ پہنے ہو تو اس کو ہٹا کر اس کے نیچے کی کھال پر ہاتھ پھرائے پھر دوبارہ دونوں ہاتھوں کو زمین یا دیوار پر مار کر اپنے داہنے ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر اور بائیں ہاتھ کو اپنے دائیں ہاتھ پر رکھ کر دونوں ہاتھوں پر کہنیوں سمیت ہاتھ پھرائے اور جہاں تک وضو میں دونوں ہاتھوں کا دھونا فرض ہے وہاں تک ہاتھ کے ہر حصہ پر ہاتھ پھر جائے اگر ہاتھوں میں چوڑیاں یا کوئی زیور پہنے ہوئے ہو تو زیور کو ہٹا کر اس کے نیچے کی کھال پر ہاتھ پھرائے۔ اگر چہرہ اور دونوں ہاتھ پر بال برابر جگہ پر بھی ہاتھ نہیں پھرایا تو تیمم نہیں ہو گا اس لئے خاص طور پر اس کا دھیان رکھنا چاہے کہ چہرے اور دونوں ہاتھوں پر ہر جگہ ہاتھ پھرائے۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الطہارۃ الباب الرابع فی التیمم، الفصل الاول فی امورلابدمنھا فی التیمم، ج۱،ص۲۵۔۲۶)
تیمم کے فرائض:۔تیمم میں تین چیزیں فرض ہیں۔ (۱)تیمم کی نیت
(۲)پورے چہرے پر ہاتھ پھرانا(۳)کہنیوں سمیت دونوں ہاتھوں پر ہاتھ پھرانا۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الطہارۃ الباب الرابع فی التیمم، الفصل الاول فی امورلابدمنھا ...الخ،الاستنجاء،ج۱،ص۲۵۔۲۶)
تیمم کی سنتیں:۔دس چیزیں تیمم میں سنت ہیں۔(۱)بسم اﷲ پڑھنا (۲)ہاتھوں کا زمین پر مارنا(۳)ہاتھوں کو زمین پر مار کر اگر غبار زیادہ لگ گیا ہو تو جھاڑنا (۴)زمین پر ہاتھ مار کر ہاتھوں کو لوٹ دینا (۵)پہلے منہ پر ہاتھ پھیرنا (۶)پھر ہاتھوں پر ہاتھ پھرانا(۷)چہرہ اور ہاتھوں پر لگاتار ہاتھ پھرانا۔ ایسا نہ ہو کہ چہرہ پر ہاتھ پھرا کر پھر دیر کے بعد ہاتھوں پر ہاتھ پھرائے (۸) پہلے دائیں پھر بائیں ہاتھوں پر ہاتھ پھرانا(۹)انگلیوں سے داڑھی کا خلال کرنا (۱۰)انگلیوں کا خلال کرنا جب کہ ان میں غبار بھر گیا ہو۔
(درمختارمع ردالمحتار،کتاب الطہارۃ، باب التیمم،ج۱،ص۴۳۷۔۴۳۹)
مسئلہ:۔مٹی' ریت' پتھر' گیرو وغیرہ ہر اس چیز سے تیمم ہو سکتا ہے جو زمین کی جنس سے ہو۔ لوہا' پیتل' کپڑا' رانگا' تانبا' لکڑی وغیرہ سے تیمم نہیں ہوسکتا جو زمین کی جنس سے نہیں ہیں۔ یاد رکھو کہ جو چیز آگ سے جل کر نہ راکھ ہوتی ہے نہ پگھلتی ہے وہ زمین کی جنس ہے جیسے مٹی وغیرہ اور جو چیز آگ سے جل کر راکھ ہو جائے یا پگھل جائے وہ زمین کی جنس سے نہیں۔ جیسے لکڑی اور سب دھاتیں۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الطہارۃ، الباب الرابع فی التیمم، الفصل الاول فی امورلابد...الخ،ج۱،ص۲۶)
مسئلہ:۔راکھ سے تیمم جائز نہیں۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الطہارۃ، الباب الرابع فی التیمم، الفصل الاول فی امورلابد...الخ،ج۱،ص۲۷)
مسئلہ:۔گچ کی دیوار اور پکی اینٹ سے تیمم جائز ہے اگر چہ ان پر غبار نہ ہو اسی طرح مٹی پتھر وغیرہ پر بھی غبار ہو یا نہ ہو بہر حال تیمم جائز ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الطہارۃ، الباب الرابع فی التیمم، الفصل الاول ،ج۱،ص۲۶۔۲۷)
مسئلہ:۔مسجد میں سویا تھا اور نہانے کی حاجت ہو گئی تو فوراً ہی تیمم کرکے جلد مسجد سے نکل جائے۔
(ردالمحتار،کتاب الطہارۃ، باب التیمم، ج۱،ص۴۵۸)
مسئلہ:۔کسی وجہ سے نماز کا وقت اتنا تنگ ہو گیا کہ اگر وضو کرے تو نماز قضا ہو جائے گی تو چاہے کہ تیمم کر کے نماز پڑھ لے۔ پھر لازم ہے کہ وضو کر کے اس نماز کو دہرائے۔
(ردالمحتار،کتاب الطہارۃ، باب التیمم، ج۱،ص۴۶۱۔۴۶۲)
مسئلہ:۔اگر پانی موجود ہو تو قرآن مجید کو چھونے یا سجدہ تلاوت کے لئے تیمم کرنا جائز نہیں بلکہ وضو کرنا ضروری ہے۔
(درمختاروردالمحتار،کتاب الطہارۃ،باب التیمم، ج۱،ص۴۵۸)
مسئلہ:۔جس جگہ سے ایک شخص نے تیمم کیا اسی جگہ سے دوسرا بھی تیمم کر سکتا ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ ، الباب الرابع فی التیمم، الفصل الثالث فی المتفرقات، ج۱،ص۳۱)
مسئلہ:۔عوام میں جویہ مشہور ہے کہ مسجد کی دیوار یا زمین سے تیمم ناجائز یا مکروہ ہے یہ غلط ہے مسجد کی دیوار اور زمین پر بھی تیمم بلا کراہت جائز ہے۔
(بہار شریعت،ج۱،ح ۲،بیان التیمم،ص۷۰)
مسئلہ:۔تیمم کے لئے ہاتھ زمین پر مارا اور چہرہ اور ہاتھوں پر ہاتھ پھرا نے سے پہلے ہی تیمم ٹوٹنے کا کوئی سبب پایا گیا تو اس سے تیمم نہیں کر سکتا بلکہ اس کو لازم ہے کہ دوبارہ ہاتھ زمین پر مارے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ، الباب الرابع فی التیمم، الفصل الاول،ج۱،ص۲۶)
مسئلہ:۔جن چیزوں سے وضو ٹوٹتا ہے یا غسل واجب ہوتا ہے ان سے تیمم بھی جاتا رہے گا۔ اور ان کے علاوہ پانی کے استعمال پر قادر ہو جانے سے بھی تیمم ٹوٹ جائے گا۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ، الباب الرابع فی التیمم، الفصل الثانی،ج۱،ص۲۹)
جب استنجاء خانہ میں داخل ہو نا چاہے تو
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَآئِثِ۔
(صحیح مسلم، کتاب الطہارۃ، ۳۲،باب ما یقول اذا اراد دخول الخلاء ،رقم۳۷۵،ص۱۹۹)
پڑھ کر پہلے بایاں قدم رکھے اور نکلتے وقت پہلے داہنا پاؤں نکالے اور
غُفْرَانَکَ
پڑھے۔
(سنن الترمذی،کتاب الطہارۃ،مایقول اذا خرج من الخلاء،رقم۷،ج۱،ص۸۷)
" پیشاب کے بعد استنجا کا یہ طریقہ ہے کہ پہلے پاک مٹی یا پتھر یا پھٹے پرانے کپڑے لے کر پیشاب کی جگہ کو سکھا لے اور اگر قطرہ آنے کا شبہ ہو تو کچھ ٹہل لے یا کھانس کر یا پاؤں زمین پر مار کر کوشش کرے کہ رکا ہوا قطرہ باہر نکل پڑے پھر پانی سے پیشاب کی جگہ دھو ڈالے اور پاخانہ کے بعد استنجاء کرنے کا یہ طریقہ ہے کہ پہلے چند ڈھیلوں یا پتھروں سے پاخانہ کی جگہ کو پونچھ کر صاف کرے پھر پانی سے اچھی طرح دھولے۔
مسئلہ:۔ڈھیلا اور پانی دونوں بائیں ہاتھ سے استعمال کرے۔ داہنے ہاتھ سے استنجاء نہ کرے۔"
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ، الباب السابع فی النجاسۃ واحکامھا، الفصل الثالث فی الاستنجاء،ج۱،ص۴۸۔۴۹)
مسئلہ:۔ڈھیلا استعمال کرنے کے بعد پانی سے بھی دھو لینا یہ استنجا کا مستحب طریقہ ہے ورنہ صرف ڈھیلا اور صرف پانی سے بھی استنجا کر لینا جائز ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ، الباب السابع فی النجاسۃ واحکامھا، الفصل الثالث فی الاستنجاء،ج۱،ص۴۸)
مسئلہ:۔کھانے کی چیزیں ، کاغذ، ہڈی، گوبر، کوئلہ اور جانوروں کے چارا سے استنجاء
کرنا منع ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ، الباب السابع فی النجاسۃ ، الفصل الثالث،ج۱،ص۵۰)
مسئلہ:۔پیشاب پاخانہ کرتے وقت قبلہ کی طرف منہ یا پیٹھ کرنا جائز نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں اتر یا دکھن کی جانب منہ کرنا چاہے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ، الباب السابع فی النجاسۃ ، الفصل الثالث،ج۱،ص۵۰)
مسئلہ:۔تالاب یا ندی کے گھاٹ پر' کنویں یا حوض کے کنارے' پانی میں اگرچہ بہتا ہوا پانی ہو' پھل والے یا سایہ دار درخت کے نیچے' ایسے کھیت میں جس میں کھیتی موجود ہو' قبرستان میں' بیچ سڑک اور راستوں پر' جانوروں کے باندھنے یا بیٹھنے کی جگہوں پر' اور جہاں لوگ وضو یا غسل کرتے ہوں اور جس جگہ پر لوگ اٹھتے بیٹھتے ہوں۔ ان سب جگہوں پر پیشاب پاخانہ کرنا منع ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ، الباب السابع فی النجاسۃواحکامھا ، الفصل الثالث فی الاستنجاء،ج۱،ص۵۰)
"مسئلہ:۔پیشاب پاخانہ لوگوں کی نگاہوں سے چھپ کر یا کسی چیز کی آڑ میں بیٹھ کر کرنا چاہے۔ جہاں لوگوں کی نظر ستر پر پڑے پیشاب' پاخانہ کرنا منع ہے۔
مسئلہ:۔وضو کے بچے ہوئے پانی سے استنجا نہیں کرنا چاہے۔"
(بہارشریعت،ج۱،ح۲،ص۱۱۵)
مسئلہ:۔بچے کو پاخانہ' پیشاب پھرانے والے کو مکروہ ہے کہ اس بچے کا منہ یا پیٹھ قبلہ کی طرف کردے۔ عورتیں اس طرف توجہ نہیں کرتیں۔ انہیں لازم ہے کہ اس کا خیال رکھیں۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ، الباب السابع فی النجاسۃ واحکامھا، الفصل الثالث فی الاستنجاء،ج۱،ص۵۰)
مسئلہ:۔کھڑے ہو کر یا لیٹ کر یاننگے ہوکر پیشاب کرنا مکروہ ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ، الباب السابع فی النجاسۃ واحکامھا، الفصل الثالث فی الاستنجاء،ج۱،ص۵۰)
یونہی ننگے سر پیشاب' پاخانہ کو جانا یا اپنے ہمراہ ایسی چیز لے جانا جس پر کوئی دعا یا اﷲ و رسول یا کسی بزرگ کا نام لکھا ہو ممنوع ہے اسی طرح پیشاب پاخانہ کرتے ہوئے بات چیت کرنا بھی مکروہ ہے
۔(بہارشریعت،ج۱،ح۲،ص۱۱۲۔الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ،الباب السابع،الفصل الثالث،ج۱،ص۵۰)
مسئلہ :۔پیشاب پاخانہ کرتے وقت اذان ہونے لگے تو زبان سے اذان کا جواب نہ دے۔ اسی طرح اگر خود چھینکے تو زبان سے الحمدﷲ نہ کہے دل میں کہہ لے۔ اسی طرح کسی نے چھینک کر الحمدﷲ کہا تو زبان سے یرحمک اﷲ کہہ کر چھینک کا جواب نہ دے بلکہ دل ہی دل میں یرحمک اﷲ کہہ دے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ،الباب السابع،الفصل الثالث،ج۱،ص۵۰)
" جن جن پانیوں سے وضو جائز ہے ان سے غسل بھی جائز ہے اور جن جن پانیوں سے وضو ناجائز ہے ان سے غسل بھی ناجائز ہے۔
کن کن پانیوں سے وضو جائز ہے؟:۔بارش' ندی' نالے' چشمے' کنویں' تالاب' سمندر' برف' اولے کے پانیوں سے وضو اور غسل جائز ہے۔ بشرطیکہ یہ سب پانی پاک ہوں۔"
(درمختار،کتاب الطہارۃ، باب المیاہ،ج۱،ص۳۵۷۔۳۵۸)
کن پانیوں سے وضو جائز نہیں؟:۔پھلوں اور درختوں کا نچوڑا ہوا پانی یا وہ پانی جس میں کوئی پاک چیز مل گئی اور پانی کا نام بدل گیا جیسے پانی میں شکر مل گئی اور وہ شربت
کہلانے لگا یا پانی میں چند مسالے مل گئے اور وہ شور با کہلانے لگا۔ یابڑے حوض اور تالاب میں کوئی ناپاک چیز اس قدر زیادہ پڑ گئی کہ پانی کا رنگ یا بو یا مزہ بدل گیا یا چھوٹے حوض یا بالٹی یا گھڑے میں کوئی ناپاک چیز پڑ گئی یا کوئی ایسا جانورگرکر مرگیا جس کے بدن میں بہتا ہوا خون ہوتا ہے۔ اگرچہ پانی کا رنگ یا بویا مزہ نہ بدلہ ہو یا وہ پانی جو وضو یا غسل کا دھوون ہوان سب پانیوں سے وضو اور غسل کرنا جائز نہیں۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ، الباب الثالث فی المیاہ، الفصل الثانی فی مالایجوز بہ الوضوء،ج۱،ص۲۱)
مسئلہ:۔پانی میں اگر کوئی ایسا جانور مرگیا ہو جس میں بہتا ہوا خون نہیں ہوتا جیسے مکھی' مچھر' بھڑ'شہد کی مکھی' بچھو' برساتی کیڑے مکوڑے تو ان جانوروں کے مرنے سے پانی ناپاک نہیں ہوتا اور اس پانی سے وضو اور غسل کرنا جائز ہے۔
(درمختاروردالمحتار،کتاب الطہارۃ،مطلب:فی مسألۃالوضوء من الفساقی،ج۱،ص۳۶۵/ الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ، الباب الثالث فی المیاہ، الفصل الثانی فی مالایجوز بہ الوضوء،ج۱،ص۲۴)
مسئلہ:۔اگر پانی میں تھوڑا سا صابون مل گیا جس سے پانی کا رنگ بدل گیا تو اس پانی سے وضو اور غسل جائز ہے لیکن اگر اس قدر زیادہ صابون پانی میں گھول دیا گیا کہ پانی ستو کی طرح گاڑھا ہو گیا تو اس پانی سے وضو اور غسل کرنا جائز نہیں ہوگا۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ، الباب الثالث فی المیاہ، الفصل الثانی ،ج۱،ص۲۱)
مسئلہ:۔جو جانور پانی ہی میں پیدا ہوتے ہیں اور پانی ہی میں زندگی بسر کرتے ہیں جیسے مچھلیاں اور پانی کے مینڈک وغیرہ ان کے پانی میں مرجانے سے پانی ناپاک نہیں ہوتا بلکہ اس سے وضو اور غسل جائز ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ، الباب الثالث فی المیاہ، الفصل الثانی ،ج۱،ص۲۴)
مسئلہ:۔دس ہاتھ لمبا دس ہاتھ چوڑا جو حوض ہو اسے دہ دردہ اور بڑا حوض کہتے ہیں یوں ہی بیس ہاتھ لمبا پانچ ہاتھ عرض کل لمبائی چوڑائی سو ہاتھ ہو اور اگر گول ہو تو اس کی گولائی ساڑھے پینتیس ہاتھ ہو۔ اور اگر لمبائی چوڑائی سو ہاتھ نہ ہو تو اس کو چھوٹا حوض کہتے ہیں اگرچہ کتنا ہی گہرا ہو بڑے حوض میں اگر نجاست پڑ گئی تو اس وقت تک پاک مانا جائے گا جب تک اس نجاست کے اثر سے اس کے پانی کا رنگ و بو یا مزہ نہ بدل جائے اور چھوٹا حوض ایک قطرہ نجاست پڑ جانے سے بھی ناپاک ہو جائے گا۔
(بہارشریعت،ح۲،ص۴۶۔۴۷)
مسئلہ:۔جو پانی وضو یا غسل کرنے میں بدن سے گرا وہ پاک ہے مگر اس سے وضو اور غسل جائز نہیں۔ یوں ہی اگر بے وضو شخص کا ہاتھ یا انگلی یا پورایا ناخن یا بدن کا کوئی ٹکڑا جو وضو میں دھویا جاتا ہو بقصدیا بلا قصد دہ دردہ سے کم پانی میں بے دھوئے پڑ جائے تو وہ پانی وضو اور غسل کے لائق نہ رہا اسی طرح جس شخص پر نہانا فرض ہے اس کے جسم کا کوئی بے دھلا ہوا حصہ پانی سے چھو جائے تو پانی وضو اور غسل کے کام کا نہ رہا اگر دھلا ہوا ہاتھ یا بدن کا کوئی حصہ پانی میں پڑ جائے تو کوئی حرج نہیں۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ، الباب الثالث فی المیاہ، الفصل الثانی ،ج۱،ص۲۲۔۲۳)
مسئلہ:۔اگر ہاتھ دھلا ہوا ہے۔ مگر پھر دھونے کی نیت سے پانی میں ہاتھ ڈالا۔ اور یہ دھونا ثواب کا کام ہو جیسے کھانے کے لیے یاوضو کے لیے تو یہ پانی مستعمل ہوگیا یعنی وضو کے قابل نہ رہا اور اس کا پینا بھی مکروہ ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ، الباب الثالث فی المیاہ، الفصل الثانی ،ج۱، ص۲۳۔۲۵ / بہارشریعت،ج۱،ح۲،ص۴۷)
اس مسئلہ کا خاص طور پر دھیان رکھنا چاہے عوام تو عوام بعض خواص بھی اس مسئلہ
"سے غافل ہیں۔
مسئلہ:۔اتنے زور سے بہتا ہوا پانی کہ اگر اس میں تنکا ڈالا جائے تو اس کو بہالے جائے نجاست کے پڑنے سے ناپاک نہیں ہوگا لیکن اتنی زیادہ نجاست پڑجائے کہ وہ نجاست پانی کے رنگ یا بو یا مزہ بدل دے تو اس صورت میں بہتا ہوا پانی بھی ناپاک ہوجائے گا اور یہ پانی اس وقت پاک ہوگا کہ پانی کا بہاؤ ساری نجاست کو بہالے جائے اور پانی کا رنگ اور بو' مزہ ٹھیک ہوجائے۔"
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ، الباب الثالث فی المیاہ، الفصل الثانی ،ج۱،ص۱۷۔۱۸)
"مسئلہ:۔تالاب اور دس ہاتھ لمبا دس ہاتھ چوڑا حوض بھی بہتے ہوئے پانی کے حکم میں ہے کہ یہ بھی تھوڑی سی نجاست پڑ جانے سے ناپاک نہیں ہوگا لیکن جب اس میں اتنی نجاست پڑجائے کہ پانی کا رنگ یا بو یا مزہ بدل جائے تو ناپاک ہوجائے گا۔(بہار شریعت،ج۱،ح ۲،ص۴۷)
مسئلہ:۔ناپاک پانی کو خود بھی استعمال کرنا حرام ہے اور جانوروں کو بھی پلانا ناجائز ہے ہاں گارے وغیرہ کے کام میں لا سکتے ہیں مگر اس گارے مٹی کو مسجد میں لگانا جائز نہیں۔
مسئلہ:۔ناپاک پانی بدن یا کپڑے یا جس چیز میں بھی لگ جائے وہ ناپاک ہو جائے گا۔ اس کو جب تک پاک پانی سے دھو کر پاک نہ کرلیں۔ پاک نہیں ہوگا۔
مسئلہ:۔پانی میں بلا دھلا ہوا ہاتھ پڑ گیا اور کسی طرح مستعمل ہو گیا اور یہ چاہیں کہ یہ کام کا ہو جائے تو اچھا پانی اس سے زیادہ اس میں ملا دیں نیز اس کا طریقہ یہ بھی ہے کہ ایک طرف سے پانی ڈالیں کہ دوسری طرف سے بہہ جائے۔ سب کام کا ہو جائے گا یوں ہی ناپاک پانی کو بھی پاک کرسکتے ہیں۔"
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ، الباب الثالث فی المیاہ، الفصل الثانی ،ج۱،ص۱۷)
مسئلہ:۔نابالغ کا بھرا ہوا پانی کہ شرعاً اس کی ملک ہو جائے اسے پینا یا وضو یا غسل یا کسی کام میں لانا اس کے ماں باپ یا جس کا وہ نوکر ہے اس کے سوا کسی کو جائز نہیں اگرچہ وہ اجازت بھی دے دے۔ اگر اس سے وضو کرلیا تو وضو ہو جائے گا اور گنہگار ہو گا۔ یہاں سے معلمین کو سبق لینا چاہے کہ وہ اکثر نا بالغ بچوں سے پانی بھروا کر اپنے کام میں لایا کرتے ہیں۔ یاد رکھنا چاہے کہ نابالغ کا ہبہ صحیح نہیں ہے۔ اسی طرح کسی بالغ کا بھرا ہوا پانی بھی بغیر اس کی اجازت کے خرچ کرنا حرام ہے۔
(بہار شریعت،ج۱،ح۲،ص۵۰/فتاوی رضویہ،ج۲،ص۴۹۴)
آدمی اور جن جانوروں کا گوشت حلال ہے ان کا جوٹھا پاک ہے جیسے بھیڑ' بکری'گائے' بھینس' کبوتر' فاختہ وغیرہ۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ، الباب الثالث فی المیاہ، الفصل الثانی ،ج۱،ص۲۳)
جن جانوروں کا گوشت نہیں کھایا جاتا جیسے سور' کتا' شیر' چیتا' بھیڑیا' گیدڑ' ہاتھی بندر اور تمام شکاری چوپائے ان سبھوں کا جھوٹا ناپاک ہے۔
(درمختار مع ردالمحتار، کتاب الطہارۃ،مطلب فی السؤر،ج۱،ص۴۲۵)
گھروں اور بلوں میں رہنے والے جانور مثلاً بلی' نیولا' چوہا' سانپ' چھپکلی اور شکاری پرندے جیسے چیل' کوا ' شکرا' باز وغیرہ اور وہ مرغی جو ادھر ادھر پھرتی اور نجاستوں پر منہ ڈالتی ہو اور گائے بھینس جو غلیظ کھاتی ہو ان سب کا جھوٹا مکروہ ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ، الباب الثالث فی المیاہ، الفصل الثانی ،ج۱،ص۲۳.۲۴)
گدھے اور خچر کا جھوٹا مشکوک ہے یعنی اس کے قابل وضو ہونے میں شک ہے لہٰذا اس سے وضو اور غسل نہیں ہو سکتا۔ لیکن اگر گدھے خچر کے جھوٹے کے سوا کوئی دوسرا پانی
موجود ہی نہ ہو اور نماز کا وقت آگیا تو چاہے کہ اسی پانی سے وضو کرے اور پھر تیمم کر کے نماز پڑھ لے اگر صرف وضو کیا اور تیمم نہیں کیا۔ یا صرف تیمم کیا اور وضو نہیں کیا تو نماز نہ ہوگی گھوڑے کا جھوٹا پاک ہے۔ اس سے وضو اور غسل جائز ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ، الباب الثالث فی المیاہ، الفصل الثانی ،ج۱،ص۲۳۔۲۴)
مسئلہ:۔جس جانور کا جھوٹا ناپاک ہے اس کا پسینہ اور لعاب بھی ناپاک ہے اور جس جانور کا جھوٹا مکروہ ہے اس کا پسینہ اور لعاب بھی مکروہ ہے اور جس کا جھوٹا پاک ہے اس کا پسینہ اور لعاب بھی پاک ہے۔
(ردالمحتار،کتاب الطہارۃ، مطلب ست تورث النسیان،ج۱،ص۴۳۲)
مسئلہ:۔گدھے اور خچر کا پسینہ اگر کپڑے میں لگ جائے تو کپڑا پاک ہے چاہے کتنا ہی زیادہ لگا
ہو۔(ردالمحتار،کتاب الطہارۃ، مطلب ست تورث النسیان،ج۱،ص۴۳۳)
مسئلہ:۔پانی میں رہنے والے تمام جانوروں کا جھوٹا پاک ہے خواہ ان کی پیدائش پانی میں ہو جیسے مچھلی وغیرہ یا خشکی میں ہو جیسے کچھوا' کیکڑا وغیرہ۔
(بہارشریعت،ج۱،ح۲،ص۹۹)
مسئلہ:۔کسی کے منہ سے اتنا خون نکلا کہ تھوک میں سرخی آگئی اور اس نے فوراً پانی پیا تو یہ جھوٹا پانی اور برتن دونوں ناپاک ہو گئے۔ یوں ہی کسی نے شراب پی کر فوراً پانی پیا۔ تو اس کا جھوٹا پانی نجس ہو گیا اور برتن بھی ناپاک ہوگیا۔
(بہارشریعت،ج۱،ح۲،ص۵۵)
مسئلہ:۔شرابی کی مونچھیں اگر بڑی ہوں کہ شراب مونچھوں میں لگی ہو تو جب تک وہ مونچھوں کو پاک نہ کرے جو پانی پئے گا وہ پانی اور برتن دونوں ناپاک ہو جائیں گے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ،الباب الثالث فی المیاہ،الفصل الثانی،ج۱،ص۲۳)
مسئلہ:۔جن جانوروں کا جھوٹا پاک ہے جیسے بکری' گائے' بھینس وغیرہ ان میں سے اگر کوئی کنوئیں میں گر پڑے اور زندہ نکل آئے اور ان کے جسم پر کسی نجاست کا لگا ہونا معلوم نہ ہو تو کنواں پاک ہے لیکن احتیاطاً بیس ڈول پانی نکال ڈالیں۔
(الدرالمختار وردالمحتار،کتاب الطہارۃ، فصل فی البئر،ج۱،ص۴۱۰)
مسئلہ:۔حلال پرندے جیسے کبوتر اور گوریا' مینا' مرغابی وغیرہ اونچے اڑنے والے پرندوں کی بیٹ کنویں میں گر جائے تو کنواں ناپاک نہیں ہوگا یوں ہی چمگادڑ کے پیشاب سے بھی کنواں ناپاک نہ ہوگا۔
(الدرالمختار وردالمحتار،کتاب الطہارۃ، فصل فی البئر،مطلب مھمٌّ: فی تعریف الاستحسان، ج۱، ص۴۲۱/ الفتاوی القاضی خان، کتاب الطہارۃ، فصل فی ما یقع فی البئر،ج۱،ص۶)
مسئلہ:۔یہ جو حکم دیا گیا ہے کہ فلاں فلاں صورت میں اتنا اتنا پانی نکالا جائے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ جو چیز کنوئیں میں گری ہے پہلے اس کو کنوئیں میں سے نکال لیں پھر اتنا پانی نکا لیں۔ اگر وہ چیز کنوئیں ہی میں پڑی رہی تو کتنا ہی پانی نکالیں بے کار ہے۔
(الدرالمختار وردالمحتار،کتاب الطہارۃ، فصل فی البئر،ج۱،ص۴۰۹)
مسئلہ:۔جہاں اتنے اتنے ڈول پانی نکالنے کا ذکر آیا ہے وہاں ڈول کی گنتی اس ڈول سے کی جائے گی جو ڈول اس کنوئیں پر استعمال ہوتا رہا ہے اور اگر اس کنوئیں کا کوئی خاص ڈول نہ ہو تو اتنا بڑا ڈول ہونا چاہے کہ جس میں سوا پانچ کیلو پانی آجائے۔
(الدرالمختار وردالمحتار،کتاب الطہارۃ، فصل فی البئر،ج۱،ص۴۱۶)
مسئلہ:۔سالن یا پانی شربت میں اگر مکھی گر پڑے تو اس کو غوطہ دے کر باہر پھینک دیں اور سالن' پانی' شربت' کو کھا پی لیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ اگر کھانے میں مکھی گر پڑے تو اس کو کھانے میں غوطہ دے کر مکھی کو پھینک دیں پھر اس کھانے کو کھائیں کیونکہ مکھی
کے دو پروں میں سے ایک میں بیماری اور دوسرے میں اس کی شفا ہے اور مکھی اس پر کو کھانے میں پہلے ڈالتی ہے جس میں بیماری ہوتی ہے اس لئے غوطہ دے کر دوسرا شفاء والا پر بھی کھانے میں پہنچادیں۔
(مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الصید والذبائح، باب مایحل اکلہ وما یحرم، الفصل الثانی، رقم ۴۱۴۳۔۴۱۴۴،ج۲،ص۴۳۸)
مسئلہ:۔ناپاک کنوئیں میں جس صورت میں جتنے پانی نکالنے کا حکم ہے جب اتنا پانی نکال لیا گیا تو اب وہ ڈول اور رسی اور کنوئیں کی دیواریں سب خود بخود پاک ہو گئیں۔ کسی کو دھو کر پاک کرنے کی ضرورت نہیں۔
(الدرالمختاروردالمحتار، کتاب الطہارۃ، فصل فی البئر،ج۱،ص۴۰۹)
نجاست کی دو قسمیں ہے ایک غلیظہ (بھاری نجاست) دوسرے خفیفہ (ہلکی نجاست)
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ،الباب السابع،الفصل الثانی،ج۱،ص۴۵۔۴۶)
نجاست غلیظہ:۔جیسے پیشاب پاخانہ' بہتا ہوا خون' پیپ' منہ بھر قے' دُکھتی ہوئی آنکھ کی کیچڑ کا پانی' دودھ پینے والے لڑکے یا لڑکی کا پیشاب' بچے نے جو منہ بھر کر قے کی' مرد یا عورت کی منی' حرام جانور وں جیسے کتا' شیر' سور وغیرہ کا پیشاب' پاخانہ اور گھوڑے' گدھے' خچر کی لید۔ اور حلال جانوروں کا پاخانہ جیسے گائے' بھینس وغیرہ کا گوبر اور اونٹ کی مینگنی مرغی اور بطخ کی بیٹ' ہاتھی کے سونڈ کا پانی' درندہ جانوروں کا تھوک' شراب' نشہ دلانے والی تاڑی' سانپ کا پاخانہ' مردار کا گوشت' یہ سب نجاست غلیظہ ہیں۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ،الباب السابع،الفصل الثانی،ج۱،ص۴۶)
نجاست خفیفہ:۔جیسے گائے' بھینس' بھیڑ' بکری وغیرہ حلال جانوروں کا پیشاب
یوں ہی گھوڑے کا پیشاب اور حرام پرندوں کی بیٹ یہ سب نجاست خفیفہ ہیں۔
(الفتاوی الھندیۃ ، کتاب الطہارۃ، الفصل الثانی فی لاعیان النجسۃ، ج۱،ص۴۵۔۴۶)
مسئلہ:۔نجاست غلیظہ کا حکم یہ ہے کہ اگر کپڑے یا بدن میں ایک درہم سے زیادہ لگ جائے تو اس کا پاک کرنا فرض ہے۔ بے پاک کئے اگر نماز پڑھ لی تو ہوگی ہی نہیں اور قصدا پڑھی تو گناہ بھی ہوا۔ اور اگر نماز کو حقیر چیز سمجھتے ہوئے ایسا کیا تو کفرا ہوا۔ا ور اگر درہم کے برابر ہے تو پاک کرنا واجب ہے کہ بے پاک کئے نماز پڑھی تو نماز مکروہ تحریمی ہوئی یعنی ایسی نماز کو دہرالینا واجب ہے اور قصدا پڑھی تو گناہگار بھی ہوا۔ اور اگر درہم سے کم ہے تو پاک کرنا سنت ہے کہ بے پاک کئے نماز ہوگئی مگر خلاف سنت ہوئی۔ اور اس نماز کو دوہرا لینا بہتر ہے۔
(ردالمحتار،کتاب الطہارۃ ،باب الانجاس،ج۱،ص۵۷۱)
مسئلہ:۔نجاست غلیظہ اگر گاڑھی ہو جیسے پاخانہ' لید' گوبر تو درہم کے برابر یا کم زیادہ ہونے کے معنی یہ ہے کہ وزن میں درہم کے برابر یا کم یا زیادہ ہو درہم کا وزن ساڑھے چار ماشہ ہے اور اگر نجاست غلیظہ پتلی ہو جیسے پیشاب اور شراب وغیرہ تو درہم سے مراد اس کی لمبائی چوڑائی ہے اور شریعت نے درہم کی لمبائی چوڑائی کی مقدار ہتھیلی کی گہرائی کے برابر بتائی ہے ۔ یعنی ہتھیلی خوب پھیلا کر ہموار رکھیں اور اس پر آہستہ آہستہ اتنا پانی ڈالیں کہ اس سے زیادہ پانی رک نہ سکے۔ اب جتنا پانی کا پھیلاؤ ہے۔ اتنی بڑی درہم کی لمبائی چوڑائی ہوتی ہے۔ یعنی روپے کی لمبائی چوڑ ائی کے برابر۔
(الدرالمختاروردالمحتار،کتاب الطہارۃ ،باب الانجاس،ج۱،ص۵۷۳۔۵۷۴)
مسئلہ:۔نجاست خفیفہ کا حکم یہ ہے کہ کپڑے یا بدن کے جس حصہ میں لگی ہے اگر اس کی چوتھائی سے کم ہے مثلاً آستین میں لگی ہے تو اس کی چوتھائی سے کم میں لگی۔ ہاتھ میں ہاتھ کی
چوتھائی سے کم لگی ہے تو معاف ہے (کہ اس سے نماز ہوجائے گی)اور اگر پوری چوتھائی میں لگی ہو تو بغیر دھو کر پاک کئے نمازنہ ہوگی۔
(الدرالمختار،کتاب الطہارۃ ،باب الانجاس،ج۱،ص۵۷۸)
مسئلہ:۔جو نجاست کپڑے یا بدن میں لگی ہے اس کو پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اگر نجاست دل والی ہو۔ جیسے لید' گوبر' پاخانہ تو اس کے دھو نے میں کوئی گنتی مقرر نہیں بلکہ اس نجاست کو دور کرنا ضروری ہے اگر ایک بار دھونے سے دور ہو جائے تو ایک ہی مرتبہ دھونے سے بدن یا کپڑا پاک ہو جائے گا اور اگر چار پانچ مرتبہ دھونے سے دور ہو تو چار پانچ مرتبہ دھونا پڑے گا۔ ہاں اگر تین مرتبہ سے کم میں نجاست دور ہو جائے تو تین بار دھو لینا بہتر ہے اور اگر نجاست دلدار نہ ہو بلکہ پتلی ہو ' جیسے پیشاب وغیرہ تو تین مرتبہ دھوئے اور تینوں مرتبہ قوت کے ساتھ نچوڑنے سے کپڑا پاک ہوجائے گا۔
(الدرالمختار،کتاب الطہارۃ ،باب الانجاس،ج۱،ص۵۹۳۔۵۹۴)
مسئلہ:۔نجاست غلیظہ اور خفیفہ کے جو الگ الگ حکم بتائے گئے ہیں یہ اسی وقت ہیں کہ بدن اور کپڑے میں نجاست لگی ہو اور اگرکسی پتلی چیز دودھ یا سر کہ یا پانی میں نجاست پڑ جائے تو چاہے نجاست غلیظہ ہو یا خفیفہ بہر حال پتلی چیز ناپاک ہو جائیگی۔ اگرچہ ایک ہی قطرہ نجاست پڑ گئی۔
(الدرالمختارمع ردالمحتار،کتاب الطہارۃ ،باب فی الانجاس،مبحث : فی بول الفارۃ وبعرھا...الخ،ج۱،ص۵۷۹)
مسئلہ:۔نجاست خفیفہ نجاست غلیظہ میں مل جائے تو کل نجاست غلیظہ ہو جائے گی۔
(الدرالمختار،کتاب الطہارۃ ،باب الانجاس،ج۱،ص۵۷۷)
مسئلہ:۔حرام جانوروں کا دودھ نجس ہے البتہ گھوڑی کا دودھ پاک ہے مگر کھانا جائز نہیں۔
(بہار شریعت،ج۱،ح۲،ص۹۹)
مسئلہ:۔چوہے کی مینگنی گیہوں میں مل کر پس گئی یا تیل میں پڑ گئی تو آٹا اور تیل پاک ہے ہاں البتہ اگر اس قدر زیادہ مینگنیاں پڑ گئیں کہ آٹا اور تیل کا مزہ بدل گیا تو آٹا تیل ناپاک ہو جائے گا۔ اور اس کا کھانا جائز نہیں۔
(بہار شریعت،ج۱،ح۲،ص۱۰۰)
مسئلہ:۔آدمی کا چمڑا ناخن کے برابراگر تھوڑے پانی (یعنی دہ دردہ سے کم) میں پڑجائے تو وہ پانی ناپاک ہو جائے گا اور اگر آدمی کا کٹا ہوا ناخن یا بال پانی میں پڑ گیا تو پانی ناپاک نہیں ہوگا۔
(بہار شریعت،ج۱،ح۲،ص۱۰۱)
مسئلہ:۔نجس جانور نمک کی کان میں گر کر نمک ہوگیا تو وہ نمک پاک و حلال ہے۔
(الدرالمختارمع ردالمحتار، کتاب الطہارۃ، مطلب العرقی الذی یستقطر من دردی الخمر...الخ،ج۱،ص۵۸۶)
مسئلہ:۔اُپلے کی راکھ پاک ہے اور اگر راکھ ہونے سے قبل بجھ گیا تو ناپاک ہے۔
(بہار شریعت،ج۱،ح۲،ص۱۰۲)
مسئلہ:۔ناپاک زمین اگر سوکھ جائے اور نجاست کا اثر یعنی رنگ و بو جاتی رہے پاک ہوگئی خواہ وہ ہوا سے سوکھی ہو یا دھوپ یا آگ سے اس زمین پر نماز پڑھ سکتے ہیں مگر اس زمین سے تیمم نہیں کرسکتے کیونکہ تیمم ایسی زمین سے کرنا جائز ہے جس پر کبھی بھی نجاست نہ پڑی ہو۔
(الدرالمختار،کتاب الطہارۃ ،باب الانجاس،ج۱،ص۵۶۳)
مسئلہ:۔ناپاک مٹی سے برتن بنائے تو جب تک کچے ہیں ناپاک ہیں۔ بعد پختہ کر لینے کے پاک ہوگئے۔
(الدرالمختار،کتاب الطہارۃ ،باب الانجاس،ج۱،ص۵۷۱)
مسئلہ:۔جو چیز سوکھنے یا رگڑنے سے پاک ہوگئی اس کے بعد بھیگ گئی تو ناپاک نہ
ہوگی۔ مثلاً زمین پر پیشاب پڑ گیا پھر زمین سوکھ گئی اور نجاست کا اثر زائل ہوگیا اور وہ زمین پاک ہوگئی۔ اب اگر وہ زمین بھیگ گئی تو ناپاک نہیں ہوگی۔ یوں ہی اگر چھری خون لگنے سے ناپاک ہوگئی اور چھری کو زمین پر خوب رگڑ رگڑ کر خون کا اثر زائل کر دیا تو چھری پاک ہوگئی اب اگر وہ چھری بھیگ گئی تو ناپاک نہیں ہوگی۔
(بہارشریعت،ج۱،ح۲،ص۱۰۷)
مسئلہ:۔جو زمین گوبر سے لیپی گئی اگر چہ سوکھ گئی ہو اس پر نماز جائز نہیں۔ ہاں اگر وہ سوکھ گئی اور اس پر کوئی موٹا کپڑا بچھایا تو اس کپڑے پر نماز پڑھ سکتے ہیں اگرچہ کپڑے میں تری ہو مگر اتنی تری نہ ہو کہ زمین بھیگ کر اس کو تر کر دے کہ اس صورت میں یہ کپڑا نجس ہو جائے گا اور نماز نہ ہوگی۔
(بہار شریعت،ج۱،ح۲،ص۱۰۹)
بالغہ عورت کے آگے کے مقام سے جو خون عادت کے طور پر نکلتا ہے اور بیماری اوربچہ پیدا ہونے کے سبب سے نہ ہو اس کو حیض کہتے ہیں۔ اور جو خون بیماری کی وجہ سے آئے۔ اس کو استحاضہ کہتے ہیں۔اور بچہ ہونے کے بعد جو خون آتا ہے وہ نفاس کہلاتا ہے۔
(نورالایضاح،کتاب الطہارت،باب الحیض والنفاس۔۔۔إلخ،ص۴۱)
مسئلہ:۔حیض کی مدت کم سے کم تین دن اور تین راتیں یعنی پورے بہتر گھنٹے ہے جو خون اس سے کم مدت میں بند ہو گیا وہ حیض نہیں بلکہ استحاضہ ہے اور حیض کی مدت زیادہ سے زیادہ دس دن اور دس راتیں ہیں اگر دس دن اور دس رات سے زیادہ خون آیا تو اگر یہ حیض پہلی مرتبہ اسے آیا ہے تو دس دن تک حیض مانا جائے گا اس کے بعد استحاضہ ہے اور اگر پہلے اس عورت کو حیض آچکے ہیں اور اس کی عادت دس دن سے کم تھی تو عادت سے جتنا
زیادہ ہوا وہ استحاضہ ہے مثال کے طور پر یہ سمجھو کہ اس کو ہر مہینے میں پانچ دن حیض آنے کی عادت تھی اب کی مرتبہ دس دن آیا تو دس دن حیض ہے اور اگر بارہ دن خون آیا تو عادت والے پانچ دن حیض کے مانے جائیں گے اور سات دن استحاضہ کے اور اگر ایک حالت مقرر نہ تھی بلکہ کبھی چار دن کبھی پانچ دن حیض آیا کرتا تھا تو پچھلی مرتبہ جتنے دن حیض کے تھے وہی اب بھی حیض کے مانے جائیں گے۔ اور باقی استحاضہ مانا جائے گا۔
(الدرالمختار،کتاب الطہارۃ ،باب فی الحیض،ج۱،ص۵۲۳)
مسئلہ:۔کم سے کم نو برس کی عمر سے عورت کو حیض شروع ہوگا۔ اور حیض آنے کی انتہائی عمر پچپن سال ہے۔ اس عمر والی عورت کو آئسہ (حیض و اولاد سے نا امید ہونے والی) کہتے ہیں۔ نو برس کی عمر سے پہلے جو خون آئے گا وہ حیض نہیں بلکہ استحاضہ ہے یوں ہی پچپن برس کی عمر کے بعد جو آئے گا وہ بھی استحاضہ ہے۔ لیکن اگر کسی عورت کو پچپن برس کی عمر کے بعد بھی خالص خون بالکل ایسے ہی رنگ کا آیا جیسا کہ حیض کے زمانے میں آیا کرتا تھا تو اس کو حیض مان لیا جائے گا۔
(الدرالمختار،کتاب الطہارۃ ،باب فی الحیض،ج۱،ص۵۲۴)
مسئلہ:۔حمل والی عورت کو جو خون آیا وہ استحاضہ ہے۔
(الدرالمختار،کتاب الطہارۃ ،باب فی الحیض،ج۱،ص۵۲۴)
مسئلہ:۔دو حیضوں کے درمیان کم سے کم پورے پندرہ دن کا فاصلہ ضروری ہے یوں ہی نفاس اور حیض کے درمیان بھی پندرہ دن کا فاصلہ ضروری ہے تو اگر نفاس ختم ہونے کے بعد پندرہ دن پورے نہ ہوئے تھے کہ خون آگیا تو یہ حیض نہیں بلکہ استحاضہ ہے۔
(الدرالمختار،کتاب الطہارۃ ،باب فی الحیض،ج۱،ص۵۲۴)
مسئلہ:۔حیض کے چھ رنگ ہیں۔ (۱)سیاہ (۲)سرخ(۳) سبز(۴)زرد
(۵)گدلا (۶)مٹیالا' خالص سفید رنگ کی رطوبت حیض نہیں۔
(ردالمحتار،کتاب الطہارۃ ،باب فی الحیض،ج۱،ص۵۳۰)
مسئلہ:۔نفاس کی کم سے کم کوئی مدت مقرر نہیں ہے بچہ پیدا ہونے کے بعد آدھ گھنٹہ بعد بھی خون آیا تو وہ نفاس ہے اور نفاس کی زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن رات ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ ،الفصل الثانی فی النفاس ، ج۱،ص۳۷ وفتح القدیر، کتاب الطہارۃ، باب فصل فی النفاس، ج۱،ص۱۸۸۔۱۹۰)
مسئلہ:۔کسی عورت کو چالیس دن سے زیادہ خون آیا تو اگر عورت کے پہلی ہی بار بچہ پیدا ہوا ہے۔ یا یہ یاد نہیں کہ اس سے پہلے بچہ پیدا ہونے میں کتنے دن خون آیا تھا تو چالیس دن رات نفاس ہے۔ باقی استحاضہ اور جو پہلی عادت معلوم ہو تو عادت کے دنوں میں نفاس ہے اور جو اس سے زیادہ ہے وہ استحاضہ ہے جیسے تیس دن نفاس کا خون آنے کی عادت تھی مگر اب کی مرتبہ پینتالیس دن خون آیا تو تیس دن نفاس کے مانے جائیں گے اور پندرہ دن استحاضہ کے ہوں گے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ ،الفصل الثانی فی النفاس ، ج۱،ص۳۷)
حیض و نفاس کے احکام:۔حیض و نفاس کی حالت میں نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا حرام ہے۔ ان دونوں میں نمازیں معاف ہیں ان کی قضا بھی نہیں۔ البتہ روزوں کی قضادوسرے دنوں میں رکھنا فرض ہے اور حیض و نفاس والی عورت کو قرآن مجید پڑھنا حرام ہے خواہ دیکھ کر پڑھے یا زبانی پڑھے۔ یوں ہی قرآن مجید کا چھونا بھی حرام ہے۔ ہاں اگر جزدان میں قرآن مجید ہو تو اس جزدان کو چھونے میں کوئی حرج نہیں۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ ،الفصل الرابع فی احکام الحیض والنفاس والاستحاضۃ، ج۱،ص۳۸)
مسئلہ:۔قرآن مجید پڑھنے کے علاوہ دوسرے تمام و ظائف کلمہ شریف درود شریف
وغیرہ حیض ونفاس کی حالت میں عورت بلا کراہت پڑھ سکتی ہے بلکہ مستحب ہے کہ نمازوں کے اوقات میں وضو کر کے اتنی دیر تک درود شریف اور دوسرے وظائف پڑھ لیا کرے جتنی دیر میں نماز پڑھ سکتی تھی تاکہ عادت باقی رہے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ ،الفصل الرابع فی احکام الحیض والنفاس والاستحاضۃ، ج۱،ص۳۸)
مسئلہ:۔حیض و نفاس کی حالت میں ہمبستری یعنی جماع حرام ہے۔ بلکہ اس حالت میں ناف سے گھٹنے تک عورت کے بدن کو مرد اپنے کسی عضو سے نہ چھوئے کہ یہ بھی حرام ہے ہاں البتہ ناف سے اوپر اور گھٹنا کے نیچے اس حالت میں عورت کے بدن کو بوسہ دینا جائز ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ ،الفصل الرابع فی احکام الحیض والنفاس والاستحاضۃ، ج۱،ص۳۹)
مسئلہ:۔حیض و نفاس کی حالت میں عورت کو مسجد میں جانا حرام ہے۔ ہاں اگر چور یا درندے سے ڈر کر یا کسی بھی شدید مجبوری سے مجبور ہو کر مسجد میں چلی جائے تو جائز ہے مگر اس کو چاہے کہ تیمم کر کے مسجد میں جائے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ ،الفصل الرابع فی احکام الحیض والنفاس والاستحاضۃ، ج۱،ص۳۸)
مسئلہ:۔حیض و نفاس والی عورت اگر عیدگاہ میں داخل ہو جائے تو کوئی حرج نہیں۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ ،الفصل الرابع فی احکام الحیض والنفاس والاستحاضۃ، ج۱،ص۳۸)
مسئلہ:۔حیض و نفاس کی حالت میں اگر مسجد کے باہر رہ کر اور ہاتھ بڑھا کر مسجد سے کوئی چیز اٹھا لے یا مسجد میں کوئی چیز رکھ دے تو جائز ہے۔
(بہارشریعت،ج۱،ح۲،ص۸۹)
مسئلہ:۔حیض و نفاس والی کو خانہ کعبہ کے اندر جانا اور اس کا طواف کرنا اگرچہ مسجد حرام کے باہر سے ہو حرام ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ ،الفصل الرابع فی احکام الحیض والنفاس والاستحاضۃ، ج۱،ص۳۸)
مسئلہ:۔حیض و نفاس کی حالت میں بیوی کو اپنے بستر پر سلانے میں غلبہ شہوت یا اپنے کو قابو میں نہ رکھنے کا اندیشہ ہو تو شوہر کے لئے لازم ہے کہ بیوی کو اپنے بستر پر نہ سلائے بلکہ اگر گمان غالب ہو کہ شہوت پر قابو نہ رکھ سکے گا تو شوہر کو ایسی حالت میں بیوی کو اپنے ساتھ سلانا حرام اور گناہ ہے۔
(بہارشریعت،ج۱،ح۲،ص۹۱)
مسئلہ:۔حیض و نفاس کی حالت میں بیوی کے ساتھ ہمبستری کو حلال سمجھنا کفر ہے اور حرام سمجھتے ہوئے کر لیا تو سخت گناہگار ہوا۔ اس پر توبہ کرنا فرض ہے۔ اور اگر شروع حیض و نفاس میں ایسا کر لیا تو ایک دینار اور اگر قریب ختم کے کیا تو نصف دینار خیرات کرنا مستحب ہے تاکہ خدا کے غضب سے امان پائے۔
(الدرالمختار مع ردالمحتار،کتاب الطہارۃ ، باب فی الحیض ، مطلب :لو افتی مفت بشیئ من ھذہ الاقوال فی مواضع الضرورۃ، ج۱،ص۵۴۲۔۵۴۳)
مسئلہ:۔روزے کی حالت میں اگر حیض و نفاس شروع ہوگیا تو وہ روزہ جاتا رہا اس کی قضا رکھے فرض تھا تو قضا فرض ہے اور نفل تھا تو قضا واجب ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ ،الفصل الرابع فی احکام الحیض والنفاس والاستحاضۃ، ج۱،ص۳۸)
مسئلہ:۔نفاس کی حالت میں عورت کو زچہ خانہ سے نکلنا جائز ہے یوں ہی حیض و نفاس والی عورت کو ساتھ کھلانے اور اس کا جھوٹا کھانے میں کوئی حرج نہیں۔ پاکستان میں بعض جگہ جاہل عورتیں حیض و نفاس والی عورتوں کے برتن الگ کردیتی ہیں بلکہ ان برتنوں اور حیض و نفاس والی عورتوں کو نجس جانتی ہیں۔ یاد رکھو کہ یہ سب ہندوؤں کی رسمیں ہیں۔ ایسی بیہودہ رسموں سے مسلمان عورتوں مردوں کو بچنا لازم ہے۔ اکثر عورتوں میں رواج ہے کہ جب تک چلہ پورا نہ ہوجائے اگر چہ نفاس کا خون بند ہو چکا ہو وہ نہ نماز پڑھتی ہیں نہ اپنے کو نماز کے قابل سمجھتی ہیں۔ یہ بھی محض جہالت ہے شریعت کا حکم یہ ہے کہ جیسے ہی نفاس کا
خون بند ہو اس وقت سے نہا کر نماز شروع کردیں اگر نہانے سے بیماری کا اندیشہ ہو تو تیمم کرکے نماز پڑھیں۔ نماز ہرگز ہرگز نہ چھوڑیں۔
(الردالمحتار ،کتاب الطہارۃ ، مطلب :لو افتی مفت ۔۔۔الخ، ج۱،ص۵۳۴)
مسئلہ:۔حیض اگر پورے دس دن پر ختم ہوا تو پاک ہوتے ہی اس سے جماع کرنا جائز ہے اگر چہ اب تک غسل نہ کیا ہو لیکن مستحب یہ ہے کہ نہانے کے بعد صحبت کرے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ ،الفصل الرابع فی احکام الحیض والنفاس والاستحاضۃ، ج۱،ص۳۹)
مسئلہ:۔اگر دس دن سے کم میں حیض بند ہو گیا تو تاوقتیکہ غسل نہ کرے یا وہ وقت نماز جس میں پاک ہوئی نہ گزر جائے صحبت کرنا جائز نہیں۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ ،الفصل الرابع فی احکام الحیض والنفاس والاستحاضۃ، ج۱،ص۳۹)
مسئلہ:۔حیض و نفاس کی حالت میں سجدۂ تلاوت بھی حرام ہے اور سجدہ کی آیت سننے سے اس پر سجدہ واجب نہیں۔
(ردالمحتارمع الدرالمختار، کتاب الطہارۃ، باب فی الحیض،مطلب: لوافتی... الخ، ج۱،ص۵۳۲)
مسئلہ:۔رات کو سوتے وقت عورت پاک تھی اور صبح کو سو کر اٹھی تو حیض کا اثر دیکھا تو اسی وقت سے حیض کا حکم دیا جائے گا۔ رات سے حائضہ نہیں مانی جائے گی۔
(الدرالمختار،کتاب الطہارۃ ،باب فی الحیض، ج۱،ص۵۳۳)
مسئلہ:۔حیض والی صبح کو سو کر اٹھی اور گدی پر کوئی نشان حیض کا نہیں تو رات ہی سے پاک مانی جائے گی۔
(الدرالمختاروردالمحتار،کتاب الطہارۃ ،باب فی الحیض، ج۱،ص۵۳۳)
استحاضہ کے احکام:۔استحاضہ میں نہ نماز معاف ہے نہ روزہ۔ نہ ایسی عورت سے صحبت حرام۔ استحاضہ والی عورت نماز بھی پڑھے گی۔ روزہ بھی رکھے گی۔ کعبہ میں بھی داخل ہوگی۔ طواف کعبہ بھی کرے گی۔ قرآن شریف کی تلاوت بھی کر سکے گی وضو کر کے
قرآن شریف کو ہاتھ بھی لگا سکے گی اور اسی حالت میں شوہر اس سے ہمبستری بھی کر سکے گا۔
(الدرالمختار،کتاب الطہارۃ ،باب فی الحیض، ج۱،ص۵۴۴)
جنُب کے احکام:۔ایسے مرد اور عورت کو جن پر غسل فرض ہوگیا ''جنُب'' کہتے ہیں اور اس ناپاکی کی حالت کو ''جنابت'' کہتے ہیں۔ جنب خواہ مرد ہو یا عورت جب تک غسل نہ کرے وہ مسجد میں داخل نہیں ہو سکتا۔ نہ قرآن شریف پڑھ سکتا ہے۔ نہ قرآن دیکھ کر تلاوت کر سکتا ہے۔ نہ زبانی پڑھ سکتا ہے۔ نہ قرآن مجید کو چھو سکتا ہے نہ کعبہ میں داخل ہو سکتا ہے۔ نہ کعبہ کا طواف کر سکتا ہے۔
(ردالمحتار مع الدرالمختار، کتاب الطہارۃ،مطلب یوم عرفۃ افضل، ج۱،ص۳۴۵۔۳۴۶)
"مسئلہ:۔جنب کو ساتھ کھلانے اس کا جھوٹا کھانے اس کے ساتھ سلام و مصافحہ اور معانقہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
مسئلہ:۔جنب کو چاہے کہ جلد سے جلد غسل کرے کیونکہ رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ رحمت کے فرشتے اس گھر میں نہیں جاتے جس گھر میں تصویر اور کتا اور جنُب ہو۔"
(کنزالعمال، کتاب المعیشۃ والعادات، باب فرع فی محظورات البیت والبناء، رقم۴۱۵۵۷،ج۱۵،ص۱۷۱)
اسی طرح ایک حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ فرشتے تین شخصوں سے قریب نہیں ہوتے۔ ایک کافر کا مردہ دوسرے خلوق (عورتوں کی رنگین خوشبو) استعمال کرنے والا تیسرے جنب آدمی مگر یہ کہ وضو کرے۔
(سنن ابی داؤد، کتاب الترجل ،باب فی الخلوق للرجال،رقم۴۱۸۰،ج۴،ص۱۰۹)
مسئلہ:۔حیض و نفاس والی عورت یا ایسے مرد و عورت جن پر غسل فرض ہے اگر یہ لوگ
قرآن شریف کی تعلیم دیں۔ تو ان کو لازم ہے کہ قرآن مجید کے ایک ایک لفظ پر سانس توڑ توڑکر پڑھائیں۔ مثلاً اس طرح پڑھائیں کہ الحمد پڑھ کر سانس توڑیں پھر ﷲ پڑ ھ کر سانس توڑ دیں پھر رب العالمین پڑھیں۔ ایک سانس میں پوری آیت لگا تار نہ پڑھیں۔ اور قرآن شریف کے الفاظ کو ہجے کرانے میں بھی کوئی حرج نہیں۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الطہارۃ، الفصل الرابع فی احکام الحیض والنفاس والاستحاضۃ، ج۱،ص۳۸)
مسئلہ:۔قرآن مجید کے علاوہ اور دوسرے وظیفے کلمہ شریف' درود شریف وغیرہ کو پڑھنا جنب کے لئے بلا کراہت جائز بلکہ مستحب ہے جیسے کہ حیض و نفاس والی عورت کے لئے قرآن شریف کے علاوہ دوسرے تمام اذکار و وظائف پڑھنا جائز و درست بلکہ مستحب ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الطہارۃ، الفصل الرابع فی احکام الحیض والنفاس، ج۱،ص۳۸)
معذور کا بیان:۔جس شخص کو کوئی ایسی بیماری ہوجیسے پیشاب کے قطرے ٹپکنے یا دست آنے۔ یا استحاضہ کا خون آنے کے امراض کہ ایک نماز کا پورا وقت گزر گیا۔ اور وہ وضو کے ساتھ نماز فرض ادا نہ کر سکا۔ تو ایسے شخص کو شریعت میں معذور کہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے شریعت کا یہ حکم ہے کہ جب کسی نماز کا وقت آجائے تو معذور لوگ وضو کریں اور اسی وضو سے جتنی نمازیں چاہیں پڑھتے رہیں۔ اس درمیان میں اگر چہ بار بار قطرہ وغیرہ آتا ہے۔ مگر ان لوگوں کا وضو اس وقت تک نہیں ٹوٹے گا جب تک کہ اس نماز کا وقت باقی رہے۔ اور جیسے ہی نماز کا وقت ختم ہو گیا ان لوگوں کا وضو ٹوٹ جائے گا اور دوسری نماز کے لئے پھر دوسرا وضو کرنا پڑے گا۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الطہارۃ، الباب السادس،ومما یتصل بذلک احکام المعذور، ج۱،ص۴۰۔۴۱)
مسئلہ:۔جب کوئی شخص شریعت میں معذور مان لیا گیا تو جب تک ہر نماز کے وقت ایک بار بھی اس کا عذر پایا جاتا رہے گا وہ معذور ہی رہے گا جب اس کو اتنی شفا حاصل ہو جائے کہ ایک نماز کا پورا وقت گزر جائے اور اس کو ایک مرتبہ بھی قطرہ وغیرہ نہ آئے تو اب یہ شخص معذور نہیں مانا جائے گا۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الطہارۃ، الباب السادس،ومما یتصل بذلک احکام المعذور، ج۱،ص۴۱)
مسئلہ:۔معذور کا وضو اس چیز سے نہیں جاتا جس کے سبب سے معذور ہے لیکن اگر کوئی وضو توڑنے والی دوسری چیز پائی گئی تو اس کا وضو جاتا رہے گا۔ جیسے کسی کو قطرے کا مرض ہے اور وہ معذور مان لیا گیا۔ تو نماز کے پورے وقت میں قطرہ آنے سے تو اس کا وضو نہیں ٹوٹے گا۔ لیکن ہوا نکلنے سے اس کا وضو ٹوٹ جائے گا۔
(بہار شریعت،ج۱،ح۲،ص۹۴)
مسئلہ:۔اگر کھڑے ہو کر نماز پڑھنے میں قطرہ آجاتا ہے اور بیٹھ کر نماز پڑھنے میں قطرہ نہیں آتا تو اس پر فرض ہے کہ نماز بیٹھ کر پڑھا کرے اور وہ معذور نہیں شمار کیا جائے گا ۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الطہارۃ، الباب السادس،ومما یتصل بذلک احکام المعذور، ج۱،ص۴۱)
" دن رات میں کل پانچ نمازیں فرض ہیں۔ فجر' ظہر' عصر' مغرب' عشاء ان پانچوں نمازوں کا اﷲ تعالیٰ کی طرف سے وقت مقرر ہے۔اورجس نماز کا جو وقت مقرر ہے اس نماز کو وقت میں پڑھنا فرض ہے ۔ وقت نکل جانے کے بعد نماز قضا ہوجاتی ہے ۔
اب ہم نمازوں کے وقتوں کا بیان کرتے ہیں کہ کس نماز کا وقت کب سے شروع ہوتا ہے اور کب ختم ہو جاتا ہے۔
فجر کا وقت:۔صبح صادق سے شروع ہو کر سورج نکلنے تک ہے اس درمیان جب"
چاہیں فجر کی نماز پڑھ لیں۔ لیکن مستحب یہ ہے کہ فجر کی نماز اتنا اجالا ہو جانے کے بعد پڑھیں کہ مسجد کے نمازی ایک دوسرے کو دیکھ کر پہچان لیں۔ صبح صادق ایک روشنی ہے جو سورج نکلنے سے پہلے آسمان کے پوربی کناروں میں ظاہر ہوتی ہیں۔ یہاں تک کہ رفتہ رفتہ یہ روشنی پورے آسمان پر پھیل جاتی ہے اور اجالا ہو جاتا ہے۔ صبح صادق کی روشنی ظاہر ہوتے ہی سحری کا وقت ختم نماز فجر کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔ صبح صادق جاڑوں میں تقریباً سوا گھنٹہ اور گرمیوں میں لگ بھگ ڈیڑھ گھنٹہ سورج نکلنے سے پہلے ظاہر ہوتی ہے ۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلوۃ، الباب الاول،الفصل الاول فی اوقات الصلوٰۃ، ج۱،ص۵۱)
ظہر کا وقت:۔سورج ڈھلنے کے بعد شروع ہوتا ہے اور ٹھیک دوپہر کیوقت کسی چیز کا جتنا سا یہ ہو تا ہے اس سایہ کے علاوہ اس چیز کا سایہ دوگنا ہو جائے تو ظہر کا وقت ختم ہو جاتا ہے۔ ظہر کے وقت میں مستحب یہ ہے کہ جاڑوں میں اول وقت اور گرمیوں میں دیر کر کے نماز ظہر پڑھیں۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلوۃ، الباب الاول،الفصل الاول فی اوقات الصلوٰۃ، ج۱،ص۵۱)
فائدہ:۔سورج ڈھلنے اور دوپہر کے سایہ کے علاوہ سایہ دوگنا ہونے کی پہچان یہ ہے کہ برابر زمین پر ایک ہموار لکڑی بالکل سیدھی گاڑ دیں کہ پورب پچھم یا اتر دکھن کو ذرا بھی جھکی نہ ہو۔ اب خیال رکھو کہ جتنا سورج اونچا ہوتا جائے اس لکڑی کا سایہ کم اور چھوٹا ہوتا جائے گا۔ جب سایہ کم ہونا رک جائے تو سمجھ لو کہ ٹھیک دوپہر ہو گئی اوراس وقت میں اس لکڑی کا جتنا بڑاسایہ ہو اس کو ناپ کر دھیان میں رکھو۔ اس کے بعد جوں ہی سایہ بڑھنے لگے تو سمجھ لو کہ سورج ڈھل گیا اور ظہر کا وقت شروع ہو گیا اور جب سایہ بڑھتے بڑھتے اتنا بڑا ہوجائے کہ دوپہر والے سایہ کو نکال کر اس لکڑی کا سایہ اس لکڑی سے دوگنا بڑا ہو جائے تو سمجھ لو کہ
ظہر کا وقت نکل گیا اور عصر کا وقت شروع ہو گیا۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلوۃ، الباب الاول،الفصل الاول فی اوقات الصلوٰۃ، ج۱،ص۵۱)
جمعہ کا وقت وہی ہے جو ظہر کا وقت ہے۔
(البحر الرائق،کتاب الصلاۃ،باب صلاۃ الجمعۃ،ج۲،ص۲۵۶)
عصر کا وقت:۔ظہر کا وقت ختم ہوتے ہی عصر کا وقت شروع ہو جاتا ہے اور سورج ڈوبنے تک رہتا ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلوۃ، الباب الاول،الفصل الاول فی اوقات الصلوٰۃ، ج۱،ص۵۱)
جاڑوں میں عصر کا وقت تقریباً ڈیڑھ گھنٹے لمبا رہتا ہے اور گرمیوں میں قریب قریب دو گھنٹے (کچھ کم زیادہ مختلف تاریخوں میں) رہتا ہے' عصر کی نماز میں ہمیشہ تاخیر مستحب ہے۔ لیکن نہ اتنی تاخیر کہ سورج کی ٹکیا میں زردی آجائے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الصلوۃ،الباب الاول،الفصل الثانی،ج۱،ص۵۲)
مغرب کا وقت:۔سورج ڈوبنے کے بعد سے مغرب کا وقت شروع ہو جاتا ہے اور شفق غائب ہونے تک رہتا ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلوۃ، الباب الاول،الفصل الاول فی اوقات الصلوٰۃ، ج۱،ص۵۱)
شفق سے مراد وہ سپیدی ہے جو سورج ڈوبنے کی سرخی کے بعد پچھم میں صبح صادق کی سپیدی کی طرح اتر دکھن میں پھیلی رہتی ہے مغرب کے وقت کی لمبائی ہمارے دیار میں کم سے کم سوا گھنٹہ اور زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ گھنٹہ تقریباً ہوا کرتی ہے۔ اور ہر روز جتنا لمبا فجر کا وقت ہوتا ہے اتنا ہی لمبا مغرب کا وقت بھی ہوتا ہے۔
(شرح وقایہ،کتاب الصلوۃ،باب اوقات الصلوات الخمس،ج۱،ص۱۴۷)
عشاء کا وقت:۔شفق کی سپیدی غائب ہونے کے بعد سے صبح صادق کی سپیدی ظاہر ہونے تک ہے لیکن عشاء میں تہائی رات تک تاخیر کرنی مستحب ہے اور آدھی رات تک مباح ہے۔ اور آدھی رات کے بعد عشاء کی نماز پڑھنی مکروہ ہے۔
(البحرالرائق،کتاب الصلوۃ،ج۱،ص۴۳۰)
نماز و تر کا وقت:۔وہی ہے جو نماز عشاء کا وقت ہے لیکن عشاء پڑھنے سے پہلے وتر نہیں پڑھے جاسکتے کیونکہ عشاء اور وتر میں ترتیب فرض ہے یعنی ضروری ہے کہ پہلے عشاء پڑھ لی جائے اس کے بعد وتر پڑھی جائیں۔ اگر کسی نے قصداً عشاء کی نماز سے پہلے وترپڑھ لئے تو وتر ادا نہیں ہوں گے۔ بلکہ عشاء پڑھنے کے بعد پھر وتر پڑھنے پڑیں گے۔ ہاں اگر بھول کر وتر عشاء سے پہلے پڑھ لئے۔ یا بعد کو معلوم ہوا کہ عشاء بغیر وضو کے پڑھی تھی اور وتر وضو کے ساتھ پڑھے تو وہ وضو کر کے عشاء کی نماز پڑھے۔ لیکن وتر جو پہلے پڑھ لئے ہیں وہ ادا ہو گئے اس کو دہرانا ضروری نہیں۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلوۃ، الباب الاول،الفصل الاول فی اوقات الصلوٰۃ، ج۱،ص۵۱۔۵۳)
مسئلہ:۔سورج نکلتے وقت' سورج ڈوبتے وقت اور ٹھیک دوپہر کے وقت کوئی نماز پڑھنی جائز نہیں۔ لیکن اس دن کی عصر اگر نہیں پڑھی ہے تو سورج ڈوبنے کے وقت پڑھ لے۔ مگر عصر میں اتنی دیر کر کے نماز پڑھنی سخت گناہ ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلوۃ، الباب الاول،الفصل الثالث فی بیان الاوقات لاتجوز فیھا الصلاۃ وتکرہ فیھا، ج۱،ص۵۲)
مسئلہ:۔ان تینوں وقتوں میں قرآن مجید کی تلاوت بہتر نہیں ہے۔ اچھا یہ ہے کہ ان تینوں وقتوں میں کلمہ' یا تسبیح یا درود شریف وغیرہ پڑھنے میں مشغول رہے۔
(الدرالمختار مع ردالمحتار، کتاب الصلٰوۃ، مطلب بشرط العلم بدخول الوقت،ج۲،ص۴۴)
مسئلہ:۔اگر ان تینوں وقتوں میں جنازہ لایا گیا تو اسی وقت پڑھیں کوئی کراہت نہیں۔ کراہت اس صورت میں ہے کہ جنازہ ان وقتوں سے پہلے لایاگیا مگر نماز جنازہ پڑھنے میں اتنی دیر کر دی کہ مکروہ وقت آگیا۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلوۃ، الباب الاول،الفصل الثالث فی بیان الاوقات لاتجوز فیھا الصلاۃ وتکرہ فیھا، ج۱،ص۵۲)
مسئلہ:۔جب سورج کا کنارا ظاہر ہو اس وقت سے لے کر تقریباً بیس منٹ تک کوئی نماز جائز نہیں۔ سورج نکلنے کے بیس منٹ بعد جب سورج ایک لاٹھی کے برابر اونچا ہو جائے اس کے بعد ہر نماز چاہے نفل ہو یا قضا یا کوئی دوسری پڑھنی چاہے۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلوۃ، الباب الاول،الفصل الثالث فی بیان الاوقات التی لاتجوز فیھا الصلاۃ وتکرہ فیھا، ج۱،ص۵۲)
مسئلہ:۔جب سورج ڈوبنے سے پہلے پیلا پڑ جائے تو اس وقت سے سورج ڈوبنے تک کوئی نماز جائز نہیں۔ ہاں اگر اس دن کی عصر ابھی تک نہیں پڑھی تو اس کو پڑھ لے۔ نماز عصر ادا ہو جائے گی اگرچہ مکروہ ہوگی۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلوۃ، الباب الاول،الفصل الثالث فی بیان الاوقات التی لاتجوز فیھا الصلاۃ وتکرہ فیھا، ج۱،ص۵۲)
مسئلہ:۔ٹھیک دوپہر میں کوئی نماز جائز نہیں۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلوۃ، الباب الاول،الفصل الثالث،ج۱،ص۵۲)
"مسئلہ:۔بارہ وقتوں میں نفل اور سنت نمازیں پڑھنے کی مما نعت ہے وہ بارہ وقت یہ ہیں ۔
(۱)صبح صادق سے سورج نکلنے تک فجر کی دو رکعت سنت اور دو رکعت فرض کے سوا دوسری کوئی نماز پڑھنی منع ہے۔"
(بہار شریعت،ج۱،ح۳،ص۲۲، والفتاوی الھندیۃ ، کتاب الصلاۃ، الباب الاول، الفصل الثالث، ج۱، ص۵۲)
(۲)اقامت شروع ہونے سے جماعت ختم ہونے تک کوئی سنت و نفل پڑھنی مکروہ تحریمی ہے۔ ہاں البتہ اگر نماز فجر کی اقامت ہونے لگی اور اس کو معلوم ہے کہ سنت پڑھے گا۔ جب بھی جماعت مل جائے گی۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلاۃ، الباب الاول، الفصل الثالث،ج۱،ص۵۳)
اگر چہ قعدہ ہی سہی تو اس کو چاہے کہ صفوں سے کچھ دور ہٹ کر فجر کی سنت پڑھ لے۔ اور پھر جماعت میں شامل ہو جائے اور اگر وہ یہ جانتا ہے کہ سنت پڑھے گا تو جماعت نہیں ملے گی تو اس کو سنت پڑھنے کی اجازت نہیں بلکہ اس کو چاہیئے کہ بغیر سنت پڑھے جماعت میں شامل ہوجائے۔ فجر کی نماز کے علاوہ دوسری نمازوں میں اقامت ہوجانے کے بعد اگرچہ یہ جان لے کہ سنت پڑھنے کے بعد بھی جماعت مل جائے گی پھر بھی سنت پڑھنے کی اجازت نہیں بلکہ سنت پڑھے بغیر فوراً ہی جماعت میں شامل ہو جانا ضروری ہے۔
(بہارشریعت،ج۱،ح۴،ص۱۳)
(۳)نماز عصر پڑھ لینے کے بعد سورج ڈوبنے تک کو ئی نفل نماز پڑھنی مکروہ ہے۔ قضا نمازیں سورج ڈوبنے سے بیس منٹ پہلے تک پڑھ سکتا ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلاۃ، الباب الاول، الفصل الثالث،ج۱،ص۵۳)
(۴)سورج ڈوبنے کے بعد اور مغرب کے فرض پڑھنے سے پہلے کوئی نفل جائز نہیں۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلاۃ، الباب الاول، الفصل الثالث،ج۱،ص۵۳)
(۵)جس وقت امام اپنی جگہ سے جمعہ کے خطبہ کے لئے کھڑا ہوا اس وقت سے لے کر نماز جمعہ ختم ہونے تک کوئی نماز سنت و نفل وغیرہ جائز نہیں۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلاۃ، الباب الاول، الفصل الثالث،ج۱،ص۵۳)
" (۶)عین خطبہ کے درمیان کوئی نماز سنت و نفل وغیرہ جائز نہیں۔ چاہے جمعہ کا خطبہ ہو یا عیدین کا یا گرہن کی نماز کا یا نماز استسقاء کا یا نکاح کا۔ لیکن ہاں صاحب ترتیب کے لئے جمعہ کے خطبہ کے دوران بھی قضا نماز پڑھ لینا لازم ہے۔
(۷)عید کی نماز سے پہلے نفل نماز مکروہ ہے چاہے گھر میں پڑھے' یا مسجد میں یا عیدگاہ میں۔
(۸)عیدین کی نماز کے بعد بھی عید گاہ یا مسجد میں نماز نفل پڑھنی مکروہ ہے۔ ہاں اگر گھر میں نفل پڑھے تو یہ مکروہ نہیں۔
(۹)میدان عرفات میں ظہر و عصر ایک ساتھ پڑھتے ہیں ان دونوں نمازوں کے درمیان میں اور بعد میں نفل و سنت مکروہ ہے۔
(۱۰)مزدلفہ میں جو مغرب و عشاء ایک ساتھ پڑھتے ہیں ان دونوں نمازوں کے بیچ میں نفل و سنت پڑھنی مکروہ ہے۔"
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلاۃ، الباب الاول، الفصل الثالث،ج۱،ص۵۳)
"دونوں نمازوں کے بعد اگر نفل و سنت پڑھے تو مکروہ نہیں ہے۔
(۱۱)نماز فرض کا وقت اگر تنگ ہو گیا ہو تو ہر نماز یہاں تک کہ فجر و ظہر کی سنتیں پڑھنی بھی مکروہ ہیں۔ جلدی جلدی فرض پڑھ لے تاکہ نماز قضا نہ ہونے پائے۔
(۱۲)جس بات سے دل بٹے اور اس کو دور کر سکتا ہو۔ تو اسے دور کئے بغیر ہر نماز مکروہ ہے مثلاً پاخانہ' پیشاب یا ریح کا غلبہ ہو تو ایسی حالت میں نماز مکروہ ہے یوں ہی کھانا سامنے آگیا اور بھوک لگی ہو۔ یا دوسری کوئی بات ایسی ہو جس سے دل کو اطمینان نہ ہو تو ایسی صورت میں نماز پڑھنی مکروہ ہے۔ البتہ اگر وقت جارہا ہو تو ایسی حالت میں بھی نماز پڑھ لے تاکہ قضا نہ ہو جائے لیکن پھر اس نماز کو دہرالے۔"
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلاۃ، الباب الاول، الفصل الثالث،ج۱،ص۵۳)
اذان کے فضائل اور اس کے ثواب کے بیان میں بہت سی حدیثیں آئی ہیں۔ ترمذی و ابوداؤد و ابن ماجہ کی حدیث ہے کہ جو شخص سات برس تک ثواب کی نیت سے اذان پڑھے گا۔ اس کیلئے جہنم سے نجات لکھ دی جائے گی۔
(جامع الترمذی، ابواب الصلوۃ، باب ماجاء فی فضل الاذان، رقم ۲۰۶،ج۱،ص۲۴۸)
اذان اسلام کا نشان ہے اگر کسی شہریا گاؤں کے لوگ اذان پڑھنا چھوڑ دیں۔ تو بادشاہ اسلام ان کو مجبور کرکے اذان پڑھوائے اور اس پر بھی لوگ نہ مانیں تو ان سے جہاد کرے۔
(الفتاوی القاضی خان، کتاب الصلوۃ، باب الاذان، ج۱،ص۳۴)
پانچوں نمازوں اور جمعہ کو مسجد میں جماعت کے ساتھ ادا کرنے کے لئے اذان پڑھنا سنت موکدہ ہے اور اس کا حکم مثل واجب کے ہے۔ یعنی اگر اذان نہ پڑھی گئی ہو تو وہاں کے سب لوگ گنہگار ہوں گے۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلاۃ، الباب الثانی، الفصل الاول فی صفتہ واحوال المؤذن،ج۱،ص۵۳)
مسئلہ:۔مسجد میں بلا اذان و اقامت کے جماعت سے نماز پڑھنی مکروہ ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلاۃ، الباب الثانی، الفصل الاول فی صفتہ واحوال المؤذن،ج۱،ص۵۴)
مسئلہ:۔کوئی شخص گھر میں نماز پڑھے اور اذان نہ پڑھے تو کوئی حرج نہیں کہ وہاں کی مسجد کی اذان اس کے لئے کافی ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلاۃ، الباب الثانی، الفصل الاول فی صفتہ واحوال المؤذن،ج۱،ص۵۴)
مسئلہ:۔وقت ہونے کے بعد اذان پڑھی جائے۔ اگر وقت سے پہلے اذان ہوگئی تو وقت ہونے پر دوبارہ اذان پڑھی جائے۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلاۃ، الباب الثانی، الفصل الاول فی صفتہ واحوال المؤذن،ج۱،ص۵۳)
مسئلہ:۔اذان کے درمیان بات چیت منع ہے۔ اگر موذن نے اذان کے بیچ میں کوئی بات کرلی تو پھر سے اذان کہے۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلاۃ، الباب الثانی، الفصل الاول فی صفتہ واحوال المؤذن،ج۱،ص۵۵)
مسئلہ:۔ہر اذان یہاں تک کہ خطبہ جمعہ کی اذان بھی مسجد کے باہر کہی جائے۔ مسجد کے اندر اذان نہ پڑھی جائے۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلاۃ، الباب الثانی، الفصل الثانی فی کلمات الاذان والاقامۃ وکیفیتھما،ج۱،ص۵۵)
مسئلہ:۔جب اذان ہو تو اتنی دیر کے لئے سلام' کلام اور سلام کا جواب اور ہر کام موقوف کر دے۔ یہاں تک کہ قرآن شریف کی تلاوت میں اذان کی آواز آئے تو تلاوت روک دے اور اذان کو غور سے سنے اور جواب دے اور یہی اقامت میں بھی کرے۔
(الفتاوی الھندیۃ ، کتاب الصلاۃ ، الباب الثانی ، الفصل الثانی،ومما یتصل بذالک اجابۃ المؤذن ،ج۱،ص۵۷)
مسئلہ:۔جو شخص اذان کے وقت باتوں میں مشغول رہے۔ اس پر معاذاﷲ خاتمہ برا ہونے کا خوف ہے۔
(بہارشریعت، ح۳،ج۱،ص۳۶)
مسئلہ:۔فرض نمازوں اور جمعہ کی جماعتوں کے علاوہ دوسرے موقعوں پر بھی اذان کہی جاسکتی ہے۔ جیسے پیدا ہونے والے بچے کے داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت۔ اسی طرح مغموم کے کان میں' مرگی والے اور غضبناک اور بد مزاج آدمی اور جانور کے کان میں' جنگ اور آگ لگنے کے وقت' جنوں اور شیطانوں کی سرکشی کے وقت' جنگل میں راستہ نہ ملنے کے وقت' میت کے دفن کرنے کے بعد ان صورتوں میں اذان پڑھنا مستحب ہے۔
(الردالمحتارمع الدرالمختار،کتاب الصلوٰۃ ، مطلب: فی مواضع الشئی یندب لھا الاذان، ص۶۲۔۶۳)
اذان کا طریقہ:۔مسجد سے خارج حصہ میں کسی اونچی جگہ پر قبلہ کی طرف منہ کر کے کھڑا ہو۔ اور کانوں کے سوراخوں میں کلمہ کی انگلیاں ڈال کر بلند آواز سے
اَللہُ اَکْبَرُ اَللہُ اَکْبَرُ
کہے پھر ذرا ٹھہر کر
اَللہُ اَکْبَرُ اَللہُ اَکْبَرُ
کہے۔ پھر ذراٹھہر کر دومرتبہ
اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اَللہُ
کہے پھر دو مرتبہ ٹھہر ٹھہر کر
اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اﷲ ؕ
کہے پھر داہنی طرف منہ پھیر کر دو مرتبہ
حَیَّ عَلَی الصَّلوٰۃِؕ
کہے پھر بائیں طرف منہ کر کے دو مرتبہ
حَیَّ عَلَی الْفَلَا حِ ؕ
کہے۔ پھر قبلہ کی طرف کو منہ کرے اور
اﷲاکبر اﷲاکبر
کہے پھر ایک مرتبہ
لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ
کہے۔
(الفتاوی الھندیۃ ، کتاب الصلاۃ،الباب الثانی، الفصل الثانی فی کلمات الاذان والاقامۃ وکیفیتھا،ج۱،ص۵۵۔۵۶)
مسئلہ:۔فجر کی اذان میں
حَیَّ عَلَی الْفَلَا حِ
کہنے کے بعد دو مرتبہ
الصَّلوٰۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ
بھی کہنا مستحب ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ ، کتاب الصلاۃ،الباب الثانی، الفصل الثانی فی کلمات الاذان والاقامۃ وکیفیتھا،ج۱،ص۵۵)
اذان کے بعد پہلے درود شریف پڑھے۔ پھر اذان پڑھنے والا اور اذان سننے والے سب دعا پڑھیں۔
اَللّٰھُمَّ رَبَّ ھٰذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّا مَّۃِ وَ الصَّلوٰۃِ الْقَآئِمَۃِ اٰتِ سَیِّدَنَا مُحَمَّدَ نِ الْوَسِیْلَۃَ وَالْفَضِیْلَۃَ وَالدَّرَجَۃَ الرَّفِیْعَۃَ وَابْعَثْہُ مَقَاماً مَّحْمُوْدَانِ الَّذِیْ وَعَدْتَّہٗ وَارْزُقْنَا شَفَا عَتَہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِنَّکَ لاَ تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ O
(السنن الکبری للبیہقی، کتاب الصلاۃ، باب مایقول اذا فرغ من ذالک،رقم۱۹۳۳،ج۱،ص۶۰۳)
اذان کا جواب:۔جب اذان سنے تو اذان کا جواب دینے کا حکم ہے۔ اوراذان کے
جواب کا طریقہ یہ ہے کہ اذان کہنے والا جو کلمہ کہے سننے والا بھی وہی کلمہ کہے مگر
حَیَّ عَلَی الصَّلوٰۃِ
اور
حَیَّ عَلَی الْفَلَا حِ
کے جواب میں
لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللہِ
کہے۔ اور بہتر یہ ہے کہ دونوں کہے اور فجر کی اذان میں
اَلصَّلوٰۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ
کے جواب میں
صَدَقْتَ وَبَرَرْتَ وَ بِالْحَقِّ نَطَقْتَ
کہے۔
(الفتاوی الھندیۃ ، کتاب الصلاۃ،الباب الثانی، الفصل الثانی ومما یتصل بذالک اجابۃ المؤذن،ج۱،ص۵۷)
مسئلہ:۔جب موذن کہے
اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اﷲ
تو سننے والا درود شریف بھی پڑھے اور مستحب ہے کہ انگوٹھوں کو بوسہ دے کر آنکھوں سے لگائے اور کہے۔
قُرَّۃُ عَیْنِیْ بِکَ یَا رَسُوْلَ اللہِ اَللّٰھُمَّ مَتِّعْنِیْ بِا لسَّمْعِ وَالْبَصَرِ۔
(الردالمحتارمع الدرالمختار،کتاب الصلوٰۃ،مطلب فی کراہیۃ تکرارالجماعۃ فی المسجد،ج۲،ص۸۴)
مسئلہ:۔خطبہ کی اذان کا جواب زبان سے دینا مقتدیوں کو جائز نہیں۔
(الدرالمختار،کتاب الصلوٰۃ، باب الاذان، ج۲،ص۸۱)
مسئلہ:۔جنب بھی اذان کا جواب دے۔
(الدرالمختار،کتاب الصلوٰۃ، باب الاذان، ج۲،ص۸۱)
مسئلہ:۔حیض و نفاس والی عورت اور جماع میں مشغول ہونے والے پر اور پیشاب پاخانہ کرنے والے پر' اذان کا جواب نہیں۔ مسئلہ:۔حیض و نفاس والی عورت اور جماع میں مشغول ہونے والے پر اور پیشاب پاخانہ کرنے والے پر' اذان کا جواب نہیں۔
(الدرالمختار،کتاب الصلوٰۃ، باب الاذان، ج۲،ص۸۱)
صلاۃ پڑھنا:۔اذان و اقامت کے درمیان
اَلصَّلوٰۃُ وَالسَّلامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہِ
یا اس قسم کے دوسرے کلمات نماز کے اعلان ثانی کے طور پر بلند آواز سے پکارنا مستحب ہے۔اس کو شریعت کی اصطلاح میں تثویب کہتے ہیں اور تثویب مغرب کے علاوہ باقی نمازوں میں مستحب ہے تثویب کے لئے کوئی خاص کلمات شریعت میں مقرر نہیں ہیں۔ بلکہ
اس شہر میں جن لفظوں کے ساتھ تثویب کہتے ہوں ان لفظوں سے تثویب کہنا مستحب ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ ،کتاب الصلوۃ، الباب الثانی، الفصل الثانی فی کلمات الاذان والاقامۃ وکیفیتھا،ج۱،ص۵۶)
اقامت:۔اقامت اذان ہی کے مثل ہے۔ مگر چند باتوں میں فرق ہے۔ اذان کے کلمات ٹھہر ٹھہر کر کہے جاتے ہیں۔ اور اقامت کے کلمات کو جلد جلد کہیں۔ درمیان میں سکتہ نہ کریں۔ اقامت میں
حَیَّ عَلَی الْفَلَا حِ
کے بعد دو مرتبہ
قَدْ قَامَتِ الصَّلوٰۃُ
بھی کہیں۔ اذان میں آواز بلند کرنے کا حکم ہے۔ مگر اقامت میں آواز بس اتنی ہی اونچی ہو کہ سب حاضرین مسجد تک آواز پہنچ جائے۔ اقامت میں کانوں کے اندر انگلیاں نہیں ڈالی جائیں گی۔ اذان مسجد کے باہر پڑھنے کا حکم ہے اور اقامت مسجد کے اندر پڑھی جائے گی۔
(الدرالمختار،کتاب الصلوٰۃ، مطلب فی اول من بنی المنائر، ج۲،ص۶۸)
مسئلہ:۔اگر امام نے اقامت کہی
قَدْقَامَتِ الصَّلوٰۃُ
کے وقت آگے بڑھ کر مصلّٰی پر چلا جائے۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلوۃ،باب الثانی،الفصل الثانی،ج۱،ص۵۷)
مسئلہ:۔اقامت میں بھی
حَیَّ عَلَی الصَّلوٰۃ ؕ
اور
حَیَّ عَلَی الْفَلَا حِ ؕ
کے وقت داہنے بائیں منہ پھیرے۔
(الدرالمختار،کتاب الصلوٰۃ، باب الاذان، ج۲،ص۶۶)
مسئلہ:۔اقامت ہوتے وقت کوئی شخص آیا تو اسے کھڑے ہو کر انتظار کرنا مکروہ ہے بلکہ اس کو چاہے کہ بیٹھ جائے اور جب
حَیَّ عَلَی الْفَلَا حِ
کہا جائے تو اس وقت کھڑا ہو۔ یوں ہی جو لوگ مسجد میں موجود ہیں وہ بھی اقامت کے وقت بیٹھے رہیں۔ جب
حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ
مکبر کہے اس وقت سب لوگ کھڑے ہوں۔ یہی امام کے لئے بھی ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ ،کتاب الصلوۃ، الباب الثانی، الفصل الثانی فی کلمات الاذان والاقامۃ وکیفیتھا،ج۱،ص۵۷)
" آج کل اکثر جگہ یہ غلط رواج ہے کہ۔ اقامت کے وقت بلکہ اقامت سے پہلے ہی لوگ کھڑے ہوجاتے ہیں۔ بلکہ اکثر جگہ تو یہ ہے کہ جب تک امام کھڑا نہ ہو جائے اس وقت تک اقامت نہیں کہی جاتی۔ یہ طریقہ خلاف سنت ہے۔ اس بارے میں بہت سے رسالے اور فتاویٰ بھی چھاپے گئے مگر ضد اور ہٹ دھرمی کا کیا علاج؟ خدا وند کریم مسلمانوں کو سنت پر عمل کرنے کی توفیق بخشے۔
مسئلہ:۔اقامت کا جواب دینا مستحب ہے۔ اقامت کا جواب بھی اذان ہی کے جواب کی طرح ہے۔ اتنا فرق ہے کہ اقامت میں"
قَدْ قَامَتِ الصَّلوٰۃُ
کے جواب میں
اَقَامَھَااللہُ وَاَدَا مَھَا مَادَامَتِ السَّمٰوَاتُ وَالْاَرضُ
کہے۔
(الفتاوی الھندیۃ ،کتاب الصلوۃ، الباب الثانی، الفصل الثانی ،ج۱،ص۵۷)
" پوری نماز میں خانہ کعبہ کی طرف منہ کرنا نماز کی شرط اور ضروری حکم ہے۔ لیکن چند صورتوں میں اگر قبلہ کی طرف منہ نہ کرے پھر بھی نماز جائز ہے۔ مثلاً
مسئلہ:۔جو شخص دریا میں کسی تختہ پر بہا جا رہا ہو اور اسے صحیح اندیشہ ہو کہ منہ پھیرنے سے ڈوب جائے گا اس طرح کی مجبوری سے وہ قبلہ کی طرف منہ نہیں کر سکتا۔ تو اس کو چاہے کہ وہ جس رخ بھی نماز پڑھ سکتا ہے پڑھ لے۔ اس کی نماز ہو جائے گی۔ اور بعد میں اس نماز کو دہرانے کی بھی ضرورت نہیں۔"
(الفتاوی الھندیۃ ، الباب الثالث، الفصل الثالث فی استقبال القبلۃ،ج۱،ص۶۳)
مسئلہ:۔بیمار میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ قبلہ کی طرف منہ کر سکے اور وہاں دوسرا ایسا کوئی آدمی بھی نہیں ہے جو کعبہ کی طرف اس کا منہ کر دے تو اس مجبوری کی حالت میں جس طرف بھی منہ کر کے نماز پڑھ لے گا اس کی نماز ہوجائے گی اور اس نماز کو بعدمیں دہرانے کی
بھی ضرورت نہیں۔
(الفتاوی الھندیۃ ، الباب الثالث، الفصل الثالث فی استقبال القبلۃ،ج۱،ص۶۳)
مسئلہ:۔چلتی ہوئی کشتی میں اگر نماز پڑھے تو تکبیر تحریمہ کے وقت قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز شروع کردے اور جیسے جیسے کشتی گھومتی جائے خود بھی قبلہ کی طرف منہ پھیرتا رہے اگرچہ فرض نماز ہو یا نفل۔
(غنیۃ المستملی،فروع فی شرح الطحاوی،ص۲۲۵)
مسئلہ:۔اگر یہ نہ معلوم ہو کہ قبلہ کدھر ہے اور وہاں کوئی بتانے والا بھی نہ ہو تو نمازی کو چاہے کہ اپنے دل میں سوچے اور جدھر قبلہ ہونے پر دل جم جائے اسی طرف منہ کرکے نماز پڑھ لے۔ اس کے حق میں وہی قبلہ ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ ، الباب الثالث، الفصل الثالث فی استقبال القبلۃ،ج۱،ص۶۴)
مسئلہ:۔جس طرف دل جم گیا تھا ادھر منہ کر کے نماز پڑھ رہا تھا پھر نماز کے درمیان ہی میں اس کی یہ رائے بدل گئی کہ قبلہ دوسری طرف ہے یا اس کو اپنی غلطی معلوم ہوگئی تو اس پر فرض ہے کہ فوراً ہی اس طرف گھوم جائے اور پہلے جتنی رکعتیں پڑھ چکا ہے اس میں کوئی خرابی نہیں آئے گی اسی طرح اگر نماز میں اس کو چاروں طرف بھی گھومنا پڑا پھر بھی اس کی نماز ہو جائے گی۔ اور اگر رائے بدلتے ہی یا غلطی ظاہر ہوتے ہی دوسری طرف نہیں گھوما۔ اور تین مرتبہ سبحان اﷲ کہنے کے برابر دیر لگادی تو اس کی نماز نہ ہوگی۔
(ردالمحتار مع الدرالمختار، کتاب الصلاۃ، مطلب مسائل التحری فی القبلۃ،ج۲،ص۱۴۴)
مسئلہ:۔نمازی نے اگر بلا عذر قصداً جان بوجھ کر قبلہ سے سینہ پھیر دیا تو اگرچہ فوراً ہی اس نے قبلہ کی طرف سینہ پھرا لیا پھر بھی اس کی نماز ٹوٹ گئی اور وہ پھر سے نماز پڑھے۔
(صغیری شرح منیۃ المصلی،شرائط الصلاۃ، الشرط الرابع،ص۱۲۵)
اور اگر نماز میں بلا قصد و ارادہ قبلہ سے سینہ پھر گیا اور فوراً ہی اس نے قبلہ کی طرف سینہ کر لیا تو اس کی نماز ہوگئی۔
(البحرالرائق،کتاب الصلوۃ،باب شروط الصلوۃ،ج۱،ص۴۹۷)
مسئلہ:۔اگر صرف منہ قبلہ سے پھیر لیا اور سینہ قبلہ سے نہیں پھرا تو اس پر واجب ہے کہ فوراً ہی وہ قبلہ کی طرف منہ کرے اس کی نماز ہو جائے گی مگر بلا عذر ایک سیکنڈ کیلئے بھی قبلہ سے چہرہ پھیر لینا مکروہ ہے۔
(صغیری شرح منیۃ المصلی،شرائط الصلاۃ، الشرط الرابع،ص۱۲۶)
مسئلہ:۔اگر نمازی نے قبلہ سے سینہ پھیرا نہ چہرہ پھیرا بلکہ صرف آنکھوں کو پھرا پھراکر ادھر ادھر دیکھ لیا تو اس کی نماز ہو جائے گی مگر ایسا کرنا مکروہ ہے۔
(بہارشریعت،ح۳،ص۵۲)
"نیت سے مراد دل میں پکا ارادہ کرنا ہے خالی خیال کافی نہیں جب تک کہ ارادہ نہ ہو۔
مسئلہ:۔اگر زبان سے بھی کہہ دے تو اچھا ہے۔ مثلاً یوں کہے کہ نیت کی میں نے دو رکعت فرض فجر کی' واسطے اﷲتعالیٰ کے 'منہ میرا طرف کعبہ شریف کے اﷲاکبر۔"
(الفتاوی الھندیۃ، الباب الثالث، الفصل الرابع فی النیۃ، ج۱،ص۶۵)
مسئلہ:۔مقتدی ہو تو نیت میں اس کو اتنا اور کہنا چاہے کہ پیچھے اس امام کے۔
(الفتاوی الھندیۃ، الباب الثالث، الفصل الرابع فی النیۃ، ج۱،ص۶۶)
مسئلہ:۔امام نے امام ہونے کی نیت نہیں کی جب بھی مقتدیوں کی نماز اس کے پیچھے ہو جائے گی لیکن جماعت کا ثواب نہ پائے گا۔
(الفتاوی الھندیۃ، الباب الثالث، الفصل الرابع فی النیۃ، ج۱،ص۶۶)
اب تمام نمازوں کی رکعتوں اوران کی نیتوں کے طریقوں کا الگ الگ سوال و جواب کی صورت میں بیان کرتے ہیں ان کو خوب اچھی طرح یاد کر لو۔
"سوال)فجر کے وقت کتنی رکعت نماز پڑھی جاتی ہے؟
جواب)کل چار رکعت پہلے دو رکعت سنت مؤکدہ پھر دو رکعت فرض۔
سوال)دو رکعت سنت کی نیت کس طرح کی جائے گی؟
جواب)نیت کی میں نے دو رکعت نماز سنت فجر کی اﷲتعالیٰ کے لئے سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی منہ میرا کعبہ شریف کی طرف اﷲاکبر۔
سوال)دو رکعت فرض کی نیت کس طرح کی جائے گی؟
جواب)نیت کی میں نے دو رکعت نماز فرض فجر کی اﷲتعالیٰ کے لئے (مقتدی اتنا اور
کہے پیچھے اس امام کے) منہ میرا کعبہ شریف کی طرف اﷲاکبر۔
سوال)ظہر کے وقت کل کتنی رکعت نماز پڑھی جاتی ہے۔؟
جواب)بارہ رکعت' پہلے چار رکعت سنت موکدہ' پھر چار رکعت فرض' پھر دو رکعت
سنت موکدہ پھر دو رکعت نفل۔
سوال)چار رکعت سنت کی نیت کس طرح کی جائے گی؟
جواب) نیت کی میں نے چار رکعت نماز سنت ظہر کی' اﷲتعالیٰ کے لئے سنت رسول
اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی' منہ میرا طرف کعبہ شریف کے 'اﷲاکبر۔
سوال)چار رکعت فرض کی نیت کس طرح کی جائے گی؟
جواب)نیت کی میں نے چار رکعت نمار فرض ظہر کی اﷲتعالیٰ کے لئے (مقتدی اتنا
اور کہے پیچھے اس امام کے) منہ میرا طرف کعبہ شریف کے اﷲاکبر۔
سوال)اور دو رکعت سنت کی نیت کس طرح کی جائے گی؟
جواب)نیت کی میں نے دو رکعت نماز سنت ظہر کی اﷲتعالیٰ کے لئے سنت رسول"
"اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی' منہ میرا طرف کعبہ شریف کے 'اﷲاکبر۔
سوال)پھر دو رکعت نفل کی نیت کیسے کرے؟
جواب)نیت کی میں نے دو رکعت نماز نفل کی اﷲ تعالیٰ کے لئے منہ میرا طرف کعبہ
شریف کے اﷲاکبر۔
فائدہ:۔ نفل نماز بیٹھ کر پڑھنا بھی جائز ہے لیکن کھڑے ہو کر نفل پڑھنے میں دوگنا
ثواب ملتا ہے۔ اور بیٹھ کر پڑھنے میں آدھا ثواب ملتا ہے۔
سوال)عصر کے وقت کل کتنی رکعت نماز پڑھی جاتی ہے؟
جواب)آٹھ رکعت پہلے چار رکعت سنت غیر موکدہ پھر چار رکعت فرض۔
سوال)چار رکعت سنت غیر موکدہ کی نیت کس طرح کی جائے گی؟
جواب)نیت کی میں نے چار رکعت نماز سنت عصر کی' اﷲتعالیٰ کے لئے' سنت رسول
اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی' منہ میرا طرف کعبہ شریف کے' اﷲاکبر۔
سوال)پھر چار رکعت فرض کی نیت کیسے کرے؟
جواب)نیت کی میں نے چار رکعت نماز فرض عصر کی اﷲتعالیٰ کے لئے (مقتدی اتنا
اور کہے پیچھے اس امام کے) منہ میرا طرف کعبہ شریف کے اﷲاکبر۔
سوال) مغرب کے وقت کل کتنی رکعت نماز پڑھی جاتی ہے؟
جواب)سات رکعت پہلے تین رکعت فرض' پھر دو رکعت سنت موکدہ' پھر دو رکعت نفل۔
سوال)تین رکعت فرض کی نیت کس طرح کی جائے؟
جواب)نیت کی میں نے تین رکعت نماز فرض مغرب اﷲتعالیٰ کے لئے (مقتدی اتنا
اور کہے پیچھے اس امام کے) منہ میرا طرف کعبہ شریف کے اﷲاکبر۔"
"سوال) اور دو رکعت سنت موکدہ کی نیت کیسے کرے؟
جواب)نیت کی میں نے دو رکعت نماز سنت مغرب' اﷲتعالیٰ کے لئے سنت رسول
اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی 'منہ میرا طرف کعبہ شریف کے اﷲاکبر۔
سوال)پھر دو رکعت نفل کی نیت کیسے کرے؟
جواب)نیت کی میں نے دو رکعت نماز نفل اﷲتعالیٰ کے لئے' منہ میرا طرف کعبہ
شریف کے' اﷲاکبر۔
سوال)عشاء کے وقت کل کتنی رکعت نماز پڑھی جاتی ہے؟
جواب)سترہ رکعت پہلے چار رکعت سنت غیر موکدہ' پھر چار رکعت فرض' پھر دو
رکعت سنت موکدہ' پھر دو رکعت نفل پھر تین وتر واجب پھر دو رکعت نفل۔
سوال)چار رکعت سنت غیر موکدہ کی نیت کس طرح کی جائے؟
جواب)نیت کی میں نے چار رکعت نماز سنت عشاء کی' اﷲتعالیٰ کے لئے' سنت رسول
اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی' منہ میرا طرف کعبہ شریف کے 'اﷲاکبر۔
سوال)پھر چار رکعت فرض کی نیت کیسے کرے؟
جواب)نیت کی میں نے چار رکعت نماز فرض عشاء کی اﷲتعالیٰ کے لئے (مقتدی اتنا
اور کہے پیچھے اس امام کے) منہ میرا طرف کعبہ شریف کے اﷲاکبر۔
سوال)پھر دو رکعت سنت موکدہ کی نیت کس طرح کی جائے گی؟
جواب)نیت کی میں نے دو رکعت نماز سنت عشاء کی اﷲتعالیٰ کے لئے سنت
رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم كي منہ میرا طرف کعبہ شریف کے اﷲاکبر۔
سوال) پھر دو رکعت نفل کی نیت کس طرح کی جائے؟"
"جواب) نیت کی میں نے دو رکعت نماز نفل اﷲتعالیٰ کے لئے منہ میرا طرف کعبہ
شریف کے اﷲاکبر۔
سوال)پھر وتر کی نیت کس طرح کی جائے؟
جواب)نیت کی میں نے تین رکعت نماز واجب وتر کی، اﷲ تعالیٰ کے لیے منہ میرا
طرف کعبہ شریف کے اﷲ اکبر۔
سوال)پھر دو رکعت نفل کی نیت کس طرح کرے؟
جواب)نیت کی میں نے دو رکعت نماز نفل اﷲتعالیٰ کے لئے منہ میرا طرف کعبہ
شریف کے اﷲاکبر۔
سوال)اگر نیت کے الفاظ بھول کر کچھ کے کچھ زبان سے نکل گئے تو نماز ہوگی یا نہیں؟
جواب)نیت دل کے پکے ارادے کو کہتے ہیں یعنی نیت میں زبان کا اعتبار نہیں تو اگر
دل میں مثلاً ظہر کا پکا ارادہ کیا اور زبان سے ظہر کی جگہ عصر کا لفظ نکل گیا۔ تو ظہر
کی نماز ہو جائے گی۔
سوال)قضا نماز کی نیت کس طرح کرنی چاہے؟
جواب)جس روز اور جس وقت کی نماز قضا ہو اس روز اور اس وقت کی نیت قضا
ضروری ہے مثلاً اگر جمعہ کے روز فجر کی نماز قضا ہو گئی تو اس طرح نیت
کرے کہ نیت کی میں نے دو رکعت نماز قضا جمعہ کے روز کی فرض فجر کی
اﷲتعالیٰ کے لئے' منہ میرا طرف کعبہ شریف کے اﷲاکبر۔
سوال)اگرکئی سال کی نمازیں قضا ہوں تو نیت کیسے کرے؟
جواب)ایسی صورت میں جو نماز مثلاً ظہر کی قضا پڑھنی ہے تو اس طرح نیت کرے کہ"
"نیت کی میں نے چار رکعت نماز قضا جو میرے ذمہ باقی ہے ان میں سے پہلے
فرض ظہر کی' اﷲتعالیٰ کے لئے منہ میرا طرف کعبہ شریف کے اﷲاکبر۔
اسی طریقہ پر دوسری قضانمازوں کی نیتوں کو قیاس کر لینا چاہے۔
سوال)پانچ وقت کی نمازوں میں کل کتنی رکعت قضا پڑھی جائے گی؟
جواب)بیس رکعت' دو رکعت فجر' چار رکعت ظہر' چار رکعت عصر' تین رکعت مغرب'
چار رکعت عشاء' تین رکعت وتر' خلاصہ یہ ہے کہ فرض اور وتر کی قضا ہے'
سنتوں اور نفلوں کی قضا نہیں ہے۔"
نماز پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ وضو کرکے قبلہ کی طرف منہ کرے اور اس طرح کھڑا ہو کہ دونوں پیروں کے درمیان چار انگل کا فاصلہ رہے اور دونوں ہاتھ کو دونوں کانوں تک اٹھائے کہ دونوں انگوٹھے دونوں کانوں کی لو سے چھو جائیں باقی انگلیاں اپنے حال پر رہیں۔ نہ بالکل ملی ہوئی نہ بہت پھیلی ہوئی۔ اس حال میں کہ کانو ں کی لو چھوتے ہوئے دونوں ہتھیلیاں قبلہ کی طرف ہوں۔ اور نگاہ سجدہ کی جگہ پر ہو۔ پھر نیت کر کے اﷲاکبر کہتا ہوا ہاتھ نیچے لا کر ناف کے نیچے اس طرح باندھ لے کہ داہنی ہتھیلی کی گدی بائیں کلائی کے سرے پر پہنچوں کے پاس رہے اور بیچ کی تینوں انگلیاں بائیں کلائی کی پیٹھ پر اور انگوٹھا اور چھوٹی انگلی کلائی کے اغل بغل حلقہ کی صورت میں رہیں۔ پھر ثناء پڑھے یعنی
سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَ بِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَ تَعَالیٰ جَدُّکَ وَ لَآ اِلٰہَ غَیْرُکَ
پھر
اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ؕ
پڑھے پھر
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ؕ
پڑھے پھر الحمد پوری پڑھے اور ختم پر آہستہ سے آمین کہے اس کے بعد کوئی سورہ یا تین آیتیں پڑھے۔ یا ایک لمبی
آیت جو تین آیتوں کے برابر ہو پڑھے پھر اﷲاکبرکہتا ہوا رکوع میں جائے اور گھٹنوں کو ہاتھوں سے اس طرح پکڑے کہ ہتھیلیاں دونوں گھٹنوں پر ہوں اور انگلیاں خوب پھیلی ہوں اور پیٹھ بچھی ہو اور سر پیٹھ کے برابر اونچا نیچا نہ ہواور نظر پیروں کی پشت پر ہواور کم سے کم تین مرتبہ
سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ
کہے پھر
سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ
کہتا ہوا سیدھاکھڑاہو جائے اور اکیلے نماز پڑھتا ہو تو اس کے بعد
رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدَ
بھی کہے اور دونوں ہاتھ لٹکائے رہے' ہاتھوں کو باندھے نہیں پھر
اﷲاکبر
کہہ کر سجدہ میں جائے اس طرح کہ پہلے گھٹنے زمین پر رکھے پھر ہاتھ پھر دونوں ہاتھوں کے درمیان سر رکھے۔ اس طرح پر کہ پہلے ناک زمین پر رکھے پھر ماتھا اور ناک کی ہڈی کو دبا کر زمین پر جمائے۔ اور نظر ناک کی طرف رہے اور بازوؤں کو کروٹوں سے اور پیٹ کو رانوں سے اور رانوں کو پنڈلیوں سے جدا رکھے۔ اور پاؤں کی سب انگلیوں کو قبلہ کی طرف رکھے۔ اس طرح کہ انگلیوں کا پیٹ زمین پر جما رہے اور ہتھیلیاں بچھی ہوں۔ اور انگلیاں قبلہ کی طرف ہوں اور کم سے کم تین بار
سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَ عْلٰی
کہے پھر سر اٹھائے اس طرح کہ پہلے ماتھا پھر ناک پھر منہ پھر ہاتھ اور داہنا قدم کھڑا کرکے اس کی انگلیاں قبلہ رخ کرے اور بایاں قدم بچھا کر اس پر خوب سیدھا بیٹھ جائے۔ اور ہتھیلیاں بچھا کر رانوں پر گھٹنوں کے پاس رکھے۔ اس طور پر کہ دونوں ہاتھوں کی انگلیاں قبلہ رخ ہوں اور انگلیوں کا سرا گھٹنوں کے پاس ہو۔ پھر ذرا ٹھہرکہ
اﷲاکبر
کہتا ہو ا دوسرا سجدہ کرے۔ یہ سجدہ بھی پہلے کی طرح کرے۔ پھر سر اٹھائے اور دونوں ہاتھوں کو دونوں گھٹنوں پر رکھ کر پنجوں کے بل کھڑا ہوجائے اٹھتے وقت بلا عذر ہاتھ زمین پر نہ ٹیکے۔ یہ ایک رکعت پوری ہو گئی اب پھر
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
پڑھ کر الحمد پوری پڑھے اور کوئی سورۃ پڑھے اورپہلے کی طرح رکوع اور سجدہ کرے۔ پھر جب سجدہ سے سر اٹھائے تو
داہنا قدم کھڑا کر کے بایاں قدم بچھا کر بیٹھ جائے اور یہ پڑھے۔
اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ ؕ اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلیٰ عِبَادِ اللہِ الصَّالِحِیْنَ ؕ اَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہٗ ؕ
اس کو تشہد کہتے ہیں جب
اَشْہَدُ اَنْ لاَّ
کے قریب پہنچے تو داہنے ہاتھ کی بیچ کی انگلی کو ہتھیلی سے ملا دے۔ اور لفظ لا پر کلمہ کی انگلی اٹھائے مگر ادھر ادھر نہ ہلائے۔ اور اِلَّا پرگرا دے اسی طرح سب انگلیاں فوراً سیدھی کرے۔ اب اگر دو سے زیادہ رکعتیں پڑھنی ہیں تو اٹھ کھڑا ہو اور اسی طرح پڑھے مگر فرض کی ان رکعتوں میں الحمد کے ساتھ سورت ملانا ضروری نہیں اب پچھلا قعدہ جس کے بعد نماز ختم کریگا اس میں تشہد کے بعد درود شریف
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلیٰ اٰلِ سَیّدِنَا مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰ سَیِّدِنَا اِبْرَاھِیْمَ وَ عَلیٰ اٰلِ سَیِّدِنَا اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌؕ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلیٰ سَیِّدِنَا اِبْرَاھِیْمَ وَ عَلٰی اٰلِ سَیِّدِنَا اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ ؕ
پڑھے پھر
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ تَوَالَدَ وَلِجَمِیْعِ الْمُؤْ مِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ الْاَحْیَآءِ مِنْھُمْ وَالْاَمْوَاتِ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مُّجِیْبُ الدَّعْوَاتِ بِرَحْمَتِکَ یَآ اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ ؕ
یا اور کوئی دعائے ماثورہ پڑھے مثلاً یہ دعا پڑھے
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفسِیْ ظُلْمًا کَثِیْرًا وَّاِنَّہٗ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ فَاغْفِرْلِیْ مَغْفِرَۃً مِّنْ عِنْدِکَ وَ ارْحَمْنِیْ اِنَّکَ اَنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ ؕ
پھر داہنے شانے کی طرف منہ کر کے
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ
کہے پھر بائیں شانے کی طرف اسی طرح اب نماز ختم ہوگئی اس کے بعد دونوں ہاتھ اٹھا کر کوئی دعا مثلاً
اَللّٰھُمَّ اَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْکَ السَّلَامُ وَاِلَیْکَ یَرْجِعُ السَّلَامُ فَحَیِّنَا رَبَّنَا بِا لسَّلَامِ
وَاَدْخِلْنَا دَارَالسَّلَامِ تَبَارَکْتَ رَبَّنَا وَ تَعَالَیْتَ یَا ذَاالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ ہ رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّار ہ وَصلّٰی اللہُ تَعَالیٰ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہٖ مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِہٖ وَ اَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ بِرَحْمَتِکَ یَآ اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ ؕ آمِیْن یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ
"پڑھے اور منہ پر ہاتھ پھیر لے۔
نماز کا یہ طریقہ جو لکھا گیا امام یا تنہا مرد کے پڑھنے کا ہے۔ لیکن اگر نمازی مقتدی ہو یعنی جماعت کے ساتھ امام کے پیچھے نماز پڑھتا ہو تو الحمد اور سورہ نہ پڑھے چاہے امام زور سے قراءت کرتا ہو یا آہستہ۔ امام کے پیچھے کسی نماز میں قراء ت جائز نہیں۔"
" عورتوں کو چاہے کہ تکبیر تحریمہ کے وقت مردوں کی طرح کانوں تک ہاتھ نہ اٹھائیں بلکہ کندھوں تک ہی ہاتھ اٹھا کر بائیں ہتھیلی سینہ پر رکھ کر اس کی پیٹھ پر داہنی ہتھیلی رکھیں۔ رکوع میں زیادہ نہ جھکیں بلکہ تھوڑا جھکیں یعنی صرف اس قدر کہ ہاتھ گھٹنوں تک پہنچ جائے اسی طرح عورتیں رکوع میں پیٹھ سیدھی نہ کریں اور گھٹنوں پر زور نہ دیں بلکہ محض گھٹنوں پر ہاتھ رکھ دیں اور ہاتھ کی انگلیاں لیٹی ہوئی رکھیں اور پاؤں کچھ جھکا ہوا رکھیں۔ مردوں کی طرح خوب سیدھا نہ کردیں۔ عورتوں کو بالکل سمٹ کر سجدہ کرنا چاہے یعنی بازوؤں کو کروٹوں سے ملادیں اورپیٹ کو ران سے اور ران کو پنڈلیوں سے اور پنڈلیوں کو زمین سے ملادیں اور قعدہ التحیات پڑھتے وقت عورتیں بائیں قدم پر نہ بیٹھیں دونوں پاؤں داہنی جانب سے نکال دیں اور بائیں سرین پر بیٹھیں مردوں کی طرح نہ بیٹھیں۔
عورتیں بھی کھڑی ہو کر نماز پڑھیں بہت سی جاہل عورتیں فرض اور واجب اور سنت و نفل ساری نمازیں بیٹھ کر پڑھتی ہیں یہ بالکل غلط طریقہ ہے۔ نفل کے سوا کوئی نماز بھی"
"بلا عذر بیٹھ کر پڑھنی جائز نہیں۔ یہ جاہل عورتیں فرض و واجب جتنی نمازیں بغیر عذر بیٹھ کر پڑھ چکی ہوں ان سب کی قضا کریں اور توبہ کریں۔
مسئلہ:۔عورت مردوں کی امامت کرے یہ ناجائز ہے۔"
(الفتاوی القاضی خان،کتاب الصلوۃ،فصل فیمن یصح الاقتداء،ج۱،ص۴۳)
ہرگز عورتیں مردوں کی امام نہیں بن سکتیں۔ اور صرف عورتوں کی جماعت کہ عورت ہی امام ہو اور عورتیں ہی مقتدی ہوں۔ یہ مکروہ تحریمی اور ناجائز ہے۔
(بہارشریعت،ج۳،ص۱۱۱)
مسئلہ:۔عورتوں پر جمعہ اور عیدین کی نماز واجب نہیں ۔
(بہارشریعت،ج۱،ص۱۳۱)
پنج وقتہ نمازوں کے لئے عورتوں کا مسجد میں جانا منع ہے۔
(البحرالرائق،کتاب الصلوۃ،باب الامامۃ،ج۱،ص۶۲۷)
" نماز پڑھنے کا جو طریقہ بیان کیا گیا ہے اس میں جن جن کاموں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سے بعض چیزیں فرض ہیں کہ ان کے بغیر نماز ہوگی ہی نہیں۔ بعض واجب ہیں کہ اگر قصداً ان کو چھوڑ دیا جائے تو گناہ بھی ہوگا اور نماز کو بھی دہرانا پڑے گا۔ اور اگر بھول کر ان کو چھوڑا تو سجدہ سہو کرنا واجب ہو گا اور بعض باتیں سنت مؤکدہ ہیں کہ ان کو چھوڑنے کی عادت گناہ ہے اور بعض مستحب ہیں کہ ان کو کریں تو ثواب اور اگر نہ کریں تو کوئی گناہ نہیں۔ اب ہم ان باتوں کی کچھ وضاحت کرتے ہیں۔ ان کو غور سے پڑھ کر اچھی طرح یاد کرلو۔
فرائض نماز:۔سات چیزیں نماز میں فرض ہیں کہ اگر ان میں سے کسی ایک کو بھی چھوڑ دیا تو نماز ہو گی ہی نہیں (۱)تکبیر تحریمہ(۲)قیام(۳)قراء ت(۴)رکوع"
(۵)سجدہ (۶)قعدہ اخیرہ(۷) کوئی کام کرکے مثلاً سلام یا کلام کرکے نماز سے نکلنا۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلاۃ ،الباب الرابع، الفصل الاول، ج۱،ص۶۸۔۷۰)
تکبیر تحریمہ کا یہ مطلب ہے کہ اﷲاکبر کہہ کر نماز کو شروع کرنا۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلوۃ،الباب الرابع،الفصل الاول،ج۱،ص۶۸)
نماز میں بہت مرتبہ اﷲاکبر کہا جاتا ہے۔ مگر شروع نماز میں پہلی مرتبہ جو اﷲاکبرکہتے ہیں اس کا نام تکبیر تحریمہ ہے یہ فرض ہے۔اس کو اگر چھوڑ دیا تو نماز ہوگی ہی نہیں۔
(الفتاوی القاضی خان، کتاب الصلوۃ،باب افتتاح الصلوۃ،ج۱،ص۳۸۔ردالمحتار،کتاب الصلوۃ،مطلب قد یطلق الفرض علی ما یقابل...إلخ، ج۲، ص۱۵۸)
مسئلہ:۔قیام فرض ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کھڑے ہو کر نماز پڑھنا ضروری ہے۔ تو اگر کسی مرد یا عورت نے بغیر عذر کے بیٹھ کر نماز پڑھی تو اس کی نماز ادا نہیں ہوئی۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلوۃ،الباب الرابع،الفصل الاول،ج۱،ص۶۸)
"ہاں نفل نماز کو بلا عذر کے بھی بیٹھ کر پڑھے تو یہ جائز ہے۔
مسئلہ:۔قرأت فرض ہونے کا یہ مطلب ہے کہ فرض کی دو رکعتوں میں اور وتر و نوافل اور سنتوں کی ہر ہر رکعت میں قرآن شریف پڑھنا ضروری ہے۔"
(مراقی الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوی ،ص۲۲۶)
تو اگر کسی نے ان رکعتوں میں قرآن نہیں پڑھا تو اس کی نماز نہ ہوگی۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلوۃ،الباب الرابع،الفصل الاول،ج۱،ص۶۹)
مسئلہ:۔رکوع کا ادنی درجہ یہ ہے کہ اتنا جھکیں کہ ہاتھ بڑھائیں تو گھٹنے تک پہنچ جائیں۔ اور پورا رکوع یہ ہے کہ اتنا جھکے کہ پیٹھ سیدھی بچھا دے۔
(ردالمحتار،کتاب الصلوۃ، باب بحث الرکوع والسجود ، ج۲،ص۱۶۶)
"مسئلہ:۔سجدہ کی حقیقت یہ ہے کہ ماتھا زمین پر جما ہو اور کم سے کم پاؤں کی ایک انگلی کا پیٹ زمین سے لگا ہو تو اگر کسی نے اس طرح کیا کہ دونوں پاؤں زمین سے اٹھے رہے یا صرف انگلی کی نوک زمین سے لگی رہے تو نماز نہ ہوگی۔ایک انگلی کے پیٹ کا سجدہ میں زمین سے لگنا تو فرض ہے مگر دونوں پاؤں کی تین تین انگلیوں کے پیٹ کا زمین سے لگنا واجب ہے اور دونوں پاؤں کی دسوں انگلیوں کا پیٹ سجدہ میں زمین سے لگا ہونا سنت ہے۔
مسئلہ:۔نمازوں کی رکعتوں کو پوری کر لینے کے بعد پوری التحیات پڑھنے کی مقدار بیٹھنا فرض ہے اور اس کا نام قعدہ اخیرہ ہے۔
مسئلہ:۔قعدہ اخیرہ کے بعد اپنے قصدوارادہ اور کسی عمل سے نماز کو ختم کر دینا سلام سے ہو یا کسی دوسرے عمل سے یہ بھی نماز کے فرائض میں سے ہے۔ لیکن سلام کے علاوہ اگر کوئی دوسرا کا م کرکے نماز کو ختم کیا تو اگرچہ نماز کا فرض تو ادا ہو گیا لیکن نماز کو دوبارہ پڑھنا واجب ہے۔
نماز کے واجبات:۔نماز میں یہ چیزیں واجب ہیں تکبیر تحریمہ میں لفظ اﷲاکبر ہونا' الحمد پڑھنا' فرض کی پہلی دو رکعتوں میں اور سنت و نفل اور وتر کی ہر رکعت میں الحمد کے ساتھ کوئی سورہ یا تین چھوٹی آیتوں کو ملانا۔ فرض نمازوں میں پہلی دو رکعتوں میں قرأت کرنا۔ الحمد کا سورہ سے پہلے ہونا' ہر رکعت میں سورہ سے پہلے ایک ہی بار الحمد پڑھنا۔ الحمد اور سورہ کے درمیان آمین اور بسم اﷲ کے سوا کچھ اور نہ پڑھنا۔ قرأت کے فوراً بعد ہی رکوع کرنا' سجدہ میں دونوں پاؤں کی تین تین انگلیوں کا پیٹ زمین پر لگنا' دونوں سجدوں کے درمیان کسی رکن کا فاضل نہ ہونا' تعدیل یعنی رکوع و سجود اور قومہ جلسہ میں کم سے کم ایک بار سبحان اﷲ کہنے کے برابر ٹھہرنا' جلسہ یعنی دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنا۔ قومہ یعنی"
رکوع سے سیدھا کھڑا ہو جانا' قعدہ اولی اگر چہ نفل نماز ہو' ہر قعدہ میں پورا تشہد پڑھنا' لفظ السلام دوبار کہنا' وتر میں دعائے قنوت پڑھنا' وتر میں قنوت کی تکبیر' عیدین کی چھ زائد تکبیریں' عیدین میں دوسری رکعت کے رکوع کی تکبیر اور اس تکبیر کے لئے اﷲاکبر کہنا' ہر جہری نماز میں امام کو بلند آواز سے قرأت کرنا اور غیر جہری نمازوں میں آہستہ قرأت کرنا' ہر فرض و واجب کا اس کی جگہ پر ادا ہونا' ہر رکعت میں ایک ہی رکوع ہونااور ہر رکعت میں دو ہی سجدہ ہونا' دوسری رکعت پوری ہونے سے پہلے قعدہ نہ کرنااور چار رکعت والی نمازوں میں تیسری رکعت پر قعدہ نہ کرنا' آیت سجدہ پڑھی تو سجدہ تلاوت کرنا' سہو ہوا تو سجدہ سہو کرنا' دو فرض یا دو واجب یا واجب و فرض کے درمیان تین مرتبہ سبحان اﷲ کہنے کے برابر وقفہ نہ ہونا۔ امام جب قرأت کرے بلند آواز سے ہو یا آہستہ اس وقت مقتدی کا چپ رہنا' قرأت کے سوا تمام واجبات میں مقتدی کو امام کی پیروی کرنا۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلاۃ ،الباب الرابع، الفصل الثانی فی واجبات الصلوٰۃ، ج۱،ص۷۱)
"نماز کی سنتیں:۔نماز میں جو چیزیں سنت ہیں ان کا حکم یہ ہے کہ ان کو قصداً نہ چھوڑا جائے اور اگر غلطی سے چھوٹ جائیں تو نہ سجدہ سہو کی ضرورت ہے نہ نماز دہرانے کی۔ لیکن اگر دہرا لے تو اچھا ہے۔ کیونکہ نماز کی کسی سنت کو چھوڑ دینے سے نماز کے ثواب میں کمی ہو جاتی ہے۔
نماز کی سنتیں یہ ہیں۔ تکبیر تحریمہ کے لئے ہاتھ اٹھانا' ہاتھوں کی انگلیوں کو اپنے حال پر چھوڑ دینا' یعنی بالکل ملائے' نہ کھلی رکھے بلکہ اپنے حال پر چھوڑ دے' بوقت تکبیر سر نہ جھکانا' ہتھیلیوں اور انگلیوں کے پیٹ کا قبلہ رو ہونا' تکبیر کہنے سے پہلے ہاتھ اٹھانا اسی طرح قنوت اور عیدین کی تکبیروں میں بھی' کانوں تک ہاتھ لے جانے کے بعد تکبیر کہنا' عورت کو صرف مونڈھوں تک ہاتھ اٹھانا' امام کا"
اﷲاکبر۔ سمع اﷲلمن حمدہ
اور سلام بلند
آواز سے کہنا' تکبیر کے بعد ہاتھ لٹکائے بغیر باندھ لینا' ثنا و تعوذ و بسم اﷲپڑھنا اور آمین کہنا اور ان سب کا آہستہ ہونا' پہلے ثناء پھر تعوذ پھر بسم اﷲ اور ہر ایک کے بعد دوسرے کو فوراً پڑھنا' رکوع میں تین بار
سُبْحَانَ رِبِّیَ الْعَظِیْمِ
کہنا اور گھٹنوں کو ہاتھو ں سے پکڑنا اور انگلیوں کو خوب کھلی رکھنا' عورت کو گھٹنے پر ہاتھ رکھنا اور انگلیوں کو کشادہ نہ رکھنا' حالت رکوع میں ٹانگیں سیدھی ہونا' رکوع کے لئے اﷲاکبر کہنا' رکوع میں پیٹھ کو خوب بچھی رکھنا' رکوع سے اٹھنے پر ہاتھ لٹکا ہوا چھوڑ دینا' رکوع سے اٹھنے میں امام کو
سَمِعَ اﷲلِمَنْ حَمِدَہ
کہنا' مقتدی کو
رَبَّنَالَکَ الْحَمْدُ
کہنا اور اکیلے نماز پڑھنے والوں کو دونوں کہنا سجدہ کے لئے اور سجدہ سے اٹھنے کے لئے اﷲاکبر کہنا' سجدہ میں کم سے کم تین مرتبہ سُبْحَانَ رَبِیَّ الْاَعْلٰی کہنا' سجدہ کرنے کے لئے پہلے گھٹنا پھر ہاتھ پھر ناک پھر ماتھا زمین پر رکھنا اور سجدہ سے اٹھنے کے لئے پہلے ماتھا پھر ناک پھر ہاتھ پھر گھٹنا زمین سے اٹھانا' سجدہ میں بازو کا کروٹوں سے اور پیٹ کا رانوں سے الگ رہنا' سجدہ کی حالت میں کلائیوں کو زمین پر نہ بچھانا' عورت کو سجدہ میں اپنے بازوؤں کوکروٹوں سے پیٹ کو ران سے ران کو پنڈلیوں سے اور پنڈلیوں کو زمین سے ملا دینا' دونوں سجدوں کے درمیان مثل تشہد کے بیٹھنا اور ہاتھوں کو رانوں پر رکھنا سجدہ میں ہاتھ کی انگلیوں کا قبلہ رو ہونا اور ملی ہوئی ہونااور پاؤں کی دسوں انگلیوں کے پیٹ کا زمین پر لگنا' دوسری رکعت کے لئے پنجوں کے بل گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر کھڑا ہونا' قعدہ میں بایاں پاؤں بچھا کر دونوں سرین اس پر رکھ کر بیٹھنا' داہنا قدم کھڑا رکھنا اور داہنے قدم کی انگلیوں کو قبلہ رخ کرنا' عورت کو دونوں پاؤں داہنی جانب نکال کر بائیں سرین پر بیٹھنا' دایاں ہاتھ داہنی ران پر اور بایاں ہاتھ بائیں ران پر رکھنا اور انگلیوں کو اپنی حالت پر چھوڑ دینا' کلمہ شہادت پر کلمہ کی انگلی سے اشارہ کرنا' قعدہ اخیرہ میں التحیات کے بعد درود شریف اور دعائے ماثورہ پڑھنا۔
(الفتاوی الھندیۃ، الباب الرابع، الفصل الثالث فی سنن الصلوٰۃ وآدابھاوکیفیتھا، ج۱،ص۷۲۔۷۶)
نماز کے مستحبات:۔(۱)حالت قیام میں سجدہ کی جگہ پر نظر کرنا (۲)رکوع میں قدم کی پشت پر دیکھنا(۳)سجدہ میں ناک پر نظر رکھنا (۴)قعدہ میں سینے پر نظر جمانا (۵)پہلے سلام میں داہنے شانے کو دیکھنا (۶)دوسرے سلام میں بائیں شانے پر نظر کرنا (۷)جمائی آئے تو منہ بند کئے رہنا اور اس سے جمائی نہ رکے تو ہونٹ دانت کے نیچے دبائے اور اس سے بھی نہ رکے تو قیام کی حالت میں داہنے ہاتھ کی پشت سے منہ ڈھانک لے اور قیام کے علاوہ دوسری حالتوں میں بائیں ہاتھ کی پشت سے جمائی روکنے کا مجرب طریقہ یہ ہے کہ دل میں یہ خیال کرے کہ انبیاء علیہم السلام کو جمائی نہیں آتی تھی دل میں یہ خیال آتے ہی جمائی کا آنا بند ہوجائے گا(۸)مرد کے لئے تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ کپڑے سے باہر نکالنا (۹)عورت کے لئے کپڑے کے اندر بہتر ہے (۱۰)جہاں تک ممکن ہو کھانسی کو دفع کرنا (۱۱)جب مکبر
حَیَّ عَلَی الْفَلَاحْ
کہے تو امام و مقتدی سب کو کھڑا ہو جانا (۱۲)مکبر
قَدْ قَامَتِ الصَّلوٰۃ
کہے تو نماز شروع کر سکتا ہے مگر بہتر یہ ہے کہ اقامت پوری ہو جانے پر نماز شروع کرے(۱۳)دونوں پنجوں کے درمیان چار انگل کا فاصلہ ہونا (۱۴)مقتدی کو امام کے ساتھ شروع کرنا (۱۵)سجدہ زمین پر بلا کچھ بچھائے ہوئے کرنا۔
(الفتاوی الھندیۃ، الباب الرابع، الفصل الثالث فی سنن الصلوٰۃ وآدابھاوکیفیتھا، ج۱،ص۷۲)
" نماز کے بعد بہت سے اذکار اور دعاؤں کے پڑھنے کا حدیثوں میں ذکر ہے ان میں سے جس قدر پڑھ سکے پڑھے لیکن ظہر و مغرب و عشاء میں تمام و ظائف سنتوں سے فارغ ہونے کے بعد پڑھیں سنت سے پہلے مختصر دعا پر قناعت کرنا چاہے ورنہ سنتوں کا ثواب کم ہو جائے گا اس کا خیال رہے ۔
فائدہ:۔حدیثوں میں جن دعاؤں کے بارے میں جو تعداد مقرر ہے ان سے کم یا زیادہ نہ"
"کرے کیونکہ جو فضائل ان دعاؤں کے ہیں وہ انہیں عددوں کے ساتھ مخصوص ہیں ان میں کمی بیشی کی مثال یہ ہے کہ کوئی تالا کسی خاص قسم کی کنجی سے کھلتا ہے تو اگر اس کنجی کے دندانے کچھ کم یا زائد کردیں تو اس سے وہ تالا نہ کھلے گا البتہ اگر گنتی شمار کرنے میں شک ہو تو زیادہ کر سکتا ہے اور یہ زیادہ کرنا گنتی بڑھانے کے لئے نہیں ہے بلکہ گنتی کو یقینی طور پر پوری کرنے کے لئے ہے ۔
ایک مسنون وظیفہ:۔ہرنماز کے بعد تین مرتبہ استغفار اور ایک مرتبہ آیۃ الکرسی اور ایک ایک بار"
قُل ھُوَ اﷲ
اور
قُلْ اَعُوْذُبِرَبِّ الْفَلَقِ
اور
قُلْ اَعُوْذُبِرَبِّ النَّاسِ
پڑھے اور
سبحان اﷲ
۳۳ مرتبہ
الحمدﷲ
۳۳ مرتبہ
اﷲاکبر
۳۴ مرتبہ اور
لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِ یْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْیئٍ قَدِیْرٌ ؕ
ایک بار پڑھ لے تو اسکے گناہ بخش دیے جائیں گے اگر چہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں اور وہ نامراد نہیں رہے گا۔
جماعت کی بہت تاکید ہے اور اس کا ثواب بہت زیادہ ہے یہاں تک کہ بے جماعت کی نماز سے جماعت والی نماز کا ثواب ستائیس گنا ہے ۔
(صحیح مسلم ، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب فضل صلاۃ الجماعۃوبیان التشدیدفی التخلف عنھا،رقم ۶۵۰،ص۳۲۶)
مسئلہ:۔مردوں کو جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا واجب ہے بلا عذر ایک بار بھی جماعت چھوڑنے والا گنہگار اور سزا کے لائق ہے اور جماعت چھوڑنے کی عادت ڈالنے والا فاسق ہے جس کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی اور بادشاہ اسلام اس کو سخت سزا دے گا اور اگر پڑوسیوں نے سکوت کیا تو وہ بھی گنہگار ہوں گے۔
(الدرالمختاروردالمحتار، کتاب الصلاۃ ،باب الامامۃ، مطلب شروط الامامۃ الکبری، ج۲،ص۳۴۰۔۳۴۱)
مسئلہ:۔جمعہ و عیدین میں جماعت شرط ہے یعنی بغیر جماعت یہ نمازیں ہوں گی ہی نہیں تراویح میں جماعت سنت کفایہ ہے یعنی محلّہ کے کچھ لوگوں نے جماعت سے پڑھی تو سب کے ذمہ سے جماعت چھوڑنے کی برائی جاتی رہی اور اگر سب نے جماعت چھوڑی تو سب نے برا کیا رمضان شریف میں وتر کو جماعت سے پڑھنا یہ مستحب ہے سنتوں اور نفلوں میں جماعت مکروہ ہے۔
(الدرالمختار، کتاب الصلاۃ، باب الامامۃ، ج۲،ص۳۴۱۔۳۴۲)
مسئلہ:۔جن عذروں کی وجہ سے جماعت چھوڑدینے میں گناہ نہیں وہ یہ ہیں۔ (۱)ایسی بیماری کہ مسجد تک جانے میں مشقت اور دشواری ہو(۲)سخت بارش (۳)بہت زیادہ کیچڑ(۴)سخت سردی (۵)سخت اندھیری رات (۶)آندھی (۷)پاخانہ پیشاب کی حاجت(۸)ریاح کا بہت زور ہونا (۹)ظالم کا خوف (۱۰)قافلہ چھوٹ جانے کا خوف(۱۱)اندھا ہونا (۱۲)اپاہج ہونا (۱۳)اتنا بوڑھا ہونا کہ مسجد تک جانے سے مجبور ہو(۱۴)مال و سامان یا کھانا ہلاک ہوجانے کا ڈر (۱۵)مفلس کو قرض خواہ کا ڈر(۱۶) بیمار کی دیکھ بھال کہ اگر یہ چلا جائے گا تو بیمار کو تکلیف ہوگی یا وہ گھبرائے گا یہ سب جماعت چھوڑنے کے عذر ہیں۔
(الدرالمختار، کتاب الصلاۃ، باب الامامۃ، ج۲،ص۳۴۷۔۳۴۹)
مسئلہ:۔عورتوں کو کسی نماز میں جماعت کی حاضری جائز نہیں دن کی نماز ہو یا رات کی جمعہ کی ہو یا عیدین کی عورت چاہے جو ان ہو یا بڑھیا یوں بھی عورتوں کو ایسے مجمعوں میں جانا بھی ناجائز ہے جہاں عورتوں اورمردوں کا اجتماع ہو۔
(الدرالمختار، کتاب الصلاۃ، باب الامامۃ، ج۲،ص۳۶۷)
مسئلہ:۔اکیلا مقتدی چاہے لڑکا ہو امام کے برابر دہنی طرف کھڑا ہو' بائیں طرف یا پیچھے کھڑا ہونا مکروہ ہے دو مقتدی ہوں تو پیچھے کھڑے ہوں امام کے برابر کھڑا ہونا مکروہ تنزیہی
ہے دو سے زیادہ کا امام کے بغل میں کھڑا ہونا مکروہ تحریمی ہے۔
(الدرالمختار، کتاب الصلاۃ، باب الامامۃ، ج۲،ص۳۶۸۔۳۷۰)
مسئلہ:۔پہلی صف میں اور امام کے قریب کھڑا ہونا افضل ہے۔ لیکن جنازہ میں پچھلی صف میں ہونا افضل ہے۔
(الدرالمختاروردالمحتار، کتاب الصلاۃ، باب الامامۃ مطلب فی الکلام علی الصف الاول، ج۲،ص۳۷۲۔۳۷۴)
مسئلہ:۔امام ہونے کا سب سے زیادہ حقدار وہ شخص ہے جو نماز و طہارت وغیرہ کے احکام سب سے زیادہ جاننے والا ہے' پھر وہ شخص جو قرأت کا علم زیادہ رکھتا ہو۔ اگر کئی شخص ان باتوں میں برابر ہوں تو وہ شخص زیادہ حقدار ہے جو زیادہ متقی ہو۔ اگر اس میں بھی برابر ہوں تو زیادہ عمر والا۔ پھر جس کے اخلاق زیادہ اچھے ہوں۔ پھر زیادہ تہجد گزار۔ غرض کہ چند آدمی برابر درجے کے ہوں تو ان میں جو شرعی حیثیت سے فوقیت رکھتا ہو وہی زیادہ حق دار ہے۔
(الدرالمختار، کتاب الصلاۃ، باب الامامۃ، ج۲،ص۳۵۰۔۳۵۲)
مسئلہ:۔فاسق معلن جیسے شرابی' زناکار' جواری' سود خور' داڑھی منڈانے والا یا کٹا کر ایک مشت سے کم رکھنے والا ان لوگوں کو امام بنانا گناہ ہے اور ان لوگوں کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے اور نماز کو دہرانا واجب ہے۔
(الدرالمختاروردالمحتار، کتاب الصلاۃ، باب الامامۃ،مطلب فی تکرار الجماعۃ فی المسجد، ج۲،ص۳۵۵۔۳۶۰)
مسئلہ:۔رافضی' خارجی' وہابی اور دوسرے تمام بدمذہبوں کے پیچھے نماز پڑھنا ناجائز و گناہ ہے اگر غلطی سے پڑھ لی تو پھر سے پڑھے اگر دوبارہ نہیں پڑھے گا تو گناہگار ہوگا۔
(ردالمحتار، کتاب الصلاۃ، مطلب البدعۃ خمسۃ اقسام، ج۲،ص۳۵۷۔۳۵۸)
مسئلہ:۔گنوار' اندھے' حرامی' کوڑھی' فالج کی بیماری والے' برص کی بیماری والا' امرد ان لوگوں کو امام بنانا مکروہ تنزیہی ہے اور کراہت اس وقت ہے جب کہ جماعت میں اور کوئی ان لوگوں سے بہتر ہو اور اگر یہی امامت کے حقدار ہوں تو کراہت نہیں اور اندھے کی امامت میں تو خفیف کراہت ہے۔
(الدرالمختار، کتاب الصلاۃ، باب الامامۃ، ج۲،ص۳۵۵۔۳۶۰)
وتر کی نماز واجب ہے اگر کسی وجہ سے وتر کی نماز وقت کے اندر نہیں پڑھی تو وتر کی قضا پڑھنی واجب ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلاۃ ، الباب الثامن فی صلاۃ الوتر،ج۱،ص۱۱۰۔۱۱۱)
" نماز وتر تین رکعتیں ایک سلام سے ہیں دو رکعت پر بیٹھے اور صرف التحیات پڑھ کر تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہو جائے اور تیسری رکعت میں بھی الحمد اور سورہ پڑھے پھر دونوں ہاتھ کان کی لو تک اٹھائے اور اﷲاکبر کہہ کر پھر ہاتھ باندھ لے اور دعائے قنوت پڑھے جب دعائے قنوت پڑھ چکے تو اﷲاکبر کہہ کر رکوع کرے اور باقی نماز پوری کرے دعائے قنوت یہ ہے۔
دعائے قنوت"
اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْتَعِیْنُکَ وَنَسْتَغْفِرُکَ وَنُؤْمِنُ بِکَ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْکَ وَنُثْنِیْ عَلَیْکَ الْخَیْرَ وَ نَشْکُرُکَ وَلَانَکْفُرُکَ وَ نَخْلَعُ وَ نَتْرُکُ مَنْ یَّفْجُرُکَ ؕ اَللَّھُمَّ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَلَکَ نُصَلِّیْ وَ نَسْجُدُ وَ اِلَیْکَ نَسْعٰی وَنَحْفِدُ وَ نَرْ جُوْا رَحْمَتَکَ وَنَخْشٰی عَذَابَکَ اِنَّ عَذَابَکَ بِالْکُفَّارِ مُلْحِقٌ ؕ
مسئلہ:۔جو دعائے قنوت نہ پڑھ سکے تو وہ یہ پڑھے
اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ ہ
اور جس سے یہ بھی نہ ہو سکے تو تین مرتبہ
اَللّٰھُمَّ
اغْفِرْلِیْ
پڑھ لے اس کی وتر ادا ہو جائے گی۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلاۃ ، الباب الثامن فی صلاۃ الوتر،ج۱،ص۱۱۱)
مسئلہ:۔دعائے قنوت وتر میں پڑھنا واجب ہے اگر بھول کر دعائے قنوت چھوڑ دے تو سجدۂ سہو کرنا ضروری ہے اور اگر قصداً چھوڑ دیا تو وتر کو دہرانا پڑے گا۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلاۃ ، الباب الثامن فی صلاۃ الوتر،ج۱،ص۱۱۱)
مسئلہ:۔دعائے قنوت ہر شخص چاہے امام ہو یا مقتدی یا اکیلا ہمیشہ پڑھے ادا ہو یا قضا رمضان ہو یا دوسرے دنوں میں۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلاۃ ، الباب الثامن فی صلاۃ الوتر،ج۱،ص۱۱۱)
مسئلہ:۔وتر کے سوا کسی اور نماز میں دعائے قنوت نہ پڑھے ہاں البتہ اگر مسلمانوں پر کوئی بڑا حادثہ واقع ہو تو فجر کی دوسری رکعت میں رکوع سے پہلے دعائے قنوت پڑھ سکتے ہیں اس کو قنوت نازلہ کہتے ہیں۔
(الدرالمختار، کتاب الصلاۃ، باب الوتروالنوافل،ج۲،ص۵۴۱)
جو نماز میں چیزیں واجب ہیں اگر ان میں سے کوئی واجب بھول سے چھوٹ جائے تو اس کی کمی کو پورا کرنے کے لئے سجدۂ سہو واجب ہے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ نماز کے آخر میں التحیات پڑھنے کے بعد داہنی طرف سلام پھیرنے کے بعد دومرتبہ سجدہ کرے اور پھر التحیات اور درود شریف اور دعا پڑھ کر دونوں طرف سلام پھیر دے۔
(الدرالمختار، کتاب الصلاۃ، باب سجود السھو،ج۲،ص۶۵۱۔۶۵۳)
مسئلہ:۔اگر قصداً کسی واجب کو چھوڑ دیا تو سجدۂ سہو کافی نہیں بلکہ نماز کو دہرانا واجب ہے۔
(الدرالمختار، کتاب الصلاۃ، باب سجود السھو،ج۲،ص۶۵۵)
"مسئلہ:۔جو باتیں نماز میں فرض ہیں اگر ان میں سے کوئی بات چھوٹ گئی تو نماز ہوگی ہی نہیں اور سجدۂ سہو سے بھی یہ کمی پوری نہیں ہو سکتی بلکہ پھر سے اس نماز کو پڑھنا ضروری ہے۔
مسئلہ:۔ایک نماز میں اگر بھول سے کئی واجب چھوٹ گئے تو ایک مرتبہ وہی دو سجدے سہو کے سب کے لئے کافی ہیں چند بار سجدۂ سہو کی ضرورت نہیں۔"
(ردالمحتار، کتاب الصلاۃ، باب سجود السھو،ج۲،ص۶۵۵)
مسئلہ:۔پہلے قعدہ میں التحیات پڑھنے کے بعد تیسری رکعت کے لئے کھڑے ہونے میں اتنی دیر لگا دی کہ
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ
پڑھ سکے تو سجدۂ سہو واجب ہے چاہے کچھ پڑھے یا خاموش رہے دونوں صورتوں میں سجدۂ سہو واجب ہے اس لئے دھیان رکھو کہ پہلے قعدہ میں التحیات ختم ہوتے ہی فوراً تیسری رکعت کے لئے کھڑے ہو جاؤ۔
(الدرالمختار، کتاب الصلاۃ، باب سجود السھو،ج۲،ص۶۵۷)
نماز میں بولنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے چاہے جان بوجھ کر بولے یا بھول کر بولے' زیادہ بولے یا ایک ہی بات بولے' اپنی خوشی سے بولے یا کسی کے مجبور کرنے سے بولے بہر صورت نماز ٹوٹ جائے گی اسی طرح زبان سے کسی کو سلام کرے' عمداً ہو یا سہواً' نمازجاتی رہے گی یوں ہی سلام کا جواب دینا بھی نماز کو فاسد کر دیتا ہے۔ کسی کو چھینک کے جواب میں
یرحمک اﷲ
کہا یا خوشی کی خبر سن کر الحمد لِلّٰہ کہا یا بری خبر سن کر
اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا إلَیْہِ رَاجِعُوْنَ O
کہا تو ان صورتوں میں نماز ٹوٹ جائے گی لیکن اگر خود نماز پڑھنے والے کو چھینک آئی تو حکم ہے کہ وہ چپ رہے لیکن اس نے
الحمدﷲ
کہہ دیا تو اس کی نماز فاسد نہیں
ہوگی نماز پڑھنے والے نے اپنے امام کے غیر کو لقمہ دے دیا تو اس کی نماز فاسد ہوئی اور اگر اس نے لقمہ لے لیا تو اس کی بھی نماز جاتی رہے گی اور غلط لقمہ دینے سے لقمہ لینے والے کی نماز جاتی رہتی ہے
اَللہُ اَکْبَرْ
کے الف کو کھینچ کر
آللہُ اَکْبَرْ
کہنا یا
آکْبَرْ
کہنا یا اَکْبَارکہنا نماز کو فاسد کر دیتا ہے اسی طرح
نَسْتَعِینُ
کو الف کے ساتھ
نَسْتَاعِیْنُ
پڑھے اور
اَنْعَمْتَ
کے ت کو پیش یا زیر یعنی
اَنْعَمْتِ
یا
اَنْعَمْتُ
پڑھنے سے بھی نماز جاتی رہتی ہے آہ' اوہ' اف' تف' درد یا مصیبت کی وجہ سے کہے یا آواز کے ساتھ روئے اور کچھ حروف پیدا ہوئے تو ان سب صورتوں میں نماز ٹوٹ جائے گی اگر مریض کی زبان سے حالت نماز میں بے اختیار آہ یا اوہ یا ہائے نکل گیا تو نماز نہیں ہوگی اسی طرح چھینک کھانسی یا جمائی اور ڈکار میں جتنے حروف مجبوراً زبان سے نکل جاتے ہیں معاف ہیں اور ان سے نماز نہیں ٹوٹتی دانتوں کے اندر کوئی کھانے کی چیز اٹکی ہوئی تھی نماز پڑھتے ہوئے زبان چلا کر اس کو نکال لیا اور نگل گیا اگر وہ چیز چنے کی مقدار سے کم ہے تو نماز مکروہ ہوگئی اور اگر چنے کے برابر ہے تو نماز ٹوٹ جائے گی نماز پڑھتے ہوئے زور سے قہقہہ لگا کر ہنس دیا تو نماز بھی ٹوٹ گئی اور وضو بھی ٹوٹ گیا پھر سے وضو کرکے نئے سرے سے نماز پڑھے عورت نماز پڑھ رہی تھی بچے نے اس کی چھاتی چوسی اگر دودھ نکل آیا تو نمازجاتی رہی نماز میں کرتا یا پاجامہ پہنا یا تہبند باندھا یا دونوں ہاتھ سے کمر بند باندھا تو نماز ٹوٹ گئی ایک رکن میں تین بار بدن کھجلانے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے تین مرتبہ کھجلانے کا یہ مطلب ہے کہ ایک مرتبہ کھجلایا پھر ہاتھ ہٹا لیا ،پھر کھجلایاپھر ہٹالیا،پھر کھجلایا، یہ تین مرتبہ ہوگیا اور اگر ایک مرتبہ ہاتھ رکھ کر چند مرتبہ ہاتھ کو ہلا کر کھجلایا مگر ہاتھ نہیں ہٹایا اور باربار کھجلاتا رہا تو یہ ایک ہی مرتبہ کھجانا کہا جائے گا۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلاۃ، الباب السابع فیما یفسد الصلاۃوما کرہ فیھا،ج۱،ص۹۸،۱۰۴)
نمازی کے آگے سے گزرنا نماز کو فاسد نہیں کرتا خواہ گزرنے والا مرد ہو یا عورت لیکن نمازی کے آگے سے گزرنے والا سخت گنہگار ہوتا ہے حدیث میں ہے کہ نمازی کے
آگے سے گزرنے والا اگر جانتا کہ اس پر کیا گناہ ہے؟ تو وہ زمین میں دھنس جانے کو گزرنے سے بہتر جانتا۔
(المؤطالامام مالک ،کتاب قصرالصلاۃ فی السفر، باب التشدید فی ان یمراحد۔۔۔الخ، رقم۳۷۱،ج۱،ص۱۵۴)
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ نمازی کے آگے سے گزرنے والا اگر جانتا کہ اس میں کتنا بڑا گناہ ہے تو چالیس سال تک کھڑے رہنے کو گزرنے سے بہتر جانتا راوی کا بیان ہے کہ میں نہیں جانتا کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے چالیس دن کہایا چالیس مہینہ یا چالیس برس۔
(ترمذی،کتاب الصلاۃ،باب ماجاء فی کراہیۃ المرور،رقم۳۳۶،ج۱،ص۳۵۶)
نماز میں جو باتیں مکروہ ہیں وہ یہ ہیں کپڑے یا بدن یا داڑھی مونچھ سے کھیلنا' کپڑا سمیٹنا جیسے سجدہ میں جاتے وقت آگے یا پیچھے سے دامن یا چادر یا تہبند اٹھا لینا' کپڑا لٹکانا یعنی سر یا کندھے پر کپڑا چادر وغیرہ اس طرح ڈالنا کہ دونو ں کنارے لٹکے رہیں' کسی ایک آستین کو آدھی کلائی سے چڑھانا' دامن سمیٹ کر نماز پڑھنا' پیشاب پاخانہ معلوم ہوتے وقت یا غلبہ ریاح کے وقت نماز پڑھنا' مرد کا سر کے بالوں کا جوڑا باندھ کر نماز پڑھنا' انگلیاں چٹخانا ادھر ادھر منہ پھیر کر دیکھنا' آسمان کی طرف نگاہ اٹھانا' مرد کا سجدہ میں کلائیوں کو زمین پر بچھانا' التحیات میں یا دونوں سجدوں کے درمیان دونوں ہاتھوں کو ران پر رکھنے کی بجائے زمین پر رکھ کر بیٹھنا' کسی شخص کے منہ کے سامنے نماز پڑھنا' چادر میں اس طرح لپٹ کر نماز پڑھنا کہ بدن کا کوئی حصہ یہاں تک کہ ہاتھ بھی باہر نہ ہوں' پگڑی اس طرح باندھنا کہ بیچ سر پر پگڑی کا کوئی حصہ نہ ہو' ناک اور منہ کو چھپا کر نماز پڑھنا' بے ضرورت کھنکھارنا' قصداً جماہی لینا اگر خود ہی جماہی آجائے تو حرج نہیں' جس کپڑے پر جاندار کی تصویر ہو اسے پہن کر نماز پڑھنا' تصویر کا نمازی کے سر پر یعنی چھت میں ہونا یا اوپر لٹکی ہوئی ہونا یا دائیں بائیں دیوار میں بنی یا لگی ہونا یا آگے پیچھے تصویر کا ہونا' جیب یا ہتھیلی میں تصویر
چھپی ہوئی ہو تو نماز میں کراہت نہیں۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلاۃ،الباب السابع، الفصل الثانی فیما یکرہ فی الصلاۃ وما لایکرہ، ج۱،ص۱۰۵،۱۰۸/الدرالمختار،کتا ب الصلاۃ، باب مایفسدالصلاۃ ویکرہ فیھا ،ج۲،ص۴۸۸۔۵۰۳،۵۱۱)
سجدہ گاہ سے کنکریاں اٹھانا مگر جب کہ پورے طور پر سجدہ نہ ہو سکتا ہو تو ایک بار ہٹا دینے کی اجازت ہے' نماز میں کمر پر ہاتھ رکھنا' نماز کے علاوہ بھی کمر پر ہاتھ نہ رکھنا چاہے' کرتا چادر موجود ہوتے ہوئے صرف پاجامہ یا تہبند پہن کر نماز پڑھنا' الٹا کپڑا پہن کر نماز پڑھنا' نماز میں بلا عذر پالتی مار کر بیٹھنا' کپڑے کو حد سے زیادہ دراز کر کے نماز پڑھنا' مثلاً عمامہ کا شملہ اتنا لمبا رکھے کہ بیٹھنے میں دب جائے یا آستین اتنی لمبی رکھے کہ انگلیاں چھپ جائیں' پاجامہ اور تہبند ٹخنے سے نیچے ہونا' نماز میں دائیں بائیں جھومنا' الٹا قرآن مجید پڑھنا' امام سے پہلے مقتدی کا رکوع و سجدہ میں جانا یا امام سے پہلے سر اٹھانا یہ تمام باتیں مکروہ تحریمی ہیں اگر نماز میں یہ مکروہات ہو جائیں تو اس نماز کو دہرا لینا چاہے۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلاۃ،الباب السابع، الفصل الثانی فیما یکرہ فی الصلاۃ وما لایکرہ، ج۱،ص۱۰۶/الدرالمختار،کتا ب الصلاۃ، باب مایفسدالصلاۃ ومایکرہ فیھا ، ج۲،ص۴۹۳،۴۹۶)
"مسئلہ:۔نماز میں ٹوپی گر پڑی تو ایک ہاتھ سے اٹھا کر سر پر رکھ لینا بہتر ہے اور بار بار گر پڑتی ہو تو نہ اٹھانا اچھا ہے۔
مسئلہ:۔سستی سے ننگے سر نماز پڑھنا یعنی ٹوپی سے بوجھ معلوم ہوتا ہے یا گرمی لگتی ہے اس وجہ سے ننگے سر نماز پڑھتا ہے تو یہ مکروہ تنزیہی ہے اور اگر نماز کو حقیر خیال کر کے ننگے سر پڑھے جیسے یہ خیال کرے کہ نماز کوئی ایسی شاندار چیز نہیں ہے جس کے لئے ٹوپی یا پگڑی کا اہتمام کیا جائے تو یہ کفر ہے اور اگر خدا کے دربار میں اپنی عاجزی اور انکساری ظاہر کرنے کے لئے ننگے سر نماز پڑھے تو اس نیت سے ننگے سر نماز پڑھنا مستحب ہوگا خلاصہ کلام یہ ہے"
کہ نیت پر دارومدار ہے۔
(الدرالمختاروردالمحتار،کتا ب الصلاۃ، باب مایفسدالصلاۃ ویکرہ فیھا ، مطلب فی الخشوع،ج۲،ص۴۹۱)
مسئلہ:۔ جلتی ہوئی آگ کے سامنے نماز پڑھنا مکروہ ہے لیکن چراغ یا لالٹین کے سامنے نماز پڑھنے میں کوئی کراہت نہیں۔
(الدرالمختاروردالمحتار،کتا ب الصلاۃ، باب مایفسدالصلاۃ ویکرہ فیھا ، مطلب الکلام علی اتخاذالمسبحۃ ،ج۲،ص۵۱۰)
مسئلہ:۔بغیر عذر ہاتھ سے مکھی مچھر اڑانا مکروہ ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ ، کتاب الصلاۃ، الباب السابع ، الفصل الثانی فیمایکرہ فی الصلاۃوما لایکرہ،ج۱،ص۱۰۹ )
"مسئلہ:۔دوڑتے ہوئے نماز کو جانا مکروہ ہے۔
مسئلہ:۔نماز میں اٹھتے بیٹھتے آگے پیچھے پاؤں ہٹانا مکروہ ہے۔"
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الصلاۃ،الباب السابع،الفصل الثانی،ج۱،ص۱۰۸)
"نماز توڑدینے کے اعذار:۔یعنی کن کن صورتوں میں نماز توڑ دینا جائز ہے۔
مسئلہ:۔کوئی ڈوب رہا ہو یا آگ سے جل جائے گا یا اندھا کنوئیں میں گر پڑے گا۔ تو ان صورتوں میں نمازی پر واجب ہے کہ نماز توڑ کر ان لوگوں کو بچائے یوں ہی اگر کوئی کسی کو قتل کر رہا ہو اور وہ فریاد کر رہا ہو اور یہ اس کو بچانے کی قدرت رکھتا ہو تو اس پر واجب ہے کہ نماز توڑ کر اس کی مدد کے لئے دوڑ پڑے۔"
(الدرالمختاروردالمحتار،کتاب الصلاۃ ، باب ادراک الفریضۃ،ج۲،ص۶۰۹/ الفتاوی الھندیۃ،کتاب الصلاۃ،الباب السابع،الفصل الثانی ومما یتصل بذالک مسائل،ج۱،ص۱۰۹)
مسئلہ:۔پیشاب پاخانہ قابو سے باہر معلوم ہوا یا اپنے کپڑے پر اتنی کم نجاست دیکھی جتنی نجاست کے ہوتے ہوئے نماز ہوسکتی ہے یا نمازی کو کسی اجنبی عورت نے چھو دیا تو ان
"تینوں صورتوں میں نماز توڑ دینا مستحب ہے۔
مسئلہ:۔سانپ وغیرہ مارنے کے لئے جب کہ کاٹ لینے کا صحیح ڈر ہو تو نماز توڑ دینا جائز ہے۔"
"(الدرالمختار وردالمحتار،کتاب الصلاۃ، باب ادراک الفریضۃ، ج۲،ص۶۰۸/
الفتاوی الھندیۃ،کتاب الصلاۃ،الباب السابع،الفصل الثانی ومما یتصل بذالک مسائل،ج۱،ص۱۰۹)"
مسئلہ:۔اپنے یا کسی اور کے درہم کے نقصان کا ڈر ہو۔ جیسے دودھ ابل جائے گا یا گوشت ترکاری کے جل جانے کا ڈر ہو تو ان صورتوں میں نماز توڑ دینا جائز ہے اسی طرح ایک درہم کی کوئی چیز چور لے بھاگا تو نماز توڑ کر اس کے پکڑنے کی اجازت ہے۔
(الدرالمختار وردالمحتار،کتاب الصلاۃ، باب ادراک الفریضۃ، ج۲،ص۶۰۹/ الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلاۃ،الباب السابع،الفصل الثانی ومما یتصل بذالک مسائل،ج۱،ص۱۰۹)
"مسئلہ:۔نماز پڑھ رہا تھا کہ ریل گاڑی چھوٹ گئی اور سامان ریل گاڑی میں ہے یا ریل گاڑی چھوٹ جانے سے نقصان ہو جائے گا تو نماز توڑ کر ریل گاڑی پر سوار ہو جانا جائز ہے۔
مسئلہ:۔نفل نماز میں ہوا ور ماں باپ پکاریں اوران کو اس کا نماز میں ہونا معلوم نہ ہو تو نماز توڑدے اورجواب دے بعدمیں اس کی نماز قضا ء پڑھ لے ۔"
مسئلہ:۔اگر بیماری کی وجہ سے کھڑے ہو کر نماز نہیں پڑھ سکتا کہ مرض بڑھ جائے گا یا دیر میں اچھا ہوگا یا چکر آتا ہے یا کھڑے ہو کر پڑھنے سے پیشاب کا قطرہ آئے گا یا نا قابل برداشت درد ہوجائے گا تو ان سب صورتوں میں بیٹھ کر نماز پڑھے۔
(الدرالمختار وردالمحتار،کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المریض، ج۲،ص۶۸۱۔۶۸۲)
مسئلہ:۔اگر لاٹھی یا دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑا ہوسکتا ہے۔ تو اس پر فرض ہے کہ کھڑے ہو
کر نماز پڑھے۔ اس صورت میں اگر بیٹھ کر نماز پڑھے گا تو نماز نہیں ہوگی۔
(الدرالمختار وردالمحتار،کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المریض، ج۲،ص۶۸۳)
مسئلہ:۔اگر کچھ دیر کے لئے بھی کھڑا ہو سکتا ہے اگرچہ اتنا ہی کھڑا ہو کہ کھڑا ہو کر اﷲاکبرکہہ لے تو ضروری ہے کہ کھڑا ہو کر اﷲاکبر کہے پھر بیٹھے ورنہ نماز نہ ہوگی۔
(الدرالمختار ،کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المریض، ج۲،ص۶۸۳)
مسئلہ:۔اگر رکوع و سجود نہ کر سکتا ہو تو بیٹھ کر نماز پڑھے اور رکوع وسجود اشارہ سے کرے مگر رکوع کے اشارہ میں سجدہ کے اشارہ سے سر کو زیادہ نہ جھکائے۔
(الدرالمختار ،کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المریض، ج۲،ص۶۸۴۔۶۸۵)
مسئلہ:۔اگر بیٹھ کر بھی نماز نہ پڑھ سکتا ہو تو ایسی صورت میں لیٹ کر نماز پڑھے اس طرح کہ چت لیٹ کر قبلہ کی طرف پاؤں کرے۔ مگر پاؤں نہ پھیلائے بلکہ گھٹنے کھڑے رکھے اور سر کے نیچے تکیہ رکھ کر ذرا سا سر کو اونچا کرے اور رکوع و سجود سر کے اشارہ سے کرے۔
(الدرالمختار ،کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المریض، ج۲،ص۶۸۶۔۶۸۷)
مسئلہ:۔اگر مریض سر سے اشارہ بھی نہ کر سکے تو نماز ساقط ہو جاتی ہے پھر اگر نماز کے چھ وقت اسی حالت میں گزر گئے تو قضا بھی ساقط ہو جاتی ہے۔
(الدرالمختار ،کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المریض، ج۲،ص۶۸۷)
جو شخص تقریباً ۹۲ کلومیٹر کی دوری کا سفر کا ارادہ کرکے گھر سے نکلا اور اپنی بستی سے باہر چلا گیا۔ تو شریعت میں یہ شخص مسافر ہوگیا۔ اب اس پر واجب ہوگیا کہ قصر کرے یعنی ظہر' عصر اور عشاء چار رکعت والی فرض نمازوں کو دو ہی رکعت پڑھے۔ کیونکہ اس کے حق
میں دو ہی رکعت پوری نماز ہے۔
(الدرالمختار ،کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر،ج۲،ص۷۲۲،۷۲۶)
مسئلہ:۔اگر مسافر نے قصداً چار رکعت پڑھی اور دوپر قعدہ کیا تو فرض ادا ہو گیا اور آخری دو رکعتیں نفل ہوگئیں مگر گنہگار ہوا اگر دو رکعت پر قعدہ نہیں کیا تو فرض ادا نہ ہوا۔
(الدرالمختار ،کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر،ج۲،ص۷۳۳۔۷۳۴)
"مسئلہ:۔مسافر جب تک کسی جگہ پندرہ دن یا اس سے زیادہ ٹھہرنے کی نیت نہ کرے یا اپنی بستی میں نہ پہنچ جائے قصر کرتا رہے گا۔
مسئلہ:۔مسافر اگر مقیم امام کے پیچھے نماز پڑھے تو چار رکعت پوری پڑھے قصر نہ کرے۔"
(الدرالمختار ،کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، ج۲،ص۷۳۶)
مسئلہ:۔مقیم اگر مسافر امام کے پیچھے نماز پڑھے تو امام مسافر ہونے کی وجہ سے دو ہی رکعت پر سلام پھیر دے گا اب مقیم مقتدیوں کو چاہے کہ امام کے سلام پھیر دینے کے بعد اپنی باقی دو رکعتیں پڑھیں اور ان دونوں رکعتوں میں قرأت نہ کریں بلکہ سورۂ فاتحہ پڑھنے کی مقدار تک چپ چاپ کھڑے رہیں۔
(الدرالمختار ،کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر،ج۲،ص۷۳۵)
"مسئلہ:۔فجر و مغرب اور وتر میں قصر نہیں۔
مسئلہ:۔سنتوں میں قصر نہیں ہے اگر موقع ہو تو پوری پڑھیں ورنہ معاف ہیں۔"
(ردالمحتارودرالمختار ،کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر،ج۲،ص۷۳۷)
مسئلہ:۔مسافر اپنی بستی سے باہر نکلتے ہی قصر شروع کردے گا اور جب تک اپنی بستی میں داخل نہ ہو جائے یا کسی بستی میں پندرہ دن یا اس سے زیادہ دن ٹھہرنے کی نیت نہ کرے برابر قصر ہی کرتا رہے گا۔
(الدرالمختار ،کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر،ج۲،ص۷۲۶۔۷۲۸)
قرآن مجید میں چودہ آیتیں ایسی ہیں کہ جن کے پڑھنے یا سننے سے پڑھنے والے اور سننے والے دونوں پر سجدہ کرنا واجب ہو جاتا ہے اس کو سجدۂ تلاوت کہتے ہیں۔
(الدرالمختار ،کتاب الصلاۃ، باب سجودالتلاوۃ ،ج۲،ص۶۹۴،۶۹۵)
مسئلہ:۔سجدۂ تلاوت کا طریقہ یہ ہے کہ قبلہ رخ کھڑے ہو کر اﷲاکبر کہتا ہوا سجدہ میں جائے اور کم سے کم تین بار
سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی
کہے پھر
اَﷲُاَکْبَرْ
کہتا ہوا کھڑا ہو جائے بس' نہ اس میں
اَﷲُاَکْبَرْ
کہتے ہوئے ہاتھ اٹھانا ہے نہ اس میں تشہد ہے نہ سلام۔
(الدرالمختار ،کتاب الصلاۃ، باب سجودالتلاوۃ ،ج۲،ص۶۹۹،۷۰۰)
مسئلہ:۔اگر آیت سجدہ نماز کے باہر پڑھی ہے تو فوراً ہی سجدہ کر لینا واجب نہیں ہے ہاں بہتر یہی ہے کہ فوراً ہی کر لے اور وضو ہو تو دیر کرنی مکروہ تنزیہی ہے۔
(الدرالمختار ،کتاب الصلاۃ، باب سجودالتلاوۃ ،ج۲،ص۷۰۳)
مسئلہ:۔اگر سجدہ کی آیت نماز میں پڑھی ہے تو فوراً ہی سجدہ کرنا واجب ہے اگر تین آیت پڑھنے کی مقدار میں دیر لگادی تو گنہگار ہوگا اور اگر نماز میں سجدہ کی آیت پڑھتے ہی فوراً رکوع میں چلا گیا اور رکوع کے بعد نماز کے دونوں سجدوں کو کر لیا تو اگر چہ سجدۂ تلاوت کی نیت نہ کی ہو مگر سجدۂ تلاوت بھی ادا ہو گیا۔
(الدرالمختار ،کتاب الصلاۃ، باب سجودالتلاوۃ ،ج۲،ص۷۰۵)
مسئلہ:۔نماز میں آیت سجدہ پڑھی تو اس کا سجدہ نماز ہی میں واجب ہے نماز کے باہر یہ سجدہ ادا نہیں ہو سکتا۔
(الدرالمختار ،کتاب الصلاۃ، باب سجودالتلاوۃ ،ج۲،ص۷۰۵/الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلاۃ،الباب الثالث فی سجود التلاوۃ،ج۱،ص۱۳۴)
اردو زبان میں اگر آیت سجدہ کا ترجمہ پڑھ دیا تب بھی پڑھنے والے اور سننے والے دونوں پر سجدہ واجب ہوگیا۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الصلاۃ،الباب الثالث عشرفی سجود التلاوۃ،ج۱،ص۱۳۳)
مسئلہ:۔ایک مجلس میں آیت سجدہ پڑھی اور سجدہ کر لیا پھر اسی مجلس میں دوبارہ اسی آیت کی تلاوت کی تو دوسرا سجدہ واجب نہیں ہوگا خلاصہ یہ ہے کہ ایک مجلس میں اگر بار بار آیت سجدہ پڑھی تو ایک ہی سجدہ واجب ہوگا اور اگر مجلس بدل کر وہی آیت سجدہ پڑھی تو جتنی مجلسوں میں اس آیت کو پڑھے گا اتنے ہی سجدے اس پر واجب ہو جائیں گے۔
(الدرالمختار،کتاب الصلاۃ،باب سجود التلاوۃ،ج۲،ص۷۱۲)
مسئلہ:۔مجلس بدلنے کی بہت سی صورتیں ہیں مثلاً کبھی تو جگہ بدلنے سے مجلس بدل جاتی ہے جیسے مدرسہ ایک مجلس ہے اور مسجد ایک مجلس ہے اور کبھی ایک ہی جگہ میں کام بدل جانے سے مجلس بدل جاتی ہے جیسے ایک ہی جگہ بیٹھ کر سبق پڑھایا تو یہ مجلس درس ہوئی پھر اسی جگہ بیٹھے بیٹھے لوگوں نے کھانا شروع کر دیا تو یہ مجلس بدل گئی کہ پہلے مجلس درس تھی اب مجلس طعام ہوگئی کسی گھر میں ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں چلے جانے' کمرے سے صحن میں چلے جانے سے مجلس بدل جاتی ہے کسی بڑے ہال میں ایک کونے سے دوسرے کونے میں چلے جانے سے مجلس بدل جاتی ہے وغیرہ وغیرہ مجلس کے بدل جانے کی بہت سی صورتیں ہیں۔
" (الدرالمختار،کتاب الصلاۃ،باب سجود التلاوۃ،ج۲،ص۷۱۲،۷۱۶/
الفتاوی الھندیۃ،کتاب الصلاۃ،الباب الثالث عشرفی سجود التلاوۃ،ج۱،ص۱۳۴)"
قرأت یعنی قرآن شریف پڑھنے میں اتنی آواز ہونی چاہے کہ اگر بہرا نہ ہو اور شور و غل نہ ہو تو خود اپنی آواز سن سکے اگر اتنی آواز بھی نہ ہوئی تو قرأت نہیں ہوئی اور نماز نہ ہوگی۔
(الدرالمختاروردالمحتار،کتاب الصلاۃ،فصل فی القرأۃ،ج۲،ص۳۰۸،۳۰۹)
مسئلہ:۔فجر میں اور مغرب و عشاء کی پہلی دو رکعتوں میں اور جمعہ و عیدین و تراویح اور رمضان کی وتر میں امام پر جہر کے ساتھ قرأت کرنا واجب ہے اور مغرب کی تیسری رکعت میں اور عشاء کی تیسری اور چوتھی رکعت میں ظہر و عصر کی سب رکعتوں میں آہستہ پڑھنا واجب ہے۔
(الدرالمختار،کتاب الصلاۃ،فصل فی القرأۃ،ج۲،ص۳۰۴،۳۰۶)
مسئلہ:۔جہر کے یہ معنی ہیں کہ اتنی زور سے پڑھے کہ کم سے کم صف میں قریب کے لوگ سن سکیں اور آہستہ پڑھنے کے یہ معنی ہیں کہ کم سے کم خود سن سکے۔
(الدرالمختار،کتاب الصلاۃ،فصل فی القرأۃ،ج۲،ص۳۰۸)
مسئلہ:۔جہری نمازوں میں اکیلے کو اختیار ہے چاہے زور سے پڑھے چاہے آہستہ مگر زور سے پڑھنا افضل ہے۔
(الدرالمختار،کتاب الصلاۃ،فصل فی القرأۃ،ج۲،ص۳۰۶)
مسئلہ:۔قرآن شریف الٹا پڑھنا مکروہ تحریمی ہے مثلاً یہ کہ پہلی رکعت میں قُلْ ھُوَاﷲ اور دوسری رکعت میں تَبَّتْ یَدَا پڑھنا۔
(الدرالمختار،کتاب الصلاۃ،فصل فی القرأۃ،ج۲،ص۳۳۰)
مسئلہ:۔درمیان میں ایک چھوٹی سورت چھوڑ کر پڑھنا مکروہ ہے جیسے پہلی رکعت میں
قُلْ ھُوَ اﷲ
پڑھی اور دوسری رکعت میں
قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ
پڑھی اور درمیان
میں صرف ایک سورۂ
قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقْ
چھوڑ دی لیکن ہاں اگر درمیان کی سورۃ پہلے سے بڑی ہو تو درمیان میں ایک سورۃچھوڑ کر پڑھ سکتا ہے جیسے
وَالتِّیْنِ
کے بعد
اِنَّااَنْزَلْنَا
پڑھنے میں حرج نہیں اور اذاجاء کے بعد قُلْ ھُوَاﷲ پڑھنا نہیں چاہے۔
(الدرالمختار،کتاب الصلاۃ،فصل فی القرأۃ،ج۲،ص۳۲۹،۳۳۰)
مسئلہ:۔جمعہ و عیدین میں پہلی رکعت میں سورۂ جمعہ اور دوسری رکعت میں سورۂ منافقون یا پہلی رکعت میں
سبح اسم ربک الاعلٰی
اور دوسری رکعت میں
ھل اتاک حدیث الغاشیۃ
پڑھنا سنت ہے۔
(ردالمحتار،کتاب الصلاۃ،مطلب السنۃ تکون سنۃ عین وسنۃ کفایۃ،ج۲،ص۳۲۴)
نماز کے باہر تلاوت کا بیان:۔مستحب یہ ہے کہ باوضو قبلہ رو اچھے کپڑے پہن کر صحیح صحیح حروف ادا کر کے اچھی آواز سے قرآن شریف پڑھے لیکن گانے کے لہجہ میں نہیں کہ گا کر قرآن پڑھنا جائز نہیں تلاوت کے شروع میں اعوذباﷲ پڑھنا مستحب ہے اور سورةکے شروع میں بسم اﷲ پڑھنا سنت ہے درمیان تلاوت میں کوئی دنیاوی کلام یا کام کرے تو اعوذباﷲ و بسم اﷲ پھر پڑھ لے۔
(غنیۃ المستملی،فصل فی سجودالسھو،القرأۃ خارج الصلاۃ،ص۴۹۵)
مسئلہ:۔غسل خانہ اور نجاست کی جگہوں میں قرآن شریف پڑھنا ناجائز ہے۔
(غنیۃ المستملی،فصل فی سجودالسھو،القرأۃ خارج الصلاۃ،ص۴۹۶)
مسئلہ:۔جب قرآن شریف بلند آواز سے پڑھا جائے تو حاضرین پر سننا فرض ہے جب کہ وہ مجمع سننے کی غرض سے حاضر ہو ورنہ ایک کا سننا کافی ہے اگر چہ اور لوگ اپنے اپنے کام میں ہوں۔
(غنیۃ المستملی،فصل فی سجود،القرأۃ خارج الصلاۃ،ص۴۹۷/فتاوی رضویۃ،ج۲۳،ص۳۵۲)
مسئلہ:۔سب لوگ مجمع میں زور سے قرآن شریف پڑھیں یہ ناجائز ہے اکثر عرس و فاتحہ کے موقعوں پر سب لوگ زور زور سے تلاوت کرتے ہیں یہ ناجائز ہے اگر چند آدمی
پڑھنے والے ہوں تو سب لوگ آہستہ پڑھیں۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الرابع فی الصلوۃوالتسبیح وقرأۃ القرآن۔۔۔إلخ،ج۵،ص۳۱۷)
مسئلہ:۔بازاروں اور کارخانوں میں جہاں لوگ کام میں لگے ہوں زور سے قرآن شریف پڑھنا ناجائز ہے کیونکہ لوگ اگر نہ سنیں تو گناہ پڑھنے والے پر ہوگا۔
(ردالمحتار،کتاب الصلوۃ،فصل فی القرأۃ،ص۳۲۹)
مسئلہ:۔قرآن شریف بلند آواز سے پڑھنا افضل ہے جب کہ نمازی یا بیمار یا سونے والے کو تکلیف نہ پہنچے۔
(غنیۃ المتملی،فصل فی سجود السھوہ القرأۃ خارج الصلوۃ،ص۴۹۷)
"مسئلہ:۔قرآن شریف کو پیٹھ نہ کی جائے نہ اس کی طرف پاؤں پھیلائیں نہ اس سے اونچی جگہ بیٹھیں نہ اس پر کوئی کتاب رکھیں اگر چہ حدیث وفقہ کی کتاب ہو۔
مسئلہ:۔قرآن شریف اگر بو سیدہ ہوکر پڑھنے کے قابل نہیں رہا تو کسی پاک کپڑے میں لپیٹ کر احتیاط کی جگہ دفن کردیں اور اس کے لئے لحد بنائی جائے تاکہ مٹی اس کے اوپر نہ پڑے قرآن شریف کو جلانا نہیں چاہے بلکہ دفن ہی کرنا چاہے۔"
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الخامس،ج۵،ص۳۲۳)
جب مسجد میں داخل ہو تو درود شریف پڑھ کر
اَللّٰھُمَّ افْتَحْ لِیْ اَبْوَابَ رَحْمَتِکَ
پڑھے اور جب مسجد سے نکلے تو درود شریف کے بعد
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ
پڑھے۔
(سنن ابن ماجہ، کتاب المساجدوالجماعات،باب الدعاء عند دخول المسجد، رقم۷۷۲،ج۱،ص۴۲۵)
مسئلہ:۔مسجد کی چھت کا بھی مسجد ہی کی طرح ادب و احترام لازم ہے بلا ضرورت مسجد کی چھت پر چڑھنا مکروہ ہے۔
(ردالمختار،کتاب الصلاۃ،مطلب فی احکام المسجد،ج۲،ص۵۱۶)
مسئلہ:۔بچے کو اور پاگل کو جن سے گندگی کا گمان ہو مسجد میں لے جانا حرام ہے اور اگر نجاست کا ڈر نہ ہو تو مکروہ ہے۔
(الدرالمختار،کتاب الصلاۃ،باب مایفسد الصلاۃوما یکرہ فیھا ،ج۲،ص۵۱۸)
مسئلہ:۔مسجد کا کوڑا جھاڑ کر ایسی جگہ ڈالے جہاں بے ادبی نہ ہو۔
(بہارشریعت،ح۳،ج۱،ص۱۸۴)
مسئلہ:۔ناپاک کپڑا پہن کر یا کوئی بھی ناپاک چیز لے کر مسجد میں جانا منع ہے یوں ہی ناپاک تیل مسجد میں جلانا یا ناپاک گارا مسجد میں لگانا منع ہے۔
(الدرالمختار،کتاب الصلاۃ،باب مایفسد الصلاۃوما یکرہ فیھا ،ج۲،ص۵۱۷)
مسئلہ:۔وضو کے بعد بدن کا پانی مسجد میں جھاڑنا' مسجد میں تھوکنا یا ناک صاف کرنا ناجائز ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الصلاۃ،فصل کرہ غلق باب المسجد،ج۱،ص۱۱۰)
مسئلہ:۔ مسجد میں ان آداب کا خیال رکھے (۱)جب مسجد میں داخل ہو تو سلام کرے بشرطیکہ جو لوگ وہاں موجود ہوں ذکر و درس میں مشغول نہ ہوں اوراگر نماز میں ہوں یا مسجد میں کوئی نہ ہو تو یوں کہے
اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِاللہِ الصَّالِحِیْنَ(۲)
وقت مکروہ نہ ہو تو دو رکعت تحیۃ المسجد ادا کرے (۳)خرید و فروخت نہ کرے(۴)ننگی تلوار مسجد میں نہ لے جائے(۵)گمی ہوئی چیز مسجد میں نہ ڈھونڈھے (۶)ذکر کے سوا آواز بلند نہ کرے(۷)دنیا کی باتیں نہ کرے (۸)لوگوں کی گردنیں نہ پھلانگے (۹)جگہ کے متعلق کسی سے جھگڑا نہ کرے بلکہ جہاں خالی جگہ پائے وہاں نماز پڑھ لے اوراس طرح نہ
بیٹھے کہ جگہ میں دوسروں کے لئے تنگی ہو(۱۰)کسی نمازی کے آگے سے نہ گزرے(۱۱)مسجد میں تھوک کھنگار یا کوئی گندی یا گھناؤنی چیز نہ ڈالے(۱۲)انگلیاں نہ چٹخائے(۱۳)نجاست اور بچوں اور پاگلوں سے مسجد کو بچائے(۱۴)ذکر الٰہی کی کثرت کرے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الخامس فی آداب المسجد...إلخ،ج۵،ص۳۲۱)
مسئلہ:۔کچا لہسن پیاز یا مولی کھا کر جب تک منہ میں بدبو باقی رہے مسجد میں جانا جائز نہیں یہی حکم ہر اس چیز کا ہے جس میں بدبو ہے کہ اس سے مسجد کو بچایا جائے اور اس کو بغیر دور کئے ہوئے مسجد میں نہ جایا جائے۔
(ردالمحتار،کتاب الصلاۃ،مطلب فی الغرس فی المسجد،ج۲،ص۵۲۵)
مسئلہ:۔مسجد کی صفائی کے لئے چمگادڑوں اور کبوتروں اور چڑیوں کے گھونسلوں کو نوچنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
(الدرالمختار،کتاب الصلاۃ،باب مایفسد الصلاۃوما یکرہ فیھا،ج۲،ص۵۲۸)
مسئلہ:۔اپنے محلّہ کی مسجد میں نماز پڑھنا اگرچہ جماعت کم ہو جامع مسجد سے افضل ہے بلکہ اگر محلّہ کی مسجد میں جماعت نہ ہوئی تو تنہا جائے اور اذان و اقامت کہہ کر اکیلے نماز پڑھے یہ جامع مسجد کی جماعت سے افضل ہے۔
(صغیری ،فصل فی احکام المسجد ، ص۳۰۲)
" سنت کی دو قسمیں ہیں ایک سنت مؤکدہ اور دوسری سنت غیر مؤکدہ۔
مسئلہ:۔سنت مؤکدہ یہ ہیں دو رکعت فجر کی سنت فرض نماز سے پہلے' چار رکعت ظہر کی سنت فرض نماز سے پہلے اور دو رکعت بعد میں' مغرب کے بعد دو رکعت سنت' عشاء کے بعد دو رکعت سنت' جمعہ سے پہلے چار رکعت سنت اور جمعہ کے بعد چار رکعت سنت۔ یہ سب سنتیں مؤکدہ ہیں یعنی ان کو پڑھنے کی تاکید ہوئی ہے بلا عذر ایک مرتبہ بھی ترک کرے تو ملامت کے قابل ہے اور اس کی عادت ڈالے تو فاسق جہنم کے لائق ہے اور اس کے لئے شفاعت سے محروم ہو جانے کا ڈر ہے ان مؤکدہ سنتوں کو ''سُنَنُ الْہُدیٰ'' بھی کہتے ہیں۔"
(ردالمحتار،کتاب الصلاۃ،مطلب فی السنن والنوافل،ج۲،ص۵۴۵)
مسئلہ:۔سنت غیر موکدہ یہ ہیں چار رکعت عصر سے پہلے' چار رکعت عشاء سے پہلے' اسی طرح عشاء کے بعد دو رکعت کی بجائے چار رکعت اور جمعہ کی فرض نماز ادا کرنے کے بعد بجائے چار رکعت سنت کے چھ رکعت۔ سنت مغرب کے بعد چھ رکعت ''صلوۃ الاوابین'' اور دو رکعت تحیۃ المسجد دو رکعت تحیۃ الوضوء اگر مکروہ وقت نہ ہو' دو رکعت نماز اشراق' کم سے کم دو رکعت نماز چاشت اور زیادہ سے زیادہ بارہ رکعت' کم سے کم دو رکعت اور زیادہ سے زیادہ آٹھ رکعت نماز تہجد' صلوۃ التسبیح' نماز استخارہ 'نماز حاجت وغیرہ ان سنتوں کو اگر پڑھے تو بہت زیادہ ثواب ہے اور اگر نہ پڑھے تو کوئی گناہ نہیں ہے ان سنتوں کو ''سنن الزوائد''
اور کبھی ''سنت مستحبہ'' کہتے ہیں۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الصلاۃ،الباب التاسع فی النوافل،ج۱،ص۱۱۲/ الدرالمختار وردالمحتار، کتاب الصلاۃ،باب الوتروالنوافل مطلب فی السنن والنوافل، ج۲،ص ۵۴۶،۵۴۷)
مسئلہ:۔قیام کی قدرت ہونے کے باوجود نفل نماز بیٹھ کر پڑھنا جائز ہے لیکن جب قدرت ہو تو نفل کو بھی کھڑے ہو کر پڑھنا افضل ہے اور دوگنا ثواب ملتا ہے۔
( الدرالمختاروردالمحتار،کتاب الصلاۃ،باب الوتروالنوافل، مطلب مبحث المسائل الستۃ عشریۃ، ج۲، ۵۸۴)
مسئلہ:۔مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ جو شخص اچھی طرح وضو کرے اور ظاہر و باطن کے ساتھ متوجہ ہو کر دو رکعت (نماز تحیۃ الوضوء) پڑھے اس کے لئے جنت واجب ہو جاتی ہے۔
(صحیح مسلم، کتاب الطہارۃ،باب الذکر المستحب عقب الوضوء ،رقم ۲۳۴،ص۱۴۴)
ترمذی شریف میں ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ جو شخص فجر کی نماز جماعت سے پڑھ کر ذکر الٰہی کرتار ہے یہاں تک کہ سورج بلند ہو جائے پھر دو رکعت (نماز اشراق) پڑھے تو اسے پورے ایک حج اور ایک عمرہ کا ثواب ملے گا۔
(جامع الترمذی، کتاب السفر، باب ذکر ما یستحب من الجلوس فی المسجد بعد صلاۃ الصبح حتی تطلع الشمس،ج۲،رقم۵۸۶،ص۱۰۰)
چاشت کی نماز کم سے کم دو رکعت اور زیادہ سے زیادہ بارہ رکعت ہے حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ جو شخص چاشت کی دو رکعتوں کو ہمیشہ پڑھتا رہے اس کے گناہ بخش دیئے جائیں گے اگرچہ وہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں۔
(جامع الترمذی،کتاب الوتر،باب ماجاء فی صلاۃ الضحٰی ،رقم۴۷۵،ج۲،ص۱۹/ الدرالمختار،کتاب الصلاہ،باب الوتر والنوافل،ج۲،ص۵۶۳)
نماز تہجد کا وقت عشاء کی نماز کے بعد سو کر اٹھے اس کے بعد سے صبح صادق طلوع ہونے کے وقت تک ہے تہجد کی نماز کم سے کم دو رکعت اور زیادہ سے زیادہ حضوراکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم سے آٹھ رکعت تک ثابت ہے حدیثوں میں اس نماز کی بہت زیادہ فضیلت بیان کی گئی ہے۔
"(ردالمحتار،کتاب الصلاۃ،مطلب فی صلاۃ اللیل،ج۲،ص۵۶۷)
صلوۃ التسبیح"
اس نماز کا بے انتہا ثواب ہے حدیث شریف میں ہے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے اپنے چچا حضرت عباس رضی اﷲتعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ اے میرے چچا اگر ہو سکے تو صلوۃ التسبیح ہر روز ایک بار پڑھو اور اگر روزانہ نہ ہو سکے تو ہر جمعہ کو ایک بار پڑھو اور یہ بھی نہ ہوسکے تو ہر مہینہ میں ایک بار اور یہ بھی نہ ہو سکے تو سال میں ایک بار اور یہ بھی نہ ہوسکے تو عمر میں ایک بار۔ اس نماز کی ترکیب یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کے بعد ثنا پڑھے پھر پندرہ مرتبہ یہ تسبیح پڑھے
سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکْبَرْ ؕ پھر اَعُوْذُ بِاللہِ
اور
بِسْمِ اﷲ
اور سورۂ فاتحہ اور کوئی سورة پڑھ کر رکوع سے پہلے دس بار اوپر والی تسبیح پڑھے پھر رکوع کرے
اور رکوع میں
سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم
تین مرتبہ پڑھ کر پھر دس مرتبہ اوپر والی تسبیح پڑھے پھر رکوع سے سر اٹھائے اور
سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ
اور
رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ
پڑھ کر پھر کھڑے کھڑے دس مرتبہ اوپر والی تسبیح پڑھے پھر سجدہ میں جائے اور تین مرتبہ
سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی
پڑھ کر پھر دس مرتبہ اوپر والی تسبیح پڑھے پھر سجدہ میں سے سر اٹھائے اور دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھ کر دس مرتبہ اوپر والی تسبیح پڑھے پھر دوسرے سجدہ میں جائے اور
سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی
تین مرتبہ پڑھے پھر اس کے بعد اوپر والی تسبیح دس مرتبہ پڑھے اسی طرح چار رکعت پڑھے اور خیا ل رہے کہ کھڑے ہونے کی حالت میں سورۂ فاتحہ سے پہلے پندرہ مرتبہ اوپر والی تسبیح پڑھے باقی سب جگہ دس دس بار اوپر والی تسبیح پڑھے ہر رکعت میں پچھتّر مرتبہ تسبیح پڑھی جائے گی اور چار رکعتوں میں تسبیح کی گنتی تین سو مرتبہ ہوگی اپنے خیال سے گنتا رہے یا انگلیوں کے اشاروں سے تسبیح کا شمار کرتا رہے۔
(الجامع الترمذی،کتاب الوتر،باب ماجاء فی صلاۃ التسبیح،رقم۴۸۱۔۴۸۲،ج۲،ص۲۴،۲۵)
حضرت حذیفہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ جب حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو کوئی اہم معاملہ پیش آتا تو آپ اس کے لئے دو یا چار رکعت نماز پڑھتے۔
(سنن أبی داؤد،کتاب التطویح،باب وقت قیام النبی صلی اللہ علیہ وسلم، رقم۱۳۱۹، ج۲،ص۵۲)
حدیث شریف میں ہے کہ پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ اور تین بار آیۃ الکرسی پڑھے باقی تین رکعتوں میں سوره فاتحہ اور
قل ھو اﷲ، قل اعوذ برب الفلق ،قل اعوذ برب الناس
ایک ایک بار پڑھے تو یہ ایسی ہیں جیسے شب قدر میں چار رکعتیں پڑھیں۔ مشائخ فرماتے ہیں کہ ہم نے یہ نماز پڑھی اور ہماری حاجتیں پوری ہوئیں اور ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ جب کوئی حاجت پیش آجائے تو اچھا وضو کر کے دو رکعت نماز پڑھے پھر تین مرتبہ اس آیت کو پڑھے ۔
ہُوَ اللہُ الَّذِیۡ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَۚ عٰلِمُ الْغَیۡبِ وَ الشَّہٰدَۃِۚ ہُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیۡمُ
پھر تین بار
سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکْبَرُ ؕ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا باللہِ
پڑھے پھر تین بار کوئی درود شریف پڑھے پھر یہ دعا پڑھے
لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ الْحَلِیْمُ الْکَرِیْمُ ؕ سُبْحَانَ اللہِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ ؕ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ اَسْئَلُکَ مُوْجِبَاتِ رَحْمَتِکَ وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِکَ وَالْغَنِیْمَۃَ مِنْ کُلِّ بِرٍّ وَّالسَّلَامَۃَ مِنْ کُلِّ اِثْمٍ لَاتَدْعُ لِیْ ذَنْباً اِلَّا غَفَرْتَہٗ وَلَآ ھَمّاً اِلَّا فَرَّجْتَہٗ وَلَا حَاجَۃً ھِیَ لَکَ رِضاً اِلَّا قَضَیْتَھَا یَا اَرْحَمَ الرّٰحِمِیْنَ ۔
(جامع الترمذی،کتاب الوتر،باب صلاۃ الحاجۃ،رقم۴۷۸،ج۲،ص۲۱)
ان شاء اﷲ تعالیٰ اس کی حاجت پوری ہوگی اسی طرح حضرت عثمان بن حنیف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک صاحب جو نابینا تھے بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے کہ یا رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم! آپ دعا کیجیے کہ اﷲتعالیٰ مجھے عافیت دے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ اگر تم چاہو تو صبر کرو اور یہ تمہارے حق میں بہتر ہے انہوں نے عرض کی کہ حضور دعا کردیں تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ان کو یہ حکم دیا کہ تم خوب اچھی طرح وضو کرو اور دو رکعت نماز پڑھ کر یہ دعا پڑھو
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ وَاَتَوَجَّہُ اِلَیْکَ بِنَبِیِّکَ مُحَمَّدٍ نَّبِیِّ الرَّحْمَۃِ یَا رَسُوْلَ اللہِ اِنِّیْ تَوَجَّھْتُ بِکَ اِلٰی رَبِّیْ فِیْ حَاجَتِیْ ھَذِہٖ لِیُقْضٰی لِیْ اَللّٰھُمَّ فَشَفِّعْہُ فِیَّ
حضرت عثمان بن حنیف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ خدا کی قسم ہم اٹھنے بھی نہ پائے تھے ابھی باتیں ہی کر رہے تھے کہ وہ نابینا ہمارے پاس انکھیارے ہو کر اس شان سے آئے کہ گویاکبھی اندھے تھے ہی نہیں ۔
(جامع الترمذی،کتاب احادیث شتی ،باب ۱۲۷، رقم۳۵۸۹،ج۵،ص۳۳۶۔المعجم الکبیر للطبرانی،ج۹،رقم۸۳۱۱،ص۳۰)
دعاؤں کی مقبولیت اور حاجتوں کے پوری ہونے کے لئے ایک مجرب نماز صلوۃ الاسرار بھی ہے جس کو امام ابوالحسن نور الدین علی بن جریر لحمی شطنوفی نے بہجۃ الاسرار میں اور ملا علی قاری و شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہم الرحمۃ نے حضرت غوث اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے اس کی ترکیب یہ ہے کہ بعد نماز مغرب سنتیں پڑھ کر دو رکعت نماز نفل پڑھے اور بہتر یہ ہے کہ الحمد کے بعد ہر رکعت میں گیارہ گیارہ مرتبہ قل ھو اﷲ پڑھے اور گیارہ مرتبہ یہ پڑھے
یَا رَسُوْلَ اللہِ یَانَبِیَّ اللہِ اَغِثْنِیْ وَامْدُدْنِیْ فِیْ قَضَاءِ حَاجَتِیْ یَا قَاضِیَ الْحَاجَاتِ
پھر عراق کی جانب گیارہ قدم چلے اور ہر قدم پر یہ پڑھے
یَاغَوْثَ الثَّقَلَیْنِ یَا کَرِیْمَ الطَّرَفَیْنِ اَغِثْنِیْ وَامْدُدْنِیْ فِیْ قَضَاءِ حَاجَتِیْ یَا قَاضِیَ الْحَاجَاتِ ؕ
پھر حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو وسیلہ بنا کر اﷲتعالیٰ سے اپنی حاجت کے لئے دعا مانگے۔
(بہجۃ الاسرار،ذکر فضل اصحابۃ وبشراہم،ص۱۹۷۔بہارشریعت ،ج۱،ح۴،ص۳۱)
حدیثوں میں آیا ہے کہ جب کوئی شخص کسی کام کا ارادہ کرے تو دو رکعت نماز نفل پڑھے جس کی پہلی رکعت میں الحمد کے بعد
قُلْ یٰآَ یُّھَا الْکَافِرُوْنَ
اور دوسری رکعت میں الحمد کے بعد
قُلْ ھُوَاللہُ
پڑھے پھر یہ دعا پڑھ کر باوضو قبلہ کی طرف منہ کرکے سورہے دعا کے اول و آخر سورهٔ فاتحہ اور درود شریف بھی پڑھے دعا یہ ہے۔
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ وَاَسْتَقْدِ رُکَ بِقُدْرَتِکَ وَاَسْئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ فَاِنَّکَ تَقْدِرُ وَلَا اَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَا اَعْلَمُ وَاَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ ؕ اَللّٰھُمَّ اِنْ
کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ ھٰذَا الْاَمْرَ خَیْرٌ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعِیْشَتِیْ وَ عَاقِبَۃِ اَمْرِیْ وَ عَاجِلِ اَمْرِیْ وَ اٰجِلِہٖ فَاقْدُرْہُ لِیْ وَیَسِّرْہُ لِیْ ثُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْہِ وَاِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ ھٰذَا الْاَمْرَ شَرٌّ لِیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعِیْشَتِیْ وَعَاقِبَۃِ اَمْرِیْ وَعَاجِلِ اَمْرِیْ وَآ جِلِہٖ فَاصْرِفْہُ عَنِّیْ وَاصْرِفْنِیْ عَنْہُ وَاقْدُرْلِی الْخَیْرَحَیْثُ کَانَ ثُمَّ اَرْضِنِیْ بہٖ
دونوں جگہ الامر کی جگہ اپنی ضرورت کا نام لے جیسے پہلی جگہ
ھٰذَا السَّفَرَخَیْرٌ لَیْ
اور دوسری جگہ میں
ھٰذَ االسَّفَرَشَرٌّلَیْ۔
(ردالمحتار،کتاب الصلاۃ،مطلب فی رکعتی الاستخارۃ،ج۲،ص۵۶۹/صحیح بخاری ، کتاب التہجد،باب ماجاء فی التطوع مثنی مثنی، رقم۱۱۶۲،ج۱،ص۳۹۳بتغیرقلیل)
مسئلہ:۔بہتر یہ ہے کہ کم سے کم سات مرتبہ استخارہ کرے اور پھر دیکھے جس بات پر دل جمے اسی میں بھلائی ہے بعض بزرگوں نے فرمایا ہے کہ استخارہ کرنے میں اگر خواب کے اندر سپیدی یا سبزی دیکھے تو اچھا ہے اور اگر سیاہی یا سرخی دیکھے تو برا ہے۔
(ردالمحتار،کتاب الصلاۃ ،مطلب فی رکعتی الاستخارۃ،ج۲،ص۵۷۰/ کنزالعمال،کتاب الصلاۃ،صلاۃ الاستخارۃ من الاکمال،ج۸،رقم ۲۱۵۳۵،ص۳۳۶)
مسئلہ:۔مرد و عورت سب کے لئے تراویح سنت مؤکدہ ہے اس کا چھوڑنا جائز نہیں عورتیں گھروں میں اکیلے اکیلے تراویح پڑھیں مسجدوں میں نہ جائیں۔
(الدرالمختار،کتاب الصلاۃ،باب الوتروالنوافل،ج۲،ص۵۹۷)
مسئلہ:۔تراویح بیس رکعتیں دس سلام سے پڑھی جائیں یعنی ہر دو رکعت پر سلام پھیرے اور ہر چار رکعت پر اتنی دیر بیٹھنا مستحب ہے جتنی دیر میں چار رکعتیں پڑھی ہیں اور اختیار ہے کہ اتنی دیر چاہے چپکا بیٹھا رہے چاہے کلمہ یا درود شریف پڑھتا رہے یا کوئی اور
بھی دعا پڑھتا رہے عام طور سے یہ دعا پڑھی جاتی ہے
سُبْحَانَ ذِی الْمُلْکِ وَ الْمَلَکُوْتِ سُبْحَانَ ذِی الْعِزَّۃِ وَالْعَظَمَۃِ وَالْھَیْبَۃِ وَالْقُدْرَۃِ وَاْلکِبْرِیَآء وَالْجَبَرُوْتِ سُبْحَانَ الْمَلِکِ الْحَیِّ الَّذِیْ لَا یَنَامُ وَلَا یَمُوْتُ سُبُّوْحٌ قُدُّوْسٌ رَّبُّنَا وَرَبُّ الْمَلٰئِکَۃِ وَالرُّوْحِ۔
(الدرالمختاروردالمحتار،کتاب الصلاۃ،باب الوتروالنوافل،مطلب مبحث صلاۃ التراویح، ج۲،ص۵۹۹،۶۰۰)
مسئلہ:۔مردوں کے لئے تراویح جماعت سے پڑھنا سنت کفایہ ہے یعنی اگر مسجد میں تراویح کی جماعت نہ ہوئی تو محلہ کے سب لوگ گنہگار ہوں گے اور اگر کچھ لوگوں نے مسجد میں جماعت سے تراویح پڑھ لی تو سب لوگ بری الذمہ ہوگئے۔
(الدرالمختار،کتاب الصلاۃ،باب الوتر والنوافل،ج۲،ص۵۹۸،۵۹۹)
مسئلہ:۔ پورے مہینہ کی تراویح میں ایک بار قرآن مجید ختم کرنا سنت مؤکدہ ہے اور دوبار ختم کرنا افضل ہے اور تین بار ختم کرنا اس سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے بشرط یہ کہ مقتدیوں کو تکلیف نہ ہو مگر ایک بار ختم کرنے میں مقتدیوں کی تکلیف کا لحاظ نہیں کیا جائے گا۔
(الدرالمختار،کتاب الصلاۃ،باب الوتر والنوافل،ج۲،ص۶۰۱)
"مسئلہ:۔جس نے عشاء کی فرض نماز نہیں پڑھی وہ نہ تراویح پڑھ سکتا ہے نہ وتر جب تک فرض نہ ادا کرے۔
مسئلہ:۔جس نے عشا ء کی فرض نماز تنہا پڑھی تراویح جماعت سے تو وہ وتر کو تنہا پڑھے"
(الدرالمختاروردالمحتار،کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل،مبحث صلاۃ التراویح ،ج۲،ص۶۰۳)
"وتر کو جماعت سے وہی پڑھے گا جس نے عشاء کے فرض کو جماعت کے ساتھ پڑھا ہو۔
مسئلہ:۔جس کی تراویح کی کچھ رکعتیں چھوٹ گئی ہیں اور امام وتر پڑھانے کے لئے کھڑا"
ہو جائے تو امام کے ساتھ وتر کی نماز جماعت سے پڑھ لے پھر اس کے بعد تراویح کی چھوٹی ہوئی رکعتوں کو ادا کرے بشرط یہ کہ عشاء کے فرض جماعت سے پڑھ چکا ہو اور اگر چھوٹی ہوئی تراویح کی رکعتوں کو ادا کرکے وتر تنہا پڑھے تو یہ بھی جائز ہے مگر پہلی صورت افضل ہے۔
(درالمختار،کتاب الصلاۃ، باب الوتروالنوافل،ج۲،ص۵۹۸)
مسئلہ:۔اگر کسی وجہ سے تراویح میں ختم قرآن نہ ہو سکے تو سورتوں سے تراویح پڑھیں اور اس کے لئے بعضوں نے یہ طریقہ رکھا ہے کہ الم ترکیف سے آخر تک دوبار پڑھنے میں بیس رکعتیں ہو جائیں گی۔
(ردالمحتار، کتاب الصلاۃ، مبحث صلاۃ التراویح، ج۲،ص۶۰۲)
مسئلہ:۔بلا کسی عذر کے بیٹھ کر تراویح پڑھنا مکروہ ہے بلکہ بعض فقہا کے نزدیک تو ہوگی ہی نہیں
(درمختار ج۱ص۴۷۵)
ہاں اگر بیمار یا بہت زیادہ بوڑھا اور کمزور ہو تو بیٹھ کر تراویح پڑھنے میں کوئی کراہت نہیں کیونکہ یہ بیٹھنا عذر کی وجہ سے ہے۔
(الدرالمختار، کتاب الصلاۃ، باب الوتروالنوافل، ج۲،ص۶۰۳)
مسئلہ:۔نابالغ کسی نماز میں امام نہیں بن سکتا
(الھدایۃ و فتح القدیر،کتاب الصلاۃ، باب الامامۃ،ج۱،ص۳۶۷،۳۶۸)
اسی طرح نابالغ کے پیچھے بالغوں کی تراویح نہیں ہوگی صاحب ہدایہ وصاحب فتح القدیر نے اسی قول کو مختار بتایا ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الصلاۃ،الباب التاسع فی النوافل،فصل فی التراویح،ج۱،ص۱۱۶،۱۱۷)
مسئلہ:۔کسی عبادت کو اس کے مقرر وقت پر ادا کرنے کو ادا کہتے ہیں اور وقت گزر جانے کے بعد عمل کرنے کو قضا کہتے ہیں۔
(ردالمحتار،کتاب الصلاۃ،مطلب فی ان الامر یکون ۔۔۔الخ،ج۲،ص۶۲۹)
مسئلہ:۔فرض نمازوں کی قضا فرض ہے وتر کی قضا واجب ہے اور فجر کی سنت اگر فرض کے ساتھ قضا ہو اور زوال سے پہلے پڑھے تو فرض کے ساتھ سنت بھی پڑھے اور اگر زوال کے بعد پڑھے تو سنت کی قضا نہیں جمعہ اور ظہر کی سنتیں قضا ہو گئیں اور فرض پڑھ لیا اگر وقت ختم ہو گیا تو ان سنتوں کی قضا نہیں اور اگر وقت باقی ہے تو ان سنتوں کو پڑھے اور افضل یہ ہے کہ پہلے فرض کے بعد والی سنتوں کو پڑھے پھر ان چھٹی ہوئی سنتوں کو پڑھے۔
(الدرالمختار وردالمحتار،کتاب الصلاۃ،باب قضاء الفوائت ،ج۲،ص۶۳۳)
مسئلہ:۔جس شخص کی پانچ نمازیں یا اس سے کم قضا ہوں اس کو صاحب ترتیب کہتے ہیں اس پر لازم ہے کہ وقتی نماز سے پہلے قضا نمازوں کو پڑھ لے اگر وقت میں گنجائش ہوتے ہوئے اور قضا نماز کو یاد رکھتے ہوئے وقتی نماز کو پڑھ لے تو یہ نماز نہیں ہوگی۔ مزید تفصیل ''بہار شریعت'' میں دیکھنی چاہے۔
(الدرالمختار، کتاب الصلاۃ،باب قضاء الفوائت،ج۲،ص۶۳۳۔۶۳۴)
مسئلہ:۔چھ نمازیں یا اس سے زیادہ نمازیں جس کی قضا ہوگئی ہوں وہ صاحب ترتیب نہیں اب یہ شخص وقت کی گنجائش اور یاد ہونے کے باوجود اگر وقتی نماز پڑھ لے گا تو اس کی نماز ہو جائے گی اور چھوٹی ہوئی نمازوں کو پڑھنے کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں ہے عمر بھر میں جب بھی پڑھ لے گا بری الذمہ ہو جائے گا۔
(الدرالمختار،کتاب الصلاۃ،باب قضاء الفوائت،ج۲،ص۶۳۷)
مسئلہ:۔جس روز اور جس وقت کی نماز قضا ہو جب اس نماز کی قضا پڑھے تو ضروری ہے کہ اس روز اور اس وقت کی قضا کی نیت کرے مثلاً جمعہ کے دن فجر کی نماز قضا ہوگئی تو اس طرح نیت کرے کہ نیت کی میں نے دو رکعت جمعہ کے دن کی نماز فجر کی' اﷲتعالیٰ کے لئے، منہ میرا طرف کعبہ شریف کے، اﷲاکبر۔
(ردالمحتار،کتاب الصلاۃ،مطلب اذا اسلم المرتد ھل تعود حسناتہ ام لا ،ج۲،ص۶۵۰)
مسئلہ:۔اگر چند مہینے یا چند برسوں کی قضا نمازوں کو پڑھے تو نیت کرنے میں جو نماز پڑھنی ہے اس کا نام لے اور اس طرح نیت کرے مثلاً نیت کی میں نے' دو رکعت نماز فجر کی' جو میرے ذمہ باقی ہیں ان میں سے پہلی فجر کی' اﷲتعالیٰ کے لئے' منہ میرا طرف کعبہ شریف کے اﷲاکبر اس طریقہ پر دوسری قضا نمازوں کی نیتوں کو سمجھ لیناچاہے۔
(ردالمحتار،کتاب الصلاۃ،مطلب اذا اسلم المرتد ھل تعود حسناتہ ام لا ،ج۲،ص۶۵۰)
مسئلہ:۔جو رکعتیں ادا میں سورہ ملا کرپڑھی جاتی ہیں وہ قضا میں بھی سورہ ملا کر پڑھی جائیں گی اور جو رکعتیں ادا میں بغیر سورہ ملائے پڑھی جاتی ہیں قضا میں بھی بغیر سورہ ملائے پڑھی جائیں گی۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الصلاۃ،الباب الحادی عشر،ج۱،ص۱۲۱)
مسئلہ:۔مسافرت کی حالت میں جب کہ قصر کرتا تھا اس وقت کی چھٹی ہوئی نمازوں کو اگر وطن میں بھی قضا کریگا جب بھی دو ہی رکعت پڑھے گا اور جو نمازیں مسافر نہ ہونے کے زمانے میں قضا ہوئی ہیں اگر سفر میں بھی ان کی قضا پڑھے گا تو چار ہی رکعت پڑھے گا۔
(ردالمحتار،کتاب الصلاۃ،مطلب اذا اسلم المرتد ھل تعود حسنانۃام لا ،ج۲،ص۶۵۰)
جمعہ فرض ہے اور اس کا فرض ہونا ظہر سے زیادہ مؤکدہ ہے اس کا منکر کافر ہے
(الدرالمختار،کتاب الصلاۃ،باب الجمعۃ، ج۳،ص۵)
حدیث شریف میں ہے کہ جس نے تین جمعے برابر چھوڑ دیے اس نے اسلام کو پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا وہ منافق ہے۔
(مجمع الزوائد،کتاب الصلاۃ،باب فیمن ترک الجمعۃ،رقم ۳۱۷۷۔۳۱۷۸،ج۲،ص۴۲۲)
اور اﷲ سے بے تعلق ہے ۔
"مسئلہ:۔جمعہ فرض ہونے کے لئے مندرجہ ذیل گیارہ شرطیں ہیں:۔
(۱)شہر میں مقیم ہونا لہذا مسافر پر جمعہ فرض نہیں(۲)آزاد ہونا لہذا غلام پر جمعہ فرض نہیں (۳)تندرستی یعنی ایسے مریض پر جمعہ فرض نہیں جو جامع مسجد تک نہیں جاسکتا (۴)مرد ہونا یعنی عورت پر جمعہ فرض نہیں (۵)عاقل ہونا یعنی پاگل پر جمعہ فرض نہیں (۶)بالغ ہونا یعنی بچے پر جمعہ فرض نہیں (۷)انکھیارا ہونا لہٰذا اندھے پر جمعہ فرض نہیں (۸)چلنے کی قدرت رکھنے والا ہو یعنی اپاہج اور لنجے پر جمعہ فرض نہیں(۹)قید میں نہ ہونا لہٰذا جیل خانہ کے قیدیوں پر جمعہ فرض نہیں(۱۰)حاکم یا ظالم وغیرہ کا خوف نہ ہونا (۱۱)بارش کا آندھی کا اس قدر زیادہ نہ ہونا جس سے نقصان کا قوی اندیشہ ہو۔"
(الدرالمختار وردالمحتار ، کتاب الصلاۃ،باب الجمعۃ، مطلب فی شروط وجوب الجمعۃ،ج۳،ص۳۰،۳۳)
"مسئلہ:۔جن لوگوں پر جمعہ فرض نہیں مثلاً مسافر اور اندھے وغیرہ اگر یہ لوگ جمعہ پڑھیں تو ان کی نماز جمعہ صحیح ہوگی یعنی ظہر کی نماز ان لوگوں کے ذمہ سے ساقط ہو جائے گی۔
(۱)جمعہ جائز ہونے کے لئے چھ شرطیں ہیں یعنی ان میں سے ایک بھی اگر نہیں پائی گئی تو جمعہ ادا ہوگا ہی نہیں۔
پہلی شرط)جمعہ جائز ہونے کی پہلی شرط شہریا شہری ضروریات سے تعلق رکھنے والی جگہ ہونا ہے شریعت میں شہر سے مراد وہ آبادی ہے کہ جس میں متعدد سڑکیں گلیاں اور بازار ہوں اور وہ ضلع یا تحصیل کا شہر یا قصبہ ہو کہ اس کے متعلق دیہات گنے جاتے ہیں اور اگر ضلع یا تحصیل نہ ہو تو ضلع یا تحصیل جیسی بستی ہو ۔جمعہ جائز ہونے کے لئے ایسی بستی کا ہونا شرط ہے لہٰذا چھوٹے چھوٹے گاؤں میں جمعہ نہیں پڑھنا چاہے بلکہ ان لوگوں کو روزانہ کی طرح ظہر کی نماز جماعت سے پڑھنی چاہے لیکن جن گاؤں میں پہلے سے جمعہ قائم ہے جمعہ"
"کو بند نہیں کرنا چاہے کہ عوام جس طرح بھی اﷲعزوجل ورسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا نام لیں غنیمت ہے لیکن ان لوگوں کو چار رکعت ظہر کی نماز پڑھنی ضروری ہے۔
دوسری شرط)دوسری شرط یہ ہے کہ بادشاہ اسلام یا اس کا نائب جمعہ قائم کرے اور اگر وہاں اسلامی حکومت نہ ہو تو سب سے بڑا سنی صحیح العقیدہ عالم دین اس شہر کا جمعہ قائم کرے کہ بغیر اس کی اجازت کے جمعہ قائم نہیں ہوسکتا اور اگر یہ بھی نہ ہو تو عام لوگ جس کو امام بنائیں وہ جمعہ قائم کرے ہر شخص کو یہ حق نہیں کہ جب چاہے جمعہ قائم کرے۔
تیسری شرط)ظہر کا وقت ہونا ہے لہٰذاوقت سے پہلے یا بعد میں جمعہ کی نماز پڑھی گئی تو جمعہ کی نماز نہیں ہوگی اور اگر جمعہ کی نماز پڑھتے پڑھتے عصر کا وقت شروع ہو گیا تو جمعہ باطل ہو گیا۔
چوتھی شرط)یہ ہے نماز جمعہ سے پہلے خطبہ ہو جائے خطبہ عربی زبان میں ہونا چاہے عربی کے علاوہ کسی دوسری زبان میں پورا خطبہ پڑھنا یا عربی کے ساتھ کسی دوسری زبان کو ملانا یہ خلاف سنت اور مکروہ ہے۔
پانچویں شرط)جمعہ جائز ہونے کی پانچویں شرط جماعت ہے جس کے لئے امام کے سوا کم سے کم تین مردوں کا ہونا ضروری ہے۔
چھٹی شرط)اذنِ عام ہونا ضروری ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ مسجد کا دروازہ کھول دیا جائے تاکہ جس مسلمان کا جی چاہے آئے کسی قسم کی رکاوٹ نہ ہو لہٰذا بند مکان میں جمعہ پڑھنا جائز نہیں ہوگا۔"
(الدرالمختار،کتاب الصلاۃ،باب الجمعۃ،ج۳،ص۶،۲۹)
عید و بقرعید کی نماز واجب ہے مگر سب پر نہیں بلکہ صرف انہیں لوگوں پر جن لوگوں پر جمعہ فرض ہے بلاوجہ عیدین کی نماز چھوڑنا سخت گناہ ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ ، کتاب الصلاۃ، الباب السابع عشر فی صلاۃ العیدین ،ج۱، ص۱۵۰/ الجوہرۃ،النیرۃ، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ العیدین،ص۱۱۹)
مسئلہ:۔عیدین کی نماز واجب ہونے اور جائز ہونے کی وہی شرطیں ہیں جو جمعہ کے لئے ہیں فرق اتنا ہے کہ جمعہ کا خطبہ شرط ہے اور عیدین کا خطبہ سنت ہے دوسرا فرق یہ بھی ہے کہ جمعہ کا خطبہ نماز جمعہ سے پہلے ہے اور عیدین کا خطبہ نماز عیدین کے بعد ہے اور ایک تیسرا فرق یہ بھی ہے کہ جمعہ کے لئے اذان و اقامت ہے اور عیدین کے لئے نہ اذان ہے نہ اقامت صرف دوبار اَلصَّلوٰۃُ جَامِعَۃٌ کہہ کر نماز عیدین کے اعلان کی اجازت ہے۔
(الردالمحتار، کتاب الصلاۃ ، باب العیدین، مطلب فی الفأل والطیرۃ،ج۳،ص۵۰۔۵۱)
مسئلہ:۔عیدین کی نماز کا وقت ایک نیزہ سورج بلند ہونے سے زوال کے پہلے تک ہے۔
(الدرالمختار، کتاب الصلاۃ ، باب العیدین، ج۳،ص۶۰۔۶۱)
"مسئلہ:۔عید کے دن یہ باتیں مستحب ہیں :۔
(۱)حجامت بنوانا (۲)ناخن کٹوانا (۳)غسل کرنا (۴)مسواک کرنا (۵)اچھے کپڑے پہننا نئے ہوں یا پرانے (۶)انگوٹھی پہننا (۷)خوشبو لگانا (۸)صبح کی نماز محلّہ کی مسجد میں پڑھنا(۹)عید گاہ جلد چلے جانا (۱۰)نماز سے پہلے صدقہ فطر ادا کرنا (۱۱)عیدگاہ کو پیدل جانا(۱۲)دوسرے راستہ سے واپس آنا (۱۳)عید گاہ کو جانے سے پہلے چند کھجوریں کھا لینا تین پانچ سات یا کم زیادہ مگر طاق ہوں کھجوریں نہ ہوں تو کوئی میٹھی چیز کھا لے(۱۴)خوشی ظاہر کرنا (۱۵)صدقہ و خیرات کرنا"
(۱۶)عیدگاہ کو اطمینان اور وقار کے ساتھ جانا (۱۷)آپس میں ایک دوسرے کو مبارکباد دینا۔
(الدرالمختارمع ردالمحتار، کتاب الصلاۃ ، باب العیدین، ج۳،ص۵۴)
پہلے اس طرح نیت کرے کہ نیت کی میں نے دو رکعت نماز عید الفطر یا عیدالاضحی کی چھ تکبیروں کے ساتھ اﷲتعالیٰ کے لئے (مقتدی اتنا اور کہے پیچھے اس امام کے) منہ میرا طرف کعبہ شریف کے اﷲاکبر پھر کانوں تک ہاتھ اٹھائے اور اﷲاکبر کہہ کر ہاتھ باندھ لے اور ثنا پڑھے پھر کانوں تک ہاتھ اٹھائے اور اﷲاکبر کہتا ہوا ہاتھ چھوڑ دے پھر کانوں تک ہاتھ اٹھائے اور اﷲاکبر کہتا ہوا ہاتھ چھوڑ دے پھر کانوں تک ہاتھ اٹھائے اور اﷲاکبر کہہ کر ہاتھ باندھ لے خلاصہ یہ ہے کہ آغاز نماز کی پہلی تکبیر کے بعد بھی ہاتھ باندھ لے اور چوتھی تکبیر کے بعد بھی ہاتھ باندھ لے اور دوسری اور تیسری کے بعد ہاتھ چھوڑ دے چوتھی تکبیر کے بعد امام آہستہ سے اعوذباﷲوبسم اﷲ پڑھ کر بلند آواز سے الحمداور کوئی سورہ پڑھے اور رکوع و سجدہ سے فارغ ہو کر دوسری رکعت میں الحمد اور کوئی سورہ پڑھے پھر تین بار کانوں تک ہاتھ اٹھا کر ہر بار اﷲاکبر کہتا ہوا ہاتھ چھوڑ دے اور چوتھی بار بلا ہاتھ اٹھائے تکبیر کہتا ہوا رکوع میں جائے اور باقی نماز دوسری نمازوں کی طرح پوری کرے سلام پھیرنے کے بعد امام دو خطبے پڑھے پھر دعا مانگے پہلے خطبے کو شروع کرنے سے پہلے امام نو بار اور دوسرے کے پہلے سات بار اور منبر سے اترنے کے پہلے چودہ بار اﷲاکبر آہستہ سے کہے کہ یہ سنت ہے۔
(الدرالمختار، کتاب الصلاۃ ، باب العیدین، ج۳،ص۶۱۔۶۶،۶۸)
مسئلہ:۔اگر کسی عذر مثلاً سخت بارش ہو رہی ہے یا ابر کی وجہ سے چاند نہیں دیکھا گیا اور
زوال کے بعد چاند ہونے کی شہادت ملی اور عید کی نماز نہ ہو سکی تو دوسرے دن عید کی نماز پڑھی جائے اور اگر دوسرے دن بھی نہ ہو سکی تو تیسرے دن عید الفطر کی نماز نہیں ہوسکتی۔
(الدرالمختار مع ردالمحتار،کتاب الصلاۃ،مطلب:امر الخلیفۃ لایبقی بعد موتہ،ج۳،ص۶۲)
مسئلہ:۔عید الاضحی (بقر عید) تمام احکام میں عید الفطر کی طرح ہے صرف چند باتوں میں فرق ہے عید ا لفطر میں نماز عید سے پہلے کچھ کھا لینا مستحب ہے اور عیدالاضحی میں مستحب یہ ہے کہ نماز سے پہلے کچھ نہ کھائے اور یہ فرق بھی ہے کہ عید الفطر کی نماز عذر کی وجہ سے دوسرے دن پڑھی جاسکتی ہے اور تیسرے دن نہیں پڑھی جاسکتی ہے مگر عیدالاضحی کی عذر کی وجہ سے بارھویں تک یعنی تیسرے دن بھی بلا کراہت پڑھی جاسکتی ہے۔
(الدرالمختار، کتاب الصلاۃ ، باب العیدین، ج۳،ص۶۰۔۶۸)
مسئلہ:۔نویں ذوالحجہ کی فجر سے تیرھویں کی عصر تک پانچوں وقت کی ہر نماز کے بعد جو جماعت مستحبہ کے ساتھ ادا کی گئی ہو ایک بار بلند آواز سے تکبیر کہنا واجب اور تین بار کہنا افضل ہے اس کو تکبیر تشریق کہتے ہیں اور وہ یہ ہے
اَللہُ اَکْبَرْ اَللہُ اَکْبَرْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکْبَرْ اَللہُ اَکْبَرْ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ ۔
(الدرالمختار، کتاب الصلاۃ ، باب العیدین، ج۳،ص۷۱۔۷۴)
مسئلہ:۔قربانی کرنی ہو تو مستحب یہ ہے کہ پہلی ذوالحجہ سے دسویں ذوالحجہ تک بال یا ناخن نہ کٹائے۔
(الدرالمختار، کتاب الصلاۃ ، باب العیدین، ج۳،ص۷۱۔۷۵)
(ردالمحتار، کتاب الاضحیۃ ، ج۹،ص۵۱۹،۵۲۲،۵۲۳)
مسئلہ:۔مالک نصاب وہ شخص ہے جو ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ
سونایا ان میں سے کسی ایک کی قیمت کے سامان تجارت یا کسی سامان یا روپیوں نوٹوں پیسوں کا مالک ہو اور مملوکہ چیزیں حاجت اصلیہ سے زائد ہوں۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الاضحیۃ، الباب الاول فی تفسیر ھا ورکنھا،ج۵،ص۲۹۲)
مسئلہ:۔مالک نصاب پر ہر سال اپنی طرف سے قربانی کرنا واجب ہے ۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الاضحیۃ،الباب الاول،ج۵،ص۲۹۲)
"اگر دوسرے کی طرف سے بھی کرنا چاہتا ہے تو اس کے لئے دوسری قربانی کا انتظام کرے۔
مسئلہ:۔قربانی کا جانور موٹا تازہ اچھا اور بے عیب ہونا ضروری ہے اگر تھوڑا سا عیب ہوتو قربانی مکروہ ہوگی اور اگر زیادہ عیب ہے تو قربانی ہوگی ہی نہیں۔"
(ردالمحتار، کتاب الاضحیۃ، ج۹،ص۵۳۶)
مسئلہ:۔اندھا' لنگڑا' کانا' بیحد دبلا' تہائی سے زیادہ کان'دم' سینگ' تھن وغیرہ کٹا ہوا' پیدائشی بے کا ن کا' بیمار' ان سب جانوروں کی قربانی جائز نہیں۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الاضحیۃ،الباب الخامس،ج۵،ص۲۹۷۔۲۹۸)
قربانی کا یہ طریقہ ہے کہ جانور کو بائیں پہلو پر اس طرح لٹائیں کہ اس کا منہ قبلہ کی طرف ہو پھر یہ دعا پڑھیں۔
اِنِّیۡ وَجَّہۡتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیۡ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرْضَ حَنِیۡفًا وَّمَاۤ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیۡنَ ﴿ۚ۷۹﴾ اِنَّ صَلَاتِیۡ وَنُسُکِیۡ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۶۲﴾ۙلَا شَرِیۡکَ لَہٗ ۚ وَ بِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیۡنَ ﴿۱۶۳﴾
اور جانور کے پہلو پر اپنا داہنا پاؤں رکھ کر
اَللّٰھُمَّ لَکَ وَمِنْکَ بِسْمِ اللہِ اَﷲُاَکْبَرُ
پڑھ کر تیز چھری سے جلد ذبح کردیں اور ذبح کے بعد پھر یہ دعا پڑھیں
اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّیْ کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ خَلِیْلِکَ اِبْرَاھِیْمَ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ وحَبِیْبِکَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
اگر دوسرے کی طرف سے قربانی کرے تو مِنِّیْ کے بجائے مِنْ کہہ کراس کانام لے۔
(بہار شریعت،ج۳،ح۱۵،ص۱۵)
مسئلہ:۔قربانی کے گوشت کے تین حصے کرے ایک حصہ صدقہ کر دے ایک حصہ احباب میں تقسیم کردے اور ایک حصہ اپنے خرچ کے لیے رکھ لے۔
(ردالمحتار،کتاب الاضحیۃ،ج۹،ص۵۴۲)
مسئلہ:۔قربانی کا گوشت کافر کو ہر گز نہ دے کہ یہاں کے کفار حربی ہیں۔
(بہار شریعت،ج۳،ح۱۵،ص۱۴۴)
مسئلہ:۔چمڑا' جھول' رسی وغیرہ سب کو صدقہ کر دے چمڑے کو خود اپنے کام میں بھی لا سکتا ہے مثلاً ڈول مصلیٰ جا نماز بچھونا بنا سکتا ہے۔
(درمختار،کتاب الاضحیۃ، ج۹،ص۵۴۳)
مسئلہ:۔آج کل لوگ عموماً قربانی کی کھال دینی مدارس میں دیا کرتے ہیں یہ جائز ہے اگر مدرسہ میں دینے کی نیت سے کھال بیچ کر قیمت مدرسہ میں دے دیں تو یہ بھی جائز ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الاضحیۃ،الباب السادس،ج۵،ص۳۰۱)
بچہ پیدا ہونے کے شکریہ میں جو جانور ذبح کیا جاتا ہے اسے ''عقیقہ'' کہتے ہیں۔
(بہار شریعت،ج۳،ح۱۵،ص۱۵۳)
مسئلہ:۔جن جانوروں کو قربانی میں ذبح کیا جاتا ہے انہی جانوروں کو عقیقہ میں بھی ذبح کر سکتے ہیں۔
(بہار شریعت،ج۳،ح۱۵،ص۱۵۵)
مسئلہ:۔لڑکے کے عقیقہ میں دو بکرے اور لڑکی کے عقیقہ میں ایک بکرا ذبح کرنا بہتر ہے اگر گائے بھینس عقیقہ میں ذبح کرے تو دو حصہ لڑکے کی طرف سے اور ایک حصہ لڑکی کی طرف سے ذبح کرنے کی نیت کرے اور اگر چاہے تو پوری گائے یا بھینس لڑکے یا لڑکی کے عقیقہ میں ذبح کر دے۔
(بہار شریعت،ج۳،ح۱۵،ص۱۵۴)
مسئلہ:۔گائے بھینس میں قربانی کے وقت کچھ حصہ قربانی کی نیت سے اور کچھ حصہ عقیقہ کی نیت سے رکھ کر ذبح کرے تو ایک ہی جانور میں قربانی اور عقیقہ دونوں ہو جائیں گے اور ایسا کرنا جائز ہے۔
(بہار شریعت،ج۳،ح۱۵،ص۱۵۵)
مسئلہ:۔عقیقہ کے لئے بچے کی پیدائش کا ساتواں دن بہتر ہے اور ساتویں دن نہ کر سکیں تو جب چاہیں کریں سنت ادا ہو جائے گی۔
(الفتاوی الرضویۃ،ج۲۰،ص۵۸۶)
مسئلہ:۔عقیقہ کا گوشت بچے کے ماں باپ' دادا دادی' نانا نانی وغیرہ سب کھا سکتے ہیں اور جاہلوں میں جو یہ مشہور ہے کہ عقیقہ کا گوشت یہ لوگ نہیں کھا سکتے یہ بات بالکل غلط ہے۔
(الفتاوی الرضویۃ،ج۲۰،ص۵۹۰)
مسئلہ:۔عقیقہ کے جانور کو ذبح کرتے وقت لڑکا ہو تو یہ دعا پڑھیں۔
اَللّٰھُمَّ ھٰذِہٖ عَقِیْقَۃُ فُلَانِ بْنِ فُلانٍ دَمُھَابِدَمِہٖ وَلَحْمُھَا بِلَحْمِہٖ وَعَظْمُھَا بِعَظْمِہٖ وَجِلْدُھَا بِجِلْدِہٖ وَشَعْرُھَا بِشَعْرِہٖ ۔ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْھَا فِدَآءً لَّہٗ مِنَ النَّا رِ ۔بِسْمِ اللہِ اَللہُ اَکْبَرُ۔
دعا میں فُلانِ بْنِ فُلَانٍ کی جگہ بچے اور اس کے باپ کا نام لے اور اگر لڑکی ہو تو یہ دعا اس طرح پڑھے
اَللّٰھُمَّ ھٰذِہٖ عَقِیْقَۃُ فُلَانَۃِ بِنْتِ فُلَانٍ دَمُھَابِدَمِھَا وَلَحْمُھَا بِلَحْمِھَا وَ عَظْمُھَا بِعَظْمِھَا وَجِلْدُھَا بِجِلْدِھَا وَ شَعْرُھَا بِشَعْرِھَا اَللّٰھُمَّ اجْعَلْھَا فِدَاءً لَھَا مِنَ النَّارِؕ
دعا میں فُلَا نۃ بِنْتِ فُلَانٍ کی جگہ لڑکی اور اس کے باپ کا نام لے اور اگر دعا یاد نہ ہو تو بغیر دعا پڑھے دل میں یہ خیال کر کے فلاں لڑکے یا فلانی لڑکی کا عقیقہ ہے بِسْمِ اﷲِ اَللہُ اَکْبَرْ پڑھ کر ذبح کر دے عقیقہ ہو جائے گا عقیقہ کے لئے دعا کا پڑھنا ضروری نہیں۔
(الفتاوی الرضویۃ(الجدیدۃ)،ج۲۰،ص۵۸۵)
سورج گہن کی نماز سنت مؤکدہ اور چاند گہن کی نماز مستحب ہے سورج گہن کی نماز جماعت سے مستحب ہے اور تنہا تنہا بھی ہو سکتی ہے اگر جماعت سے پڑھی جائے تو خطبہ کے سوا جمعہ کی تمام شرطیں اس کے لئے شرط ہیں وہی شخص اس کی جماعت قائم کر سکتا ہے جو جمعہ کی جماعت قائم کر سکتا ہو اگر وہ نہ ہو تو لوگ تنہا تنہا پڑھیں چاہے گھر میں پڑھیں یا مسجد میں۔
(ردالمحتار،کتاب الصلوۃ،باب الکسوف،ج۳،ص۷۷۔۷۸)
مسئلہ:۔گہن کی نماز نفل کی طرح دو رکعت لمبی لمبی سورتوں کے ساتھ پڑھیں پھر اس وقت تک دعا مانگتے رہیں کہ گہن ختم ہو جائے۔
(الدرالمختار،کتاب الصلوۃ،باب الکسوف،ج۳،ص۷۸)
مسئلہ:۔گہن کی نماز میں نہ اذان ہے نہ اقامت' نہ بلند آواز سے قرأ ت۔
(الدرالمختار،کتاب الصلوۃ،باب الکسوف،ج۳،ص۷۸)
جب موت کی علامتیں ظاہر ہونے لگیں تو سنت یہ ہے کہ داہنی کروٹ پر لٹا کر قبلہ کی طرف منہ کر دیں اور یہ بھی جائز ہے کہ چت لٹائیں اور قبلہ کو پاؤں کردیں مگراس صورت میں سر کو کچھ اونچا کردیں تاکہ قبلہ کی طرف منہ ہو جائے اور اگر قبلہ کو منہ کرنے میں اس کو
تکلیف ہوتی ہو تو جس حالت پر ہے چھوڑ دیں۔
(الدرالمختارمع الردالمحتار،کتاب الصلوۃ،باب صلوٰۃ الجنازۃ،ج۳،ص۹۱)
مسئلہ:۔جاں کنی کی حالت میں اسے تلقین کریں یعنی اس کے پاس بلند آواز سے کلمہ شہادت پڑھیں مگر اسے پڑھنے کا حکم نہ دیں اور جب وہ پڑھ لے تو تلقین بند کر دیں ہاں اگر کلمہ پڑھنے کے بعد اس نے کوئی بات کرلی تو پھر تلقین کریں تاکہ اس کا آخری کلام: لَآ اِلٰہَ اِلَّااللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ ہو۔ (صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ وبارک وسلم )
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الصلاۃ،الباب الحادی والعشرون،الفصل الاول،ج۱،ص۱۵۷)
مسئلہ:۔جاں کنی کے وقت حاضرین اپنے لئے اور اس کے لئے دعاء خیر کریں اور سورۂ یسۤ و سورۂ رعد پڑھیں جب روح نکل جائے تو ایک چوڑی پٹی جبڑے کے نیچے سے سر پر لے جا کر گرہ لگا دیں کہ منہ کھلا نہ رہے اور آنکھیں بند کر دی جائیں اور ہاتھ پاؤں سیدھے کر دئے جائیں یہ کام اس کے گھر والوں میں جو زیادہ نرمی کے ساتھ کر سکتا ہو مثلاً باپ یا بیٹاوہ کرلے۔
(الفتاوی الھندیۃ،الباب الحادی والعشرون،الفصل الاول فی المختصر،ج۱،ص۱۵۷)
مسئلہ:۔کفن دفن میں جلدی کریں کہ حدیثوں میں اس کی بہت تاکید آئی ہے۔
(الجوہرۃ النیّرۃ،کتاب الصلوٰۃ،باب الجنائز،ص۱۳۹)
میت کو غسل دینا فرض کفایہ ہے بعض لوگوں نے نہلا دیا تو سب اس ذمہ داری سے بری ہوگئے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ،الباب الحادی والعشرون فی الجنائز،الفصل الثانی فی الغسل،ج۱،ص۱۵۸)
مسئلہ:۔نہلانے کا طریقہ یہ ہے کہ جس تخت پر نہلانے کا ارادہ ہو اس کو تین یا پانچ یا سات مرتبہ دھونی دیں پھر اس پر میت کو لٹا کر ناف سے گھٹنوں تک کسی پاک کپڑے سے چھپادیں پھر نہلانے والا اپنے ہاتھ میں کپڑا لپیٹ کر پہلے استنجا کرائے پھر نماز جیسا وضو کرائے مگر میت کے وضو میں پہلے گٹوں تک ہاتھ دھونا اور کلی کرنا اور ناک میں پانی چڑھانا نہیں ہے ہا ں کوئی کپڑا بھگو کر دانتوں اور مسوڑھوں اور نتھنوں پر پھرا دیں پھر سر اور داڑھی کے بال ہوں تو گل خیر و یا پاک صابون سے دھوئیں ورنہ خالی پانی بھی کافی ہے پھر بائیں کروٹ پر لٹا کر سر سے پاؤں تک بیری کے پتوں کا جوش دیا ہوا پانی بہائیں کہ تخت تک پانی پہنچ جائے پھر دا ہنی کروٹ پر لٹا کر اسی طرح پانی بہائیں اگر بیری کے پتوں کا ابالا ہوا پانی نہ ہو تو سادہ نیم گرم پانی کافی ہے پھر ٹیک لگا کر بٹھائیں اور نرمی سے پیٹ سہلائیں اگر کچھ نکلے تو دھو ڈالیں اور غسل کو دہرانے کی ضرورت نہیں پھر آخر میں سر سے پاؤں تک کافور کا پانی بہائیں پھر اس کے بدن کوکسی پاک کپڑے سے آہستہ آہستہ پونچھ کر سکھائیں۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ،الباب الحادی والعشرون فی الجنائز، الفصل الثانی فی الغسل،ج۱،ص۱۵۸)
مسئلہ:۔مرد کو مرد نہلائے اور عورت کو عورت اور چھوٹا لڑکا ہو تو اسے عورت بھی نہلا سکتی ہے اور چھوٹی لڑکی ہو تو مرد بھی اس کو غسل دے سکتا ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ،الباب الحادی والعشرون فی الجنائز، الفصل الثانی فی الغسل،ج۱،ص۱۶۰)
مسئلہ:۔عورت مر جائے تو شوہر نہ اسے نہلا سکتا ہے نہ چھو سکتا ہے ہاں دیکھنے کی ممانعت نہیں۔
(ردالمحتار،کتاب الصلاۃ،مطلب القرأۃ عذر المیت ،ج۳،ص۱۰۵)
عوام میں جو یہ مشہور ہے کہ شوہر عورت کے جنازے کو نہ کندھا دے سکتا ہے نہ قبر
"میں اتار سکتا ہے نہ منہ دیکھ سکتا ہے یہ بالکل غلط ہے صرف نہلانے اور اس کے بدن کو بلا کپڑا حائل ہونے کے ہاتھ لگانے کی ممانعت ہے۔
مسئلہ:۔ایسی جگہ انتقال ہوا کہ وہاں نہلانے کے لئے پانی نہیں ملتا تو میت کو تیمم کرائیں اور نماز جنازہ پڑھ کر دفن کر دیں ہاں اگر دفن سے پہلے پانی مل جائے تو غسل دے کر دوبارہ نماز جنازہ پڑھیں۔"
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ،الباب الحادی والعشرون فی الجنائز، الفصل الثانی فی الغسل،ج۱،ص۱۶۰)
"میت کو کفن دینا فرض کفایہ ہے کفن کے تین درجے ہیں:۔
(۱)کفن ضرورت (۲)کفن کفایت (۳)کفن سنت۔ مرد کے لئے کفن سنت تین کپڑے ہیں چادر تہبند کرتا مگر تہبند سر سے پاؤں تک لمبا ہونا چاہے اور عورت کے لئے کفن سنت پانچ کپڑے ہیں چادر' تہبند ' کرتا' اوڑھنی' سینہ بند اور کفن کفایت مرد کے لئے دو کپڑے ہیں چادر' تہبند اور عورت کے لئے تین کپڑے چادر' تہبند' اوڑھنی یا چادر' کرتا' اوڑھنی اور کفن ضرورت عورت مرد دونوں کے لئے یہ ہے کہ جو میسر آجائے اور کم سے کم اتنا تو ہو کہ سارا بدن ڈھک جائے۔"
(الدرالمختار،کتاب الصلوۃ،باب صلوۃ الجنازہ،ج۳،ص۱۱۳۔۱۱۶)
کفن پہنانے کا طریقہ یہ ہے کہ کفن کو تین بار یا پانچ بار یا سات بار دھونی دے کر پہلے چادر کو بچھائیں پھر اس کے اوپر تہبند پھر کرتا پھر میت کو اس پر لٹائیں اور کرتا پہنائیں اور داڑھی اور تمام بدن پر خوشبو لگائیں اور سجدہ کی جگہوں یعنی ماتھے' ناک' دونوں ہاتھ' گھٹنوں'قدموں پر کافور لگائیں پھر تہبند لپیٹیں پہلے بائیں طرف سے پھر دا ہنی طرف سے پھر چادر لپیٹیں پہلے بائیں طرف سے پھر داہنی طرف سے پھر سر اور پاؤں کی طرف باندھ
دیں تاکہ اڑنے اور بکھرنے کا اندیشہ نہ ہو عورت کو کفنی یعنی کرتا پہنا کے اس کے بال کے دو حصے کر کے کفنی کے اوپر سینہ پر ڈال دیں اور اوڑھنی آدھی پیٹھ کے نیچے سے بچھا کر سر پر لا کر منہ پر مثل نقاب کے ڈال دیں کہ اس کی لمبائی آدھی پیٹھ سے سینہ تک رہے اور چوڑائی ایک کان کی لو سے دوسرے کان کی لو تک رہے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ،الباب الحادی والعشرون فی الجنائز، الفصل الثالث فی التکفین،ج۱،ص۱۶۱)
سنت یہ ہے کہ چار آدمی جنازہ اٹھائیں اور سنت یہ ہے کہ یکے بعد دیگرے چاروں پایوں کو کندھا دے اور ہر بار دس دس قدم چلے اور پوری سنت یہ ہے کہ پہلے داہنے سرہانے کندھا دے پھر دا ہنی پائنتی پھر بائیں سر ہانے پھر بائیں پائنتی اور دس دس قدم چلے تو کل چالیس قدم ہوئے حدیث شریف میں ہے کہ جو چالیس قدم جنازہ لے چلے اس کے چالیس گناہ کبیرہ مٹا دیے جائیں گے اسی طرح ایک حدیث میں ہے کہ جو جنازہ کے چاروں پایوں کو کندھا دے اﷲتعالیٰ ضرور اس کی مغفرت فرمادے گا۔
(الدرالمختار،کتاب الصلوۃ،باب فی صلوٰۃ الجنازۃ،ج۳،ص۱۵۸،۱۵۹)
مسئلہ:۔جنازہ لے چلنے میں سرہانا آگے ہونا چاہے اور عورتوں کو جنازہ کے ساتھ جانا ممنوع و ناجائز ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ،الباب الحادی والعشرون فی الجنائز، الفصل الرابع فی حمل الجنازۃ، ج۱،ص۱۶۲)
"مسئلہ:۔میت اگر پڑوسی یا رشتہ دار یا نیک آدمی ہو تو اس کے جنازہ کے ساتھ جانا نفل نماز پڑھنے سے افضل ہے۔
مسئلہ:۔جنازہ کے ساتھ پیدل چلنا افضل ہے اور ساتھ چلنے والوں کو جنازہ کیمسئلہ:۔میت اگر پڑوسی یا رشتہ دار یا نیک آدمی ہو تو اس کے جنازہ کے ساتھ جانا نفل نماز پڑھنے سے افضل ہے۔
مسئلہ:۔جنازہ کے ساتھ پیدل چلنا افضل ہے اور ساتھ چلنے والوں کو جنازہ کے پیچھے چلنا چاہے داہنے بائیں نہ چلیں اور جنازہ کے آگے چلنا مکروہ ہے۔
پیچھے چلنا چاہے داہنے بائیں نہ چلیں اور جنازہ کے آگے چلنا مکروہ ہے۔"
(الفتاوی الھندیۃ،الباب الحادی والعشرون فی الجنائز، الفصل الرابع فی حمل الجنازۃ، ج۱،ص۱۶۲)
مسئلہ:۔جنازہ کو تیزی کے ساتھ لے کر چلیں مگر اس طرح کہ میت کو جھٹکا نہ لگے۔
(الفتاوی الھندیۃ،الباب الحادی والعشرون فی الجنائز، الفصل الرابع فی حمل الجنازۃ، ج۱،ص۱۶۲)
مسئلہ:۔ہر مسلمان کی نماز جنازہ پڑھی جائے اگر چہ وہ کیسا ہی گنہ گار ہو مگر چند قسم کے لوگ ہیں کہ ان کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی مثلاً :۔(۱)باغی جو امام برحق پر خروج کرے اور اسی بغاوت میں مارا جائے (۲)ڈاکو جو ڈاکہ زنی میں مارا گیا (۳)ماں باپ کا قاتل(۴)جس نے کئی شخصوں کا گلا گھونٹ کر مار دیا ہو۔
(الدرالمختار مع الردالمحتار،کتاب الصلوٰۃ،باب صلوٰۃ الجنازۃ،ج۳،ص۱۲۵۔۱۲۸)
مسئلہ:۔جس نے خود کشی کی حالانکہ یہ بہت بڑا گناہ ہے مگر اس کے جنازہ کی نماز پڑھی جائے گی اسی طرح جو زنا کاری کی سزا میں سنگسار کیا گیا یا خون کے قصاص میں پھانسی دیا گیا اسے غسل دیں گے اور جنازہ کی نماز پڑھیں گے۔
(الدرالمختار،کتاب الصلوٰۃ،با ب صلوٰۃ الجنازۃ،ج۳،ص۱۲۷ / والفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلوٰۃ،الباب الحادی والعشرون ، الفصل الخامس، ج۱،ص۱۶۳)
مسئلہ:۔جو بچہ مردہ پیدا ہوا اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی۔
(الفتاوی الھندیۃ، ،الباب الحادی والعشرون فی الجنائز، الفصل الخامس فی الصلوٰۃ علی المیت، ج۱،ص۱۶۳)
نماز جنازہ فرض کفایہ ہے یعنی اگر کچھ لوگوں نے نماز جنازہ پڑھ لی تو سب بری الذمہ ہوگئے اورا گر کسی نے بھی نہیں پڑھی تو سب گنہگار ہوئے جو نماز جنازہ کے فرض ہونے کا انکار کرے وہ کافر ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ، ،الباب الحادی والعشرون فی الجنائز، الفصل الخامس فی الصلوٰۃ علی المیت، ج۱،ص۱۶۲)
مسئلہ:۔نماز جنازہ کے لئے جماعت شرط نہیں ایک شخص بھی پڑھ لے تو فرض ادا ہوگیا۔
(الفتاوی الھندیۃ، ،الباب الحادی والعشرون فی الجنائز، الفصل الخامس فی الصلوٰۃ علی المیت، ج۱،ص۱۶۲)
مسئلہ:۔نماز جنازہ اس طرح پڑھیں کہ پہلے یوں نیت کرے نیت کی میں نے نماز جنازہ کی چار تکبیروں کے ساتھ' اﷲتعالیٰ کے لئے اور دعا اس میت کے لئے' منہ میرا کعبہ شریف کی طرف' (مقتدی اتنا اور کہے) پیچھے اس امام کے۔ پھر کانوں تک دونوں ہاتھ اٹھا کر اﷲاکبر کہتے ہوئے دونوں ہاتھوں کو ناف کے نیچے باندھ لے پھر یہ ثنا پڑھے۔
سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِ کَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالٰی جَدُّکَ وَجَلَّ ثَنَاءُ کَ وَ لَآ اِلٰہَ غَیْرُکَ
پھر بغیر ہاتھ اٹھائے اﷲاکبر کہے اور درود ابراہیمی پڑھے جو پنج وقتہ نمازوں میں پڑھے جاتے ہیں پھر بغیر ہاتھ اٹھائے اﷲ اکبر کہے اور بالغ کا جنازہ ہو تو یہ دعا پڑھے
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِحَیِّنَا وَ مَیِّتِنَا وَشَاھِدِنَا وَغَائِبِنَا وَصَغِیْرِ نَاوَکَبِیْرِنَا وَذَکَرِنَا وَ اُنْثَانَا اَللّٰھُمَّ مَنْ اَحْیَیْتَہٗ مِنَّا فَاَحْیِہٖ عَلَی الْاِسْلَامِ وَمَنْ تَوَفَّیْتَہٗ مِنَّا فَتَوَفَّہٗ عَلَی الْاِیْمَانِ۔
اس کے بعدچوتھی تکبیر کہے پھر بغیر کوئی دعا پڑھے ہاتھ چھوڑ کر سلام پھیر دے اور اگر نابالغ لڑکے کا جنازہ ہو تو تیسری تکبیر کے بعد یہ دعا پڑھے
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہُ لَنَافَرَطًا وَّاجْعَلْہُ لَنَا اَجْرًا وَّ ذُخْرً ا وَّ اجْعَلْہُ لَنَا شَا فِعًا وَّ مُشَفَّعاً
اور اگر نابالغ لڑکی کا جنازہ ہو تو یہ دعا پڑھے
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْھَا لَنَا فَرَطًا وَّ اجْعَلْھَا لَنَا اَجْرًا وَّ ذُخْرًا وَّ اجْعَلْھَا لَنَاشَافِعَۃً وَّ مُشَفَّعَۃً۔
(الدرالمختار،کتاب الصلٰوۃ،باب صلٰوۃ الجنازۃ،ج۳،ص۱۲۸۔۱۳۴)
مسئلہ:۔میت کو ایسے قبرستان میں دفن کرنا بہتر ہے جہاں نیک لوگوں کی قبریں ہوں۔
(الفتاوی الھندیۃ، ،الباب الحادی والعشرون فی الجنائز، الفصل السادس فی القبر والدفن
والنقل من مکان الی آخر، ج۱،ص۱۶۶)
مسئلہ:۔مستحب یہ ہے کہ دفن کے بعد قبر کے پاس سوره بقرہ کا اول و آخر پڑھیں سرہانے الۤمۤ سے مُفْلِحُوْنَ تک اور پائنتی آمَنَ الرَّسُوْلُ سے ختم سورت تک پڑھیں۔
(ردالمحتار،کتاب الصلٰوۃ،مطلب فی زیارۃ القبور،ج۳،ص۱۷۹)
مسئلہ:۔دفن کے بعد مردہ کو تلقین کرنا اہل سنت کے نزدیک جائز ہے۔
(الجوہرۃ النیرۃ، کتاب الصلاۃ،باب الجنائز،ص۱۳۰)
یہ جو بعض کتابوں میں ہے کہ تلقین نہ کی جائے یہ معتزلہ کا مذہب ہے انہوں نے ہماری کتابوں میں یہ اضافہ کر دیا ہے (شامی) حدیث میں ہے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم فرماتے ہیں جب تمہارا کوئی مسلمان بھائی مرے اور اس کی مٹی دے چکو تو تم میں سے ایک شخص قبر کے سرہانے کھڑا ہو کر میت اور اس کی ماں کا نام لے کر یوں کہے یا فلان بن فلانہ وہ سنے گا اور جواب نہ دے گا پھر کہے یا فلان بن فلانہ وہ سیدھا ہوکر بیٹھ جائے گا پھر کہے یا فلان بن فلانہ وہ کہے گا ہمیں ارشاد کر اﷲتعالیٰ تجھ پر رحم فرمائے مگر تمہیں اس کے کہنے کی خبر نہیں ہوتی پھر کہے۔
اُذْکُرْمَا خَرَجْتَ مِنَ الدُّنْیَا شَھَادَۃَ اَنْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ (صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم) وَاَنَّکَ رَضِیْتَ بِاللہِ رَبّاً وَّبِا لْاِسْلَامِ دِیْناً وَّ بِمُحَمَّدٍ (صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم) نَبِیّاً وَّ بِالْقُرْآنِ اِمَاماً ؕ
نکیرین ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر کہیں گے چلو ہم اس کے پاس کیا بیٹھیں جسے لوگ اس کی حجت سکھا چکے اس پر کسی نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم سے عرض کی کہ اگر اس کی ماں کا نام معلوم نہ ہو فرمایا حوا کی طرف نسبت کرے۔
(ردالمحتار،کتاب الصلٰوۃ،مطلب فی التلقین بعد الموت،ج۳،ص۹۴/ والمعجم الکبیر،
رقم۷۹۷۹،ج۸،ص۲۴۹)
مسئلہ:۔قبر پر پھول ڈالنا بہتر ہے کہ جب تک تر رہیں گے تسبیح کریں گے اور میت کا دل بہلے گا۔
(الفتاوی القاضی خان،کتاب الصلٰوۃ، باب بیان ان النقل من بلد الی بلد مکروہ،ج اولین،ص۹۴)
مسئلہ:۔قبر پر سے تر گھاس نوچنا نہ چاہے کہ اس کی تسبیح سے رحمت اترتی ہے اور میت کو انس ہوتا ہے اور نوچنے میں میت کا حق ضائع کرنا ہے۔
(الفتاوی القاضی خان،کتاب الصلٰوۃ، باب بیان ان النقل من بلد الی بلد مکروہ،ج اولین،ص۹۴)
مسئلہ:۔قبر پر سونا چلنا بیٹھنا حرام ہے قبرستان میں جو نیا راستہ نکالا گیا ہے اس سے گزرنا ناجائز ہے خواہ نیا ہونا اسے معلوم ہو یا اس کا گمان ہو۔
(الفتاوی الھندیۃ،الباب الحادی والعشرون،الفصل السادس فی القبر ۔۔۔الخ،ج۱، ص۱۶۶/ وردالمحتار مع الدرمختار، کتاب الصلٰوۃ،مطلب فی اھذا ء ثواب القرأۃ ،ج۳،ص۱۸۳)
مسئلہ:۔میت کو دفن کرنے کے بعد سوئم' دسواں' چہلم کرنا یعنی نماز و روزہ اور تلاوت و کلمہ اور صدقہ و خیرات اور لوگوں کو کھانا کھلانے کا ثواب میت کی روح کو پہنچانا جائز ہے جتنے لوگوں کی روحوں کو ثواب پہنچائے گا سب کی روحوں کو ثواب پہنچے گا اور اس پہنچانے والے کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی اﷲتعالیٰ کی رحمت سے یہ امید ہے کہ اس کو پورا پورا ثواب ملے گا یہ نہیں کہ تقسیم ہو کر ٹکڑا ٹکڑا ملے گا بلکہ یہ امید ہے کہ اس ثواب پہنچانے والے کو ان سب کے مجموعہ کے برابر ثواب ملے گا۔
(بہار شریعت،ج۱،ح۴،ص۱۶۶)
زیارت قبور:۔قبروں کی زیارت کے لئے جانا سنت ہے ہفتہ میں ایک دن زیارت کرے اور اس کے لئے سب سے افضل جمعہ کا دن صبح کا وقت ہے اولیاء کے مزارات پر
دور دراز سے سفر کر کے جانا یقیناً جائز ہے اولیاء اپنے زیارت کرنے والوں کو اپنے رب کی دی ہوئی طاقتوں سے نفع پہنچاتے ہیں اور اگر مزاروں پر کوئی خلاف شرع بات ہو جیسے عورتوں کا سامنا یا گانا بجانا وغیرہ تو اس کی وجہ سے زیارت نہ چھوڑی جائے کہ ایسی باتوں سے نیک کام چھوڑا نہیں جاتا بلکہ خلاف شرع باتوں کو برا جانے اور ہوسکے تو بری باتوں سے لوگوں کو منع کرے اور بری باتوں کو اپنی طاقت بھر روکے۔
(ردالمحتار،کتاب الصلٰوۃ،مطلب فی زیارۃ القبور،ج۳،ص۱۷۷)
مسئلہ:۔قبروں کی زیارت کا یہ طریقہ ہے کہ قبر کی پائنتی کی طرف سے جاکر قبلہ کو پشت کر کے میت کے منہ کے سامنے کھڑا ہو اور یہ کہے کہ
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ اَھْلَ دَارِ قَوْمٍ مُّؤمِنِیْنَ اَنْتُمْ لَنَا سَلَفٌ وَّاِنَّا اِنْ شَآءَ اللہُ بِکُمْ لَاحِقُوْنَ ؕ
پھر فاتحہ پڑھے اور بیٹھنا چاہے تو اتنے فاصلہ پر بیٹھے کہ جتنی دور زندگی میں اس کے پاس بیٹھتا تھا۔
(الدرالمختارمع الردالمحتار ،کتاب الصلٰوۃ،باب صلٰوۃ الجنازۃ،ج۳،ص۱۷۹)
"مسئلہ:۔حدیث میں ہے کہ جو گیارہ مرتبہ قُلْ ھُوَاﷲُ اَحَدٌ شریف پڑھ کر اس کا ثواب مردوں کی روح کو پہنچائے تو مردوں کی گنتی کے برابر اس کو ثواب ملے گا۔
مسئلہ:۔وہابی لوگ قبروں کی توہین کرتے ہیں قبروں کی زیارت اور فاتحہ سے منع کرتے ہیں ان لوگوں کی صحبت سے دور رہنا چاہے اور ہرگز ان لوگوں سے نہ میل جول رکھنا چاہے نہ ان کی باتوں کو ماننا چاہے یہ لوگ اہل سنت وجماعت کے خلاف ہیں۔
مسئلہ:۔علماء اور اولیاء کی قبروں پر قبہ بنانا جائز ہے مگر قبر کو پختہ نہ کیا جائے ۔"
(ردالمحتار،کتاب الصلٰوۃ،مطلب فی دفن المیت ،ج۳،ص۱۶۹۔۱۷۰)
یعنی اندر سے پختہ نہ بنائی جائے اور اگر اندر قبر کچی ہو اور اوپر سے پختہ بنائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
(بہار شریعت،ج۱،ح۴،ص۱۶۲)
مسئلہ:۔اگر ضرورت ہو تو قبر پر نشان کے لئے کچھ لکھ سکتے ہیں مگر ایسی جگہ نہ لکھیں کہ بے ادبی ہو۔
(الدرالمختارمع ردالمحتار،کتاب الصلٰوۃ،مطلب فی دفن المیت،ج۳،ص۱۷۰)
مسئلہ:۔قبر پر بیٹھنا سونا چلنا پھر نا پیشاب پاخانہ کرنا قبر پر تھوکنا حرام ہے کہ اس سے قبر والے کو تکلیف پہنچے گی اسی طرح قبرستان میں جو تا پہن کر نہ چلے۔ ایک آدمی کو رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے جوتیاں پہن کر قبرستان میں چلتے دیکھا تو فرمایا کہ اے شخص جوتیاں اتار لے نہ تو قبر والے کو تکلیف دے اور نہ قبر والا تجھ کو تکلیف دے۔
(الدرالمختارمع ردالمحتار،کتاب الصلٰوۃ،مطلب فی اھداء ثواب القرأۃ للنبی صلی اللہ علیہ وسلم ،ج۳،ص۱۸۳)
"مسئلہ:۔بزرگان دین کی قبروں پر صفائی ستھرائی کرتے رہنا' وہاں اگربتی جلا کر عطر لگا کر خوشبو کرنا' مزاروں پر پھول پتیاں ڈالنا' عوام کی نظروں میں صاحب مزار کی عزت و عظمت پیدا کرنے کے لئے مزاروں پر غلاف و چادر چڑھانا' مزاروں کے آس پاس روشنی کرنا تاکہ راستہ چلنے والوں کو روشنی ملے اور لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ یہ کسی بزرگ کا مزار ہے تاکہ یہ لوگ وہاں آکر فاتحہ پڑھیں یہ سب کام جائز ہیں اور اچھی نیت سے کریں تو مستحب بھی۔
مسئلہ:۔جہاز پر کسی کا انتقال ہوا اور کنارہ بہت دور ہے تو چاہے کہ میت کو غسل دے کر اور کفن پہنا کر پورے اعزاز کے ساتھ سمندر میں ڈال دیں۔"
(الفتاوی القاضی خان،کتاب الصلوۃ،باب فی غسل المیت وما یتعلق۔۔۔إلخ،ج۱،ص۹۴)
زکوٰۃ فرض ہے اس کا انکار کرنے والا کافر اور نہ دینے والا فاسق و جہنمی اور ادا کرنے میں دیر کرنے والا گنہگار و مردود الشہادۃ ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الزکاۃ، البا ب الاول فی تفسیرھا وصفتھا وشرائطھا،ج۱،ص۱۷۰)
"نماز کی طرح اس کے بارے میں بھی بہت سی آیتیں و حدیثیں آئی ہیں جن میں زکوٰۃ ادا کرنے کی سخت تاکید ہے اور نہ ادا کرنے والے پر طرح طرح کے دنیا اور آخرت کے عذابوں کی و عیدیں آئی ہیں۔
مسئلہ:۔اﷲ کے لئے مال کا ایک حصہ جو شریعت نے مقرر کیا ہے کسی فقیر کو مالک بنا دینا شریعت میں اس کو زکوٰۃ کہتے ہیں۔"
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الزکاۃ، البا ب الاول فی تفسیرھا وصفتھا وشرائطھا،ج۱،ص۱۷۰)
"مسئلہ:۔زکوٰۃ فرض ہونے کے لئے چند شرطیں ہیں :۔
(۱)مسلمان ہونا یعنی کافر پر زکوٰۃ فرض نہیں(۲)بالغ ہونا یعنی نابالغ پر زکوٰۃ فرض نہیں (۳)عاقل ہونا یعنی دیوانے پر زکوٰۃ فرض نہیں(۴)آزاد ہونا یعنی لونڈی غلام پر زکوٰۃ فرض نہیں (۵)مالک نصاب ہونا یعنی جس کے پاس نصاب سے کم مال ہو اس پر زکوٰۃ فرض نہیں (۶)پورے طور پر مالک ہو یعنی اس پر قبضہ بھی ہو تب زکوٰۃ فرض ہے ورنہ نہیں مثلاً کسی نے اپنا مال زمین میں دفن کر دیا اور جگہ بھول گیا پھر برسوں کے بعد جگہ یاد آئی اور مال مل گیا تو جب تک مال نہ ملا تھا اس زمانہ کی زکوٰۃ واجب نہیں کیونکہ نصاب کا مالک تو تھا مگر اس پر قبضہ نہیں تھا (۷)نصاب کا قرض سے فارغ ہونا اگر کسی کے پاس ایک ہزار روپیہ ہے مگر وہ ایک ہزار کا قرض دار بھی ہے تو اس کا مال قرض سے فارغ نہیں لہٰذا اس پر زکوٰۃ نہیں۔(۸)نصاب کا حاجتِ اصلیہ سے فارغ ہونا حاجت اصلیہ یعنی آدمی کو زندگی بسر"
کرنے میں جن چیزوں کی ضرورت ہے مثلاً اپنے رہنے کا مکان' جاڑے گرمیوں کے کپڑے' گھریلو سامان یعنی کھانے پینے کے برتن' چارپائیاں' کرسیاں' میزیں' چولہے' پنکھے وغیرہ ان مالوں میں زکوٰۃ نہیں کیونکہ یہ سب مال و ساما ن حاجت اصلیہ سے فارغ نہیں ہے(۹)مال نامی ہونا یعنی بڑھنے والا مال ہوناخواہ حقیقتہ بڑھنے والا مال جیسے مال تجارت اور چرائی پر چھوڑے ہوئے جانور یا حکماً بڑھنے والا مال ہو جیسے سونا چاندی کہ یہ اسی لئے پیدا کئے گئے ہیں کہ ان سے چیزیں خریدی جائیں اور بیچی جائیں تاکہ نفع ہونے سے یہ بڑھتے رہیں لہٰذا سونا چاندی جس حال میں بھی ہو زیور کی شکل میں ہوں یا دفن ہوں ہر حال میں یہ مال نامی ہیں اور ان کی زکوٰۃ نکالنی ضروری ہے(۱۰)مال نصاب پر ایک سال گزر جانا یعنی نصاب پورا ہوتے ہی زکوٰۃ فرض نہیں ہوگی بلکہ ایک سال تک وہ نصاب ملک میں باقی رہے تو سال پورا ہونے کے بعد اس کی زکوٰۃ نکالی جائے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الزکاۃ، البا ب الاول فی تفسیرھا وصفتھا وشرائطھا،ج۱،ص۱۷۱۔۱۷۴)
مسئلہ:۔سونے کا نصاب ساڑھے سات تولہ ہے اور چاندی کا نصاب ساڑھے باون تولہ ہے سونے چاندی میں چالیسواں حصہ زکوٰۃ نکال کر ادا کرنا فرض ہے یہ ضروری نہیں کہ سونے کی زکوٰۃ میں سونا ہی اور چاندی کی زکوٰۃ میں چاندی ہی دی جائے بلکہ یہ بھی جائز ہے کہ بازاری بھاؤ سے سونے چاندی کی قیمت لگا کر روپیہ زکوٰۃ میں دیں۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الزکاۃ، البا ب الثالث،الفصل الاول فی زکاۃ الذھب والفضۃ،ج۱،ص۱۷۸)
زیورات کی زکوٰۃ:۔حدیث شریف میں ہے کہ دو عورتیں حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی خدمت مبارکہ میں حاضر ہوئیں ان کے ہاتھوں میں سونے کے کنگن تھے آپ نے ارشاد فرمایا کہ کیا تم ان زیوروں کی زکوٰۃ ادا کرتی ہو؟ عورتوں نے عرض کیا کہ جی نہیں! تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ کیا تم اسے پسند کرتی ہو کہ اﷲتعالیٰ تمہیں آگ
کے کنگن پہنائے عورتوں نے کہا نہیں تو ارشاد فرمایا کہ تم ان زیوروں کی زکوٰۃ ادا کرو۔
(سنن ترمذی،کتاب الزکاۃ،باب ماجاء فی زکاۃ الحلی،رقم۲۳۷،ج۲،ص۱۳۲)
مسئلہ:۔سونا چاندی جب کہ بقدر نصاب ہوں تو ان کی زکوٰۃ چالیسواں حصہ نکالنی فرض ہے خواہ سونے چاندی کے ٹکڑے ہوں یا سکے یا زیورات یا سونے چاندی کی بنی ہوئی چیزیں مثلاً برتن' گھڑی' سرمہ دانی' سلائی وغیرہ غرض جو کچھ ہو سب کی زکوٰۃ نکالنی فرض ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الزکاۃ، البا ب الثالث،الفصل الاول فی زکاۃ الذھب والفضۃ،ج۱،ص۱۷۸)
مسئلہ:۔جن زیورات کی مالک عورت ہو خواہ وہ مَیکا سے لائی ہو یا اس کے شوہر نے اس کو زیورات دے کر ان کا مالک بنادیا ہو تو ان کی زکوٰۃ ادا کرنا عورت پر فرض ہے اور جب زیورات کا مالک مرد ہو یعنی عورت کو صرف پہننے کے لئے دیا ہے مالک نہیں بنایا ہے تو ان زیورات کی زکوٰۃ مرد کے ذمہ ہے عورت پر نہیں۔
(الفتاوی الرضویۃ،(الجدیدۃ)ج۱۰،ص۱۳۲)
مسئلہ:۔اگر کسی کے پاس سونا چاندی یا ان دونوں کے زیورات ہوں اور سونا چاندی میں سے کوئی بھی بقدر نصاب نہیں تو چاہے کہ سونے کی قیمت کے چاندی یا چاندی کی قیمت کا سونا فرض کرکے دونوں کو ملائیں پھر اگر ملانے پر بھی بقدر نصاب نہ ہو تو زکوٰۃ نہیں اور اگر سونے کی قیمت کی چاندی چاندی میں ملائیں تو بقدر نصاب ہو جاتا ہے اور چاندی کی قیمت کا سونا سونے میں ملائیں تو بقدر نصاب نہیں تو واجب ہے کہ جس صورت میں نصاب پورا ہو جاتا ہے وہ کریں۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الزکاۃ، البا ب الثالث،الفصل الاول فی زکاۃ الذھب والفضۃ،ج۱،ص۱۷۹)
مسئلہ:۔تجارتی مال کی قیمت لگائی جائے پھر اس سے اگر سونے یا چاندی کا نصاب پورا ہو تو اس کے حساب سے زکوٰۃ نکالی جائے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الزکاۃ، البا ب الثالث،الفصل الاول فی زکاۃ الذھب والفضۃ،ج۱،ص۱۷۹)
مسئلہ:۔اگر سونا چاندی نہ ہو نہ مال تجارت ہو بلکہ صرف نوٹ اور روپے پیسے ہوں کہ کم سے کم اتنے روپے پیسے یا نوٹ ہوں کہ بازار میں ان سے ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی خریدی جاسکتی ہے تو وہ شخص صاحب نصاب ہے اس کو نوٹ اور روپے پیسوں کی زکوٰۃ' چالیسواں حصہ نکالنا فرض ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الزکاۃ، البا ب الثالث،الفصل الاول فی زکاۃ الذھب والفضۃ،ج۱،ص۱۷۹)
مسئلہ:۔اگر شروع سال میں پورا نصاب تھا اور آخر سال میں بھی نصاب پورا رہا درمیان میں کچھ دنوں مال گھٹ کر نصاب سے کم رہ گیا تو یہ کمی کچھ اثر نہ کرے گی بلکہ اس کو پورے مال کی زکوٰۃ دینی پڑے گی۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الزکاۃ، البا ب الاول فی تفسیرھاوصفتھاوشرائطھا،ج۱،ص۱۷۵)
زمین سے جو بھی پیداوار ہو گیہوں' جو'چنا' باجرا' دھان وغیرہ ہر قسم کے اناج' گنا' روئی ہر قسم کی ترکاریاں پھول پھل میوے سب میں عشر واجب ہے تھوڑی پیدا ہو یا زیادہ۔
(الفتاوی الخانیۃ(اولین)، کتاب الزکاۃ،فصل فی العشر،ج ۱،ص۱۳۲)
مسئلہ:۔جو پیداوار بارش یا زمین کی نمی سے پیدا ہو اس میں دسواں حصہ واجب ہوتا ہے اور جو پیداوار چر سے ' ڈول' پمپنگ مشین یا ٹیوب ویل وغیرہ کے پانی سے یا خریدے ہوئے پانی سے پیدا ہو اس میں بیسواں حصہ واجب ہے۔
(الدرالمختار،کتاب الزکاۃ،باب العشر،ج۳،ص۳۱۲،۳۱۶)
مسئلہ:۔کھیتی کے اخراجات نکال کر عشر نہیں نکالا جائے گا بلکہ جو کچھ پیداوار ہوئی ہو ان سب کا عشر یا نصف عشر دینا واجب ہے گورنمنٹ کو مال گزاری دی جاتی ہے وہ بھی عشر کی رقم سے مجرا نہیں کی جائے گی پوری پیداوار کا عشر یا نصف عشر خدا کی راہ میں نکالنا پڑے گا۔
(الدرالمختار،کتاب الزکاۃ،باب فی العشر،ج۳،ص۳۱۶۔۳۱۷)
مسئلہ:۔زمین اگر بٹائی پردے کر کھیتی کرائی ہے تو زمین والے اور کھیتی کرنے والے دونوں کو جتنی جتنی پیداوار ملی ہے دونوں کو اپنے اپنے حصہ کی پیداوار کا دسواں یا بیسواں حصہ نکالنا واجب ہے۔
(الفتاوی الخانیۃ(اولین)،کتاب الزکاۃ،فصل فی العشر،ج ۱،ص۱۳۲)
"جن جن لوگوں کو عشر و زکوٰۃ کامال دینا جائز ہے وہ یہ لوگ ہیں:۔
(۱)فقیر یعنی وہ شخص کہ اس کے پاس کچھ مال ہے مگر نصاب کی مقدار سے کم ہے (۲)مسکین یعنی وہ شخص جس کے پاس کھانے کے لئے غلہ اور پہننے کے لئے کپڑا بھی نہ ہو (۳)قرض دار یعنی وہ شخص کہ جس کے ذمہ قرض ہو اور اس کے پاس قرض سے فاضل کوئی مال بقدر نصاب نہ ہو (۴)مسافر جس کے پاس سفر کی حالت میں مال نہ رہا ہو اس کو بقدر ضرورت زکوٰۃ کا مال دینا جائز ہے(۵)عامل یعنی جس کو بادشاہ اسلام نے زکوٰۃ و عشر وصول کرنے کے لئے مقرر کیا ہو(۶)مکاتب غلام تاکہ وہ مال دے کر آزاد ہو جائے(۷)غریب مجاہد تاکہ وہ جہاد کا سامان کرے۔"
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الزکاۃ،الباب السابع فی المصارف،ج۱،ص۱۸۷۔۱۸۸)
"جن لوگوں کو عشر و زکوٰۃ کا مال دینا جائز نہیں ان میں سے چند یہ ہیں:۔
(۱)مالدار یعنی صاحب نصاب جس پر خود زکوٰۃ فرض ہے اس کو زکوٰۃ کا مال جائز نہیں (۲)بنی ہاشم یعنی حضرت علی' حضرت جعفر' حضرت عقیل' حضرت عباس' حارث بن"
عبدالمطلب کی اولاد کو زکوٰۃ کا مال دینا جائز نہیں ۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الزکاۃ،الباب السابع فی المصارف،ج۱،ص۱۸۹)
(۳)اپنی اصل و فروع یعنی ماں باپ' دادا دادی' نانا نانی وغیرہم اور بیٹا' بیٹی' پوتا' پوتی' نواسہ' نواسی کو زکوٰۃ کا مال دینا جائز نہیں (۴)شوہر اپنی عورت کو اور عورت اپنے شوہر کو اپنی زکوٰۃ نہیں دے سکتے یوں ہی صدقہ فطر اور کفارہ بھی ان لوگوں کو نہیں دے سکتا (۵)مالدار کے نابالغ بچے کو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی اور مالدار کی بالغ او لاد جب کہ وہ نصاب کے مالک نہ ہوں ان کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں (۶)کسی کافر و مرتد یا بدمذہب کو زکوٰۃ کامال دینا جائز نہیں۔
(الجوھرۃ النیرۃ، کتاب الزکاۃ، باب من یجوز دفع الصدقۃ۔۔۔الخ،ص۱۶۶۔۱۶۷)
مسئلہ:۔بہو داماد اور سوتیلی ماں یا سوتیلے باپ یا زوجہ کی اولاد جو دوسرے شوہر سے ہوں یا شوہر کی اولا جو دوسری بیوی سے ہوں اور دوسرے رشتہ داروں کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں۔
(ردالمحتار،کتاب الزکوۃ،باب المصرف،ج۳،ص۳۴۴)
مسئلہ:۔مالدار کی بیوی اگر وہ مالک نصاب نہیں ہے تو اس کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الزکاۃ،الباب السابع فی المصارف،ج۱،ص۱۸۹)
مسئلہ:۔تندرست اور طاقت ور آدمی اگر وہ مالک نصاب نہیں ہے تو اس کو زکوٰۃ دینا جائز ہے مگر اس کو سوال کرنا اور بھیک مانگنا جائز نہیں۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الزکاۃ،الباب السابع فی المصارف،ج۱،ص۱۸۹)
مسئلہ:۔زکوٰۃ ادا کرنے میں یہ ضروری ہے کہ جسے دیں اس کو مالک بنا دیں اس لئے اگر زکوٰۃ کی رقم سے کھانا پکا کر غریبوں کو بطور دعوت کے کھلا دیا تو زکوٰۃ ادا نہ ہوئی کیونکہ یہ اباحت ہوئی تملیک نہیں ہوئی ہاں اگر کھانا پکا کر فقیروں کو کھانا دے دے اور ان کو اس کھانے کا مالک بنادے کہ وہ چاہیں اس کو کھائیں یا کسی کو دے دیں یا بیچ ڈالیں تو زکوٰۃ ادا
ہوگئی۔
(الدرالمختاروردالمحتار،کتاب الزکاۃ، باب المصرف ،ج۳،ص۳۴۱)
مسئلہ:۔زکوٰۃ کا مال مسجد یا مدرسہ یا مہمان خانہ کی عمارت میں لگانا یا میت کے کفن و دفن میں لگانا یا کنواں بنوا دینا یا کتابیں خرید کر کسی مدرسہ میں وقف کر دینا اس سے زکوٰۃ ادا نہیں ہو گی جب تک کسی ایسے آدمی کو مالِ زکوٰۃ کا مالک نہ بنادیں جو زکوٰۃ لینے کا اہل ہے اس وقت تک زکوٰۃ ادا نہیں ہوسکتی۔
(الدرالمختاروردالمحتار،کتاب الزکاۃ، باب المصرف ،ج۳،ص۳۴۱۔۳۴۲)
مسئلہ:۔فقیر زکوٰۃ کے مال کا مالک ہو جانے کے بعد خود اپنی طرف سے اگر مسجد و مدرسہ کی عمارت میں لگا دے یا میت کے کفن ودفن میں صرف کردے تو جائز ہے۔
(الدرالمختار،کتاب الزکاۃ، باب المصرف،ج۳،ص۳۴۳)
قابل توجہ تنبیہ:۔آج کل عام طور پر دینی مدارس میں یہ چلن ہے کہ عطیات اور صدقات و خیرات و چرم قربانی اور زکوٰۃ کی سب رقمیں متولی یا ناظم کے پاس جمع کی جاتی ہیں اور ناظم و متولی ان سب رقموں کو ملا کر رکھتے ہیں اور اسی رقم میں سے طلبہ کا مطبخ بھی چلاتے ہیں اور مدرسین و ملازمین کی تنخواہیں بھی دیتے ہیں اور واعظین و ممتحنین کا نذرانہ بھی دیتے ہیں اور مسجد و مدرسہ کی عمارت بھی بنواتے ہیں اور اپنے مصارف میں بھی لاتے ہیں یاد رکھو کہ اس طرح نہ تو زکوٰۃ دینے والوں کی زکوٰۃ ادا ہوتی ہے نہ ان کاموں میں زکوٰۃ کی رقموں کو لگانا جائز ہے اور یہ متولیوں اور ناظموں کی بہت بڑی خیانت ہے کہ وہ لوگوں کی زکوٰۃ کے مالوں کو صحیح مصرف میں صرف نہیں کرتے اور گنہ گار ہوتے ہیں لہٰذا علماء کرام پر شرعاً واجب ہے کہ متولیوں اور ناظموں کو یہ مسئلہ بتادیں کہ مدارس میں جتنی رقمیں زکوٰۃ کی آتی ہیں پہلے ان رقموں کا حیلہ شرعیہ کر لینا ضروری ہے تاکہ زکوٰۃ دینے والوں کی زکوٰۃ ادا
"ہو جائے اور پھر ان رقموں کو مدرسہ کی جس مد میں چاہیں خرچ کر سکیں۔
مسئلہ:۔حیلہ شرعیہ کا طریقہ یہ ہے کہ زکوٰۃ کی رقموں کو الگ کر کے کسی طالب علم کو جو غریب ہو دے دیں اور ان رقموں کا اس طالب علم کو مالک بنا دیا جائے اور پھر وہ طالب علم اپنی طرف سے وہ رقم مدرسہ میں اپنی خوشی سے دے دے اس طرح کر لینے سے زکوٰۃ دینے والوں کی زکوٰۃ ادا ہو جائے گی اور پھر وہ رقم مدرسہ کی ہر مد میں خرچ کی جاسکے گی۔"
(الفتاوی الرضویۃ(الجدیدۃ)،ج۱۰،ص۲۶۹)
مسئلہ:۔زکوٰۃ و صدقات میں افضل یہ ہے کہ پہلے اپنے بھائیوں' بہنوں' چچاؤں' پھوپھیوں کو پھر ان کی اولاد کو پھر اپنے ماموؤں اور خالاؤں کو پھر ان کی اولاد کو پھر دوسرے رشتہ داروں کو پھر پڑوسیوں کو پھر اپنے پیشہ والوں کو پھر اپنے شہر اور گاؤں والوں کو دیں اور علم دین حاصل کرنے والے طالب علموں کو بھی دینا افضل ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الزکاۃ، الباب السابع فی المصارف، ج۱،ص۱۹۰)
مسئلہ:۔ہر مالکِ نصاب پر اپنی طرف سے اور اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے ایک ایک صاع صدقہ فطر دینا واجب ہے۔
(الدرالمختار،کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر،ج۳،ص۳۶۷)
مسئلہ:۔صدقہ فطر کی مقدار یہ ہے کہ گیہوں اور گیہوں کا آٹا آدھا صاع اور جو یا جو کا آٹایا کھجور ایک صاع دیں ۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الزکاۃ، الباب الثامن فی صدقۃ الفطر،ج۱،ص۱۹۱)
مسئلہ:۔اعلیٰ درجے کی تحقیق اور احتیاط یہ ہے کہ صاع کا وزن چاندی کے پرانے روپے سے تین سو اکیاون روپے بھر اور آدھا صاع کا وزن ایک سو پچھتّر روپے اٹھنی بھر اوپر
ہے۔
(الفتاوی الرضویۃ(الجدیدۃ)،ج۱،ص۵۹۵)
"اور نئے وزن سے ایک صاع کا وزن چار کلو اور تقریباً چورانوے گرام ہوتا ہے اور آدھے صاع کا وزن دو کلو اور تقریباً سینتالیس گرام ہوتا ہے۔
مسئلہ:۔صدقہ فطر دینے کے لئے روزہ رکھنا شرط نہیں لہٰذا اگر بیماری یا سفر کی وجہ سے یا معاذاﷲ بلا عذر اپنی شرارت سے روزہ نہ رکھا جب بھی صدقہ فطر دینا واجب ہے۔"
(الدرالمختار،کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر ،ج۳،۳۶۷)
آج کل یہ ایک عام بلا پھیلی ہوئی ہے کہ اچھے خاصے تندرست چاہیں تو کما کر اوروں کو کھلائیں مگر انہوں نے اپنے وجود کو بیکار قرار دے رکھا ہے۔ محنت مشقت سے جان چراتے ہیں اور ناجائز طور پر بھیک مانگ کر پیٹ بھرتے ہیں اور بہت سے لوگوں نے تو سوال کرنا اور بھیک مانگنا اپنا پیشہ ہی بنا رکھا ہے۔ گھر میں ہزاروں روپے ہیں کھیتی باڑی بھی ہے مگر بھیک مانگنا نہیں چھوڑتے۔ ان سے کہا جاتا ہے تو جواب دیتے ہیں کہ یہ تو ہمارا پیشہ ہے واہ صاحب واہ! کیا ہم اپنا پیشہ چھوڑ دیں حالانکہ ایسے لوگوں کو سوال کرنا اور بھیک مانگنا بالکل حرام ہے حدیث شریف میں ہے کہ جو شخص بغیر حاجت کے سوال کرتا ہے گویا وہ آگ کا انگارا کھاتا ہے۔
(مجمع الزاوائد،کتاب الزکاۃ، باب ماجاء فی السوال، رقم ۴۵۲۶،ج۳،ص۲۵۸)
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ جو شخص لوگوں سے سوال کرے حالانکہ اس کو نہ فاقہ ہوا ہے نہ اس کے اتنے بال بچے ہیں جن کی طاقت نہیں رکھتا تو قیامت کے دن وہ اس طرح آئے گا کہ اس کے منہ پر گوشت نہ ہو گا اور
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا جس پر فاقہ نہیں گزرا اور نہ اتنے بال بچے ہیں جن کی طاقت نہیں اور سوال کا دروازہ کھولے اﷲتعالیٰ اس پر فاقہ کا دروازہ کھول دے گا ایسی جگہ سے جو اس کے خیال میں بھی نہیں۔
(کنزالعمال،کتاب الزکاۃ، الفصل الثانی فی ذم السؤال،الاکمال ،رقم۱۶۷۳۹،ج۶،ص۲۱۵)
ایک حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ جو شخص مال بڑھانے کیلئے لوگوں سے سوال کرتا ہے تو وہ گویا آگ کا انگارا طلب کرتا ہے۔
(مسلم ،کتاب الزکاۃ،باب کراھۃ المسألۃ للناس،رقم۱۰۴۱،ص۵۱۸)
خلاصہ یہ ہے کہ بغیر شدید ضرورت کے بھیک مانگنا اور لوگوں سے سوال کرنا جائز نہیں ہے۔
زکوٰۃ و عشر و صدقہ فطر یہ تینوں تو واجب ہیں
(جامع الترمذی،کتاب التفسیر،باب (ت:۹۵)رقم۳۳۸۰،ج۵،ص۲۴۲)
"جو ان تینوں کو نہ ادا کریگا سخت گنہ گار ہو گا ان تینوں کے علاوہ صدقہ دینے اور خدا کی راہ میں خیرات کرنے کا بھی بہت بڑا ثواب ہے اور دنیا و آخرت میں اس کے بڑے بڑے فوائد و منافع ہیں۔ چنانچہ اس کے بارے میں ہم یہاں چند حدیثیں لکھتے ہیں ان کو غور سے پڑھو اور اپنے پیارے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے ان مقدس فرمانوں پر عمل کرکے اپنی دنیا و آخرت کو سنوار لو۔
حد یث (۱):۔حضرت انس رضی اﷲتعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ جب اﷲتعالیٰ نے زمین کو پیدا فرمایا تو وہ ہلنے لگی تو اﷲتعالیٰ نے پہاڑوں کو"
پیدا کیا اور زمین کو پہاڑوں کے سہارے پر ٹھہرا دیا یہ دیکھ کر فرشتوں کو پہاڑوں کی طاقت پر بڑا تعجب ہوا اور انہوں نے عرض کیا کہ اے پروردگار! کیا تیری مخلوق میں پہاڑوں سے بھی بڑھ کر طاقتور کوئی چیز ہے؟ تو اﷲتعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ہاں لوہا تو فرشتوں نے کہا تیری مخلوق میں لوہے سے بھی بڑھ کر طاقتور کوئی چیز ہے؟ تو فرمایا ہاں آگ تو فرشتوں نے پوچھا کہ آگ سے بھی بڑھ کر کوئی طاقت والی چیز تیری مخلوق میں ہے؟ تو خدا نے فرمایا ہاں پانی۔ پھر فرشتوں نے سوال کیا کہ کیا تیری مخلوق میں پانی سے بھی زیادہ طاقتور کوئی چیز ہے تو ارشاد ہوا ہاں ہوا۔ یہ سن کر فرشتوں نے دریافت کیا کہ کیا تیری مخلوق میں ہوا سے بھی بڑھ کر طاقت رکھنے والی چیز ہے؟ تو اﷲتعالیٰ نے فرمایا ہاں ابن آدم' اپنے داہنے ہاتھ سے صدقہ دے اور بائیں ہاتھ سے چھپائے۔
(مشکاۃ المصابیح،کتاب الزکاۃ،باب فضل الصدقۃ،الفصل الثانی، رقم۱۹۲۳،ج۱،ص۵۳۰)
"مطلب یہ ہے کہ اس قدر چھپا کر صدقہ دے کہ داہنے ہاتھ سے صدقہ دے اور بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو۔ یہ صدقہ پہاڑ' لوہا' آگ' ہوا پانی تمام چیزوں سے بڑھ کر طاقتور ہے۔
حدیث (۲):۔صدقہ اس طرح گناہوں کو بجھا دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھا دیتا ہے۔"
(مجمع الزوائد، کتاب الصیام، باب فی فضل الصوم،رقم ۵۰۸۲،ج۳،ص۴۱۹)
حدیث (۳):۔ہر مسلمان کو صدقہ کرنا چاہے تو لوگوں نے کہا یا رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم! جو شخص صدقہ کرنے کے لئے کوئی چیز نہ پائے تو کیا کرے؟ تو ارشاد فرمایا کہ اس کو چاہے کہ وہ اپنے ہاتھ سے کوئی کام کرکے کچھ کمائے پھر خود بھی اس سے نفع اٹھائے اور صدقہ بھی دے تو لوگوں نے عرض کیا کہ اگر وہ کمانے کی طاقت نہ رکھتا ہو؟ تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ وہ کسی حاجت مند کی کسی طرح مدد کردے اس پر لوگوں نے کہا
کہ اگر وہ یہ بھی نہ کرے؟ تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ اس کو چاہے کہ وہ لوگوں کو اچھی باتوں کا حکم دیتا رہے۔ یہ سن کر لوگوں نے کہا کہ اگر وہ یہ بھی نہ کرے تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ وہ خود برائی کرنے سے رک جائے یہ اس کے لئے صدقہ ہے۔
(صحیح البخاری،کتاب الادب، باب کل معروف صدقۃ،رقم ۶۰۲۲،ج۴،ص۱۰۵)
حدیث (۴):۔حضرت انس رضی اﷲ عنہ راوی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ صدقہ خدا کے غضب کو بجھا دیتا ہے اور بری موت کو رفع کر دیتا ہے۔
(مشکاۃالمصابیح، کتاب الزکاۃ، باب فضل الصدقۃ،الفصل الثانی،رقم ۱۹۰۹،ج۱،ص۵۲۷)
حدیث (۵):۔حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک زنا کار عورت ایک کتے کے پاس سے گزری جو ایک کنوئیں کے پاس پیاس سے زبان نکالے ہوئے تھا اور قریب تھا کہ پیاس اس کتے کو مار ڈالے تو اس عورت نے اپنے چمڑے کا موزہ نکالا اور اسکو اپنی اوڑھنی میں باندھ کر اس کنوئیں سے پانی بھرا اور اس کتے کو پلادیا (تواتنا ہی صدقہ کرنے سے) اس کی مغفرت ہوگئی ۔
(صحیح البخاری، کتاب بدء الخلق ، باب اذا وقع الذباب فی شراب احدکم فلیغمسہ، رقم ۳۳۲۱،ج۲،ص۴۰۹)
حدیث (۶):۔حضرت سعد بن عبادہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم! میری ماں کی وفات ہوگئی تو اس کی طرف سے کون سا صدقہ افضل ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ ''پانی'' تو حضرت سعد بن عبادہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ایک کنواں کھدوا دیا اور یہ کہا کہ یہ سعد کی ماں کے لئے ہے۔
(مشکاۃ المصابیح، کتاب الزکاۃ،باب فضل الصدقۃ،الفصل الثانی، رقم ۱۹۱۲،ج۱،ص۵۲۷)
حدیث (۷):۔حضرت ابو سعید سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ جو کسی مسلمان ننگے بدن والے کو کپڑا پہنائے گا تو اﷲتعالیٰ اس کو جنت کا ہرا لباس پہنائے گا اور جو کسی بھوکے مسلمان کو کھانا کھلائے گا تو اﷲتعالیٰ اس کو جنت کے میوے کھلائے گا اور جو کسی پیاسے مسلمان کو پانی پلائے گا تو اﷲتعالیٰ اس کو جنت کا شربت خاص پلائے گا جس پر مہر لگی ہوگی۔
(سنن الترمذی،کتاب صفۃ القیامۃ ، باب ۱۸(ت۸۳) رقم ۲۴۵۷،ج۴،ص۲۰۴)
حدیث (۸):۔حضرت ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما نے کہا کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو کسی مسلمان کو کپڑا پہنائے گا تو جب تک اس کے بدن پر اس کپڑے کا ایک ٹکڑا بھی رہے گا اس وقت تک کپڑا پہنانے والا اﷲتعالیٰ کی حفاظت میں رہےگا۔
(سنن الترمذی،کتاب صفۃ القیامۃ ، باب ۴۱(ت۱۰۶) رقم ۲۴۹۲،ج۴،ص۲۱۸)
حدیث (۹):۔حضرت جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ جو شخص کسی مردہ زمین کو زندہ کرے (یعنی کھیت بوئے اور درخت لگائے) تو اس کو صدقہ کا ثواب ملے گا اور چرند وپرند اس کا دانہ یا پھل کھالیں گے وہ سب اس کے لئے صدقہ ہوگا
(مشکاۃ المصابیح، کتاب الزکاۃ،باب فضل الصدقۃ،الفصل الثانی، رقم ۱۹۱۶،ج۱،ص۵۲۸)
"یعنی اس کو صدقہ کرنے کا ثواب ملے گا۔
حدیث (۱۰):۔حضرت ابو ذر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ اپنے کسی (مسلمان) بھائی کے سامنے (خوشی سے) تمہارا مسکرا دینا یہ"
بھی صدقہ ہے اور کسی بھٹکے ہوئے کو راستہ دکھا دینا یہ بھی صدقہ ہے اور کسی اندھے کی مدد کر دینا یہ بھی صدقہ ہے اور راستہ سے پتھر اور کانٹا اور ہڈی ہٹا دینا یہ بھی صدقہ ہے۔
(سنن الترمذی، کتاب البر والصلۃ،باب ماجاء فی صنائع المعروف،رقم۱۹۶۳،ج۳،ص۳۸۴)
مطلب یہ ہے کہ ان سب کاموں پر صدقہ دینے کا ثواب ملتا ہے۔
" نماز کی طرح روزہ بھی فرض عین ہے اس کی فرضیت کا انکار کرنے والا کافر اور بلا عذر چھوڑنے والا سخت گناہگار اور عذاب جہنم کا سزاوار ہے۔
مسئلہ:۔شریعت میں روزہ کے معنی ہیں اﷲ تعالیٰ کی عبادت کی نیت سے صبح صادق سے لے کر سورج ڈوبنے تک کھانے پینے اور جماع سے اپنے کو روکے رکھنا۔"
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصوم، الباب الاول فی تعریفہ۔۔۔الخ،ج۱،ص۱۹۴)
مسئلہ:۔رمضان کے ادا روزے اور نذر معین اور نفل و سنت و مستحب روزے اور مکروہ روزے ان روزوں کی نیت کا وقت سورج ڈوبنے سے لے کر ضحوہ کبریٰ (دوپہر سے تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ پہلے) تک ہے اس درمیان میں جب بھی روزہ کی نیت کرے یہ روزے ہو جائیں گے لیکن رات ہی میں نیت کر لینا بہتر ہے کے چھ روزوں کے علا وہ جتنے روزے ہیں مثلاً رمضان کی قضا کا روزہ' نذر معین کی قضا کا روزہ' کفارہ کا روزہ' حج میں کسی جرم کرنے کا روزہ وغیرہ ان سب روزوں کی نیت کا وقت غروب آفتاب سے لے کر صبح صادق طلوع ہونے تک ہے اس کے بعد نہیں۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصوم، الباب الاول فی تعریفہ۔۔۔الخ،ج۱،ص۱۹۵)
مسئلہ:۔جس طرح اور عبادتوں میں بتایا گیا ہے کہ نیت دل کے ارادہ کا نام ہے زبان سے کہنا کچھ ضروری نہیں اسی طرح روزہ میں بھی نیت سے مراد دل کا پختہ ارادہ ہے لیکن
زبان سے بھی کہہ لینا اچھا ہے اگر رات میں نیت کرے تو یوں کہے کہ
نَوَیَتُ اَنْ اَصُوْ مَ غَدًا لِلّٰہِ تَعَالٰی مِنْ فَرَضِ رَمَضَانَ
اور اگر دن میں نیت کرے تو یوں کہے کہ
نَوَیْتُ اَنْ اَصُوْمَ ھٰذَاالْیَوْمَ مِنْ فَرَضِ رَمَضَانَ ؕ
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصوم، الباب الاول فی تعریفہ...الخ،ج۱،ص۱۹۵)
مسئلہ:۔قضائے رمضان وغیرہ جن روزوں میں رات سے نیت کر لینی ضروری ہے ان روزوں میں خاص اس روزہ کی نیت بھی ضروری ہے جو روزہ رکھا جائے مثلاً یوں نیت کرے کہ کل میں اپنے پہلے رمضان کے روزے کی قضا رکھوں گا یا میں نے جو ایک دن روزہ رکھنے کی منت مانی تھی کل میں وہ روزہ رکھوں گا۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصوم، الباب الاول فی تعریفہ...الخ،ج۱،ص۱۹۶)
مسئلہ:۔عید و بقرعید اور ذوالحجہ کی گیارہ' بارہ' تیرہ تاریخ ان پانچ دنوں میں روزہ رکھنا مکروہ تحریمی ہے اور گناہ ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصوم، الباب الثالث فیما یکرہ للصائم،ج۱،ص۲۰۱)
مسئلہ:۔کسی کام کی منت مانی تو کام پورا ہو جانے پر اس روزہ کو رکھنا واجب ہو گیا۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصوم، الباب السادس فی النذر،ج۱،ص۲۰۹)
مسئلہ:۔اگر نفل کا روزہ رکھ کر اس کو توڑ دیا تو اب اس کی قضا واجب ہے۔
(الدرالمختار مع ردالمحتار،کتاب الصوم،ج۳،ص۴۷۸)
مسئلہ:۔عورت کو نفل کا روزہ بلا شوہر کی اجازت کے رکھنا منع ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصوم، الباب الثالث فیما یکرہ للصیام وما لایکرہ،ج۱،ص۲۰۱)
مسئلہ:۔پانچ مہینوں کا چاند دیکھنا واجب کفایہ ہے شعبان' رمضان 'شوال' ذوالقعدہ اور ذوالحجہ۔
(الفتاوی الرضویۃ(الجدیدۃ)،ج۱۰،ص۴۵۰۔۴۵۱)
مسئلہ:۔ شعبان کی انتیس تاریخ کو شام کے وقت چاند دیکھیں دکھائی دے تو روزہ اگلے دن رکھیں ورنہ شعبان کے تیس دن پورے کر کے روزہ رکھیں۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصوم، الباب الثانی فی رؤیۃ الھلال،ج۱،ص۱۹۷)
مطلع صاف نہ ہونے میں یعنی آسمان میں ابر وغبار ہونے کی حالت میں صرف رمضان کے چاند کا ثبوت ایک مسلمان عاقل و بالغ مستور یا عادل کی گواہی یا خبر سے ہو جاتا ہے چاہے مرد ہو یا عورت اور رمضان کے سوا تمام مہینوں کا چاند اس وقت ثابت ہوگا جب دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں گواہی دیں اور سب پابند شرع ہوں اور یہ کہیں کہ میں شہادت دیتا ہوں کہ میں نے اس مہینے کا چاند فلاں دن خود دیکھا ہے۔
(الدرالمختار،کتاب الصوم، ج۳،ص۴۰۶)
"عادل:۔ ہونے کا یہ مطلب ہے کہ کبیرہ گناہوں سے بچتا ہو اور صغیرہ گناہوں پر اصرار نہ کرتا ہو اور ایسا کام نہ کرتا ہو جو تہذیب و مروت کے خلاف ہو جیسے بازاروں میں سڑکوں پر چلتے پھرتے کھانا پینا۔
مستور:۔سے یہ مراد ہے کہ جس کا ظاہر حال شرع کے مطابق ہو مگر باطن کا حال معلوم نہیں۔"
(ردالمحتار مع الدرالمختار،کتاب الصوم،مبحث فی یوم شک ، ج۳،ص۴۰۶)
مسئلہ:۔جس عادل شخص نے چاند دیکھا ہے اس پر واجب ہے کہ اسی رات میں شہادت دے۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصوم، الباب الثانی فی رؤیۃ الھلال،ج۱،ص۱۹۷)
مسئلہ:۔گاؤں میں چاند دیکھا اور وہاں کوئی حاکم یا قاضی نہیں جس کے سامنے گواہی دے تو گاؤں والوں کو جمع کرکے ان کے سامنے چاند دیکھنے کی گواہی دے اگر یہ گواہی دینے والا عادل ہے لوگوں پر روزہ رکھنا لازم ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصوم، الباب الثانی فی رؤیۃ الھلال،ج۱،ص۱۹۷)
مطلع اگر صاف ہو:۔تو جب تک بہت سے لوگ شہادت نہ دیں چاند کا ثبوت نہ ہوگا (چاہے رمضان کا چاند ہو یا عید کا یا کسی اور مہینے کا) رہا یہ کہ کتنے لوگوں کی گواہی اس صورت میں چاہے تو یہ قاضی کی رائے پر ہے جتنے گواہوں سے اسے غالب گمان ہو جائے اتنے گواہوں کی شہادت سے چاند ہونے کا حکم دیگا لیکن اگر شہر کے باہر کسی اونچی جگہ سے چاند دیکھنا بیان کرے تو ایک مستور کا بھی قول صرف رمضان کے چاند میں مان لیا جائیگا ۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصوم، الباب الثانی فی رؤیۃ الھلال،ج۱،ص۱۹۸)
مسئلہ:۔اگر کچھ لوگ آکر یہ کہیں کہ فلاں جگہ چاند ہوا بلکہ اگر یہ شہادت دیں کہ فلاں فلاں نے دیکھا بلکہ اگر یہ شہادت دیں کہ فلاں جگہ کے قاضی نے روزہ یا افطار کے لئے لوگوں سے کہا یہ سب طریقے چاند کے ثبوت کے لئے ناکافی ہیں اور اس قسم کی شہادتوں سے چاند کا ثبوت نہ ہو سکے گا۔
(ردالمحتارمع الدرالمختار،کتاب الصوم،مطلب ماقالہ السبکی من الاعتماد،ج۳،ص۴۱۳)
مسئلہ:۔کسی شہر میں چاند ہو ا اور وہاں سے چند جماعتیں دوسرے شہر میں آئیں اور سب نے خبر دی کہ وہاں فلاں دن چاند ہوا ہے اور تمام شہر میں یہ بات مشہور ہے اور وہاں کے لوگوں نے چاند نظر آنے کی بنا پر فلاں دن سے روزے شروع کر دئیے ہیں تو یہاں والوں کے لئے بھی ثبوت ہو گیا۔
(ردالمحتار مع الدرالمختار،کتاب الصوم،مطلب ماقالہ السبکی من الاعتماد۔۔۔الخ،ج۳،ص۴۱۳)
مسئلہ:۔کسی نے اکیلے رمضان یا عید کا چاند دیکھا اور گواہی دی مگر قاضی نے اس کی گواہی قبول نہیں کی تو خود اس شخص پر روزہ رکھنا لازم ہے اگر نہ رکھا یا تور ڈالا تو قضا لازم ۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصوم، الباب الثانی فی رؤیۃ الھلال،ج۱،ص۱۹۸)
مسئلہ:۔اگر دن میں چاند دکھائی دیا دوپہر سے پہلے چاہے دوپہر کے بعد بہر حال وہ آنے والی رات کا چاند مانا جائے گا یعنی اب جو رات آئے گی اس سے مہینہ شروع ہوگا مثلاً تیس رمضان کو دن میں چاند نظر آیا تو یہ دن رمضان ہی کا ہے شوال کے نہیں اور روزہ پورا کرنا فرض ہے اور اگر شعبان کی تیسویں تاریخ کو دن میں چاند نظر آگیا تو یہ دن شعبان ہی کا ہے رمضان کا نہیں لہٰذا آج کا روزہ فرض نہیں ۔
(ردالمحتار،کتاب الصوم،مطلب فی رؤیۃ الھلال نھارًا،ج۳،ص۴۱۶)
مسئلہ:۔تار' ٹیلیفون' ریڈیو سے چاند دیکھنا ثابت نہیں ہو سکتا اس لئے اگر ان خبروں کو ہر طرح سے صحیح مان لیا جائے جب بھی یہ محض ایک خبر ہے یہ شہادت نہیں ہے اور محض ایک خبر سے چاند کا ثبوت نہیں ہوتا اور اسی طرح بازاری افواہوں سے اور جنتریوں اور اخباروں میں چھپنے سے بھی چاند نہیں ہو سکتا۔
(بہارشریعت،ج۱،ح۵،ص۱۱۲)
مسئلہ:۔چاند دیکھ کر اس کی جانب انگلی سے اشارہ کرنا مکروہ ہے اگر چہ دوسروں کو بتانے کیلئے ہو۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصوم، الباب الثانی فی رؤیۃ الھلال،ج۱،ص۱۹۷)
کھانے پینے سے یا جماع کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے جب کہ روزہ دار ہونا یاد ہو اور اگر روزہ دار ہونا یاد نہ رہا اور بھول کر کھا پی لیا یا جماع کر لیا تو روزہ نہیں ٹوٹا ۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصوم، الباب الرابع فیما یفسد۔۔۔الخ النوع الاول،ج۱،ص۲۰۲)
مسئلہ:۔حقہ' بیڑی' سگریٹ' چرٹ' سگار پینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔
(بہار شریعت،ج۱،ح۵،ص۱۱۷)
مسئلہ:۔دانتوں میں کوئی چیز رکی ہوئی تھی چنے برابر یا اس سے زیادہ تھی اسے کھا لیا یا چنے سے کم ہی تھی مگر اس کو منہ سے نکال کر پھر کھا گیا تو روزہ ٹوٹ گیا۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصوم، الباب الرابع فیما یفسد۔۔۔الخ ،ج۱،ص۲۰۲)
مسئلہ:۔نتھنوں میں دوا چڑھائی یا کان میں تیل ڈالا یا تیل چلا گیا تو روزہ ٹوٹ گیا اور اگر پانی کان میں ڈالا یا چلا گیاتو روزہ نہیں ٹوٹا۔جدید تحقیق کے مطابق کان میں منفذنہ ہونے کا بناء پر روزہ نہیں ٹوٹے گا۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصوم، الباب الرابع فیما یفسد۔۔۔الخ ،ج۱،ص۲۰۴)
مسئلہ:۔کلی کرنے میں بلا قصد پانی حلق سے نیچے چلا گیا یا ناک میں پانی چڑھا رہاتھا بلا قصد پانی دماغ میں چڑھ گیا تو روزہ ٹوٹ گیا۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصوم، الباب الرابع فیما یفسد۔۔۔الخ ،ج۱،ص۲۰۲)
مسئلہ:۔دوسرے کا تھوک نگل گیا یا اپنا ہی تھوک ہاتھ پر رکھ کر نگل گیا تو روزہ جاتا رہا۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصوم، الباب الرابع فیما یفسد۔۔۔الخ ،ج۱،ص۲۰۳)
مسئلہ:۔قصداً منہ بھر کر قے کی اور روزہ دار ہونا یاد ہے تو روزہ ٹوٹ گیا اور اگر منہ بھر سے کم کی تو روزہ نہیں ٹوٹا۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصوم، الباب الرابع فیما یفسد۔۔۔الخ ،ج۱،ص۲۰۴)
مسئلہ:۔بلا قصد اور بے اختیار قے ہوگئی تو روزہ نہیں ٹوٹا تھوڑی قے ہو یا زیادہ روزہ دار ہونا یاد ہو یا نہ ہو بہر حال روزہ نہیں ٹوٹے گا۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصوم، الباب الرابع فیما یفسد۔۔۔الخ ،ج۱،ص۲۰۴)
مسئلہ:۔منہ میں رنگین دھاگہ یا کوئی رنگین چیز رکھی جس سے تھوک رنگین ہوگیا پھر اس
رنگین تھوک کو نگل لیا تو اس کا روزہ ٹوٹ گیا۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصوم، الباب الرابع فیما یفسد۔۔۔الخ ،ج۱،ص۲۰۳)
بھول کر کھایا یا پیا یا جماع کر لیا تو روزہ نہیں ٹوٹا ۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصوم، الباب الرابع فیما یفسد۔۔۔الخ ،ج۱،ص۲۰۲)
مسئلہ:۔مکھی یا دھواں غبار بے اختیار حلق کے اندر چلے جانے سے روزہ نہیں ٹوٹتااسی طرح سرمہ یا تیل لگایا اگر چہ تیل یا سرمہ کا مزہ حلق میں معلوم ہوتا ہو پھر بھی روزہ نہیں ٹوٹا یوں ہی دوا یا مرچ کو ٹا یا آٹا چھانا اور حلق میں اس کا اثر اور مزہ معلوم ہوا تو بھی روزہ نہیں ٹوٹا۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصوم، الباب الرابع فیما یفسد۔۔۔الخ ،ج۱،ص۲۰۳)
مسئلہ:۔کلی کی اور پانی بالکل اگل دیا صرف کچھ تری منہ میں باقی رہ گئی تھوک کے ساتھ اس کو نگل گیا یا کان میں پانی چلا گیا یا احتلام ہوگیا یا غیبت کی یا جنابت کی حالت میں صبح کی بلکہ اگر سارے دن جنابت کی حالت میں رہ گیا اور غسل نہیں کیا تو روزہ نہیں گیا لیکن اتنی دیر تک بلا عذر قصداً غسل نہ کرنا کہ نماز قضا ہو جائے گناہ اور حرام ہے حدیث میں آیا ہے کہ جنبی (جس پر غسل فرض ہے) جس گھر میں رہتا ہو اس میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصوم، الباب الرابع فیما یفسد۔۔۔الخ ،ج۱،ص۲۰۳)
روزہ کے مکروہات:۔ جھوٹ' غیبت' چغلی' گالی گلوچ کرنے' کسی کو تکلیف دینے سے روزہ مکروہ ہوجاتا ہے۔
(بہارشریعت،ح۵،ج۱،ص۱۲۷)
مسئلہ:۔روزہ دار کو بلا وجہ کوئی چیز زبان پر رکھ کر چکھنا یا چبا کر اگل دینا مکروہ ہے اسی طرح عورت کو بوسہ دینا اور گلے لگانا اور بدن چھونا بھی مکروہ ہے جب کہ یہ ڈر ہو کہ انزال ہوجائے گا۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصوم، الباب الثالث فیما یکرہ للصائم۔۔۔الخ ،ج۱،ص۱۹۹۔۲۰۰)
مسئلہ:۔روزہ دار کے لئے کلی کرنے اور ناک میں پانی چڑھانے میں مبالغہ کرنا بھی مکروہ ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصوم، الباب الثالث فیما یکرہ۔۔۔الخ ،ج۱،ص۱۹۹)
مسئلہ:۔روزہ دار کو غسل کرنا یا ٹھنڈا پانی ٹھنڈک کے لئے سر پر ڈالنا یا گیلا کپڑا اوڑھنا یا بار بار کلی کرنا یا مسواک کرنا یا سر اور بدن میں تیل کی مالش کرنا یا سرمہ لگانا یا خوشبو سونگھنا مکروہ نہیں ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصوم، الباب الثالث فیما یکرہ۔۔۔الخ ،ج۱،ص۱۹۹)
روزہ توڑ ڈالنے کا کفارہ:۔اگر کسی وجہ سے رمضان کا یا کوئی دوسرا روزہ ٹوٹ گیا تو اس روزہ کی قضا لازم ہے لیکن بلا عذر رمضان کا روزہ قصداً کھا پی کر یا جماع کر کے توڑ ڈالنے سے قضا کے ساتھ کفارہ ادا کرنا بھی واجب ہے روزہ توڑ ڈالنے کا کفارہ یہ ہے کہ ایک غلام یا لونڈی خرید کر آزاد کرے اور نہ ہو سکے تو لگا تار ساٹھ روزے رکھے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو دونوں وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلائے کفارہ میں روزہ رکھنے کی صورت میں لگا تار ساٹھ روزے رکھنا ضروری ہیں اگر درمیان میں ایک دن کا بھی روزہ چھوٹ گیا تو پھر سے ساٹھ روزے رکھنے پڑیں گے ۔
(ردالمحتارمع الدرالمختار،کتاب الصوم،مطلب فی الکفارۃ ،ج۳،ص۴۴۷)
کب روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے :۔شرعی سفر' حاملہ عورت کو نقصان پہنچنے
کا اندیشہ' دودھ پلانیوالی عورت کے دودھ سوکھ جانے کا ڈر' بیماری' بڑھاپا' کمزوری کی وجہ سے ہلاک ہو جانے کا خوف یا کسی نے گردن پر تلوار رکھ کر مجبور کر دیا کہ روزہ نہ رکھے ورنہ جان سے مار ڈالے گا یا کوئی عضو کاٹ لے گا یا پاگل ہوجانا یا جہاد کرنا یہ سب روزہ نہ رکھنے کے عذر ہیں ان باتوں کی وجہ سے اگر کوئی روزہ نہ رکھے تو گنہگار نہیں لیکن بعد میں جب عذر جاتا رہے تو ان چھوڑے ہوئے روزوں کو رکھنا فرض ہے ۔
(الدرالمختارمع ردالمحتار،کتاب الصیام، فصل فی العوارض،ج۳،ص۴۶۲۔۴۶۳)
مسئلہ:۔شیخ فانی یعنی وہ بوڑھا کہ نہ اب روزہ رکھ سکتا ہے اور نہ آئندہ اس میں اتنی طاقت آنے کی امید ہے کہ رکھ سکے گا تو اسے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے اور اس کو لازم ہے کہ ہر روزہ کے بدلے دونوں وقت ایک مسکین کو بھر پیٹ کھانا کھلائے یا ہر روزہ کے بدلے صدقہ فطر کی مقدار مسکین کو دے دیا کرے۔
(الدرالمختارمع ردالمحتار،کتاب الصیام، فصل فی العوارض،ج۳،ص۴۷۱۔۴۷۲)
مسئلہ:۔جن لوگوں کو روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے ان کو اعلانیہ کھانے پینے کی اجازت نہیں ہے وہ لوگوں کی نگاہوں سے چھپ کر کھا پی سکتے ہیں۔
عاشوراء:۔یعنی دسویں محرم کا روزہ اور بہتر یہ ہے کہ نویں محرم کو بھی روزہ رکھے رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ رمضان کے بعد افضل روزہ محرم کا روزہ ہے۔
(مسلم،کتاب الصیام،باب فضل صوم المحرم،رقم ۱۱۶۳،ص۵۹۱)
اور ارشاد فرمایا کہ عاشورا کا روزہ ایک سال پہلے کے گناہ مٹا دیتا ہے ۔
(مسلم ،کتاب الصیام،باب استحباب صیام ثلاثۃ ایام۔۔۔الخ،رقم۱۱۶۲،ص۵۸۹)
عرفہ:۔ یعنی نویں ذوالحجہ کا روزہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ عرفہ کا
روزہ ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کو مٹادیتا ہے ۔
(مسلم ،کتاب الصیام،باب استحباب صیام ثلاثۃ ایام۔۔۔الخ،رقم۱۱۶۲،ص۵۸۹)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم عرفہ کے روزہ کو ہزاروں روزوں کے برابر بتاتے تھے مگر حج کرنے والوں کو جو میدان عرفات میں ہوں ان کو اس روزہ سے منع فرمایا ۔
(المعجم الأوسط،رقم ۶۸۰۲،ج۵،ص۱۲۷)
شوال کے چھ روزے:۔رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر ان کے بعد چھ دن شوال کے روزے رکھے تو وہ ایسا ہے جس نے ہمیشہ روزہ رکھا اور فرمایا جس نے عید کے بعد چھ روزے رکھے تو اس نے پورے سال کے روزے رکھے۔
(مسلم ،کتاب الصیام،باب استحباب صوم ستۃ...الخ، رقم ۱۱۶۴، ص ۵۹۲)
شعبان کا روزہ اور شب برأت:۔رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ جب شعبان کی پندرھویں رات (شب برأت) آئے تو اس رات میں قیام کرو یعنی نفل نمازیں پڑھو اور اس دن میں روزہ رکھو کہ اﷲتعالیٰ سورج ڈوبنے کے بعد سے آسمان دنیا پر خاص تجلی فرماتا ہے اور اعلان فرماتاہے کہ کیا ہے کوئی بخشش کا طلب گار! کہ میں اس کو بخش دوں؟ کیا ہے کوئی روزی طلب کرنے والا! کہ میں اسے روزی دوں؟ کیا ہے کوئی گرفتار ہونے والا! کہ میں اس کو رہائی دوں؟ کیا ہے کوئی ایسا! کیا ہے کوئی ایسا! اس قسم کی ندائیں ہوتی رہتی ہیں یہاں تک کہ فجر طلوع ہو جاتی ہے۔
(مشکاۃالمصابیح ،کتاب الصلٰوۃ،باب قیام شہررمضان،رقم۱۳۰۸،ج۱،ص۳۷۵)
ایام بیض کے روزے:۔یعنی ہر مہینے کی تیرہ' چودہ' پندرہ تاریخوں کے روزے رسول
اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ ہر مہینے کے تین روزے ایسے ہیں جیسے ہمیشہ کا روزہ۔
(سنن ترمذی،کتاب الصوم،باب ماجاء فی صوم ثلاثۃ۔۔۔الخ،رقم ۷۶۲،ج۲،ص۱۹۴)
اور فرمایا کہ جس سے ہو سکے ہر مہینے میں تین روزے رکھے ہر روزہ اس دن کے گناہ مٹاتا ہے اور وہ شخص گناہوں سے ایسا پاک ہو جاتا ہے جیسے پانی کپڑے کو پاک کر دیتا ہے ۔
(المعجم الکبیر، رقم۶۰،ج۲۵،ص۳۵)
حضرت عبداﷲبن عباس رضی اﷲتعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم سفر وحضر میں ایام بیض کے روزے رکھتے تھے ۔
(نسائی، کتاب الصوم،باب صوم النبی صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔الخ،ج۴،ص۱۹۸)
دو شنبہ اور جمعرات کا روزہ:۔رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ دوشنبہ اور جمعرات کو اعمال (دربار خداوندی) میں پیش کئے جاتے ہیں تو میں پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل اس حال میں پیش کیا جائے کہ میں روزہ دار ہوں۔
(جامع الترمذی،کتاب الصوم،باب ماجاء فی صوم الاربعاء والخمیس،ج۲،ص۱۸۷)
اور فرمایا کہ ان دونوں دنوں میں اﷲتعالیٰ ہر مسلمان کی مغفرت فرماتا ہے مگر ایسے دو آدمیوں کی جنہوں نے ایک دوسرے سے قطع تعلق کر لیا ہو ان دونوں کے بارے میں اﷲتعالیٰ فرشتوں سے فرماتا ہے کہ انہیں ابھی چھوڑ دو یہاں تک کہ یہ دونوں آپس میں صلح کر لیں۔
(ابن ماجہ،کتاب الصیام،باب صیام یوم الاثنین والخمیس،رقم۱۷۴۰،ج۲،ص۳۴۴)
بدھ،جمعرات اور جمعہ کا روزہ:۔رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ جو بدھ و جمعرات و جمعہ کو روزہ رکھے اﷲتعالیٰ اس کے لئے جنت میں ایک ایسا مکان بنائے گا جس کے باہر کا حصہ اندر سے دکھائی دے گا اور اندر کا حصہ باہر سے۔
(المعجم الاوسط،رقم۲۵۳،ج۱،ص۸۷)
عبادت کی نیت سے اﷲتعالیٰ کے لئے مسجد میں ٹھہرنے کا نام اعتکاف ہے اعتکاف کی تین قسمیں ہیں اول اعتکاف واجب' دوسرے اعتکاف سنت' تیسرے اعتکاف مستحب۔
(الدرالمختارمع ردالمحتار،کتاب الصوم ،باب الاعتکاف، ج۳،ص۴۹۲۔۴۹۵)
اعتکاف واجب:۔جیسے کسی نے یہ منت مانی کہ میرا فلاں کام ہو جائے تومیں ایک دن یا دو دن کا اعتکاف کروں گا اور اس کا کام ہو گیا تو یہ اعتکاف واجب ہے اور اس کا پورا کرنا ضروری ہے یاد رکھو کہ اعتکاف واجب کے لئے روزہ شرط ہے بغیر روزہ کے اعتکاف واجب صحیح نہیں۔
(الدرالمختارمع ردالمحتار،کتاب الصوم ،باب الاعتکاف، ج۳،ص۴۹۵۔۴۹۶)
اعتکاف سنت موکدہ:۔رمضان کے آخری دس دنوں میں کیا جائے گا یعنی بیسویں رمضان کو سورج ڈوبنے سے پہلے اعتکاف کی نیت سے مسجد میں داخل ہو جائے اور تیسویں رمضان کو سورج ڈوبنے کے بعد انتیسویں رمضان کو چاند ہونے کے بعد مسجد سے نکلے یاد رکھو کہ اعتکاف سنت موکدہ کفایہ ہے یعنی اگر محلّہ کے سب لوگ چھوڑدیں تو سب آخرت کے مواخذہ میں گرفتار ہوں گے اور کسی ایک نے بھی اعتکاف کر لیا تو سب آخرت کے مواخذہ سے بری ہو جائیں گے اس اعتکاف میں بھی روزہ شرط ہے مگر وہی رمضان کے روزے کافی ہیں۔
(الدرالمختارمع ردالمحتار،کتاب الصوم ،باب الاعتکاف، ج۳،ص۴۹۵۔۴۹۶)
اعتکاف مستحب:۔اعتکاف مستحب یہ ہے کہ جب کبھی بھی دن یا رات میں مسجد کے اندر داخل ہو تو اعتکاف کی نیت کرے جتنی دیر تک مسجد میں رہے گا اعتکاف کا ثواب
"پائے گا نیت میں صرف اتنا دل میں خیال کر لینا اور منہ سے کہہ لینا کافی ہے کہ میں نے خدا کے لئے اعتکاف مستحب کی نیت کی۔
مسئلہ:۔مرد کے لئے ضروری ہے کہ مسجد میں اعتکاف کرے اور عورت اپنے گھر میں اس جگہ اعتکاف کرے گی جو جگہ اس نے نماز پڑھنے کے لئے مقرر کی ہو ۔"
(الد رالمختار،کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ج۳،ص۴۹۳۔۴۹۴)
مسئلہ:۔ اعتکاف کرنے والے کے لئے بلا عذر مسجد سے نکلنا حرام ہے اگر نکلا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا چاہے قصداً نکلا ہو یا بھول کر اسی طرح عورت نے جس مکان میں اعتکاف کیا ہے اس کو اس گھر سے باہر نکلنا حرام ہے اگر عورت اس مکان سے باہر نکل گئی تو خواہ وہ قصداً نکلی ہو یا بھول کر اس کا اعتکاف ٹوٹ جائے گا ۔
(الد رالمختار،کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ج۳،ص۵۰۰۔۵۰۳)
مسئلہ:۔اعتکاف کرنے والا صرف دو عذروں کی وجہ سے مسجد سے باہر نکل سکتا ہے ایک عذر طبعی جیسے پیشاب پاخانہ اور غسل فرض و وضو کے لئے دوسرے عذر شرعی جیسے نماز جمعہ کے لئے جانا ان عذروں کے سوا کسی اور وجہ سے اگر چہ ایک ہی منٹ کے لئے ہو مسجد سے اگر نکلا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا اگرچہ بھول کر ہی نکلے ۔
(الدرالمختارمع ردالمحتار،کتاب الصیام، باب الاعتکاف،ج۳،ص۵۰۱،۵۰۳)
مسئلہ:۔اعتکاف کرنے والا دن رات مسجد ہی میں رہے گا وہیں کھائے پئے سوئے مگر یہ احتیاط رکھے کہ کھانے پینے سے مسجد گندی نہ ہونے پائے معتکف کے سوا کسی اور کو مسجد میں کھانے پینے اور سونے کی اجازت نہیں ہے اس لئے اگر کوئی آدمی مسجد میں کھانا پینا اور
سونا چاہے تو اس کو چاہے کہ اعتکاف مستحب کی نیت کر کے مسجد میں داخل ہو اور نماز پڑھے یا ذکر الہٰی کرے پھر اس کے لئے کھانے پینے اور سونے کی بھی اجازت ہے۔
(الدرالمختارمع ردالمحتار،کتاب الصیام، باب الاعتکاف،ج۳،ص۵۰۶)
مسئلہ:۔اعتکاف کرنے والا بالکل ہی چپ نہ رہے نہ بہت زیادہ لوگوں سے بات چیت کرے بلکہ اس کو چاہے کہ نفل نمازیں پڑھے' تلاوت کرے' علم دین کا درس دے' اولیاء و صالحین کے حالات سنے اور دوسروں کو سنائے' کثرت سے درود شریف پڑھے اور ذکر الہٰی کرے اور اکثر باوضو رہے اور دنیا داری کے خیالات سے دل کو پاک صاف رکھے اور بکثرت رو رو کر اور گڑ گڑا کر خدا سے دعائیں مانگے۔
حج ۹ھ میں فرض ہوا نماز و زکوٰۃ اور روزہ کی طرح حج بھی اسلام کا ایک رکن ہے اس کا فرض ہونا قطعی اور یقینی ہے جو اس کی فرضیت کا انکار کرے وہ کافر ہے اور اس کی ادائیگی میں تاخیر کرنے والا گنہگار اور اس کا ترک کرنے والا فاسق اور عذاب جہنم کا سزاوار ہے۔ اﷲتعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ:
وَاَتِمُّواالْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَلِلہِ۔
"یعنی حج و عمرہ کو اﷲ کے لئے پورا کرو۔ (پ2،البقرۃ:196)
احادیث میں حج و عمرہ کے فضائل اور اجر و ثواب کے بارے میں بڑی بڑی بشارتیں آئی ہیں مگر حج عمر میں صرف ایک بار ہی فرض ہے۔
حدیث:۔ایک حدیث میں رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے حج کیا اورحج کے درمیان رفث (فحش کلام) اور فسق نہ کیا تو وہ اس طرح گناہوں سے پاک"
صاف ہو کر لوٹا جیسے اس دن کہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا ۔
(صحیح البخاری،کتاب الحج،باب فضل الحج المبرور،رقم۱۵۲۱،ج۱،ص۵۱۲)
حدیث:۔حج و عمرہ محتاجی اور گناہوں کو اس طرح دور کرتے ہیں جیسے بھٹی لوہے اور چاندی سونے کے میل کو دور کرتی ہے اور حج مبرور کا ثواب جنت ہی ہے ۔
(سنن الترمذی،کتاب الحج،باب ماجاء فی ثواب الحج والعمرۃ، رقم۸۱۰،ج۲،ص۲۱۸)
"حج واجب ہونے کی شرطیں:۔حج واجب ہونے کی آٹھ شرطیں ہیں جب تک یہ سب نہ پائی جائیں حج فرض نہیں۔
(۱)مسلمان ہونا کافر پر حج فرض نہیں (۲)دارالحرب میں ہو تو یہ بھی ضروری ہے کہ جانتا ہو کہ حج اسلام کے ارکان میں سے ہے(۳)بالغ ہونا یعنی نابالغ پر حج فرض نہیں (۴)عاقل ہونا لہٰذا مجنون پر حج فرض نہیں(۵)آزاد ہونا یعنی لونڈی غلام پر حج فرض نہیں(۶)تندرست ہونا کہ حج کو جاسکے اس کے اعضاء سلامت ہوں' انکھیارا ہو لہٰذا اپاہج اور فالج والے اور جس کے پاؤں کٹے ہوں اور اس بوڑھے پر کہ سواری پر خود نہ بیٹھ سکتا ہو حج فرض نہیں یوں ہی اندھے پر بھی حج فرض نہیں اگرچہ پکڑ کر لے چلنے والا اسے ملے ان سب پر بھی یہ ضروری نہیں کہ کسی کو بھیج کر اپنی طرف سے حج کرادیں(۷) سفر خرچ کا مالک ہونا اور سواری کی قدرت ہونا چاہے سواری کا مالک ہو یا اس کے پاس اتنا مال ہو کہ سواری کرایہ پر لے سکے(۸)حج کا وقت یعنی حج کے مہینوں میں تمام شرائط پائے جائیں۔"
(ردالمحتارمع الدرالمختار،کتاب الحج،مطلب فیمن حج بمال حرام،ج۳،ص۵۲۱)
وجوب ادا کے شرائط:۔یہاں تک تو وجوب کے شرائط کا بیان ہے اب شرائط ادا کا بیان ہوتا ہے کہ یہ شرطیں اگر پائی جائیں تو خود حج کو جانا ضروری ہے اور اگر یہ سب
شرطیں نہ پائی جائیں تو خود حج کو جانا ضروری نہیں بلکہ دوسرے سے حج کرا سکتا ہے یا وصیت کر جائے مگر اس میں یہ بھی ضرور ہے کہ حج کرانے کے بعد آخر عمر تک خود قادر نہ ہو ورنہ خود بھی حج کرنا ضروری ہوگا وہ شرطیں یہ ہیں (۱)راستہ میں امن وامان ہونا یعنی اگر غالب گمان سلامتی کا ہو تو حج کے لئے جانا ضروری ہے اور غالب گمان یہ ہو کہ ڈاکہ یا لڑائی کی وجہ سے جان ضائع ہو جائے گی تو حج کے لئے جانا ضروری نہیں (۲)عورت کو مکہ تک جانے میں تین دن یا زیادہ کا راستہ ہو تو اس کے ہمراہ شوہر یا محرم کا ہونا شرط ہے خواہ وہ عورت جوان ہو یا بڑھیا اور اگر تین دن سے کم کا راستہ ہو تو عورت بغیر شوہر اور محرم کے بھی جاسکتی ہے مگرمحرم سے مراد وہ مرد ہے کہ جس سے ہمیشہ کے لئے اس عورت کا نکاح حرام ہو چاہے نسب کی وجہ سے نکاح حرام ہو جیسے بیٹا باپ بھائی وغیرہ یا سسرال کے رشتہ سے نکاح حرام ہو جیسے خسر یا شوہر کا بیٹا۔ عورت شوہر یا محرم جس کے ساتھ سفر کر سکتی ہے اس کا عاقل بالغ غیر فاسق ہونا شرط ہے(۳)حج کو جانے کے زمانہ میں عورت عدت میں نہ ہو چاہے وفات کی عدت ہو یا طلاق کی (۴)قید میں نہ ہو
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب المناسک،الباب الاول،ج۱،ص۲۱۸۔۲۱۹)
صحت ادا کی شرطیں:۔صحت ادا کی نو شرطیں ہیں کہ اگر یہ نہ پائی جائیں تو حج صحیح نہیں ہوگا وہ شرائط یہ ہیں (۱)مسلمان ہونا(۲)احرام ،بغیر احرام کے حج نہیں ہو سکتا(۳)حج کا وقت یعنی حج کے لئے جو وقت شریعت کی طرف سے معین ہے اس سے قبل حج کے افعال نہیں ہو سکتے (۴)افعال حج کی جگہوں پر افعال حج کرنا مثلاً طواف کی جگہ مسجد حرام ہے وقوف کی جگہ میدان عرفات و مزدلفہ ہے کنکری مارنے کی جگہ منیٰ ہے اگر یہ کام دوسری جگہ کریگا تو حج صحیح نہیں ہو گا (۵)تمیز کرنا اتنا چھوٹا بچہ کہ جس میں کسی چیز
کی تمیز ہی نہ ہو اس کا حج صحیح نہیں(۶)عقل والا ہونا کہ مجنون اور دیوانے کا حج صحیح نہیں(۷)حج کے فرائض کو ادا کرنا جس نے حج کا کوئی فرض چھوڑ دیا اس کا حج صحیح نہیں ہوا (۸)احرام کے بعد اور عرفات میں وقوف سے پہلے جماع نہ ہونا اگر ہوگا تو حج باطل ہو جائے گا(۹)جس سال احرام باندھا اسی سال حج کرنا اگر اس سال احرام باندھا اور چاہے اسی احرام سے آئندہ سال حج کرے تو یہ حج صحیح نہیں ہوگا۔
(ردالمحتار مع الدرالمختار،کتاب الحج،مطلب فیمن حج بمال حرام،ج۳،ص۵۲۲)
حج کے فرائض:۔حج میں یہ چیزیں فرض ہیں(۱)احرام کہ یہ شرط ہے (۲)وقوف عرفہ یعنی نویں ذوالحجہ کے آفتاب ڈھلنے سے دسویں کی صبح صادق سے پہلے تک کسی وقت ''عرفات'' میں ٹھہرنا (۳)طواف زیارت کا اکثر حصہ یعنی چار پھیرے یہ دونوں چیزیں یعنی عرفہ کا وقوف اور طواف زیارت حج کا رکن ہیں(۴)نیت (۵)ترتیب یعنی پہلے احرام باندھنا پھر عرفہ میں ٹھہرنا پھر طواف زیارت(۶)ہر فرض کا اپنے وقت پر ہونا (۷)مکان یعنی وقوف عرفہ میدان عرفات کی زمین میں ہونا سوا '' بطن عرنہ '' کے اور طواف کا مکان مسجد الحرام شریف ہے۔
(الدرالمختارمع ردالمحتار،کتاب الحج،مطلب فی فروض الحج وواجباتہ،ج۳،ص۵۳۶۔۵۳۷)
حج کے واجبات:۔حج کے واجبات یہ ہیں (۱)میقات سے احرام باندھنا یعنی میقات سے بغیر احرام باندھے آگے نہ گزرنا اور اگر میقات سے پہلے ہی احرام باندھ لیا جائے تو جائز ہے(۲)صفا و مروہ کے درمیان دوڑنا اس کو ''سعی'' کہتے ہیں(۳)سعی کو ''صفا'' سے شروع کرنا (۴)اگر عذر نہ ہو تو پیدل سعی کرنا (۵)دن میں میدان عرفات کے اندر وقوف کیا ہے تو اتنی دیر تک وقوف کرے کہ آفتاب غروب ہو جائے خواہ آفتاب ڈھلتے ہی شروع کیا تھا یا بعد میں غرض غروب آفتاب تک وقوف میں مشغول رہے اور اگر
رات میں میدان عرفات کے اندر وقوف کیا ہے تو اس کے لئے کسی خاص حد تک وقوف کرنا واجب نہیں مگر وہ اس واجب کا تارک ہوا کہ دن میں غروب آفتاب تک وقوف کرتا (۶)وقوف میں رات کا کچھ حصہ آ جانا (۷) عرفات سے واپسی میں امام کی پیروی کرنا یعنی جب تک امام میدان عرفات سے نہ نکلے یہ بھی نہ چلے ہاں اگر امام نے وقت سے تاخیر کی تو اسے امام سے پہلے میدان عرفات سے روانہ ہو جانا جائز ہے اور اگر زبر دست بھیڑ کی وجہ سے یا کسی دوسری ضرورت سے امام کے چلے جانے کے بعد میدان عرفات میں ٹھہرا رہا امام کے ساتھ نہ گیا جب بھی جائز ہے(۸)''مزدلفہ'' میں ٹھہرنا (۹)مغرب و عشاء کی نماز کا عشاء کے وقت میں مزدلفہ پہنچ کر پڑھنا (۱۰)تینوں جمروں پر دسویں' گیارہویں' بارھویں تینوں دن کنکریاں مارنا یعنی دسویں ذوالحجہ کو صرف جمرۃ العقبہ پر اور گیارہویں و بارھویں تینوں جمروں پر کنکریاں مارنا (۱۱))جمرۃ العقبہ کی رمی پہلے دن سر منڈانے سے پہلے ہونا (۱۲)ہر روز کی رمی کا اسی دن ہونا (۱۳)احرام کھولنے کے لئے سر منڈانا یا بال کتروانا (۱۴)یہ سر منڈانا یا بال کتروانا،ایام نحر یعنی دسویں ، گیارہویں اوربارہویں ذوالحجہ کی تاریخوں کے اندر ہوجانا اورسرمنڈانا یا بال کتروانامنٰی یعنی حرم کی حدود کے اندر ہونا (۱۵)قران یا تمتع کرنے والے کو قربانی کرنا (۱۶)اور اس قربانی کا حدود حرم اور ایام نحر میں ہونا (۱۷)طواف زیارت کا اکثر حصہ ایام نحر میں ہو جانا عرفات سے واپسی میں جو طواف کیا جاتا ہے اس کا نام ''طواف زیارت'' ہے اور اس طواف کو ''طواف افاضہ'' بھی کہتے ہیں(۱۸)طواف ''حطیم'' کے باہر ہونا (۱۹)داہنی طرف سے طواف کرنا یعنی کعبہ معظمہ طواف کرنے والے کے بائیں جانب ہو(۲۰)عذر نہ ہو تو پاؤں سے چل کر طواف کرنا ہاں عذر ہو تو سواری پر بھی طواف کرنا جائز ہے(۲۱)طواف کرنے میں باوضو اور با غسل رہنا اگر بے وضو یا جنابت کی حالت میں طواف کر لیا تو اس طواف کو دہرائے (۲۲)طواف کرتے وقت ستر چھپانا
(۲۳)طواف کے بعد دو رکعت نماز تحیۃ الطواف پڑھنا لیکن اگر نہ پڑھی تو دَم واجب نہیں(۲۴)کنکریاں مارنے اور قربانی کرنے اور طواف زیارت میں ترتیب یعنی پہلے کنکریاں مارے پھر غیرِ مفرد قربانی کرے پھر سر منڈائے پھر طواف زیارت کرے (۲۵)طواف صدر یعنی میقات کے باہر کے رہنے والوں کے لئے رخصت کا طواف کرنا (۲۶)وقوف عرفہ کے بعد سر منڈانے تک جماع نہ ہونا (۲۷)احرام کے ممنوعات مثلاً سلا ہوا کپڑا پہننے اور منہ یا سر چھپانے سے بچنا ۔
(بہار شریعت،ح۶،ص۱۶۔۱۷)
حج کی سنتیں:۔حج کی سنتیں یہ ہیں (۱)طواف قدوم یعنی میقات کے باہر سے آنے والا کہ مکہ معظمہ پہنچ کر سب میں پہلا جو طواف کرے اس کو طواف قدوم کہتے ہیں طواف قدوم مفرد اور قارن کے لئے سنت ہے متمتع کے لئے نہیں (۲) طواف کا حجر اسود سے شروع کرنا (۳)طواف قدوم یا طواف زیارت میں رمل کرنا یعنی شانہ ہلا ہلا کر اور چھوٹے چھوٹے قدم رکھتے ہوئے اکڑ کر چلنا (۴)صفا اور مروہ کے درمیان دو سبز رنگ کے نشانوں کے درمیان دوڑنا(۵)امام کا مکہ میں ساتویں ذوالحجہ کو خطبہ پڑھنا (۶)اسی طرح میدانِ عرفات میں نویں ذوالحجۃ کو خطبہ پڑھنا(۷)اسی طرح منیٰ میں گیارہویں تاریخ کو خطبہ پڑھنا (۸)آٹھویں ذوالحجہ کو فجر کے بعد مکہ سے منیٰ کے لئے روانہ ہونا تاکہ منیٰ میں ظہر عصر مغرب عشاء فجر کی پانچ نمازیں پڑھ لی جائیں (۹)ذوالحجہ کی نویں رات منیٰ میں گزارنا (۱۰)آفتاب نکلنے کے بعد منیٰ سے عرفات کو روانہ ہونا (۱۱)عرفات میں ٹھہرنے کے لئے غسل کر لینا (۱۲)عرفات سے واپسی میں مزدلفہ کے اندر رات کو رہنا (۱۳)اور آفتاب نکلنے سے پہلے یہاں سے منٰی کو چلا جانا (۱۴)دس اور گیارہ کے بعد جو دونوں راتیں ہیں ان کو منیٰ میں گزارنا اور اگر تیر ہویں کو
بھی منیٰ میں رہا تو بارہویں کے بعد کی رات بھی منیٰ میں رہے(۱۵)''ابطح'' یعنی وادی محصَّب میں اترنا اگرچہ تھوڑی ہی دیر کے لئے ہو ۔
(بہار شریعت،ح۶،ص۱۸)
ضروری تنبیہ:۔حج کے فرائض میں سے اگر ایک فرض بھی چھوٹ گیا تو حج ہو گا ہی نہیں اور حج کے واجبات میں سے اگر کسی واجب کو چھوڑدیا خواہ قصداً چھوڑا ہو یا سہواً تو اس پر ایک دَم واجب ہے اور اس کا حج باطل نہیں ہوا ہاں البتہ بعض واجب ایسے بھی ہیں کہ ان کے چھوڑنے سے قربانی لازم نہیں ہوتی مثلاً طواف کے بعد کی دو رکعتیں تحیۃ الطواف واجب ہیں۔لیکن اگر کوئی چھوڑ دے تو اس پر قربانی لازم نہیں اور حج کی سنتوں میں سے اگر کوئی سنت چھوڑ دے تو اس سے نہ تو حج باطل ہوگانہ قربانی لازم ہوگی ہاں البتہ حج کے ثواب میں کچھ کمی آجائے گی۔
(ردالمحتار،کتاب الحج،مطلب فی فروض الحج ،ج۳،ص۵۴۲)
"سفر حج و زیارت کے آداب:۔ہر حاجی کو چاہے کہ روانگی سے پہلے ضروریات سفر پرانے حاجیوں سے معلوم کرکے مہیا کرے اور مندرجہ ذیل آداب و ہدایات کا خاص طور سے خیال رکھے۔
(۱)سب سے پہلے نیت کو درست کرے کہ اس سفر سے مقصود صرف اﷲعزوجل و رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم ہوں اس کے سوا نا موری یا شہرت یا سیرو تفریح یا تجارت وغیرہ کا ہرگز ہرگز دل میں خیال نہ لائے۔
(۲)نماز روزہ زکوٰۃ جتنی عبادات اس کے ذمہ واجب ہوں سب کو ادا کرے اور توبہ کرے اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا پکاارادہ کرے اسی طرح اس کے اوپر جن جن لوگوں کا"
"قرض ہو سب کا قرض ادا کرے جن جن لوگوں کی امانتیں ہوں ان کی امانتوں کو ادا کرے جن جن لوگوں کے حقوق اس کے ذمے ہوں سب سے حقوق معاف کرائے یا ادا کرے جن جن لوگوں پر کوئی زیادتی کی ہو ان سے معاف کرائے جن جن لوگوں کی اجازت کے بغیر سفر مکروہ ہے جیسے ماں' باپ' شوہر' ان کو رضا مند کرکے اجازت حاصل کرے ان تمام چیزوں سے فارغ اور سبکدوش ہو کر سفر حج و زیارت کے لئے روانہ ہو۔
(۳)عورت کے ساتھ جب تک کہ اس کا شوہر یا بالغ محرم قابل اطمینان نہ ہو جن سے اس عورت کا نکاح ہمیشہ کے لئے حرام ہو اس وقت تک عورت کے لئے سفر حرام ہے عورت اگر بلا شوہر یا بغیر محرم کے حج کرے گی تو اس کا حج ہو جائے گا مگر ہر ہر قدم پر گناہ لکھا جائے گا۔"
(کتاب المناسک ملا علی قاری،کتاب الادعیۃ الحج والعمرۃ، فصل فی الوداع وفصل فی الرکوب،ص۵۴۵)
" (۴)رقم یا تو شہ جو کچھ ساتھ لے چلے مال حلال سے لے ورنہ حج مقبول ہونے کی امید نہیں اگر چہ فرض ادا ہو جائے گا اگر اپنے مال میں کچھ شبہ ہو تو چاہے کہ کسی سے قرض لے کر حج کو جائے اور وہ قرض اپنے مال سے ادا کرے رقم اور تو شہ اپنی حاجت سے کچھ زیادہ ہی لے تاکہ رفیقوں کی مدد اور فقیروں کو صدقہ دیتا چلے کہ یہ حج مبرور کی نشانی ہے۔
(۵)چونکہ سفر کرنے والے مختلف حیثیتوں کے لوگ ہوتے ہیں اس لئے ہر شخص کو چاہے کہ اپنی ضرورت کے مطابق سفر کا سامان اپنے ساتھ لے جائے تاکہ سفر میں تکلیفوں کا سامنا نہ کرنا پڑے سب حاجیوں کے لئے سامانوں کی یکساں مقدار معین نہیں کی جا سکتی پھر بھی ایک اوسط درجہ کے حاجی کے لئے سفر حج و زیارت میں مندرجہ ذیل سامان کا ساتھ لے لینا آرام و راحت کا باعث ہوگا۔"
گرمی اور سردی کے موسموں کے لحاظ سے ایک ہلکا بستر جس میں ایک دری دو چادریں ایک اونی شال ایک تکیہ ہو ایک بکس جس میں کپڑے اور دوسرے سامان رکھے جا سکیں۔ ایک ٹین یا لکڑی کا صندوق جس میں متفرق سامان کو رکھا جاسکے۔ ایک بوری کا تھیلا جس میں سب برتنوں کو رکھا جاسکے۔ برتنوں میں ایک بڑی بالٹی' ایک لوٹا' ایک گلاس' چھوٹی بڑی چار پلیٹیں' دو پیالے تام چینی کے 'اگالدان' چھوٹی بڑی دو دیگچیاں' ایک بڑا اور دو تین چھوٹے بڑے چمچے اگر چند قسم کے کھانوں کا عادی ہو تو اسی انداز سے کھانے پکانے کے برتن ساتھ لے جائے ایک برتن مٹی کا بھی ضرور رکھ لے یا مٹی اور پتھر کی کوئی چیز رکھ لے تاکہ اگر جہاز میں بیمار ہوگیا اور تیمم کی ضرورت پڑی اس پر تیمم کر سکے پانی رکھنے کیلے ٹین کے پیپے بھی لانے چاہیں کہ جہاز پر کام دیں گے اور جس منزل یا مکان میں ٹھہرو گے وہاں بھی اس کی ضرورت پڑے گی اسٹوو اور کوئلہ والا چولہا بھی سفر میں ساتھ ہونا بہت ضروری ہے پہننے کے کپڑوں میں پانچ کرتے' پانچ پاجامے' پانچ بنڈیاں ' دو تہبند' دو صدریاں' ایک عمامہ' چار ٹوپیاں' ہاتھ منہ پونچھنے کے دو رومال' دو تولئے' احرام کی چادریں' کفن کا کپڑا ساتھ میں رکھیں اور بہتر یہ ہے کہ احرام کے دو جوڑے ہوں کہ اگر میلا ہوا تو بدل سکیں ایک بھیڑ کے بالوں کا دیسی کمبل یا موٹے پلاسٹک کا دو گز لمبا اور ڈیڑھ گز چوڑا ٹکڑا ساتھ ہونا بہت ہی آرام دہ ہے کہ جہاں چاہو بچھا کر لیٹ بیٹھ جاؤ پھر اٹھا لو مختلف سامان میں نزلہ زکام اور قبض و پیچش اور قے دست و بدہضمی کی مجرب دوائیں ضرور ساتھ میں رکھ لو کیونکہ کم ہی حجاج ان امراض سے محفوظ رہتے ہیں اور اگر تم کو خود ضرورت نہ پڑی تو کسی ضرورت مند کو تم نے دے دی تو وہ اس کسمپرسی کی حالت میں تمہارے لئے کتنی دعائیں دے گا آئینہ' سرمہ' کنگھا' مسواک ساتھ رکھو کہ یہ سنت ہے ان کے علاوہ ایک چھری' ایک چاقو' دو ایک
"بوریاں' ستلی' سوا' سوئی' دھاگہ' حج و زیارت وغیرہ کے مسائل کی کچھ کتابیں' چند قلم' پنسل' دوات' سادی کاپیاں' قرآن مجید' چھڑی' چھتری' ٹارچ' کچھ موم بتیاں' کچھ دیا سلائیاں بھی ضرور لے لو کچھ پھٹے پرانے کپڑے بھی ضرور ساتھ رکھو کہ ان کو پھاڑ پھاڑ کر صافی بنا سکو اور جہاز پر قے وغیرہ صاف کرنے اور استنجا وغیرہ سکھانے میں کام دیں گے کھانے پینے کی چیزوں کو بیان کرنےکی حاجت نہیں کیونکہ اس معاملہ میں لوگوں کی حالتیں اور ان کے کھانے پینے کی عادتیں اور ذوق مختلف ہیں اور ہر شخص جانتا ہے کہ ہمیں کن کن چیزوں کی ضرورت ہوگی اور ہم کس طرح گزر بسر کر سکتے ہیں اس لئے ہر شخص کو چاہے کہ گیہوں' چاول' دال' گھی' تیل' مسالے وغیرہ اپنے ذوق اور ضرورت کے مطابق لے لے اچار چٹنی اگر ساتھ ہو یا کاغذی لیموں کچھ لے لے تو جہاز پر ان چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے چائے اور شکر بھی ضرور لے لے کہ سمندر کی مرطوب ہوا میں چائے کی ضرورت بہت زیادہ پڑتی ہے سمندری سفر میں منہ کا ذائقہ بہت خراب رہتا ہے اور اکثر سوندھی چیزیں کھانے کو دل چاہتا ہے اس لئے کچھ پا پڑ یا نمکین دال' سویاں' بھنے ہوئے چنے رکھ لومگر بند ڈبوں میں رکھو ورنہ سمندری ہوا سے بدمزہ ہوجائیں گے۔ عرب میں سگریٹ بہت ملتاہے۔ مگر بیڑی اور پان بہت کم اور بے حد گراں ملتا ہے اس لئے ہندوستان ہی سے اس کا انتظام کر لینا چاہے ضرورت کی تمام چیزیں ساتھ ہوں یہ بہت اچھا ہے لیکن یاد رکھو کہ سفر میں جس قدر کم سے کم سامان ہوگا اتنا ہی زیادہ آرام ملے گا سامان کی کثرت بعض جگہوں پر بہت بڑی مصیبت بن جاتی ہے اس کا خیال رکھو اپنے ہر سامان کے بنڈل پر اپنا اور اپنے معلم کا نام ضرور لکھ دو اس سے جدہ میں سامان تلاش کرتے وقت بڑی آسانی ہوتی ہے۔
حاجی گھر سے نکلتے وقت:۔(۱) چلتے وقت سب عزیزوں اور دوستوں"
سے ملاقات کرے اور اپنے قصور معاف کرائے اور اپنے لئے سب سے دعائیں کرائے کیونکہ دوسروں کی دعائیں قبول ہونے کی زیادہ امید ہے اور یہ معلوم نہیں کہ کس کی دعا مقبول ہوگی اس لئے سب سے دعا کرائے اور لوگ حاجی یا کسی مسافر کو رخصت کرتے وقت یہ دعا پڑھیں۔
اَسْتَوْدِعُ اللہَ دِیْنَکَ وَاَمَانَتَکَ وَ خَوَاتِیْمَ عَمَلِکَ
" اور حاجی سب لوگوں کے دین اور جان مال اولاد اور سلامتی و تندرستی کو خدا کے سپرد کرے۔
(۲)سفر کا لباس پہن کر گھر میں چار رکعت نفل الحمد اور چاروں قل سے پڑھ کر باہر نکلے یہ چاروں رکعتیں واپس آنے تک اس کے اہل و مال کی نگہبانی کریں گی نماز کے بعد یہ دعا پڑھے۔"
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ وَّعَثَاءِ السَّفْرِ وَکَاٰ بَۃِ الْمُنْقَلَبِ وَالْحَوْرِ بَعْدَ اْلکَوْرِ وَسُوْءِ الْمَنْظَرِ فِی الْاَھْل وَالْمَالِ وَالْوَلَدِ ۔
پھر کچھ صدقہ کرے اور گھر میں سے نکلے اور دروازہ سے باہر نکلتے ہی کچھ صدقہ کرے اور گھر میں سے نکلے تو یہ پڑھے
اِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لَرَآدُّکَ اِلٰی مَعَادٍ ہ
ان شآء اﷲ تعالیٰ خیرو عافیت کے ساتھ مکان پر واپس آئے گا ۔
(بہارشریعت،ح۶،ص۲۴)
"گھر سے نکلتے وقت خوشی خوشی باہر نکلے۔
(۳)سب سے رخصت ہونے کے بعد اپنی مسجد سے رخصت ہو اور اگر مکروہ وقت نہ ہو تو"
دو رکعت نفل پڑھے پھر ریل وغیرہ جس سواری پر سوار ہو بِسْمِ اﷲ تین بار پڑھے پھر اَللہُ اَکْبَرْ اور اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ اور سُبْحَانَ اﷲ ہر ایک تین تین بار اور لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ ایک بار پڑھے پھر یہ پڑھے
سُبْحٰنَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا ھٰذَا وَمَاکُنَّا لہٗ مُقْرِ نِیْنَ وَاِنَّآ اِلٰی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ ہ
"سواری کے شرو فساد سے محفوظ رہے گا۔
حاجی بمبئی میں:۔ٹکٹ وغیرہ لینے اور جہاز کے انتظار میں ہر حاجی کو کم از کم چار پانچ دن بمبئی میں مسافر خانہ حاجی صابو صدیق یا مسافر خانہ واڑی بندر میں ٹھہرنا پڑتا ہے یہاں خاص طور پر یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ۔
(۱)مسافر خانہ میں مختلف صوبوں اور مختلف مزاجوں کے حاجی اور ان کو رخصت کرنے والوں کا مجمع ہوتا ہے اور چوریاں بہت ہوتی ہیں اس لئے اپنے سامان خصوصاً رقموں کی حفاظت کا خاص طور پر دھیان رکھے بکسوں میں ہر وقت تالا بند رکھے اور جب باہر نکلے تو اپنے ساتھیوں کو سامان کی حفاظت سونپ کر نکلے۔
(۲)ٹکٹ وغیرہ خریدنے کے لئے ہر گز ہرگز کسی کے ہاتھ میں رقم نہ دے بلکہ خود لائن میں کھڑے ہو کر رقم جمع کرائے اور ٹکٹ خریدے۔
(۳)بمبئی شہر میں بہت زیادہ ادھر ادھر نہ پھرے کہ جیب کٹنے کے علاوہ سواریوں کی بھیڑ بھاڑ سے ایکسیڈنٹ کا ہر وقت خطرہ رہتا ہے اس لئے سب کو اور خاص کر دیہات والوں کو تو مسافر خانہ سے باہر بہت کم نکلنا چاہے اور اپنے سامان کے پاس ہی رہناچاہے۔
(۴)اپنے قلی کا نمبر ہر وقت یاد رکھنا چاہے اور جہاز پر سوار ہونے کے لئے بندر گاہ کو جاتے ہوئے اپنے قلی کے سوا کسی کو اپنا سامان سپرد نہیں کرنا چاہے اور رقم اور پاسپورٹ"
"ٹکٹ وغیرہ کو بہر حال اپنے پاس رکھنا چاہے۔
حاجی جہاز پر:۔ہوائی جہاز کے مسافروں کو چاہے کہ بمبئی ہی میں احرام باندھ لیں اور جہاز پر سواری کی دعا پڑھ کر سوارہوں اور راستہ بھر لبیک کی دعا پڑھتے رہیں چند گھنٹوں میں یہ لوگ جدہ میں زمین پر اتر جائیں گے مگر سمندری جہاز والوں کو ایک ہفتہ سمندر ہی میں رہنا ہے اس لئے ان لوگوں کو مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھنا چاہے۔
(۱)جہاز میں مختلف صوبوں کے رہنے والوں اور مختلف زبان بولنے والوں کا مجمع ہوتا ہے ایک دوسرے کے مزاج دان نہ ہونے سے اکثر جھگڑے تکرار کی نوبت آ جاتی ہے خصوصاً میٹھا پانی لینے کے وقت لائن لگانے میں اکثر گالی گلوچ بلکہ مار پیٹ ہو جایا کرتی ہے اس لئے جہاز پر بہت صبر و برداشت کے ساتھ رہنے کی ضرورت ہے حج کے سفر میں جھگڑا اور گالی گلوچ کرنا سخت حرام اور بڑا گناہ ہے۔
(۲)جہاز پر سوار ہونے کے بعد اپنا سب سامان اپنی سیٹ کے نیچے ترتیب سے رکھ کر جب مطمئن ہو جائیں تو وقت ضائع نہ کریں بلکہ حج میں مختلف جگہ پڑھنے کی دعائیں زبانی یاد کرنے میں مشغول ہو جائیں اور انتہائی کوشش کریں کہ ایک ختم قرآن مجید کی تلاوت سمندر میں پوری کرلیں اور نماز باجماعت کی ہر جگہ خاص طور پر پابندی رکھیں اور فضول باتیں خاص کر جھگڑے تکرار سے انتہائی پرہیز رکھیں۔
حاجی جدہ میں:۔جدہ میں جہاز سے اترتے وقت یہ بہت ضروری ہے کہ اپنے تمام سامان کو اچھی طرح باندھ کر ایک جگہ اپنی سیٹ کے اوپر رکھ دیں بکسوں کو رسیوں سے جکڑ دیں اور سامان کی بوری کو سی دیں تاکہ جہاز سے اتارتے وقت سامان کے ٹوٹنے پھوٹنے اور بکھر جانے کا خطرہ نہ رہے پھر صرف پاسپورٹ اور رقم ساتھ لے کر جہاز سے اتر"
"جائیں پاسپورٹ کی چیکنگ اورمعائنہ کے بعد سب سے بڑا اورمشکل کام سامان کے ڈھیر میں سے اپنے سامان کو تلاش کرنا ہے اس سلسلے میں حاجیوں کو بے حد پریشانی ہوتی ہے اور لوگ اپنے اپنے سامان کی تلاش میں دیوانہ وار دوڑتے اور بھاگتے پھرتے ہیں اس موقع پر نہایت ہی صبر و سکون چاہے اور سامان کی تلاش میں جلدی نہیں کرنی چاہے بلکہ تھوڑی دیر سکون کے ساتھ بیٹھ جانا چاہے جب لوگ اپنے اپنے سامان کو اٹھا لیں گے اور سامان تھوڑے رہ جائیں تو اپنے سامان کو تلاش کرنا آسان ہو جائے گا اطمینان رکھیں کہ کوئی دوسرا آپ کے سامان کو نہیں اٹھائے گا آخر تک آپ کا سامان وہیں پڑا رہے گا اور اگر خدا نخواستہ آپ کا سامان وہاں نہ ملے تو بھی گھبرانے کی ضرورت نہیں بلکہ اپنے معلم کے وکیل کو ہمراہ لے کر مدینۃ الحجاج کی مسجد کے سامنے والے میدان میں اپنے سامان کو تلاش کیجیے وہاں ملے گا وہاں کا دستور ہے کہ حاجیوں کا جو سامان چھوٹ جاتا ہے ٹرک والے اس کو لاد کر مسجد کے میدان میں ڈال دیتے ہیں ہاں اس کا خیال رکھئے کہ آپ کے ہر سامان پر آپ کااورآپ کے معلم کا نام ضرور لکھا ہونا چاہے یہ سعودی گورنمنٹ کا فرض ہے کہ ہر حاجی کا چھوٹا ہوا سامان اس کے معلم کے مکان پر پہنچائے۔
احرام:۔جب جدہ دو تین منزل رہ جاتا ہے تو جہاز والے سیٹی بجا کر احرام باندھنے کی اطلاع دیتے ہیں جب وہ جگہ آجائے تو غسل کریں اور مسواک کے ساتھ وضو کریں اور ایک نئی یا دھلی چادر کا احرام باندھ لیں اور ایسے ہی ایک چادر اوڑھ لیں اور احرام کی نیت سے دو رکعت نماز پڑھیں پہلی رکعت میں الحمد کے بعد قل یا ایھاالکفرون اور دوسری میں قل ھو اﷲپڑھیں نماز سے فارغ ہو کر احرام باندھنے کی دعا پڑھیں۔"
(بہارشریعت،ح۶،ص۳۸)
ضروری ہدایت:۔یاد رکھو کہ حج کا احرام تین طرح کا ہوتا ہے ایک یہ کہ خالی حج کرے اس حاجی کو ''مفرد'' کہتے ہیں اور دوسرا یہ کہ یہاں سے فقط عمرہ کی نیت کرے اور عمرہ ادا کرکے مکہ مکرمہ میں حج کا احرام باندھے ایسے حاجی کو ''متمتع'' کہتے ہیں تیسرا یہ کہ حج و عمرہ دونوں کے لئے یہیں سے نیت کرے یہ سب سے افضل ہے اس کو قران کہتے ہیں اور ایسے حاجی کو قارن کہا جاتا ہے
(بہار شریعت،ح۶،ص۳۸)
"مگر ان تینوں قسموں میں تمتع زیادہ آسان ہے اور اکثر ہندوستانی لوگ یہی احرام باندھتے ہیں اس لئے ہم یہی آسان طریقہ لکھتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ۔
دو رکعت نماز سے فارغ ہو کر یہ دعا پڑھے۔"
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اُرِیْدُ الْعُمْرَۃَ فَیَسِّرْھَالِیْ وَتَقَبَّلْھَا مِنِّیْ نَوَیْتُ الْعُمْرَۃَ وَاَحْرَ مْتُ بِھَا مُخْلِصاً لِلّٰہِ تَعَالٰی۔
" اے اﷲ میں عمرہ کا ارادہ کرتا ہوں اس کو تو میرے لئے آسان کردے اور میری طرف سے قبول فرمالے میں نے عمرہ کی نیت کی اور اس کا احرام باندھا خالص اﷲ تعالیٰ کے لئے۔
اس نیت کی دعا کے بعد بلند آواز سے لبیک پڑھے لبیک یہ ہے۔"
لَبَّیْکَ ؕ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ ؕ لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ ؕ اِنَّ الْحَمْدَ وَ النِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ ؕ لَا شَرِیْکَ لَکَ ؕ
یعنی میں تیرے پاس حاضر ہو ااے اﷲ! میں تیرے حضور حاضر ہوا میں تیرے حضور حاضر ہوا تیرا کوئی شریک نہیں میں تیرے حضور حاضر ہوا بے شک تعریف اور نعمت اور بادشاہی تیرے ہی لئے ہے تیرا کوئی شریک نہیں ہے۔
جہاں جہاں دعا میں وقف کی علامت (ط) بنی ہے وہاں وقف کر لے اور لبیک کی دعا تین مرتبہ پڑھے پھر درود شریف پڑھے پھر دل لگا کر اور ہاتھ اٹھا کر دعا مانگے اور یہ دعا پڑھے۔
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ رِضَاکَ وَالْجَنَّۃَ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ غَضَبِکَ وَالنَّارِ۔
" اے اﷲ میں تیری رضا اور جنت کا سائل ہوں اور تیرے غضب اور جہنم سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔
لبیک پڑھ لینے کے بعد احرام بندھ گیا اب جتنی چیزیں احرام کی حالت میں منع ہیں مثلاً سلا ہوا کپڑا پہننا' سر چھپانا' شکار کرنا' خوشبو لگانا' حجامت بنوانا' جوں مارنا وغیرہ ان سب چیزوں سے بچے اور اٹھتے بیٹھتے ہر وقت خاص کر سحر کے وقت لبیک برابر بلند آواز سے پڑھتا رہے۔
طواف کعبہ مکرمہ:۔ جب مکہ مکرمہ میں پہنچ جائے تو سب سے پہلے مسجد حرام میں جائے اگر وضو نہ ہو تو وضو کرے اور طواف شروع کرنے سے پہلے مرد اپنی چادر کو داہنی بغل کے نیچے سے نکالے کہ داہنا مونڈھا کھلا رہے اور چادر کے دونوں کنارے بائیں مونڈھے پر نکال دے اب کعبہ کی طرف منہ کر کے حجر اسود کی دا ہنی طرف رکن یمانی کی جانب حجر اسود کے قریب یوں کھڑا ہوکہ پوراحجر اسود اپنے داہنے ہاتھ کے سامنے رہے پھر طواف کی نیت کرے اور نیت یہ ہے۔"
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اُرِیْدُ طَوَافَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ فَیَسِّرْہُ لِیْ وَتَقَبَّلْہُ مِنِّیْ۔
یعنی اے اﷲ! میں تیرے عزت والے گھر کے طواف کا ارادہ کرتا ہوں لہٰذا تو اس کو میرے لئے آسان کردے اور اس کو میری طرف سے قبول فرمالے۔
اس نیت کے بعد کعبہ کو منہ کئے اپنی دا ہنی طرف چلو جب حجراسود بالکل تمہارے منہ کے سامنے ہو (اور یہ بات ایک ذرا حرکت کرنے میں حاصل ہو جائے گی کیونکہ پہلے حجراسود داہنے ہاتھ کے سامنے تھا اب ذرا سا ہٹ جانے سے منہ کے سامنے ہو جائے گا) اب کانوں تک دونوں ہاتھ اس طرح اٹھاؤ کہ ہتھیلیاں حجراسود کی طرف رہیں اور کہو:
بِسْمِ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ ؕ وَاللہُ اَکْبَرُ وَالصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اللہِ ؕ
اگر آسانی سے ہوسکے تو حجر اسود پر دونوں ہتھیلیاں اور ان کے بیچ میں منہ رکھ کر یوں بوسہ دے کہ آواز نہ پیدا ہو تین بار ایسا ہی کرو اور اگر بھیڑ کی وجہ سے اس طرح بوسہ لینا نصیب نہ ہوتو ہاتھ رکھ کرہاتھ کو چوم لو یا اس پر چھَڑی رکھ کر چھَڑی کو چوم لو یہ بھی نہ ہو سکے تو ہاتھ سے اس کی طرف اشارہ کر کے اپنا ہاتھ چوم لو اب طواف کے لئے دروازہ کعبہ کی طرف بڑھو جب حجراسود کے سامنے سے گزر جاؤ سیدھے ہو لو خانہ کعبہ کو اپنے بائیں ہاتھ پر کرکے اس طرح چلو کہ کسی کو ایذا مت دو پہلے تین پھیروں میں مرد کو رمل کرنا چاہے یعنی چھوٹے چھوٹے قدم رکھتا شانے ہلاتا ہوا بہادروں کی طرح چلے نہ کودتے ہوئے نہ دوڑتے ہوئے اور جب حجر اسود کے پاس پہنچے تو بوسہ دے یا اس کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرکے ہاتھ کوچوم لے دعائیں پڑھتے ہوئے طواف کرے معلم دعائیں پڑھاتے ہوئے طواف کراتے ہیں لیکن ان دعاؤں کا پڑھنا فرض یا واجب نہیں اگر یہ دعائیں یاد نہ ہوں تو درود شریف پڑھتے ہوئے طواف کے ساتوں چکر پورے کرے جب ساتوں پھیرے پورے ہوجائیں تو پھر حجراسود کو بوسہ دے یا اس کی طرف ہاتھ بڑھا کر چوم لے حجر اسود کو پہلی بار جب چوما اس وقت سے لبیک پڑھنا بند کردے طواف کے بعد مقام ابراہیم پر آکر یہ آیت پڑھو
وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرَاھِیْمَ مُصَلّٰی۔
(پ۲،البقرۃ:۱۲۵)
پھر دو رکعت نماز پڑھو پہلی رکعت میں قل یا یھاالکفرون اور دوسری رکعت میں قل ھواﷲ پڑھو یہ نماز واجب ہے اور اس کا نام ''تحیۃ الطواف''ہے نماز کے بعد یہ دعا نہایت روتے گڑگڑاتے ہوئے ہاتھ اٹھا کر پڑھے۔
اَللّٰھُمَّ اِنّکَ تَعْلَمُ سِرِّیْ وَعَلَا نِیَتِیْ فَاقْبِلْ مَعْذِرَتِیْ وَتَعْلَمُ حَاجَتِیْ فَاَعْطِنِیْ سُؤَالِیْ وَتَعْلَمُ مَافِیْ نَفْسِیْ فَاغْفِرْلِیْ ذُنُوْبِیْ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ اِیْمَانًا یُّبَا شِرُ قَلْبِیْ وَیَقِیْناً صَادِ قاً حَتّٰی اَعْلَمَ اَنَّہٗ لَا یُصِیْبُنِیْ اِلَّا مَا کَتَبْتَ لِیْ وَرِضاً مِّنْکَ بِمَا قَسَمْتَ لِیْ یٰاَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ۔
" اے اﷲ! تو میرے پوشیدہ اور ظاہر کو جانتا ہے تو میری معذرت کو قبول کر اور تو میری حاجت کو جانتا ہے میرا سوال مجھ کو عطا کر اور جو کچھ میرے نفس میں ہے تو اسے جانتا ہے تو میرے گناہوں کو بخش دے اے اﷲ! میں تجھ سے اس ایمان کا سوال کرتا ہوں جو میرے قلب میں سرایت کر جائے اور یقین صادق مانگتا ہوں تاکہ میں جان لوں کہ مجھے وہی پہنچے گا جو تو نے میرے لئے لکھا ہے اور جو کچھ تو نے میری قسمت میں کیا ہے اس پر راضی رہوں اے سب مہربانوں سے زیادہ مہربان۔
نماز اور اس دعا سے فارغ ہو کر ملتزم کے پاس جائے اور اپنا سینہ اور پیٹ اور رخساروں کو دیوار کعبہ سے ملے اور دونوں ہاتھ سر سے اونچے کرکے دیوار پر پھلائے یا داہنا ہاتھ دروازہ کعبہ اور بایا ں ہاتھ حجراسود کی طرف پھیلائے اور یہ دعا خوب رو رو کر اور گڑگڑا کر مانگے۔"
یَا وَاجِدُ یَا مَاجِدُ لَاتَزِلُ عَنِّیْ نِعْمَۃً اَنْعَمْتَھَا عَلَیَّ۔
"اے قدرت والے اے بزرگ تو نے مجھے جو نعمت دی ہے اس کو مجھ سے زائل نہ کر۔
اس کے علاوہ اور دوسری دعائیں بھی یہاں مانگو کہ یہ مقبولیت کی جگہ ہے اور مقبولیت کا وقت بھی ہے اس کے بعد زمزم شریف کے نلوں کے پاس آؤ اور کھڑے ہو کر ادب کے ساتھ کعبہ مکرمہ کی طرف منہ کرکے تین سانس میں خوب بھر پیٹ پیو ہر بار بسم اﷲ سے شروع کرو اور الحمدﷲ پر ختم کرو اور ہر بار نگاہ اٹھا کر کعبہ مکرمہ کو دیکھو بچا ہوا پانی اپنے سر اور بدن پر ڈال لو زمزم شریف پینے کی دعا یہ ہے۔"
دعائے زمزم
اَللّٰھُمَّ اِنِّیۤ اَسْئَلُکَ عِلْماً نَا فِعاً وَّرِزْقاً وَّاسِعاً وَّ عَمَلاً مُّتَقَبَّلاً وَّشِفَاءً مِّنْ کُلِّ دَآءٍ ۔
" اے اﷲ! میں تجھ سے علم نافع اور کشادہ روزی اور عمل مقبول اور ہر بیماری سے شفا کا سوال کرتا ہوں۔
پھر حجراسود کے پاس آکر اس کو چومو اور"
اَللہُ اَکْبَرُ لَآاِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ
"اور درود شریف پڑھتے رہو۔
صفا و مروہ کی سعی:۔پھرباب الصفا سے نکل کر صفا پہاڑی کی جانب چلو اور اس پر چڑھتے ہوئے یہ پڑھو۔"
اَبْدَءُ بِمَابَدَأَ اللہُ بِہٖ اِنَّ الصَّفَاوَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَائِرِاللہِ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِاعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِھِمَا وَمَنْ تَطَوَّ عَ خَیْرًا فَاِنَّ اﷲَشَاکِرٌ عَلِیْمٌ O
میں اس سے شروع کرتا ہوں جن کو اﷲ نے پہلے ذکر کیا بیشک صفا و مروہ اﷲکی
"نشانیوں سے ہیں جس نے حج یا عمرہ کیا اس پر ان کے طواف میں گناہ نہیں اور جو شخص نیک کام کرے تو بے شک اﷲ بدلہ دینے والا جاننے والا ہے۔
پھر کعبہ معظمہ کی طرف منہ کر کے دونوں ہاتھ کندھوں تک دعا کی طرح پھیلے ہوئے اٹھاؤ اور تھوڑی دیر تسبیح و تہلیل و تکبیر اور درود شریف پڑھ کر اپنے لئے اور دوستوں کے لئے دعا مانگو کہ یہاں دعا قبول ہوتی ہے۔
پھر اس طرح سعی کی نیت کرو۔"
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اُرِیْدُ السَّعْیَ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ فَیَسِّرْہُ لِیْ وَتَقَبَّلْہُ مِنِّیْ
" یعنی اے اﷲ میں صفا اور مروہ کے درمیان سعی کا ارادہ کرتا ہوں اس کو تو میرے لئے آسان فرمادے اور اس کو تو میرے طرف سے قبول فرمالے۔
پھر صفا سے اتر کر مروہ کو چلو اور درود شریف اور دعاؤں کا پڑھنا برابر جاری رکھو جب سبز رنگ کا نشان آئے تو یہاں سے دوڑنا شروع کرو یہاں تک کہ دوسرے سبز نشان سے آگے نکل جاؤ اور مروہ تک پہنچویہاں بھی تکبیر،تسبیح اورحمد وثنا اوردرودشریف پڑھو اوریہ دعا مانگو ، یہ ایک پھیرا ہوا پھر یہاں سے صفا کو چلو اور سبز نشان کے پاس پہنچو تو دوڑو اور دوسرے نشان سے آگے نکل جاؤ یہاں تک کہ صفا پر پہنچ کر بدستور سابق دعائیں مانگو اسی طرح سے صفا سے مروہ اور مروہ سے صفا تک اور صفا سے مروہ تک آؤ پھر جاؤ یہاں تک کہ ساتواں پھیرا مروہ پر ختم ہو ہر پھیرے میں اسی طرح کرو اور دونوں سبز رنگ کے نشانوں کے درمیان ہر پھیرے میں دوڑ کر چلتے رہو طواف کعبہ اور سعی کرلینے سے تمہارا عمرہ جس کا احرام باندھ کر آئے ادا ہوگیا اب سرمنڈا کر یا بال کٹوا کر احرام اتار لو اور غسل کرکے سلے ہوئے کپڑے پہن لو اور بلا احرام کے مکہ مکرمہ میں مقیم رہو اور روزانہ جس قدر زیادہ سے"
"زیادہ ہو سکے نفلی طواف کرتے رہو۔
منیٰ کو روانگی:۔پھر آٹھویں ذوالحجہ کو حج کا احرام باندھو اور ایک نفلی طواف میں رمل اور صفا مروہ کی سعی کر لو اور مسجد حرام میں دو رکعت سنت احرام کی نیت سے پڑھو اس کے بعد حج کی نیت کرو اور لبیک پڑھو اور جب آفتاب نکل آئے تو منیٰ کو چلو اگر ہو سکے توپیدل جاؤ کہ جب تک مکہ مکرمہ پلٹ کر آؤ گے ہر قدم پر سات کروڑ نیکیاں لکھی جائیں گی یہ نیکیاں تقریباً اٹھتر کھرب چالیس ارب بنتی ہیں راستہ بھر لبیک اور حمد و ثنا و درود شریف پڑھتے رہو جب منیٰ نظر آئے تو یہ دعا پڑھو۔"
اَللّٰھُمَّ ھٰذَا مِنیً فَامْنُنْ عَلَیَّ بِمَا مَنَنْتَ بِہٖ عَلٰی اَوْلِیَاءِ کَ۔
" الہٰی یہ منیٰ ہے مجھ پر تو وہ احسان کر جو اپنے اولیاء پر تو نے کیا ہے۔
منیٰ میں رات بھر ٹھہرو اور ظہر سے نویں ذوالحجہ کی فجر تک پانچ نمازیں یہاں کی ''مسجد خیف'' میں پڑھو اور بار بار لبیک بلند آواز سے پڑھتے رہو اور جس قدر ہو سکے رو رو کر دعائیں مانگو۔
میدان عرفات میں:۔نویں ذوالحجہ کو آفتاب طلوع ہوجانے کے بعد اب میدان عرفات کو چلو دل کو خیال غیر سے پاک صاف کر کے اور یہ سوچتے ہوئے نکلو کہ آج وہ دن ہے کہ بہت سے خوش بختوں کا حج مقبول ہوگا اور بہت سے لوگ ان کے صدقے میں بخشے جائیں گے جو آج کے دن محروم رہا وہ واقعی محروم ہے راستہ بھر لبیک بے شمار بار پڑھتے چلو جب ''جبل رحمت'' پر نظر پڑے اور زیادہ گڑگڑا کر بلند آواز سے لبیک پڑھو اور اپنی دنیاوی و دینی مرادوں اور اپنے حج کی مقبولیت کے لئے دعائیں مانگتے میدان عرفات میں پہنچ کر اپنے معلم کے خیمہ میں اتر کر ٹھہرو دوپہر تک زیادہ وقت رونے گڑگڑانے میں اور صدقہ و"
خیرات کرنے میں گزارو اور لبیک و درود شریف و کلمہ توحید اور استغفار پڑھتے رہو حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ آج کے دن سب سے بہتر وظیفہ میرا اور دوسرے نبیوں کا یہی ہے۔
لَااِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ وَھُوَ حَیُّ لَّا یَمُوْتُ ؕ بِیَدِہِ الْخَیْرُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۔
" اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے کوئی اس کا شریک نہیں اسی کے لئے بادشاہی ہے اسی کے لئے حمد ہے وہ زندگی اور موت دیتا ہے اور وہ زندہ ہے وہ نہیں مرے گا اس کے قبضہ میں سب بھلائیاں ہیں اور وہ ہر چیز پر قدرت والا ہے۔
دوپہر ڈھلتے ہی ظہر کی نماز جماعت سے پڑھو ظہر کے فرض پڑھ کر فوراً تکبیر ہوگی اور عصر کی نماز پڑھو یاد رکھو کہ یہ ظہر و عصر ملا کر ظہر کے وقت پڑھنا جبھی جائز ہے کہ نماز یا تو سلطان اسلام پڑھائے یا اس کا نائب میدان عرفات میں جس نے ظہر اکیلے یا اپنی خاص جماعت سے پڑھی اس کو وقت سے پہلے عصر پڑھنا جائز نہیں بلکہ وہ ظہرکو ظہر کے وقت میں اور عصر کو عصر کے وقت میں پڑھے ۔"
(بہارشریعت،ح۶،ص۸۲)
نماز کے بعد فوراً موقف کو روانہ ہو جائیں موقف وہ جگہ ہے کہ نماز کے بعد سے غروب آفتاب تک وہاں کھڑے ہو کر ذکر الہٰی اور دعا مانگنے کا حکم ہے اگر ہجوم اور اپنی کمزوری کی وجہ سے ''موقف'' میں نہ جا سکو تو اپنے خیمہ ہی میں لبیک پڑھنے اور ذکر و دعا میں آفتاب غروب ہونے تک مشغول رہو اور خبردار اس انمول اور قیمتی وقت کو چائے' بیڑی اڑانے اور گپ لڑانے میں برباد نہ کرو بلکہ آنکھیں بند کئے گردن جھکائے دعامیں ہاتھ آسمان کی طرف سر سے اونچا اٹھا کر پھیلائے تکبیر و تہلیل اور لبیک و دعا اور توبہ و استغفار میں
"ڈوب جائے اور خوب روئے اور اگر رونانہ آئے تو کم سے کم رونے جیسی صورت بنائے اور انتہائی کوشش کرے کہ ایک قطرہ آنسو ٹپک جائے کہ یہ مقبولیت کی نشانی ہے۔
رات بھر مزدلفہ میں:۔سورج غروب ہو جانے کے بعد میدان عرفات سے مزدلفہ کور وانہ ہو جاؤ اور پورے راستہ میں لبیک اور ذکر و دعاا ور تکبیر کثرت سے بلند آواز سے پڑھتے چلو مزدلفہ پہنچ کر مغرب کو عشا ء کے وقت میں ادا کی نیت سے پڑھو پھر مغرب کے بعد فوراً ہی عشا ء پڑھو اس کے بعد ''مشعر الحرام'' کی مقدس پہاڑی یا اس کے قرب میں یا پورے میدان میں ''وادی محسر'' کے سوا جہاں چاہو ٹھہرو اور لبیک اور تکبیر و تہلیل میں خوب رو رو کر مشغول رہو اور صبح صادق کے طلوع ہونے سے اجالا ہونے تک کا وقت بہت ہی خاص وقت ہے اس میں ذکر و دعا سے غافل نہ رہو۔
مزدلفہ ہی سے تینوں دن جمروں پر مارنے کے لئے ۴۹ کنکریاں کھجور کی گٹھلی کے برابر چن لو اور ان کو تین مرتبہ دھو لو اور طلوع آفتاب میں جب دو رکعت پڑھنے کا وقت باقی رہ جائے تو مزدلفہ سے منیٰ کو روانہ ہو جاؤ اور منیٰ پہنچ کر ''جمرۃ العقبہ'' کو سب سے پہلے جاؤ اور اس طرح کھڑے ہو جاؤ کہ منیٰ داہنے ہاتھ پر اور کعبہ بائیں ہاتھ کی طرف ہو اب پانچ ہاتھ کی دوری سے سات کنکریاں جدا جدا چٹکی میں لے کر داہنا ہاتھ خوب اونچا اٹھا کر جمرہ کو مارو اور ہر کنکری کو یہ دعا پڑھ کر پھینکو۔"
بِسْمِ اللہِ اَللہُ اَکْبَرْ رَغْماً لِلّشَیْطٰنِ رِضًّا لِلرَّحْمٰنِ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہُ حَجْاً مَبْرُوْرًا وَّ سَعْیَا مَّشْکُوْرًا وَّذَنْباً مَّغْفُوْرًا۔
اﷲ کے نام سے' اﷲ بہت بڑا ہے'شیطان کو ذلیل کرنے کے لئے' اﷲ کی رضا کے لئے' اے اﷲ! اس حج کو مبرور بنادے اور سعی مشکور کردے اور گناہوں کو بخش دے۔
" کنکری مار کر قربانی کرے مگر خوب سمجھ لو کہ یہ قربانی وہ قربانی نہیں ہے جو بقر عید میں ہوا کرتی ہے بلکہ یہ حج کا شکرانہ ہے جو قران کرنے والے اور تمتع کرنے والوں پر واجب اور مفرد پر مستحب ہے قربانی کے بعد مرد سر منڈائیں یا بال کتروائیں عورتوں کو بال منڈوانا حرام ہے وہ صرف ایک پورے کے برابر سر کے بال کٹادیں اور احرام اتار کر سلے ہوئے کپڑے پہن لیں اور افضل یہ ہے کہ آج دسویں ذوالحجہ ہی کو مکہ جا کر طواف زیارت جو فرض ہے کرلیں اگر دسویں کو یہ طواف نہ کر سکیں تو ۱۱ یا ۱۲ کو سورج غروب ہونے سے پہلے یہ طواف کر لیں اور مکہ سے منیٰ جا کر ٹھہریں اور ۱۱ اور ۱۲ ذوالحجہ کو منیٰ میں رہیں اور سورج ڈھلنے کے بعد دونوں روز تینوں جمروں کو سات سات کنکریاں مارتے رہیں بارہویں ذوالحجہ کو کنکری مار کر غروب آفتاب سے پہلے پہلے منیٰ سے نکل کر مکہ کو روانہ ہو جاؤ جب وادی محصب میں' جو جنت المعلی کے قریب ہے پہنچو تو سواری سے اتر لو یا سواری ہی پر کچھ دیر ٹھہر کر دعا کر لو اب مکہ میں جب تک قیام رہے اپنی اور اپنے ماں باپ کی اپنے استادوں اپنے پیروں اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی طرف سے روزانہ عمرے ادا کرتے رہو کچھ عمرے ''تنعیم'' سے (چھوٹا عمرہ) کرو کچھ عمرے جعرانہ سے (بڑا عمرہ) کرو۔
مکہ کی چند زیارت گاہیں:۔قبرستان جنت المعلی میں خاص طور پر بی بی خدیجۃ الکبری رضی اﷲ تعالیٰ عنہا و دیگر مزارات کی زیارت اسی طرح مکان ولادت حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم اور مکان خدیجۃ الکبری و مکان حضرت علی رضی اﷲتعالیٰ عنہما مسجد الرایہ و مسجد الفتح و مسجد جبل ابو قبیس و مزارات شہداء شبکیہ و جبل ثور و غار حرا وغیرہ مقامات متبرکہ کی زیارتوں سے بھی مشرف ہو کعبہ معظمہ میں داخلہ اور دو رکعت نماز اندر ادا کرنا بھی بڑی سعادت ہے کمال ادب سے آنکھیں جھکائے لرزتے کانپتے بسم اﷲ پڑھ کر دایاں قدم"
"پہلے رکھے اور سامنے کی دیوار تک اتنا بڑھے کہ تین ہاتھ کا فاصلہ رہ جائے وہاں دو رکعت نفل پڑھے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے اس جگہ نماز پڑھی ہے پھر حمد الہٰی اور درود شریف پڑھے اور دعا مانگے اور ستونوں اور دیواروں سے چمٹے اور روتے گڑگڑاتے آنکھیں نیچی کئے واپس چلا آئے۔
مکہ مکرمہ سے روانگی:۔جب رخصت کا ارادہ ہو تو طواف وداع کرے کہ باہر والوں پر یہ طواف واجب ہے مگر اس طواف میں نہ رمل کرے نہ اضطباع کرے اور اس طواف کے بعد صفا و مروہ کی سعی بھی نہ کرے طواف کے بعد مقام ابراہیم پر دو رکعت پڑھ کر دعا مانگے پھر زمزم شریف کے پاس آکر خوب سیراب ہو کر پئے اور کچھ بدن پر ڈالے پھر دروازہ کعبہ کے پاس آکر چوکھٹ چومے اور قبول حج و زیارت کی اور بار بار حاضری کی دعائیں مانگے اور یہ دعا پڑھے کہ۔"
اَلسَّائِلُ بِبَابِکَ یَسْئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ وَمَعْرُوْفِکَ وَیَرْ جُوْ رَحْمَتَکَ
" (یااﷲ) تیرے دروازہ پر سائل تیرے فضل و احسان کا سوال کرتا ہے اور تیری رحمت کا امیدوارہے۔
پھر ''ملتزم'' پر آکر غلاف کعبہ سے چمٹے اور خوب روئے پھر حجراسود کو بوسہ دے پھر الٹے پاؤں کعبہ کی طرف منہ کر کے کعبہ مقدسہ کو حسرت سے دیکھتے ہوئے مسجد حرام کے دروازہ سے بایاں پاؤں پہلے بڑھا کر نکلے اور کلمہ شہادت و حمد الہٰی اور درود شریف و دعا کرتے ہوئے روانہ ہو اور فقرائے مکہ مکرمہ کو حسب توفیق صدقہ و خیرات دیتے ہوئے سرکار اعظم دربار مدینہ طیبہ کے مقدس سفر کے لئے روانہ ہو جائے۔
حاضری دربار مدینہ منورہ:۔مدینہ طیبہ کی حاضری اور اس مقدس سفر"
"میں مندرجہ ذیل ہدایات پر خاص طور سے دھیان رکھو۔
(۱)مزار اقدس کی زیارت قریب بواجب ہے محدث ابن عدی نے کامل میں حضرت عمررضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ جس نے حج کیا اور میری زیارت نہ کی اس نے مجھ پر ظلم کیا ۔"
(الکامل فی الضعفاء،النعمان بن شبلی باھلی بصری،ج۸،ص۲۳۸)
" (۲)حاضری میں خاص قبر انور کی زیارت کی نیت کرے یہاں تک کہ امام ابن الہمام فرماتے ہیں کہ اس مرتبہ مسجد نبوی کی نیت بھی شریک نہ کرے ۔
(۳)راستہ میں اس قدر کثرت سے درود شریف پڑھتے رہو کہ ذکرو درود شریف میں غرق ہو جاؤ اور جس قدر مدینہ طیبہ قریب آتا جائے اور زیادہ ذوق وشوق بلکہ وجد میں جھو م جھوم کر درود شریف پڑھو اور عشق رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی مستی میں ڈوب جاؤ۔
(۴)جب حرم مدینہ منورہ آئے تو اگر سواری سے اتر سکو تو پیادہ سر جھکائے روتے ہوئے اور درود شریف پڑھتے ہوئے چلو اور جب گنبد خضراء پر نگاہ پڑے تو درود و سلام و الہانہ جوش و خروش کے ساتھ پڑھو جب شہر اقدس مدینہ منورہ میں پہنچو تو جلال و جمال محبوب کے تصور میں غرق ہو جاؤ اور دروازہ شہر میں داخل ہوتے وقت پہلے داہنا قدم رکھو اور یہ دعا پڑھو۔"
بِسْمِ اللہِ مَاشَآءَ اللہُلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ رَبِّ اَدْ خِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ اَللّٰھُمَّ افْتَحْ لِیْ اَبْوَابَ رَحْمَتِکَ وَارْزُقْنِیْ مِنْ زِیَارَۃِ رَسُوْلِکَ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَارَزَقْتَ اَوْلِیَا ئَکَ وَ اَھْلَ طَاعَتِکَ وَاَنْقِذْنِیْ مِنَ النَّا رِ وَاغْفِرْلِیْ وَارْحَمْنِیْ یَا خَیْرَ مَسْئُوْلٍ۔
میں اﷲ کے نام سے شروع کرتا ہوں جو اﷲ نے چاہا' نیکی کی طاقت نہیں مگر اﷲ
"سے۔ اے اﷲ! سچائی کے ساتھ مجھ کو داخل کر اور سچائی کے ساتھ مجھ کو باہر لے جا۔ الہٰی تو اپنی رحمت کے دروازے مجھ پر کھول دے اور اپنے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی زیارت سے مجھے وہ نصیب کر جو تو نے اپنے اولیاء اور فرمانبردار بندوں کے لئے نصیب کیا اور مجھے جہنم سے نجات دے اور مجھ کو بخش دے اور مجھ پر رحم فرما اے بہتر سوال کئے گئے۔
(۵)پھر غسل و وضو اور تمام ضروریات سے فارغ ہو کر مسواک کرکے خوشبو لگا کر اور سفید و صاف کپڑے پہن کر آستانہ مقدسہ کی طرف انتہائی عاجزی و خاکساری اور ادب و احترام کے ساتھ متوجہ ہو اور روتے ہوئے مسجد نبوی کے دروازے پر صلوۃ و سلام عرض کرکے تھوڑا ٹھہرو گویا تم سرکار سے حاضری کی اجازت طلب کر رہے ہو پھر بسم اﷲ پڑھ کر پہلے داہنا پاؤں رکھ کر سراپا ادب بن کر داخل ہو اور محبوب کے خیال و تصور میں ڈوب جاؤ۔
(۶)یقین رکھو کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم سچی حقیقی جسمانی حیات کے ساتھ ویسے ہی زندہ ہیں جیسے وفات شریف سے پہلے تھے ان کی اور تمام انبیاء کرام علیہم الصلوۃ و السلام کی موت صرف وعدہ الہٰی کی تصدیق کے لئے ایک آن کے واسطے تھی ان کا انتقال صرف عوام کی نظروں سے چھپ جانا ہے چنانچہ امام محمد ابن حاج مکی مدخل میں اور امام احمد قسطلانی نے مواہب لدّنیہ میں اور دوسرے ائمہ دین نے فرمایا ہے کہ۔
''حضو اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی حیات و وفات میں اس بات میں کوئی فرق نہیں کہ وہ اپنی امت کو دیکھ رہے ہیں اور ان کی حالتوں اور نیتوں کو اور ان کے دلوں کے خیالات کو خوب جانتے پہچانتے ہیں اور یہ سب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم پر اس طرح روشن ہے کہ قطعاً اس میں کوئی پوشیدگی نہیں''"
(شرح العلامۃ الزرقانی،المقصدالعاشر،الفصل الثانی فی زیارۃ قبرہ الشریف...إلخ،ج۱۲،ص۱۸۳)
" (۷)مسجد نبوی میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے مصلی پر دو رکعت نماز تحیۃ المسجد قل یایھاالکفرون اور قل ھواﷲ سے مختصر پڑھے پھر سجدہ میں گر کر دربار حبیب میں مقبولیت کی دعا مانگے پھر کمال ادب میں غرق ہو کر گردن جھکائے لرزتے کانپتے ندامت سے پسینہ پسینہ ہو کر آنسو بہاتے ہوئے مشرق کی طرف سے مواجہہ عالیہ میں حاضر ہو کہ حضور علیہ الصلوۃ و السلام مزار انور میں جلوہ افروز ہیں اس طرف سے تم حاضر ہو گے تو حضور کی نگاہ بے کس پناہ تمہاری طرف ہوگی اور یہ سعادت تمہارے لئے دونوں جہاں میں کافی ہے۔
(۸)اب انتہائی ادب و احترام کے ساتھ کم از کم چار ہاتھ کے فاصلہ سے قبلہ کو پیٹھ اور مزار پر انوار کو منہ کرکے نماز کی طرح ہاتھ باندھے کھڑا ہو۔"
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الحج،الباب السابع،ج۱،۲۶۵)
اور نہایت ہی ادب و وقار کے ساتھ درد انگیز آواز سے اس طرح صلاۃ و سلام عرض کرو۔
اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَاالنَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَ کَاتُہٗ اَلسَّلامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہِ اَلسَّلا مُ عَلَیْکَ یَا خَیْرَ خَلْقِ اللہِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا شَفِیْعَ الْمُذْنِبِیْنَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ وَ عَلٰی اٰلِکَ وَاَصْحَابِکَ وَاُمَّتِکَ اَجْمَعِیْنَ۔
" اے نبی! آپ پر درود و سلام اور اﷲعزوجل کی رحمتیں اور برکتیں' اے اﷲعزوجل کے رسول آپ پر سلام' اے اﷲعزوجل کی تمام مخلوق سے بہتر آپ پر سلام' اے گنہ گاروں کی شفاعت کرنے والے آپ پر سلام' آپ پر اور آپ کی آل و اصحاب پر اور آپ کی تمام امت پر سلام۔
ان سلاموں کو بار بار جب تک دل جمے بکثرت پڑھتے رہو اور اپنے ماں باپ اور"
استادوں اور دوستوں اور اپنے تمام عزیزوں کی طرف سے بھی سلام عرض کرو اور سب کے لئے باربار شفاعت کی بھیک مانگو اور بار بار یہ عرض کرو کہ
''اَسْئَلُکَ الشَّفَاعَۃَ یا رسول اﷲ''
(بہارشریعت،ح۶،ص۱۶۹ومناسک علی القاری ،باب زیارۃ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم ،ص۵۰۹۔۵۱۰)
اور جو میری اس کتاب کو پڑھے اس کو میں وصیت کرتا ہوں کہ مجھ گنہ گار کی طرف سے بھی سلام عرض کر کے شفاعت کی بھیک مانگیں پھر اپنے داہنے ہاتھ کی طرف ہاتھ بھر ہٹ کر حضرت امیر المومنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲتعالیٰ عنہ کے نورانی چہرہ کے سامنے کھڑے ہو کر عرض کرو کہ۔
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا خَلِیْفَۃَ رَسُوْلِ اللہِ ؕ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وَزِیْرَ رَسُوْلِ اللہِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا صَاحِبَ رَسُوْلِ اللہِ فِی الْغَارِ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ۔
" اے خلیفہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم! آپ پر سلام' اے رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے وزیر آپ پر سلام' اے غار ثور میں رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے رفیق آپ پر سلام اور اﷲعزوجل کی رحمت اور اس کی برکتیں۔
پھر اتنی ہی دور ہٹ کر حضرت امیر المومنین عمر فاروق اعظم رضی اﷲتعالیٰ عنہ کے پُر جلال چہرہ کے سامنے عرض کرو کہ۔"
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا اَمِیْرَ المُؤْمِنِیْنَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا مُتَمِّمَ اْلَارْ بَعِیْن۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا عِزَّ الْاِسْلَامِ وَالْمُسِلْمِیْنَ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاَتُہٗ۔
اے امیر المومنین! آپ پر سلام' اے چالیس کا عدد پورا کرنے والے مسلمان آپ پر سلام' اے اسلام اور مسلمانوں کی عزت آپ پر سلام اور اﷲعزوجل کی رحمتیں اور برکتیں۔
پھر بالشت بھر مغرب کی طرف پلٹو اور حضرت صدیق وفاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کے درمیان کھڑے ہو کر عرض کرو کہ۔
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُما یَا خَلِیْفَتَیْ رَسُوْلِ اللہِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمَا یَا وَزِیْرَیْ رَسُوْلِ اللہِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمَا یَا ضَجِیْعِیْ رَسُوْلِ اللہِ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ اَسْئَلُکْمَا اَلشَّفَاعَۃَ عِنْدَرَسُوْلِ اللہِصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَعَلَیْکُمَا وَبَارَکَ وَسلَّمَ۔
اے رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے دونوں خلیفہ آپ دونوں پر سلام' اے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے دونوں وزراء آپ دونوں پر سلام'اے رسول اﷲ کے پہلو میں آرام کرنے والو! آپ دونوں پر سلام اور اﷲعزوجل کی رحمت اور اس کی برکتیں آپ دونوں سے سوال کرتا ہوں کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے حضور ہماری شفاعت کیجئے اﷲتعالیٰ ان پر اور آپ دونوں پر درود اور برکت و سلام نازل فرمائے۔
(مناسک علی القاری،باب زیارۃ سید المرسلین،صلی اللہ علیہ وسلم،ص۵۱۰۔۵۱۱ و بہارشریعت،ح۶،ص۱۷۰)
(۹)یہ سب حاضریاں مقبولیت دعا کے مقامات ہیں لہٰذا خوب دعائیں مانگو پھر منبر شریف کے پاس دعا کرو اور ستون ابو لبابہ و ستون حنانہ کے پاس دو رکعت پڑھ کر دعاؤں میں مشغول رہو۔ یہاں کی حاضری میں ایک منٹ بھی ضائع نہ کرو تلاوت' درود شریف و سلام اور نوافل میں ہمہ تن مصروف رہو مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ میں کم از کم ایک ایک روزہ بھی رکھ لو تو تمہاری خوش نصیبی کا کیا کہنا پنجگانہ نمازوں کے بعد سلام کے لئے حاضر ہو ہر نماز مسجد نبوی میں ادا کرو رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ جو شخص میری مسجد میں چالیس نمازیں پڑھے اس کے لئے دوزخ اور نفاق سے آزادیاں لکھی جائیں گی۔
(المسند لإمام احمد بن حنبل، رقم۱۲۵۸۴،ج۴،ص۳۱۱)
" (۱۰)قبر منور کو کبھی پیٹھ نہ کرو نہ روضہ انور کا طواف کرو نہ سجدہ کرو نہ اتنا جھکو کہ رکوع کے برابر ہو رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی حقیقی تعظیم ان کی اطاعت میں ہے۔
(۱۱)قبرستان جنت البقیع کی زیارت سنت ہے روضہ منورہ کی زیارت کرکے وہاں جائے خصوصاً جمعہ کے دن اس قبرستان میں دس ہزار صحابہ کرام رضی اﷲتعالیٰ عنہم آرام فرما رہے ہیں اور تابعین و تبع تابعین و اولیاء و علماء و صلحا کی گنتی کا کوئی شمار ہی نہیں کر سکتا جب حاضر ہو تو پہلے تمام مدفونین مسلمین کے زیارت کا قصد کرو اور اس طرح سلام پڑھو۔"
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ دَارَقَوْمٍ مُؤْمِنِیْنَ اَنْتُمْ لَنَا سَلَفٌ وَّاِنَّا اِنْ شَآءَ اللہُ تَعَالٰی بِکُمْ لَاحِقُوْنَ ؕ اَللَّھُمَّ اغْفِرْ لاِھْلِ الْبَقِیْعِ الْغَرْ قَدِ اَللَّھُمَّ اغْفِرْ لَنَا وَلَھُمْ۔
"تم پر سلام اے قوم مومنین کے گھر والو! تم ہمارے پیشوا ہو اور ہم ان شاء اﷲ تم سے ملنے والے ہیں اے اﷲعزوجل! بقیع غرقد والوں کی مغفرت فرما اے اﷲعزوجل! ہم کو اور انہیں بخش دے۔
(۱۲)تمام اہل بقیع میں افضل حضرت امیر المومنین سیدنا عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہیں ان کے مزار انور پر حاضر ہو کر کمال ادب و احترام کے ساتھ اس طرح سلام عرض کرے کہ۔"
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا ثَا لِثَ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِیْنَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا صَاحِبَ الْھِجْرَتَیْنِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا مُجَھِّز جَیْشِ الْعُسْرَۃِ بِالنَّقْدِوَالْعَیْنِ جَزَاکَ اللہُ عَنْ رَسُوْلِہٖ وَعَنْ سَائِرِ الْمُسْلِمِیْنَ وَرَضِیَ اللہُ عَنْکَ وَعَنِ الصَّحَابَۃِ اَجْمَعِیْنَ۔
اے امیر المومنین! آپ پر سلام، اے خلفاء راشدین میں تیسرے خلیفہ آپ پر سلام' اے دوہجرت کرنے والے آپ پر سلام، اے غزوہ تبوک کی نقد و جنس سے تیاری
"کرنے والے آپ پر سلام' اﷲ تعالیٰ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کواپنے رسول اور تمام مسلمانوں کی طرف سے بدلہ دے اور آپ سے اور تمام صحابہ سے اﷲ تعالیٰ راضی ہو۔
(۱۳)ظالم نجدیوں نے تمام قبوں اور قبروں کو توڑ پھوڑ کر میدان کر ڈالا ہے بہت کم قبروں کے نشان باقی ہیں بہر حال جو مقابر ظاہر ہیں سب جگہ سلام پڑھو اور فاتحہ خوانی کرو اور دعائیں مانگو کہ یہ سب بارش انوار و برکات کی جگہیں اور مقبولیت دعا کے مقامات ہیں۔"
(بہارشریعت،ح۶،ص۱۷۲)
(۱۴)قبا شریف کی زیارت کرے اور مسجد قبا میں دو رکعت نماز پڑھے حدیث شریف میں ہے کہ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ مسجد قبا میں نماز عمرہ کے مثل ہے۔
(جامع الترمذی،کتاب الصلاۃ،باب ماجاء فی الصلاۃ فی مسجد قباء،رقم۳۲۴،ج۱،ص۳۴۸)
" اور دوسری حدیثوں سے ثابت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم ہر سنیچر کو قبا تشریف لے جاتے کبھی سوار کبھی پیدل اس مقام کی بزرگی کے بارے میں دوسری احادیث بھی ہیں۔
(۱۵)شہداء احد کی بھی زیارت کرو حدیث میں ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم ہر سال کے شروع میں شہداء احد کی مقدس قبروں پر تشریف لے جاتے اور یہ فرماتے"
''اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْ تُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ''
(تفسیر الدرالمنثور،الرعد:۲۴،ج۴،ص۶۴۰)
اور احد پہاڑ کی بھی زیارت کرو کہ حدیث شریف میں حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ کوہ احد ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں ۔
(مناسک ملاعلی قاری،باب زیارۃ سیدالمرسلین،ص۵۲۵)
بہتر یہ ہے کہ جمعرات کے دن صبح کے وقت جائے اور سب سے پہلے سید الشہداء حضرت
حمزہ رضی اﷲتعالیٰ عنہ کے مزار مقدس پر سلام عرض کرے اور حضرت عبداﷲ بن حجش اور حضرت مصعب بن عمیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما پر بھی سلام عرض کرے کہ ایک روایت میں ہے یہ دونوں یہیں مدفون ہیں۔
(مناسک ملاعلی قاری،باب زیارۃ سیدالمرسلین،ص۵۲۵)
"(۱۶) مدینہ طیبہ کے وہ کنوئیں جو حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی طرف منسوب ہیں یعنی کسی سے وضو فرمایا کسی کا پانی نوش فرمایا کسی میں اپنا لعاب دہن ڈالا اگر کوئی جاننے والا اور بتانے والا ملے تو ان مبارک کنوؤں کی بھی زیارت کرو خاص کر مندرجہ ذیل کنوؤں کا خیال رکھو۔
بیر حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ:۔یہ کنواں وادیئ عقیق کے کنارے پر مدینہ منورہ سے تقریباً تین میل کے فاصلہ پر ایک باغ میں ہے اس کنوئیں کو ''بیر رومہ'' بھی کہتے ہیں یہ وہی کنواں ہے جس کا مالک ایک یہودی تھا اور مسلمانوں کو پانی کی تکلیف تھی تو حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے بیس ہزار درہم پر اس کنوئیں کو یہودی سے خرید کر مسلمانوں پر وقف کر دیا۔
بیر اریس:۔یہ کنواں مسجد قبا سے متصل پچھّم کی جانب ہے اس کو ''بیئر خاتم'' بھی کہا جاتا ہے اس لئے کہ حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ سے مہر نبوت کی انگوٹھی اس کنوئیں میں گر گئی اور بڑی تلاش و جستجو کے باوجود نہیں ملی حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے اس کنوئیں کا پانی پیا اور اس سے وضو فرمایا اور اس میں اپنا لعاب دہن بھی ڈالا تھا۔
بیر غرس:۔یہ کنواں مسجد قبا سے تقریبا چار فرلانگ پورب اتر کونے پر واقع ہے اس کے"
"پانی سے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے وضو فرمایا اور اس کا پانی پیا بھی ہے اور اس میں اپنا لعاب دہن اور شہد بھی ڈالا ہے۔
بیر بُصّہ:۔یہ کنواں قبا کے راستہ میں جنت البقیع کے متصل ہے اس کنوئیں پر حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے اپنا سر مبارک دھویا اور غسل فرمایا اس جگہ دو کنوئیں ہیں صحیح یہ ہے کہ بڑا کنواں بیر بُصّہ ہے اور بہتر یہ ہے کہ دونوں سے برکت حاصل کرے۔
بیر بضاعہ:۔یہ کنواں شامی دروازہ سے باہر جمل اللیل باغ کے پاس ہے اس میں بھی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے اپنا لعاب دہن ڈالا اور برکت کی دعا فرمائی ہے۔
بیر حاء:۔یہ کنواں باب مجیدی کے سامنے شمالی فصیل سے باہر ہے یہ کنواں حضرت ابو طلحہ صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے باغ میں تھا حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم اکثر اس جگہ جلوہ افروز ہوتے تھے اور اس کا پانی نوش فرماتے تھے جب آیت مبارکہ"
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّحَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ہ (پ4،آٰل عمران:92)
"نازل ہوئی تو چونکہ یہ کنواں حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو بہت زیادہ محبوب تھا اس لئے انہوں نے اس کو خدا کی راہ میں صدقہ کر دیا۔
بیر عہن:۔یہ کنواں مسجد شمس کے قریب ہے اس کنوئیں کے پانی سے بھی حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم نے وضو فرمایا ہے اس کا پانی قدرے کھاری ہے اس کو''بیر الیسیرہ'' بھی کہا جاتا ہے۔"
"(۱۷)مدینہ منورہ کی چند مشہور مسجدوں کی بھی زیارت کرے اور ہر مسجد میں کم سے کم دو دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھ کر دعائیں مانگے خصوصیت کے ساتھ ان مسجدوں کی ۔
مسجد جمعہ:۔یہ مسجد قبا کے نئے راستے سے جانب مشرق ہے پہلا جمعہ حضور اقدس"
"صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے اسی جگہ ادا فرمایا تھا۔
مسجد غمامہ :۔اس جگہ حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام عیدین کی نماز پڑھتے تھے اسی لئے اس کو مسجد مصلّٰی بھی کہتے ہیں۔
مسجد ابو بکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ:۔یہ مسجد بالکل مسجد غمامہ کے قریب شمالی جانب ہے۔
مسجد علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ:۔یہ مسجد بھی غمامہ کے پاس ہی ہے۔
مسجد بغلہ:۔یہ مسجد جنّۃ البقیع کے مشرق میں ہے مسجد کے قریب ایک پتھر میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے خچر کے کھر کا نشان ہے اس لئے اس کو مسجد بغلہ کہتے ہیں بغلہ کے معنی خچر ہے۔
مسجد اجابہ:۔یہ مسجد جنۃ البقیع کے شمالی جانب ہے ایک دن حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے اس قبیلہ والوں کے لئے اس جگہ دعائیں مانگیں جو مقبول ہوئیں۔
مسجد اُبی رضی اﷲتعالیٰ عنہ:۔یہ مسجد جنت البقیع کے بالکل قریب ہی ہے اسی جگہ حضرت ابی بن کعب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا مکان تھا حضور انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کبھی کبھی یہاں رونق افروز ہوتے اور نماز پڑھتے تھے۔
مسجد سقیا:۔باب عنبر یہ کے قریب ریلوے اسٹیشن کے اندر ایک قبہ ہے جس کو قبۃ الرؤس کہتے ہیں اس میں ایک کنواں ہے جس کا نام ''بیرالسقیا'' ہے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے جنگ بدر میں جاتے ہوئے یہاں نماز ادا فرمائی تھی۔
مسجد احزاب:۔یہ مسجد سلع پہاڑی کے مغربی کنارے پر ہے جنگ خندق کے موقع پر اسی جگہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی دعا مقبول ہوئی اور مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی اسی لئے بعض لوگ اسے مسجد الفتح بھی کہتے ہیں اس کے قریب میں چار دوسری مسجدیں بھی ہیں"
"ایک کا نام مسجد ابو بکر' دوسری کا نام مسجد عمر' تیسری کا نام مسجد عثمان اور چوتھی کا نام مسجد سلمان ہے ان پانچوں مسجدوں کو مساجد خمسہ کہا جاتا ہے یہ چاروں مقامات درحقیقت جنگ کے مورچے تھے اور یہ چاروں صحابہ کرام ایک ایک مورچہ پر متعین تھے ان حضرات نے ان مورچوں میں نمازیں بھی پڑھیں اس لئے یہ مورچے مسجد بن گئے۔
مسجد بنی حرام:۔سلع پہاڑی کی گھاٹی میں مسجد احزاب کو جاتے ہوئے داہنی طرف یہ مسجد واقع ہے اس کی تاریخ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے اس جگہ نماز پڑھی ہے اسکے قریب ایک غار ہے جس پر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم پر ایک مرتبہ وحی اتری تھی اور جنگ خندق کے موقع پر رات کو اس غار میں آرام فرمایا تھا اس کی بھی زیارت کرنی چاہے۔
مسجد ذباب:۔یہ مسجد ذباب کی پہاڑی پر ہے جو جبل احد کے راستہ کے بائیں جانب ہے جنگ خندق کے موقع پر اس جگہ حضور علیہ الصلوۃ و السلام کا خیمہ گاڑا گیا تھا۔
مسجد قبلتین:۔یہ مسجد وادی عقیق کے قریب ایک ٹیلا پر ہے اسی جگہ بیت المقدس کے بجائے کعبہ شریف قبلہ مقرر ہوا اسی لئے اس کو مسجد قبلتین کہتے ہیں۔
مسجد فضیح:۔عوالی کے مشرقی حصہ میں یہ مسجد ہے اس جگہ بنو نضیر کے یہودیوں کا محاصرہ کرنے کی حالت میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے نمازپڑھی تھی اس کا دوسرا نام ''مسجد شمس'' بھی ہے اس مسجد کو نجدی حکومت نے شہید کر ڈالا ہے۔
مسجد بنو قریظہ:۔محاصرہ بنی نضیر کے وقت یہاں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے قیام فرمایا تھا یہ مسجد فضیح سے جانب مشرق تھوڑے فاصلہ پر ہے۔
مسجد ابراہیم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ:۔یہ مسجد بنی قریظہ سے جانب شمال واقع ہے اس جگہ"
"حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے صاحبزادہ حضرت ابراہیم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ پیدا ہوئے تھے اور اس جگہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے نماز بھی پڑھی ہے۔
دربار اقدس سے واپسی"
"مر کے جیتے ہیں جو ان کے در پہ جاتے ہیں حسن
جی کے مرتے ہیں جو آتے ہیں مدینہ چھوڑ کر"
جب مدینہ منورہ سے واپسی کا ارادہ ہو تو مسجد نبوی شریف میں جاکر حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے مصلی پر یا اس کے قریب جہاں جگہ ملے دو رکعت نفل پڑھیں اس کے بعد سنہری جالی کے سامنے مواجہہ اقدس میں حاضر ہو کر گر یہ وزاری میں ڈوب کر درد و غم کے ساتھ صلوۃ وسلام عرض کریں پھر دونوں جہاں کی بھلائی حج و زیارت کی مقبولیت اور حصول شفاعت کی سعادت اور خاتمہ بالخیر کے لئے خوب گڑگڑا کر اور روتے ہوئے دعائیں مانگیں اور خاص کر یہ بھی دعا کریں کہ حاضری کا یہ آخری موقع نہ ہو بلکہ خداوند قدوس اس مقدس دربار کی حاضری بار بار نصیب فرمائے اپنے ساتھ اپنے والدین اور رشتہ داروں عزیزوں اور دوستوں اور بزرگوں اور بچوں کے لئے بھی دعا مانگیں اس کے بعد روضہ منور کی طرف دیکھتے ہوئے اور جدائی کے رنج و غم میں آنسو بہاتے ہوئے مسجد نبوی شریف سے پہلے بایاں پاؤں نکالیں اور جہاں تک گنبد خضرا نظر آئے باربار حسرت بھری نگاہوں سے اس کا دیدار کرتے رہیں اور یہ کہتے ہوئے روانہ ہو جائیں کہ۔
"مدینہ جاؤں پھر آؤں دوبارہ پھر جاؤں
اسی میں عمرِ دو روزہ تمام ہو جائے"
"ہمیں کرنی شاہنشاہ بطحا کی رضا جوئی
وہ اپنے ہو گئے تو رحمت پروردگار اپنی"
کھانا کھانے سے پہلے اور بعد میں دونوں ہاتھ گٹوں تک دھوئے صرف ایک ہاتھ یا فقط انگلیاں ہی نہ دھوئے کہ اس سے سنت ادا نہ ہوگی لیکن اس کا دھیان رہے کہ کھانے سے پہلے ہاتھ دھو کر پونچھنا نہ چاہے اور کھانے کے بعد ہاتھ دھو کر تولیا یا رومال سے پونچھ لینا چاہے تاکہ کھانے کا اثر باقی نہ رہے۔
(الفتاوٰی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الحادی عشر فی الکراہیۃ۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۳۷)
بسم اﷲ پڑھ کر کھانا شروع کریں اور بلند آواز سے بسم اﷲ پڑھیں تاکہ دوسرے لوگوں کو بھی یاد آجائے اور سب بسم اﷲپڑھ لیں ۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الحادی عشر فی الکراہیۃفی الاکل وما یتصل بہ۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۳۷)
اور اگر شروع میں بسم اﷲ پڑھنا بھول گیا ہو تو جب یاد آجائے یہ دعا پڑھے
بِسْمِ اللہِ اَوَّلَہٗ وَ آخِرَہٗ
(جامع الترمذی، کتاب الاطعمۃ،باب ماجاء فی التسمیۃ۔۔۔الخ،رقم۱۸۶۵،ج۳،ص۳۳۹)
روٹی کے اوپر کوئی چیز نہ رکھی جائے اور ہاتھ کو روٹی سے نہ پونچھیں۔
(ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحۃ،ج۹،ص۵۶۲)
کھانا ہمیشہ داہنے ہاتھ سے کھائیں بائیں ہاتھ سے کھانا پینا شیطان کا کام ہے۔
(جامع الترمذی،کتاب الاطعمۃ،باب ماجاء فی النھی ۔۔۔الخ،رقم۱۸۰۶،ج۳،ص۳۱۳)
مسئلہ:۔کھانا کھاتے وقت بایاں پاؤں بچھا دے یا دہنا پاؤں کھڑا رکھے یا سرین پر بیٹھے اور دونوں گھٹنے کھڑے رکھے۔
(اشعۃ اللمعات،کتاب الاطعمۃ،فصل ۱،ج۳،ص۵۱۸)
"اور اگر بھاری بدن یا کمزور ہونے کی وجہ سے اس طرح نہ بیٹھ سکے تو پالتی مار کر کھانے میں بھی کوئی حرج نہیں ۔
کھانا کھانے کے درمیان میں کچھ باتیں بھی کرتا رہے بالکل چپ رہنا یہ مجوسیوں کا طریقہ ہے مگر کوئی بے ہودہ یا پھوہڑ بات ہر گز نہ بکے بلکہ اچھی اچھی باتیں کرتا رہے۔"
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الثانی عشر فی الھدایا والضیافات،ج۵،ص۳۴۵)
کھانے کے بعد انگلیوں کو چاٹ لے اور برتن کو بھی انگلیوں سے پونچھ کر چاٹ لے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الحادی عشر فی الکراہیۃ فی الاکل وما یتصل بہ،ج۵،ص۳۳۷)
کھانے کی ابتداء نمک سے کریں اور نمک ہی پر ختم کریں کہ اس میں بہت سی بیماریوں سے شفاء ہے ۔
(ردالمحتارعلی الدرالمختار،کتاب الحظر والاباحۃ،ج۹،ص۵۶۲)
کھانے کے بعد یہ دعا پڑھیں۔
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ اَطْعَمَنَا وَسَقَانَا وَکَفَانَا وَجَعَلَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ
کھانے کے بعد صابن لگا کر ہاتھ دھونے میں کوئی حرج نہیں کھانے سے قبل عوام اور جوانوں کے ہاتھ پہلے دھلائے جائیں اور کھانے کے بعد علماء و مشائخ اور بوڑھوں کے ہاتھ پہلے دھلائے جائیں کھانا کھا لینے کے بعد دستر خوان پر صاحب خانہ اور حاضرین کے لئے خیر و برکت کی دعا مانگنی بھی سنت ہے۔
(بہار شریعت،ج۳،ح۱۶،ص۱۸)
مسئلہ:۔پاؤں پھیلا کر اور لیٹ کر اور چلتے پھرتے' کچھ کھانا پینا خلاف ادب اور طریقہ سنت کے خلاف ہے مسلمانوں کو ہر بات اور ہر کام میں اسلامی طریقوں کی پابندی اور
آداب سنت کی تابعداری کرنی چاہے۔
مسئلہ:۔چاندی سونے کے برتنوں میں کھانا پینا جائز نہیں بلکہ ان چیزوں کا کسی طرح سے استعمال کرنا درست نہیں جیسے سونے چاندی کا چمچہ استعمال کرنا یا اس کے بنے ہوئے خلال سے دانت صاف کرنا اسی طرح چاندی سونے کے بنے ہوئے گلاب پاش سے گلاب چھڑکنا یا خاصدان میں پان رکھنا یا چاندی کی سلائی سے سرمہ لگانا یا چاندی کی پیالی میں تیل رکھ کر تیل لگانا یہ سب حرام ہے ۔
(الدرالمختار،کتاب الحظر والاباحۃ،ج۹،ص۵۶۴)
آداب:۔کسی کے یہاں دعوت میں جاؤ تو کھانے کے لئے بہت بے صبری نہ ظاہر کرو کہ ایسا کرنے میں تم لوگوں کی نظروں میں ہلکے ہو جاؤ گے کھانا سامنے آئے تو اطمینان کے ساتھ کھاؤ بہت جلدی جلدی مت کھاؤ دوسروں کی طرف مت دیکھو اور دوسرے کے برتنوں کی جانب نگاہ مت ڈالو خبردار کسی کھانے میں عیب نہ نکالو کہ اس سے گھر والوں کی دل شکنی ہوگی اور سنت کی مخالفت بھی ہوگی کیونکہ ہمارے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا مقدس طریقہ یہی تھا کہ کبھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے کسی کھانے کو عیب نہیں لگایا بلکہ دستر خوان پر جو کھانا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو مرغوب ہوتا اس کو تناول فرماتے اور جو ناپسند ہوتا اس کو نہ کھاتے بعض مردوں اور عورتوں کی عادت ہے کہ دعوت سے لوٹ کر صاحب خانہ پر طرح طرح کے طعنے مارا کرتے ہیں کبھی کھانوں میں عیب نکالتے ہیں کبھی منتظمین کو کوسنے دیتے ہیں میرا تجربہ ہے کہ مردوں سے زیادہ عورتیں اس مرض میں مبتلا ہیں لہٰذا ان بری باتوں کو چھوڑ دو بلکہ یہ طریقہ اختیار کرو کہ اگر دعوتوں میں تمہارے مزاج کے خلاف بھی کوئی بات ہو تو اس کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرو اور صاحب خانہ کی دلجوئی کے لئے چند تعریف کے
"کلمات کہہ کر اس کا حوصلہ بڑھا دو ایسا کرنے سے صاحب خانہ کے دل میں تمہارا وقار بڑھ جائے گا۔
مسئلہ:۔ہاتھ سے لقمہ چھوٹ کر گر جائے تواس کو اٹھا کر کھالو شیخی مت بگھارو کہ اس کو ضائع کردینا اسراف ہے جو گناہ ہے بہت زیادہ گرم کھانامت کھاؤ نہ کھانے کو سونگھونہ کھانے پر پھونک مار مار کر اس کو ٹھنڈا کرو کہ یہ سب باتیں خلاف ادب بھی ہیں اور مضر بھی۔"
(ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحۃ،ج۹،ص۵۶۲)
" جو کچھ بھی پیو بسم اﷲ پڑھ کر داہنے ہاتھ سے پیو بائیں ہاتھ سے پینا شیطان کا طریقہ ہے جو چیز بھی پیو تین سانس میں پیو اور ہر مرتبہ برتن سے منہ ہٹا کر سانس لو چاہے کہ پہلی مرتبہ اور دوسری مرتبہ ایک گھونٹ پئے اور تیسری سانس میں جتنا چاہے پی لے کھڑے ہو کر ہر گز کوئی چیز نہ پیئے ۔
حدیث شریف میں اس کی ممانعت ہے پانی چوس چوس کر پینا چاہے غٹ غٹ بڑے بڑے گھونٹ نہ پئے جب پی چکے تو الحمدﷲ کہے پینے کے بعد گلاس یا کٹورے کا بچا ہوا پانی پھینکنا اسراف و گناہ ہے صراحی اور مشک کے منہ میں منہ لگا کر پانی پینا منع ہے۔"
(بہارشریعت،ح۱۶،ص۲۶)
"اسی طرح لوٹے کی ٹونٹی سے بھی پانی پینے کی ممانعت ہے لیکن اگر پانی انڈیلنے کے لئے کوئی برتن نہ ہو تو ٹونٹی وغیرہ میں دیکھ بھال کر پانی پی لینے میں کوئی حرج نہیں ۔
مسئلہ:۔وضو کا بچا ہوا پانی اور زمزم شریف کا پانی کھڑے ہو کر پیا جائے ان دو کے سوا ہر پانی بیٹھ کر پینا چاہے ۔"
(بہارشریعت،ج۳،ح۱۶،ص۲۷)
حدیث شریف میں ہے کہ ہر گز
تم میں سے کوئی کھڑے ہو کر کچھ نہ پئے اور اگر بھول کر کھڑے کھڑے پی لے اس کو چاہے کہ قے کردے۔
(صحیح مسلم، کتاب الاشربۃ،باب کراہیۃ الشرب قائمًا، رقم۲۰۲۶،ص۱۱۹)
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اﷲ تعالی علیہ نے اس حدیث کی شرح میں تحریر فرمایا کہ جب بھول کر پی لینے میں یہ حکم ہے کہ قے کردے تو قصداً پینے میں تو بدرجہ اولیٰ یہ حکم ہوگا۔
(اشعۃ اللمعات،کتاب الاطعمۃ،باب الاشربۃ،ج۳،ص۵۵۷)
مسئلہ:۔سبیل کا پانی مالدار بھی پی سکتا ہے ہاں البتہ وہاں سے پانی کوئی اپنے گھر نہیں لے جاسکتا کیونکہ وہاں پینے کے لئے پانی رکھا گیا ہے نہ کہ گھر لے جانے کے لئے لیکن اگر سبیل لگانے والے کی طرف سے اس کی اجازت ہو تو گھر میں لے جاسکتا ہے ۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الحادی عشر فی الکراہیۃ فی الاکل وما یتصل بہ،ج۵،ص۳۴۱)
مسئلہ:۔جاڑوں میں اکثر جگہ مسجد کے سقایہ میں پانی گرم کیا جاتا ہے تاکہ مسجد میں جو نمازی آئیں اس سے وضو و غسل کریں و ہ پانی بھی وہیں استعمال کیا جاسکتا ہے گھر لے جانے کی اجازت نہیں اسی طرح مسجد کے لوٹوں کو بھی وہیں استعمال کر سکتے ہیں گھر نہیں لے جاسکتے بعض لوگ تازہ پانی بَھر کر مسجد کے لوٹوں میں گھر لے جاتے ہیں یہ جائز نہیں۔
(بہارشریعت،ح۶،ص۲۷)
مستحب یہ ہے کہ باوضو سوئے اور بسم اﷲ پڑھ کر کچھ دیر داہنی کروٹ پر
اَللّٰھُمَّ بِاسْمِکَ اَمُوْتُ وَاَحْیٰی ۔
(جامع الترمذی،کتاب الدعوات،باب منہ (۲۸) رقم۳۴۲۸،ج۵،ص۲۶۳)
پڑھ کر داہنے ہاتھ کو رخسار کے نیچے رکھ کر قبلہ رو سوئے پھر اس کے بعد بائیں کروٹ پر
سوئے پیٹ کے بل نہ لیٹے حدیث شریف میں ہے کہ اس طرح لیٹنے کو اﷲتعالیٰ پسند نہیں فرماتا ۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الثلا ثون فی المتفرقات،ج۵،ص۳۷۶)
اور پاؤں پر پاؤں رکھ کر چت لیٹنا منع ہے جب کہ تہبند پہنے ہوئے ہو کیونکہ اس صورت میں ستر کھل جانے کا اندیشہ ہے۔
(جامع الترمذی،کتاب الادب،باب ماجاء فی فصاحۃ والبیان ،رقم۲۸۶۳،ج۴،ص۳۸۸)
ایسی چھت پر سونا منع ہے جس پر گرنے سے کوئی روک نہ ہو لڑکا جب دس برس کا ہو جائے تو اپنی ماں یا بہن وغیرہ کے ساتھ نہ سلایا جائے بلکہ اتنی عمر کا لڑکا لڑکوں اور مردوں کے ساتھ بھی نہ سوئے۔
(بہارشریعت،ح۱۶،ص۷۱)
مسئلہ:۔دن کے ابتدائی حصہ اور مغرب و عشاء کے درمیان اور عصر کے بعد سونا مکروہ ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الثلا ثون،ج۵،ص۳۷۶)
"مسئلہ:۔شمال کی طرف پاؤں پھیلا کر بلا شبہ سونا جائز ہے اس کو ناجائز سمجھنا غلطی ہے ہاں البتہ مغرب کی طرف پاؤں کرکے سونا یقیناً ناجائز ہے کہ اس میں قبلہ کی بے ادبی ہے۔
مسئلہ:۔رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب رات کی ابتدائی تاریکی آجائے تو بچوں کو گھر میں سمیٹ لو کہ اس وقت میں شیاطین ادھر ادھر نکل پڑتے ہیں پھر جب ایک گھڑی رات چلی جائے تو بچوں کو چھوڑ دو بسم اﷲ پڑھ کر دروازوں کو بند کر لواور بسم اﷲ پڑھ کر مشکوں کے منہ باندھ دو اور برتنوں کو ڈھانک دو اور سوتے وقت چراغوں کو بجھا دو اور سوتے وقت اپنے گھروں میں آگ مت چھوڑا کرو یہ آگ تمہاری دشمن ہے جب سویا کرو تو اس کو بجھا دیا کرو۔"
(صحیح البخاری،کتاب بدء الخلق،باب صفۃ ابلیس وجنودہ،رقم ۳۲۸۰،ج۲،ص۳۹۹)
رات میں جب کتوں کے بھونکنے اور گدھوں کے بولنے کی آوازیں سنو تو اعوذباللہ من الشیطن الرجیم پڑھو۔
مسئلہ:۔رات میں کوئی ڈراؤنا خواب نظر آئے تو بائیں طرف تین بار تھوکنا چاہے اور تین بار اعوذباﷲ من الشیطن الرجیم پڑھ کر اور کروٹ بدل کر سونا چاہے اور کسی سے بھی اس خواب کا ذکر نہ کرنا چاہے۔ ان شاء اﷲتعالیٰ اس خواب سے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔
(صحیح مسلم،کتاب الرؤیا،رقم۲۲۶۲،ص۱۲۴۱)
"مسئلہ:۔اپنی طرف سے جھوٹا خواب گھڑ کر لوگوں سے بیان کرنا حرام اور بہت بڑا گناہ ہے ۔
مسئلہ:۔سونے سے پہلے بستر کو جھاڑ لینا سنت ہے۔ جب سو کر اٹھے تب یہ دعا پڑھے اور بستر سے اٹھ جائے"
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ اَحْیَانَا بَعْدَ مَااَمَاتَنَاوَاِلَیْہِ النُّشُوْرُ ؕ
(صحیح البخاری،کتاب الدعوات،باب مایقول اذانام،رقم۶۳۱۲،ج۴،ص۱۹۲)
" اتنا لباس پہننا ضروری ہے کہ جس سے ستر عورت ہو جائے عورتیں بہت باریک اور اتنا چست لباس ہرگز نہ پہنیں کہ جس سے بدن کے اعضاء ظاہر ہوں کہ عورتوں کو ایسا کپڑا پہننا حرام ہے مرد بھی پاجامہ اور تہبند ایسے باریک اور ہلکے کپڑے کا نہ پہنیں کہ جس سے بدن کی رنگت جھلکے اور ستر پوشی نہ ہو کہ مردوں کو بھی ایسا تہبند اور پاجامہ پہننا جائز نہیں۔
مسئلہ:۔مردوں کو دھوتی نہیں پہننی چاہے کہ دھوتی پہننا ہندوؤں کا لباس ہے اور اس سے ستر پوشی بھی نہیں ہوتی کہ چلنے اور اٹھنے بیٹھنے میں اکثر ران کا پچھلا حصہ کھل جاتا ہے اسی طرح ہر وہ لباس جو یہود و نصاری یا دوسرے کفار کا قومی یا مذہبی لباس ہو مسلمانوں کو ہرگز نہیں پہننا چاہے۔
اور ایسا تنگ لباس بھی ناجائز ہے کہ جس سے رکوع و سجود نہ ہو سکے نیکر اور جانگیا"
بھی ہر گز نہ پہنیں کہ گھٹنوں اور ران کا کھولنا حرام ہے ہاں تہبند کے نیچے اگر نیکر یا جانگیا پہنیں تو کوئی حرج نہیں۔
(بہارشریعت،ج۳،ح۱۶،ص۵۴)
مسئلہ:۔مردوں کو ریشمی لباس پہننا یا لڑکوں کو پہنانا حرام ہے اور عورتوں کے لئے جائز ہے لیکن اگر ریشمی کپڑے کا بانا سوت کا ہو اور تانا ریشم کا ہو تو یہ کپڑا مردوں کے لئے بھی جائز ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب التاسع فی اللبس ما یکرہ من ذالک وما یکرہ،ج۵،ص۳۳۰)
مسئلہ:۔عورت کو سارا بدن سر سے پیر تک چھپائے رکھنے کا حکم ہے کسی غیر محرم کے سامنے بدن کا کوئی حصہ کھولنا جائز نہیں ۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الثامن فیما یحل للرجل النظرالیہ وما لا یحل لہ،،ج۵،ص۳۲۹)
مسئلہ:۔بالغ عورت کو غیر محرم کے سامنے چہرہ کھولنا یا سر کے کچھ حصہ سے دوپٹا ہٹا دینا جائز نہیں اسی سے معلوم ہوا کہ بعض جگہ نئی دلہن کی منہ دکھائی کا جو دستور ہے کہ کنبہ والے اور رشتہ دار لوگ آکر دلہن کا منہ دیکھتے ہیں اور کچھ رقم منہ دکھائی میں دلہن کو دیتے ہیں غیر محرم لوگوں کے لئے یہ ہر گز جائز نہیں۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الثامن فیما یحل للرجل النظر۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۲۹)
مسئلہ:۔مردوں کو عورتوں کا لباس پہننا اور عورتوں کو مردوں کا لباس پہننا بھی منع ہے
(سنن ابی داؤد،کتاب اللباس،باب فی لباس النسائ،رقم ۴۰۹۸،ج۴،ص۸۳)
مسئلہ:۔سفید کپڑے بہتر ہیں کہ حدیث میں اس کی تعریف آئی ہے اور سیاہ رنگ کے کپڑے بھی بہتر ہی ہیں حدیثوں میں آیا ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم فتح مکہ کے دن جب فاتحانہ حیثیت سے مکہ معظمہ تشریف لائے تو سر اقدس پر کالے رنگ کا عمامہ تھا کسم و زعفران میں رنگا ہوا اور سرخ رنگ کا کپڑا عورتوں کے لئے جائز اور مردوں کے لئے منع
ہے ۔
(ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی اللبس،ج۹،ص۵۸۰)
مسئلہ:۔علماء او رفقہاء کو ایسا لباس پہننا چاہے کہ وہ پہچانے جائیں تاکہ لوگوں کو ان سے علمی فائدہ حاصل کرنے کا موقع ملے اور علم کی عزت و وقعت بھی لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو۔
(بہارشریعت،ج۳،ح۱۶،ص۵۲)
مسئلہ:۔عورتوں کو چوڑی دار تنگ پاجامہ نہیں پہننا چاہے کہ اس سے ان کی پنڈلیوں اور رانوں کی بناوٹ اور شکل ظاہر ہوتی ہے عورتوں کے لئے یہی بہتر ہے کہ ان کے پاجامے غرارے یا ڈھیلے ڈھالے اور نیچے ہوں کہ قدم چھپ جائیں ان کے لئے جہاں تک پاؤں کا زیادہ سے زیادہ حصہ چھپ جائے یہ بہت ہی اچھا ہے۔
(بہارشریعت،ج۳،ح۱۶،ص۵۴)
مسئلہ:۔مردوں کا پاجامہ یا تہبند ٹخنوں سے نیچا ہونا سخت منع ہے اور اﷲ تعالیٰ کو بہت زیادہ ناپسند ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب التاسع فی اللبس،ج۵،ص۳۳۳)
مسئلہ:۔اون اور بالوں کے کپڑے حضرات انبیاء علیہم السلام کی سنت ہیں اور بہت سے اولیا ئے کاملین اور بزرگان دین نے اپنی زندگی بھر ان کپڑوں کو پہنا ہے حدیث میں ہے کہ اون کے کپڑے پہن کر اپنے دلوں کو منور کرو کہ یہ دنیا میں ذلت ہے اور آخرت میں نور ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب التاسع فی اللبس،ج۵،ص۳۳۳)
مسئلہ:۔کپڑا دا ہنی طرف سے پہننا مثلاً پہلے دا ہنی آستین داہنا پائینچہ پہننا یہ سنت ہے ۔
(بہارشریعت،ج۳،ح۱۶،ص۴۴)
نیا لباس پہنتے وقت یہ دعا پڑھنی چاہے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ کَسَانِیْ ھٰذَا وَرَزَقَنِیْہِ مِنْ غَیْرِحَوْلٍ وَّلَا قُوَّۃٍ O
(سنن ابی داود،کتاب اللباس،باب مایقول اذا لبس ثوبًاجدیدًا،رقم۴۰۲۳،ج۴،ص۵۹)
یعنی اس اﷲعزوجل کے لئے حمد ہے جس نے مجھے یہ پہنا یا اور مجھے رزق دیا بغیر میری طاقت وقوت کے ۔
مردوں کو سونے کی انگوٹھی پہننا حرام ہے مرد چاندی کی ایک انگوٹھی ایک نگ والی جو وزن میں ساڑھے چار ماشہ سے کم ہو پہن سکتے ہیں مرد چند انگوٹھیاں یا ایک انگوٹھی کئی نگ والی یا چھلے نہیں پہن سکتے کہ یہ سب مردوں کے لئے ناجائز ہیں عورتیں سونے چاندی کی ہر قسم کی انگوٹھیاں چھلے اور ہر قسم کے زیورات پہن سکتی ہیں لیکن سونے چاندی کے علاوہ دوسری دھاتوں مثلاً لوہا' تانبا' پیتل' رولڈ گولڈ وغیرہ کے زیورات یا انگوٹھیاں مرد و عورت دونوں کے لئے ناجائز ہیں بجنے والے زیورات بھی عورتوں کے لئے منع ہیں نابالغ لڑکوں کو بھی زیورات پہنانا حرام ہے پہنانے والے گنہ گارہوں گے
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب العاشرفی استعمال الذھب والفضۃ،ج۵،ص۳۳۵)
مسئلہ:۔شریعت میں اجازت ہے کہ اگر اﷲتعالیٰ نے دولت دی ہے تو اچھا لباس اور قیمتی کپڑوں کا استعمال عورتوں اور مردوں دونوں کے لئے جائز ہے بشرط یہ کہ فخر اور گھمنڈ کے لئے نہ ہوں بلکہ نعمت خداوندی کے اظہار کے لئے ہو۔
(ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی اللبس،ج۹،ص۵۷۹)
مسئلہ:۔انسان کے بالوں کو عورت چوٹی بنا کر اپنے بالوں میں گوندھے تاکہ اس کے بال زیادہ اور خوبصورت معلوم ہوں یہ حرام ہے اور اگر اون یا کالے دھاگوں کی چوٹی بنا کر بالوں میں گوندھے تو یہ جائز ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب التاسع عشر فی الختان،ج۵،ص۳۵۸)
مسئلہ:۔دانتوں کو ریتی سے ریت کر خوب صورت بنانے والی یا موچنے سے بھوؤں
کے بالوں کو نوچ کر بھوؤں کو باریک اور خوب صورت بنانے والی ان سب عورتوں پر حدیث میں لعنت آئی ہے۔
(صحیح مسلم، کتاب اللباس والزینۃ،باب تحریم فعل الواصل۔۔۔الخ،رقم ۲۱۲۵،ص۱۱۷۵)
مسئلہ:۔لڑکیوں کے ناک کان چھیدنا جائز ہے بعض جاہل مرد اور عورتیں لڑکوں کے بھی کان چھدواتے ہیں اور دریا پہناتے ہیں یہ ناجائز ہے یعنی لڑکوں کے کان بھی چھدوانا ناجائز اور ان کے کان میں زیور پہنانا بھی حرام ہے۔
(ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،ج۹،ص۶۹۳)
مسئلہ:۔عورتیں اپنی چوٹیوں میں سونے چاندی کے دانے 'پھول کلپ لگا سکتی ہیں۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب العشرون فی الزینۃ۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۵۹)
مسئلہ:۔عورتوں کو کاجل اور کالا سرمہ زینت کے لئے لگانا جائز ہے مردوں کو کالا سرمہ محض زینت کے لئے لگانا ناجائز ہے ہاں اگر کالا سرمہ آنکھوں کے علاج کے لئے لگائے تو اس میں کوئی کراہت نہیں۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب العشرون فی الزینۃ۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۵۹)
"آداب:۔(۱)جو امیر عورتیں بہت ہی قیمتی اور زرق برق لباس اور شاندار زیورات پہنتی ہیں ان کے پاس بہت کم اٹھو بیٹھو کہ ان کے ٹھاٹھ باٹھ کو دیکھ کر تم کو اپنی مفلسی اور غریبی پر افسوس ہوگا اور تم خداوند کریم کی ناشکری کرنے لگوگی اور خواہ مخواہ دنیا کی ہوس بڑھے گی۔
(۲)ہر ہفتہ نہا دھو کر ناف سے نیچے اور بغل وغیرہ کے بال دور کرکے بدن کو صاف ستھرا کرنا مستحب ہے ہر ہفتہ نہ ہو تو پندرھویں دن سہی زیادہ سے زیادہ چالیس دن اس سے زیادہ کی اجازت نہیں اگر چالیس دن گزر گئے اور بال صاف نہ کئے تو گناہ ہوا عورتوں کو خاص طور پر اس کا خیال رکھنا چاہے کیونکہ عورتوں کی گندگی اور پھوہڑپن سے شوہروں"
کو اپنی بیویوں سے نفرت ہو جایا کرتی ہے پھر میاں بیوی کے تعلقات ہمیشہ کے لئے خراب ہو جایا کرتے ہیں۔
(ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،ج۹،ص۶۷۱)
(۳)موٹے کپڑے پہننا اور پھٹے پرانے کپڑوں میں پیوند لگا کر پہننا اسلامی طریقہ ہے ۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب التاسع فی اللبس مایکرہ من ۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۳۳)
حدیث شریف میں رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا کہ جب تک کپڑے میں پیوند لگا کر نہ پہن لو اس وقت تک کپڑے کو پرانا نہ سمجھو اس لئے خبردار خبردار کبھی ہر گز بھی پیوند لگا کر کپڑوں کو پہننے میں نہ شرم کرو اور نہ اس کو حقیر سمجھو نہ اس پر کسی کو طعنہ مارو۔
(بہار شریعت،ج۳،ح۱۶،ص۵۴)
(۴)ناک منہ صاف کرنے کے لئے یا وضو کے بعد ہاتھ منہ پونچھنے یا پسینہ پونچھنے کے لئے رومال رکھنا عورتوں اور مردوں کے لئے جائز ہے اس لئے رومال رکھنا چاہے دامن یا آستین سے ہاتھ منہ پونچھنا یا ناک صاف کرنا خلاف ادب اور گھناؤنی بات ہے ۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب التاسع فی اللبس ،ج۵،ص۳۳۳)
مسئلہ:۔مردوں کو عمامہ باندھنا سنت ہے خصوصاً نماز میں کیونکہ جو نماز عمامہ باندھ کر پڑھی جاتی ہے اس کا ثواب بہت زیادہ ہوتا ہے۔
(بہار شریعت،ج۳،ح۱۶،ص۵۵)
مسئلہ:۔عمامہ باندھے تو اس کا شملہ دونوں شانوں کے درمیان لٹکائے اور شملہ زیادہ سے زیادہ اتنا بڑا ہونا چاہے کہ بیٹھنے میں نہ دبے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب التاسع فی اللبس مایکرہ ۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۳۰)
بعض لوگ شملہ بالکل نہیں لٹکاتے یہ سنت کے خلاف ہے اور بعض لوگ شملہ کو اوپر لا کر عمامہ میں گھرس لیتے ہیں یہ بھی نہیں چاہے خصوصاً نماز کی حالت میں تو ایسا کرنا مکروہ ہے۔
(بہار شریعت،ج۳،ح۱۶،ص۵۵)
مسئلہ:۔عمامہ کو جب پھر سے باندھنا ہو تو اس کو اتار کر زمین پر پھینک نہ دے بلکہ جس طرح لپیٹا ہے اسی طرح ادھیڑنا چاہے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب التاسع فی اللبس مایکرہ ۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۳۰)
مسئلہ:۔ٹوپی پہننا بھی حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی سنت ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب التاسع فی اللبس مایکرہ ۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۳۰)
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم ٹوپی کے اوپر عمامہ باندھا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ ہم میں اور مشرکین میں یہ فرق ہے کہ ہم عماموں کے نیچے ٹوپی رکھتے ہیں اور وہ صرف پگڑی باندھتے ہیں اور اس کے نیچے ٹوپی نہیں رکھتے چنانچہ ہندوستان کے کفار و مشرکین بھی پگڑی باندھتے ہیں تو اس کے نیچے ٹوپی نہیں پہنتے ۔
(بہار شریعت،ج۳،ح۱۶،ص۵۶)
مسئلہ:۔رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کا چھوٹا عمامہ سات ہاتھ کا اور بڑا عمامہ بارہ ہاتھ کا تھا لہٰذا بس اسی سنت کے مطابق عمامہ رکھنا چاہے بارہ ہاتھ سے زیادہ بڑا عمامہ باندھنا سنت کے خلاف ہے۔
(مرقاۃ المفاتیح،کتاب اللباس،الفصل الثانی،ج۸،ص۱۴۸)
مسئلہ:۔اولیاء و صالحین کے مزاروں پر غلاف و چادر ڈالنا جائز ہے جب کہ یہ مقصود ہو کہ صاحب مزار کی عظمت و رفعت عوام کی نظروں میں پیدا ہو اور عوام ان اﷲ والوں کا ادب کریں
اور ان سے فیوض و برکات حاصل کریں اور وہاں باادب حاضر ہو کر فاتحہ خوانی کریں۔
(ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی اللبس،ج۹،ص۵۹۹)
" وہابی اور بد عقیدہ لوگ جن کے دلوں میں اولیاء اور بزرگان دین کی محبت و عقیدت نہیں ہے اس کو ناجائز و حرام بتاتے ہیں ان لوگوں کی بات ہرگز ہرگز نہیں ماننی چاہے ورنہ گمراہی کا خطرہ ہے۔
مسئلہ:۔گلے میں تعویذ پہننا یا بازو پر تعویذ باندھنا اسی طرح بعض دعاؤں یا آیتوں کو کاغذ پر یا رکابی پر لکھ کر شفا کی نیت سے دھو کر پلانا بھی جائز ہے یاد رکھو کہ بعض حدیثوں میں جو گلے میں تعویذ لٹکانے کی ممانعت آئی ہے اس سے مراد زمانہ جاہلیت کے وہ تعویذات ہیں جو مشرکانہ منتروں سے بنائے جاتے تھے ایسے جنتروں کا پہننا آج کل بھی حرام ہے لیکن قرآن کی آیتوں اور حدیثوں کے تعویذات ہمیشہ اور ہر زمانے میں جائز رہے ہیں اور اب بھی جائز ہیں ۔"
(ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی اللبس،ج۹،ص۶۰۰)
مسئلہ:۔بچھونے یا مصلی یا دستر خوان یا تکیوں یا مسندوں یا رومالوں پر اگر کچھ لکھا ہوا ہو تو ان کو استعمال کرنا جائز نہیں یہ لکھاوٹ خواہ کپڑوں میں بنی ہوئی ہو یا کاڑھی ہوئی ہو یا روشنائی سے لکھی ہوئی ہو الفاظ ہوں یا حروف ہوں ہر صورت میں ممانعت ہے کیونکہ لکھے ہوئے الفاظ اور حروف کا ادب و احترام لازم ہے ۔
(ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی اللبس،ج۹،ص۶۰۰)
مسئلہ:۔نظر سے بچنے کے لئے ماتھے یا ٹھوڑی وغیرہ میں کاجل وغیرہ سے دھبہ لگا دینا یا کھیتوں میں کسی لکڑی میں کپڑا لپیٹ کر گاڑ دینا تاکہ دیکھنے والے کی نظر پہلے اس پر پڑے
اور بچوں اور کھیتی کو کسی کی نظر نہ لگے ایسا کرنا منع نہیں ہے کیونکہ نظر کا لگنا حدیثوں سے ثابت ہے اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا حدیث شریف میں ہے کہ جب اپنی یا کسی مسلمان کی کوئی چیز دیکھے اور وہ اچھی لگے اور پسند آجائے تو فوراً یہ دعا پڑھے
تَبَارَکَ اللہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ فِیْہِ ؕ
(ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی اللبس،ج۹،ص۶۰۱)
"یا اردو میں یہ کہہ دے کہ اﷲ برکت دے اس طرح کہنے سے نظر نہیں لگے گی ۔
مسئلہ:۔جس کے یہاں میت ہوئی ہے اسے اظہار غم کے لئے کالے کپڑے پہننا 38u4جائز نہیں ہے۔"
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب التاسع فی اللبس ۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۳۳)
اسی طرح اظہار غم کے لئے کالے بلے لگانا بھی ناجائز ہے اول تو یہ سوگ کی صورت ہے دوم یہ کہ یہ نصرانیوں کا طریقہ ہے اسی طرح محرم کے دنوں میں پہلی محرم سے بارھویں محرم تک تین قسم کے رنگ والے کپڑے نہیں پہنے جائیں کالا کہ یہ رافضیوں کا طریقہ ہے سبز کہ یہ بدعتیوں یعنی تعزیہ داروں کا طریقہ ہے اور سرخ کہ یہ خارجیوں کا طریقہ ہے کہ وہ معاذ اﷲ اظہار مسرت کے لئے سرخ لباس پہنتے ہیں ۔
(بہارشریعت،ج۳،ح۱۶،ص۵۳)
"مسئلہ:۔علماء اورفقہاء کو ایسا لباس پہننا چاہے کہ وہ پہچانے جائیں تاکہ لوگوں کو ان سے مسائل پوچھنے اور دینی معلومات حاصل کرنے کا موقع ملے اور علم دین کی عزت و وقعت لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو ۔
مسئلہ:۔عمامہ کھڑے ہو کر باندھے اور پاجامہ بیٹھ کر پہنے جس نے اس کا الٹا کیا وہ ایسے مرض میں مبتلا ہوگا جس کی دوا نہیں ۔"
(خلاصۃ الفتاوی،رسالہ ضیاء القلوب فی لباس المحبوب،ج۳،ص۱۵۳)
مسئلہ:۔پاجامہ کا تکیہ نہ بنائے کہ یہ ادب کے خلاف ہے اور عمامہ کا بھی تکیہ نہ بنائے
(بہارشریعت،ح۱۶،ج۳،ص۲۵۸)
اﷲتعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ:
وَلَاتَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا ؕ اِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوۡرٍ ﴿ۚ18﴾وَاقْصِدْ فِیۡ مَشْیِکَ وَاغْضُضْ مِنۡ صَوْتِکَ ؕ اِنَّ اَنۡکَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیۡرِ ﴿٪19﴾ ۔
" اور زمین پر اترا کرمت چلو کوئی اترا کر چلنے والا فخر کرنے والا اﷲ کو پسند نہیں ہے اور درمیانی چال چلو (نہ بہت ہی آہستہ اور نہ بلا ضرورت دوڑ کر) اور بات چیت میں اپنی آواز پست رکھو بے شک سب آوازوں میں بُری آواز گدھے کی آواز ہے۔(پ21،لقمان:18)
دوسری آیت میں ارشاد فرمایا۔"
وَلاَ تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًاج اِنَّکَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلاً۔
(پ۱۵،بنی اسرائیل:۳۷)
" یعنی تو زمین پر اترا کرمت چل بے شک تو ہر گز نہ تو زمین کو چیر ڈالے گا اور نہ تو بلندی میں پہاڑوں کو پہنچے گا۔
تیسری آیت میں فرمایا کہ ۔"
وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنًا۔
" یعنی رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستہ چلتے ہیں۔( پ19،الفرقان:63)
مسئلہ:۔چلنے میں اترا اترا کر چلنا یا اکڑ کر چلنا یا دائیں بائیں ہلتے اور جھومتے ہوئے"
چلنا یا زمین پر پاؤں پٹک پٹک کر چلنا یا بلا ضرورت دوڑتے ہوئے چلنا یا بلا ضرورت ادھر ادھر دیکھتے ہوئے چلنا یا لوگوں کو دھکا دیتے ہوئے چلنا یہ سب اﷲ تعالیٰ کو نا پسند ہے اور رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی سنت کے خلاف ہے اس لئے شریعت میں اس قسم کی چال چلنا منع اور ناجائز ہے حدیث شریف میں ہے کہ ایک شخص دو چادریں اوڑھے ہوئے اترا اترا کر چل رہا تھا اور بہت گھمنڈ میں تھا تو اﷲتعالیٰ نے اس کو زمین میں دھنسا دیا اور وہ قیامت تک زمین میں دھنستا ہی جائیگا ۔
(صحیح مسلم، کتاب اللباس والزینۃ،باب تحریم التبختر فی المشی...الخ، رقم۲۰۸۸،ص۱۱۵۶)
ایک حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ چلنے میں جب تمہارے سامنے عورتیں آجائیں تو تم ان کے درمیان میں سے مت گزرو داہنے یا بائیں کا راستہ لے لو ۔
(شعب الایمان،باب فی تحریم الفروج، رقم۵۴۴۷،ج۴،ص۳۷۱)
مسئلہ:۔راستہ چھوڑ کر کسی کی زمین میں چلنے کا حق نہیں ہاں اگر وہاں راستہ نہیں ہے تو چل سکتا ہے مگر جب کہ زمین کا مالک منع کرے تو اب نہیں چل سکتا یہ حکم ایک شخص کے متعلق ہے اور جب بہت سے لوگ ہوں تو جب زمین کا مالک راضی نہ ہو نہیں چلنا چاہے لیکن اگر راستہ میں پانی ہے اور اس کے کنارے کسی کی زمین ہے ایسی صورت میں اس زمین پر چل سکتا ہے ۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الثلا ثون فی المتفرقات،ج۵،ص۳۷۳)
بعض مرتبہ کھیت بویا ہوتا ہے ظاہر ہے کہ اس میں چلنا کاشت کار کے نقصان کا سبب ہے ایسی صورت میں ہرگز اس میں نہ چلنا چاہے بلکہ بعض مرتبہ کاشت کار کھیت کے کنارے پر کانٹے رکھ دیتے ہیں یہ صاف اس کی دلیل ہے کہ اس کی جانب سے چلنے کی
ممانعت ہے اس پر بھی بعض لوگ توجہ نہیں کرتے ان لوگوں کو جان لینا چاہے کہ اس صورت میں چلنا منع ہے۔
(بہارشریعت،ج۳،ح۱۶،ص۷۱)
اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ۔
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا قِیۡلَ لَکُمْ تَفَسَّحُوۡا فِی الْمَجٰلِسِ فَافْسَحُوۡا یَفْسَحِ اللہُ لَکُمْ ۚ وَ اِذَا قِیۡلَ انۡشُزُوۡا فَانۡشُزُوۡا یَرْفَعِ اللہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمْ ۙ وَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ ؕ
"اے ایمان والو! جب تم سے کہا جائے مجلسوں میں جگہ دے دو تو تم لوگ جگہ دے دو۔ اﷲ تعالیٰ تم کوجگہ دے گا اور جب تم سے کہا جائے کہ اٹھ کھڑے ہو تو اٹھ کھڑے ہوا کرو اﷲتعالیٰ تم میں سے ایمان والوں اور علم والوں کے درجات کو بلند فرمادے گا۔ (پ28،المجادلۃ:11)
رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کوئی شخص ایسا نہ کرے کہ مجلس سے کسی کو اٹھا کر خود اس کی جگہ پر بیٹھ جائے بلکہ آنے والوں کے لئے ہٹ جائے اورجگہ کشادہ کر دے (بخاری وغیرہ) مجلسوں میں ہر مرد عورت کو ان چند آداب کا لحاظ رکھنا چاہے۔"
(صحیح البخاری،کتاب الاستئذان،باب ۳۲، رقم۶۲۷۰،ج۴،ص۱۷۹)
(۱)کسی کو اس کی جگہ سے اٹھاکر خود وہاں مت بیٹھو۔
(صحیح البخاری،کتاب الاستئذان،باب ۳۱، رقم۶۲۶۹،ج۴،ص۱۷۹)
(۲)کوئی مجلس سے اٹھ کر کسی کام کو گیا اور یہ معلوم ہے کہ وہ ابھی آئے گا تو ایسی صورت میں اس جگہ کسی اور کو بیٹھنا نہیں چاہے وہ جگہ اسی کا حق ہے۔
(سنن ابی داؤد،کتاب الادب،باب اذا قام الرجل،من مجلس ۔۔۔الخ،رقم۴۸۵۳،ج۴،ص۳۴۶)
(۳)اگر دو شخص مجلس میں پاس پاس بیٹھ کر باتیں کر رہے ہوں تو ان دونوں کے بیچ میں جاکر نہیں بیٹھ جانا چاہے ہاں البتہ اگر وہ دونوں اپنی خوشی سے تمہیں اپنے درمیان میں بٹھائیں تو بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں۔
(سنن ابی داؤد،کتاب الادب،باب فی الرجل یجلس بین الرجلین ۔۔۔الخ، رقم۴۸۴۴، ج۴،ص۳۴۴)
" (۴)جو تم سے ملاقات کے لئے آئے تو تم خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اس کے لئے ذرا اپنی جگہ سے کھسک جاؤ جس سے وہ یہ جانے کہ میری قدر و عزت کی۔
(۵)مجلس میں سردار بن کر مت بیٹھو بلکہ جہاں بھی جگہ ملے بیٹھ جاؤ گھمنڈ اور غرور اﷲ تعالیٰ کو بے حد ناپسند ہے اور تواضع اور انکساری اﷲ تعالیٰ کو بہت زیادہ محبوب ہے۔
(۶)مجلس میں چھینک آئے تو اپنے منہ پر اپنا ہاتھ یا کوئی کپڑا رکھ لو اور پست آواز سے چھینکو اور بلند آواز سے الحمدﷲ کہو اور بلند آواز سے حاضرین مجلس جواب میں یرحمک اﷲ کہیں۔"
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب السابع فی السلام۔۔۔إلخ،ج۵،ص۳۲۶)
" (۷)جمائی کو جہاں تک ہو سکے روکو اگر پھر بھی نہ رکے تو ہاتھ یا کپڑے سے منہ ڈھانک لو۔
(۸)بہت زور سے قہقہہ لگا کر مت ہنسو کہ اس طرح ہنسنے سے دل مردہ ہو جاتا ہے۔"
(سنن ابن ماجہ،کتاب الزھد،باب الحزن والبکائ، رقم۱۴۹۳،ج۴،ص۴۶۵)
(۹)مجلسوں میں لوگوں کے سامنے تیوری چڑھا کر اور ماتھے پر بل ڈال کر ناک منہ چڑھا کر مت دیکھو کہ یہ گھمنڈی لوگوں اور متکبروں کا طریقہ ہے بلکہ نہایت عاجزانہ انداز سے غریبوں کی طرح بیٹھو کوئی بات موقع کی ہو تو لوگوں سے بول چال بھی لو لیکن ہر گز ہرگز کسی کی بات مت کاٹو نہ کسی کی دل آزاری کرو نہ کوئی گناہ کی بات بولو۔
" (۱۰)مجلس میں خبردار خبردار کسی کی طرف پاؤں نہ پھیلاؤ یہ بالکل ہی خلاف ادب ہے۔
مجلس سے اٹھتے وقت کی دعا:۔رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص مجلس سے اٹھ کر تین مرتبہ یہ دعا پڑھ لے گا اﷲتعالیٰ اس کے گناہوں کو مٹا دے گا اور جو شخص مجلس خیر اور مجلس ذکر میں اس دعا کو پڑھے گا اﷲ تعالیٰ اس کے لئے اس خیر پر مہر کردے گا ۔"
سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَ بِحَمْدِکَ لَا اِلٰہَ اِلَّااَنْتَ اَسْتَغْفِرُکَ وَ اَتُوْبُ اِلَیْکَ۔
اے اﷲعزوجل ہم تیری تعریف کے ساتھ تیری پاکی بیان کرتے ہیں تیرے سوا کوئی معبود نہیں میں تجھ سے بخشش مانگتا ہوں اور تیرے دربار میں توبہ کرتا ہوں۔
(سنن ابی داؤد،کتاب الادب،باب فی کفارۃ المجلس،رقم۴۸۵۷،ج۴،ص۳۴۷)
" بات چیت میں ہمیشہ اس کا دھیان رکھو کہ تمہاری زبان سے کوئی گناہ کی بات نہ نکل جائے حدیث شریف میں ہے کہ بہت سے لوگوں کو ان کی زبانوں سے نکلی ہوئی باتیں جہنم میں لے جائیں گی اس لئے خاص طور پر بات چیت کرنے میں ان باتوں کا خیال رکھو۔
(۱)بے سوچے سمجھے ہرگز کوئی بات مت کہو جب سوچ کر تمہیں یقین ہو جائے کہ یہ بات کسی طرح بری نہیں تب بولو ورنہ بولنے سے چپ رہنا بہتر ہے۔
(۲)کسی کو بے ایمان کہنا یا یہ کہنا کہ فلاں پر خدا کی مار' خدا کی پھٹکار' خدا کی لعنت' خدا کا غضب پڑے' فلاں کو دوزخ نصیب ہو' اس طرح سے بولنا گناہ کی بات ہے جس کو ایسا کہا ہے اگر واقعی وہ ایسا نہ ہوا تو یہ بری لعنت اور پھٹکار لوٹ کر کہنے والے پر پڑے گی۔
(۳)اگر تم کو کسی نے دکھ دینے والی بات کہہ دی ہے تو تم صبر کرو اور معاف کر دو تمہیں"
"بہت بڑا اجر و ثواب ملے گا اور اگر تم اس کا جواب دینا چاہو تو تم بس اتنا ہی کہہ سکتے ہو جتنا اس نے تم کو کہا ہے اگر اس سے زیادہ کہو گے تو گنہ گار ہو جاؤ گے۔
(۴)دوغلی بات ہر گز ہرگز مت کہو کہ اس کے منہ پر اس کی سی بات کرو اور دوسرے کے منہ پر اس کی سی بات کرو کہ یہ دونوں جہان میں رسوائی کا سامان ہے۔
(۵)نہ کسی کی چغلی کرو نہ کسی کی چغلی سنو کہ یہ بڑے بڑے فسادوں کی جڑ اور گناہ کبیرہ ہے۔
(۶)جھوٹ بھی ہر گز نہ بولو کہ یہ بہت ہی سخت گناہ کبیرہ ہے۔
(۷)خوشامد کے طور پر کسی کے منہ پر اس کی تعریف نہ کرو۔ پیٹھ کے پیچھے بھی حد سے زیادہ کسی کی تعریف نہ کرو۔
(۸)نہ کسی کی غیبت کرو نہ کسی کی غیبت سنو غیبت گناہ کبیرہ ہے اور غیبت یہ ہے کہ کسی کی پیٹھ کے پیچھے اس کی ایسی کوئی بات کہنا کہ اگر وہ سنے تو اس کو رنج ہو اگر چہ وہ بات سچی ہی ہو اور اگر وہ بات ہی غلط ہو تو اس کو کہنا یہ بہتان ہے اس میں غیبت سے بھی زیادہ گناہ ہے۔"
(ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،ج۹،ص۶۷۶)
(۹)جس شخص کی غیبت کی ہے اگر اس سے معاف نہ کراسکو تو اس کے لئے مغفرت کی دعائیں کیا کرو امید ہے کہ قیامت میں وہ معاف کردے۔
(ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،ج۹،ص۶۷۶)
" (۱۰)کبھی ہر گز کسی سے جھوٹا وعدہ نہ کرو۔
(۱۱)محض اپنی بات کو اونچی رکھنے کے لئے کسی سے بحث نہ کرو۔
(۱۲)کبھی ایسی ہنسی مت کرو جس سے دوسرا ذلیل ہوجائے۔
(۱۳)سنی سنائی باتوں کو بلا تحقیق کئے ہوئے مت کہا کرو کیونکہ اکثر ایسی باتیں جھوٹی ہوتی ہیں۔
(۱۴)کسی کی بری صورت یا بری بات کی نقل مت کرو۔
(۱۵)ہمیشہ اچھی باتیں لوگوں کو بتاتے رہو اور بری باتوں سے لوگوں کو منع کرتے رہو۔"
قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہو جب تک اجازت نہ لے لو اور گھر والوں پر سلام نہ کر لو یہ تمہارے لئے بہتر ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو اور اگر ان گھروں میں کسی کو نہ پاؤ تو اندر مت جاؤ جب تک تمہیں اجازت نہ ملے اور اگر تم سے کہا جائے کہ لوٹ جاؤ تو واپس چلے آؤ یہ تمہارے لئے زیادہ پاکیزہ ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اﷲ اس کو جانتا ہے اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں کہ ایسے گھروں کے اندر چلے جاؤ جن میں کوئی رہتا نہیں ہے اور ان کے برتنے کا تمہیں اختیارہے اور اﷲ جانتا ہے تمام ان باتوں کو جن کو تم ظاہر کرتے ہو اور جن کو تم چھپاتے ہو۔
(پ۱۸،النور:۲۷۔۲۹)
مسئلہ:۔جب کوئی شخص دوسرے کے مکان پر جائے تو پہلے اندر آنے کی اجازت حاصل کرے پھر جب اندر جائے تو پہلے سلام کرے پھر اس کے بعد بات چیت شروع کرے اور اگر جس شخص کے پاس گیا ہے وہ مکان سے باہر ہی مل گیا ہو تو اب اجازت طلب کرنے کی ضرورت نہیں سلام کرے پھر کلام شروع کردے ۔
(الفتاوی قاضی خان،کتاب الحظر والاباحۃ،ج۴،ص۳۷۷)
مسئلہ:۔کسی کے دروازہ پر جاکر آواز دی اور اس نے اندر سے کہا ''کون؟'' تو اس کے جواب میں یہ نہ کہے کہ ''میں'' جیسا کہ آج کل بہت سے لوگ ''میں'' کہہ کر جواب دیتے ہیں اس جواب کو حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے ناپسند فرمایا بلکہ جواب میں اپنا نام ذکر کرے کیونکہ ''میں'' کا لفظ تو ہر شخص اپنے کو کہہ سکتا ہے پھر یہ جواب ہی کب ہوا۔
(ردالمحتار ، کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،ج۹،ص۶۸۳)
مسئلہ:۔اگر تم نے کسی کے مکان پر جاکر اندر داخل ہونے کی اجازت مانگی اور گھر
والے نے اجازت نہ دی تو ناراض ہونے کی ضرورت نہیں خوشی خوشی وہاں سے واپس چلے آؤ ہو سکتا ہے کہ وہ اس وقت کسی ضروری کام میں مشغول ہو اور اس کو تم سے ملنے کی فرصت نہ ہو۔
(ردالمحتار ، کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،ج۹،ص۶۸۲)
مسئلہ:۔اگر ایسے مکان میں جانا ہو کہ اس میں کوئی نہ ہو تو یہ کہو کہ ''السلام علینا وعلیٰ عباد اﷲ الصالحین'' فرشتے اس سلام کا جواب دیں گے۔
(ردالمحتار ، کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،ج۹،ص۶۸۲)
یا اس طرح کہے کہ ''السلام علیک ایھاالنبی'' کیونکہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی روح مبارک مسلمانوں کے گھروں میں تشریف فرما ہوا کرتی ہے۔
(بہارشریعت،ج۳،ح۱۶،ص۸۴)
اﷲ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ۔
وَ اِذَا حُیِّیۡتُمۡ بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّوۡا بِاَحْسَنَ مِنْہَاۤ اَوْ رُدُّوۡہَا ؕ اِنَّ اللہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ حَسِیۡبًا ﴿۸۶﴾
" اور جب تم کو کوئی کسی لفظ سے سلام کرے تو تم اس سے بہتر لفظ میں جواب دو یا وہی لفظ تم بھی کہہ دو بے شک اﷲ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔(پ5،النساء:86)
مسئلہ:۔سلام کرنا سنت اور سلام کا جواب دینا واجب ہے۔"
(الدرالمختار مع ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،ج۹،ص۶۸۳،۶۸۷)
مسئلہ:۔سلام کرنے والے کے لئے چاہے کہ سلام کرتے وقت دل میں یہ نیت کرے کہ اس شخص کی جان' اس کا مال ' اس کی عزت و آبرو' سب کچھ میری حفاظت میں ہے اور
میں ان میں سے کسی چیز میں دخل اندازی کرنا حرام جانتا ہوں۔
(ردالمحتار ، کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،ج۹،ص۶۸۲)
مسئلہ:۔عورت ہو یا مرد سب کے لئے سلام کرنے اور جواب دینے کا اسلامی طریقہ یہی ہے کہ
السلام علیکم
کہے اور جواب میں
وعلیکم السلام
"کہے اس کے سوا دوسرے سب طریقے غیر اسلامی ہیں۔
مسئلہ:۔اگر دوسرے کا سلام لائے تو جواب میں یہ کہنا چاہے ''"
علیک و علیھم السلام''
(الدرالمختارمع ردالمحتار،کتاب الحظروالاباحۃ،فصل فی البیع،ج۹،ص۶۸۵)
مسئلہ:۔
''السلام علیکم''
اور جواب میں
''وعلیکم السلام''
کہنا کافی ہے لیکن بہتر یہ کہ سلام کرنے والا
'' السلام علیکم ورحمۃ اﷲوبرکاتہ''
کہے اور جواب دینے والا بھی یہ کہے سلام میں اس سے زیادہ الفاظ کہنے کی ضرورت نہیں ۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب السابع فی السلام،ج۵،ص۳۲۵)
مسئلہ:۔
''سَلَامٌ عَلَیْکُمْ''
کا لفظ بھی سلام ہے مگر چونکہ یہ لفظ شیعوں میں مذہبی نشان کے طور پر رائج ہوگیا ہے کہ اس لفظ کے سنتے ہی فوراً ذہن اس طرف جاتا ہے کہ یہ شخص شیعہ مذہب کا ہے لہٰذا سنیوں کو سلام میں اس لفظ سے بچنا ضروری ہے۔
(بہار شریعت،ج۳،ح۱۶،ص۸۹)
مسئلہ:۔سلام کا جواب فوراً ہی دینا واجب ہے بلاعذر تاخیر کی تو گنہ گار ہوا اور یہ گناہ سلام کا جواب دے دینے سے دفع نہیں ہوگا بلکہ توبہ کرنی ہوگی ۔
(ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،ج۹،ص۶۸۳)
مسئلہ:۔ایک جماعت دوسری جماعت کے پاس آئی اور ان میں سے کسی ایک نے بھی سلام نہ کیا تو سب سنت چھوڑنے کے الزام کی گرفت میں آگئے اور اگر ان میں سے ایک
شخص نے بھی سلام کرلیا تو سب بری ہوگئے لیکن افضل یہ ہے کہ سب ہی سلام کریں یوں ہی اگر جماعت میں سے کسی نے بھی سلام کا جواب نہ دیا تو واجب چھوڑنے کی وجہ سے سب گنہ گار ہوئے اور اگر ایک شخص نے بھی سلام کا جواب دے دیا تو پوری جماعت الزام سے بری ہوگئی مگر افضل یہی ہے کہ سب سلام کاجواب دیں۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب السابع فی السلام۔۔۔الخ،،ج۵،ص۳۲۵)
مسئلہ:۔ایک شخص شہر سے آرہا ہے اور دوسرا شخص دیہات سے آرہا ہے دونوں میں سے کون کس کو سلام کرے بعض نے کہا کہ شہری دیہاتی کو سلام کرے اور بعض کا قول ہے کہ دیہاتی شہری کو سلام کرے اور اس مسئلہ میں سب کا اتفاق ہے کہ چلنے والا بیٹھنے والے کو سلام کرے' چھوٹا بڑے کو سلام کرے' سوار پیدل کو سلام کرے' تھوڑے لوگ زیادہ لوگوں کو سلام کریں' ایک شخص پیچھے سے آیا یہ آگے والے کو سلام کرے ۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب السابع فی السلام۔۔۔الخ،،ج۵،ص۳۲۵)
مسئلہ:۔کافر کو سلام نہ کرے اور وہ سلام کریں تو جواب دے سکتا ہے مگر جواب میں صرف علیکم کہے اور اگر ایسی جگہ گزرتا ہو جس جگہ مسلمان اور کفار دونوں جمع ہوں تو السلام علیکم کہے اور مسلمانوں پر سلام کرنے کی نیت کرے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایسے ملے جلے مجمع کو
''اَلسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدُیٰ''
کہہ کر سلام کرے ۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب السابع فی السلام۔۔۔الخ،،ج۵،ص۳۲۵)
مسئلہ:۔اذان و اقامت اور جمعہ و عیدین کے خطبہ کے وقت سلام نہیں کرنا چاہے ۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب السابع فی السلام۔۔۔الخ،،ج۵،ص۳۲۵۔۳۲۶)
مسئلہ:۔علانیہ فسق و فجور کرنے والوں کو سلام نہیں کرنا چاہے لیکن اگر کسی کے پڑوس میں فساق رہتے ہوں اور یہ اگر ان سے سختی برتتا ہے تو وہ اس کو پریشان کرتے ہوں اور ایذا
دیتے ہوں اور اگر یہ ان سے سلام و کلام جاری رکھتا ہے تو وہ اس کو ایذا پہنچانے سے باز رہتے ہوں تو ایسی صورت میں ظاہری طور پر ان فساق کے ساتھ سلام و کلام کے ساتھ میل جول رکھنے میں یہ شخص معذور سمجھا جائے گا ۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب السابع فی السلام۔۔۔الخ،،ج۵،ص۳۲۶)
مسئلہ:۔کسی سے کہہ دیا کہ فلاں کو میرا سلام کہہ دینا اور اس نے سلام پہنچانے کا وعدہ کر لیا تو اس پر سلام پہنچانا واجب ہے اور اگر سلام پہنچانے کا وعدہ نہیں کیا تھا تو سلام پہنچانا اس پر واجب نہیں۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب السابع فی السلام۔۔۔الخ،،ج۵،ص۳۲۵)
مسئلہ:۔خط میں سلام لکھا ہوتا ہے اس کو پڑھتے ہی زبان سے
''وعلیکم السلام''
کہہ لے تحریری سلام کا جواب ہو گیا۔
(ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،ج۹،ص۶۸۵)
اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خان صاحب بریلوی علیہ الرحمۃ کا بھی یہ طریقہ ہے۔
(بہارشریعت،ج۳،ح۱۶،ص۹۲)
مسئلہ:۔انگلی یا ہتھیلی سے سلام کرنا منع ہے ۔
(بہارشریعت،ج۳،ح۱۶،ص۹۲)
حدیث شریف میں ہے کہ انگلیوں سے سلام کرنا یہودیوں کا طریقہ ہے اور ہتھیلی سے اشارہ کرکے سلام کرنا یہ نصرانیوں کا طریقہ ہے۔
(جامع الترمذی،کتاب الاستئذان والآداب،باب ماجاء فی کراہیۃ۔۔۔الخ،رقم۲۷۰۴،ج۴،ص۳۱۹)
مسئلہ:۔بعض لوگ سلام کے جواب میں ہاتھ یا سر سے اشارہ کردیتے ہیں بلکہ بعض تو فقط آنکھوں کے اشارہ سے سلام کا جواب دیا کرتے ہیں یوں سلام کا جواب نہیں ہوا زبان
سے سلام کا جواب دینا واجب ہے ۔
(بہارشریعت،ج۳،ح۱۶،ص۹۲)
مسئلہ:۔چھوٹے جب بڑوں کو سلام کرتے ہیں تو بڑا جواب میں کہتا ہے کہ ''جیتے رہو'' اسی طرح بوڑھی عورتیں بچیوں کے سلام کا جواب اس طرح دیا کرتی ہیں ''خوش رہو'' ''سہاگن بنی رہو''''دودھ پوت والی رہو'' ان سب الفاظ سے سلام کا جواب نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اور ہر مرد و عورت کو سلام کے جواب میں ''وعلیکم السلام'' کہنا چاہے۔
(بہارشریعت،ج۱۶،ص۹۳)
مسئلہ:۔اس زمانے میں کئی طرح کے سلام لوگوں نے ایجاد کر لئے ہیں جن میں سب سے برے الفاظ ''نمستے'' اور ''بندگی عرض'' ہیں مسلمانوں کو کبھی ہر گز ہرگز یہ نہیں کہنا چاہے بعض لوگ ''آداب عرض'' کہتے ہیں اس میں اگرچہ اتنی برائی نہیں مگر یہ بھی سنت کے خلاف ہے۔
(بہارشریعت ج۱۶،ص۹۲)
مسئلہ:۔کوئی شخص تلاوت میں مشغول ہے یا درس و تدریس یا علمی گفتگو میں ہے تو اس کو سلام نہیں کرنا چاہے اسی طرح اذان و اقامت و خطبہ جمعہ و عیدین کے وقت بھی سلام نہ کرے سب لوگ علمی بات چیت کر رہے ہوں یا ایک شخص بول رہا ہو اور باقی سن رہے ہوں دونوں صورتوں میں سلام نہ کرے مثلاً کوئی عالم و عظ کہہ رہا ہے یا دینی مسئلہ پر تقریر کر رہا ہے اور حاضرین سن رہے ہیں تو آنے والا شخص چپکے سے آکر بیٹھ جائے سلام نہ کرے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب السابع فی السلام۔۔۔الخ،،ج۵،ص۳۲۵)
مسئلہ:۔جو شخص پیشاب پاخانہ کر رہا ہو یا کبوتر اڑا رہا ہو یا گانا گا رہا ہو یا ننگا نہا رہا ہو یا پیشاب کے بعد ڈھیلا لے کر استنجا سکھا رہا ہو اس کو سلام نہ کیا جائے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب السابع فی السلام۔۔۔الخ،،ج۵،ص۳۲۶)
مسئلہ:۔جب اپنے گھر میں جائے تو گھر والوں کو سلام کرے' بچوں کے سامنے گزرے
تو ان بچوں کو سلام کرے ۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب السابع فی السلام۔۔۔الخ،،ج۵،ص۳۲۵)
مسئلہ:۔مرد عورت کی ملاقات ہو تو مرد عورت کو سلام کرے اور اگر کسی اجنبیہ عورت نے مرد کو سلام کیا اور وہ بوڑھی ہو تو اس طرح جواب دے کہ وہ بھی سنے اور وہ جوان ہو تو اس طرح جواب دے کہ وہ نہ سنے ۔
(فتاوی قاضی خان،کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی التسبیح والتسلیم۔۔۔الخ،ج۴،ص۳۷۷)
مسئلہ:۔بعض لوگ سلام کرتے وقت جھک جاتے ہیں اگر یہ جھکنا رکوع کے برابر ہو جائے تو حرام ہے اور اگر رکوع کی حد سے کم ہو تو مکروہ ہے۔
(بہارشریعت،ج۳،ح۱۶،ص۹۲)
مسئلہ:۔کسی کے نام کے ساتھ ''علیہ السلام'' کہنا یہ حضرات انبیاء اور ملائکہ کے ساتھ خاص ہے مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت جبرئیل علیہ السلام نبی اورفرشتے کے علاوہ کسی دوسرے کے نام کے ساتھ علیہ السلام نہیں کہنا چاہے ۔
(بہارشریعت،ج۳،ح۱۶،ص۹۳)
مسئلہ:۔سلام محبت پیدا ہونے کا ذریعہ ہے حدیث شریف میں ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم ہے کہ جس کے دست قدرت میں میری جان ہے کہ تم لوگ اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہوگے یہاں تک کہ تم مومن بن جاؤ اور تم لوگ مومن نہیں بنو گے یہاں تک کہ تم ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو لہٰذا میں تم لوگوں کو ایک ایسے کام کی رہنمائی کرتا ہوں کہ جب تم لوگ وہ کام کرنے لگو گے تو تم ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو گے وہ کام یہ ہے کہ تم لوگ آپس میں سلام کا چرچا کرو ۔
(سنن ابی داؤد ،کتاب الادب،باب فی افشاء السلام،رقم۵۱۹۳،ج۴،ص۴۴۸)
مسئلہ:۔سلام خیر و برکت کا سبب ہے حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے اپنے خادم خاص
حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ اے پیارے بیٹے! جب تو گھر میں داخل ہوا کرے تو گھر والوں کوسلام کر کیونکہ تیرا سلام تیرے اور تیرے گھر والوں کے لئے برکت کا سبب ہوگا ۔
(جامع الترمذی،کتاب الاستئذان والآداب،باب ماجاء فی التسلیم۔۔۔الخ، رقم۲۷۰۷، ج۴،ص۳۲۰)
مسئلہ:۔سوار پیدل چلنے والوں کو سلام کرے اور چلنے والا بیٹھے ہوئے کو سلام کرے اور تھوڑے لوگ زیادہ لوگوں کو سلام کریں۔
(صحیح البخاری،کتاب الاستئذان،باب تسلیم الماشی علی القاعد،رقم۶۲۳۳،ج۴،ص۱۶۶)
مسئلہ:۔ہر مسلمان کے دوسرے مسلمان کے اوپر چھ حقوق ہیں (۱)جب وہ بیمار ہو تو عیادت کرے (۲)جب وہ مرجائے تواس کے جنازہ پرحاضر ہو (۳) جب دعوت کرے تواس کی دعوت قبول کرے (۴)جب وہ ملاقات کرے تو اس کو سلام کرے (۵)جب وہ چھینکے تو یرحمک اﷲ کہہ کر اس کی چھینک کا جواب دے (۶) اس کی غیر حاضری اور موجودگی دونوں صورتوں میں اس کی خیر خواہی کرے۔
(جامع الترمذی،کتاب الأدب،باب ماجاء فی تشمیت العاطس،رقم۲۷۴۶،ج۴،ص۳۳۸)
حدیث شریف میں ہے کہ جب دو مسلمان ملیں اور مصافحہ کریں اور اﷲعزوجل کی حمد کریں اور استغفار کریں تو دونوں کی مغفرت ہو جائے گی۔
(سنن ابی داؤد،کتاب الادب،باب فی المصافحۃ،رقم۵۲۱۱،ج۴،ص۴۵۳)
مسئلہ:۔مصافحہ سنت ہے اور اس کا ثبوت متواتر حدیثوں سے ہے اور احادیث میں اس کی بہت بڑی فضیلت آئی ہے ایک حدیث میں ہے کہ جس نے اپنے مسلمان بھائی سے مصافحہ کیا اور ہاتھ کو ہلایا تو اس کے تمام گناہ گر جائیں گے جتنی بار ملاقات ہو ہر بار مصافحہ کرنا مستحب ہے مطلقاً مصافحہ کا جائز ہونا یہ بتاتا ہے کہ نماز فجر و نماز عصر کے بعد جو
اکثر جگہ مصافحہ کرنے کا مسلمانوں میں رواج ہے یہ بھی جائز ہے اور فقہ کی جو بعض کتابوں میں اس کو بدعت کہا گیا ہے اس سے مراد بدعت حسنہ ہے اور ہر بدعت حسنہ جائز ہی ہوا کرتی ہے۔ اور جس طرح نماز فجر و عصر کے بعد مصافحہ جائز ہے دوسری نمازوں کے بعد بھی مصافحہ کرنا جائز ہے کیونکہ جب اصل مصافحہ کرنا جائز ہے تو جس وقت بھی مصافحہ کیا جائے جائز ہی رہے گا جب تک کہ شریعت مطہرہ سے اس کی ممانعت ثابت نہ ہو جائے اور ظاہر ہے کہ پانچوں نمازوں کے بعد مصافحہ کرنے کی کوئی ممانعت شریعت کی طرف سے ثابت نہیں ہے لہٰذا پانچوں نمازوں کے بعد مصافحہ جائز ہے ۔
(الدرالمختارمع ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحۃ،باب الاستبراء،ج۹،ص۶۲۸)
مسئلہ:۔مصافحہ کا ایک طریقہ وہ ہے جو بخاری شریف میں حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲتعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کا مبارک ہاتھ ان کے دونوں ہاتھوں کے درمیان میں تھا یعنی ہر ایک کا ایک ہاتھ دوسرے کے دونوں ہاتھوں کے درمیان میں ہو دوسرا طریقہ جس کو بعض فقہا نے بیان کیا ہے اور اس کو بھی حدیث سے ثابت بتاتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہر ایک اپنا داہنا ہاتھ دوسرے کے داہنے ہاتھ سے اور بایاں ہاتھ بائیں ہاتھ سے ملائے اور انگوٹھے کو دبائے کہ انگوٹھے میں ایک رگ ہے کہ اس کے پکڑنے سے محبت پیدا ہوتی ہے ۔
(بہارشریعت،ج۳،ح۱۶،ص۹۸)
"مسئلہ:۔وہابی غیر مقلد دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنے کو ناجائز اور خلاف سنت بتاتے ہیں اور صرف ایک ہاتھ سے مصافحہ کرتے ہیں یہ ان لوگوں کی جہالت ہے حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ نے صاف صاف تحریر فرمایا ہے کہ۔
''ملاقات کے وقت مصافحہ کرنا سنت ہے اور دونوں ہاتھ سے مصافحہ کرنا"
چاہے۔''
(اشعۃ اللمعات،کتاب الآداب،باب المصافحۃ والمعانقۃ،ج۴،ص۲۲)
مسئلہ:۔معانقہ کرنا بھی سنت ہے کیونکہ حدیث سے ثابت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے معانقہ فرمایا ہے ۔
(بہارشریعت،ج۳،ح۱۶،ص۹۸)
مسئلہ:۔بعد نماز عیدین مسلمانوں میں معانقہ کا رواج ہے اور یہ بھی اظہار خوشی کا ایک طریقہ ہے یہ معانقہ بھی جائز ہے بشرط یہ کہ فتنہ کا خوف اور شہوت کا اندیشہ نہ ہو مثلاً خوبصورت امرد لڑکوں سے معانقہ کرنا کہ یہ فتنہ کا محل ہے لہٰذا اس سے بچنا چاہے ۔
(بہارشریعت،ج۳،ح۱۶،ص۹۸)
مسئلہ:۔کسی مرد کے رخسار یا پیشانی یا ٹھوڑی کو بوسہ دینا اگر شہوت کے ساتھ ہو تو ناجائز ہے اور اگر اکرام و تعظیم کے لئے ہو تو جائز ہے حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی دونوں آنکھوں کے درمیان کو بوسہ دیا اور حضرات صحابہ و تابعین رضی اﷲ تعالیٰ عنہم اجمعین سے بھی بوسہ دینا ثابت ہے۔
(بہارشریعت،ج۳،ح۱۶،ص۹۸۔۹۹)
مسئلہ:۔عالم دین اور بادشاہ عادل کے ہاتھ کو بوسہ دینا جائز ہے بلکہ ان لوگوں کے قدم کو چومنا بھی جائز ہے بلکہ اگر کسی عالم دین سے لوگ یہ خواہش ظاہر کریں کہ آپ اپنا ہاتھ یا قدم مجھے دیجئے کہ میں بوسہ دوں تو لوگوں کی خواہش کے مطابق وہ عالم اپنا ہاتھ پاؤں بوسہ کیلئے لوگوں کی طرف بڑھا سکتا ہے ۔
(الدرالمختار،کتاب الحظر والاباحۃ،باب الاستبراء وغیرہ،ج۹،ص۶۳۱۔۶۳۲)
مسئلہ:۔بعض لوگ مصافحہ کرنے کے بعد خود اپنا ہاتھ چوم لیا کرتے ہیں یہ مکروہ ہے ایسا نہیں کرنا چاہے ۔
(الدرالمختار،کتاب الحظر والاباحۃ،باب الاستبراء وغیرہ،ج۹،ص۶۳۲)
بوسہ کی چھ قسمیں:۔یاد رکھو کہ بوسہ کی چھ قسمیں ہیں(۱)بوسہ رحمت جیسے ماں باپ کا اپنی اولاد کو بوسہ دینا (۲)بوسہ شفقت جیسے اولاد کا اپنے والدین کو بوسہ دینا (۳)بوسہ محبت جیسے ایک شخص اپنے بھائی کی پیشانی کو بوسہ دے (۴)بوسہ تحیت جیسے بوقت ملاقات ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو بوسہ دے (۵)بوسہ شہوت جیسے مرد عورت کو بوسہ دے (۶)بوسہ دیانت جیسے حجرا سود کا بوسہ۔
(الدرالمختار،کتاب الحظر والاباحۃ،باب الاستبراء وغیرہ،ج۹،ص۶۳۳)
مسئلہ:۔قرآن شریف کو بوسہ دینا بھی صحابہ کرام کے فعل سے ثابت ہے حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ روزانہ صبح کو قرآن مجید کو چومتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ میرے رب کا عہد اور اس کی کتاب ہے اور حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی قرآن مجید کو بوسہ دیتے تھے اور اپنے چہرے سے لگاتے تھے۔
(الدرالمختار،کتاب الحظر والاباحۃ،باب الاستبراء وغیرہ،ج۹،ص۶۳۴)
مسئلہ:۔سجدہ تحیت یعنی ملاقات کے وقت تعظیم کے طور پر کسی کو سجدہ کرنا حرام ہے اور اگر عبادت کی نیت سے ہوتو سجدہ کرنے والا کافر ہے کہ غیر خدا کی عبادت کفر ہے۔
(ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحۃ،باب الاستبراء وغیرہ،ج۹،ص۶۳۲)
مسئلہ:۔آنے والے کی تعظیم کے لئے کھڑا ہونا جائز بلکہ مستحب ہے خصوصاً جب کہ ایسے شخص کی تعظیم کیلئے کھڑا ہو جو تعظیم کا مستحق ہے مثلاً عالم دین کی تعظیم کے لئے کھڑا ہونا۔
(ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحۃ،باب الاستبراء وغیرہ،ج۹،ص۶۳۲۔۶۳۳)
مسئلہ:۔جو شخص یہ پسند کرتا ہو کہ لوگ میری تعظیم کے لئے کھڑے ہوں اس کی یہ خواہش مذموم اور ناپسندیدہ ہے۔
(ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحۃ،باب الاستبراء وغیرہ،ج۹،ص۶۳۳)
بعض حدیثوں میں جو قیام کی مذمت آئی ہے اس سے مراد ایسے ہی شخص کے لئے قیام ہے یا اس قیام کو منع کیا گیا ہے جو عجم کے بادشاہوں میں رائج ہے کہ سلاطین اپنے تخت پر بیٹھے ہوتے ہیں اور اس کے ارد گرد تعظیم کے طور پر لوگ کھڑے رہتے ہیں آنے والے کے لئے قیام کرنا اس قیام میں داخل نہیں۔
(بہارشریعت،ج۳،ح۱۶،ص۱۰۰)
رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کا فرمان ہے کہ چھینک اﷲ تعالیٰ کو پسند ہے اور جمائی ناپسند ہے جب کوئی چھینکے اور الحمدﷲ کہے تو جو مسلمان اس کو سنے اس پر حق ہے کہ یرحمک اﷲ کہے اور جمائی شیطان کی طرف سے ہے جب کسی کو جمائی آئے تو جہاں تک ہو سکے اس کو دفع کرے کیونکہ جب کوئی آدمی جمائی لیتا ہے تو شیطان ہنستا ہے یعنی خوش ہوتا ہے کیونکہ جمائی کسل اور غفلت کی دلیل ہے ایسی چیز کو شیطان پسند کرتا ہے۔
(صحیح البخاری،کتاب الأدب،باب اذا تثاوب فلیضع۔۔۔الخ،رقم۶۲۲۶،ج۴،ص۱۶۳)
مسئلہ:۔جب چھینکنے والا الحمدﷲ کہے تو اس کی چھینک کا جواب دینا واجب ہے اور جس طرح سلام کا جواب فوراً ہی دینا اور اس طرح جواب دینا کہ وہ سن لے واجب ہے بالکل اسی طرح چھینک کا جواب بھی فوراً ہی اور بلند آواز سے دینا واجب ہے۔
(ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،ج۹،ص۶۸۳۔۶۸۴)
مسئلہ:۔جمائی آئے تو جہاں تک ہو سکے اس کو روکے کیونکہ بخاری ومسلم کی حدیثوں میں ہے کہ جب کوئی جمائی لیتا ہے تو شیطان ہنستا ہے۔
(صحیح البخاری،کتاب الأدب،باب اذا تثاوب فلیضع۔۔۔الخ،رقم۶۲۲۶،ج۴،ص۱۶۳)
جمائی روکنے کا طریقہ یہ ہے کہ اپنے ہونٹ کو دانتوں سے دبالے اور جمائی روکنے کا ایک مجرب عمل یہ ہے کہ جب جمائی آنے لگے تو دل میں یہ خیال کرے کہ حضرات انبیاء علیہم
السلام کو جمائی نہیں آتی تھی یہ خیال دل میں لاتے ہی ہر گز جمائی نہیں آئے گی ۔
(بہارشریعت،ج۳،ص۱۶۷)
مسئلہ:۔جس کو چھینک آئے وہ بلند آواز سے
الحمدﷲ
کہے اور بہتر یہ ہے کہ
الحمد ﷲ رب العلمین
کہے اس کے جواب میں دوسرا شخص یوں کہے
یَرْحَمُکَ اﷲ
پھر چھینکنے والا
یَغْفِرُاللہُ لَنَا وَلَکُمْ
کہے ۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب السابع فی السلام وتشمیت العاطس،ج۵،ص۳۲۶)
مسئلہ:۔اگر ایک مجلس میں کسی کو کئی مرتبہ چھینک آئی تو صرف تین بار تک جواب دینا ہے اس کے بعد اسے اختیار ہے کہ جواب دے یا نہ دے ۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب السابع فی السلام وتشمیت العاطس،ج۵،ص۳۲۶)
مسئلہ:۔دیوار کے پیچھے کسی کو چھینک آئی اور اس نے الحمد ﷲ کہا تو سننے والے پراس کو جواب دینا واجب ہے ۔
(ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،ج۹،ص۶۸۴)
مسئلہ:۔چھینکنے والے کو چاہے کہ سر جھکا کر پست آواز سے منہ کو چھپا کر چھینکے بہت ہی بلند آواز سے چھینکنا حماقت ہے۔
(ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،ج۹،ص۶۸۴)
مسئلہ:۔بعض جاہل لوگ چھینک کو بدشگونی سمجھتے ہیں اگر کسی کام کے لئے جاتے وقت خود کسی کو یا کسی دوسرے کو چھینک آگئی تو لوگ یہ بدفالی لیتے ہیں کہ یہ کام نہیں ہوگا یہ بہت بڑی جہالت ہے اور بے عقلی کی دلیل ہے۔
(بہارشریعت،ح۱۶،ص۱۰۳)
حدیث میں آیا ہے کہ چھینک اللہ تعالیٰ کو پسند ہے اوریہ بھی ایک حدیث میں ہے کہ اگر کوئی بات کرتے ہوئے چھینک آجائے تو یہ چھینک اس بات پر ''شاہد عدل'' ہے
اب غور کرو کہ جب چھینک کو سول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے ''شاہد عدل'' کا لقب دیا تو پھر بھلا چھینک منحوس اور بدشگونی کا سامان کیسے بن سکتی ہے؟ اس لئے لوگوں کو اس عقیدہ سے توبہ کرنی چاہے کہ چھینک منحوس اور بدفالی کی چیز ہے خداوند کریم مسلمانوں کو اتباع سنت اور پابندی شریعت کی توفیق بخشے آمین۔
(بہارشریعت،ج۳،ح۱۶،ص۱۰۳)
مسئلہ:۔کافر کو چھینک آئی اور اس نے الحمدﷲ کہا تو جواب میں یَھْدِیْکَ اﷲ کہنا چاہے۔
(ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،ج۹،ص۶۸۴)
مسئلہ:۔چھینک کا جواب ایک مرتبہ واجب ہے دوبارہ چھینک آئی اور اس نے الحمدﷲ کہا تو دوبارہ جواب دینا واجب نہیں بلکہ مستحب ہے۔
(ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،ج۹،ص۶۸۴)
" خریدنے اور بیچنے کے مسائل بہت زیادہ ہیں اس مختصر کتاب میں بھلا اس کی گنجائش کہاں؟ جس کو مفصل طور پر خرید و فروخت کے مسائل کو جاننا ہو وہ بہار شریعت حصہ یا زدہم کا بغور مطالعہ کرے یہ اس بارے میں بہت ہی جامع اور معتبر کتاب ہے ہم یہاں صرف چند ضروری مسائل کا ذکر کرتے ہیں جن سے اکثروبیشتر واسطہ پڑتا رہتا ہے ان کو غور سے پڑھ کر یاد کرلو۔
مسئلہ:۔جب تک خرید و فروخت کے ضروری مسائل نہ معلوم ہوں کہ کونسی بیع جائز ہے اور کون سی ناجائز اس وقت تک مسلمان کو چاہے کہ وہ تجارت نہ کرے بلکہ تجارت کرنے سے پہلے ان مسئلوں کو جان لینا چاہے تاکہ تجارت میں حرام کمائی سے بچا رہے۔"
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الخامس والعشرون فی البیع۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۶۳)
مسئلہ:۔تاجر کو اپنی تجارت میں اس قدر مشغول نہ ہوجانا چاہے کہ فرائض فوت ہو جائیں بلکہ جب نماز کا وقت ہو جائے تو لازم ہے کہ تجارت کو چھوڑ کر نماز پڑھنے چلا جائے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الخامس والعشرون فی البیع۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۶۴)
مسئلہ:۔بیچنے اور خریدنے میں یہ ضروری ہے کہ سودے اور قیمت دونوں کو اچھی طرح صاف صاف طے کر لیں کوئی بات ایسی گول مول نہ رکھیں جس سے بعد میں جھگڑے بکھیڑے پڑیں اگر ان دونوں میں سے ایک چیز بھی اچھی طرح معلوم اور طے نہ ہوگی تو بیع صحیح نہ ہوگی۔
(ردالمحتار،کتاب البیوع،مطلب شرائط البیع انواع اربعۃ،ج۷،ص۱۵)
مسئلہ:۔آدمی کے بال اور ہڈی وغیرہ کسی چیز کا بیچنا ناجائز ہے اور اپنے کسی کام میں لانا بھی درست نہیں ۔
(فتح القدیر،کتاب البیوع،فصل بیع الفاسد،ج۶،ص۳۹۰)
مسئلہ:۔ عورت کے دودھ کو بیچنا اور خریدنا ناجائز ہے اگرچہ اس کو کسی برتن میں رکھ لیا ہو اگرچہ جس کا دودھ ہو وہ باندی ہو۔
(فتح القدیر،کتاب البیوع،فصل بیع الفاسد،ج۶،ص۳۸۸۔۳۸۹)
مسئلہ:۔خنزیر کے بال اس کی کھال وغیرہ اس کے کسی جزو کا بیچنا اور خریدنا حرام اور اس کی بیع باطل ہے اسی طرح مردار کے چمڑے کی بیع بھی باطل اور ناجائز ہے جب پکایا ہوا نہ ہو اور اگر دباغت کرلی تو اس کی بیع درست اور اس کا کام میں لانا جائز ہے۔
(فتح القدیر،کتاب البیوع،فصل بیع الفاسد،ج۶،ص۳۹۰)
مسئلہ:۔تیل ناپاک ہوگیا اس کی بیع جائز ہے اور کھانے کے علاوہ اس کو دوسرے کام میں لانا جائز ہے۔
(الدرالمختارمع ردالمحتار،کتاب البیوع،مطلب فی التداوی ...الخ، ج۷،ص۲۶۷)
مگر یہ ضروری ہے کہ بیچنے والا خریدار کو تیل کے ناپاک ہونے کی اطلاع دے دے تاکہ
"خریدار اس کو کھانے کے کام میں نہ لائے اور اس وجہ سے بھی خریدار کو مطلع کرنا ضروری ہے کہ تیل کا ناپاک ہونا عیب ہے اور بیچنے والے پر لازم ہے کہ خریدار کو سودے کے عیب پر مطلع کر دے ناپاک تیل مسجد میں جلانا جائز نہیں گھر میں جلا سکتا ہے ناپاک تیل کا چراغ جلا کر استعمال کرنا اگرچہ جائز ہے مگر بدن یا کپڑے پر جہاں بھی لگ جائے گا ناپاک ہوجائے گا اور بدن یا کپڑے کو پاک کرنا پڑے گابعض دوائیں اس قسم کی بنائی جاتی ہیں جس میں کوئی ناپاک چیز شامل کرتے ہیں مثلاًجانور کا پتّا یا خون یا حرام جانوروں کی چربی یا شراب وغیرہ یہ دوائیں اگر بدن یا کپڑے میں لگ گئیں تو ان کا پاک کرنا ضروری ہے۔
مسئلہ:۔مردار کی چربی کو بیچنا یا اس سے کسی قسم کا نفع اٹھانا جائز نہیں نہ اس سے چراغ جلا سکتے ہیں نہ چمڑا پکانے کے کام میں لا سکتے ہیں نہ اس کو کسی مرہم یا صابن میں ملا سکتے ہیں ۔"
( ردالمحتار،کتاب البیوع،مطلب فی التداوی... الخ،ج۷،ص۲۶۷)
مسئلہ:۔مردار کے بال' ہڈی' سینگ' کھر' پر' چونچ' ناخن ان سب کو بیچنا اور خریدنا جائز ہے شکاری جانور سکھائے ہوئے ہوں ان کو کام میں لانا بھی جائز ہے اسی طرح ہاتھی کے دانت اور ہڈی اور اس کی بنی ہوئی چیزوں کو بھی خریدنا اور بیچنا اور استعمال کرنا جائز ہے۔
(فتح القدیر،کتاب البیوع،فصل بیع الفاسد،ج۶،ص۳۹۲)
مسئلہ:۔کتا' بلی' ہاتھی' چیتا' باز' شکرا ان سب کو خریدنا اور بیچنا جائز ہے شکاری جانور سکھائے ہوئے ہوں یا بغیر سکھائے ہوئے ان کو خریدنا اور بیچنا جائز ہے مگر یہ ضروری ہے کہ وہ سکھائے جانے کے قابل ہوں۔ کٹکھناکتاجوسکھائے جانے کے قابل نہیں ہے اس کو خریدنا بیچنا جائز نہیں ۔
(ردالمحتار،کتاب البیوع،مطلب فی بیع دودۃ القرمز،ج۷،ص۲۶۱)
مسئلہ:۔جانور یا کھیتی یا مکان کی حفاظت کے لئے یا شکار کے لئے کتا پالنا جائز ہے اور
ان مقاصد کے لئے نہ ہو تو کتا پالنا جائز نہیں اور جن صورتوں میں کتا پالنا جائز ہے اُن صورتوں میں بھی مکان کے اندر کتوں کو نہ رکھے لیکن اگر چور یا دشمن کا خوف ہو تو مکان کے اندر بھی رکھ سکتا ہے ۔
(الدرالمختارمع ردالمحتار،کتاب البیوع،باب المتفرقات،ج۷،ص۵۰۶۔۵۰۷)
مسئلہ:۔مچھلی کے سوا پانی کے تمام جانور مینڈک' کچھوا' کیکڑا وغیرہ اور حشرات الارض چوہا' سانپ' گرگٹ' گوہ' بچھو' چیونٹی وغیرہ کو خریدنا اور بیچنا جائز نہیں۔
(درمختار،کتاب البیوع ،باب المتفرقات،ج۷،ص۵۰۷)
"بندر کو کھیل اور مذاق کے لئے خریدنا منع ہے اور اس کو نچانا اور اس کے ساتھ کھیل کرنا حرام ہے ۔
مسئلہ:۔گیہوں وغیرہ اناجوں میں دھول اور کنکری وغیرہ ملا کر بیچنا ناجائز ہے۔"
(بہارشریعت،ح۱۶،ص۱۰۵)
اسی طرح دودھ میں پانی ملا کر بیچنا بھی ناجائز ہے ۔
(بہارشریعت،ج۳،ح۱۶،ص۱۰۶)
مسئلہ:۔تالاب کے اندر کی مچھلیوں کو بیچنے کا جو دستور ہے یہ بیع ناجائز ہے تالاب کے اندر جتنی مچھلیاں ہوتی ہیں جب تک وہ شکار کرکے پکڑ نہ لی جائیں تب تک ان کا کوئی مالک نہیں شکار کر کے جو ان مچھلیوں کو پکڑلے وہی ان کا مالک بن جاتا ہے جب یہ بات سمجھ میں آگئی تو اب سمجھو کہ جس شخص کا تالاب ہے جب وہ ان مچھلیوں کا مالک ہی نہیں تو اس کا ان مچھلیوں کو بیچنا کیسے درست ہوگا؟ ہاں اگر تالاب کا مالک خود ان مچھلیوں کو پکڑ کر بیچا کرے تو یہ درست ہے اگر کسی دوسرے شخص سے پکڑوائے گا تو پکڑنے والا ان مچھلیوں کا مالک ہو
جائے گا تالاب کے مالک کا ان مچھلیوں میں کوئی حق نہیں ہوگا تالاب کے مالک کو یہ بھی حق نہیں ہے کہ مچھلیوں کے پکڑنے سے لوگوں کو منع کرے ۔
(ردالمحتار،کتاب البیوع،مطلب: شرائط البیع۔۔۔الخ،ج۷،ص۱۴)
"مسئلہ:۔کسی کی زمین میں خود بخود گھاس اگی نہ اس نے لگایا نہ اس نے پانی دے کر سینچا تو یہ گھاس بھی کسی کی ملک نہیں ہے جو چاہے کاٹ لے جائے زمین کے مالک کے لئے نہ اس گھاس کو بیچنا جائز ہے نہ کسی کو منع کرنا درست ہے ہاں البتہ اگر زمین کے مالک نے پانی دے کر سینچا ہو اور محنت کی ہو اور حفاظت و رکھوالی کی ہو تو اس صورت میں وہ گھاس زمین کے مالک کی ہو جائے گی اب اس کو بیچنا بھی جائز ہے اور لوگوں کو اس گھاس کے کاٹنے سے منع کرنا بھی درست ہے۔
مسئلہ:۔کافر نے اگر قرآن مجید خرید لیا تو قاضی کو چاہے کہ اس کو اس بات پر مجبور کرے کہ وہ کسی مسلمان کے ہاتھ فروخت کر دے۔"
(بہارشریعت،ح۱۱،ص۱۸۶)
مسئلہ:۔تاڑی' سیندھی' شراب کی تجارت حرام ہے رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے شراب پر اور اس کے پینے والے پر اور اس کے پلانے والے پر اور اس کے خریدنے والے پر اس کے بیچنے والے پر اور اس کو نچوڑنے والے پر اور اس کو چھاننے والے پر اور اس کو اٹھانے والے پر اور یہ جس کے اوپر لادی گئی ہو لعنت فرمائی ہے ۔
(بہارشریعت،ح۱۱،ص۷۷)
مسئلہ:۔لوہے پیتل وغیرہ کی انگوٹھی جس کا پہننا مرد اور عورت دونوں کے لئے ناجائز ہے اس کا بیچنا مکروہ ہے ۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الخامس والعشرون فی البیع۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۶۵)
اسی طرح افیون وغیرہ جس کا کھانا جائز نہیں ایسوں کے ہاتھ بیچنا جو ان کونشہ کے طور پر کھاتے ہیں ناجائز ہے کیونکہ یہ گناہ پر اعانت ہے۔
(بہارشریعت،ج۳،ح۱۶،ص۱۰۶)
"مسئلہ:۔جس سودے کے متعلق یہ معلوم ہے کہ یہ چوری یا غصب کا مال ہے اس کو خریدنا جائز نہیں۔
مسئلہ:۔رنڈیوں کو حرام کاری یا گانے ناچنے کی اجرت میں جو سامان ملا ہے وہ بھی مال خبیث اور حرام ہے اس کو بھی خریدنا جائز نہیں۔
کسی نے کوئی چیز بے دیکھے ہوئے خرید لی تو یہ بیع جائز ہے لیکن جب اس سامان کو دیکھے تو اس کو اختیار ہے پسند ہو تو رکھے اور اگر ناپسند ہو تو پھیر دے اگرچہ اس میں کوئی عیب نہ ہو اس کو شریعت میں ''خیار رؤیت'' کہتے ہیں۔"
(فتح القدیر،کتاب البیوع،باب خیار الرؤیۃ،ج۶،ص۳۰۹)
مسئلہ:۔جب کوئی سودا بیچے تو واجب ہے کہ اس میں اگر کچھ عیب و خرابی ہو تو خریدار کو بتا دے عیب کو چھپا کر اور خریدار کو دھوکہ دے کر بیچنا حرام ہے۔
(الدرالمختار،کتاب البیوع،مطلب فی مسئلۃ المصراۃ،ج۷،ص۲۲۹)
مسئلہ:۔کوئی چیز خریدی اور خریدنے کے بعد دیکھا کہ اس میں عیب ہے مثلاً تھان کو اندرسے چوہوں نے کتر ڈالا ہے یا اندر سے کٹا ہوا ہے تو خریدار کو اختیار ہے کہ چاہے لے لے چاہے واپس کر دے اس کو شریعت میں ''خیار عیب'' کہتے ہیں۔
(فتح القدیر،کتاب البیوع،باب خیارا لعیب،ج۶،ص۳۲۷)
مسئلہ:۔جانور کے تھن میں جو دودھ بھرا ہے دوہنے سے پہلے اس کو بیچنا اور خریدنا جائز نہیں پہلے دودھ دوہ لے تب بیچے اسی طرح بھیڑ دنبہ وغیرہ کے بال جب تک کاٹ نہ لے
اس کو بیچنا اور خریدنا جائز نہیں ۔
(درمختار،کتاب البیوع،مطلب فی حکم ایجار البرک للاصطیاد،ج۷،ص۲۵۲)
مسئلہ:۔گوبر کو بیچنا اور خریدنا جائز ہے لیکن آدمی کے پاخانہ کو بیچنا اور خریدنا جائز نہیں ہاں البتہ اگر آدمی کے پاخانہ میں راکھ اور مٹی اس قدر مل جائے کہ مٹی اور راکھ غالب ہو جائے اور پاخانہ کھاد بن جائے تو اس کو بیچنا اور خریدنا جائز ہے ۔
(الدرالمختار،کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،ج۹،ص۶۳۴)
مسئلہ:۔احتکار (ذخیرہ اندوزی) ممنوع ہے احتکارکے معنی یہ ہے کہ کھانے کی چیزوں کو اس لئے چھپا کر رکھ لینا کہ جب اس کا بھاؤ زیادہ گراں ہو جائے تو بیچے گا ایسا کرنے سے گرانی بڑھ جاتی ہے اور قحط کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے اور مخلوق خدا کو ضرر اور نقصان پہنچتا ہے اس لئے شریعت نے اس سے منع کیا ہے اور اس کے بارے میں بہت سی وعید کی حدیثیں آئی ہیں ایک حدیث میں ہے کہ جو چالیس دن تک احتکار (ذخیرہ اندوزی) کریگا اﷲ تعالیٰ اس کو جذام (کوڑھ) اور مفلسی میں مبتلا کریگا اور ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ اس پر اﷲ اور فرشتوں اور تمام آدمیوں کی لعنت ہے اﷲ تعالیٰ نہ اس کی نفلی عبادتوں کو قبول فرمائے گانہ فرض عبادتوں کو (درمختارج۵ص۲۴۶)۔ احتکار (ذخیرہ اندوزی) انسان کے کھانے کی چیزوں میں بھی ہوتا ہے مثلاً اناج شکر وغیرہ اور جانوروں کے چارہ میں بھی ہوتا ہے جیسے گھاس بھوسا ۔
(الدرالمختار مع ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،ج۹،ص۶۵۶۔۶۵۷/ سنن ابن ماجہ،کتاب التجارات ، باب الحکرۃ والجلب ،رقم۲۱۵۵،ج۳،ص۱۵)
مسئلہ:۔احتکار وہیں کہلائے گا جب کہ غلہ کا روکنا وہاں والوں کے لئے مضر ہو یعنی اس کی وجہ سے گرانی ہو جائے یا یہ صورت ہو کہ سارا غلہ اسی کے قبضہ میں ہے اس کے روکنے
سے قحط کا اندیشہ ہے دوسری جگہ غلہ دستیاب نہ ہوگا
(ہدایہ ج۴ص۴۵۴)
اور اگر کسی نے فصل پر غلہ اس نیت سے خرید کر رکھ لیا کہ جب غلہ کا بھاؤ کچھ گراں ہوگا تو بیچ کر کچھ نفع اٹھاؤں گا تویہ نہ احتکار ہے نہ ممنوع ہے۔
(الدرالمختارمع ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،ج۹،ص۶۵۸،۶۵۸)
مسئلہ:۔احتکار کرنے والوں کو قاضی یہ حکم دے گا کہ اپنے گھر والوں کے خرچ کے لائق غلہ رکھ لے اور باقی فروخت کر ڈالے اگر وہ لوگ قاضی کے حکم کے خلاف کریں یعنی زائد غلہ نہ بیچیں تو قاضی ان لوگوں کو مناسب سزا دے اور ان لوگوں کی حاجت سے زیادہ جتنا غلہ ہوگا قاضی خود اس کو فروخت کر دے گا کیونکہ لوگوں کو پریشانی اور ضرر عام سے بچانے کی یہی صورت ہے ۔
(الدرالمختارمع ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،ج۹،ص۶۵۷،۶۵۸)
مسئلہ:۔بادشاہ کو رعایا کی ہلاکت کا اندیشہ ہوتو ذخیرہ اندوزی کرنے والوں سے غلہ لے کر رعایا پر تقسیم کر دے پھر جب ان لوگوں کے پاس غلہ ہو جائے تو جتنا جتنا لیا ہے واپس دے دیں ۔
(الدرالمختار،کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،ج۹،ص۶۵۸)
مسئلہ:۔تاجروں نے اگر چیزوں کی قیمت بہت زیادہ بڑھا دی ہے اور بغیر کنٹرول کے کام چلتا نظر نہ آتا ہو تو حاکم چیزوں کی قیمتیں مقرر کر کے بھاؤ پر کنٹرول کر سکتا ہے اور کنٹرول کی ہوئی قیمت پر جو بیع ہوگی وہ جائز و درست ہوگی۔
(نصب الرایۃ،کتاب الکراہیۃ،فصل فی البیع،ج۴،ص۵۷۱)
ہر قسم کی شراب حرام اور نجس ہے تاڑی کا بھی یہی حکم ہے دوا کے لئے بھی اس کا پینا درست نہیں بلکہ جن دواؤں میں تاڑی یا شراب پڑی ہو اس کا کھانا اور بدن میں لگانا
جائز نہیں ۔
(الد رمختار،کتاب الاشربۃ،ج۱۰،ص۳۴)
مسئلہ:۔تاڑی شراب کے علاوہ جتنی نشہ لانے والی چیزیں ہیں جیسے افیون' بھنگ' جائفل وغیرہ ان کا حکم یہ ہے کہ دوا کے لئے اتنی مقدار میں ان کا کھالینا درست ہے کہ بالکل نشہ نہ آئے اور اس دوا کا بدن میں لگانا بھی جائز ہے جس میں یہ چیزیں پڑی ہوں لیکن ان کو اتنی مقدار میں کھانا کہ نشہ ہو جائے حرام ہے ۔
(الد رالمختارمع ردالمحتار،کتاب الاشربۃ،ج۱۰،ص۴۳)
مسئلہ:۔بعض جاہل عورتیں بچوں کو افیون پلا کر سلا دیتی ہیں کہ وہ نشہ میں پڑے سوتے رہیں روئیں دھوئیں نہیں یہ حرام ہے اور اس کا گناہ عورتوں کے سر پر ہے۔
(بہارشریعت،ج۳،ح۱۷،ص۱۲)
مسئلہ:۔کسی کی کوئی چیز زبردستی لے لینا یا پیٹھ پیچھے اس کی اجازت کے بغیر لے لینا بہت بڑا گناہ ہے بعض عورتیں اپنے شوہر یا اور کسی رشتہ دار کی چیز بلا اجازت لے لیتی ہیں اسی طرح بعض مرد اپنے دوستوں اور ساتھیوں یا اپنی عورتوں کی چیزیں بلا اجازت لے لیا کرتے ہیں یاد رکھو کہ یہ جائز اور درست نہیں بلکہ گناہ ہے اگر کسی کی کوئی چیز بلا اجازت لے لی ہے تو اس کا حکم یہ ہے کہ اگر وہ چیز ابھی موجود ہو تو بعینہ اس چیز کو واپس کر دینا ضروری ہے اور اگر خرچ یا ہلاک ہوگئی تو مسئلہ یہ ہے کہ اگر وہ ایسی چیز ہے کہ اس کی مثل بازار میں مل سکتی ہے تو جیسی چیز لی ہے ویسی ہی خرید کر دے دینا واجب ہے اور اگر کوئی ایسی چیز لے کر ضائع کردی ہے کہ اس کی مثل ملنا مشکل ہے تو اس کی قیمت دینا واجب ہے یا یہ کہ جس کی چیز تھی اس سے معاف کرالے اور معاف کر دے تب چھٹکارا مل سکتا ہے۔
حضرت رسول خدا صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں داخل ہوتے فرشتے(رحمت کے) جس گھر میں کتا یا تصویر ہو۔
(صحیح مسلم،کتاب اللباس والزینۃ،باب تحریم تصویرصورۃ الحیوان ۔۔۔الخ،رقم ۲۱۰۶ص۲۱۶۵ )
اور دوسری حدیث میں یہ بھی فرمایا کہ سب سے زیادہ عتاب اﷲ کے نزدیک تصویر بنانے والوں کو ہو گا۔
(صحیح مسلم،کتاب اللباس والزینۃ،باب تحریم تصویرصورۃ الحیوان،رقم ۲۱۰۹ص۱۱۶۹ )
ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ تصویر بنانے والے پر خدا کی لعنت ہے۔
(صحیح البخاری،کتاب الطلاق،باب مہر البغی والنکاح الفاسد،رقم ۵۳۴۷،ج۳،ص۵۰۹)
"مسئلہ:۔جاندار چیزوں کی تصویر بنانا'بنوانا'اس کا رکھنا ،اس کا بیچنا'خریدنا'حرام ہے ۔ ہاں البتہ غیر جاندار چیزوں جیسے درختوں'مکانوں وغیرہ کی تصویر بنانے اوران کے رکھنے ' ان کی خریدوفروخت میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ اوپر کی حدیثوں میں جن تصویروں کی ممانعت ہے ان سے مراد جاندار کی تصویریں ہيں۔
مسئلہ:۔کچھ لوگ مکانوں میں زینت کے لئے انسانوں اور جانوروں کی تصویریں یا مورتیاں رکھتے ہیں یہ حرام ہے کچھ لوگ مٹی یا پلاسٹک یا دھاتوں کی مورتیاں بچوں کے کھیلنے کے لئے خریدتے ہیں یہ سب حرام و ممنوع ہیں اپنے بچوں کو اس سے روکنا چاہے اور ایسے کھلونوں اور گڑیوں کو توڑ پھوڑ دینا یا جلا دینا چاہے۔
مسئلہ:۔جانوروں اور کھیتی اور مکان کی حفاظت اور شکار کے لئے کتا پالنا جائز ہے ان مقصدوں کے علاوہ کتا پالنا جائز نہیں۔"
(بہارشریعت،ح۱۱،ص۱۸۶)
بعض بچے کتوں کے بچوں کو شوقیہ پالتے اور گھروں میں لاتے ہیں ماں باپ کو لازم ہے کہ بچوں کو اس سے روکیں اور اگر وہ نہ مانیں تو سختی کریں حدیث میں جن کتوں کے گھر میں رہنے سے رحمت کے فرشتوں کے نہ آنے کا ذکر ہے ان کتوں سے مراد وہی کتے ہیں جن کو پالنا جائز نہیں ہے۔
(بہارشریعت،ح۱۱،ص۱۸۶)
مسلمانوں میں ہندوؤں کے میل جول سے جہاں بہت سی بیہودہ رسموں کا رواج اور چلن ہوگیا ہے ان میں سے ایک رسم یہ بھی ہے کہ بیوہ عورت کے نکاح کو برا اور عار سمجھتے ہیں اور خاص کر اپنے کو شریف کہلانے والے مسلمان اس بلا میں بہت زیادہ گرفتار ہیں حالانکہ شرعاً اور عقلاً جیسا پہلا نکاح ویسا دوسرا ان دونوں میں فرق سمجھنا انتہائی حماقت اور بے وقوفی بلکہ شرمناک جہالت ہے عورتوں کی ایسی بری عادت ہے کہ خود دوسرا نکاح کرنا یا دوسروں کو اس کی رغبت دلانا تو درکنار اگر کوئی اﷲ کی بندی اﷲعزوجل و رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے حکم کو اپنے سر اور آنکھوں پر لے کر دوسرا نکاح کر لیتی ہے تو وہ عمر بھر حقارت کی نظر سے دیکھی جاتی ہے اور عورتیں بات بات پر اس کو طعنہ دے کر ذلیل کرتی ہیں یاد رکھو کہ دوسرا نکاح کرنے والی عورتوں کو حقیر و ذلیل سمجھنا اور نکاح ثانی کو برا جاننا یہ بہت بڑا گناہ ہے بلکہ اس کو عیب سمجھنے میں کفر کا خوف ہے کیونکہ شریعت کے کسی حکم کو عیب سمجھنا اور اس کے کرنے والے کو ذلیل جاننا کفر ہے کون نہیں جانتا کہ ہمارے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی جتنی بیبیاں تھیں حضرت عائشہ رضی اﷲتعالیٰ عنہا کے سوا کوئی کنواری نہ تھیں ایک ایک دو دو نکاح ان کے پہلے ہو چکے تھے تو کیا نعوذ باﷲ کوئی ان امت کی ماؤں کو ذلیل یا بر اکہہ سکتا ہے؟ توبہ نعوذباﷲ
بہر حال یاد رکھو کہ بیوہ عورتوں سے نکاح یہ رسول خدا صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی سنت ہے اور حدیث شریف میں ہے کہ جو کوئی کسی چھوڑی ہوئی اور مردہ سنت کو زندہ اور جاری کرے اس کو سو شہیدوں کا ثواب ملے گا لہٰذا مسلمان مردوں اور عورتوں پر واجب ہے کہ اس بیہودہ رسم کو دنیا سے مٹا دیں اور اﷲعزوجل و رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی خوشنودی کے لئے بیوہ عورتوں کا نکاح ضرور کردیں اور ان بیچاری دکھیاری اﷲ کی بندیوں کو بیکسی اور تباہی و بربادی سے بچاکر ایک سو شہیدوں کا ثواب حاصل کریں اور بیوہ عورتوں کو بھی لازم ہے کہ اﷲعزوجل و رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے حکم کو اپنے سر اور آنکھوں پر رکھتے ہوئے بغیر کسی شرم اور عار کے خوشی خوشی دوسرا نکاح کر لیں اور سو شہیدوں کے ثواب کی حق دار بن جائیں اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ۔
وَاَنْکِحُوا الْاَیَامٰی مِنْکُمْ وَ الصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَ اِمَائِکُمْ۔
"اور نکاح کر دو اپنوں میں ان کا جو بے نکاح ہوں اور اپنے لائق غلاموں اور کنیزوں کا۔(پ 18،النور:32)
اور حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ۔"
من تمسک بسنّتی عند فساد امّتی فلہٗ اجر مائۃ شھیدٍ۔
(الترغیب والترہیب،الترغیب فی اتباع الکتاب والسنۃ،رقم ۵،ج۱،ص۴۱)
" یعنی میری امت میں فساد پھیل جانے کے وقت جو شخص مضبوطی کے ساتھ میری سنت پر عمل کرے اس کو ایک سو شہیدوں کا ثواب ملے گا۔
اس حدیث کو امام بیہقی علیہ الرحمۃ نے بھی ''کتاب الزہد'' میں حضرت ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے روایت کیا ہے۔"
رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا کہ اﷲتعالیٰ نے کوئی بیماری نہیں اتاری مگر اس کے لئے شفابھی اتاری ۔
(صحیح البخاری،کتاب الطب، باب ما انزل اللہ ۔۔۔الخ،رقم ۵۶۷۸،ج۴،ص۱۶)
ابوداؤد و ترمذی و ابن ماجہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے خبیث دواؤں سے ممانعت فرمائی
(جامع الترمذی،کتاب الطب،باب ماجاء فیمن قتل۔۔۔الخ،رقم۲۰۵۲،ج۴،ص۷)
اور رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے نظر بد سے جھاڑ پھونک کرنے کی اجازت دی ہے۔
(صحیح البخاری کتاب الطب،باب رقیۃ العین،رقم ۵۷۳۸،ج۴،ص۳۱)
بیمار پرسی:۔بیمار کا حال پوچھنا بڑے ثواب کا کام ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو مسلمان کسی مسلمان کی بیمار پرسی کے لئے صبح کو جائے تو شام تک ستر ہزار فرشتے اس کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں اور شام کو جائے تو صبح تک ستر ہزار فرشتے اس کے لئے مغفرت کی دعا مانگتے ہیں ۔
(سنن ابو داود،کتاب الجنائز،باب فی فضل العبادۃ،رقم ۳۰۹۸،ج۳،ص۲۴۸)
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ جو شخص کسی مسلمان کی بیمار پرسی کے لئے جاتا ہے تو آسمان سے ایک اعلان کرنے والا فرشتہ یہ ندا کرتا ہے کہ تو اچھا ہے اور تیرا چلنا اچھا ہے اور جنت کی ایک منزل کو تو نے اپنے ٹھکانا بنالیا ۔
(سنن ابن ماجہ،کتاب الجنائز،باب ماجاء فی ثواب ۔۔۔الخ،رقم ۱۴۴۳،ج۲،ص۱۹۲)
مسئلہ:۔مریض کی بیمار پرسی کے لئے جانا سنت اور ثواب ہے لیکن اگر معلوم ہو کہ بیمار پرسی کو جائے گا تو مریض پر گراں گزرے گا تو ایسی حالت میں بیمار پرسی کو نہ جائے۔
(بہارشریعت،ح۱۶،ص۱۲۵)
مسئلہ:۔دوا وعلاج کرنا جائز ہے جب کہ یہ اعتقاد ہو کہ درحقیقت شفا دینے والا اﷲتعالیٰ ہی ہے اور اس نے دواؤں کو مرض کے زائل کرنے کا سبب بنا دیا ہے اگر کوئی دوا ہی کو شفا دینے والا سمجھتا ہے تو اس اعتقاد کے ساتھ دوا علاج کرنا جائز نہیں ہے ۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الثامن عشر فی التداوی۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۵۴)
مسئلہ:۔حرام چیزوں کو دوا کے طور پر بھی استعمال کرنا جائز نہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو چیزیں حرام ہیں ان میں اﷲ تعالیٰ نے شفا نہیں رکھی ہے۔
(سنن ابوداود،کتاب الطب ،باب فی الاد ویۃ المکروھۃ،رقم ۳۸۷۴،ج۴،ص۱۱)
انگریزی دوائیں بکثرت ایسی ہیں جن میں اسپرٹ الکحل اور شراب کی آمیزش ہوتی ہے ایسی دوائیں ہرگز استعمال نہ کی جائیں ۔
(بہارشریعت،ج۳،ح۱۶،ص۱۲۶)
مسئلہ:۔شراب سے خارجی علاج بھی ناجائز ہے جیسے زخم میں شراب لگائی یا کسی جانور کے زخم پر شراب کا پھایا رکھا یا شراب ملے ہوئے مرہم یا لیپ کو بدن پر لگایا یابچہ کے علاج میں شراب کا استعمال کیا ان سب صورتوں میں وہ گنہگار ہوا جس نے شراب کو استعمال کیا یا کرایا۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الثامن عشر فی التداوی۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۵۵)
مسئلہ:۔کوئی شخص بیمار ہوا اور دوا علاج نہیں کیا اور مرگیا تو گنہگار نہیں ہوا ۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الثامن عشر فی التداوی۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۵۵)
مطلب یہ ہے کہ دوا علاج کرنا فرض یا واجب نہیں ہے کہ اگر دوا نہ کرے اور مر جائے تو گنہ گار ہو ہاں البتہ بھوک پیاس کا غلبہ ہو اور کھانا پانی موجود ہوتے ہوئے کچھ کھا یا پیا نہیں اور بھوک پیاس سے مر گیا تو ضرور گنہ گار ہوگا کیونکہ یہاں یقیناً معلوم ہے کہ کھانے پینے سے اس کی بھوک پیاس چلی جاتی اور بھوک پیاس کی وجہ سے اس کی موت نہ ہوتی۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الثامن عشر فی التداوی۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۵۵)
مسئلہ:۔حقنہ کرنے یعنی عمل دینے میں کوئی حرج نہیں جب کہ حقنہ ایسی چیز کا نہ ہو جو حرام ہے مثلاً شراب ۔
(الد رالمختار،کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،ج۹،ص۶۴۰۔۶۴۱)
مسئلہ:۔بعض امراض میں مریض کو بے ہوش کرنا پڑتا ہے تاکہ گوشت کاٹا جاسکے یا ہڈی کو کاٹایا جوڑ اجاسکے یا زخم میں ٹانکے لگائے جائیں اس ضرورت سے دواؤں کے ذریعہ مریض کو بے ہوش کرنا جائز ہے۔
(بہارشریعت،ح۱۶،ص۱۲۷)
مسئلہ:۔حقنہ لگانے یا پیشاب اتارنے کے لئے سلائی چڑھانے میں اس جگہ کی طرف دیکھنے اور چھونے کی نوبت آتی ہے بوجہ ضرورت ایسا کرنا جائز ہے۔
(تبیین الحقائق،کتاب الکراہیۃ،باب النظر والمس،ج۷،ص۴۰)
مسئلہ:۔اسقاط حمل کے لئے دوا استعمال کرنا یا دوائی سے حمل گروانا منع ہے بچہ کی صورت بن گئی ہو یا نہ بنی ہو دونوں صورتوں میں حمل گرانا ممنوع ہے لیکن ہاں اگر کوئی عذر ہو مثلاً بچہ پیدا ہونے میں عورت کی جان کا خطرہ ہو یا عورت کے شیر خوار بچہ ہے اور حمل سے دودھ خشک ہو جائے گا اور کوئی دودھ پلانے والی عورت مل نہیں سکتی اور باپ کے پاس اتنی وسعت نہیں کہ وہ بچہ کے لئے دودھ کا انتظام کر سکے اور بچہ کے ہلاک ہو جانے کا اندیشہ ہوتو ان صورتوں میں مجبوری کی وجہ سے حمل گرایا جا سکتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ بچے کے اعضاء نہ بنے ہوں اور اس کی مدت ایک سو بیس دن ہے یعنی اگر حمل ایک سو بیس دن کا ہو چکا ہو اور بچے کے اعضاء بن چکے ہوں تو ایسی صورت میں حمل گرانے کی اجازت نہیں ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الثامن عشر فی التداوی۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۵۶)
"مسئلہ:۔بیماری میں نقصان دینے والی چیزوں سے پرہیز کرنا سنت ہے بد پرہیزی نہیں کرنی چاہے۔
مسئلہ:۔مریض کو کھلانے پلانے میں زبردستی نہیں کرنی چاہے حدیث میں رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کا فرمان ہے کہ مریضوں کو کھانے پر مجبور نہ کرو کیونکہ مریضوں کو اﷲ تعالیٰ کھلاتا پلاتا ہے۔"
(سنن ابن ماجہ،کتاب الطب،باب لاتکرھوا المریض۔۔۔الخ،رقم۳۴۴۴،ج۴،ص۹۲)
اور یہ بھی فرمان نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم ہے کہ جب مریض کھانے کی خواہش کرے تو اسے کھلا دو۔
(سنن ابن ماجہ،کتاب الطب،باب المریض یشتھی الشئی، رقم۳۴۴۰،ج۴،ص۹۰)
"یہ حکم اس وقت ہے کہ کھانا مریض کو مضر نہ ہو اور کھانے کی اشتہاء صادق ہو۔
مسئلہ:۔جن بیماریوں سے دوسروں کو نفرت ہوتی ہے جیسے خارش کوڑھ وغیرہ ایسے مریضوں کو چاہے کہ وہ خود سب سے الگ الگ رہیں تاکہ کسی کو تکلیف نہ ہو۔"
" قرآن مجید پڑھنے اور پڑھانے کے فضائل اور اجر و ثواب بہت زیادہ ہیں اس کے متعلق چند حدیثوں کو پڑھ لو اور ان پر عمل کرکے اجر و ثواب کی دولتوں سے مالا مال ہو جاؤ۔
حدیث:۔رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ تم میں وہ بہترین شخص ہے جو قرآن مجید پڑھے اور پڑھائے ۔"
(صحیح البخاری ،کتاب فضائل القرآن،باب خیرکم من تعلم ۔۔۔الخ،رقم ۵۰۲۷،ج۳،ص۴۱۰)
حدیث: حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ جو قرآن پڑھنے میں ماہر ہے وہ ''کراماً کاتبین'' کے ساتھ ہے اور جو شخص رُک رُک کر قرآن پڑھتا ہے اور وہ اس پر شاق ہے
یعنی اس کی زبان آسانی سے نہیں چلتی تکلیف کے ساتھ الفاظ ادا ہوتے ہیں اس کے لئے دوگنا ثواب ہے۔
(جامع الترمذی،کتاب فضائل القرآن،باب ماجاء فی فضل قارئ القرآن،رقم۲۹۱۳،ج۴،ص۴۱۴)
حدیث:۔حضور انورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ جس کے سینے میں کچھ بھی قرآن نہیں ہے وہ ویرانہ اور اجاڑ مکان کے مثل ہے۔
(جامع الترمذی،کتاب فضائل القرآن،باب (ت:۱۸) رقم۲۹۲۲،ج۴،ص۴۱۹)
حدیث:۔رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص قرآن کا ایک حرف پڑھے گا اس کو ایک ایسی نیکی ملے گی جو دس نیکیوں کے برابر ہوگی میں یہ نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف ہے اور لام دوسرا حرف ہے اور میم تیسرا حرف ہے مطلب یہ ہے کہ جس نے صرف الم پڑھ لیا تو اس کو تیس نیکیاں ملیں گی ۔
(جامع الترمذی،کتاب فضائل القرآن،باب ماجاء فی من قرء ۔۔۔الخ،رقم۲۹۱۹،ج۴،ص۴۱۷)
حدیث:۔جس نے قرآن مجید پڑھااور اس کو یاد کر لیا اور اس نے قرآن کے حلال کئے ہوئے کو حلال سمجھا اور حرام کئے ہوئے کو حرام جانا تو وہ اپنے گھر والوں میں سے ایسے دس آدمیوں کی شفاعت کریگا جن کے لئے جہنم واجب ہو چکا تھا۔
(جامع الترمذی،کتاب فضائل القرآن،باب ماجاء فی ۔۔۔الخ،رقم۲۹۱۴،ج۴،ص۴۱۴)
حدیث:۔حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے حضرت ابی بن کعب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے دریافت فرمایا کہ نماز میں تم نے کون سی سورہ پڑھی انہوں نے سورۂ فاتحہ الحمدﷲ رب العلمین پڑھ کر سنائی تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ نہ اس کے مثل توریت میں کوئی سورہ اتاری گئی نہ انجیل میں نہ زبور میں یہ سورۂ سبع مثانی ہے اور قرآن عظیم ہے جو مجھے خدا کی طرف سے عطا کیا گیا ہے ۔
(جامع الترمذی،کتاب فضائل القرآن،باب ماجاء فی فضل فاتحۃ الکتاب،رقم۲۸۸۴، ج۴،ص۴۰۰)
حدیث:۔حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ تم لوگ اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ شیطان اس گھر میں سے بھاگتا ہے جس میں سورۂ بقرہ پڑھی جاتی ہے۔
(جامع الترمذی،کتاب فضائل القرآن،باب ماجاء فی فضل سورۃ البقرۃ۔۔۔الخ، رقم۲۸۸۶، ج۴،ص۴۰۲)
اوریہ بھی ارشاد فرمایا کہ تم لوگ دو چمک دار سورتیں سورۂ بقرہ اور سورۂ آل عمران کو پڑھو کیونکہ یہ دونوں قیامت کے دن اس طرح آئیں گی گویا دو ابر ہیں یا دوسائبان ہیں یا صف بستہ پرندوں کی دو جماعتیں وہ دونوں اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے جھگڑا کریں گی یعنی شفاعت کریں گی سورۂ بقرہ کو پڑھا کرو کہ اس کا لینا برکت ہے اور اس کو چھوڑنا حسرت ہے اور اہل باطل اس سورہ کی تاب نہیں لا سکتے ۔
(جامع الترمذی،کتاب فضائل القرآن،باب ماجاء فی فضل سورۃ اٰل عمران، رقم۲۸۹۲، ج۴،ص۴۰۴)
حدیث:۔جو شخص سورۂ کہف جمعہ کے دن پڑھے گااس کے لئے دونوں جمعوں کے درمیان نور روشن ہوگا۔
(مشکوۃ المصابیح،کتاب فضائل القراٰن،الفصل الثالث،رقم۲۱۷۵،ج۱،ص۵۹۶)
حدیث:۔جو شخص اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لئے سورۂ یٰسۤ پڑھے گا اس کے اگلے گناہوں کی مغفرت ہو جائے گی لہٰذا اس کو اپنے مردوں کے پاس پڑھا کرو۔
(شعب الایمان،باب فی تعظیم القرآن،فصل فی فضائل السور۔۔۔الخ،رقم ۲۴۵۸،ج۲،ص۴۷۹)
اور حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے یہ بھی فرمایا کہ ہر چیز کے لئے دل ہے اور قرآن کا دل یٰسۤ ہے جس نے سورهٔ یس پڑھی دس مرتبہ قرآن پڑھنا اﷲ تعالیٰ اس کے لئے لکھے گا ۔
(جامع الترمذی،کتاب فضائل القرآن،باب ماجاء فی فضل سورۃ یٰسین، رقم۲۸۹۶، ج۴،ص۴۰۶)
حدیث:۔رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ قرآن میں تیس آیتوں کی ایک سوره ہے وہ آدمی کے لئے شفاعت کرے گی یہاں تک کہ اس کی مغفرت ہو جائے گی وہ سوره ملک ہے
(جامع الترمذی،کتاب فضائل القرآن،باب ماجاء فی فضل سورۃ الملک، رقم۲۹۰۰، ج۴،ص۴۰۸)
حدیث:۔حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ قل ھواﷲاحد تہائی قرآن کے برابر اور قل یایھاالکفرون چوتھائی قرآن کے برابر ہے۔
(جامع الترمذی،کتاب فضائل القرآن،باب ماجاء فی فضل سورۃ الاخلاص۔۔۔الخ، رقم۲۹۰۳، ج۴،ص۴۰۹)
اور یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جو شخص سوتے وقت بچھونے پر داہنی کروٹ لیٹ کر سو مرتبہ قل ھواﷲاحد پڑھے قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ اس سے فرمائے گا کہ اے میرے بندے! اپنی داہنی جانب جنت میں چلا جا ۔
(جامع الترمذی،کتاب فضائل القرآن،باب ماجاء فی فضل سورۃ الاخلاص، رقم۲۹۰۷، ج۴،ص۴۱۱)
مسئلہ:۔قرآن مجید پر سونے چاندی کا پانی چڑھانا اور قیمتی غلاف چڑھانا جائز ہے کہ اس سے عوام کی نظروں میں قرآن مجید کی عظمت پیدا ہوتی ہے ۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الخامس فی آداب المسجد۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۲۳)
مسئلہ:۔قرآن مجید بہت چھوٹے سائز کا چھپوانا جیسے کہ لوگ تعویذی قرآن چھپواتے ہیں مکروہ ہے کہ اس سے قرآن مجید کی عظمت عوام کی نظروں میں کم ہوتی ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الخامس فی آداب المسجد۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۲۳)
مسئلہ:۔قرآن مجید بہت پرانا اور بوسیدہ ہوگیا اور اس قابل نہیں رہا کہ اس میں تلاوت کی جائے اور یہ اندیشہ ہے کہ اس کے اوراق ادھر سے ادھر بکھر جائیں گے تو چاہے کہ اس کو پاک کپڑے میں لپیٹ کر احتیاط کی جگہ دفن کردیں اور دفن کرنے میں اس پر تختہ لگا کر دفن کردیں تاکہ قرآن مجید پر مٹی نہ پڑے قرآن پر انابوسیدہ ہو جائے تو اس کو جلایا نہ جائے
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الخامس فی آداب المسجد۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۲۳)
مسئلہ:۔قرآن مجید پر اگر توہین کے ارادہ سے کسی نے پاؤں رکھ دیا تو کافر ہو جائے گا ۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الخامس فی آداب المسجد۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۲۲)
"اور اگر بے اختیار غلطی سے پاؤں پڑ گیا تو قرآن مجید کو ادب سے اٹھاکر بوسہ دے اور توبہ کرے۔
مسئلہ:۔کسی نے محض خیر و برکت کے لئے اپنے مکان میں قرآن مجید رکھا ہے اور اس میں تلاوت نہیں کرتا تو کچھ گناہ نہیں بلکہ اس کی یہ نیت باعث ثواب ہے۔"
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الخامس فی آداب المسجد۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۲۲)
مسئلہ:۔لغت اور نحو و صرف کی کتابوں کو نیچے رکھے اور ان کے اوپر علم کلام کی کتابیں رکھی جائیں ان کے اوپر فقہ کی کتابیں اور حدیث کی کتابیں رکھی جائیں اور ان کے اوپر تفسیر کی کتابوں کو رکھیں اور سب کتابوں سے اوپر قرآن مجید کو رکھیں اور قرآن مجید کے اوپر کوئی چیز نہ رکھیں بلکہ قرآن مجید جس بکس یا الماری میں ہو اس بکس اور الماری کے اوپر بھی کوئی چیز نہ رکھیں۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الخامس فی آداب المسجد۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۲۳۔۳۲۴)
مسئلہ:۔جس گھر میں قرآن مجید ہو اس میں بیوی سے صحبت کرنے کی اجازت ہے جب کہ قرآن مجید پر پردہ پڑا ہو۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الخامس فی آداب المسجد۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۲۲)
قرآن مجید کی طرف پیٹھ کرنا یا پاؤں پھیلانا قرآن سے اونچی جگہ بیٹھنا سخت خلاف ادب اور ممنوع ہے۔
(بہارشریعت،ج۳،ح۱۶،ص۱۱۹)
مسئلہ:۔مسجد کو چونے اور گچ سے منقش کرنا جائز ہے اور سونے چاندی کے پانی سے نقش و نگار بنانا درست ہے جب کہ کوئی شخص اپنے مال سے ایسا کرے مسجد کے وقف کے مال سے متولی کو ایسے نقش و نگار بنوانے کی اجازت نہیں ہے لیکن بعض مشائخ کرام دیوار
قبلہ میں نقش و نگار بنوانے کو مکروہ بتاتے ہیں کہ نمازی کا دل ادھر متوجہ ہوگا او ردھیان بٹے گا ۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الخامس فی آداب المسجد۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۱۹)
مسئلہ:۔مسجد میں کھانا سونا معتکف کے لئے جائز ہے غیر معتکف کے لئے کھانا سونا مکروہ ہے اگر کوئی شخص مسجد میں کھانا یا سونا چاہتا ہو تو اس کو چاہے کہ اعتکاف کی نیت سے مسجد میں داخل ہو اور کچھ ذکر الہٰی کرے یا نماز پڑھے اس کے بعد مسجد میں کھائے اور سوئے ۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الخامس فی آداب المسجد۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۲۱)
ہندوستان میں عام طور پر یہ رواج ہے کہ لوگ مسجد کے اندر روزہ افطار کرتے ہیں اور کھاتے پیتے ہیں اگر خارج مسجد کوئی ایسی جگہ ہو جب تو مسجد میں نہ افطار کریں ورنہ مسجد میں داخل ہوتے وقت اعتکاف کی نیت کرلیں اب افطار کرنے میں کوئی حرج نہیں مگراسکالحاظ ضروری ہے کہ مسجد کے فرش اور چٹائیوں کو کھانے پانی سے آلودہ نہ کریں۔
(بہار شریعت،ج۳،ح۱۶،ص۱۲۰)
مسئلہ:۔مسجد کو راستہ بنانا مسجد میں کوئی سامان یا تعویذ وغیرہ بیچنا یا خریدنا جائز نہیں۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الخامس فی آداب المسجد۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۲۱)
"مسئلہ:۔مسجد میں دنیا کی باتیں کرنی منع ہیں مسجد میں دنیاوی بات چیت نیکیوں کو اس طرح کھالیتی ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھا ڈالتی ہے یہ جائز کلام کے متعلق ہے ناجائز کلام کے گناہ کا تو پوچھنا ہی کیا ہے ۔
مسئلہ:۔مسجد کی چھت پر چڑھنا مکروہ ہے گرمی کی وجہ سے مسجد کی چھت پر جماعت کرنا بھی مکروہ ہے ۔ ہاں اگر نمازیوں کی کثرت اور مسجد میں تنگی ہو تو چھت پر نماز پڑھ سکتے ہیں ۔"
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الخامس فی آداب المسجد۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۲۲)
جیسا کہ بمبئی اور کلکتہ میں مسجد کی تنگی کی وجہ سے چھت پر بھی جماعت ہوتی ہے۔
(بہارشریعت،ج۳،ح۱۶،ص۱۲۱)
مسئلہ:۔عظمت اور احترام کے لحاظ سے سب سے بڑا درجہ مسجد حرام یعنی کعبہ مقدسہ کی مسجد کا ہے پھر مسجد نبوی کا پھر مسجد بیت المقدس کا پھر جامع مسجد کا پھر محلہ کی مسجد کا پھر سڑکوں کی مسجدوں کا۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الخامس فی آداب المسجد۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۲۱)
مسئلہ:۔مسجدوں کی صفائی کے لئے ابابیلوں اور چمگادڑوں وغیرہ کے گھونسلوں کو نوچ کر پھینک دینا جائز ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الخامس فی آداب المسجد۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۲۱)
مسئلہ:۔مسجدوں میں جوتا پہن کر داخل ہونا مکروہ ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الخامس فی آداب المسجد۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۲۱)
" یہ اس وقت ہے جب کہ جوتوں میں کوئی نجاست نہ لگی ہو اور اگر جوتوں میں نجاست لگی ہو تو ان ناپاک جوتوں کو پہن کر مسجد میں داخل ہونا سخت حرام ہے۔
مسئلہ:۔مسجد میں ان آداب کا خاص طور پر خیال رکھیں (۱)جب مسجد میں داخل ہو تو سلام کرے بشرط یہ کہ لوگ ذکر الٰہی عزوجل اور درس یا نماز میں مشغول نہ ہوں اور اگر مسجد میں کوئی موجود نہ ہو یا جو لوگ موجود ہوں وہ عبادتوں میں مشغول ہوں تو"
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ
کہنے کی بجائے یوں کہے
اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا مِنْ رَّبِّنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللہِ الصَّالِحِیْن (۲)
وقت مکروہ نہ ہو تو دو رکعت تحیۃا لمسجد ادا کرے (۳)خرید و فروخت نہ کرے(۴)ننگی تلوار لے کر مسجد میں نہ جائے(۵)گمی ہوئی چیز چلا کر مسجد میں نہ ڈھونڈے (۶)ذکر الہٰي عزوجل کے سوا آواز بلند نہ کرے (۷) دنیا کی باتیں مسجد میں نہ کرے (۸)لوگوں کی گردنیں نہ پھلانگے(۹)جگہ کے لئے لوگوں سے جھگڑا نہ کرے
(۱۰)اس طرح نہ بیٹھے کہ لوگوں کے لئے جگہ تنگ ہو جائے (۱۱)نمازی کے آگے سے نہ گزرے (۱۲)مسجد میں تھوک اور کھنکھار نہ ڈالے (۱۳)انگلیاں نہ چٹخائے (۱۴)نجاست اور بچوں اور پاگلوں سے مسجد کو بچائے (۱۵)ذکر الٰہی عزوجل کی کثرت کرے
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الخامس فی آداب المسجد۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۲۱)
مسئلہ:۔قبلہ کی طرف منہ یا پیٹھ کر کے پیشاب پاخانہ کرنا جائز نہیں ہے اسی طرح قبلہ کی طرف نشانہ بنا کر اس پر تیر چلانا یا گولی مارنا یعنی چاند ماری کرنا مکروہ ہے قبلہ کی طرف تھوکنا بھی خلاف ادب ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الخامس فی آداب المسجد۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۲۰)
مسئلہ:۔گنجفہ' چوسر' شطرنج' تاش کھیلنا ناجائز ہے حدیثوں میں شطرنج کھیلنے کی بہت زیادہ ممانعت آئی ہے ۔ایک حدیث میں رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ جس نے ''نرد شیر'' کھیلا گویا سور کے گوشت اور خون میں اپنا ہاتھ ڈال دیا ۔
(سنن ابوداؤد،کتاب الادب،باب فی النھی عن اللعب بالنرد،رقم ۴۹۳۹،ج۴،ص۳۷۱)
پھر یہ بھی وجہ ہے کہ ان کھیلوں میں آدمی اس قدر محو اور غافل ہو جاتا ہے کہ نماز وغیرہ دین کے بہت سے کاموں میں خلل پڑ جاتا ہے تو جو کام ایسا ہوکہ اس کی وجہ سے دینی کاموں میں خلل پڑتا ہو وہ کیوں نہ برا ہوگا۔
(الدرالمختار،مع ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،ج۹،ص۶۵۰۔۶۵۱)
یہی حال پتنگ اڑانے کا بھی ہے کہ یہی سب خرابیاں اس میں بھی ہیں بلکہ بہت سے لڑکے پتنگ کے پیچھے چھتوں سے گر کر مر گئے اس لئے پتنگ اڑانا بھی منع ہے غرض لہو ولعب کی جتنی قسمیں ہیں سب باطل ہیں صرف تین قسم کے لہو کی حدیث میں اجازت ہے
(۱)بیوی کے ساتھ کھیلنا(۲)گھوڑے کی سواری کرنے میں مقابلہ(۳)تیرندازی کا مقابلہ۔
(سنن ابوداؤد،کتاب الجہاد،باب فی الرمی،رقم ۲۵۱۳،ج۳،ص۱۹)
مسئلہ:۔ناچنا' تالی بجانا' ستار' ہارمونیم' چنگ' طنبورہ بجانا اسی طرح دوسری قسم کے تمام باجے سب ناجائز ہیں اسی طرح ہارمونیم' ڈھول بجا کر گانا سنانا اور سننا بھی ناجائز ہے۔
(ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،ج۹،ص۶۵۱)
مسئلہ:۔عید کے دن اور شادیوں میں دف بجانے کی اجازت ہے جب کہ ان دفوں میں جھانج نہ لگے ہوں اور موسیقی کے قواعد پر نہ بجائے جائیں بلکہ محض ڈھب ڈھب کی بے سری آواز سے فقط نکاح کا اعلان مقصود ہو۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب السابع عشر فی الغناء۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۵۲)
مسئلہ:۔رمضان شریف میں سحری کھانے اور افطاری کے وقت بعض شہروں میں نقارے یا گھنٹے بجتے ہیں یا سیٹیاں بجائی جاتی ہیں جن سے یہ مقصود ہوتا ہے کہ لوگ بیدار ہو کر سحری کھائیں یا انہیں یہ معلوم ہو جائے کہ ابھی سحری کا وقت باقی ہے اورلوگوں کو معلوم ہوجائے کہ آفتاب غروب ہوگیا ہے اور افطار کا وقت ہو گیا یہ سب جائز ہیں کیونکہ یہ لہو و لعب کے طور پر نہیں ہیں بلکہ ان سے اعلان کرنا مقصود ہے اسی طرح ملوں اور کارخانوں میں کام شروع ہونے اور کام ختم ہونے کے وقت جو سیٹیاں بجائی جاتی ہیں یہ بھی جائز ہیں کہ ان سے لہو مقصود نہیں بلکہ اطلاع دینے کے لئے یہ سیٹیاں بجائی جاتی ہیں ۔
(بہارشریعت،ح۱۶،ص۱۳۰)
مسئلہ:۔کبوتر پالنا اگر اڑانے کے لئے نہ ہو تو جائز ہے اور اگر کبوتروں کو اڑانے کیلئے پالا ہے تو ناجائز ہے کیونکہ کبوتر بازی یہ بھی ایک قسم کا لہو ہے اور اگر کبوتروں کو اڑانے کے لئے چھت پر چڑھتا ہو جس سے لوگوں کی بے پردگی ہوتی ہو تو اس کو سختی کے ساتھ منع کیا
جائے گا اور وہ اس پر بھی نہ مانے تو اسلامی حکومت کی طرف سے اس کے کبوتر ذبح کر کے اس کو دے دیئے جائیں گے تاکہ اڑانے کا سلسلہ ہی ختم ہو جائے ۔
(بہارشریعت،ح۱۶،ص۱۳۱)
مسئلہ:۔جانوروں کو لڑانا جیسے لوگ مرغ' بٹیر' تیتر' مینڈھوں کو لڑاتے ہیں یہ حرام ہے اور ان کا تماشا دیکھنا بھی ناجائز ہے ۔
(بہارشریعت،ج۳،ح۱۶،ص۱۳۱)
مسئلہ:۔اکھاڑوں میں کشتی لڑنا اگر لہو و لعب کے طور پر نہ ہو بلکہ اس سے مقصود اپنی جسمانی طاقت کو بڑھانا ہو تو یہ جائز ہے مگر شرط یہ ہے کہ ستر پوشی کے ساتھ ہو آج کل لنگوٹ اور جانگیا پہن کر جو کشتی لڑتے ہیں جس میں رانیں وغیرہ کھلی رہتی ہیں یہ ناجائز ہے اور ایسی کشتیوں کا تماشا دیکھنا بھی ناجائز ہے کیونکہ کسی کے ستر کو دیکھنا حرام ہے ہمارے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے رکانہ پہلوان سے کشتی لڑی اور تین مرتبہ اس کو پچھاڑا کیونکہ رکانہ پہلوان نے کہا تھا کہ اگر آپ مجھے پچھاڑ دیں تو میں مسلمان ہو جاؤں گا چنانچہ رکانہ مسلمان ہوگئے ۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب السابع عشر فی الغناء۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۵۲)
مسئلہ:۔اگر لوگ اس طرح آپس میں ہنسی مذاق کریں کہ نہ گالی گلوچ ہو نہ کسی کی ایذا رسانی ہو بلکہ محض پر لطف اور دل خوش کرنے والی باتیں ہوں جن سے اہل محفل کو ہنسی آجائے اور تفریح ہو جائے اس میں کوئی حرج نہیں بلکہ ایسی تفریح اور مزاح رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم اور صحابہ علیھم الرضوان سے ثابت ہے ۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب السابع عشر فی الغناء۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۵۲)
علم دین پڑھنے اور پڑھانے کی فضیلت اور اس کے اجر و ثواب کی فضیلت کا کیا کہنا؟ اس علم سے آدمی کی دنیا و آخرت دونوں سنورتی ہیں اور یہی علم ذریعہ نجات ہے اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں علم دین جاننے والوں کی بزرگی اور فضیلت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ۔
یَرْفَعِ اللہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ ط(پ۲۸،المجادلۃ:۱۱)
" اﷲ تعالیٰ تمہارے ایمان والوں کے اوران لوگوں کے جن کو علم دیا گیا ہے بہت سے درجات بلند فرمائے گا۔
ہمارے حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے بہت سی حدیثوں میں علم دین کی فضیلت بیان فرمائی ہے اور علم دین پڑھنے اور پڑھانے والوں کی بزرگیوں اور ان کے مراتب و درجات کی عظمتوں کا بیان فرمایا ہے چنانچہ ایک حدیث میں ارشاد فرمایا۔
حدیث:۔عالم کی فضیلت عابد پر ویسی ہی ہے جیسی میری فضیلت تمہارے ادنی پر پھر فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اور تمام آسمان و زمین والے یہاں تک کہ چیونٹی اپنے سوراخ میں اور یہاں تک کہ مچھلی سب اس کی بھلائی چاہنے والے ہیں جو عالم کہ لوگوں کو اچھی باتوں کی تعلیم دیتا ہے ۔"
(سنن الترمذی،کتاب العلم،باب ماجاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ،رقم۲۶۹۴، ج۴، ص۳۱۳۔۳۱۴)
حدیث:۔حضرت ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ ایک گھڑی رات میں پڑھنا پڑھانا ساری رات عبادت کرنے سے افضل ہے۔
(مشکوۃ المصابیح،کتاب العلم،الفصل الثالث،رقم۲۵۶،ج۱،ص۱۱۷)
حدیث:۔عالموں کی دواتوں کی روشنائی قیامت کے دن شہیدوں کے خون سے تولی جائے گی اور اس پر غالب ہوجائے گی ۔
(کنزالعمال،کتاب العلم،قسم الاقوال ، رقم۲۸۷۱۱،ج۱۰،ص۶۱)
حدیث:۔علماء کی مثال یہ ہے کہ جیسے آسمان میں ستارے جن سے خشکی اور سمندر میں راستہ کا پتا چلتا ہے اگر ستارے مٹ جائیں تو راستہ چلنے والے بھٹک جائیں گے ۔
(المسند لامام احمد بن حنبل،مسند انس بن مالک ، رقم۱۲۶۰۰،ج۴،ص۳۱۴)
حدیث:۔ایک عالم ایک ہزار عابد سے زیادہ شیطان پر سخت ہے ۔
(سنن ابن ماجہ،کتاب السنۃ،باب فضل العلماء۔۔۔الخ، رقم۲۲۲،ج۱،ص۱۴۵)
پیارے بھائیو اور عزیز بہنو!:۔آج کل مسلمان مردوں اور عورتوں میں علم دین سیکھنے سکھانے اور دین کی باتوں کے جاننے کا جذبہ اور ذوق و شوق تقریباً مٹ چکا ہے اس لئے ہر طرف بے دین اور لامذہبیت کا سیلاب بڑھتا جا رہا ہے ہزاروں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں دین و مذہب سے آزاد اور خداعزوجل و رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم سے بیزار ہو کر جانوروں کی طرح بے لگام ہو رہے ہیں بلکہ بہت سے تو خدا ہی کا انکار کر بیٹھے ہیں اور مانتے ہی نہیں کہ خدا موجود ہے اس بے دینی کے طوفان کا ایک ہی سبب ہے کہ مسلمانوں نے خود بھی دین کا علم پڑھنا چھوڑ دیا اور اپنے بچوں کو بھی علم دین نہیں پڑھایا اس لئے بے حد ضروری ہے کہ مسلمان مرد و عورت خود بھی فرصت نکال کر دین کی ضروری باتوں کا علم حاصل کریں اور اپنے بچے اور بچیوں کو ضروری باتیں بچپن ہی سے بتاتے اور سکھاتے رہیں اگر اپنے بچوں کو علم دین پڑھا کر عالم نہیں بنا سکتے تو کم سے کم ان کو دین کا اتنا علم تو سکھا دیں کہ وہ مسلمان باقی رہ جائیں۔
اتنا کمانا ہر مسلمان پر فرض ہے جو اپنے اور اپنے اہل و عیال کے گزارہ کے لئے اور جن لوگوں کا خرچہ اس کے ذمہ واجب ہے ان کا خرچ چلانے کے لئے اور اپنے قرضوں کو ادا کرنے کے لئے کافی ہو اس کے بعد اسے اختیار ہے کہ اتنی ہی کمائی پر بس کرے یا اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لئے کچھ پس ماندہ مال رکھنے کی بھی کوشش کرے کسی کے ماں باپ اگر محتاج و تنگ دست ہوں تو لڑکوں پر فرض ہے کہ کما کر انہیں اتنا دیں کہ ان کے لئے کافی ہو جائے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الخامس عشر فی الکسب،ج۵،ص۳۴۸۔۳۴۹)
مسئلہ:۔سب سے افضل کمائی جہاد ہے یعنی جہاد میں جو مال غنیمت حاصل ہوا جہاد کے بعد افضل کمائی تجارت ہے پھرزراعت پھرصنعت و حرفت کا مرتبہ ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الخامس عشر فی الکسب،ج۵،ص۳۴۹)
مسئلہ:۔جو لوگ مسجدوں اور بزرگوں کی خانقاہوں اور درگاہوں میں بیٹھ جاتے ہیں اور بسر اوقات کے لئے کوئی کام نہیں کرتے اور اپنے کو متوکل بتاتے ہیں حالانکہ ان کی نظریں ہر وقت لوگوں کی جیبوں پر لگی رہتی ہیں کہ کوئی ہمیں کچھ دے جائے ان لوگوں نے اس کو اپنی کمائی کا پیشہ بنا لیا ہے اور یہ لوگ طرح طرح کے مکرو فریب سے کام لے کر لوگوں سے رقمیں کھسوٹتے ہیں ان لوگوں کے یہ طریقے ناجائز ہیں ہر گز ہر گز یہ لوگ متوکل نہیں بلکہ مفت خور اور کام چور ہیں اس سے لاکھوں درجے یہ اچھا ہے کہ یہ لوگ بسر اوقات کے لئے کچھ کام کرتے اور رزق حلال کھا کر خدا کے فرائض کو ادا کرتے
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الخامس عشر فی الکسب،ج۵،ص۳۴۹)
مسئلہ:۔اپنی ضرورتوں سے بہت زیادہ مال و دولت کمانا اگر اس نیت سے ہو کہ فقراء و
مساکین اور اپنے رشتہ داروں کی مدد کریں گے تو یہ مستحب بلکہ نفلی عبادتوں سے افضل ہے اور اگر اس نیت سے ہو کہ میرے وقار و عزت میں اضافہ ہوگا تو یہ بھی مباح ہے لیکن اگر مال کی کثرت اور فخر و تکبر کی نیت سے زیادہ مال کمائے تو یہ ممنوع ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الخامس عشر فی الکسب،ج۵،ص۳۴۹)
ضروری تنبیہ:۔یاد رکھو کہ مال کمانے کی بعض صورتیں جائز ہیں اور بعض صورتیں ناجائز ہیں ہر مسلمان پر فرض ہے کہ جائز طریقوں پر عمل کرے اور ناجائز طریقوں سے دور بھاگے اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ۔
لاَ تَأکُلُوۤا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ۔
" ''یعنی آپس میں ایک دوسرے کے مال کو ناحق مت کھاؤ''۔ (پ5،النساء:29)
دوسری جگہ قرآن مجید میں رب تعالیٰ نے فرمایا کہ۔"
کُلُوۡا مِمَّا رَزَقَکُمُ اللہُ حَلٰـلًا طَیِّبًا ۪ وَّاتَّقُوا اللہَ الَّذِیۡۤ اَنۡتُمۡ بِہٖ مُؤْمِنُوۡنَ ﴿88﴾
" ''یعنی اﷲ تعالیٰ نے جو روزی دی ہے اس میں سے حلال و طیب مال کو کھاؤ اور اﷲ سے ڈرتے رہو جس پر تم ایمان لائے ہو''۔(پ7،المآئدۃ:88)
ان آیتوں کے علاوہ اس بارے میں چند حدیثیں بھی سن لو۔
حدیث:۔صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ اﷲ پاک ہے اور وہ پاک ہی پسند فرماتا ہے اور اﷲ تعالیٰ نے مومنوں کو بھی اسی بات کا حکم دیا جس کا رسولوں کو حکم دیا چنانچہ اس نے اپنے رسولوں سے فرمایا کہ۔"
یٰاَیُّھَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا۔
(صحیح مسلم،کتاب الزکاۃ،باب قبول الصدقۃ من الکسب۔۔۔الخ، رقم۲۳۰۱، ص ۶ ۵۰، پ۱۸،المؤمنون:۵۱)
" ''یعنی اے رسولو! حلال چیزوں کو کھاؤ اور اچھے عمل کرو''۔
اور مومنین سے فرمایا کہ۔"
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُلُوۡا مِنۡ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ
"یعنی اے ایمان والو! جو کچھ ہم نے تم کو دیا اس میں سے حلال چیزوں کو کھاؤ۔(پ2،البقرۃ:172)
اس کے بعد پھر حضور علیہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا کہ ایک شخص لمبے لمبے سفر کرتا ہے جس کے بال پر اگندہ اور بدن گرد آلود ہے (یعنی اس کی حالت ایسی ہے کہ جو دعا مانگے وہ قبول ہو) وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر یارب یارب کہتا ہے (دعا مانگتا ہے) مگر اس کی حالت یہ ہے کہ اس کا کھانا حرام اس کا پینا حرام ا س کالباس حرام اور غذا حرام ہے پھر اس کی دعا کیونکر مقبول ہو (یعنی اگر دعا مقبول ہونے کی خواہش ہو تو حلال روزی اختیار کرو کہ بغیر اس کے دعا قبول ہونے کے تمام اسباب بیکار ہیں)"
(مشکوۃالمصابیح،کتاب البیوع،باب الکسب وطلب الحلال،رقم۲۷۶۰،ج۲،ص۱۲۹)
حدیث:۔حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ حلال کمائی کی تلاش بھی فرائض کے بعد ایک فریضہ ہے۔
(شعب الایمان،باب فی حقوق الاولاد ولأھلین،رقم۸۷۴۱،ج۶،ص۴۲۰)
حدیث:۔حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم كا ارشاد ہے کہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ آدمی پرواہ نہیں کریگا کہ اس مال کو کہاں سے حاصل کیا ہے حلال سے یا حرام سے؟
(صحیح البخاری،کتاب البیوع،باب من لم یبال من ۔۔۔الخ،رقم۲۰۵۹،ج۲،ص۷)
حدیث:۔حضور اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ جو بندہ حرام مال حاصل کرتا ہے اور اس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اس کے لئے اس میں برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ کر مرے تو جہنم میں جانے کا سامان ہے (یعنی مال کی تین حالتیں ہیں اور
حرام مال کی تینوں حالتیں خراب ہی ہیں)
(مشکوۃالمصابیح،کتاب البیوع،باب الکسب وطلب الحلال،الفصل الثانی،رقم۲۷۷۱،ج۲،ص۱۳۱)
"حدیث:۔چوری' ڈاکہ' غصب' خیانت' رشوت' شراب' سینما' جوا' سٹہ' ناچ' گانا' جھوٹ' فریب' دھوکابازی' کم ناپ تول' بغیرکام کئے مزدوری اور تنخواہ لینا' سود وغیرہ یہ ساری کمائیاں حرام و ناجائز ہیں ۔
حدیث:۔جس شخص نے حرام طریقوں سے مال جمع کیا اور مرگیا تو اس کے وارثوں پریہ لازم ہے کہ اگر انہیں معلوم ہو کہ یہ فلاں فلاں کے اموال ہیں تو ان کو واپس کردیں اور نہ معلوم ہو تو کل مالوں کو صدقہ کردیں کہ جان بوجھ کر حرام مال کو لینا جائز نہیں۔"
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الخامس عشر فی الکسب،ج۵،ص۳۴۹)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مسلمان کو لازم ہے کہ ہمیشہ مال حرام سے بچتا رہے حدیث شریف میں ہے کہ مال حرام جب حلال مال میں مل جاتا ہے تو مال حرام حلال کو بھی برباد کر دیتا ہے اس زمانے میں لوگ حلال و حرام کی پرواہ نہیں کرتے یہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے لیکن بہر حال ایک مسلمان کے لئے حلال و حرام میں فرق کرنا فرض ہے اوپر تم یہ حدیث پڑھ چکے ہو کہ خدا کے فرائض کے بعد رزق حلال تلاش کرنا بھی مسلمان کے لئے ایک فریضہ ہے۔
(۱)مرید کو چاہے کہ اپنے پیر کا ظاہر و باطن میں سامنے اور پیٹھ پیچھے انتہائی ادب و احترام رکھے پیر جو وظیفہ بتائے اس کو پابندی کے ساتھ پڑھتا رہے اور اپنے پیر کے بارے میں یہ اعتقاد رکھے کہ جس قدر ظاہری اور باطنی فیض مجھے اپنے پیر سے مل سکتا ہے اتنا اس
"زمانے کے کسی بزرگ سے نہیں مل سکتا۔
(۲)اگر پیر نے اپنے مرید کا دل ابھی اچھی طرح نہ سنوارا ہو اور پیر کا وصال ہوجائے تو مرید کو چاہے کہ کسی دوسرے پیر کامل سے جس میں پیری کی سب شرائط پائی جاتی ہوں اس سے مرید ہو کر فیض حاصل کرے اور پہلے پیر کے لئے ہمیشہ فاتحہ دلاتا اور ایصال ثواب کرتا رہے۔
(۳)بغیر اپنے پیر سے پوچھے ہوئے کوئی وظیفہ یا فقیری کا کوئی عمل نہ کرے اور جو کچھ دل میں برے یا اچھے خیالات پیدا ہوں یا نئے کام کا ارادہ کرے تو پیر سے پوچھ لیا کرے۔
(۴)عورت کو چاہے کہ اپنے پیر کے سامنے بے پردہ نہ ہو اور مرید ہوتے وقت پیر کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر مرید نہ ہو بلکہ پیر کا رومال پکڑکر مرید بنے۔
(۵)اگر غلطی سے کسی خلاف شرع پیر کا مرید بن گیا یا پہلے وہ پیر شریعت کا پابند تھا اب بگڑ گیا تو مرید کو لازم ہے کہ اس کی بیعت توڑدے اور کسی دوسرے پابند شریعت پیر سے مرید ہو جائے لیکن اگر پیر میں کوئی ہلکی سی خلاف شریعت بات کبھی دیکھ لے تو فوراً اعتقاد خراب نہ کرے اور یہ سمجھ لے کہ پیر بھی آدمی ہی ہے کوئی فرشتہ تو ہے نہیں اس لئے اگر اس سے اتفاقیہ کوئی معمولی سی خلاف شرع بات ہوگئی ہے جو توبہ کر لینے سے معاف ہوسکتی ہے تو ایسی بات پر بدظن ہو کر پیر کو نہ چھوڑے ہاں البتہ اگر پیر بدعقیدہ ہو جائے یا کسی گناہ کبیرہ پر اڑا رہے تو پھر مریدی توڑ دے کیونکہ بدعقیدہ اور فاسق معلن کو اپنا پیر بنانا حرام ہے۔
(۶)آج کل کے مکار فقیر کہا کرتے ہیں کہ شریعت کا راستہ اور ہے اور فقیری کا راستہ اور ہے ۔ ایسا کہنے والے فقیر خواہ کتنا ہی شعبدہ دکھائیں مگر ان کے بارے میں یہی عقیدہ رکھنا فرض ہے کہ یہ گمراہ اور جھوٹے ہیں اور یاد رکھو کہ ایسے فقیروں سے مرید ہونا بہت بڑا گناہ"
"ہے اور وہ جو کچھ تعجب خیز چیزیں دکھلا رہے ہیں وہ ہر گز ہرگز کرامت نہیں بلکہ جادو یا نظر بندی کا عمل یا شیطان کا دھوکا ہے۔ (دیکھو ہماری کتاب معمولات الابرار)
(۷)اگر پیر کے بتائے ہوئے وظیفوں سے دل میں کچھ روشنی یا اچھی حالت پیدا ہو یا اچھے اچھے خواب نظر آئیں یا خواب و بیداری میں بزرگوں کا دیدار اور ان کی زیارت ہونے لگے یا نماز اور وظیفہ میں کوئی چمک پید اہو یا کوئی خاص کیفیت یا لذت محسوس ہو تو خبردار! خبردار ان باتوں کا اپنے پیر کے سوا کسی دوسرے سے ذکر نہ کرے نہ اپنے وظیفوں اور عبادتوں کا پیر کے علاوہ کسی کے سامنے اظہار کرے کیونکہ ظاہرکر دینے سے یہ ملی ہوئی روحانی دولت چلی جاتی ہے اور پھر مرید عمر بھر ہاتھ ملتا رہ جائے گا۔
(۸)اگر پیر کے بتائے ہوئے وظیفہ یا ذکر کا کچھ مدت تک کوئی اثر یا کیفیت نہ ظاہر ہو تو اس سے تنگ دل اور پیر سے بدظن نہ ہو اور اس کو اپنی خامی یاکوتاہی سمجھے اور یوں سمجھے کہ بڑا اثر یہی ہے کہ مجھے اﷲعزوجل کا نام لینے کی توفیق ہو رہی ہے ہر مرید میں پیدائشی طور پر الگ الگ صلاحیت ہوا کرتی ہے ایک ہی وظیفہ اور ایک ہی ذکر سے کسی میں کوئی اثر پیدا ہوتا ہے اور کسی میں کوئی دوسری کیفیت پیدا ہوتی ہے کسی میں جلد اثر ظاہر ہوتا ہے کسی میں بہت دیر کے بعد اثرات ظاہر ہوتے ہیں جس میں جیسی اور جتنی صلاحیت ہوتی ہے اسی لحاظ سے وظیفوں اور ذکر کی کیفیات پیدا ہوتی ہیں یہ ضروری نہیں کہ ہرمرید کا حال یکساں ہی ہو بہر حال اگر وظیفہ و ذکر سے کچھ کیفیات پیدا ہوں تو خدا کا شکر ادا کرے اور اگر کچھ اثرات نہ ہوں یا کم ہوں یا اثرات ہوکر کم ہو جائیں یا بالکل اثرات و کیفیات زائل ہو جائیں تو ہرگز ہرگز پیر سے بد اعتقاد ہو کر ذکر اور وظیفہ کو نہ چھوڑے بلکہ برابر پڑھتا رہے اور پیر کا ادب و احترام بدستور رکھے اور ذرا بھی تنگ دل نہ ہو اور یہ سوچ سوچ کر صبر کرے اور اپنے دل کو"
تسلی دیتا رہے کہ۔
"اس کے الطاف تو ہیں عام شہیدی سب پر
تجھ سے کیا ضد تھی اگر تو کسی قابل ہوتا"
(۱)ہر مرید کو لازم ہے کہ دوسرے بزرگوں یا دوسرے سلسلہ کی شان میں ہرگز ہرگز کبھی کوئی گستاخی اور بے ادبی نہ کرے نہ کسی دوسرے پیر کے مریدوں کے سامنے کبھی یہ کہے کہ میرا پیر تمہارے پیر سے اچھا ہے یا ہمارا سلسلہ تمہارے سلسلہ سے بہتر ہے نہ یہ کہے کہ ہمارے پیر کے مرید تمہارے پیر سے زیادہ ہیں یا ہمارے پیر کا خاندان تمہارے پیر کے خاندان سے بڑھ چڑھ کر ہے کیونکہ اس قسم کی فضول باتوں سے دل میں اندھیرا پیدا ہوتا ہے اور فخر و غرو رکا شیطان سر پر سوار ہو کر مرید کو جہنم کے گڑھے میں گرا دیتا ہے اور پیروں و مریدوں کے درمیان نفاق و شقاق' پارٹی بندی اور قسم قسم کے جھگڑوں کا اور فتنہ و فساد کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔
"(۱)ضرورت کے مطابق دین کا علم حاصل کرتا رہے خواہ کتابیں پڑھ کر یا عالموں سے
پوچھ پوچھ کر۔
(۲)سب گناہوں سے بچتا رہے۔
(۳)اگر کبھی کوئی گناہ ہو جائے تو فوراً دل میں شرمندہ ہو کر خدا سے توبہ کرے۔
(۴)کسی کو اپنے ہاتھ یا زبان سے تکلیف نہ دے نہ کسی کا کوئی حق مارے۔
(۵)مال کی محبت اور عزت و شہرت کی تمنا دل میں نہ رکھے نہ اچھے کھانے اور اچھے
کپڑے کی فکر کرے بلکہ وقت پر جو کچھ مل جائے اس پر صبر و شکر کرے۔"
"(۶)اگر کسی خطا پر کوئی ٹوکے تو اپنی بات کی پچ کر کے اس پر اڑا نہ رہے بلکہ فوراً ہی خوش
دلی سے اپنی غلطی کو تسلیم کرے اور توبہ کرے۔
(۷)بغیر سخت ضرورت کے سفر نہ کرے کیونکہ سفر میں بہت سی بے احتیاطی ہوتی ہے اور بہت سے دینی کاموں اور وظیفوں یہاں تک کہ نماز میں خلل پیدا ہو جایا کرتا ہے۔
(۸)کسی سے جھگڑا تکرار نہ کرے۔
(۹)بہت زیادہ اور قہقہہ لگا کر نہ ہنسے۔
(۱۰)ہر بات اور ہر کام میں شریعت اور سنت کی پابندی کا خیال رکھے۔
(۱۱)زیادہ وقت تنہائی میں رہے اگر لوگوں سے ملنا جلنا پڑے تو لوگوں سے عاجزی
اور انکساری کے ساتھ ملے سب کی خدمت کرے اور ہر گز ہر گز اپنے کسی قول و
فعل سے اپنی بڑائی نہ جتائے۔
(۱۲)امیروں کی صحبت میں بہت کم بیٹھے۔
(۱۳)بددینوں اور بد فعلوں سے بہت دور بھاگے۔
(۱۴)دوسروں کا عیب نہ ڈھونڈے بلکہ اپنے عیبوں پر نظر رکھے اور اپنی اصلاح کی
کوشش میں لگا رہے۔
(۱۵)نمازوں کو اچھی طرح اچھے وقت میں پابندی کے ساتھ دل لگا کر پڑھے۔
(۱۶)جو کچھ نقصان یا رنج و غم پیش آئے اس کو اﷲعزوجل کی طرف سے جانے اور اس
پر صبر کرے او ریہ سمجھے کہ اس پر خداوند تعالیٰ کی طرف سے ثواب ملے گا اور اگر
کوئی فائدہ حاصل ہو یا کوئی خوشی حاصل ہو تو اس پر خدا کا شکر ادا کرے اور یہ دعا
مانگے کہ اﷲ تعالیٰ اس نفع اور خوشی کو میرے حق میں بہتر بنائے۔"
"(۱۷)دل یا زبان سے ہر وقت خدا کا ذکر کرتا رہے کسی وقت غافل نہ رہے کم سے کم ہر
دم یہ خیال رکھے کہ خدا مجھے دیکھ رہا ہے۔
(۱۸)جہاں تک ہو سکے دوسروں کو دین یا دنیا کا فائدہ پہنچاتا رہے اور ہر گز کسی مسلمان
کو نقصان نہ پہنچائے۔
(۱۹)خوراک میں نہ اتنی کمی کرے کہ کمزور یا بیمار ہو جائے نہ اتنی زیادتی کرے کہ
عبادت میں سستی ہونے لگے۔
(۲۰)اﷲتعالیٰ کے سوا کسی آدمی سے کوئی امید اور آس نہ لگائے اور ہرگز یہ خیال نہ
رکھے کہ فلاں جگہ سے یا فلاں آدمی سے مجھے کوئی فائدہ مل جائے گا بس اﷲ تعالیٰ
سے آس لگائے رکھے اور اس عقیدہ پر جما رہے کہ اگر اﷲ تعالیٰ چاہے گا تو سب
میرے کام آئیں گے اور اگر اﷲ تعالیٰ نہیں چاہے گا تو کوئی میرے کام نہیں آسکتا
(۲۱)جہاں تک ہو سکے مسلمانوں کے عیوب کو چھپائے۔
(۲۲)مہمانوں' مسافروں اور عاملوں و درویشوں کی خدمت کرے اور غریبوں محتاجوں
کی اپنی طاقت بھر مدد کرے۔
(۲۳)اپنی موت کو یاد رکھے۔
(۲۴)روزانہ رات کو سوتے وقت دن بھر کے کاموں کو سوچے کہ آج دن بھر میں مجھ
سے کتنی نیکیاں ہوئیں اور کتنے گناہ ہوئے نیکیوں پر خدا کا شکر ادا کرے اور
گناہوں سے توبہ کرے۔
(۲۵)جھوٹ' غیبت' گالی گلوچ' فضول بکواس سے ہمیشہ بچتا رہے۔
(۲۶)جو محفل خلاف شریعت ہو وہاں ہر گز قدم نہ رکھے اور اس معاملہ میں عزیز و اقرباء"
"کی ناراضگی کی بھی کوئی پروا نہ کرے۔
(۲۷)اپنی صورت و سیرت' اپنے علم و فن ' اپنی عزت و شہرت' اپنے مال و دولت اور
دوسری خوبیوں پر ہرگز کبھی مغرور نہ ہو۔
(۲۸)نیکوں کی صحبت میں بیٹھے۔
(۲۹)غصہ نہ کرے ہمیشہ بردباری اور برداشت کرنے کی عادت بنائے۔
(۳۰)ہر شخص سے نرمی کے ساتھ بات چیت کرے۔
(۳۱)اپنے پیر کے بتائے ہوئے ذکر اور وظیفوں کی پابندی کرے اور اس کی نصیحتوں کو ہر دم پیش نظر رکھے۔"
" مسلمانوں کی وہ مجلسیں جن کے بارے میں رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا ہے کہ ان مجلسوں میں رحمت کے فرشتے اترتے ہیں اور رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا ہے ان مبارک مجلسوں میں چند یہ ہیں جن میں مسلمانوں کا حاضر ہونا سعادت اور باعث خیر و برکت اور اجر و ثواب کی دولت سے مالا مال ہونے کا ذریعہ ہے۔
(۱)میلاد شریف:۔اس مجلس میں حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی ولادت با سعادت کا بیان اور اسی کے ضمن میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے فضائل و معجزات اور آپ کی سیرت مبارکہ اور آپ کی مقدس زندگی کے حالات کا ذکر جمیل ہوتا ہے۔ ان چیزوں کا ذکر قرآن مجید میں بھی ہے اور حدیثوں میں بھی بکثرت ان باتوں کا ذکر ہے اگر مسلمان اپنی محفل میں ان مقدس مضامین کو بیان کریں بلکہ خاص ان باتوں کے بیان کرنے کے لئے محفل منعقد کریں تو اس کے ناجائز ہونے کی بھلا کون سی وجہ ہوسکتی ہے۔ بلا شبہ یقیناً یہ مجلس"
"جائز بلکہ مستحب اور باعث اجر و ثواب ہے۔ اس مجلس کے لئے لوگوں کو بلانا اور شریک کرنا یقیناً ایک خیر کی طرف بلانا ہے جو ثواب کا کام ہے جس طرح وعظ اور جلسوں کے اعلان کئے جاتے ہیں اور تاریخ مقرر کرکے اشتہار چھاپے جاتے ہیں اور اعلان کر کے لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے اور ان باتوں کی وجہ سے وہ وعظ اور جلسے ناجائز نہیں ہو جاتے اسی طرح میلاد شریف کے لئے بلاوا دینے سے اس مجلس کو ناجائز اور بدعت نہیں کہا جا سکتا۔
اسی طرح میلاد شریف میں شیرینی بانٹنا بھی جائز ہے۔ مٹھائی بانٹنا مسلمانوں کے ساتھ ایک نیک سلوک اور احسان کرنا ہے جب میلاد شریف کی محفل جائز ہے تو مٹھائی بانٹنا جو ایک جائز اور نیک کام ہے اس محفل کو ناجائز نہیں کردے گا۔ میلاد شریف کی مجلس میں ذکر ولادت کے وقت کھڑے ہو کر صلوۃ و سلام پڑھتے ہیں عرب و عجم کے بڑے بڑے علماء کرام اور مفتیان عظام نے اس قیام اور صلوۃ و سلام کو مستحب فرمایا ہے اس لئے کھڑے ہو کر سلام پڑھنا یقیناً جائز اور ثواب کا کام ہے بعض اکابر اولیاء کو میلاد شریف کی مجلس پاک میں حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی زیارت کا شرف بھی حاصل ہوا ہے اگرچہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم ضرور ہی اس مجلس میلاد شریف میں تشریف لاتے ہیں لیکن اگر وہ اپنے کسی امتی پر اپنا خاص کرم فرمائیں اور تشریف لائیں تو یہ کوئی محال بات بھی نہیں۔ بہت سے غلاموں کو آقائے نامدار نے نوازا ہے اور اپنے دیدار انور سے مشرف فرماتے رہیں گے کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوب کو حیات جاودانی عطا فرمائی ہے اور ان کو بڑی بڑی طاقتوں کا بادشاہ بلکہ شہنشاہ بنایا ہے"
اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَ بَارِکْ عَلٰی حَبِیْبِکَ سُلْطَانِ الْعٰلَمِیْنَ وَاٰلِہٖ وَاَصْحَابِہِ الْمُکَرَّمِیْنَ اِلٰی یَوْمِ الدِّیْنَO
(بہارشریعت،ج۳،ح۱۶،ص۲۴۵۔۲۴۶)
"(۲)رجبی شریف:ـ۔۲۶' ۲۷ رجب کو معراج شریف کا بیان کرنے کے لئے جو جلسہ کیا جاتا ہے اس کو رجبی شریف کی مجلس کہتے ہیں میلاد شریف کی طرح یہ بھی بہت ہی مبارک جلسہ ہے اس جلسہ کو کرنے والے اور حاضرین و سامعین سب ثواب کے مستحق ہیں ظاہر ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے فضائل و کما لات اور ان کے معجزات میں سے ایک بہت ہی عظیم الشان معجزہ یعنی معراج جسمانی کا ذکر جمیل کس قدر خداوند جلیل کی رحمتوں اور برکتوں کے نزول کا باعث ہوگا؟ اس لئے مسلمانوں کو چاہے کہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں اور بڑے سے بڑے اہتمام کے ساتھ اس مجلس خیر و برکت کو منعقد کریں اور ذکر معراج سننے کے لئے کثیر تعداد میں حاضر ہو کر انوار و برکات کی سعادتوں سے سر فراز ہوں اور اس مقدس رات میں نوافل پڑھ کر اور صدقات خیرات کر کے ثواب دارین کی دولتوں سے مالامال ہوں۔
(۳)گیارہوں شریف:۔۱۱۔ ۱۲ ربیع الآخر کو حضرت غوث اعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اﷲعلیہ کے فضائل و مناقب اور آپ کی کرامات کو بیان کرنے کے لئے یہ جلسہ منعقد کیا جاتا ہے حدیث شریف میں ہے کہ صالحین کے ذکر کے وقت رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوا کرتا ہے۔"
(کشف الخفاء،حرف العین المھملہ، رقم۱۷۷۰،ج۲،ص۶۵)
"لہٰذا یہ جلسے بھی جائز اور بہت ہی بابرکت ہیں اور بلا شبہ ثواب کے کام ہیں۔
(۴)سیرت پاک کے اجلاس:۔ان جلسوں میں حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے فضائل اور آپ کی مقدس سیرت اور اتباع سنت و شریعت اور محبت رسول صلی اللہ تعالیٰ"
"علیہ واٰلہٖ وسلّم کا بیان ہوا کرتا ہے میلاد شریف کی طرح یہ جلسے بھی بہت مبارک اور خیر و برکت والے ہیں اور اہل جلسہ حاضرین سب ثواب پاتے ہیں۔
حلقہ ذکر:۔صوفیائے کرام' اہل طریقت جمع ہو کر اور حلقہ بنا کر کلمہ طیبہ پڑھتے اور اﷲعزوجل کا ذکر کرتے ہیں پھر شجرہ شریفہ پڑھ کر پیران کبار کو ایصال ثواب کرتے ہیں ان حلقوں کی فضیلت اور عظمت کا کیا کہنا؟ ان ذکر کے حلقوں کو حدیث میں ''جنت کا باغ'' کہا گیا ہے۔
اسی طرح دوسرے صحابہ کرام علیھم الرضوان اور اولیاء عظام علیہ رحمۃ الرحمن کے تذکروں کی مجلسیں منعقد کرنا بھی جائز ہے مگر یہ ضروری ہے کہ ان سب جلسوں میں روایات صحیح بیان کی جائیں غیر ذمہ دار لوگوں سے نہ وعظ کہلایا جائے نہ غلط روایتوں کو بیان کیا جائے ورنہ ثواب کی جگہ عذاب کے سوا اور کچھ نہ ملے گا۔
عرس بزرگان دین:۔بزرگان دین و علماء صالحین کے وصال کی تاریخوں میں ان کے مزاروں پر حاضرین کا اجتماع جسمیں قرآن مجید کی تلاوت اور میلاد شریف نعت خوانی اور وعظ ہوتا ہے اور ان بزرگ کے حالات زندگی بیان کئے جاتے ہیں پھر فاتحہ و ایصال ثواب کیا جاتا ہے یہ جائز ہے رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم بھی ہر سال کے اول یا آخر میں شہداء احد کے مزاروں کی زیارت کے لئے تشریف لے جایا کرتے تھے ہاں یہ ضرور ہے کہ عرسوں کو زمانہ حال کے خرافات ولغویات چیزوں سے پاک رکھا جائے جاہلوں کو ناجائز کاموں سے منع کیا جائے منع کرنے سے بھی اگر وہ باز نہ آئیں تو ان ناجائز کاموں کا گناہ ان کے سر پر ہوگا ان لغویات و خرافات کی وجہ سے عرس کو حرام نہیں کہا جاسکتا ناک پر مکھی بیٹھ جائے تو مکھی کو اڑا دینا چاہے ناک کاٹ کر نہیں پھینک دی جائے گی۔"
یعنی قرآن مجید کی تلاوت یا کلمہ شریف یا نفلی نمازوں یا کسی بھی بدنی یا مالی عبادتوں کا ثواب کسی دوسرے کو پہنچانا یہ جائز ہے اسی کو عام طور پر لوگ فاتحہ دینا اور فاتحہ دلانا کہتے ہیں زندوں کے ایصال ثواب سے مردوں کو فائدہ پہنچتا ہے فقہ اور عقائد کی کتابوں مثلاً ہدایہ و شرح عقائد نسفیہ میں اس کا بیان موجود ہے اس کو بدعت اور ناجائز کہنا جہالت اور ہٹ دھرمی ہے حدیث سے بھی اس کا جائز ہونا ثابت ہے چنانچہ حضرت سعد بن عبادہ صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی والدہ کا جب انتقال ہوگیا تو انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم! میری ماں کا انتقال ہوگیا ان کے لئے کون سا صدقہ افضل ہے؟ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا پانی (بہترین صدقہ ہے تو حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے فرمانے کے مطابق) حضرت سعد رضی اﷲتعالیٰ عنہ نے کنواں کھدوا دیا (اور اسے اپنی ماں کی طرف منسوب کرتے ہوئے) کہا یہ کنواں سعد کی ماں کے لئے ہے (یعنی اس کا ثواب اس کی روح کو ملے)
(مشکوۃ المصابیح،کتاب الزکاۃ،باب فضل الصدقۃ،الفصل الثانی،رقم۱۹۱۲،ج۱،ص۵۲۷)
اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا یارسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم! میری ماں کا اچانک انتقال ہو گیا اور وہ کسی بات کی وصیت نہ کر سکی میرا گمان ہے کہ وہ انتقال کے وقت کچھ بول سکتی تو صدقہ ضرور دیتی تو اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کر دوں تو کیا اس کی روح کو ثواب پہنچے گا؟ توآپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ ہاں پہنچے گا۔
(صحیح مسلم،کتاب الزکاۃ،باب وصول ثواب الصدقۃ۔۔۔الخ،رقم۱۰۰۴،ص۵۰۲)
" علامہ نووی رحمۃ اﷲ علیہ نے اس حدیث کی شرح میں ارشاد فرمایا کہ۔
''اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اگر میت کی طرف سے صدقہ دیا جائے تو میت کو"
اس کا فائدہ اور ثواب پہنچتا ہے اسی پر علماء کا اتفاق ہے''
(شرح صحیح مسلم،کتاب الزکاۃ،باب وصول ثواب الصدقۃ۔۔۔الخ،ج۱،ص۳۲۴)
" اس کے علاوہ ان حدیثوں سے مندرجہ ذیل مسائل بھی نہایت ہی واضح طور پر ثابت ہوتے ہیں۔
(۱)میت کے ایصال ثواب کے لئے پانی بہترین صدقہ ہے کہ کنواں کھدوا کر یا نل لگوا کر یا سبیل لگا کر اس کا ثواب میت کو بخشا جائے۔
(۲)میت کو کسی کار خیر کا ثواب بخشنا بہتر اور اچھا کام ہے چنانچہ تفسیر عزیزی پارہ عم ص۱۱۳ پر ہے کہ۔
''مردہ ایک ڈوبنے والے کی طرح کسی فریاد رس کے انتظار میں رہتا ہے ایسے وقت میں صدقات اور دعائیں اور فاتحہ اس کے بہت کام آتے ہیں یہی وجہ ہے کہ لوگ ایک سال تک خصوصاً موت کے بعد ایک چلہ تک میت کو اس قسم کی امداد پہنچانے کی پوری پوری کوشش کرتے ہیں''۔
(۳)ثواب بخشنے کے الفاظ زبان سے ادا کرنا صحابہ علیھم الرضوان کی سنت ہے۔
(۴)کھانا شیرینی وغیرہ سامنے رکھ کر فاتحہ دینا جائز ہے اس لئے کہ حضرت سعد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اشارہ قریب کا لفظ استعمال کرتے ہوئے فرمایا"
ھذہ لام سعد
"یہ کنواں سعد کی ماں کے لئے ہے یعنی اے اﷲعزوجل! اس کنوئیں کے پانی کا ثواب میری ماں کو عطا فرما اس سے معلوم ہوا کہ کنواں ان کے سامنے تھا۔
(۵)غریب'مسکین کو کھانا وغیرہ دینے سے پہلے بھی فاتحہ کرنا جائز ہے جیسا کہ حضرت سعد نے کیا کہ کنواں تیار ہونے کے ساتھ ہی انہوں نے ثواب بخش دیا حالانکہ لوگوں کے"
"پانی استعمال کرنے کے بعد ثواب ملے گا اسی طرح اگرچہ غریب مسکین کو کھانا دینے کے بعد ثواب ملے گا لیکن اس ثواب کو پہلے ہی بخش دینا جائز ہے۔
(۶)کسی چیز پر میت کا نام آنے سے وہ چیز حرام نہ ہوگی مثلاً غوث پاک کا بکرا یا غازی میاں کا مرغا کہنے سے بکرا یا مرغا حرام نہیں ہو سکتا کیونکہ حضرت سعد صحابی نے اس کنوئیں کو اپنی مرحومہ ماں کے نام سے منسوب کیا تھا جو آج تک بئر ام سعد ہی کے نام سے مشہور ہے اور دور صحابہ سے آج تک مسلمان اس کا پانی پیتے رہے ہیں اور کوئی بھی اس کا قائل نہیں کہ ام سعد کا نام بول دینے سے کنوئیں کا پانی حرام ہو گیا۔
بہر حال اس بات پر چاروں اماموں کا اتفاق ہے کہ ایصال ثواب یعنی زندوں کی طرف سے مردوں کو ثواب پہنچانا جائز ہے اب رہیں تخصیصات کہ تیسرے دن ثواب پہنچانا'چالیسویں دن ثواب پہنچانا۔ تو یہ تخصیصات اور دنوں کی خصوصیات نہ تو شرعی تخصیصات ہیں نہ کوئی بھی ان کو شرعی سمجھتا ہے کیونکہ کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ اسی دن ثواب پہنچے گا بلکہ یہ تخصیصات محض عرفی اور رواجی بات ہے جو لوگوں نے اپنی سہولت کے لئے مقرر کر رکھی ہے ورنہ سب جانتے ہیں کہ انتقال کے بعد ہی سے تلاوت قرآن مجید اور صدقات و خیرات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور اکثر لوگوں کے یہاں بہت دنوں تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے ان سب باتوں کے ہوتے ہوئے یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ سنی لوگ تیسرے دن اور چالیسویں دن کے سوا دوسرے دنوں میں ایصال ثواب کو ناجائز مانتے ہیں یہ بہت بڑا افتراء اور شرمناک تہمت ہے جو مخالفین کی طرف سے ہم سنی مسلمانوں پر لگانے کی کوشش کی جارہی ہے اور خواہ مخواہ تیجہ اور چالیسویں کو حرام کہہ کر مردوں کو ثواب سے محروم کیا جارہا ہے بہر حال جب ہم یہ قاعدہ کلیہ بیان کر چکے ہیں کہ ایصال ثواب اور فاتحہ جائز"
"ہے تو ایصال ثواب کے تمام جزئیات کے احکام اسی قاعدہ کلیہ سے معلوم ہو گئے مثلاً۔
تیجہ کی فاتحہ:۔مرنے سے تیسرے دن بعد قرآن خوانی اور کلمہ طیبہ پڑھا جاتا ہے اور کچھ بتاشے یا چنے یا مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں اور ان کا ثواب میت کی روح کو پہنچایا جاتا ہے چونکہ یہ ایصال ثواب کا ایک طریقہ ہے اس لئے جائز اور بہتر ہے لہٰذا اس کو کرنا چاہے۔
چالیسویں اور برسی کی فاتحہ:۔مرنے کے چالیسویں دن بعد ہی کچھ کھانا پکوا کر فقراء و مساکین کو کھلایا جاتا ہے اور قرآن خوانی بھی کی جاتی ہے اور اس کا ثواب میت کی روح کو پہنچایا جاتا ہے اسی طرح ایک برس پورا ہو جانے کے بعد بھی کھانوں اور تلاوت وغیرہ کا ایصال ثواب کیا جاتا ہے یہ سب جائز اور ثواب کے کام ہیں لہٰذا ان کو کرتے رہنا چاہے۔
شب برأ ت کی فاتحہ:۔شب برأ ت میں حلوہ پکایا جاتا ہے اور اس پر فاتحہ دلائی جاتی ہے حلوہ پکانا بھی جائز ہے اور اس پر فاتحہ دلانا ایصال ثواب میں داخل ہے لہٰذا یہ بھی جائز ہے۔
کونڈوں کی فاتحہ:۔رجب کے مہینے میں چاول یا کھیر پکا کر کونڈوں میں رکھتے ہیں اور حضرت جلال الدین بخاری رحمہ اﷲ کی فاتحہ دلاتے ہیں اسی طرح ماہ رجب میں حضرت امام جعفر صادق رحمہ اﷲ کو ایصال ثواب کرنے کے لئے پوریوں کے کونڈے بھرے جاتے ہیں یہ سب جائز اور ثواب کے کام ہیں مگر کونڈوں کی فاتحہ میں جاہلوں کا یہ فعل مذموم اور نری جہالت ہے کہ جہاں کونڈوں کی فاتحہ ہوتی ہے وہیں کھلاتے ہیں وہاں سے ہٹنے نہیں دیتے یہ پابندی غلط اور بے جا ہے مگر یہ جاہلوں کا طریقہ عمل ہے پڑھے لکھے لوگوں میں یہ پابندی"
"نہیں اسی طرح کونڈوں کی فاتحہ کے وقت ایک کتاب ''داستان عجیب'' لوگ پڑھتے ہیں اس میں جو کچھ لکھا ہے اس کا کوئی ثبوت نہیں لہٰذا اس کو نہیں پڑھنا چاہے مگر فاتحہ دلانا چاہے کہ یہ جائز اور ثواب کا کام ہے۔
اسی طرح حضرت غوث اعظم رحمہ اﷲ و حضرت معین الدین چشتی رحمہ اﷲ حضرت خواجہ بہاؤالدین نقشبند رحمہ اﷲ حضرت خواجہ شہاب الدین سہروردی رحمہ اﷲ وغیرہ تمام بزرگان دین کی فاتحہ دلانا جائز اور ثواب کا کام ہے جو لوگ ان بزرگوں کی فاتحہ سے منع کرتے ہیں وہ درحقیقت ان بزرگوں کے دشمن ہیں لہٰذا ان کی باتوں پر کان نہیں دھرنا چاہے نہ ان لوگوں سے میل جول رکھنا چاہے بلکہ نہایت مضبوطی کے ساتھ اپنے مذہب اہل سنت و جماعت پر قائم رہنا چاہے کہ یہی مذہب حق ہے اور اس کے سوا جتنے فرقے ہیں وہ سب صراط مستقیم سے بہکے اور بھٹکے ہوئے ہیں خداوند کریم سب کو اہل سنت و جماعت کے مذہب پر قائم رکھے اور اسی مذہب پر خاتمہ بالخیر فرمائے۔"
آمین یا رب العلمین بحرمۃ النبی الامین وآلہ واصحابہ اجمعین۔
پہلے تین بار درود شریف پڑھے پھر کم سے کم چاروں قل سورۂ فاتحہ اور الۤم سے
مُفْلِحُوْنَ
تک پڑھے اس کے بعد پڑھے
وَ اِلٰـہُکُمْ اِلٰہٌ وّٰحِدٌۚ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیۡمُ﴿۱۶۳﴾٪
اور
اِنَّ رَحْمَتَ اللہِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَO وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّارَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ__ مَاکَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَا لِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ وَ کَانَ اللہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا___Oاِنَّ اﷲَ وَمَلٰئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاصَلُّوْاعَلَیْہِ وَسَلِّمُوْ ا تَسْلِیْمًاO
" اب تین بار درود شریف پڑھے۔
اور"
سُبْحٰنَ رَبِّکَ رَبِّ الْعِزَّۃِ عَمَّا یَصِفُوْنَ وَ سَلَامٌ عَلَی الْمُرْسَلِیْنَ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
پڑھ کر بارگاہ الٰہی عزوجل میں ہاتھ اٹھا کر یوں دعا کرے یا اﷲعزوجل! ہم نے جو کچھ درود شریف پڑھا ہے اور قرآن مجید کی آیتیں تلاوت کی ہیں ان کو قبول فرما اور ان کا ثواب (اگر کھانا یا شیرینی بھی ہو تو اتنا اور کہے کہ اس کھانے اور شیرینی کا ثواب) ہماری جانب سے حضور سرور کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو نذر پہنچا دے پھر آپ کے وسیلہ سے تمام انبیائے کرام علیہم السلام و صحابہ عظام و ازواج مطہرات و اہل بیت اطہار و شہدائے کربلا اور تمام اولیاء وعلماء و صلحاء وشہداء کو عطا فرما (پھر اگر کسی خاص بزرگ کو ایصال ثواب کرنا ہو تو ان کا نام خصوصیت کے ساتھ لے مثلاً یوں کہے کہ خصوصاً حضرت غوث پاک رحمۃ اﷲ تعالی علیہ کو نذر پہنچا دے) اور جملہ مومنین و مومنات کی ارواح کو ثواب عطا فرما اور کسی عام آدمی کو ایصال ثواب کرنا ہو تو اس کا ذکر خصوصیت سے کرے مثلاً یوں کہے کہ خصوصاً ہمارے والد یا والدہ کی روح کو ثواب پہنچا دے۔
آمین یا رب العلمین وَ صَلّی اللہُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہٖ سَیِّدِنَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ اَجْمَعِیْنO بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِّیْن۔
"یہی مائیں ہیں جن کی گود میں اسلام پلتا تھا
اسی غیرت سے انساں نور کے سانچے میں ڈھلتا تھا"
جہاں تک مسائل اور اسلامی عادات و خصائل کا تعلق ہے اس کے بارے میں ہم ایک حد تک کافی لکھ چکے اب ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ چند خواتین اسلام یعنی ان مقدس بیبیوں کا مختصر تذکرہ بھی تحریر کر دیں جو تاریخ اسلام میں صالحات (نیک بیبیوں) کے لقب سے مشہور ہیں تاکہ آج کل کی ماؤں بہنوں کو ان کے واقعات اور ان کی مقدس زندگی کے مبارک حالات سے عبرت و نصیحت حاصل ہواور یہ ان کے نقش قدم پر چل کر اپنی زندگی سنوار لیں اور دنیا و آخرت کی نیک نامیوں سے سرخرو و سر بلند ہو جائیں ان قابل احترام خواتین کی لذیذ حکایتوں کو ہم رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی مقدس بیبیوں کے ذکر جمیل سے شروع کرتے ہیں جو تمام امت کی مائیں ہیں اور جن کو تمام دنیا کی عورتوں میں یہ خصوصی شرف ملا ہے کہ انہیں بستر نبوت پر سونا نصیب ہوا اور وہ دن رات محبوب خداصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم كي محبت اور ان کی خدمت و صحبت کے انوار و برکات سے سرفراز ہوتی رہیں اور جن کی فضیلت و عظمت کا خطبہ پڑھتے ہوئے قرآن عظیم نے قیامت تک کے لئے یہ اعلان فرما دیا۔
یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَ حَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ۔
ترجمہ کنزالایمان: اے نبی کی بیبیو!تم اورعورتوں کی طرح نہیں ہو۔(پ22،الاحزاب:32)
یہ رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی سب سے پہلی بیوی اور رفیقہ حیات ہیں یہ خاندان قریش کی بہت ہی باوقار و ممتاز خاتون ہیں ان کے والد کا نام خویلد بن اسد اور ان کی ماں کا نام فاطمہ بنت زائدہ ہے ان کی شرافت اور پاک دامنی کی بنا پر تمام مکہ والے ان کو ''طاہرہ'' کے لقب سے پکارا کرتے تھے انہوں نے حضور علیہ الصلوۃ و السلام کے اخلاق و عادات اور جمال صورت و کمال سیرت کو دیکھ کر خود ہی آپ سے نکاح کی رغبت ظاہر کی چنانچہ اشراف قریش کے مجمع میں باقاعدہ نکاح ہوا یہ رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی بہت ہی جاں نثار اور وفا شعار بیوی ہیں اور حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو ان سے بہت ہی بے پناہ محبت تھی چنانچہ جب تک یہ زندہ رہیں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے کسی دوسری عورت سے نکاح نہیں فرمایا اور یہ مسلسل پچیس سال تک محبوب خدا کی جاں نثاری و خدمت گزاری کے شرف سے سرفراز رہیں حضور علیہ الصلوۃ و السلام کو بھی ان سے اس قدر محبت تھی کہ ان کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم اپنی محبوب ترین بیوی حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے فرمایا کرتے تھے کہ خدا کی قسم! خدیجہ سے بہتر مجھے کوئی بیوی نہیں ملی جب سب لوگوں نے میرے ساتھ کفر کیا اس وقت وہ مجھ پر ایمان لائیں اور جب سب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے اس وقت انہوں نے میری تصدیق کی اور جس وقت کوئی شخص مجھے کوئی چیز دینے کے لئے تیار نہ تھا اس وقت خدیجہ نے مجھے اپنا سارا سامان دے دیا اور انہیں کے شکم سے اﷲ تعالیٰ نے مجھے اولاد عطا فرمائی۔
(شرح العلامۃ الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ،حضرت خدیجہ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا، ج۴،ص۳۶۳ والاستیعاب ،کتاب النساء ۳۳۴۷،خدیجہ بنت خویلد،ج۴،ص۳۷۹)
اس بات پر ساری امت کا اتفاق ہے کہ سب سے پہلے حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم
"کی نبوت پر یہی ایمان لائیں اور ابتداءِ اسلام میں جب کہ ہر طرف آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی مخالفت کا طوفان اٹھا ہوا تھا ایسے خوف ناک اور کٹھن وقت میں صرف ایک حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکی ہی ذات تھی جو پروانوں کی طرح حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم پر قربان ہورہی تھیں اور اتنے خطرناک اوقات میں جس استقلال و استقامت کے ساتھ انہوں نے خطرات و مصائب کا مقابلہ کیا اس خصوصیت میں تمام ازواج مطہرات پر ان کو ایک ممتاز فضیلت حاصل ہے۔
ان کے فضائل میں بہت سی حدیثیں بھی آئی ہیں چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ تمام دنیا کی عورتوں میں سب سے زیادہ اچھی اور باکمال چار بیبیاں ہیں ایک حضرت مریم دوسری آسیہ فرعون کی بیوی تیسری حضرت خدیجہ چوتھی حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہن۔
ایک مرتبہ حضرت جبرئیل علیہ السلام دربار نبوت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اے محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم) یہ خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا ہیں جو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے پاس ایک برتن میں کھانا لے کر آرہی ہیں جب یہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے پاس آجائیں تو ان سے ان کے رب عزوجل کا اور میرا سلام کہہ دیجئے اور ان کو یہ خوشخبری سنا دیجئے کہ جنت میں ان کے لئے موتی کا ایک گھر بنا ہے جس میں نہ کوئی شور ہوگا نہ کوئی تکلیف ہوگی۔"
(صحیح البخاری،کتاب مناقب الانصار،باب تزویج النبی صلی اللہ علیہ وسلم خدیجۃ،رقم ۳۸۲۰،ج۲،ص۵۶۵)
سرکار دو جہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ان کی وفات کے بعد بہت سی عورتوں سے نکاح فرمایا لیکن حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی محبت آخرِ عمر تک حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ
" وسلّم کے قلب مبارک میں رچی بسی رہی یہاں تک کہ ان کی وفات کے بعد جب بھی حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے گھر میں کوئی بکری ذبح ہوتی تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی سہیلیوں کے یہاں بھی ضرور گوشت بھیجا کرتے تھے اور ہمیشہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم باربار حضرت بی بی خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا ذکر فرماتے رہتے تھے ہجرت سے تین برس قبل پینسٹھ برس کی عمر پا کر ماہ رمضان میں مکہ مکرمہ کے اندر انہوں نے وفات پائی اور مکہ مکرمہ کے مشہور قبرستان حجون (جنت المعلی) میں خود حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ان کی قبر انور میں اتر کر اپنے مقدس ہاتھوں سے ان کو سپرد خاک فرمایا اس وقت تک نماز جنازہ کا حکم نازل نہیں ہوا تھا اس لئے حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے انکی نماز نہیں پڑھائی حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی وفات سے تین یا پانچ دن پہلے حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے چچا ابو طالب کا انتقال ہوگیا تھا ابھی چچا کی وفات کے صدمہ سے حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم گزرے ہی تھے کہ حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا انتقال ہوگیا اس سانحہ کا قلب مبارک پر اتنا زبردست صدمہ گزرا کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے اس سال کا نام ''عام الحزن'' (غم کا سال) رکھ دیا۔
تبصرہ:۔حضرت اُم المومنین بی بی خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی مقدس زندگی سے ماں بہنوں کو سبق حاصل کرنا چاہے کہ انہوں نے کیسے کٹھن اور مشقت کے دور میں حضور اکرم صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم پر اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کر دیا اور سینہ سپر ہو کر تمام مصائب و مشکلات کا مقابلہ کیا اور پہاڑ کی طرح ایمان و عمل صالح پر ثابت قدم رہیں اور مصائب و آلام کے طوفان میں نہایت ہی جاں نثاری کے ساتھ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی دلجوئی اور تسکین قلب کا سامان کرتی رہیں اور ان کی ان قربانیوں کا دنیا ہی میں ان کو یہ صلہ ملا کہ"
"رب العلمین کا سلام ان کے نام لے کر حضرت جبرئیل علیہ السلام نازل ہوا کرتے تھے اس سے معلوم ہوا کہ مشکلات و پریشانیوں میں اپنے شوہر کی دلجوئیاں اور تسلی دینے کی عادت خدا کے نزدیک محبوب و پسندیدہ خصلت ہے لیکن افسوس کہ اس زمانے میں مسلمان عورتیں اپنے شوہروں کی دلجوئی تو کہاں؟ الٹے اپنے شوہروں کو پریشان کرتی رہتی ہیں کبھی طرح طرح کی فرمائشیں کر کے کبھی جھگڑا تکرار کر کے کبھی غصہ میں منہ پھلا کر۔
اسلامی بہنو! تمہیں خدا کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ اپنے شوہروں کا دل نہ دکھاؤ اوران کو پریشانیوں میں نہ ڈالا کرو بلکہ آڑے وقتوں میں اپنے شوہروں کو تسلی دے کر ان کی دلجوئی کیا کرو۔"
یہ ہمارے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی مقدس بیوی اور تمام امت کی ماں ہیں ان کے باپ کا نام ''زمعہ'' اور ماں کانام ''شموس بنت عمرو'' ہے یہ بھی قریش خاندان کی بہت ہی نامور اور معزز عورت ہیں یہ پہلے اپنے چچا زاد بھائی ''سکران بن عمرو'' سے بیاہی گئی تھیں اور اسلام کی شروعات ہی میں یہ دونوں میاں بیوی مسلمان ہوگئے تھے لیکن جب حبشہ سے واپس ہو کر دونوں میاں بیوی مکہ مکرمہ میں آکر رہنے لگے تو ان کے شوہر کا انتقال ہوگیا اور حضور اکرم صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم بھی حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے انتقال کے بعد رات دن مغموم رہا کرتے تھے یہ دیکھ کر حضرت خولہ بنت حکیم رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے بارگاہ رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم میں یہ درخواست پیش کی کہ یا رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم! حضرت سودہ بنت زمعہ سے نکاح فرمالیں تاکہ آپ کا خانہ معیشت آباد ہو جائے حضرت سودہ بہت ہی دین دار اور سلیقہ شعار خاتون ہیں اور بے حد خدمت گزار بھی ہیں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے حضرت خولہ کے اس مخلصانہ مشورہ کو قبول فرما لیا چنانچہ حضرت خولہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے
حضرت سودہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے باپ سے بات چیت کر کے نسبت طے کرا دی اور نکاح ہوگیا اور یہ عمر بھر حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی زوجیت کے شرف سے سرفراز رہیں اور جس والہانہ محبت و عقیدت کے ساتھ وفاداری و خدمت گزاری کا حق ادا کیا وہ ان کا بہت ہی شاندار کارنامہ ہے حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے ساتھ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی محبت کو دیکھ کر انہوں نے اپنی باری کا دن حضرت عائشہ کو دے دیا تھا حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا فرمایا کرتی تھیں کہ کسی عورت کو دیکھ کر مجھ کو یہ حرص نہیں ہوتی تھی کہ میں بھی ویسی ہی ہوتی مگر میں حضرت سودہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے جمال صورت و حسن سیرت کو دیکھ کر یہ تمنا کیا کرتی تھی کی کاش میں بھی حضرت سودہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا جیسی ہوتی یہ اپنی دوسری خوبیوں کے ساتھ بہت فیاض اور اعلیٰ درجے کی سخی تھیں ایک مرتبہ امیر المومنین حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنی خلافت کے زمانے میں درہموں سے بھرا ہوا ایک تھیلا حضرت بی بی سودہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے پاس بھیج دیا انہوں نے اس تھیلے کو دیکھ کر کہا کہ واہ بھلا کھجوروں کے تھیلے میں کہیں درہم بھیجے جاتے ہیں؟ یہ کہا اور اٹھ کر اسی وقت ان تمام درہموں کو مدینہ منورہ کے فقراء و مساکین کو گھر میں بلا کر بانٹ دیا اور تھیلا خالی کر دیا امام بخاری اور امام ذہبی کا قول ہے کہ ۳۳ھ میں مدینہ منورہ کے اندر ان کی وفات ہوئی لیکن واقدی اور صاحب اکمال کے نزدیک ان کی وفات کا سال ۵۴ھ ہے مگر علامہ ابن حجر عسقلانی نے تقریب التہذیب میں ان کی وفات کا سال ۵۵ھ شوال کا مہینہ لکھا ہے ان کی قبر منور مدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع میں ہے۔
(شرح العلامۃ الزرقانی علی المواہب ،حضرت سودۃ ام المؤمنین،ج۴،ص۳۷۷)
تبصرہ:۔غور کرو کہ حضرت بی بی خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے بعد حضرت سودہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے کس طرح حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے غم کو غلط کیا اور کس طرح کاشانہ نبوت کو سنبھالا کہ قلب مبارک مطمئن ہوگیا اور پھر ان کی محبت رسول صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم پر ایک نظر ڈالو کہ
"انہوں نے حضور کی خوشی کے لئے اپنی باری کا دن کس خوش دلی کے ساتھ اپنی سوت حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو دے دیا پھر ان کی فیاضی اور سخاوت بھی دیکھو درہموں سے بھرے ہوئے تھیلے کو چند منٹوں میں فقراء و مساکین کے درمیان تقسیم کر دیا اور اپنے لئے ایک درہم بھی نہ رکھا۔
ماں بہنو!خدا کے لئے ان امت کی ماؤں کے طرز عمل سے سبق سیکھو اور نیک بیبیوں کی فہرست میں اپنا نام لکھاؤ حسد اور کنجوسی نہ کرو اور کام چور نہ بنو۔"
یہ امیر المومنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی ہیں ان کی ماں کا نام ''ام رومان'' ہے ان کا نکاح حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم سے قبل ہجرت مکہ مکرمہ میں ہوا تھا لیکن کاشانہ نبوت میں یہ مدینہ منورہ کے اندر شوال ۲ھ میں آئیں یہ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی محبوبہ اور بہت ہی چہیتی بیوی ہیں۔
(شرح العلامۃ الزرقانی،حضرت عائشۃ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا،ج۴،ص۳۸۱۔۳۸۲،۳۸۵)
حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا ان کے بارے میں ارشاد ہے کہ کسی بیوی کے لحاف میں میرے اوپر وحی نہیں اتری مگر حضرت عائشہ جب میرے ساتھ نبوت کے بستر پر سوتی رہتی ہیں تو اس حالت میں بھی مجھ پر وحی اترتی رہتی ہے۔
(صحیح البخاری،کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم ،باب فضل عائشۃ رضی اللہ عنہا ،رقم ۳۷۷۵،ج۲،ص۵۵۲)
فقہ و حدیث کے علوم میں حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی بیبیوں کے درمیان ان کا درجہ بہت اونچا ہے بڑے بڑے صحابہ علیھم الرضوان ان سے مسائل پوچھا کرتے تھے عبادت میں ان کا یہ عالم تھا کہ نماز تہجد کی بے حد پابند تھیں اور نفلی روزے بھی بہت زیادہ رکھتی تھیں سخاوت اور صدقات و خیرات کے معاملہ میں بھی حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی سب بیبیوں میں خاص طور پر بہت ممتاز تھیں ام درہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ کہیں سے
ایک لاکھ درہم ان کے پاس آئے آپ نے اسی وقت ان سب درہموں کو خیرات کر دیا اس دن وہ روزہ دار تھیں میں نے عرض کیا کہ آپ نے سب درہموں کو بانٹ دیا اور ایک درہم بھی آپ نے باقی نہیں رکھا کہ اس سے آپ گوشت خرید کر روزہ افطار کرتیں تو آپ نے فرمایا کہ اگر تم نے پہلے کہا ہوتا تو میں ایک درہم کا گوشت منگا لیتی آپ کے فضائل میں بہت سی حدیثیں آئی ہیں ۱۷ رمضان منگل کی رات میں ۵۷ھ یا ۵۸ھ میں مدینہ منورہ کے اندر آپ کی وفات ہوئی حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور رات میں دوسری ازواج مطہرات کے پہلو میں جنت البقیع کے اندر مدفون ہوئیں۔
(شرح العلامۃ الزرقانی علی المواہب،حضرت عائشۃ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا،ج۴،ص۳۸۹۔۳۹۲)
تبصرہ:۔یہ عمر میں حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی تمام بیبیوں میں سب سے چھوٹی تھیں مگر علم و فضل زہدو تقویٰ سخاوت و شجاعت عبادت وریاضت میں سب سے بڑھ کر ہوئیں اس کو فضل خداوندی کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے؟ بہر حال پیاری بہنو! حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی زندگی سے سبق حاصل کرو اور اچھے اچھے عمل کرتی رہو اور اپنے شوہروں کو خوش رکھو۔
یہ بھی رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی مقدس بیوی اور امت کی ماؤں میں سے ہیں یہ حضرت امیر المومنین عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی بلند اقبال صاحبزادی ہیں اور ان کی والدہ کا نام زینب بنت مظعون ہے جو ایک مشہور صحابیہ ہیں یہ پہلے حضرت خنیس بن حذافہ سہمی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی زوجیت میں تھیں اور میاں بیوی دونوں ہجرت کر کے مدینہ منورہ چلے گئے تھے مگر ان کے شوہر جنگ احد میں زخمی ہو کر وفات پا گئے تو ۳ھ میں رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ان سے نکاح فرمالیا یہ بھی بہت ہی شاندار بلند ہمت اور سخی عورت تھیں اور فہم و
فراست اور حق گوئی و حاضر جوابی میں اپنے والد ہی کا مزاج پایا تھا اکثر روزہ دار رہا کرتی تھیں اور تلاوت قرآن مجید اور دوسری قسم قسم کی عبادتوں میں مصروف رہا کرتی تھیں عبادت گزار ہونے کے ساتھ ساتھ فقہ و حدیث کے علوم میں بھی بہت معلومات رکھتی تھیں شعبان ۴۵ھ میں مدینہ منورہ کے اندر ان کی وفات ہوئی حاکم مدینہ مروان بن حکم نے نماز جنازہ پڑھائی اور ان کے بھتیجوں نے قبر میں اتارا اور جنت البقیع میں دفن ہوئیں بوقت وفات ان کی عمر ساٹھ یا تریسٹھ برس کی تھی۔
(شرح العلامۃ الزرقانی،حضرت حفصہ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا،ج۴،ص۳۹۳۔۳۹۶)
تبصرہ:۔گھریلو کام دھندا سنبھالتے ہوئے روزانہ اتنی عبادت بھی کرنی پھر حدیث و فقہ کے علوم میں بھی مہارت حاصل کرنی یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی بیبیاں آرام پسند اور کھیل کود میں زندگی بسر کرنے والی نہیں تھیں بلکہ دن رات کا ایک منٹ بھی وہ ضائع نہیں کرتی تھیں اور دن رات گھر کے کام کاج یا عبادت یا شوہر کی خدمت یا علم حاصل کرنے میں مصروف رہا کرتی تھیں سبحان اﷲعزوجل! ان خوش نصیب بیبیوں کی زندگی نبی رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم كے نکاح میں ہونے کی برکت سے کتنی مقدس کس قدر پاکیزہ اور کس درجہ نورانی زندگی تھی ماں بہنو! کاش تمہاری زندگی میں بھی ان امت کی ماؤں کی زندگی کی چمک دمک یا ہلکی سی بھی جھلک ہوتی تو تمہاری زندگی جنت کا نمونہ بن جاتی اور تمہاری گود میں ایسے بچے اور بچیاں پرورش پاتے جن کی اسلامی شان اور زاہدانہ زندگی کی عظمت کو دیکھ کر آسمانوں کے فرشتے دعا کرتے اور جنت کی حوریں تمہارے لئے ''آمین'' کہتیں مگر ہائے افسوس کہ تم کو تو اچھا کھانے اچھے لباس بناؤ سنگار کر کے پلنگ پر دن رات لیٹنے' ریڈیو کا گانا سننے سے اتنی فرصت ہی کہاں کہ تم ان امت کی
ماؤں کے نقش قدم پر چلو خداوند کریم تمہیں ہدایت دے اس دعا کے سوا ہم تمہارے لئے اور کیا کر سکتے ہیں؟ کاش تم ہماری ان مخلصانہ نصیحتوں پر عمل کر کے اپنی زندگی کو اسلامی سانچے میں ڈھال لو اور امت کی نیک بیبیوں کی فہرست میں اپنا نام لکھا کر دونوں جہان میں سرخرو ہو جاؤ۔
ان کا نام ''ہند'' اور کنیت ''ام سلمہ'' ہے لیکن یہ اپنی کنیت ہی کے ساتھ زیادہ مشہور ہیں ان کے والد کا نام ''حذیفہ'' یا ''سہیل'' اوران کی والدہ ''عاتکہ بنت عامر'' ہیں یہ پہلے ابو سلمہ عبداﷲبن اسد سے بیاہی گئی تھیں اور یہ دونوں میاں بیوی مسلمان ہو کر پہلے ''حبشہ'' ہجرت کر گئے پھر حبشہ سے مکہ مکرمہ چلے آئے اور مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کا ارادہ کیا چنانچہ ابو سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اونٹ پر کجاوہ باندھا اور بی بی ام سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو اونٹ پر سوار کرایا اور وہ اپنے دودھ پیتے بچے کو گود میں لے کر اونٹ پر بٹھا دی گئیں تو ایک دم حضرت ام سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے میکا والے بنو مغیرہ دوڑ پڑے اور ان لوگوں نے یہ کہہ کر کہ ہمارے خاندان کی لڑکی مدینہ نہیں جاسکتی حضرت ام سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو اونٹ سے اتار ڈالا یہ دیکھ کر حضرت ابو سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے خاندان والوں کو طیش آگیا اور ان لوگوں نے حضرت ام سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی گود سے بچے کو چھین لیا اور یہ کہا کہ یہ بچہ ہمارے خاندان کا ہے اس لئے ہم اس بچہ کو ہرگز ہرگز تمہارے پاس نہیں رہنے دیں گے اس طرح بیوی اور بچہ دونوں حضرت ابو سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے جدا ہو گئے مگر حضرت ابو سلمہ نے ہجرت کا ارادہ نہیں چھوڑا بلکہ بیوی اور بچہ دونوں کو خدا کے سپرد کر کے تنہا مدینہ منورہ چلے گئے حضرت ام سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا شوہر اور بچے کی جدائی پر دن رات رویا کرتی تھیں ان کا یہ حال دیکھ کر ان کے
"ایک چچا زاد بھائی کو رحم آگیا اور اس نے بنو مغیرہ کو سمجھایا کہ آخر اس غریب عورت کو تم لوگوں نے اس کے شوہر اور بچے سے کیوں جدا کر رکھا ہے؟ کیا تم لوگ یہ نہیں دیکھ رہے ہو کہ وہ ایک پتھر کی چٹان پر ایک ہفتہ سے اکیلی بیٹھی ہوئی بچے اور شوہر کی جدائی میں رویا کرتی ہے آخر بنو مغیرہ کے لوگ اس پر رضا مند ہوگئے کہ ام سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا اپنے بچے کو لے کر اپنے شوہر کے پاس مدینہ چلی جائے پھر حضرت ابو سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے خاندان والوں نے بھی بچہ کو حضرت ام سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے سپرد کر دیا اور حضرت ام سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا بچے کو گود میں لے کر ہجرت کے ارادہ سے اونٹ پرسوار ہوگئیں مگر جب مقام ''تنعیم'' میں پہنچیں تو عثمان بن طلحہ راستہ میں ملا جو مکہ کا مانا ہوا ایک نہایت ہی شریف انسان تھا اس نے پوچھا کہ ام سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کہاں کا ارادہ ہے؟ انہوں نے کہا کہ میں اپنے شوہر کے پاس مدینہ جارہی ہوں اس نے کہا کہ کیا تمہارے ساتھ کوئی دوسرا نہیں ہے ؟ حضرت ام سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے درد بھری آواز میں جواب دیا میرے ساتھ میرے اﷲعزوجل اور میرے اس بچہ کے سوا دوسرا کوئی نہیں ہے یہ سن کر عثمان بن طلحہ کو شریفانہ جذبہ آگیا اور اس نے کہا کہ خدا کی قسم میرے لئے یہ زیب نہیں دیتا کہ تمہارے جیسی ایک شریف زادی اور ایک شریف انسان کی بیوی کو تنہا چھوڑدوں یہ کہہ کر اس نے اونٹ کی مہار اپنے ہاتھ میں لی اور پیدل چلنے لگا ۔
حضرت ام سلمہ کا بیان ہے کہ خدا کی قسم میں نے عثمان بن طلحہ سے زیادہ شریف کسی عرب کو نہیں پایا جب ہم کسی منزل پر اترتے تو وہ الگ دور جاکر کسی درخت کے نیچے سو رہتا اور میں اپنے اونٹ پر سو رہتی پھر چلنے کے وقت وہ اونٹ کی مہار ہاتھ میں لے کر پیدل چلنے لگتااسی طرح اس نے مجھے ''قبا'' تک پہنچا دیا اور یہ کہہ کر واپس مکہ چلا گیا کہ اب تم چلی"
جاؤ تمہارا شوہر اسی گاؤں میں ہے چنانچہ حضرت ام سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا بخیریت مدینہ پہنچ گئیں ۔
(شرح العلامۃ الزرقانی،حضرت ام سلمۃ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا،ج۴،ص۳۹۶۔۳۹۸)
پھر دونوں میاں بیوی مدینہ میں رہنے لگے چند بچے بھی ہوگئے شوہر کا انتقال ہو گیا تو حضرت ام سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا بڑی بے کسی میں پڑ گئیں چند چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ بیوگی میں زندگی بسر کرنا دشوار ہوگیا ان کا یہ حال زار دیکھ کر رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ان سے نکاح فرمالیا اور بچوں کو اپنی پرورش میں لے لیا اس طرح یہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے گھر آگئیں اور تمام امت کی ماں بن گئیں حضرت بی بی ام سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا عقل و فہم' علم و عمل' دیانت و شجاعت کے کمال کا ایک بے مثال نمونہ تھیں اور فقہ و حدیث کی معلومات کا یہ عالم تھا کہ تین سو اَٹھہترحدیثیں انہیں زبانی یاد تھیں مدینہ منورہ میں چوراسی برس کی عمر پاکر وفات پائی ان کے وصال کے سال میں بڑا اختلاف ہے بعض مورخین نے ۵۳ھ بعض نے ۵۹ھ بعض نے ۶۲ھ لکھا ہے اور بعض کا قول ہے کہ ان کا انتقال ۶۳ھ کے بعد ہوا ہے ان کی قبر مبار ک جنت البقیع میں ہے۔
(شرح العلامۃ الزرقانی،حضرت ام سلمۃ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا،ج۴،ص۳۹۹۔۴۰۳)
تبصرہ:۔اﷲاکبر! حضرت بی بی ام سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی زندگی صبر و استقامت' جذبہ ایمانی' جوش اسلامی' زاہدانہ زندگی' علم و عمل' محنت و جفاکشی' عقل و فہم کا ایک ایسا شاہکار ہے جس کی مثال مشکل ہی سے مل سکے گی ان کے کارناموں اور بہادری کی داستانوں کو تاریخ اسلام کے اوراق میں پڑھ کر یہ کہنا پڑتا ہے کہ اے آسمان بول! اے زمین بتا! کیا تم نے حضرت ام سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا جیسی شیر دل اور پیکر ایمان عورت کو ان سے پہلے کبھی دیکھا تھا۔
ماں بہنو! تم پیارے نبي صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی پیاری بیبیوں کی زندگی سے سبق حاصل کرو اور خدا کے لئے سوچو کہ وہ کیا تھیں؟ اور تم کیاہو؟ تم بھی مسلمان عورت ہو خدا کے لئے کچھ تو ان کی زندگی کی جھلک دکھاؤ۔
یہ سردار مکہ حضرت ابو سفیان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی بیٹی اور حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی بہن ہیں ان کی ماں ''صفیہ بنت عاص'' ہیں جو امیر المومنین حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی پھوپھی ہیں حضرت ام حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا نکاح پہلے عبید اﷲ بن حجش سے ہوا تھا اور میاں بیوی دونوں اسلام قبول کر کے حبشہ کی طرف ہجرت کر کے چلے گئے تھے مگر حبشہ جا کر عبیداﷲبن حجش نصرانی ہو گیا اور عیسائیوں کی صحبت میں شراب پیتے پیتے مرگیا لیکن ام حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا اپنے ایمان پر قائم رہیں اور بڑی بہادری کے ساتھ مصائب و مشکلات کا مقابلہ کرتی رہیں جب حضور اکرم صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو ان کے حال کی خبر ہوئی تو قلب نازک پر بے حد صدمہ گزرا اور آپ نے حضرت عمرو بن امیہ ضمری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو ان کی دلجوئی کے لئے حبشہ بھیجا اور نجاشی بادشاہ حبشہ کے نام خط بھیجا کہ تم میرے وکیل بن کر حضرت ام حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے ساتھ میرا نکاح کر دو نجاشی بادشاہ نے اپنی لونڈی ''ابرہہ'' کے ذریعہ رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا پیغام حضرت ام حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے پاس بھیجا جب حضرت بی بی ام حبیبیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہانے یہ خوشخبری کا پیام سنا تو خوش ہو کر ابرہہ لونڈی کو انعام کے طور پر اپنا زیور اتار کر دے دیا پھر اپنے ماموں زاد بھائی حضرت خالد بن سعید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو اپنے نکاح کا وکیل بنا کر نجاشی بادشاہ کے پاس بھیج دیا اورا نہوں نے بہت سے مہاجرین کو جمع کرکے حضرت ام حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا نکاح حضور علیہ الصلوۃ و السلام کے ساتھ کر
دیا اور پنے پاس سے مہر بھی ادا کر دیا اور پھر پورے اعزاز کے ساتھ حضرت شرجیل بن حسنہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ساتھ مدینہ منورہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس بھیج دیا اور یہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی مقدس بیوی اور تمام مسلمانوں کی ماں بن کر حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے خانہ نبوت میں رہنے لگیں یہ سخاوت و شجاعت دین داری اور امانت و دیانت کے ساتھ بہت ہی قوی ایمان والی تھیں ایک مرتبہ ان کے باپ ابو سفیان جو ابھی کافر تھے مدینہ میں ان کے گھر آئے اور رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے بستر پر بیٹھ گئے حضرت ام حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے ذرا بھی باپ کی پروا نہیں کی اور باپ کو بستر سے اٹھادیا اور کہا کہ میں ہرگز یہ گوارا نہیں کر سکتی کہ ایک ناپاک مشرک رسول صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے اس پاک بستر پر بیٹھے اسی طرح ان کے جوش ایمانی اور جذبہ اسلامی کے واقعات عجیب و غریب ہیں جو تاریخوں میں لکھے ہوئے ہیں بہت ہی دین دار اور پاکیزہ عورت تھیں بہت سی حدیثیں بھی یاد تھیں اور انتہائی عبادت گزار اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی بے انتہا خدمت گزار اور وفادار بیوی تھیں ۴۴ھ میں مدینہ منورہ کے اندر ان کی وفات ہوئی اور جنت البقیع کے قبر ستان میں دوسری ازواج مطہرات کے خطیرہ میں مدفون ہوئیں۔
(شرح العلامۃ الزرقانی،حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا،ج۴،ص۴۰۳ و مدارج النبوت،ج۲،ص۴۸۱)
تبصرہ:۔اﷲاکبر!حضرت بی بی ام حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی زندگی کتنی عبرت خیز اور تعجب انگیز ہے سردار مکہ کی شہزادی ہو کر دین کے لئے اپنا وطن چھوڑ کر حبشہ کی دور دراز جگہ میں ہجرت کر کے چلی جاتی ہیں اور پنا ہ گزینوں کی ایک جھونپڑی میں رہنے لگتی ہیں۔ پھر بالکل ناگہاں یہ مصیبت کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے کہ شوہر جو پردیس کی زمین میں تنہا ایک سہارا تھا۔ عیسائی ہو کر الگ تھلگ ہوگیا اور کوئی دوسرا سہارا نہ رہ گیا مگر ایسے نازک اور خطرناک وقت
"میں بھی ذرا بھی ان کا قدم نہیں ڈگمگایا اور پہاڑ کی طرح دین اسلام پر قائم رہیں۔ اک ذرا بھی ان کا حوصلہ پست نہیں ہوا نہ انہوں نے اپنے کافر باپ کو یاد کیا نہ اپنے کافر بھائیوں بھتیجوں سے کوئی مدد طلب کی خدا پر توکل کر کے ایک نامانوس پردیس کی زمین میں پڑی خدا کی عبادت میں لگی رہیں یہاں تک کہ خدا کے فضل و کرم اور رحمت للعالمین کی رحمت نے ان کی دستگیری کی اور بالکل اچانک خداوند قدوس نے ان کو اپنے محبوب کی محبوبہ بی بی اور ساری امت کی ماں بنا دیا کہ قیامت تک ساری دنیا ان کو ام المومنین (مومنوں کی ماں) کہہ کر پکارتی رہے گی اور قیامت میں بھی ساری خدائی خدا کے اس فضل و کرم کا تماشا دیکھے گی۔
اے مسلمان عورتو! دیکھو ایمان پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے اور خدا پر توکل کرنے کا پھل کتنا میٹھا اور کس قدر لذیذ ہوتا ہے؟ اور یہ تو دنیا میں اجر ملا ہے ابھی آخرت میں ان کو کیا کیا اجر ملے گا؟ اور کیسے کیسے درجات کی بادشاہی ملے گی؟ اس کو خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا ہم لوگ تو ان درجوں اور مرتبوں کی بلندی و عظمت کو سوچ بھی نہیں سکتے اﷲ اکبر! اﷲاکبر۔"
یہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی پھوپھی اُمیمہ بنت عبدالمطلب کی بیٹی ہیں حضور علیہ الصلوۃ و السلام نے اپنے آزاد کردہ غلام اور متبنی حضرت زید بن حارثہ سے ان کا نکاح کر دیا لیکن خدا کی شان کہ میاں بیوی میں نباہ نہ ہو سکا اور حضرت زید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ان کو طلاق دے دی جب ان کی عدت گزر گئی تو اچانک ایک دن یہ آیت اتر پڑی کہ۔
فَلَمَّاَ قَضٰی زَیْدٌ مِّنْھَا وَطَرًا زَوَّجْنٰکَھَا
"ترجمہ کنزالایمان:پھر جب زید کی غرض اس سے نکل گئی تو ہم نے وہ تمہارے نکاح میں دے دی۔(پ22،الاحزاب:37)
اس آیت کے نزول ہونے پررسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے مسکراتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ کون ہے جو زینب کے پاس جاکر اس کو یہ خوشخبری سنا دے کہ اﷲ تعالیٰ نے میرا نکاح اس کے ساتھ کر دیا یہ سن کر ایک خادمہ دوڑی ہوئی گئی اور حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو یہ خوشخبری سنا دی حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو یہ خوش خبری سن کر اتنی خوشی ہوئی کہ اپنے زیورات اتار کر خادمہ کو انعام میں دے دئے اور خود سجدہ میں گر پڑیں اور پھر دو ماہ لگاتار شکریہ کا روزہ رکھا حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے ساتھ نکاح کرنے پر اتنی بڑی دعوت ولیمہ فرمائی کہ کسی بیوی کے نکاح پر اتنی بڑی دعوت ولیمہ نہیں کی تھی تمام صحابہ کرام علیھم الرضوان کو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے نان گوشت کھلایا۔"
(شرح العلامۃ الزرقانی،حضرت زینب بنت جحش ام المؤمنین رضی اللہ عنہا،ج۴،ص۴۰۹۔۴۱۲)
حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی مقدس بیبیوں میں حضرت زینب بنت جحش رضی اﷲ تعالیٰ عنہا اس خصوصیت میں سب بیبیوں سے ممتاز ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کا نکاح خود اپنے حبیب سے کردیا ان کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ اپنے ہاتھ سے کچھ دستکاری کر کے اس کی آمدنی فقراء و مساکین کو دیا کرتی تھیں چنانچہ ایک مرتبہ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا تھا کہ میری وفات کے بعد سب سے پہلے میری اس بی بی کی وفات ہوگی جس کے ہاتھ سب بیبیوں سے لمبے ہیں یہ سن کر سب بیبیوں نے ایک لکڑی سے اپنا اپنا ہاتھ ناپا تو حضرت سودہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا ہاتھ سب سے لمبا نکلا لیکن جب حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی وفات اقدس کے بعد سب سے پہلے حضرت زینب بنت جحش رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی وفات ہوئی
تولوگوں کی سمجھ میں یہ بات آئی کہ ہاتھ لمبا ہونے سے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی مراد کثرت سے صدقہ دینا تھا بہر حال اپنی قسم قسم کی صفات حمیدہ کی بدولت یہ تمام ازواج مطہرات میں خصوصی امتیاز کے ساتھ ممتاز تھیں ۲۰ھ یا ۲۱ھ میں مدینہ منورہ کے اندر ان کی وفات ہوئی اور امیر المومنین حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ہر کوچہ و بازار میں اعلان کرا دیا تھا کہ سب لوگ ام المومنین کے جنازہ میں شریک ہوں چنانچہ بہت بڑا مجمع ہوا امیر المومنین نے خود ہی ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور ان کو جنت البقیع میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی دوسری بیویوں کے پہلو میں دفن کیا۔
(شرح العلامۃ الزرقانی،حضرت زینب بنت جحش ام المؤمنین رضی اللہ عنہا،ج۴،ص۴۱۳۔۴۱۵)
تبصرہ:۔حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات سے کس قدر والہانہ محبت اور عشق تھا کہ انہوں نے اپنے نکاح کی خبر سن کر اپنا سارا زیور خوشخبری سنانے والی لونڈی کو دے دیا اور سجدہ شکر ادا کیا اور خوشی میں دو ماہ لگاتار روزہ دار رہیں پھر ذرا ان کی سخاوت پر بھی ایک نظر ڈالو کہ شہنشاہ دارین کی ملکہ ہو کر اپنے ہاتھ کی دستکاری سے جو کچھ کمایا کرتی تھیں وہ فقراء ومساکین کو دے دیا کرتی تھیں اور صرف اسی لئے محنت و مشقت کرتی تھیں کہ فقیروں اور محتاجوں کی امداد کریں اﷲ اکبر محبت رسول صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم اور مسکین نوازی و غریب پروری کے یہ جذبات تمام مسلمان عورتوں کے لئے نصیحت آموز و قابل تقلید شاہکار ہیں خداوند کریم سب عورتوں کو توفیق عطا فرمائے (آمین)
یہ بچپن ہی سے بہت سخی تھیں غریبوں اور مسکینوں کو ڈھونڈ ڈھونڈکر کھانا کھلایا کرتی تھیں اس لئے لوگ ان کو ''ام المساکین'' (مسکینوں کی ماں) کہا کرتے تھے پہلے مشہور
صحابی حضرت عبداﷲ بن جحش رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ان کا نکاح ہوا تھا لیکن جب وہ جنگ احد میں شہید ہوگئے تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ۳ھ میں ان سے نکاح کر لیا اور یہ ''ام المساکین'' کی جگہ ''ام المومنین'' کہلانے لگیں مگر یہ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم سے نکاح کے بعد صرف دو یا تین مہینے زندہ رہیں اور ربیع الاول ۴ھ میں بمقام مدینہ منورہ وفات پاگئیں اور جنت البقیع میں ازواج مطہرات کے پہلو میں مدفون ہوئیں حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّمان کی وفات تک ان سے بے حد خوش رہے اور ان کی وفات کا قلب نازک پر بڑا صدمہ گزرا یہ ماں کی جانب سے حضرت ام المومنین بی بی میمونہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی بہن ہیں ان کی وفات کے بعد حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ان کی بہن میمونہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے نکاح فرمایا۔
(شرح العلامۃ الزرقانی،حضرت زینب ام المساکین و المؤمنین ،ج۴،ص۴۱۶۔۴۱۷)
ان کے والد کا نام حارث بن حزن اور والدہ ہند بنت عوف ہیں پہلے ان کانام ''برہ'' تھا مگر جب یہ حضور علیہ الصلوۃ و السلام کے نکاح میں آگئیں تو حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ان کانام میمونہ (برکت والی) رکھ دیا ۷ھ عمرۃ القضاء کی واپسی میں حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ان سے نکاح فرمایا اور مقام ''سرف'' میں یہ پہلی مرتبہ بستر نبوت پر سوئیں۔ کل چھہتر حدیثیں ان سے مروی ہیں ان کے انتقال کے سال میں اختلاف ہے بعض نے ۵۱ھ بعض نے ۶۱ھ لکھا لیکن ابن اسحقٰ کا قول ہے کہ ۶۳ھ میں ان کی وفات مقام ''سرف'' میں ہوئی جب ان کا جنازہ اٹھایا گیا تو ان کے بھانجے حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما نے بلند آواز سے فرمایا کہ اے لوگو! یہ رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی بیوی ہیں جنازہ
بہت آہستہ آہستہ لے کر چلو اور ان کی مقدس لاش کو ہلنے نہ دو حضرت یزید بن اصم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ہم لوگوں نے حضرت میمونہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو مقام سرف میں اسی چھپر کے اندر دفن کیا جس میں پہلی بار ان کو حضور سید عالم صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے اپنی قربت سے سرفراز فرمایا تھا
(شرح العلامۃ الزرقانی،حضرت میمونہ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا،ج۴،ص۴۱۸۔۴۲۳)
تبصرہ:۔ان کو رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم سے انتہائی محبت بلکہ عشق تھا انہوں نے خود حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم سے نکاح کی تمنا ظاہرکی تھی بلکہ یہ کہا تھا کہ میں اپنی جان رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کوہبہ کرتی ہوں اور مجھے مہرلینے کی بھی کوئی خواہش نہیں ہے چنانچہ قرآن مجید میں ایک آیت بھی اس کے بارے میں نازل ہوئی ہے ماں بہنو! دیکھ لو حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی مقدس بیبیوں کو حضور سے کیسی والہانہ محبت تھی سبحان اﷲعزوجل! سبحان اﷲعزوجل! کیا کہنا؟ ان امت کی ماؤں کے ایمان کی نورانیت کا ۔
یہ قبیلہ بنی مُصْطَلَقْ کے سردار اعظم حارث بن ضرار کی بیٹی ہیں غزوہ '' مُرَیْسَیَع'' میں ان کا سارا قبیلہ گرفتار ہو کر مسلمانوں کے ہاتھوں میں قیدی بن چکا تھا اور سب مسلمانوں کے لونڈی غلام بن چکے تھے مگر رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے جب حضرت جویریہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو آزاد کر کے ان سے نکاح فرمالیا تو حضرت جویریہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی شادمانی و مسرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب اسلامی لشکر میں یہ خبر پھیلی کہ رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے حضرت جویریہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے نکاح فرمالیا اس خاندان کا کوئی فرد لونڈی غلام نہیں رہ سکتا چنانچہ اس خاندان کے جتنے لونڈی غلام مسلمانوں کے قبضہ میں تھے سب
کے سب آزاد کر دیئے گئے یہی وجہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا فرمایا کرتی تھیں کہ دنیا میں کسی عورت کا نکاح حضرت جویریہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے نکاح سے زیادہ مبارک نہیں ثابت ہوا کیونکہ اس نکاح کی وجہ سے تمام خاندان بنی مصطلق کو غلامی سے نجات مل گئی حضرت جویریہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے میرے قبیلے میں آنے سے پہلے میں نے یہ خواب دیکھا تھا کہ مدینہ کی جانب سے ایک چاند چلتا ہوا آیا اور میری گود میں گر پڑا میں نے خواب کا ذکر نہیں کیا لیکن جب حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے مجھ سے نکاح فرمالیا تو میں نے سمجھ لیا کہ یہی میرے اس خواب کی تعبیر ہے ان کا اصلی نام ''برہ'' تھا مگر حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ان کا نام ''جویریہ'' رکھ دیا ان کے دو بھائی عمرو بن حارث و عبداﷲبن حارث اور ان کی ایک بہن عمرہ بنت حارث نے بھی اسلام قبول کر کے صحابی کا شرف پایا حضرت جویریہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا بڑی عبادت گزار اور دین دار تھیں نماز فجر سے نماز چاشت تک ہمیشہ اپنے وظیفوں میں مشغول رہا کرتی تھیں ۵۰ھ میں پینسٹھ برس کی عمر پاکر وفات پائی حاکم مدینہ مروان نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور یہ جنت البقیع میں سپرد خاک کی گئیں ۔
(شرح العلامۃ الزرقانی،حضرت جویریۃ رضی اللہ عنہا،ج۴،ص۴۲۴۔۴۲۸)
تبصرہ:۔ان کا زندگی بھر کا یہ عمل کہ نماز فجر سے نماز چاشت تک ہمیشہ لگاتار ذکر الہٰی اور وظیفوں میں مشغول رہنا یہ ان عورتوں کے لئے تازیانہ عبرت ہے جو نماز چاشت تک سوتی رہتی ہیں اﷲاکبر! نبي صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی بیبیاں تو اتنی عبادت گزار اور دین دار اور امتیوں کا یہ حال زار کہ نوافل کا تو پوچھنا ہی کیا؟ فرائض سے بھی بیزار بلکہ الٹے دن رات طرح طرح کے گناہوں کے آزار میں گرفتار الٰہی عزوجل توبہ! الٰہی عزوجل تیری پناہ۔
یہ خیبر کے سردار اعظم ''حَیْ بن اخطب'' کی بیٹی اور قبیلہ بنو نضیر کی رئیس اعظم ''کنانہ بن الحقیق'' کی بیوی تھیں جو ''جنگ خیبر'' میں مسلمانوں کے ہاتھوں سے قتل ہوا یہ خیبر کے قیدیوں میں گرفتار ہو کر آئیں رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ان کی خاندانی عزت و و جاہت کا خیال فرما کر اپنی ازواج مطہرات اور امت کی ماؤں میں شامل فرمالیا جنگ خیبر سے واپسی میں تین دنوں تک منزل صہبا میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ان کو اپنے خیمہ کے اندر اپنی قربت سے سرفراز فرمایا اور ان کے ولیمہ میں کھجور' گھی' پنیر کا ملیدہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے صحابہ کرام کو کھلایا حضور اکرم صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم ان کا بہت زیادہ خیال رکھتے تھے ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے ان کو ''پستہ قد'' کہہ دیا تو حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو اس قدر غصہ میں بھرکر ڈانٹا کہ کبھی بھی ان کو اتنا نہیں ڈانٹا تھا اسی طرح ایک مرتبہ حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے ان کو ''یہودیہ'' کہہ دیا تو یہ سن کر رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا پر اس قدر خفا ہوگئے کہ دو تین ماہ تک ان کے بستر پر قدم نہیں رکھا یہ بہت ہی عبادت گزار اور دین دار ہونے کے ساتھ ساتھ حدیث و فقہ سیکھنے کا بھی جذبہ رکھتی تھیں چنانچہ دس حدیثیں بھی ان سے مروی ہیں ان کی وفات کے سال میں اختلاف ہے واقدی نے ۵۰ھ اور ابن سعد نے ۵۲ھ لکھا ہے یہ بھی مدینہ کے مشہور قبرستان جنت البقیع میں مدفون ہیں۔
(شرح العلامۃ الزرقانی،حضرت صفیہ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا،ج۴، ص۴۲۸۔۴۳۱/مدارج النبوۃ،ام المؤمنین صفیۃ،ج۲،ص۴۸۳)
تبصرہ:۔حضور اکرم صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ان سے محض اس بنا پر خود نکاح فرما لیا
"تاکہ ان کے خاندانی اعزاز واکرام میں کوئی کمی نہ ہونے پائے تم غور سے دیکھو گے تو حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے زیادہ تر جن جن عورتوں سے نکاح فرمایا وہ کسی نہ کسی دینی مصلحت ہی کی بنا پر ہوا کچھ عورتوں کی بے کسی پر رحم فرما کر اور کچھ عورتوں کے خاندانی اعزاز و اکرام کو بچانے کے لئے کچھ عورتوں سے اس بنا پر نکاح فرمالیا کہ وہ رنج و غم کے صدموں سے نڈھال تھیں لہٰذا حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ان کے زخمی دلوں پر مرہم رکھنے کے لئے ان کو اعزاز بخش دیا کہ اپنی ازواج مطہرات میں ان کو شامل کر لیا۔
حضور علیہ الصلوۃ السلام کا اتنی عورتوں سے نکاح فرمانا ہر گز ہرگز اپنی خواہش نفسانی کی بنا پر نہیں تھا اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی بیبیوں میں حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے سوا کوئی بھی کنواری نہیں تھیں بلکہ سب عمردراز اور بیوہ تھیں حالانکہ اگر حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم خواہش فرماتے تو کون سی ایسی کنواری لڑکی تھی جو حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم سے نکاح کرنے کی تمنا نہ کرتی مگر دربار نبوت کا تو یہ معاملہ ہے کہ شہنشاہ دو عالم صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا کوئی قول فعل کوئی اشارہ بھی ایسا نہیں ہوا جو دنیا اور دین کی بھلائی کے لئے نہ ہو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے جو کہا اور جو کیا سب دین ہی کے لئے کیا بلکہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے جو کیا اور کہا وہی دین ہے بلکہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی ذات اکرم ہی مجسم دین ہے۔"
اللھم صل وسلم و بارک علی سیدنامحمد و الہ وصحبہ اجمعین
یہ حضور اکر م شہنشاہ کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی وہ گیارہ ازواج مطہرات ہیں جن پر تمام مورخین کا اتفاق ہے ان کا مختصر تذکرہ تم نے پڑھ لیا اگر مفصل حال پڑھنا ہو تو ہماری کتاب ''سیرت المصطفیٰ'' پڑھو۔
اب ہم حضور سلطان دو عالم صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم كي ان چار شہزادیوں کا مختصر تذکرہ لکھتے ہیں جو صالحات اور نیک بیبیوں کی لڑی میں آبدار موتیوں کی طرح چمک رہی ہیں۔
" یہ رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی سب سے بڑی شہزادی ہیں جو اعلان نبوت سے دس سال قبل مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں یہ ابتدا ئے اسلام ہی میں مسلمان ہوگئی تھیں اور جنگ بدر کے بعد حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ان کو مکہ سے مدینہ بلالیا تھا مکہ میں کافروں نے ان پر جو ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ان کا تو پوچھنا ہی کیا حد ہوگئی کہ جب یہ ہجرت کے ارادے سے اونٹ پر سوار ہو کر مکہ سے باہر نکلیں تو کافروں نے ان کا راستہ روک لیا اور ایک بدنصیب کافر جو بڑا ہی ظالم تھا ''ہباربن الاسود'' اس نے نیزہ مار کر ان کو اونٹ سے زمین پر گرا دیا جس کے صدمہ سے ان کا حمل ساقط ہوگیا یہ دیکھ کر ان کے دیور ''کنانہ'' کو جو اگرچہ کافر تھا ایک دم طیش آگیا اور اس نے جنگ کے لئے تیر کمان اٹھا لیا یہ ماجرا دیکھ کر ''ابوسفیان'' نے درمیان میں پڑ کر راستہ صاف کرا دیا اور یہ مدینہ منورہ پہنچ گئیں۔
حضور اکرم صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے قلب کو اس واقعہ سے بڑی چوٹ لگی چنانچہ آپ نے ان کے فضائل میں یہ ارشاد فرمایا کہ۔"
ھِیَ اَفْضَلُ بَنَاتِیْ اُصِیْبَتْ فِیَّO
" یہ میری بیٹیوں میں اس اعتبار سے بہت فضیلت والی ہے کہ میری طرف ہجرت کرنے میں اتنی بڑی مصیبت اٹھائی۔
پھر ان کے بعد ان کے شوہر حضرت ابو العاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی مکہ سے ہجرت کر"
کے مدینہ آگئے اور دونوں ایک ساتھ رہنے لگے ان کی اولاد میں ایک لڑکا جن کا نام ''علی'' تھا اور ایک لڑکی جن کا نام ''امامہ'' تھا زندہ رہے ابن عسا کر کا قول ہے کہ ''علی'' ''جنگ یرموک'' میں شہید ہوگئے حضرت امامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو بے حد محبت تھی بادشاہ حبشہ نے تحفہ میں ایک جوڑا اور ایک قیمتی انگوٹھی دربار نبوت میں بھیجی تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے یہ انگوٹھی حضرت امامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو عطا فرمائی اس طرح کسی نے ایک مرتبہ بہت ہی بیش قیمت اور انتہائی خوبصورت ایک ہار نذر کیا تو سب بیبیاں یہ سمجھتی تھیں کہ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم یہ ہار حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے گلے میں ڈالیں گے مگر آپ نے یہ فرمایا کہ میں یہ ہار اس کو پہناؤں گا جو میرے گھر والوں میں مجھ کو سب سے زیادہ پیاری ہے یہ فرما کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے یہ قیمتی ہار اپنی نواسی حضرت امامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے گلے میں ڈال دیا ۸ھ میں حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا انتقال ہوگیا اور حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے تبرک کے طور پر اپنا تہبند شریف ان کے کفن میں دے دیا اور نماز جنازہ پڑھا کر خود اپنے مبارک ہاتھوں سے ان کو قبر میں اتارا ان کی قبر شریف بھی جنت البقیع مدینہ منورہ میں ہے۔
(شرح العلامۃ الزرقانی،الفصل الثانی فی ذکر اولادہ الکرام علیہ وعلیہم الصلوۃ والسلام،ج۴،ص۳۱۸۔۳۲۱)
تبصرہ:۔ حضور نبی اکرم صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی صاحبزادی کو اسلام لانے کی بنا پر کافروں نے جس قدر ستایا اور دکھ دیا اس سے مسلمان بیبیوں کو سبق لینا چاہے کہ کافروں اور ظالموں کے ظلم پر صبر کرنا ہمارے رسول صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم اور رسول صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے گھر والوں کی سنت ہے اور خدا کی راہ میں دین کے لئے تکلیف اٹھانا اور برداشت کرنا بہت بڑے اجرو ثواب کا کام ہے۔
" اعلان نبوت سے سات برس قبل جب کہ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی عمر شریف کا تینتیسواں سال تھا یہ مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں پہلے ان کا نکاح ابولہب کے بیٹے ''عتبہ'' سے ہوا تھا مگر ابھی رخصتی بھی نہیں ہوئی تھی کہ ''سورۂ تبت یدا'' نازل ہوئی اس غصہ میں ابو لہب کے بیٹے عتبہ نے حضرت رقیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو طلاق دے دی اس کے بعد حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ان کا نکاح کر دیا اور ان دونوں میاں بیوی نے حبشہ کی طرف پھر مدینہ کی طرف ہجرت کی اور دونوں صاحب الہجرتین (دو ہجرتوں والے) کے معزز لقب سے سرفراز ہوئے۔
جنگ بدر کے دنوں میں حضرت رقیہ زیادہ بیمار تھیں چنانچہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو ان کی تیمارداری کے لئے مدینہ میں رہنے کا حکم دے دیا اور جنگ بدر میں جانے سے روک دیا حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جس دن جنگ بدر میں فتح مبین کی خوشخبری لے کر مدینہ پہنچے اسی دن بی بی رقیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے بیس برس کی عمر پاکر مدینہ میں انتقال کیا حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم جنگ بدر کی وجہ سے ان کے جنازہ میں شریک نہ ہوسکے حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اگرچہ جنگ بدر میں شریک نہیں ہوئے مگر حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ان کو جنگ بدر کے مجاہدین میں شمار فرمایا اور مجاہدین کے برابر مال غنیمت میں سے حصہ بھی عطا فرمایا حضرت بی بی رقیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے شکم مبارک سے ایک فرزند پیدا ہوئے تھے جن کا نام ''عبداﷲ'' تھا مگر وہ اپنی والدہ کی وفات کے بعد ۴ھ میں وفات پا گئے بی بی رقیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی قبر بھی جنت البقیع میں ہے ۔"
(شرح العلامۃ الزرقانی،الفصل الثانی فی ذکر اولادہ الکرام علیہ وعلیہم الصلوۃ والسلام،ج۴،ص۳۲۲۔۳۲۳)
" یہ بھی پہلے ابو لہب کے دوسرے بیٹے ''عتیبہ'' سے بیاہی گئی تھیں مگر ''سورۂ تبت یدا'' میں ابو لہب کی برائی سن کر ''عتیبہ'' اس قدر طیش میں آگیا کہ اس نے گستاخی کرتے ہوئے حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم پر جھپٹ کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم كے پیراہن شریف کو پھاڑ ڈالا اور حضرت ام کلثوم رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو طلاق دے دی حضور رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے قلب نازک پر اس گستاخی اور بے ادبی سے انتہائی صدمہ گزرا اور جوش غم سے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی زبان مبارک سے بے اختیار یہ الفاظ نکل گئے کہ۔
''یااﷲعزوجل! اپنے کتوں میں سے کسی کتے کو اس پر مسلط فرمادے''۔
اس دعائے نبوی کا یہ اثر ہوا کہ ملک شام کے راستہ میں یہ قافلہ کے بیچ میں سویا تھا اور ابو لہب قافلہ والوں کے ساتھ پہرہ دے رہا تھا مگر اچانک ایک شیر آیا اور عتیبہ کے سر کو چبا گیا اور وہ مرگیا حضرت بی بی رقیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی وفات کے بعد حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ۳ھ میں حضرت ام کلثوم رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا نکاح حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ساتھ کر دیا مگر ان کے شکم مبارک سے کوئی اولاد نہیں ہوئی ۹ھ میں حضرت ام کلثوم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی وفات ہوئی حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور مدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع میں ان کو دفن فرمایا۔"
(شرح العلامۃ الزرقانی،الفصل الثانی فی ذکر اولادہ الکرام علیہ وعلیہم الصلوۃ والسلام،ج۴،ص۳۲۵۔۳۲۷)
یہ حضورشہنشاہ کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی سب سے چھوٹی مگر سب سے زیادہ چہیتی اور لاڈلی شہزادی ہیں ان کا نام فاطمہ اور لقب زہرا و بتول ہے اﷲاکبر! ان کے فضائل
اور مناقب اور ان کے درجات و مراتب کا کیا کہنا حدیثوں میں بکثرت ان کے فضائل اور بزرگیوں کا ذکر ہے جن کو مفصل ہم نے اپنی کتاب ''حقانی تقریریں'' میں لکھا ہے ۲ھ میں حضرت علی شیر خدا رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ان کا نکاح ہوا اور ان کے شکم مبارک سے تین صاحبزادگان حضرت امام حسن و حضرت امام حسین و حضرت محسن اور تین صاحبزادیاں زینب ام کلثوم و رقیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم و عنہن پیدا ہوئیں حضرت محسن و رقیہ تو بچپن ہی میں وفات پا گئے حضرت ام کلثوم کی شادی امیر المومنین حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ہوئی جن کے شکم مبارک سے ایک فرزند حضرت زید اور ایک صاحبزادی حضرت رقیہ کی پیدائش ہوئی اور حضرت زینب کی شادی حضرت عبد اﷲ بن جعفر رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے ہوئی جن کے فرزند عون و محمد کربلا میں شہید ہوئے حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے وصال کے چھ مہینے بعد ۳رمضان ۱۱ھ منگل کی رات میں آپ کی وفات ہوئی اور جنت البقیع میں مدفون ہوئیں ۔
(شرح العلامۃ الزرقانی،الفصل الثانی فی ذکر اولادہ الکرام علیہ وعلیہم الصلوۃ والسلام، ج۴،ص۳۳۱،۳۳۳،۳۳۹۔۳۴۲)
یہ ہمارے رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی پھوپھی اور جنتی صحابی حضرت زبیر بن العوام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی والدہ ہیں یہ بہت شیر دل اور بہادر خاتون ہیں جنگ خندق کے موقع پر تمام مجاہدین اسلام کفار کے مقابلہ میں صف بندی کر کے کھڑے تھے اور ایک محفوظ مقام پر سب عورتوں بچوں کو ایک پرانے قلعہ میں جمع کر دیا گیا تھا اچانک ایک یہودی تلوار لے کر قلعہ کی دیوار پھاندتے ہوئے عورتوں کی طرف بڑھا اس موقع پر حضرت صفیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا اکیلی اس یہودی پر جھپٹ کر پہنچیں اور خیمہ کی ایک چوب اکھاڑ کر اس زور سے اس
یہودی کے سر پر ماری کہ اس کا سر پھٹ گیا اور وہ تلوار لئے ہوئے چکرا کر گرا اور مرگیا پھر اسی کی تلوار سے اس کا سر کاٹ کر باہر پھینک دیا یہ دیکھ کر جتنے یہودی عورتوں پر حملہ کرنے کے لئے قلعہ کے باہر کھڑے تھے بھاگ نکلے اسی طرح جنگ احد میں جب مسلمانوں کا لشکر بکھر گیا یہ اکیلی کفار پر نیزہ چلاتی رہیں یہاں تک کہ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو ان کی بے پناہ بہادری پر سخت تعجب ہوا اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ان کے فرزند حضرت زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ اے زبیررضی اﷲ تعالیٰ عنہ! اپنی ماں اور میری پھوپھی کی بہادری تو دیکھو کہ بڑے بڑے بہادر بھاگ گئے مگر چٹان کی طرح کفار کے نرغے میں ڈٹی ہوئی اکیلی لڑ رہی ہیں اسی طرح جب جنگ احد میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے چچا حضرت سید الشہداء حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ شہید ہوگئے اور کافروں نے ان کے کان ناک کاٹ کر اور آنکھیں نکال کر شکم چاک کر دیا تو حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے حضرت زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو منع کردیا کہ میری پھوپھی حضرت صفیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو میرے چچا کی لاش پر مت آنے دینا ورنہ وہ اپنے بھائی کی لاش کا یہ حال دیکھ کر رنج و غم میں ڈوب جائیں گی مگر حضرت صفیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا پھر بھی لاش کے پاس پہنچ گئیں اور حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم سے اجازت لے کر لاش کو دیکھا تو اناﷲ وانا الیہ راجعون پڑھا اور کہا کہ میں خدا کی راہ میں اس کو کوئی بڑی قربانی نہیں سمجھتی پھر مغفرت کی دعا مانگتے ہوئے وہاں سے چلی آئیں ۲۰ھ میں تہتر برس کی عمر پاکر مدینہ میں وفات پائی اور جنت البقیع میں مدفون ہوئیں۔
(شرح العلامۃ الزرقانی،ذکر بعض مناقب العباس،ج۴،ص۴۹۰)
مدینہ کی ایک عورت جو انصار کے قبیلہ کی تھیں ان کو یہ غلط خبر پہنچی کہ رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم جنگ احد میں شہید ہوگئے ہیں تو یہ بے قرار ہو کر گھر سے نکل پڑیں اور
میدان جنگ میں پہنچ گئیں وہاں لوگوں نے ان کو بتایا کہ اے عورت! تیرے باپ اور بھائی اور شوہر تینوں اس جنگ میں شہید ہو گئے یہ سن کر اس نے کہا کہ مجھے یہ بتاؤ میرے پیارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا کیا حال ہے؟ جب لوگوں نے بتایا کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم اگرچہ زخمی ہوگئے ہیں مگر الحمد ﷲ کہ زندہ سلامت ہیں
(السیرۃ النبویۃ لابن ھشام،غزوۂ احد،باب شأن المرأۃ الدیناریۃ،ج۳،ص۸۶)
تو بے اختیار اس کی زبان سے اس شعر کا مضمون نکل پڑا کہ۔
"تسلی ہے پناہ بیکساں زندہ سلامت ہے
کوئی پروا نہیں سارا جہاں زندہ سلامت ہے"
اﷲاکبر! ایسی شیر دل اور بہادر عورت کا کیا کہنا؟ باپ اور شوہر اور بھائی تینوں کے قتل ہوجانے سے صدمات کے تین تین پہاڑ دل پر گر پڑے ہیں مگر محبت رسول صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم كے نشہ میں اس کی مستی کا یہ عالم ہے کہ زبانِ حال سے یہ نعرہ اس کی زبان پر جاری ہے کہ۔
"میں بھی اور باپ بھی شوہر بھی برادر بھی فدا
اے شہ ديں تیرے ہوتے ہوئے کیا چیز ہیں ہم"
یہ جنگ احد میں اپنے شوہر حضرت زید بن عاصم اور اپنے دوبیٹوں حضر ت عمارہ اور حضرت عبداﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کو ساتھ لے کر میدان جنگ میں کود پڑیں اور جب کفار نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم پر حملہ کر دیا تو یہ ایک خنجر لے کر کفار کے مقابلہ میں کھڑی ہوگئیں اور کفار کے تیر و تلوار کے ہر ایک وار کو روکتی رہیں یہاں تک کہ جب ابن قمیہ ملعون نے رحمت عالم صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم پر تلوار چلا دی تو سیدہ ام عمارہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے اس تلور کو
اپنی پیٹھ پر روک لیا چنانچہ ان کے کندھے پر اتنا گہرا زخم لگا کہ غار پڑ گیا پھر خود بڑھ کر ابن قمیہ کے کندھے پر اس زور سے تلوار ماری کہ وہ دو ٹکڑے ہو جاتا مگر وہ ملعون دوہری زرہ پہنے ہوئے تھا اس لئے بچ گیا اس جنگ میں بی بی ام عمارہ کے سرو گردن پر تیرہ زخم لگے تھے حضرت بی بی ام عمارہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے فرزندحضرت عبداﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ مجھے ایک کافر نے جنگ احد میں زخمی کردیا اور میرے زخم سے خون بند نہیں ہوتا تھا میری والدہ حضرت ام عمارہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے فوراً اپنا کپڑا پھاڑ کر زخم کو باندھ دیا اور کہا کہ بیٹا اٹھو کھڑے ہو جاؤ اور پھر جہاد میں مشغول ہو جاؤ اتفاق سے وہی کافر سامنے آگیا تو حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ اے ام عمارہ رضی اﷲ عنہا! دیکھ تیرے بیٹے کو زخمی کرنے والا یہ ہے یہ سنتے ہی حضرت ام عمارہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے جھپٹ کر اس کافر کی ٹانگ میں تلوار کا ایسا بھر پور وار مارا کہ وہ کافر گر پڑا اور پھر چل نہ سکا بلکہ سرین کے بل گھسٹتا ہوا بھاگا یہ منظر دیکھ کر رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم ہنس پڑے اور فرمایا کہ اے ام عمارہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا! تو خدا کا شکر ادا کر کہ اس نے تجھ کو اتنی طاقت اور ہمت عطا فرمائی ہے تو نے خدا کی راہ میں جہاد کیا حضرت ام عمارہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے کہا کہ یا رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم! آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم دعا فرمائیے کہ اﷲ تعالیٰ ہم لوگوں کو جنت میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی خدمت گزاری کا شرف عطا فرمائے اس وقت آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ان کے لیے اور ان کے شوہر اور ان کے بیٹوں کے لیے اس طرح دعا فرمائی کہ۔
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْھُمْ رُفَقَائِیْ فِی الْجنَّۃِ۔
" یااﷲعزوجل! ان سب کو جنت میں میرا رفیق بنا دے۔
حضرت بی بی ام عمارہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا زندگی بھر علانیہ یہ کہتی رہیں کہ رسول اﷲصلی"
اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی اس دعا کے بعد دنیا میں بڑی سے بڑی مصیبت بھی مجھ پرآجائے تو مجھ کو اس کی کوئی پروا نہیں ہے۔
(مدارج النبوت،ج۲،ص۱۲۶)
تبصرہ:۔حضرت بی بی صفیہ اور انصاریہ عورت اور حضرت بی بی ام عمارہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہن کے تینوں واقعات کو پڑھ کر غور کرو کہ مادر اسلام کی آغوش میں کیسی کیسی شیر دل اور بہادر عورتوں نے جنم لیا ہے ان بہادر خواتین اسلام کے کارناموں کو گردش لیل و نہار قیامت تک کبھی نہیں مٹا سکتی ان کے سینوں میں پتھر کی چٹانوں سے زیادہ مضبوط دل تھا جس میں اسلام کی حرارت کا جوش اور محبت رسول صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی ایسی مستی بھری ہوئی تھی کہ کفار کے لشکروں کا دل بادل ان کی نظروں میں مکھیوں اور مچھروں کا جھنڈ نظر آتا تھا اور ان کے دلوں میں صبرو استقامت کا ایسا سمندر لہریں مار رہا تھا کہ اس کے طوفان میں بڑی بڑی مصیبتوں کے پہاڑ پاش پاش ہو جایا کرتے تھے مگر افسوس! آج کل کی مسلمان عورتوں کے دلوں میں محبت رسول صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا چراغ اس طرح بجھ گیا ہے کہ اسلام کا جوش ایمان کا جذبہ محبت رسول صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم كی مستی جہاد کا نشہ سب کچھ غارت ہوگیا اور دنیا کی محبت اور زندگی کی ہوس نے بدن کے رونگٹے رونگٹے میں خوف و ہراس اور بزدلی کی ایسی آندھی چلا دی ہے کہ کفار کے مقابلہ میں ہر مسلمان عورت رونے اور گڑ گڑانے کے سوا کچھ کر ہی نہیں سکتی اے مسلمان عورتو! تم ان جاں باز اور سر فروش جہاد کرنے والی عورتوں کے جذبہ ایمانی اور جوش اسلامی سے سبق سیکھو تم بھی مسلمان عورت ہو اگر کفار کا مقابلہ ہو تو اپنی جان پر کھیل کر اور سر ہتھیلی پر رکھ کر کفار سے لڑتے ہوئے جام شہادت پی لو اور جنت الفردوس میں پہنچ جاؤ خبردار خبردار! کفار کے آگے روتے گڑ گڑاتے ہوئے اور رحم کی بھیک مانگتے ہوئے بزدلی کی موت ہرگز نہ مرو اور یاد رکھو کہ وقت سے پہلے ہرگز موت نہیں آسکتی
لہٰذا ڈر خوف و ہراس اور بزدلی سے موت نہیں ٹل سکتی اس لئے بہادر بنو شیر دل بنو اور بی بی صفیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا اور بی بی ام عمارہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا اور بی بی انصاریہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی مجاہدانہ سرفروشیوں کا کردار پیش کرو۔
یہ حضرت عمار بن یاسر صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کی والدہ ہیں اسلام لانے کی وجہ سے مکہ کے کافروں نے ان کو بہت زیادہ ستایا ایک مرتبہ ابو جہل نے نیزہ تان کر ان سے دھمکا کر کہا کہ تو کلمہ نہ پڑھ ورنہ میں تجھے یہ نیزہ مار دوں گا حضرت بی بی سمیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے سینہ تان کر زور زور سے کلمہ پڑھنا شروع کیا ابو جہل نے غصہ میں بھر کر ان کی ناف کے نیچے اس زور سے نیزہ مارا کہ وہ خون میں لت پت ہو کر گر پڑیں اور شہید ہوگئیں۔
(الاستیعاب ،کتاب النساء ،باب السین۳۴۲۱،سمیۃ ام عمار بن یاسر،ج۴،ص۴۱۹)
تبصرہ:۔یہ ایک جاں باز مسلمان عورت کا پہلا خون تھا جس سے خدا کی زمین رنگین ہوگئی مگر اس خون کی گرمی نے ہزاروں مسلمان مردوں اور عورتوں میں جوش جہاد کا ایسا جذبہ پیدا کر دیا کہ بدر واُحد اور حنین کا میدان کفار کا قبرستان بن گیا اور مکہ و خیبر میں کفر و شرک کے جنگلات کٹ گئے اور ہر طرف اسلام کا باغ پھلنے پھولنے لگا۔
(۲۰)حضرت بی بی لُبَیْنَہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا
یہ ایک لونڈی تھیں ابتداء اسلام ہی میں اسلام کی حقانیت کا نور انکے دل میں چمک اٹھا اور یہ اسلام کے دامن میں آگئیں کفار مکہ نے ان کو ایسی ایسی درد ناک تکلیفیں دیں کہ اگر پہاڑ بھی ان کی جگہ پر ہوتا تو شاید لرز جاتا مگر اس پیکر ایمان کے قدم نہیں ڈگمگائے خود حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جب تک دامن اسلام میں نہیں آئے تھے اس لونڈی کو
"اتنا مارتے تھے کہ مارتے مارتے خود تھک جاتے تھے مگر حضرت لبینہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا اف نہیں کرتی تھیں بلکہ نہایت ہی جرات واستقلال کے ساتھ کہتی تھیں کہ اے عمر! تم جتنا چاہو مجھ غریب کو مار لو اگر خدا کے سچے رسول صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم پر تم ایمان نہیں لاؤ گے تو خدا ضرور تم سے انتقام لے گا ۔
تبصرہ:۔حضرت لبینہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی اس ایمانی تقریر کی جہانگیری تو دیکھو کہ ابھی حضرت لبینہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے زخم نہیں بھرے تھے کہ اسلام کی حقانیت نے حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو اس طرح دبوچ لیا کہ وہ بے اختیار دامن اسلام میں آگئے اور زندگی بھر اپنے کئے پرپچھتاتے رہے اور حضرت لبینہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا جیسی غریب و مظلوم لونڈیوں کے سامنے شرم سے سر نہیں اٹھا سکتے تھے اور ان کمزوروں اور غریبوں سے معافی مانگا کرتے تھے یہاں تک کہ حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جن کو یہ گرم گرم جلتی ہوئی ریت پر لٹا کر ان کے سینے پر وزنی پتھر رکھا ہوا دیکھ کر حقارت سے ٹھو کر مار کر گزرتے تھے تھوڑے دن نہیں گزرے کہ امیر المومنین ہوتے ہوئے اپنے تخت شاہی پر بیٹھ کر یہ کہا کرتے تھے کہ سیدنا و مولانا بلال یعنی بلال تو ہمارے آقا ہیں اور بلال کی صورت کو کمال ادب اور محبت کے ساتھ دیکھ کر زبان حال سے بھرے مجمعوں میں یہ کہا کرتے تھے کہ۔"
"بدر اچھا ہے فلک پر نہ ہلال اچھا ہے
چشم بینا ہو تو دونوں سے بلال اچھا ہے"
یہ بھی لونڈی تھیں مگر اسلام لانے پر کافروں نے ان کے ساتھ کیسے کیسے ظالمانہ سلوک کئے اس کی تصویر کھینچنے سے قلم کا سینہ شق ہو جاتا ہے اور ہاتھ کانپنے لگتے ہیں لیکن یہ
اﷲ والی بڑی بڑی مار دھاڑ کو برداشت کرتی رہی اور مصیبتیں جھیلتی رہی مگر اسلام سے بال بھر بھی اس کے قدم کبھی بھی نہیں ڈگمگائے یہاں تک کہ وہ دن آگیا کہ اسلام کو ڈھانے والے خود اسلام کے معمار بن گئے اور اسلام کے خون کے پیاسے اپنے خونوں سے اسلام کے باغ کوسینچ سینچ کر سرخرو بننے لگے ۔
(الاصابۃ فی تمییزالصحابۃ، رقم۱۲۱۶۳،اُمّ عبیس،ج۸،ص۴۳۴)
حضرت بی بی نہدیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی طرح یہ بھی لونڈی تھیں اور ان کو بھی کافروں نے بہت ستایا بے حد ظلم و ستم کیا لوہا گرم کر کے ان کے بدن کے نازک حصوں پر داغ لگایا کرتے تھے کبھی پانی میں اس قدر ڈبکیاں دیا کرتے تھے کہ ان کا دم گھٹنے لگتا تھا مار پیٹ کا تو پوچھنا ہی کیا وہ تو ان کافروں کا روزانہ ہی کا محبوب مشغلہ تھا آخر پیارے رسول مصطفٰے صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے یار غار صدیق جاں نثار رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنا خزانہ خالی کر کے ان مظلوموں کو خرید خرید کر آزاد کر دیا تو ان مصیبت کے ماروں کو کچھ آرام ملا۔
(الاصابۃ فی تمییزالصحابۃ، رقم۱۲۱۶۳،اُمّ عبیس،ج۸،ص۴۳۴)
یہ بھی حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے گھرانے کی ایک لونڈی تھیں انہوں نے بھی جب اسلام قبول کر لیا تو سارا گھر ان کی جان کا دشمن ہو گیا اور ان کافروں نے اتنا مارا کہ ان کی آنکھوں کی بینائی جاتی رہی تو کافر ان کو یہ طعنہ دینے لگے کہ تو نے ہمارے دیوتاؤں کو چھوڑ دیا تو تیری آنکھیں پھوٹ گئیں اب کہاں ہے تیرا ایک خدا تو کیوں نہیں اس کو بلاتی کہ وہ تیری آنکھوں کو روشن کر دے یہ طعنہ سن کر وہ نہایت جرأت کے ساتھ کہاکرتی تھیں
میں جس رسول صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم پر ایمان لائی ہوں یقیناً وہ خدا کے سچے رسول صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم ہیں اور میرا ایک خدا اگر چاہے گا تو ضرور میری آنکھیں روشن ہو جائيں گی اورتمہارے سیکڑوں دیوتا میرا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے ایک دن رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے کافروں کا یہ طعنہ سنا تو فرمایا کہ اے زنیرہ! تو صبر کر پھر حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے دعا فرمادی تو ان کی آنکھوں میں ایک دم روشنی آگئی یہ معجزہ دیکھ کر کفار کہنے لگے کہ یہ تو محمد(صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم) کاجادو ہے وہ رسول نہیں ہیں بلکہ وہ تو عرب کے سب سے بڑے جادوگر ہیں (معاذاﷲ)۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ان کو خرید کر آزاد کر دیا ۔
(الاستیعاب،باب النساء ، با ب الزای ۳۳۸۸،زنیرۃ مولاۃ ابی بکر الصدیق،ج۴،ص۴۰۶)
تبصرہ:۔اے مسلمان ماؤں بہنو! تمہیں خدا کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ حضرت لبینہ و حضرت نہدیہ و حضرت ام عبیس و حضرت زنیرہ وغیرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہن کی جاں سوزو دل دوز حکایتوں کو بغور اور بار بار پڑھو اور سوچو کہ ان اﷲ والیوں نے اسلام کیلئے کیسی کیسی مصیبتیں اٹھائیں مگر ایک سیکنڈ کے لئے بھی اسلام سے ان کے قدم نہیں ڈگمگائے ایک تم ہو کہ ذرا کوئی تکلیف پہنچی تو تم گھبرا کر اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھتی ہو اور خدا و رسول صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی شان میں ناشکری کے الفاظ بولنے لگتی ہو اور ذرا کافروں نے دھونس دی تو تم کافروں کی بولیاں بولنے لگتی ہو خدا کے لئے اے مسلمان مرد و اور اے مسلمان عورتو! تم ان اللہ کی مقدس بندیوں کا کردار پیش کرو کہ اپنے ایمان و اسلام پر اتنی مضبوطی کے ساتھ قائم رہو کہ تمہیں دیکھ کر کافروں کی دنیا پکار اٹھے کہ۔
"بنائے آسمان بھی اس ستم پر ڈگمگائے گی
مگر مومن کے قدموں میں کبھی لغزش نہ آئے گی"
یہ وہ مقدس اور خوش نصیب عورت ہیں کہ انہوں نے ہمارے رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو دودھ پلایا ہے جب رسول صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے مکہ فتح ہو جانے کے بعد طائف کے شہر پر جہاد فرمایا اس وقت حضرت بی بی حلیمہ سعدیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا اپنے شوہر اور بیٹے کو لے کر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئیں تو رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ان کے لئے اپنی چادر مبارک کو زمین پر بچھا کر ان کو اس پر بٹھایا اور انعام و اکرام سے بھی نوازا اور یہ سب کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئے۔
(الاستیعاب ،باب النساء،باب الحاء ۳۳۳۶،حلیمۃ السعدیۃ،ج۴،ص۳۷۴)
"حضرت بی بی حلیمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی قبر انور مدینہ منورہ میں جنت البقیع کے اندر ہے۔
تبصرہ:۔۱۹۵۹ء میں جب میں مدینہ طیبہ حاضر ہوا اور جنت البقیع کے مزارات مقدسہ کی زیارتوں کے لئے گیا تو دیکھ کر قلب و دماغ پر رنج و غم اور صدمات کے پہاڑ ٹوٹ پڑے کہ ظالم نجدی وہابیوں نے تمام مزارات کو توڑ پھوڑ کر اور قبوں کو گرا کر پھینک دیا ہے صرف ٹوٹی پھوٹی قبروں پر چند پتھروں کے ٹکڑے پڑے ہوئے ہیں اور صفائی ستھرائی کا بھی کوئی اہتمام نہیں ہے بہر حال سب مقدس قبروں کی زیارت کرتے ہوئے جب میں حضرت بی بی حلیمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی قبر انور کے سامنے کھڑا ہوا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ جنت البقیع کی کسی قبر پر میں نے کوئی گھاس اور سبزہ نہیں دیکھا لیکن حضرت بی بی حلیمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی قبر شریف کو دیکھا کہ بہت ہی ہری اور شاداب گھاسوں سے پوری قبر چھپی ہوئی ہے میں حیرت سے دیر تک اس منظر کو دیکھتا رہا آخر میں نے اپنے گجراتی ساتھیوں سے کہا کہ لوگو! بتاؤ تم لوگوں نے جنت البقیع کی کسی قبر پر بھی گھاس جمی ہوئی دیکھی؟ لوگوں نے کہا کہ ''جی"
نہیں'' میں نے کہا کہ حضرت بی بی حلیمہ کی قبر کو دیکھو کہ کیسی ہری ہری گھاس سے یہ قبر سر سبز و شاداب ہورہی ہے لوگوں نے کہا کہ ''جی ہاں بے شک'' پھر میں نے کہا کہ کیا اس کی کوئی وجہ تم لوگوں کی سمجھ میں آرہی ہے؟ لوگوں نے کہا کہ جی نہیں آپ ہی بتایئے تو میں نے کہہ دیا کہ اس وقت میرے دل میں یہ بات آئی ہے کہ انہوں نے حضور رحمۃ للعالمین صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم كو اپنا دودھ پلا پلا کر سیراب کیا تھا تو رب العلمین نے اپنی رحمت کے پانیوں سے ان کی قبر پر ہری ہری گھاس اگا کر ان کی قبر کو سرسبز و شاداب کر دیا ہے میری یہ تقریر سن کر تمام حاضرین پر ایسی رقت طاری ہوئی کہ سب لوگ چیخ مار مار کر رونے لگے اور میں خود بھی روتے روتے نڈھال ہوگیا پھر میرے محب مخلص سیٹھ الحاج عثمان غنی چھیپہ رنگ والے احمد آبادی نے عطر کی ایک بڑی سی شیشی جس میں سے دو دو تین تین قطرہ وہ ہر قبر پر عطر ڈالتے تھے ایک دم پوری شیشی انہوں نے حضرت بی بی حلیمہ کی قبر پر انڈیل دی اور روتے ہوئے کہا کہ اے دادی حلیمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا ! خدا کی قسم اگر آپ کی قبر احمد آباد میں ہوتی تو میں آپ کی قبر مبارک کو عطر سے دھودیتا پھر بڑی دیر کے بعد ہمارے دلوں کو سکون ہوا اور میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو لگ بھگ پچاس آدمی میرے پیچھے کھڑے تھے اور سب کی آنکھیں آنسوؤں سے تر تھیں (یااﷲعزوجل! پھر دوبارہ یہ موقع نصیب فرما آمین یارب العٰلمین)
جب ہمارے پیارے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم حضرت بی بی حلیمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے گھر سے مکہ مکرمہ پہنچ گئے اور اپنی والدہ محترمہ کے پاس رہنے لگے تو حضرت ام ایمن رضی اﷲ تعالیٰ عنہا جو آپ کے والد ماجد کی باندی تھیں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی خاطر داری و خدمت گزاری میں دن رات جی جان سے مصروف رہنے لگیں یہی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ
وسلّم کو کھانا کھلاتی تھیں'کپڑے پہناتی تھیں' کپڑے دھوتی تھیں جب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم بڑے ہوئے تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے اپنے آزاد کردہ غلام اور منہ بولے بیٹے حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ان کا نکاح کر دیا جن سے حضرت اسامہ بن زید پیدا ہوئے(رضی اﷲ تعالیٰ عنہم) حضرت بی بی ام ایمن رضی اﷲ تعالیٰ عنہا حضور علیہ الصلوۃ و السلام کے بعد کافی دنوں تک مدینہ میں زندہ رہیں اور حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہما اپنی اپنی خلافتوں کے دوران حضرت بی بی ام ایمن رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی زیارت و ملاقات کے لئے تشریف لے جایا کرتے تھے اور ان کی خبر گیری فرماتے تھے ۔
(الاستیعاب ،کتاب کنی النساء،باب الألف،رقم۳۵۵۷،ام أیمن خادمۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم،ج۴،ص۴۷۸)
تبصرہ:۔ماں بہنو! غور کرو کہ امیر المومنین ہوتے ہوئے اپنی جلالت شان کے باوجود حضرت ابو بکر صدیق و حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہما ایک بڑھیا عورت کی زیارت کے لئے ان کے گھر جایا کرتے تھے ایسا کیوں؟ اور کس لئے تھا؟ صرف اس لئے کہ حضرت ام ایمن رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم سے یہ تعلق تھا کہ انہوں نے بچپن میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی خاطرداری اور خدمت گزاری کا شرف پایا تھا حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کے اس عمل سے ثابت یہ ہوا کہ جن جن ہستیوں کو بلکہ جن جن چیزوں کو حضور علیہ الصلوۃ و السلام سے تعلق رہاہو ان سے محبت و عقیدت اور ان کی تعظیم و تکریم اور ان کا ادب و احترام یہ ایمان کا نشان اور ہر مسلمان کی ایمانی شان ہے اﷲ تعالیٰ ہر مسلمان کو اس نیک عمل کی توفیق عطا فرمائے (آمین)
یہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے سب سے پیارے خادم حضرت
انس بن مالک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی ماں ہیں ان کے پہلے شوہر کا نام مالک تھا بیوہ ہوجانے کے بعد ان کا نکاح حضرت ابو طلحہ صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ہوگیا۔
(الاستیعاب ،کتاب کنی النساء،باب السین ۳۵۹۷،ام سلیم بنت ملحان،ج۴،ص۴۹۴)
یہ رشتہ میں ایک طرح سے رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی خالہ ہوتی تھیں اور ان کے بھائی حضور علیہ الصلوۃ و السلام کے ساتھ ایک جہاد میں شہید ہوگئے تھے ان سب باتوں کی وجہ سے رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم ان پر بہت مہربان تھے اور کبھی کبھی ان کے گھر بھی تشریف لے جایا کرتے تھے بخاری شریف وغیرہ میں ان کا ایک بہت ہی نصیحت آموز اور عبرت خیز واقعہ لکھا ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت ام سلیم کا ایک بچہ بیمار تھا جب حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ صبح کو اپنے کام دھندے کے لئے باہر جانے لگے تو اس بچہ کا سانس بہت زور زور سے چل رہا تھا ابھی حضرت ابوطلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ مکان پر نہیں آئے تھے کہ بچہ کا انتقال ہوگیا حضرت بی بی ام سلیم رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے سوچا کہ دن بھر کے تھکے ماندے میرے شوہر مکان پر آئیں گے اور بچے کے انتقال کی خبر سنیں گے تو نہ کھانا کھائیں گے نہ آرام کر سکیں گے اس لئے انہوں نے بچے کی لاش کو ایک الگ مکان میں لٹا دیا اور کپڑا اوڑھا دیا اور خود روزانہ کی طرح کھانا پکایا پھر خوب اچھی طرح بناؤ سنگار کر کے بیٹھ کر شوہر کے آنے کا انتظار کرنے لگیں جب حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ رات کو گھر میں آئے تو پوچھا کہ بچہ کا کیا حال ہے؟ تو بی بی ام سلیم رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے کہہ دیا کہ اب اس کا سانس ٹھہر گیا ہے حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ مطمئن ہو گئے اور انہوں نے یہ سمجھا کہ سانس کا کھنچاؤ تھم گیا ہے پھر فوراً ہی کھانا سامنے آگیا اور انہوں نے شکم سیر ہو کر کھانا کھایا پھر بیوی کے بناؤ سنگار کو دیکھ کر انہوں نے بیوی سے صحبت بھی کی جب سب کاموں سے فارغ ہو کر بالکل ہی مطمئن
ہوگئے تو بی بی ام سلیم رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے کہا کہ اے میرے پیارے شوہر! مجھے یہ مسئلہ بتایئے کہ اگر ہمارے پاس کسی کی کوئی امانت ہو اور وہ اپنی امانت ہم سے لے لے تو کیا ہم کو برا ماننے یا ناراض ہونے کا کوئی حق ہے؟ حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہرگز نہیں امانت والے کو اس کی امانت خوشی خوشی دے دینی چاہے شوہر کا یہ جواب سن کر حضرت ام سلیم رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے کہا کہ اے میرے سرتاج! آج ہمارے گھر میں یہی معاملہ پیش آیا کہ ہمارا بچہ جو ہمارے پاس خدا کی ایک امانت تھا آج خدا نے وہ امانت واپس لے لی اور ہمارا بچہ مرگیا یہ سن کر حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ چونک کر اٹھ بیٹھے اور حیران ہو کر بولے کہ کیا میرا بچہ مر گیا؟ بی بی نے کہا کہ ''جی ہاں'' حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ تم نے تو کہا تھا کہ اس کے سانس کا کھنچاؤ تھم گیا ہے بیوی نے کہا کہ جی ہاں مرنے والا کہاں سانس لیتاہے؟ حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو بے حد افسوس ہوا کہ ہائے میرے بچے کی لاش گھر میں پڑی رہی اور میں نے بھر پیٹ کھانا کھایا اور صحبت کی ۔ بیوی نے اپنا خیال ظاہر کر دیا کہ آپ دن بھر کے تھکے ہوئے گھر آئے تھے میں فوراً ہی اگر بچے کی موت کا حال کہہ دیتی تو آپ رنج و غم میں ڈوب جاتے نہ کھانا کھاتے نہ آرام کرتے اس لیے میں نے اس خبر کو چھپایا حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ صبح کو مسجد نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم میں نماز فجر کے لیے گئے اور رات کا پورا ماجرا حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم سے عرض کردیا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے لیے یہ دعا فرمائی کہ تمہاری رات کی اس صحبت میں اﷲ تعالیٰ خیر و برکت عطا فرمائے اس دعائے نبوی کا یہ اثر ہوا کہ اسی رات میں حضرت بی بی ام سلیم کے حمل ٹھہر گیا اور ایک بچہ پیدا ہوا جس کانام عبداﷲ رکھاگیا اور ان عبداﷲ کے بیٹوں میں بڑے بڑے علماء پیدا ہوئے۔
تبصرہ:۔مسلمان ماؤں اور بہنو! حضرت بی بی ام سلیم رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے صبر کرنا سیکھو اور شوہر کو آرام پہنچانے کا طریقہ اور سلیقہ بھی اس واقعہ سے ذہن نشین کرو اور دیکھو کہ بی بی ام سلیم رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے کیسی اچھی مثال دے کر شوہر کو تسلی دی اگر ہر آدمی اس بات کو اچھی طرح سمجھ لے تو کبھی بے صبری نہ کریگا اور دیکھو کہ صبر کا پھل خداوند کریم نے کتنی جلدی حضرت بی بی ام سلیم کو دیا کہ حضرت عبداﷲ ایک سال پورا ہونے سے پہلے ہی پیدا ہوگئے اور پھر ان کا گھر عالموں سے بھر گیا۔
یہ حضرت بی بی ام سلیم رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی بہن ہیں جن کا ذکر تم نے اوپر پڑھا ہے ان کے مکان پر بھی کبھی کبھی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم دوپہر کو قیلولہ فرمایا کرتے تھے ایک دن حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم مسکراتے ہوئے نیند سے بیدار ہوئے تو حضرت بی بی ام حرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے عرض کی کہ یا رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم! آپ کے مسکرانے کا کیا سبب ہے؟ تو ارشاد فرمایا کہ میں نے ابھی ابھی اپنی امت کے کچھ مجاہدین کو خواب میں دیکھا ہے کہ وہ سمندر میں کشتیوں پر اس طرح بیٹھے ہوئے جہاد کے لئے جا رہے ہیں جس طرح بادشاہ لوگ اپنے اپنے تخت پر بیٹھے رہا کرتے ہیں حضرت ام حرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے کہا کہ یا رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم! دعا فرمایئے کہ اﷲتعالیٰ مجھے ان مجاہدین میں شامل فرمائے پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم سو گئے اور دوبارہ پھر اسی طرح ہنستے ہوئے اٹھے اور یہی خواب بیان فرمایا تو ام حرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے کہاکہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم دعافرمایئے کہ میں ان مجاہدوں میں شامل رہوں تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ تم پہلے مجاہدین کی صف میں رہوگی چنانچہ جب حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دور
حکومت میں بحری بیڑہ تیار ہوا اور مجاہدین کشتیوں میں سوار ہونے لگے تو حضرت بی بی ام حرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہا بھی اپنے شوہر حضرت عبادہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ان مجاہدین کی جماعت میں شامل ہو کر جہاد کے لئے روانہ ہوگئیں سمندر سے پار ہوجانے کے بعد یہ اونٹ پر سوار ہونے لگیں تو اونٹ پر سے گر پڑیں اور اونٹ کے پاؤں سے کچل کر ان کی روح پرواز کر گئی اس طرح یہ شہادت کے شرف سے سرفراز ہوگئیں ۔
(صحیح البخاری،کتاب الجہاد،باب غزوالمرأۃ فی البحر،رقم۲۸۷۷،۲۸۷۸،ج۲،ص۲۷۵)
تبصرہ:۔مسلمان بیبیو! حضرت بی بی ام حرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے اس واقعہ سے جہاد کا شوق اور اسلام پر قربان ہونے کا جذبہ سیکھو ان دونوں بوڑھے میاں بیوی کو بڑھاپے کے باوجود جہاد کا کس قدر شوق تھا؟ اور شہادت کی کتنی زیادہ تمنا تھی اﷲاکبر! اﷲاکبر۔
(۲۸)حضرت فاطمہ بنت خطاب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا
یہ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی بہن ہیں یہ اور ان کے شوہر حضرت سعید بن زید رضی اﷲ تعالیٰ عنہما شروع ہی میں مسلمان ہوگئے تھے مگر یہ دونوں حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ڈر سے اپنا اسلام پوشیدہ رکھتے تھے حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو ان دونوں کے مسلمان ہونے کی خبر ملی تو غصہ میں آگ بگولا ہو کر بہن کے گھر پہنچے کو اڑ بند تھے مگر اندر سے قرآن پڑھنے کی آواز آ رہی تھی دروازہ کھٹکھٹایا تو حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی آواز سن کر سب گھر والے ادھر ادھر چھپ گئے بہن نے دروازہ کھولا تو حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ چلا کر بولے کہ اے اپنی جان کی دشمن! کیا تو نے بھی اسلام قبول کر لیا ہے؟ پھر اپنے بہنوئی حضرت سعید بن زید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ پر جھپٹے اور ان کی داڑھی پکڑ کر زمین پر پچھاڑ دیا اور مارنے لگے ان کی بہن حضرت فاطمہ بنت خطاب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا اپنے شوہر کو بچانے کے لئے حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو پکڑنے
لگیں تو ان کو حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ایسا طمانچہ مارا کہ کان کے جھومر ٹوٹ کر گر پڑے اور چہرہ خون سے رنگین ہوگیا بہن نے نہایت جرأت کے ساتھ صاف صاف کہہ دیا کہ عمر! سن لو تم سے جو ہوسکے کر لو مگر اب ہم اسلام سے کبھی ہرگز ہرگز نہیں پھر سکتے حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے بہن کا جو لہولہان چہرہ دیکھا اور ان کا جوش و جذبات میں بھرا ہوا جملہ سنا تو ایک دم ان کا دل نرم پڑ گیا تھوڑی دیر چپ کھڑے رہے پھر کہا کہ اچھا تم لوگ جو پڑھ رہے تھے وہ مجھے بھی دکھاؤ بہن نے قرآن شریف کے ورقوں کو سامنے رکھ دیا حضرت عمر نے سورۂ حدید کی چند آیتوں کو بغور پڑھا تو کانپنے لگے اور قرآن کی حقانیت کی تاثیر سے دل بے قابو ہو کر تھرا گیا جب اس آیت پر پہنچے کہ
اٰمِنُوْا بِاللہِ وَ رَسُوْلِہٖ
یعنی اﷲ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ تو پھر حضرت عمر ضبط نہ کرسکے آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے بدن کی بوٹی بوٹی کانپ اٹھی اور زور زور سے پڑھنے لگے
اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّاا للہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسولُہٗ
پھر ایک دم اٹھے اور حضرت زید بن ارقم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے مکان پر جاکر رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے دامن رحمت سے چمٹ گئے اور پھر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم اور سب مسلمانوں کو اپنے ساتھ لے کر خانہ کعبہ میں گئے اور اپنے اسلام کا اعلان کر دیا اس دن سے مسلمانوں کو خوف و ہراس سے کچھ سکون ملا اور حرم کعبہ میں علانیہ نماز پڑھنے کا موقع ملا ورنہ لوگ پہلے گھروں میں چھپ چھپ کر نماز و قرآن پڑھا کرتے تھے۔
(تاریخ الخلفاء، فصل فی الاخبار الموارد ماجاء فی اسلامہ ،ص۹۰)
تبصرہ:۔اے اسلامی بہنو! حضرت فاطمہ بنت خطاب سے ایمانی جوش اور اسلامی جرأ ت کا سبق سیکھو۔
یہ ہمارے رسول اکرم صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی چچی اور حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کی والدہ اور حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے چچا حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی بیوی ہیں یہ حضرت عباس سے پہلے مسلمان ہوگئی تھیں اور حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم بھی ان پر بے حد مہربان تھے اور حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ان کو دین و دنیا کی بڑی بڑی بشارتیں دی تھیں یہ ہجرت کے لئے بے قرار تھیں مگر یہ ہجرت کا سامان نہ ہونے سے لاچار تھیں چنانچہ ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی کہ یہ ہجرت کا سامان نہ ہونے کی وجہ سے ہجرت نہیں کرسکتی ہیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں۔
یہ انصاریہ صحابیہ ہیں اور جنگ بدر میں ابو جہل کو قتل کرنے والے صحابی حضرت معوذ بن عفرا رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی بیٹی ہیں انہوں نے بیعت الرضوان میں حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے دست مبارک پربیعت کی تھی حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم كا ان پر بڑا خاص کرم تھا ان کی شادی کے دن حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم ان کے مکان پر تشریف لے گئے تھے اور ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں کھجور کا ایک خوشہ نذر کیا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے اس کو قبول فرما کر کچھ سونا یا چاندی ان کو عطا فرمایا اور ارشاد فرمایاکہ تم اس کے زیور بنوا لو امام واقدی نے ان کا ایک عجیب واقعہ نقل فرمایا ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک عورت اسماء بنت مخرمہ مدینہ منورہ میں عطر بیچا کرتی تھی وہ عطر لے کر حضرت ربیع بنت معوذ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کے پاس آئی اور کہا کہ تم اس شخص کی بیٹی ہو جس نے اپنے سردار یعنی ابوجہل کو قتل کر دیا؟ تو انہوں نے تڑپ کر جواب دیا میں اس شخص کی بیٹی ہوں
جس نے اپنے غلام یعنی ابو جہل کو قتل کر دیا یہ جواب سن کر عطر بیچنے والی عورت جھلا گئی اور کہا کہ مجھ پر حرام ہے کہ میں تمہارے ہاتھ اپنا عطر بیچوں تو حضرت ربیع نے بھی جوش میں آکر یہ کہہ دیا کہ مجھ پر حرام ہے کہ میں تیرا عطر خریدوں تیرے عطر سے تو بدبودار میں نے کسی کا عطر ہی نہیں پایا حضرت ربیع کہتی ہیں اس کا عطر بدبودار نہیں تھا مگر میں نے اس کو جلانے کے لئے اس کے عطر کو بدبودار کہہ دیا تھا کیونکہ وہ ابوجہل کی مداح تھی۔
(الاستیعاب ،باب النساء،باب الرّاء ۳۳۷۰،الربیع بنت معوّذ،ج۴،ص۳۹۶)
"تبصرہ:۔حضرت ربیع بنت معوذ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کی جرأ ت ایمانی دیکھو کہ ابوجہل کو سردار کہنے والی عورت کو اس کے منہ پر کیسا دندان شکن جواب دیا کہ اس کا منہ بند ہوگیا اور وہ لاجواب ہوگئی اور بلا شبہ جو کچھ کہا وہ حق ہی کہا ابو جہل ہرگز ہرگز کسی مسلمان کا سردار نہیں ہوسکتا بلکہ وہ ہر مسلمان کا غلام بلکہ غلام سے بھی ہزاروں درجے بدتر اور کمتر ہے۔
مسلمان بیبیو! کاش تم بھی اﷲعزوجل و رسول صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے دشمنوں سے ایسی ہی عداوت اور نفرت رکھو تاکہ تم سنت صحابہ پر عمل کر کے ثواب دارین کی دولت سے مالا مال ہو جاؤ۔"
یہ مدینہ منورہ کی ایک انصاریہ عورت ہیں بڑی بہادر اور اسلام پر جان دینے والی صحابیہ ہیں حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اپنی خلافت کے زمانے میں مدینہ کی عورتوں کے درمیان چادریں تقسیم کر رہے تھے کہ ایک بہت ہی عمدہ چادر بچ گئی تو آپ نے لوگوں سے مشورہ کیا کہ یہ چادر میں کس کو دوں؟ تو لوگوں نے کہا کہ یہ چادر آپ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی بی بی ام کلثوم رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو دے دیجئے جو آپ کی بیوی ہیں تو آپ نے فرمایا
کہ نہیں ہر گز ہرگز نہیں میں یہ چادر ام کلثوم رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو نہیں دوں گا بلکہ میری نظر میں اس چادر کی حقدار بی بی ام سلیط رضی اﷲ تعالیٰ عنہا ہیں خدا کی قسم میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ جنگ احد کے دن یہ اور ام المومنین بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا دونوں اپنے کندھوں پر مشک بھر بھر کر لاتی تھیں اور مجاہدین اور زخمیوں کو پانی پلاتی تھیں اور پھر ام سلیط رضی اﷲ تعالیٰ عنہا ان خوش نصیب عورتوں میں سے ہیں جو رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم سے بیعت کر چکی ہیں حضرت امیر المومنین عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے یہ فرما کر وہ چادر حضرت ام سلیط رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو عطا فرمادی ۔
(صحیح البخاری،کتاب الجہاد،والسیر،باب حمل النساء القرب الی الناس،رقم۲۸۸۱،ج۲،ص۲۷۶)
" یہ خاندان قریش کی ایک باوقار عورت ہیں شرف صحابیت پایا اور ہجرت کی فضیلت بھی ان کو ملی یہ بہت ہی عبادت گزار صحابیہ ہیں چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ یہ رات بھر جاگ کر عبادت کرتی تھیں ان کا یہ حال سن کر حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ سن لو اﷲ تعالیٰ نہیں اکتائے گا بلکہ تمہیں لوگ اکتا جاؤ گے اس لئے تم لوگ اتنے ہی اعمال کرو جتنے اعمال کی تم طاقت رکھتے ہو اپنی طاقت سے زیادہ کوئی عمل مت کیا کرو۔
حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ حضرت حولاء بنت تویت نے حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت طلب کی تو حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ان کو مکان کے اندر آنے کی اجازت عطا فرمائی اور جب یہ گھر میں آئیں تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کی طرف بہت خصوصی توجہ فرمائی اور ان کی مزاج پرسی فرمائی حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ یہ دیکھ کر میں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم! آپ ان پر اس قدر زیادہ توجہ فرماتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟ تو"
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ یہ حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے زمانے میں بھی ہمارے گھر بہت زیادہ آیاجایا کرتی تھیں اور پرانے ملاقاتیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا یہ ایمانی خصلت ہے ۔
(الاستیعاب ،باب النساء،باب الحاء ۳۳۴۲،الحولاء بنت تویت،ج۴،ص۳۷۷)
تبصرہ:۔اے اسلامی بہنو! حضرت حولاء بنت تویت رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی عبادت اور اپنی مرحومہ بیوی کی سہیلیوں کے ساتھ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے اچھے برتاؤ سے سبق سیکھو اﷲ تعالیٰ تم پر اپنا فضل فرمائے (آمین)
یہ بھی صحابیہ اور رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم پر جان چھڑ کنے والی عورت ہیں مکہ میں جب کافروں نے مسلمانوں کو بے حد ستانا شروع کیا تو رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے حبشہ کی طرف ہجرت کا حکم دیا چنانچہ جب لوگوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تو اسماء بنت عمیس رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے بھی اپنے شوہر جعفر بن ابی طالب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ساتھ حبشہ کا سفر کیا اور جب رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی تو حبشہ کے مہاجرین حبشہ سے مدینہ منورہ چلے آئے جب بی بی اسماء بنت عمیس رضی اﷲ تعالیٰ عنہا بارگاہ رسالت صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم میں حاضر ہوئیں تو حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ان کو صاحب الہجرتین (دو ہجرت والی) کے لقب سے سرفراز فرمایا اور اجر عظیم کی بشارت دی ۔
(الاستیعاب ،باب النساء،باب الالف۳۲۶۴،أسماء بنت عمیس،ج۴،ص۳۴۷)
یہ امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی بیوی ہیں اور حضرت عائشہ اور حضرت عبدالرحمن بن ابو بکر کی ماں ہیں ان کی شکل و صورت اور ان کی بہترین عادتوں
اور خصلتوں کی بنا پر حضور اکرم صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم فرمایا کرتے تھے کہ دنیا میں اگر کسی کو حور دیکھنے کی خواہش ہو تو وہ ام رومان کو دیکھ لے کہ وہ جمال صورت اور حسن سیرت میں بالکل جنت کی حور جیسی ہے حضور علیہ الصلوۃ والسلام ان پر بڑا خاص کرم فرمایا کرتے تھے ۶ھ میں جب حضرت ام رومان رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا انتقال ہوا تو حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم ان کی قبر میں اترے اور اپنے دست مبارک سے ان کو سپرد خاک فرمایا اور ان کی مغفرت کے لئے دعا کرتے ہوئے کہا کہ یا اﷲعزوجل! ام رومان رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے تیرے اور تیرے رسول صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے ساتھ بہترین سلوک کیا ہے وہ تجھ پر پوشیدہ نہیں لہٰذا تو ان کی مغفرت فرما۔
(الاستیعاب ،کتاب کنی النساء،باب الرّاء ۳۵۸۶،أم اومان، ج۴،ص۴۸۹)
تبصرہ:۔خدا کی عبادت اور پیارے رسول صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی محبت و اطاعت کی بدولت حضرت ام رومان رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو کتنی عظیم سعادت اور کتنی بڑی فضیلت نصیب ہوگئی کہ حضور اکرم صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے اپنے دست مبارک سے ان کو قبر میں اتارا اور بہترین انداز سے ان کی مغفرت کے لئے دعا فرمائی یقیناً یہ حضرت ام رومان رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی بہت بڑی خوش نصیبی ہے اور اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ خداوند کریم کی عبادت اور رسول صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی محبت و اطاعت سے دین و دنیا کی کتنی بڑی بڑی نعمتیں اور دولتیں ملتی ہیں خداوند قدوس تمام مسلمان مردوں اور عورتوں کو اپنی عبادت اور رسول صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی محبت و اطاعت کی توفیق عطا فرمائے (آمین)
یہ ہمارے حضور نبي صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی سالی اور حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی بہن ہیں حضرت بی بی خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی وجہ سے حضور علیہ الصلوۃ والسلام ان سے بڑی
محبت فرماتے تھے ایک مر تبہ انہوں نے دروازے کے باہر سے کھڑے ہو کر مکان میں آنے کی اجازت طلب کی ان کی آواز حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی آواز سے ملتی جلتی تھی جب حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ان کی آواز سنی تو حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی یاد آگئی اور آپ نے جلدی سے اٹھ کر دروازہ کھولا اور خوش ہو کر فرمایا کہ یااﷲعزوجل! یہ تو ہالہ آگئیں۔
(صحیح البخاری، کتاب مناقب الأنصار،باب تزویج النبی صلی اللہ علیہ وسلم خدیجۃ،رقم ۳۸۲۱،ج۲،ص۵۶۵)
یہ بہت ہی جاں نثار صحابیہ ہیں اور رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے ساتھ چھ لڑائیوں میں گئیں یہ مجاہدین کو پانی پلایا کرتی تھیں اور زخمیوں کا علاج اور ان کی تیمارداری کیا کرتی تھیں اور ان کو رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم سے اتنی عاشقانہ محبت تھی کہ جب بھی یہ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا نام لیتی تھیں تو ہر مرتبہ یہ ضرور کہا کرتی تھیں کہ ''میرے باپ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم پر قربان''
(الاستیعاب ،کتاب کنی النساء ،باب العین۳۶۲۱،ام عطیۃ،ج۴،ص۵۰۱)
تبصرہ:۔مسلمان بیبیو! تم ان اﷲ ورسول والی عورتوں کی ان حکایتوں سے سبق سیکھو اور رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم سے اسی طرح عشق و محبت رکھو کہ محبت رسول ایمان کا نشان بلکہ ایمان کی جان ہے خداوند کریم ہر مسلمان کو یہ کرامت نصیب فرمائے(آمین)
یہ امیر المؤمنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی حضرت ام المؤمنین عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی بہن اور جنتی صحابی حضرت زبیر بن العوام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی
"بیوی ہیں حضرت عبداﷲبن زبیر ان ہی کے شکم سے پیدا ہوئے ہجرت کے بعد مہاجرین کے یہاں کچھ دنوں تک اولاد نہیں ہوئی تو یہودیوں کو بڑی خوشی ہوئی بلکہ بعض یہودیوں نے یہ بھی کہا کہ ہم لوگوں نے ایسا جادو کر دیا ہے کہ کسی مہاجر کے گھر میں بچہ پیدا ہی نہیں ہوگا اس فضاء میں سب سے پہلے جو بچہ مہاجرین کے یہاں پیدا ہوا وہ یہی عبداﷲ بن زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما تھے پیداہوتے ہی حضرت بی بی اسماء رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے اس اپنے فرزند کو بارگاہ رسالت صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم میں بھیجا حضور اقدس صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے اپنی مقدس گود میں لے کر کھجور منگائی اور خود چبا کر کھجور کو اس بچے کے منہ میں ڈال دیا اور عبداﷲ نام رکھا اور خیر و برکت کی دعا فرمائی یہ اس بچے کی خوش نصیبی ہے کہ سب سے پہلی غذا جو ان کے شکم میں گئی وہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا لعاب دہن تھا چنانچہ حضرت اسماء رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو اپنے بچے کے اس شرف پر بڑا ناز تھا ان کے شوہر حضرت زبیر رشتہ میں حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم كے پھوپھی زاد ہیں مہاجرین میں بہت ہی غریب تھے حضرت بی بی اسماء رضی اﷲ تعالیٰ عنہا جب ان کے گھر میں آئیں تو گھر میں نہ کوئی لونڈی تھی نہ کوئی غلام گھر کا سارا کام دھندا یہی کیا کرتی تھیں یہاں تک کہ گھوڑے کا گھاس دانہ اور اس کی مالش کی خدمت بھی یہی انجام دیا کرتی تھیں بلکہ اونٹ کی خوراک کے لئے کھجوروں کی گٹھلیاں بھی باغوں سے چن کر اور سر پر گٹھری لاد کر لایا کرتی تھیں ان کی یہ مشقت دیکھ کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ان کو ایک غلام عطا فرما دیا تو ان کے کاموں کا بوجھ ہلکا ہوگیا آپ فرمایا کرتی تھیں کہ ایک غلام دے کر گویا میرے والد نے مجھے آزاد کردیا ۔
یہ محنتی ہونے کے ساتھ ساتھ بڑی بہادر اور دل گردہ والی عورت تھیں ہجرت کے وقت حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے مکان میں جب حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم كا"
توشہ سفر ایک تھیلے میں رکھا گیا اور اس تھیلے کا منہ باندھنے کے لئے کچھ نہ ملا تو حضرت بی بی اسماء نے فوراً اپنی کمر کے پٹکے کو پھاڑ کر اس سے توشہ دان کا منہ باندھ دیا اسی دن سے ان کو ذات النطاقین (دوپٹکے والی) کا معزز لقب ملا حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے تو حضور علیہ الصلوۃ و السلام کے ساتھ ہجرت کی لیکن حضرت اسماء رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے اس کے بعد اپنے گھر والوں کے ساتھ ہجرت کی ۔
(الاستیعاب ،باب النساء،باب الالف۳۲۵۹،أسماء بنت ابی بکر،ج۴،ص۳۴۵)
۶۳ھ میں واقعہ کربلا کے بعد جب یزید پلید کی فوجوں نے مکہ مکرمہ پر حملہ کیا اور حضرت عبداﷲ بن زبیررضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ان ظالموں کا مقابلہ کیاا ور یزیدی لشکر کو کتوں اور چوہوں کی طرح دوڑا دوڑا کر مارا اس وقت بھی حضرت اسماء مکہ مکرمہ میں موجود رہ کر اپنے فرزند حضرت عبداﷲ بن زبیر کی ہمت بڑھاتی اور ان کی فتح و نصرت کے لئے دعائیں مانگتی رہیں اور جب عبد الملک بن مروان کے زمانہ حکومت میں حجاج بن یوسف ثقفی ظالم نے مکہ مکرمہ پر حملہ کیا اور حضرت عبداﷲ بن زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس ظالم کی فوجوں کا بھی مقابلہ کیا تو اس خوں ریز جنگ کے وقت بھی حضرت اسماء مکہ مکرمہ میں اپنے فرزند کا حوصلہ بڑھاتی رہیں یہاں تک کہ جب عبداﷲبن زبیر کو شہید کر کے حجاج بن یوسف نے ان کی مقدس لاش کو سولی پر لٹکا دیا اور اس ظالم نے مجبور کر دیا کہ بی بی اسماء رضی اﷲ تعالیٰ عنہا چل کر اپنے بیٹے کی لاش کو سولی پر لٹکی ہوئی دیکھیں تو آپ اپنے بیٹے کی لاش کے پاس تشریف لے گئیں جب لاش کو سولی پر دیکھا تو نہ روئیں نہ بلبلائیں بلکہ نہایت جرأ ت کے ساتھ فرمایا کہ سب سوار تو گھوڑوں سے اتر گئے لیکن اب تک یہ سوار گھوڑے سے نہیں اترا پھر فرمایا! کہ اے حجاج! تونے میرے بیٹے کی دنیا خراب کی اور اس نے تیرے دین کو برباد کر دیا ''
"اس واقعہ کے بعد بھی چند دنوں حضرت اسماء زندہ رہیں مکہ مکرمہ کے قبرستان میں ماں بیٹے دونوں کی مقدس قبریں ایک دوسرے کے برابر بنی ہوئی ہیں جن کو نجدیوں نے توڑ پھوڑ ڈالا ہے مگر ابھی نشان باقی ہے اور ۱۹۵۹ء میں ان دونوں مزاروں کی زیارت میں نے کی ہے رضی اﷲ تعالیٰ عنہما۔
تبصرہ:۔اسلامی بہنو! حضرت بی بی اسماء رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی غریبی اور اپنے شوہر کی خدمت اور رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم سے ان کی محبت پھر ان کی بہادری اور جراء ت واستقلال کے ان واقعات کو بار بار پڑھو اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرو اور یہ بھی سن لو کہ پہلے تو حضرت اسماء رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے شوہر بہت غریب تھے مگر بہت ہی بڑے مجاہد تھے بہت زیادہ مال غنیمت میں سے حصہ پایایہاں تک کہ بہت مالدار ہوگئے اور پھر ان کے مالوں میں اس قدر خیر و برکت ہوئی کہ شاید ہی کسی صحابی کے مال میں اتنی خیر و برکت حاصل ہوئی ہوگی۔
یہ ان کی نیک نیتی اور اسلام کی خدمتوں اور عبادتوں کی برکتوں کے میٹھے میٹھے پھل تھے جو ان کو دنیا کی زندگی میں ملے اور آخرت میں اﷲ تعالیٰ نے ان اﷲ والیوں کے لئے جو نعمتوں کے خزانے تیار فرمائے ہیں ان کو تونہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے نہ کسی کے خیال میں آسکتا ہے۔
اے اﷲ کی بندیو! ہمت کرو اور کوشش کرو اور ان نیک بندیوں کے طریقوں پر چلنے کا پختہ ارادہ کر لو ان شاء اﷲ تعالیٰ اﷲجل شانہ کی امداد و نصرت تمہارا بازو تھام لے گی اور ان شاء اﷲ تعالیٰ دنیا و آخرت میں تمہارا بیڑا پار ہو جائے گا بس شرط یہ ہے کہ اخلاص کے ساتھ یہ عزم کر لو کہ ہم ان اﷲ والی مقدس بیبیوں کے نقش قدم پر اپنی زندگی کی آخری"
سانس تک چلتی رہیں گی اور اسلام کے عقائد و اعمال پر پوری طرح کار بند رہ کر دوسری عورتوں کی اصلاح حال کے لئے بھی اپنی طاقت بھر کوشش کرتی رہیں گی۔
یہ حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی پھوپھی زاد بہن ہیں اور ان کی کنیت ام سلمہ ہے قبیلہ انصار سے تعلق رکھنے والی صحابیہ ہیں یہ بہت عقل مند اور ہوش گوش والی عورت تھیں ایک مرتبہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہنے لگیں کہ یا رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم! میں بہت سی عورتوں کی نمائندہ بن کر آئی ہوں سوال یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو مردوں اور عورتوں دونوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے چنانچہ ہم عورتیں آپ پرایمان لائی ہیں اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی پیروی کا عہد کیا ہے اب صورت حال یہ ہے کہ ہم عورتیں پردہ نشین بناکر گھروں میں بٹھا دی گئی ہیں اور ہم اپنے شوہروں کی خواہشات پوری کرتی ہیں اور ان کے بچوں کو گود میں لئے پھرتی ہیں اور ان کے گھروں کی رکھوالی کرتی ہیں اور ان کے مالوں اور سامانوں کی حفاظت کرتی ہیں اورمرد لوگ جنازوں اور جہادوں میں شرکت کر کے اجر عظیم حاصل کرتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ ان مردوں کے ثوابوں میں سے کچھ ہم عورتوں کو بھی حصہ ملے گا یا نہیں یہ سن کر حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے صحابہ کرام علیھم الرضوان سے فرمایا کہ دیکھو اس عورت نے اپنے دین کے بارے میں کتنا اچھا سوال کیا ہے پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایاکہ اے اسماء رضی اﷲ تعالیٰ عنہا! تم سن لو اور جاکر عورتوں سے کہہ دو کہ عورتیں اگر اپنے شوہروں کی خدمت گزاری کر کے ان کو خوش رکھیں اور ہمیشہ اپنے شوہروں کی خوشنودی طلب کرتی رہیں اور ان کی فرمانبرداری کرتی رہیں تو مردوں کے اعمال کے برابر ہی عورتوں کو بھی
ثواب ملے گا یہ سن کر حضرت اسماء بنت یزید رضی اﷲ تعالیٰ عنہا مارے خوشی کے نعرہ تکبیر لگاتی ہوئی باہر نکلیں۔
(الاستیعاب ،باب النساء،باب الالف۳۲۶۷،أسماء بنت یزید،ج۴،ص۳۵۰)
تبصرہ:۔اسماء بنت یزید کو ثواب آخرت حاصل کرنے کا کتنا شوق اور جذبہ تھا یہ تمام مسلمان عورتوں کے لئے ایک قابل تقلید نمونہ ہے کاش اس زمانے کی عورتوں میں بھی یہ شوق اور جذبہ ہوتا تو یقیناً یہ عورتیں بھی نیک بیبیوں کی فہرست میں شامل ہو جاتیں اور ثواب سے مالا مال ہو جاتیں۔
یہ بھی صحابیہ ہیں جب مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تو یہ حبشہ میں پیدا ہوئیں جب ان کے والدین حبشہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ آئے تو ان کے باپ ان کو لے کر حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی بارگاہ اقدس میں گئے یہ اس وقت پیلے رنگ کا کپڑا پہنے ہوئے تھیں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ان کو دیکھ کر فرمایا کہ بہت اچھا لباس ہے بہت اچھا کپڑا ہے پھر ایک پھولدار چادر جو بہت ہی خوب صورت تھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے پیار و محبت سے ان کو اوڑھا دی اور یہ فرمایا کہ اس کو پرانی کر۔ اس کو پھاڑ۔ یہ بہت اچھی لگتی ہے اس دعا کا مطلب یہ تھا کہ تیری عمر خوب بڑی ہو تاکہ اس کو اوڑھتے اوڑھتے پرانی کر دے اور بالکل پھٹ جائے چنانچہ اس دعاء نبوی کا یہ اثر ہوا کہ حضرت ام خالد رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی عمر اس قدر لمبی ہوئی کہ ان کی بڑی عمر کا لوگوں میں چرچا ہوتا تھا اور لوگ کہا کرتے تھے کہ ہم نے نہیں سنا کہ جتنی لمبی عمر انہوں نے پائی ہے اتنی بڑی عمر مدینہ میں کسی نے پائی ہو۔
(الاصابۃ فی تمییزالصحابۃ، رقم۱۲۰۰۴،اُمّ خالدبنت خالد،ج۸،ص۳۸۵)
"تبصرہ:۔سبحان اﷲعزوجل! عمر لمبی ہو اور پھر ساری عمر نیکیوں کے کمانے میں گزر جائے اس سے بڑی خوش نصیبی اور کیا ہوسکتی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت ام خالد رضی اﷲ تعالیٰ عنہا بڑی نیک بخت اور خوش نصیب تھیں کہ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے اپنے دست مبارک سے ان کو چادر اوڑھائی اور اپنی مبارک دعاؤں سے ان کو سرفراز کیا جس کا یہ اثر ہوا کہ عمر لمبی ہوئی اور زندگی کا ایک ایک لمحہ نیکیوں اور عبادتوں کی چھاؤں میں گزرا۔
دینی بہنو! تم بھی کوشش کرو کہ جتنی بھی عمر گزرے وہ نیکیوں میں گزرے یہ یقیناً تجارت آخرت ہے کہ جس میں نفع کے سوا کبھی کوئی گھاٹا نہیں ہو سکتا۔"
یہ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی بہن ہیں فتح مکہ کے سال ۸ھ میں انہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا ظہور اسلام سے پہلے ہی ان کی شادی ہبیرہ بن ابی وہب کے ساتھ ہوگئی تھی ہبیرہ اپنے کفر پر اڑا رہا اور مسلمان نہیں ہوا ۔
(الاستیعاب ،کتاب کنی النساء،باب الھاء۳۶۵۶،أم ھانی بنت أبی طالب،ج۴،ص۵۱۷)
اس لئے میاں بیوی میں جدائی ہوگئی حضور اقدس صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ان کے زخمی دل کو تسکین دینے کے لئے ان کے پاس کہلا بھیجا کہ اگر تمہاری خواہش ہو تو میں خود تم سے نکاح کر لوں انہوں نے جواب میں عرض کیا کہ یا رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم! جب میں کفر کی حالت میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم سے محبت کرتی تھی تو بھلا اسلام کی دولت مل جانے کے بعد میں کیوں نہ آپ سے محبت کروں گی؟ لیکن بڑی مشکل یہ ہے کہ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں مجھے خوف ہے کہ میرے ان بچوں کی وجہ سے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو کوئی تکلیف نہ پہنچ جائے حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم ان کا جواب سن کر مطمئن ہوگئے ۔
حضرت ام ہانی رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی یہ دو خصوصیات بہت زیادہ باعث شرف ہیں ایک یہ کہ فتح مکہ کے دن حضرت ام ہانی رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے ایک کافر کو امان اور پناہ دے دی اس کے بعد حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس کافر کو قتل کرنا چاہا جب ام ہانی نے حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم سے عرض کیا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ جس کو تم نے امان دے دی اس کو ہم نے بھی امان دے دی۔
(صحیح البخاری ،کتاب الجزیۃ ولھوادعۃ،باب امان النساء،رقم ۳۱۷۱،ج۲،ص۳۶۷)
دوسری یہ کہ فتح مکہ کے دن حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ان کے مکان پرغسل فرمایا اور کھانا نوش فرمایا پھر آٹھ رکعت نماز چاشت ادا فرمائی۔
(صحیح البخاری ،کتاب الغسل،باب التسترفی الغسل عند الناس،رقم ۲۸۰،ج۱،ص۱۱۵)
یہ مکہ مکرمہ میں مسلمان ہوئیں اور چونکہ مفلسی کی وجہ سے سواری کا انتظام نہ ہو سکا اس لئے پیدل چل کر انہوں نے ہجرت کی اور مدینہ منورہ پہنچ کر حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم سے بیعت ہوئیں مدینہ میں ان سے حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے نکاح فرمالیا پھر جب وہ جنگ ''موتہ'' میں شہید ہوگئے تو ان سے جنتی صحابی حضرت زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے نکاح فرما لیا پھر طلاق دے دی تو دوسرے جنتی صحابی حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ان سے نکاح فرمالیا اور ان کے شکم سے ابراہیم و حمید دو فرزند پیدا ہوئے پھر جب حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی وفات ہوگئی تو فاتح مصر حضرت عمرو بن العاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ان سے نکاح کیا اور چند مہینے زندہ رہ کر وفات پا گئیں یہ حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی ماں کی طرف سے بہن ہیں ۔
(الاستیعاب ،کتاب کنی النساء،باب الکاف۳۶۳۷،أم کلثوم بنت عقبۃ،ج۴،ص۵۰۸)
تبصرہ:۔مسلمان بہنو! غور کرو کہ انہوں نے اسلام کی محبت میں اپنے گھر اور وطن کو چھوڑ کر پیدل ہجرت کی اور مدینہ جا کر حضور اقدس صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم سے بیعت ہوئیں پھر یہ غور کرو کہ انہوں نے یکے بعد دیگرے چار شوہروں سے نکاح کیا اس میں ان عورتوں کے لئے بہت بڑا سبق ہے جو دوسرا نکاح کرنے کو عیب سمجھتی ہیں اور پوری عمر بلا شوہر کے گزار دیتی ہیں۔
یہ ہجرت سے پہلے ہی مسلمان ہوگئی تھیں بہت ہی عقل مند اور فضل و کمال والی عورت تھیں حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم ان پربہت زیادہ شفقت و کرم فرماتے تھے انہوں نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے ایک مخصوص بستر بنا رکھا تھا کہ جب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم دوپہر میں کبھی کبھی ان کے مکان پر قیلولہ فرماتے تھے تو وہ اس بستر کو حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے لئے بچھا دیتی تھیں دوسرا کوئی شخص بھی نہ اس بستر پر سو سکتا تھا نہ بیٹھ سکتا تھا
(الاستیعاب ،باب النساء،باب الشّین ۳۴۳۲،الشفاء أم سلیمان،ج۴،ص۴۲۳)
"تبصرہ:۔سبحان اﷲعزوجل! ان کے قلب میں کس قدر حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم كی عظمت اور کتنا نبوت کا احترام تھا کہ جس بستر پر حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے آرام فرما لیا انہوں نے دوسرے کسی شخص کو بھی اس پر بیٹھنے نہیں دیا یہ بستر حضرت شفاء رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے بعد ان کے صاحبزادہ حضرت سیلمان بن ابی حثمہ کے پاس ایک یادگاری تبرک ہونے کی حیثیت سے محفوظ رہا مگر حاکم مدینہ مروان بن حکم اموی نے اس مقدس بچھونے کو ان سے چھین لیا اس طرح یہ تبرک لا پتا ہو کر ضائع ہوگیا۔
حضور اکرم صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے حضرت شفاء رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو جاگیر میں ایک"
گھر بھی عطا فرمایا تھا جس میں یہ اپنے بیٹے سلیمان کے ساتھ رہا کرتی تھیں حضرت امیر المومنین عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ان کی بہت قدر کرتے تھے بلکہ بہت سے معاملات میں ان سے مشورہ طلب کیا کرتے تھے ان کو بچھو کے ڈنک کا زہر اتارنے والا ایک عمل بھی یاد تھا اور حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ان سے فرمایا تھا کہ تم یہ عمل میری بیوی حضرت حفصہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو بھی سکھا دو الغرض یہ بارگاہ نبوت میں مقرب تھیں اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے عشق و محبت کی دولت سے مالامال تھیں۔
(الاستیعاب ،باب النساء،باب الشّین ۳۴۳۲،الشفاء أم سلیمان،ج۴،ص۴۲۳۔۴۲۴)
یہ مشہور صحابی حضرت ابو درداء رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی بیوی ہیں بہت سمجھدار نہایت ہی عقلمند صحابیہ ہیں علمی فضیلت کے علاوہ عبادت میں بھی بے مثال تھیں اپنے شوہر حضرت ابودرداء رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے دوسال پہلے ملک شام میں حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے دوران ان کی وفات ہوئی ۔
(الاستیعاب ،کتاب النساء،باب الدال۳۵۸۴،أم الدرداء،ج۴،ص۴۸۸)
یہ مشہور صحابی حضرت انس بن مالک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی پھوپھی ہیں بہت ہی بہادر اور بلند حوصلہ صحابیہ ہیں ان کے فرزند حارثہ بن سراقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی بہت باکمال ہوئے انصاری خاندان میں قابل فخر عورت تھیں جب ان کے بیٹے حارثہ شہید ہوگئے تو انھوں نے کہا کہ یا رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم! اگر میرا بیٹا جنت میں ہے تو میں صبر کروں گی ورنہ اتنا غم کھاؤں گی کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ
وسلّم بھی دیکھیں گے تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ تیرا بیٹا جنت الفردوس میں ہے۔
(الاستیعاب ،باب النساء،باب الراء ۳۳۷۱،الربیع بنت النضر،ج۴،ص۳۹۷)
یہ قبیلہ ''دوس'' کی ایک صحابیہ ہیں جو اپنے وطن سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ آگئی تھیں یہ بہت ہی عبادت گزار اور صاحب کرامت بھی تھیں ان کی دو کرامتیں بہت مشہور ہیں جن کو ہم نے اپنی کتاب ''کرامات صحابہ'' میں بھی لکھا ہے ایک کرامت تو یہ ہے کہ یہ ہجرت کر کے مدینہ منورہ جا رہی تھیں اور روزہ دار تھیں راستہ میں ایک یہودی کے مکان پر پہنچیں تاکہ روزہ افطار کر لیں اس دشمن اسلام نے ان کو ایک مکان میں بند کر دیا تاکہ ان کو روزہ افطار کرنے کے لئے ایک قطرہ پانی بھی نہ مل سکے جب سورج غروب ہوگیا اور ان کو روزہ افطار کرنے کی فکر ہوئی تو اندھیری بند کوٹھڑی میں اچانک کسی نے ٹھنڈے پانی کا بھرا ہوا ڈول ان کے سینہ پر رکھ دیا اور انہوں نے روزہ افطار کر لیا دوسری کرامت یہ ہے کہ ان کے پاس چمڑے کا ایک کُپہ تھا ایک دن انہوں نے اس کپے میں پھونک مار کر اس کو دھوپ میں رکھ دیا تو وہ کُپہ گھی سے بھر گیا پھر ہمیشہ اس کپے میں سے گھی نکلتا رہتا یہاں تک کہ اس کرامت کا چرچا ہوگیا کہ لوگ کہا کرتے تھے کہ ام شریک کا کُپہ خدا کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے ۔
(حجۃ اللہ علی العالمین،المطلب الثالث فی ذکر بعض کرامات أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،أم تسریک،ص۶۲۳)
یہ ایک بڑھیا اور نابینا صحابیہ ہیں جو خدا کی راہ میں اپنا وطن چھوڑ کر اور ہجرت کر کے مدینہ منورہ رہنے لگی تھیں ان کی بھی ایک کرامت عجیب و غریب ہے اور وہ یہ ہے کہ ان کا ایک بیٹا جو ابھی بچہ تھا اچانک انتقال کر گیا لوگوں نے اس کی لاش کو کپڑا او ڑھا دیا
"اورحضرت ام سائب کو خبر کردی کہ آپ کا بچہ انتقال کر گیا یہ سن کو انہوں نے آبدیدہ ہوکر دونوں ہاتھ اٹھا کر اس طرح دعا مانگی کہ۔
''یا اﷲعزوجل! تجھ پر ایمان لائی اور میں نے اپنا وطن چھوڑ کر تیرے رسول صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی طرف ہجرت کی ہے اس لئے اے میرے اﷲعزوجل! میں تجھ سے دعا کرتی ہوں کہ تو میرے بچے کی موت کی مصیبت مجھ پر نہ ڈال''۔
حضرت انس بن مالک صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت ام سائب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی دعا ختم ہوتے ہی ایک دم ان کا بچہ اپنے چہرے سے کپڑا اٹھا کر اٹھ بیٹھا اور زندہ ہوگیا ۔"
(حجۃ اللہ علی العالمین، فی معجزات سید المرسلین،ص۶۲۳)
تبصرہ:۔اسلامی بہنو! غور کرو کہ حضور اقدس صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم سے محبت کرنے والیوں اور عبادت گزار عورتوں کو خداوند کریم نے کیسی کیسی کرامتوں سے سرفراز فرمایا ہے تم بھی رسول پاک سے سچی محبت رکھو اور قسم قسم کی نیکیوں اور عبادتوں میں اپنی زندگی گزار دو خداوند قدوس بڑا رحیم و کریم ہے ہوسکتا ہے کہ وہ اپنا فضل و کرم فرما دے اور تم کو بھی صاحب کرامت بنا دے۔
یہ قبیلہ انصار کی بہت ہی جاں نثار صحابیہ ہیں ایک مرتبہ رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ان کی مشک کے منہ سے اپنا منہ لگا کر پانی نوش فرمالیا تو حضرت کبشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے اس مشک کا منہ کاٹ کر تبرکاً اپنے پاس رکھ لیا
(الاستیعاب ،باب النساء،باب الکاف ۳۵۱۱،کبشۃ الأنصاریۃ،ج۴،ص۴۶۰)
تبصرہ:۔اس سے پتا چلتا ہے کہ حضرات صحابہ و صحابیات رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کو حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم سے کتنی والہانہ اور عاشقانہ محبت تھی کہ جس چیز کو بھی حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم سے تعلق ہوجاتا تھا وہ چیز ان کی نظروں میں باعث تعظیم اور لائق احترام ہو جایا کرتی تھی کیوں نہ ہوکہ یہی ایمان کی نشانی ہے کہ مسلمان نہ صرف حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی ذات سے محبت کرے بلکہ حضور کی ہر ہر چیز سے بھی محبت کرے اور حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی ہر چیز کو اپنے لئے قابل تعظیم جانے اور اس کا ایمانی محبت کے ساتھ اعزاز واکرام کرے۔
" یہ زمانہ جاہلیت میں بہت بڑی مرثیہ گو شاعرہ تھیں یہاں تک کہ ''عکاظ'' کے میلے میں ان کے خیمے پر جو سائن بورڈ لگتا تھا اس پر ''ارثی العرب '' (عرب کی سب سے بڑی مرثیہ گو شاعرہ) لکھا ہوتا تھا یہ مسلمان ہوئیں اور حضرت امیر المومنین عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دربار خلافت میں بھی حاضر ہوئیں ان کی شاعری کا دیوان آج بھی موجود ہے اور علمائے ادب کا اتفاق ہے کہ مرثیہ کے فن میں آج تک خنساء کا مثل پیدا نہیں ہوا ان کے مفصل حالات علامہ ابو الفرج اصفہانی نے اپنی کتاب ''کتاب الاغانی'' میں تحریر کئے ہیں یہ صحابیت کے شرف سے سرفراز ہیں اور بے مثال شعر گوئی کے ساتھ یہ بہت ہی بہادر بھی تھیں محرم ۱۴ھ میں جنگ قادسیہ کے خوں ریز معرکہ میں یہ اپنے چار جوان بیٹوں کے ساتھ تشریف لے گئیں جب میدان جنگ میں لڑائی کی صفیں لگ گئیں اور بہادروں نے ہتھیار سنبھال لئے تو انہوں نے اپنے بیٹوں کے سامنے یہ تقریر کی کہ۔
''میرے پیارے بیٹو! تم اپنے ملک کو دوبھر نہ تھے نہ تم پرکوئی قحط پڑا تھا باوجود اس کے تم اپنی بوڑھی ماں کو یہاں لائے اور فارس کے آگے ڈال دیا۔ خدا کی قسم! جس طرح تم"
"ایک ماں کی اولاد ہو اسی طرح ایک باپ کی بھی ہو میں نے کبھی تمہارے باپ سے بد دیانتی نہیں کی نہ تمہارے ماموں کو رسوا کیا لو جاؤ آخر تک لڑو''۔
بیٹوں نے ماں کی تقریر سن کر جوش میں بھرے ہوئے ایک ساتھ دشمنوں پر حملہ کردیا جب نگاہ سے اوجھل ہو گئے تو حضرت خنساء رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہا کہ الٰہی عزوجل! تو میرے بچوں کا حافظ و ناصر ہے تو ان کی مدد فرما۔
چاروں بھائیوں نے انتہائی دلیری اور جاں بازی کے ساتھ جنگ کی یہاں تک کہ چاروں اس لڑائی میں شہید ہوگئے امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اس واقعہ سے بے حد متاثر ہوئے اور ان چاروں بیٹوں کی تنخواہیں ان کی ماں حضرت خنساء رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو عطا فرمانے لگے ۔"
(الاستیعاب ،باب النساء،باب الخاء ۳۳۵۱،خنساء بنت عمرو السلمیۃج۴،ص۳۸۷)
تبصرہ:۔خواتین اسلام! خدا کے لئے حضرت خنساء رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا دل اپنے سینوں میں پیدا کرو اور اسلام پر اپنے بیٹوں کو قربان کر دینے کا سبق اس دین دار اور جاں نثار عورت سے سیکھو جس کے جوش اسلام و جذبہ جہاد کی یاد قیامت تک فراموش نہیں کی جاسکتی (رضی اﷲ تعالیٰ عنہا)
یہ قبیلہ انصار کی ایک صحابیہ ہیں حضور اکرم صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم ان پربہت ہی مہربان تھے اور کبھی کبھی ان کے گھر بھی تشریف لے جاتے تھے اور ان کی زندگی ہی میں آپ نے ان کو شہادت کی بشارت دی اور ان کو شہیدہ کے لقب سے سرفراز فرمایا جنگ بدر کے موقع پر انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم! آپ مجھے بھی اس
جنگ میں چلنے کی اجازت دے دیجئے میں زخمیوں کی مرہم پٹی اور ان کی تیمار داری کروں گی شاید اﷲ تعالیٰ مجھے شہادت نصیب فرمائے یہ سن کر حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ تم اپنے گھر میں بیٹھی رہو اﷲ تعالیٰ تمہیں شہادت سے سرفراز فرمائے گا یقیناً تم شہیدہ ہو چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں ان کو ان کے گھر کے اندر ان کے ایک غلام اور لونڈی نے قتل کر دیا اور دونوں فرار ہوگئے امیرالمؤمنین حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو بڑا رنج و قلق ہوا اور آپ نے ان دونوں قاتلوں کو گرفتار کرایا اور مدینہ منورہ میں ان دونوں کو پھانسی دی گئی تھی ام ورقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی شہادت کی خبر سن کر حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ بے شک رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم سچے تھے کیونکہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم فرمایا کرتے تھے کہ چلو ام ورقہ شہیدہ کی ملاقات کر لیں چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ گھر بیٹھے ان کو شہادت نصیب ہوگئی ۔
(الاستیعاب ،کتاب النساء،باب الواو۳۶۵۸،أم ورقۃ بنت عبداللہ ج۴،ص۵۱۹)
تبصرہ:۔حضرت ام ورقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے شوق شہادت سے عبرت حاصل کرو۔
یہ حضرت غوث محی الدین عبدالقادرجیلانی رحمہ اﷲ کی پھوپھی ہیں بڑی عابدہ زاہدہ اور صاحب کرامات ولیہ تھیں ایک مرتبہ گیلان میں بالکل بارش نہیں ہوئی اور لوگ قحط سے پریشان حال ہو کر ان کی خدمت میں دعا کے لئے حاضر ہوئے تو آپ نے اپنے صحن میں جھاڑو دے کر آسمان کی طرف سر اٹھایا اور یہ کہا کہ۔
رَبِّ اَنَا کَنَسْتُ فَرُشَّ اَنْتَ۔
" یعنی اے پروردگار! میں نے جھاڑو دے دیا تو چھڑ کاؤ کر دے۔
اس دعا کے بعد فوراً ہی موسلا دھار بارش ہونے لگی اور اس قدر بارش ہوئی کہ لوگ نہال اور خوش حال ہوگئے ۔"
(بہجۃ الاسرار،ذکر نسبہ وصفتہٖ،ص۱۷۳)
تبصرہ:۔اﷲاکبر! خدا کے نیک بندوں اور نیک بندیوں کی ولایت اور کرامت کا کیا کہنا؟ جو لوگ اولیاء سے عقیدت و محبت نہیں رکھتے وہ بہت بڑے محروم بلکہ منحوس ہیں اس لئے ہر مسلمان مرد و عورت پر لازم ہے کہ ان بزرگوں سے عقیدت و محبت رکھے اور فاتحہ پڑھ کر ان کی نیاز دلا کر ان کی روحوں کو ثواب پہنچاتا رہے اور ان کو وسیلہ بنا کر خدا سے دعائیں مانگتا رہے اولیاء خدا کے محبوب اور پیارے بندے ہیں اس لئے جو مسلمان اولیاء سے الفت و عقیدت رکھتا ہے اﷲ تعالیٰ اس مسلمان سے خوش ہوکر اس کو اپنا پیارا بندہ بنا لیتا ہے اور طرح طرح کی نعمتوں اور دولتوں سے اس بندے کو مالامال اور خوش حال بنادیتا ہے اس قسم کے ہزاروں واقعات ہیں کہ اگر ان کو لکھا جائے تو کتاب بہت موٹی ہو جائے گی۔
یہ بہت ہی عبادت گزار اور پرہیز گار خدا کی نیک بندی تھیں حضرت ام المؤمنین بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی حدیث میں شاگرد ہیں دن رات میں چھ سو رکعات نفل پڑھاکرتی تھیں اور رات بھرنوافل اورخدا کی یاد میں مصروف رہ کر جاگتی تھیں خدا کے خوف سے کبھی آسمان کی طرف سر اٹھاکر نہیں دیکھتی تھیں دن میں کبھی کبھی جب بہت زیادہ نیند کا غلبہ ہوتا تھا تو گھنٹہ دو گھنٹہ سو لیا کرتی تھیں اور اپنے نفس سے کہاکرتی تھیں کہ ابھی کیوں سوئیں؟ یہ تو عمل کا وقت ہے جاگ کر جتنا ہو سکے اچھے اچھے عمل کرلینا چاہے موت کے بعد
"جب عمل کا وقت نہیں رہے گا پھر تو قیامت تک سونا ہی ہے کبھی کہا کرتی تھیں کہ میں کیوں سوؤں؟ کیا معلوم کب موت آجائے کہیں ایسا نہ ہوکہ میں سوتی رہ جاؤں اور خدا کی یاد سے غافل رہتے ہوئے میرا دم نکل جائے غرض ان پر خوف خدا کا بہت زیادہ غلبہ تھا جو ولایت کی خاص نشانی ہے اﷲ تعالیٰ ہر مسلمان کو یہ دولت نصیب فرمائے (آمین)
تبصرہ:۔اﷲ کی بندیو! آنکھیں کھولو اور دیکھو کہ کیسی کیسی نیک بیبیاں اس دنیا میں ہوگئیں کیا تم میں بھی نیک بننے کا کوئی شوق ہے؟ ہائے افسوس! آج کل کی مسلمان عورتوں کی زندگی اور ان کی غفلتوں اور بد اعمالیوں کو دیکھ دیکھ کر ڈر لگتا ہے کہ کہیں ان گناہوں کی نحوست سے خدا کا عذاب نہ اتر پڑے اے سینما دیکھ دیکھ کر جاگنے والیو! کیا خدا کے خوف سے بھی تم کبھی جاگتی رہی ہو اور اے ناول اور جھوٹے افسانے پڑھنے والیو! کیا تمہیں اس کی بھی توفیق ہوئی کہ قرآن اور دینی و ایمانی کتابیں پڑھو؟ سوچو اور عبرت پکڑو اور اپنی حالتوں کو بدلو اور یہ نہ بھولو کہ دنیا کی زندگی چند روزہ اور آنی فانی ہے لہٰذا جلد کچھ آخرت کا کام کر لو۔"
یہ وہ نیک بی بی اور کرامت والی ولیہ ہیں کہ تمام دنیا میں ان کی دھوم مچی ہوئی ہے یہ دن رات خدا کے خوف سے رویا کرتی تھیں اگر ان کے سامنے کوئی جہنم کا ذکر کر دیتا تو یہ مارے خوف کے بے ہوش ہو جایا کرتی تھیں بہت زیادہ نفلی نمازیں پڑھا کرتی تھیں خدا نے ان کا دل اس قدر روشن کر دیا تھا کہ ہزاروں میل کے واقعات کی ان کو خبر ہو جایا کرتی تھی بلکہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کرتی تھیں بڑے بڑے بزرگان دین ان سے دعا لینے کے لئے ان کی خدمت میں حاضری دیا کرتے تھے ان کی کرامتیں اور ان کے اقوال بہت زیادہ ہیں جو عام طور پر مشہور ہیں۔
یہ بڑی اﷲ والی ہوئی ہیں مصر کے ایک بہت بڑے بزرگ حضرت ذوالنون مصری علیہ الرحمۃ فرمایا کرتے تھے کہ اس اﷲ والی نیک بی بی سے مجھے بہت زیادہ فیض ملا ہے حضرت خواجہ بایزید بسطامی رحمۃ اﷲ تعالی علیہ کا بیان ہے کہ فاطمہ کے برابر بزرگی میں کوئی عورت میری نظر سے نہیں گزری وہ یہ فرمایا کرتی تھیں کہ جو خدا کی یاد سے غافل ہو جاتا ہے وہ تمام گناہوں میں پڑ جاتا ہے جو منہ میں آتا ہے بک ڈالتا ہے اور جو دل چاہتا ہے کر بیٹھتا ہے اورجو خدا کی یاد میں مصروف رہتا ہے وہ فضول کاموں اور گناہ کی باتوں کے کرنے اور بولنے سے محفوظ رہتا ہے مکہ مکرمہ میں عمرہ کے راستہ میں۲۲۳ھ میں ان کی وفات ہوئی۔
یہ بھی بہت بلند مرتبہ اور باکرامت ولیہ ہیں حضرت بشر حافی رحمۃ اﷲ تعالی علیہ جو بہت بڑے محدث اور صاحب کرامت ولی ہیں ان کی ملاقات کے لئے جایا کرتے تھے ایک مرتبہ حضرت بشر حافی رحمۃ اﷲ تعالی علیہ بیمار ہوگئے تو حضرت آمنہ رملیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا ان کی بیمار پرسی کے لئے گئیں اتفاق سے اسی وقت حضرت امام احمد رحمۃ اﷲ تعالی علیہ بھی عیادت کے لئے آگئے جب ان کو پتا چلا کہ بی بی آمنہ رملیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا آئی ہوئی ہیں تو حضرت امام احمد رحمۃ اﷲ تعالی علیہ نے حضرت بشر حافی رحمۃ اﷲ تعالی علیہ سے کہا کہ ان بی بی صاحبہ سے ہمارے حق میں دعا کرایئے چنانچہ حضرت بی بی آمنہ رملیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے اس طرح دعا مانگی کہ یا اﷲعزوجل! بشرحافی اور احمد بن حنبل کو جہنم کے عذاب سے امان دے۔ حضرت امام احمد بن حنبل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ اسی رات کو ایک پرچہ آسمان سے ہمارے آگے گرا جس میں بسم اﷲ کے بعد یہ لکھا ہوا تھا کہ ہم نے بشر حافی اور احمد بن حنبل کو دوزخ
کے عذاب سے امان دے دی اور ہمارے یہاں ان دونوں کے لئے اور بھی نعمتیں ہیں۔
" یہ پاک باطن عورت بھی اپنے زمانے کی ایک بہت ہی مشہور کرامت والی ولیہ ہیں ان کے زمانے کے ایک بہت بلند مرتبہ باکرامت ولی حضرت عبدالواحد بن زید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے خدا سے یہ دعا مانگی کہ یااﷲعزوجل! جنت میں دنیا کی جو عورت میری بیوی بنے گی مجھے وہ عورت دنیا ہی میں ایک مرتبہ دکھا دے خدا نے میرے دل میں یہ بات ڈال دی کہ وہ عورت ''میمونہ سوداء'' ہے اور وہ کوفہ میں رہتی ہے چنانچہ میں کوفہ گیا اور جب لوگوں سے اس کا پتا ٹھکانا پوچھا تو معلوم ہوا کہ وہ ایک دیوانی عورت ہے جو جنگل میں بکریاں چراتی ہے میں اس کی تلاش میں جنگل کی طرف گیا تو یہ دیکھا کہ وہ کھڑی ہوئی نماز پڑھ رہی ہیں اور بھیڑیے اور بکریاں ایک ساتھ چل پھر رہے ہیں جب وہ نماز سے فارغ ہوئیں تو مجھ سے فرمایا کہ اے عبدالواحد! جاؤ ہماری تمہاری ملاقات بہشت میں ہوگی مجھے بے حد تعجب ہوا کہ ان بی بی صاحبہ کو میرا نام اور میرے آنے کا مقصد کیسے معلوم ہوگیا مجھے یہ خیال آیا ہی تھا کہ انہوں نے کہا کہ اے عبدالواحد! کیا تم کو معلوم نہیں کہ روز ازل میں جن جن روحوں کو ایک دوسرے کی پہچان ہوگئی ہے ان میں دنیا کے اندر الفت و محبت پیدا ہوجایا کرتی ہے پھر میں نے پوچھا کہ بھیڑیوں اور بکریوں کو میں ایک ساتھ چرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں یہ کیا معاملہ ہے؟ یہ سن کرانہوں نے جواب دیا کہ جایئے اپنا کام کیجئے مجھے نماز پڑھنے دیجئے میں نے اپنا معاملہ اﷲ تعالیٰ سے درست کر لیا ہے اس لئے اﷲ تعالیٰ نے میری بکریوں کا معاملہ بھیڑیوں کے ساتھ درست کردیا ہے۔
تبصرہ:۔ماں بہنو! یہ مختلف زمانوں کی پچپن باکمال عورتوں کا تذکرہ ہم نے لکھ دیا ہے"
تاکہ مسلمان عورتیں ان اﷲ والیوں کے حالات و واقعات کو پڑھ کر عبرت اور سبق حاصل کریں اور اپنی اصلاح کر کے دونوں جہان کی صلاح و فلاح حاصل کرنے کا سامان کریں خداوند کریم اپنے حبیب علیہ الصلوۃ والتسلیم کے طفیل میں سب کو ہدایت دے اور سب کو صراط مستقیم پر چلا کر خاتمہ بالخیر نصیب فرمائے (آمین)
"محشر میں بخشی جائیں گی سب نیک بیبیاں جنت خدا سے پائیں گی سب نیک بیبیاں
حوران خلد آنکھیں بچھائیں گی راہ میں جنت میں جب کہ جائیں گی سب نیک بیبیاں
ہر ہر قدم پر نعرہ تکبیر و مرحبا اعزاز ایسا پائیں گی سب نیک بیبیاں
کوثر بھی سلسبیل بھی پیتی رہیں گی یہ جنت کے میوے کھائیں گی سب نیک بیبیاں
حق تعالی ٰ کا ہوگا انہیں دیدار نصیب انوار میں نہائیں گی سب نیک بیبیاں
تاروں میں جیسے چاند کی ہوتی ہے روشنی اس طرح جگمگائیں گی سب نیک بیبیاں
جنت کے زیورات بہشتی لباس میں سج دھج کے مسکرائیں گی سب نیک بیبیاں
جنت کی نعمتوں میں مگن ہو کے وجد میں نغمات شوق گائیں گی سب نیک بیبیاں"
"اے بیبیو! نماز پڑھو نیکیاں کرو انعام خلد پائیں گی سب نیک بیبیاں
تم اعظمی کے پند و نصائح کو مان لو جلوہ تمہیں دکھائیں گی سب نیک بیبیاں"
"یہ آسمانِ ہدایت کے چند تارے ہیں
خدا کرے تمہیں مل جائے روشنی ان سے"
" اس زمانے میں سینکڑوں تعلیم یافتہ لڑکے اور لڑکیا ں ملازمت نہ ملنے کی وجہ سے ادھر اُدھر مارے مارے پھرتے ہیں اور اپنا خرچ چلانے سے عاجز ہیں۔ اسی طرح بعض لاوارث غریب عورتیں خصوصاً بیوہ عورتیں جن کے کھانے کپڑے کا کوئی سہارا نہیں ایسی پریشانیوں اور مصیبتوں میں مبتلا ہیں کہ خدا کی پناہ اس کا بہترین علاج یہ ہے کہ ہر لڑکا اور ہر لڑکی کوئی نہ کوئی دستکاری اور اپنے ہاتھ کا ہنر ضرور سیکھ لے۔ مگر افسوس کہ ہندوستان کے بعض جاہل مسلمان خصوصاً شرفاء کہلانے والے دستکاری اور ہاتھ کے ہنر کو عیب سمجھتے ہیں بلکہ ہاتھ کے ہنر سے پیشہ کرنے والوں کو حقیر و ذلیل شمار کر کے ان پر طعنہ بازی کرتے رہتے ہیں اور پیشہ ور لوگوں کا مذاق اڑایا کرتے ہیں۔ حد ہوگئی کہ مکر و فریب کر کے رشوت خوروں کی دلالی کر کے یہاں تک کہ چوری کر کے اور بھیک مانگ کر کھانا ان بدبختوں کو گوارا ہے مگر کوئی دست کاری اور پیشہ کرنا ان کو قبول و منظور نہیں۔
عزیز بھائیو اور پیاری بہنو! سن لو کہ دستکاری اور اپنے ہاتھوں کی کمائی اسلام میں بہترین کمائی شمار کی گئی ہے بلکہ قرآن و حدیث میں اس کو نبیوں اور رسولوں کا طریقہ بتایا گیا ہے چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ کوئی کھانا کبھی اس کھانے سے اچھا اور بہتر نہیں ہوگا جس"
کو آدمی اپنے ہاتھ کے ہنر کی کمائی سے کما کر کھائے اور اﷲعزوجل کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ کے ہنر کی کمائی کھاتے تھے یعنی لوہے کی زرہیں بنایا کرتے تھے ۔
(صحیح البخاری،کتاب البیوع،باب کسب الرجل وعملہ بیدہ،رقم ۲۰۷۲،ج۲،ص۱۱)
اس لیے ماں بہنو! خبردار، خبردار کبھی ہر گز ہر گز کسی دستکاری اور اپنے ہاتھ کے ہنر کو حقیر و ذلیل مت سمجھو، اور اگر کوئی نادان اس کو حقیر سمجھے اور اس کا مذاق اڑائے تو ہر گز اس کی پروا مت کرو، اور ضرور کوئی نہ کوئی ہنر سیکھ لو۔ کہ یہ خدا کے پیارے نبیوں کی صفت ہے اور حلال کمائی حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ یہ ہمارے رسول صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم كا فرمان ہے اس لئے اس پر جی جان سے عمل کرو۔
حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے ہاتھ سے کھیتی کی حضرت ادریس علیہ السلام نے لکھنے اور درزی کا کام کیا۔ حضرت نوح علیہ السلام نے لکڑی تراش کر کشتی بنائی ہے جو کہ بڑھئی کا پیشہ ہے حضرت ذوالقرنین جو بہت بڑے بادشاہ تھے اور بعض مفسّرین نے ان کو نبی بھی کہا ہے وہ زنبیل یعنی ڈلیا اور ٹوکری بنایا کرتے تھے حضرت ابراہیم علیہ السلام کھیتی کرتے تھے۔ اور آپ نے اپنے ہاتھوں سے خانہ کعبہ کی تعمیر کی جو معماری کا کام ہے حضرت اسماعیل علیہ السلام اپنے ہاتھوں سے تیر بنایا کرتے تھے حضرت یعقوب علیہ السلام اور ان کی اولاد بکریاں چَراتے تھے اور بکریاں پال پال کر ان کو بیچا کرتے تھے حضرت ایوب علیہ السلام بھی اونٹ اور بکریاں چراتے تھے حضرت داؤد علیہ السلام لوہے کی زرہیں بنایا کرتے تھے جو لوہار کا کام ہے حضرت سلیمان علیہ السلام زنبیل بنایا کرتے تھے حضرت زکریا علیہ السلام بڑھئی کا کام کرتے تھے حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک دوکاندار کے ہاں کپڑا رنگتے تھے اور خود ہمارے رسول صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم اور تمام نبیوں نے بکریاں چرائی ہیں۔
اگر چہ ان مقدس پیغمبروں کا گزر بسران چیزوں پر نہیں تھا مگر یہ تو قرآن مجید اور حدیثوں سے ثابت ہے کہ ان پیغمبروں نے ان کاموں کو کیا ہے اور ان دھندوں کو عار اور عیب نہیں سمجھا ہے اسی طرح بڑے بڑے اولیاء اور فقہاء ومحدثین میں سے بعض نے کپڑا بنا ہے کسی نے چمڑے کا کام کیا ہے کسی نے جوتا بنانے کا پیشہ کیا ہے کسی نے مٹھائی بنانے کا دھندا کیا ہے کسی نے درزی کا کام کیا ہے۔
" لڑکوں کے لیے بعض آسان دستکاریاں اور پیشے یہ ہیں سلائی کا ہنر، اور مشین سے کپڑے سینا، کپڑا بننا، سائیکلوں اور موٹروں کی مرمت کرنا بجلی کی فٹنگ کرنا، بڑھئی کا کام، لوہار، معمار اور سنار کا کام کرنا، ٹائپ کرنا، کتابت کرنا، پریس چلانا، کپڑوں کی رنگائی چھپائی، دھلائی کرنا، کھیتی کرنا۔
لڑکیوں کے لئے آسان دستکاریاں یہ ہیں سوئٹر بننا، اونی اور سوتی موزے بنانا، چکن کا ڑھنا، ٹوپیاں اور کپڑے سی سی کر بیچنا، سوت کاتنا، چوٹیاں بنانا، رسی بٹنا، چارپائی بننا، کتابوں کی جلد بنانا، اچار، چٹنی مربے وغیرہ بنا کر بیچنا۔
لڑکے اور لڑکیاں ان پیشوں اور ہنروں کو اگر سیکھ لیں تو وہ کبھی بھی ان شاء اﷲتعالیٰ اپنی روزی روٹی کے لئے محتاج نہ رہیں گے۔"
حضور انورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ:
اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِّسَانِہٖ وَیَدِہٖ۔
(صحیح البخاری،کتاب الایمان،باب المسلم من سلم المسلمون من لسانہٖ ویدہٖ،رقم ۱۰،ج۱،ص۱۵ )
یعنی مسلمان کا اسلامی نشان یہ ہے کہ تمام مسلمان اس کی زبان اور اس کے ہاتھ
"سے سلامت رہیں۔
مطلب یہ ہے کہ وہ کسی مسلمان کو کوئی تکلیف نہ دے اور حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے یہ بھی فرمایا کہ مسلمان کو چاہیئے کہ وہ جو کچھ اپنے لیے پسند کرتا ہے وہی اپنے اسلامی بھائیوں کے لیے بھی پسند کرئے۔"
(صحیح البخاری،کتاب الایمان،باب من الایمان ان یحب لاخیہ ما یحب لنفسہ،رقم ۱۳،ج۱،ص۱۶)
" ظاہر ہے کہ کوئی شخص بھی اپنے لیے یہ پسند نہیں کریگا کہ وہ تکلیفوں میں مبتلا ہو اور دکھ اٹھائے تو پھر فرمانِ رسول صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے مطابق ہر شخص پر یہ لازم ہے کہ وہ اپنے کسی قول و فعل سے کسی کو ایذا اور تکلیف نہ پہنچائے اس لیے مندرج ذیل باتوں کا خاص طور پر ہر مسلمان کو خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔
(۱)کسی کے گھر مہمان جاؤ یا بیمار پرسی کے لیے جانا ہو تو اس قدر زیادہ دنوں تک یا اتنی دیر تک نہ ٹھہرو کہ گھر والا تنگ ہو جائے اور تکلیف میں پڑ جائے۔
(۲)اگر کسی کی ملاقات کے لیے جاؤ تو وہاں اتنی دیر تک مت بیٹھو یا اس سے اتنی زیادہ باتیں نہ کرو کہ وہ اکتا جائے یا اس کے کام میں حرج ہونے لگے کیونکہ اس سے یقیناً اس کو تکلیف ہوگی۔
(۳)راستوں میں چارپائی یا کرسی یا کوئی دوسرا سامان برتن یا اینٹ پتھر وغیرہ مت ڈالو کیونکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لوگ روزانہ کی عادت کے مطابق بے کھٹکے تیزی کے ساتھ چلے آتے ہیں اور ان چیزوں سے ٹھوکر کھا کر الجھ کر گر پڑتے ہیں بلکہ خود ان چیزوں کو راستوں میں ڈالنے ولا بھی رات کے اندھیرے میں ٹھوکر کھا کر گرتا ہے اور چوٹ کھا جاتا ہے۔
(۴)کسی کے گھر جاؤ تو جہاں تک ہوسکے ہرگز ہرگز اس سے کسی چیز کی فرمائش نہ کرو"
"بعض مرتبہ بہت ہی معمولی چیز بھی گھر میں موجود نہیں ہوتی اور وہ تمہاری فرمائش پوری نہیں کرسکتا ایسی صورت میں اس کو شرمندگی اور تکلیف ہوگی اور تم کو بھی اس سے کوفت اورتکلیف ہوگی کہ خواہ مخواہ میں نے اس سے ایک گھٹیا درجے کی چیز کی فرمائش کی اور زبان خالی گئی۔
(۵)ہڈی یا لوہے شیشے وغیرہ کے ٹکڑوں یا خار دارشاخوں کو نہ خود راستوں میں ڈالو نہ کسی کو ڈالنے دو اور اگر کہیں راستوں میں ان چیزوں کو دیکھو تو ضرور راستوں سے ہٹا دو ورنہ راستہ چلنے والوں کو ان چیزوں کے چبھ جانے سے تکلیف ہو گی اور ممکن ہے کہ غفلت میں تمہیں کو تکلیف پہنچ جائے اسی طرح کیلے اور خربوزہ وغیرہ کے چھلکوں کو راستوں پر نہ ڈالو ورنہ لوگ پھسل کر گریں گے۔
(۶)کھانا کھاتے وقت ایسی چیزوں کا نام مت لیا کرو جس سے سننے والوں کو گھن پیدا ہو کیونکہ بعض نازک مزاج لوگوں کو اس سے بہت تکلیف ہو جایا کرتی ہے۔
(۷)جب آدمی بیٹھے ہوئے ہوں تو جھاڑو مت دلواؤ کیونکہ اس سے لوگوں کو تکلیف ہوگی۔
(۸) تمہاری کوئی دعوت کرے تو جتنے آدمیوں کو تمہارے ساتھ اس نے بلایا ہے خبردار اس سے زیادہ آدمیوں کو لے کر اس کے گھر نہ جاؤ شاید کھانا کم پڑ جائے تو میزبان کو شرمندگی اور تکلیف ہوگی اور مہمان بھی بھوک سے تکلیف اٹھائیں گے۔
(۹) اگر کسی مجلس میں دو آدمی پاس پاس بیٹھے باتیں کر رہے ہوں تو خبردار تم ان دونوں کے درمیان میں جا کر نہ بیٹھ جاؤ کہ ایسا کرنے سے ان دونوں ساتھیوں کو تکلیف ہوگی۔
(۱۰)عورت کو لازم ہے کہ اپنے شوہر کے سامنے کسی دوسرے مرد کی خوبصورتی یا اس کی"
"کسی خوبی کا ذکر نہ کرے کیونکہ بعض شوہروں کو اس سے تکلیف ہوا کرتی ہے اسی طرح مرد کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی بیوی کے سامنے کسی دوسری عورت کے حسن و جمال یا اس کی چال ڈھال کا تذکرہ اور تعریف نہ کرے کیونکہ بیوی کو اس سے تکلیف پہنچے گی۔
(۱۱) کسی دوسرے کے خط کو کبھی ہرگز نہ پڑھا کرو ممکن ہے خط میں کوئی ایسی راز کی بات ہو جس کو وہ ہر شخص سے چھپانا چاہتا ہو تو ظاہر ہے کہ تم خط پڑھ لو گے تو اس کو تکلیف ہوگی۔
(۱۲)کسی سے اس طرح کی ہنسی مذاق نہ کرو جس سے اس کو تکلیف پہنچے اسی طرح کسی کو ایسے نام یا القاب سے نہ پکار و جس سے اس کو تکلیف پہنچتی ہو قرآن مجید میں اس کی سخت ممانعت آئی ہے۔
(۱۳)جس مجلس میں کسی عیبی آدمی کے عیب کا ذکر کرنا ہو تو پہلے دیکھ لو کہ وہاں اس قسم کا کوئی آدمی تو نہیں ہے ورنہ اس عیب کا ذکر کرنے سے اس آدمی کو تکلیف اور ایذاء پہنچے گی۔
(۱۴) دیواروں پر پان کھا کر نہ تھوکو کہ اس سے مکان والے کو بھی تکلیف ہوگی اور ہر دیکھنے والے کو بھی گھن پیدا ہوگی۔
(۱۵)دو آدمی کسی معاملہ میں بات کرتے ہوں اور تم سے کچھ پوچھتے گچھتے نہ ہوں تو خواہ مخواہ تم ان کو کوئی رائے مشورہ نہ دو ایسا ہر گز نہیں کرنا چاہے یہ تکلیف دینے والی بات ہے۔
بہر حال خلاصہ یہ ہے کہ تم اس کوشش میں لگے رہو کہ تمہارے کسی قول یا فعل یا طریقے سے کسی کو کوئی تکلیف نہ پہنچے اور تم خود بلا ضرورت خواہ مخواہ کسی تکلیف میں پڑو۔"
(۱)سفر میں روانہ ہونے سے پہلے پیشاب و پاخانہ وغیرہ ضروریات سے فراغت حاصل کرلو۔
"(۲)اکیلے سفر کرنا خصوصاً خطروں کے دور میں اچھا نہیں ایک دو رفقاء سفر میں ساتھ ہوں تاکہ وقت ضرورت ایک دوسرے کی مدد کریں یہ مسنون طریقہ ہے۔
(۳)سفر میں کم سے کم سامان ہو یہ آرام دہ اور اچھا ہے بعض عورتوں میں یہ عیب ہے کہ وہ سفر میں بہت زیادہ سامان لادلیا کرتی ہیں جس سے بہت زیادہ تکلیف اٹھانی پڑتی ہے خاص کر سب سے زیادہ مصیبت مردوں کو اٹھانی پڑتی ہے تمام سامانوں کو سنبھالنا لادنا اتارنا مزدوری کے پیسے دینا یہ ساری بلائیں مردوں کے سروں پر نازل ہوتی ہیں عورتیں تو اچھی خاصی بے فکر بیٹھی رہتی ہیں پان چباتی رہتی ہیں اور باتیں بناتی رہتی ہیں۔
(۴)لڑاکا اور جھگڑالو آدمیوں کے ساتھ ہرگز سفر نہ کیا کرو ہر قدم پرکوفت اور تکلیف اٹھاؤ گے۔
(۵) سفر میں جب تم کسی کے مہمان بنو تو سب سے پہلے پیشاب پاخانہ کی جگہ معلوم کر لو۔
(۶)سفر میں مطالعہ کے لیے کوئی کتاب چند کارڈ لفافے پنسل سادہ کاغذ لوٹا گلاس مصلّٰی چاقو سوئی دھاگہ کنگھا آئینہ ضرور ساتھ رکھ لو اگر میزبان کے گھر بستر ملنے کی امید ہو تو خیر ورنہ مختصر بستر بھی ہونا چاہیۓ۔
(۷)جہاں جانا ہو وہاں دن میں اور جلد پہنچنا چاہیۓبعض مردوں اور عورتوں میں یہ عیب ہے کہ خواہ شہر میں یا سفر میں کہیں بھی جانا ہو تو ٹالتے ٹالتے بہت دیر کر دیتے ہیں بعض کی گاڑیاں چھوٹ جاتی ہیں اور بلا وجہ تاخیر سے منزل مقصود پر پہنچتے ہیں اور سارا پروگرام بگڑجاتا ہے۔"
رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ جس شخص کو یہ بات اچھی لگتی ہو کہ وہ اﷲعزوجل اور اس کے رسول صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا محب بن جائے یا اﷲعزوجل اور اس کے رسول کا محبوب بن جائے تو اس کو چاہیۓکہ ہمیشہ سچی بات بولے اور جب اس کو کسی چیز کا امین بنا دیا
جائے تو وہ اس امانت کو ادا کرے اور اپنے تمام پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔
(شعب الایمان،باب فی تعظیم النبی صلی اللہ علیہ وسلم واجلالہٖ ۔۔۔الخ،رقم ۱۵۳۳،ج۲،ص۲۰۱)
رسول اکرم صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص کسی مسلمان کے عیب کو دیکھ لے اور پھر اس کی پردہ پوشی کرے تو اس کو اﷲ تعالیٰ اتنا بڑا ثواب عطا فرمائے گا جیسے کہ زندہ درگور کی ہوئی بچی کو کوئی قبر سے نکال کر اس کی پرورش اور اس کی زندگی کا سامان کردے
(مشکاۃ المصابیح،کتاب الآداب ،باب الشفقۃ والرحمۃ،رقم۴۹۸۴،ج۳،ص۷۵)
ایک شخص نے دربار رسالت صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم میں یہ شکایت کی کہ میرا دل سخت ہے تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ تم یتیم کے سر پر ہاتھ پھیر و اور مسکین کو کھانا کھلاؤ۔
(الترغیب والترہیب، کتاب البر والصلۃ،باب فی کفالۃ الیتیم ورحمتہٖ۔۔۔الخ،رقم ۱۵،ج۳،ص۲۳۷)
رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ جو جوان آدمی کسی بوڑھے کی تعظیم اس کے بڑھاپے کی بنا پر کریگا تو اﷲ تعالیٰ اس کے بڑھاپے کے وقت کچھ ایسے لوگوں کو تیار فرمادے گا جو بڑھاپے میں اس کا اعزازو اکرام کریں گے۔
(جامع الترمذی،کتاب البر والصلۃ،باب ماجاء فی اجلال الکبیر،رقم ۲۰۲۹،ج۳،ص۴۱۱)
حضور اکرم صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ مسلمانوں کے گھروں میں سب سے بہترین گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم رہتا ہو اور اس کے ساتھ بہترین سلوک کیا جاتا ہو اور
مسلمانوں کے گھروں میں سے بدترین گھر وہ ہے کہ اس میں کوئی یتیم ہواور اس کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہو۔
(سنن ابن ماجہ،کتاب الادب،باب حق الیتیم،رقم ۳۶۷۹،ج۴،ص۱۹۳)
غرور یا گھمنڈ یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو علم میں یا عبادت میں دیانتداری یا حسب نسب میں یامال و سامان میں یا عزت و آبرو میں یا کسی اور بات میں دوسروں سے بڑا سمجھے اور دوسروں کو اپنے سے کم اور حقیر جانے یہ بہت بڑا گناہ اور نہایت ہی قابل نفرت خصلت ہے حدیث شریف میں ہے کہ جس کے دل میں رائی کے برابر ایمان ہوگا وہ جہنم میں (ہمیشہ کے لیے) نہیں جائے گا اور جس کے دل میں رائی کے برابر تکبر ہوگا وہ جنت میں سزا بھگتنے کے بعد داخل ہوگا۔
(صحیح مسلم ، کتاب الایمان،باب تحریم الکبر، رقم ۹۱،ص۶۰)
اسی طرح ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ہر سرکش اور سخت دل اور متکبر جہنمی ہے ۔
(صحیح مسلم ، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا،باب الناریدخلھا الجبارون...الخ،رقم ۲۸۵۳،ص۱۵۲۷)
اسی طرح ایک تیسری حدیث میں رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا ارشاد ہے کہ تین آدمی وہ ہیں کہ اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن نہ ان سے بات کریگا نہ ان کی طرف رحمت کی نظر فرمائے گا نہ انہیں گناہوں سے پاک کریگا بلکہ ان لوگوں کو دردناک عذاب دے گا ایک بوڑھا زناکاردوسرے جھوٹا بادشاہ تیسرے متکبر فقیر۔
(صحیح مسلم ، کتاب الایمان،باب بیان غلظ تحریم اسبال ۔۔۔الخ،رقم ۱۰۷،ص۶۸)
دنیا کے لوگ بھی مغرور اور گھمنڈی مردوں اور عورتوں کو بڑی حقارت کی نظروں سے دیکھتے ہیں اور نفرت کرتے ہیں یہ اور بات ہے کہ اس کے ڈر سے اور اس کے فتنوں سے
"بچنے کے لیے ظاہر میں لوگ اس کی آؤ بھگت کر لیتے ہیں مگر دل میں اس کو انتہائی برا سمجھ کر اس سے بے انتہا نفرت کرتے ہیں اور اس کے دشمن ہوتے ہیں چنانچہ جب متکبر آدمی پر کوئی مصیبت آن پڑتی ہے تو کسی کے دل میں ہمدردی اور مروت کا جذبہ نہیں پیدا ہوتا بلکہ لوگوں کو ایک طرح کی خوشی ہوتی ہے بہر حال گھمنڈ وغرور اور شیخی مارنا جیسا کہ اکثر مالدار مردوں اور عورتوں کا طریقہ ہے یہ بہت بڑا گناہ اور بہت ہی خراب عادت ہے۔
اگر آدمی اتنی بات سوچ لے کہ میں ایک ناپاک قطرہ سے پیدا ہوا ہوں اور میرے پاس جو بھی مال یا کمال ہے وہ سب اﷲ تعالیٰ کا دیا ہوا ہے اور وہ جب چاہے ایک سیکنڈ میں سب لے لے پھر میں گھمنڈ کس بات پر کروں اور اپنی کون سی خوبی پر شیخی ماروں تو ان شاء اﷲ یہ بُری خصلت اور خراب عادت بہت جلد چھوٹ جائے گی۔"
حدیث شریف میں ہے کہ بڑھیا عورتوں اور مسکینوں کی خدمت کرنے کا ثواب اتنا ہی بڑا ہے جتنا کہ خدا کی راہ میں جہاد کرنے والے کو اور ساری رات عبادت میں مستعدی کے ساتھ کھڑے ہونے والے کو اور لگاتار روزے رکھنے والے کو ثواب ملتا ہے۔
(صحیح البخاری،کتاب النفقات،باب فضل النفقۃ علی الاھل، رقم ۵۳۵۳،ج۳،ص۵۱۱)
رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص تین لڑکیوں کی اس طرح پرورش کرے کہ ان کو ادب سکھائے اور ان پر مہربانی کا برتاؤ کرے تواﷲ تعالیٰ اس کو ضرور جنت میں داخل فرمائے گا یہ ارشاد نبوي صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم سن کر صحابہ کرام علیھم الرضوان نے عرض کیا کہ اگر کوئی شخص دو لڑکیوں کی پرورش کرے؟تو ارشاد فرمایا کہ اس کے
لیے بھی یہی اجروثواب ہے یہاں تک کہ کچھ لوگوں نے سوال کیا کہ اگر کوئی شخص ایک ہی لڑکی کو پالے تو جواب میں آپ نے فرمایا کہ اس کے لیے بھی یہی ثواب ہے۔
(شرح السنۃ،کتاب البر والصلۃ،باب ثواب کافل الیتیم،رقم ۳۳۵۱،ج۶،ص۴۵۲)
حضور اکرم صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے سنا کہ وہاں کوئی شخص قرآن مجید کی قرأ ت کررہا ہے جب میں نے دریافت کیا کہ قرأت کرنے والا کون ہے؟ تو فرشتوں نے بتایا کہ آپ کے صحابی حارثہ بن نعمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہیں حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ اے میرے صحابیو! دیکھ لو یہ ہے نیکو کاری اور ایسا ہوتا ہے اچھے سلوک کا بدلہ حضرت حارثہ بن نعمان رضی اﷲ تعالی عنہ سب لوگوں سے زیادہ بہترین سلوک اپنی ماں کے ساتھ کرتے تھے۔
(شرح السنۃ،کتاب البر والصلۃ،باب بر الوالدین،رقم ۳۳۱۲۔۳۳۱۳،ج۶،ص۴۲۶)
اور دوسری حدیث میں ہے کہ خدا کی خوشی باپ کی خوشی میں اور خدا کی ناراضگی باپ کی ناراضگی میں ہے۔
(السنن الترمذی،کتاب البر والصلۃ،باب ماجاء من الفضل فی رضا الوالدین،رقم ۱۹۰۷،ج۳،ص۳۶۰)
حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالی عنہا نے بیان فرمایا کہ میرے پاس ایک عورت اپنی دو بیٹیوں کو لے کر بھیک مانگنے کے لیے آئی تو ایک کھجور کے سوا اس نے میرے پاس کچھ نہیں پایا وہی ایک کھجور میں نے اس کو دے دی تو اس نے اس ایک کھجور کو اپنی دونوں بیٹیوں کے درمیان تقسیم کردیا اور خود نہیں کھایا اور چلی گئی اس کے بعد جب رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم مکان میں تشریف لائے اور میں نے اس واقعہ کا تذکرہ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم سے
کیا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص ان بیٹیوں کے ساتھ مبتلا کیا گیا اس نے ان بیٹیوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو یہ بیٹیاں اس کے لیے جہنم سے پردہ اور آڑ بن جائیں گی۔
(صحیح مسلم ،کتاب البر والصلۃ والآداب،باب فضل الاحسان الی البنات،رقم ۲۶۲۹،ص۱۴۱۴)
"(۱)اس خیال میں ہمیشہ مگن رہنا کہ جوانی اور تندرستی ہمیشہ رہے گی
(۲)مصیبتوں میں بے صبر بن کر چیخ پکار کرنا
(۳)اپنی عقل کو سب سے بڑھ کر سمجھنا
(۴)دشمن کو حقیر سمجھنا
(۵)بیماری کو معمولی سمجھ کر شروع میں علاج نہ کرنا
(۶) اپنی رائے پر عمل کرنا اور دوسروں کے مشوروں کو ٹھکرا دینا
(۷)کسی بدکار کو باربار آزماکر بھی اس کی چاپلوسی میں آجانا
(۸)بیکاری میں خوش رہنا اور روزی کی تلاش نہ کرنا
(۹)اپنا راز کسی دوسرے کو بتا کر اسے پوشیدہ رکھنے کی تاکید کرنا
(۱۰)آمدنی سے زیادہ خرچ کرنا
(۱۱)لوگوں کی تکلیف میں شریک نہ ہونا اور ان سے امداد کی امید رکھنا
(۱۲)ایک دو ہی ملاقات میں کسی شخص کی نسبت کوئی اچھی یا بری رائے قائم کرلینا (۱۳)والدین کی خدمت نہ کرنا اور اولاد سے خدمت کی امید رکھنا
(۱۴)کسی کام کو اس خیال سے ادھورا چھوڑ دینا کہ پھر کسی وقت مکمل کرلیا جائے گا"
"(۱۵)ہرشخص سے بدی کرنا اور لوگوں سے اپنے لیے نیکی کی توقع رکھنا
(۱۶)گمراہوں کی صحبت میں اٹھنا بیٹھنا
(۱۷)کوئی عمل صالح کی تلقین کرے تو اس پر دھیان نہ دینا
(۱۸)خود حرام و حلال کا خیال نہ کرنا اور دوسروں کو بھی اس راہ پر لگانا
(۱۹)جھوٹی قسم کھا کر جھوٹ بول کر دھوکا دے کر اپنی تجارت کو فروغ دینا
(۲۰)علم دین اور دینداری کو عزت نہ سمجھنا
(۲۱)خود کو دوسروں سے بہتر سمجھنا
(۲۲)فقیروں اور سائلوں کو اپنے دروازہ سے دھکا دے کر بھگا دینا
(۲۳)ضرورت سے زیادہ بات چیت کرنا
(۲۴)اپنے پڑوسیوں سے بگاڑ رکھنا
(۲۵)بادشاہوں اور امیروں کی دوستی پر اعتبار کرنا
(۲۶)خواہ مخواہ کسی کے گھریلو معاملات میں دخل دینا
(۲۷)بغیر سوچے سمجھے بات کرنا
(۲۸)تین دن سے زیادہ کسی کا مہمان بننا
(۲۹)اپنے گھر کا بھید دوسروں پر ظاہر کرنا
(۳۰)ہر شخص کے سامنے اپنے دکھ درد بیان کرنا۔"
(۱)رات کو دروازہ بند کرتے وقت گھر کے اندر اچھی طرح دیکھ بھال لو کہ کوئی اجنبی یا کتا بلی اندر تو نہیں رہ گیا یہ عادت ڈال لینے سے ان شاء اﷲ تعالیٰ گھر میں کوئی نقصان نہیں ہوگا۔
"(۲)گھر اور گھر کے تمام سامانوں کو صاف ستھرا رکھو اور ہر چیز کو اس کی جگہ پر رکھو۔
(۳)سب گھروالے آپس میں طے کر لیں کہ فلاں چیز فلاں جگہ پررہے گی پھر سب گھر والے اس کے پابند ہو جائیں کہ جب اس چیز کو وہاں سے اٹھائیں تو استعمال کر کے پھر اسی جگہ رکھ دیں تاکہ ہر آدمی کو بغیر پوچھے اور بلا ڈھونڈھے وہ مل جایا کرے اور ضرورت کے وقت تلاش کرنے کی حاجت نہ پڑے۔
(۴)گھر کے تمام برتنوں کو دھومانجھ کر کسی الماری یا طاق پر الٹا کر کے رکھ دو اور پھر دوبارہ اس برتن کو استعمال کرنا ہو تو پھر اس برتن کو بغیر دھوئے استعمال نہ کرو۔
(۵)کوئی جھوٹا برتن یا غذا یا دوا لگا ہوا برتن ہرگز ہرگز نہ رکھ دیا کرو جھوٹے یا غذاؤں اور دواؤں سے آلودہ برتنوں میں جراثیم پیدا ہو کر طرح طرح کی بیماریوں کے پیدا ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔
(۶)اندھیرے میں بلا دیکھے ہر گز ہرگز پانی نہ پیؤ نہ کھانا کھاؤ۔
(۷)گھر یا آنگن کے راستہ میں چار پائی یا کرسی یا کوئی برتن یا کوئی سامان مت ڈال دیا کرو ایسا کرنے سے بعض دفعہ روز کی عادت کے مطابق بے کھٹکے چلے آنے والے کو ٹھوکر ضرور لگتی ہے اور بعض مرتبہ تو سخت چوٹیں بھی لگ جاتی ہیں۔
(۸)صراحی کے منہ یا لوٹے کی ٹونٹی سے منہ لگا کر ہر گز کبھی پانی نہ پیو کیونکہ اولاً تو یہ خلاف تہذیب ہے دوسرے یہ خطرہ ہے کہ صراحی یا ٹونٹی میں کوئی کیڑا مکوڑا چھپا ہو اور وہ پانی کے ساتھ پیٹ میں چلا جائے۔
(۹)ہفتہ یا دس دنوں میں ایک دن گھر کی مکمل صفائی کے لیے مقرر کر لو کہ اسی دن سب کام دھندا بند کر کے پورے مکان کی صفائی کر لو۔"
"(۱۰)دن رات بیٹھے رہنا یا پلنگ پر سوئے یا لیٹے رہنا تندرستی کے لیے بے حد نقصان دہ ہے مردوں کو صاف اورکھلی ہوا میں کچھ چل پھر لینا اور عورتوں کو کچھ محنت کا کام ہاتھ سے کر لینا تندرستی کے لیے بہت ضروری ہے۔
ٍ(۱۱)جس جگہ چند آدمی بیٹھے ہوں اس جگہ بیٹھ کر نہ تھوکو نہ کھنکھار نکالو نہ ناک صاف کرو کہ خلاف تہذیب بھی ہے اور دوسروں کے لیے گھن پیدا کرنے والی چیز ہے۔
(۱۲)دامن یا آنچل یا آستین سے ناک صاف نہ کرو نہ ہاتھ منہ ان چیزوں سے پونچھو کیونکہ یہ گندگی ہے اور تہذیب کے خلاف بھی۔
(۱۳)جوتی اور کپڑا یا بستر استعمال سے پہلے جھاڑ لیا کرو ممکن ہے کوئی موذی جانور بیٹھا ہو جو بے خبری میں تمہیں ڈس لے۔
(۱۴)چھوٹے بچوں کو کھلاتے کھلاتے کبھی ہرگز ہرگز اچھال اچھال کر نہ کھلاؤ خدا نخواستہ ہاتھ سے چھوٹ جائے تو بچے کی جان خطرہ میں پڑ جائے گی۔
(۱۵)بیچ دروازہ میں نہ بیٹھا کرو سب آنے جانے والوں کو تکلیف ہوگی اور خود تم بھی تکلیف اٹھاؤ گے۔
(۱۶)اگر پوشیدہ جگہوں میں کسی کے پھوڑا پھنسی یا دردو ورم ہو تو اس سے یہ نہ پوچھو کہ کہاں ہے؟ اس سے خواہ مخواہ اس کو شرمندگی ہوگی۔
(۱۷)پاخانہ یا غسل خانہ سے کمر بند یا تہبند یا ساڑھی باندھتے ہوئے باہر مت نکلو بلکہ اندر ہی سے باندھ کر باہر نکلو۔
(۱۸)جب تم سے کوئی شخص کوئی بات پوچھے تو پہلے اس کا جواب دو پھر دوسرے کام میں لگو۔"
"(۱۹)جو بات کسی سے کہو یا کسی کا جواب دو تو صاف صاف بولو اور اتنے زور سے بولو کہ سامنے والا اچھی طرح سن لے اور تمہاری باتوں کو سمجھ لے۔
(۲۰)زبان بند کر کے ہاتھ یا سر کے اشاروں سے کچھ کہنا یا کسی بات کا جواب دینا یہ خلاف تہذیب اور حماقت کی بات ہے۔
(۲۱)اگر کسی کے بارے میں کوئی پوشیدہ بات کسی سے کہنی ہو اور وہ شخص اس مجلس میں موجود ہوتوآنکھ یا ہاتھ سے بار بار اس کی طرف اشارہ مت کرو کہ ناحق اس شخص کو طرح طرح کے شبہات ہوں گے۔
(۲۲)کسی کو کوئی چیز دینی ہو تو اپنے ہاتھ سے اس کے ہاتھ میں دو یا برتن میں رکھ کر اس کے سامنے پیش کرو دور سے پھینک کر کوئی چیز کسی کو مت دیا کرو شاید اس کے ہاتھ میں نہ پہنچ سکے اور زمین پر گر کر ٹوٹ پھوٹ جائے یا خراب ہو جائے۔
(۲۳)اگر کسی کو پنکھا جھلو تو اس کا خیال رکھو کہ اس کے سر یا چہرہ یا بدن کے کسی حصہ میں پنکھا لگنے نہ پائے اور پنکھے کو اتنے زور سے بھی نہ جھلا کرو کہ تم خود یا دوسرے پریشان ہوجائیں۔
(۲۴)میلے کپڑے جو دھوبی کے یہاں جانے والے ہوں گھر میں ادھر ادھر پڑا یا بکھرا ہوا زمین پر نہ رہنے دو بلکہ مکان کے کسی کونے میں لکڑی کا ایک معمولی بکس رکھ لو اور سب میلے کپڑوں کو اسی میں جمع کرتے رہو۔
(۲۵)اپنے اونی کپڑوں کو کبھی کبھی دھوپ میں سکھا لیا کرو اور کتابوں کو بھی تاکہ کیڑے مکوڑے کپڑوں اور کتابوں کو کاٹ کر خراب نہ کر سکیں۔
(۲۶)جہاں کوئی آدمی بیٹھا ہو وہاں گردو غبار والی چیزوں کو نہ جھاڑو۔"
"(۲۷)کسی دکھ یا پریشانی یا غم اور بیماری وغیرہ کی خبروں کو ہرگز اس وقت تک نہیں کہنا چاہیے جب تک کہ اس کی خوب اچھی طرح تحقیق نہ ہو جائے۔
(۲۸)کھانے پینے کی کوئی چیز کھلی مت رکھو ہمیشہ ڈھانک کر رکھا کرو اور مکھیوں کے بیٹھنے سے بچاؤ۔
(۲۹)دوڑ کر منہ اوپر اٹھا کر نہیں چلنا چاہیئے اس میں بہت سے خطرات ہیں۔
(۳۰)چلنے میں پاؤں پورا اٹھا کر اور پورا پاؤں زمین پر رکھا کرو پنجوں یا ایڑی کے بل چلنا یا پاؤں گھسیٹتے ہوئے چلنا یہ تہذیب کے خلاف بھی ہے۔
(۳۱)کپڑا پہنے پہنے نہیں سینا چاہیئے۔
(۳۲)ہر کسی پر اطمینان مت کر لیا کرو جب تک کسی کو ہر طرح سے بار بار آزما نہ لواس کا اعتبار مت کر لیا کرو خاص کر اکثر شہروں میں بہت سی عورتیں کوئی حجن صاحبہ بنی ہوئی کعبہ کا غلاف لئے ہوئے کوئی تعویذ گنڈے جھاڑ پھونک کرتی ہوئی گھروں میں گھستی پھرتی ہیں اور عورتوں کے مجمع میں بیٹھ کر اﷲعزوجل و رسول صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی باتیں کرتی ہیں خبردار خبردار ان عورتوں کو ہرگز ہرگز گھروں میں آنے ہی مت دو دروازے ہی سے واپس کر دو ایسی عورتوں نے بہت سے گھروں کا صفایا کر ڈالا ہے ان عورتوں میں بعض چوروں اور ڈاکوؤں کی مخبر بھی ہوا کرتی ہیں جو گھر کے اندر گھس کر سارا ماحول دیکھ لیتی ہیں پھر چوروں اورڈاکوؤں کو ان کے گھروں کا حال بتا دیتی ہیں۔
(۳۳)جہاں تک ہو سکے کوئی سودا سامان ادھار مت منگایا کرو اور اگر مجبوری سے منگایا کرو اور اگر مجبوری سے منگانا ہی پڑ جائے تو دام پوچھ کر تاریخ کے ساتھ لکھ لو اور جب روپیہ تمہارے پاس آجائے تو فوراً ادا کر دو زبانی یاد پر بھروسا مت کرو۔"
"(۳۴)جہاں تک ہو سکے خرچ چلانے میں بہت زیادہ کفایت سے کام لو اور روپیہ پیسہ بہت ہی انتظام سے اٹھاؤ بلکہ جتنا خرچ کے لیے تم کو ملے اس میں سے کچھ بچا لیا کرو۔
(۳۵)جو عورتیں بہت سے گھروں میں آیا جایا کرتی ہیں جیسے دھوبن نائن وغیرہ ان کے سامنے ہرگز ہرگز اپنے گھر کے اختلاف اور جھگڑوں کو مت بیان کرو کیونکہ ایسی عورتیں گھروں کی باتیں دس گھروں میں کہتی پھرتی ہیں۔
(۳۶)کوئی مرد تمہارے دروازہ پر آکر تمہارے شوہر کا دوست یا رشتہ دار ہونا ظاہر کرے تو ہرگز اس کو اپنے مکان کے اندر مت بلاؤ نہ اس کا کوئی سامان اپنے گھر میں رکھو نہ اپنا کوئی قیمتی سامان اس کے سپرد کرو ایک غیر آدمی کی طرح کھانا وغیرہ اس کے لیے باہر بھیج دو جب تک تمہارے گھر کا کوئی مرد اس کو پہچان نہ لے ہرگز اس پر بھروسا مت کرو نہ گھر میں آنے دو ایسے لوگوں نے بہت سے گھروں کو لوٹ لیا ہے اسی طرح اگر بے پہچانا ہوا آدمی گھر پر آکر یا سفر میں کوئی کھانے کی چیز دے تو ہرگز مت کھاؤ وہ لاکھ برامانے پروا مت کرو بہت سے سفید پوش ٹھگ نشہ والی یا زہریلی چیز کھلا کر گھر والوں یا مسافروں کو لوٹ لیتے ہیں۔
(۳۷)محبت میں اپنے بچوں کو بلا بھوک کے کھانا مت کھلاؤ نہ اصرار کر کے زیادہ کھلاؤ کہ ان دونوں صورتوں میں بچے بیمار ہوجاتے ہیں جس کی تکلیف تم کو اور بچوں دونوں کو بھگتنی پڑتی ہے۔
(۳۸)بچوں کے سردی گرمی کے کپڑوں کا خاص طور پر دھیان لازمی ہے بچے سردی گرمی لگنے سے بیمار ہو جایا کرتے ہیں۔
(۳۹)بچوں کو ماں باپ بلکہ دادا کا نام بھی یاد کرا دو اور کبھی کبھی پوچھا کرو تاکہ یاد رہے"
"اس میں یہ فائدہ ہے کہ اگر خدانخواستہ بچہ کھو جائے اور کوئی اس سے پوچھے کہ تیرے باپ کا کیا نام ہے؟ تیرے ماں باپ کون ہیں؟ تو اگر بچہ کو نام یاد ہوں گے تو بتادے گا پھر کوئی نہ کوئی اس کو تمہارے پاس پہنچا دے گا یا تمہیں بلا کر بچہ تمہارے سپرد کر دے گا اور اگر بچے کو ماں باپ کا نام یاد نہ رہا تو بچہ یہی کہے گا کہ میں ابا یا اماں کا بچہ ہوں کچھ خبر نہیں کہ کون ابا؟ کون اماں؟
(۴۰)چھوٹے بچوں کو اکیلا چھوڑ کر گھر سے باہر نہ چلی جایا کرو ایک عورت بچے کے آگے کھانا رکھ کر باہر چلی گئی بہت سے کووں نے بچے کے آگے کا کھانا چھین کر کھا لیا اور چونچ مار مار کر بچے کی آنکھ بھی پھوڑ ڈالی اسی طرح ایک بچے کو بلی نے اکیلا پاکر اس قدر نوچ ڈالا کہ بچہ مرگیا۔
(۴۱)کسی کو ٹھہرانے یا کھانا کھلانے پر بہت زیادہ اصرار مت کرو بعض مرتبہ اس میں مہمان کو الجھن یا تکلیف ہو جاتی ہے پھر سوچو کہ بھلا ایسی محبت سے کیا فائدہ جس کا انجام نفرت اور بدنامی ہو۔
(۴۲)وزن یا خطرہ والی کوئی چیز کسی آدمی کے اوپر سے اٹھا کر مت دیا کرو خدانخواستہ وہ چیز ہاتھ سے چھوٹ کر آدمی کے اوپر گر پڑی تو اس کا انجام کتنا خطرناک ہوگا؟
(۴۳)کسی بچہ یا شاگرد کو سزا دینی ہو تو مٹی لکڑی یا لات گھونسا سے مت مارو خدانخواستہ اگر کسی نازک جگہ چوٹ لگ جائے تو کتنی بڑی مصیبت سر پر آ پڑے گی۔
(۴۴)اگر تم کسی کے گھر مہمان جاؤ اور کھانا کھا چکے ہو تو جاتے ہی گھر والوں سے کہہ دو کہ ہم کھانا کھا کر آئے ہیں کیونکہ گھر والے لحاظ کی وجہ سے پوچھیں گے نہیں اور چپکے چپکے کھانا تیار کرلیں گے اور جب کھانا سامنے آگیا تو تم نے کہہ دیا کہ ہم تو کھانا کھا کر آئے"
"ہیں سوچو کہ اس وقت گھر والوں کو کتنا افسوس ہوگا؟
(۴۵)مکان میں اگر رقم یا زیور وغیرہ دفن کر رکھا ہے تو اپنے گھروں میں سے جس پر بھروسا ہو اس کو بتا دو ورنہ شاید تمہارا اچانک انتقال ہو جائے تو وہ زیور یا رقم ہمیشہ زمین ہی میں رہ جائے گی۔
(۴۶)مکان میں جلتا چراغ یا آگ چھوڑ کر باہر مت چلے جاؤ چراغ اور آگ کو مکان سے نکلتے وقت بجھا دیا کرو۔
(۴۷)اتنا زیادہ مت کھاؤ کہ چورن کی جگہ بھی پیٹ میں باقی نہ رہ جائے۔
(۴۸)جہاں تک ممکن ہو رات کو مکان میں تنہا مت رہو خدا جانے رات میں کیا اتفاق پڑ جائے؟ لاچاری اور مجبوری کی تو اور بات ہے مگر جب تک ہو سکے مکان میں رات کو اکیلے نہیں سونا چاہیئے۔
(۴۹)اپنے ہنر پر ناز نہ کرو۔
(۵۰)برے وقت کا کوئی ساتھی نہیں ہوتا اس لیے صرف خدا پر بھروسا رکھو۔"
"(۱)پلنگ کی پائنتی اجوائن کی پوٹلیاں باندھنے سے اس پلنگ کے کھٹمل بھاگ جائیں گے ۔
(۲)اگر مچھر دانی میسر نہ ہو اور گرمیوں کے موسم میں مچھر زیادہ تنگ کریں تو بستر پر جابجا تلسی کے پتے پھیلادیں مچھر بھاگ جائیں گے۔
(۳)لکڑی میں کیل ٹھوکتے ہوئے لکڑی کے پھٹنے کا خطرہ ہو تو اس کیل کو پہلے صابون میں ٹھوکنے کے بعد لکڑی میں ٹھوکنا چاہیے اس طرح لکڑی نہیں پھٹے گی۔
(۴)کاغذی لیموں کا رس اگر دن میں چند بار پی لیں تو ملیر یا کا حملہ نہیں ہوگا۔"
"(۵)لُو سے بچنے کے لیے تیز دھوپ میں سفر کرتے وقت جیب میں ایک پیاز رکھ لینا چاہیئے۔
(۶)ہیضہ کے حملہ سے بچنے کے لیے سرکہ لیموں اور پیاز کا بکثرت استعمال کرنا چاہیئے۔
(۷)سبزیوں کو جلد گلانے اور آٹے میں خمیر جلد آنے کے لیے خربوزہ کے چھلکوں کو خوب سکھائیں اور اس کو باریک پیس کر سفوف تیار کرلیں پھر اسی سفوف کو سبزیوں میں جلد گلانے کے لیے ڈالیں اور آٹے میں خمیر جلد آنے کے لیے تھوڑا سفوف آٹے میں ڈال دیا کریں۔
(۸)روغن زیتون دانتوں پر ملنے سے مسوڑھے اور ہلتے ہوئے دانت مضبوط ہو جاتے ہیں۔
(۹)ہچکی آرہی ہو تو لونگ کھا لینے سے بند ہو جاتی ہے۔
(۱۰)سر میں جوئیں پڑ جائیں تو ست پودینہ صابون کے پانی میں حل کر کے سر میں ڈالیں اور سر کو خوب دھوئیں دو تین مرتبہ ایسا کر لینے سے کل جوئیں مر جائیں گی۔
(۱۱)لیموں کی پھانک چہرہ پر کچھ دنوں ملنے اور پھر صابون سے دھولینے سے چہرہ کے کیل مہاسے دور ہو جاتے ہیں۔
(۱۲)پیدل چلنے کی وجہ سے اگر پاؤں میں تھکن زیادہ معلوم ہو تو نمک ملے ہوئے گرم پانی میں کچھ دیر پاؤں رکھ دینے سے تھکاوٹ دور ہو جاتی ہے۔
(۱۳)لیموں کو اگر بھوبل میں گرم کر کے نچوڑیں تو عرق آسانی کے ساتھ دوگنا نکلے گا۔
(۱۴)آگ سے جل جائیں تو جلے ہوئے مقام پر فوراً روشنائی لگائیں یا چونا کا پانی ڈالیں یا بروزہ کا تیل لگائیں یا شکر سفید پانی میں گھول کر لگائیں۔"
"(۱۵)سانپ یا کوئی زہریلا جانور کاٹ لے تو کاٹنے سے ذرا اوپر فوراً کسی مضبوط دھاگے سے کس کر باندھ دو پھر کاٹنے کی جگہ افیون لگا دو تاکہ وہ جگہ سن ہوجائے پھر بلیڈ سے زخم لگا کر دبا دو تاکہ چند قطرہ خون نکل جائے پھر پیاز کو چولہے میں بھون کر اور نمک ملا کر اس جگہ پر باندھ دیں اور مریض کو سونے نہ دیں یہ فوری ترکیب کر کے پھر ڈاکٹر سے علاج کرائیں اور انجکشن لگوائیں۔
(۱۶)اگر کوئی سنکھیا یا افیون یا دھتورا کھا لے تو فوراً سویہ کا بیج دوتولہ آدھ سیر پانی میں پکا کر اس میں پاؤ بھر گھی ایک تولہ نمک ملا کر نیم گرم پلائیں اور قے کرائیں جب خوب قے ہوجائے تو دودھ پلائیں اور اگر دودھ سے بھی قے ہوجائے تو بہت اچھا ہے اور مریض کو سونے نہ دیں ان شاء اﷲ تعالیٰ مریض صحت یاب ہوجائے گا۔"
"سانپ:۔ایک پاؤ نوشادر کو پانچ سیر پانی میں گھول کر گھر کے تمام بلوں سوراخوں اور کونوں میں چھڑک دیں اگر گھر میں سانپ ہوگا تو بھاگ جائے گااور کبھی کبھی یہ پانی چھڑکتے رہیں تو اس مکان میں سانپ نہیں آئے گا۔
دوسری ترکیب یہ ہے کہ گھر کے بلوں اور دوسرے سب سوراخوں میں رائی ڈال دیں سانپ فورًا ہی مر جائے گا اوراگراپنے آس پاس رائی ڈال کر سوئیں تو سانپ قریب نہیں آسکتا۔
بچھو:۔ مولی کا عرق اگر بچھو کے اوپر ڈال دیا جائے تو بچھو ضرور مر جائے گا اور اگر بچھو کے سوراخ میں مولی کے چند ٹکڑے ڈال دیئے جائیں تو بچھو سوراخ سے باہر نہیں نکل سکے گا بلکہ سوراخ کے اندر ہی ہلاک ہو جائے گا۔"
" دوسری ترکیب یہ ہے کہ چَرْچِٹا گھاس کی جڑ اگر بچھو نے پر رکھ دی جائے تو بچھو بستر پر نہیں چڑھ سکے گا۔
اگر بچھو ڈنک مار دے تو بہروزہ کا تیل لگائیں یا چَرْچِٹا کی جڑ گھس کر لگائیں زہر اتر جائے گا۔
کنکھجورا (گوجر):۔اگر کسی کے بدن میں چمٹ جائے یا کان میں گھس جائے تو شکر اس کے اوپر ڈالیں فوراً ہی اس کے پاؤں کھال میں سے باہر نکل جائیں گے اور اگر پیاز کا عرق کنکھجورہ کے اوپر ڈال دیں تو وہ جگہ بھی چھوڑ دے گا اور پھر فوراً ہی مر جائے گا اور اس کے پاؤں چبھنے سے زخم ہو گیا ہے تو پیاز بھلبھلا کر اس زخم پر باندھنا اکسیر ہے۔
پسّو:۔اندرائن کے پھل یا جڑ پانی میں بھگو کر تمام گھر میں پانی چھڑک دیں تو اس مکان سے پسو بھاگ جائیں گے۔
چیونٹیاں:۔ہینگ سے بھاگ جاتی ہیں۔
کپڑوں اور کتابوں کا کیڑا:۔افسنتین یا پودینہ یا لیموں کے چھلکے یا نیم کے پتے یا کافور کپڑوں اور کتابوں میں رکھ دیں تو کپڑے اور کتابیں کیڑوں کے کھانے سے محفوظ رہیں گی۔"
(۱)حمل کے زمانے میں عورت کو اس کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے کہ ایسی ثقیل غذائیں نہ کھائے جس سے قبض پیدا ہو جائے اور اگر ذرا بھی پیٹ میں گرانی معلوم ہو تو ایک دو وقت روٹی چاول نہ کھائیں بلکہ صرف شوربہ گھی ڈال کر پی لیں یا دو تین تولہ منقی یا ایک ہڑ کا مربہ کھالیں۔
"(۲)حاملہ عورت کو چاہے کہ چلنے میں پاؤں زور سے زمین پر نہ پڑے اور نہ دوڑ کر چلے اسی طرح اونچی جگہ سے نیچے کو ایک دم جھٹکے کے ساتھ نہ اترے اسی طرح سیڑھی پر دوڑ کر نہ چڑھے بلکہ آہستہ آہستہ چڑھے غرض اس کا خیال رکھے کہ پیٹ نہ زیادہ ہلے اور نہ پیٹ کو جھٹکا لگنے دے نہ بھاری بوجھ اٹھائے نہ کو ئی سخت محنت کا کام کرے نہ غم اور غصہ کرے نہ دست لانے والی دوائیں کھائے نہ زیادہ خوشبو سونگھے۔
(۳)حاملہ عورت کو چلنے پھرنے کی عادت رکھنی چاہے کیونکہ ہر وقت بیٹھے اور لیٹے رہنے سے بادی اور سستی بڑھتی ہے معدہ خراب ہو جاتا ہے اور قبض کی شکایت پیدا ہو جاتی ہے۔
(۴)حاملہ عورت کو شوہر کے پاس نہیں سونا چاہے خصوصاً چوتھے مہینے سے پہلے اور ساتویں مہینے کے بعد بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔
(۵) اگر حاملہ عورت کو قے آنے لگے تو پودینہ کی چٹنی یا کاغذی لیموں استعمال کریں۔
(۶)اگر حمل کی حالت میں خون آنے لگے تو ''قُرض کہریا'' کھائیں اور فوراً حکیم یا ڈاکٹر سے علاج کرائیں۔
(۷) اگر حمل گر جانے کی عادت ہوتو اس عورت کو چار مہینے تک پھر ساتویں مہینے کے بعد بہت زیادہ احتیاط رکھنے کی ضرورت ہے گرم غذاؤں سے بالکل پرہیز رکھے اور اچھا یہ ہے کہ لنگوٹ باندھے رہے اور بالکل کوئی بوجھ نہ اٹھائے اور نہ محنت کا کوئی کام کرے اور اگر حمل گرنے کے کچھ آثار ظاہر ہوں مثلاً پانی جاری ہو جائے یا خون گرنے لگے تو فوراً ہی حکیم یا ڈاکٹر کو بلانا چاہے۔
(۸) اگر خدانخواستہ حاملہ کو مٹی کھانے کی عادت ہو تو اس عادت کو چھڑانا ضروری ہے اور اگر مٹی کی بہت ہی حرص ہو تو نشاستہ کی ٹکیاں یا طباشیر کھایا کرے اس سے مٹی کی عادت"
"چھوٹ جاتی ہے۔
(۹) اگر حاملہ کی بھوک بند ہو جائے تو مٹھائی اور مرغن غذائیں چھڑا دیں اور سادہ غذائیں کھلائیں اور اگر پیٹ میں درد اور ریاح معلوم ہو تو ''نمک سلیمانی'' یا ''جوارش کمونی'' کھلائیں بہر حال تیز دواؤں کے استعمال اور انجکشن وغیرہ سے بچنا بہتر ہے ایسی حالت میں علاج سے بہتر پرہیز اور احتیاط ہے۔
(۱۰)بعض حاملہ عورتوں کے پیروں پر ورم آجاتا ہے یہ کوئی خطرناک چیز نہیں ہے ولادت کے بعد خود بخود یہ ورم جاتا رہتا ہے۔"
"(۱)حاملہ کو جب نواں مہینہ شروع ہو جائے تو بہت زیادہ احتیاط کرنے کرانے کی ضرورت ہے اس وقت میں حاملہ کو طاقت پہنچانے کی ضرورت ہے لہٰذا مندرجہ ذیل تدبیروں کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہے روزانہ گیارہ عدد بادام مصری میں پیس کر چٹائیں اور دو عدد ناریل اور شکر دونوں کو ہاون دستہ میں کوٹ کر سفوف بنا لیں اور دو تولہ روزانہ کھائیں' گائے کا دودھ' جس قدر ہضم ہو سکے پلائیں' مکھن وغیرہ بھی کھلائیں ان سب دواؤں کی وجہ سے بچہ آسانی سے پیدا ہوتا ہے۔
(۲)جب ولادت کا وقت آجائے اور درد زہ شروع ہو جائے تو بائیں ہاتھ میں مقناطیس لینے سے اور بائیں ران میں مونگے کی جڑ باندھنے سے بچہ پیدا ہونے میں آسانی ہوتی ہے ولادت کی آسانی کے لئے مجرب تعویذات بھی ہیں جن کا ذکر آگے ''عملیات'' کے بیان میں ہم لکھیں گے۔
(۳)پیدائش کے وقت کسی ہوشیار دائی یا لیڈی ڈاکٹر کو ضرور بلا لینا چاہے اناڑی دائیوں"
"کی غلط تدبیروں سے اکثر زچہ و بچہ کو نقصان پہنچ جاتا ہے۔
(۴)پیدائش کے بعد زچہ کے بدن میں تیل کی مالش بہت مفید ہے جیسا کہ پرانا طریقہ ہے کہ ولادت کے بعد چند دنوں تک مالش کرائی جاتی ہے یہ بہت ہی مفید ہے۔
(۵)جس عورت کے دودھ بہت کم ہوتا ہو اگر وہ دودھ آسانی کے ساتھ ہضم کر سکتی ہو تو اس کو روزانہ دودھ پینا چاہے اور مرغ وغیرہ کا مرغن شوربہ اور گاجر کا حلوہ وغیرہ عمدہ غذائیں ہیں اور پانچ ماشہ کلونجی اور پانچ ماشہ تودری سرخ دودھ میں پیس کر پلائیں۔"
"(۱)پیدائش کے بعد بچے کو پہلے نمک ملے ہوئے نیم گرم پانی سے نہلائیں پھر اس کے بعد سادہ پانی سے غسل دیں تو بچہ پھوڑے پھنسی کی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے نمک ملے ہوئے پانی سے بچوں کو کچھ دنوں تک نہلاتے رہیں تو یہ بچوں کی تندرستی کے لئے بہت مفید ہے اور نہلانے کے بعد بچوں کے بدن میں سرسوں کے تیل کی مالش بچوں کی صحت کے لئے اکسیر ہے۔
(۲)بچوں کو دودھ پلانے سے پہلے روزانہ دو تین مرتبہ ایک انگلی شہد چٹا دیا کریں تو یہ بہت مفید ہے۔
(۳)بچوں کو خواہ جھولے میں جھلائیں یا بچھونے پر سلائیں یا گود میں کھلائیں ہر حال میں بچوں کا سر اونچا رکھیں سر نیچا اور پاؤں اونچے نہ ہونے دیں۔
(۴)پیدائش کے بعد بچوں کو ایسی جگہ نہ رکھیں جہاں روشنی بہت تیز ہوکیونکہ بہت تیز روشنی میں رہنے سے بچے کی نگاہ کمزور ہو جاتی ہے۔
(۵)جب بچے کے مسوڑھے سخت ہو جائیں اور دانت نکلتے معلوم ہوں تو مسوڑھوں پر"
"مرغ کی چربی ملا کریں اور روزانہ ایک دو مرتبہ مسوڑھوں پر شہد بھی ملا کریں اور بچے کے سر اور گردن پر تیل کی مالش کرتے رہیں۔
(۶)جب دودھ چھڑانے کا وقت آئے اور بچہ کچھ کھانے لگے تو خبردار! خبردار بچے کوکوئی سخت چیز نہ چبانے دیں بلکہ نہایت ہی لطیف اور نرم اور جلد ہضم ہونے والی غذائیں بچے کو کھلائیں اور گائے یا بکری کا دودھ بھی پلاتے رہیں اور پھل وغیرہ بھی بچے کو کھلاتے رہیں اور جس قدر ماں باپ کو مقدور ہو بچوں کو اس عمر میں اچھی خوراک دیں اس عمر میں جو کچھ طاقت بدن میں آجائے گی وہ تمام عمر کام آئے گی ہاں اس کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے کہ بچوں کو باربار نہیں غذا دینی چاہے جب تک ایک غذا ہضم نہ ہوجائے دوسری غذا ہر گز نہ دیں۔
(۷)بچوں کو مٹھائی اور کھٹائی کی عادت سے بچانا بہت بہت ضروری ہے کہ یہ دونوں چیزیں بچوں کی صحت کے لئے بہت مضر اور نقصان دینے والی ہیں سوکھے اور تازہ میووں کا بچوں کو کھلانا بہت ہی اچھا ہے۔
(۸)ختنہ جتنی چھوٹی عمر میں ہو جائے بہتر ہے تکلیف بھی کم ہوتی ہے اور زخم بھی جلدی بھر جاتا ہے۔"
"یہ ایماں ہے خدا شاہد کہ ہیں آیات قرآنی
علاج جملہ علتہائے جسمانی و روحانی"
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اس میں کو ئی شک نہیں کہ اﷲ تعالیٰ کے مقدس ناموں اور قرآن کی مبارک آیتوں و ظائف اور دعاؤں میں اس قدر فیوض و برکات اور عجیب عجیب تاثیرات ہیں کہ جن کو دیکھ کر بلا شبہ قدرت خداوندی کا جلوہ نظر آتا ہے بہت سے مریض جن کو تمام حکیموں اور ڈاکٹروں نے لاعلاج کہہ کر مایوس کر دیا تھا لیکن جب اﷲ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ اور قرآن مجید کی مقدس آیتوں سے صحیح طریقے پر چارہ جوئی کی گئی تو دم زدن میں بڑے بڑے خوفناک اور بھیانک امراض اس طرح ختم ہو گئے کہ ان کا نام و نشان بھی باقی نہ رہا جادو اور آسیب وغیرہ کی بلائیں اتنی خطرناک ہیں کہ حکیموں کی طب اور ڈاکٹروں کی ڈاکٹری اس منزل میں بالکل لا چار ہے لیکن دعاؤں' وظیفوں اور قرآنی آیتوں کی تاثیرات قہر الہٰی کی وہ تلوار ہیں کہ جن کی تیز دھار سے جادو ٹونا آسیب سب کے سر قلم ہو جاتے ہیں جادو بھی ٹوٹ جاتا ہے اور آسیب بھی کبھی بھاگ جاتا ہے اور کبھی گرفتار ہو کر جل جاتا ہے اس لئے ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ چند عملیات اور قرآنی آیات کے تعویذات تحریر کردیں تاکہ اہل حاجت ان کے فیوض و برکات سے فائدہ اٹھائیں۔
" یاد رکھو کہ جس طرح جڑی بوٹیوں اور تمام دواؤں کی تاثیر اسی وقت ظاہر ہوتی ہے جب کہ اسی ترکیب سے وہ دوائیں استعمال کی جائیں جو ان کے استعمال کا طریقہ ہے اسی طرح عملیات اور تعویذات کی بھی کچھ شرائط کچھ ترکیبیں کچھ لوازمات ہیں کہ جب تک ان سب چیزوں کی رعایت نہ کی جائے گی عملیات کی تاثیرات ظاہر نہ ہوں گی اور فیوض و برکات حاصل نہ ہونگے ان شرائط میں سے سات شرطیں نہایت ہی اہم اور انتہائی ضروری ہیں کہ جن کے بغیر قرآنی اعمال میں تاثیرات کی امید رکھنا نادانی ہے اور وہ سب شرطیں حسب ذیل ہیں۔
(۱)اکل حلال:۔یعنی حلال لقمہ کھانا اور حرام غذاؤں سے بچنا۔
(۲)صدق مقال:۔یعنی سچ بولنا اور جھوٹ سے ہمیشہ بچتے رہنا۔
(۳)اخلاص:۔یعنی نیت کو درست اور پاکیزہ رکھنا کہ ہر نیکی اﷲعزوجل ہی کے
لئے کرنا۔
(۴)تقویٰ:۔یعنی شریعت کے احکام کی پوری پوری پابندی کرنا۔
(۵)شعائر الٰہی عزوجل کی تعظیم:۔ یعنی اﷲعزوجل کے دین کے
ستونوں مثلاً قرآن' کعبہ' نبی' نماز وغیرہ کی تعظیم اور بزرگان دین کا ہمیشہ ادب و
احترام کرنا۔
(۶)حضور قلب:۔یعنی جو وظیفہ بھی پڑھیں دل کی حضوری کے ساتھ پڑھنا۔
(۷)مضبوط عقیدہ:۔یعنی جو عمل اور وظیفہ پڑھیں اس کی تاثیر پر پورا پورا
اور پختہ عقیدہ رکھنا اگر تذبذب یا تردد رہا تو وظیفہ یا عمل میں اثر نہ رہے گا۔"
" اوپر ذکر کی ہوئی سات شرطوں کے علاوہ اعمال و وظائف کے کچھ ضروری آداب بھی ہیں ہر عمل کرنے والے کو لازم ہے کہ ان آداب کا بھی لحاظ خیال رکھے ورنہ دعاؤں اور وظیفوں کی تاثیرات میں کمی ہو جانا لازمی ہے آداب دعا اور وظائف کی تعداد یوں تو بہت زیادہ ہے مگر ہم ان میں سے چند نہایت ہی اہم اور ضروری آداب کا تذکرہ کرتے ہیں جو یہ ہیں۔
(۱)بارگاہ حق میں عجزونیاز:۔یعنی ہر عمل کرنے یا تعویذات لکھنے کے وقت نہایت ہی خضوع و خشوع کے ساتھ خداوند قدوس کی بارگاہ میں عاجزی و نیاز مندی کا اظہار کرے۔
(۲)صدقہ و خیرات:۔یعنی ہر عمل اور وظیفہ شروع کرنے سے پہلے کچھ صدقہ و خیرات کرے۔
(۳) درود شریف:۔یعنی ہرعمل ہر وظیفہ کے اول و آخر درود شریف کا ورد کرے ۔
(۴)بار بار دعا مانگے:۔یعنی وظیفوں کے بعد جب اپنے مقصد کے لئے دعا مانگے تو ایک ہی مرتبہ دعا مانگ کر بس نہ کر دے بلکہ بار بار گڑگڑا کر خدا سے دعا مانگے۔
(۵)تنہائی:۔ یعنی جہاں تک ہو سکے ہر دعا اور وظیفہ وغیرہ عملیات کو تنہائی میں پڑھے جہاں نہ کسی کی آمد و رفت ہو نہ کسی کی کوئی آواز آئے۔
(۶)کسی کو نقصان نہ پہنچائے:۔یعنی کسی مسلمان کو نقصان پہنچانے کے لئے ہر گز ہرگز نہ کوئی عمل کرے نہ کوئی وظیفہ پڑھے۔
(۷)خوراک میں کمی:۔یعنی جب کوئی عمل کرے یا وظیفہ پڑھے تو اس"
"دوران میں بہت کم کھائے اورسادہ غذا کھائے بھر پیٹ نہ کھائے کیونکہ پیٹ بھرے لوگ دعاؤں کی تاثیر سے اکثر محروم رہتے ہیں۔
(۸)پاکی اور صفائی:۔اعمال اور وظائف پڑھنے کے دوران بدن اور کپڑوں کی پاکی اور صفائی ستھرائی کا خاص طور پر خیال و لحاظ رکھے بلکہ خوشبو بھی استعمال کرے اور ظاہری پاکی و صفائی کے ساتھ ساتھ اپنے اخلاق و کردار اور باطنی صفائی کا بھی اہتمام رکھے۔
(۹)پاک روشنائی :۔جو تعویذ لکھے وہ زعفران سے لکھے یا ایسی روشنائی سے لکھے جس میں سپرٹ نہ پڑی ہو بلکہ اپنے ہاتھ سے بنائی ہوئی روشنائی ہونی چاہے جو زمزم شریف میں گھولی ہوئی ہو یا دریاؤں کے جاری پانی میں۔
(۱۰) اچھی ساعت اچھی نیت:۔ہر عمل اچھی ساعت میں کرے اور ہر تعویذ اچھی ساعت میں قبلہ رو ہو کر لکھے اور تعویذ لکھتے وقت ہر گز کوئی طمع اور لالچ دل میں نہ لائے بلکہ اخلاص کے ساتھ تعویذ لکھ کر حاجت مندوں کو دے ہاں اگر لوگ اپنی طرف سے تعویذوں کا نذرانہ خوشی کے ساتھ پیش کریں تو اس کو رد نہ کرے۔"
عملیات کی دو قسمیں ہیں ایک سفلی' دوسرے رحمانی۔ سفلی عملیات ناجائز اور حرام ہیں بلکہ ان میں سے بعض صریح کفر اور شرک ہیں لہٰذا تمام سفلی عملیات جادو ٹونا وغیرہ کوئی مسلمان کبھی ہر گز ہرگز نہ کرے ورنہ ایمان برباد ہو جائے گا ہاں رحمانی عملیات جائز ہیں جو قرآن شریف کی آیتوں اور مقدس دعاؤں کے ذریعہ کئے جاتے ہیں مگر رحمانی عمل بھی اسی وقت جائز ہیں جب کہ شریعت اجازت دے مثلاً دشمنی ڈالنے کے لئے کوئی رحمانی عمل کیا جائے تو یہ
اسی صورت میں جائز ہوگا کہ شریعت اس کو جائز قرار دے چنانچہ کسی مرد و عورت میں ناجائز تعلق ہوگیا ہے تو ان دونوں میں عداوت ڈالنے کے لئے کوئی رحمانی عمل کرنا جائز ہے بلکہ ثواب کا کام ہے کہ دونوں کو گناہ سے بچانا مقصود ہے لیکن میاں بیوی یا بھائی بھائی کے درمیان دشمنی ڈالنے کے لئے کوئی رحمانی عمل کرنا حرام اور گناہ ہے۔
رحمانی عملیات کی دو قسمیں ہیں ایک موکلاتی جو موکلوں کے واسطہ سے ہوتا ہے دوسرے غیر موکلاتی جس میں موکلوں کا واسطہ نہیں ہوتا اگر چہ موکلاتی عملیات بہت ہی موثر ہوا کرتے ہیں لیکن ان میں بڑے بڑے خطرات بھی ہیں بلکہ جان کا بھی ڈر رہتا ہے اس لئے موکلاتی عملیات سے ہمیشہ دور ہی بھاگتے رہنا چاہے جو لوگ بھی موکلاتی عملیات کے چکر میں پڑے وہ خطرات کے بھنور میں پھنس گئے کوئی کوڑھی ہوا کوئی پاگل ہوگیا کوئی جان سے مارا گیا شیخ کامل کی تعلیم و اجازت موکلاتی عملیات میں انتہائی ضروری ہے اور اس زمانے میں ''شیخ کامل'' کا ملنا بہت دشوار ہے اس لئے ہم یہاں چند غیر موکلاتی عملیات لکھتے ہیں ان عملیات میں موکلوں کا کوئی واسطہ نہیں ہے اور ہر سنی مسلمان مرد و عورت جو پابند شریعت ہوں ان سب کو ان اعمال و تعویذات کے کرنے کی اجازت ہے وہ اگر شرائط و آداب کی پابندی کریں گے تو فائدہ اٹھائیں گے ورنہ فائدہ سے محروم رہیں گے لیکن بہر حال ان کو نہ کوئی خطرہ ہوگا نہ کوئی نقصان واﷲتعالیٰ اعلم۔
''بسم اﷲشریف'' کے خواص اور اس آیت مبارکہ کی خاصیتیں بہت ہیں ان میں سے چند فوائد یہاں لکھے جاتے ہیں جو بزرگوں کے مجرب اور آزمودہ ہیں۔
ہر طرح کی حاجت روائی:۔ اگر کوئی سخت مشکل یا حاجت پیش آجائے تو بدھ جمعرات اور جمعہ کو مسلسل تین دن روزے رکھے اور جمعہ کا غسل کر کے نماز جمعہ کے لئے جائے اور کچھ خیرات بھی کرے پھر نماز جمعہ کے بعد یہ دعا پڑھ کر اپنے مقصد کے لئے دل لگا کر اور گڑ گڑا کر خداسے دعا مانگے ان شاء اﷲ تعالیٰ ضرور اس کی دعا قبول ہوگی۔
اَللّٰھُمَّ اِنِیْ اَسْئَلُکَ بِاسْمِکَ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِO اَلَّذِیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ ؕ عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُO وَاَسْئَلُکَ بِاِسْمِکَ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ؕ اَلَّذِیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ ؕ اَلْحَیُّ الْقَیُّومُ ؕ لَا تَاْخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّلَا نَوْمٌ ؕ اَلَّذِیْ مَلَئَتْ عَظْمَتُہٗ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ؕ وَاَسْئَلُکَ بِاِسْمِکَ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ؕ اَلَّذِیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ وَعَنَتْ لَہُ الْوُجُوْہُ وَخَشَعَتْ لَہُ الْاَصْوَاتُ وَ وَجِلَتِ الْقُلُوْبِ مِنْ خَشْیَتِہٖ اَنْ تُصَلِّیَ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاَنْ تُعْطِیَنِیْ مَسْئَلَتِیْ وَتَفْضِیَ حَاجَتِیْ بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ
(فیوض قرآنی بحوالہ الترغیب وَالْتَرْھِیْب و مفتاح الحسن وغیرہ)
" لفظ حاجتی کے بعد اپنی ضرورت کا نام ذکر کرو۔
جس صحابی سے یہ دعا منقول ہے ان کا ارشاد ہے کہ یہ دعا نادانوں کو ہر گز مت سکھاؤ کیونکہ وہ ناجائز کاموں کے لئے پڑھیں گے اور گناہوں میں مبتلا ہوں گے بزرگوں کے فرمان کے مطابق میں بھی سخت تاکید کرتا ہوں کہ ناجائز کاموں کے لئے کبھی ہر گز اس دعاکو نہ پڑھنا ورنہ سخت نقصان اٹھاؤ گے۔"
اگر پانی پر ۷۸۶ مرتبہ بسم اﷲ الرحمن الرحیم پڑھ کر مخالف کو پلا دو تو ان شاء اﷲ تعالیٰ وہ مخالفت چھوڑ دے گا اور محبت کرنے لگے گا اور اگر موافق کو پلا دو تو محبت بڑھ جائے گی۔
(فیوض قرآنی)
ہر درد و مرض دور ہو جائے:۔جس درد یا مرض پر تین روز تک سو مرتبہ
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
حضور دل سے پڑھ کر دم کیا جائے ان شاء اﷲ تعالیٰ اس سے آرام ہو جائے گا۔
(فیوض قرآنی)
چور اوراچانک موت سے حفاظت:۔اگر رات کو سوتے وقت ۲۱ مرتبہ بسم اﷲ الرحمن الرحیم پڑھ لو تو ان شاء اﷲ تعالیٰ مال واسباب چوری سے محفوظ رہیں گے اور مرگ ناگہانی سے بھی حفاظت ہوگی۔
(فیوض قرآنی)
حاجتوں کے لئے بسم اﷲ اور نماز:۔بسم اﷲ الرحمن الرحیم اس طرح پڑھو کہ جب ایک ہزار مرتبہ ہوجائے تو دو رکعت نماز پڑھ کر درود شریف پڑھو اور اپنی مراد کے لئے دعا مانگو پھر ایک ہزار مرتبہ بسم اﷲ پڑھ کر دو رکعت نماز پڑھو اور درود شریف پڑھ کر اپنی مراد کے لئے دعا مانگو غرض اسی طرح بارہ ہزار مرتبہ بسم اﷲ پڑھو اور ہر ہزار پر دو رکعت نماز پڑھو اور نماز کے بعد درود شریف پڑھ کر اپنی مراد کے لئے دعا مانگو ان شاء اﷲ تعالیٰ مراد حاصل ہوگی۔
(مرقع کلیمی و مجربات دیربی)
اولاد زندہ رہے گی:۔جس عورت کا بچہ زندہ نہ رہتا ہووہ ایک کاغذ پر ایک سو ساٹھ بار
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
لکھوا کر اس کا تعویذ بناکر ہروقت پہنے رہے تو ان شاء اﷲ تعالیٰ اس کی اولاد زندہ رہے گی ۔
(فیوض قرآنی)
زہر کا اثر نہ ہو:۔
بِسْمِ اللہِ الَّذِیْ لَا یَضُرُّ مَعَ اسْمِہٖ شَیْئٌ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَآءِ وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
یہ دعا پڑھ کر ہمیشہ کھانا کھائیں اور پانی وغیرہ پئیں تو ان شاء اﷲتعالیٰ زہر کا اثر دور ہو جائے گا اور زہر کوئی نقصان نہیں دے گا لیکن پختہ عقیدہ اور شرائط کا پایا جانا ضروری ہے ۔
(فیوض قرآنی)
بخار سے شفاء:۔جس کو بخار ہو سات بار یہ دعا پڑھے
بِسْمِ اللہِ الْکَبِیْرِ اَعُوْذُ بِاللہِ الْعَظِیْمِ مِنْ شَرِّ کُلِّ عِرْقٍ نَعَّارٍ وَّ مِنْ شَرِّ حَرِّ النَّارِ
اگر مریض خود نہ پڑھ سکے تو کوئی دوسرا نمازی آدمی سات بار پڑھ کر دم کر دے یا پانی پر دم کر کے پلا دے ان شاء اﷲ تعالیٰ بخار اتر جائے گا ایک مرتبہ میں بخار نہ اترے تو بار بار یہ عمل کریں۔
(المستدرک،کتاب الرقی والتمائم،باب رقیۃ وجع الضرس والاذن،رقم۸۳۲۴،ج۵،ص۵۹۲)
تپ لرزہ سے شفاء:۔جس کو جاڑا بخار آتا ہو اس نقش کو لکھ کر مریض کے گلے میں ڈال دیں۔
"بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اللہ الرحمٰن الرحیم بسم
الرحمٰن الرحیم بسم اللہ
الرحیم بسم اللہ الرحمٰن"
بازار میں نقصان نہ ہو بلکہ فَائدہ ہو:۔بازار جاؤ تو یہ دعا پڑھو۔
بِسْمِ اللہِ اَللّٰھُمَّ اِنِیْ اَسْئَلُکَ خَیْرَ ھٰذِہِ الْاَسْوَاقِ وَخَیْرَ مَا فِیْھَا وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ ھَا وَشَرِّ مَا فِیْھَا اَللّٰھُمَّ اِنیْ اَعُوْذُبِکَ اَنْ اَصِیْبَ یَمِیْناً فَاجِرَۃً اَوْ صَفَقَۃً خَاسِرَۃً ؕ
اس دعا کی برکت سے ان شاء اﷲ تعالیٰ بازار میں خوب نفع ہو گا اور کوئی گھاٹا نہیں ہوگا اس دعا کو حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے پڑھا ہے ۔
(المستدرک،کتاب الدعاء والتکبیر۔۔۔الخ،رقم۲۰۲۱،ج۲،ص۲۳۲)
آسیب دور ہو جائے:۔آسیب زدہ مریض پر یہ پڑھا جائے
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحیْمِ OالٓمٓصٓO طٰہٰ O طٰسٓمٓOكٓھٰیٰعٓصٓ O یٰسٓO
وَالْقُرْاٰنِ الْحَکِیْمِOحٰمٓعٓسٓقٓO قٓO نٓO وَالْقَلَمِ وَمَا یَسْطُرُوْنَO
ان شاء اﷲ تعالیٰ آسیب نکل جائے گا اور پھر نہ آئے گا پڑھنے والے میں تقویٰ اعتقاد کامل اور روحانی قوت ہونی چاہے اور حضور قلب کے ساتھ پڑھے
(فیوض قرآنی)
خطرہ میں پڑ جانے کے وقت:۔حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا ارشاد ہے کہ اگر کوئی خطرہ میں پڑ جائے تو یہ پڑھے
بِسْمِ اللہِ لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ
ان شاء اﷲ تعالیٰ اس کی برکت سے خطرہ ٹل جائے گا۔
(عمل الیوم واللیلۃلا بن السنی،باب مایقول اذا وقع فی ورطۃ،رقم۳۳۶،ص۱۰۸)
ہر آفت سے امان:۔جو شخص روزانہ صبح وشام اس دعاء کو پڑھے وہ ہر آفت و بلا سے محفوظ رہے گا۔
بِسْمِ اللہِ اَللّٰھُمَّ اَنْتَ رَبِّیْ لَا اِلٰہَ اِ لَّا اَنْتَ عَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ وَاَنْتَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ ؕ مَاشَآءَ اللہُ کَانَ وَمَا لَمْ یَشَأْ لَمْ یَکُنْ اَشْھَدُ اَنَّ اﷲَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ۵ وَاَنَّ اﷲَ قَدْ اَحَاطَ بِکُلِّ شَیْءٍ عِلْمًا ۵ وَاَحْصٰی کُلَّ شَیْءٍ عَدَدًا اَللّٰھُمَّ اِنِیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ نَفْسِیْ وَ مِنْ شَرِّ کُلِّ دَابَّۃٍ اَنْتَ آخِذٌم بِنَاصِیَتِھَا اِنَّ رَبِّیْ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ۵ وَاَنْتَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ حَفِیْظٌ ۵ اِنَّ وَلِیِّےَ اللہُ الَّذِیْ نَزَّلَ الْکِتٰبَ وَھُوَ یَتَوَلَّی الصّٰلِحِیْنَ ۵ فَاِنْ تَوَلَّوْ ا فَقُلْ حَسْبِیَ اللہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ ؕ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ۔
اس دعا کا بڑا حصہ شرح سفرالسعادۃ ص ۴۷۸ میں مذکور ہے اور پوری دعا متعدد بزرگوں نے لکھی ہے ''القول الجمیل'' ص۷۷ میں لکھا ہے کہ میں نے اس دعا کو نہایت مفید پایا ہے۔
دفع آسیب و رد سحر کی چھ دعائیں:۔ان چھ دعاؤں کو ''شش قفل'' (چھ تالا) بھی کہتے ہیں جو شخص رات کو ہمیشہ شش قفل پڑھتا رہے یا لکھ کر اپنے پاس رکھے وہ ہر خوف و خطرہ سے اور جادو سے اور ہر قسم کی بلاؤں سے محفوظ رہے گا اور اگر شش قفل کو آسیب زدہ یا سحر و جادو کے مریض کے کان میں پڑھ کر پھونک مار دی جائے تو آسیب بھاگ جائے گا اور جادو اتر جائے گا۔ (فیوض قرآنی)
"قفل اول)بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ہ بِسْمِ اللہِ السَّمِیْعِ الْبَصِیْرِ الَّذِیْ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌO
قفل دوم)بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ؕ بِسْمِ اللہِ الْخَلَّاقِ الْعَلِیْمِ الَّذِیْ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ وَھْوَ الْفَتَّاحُ الْعَلِیْمُ O
قفل سوم)بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ہ بِسْمِ اللہِ السَّمِیْعِ الْبَصِیْرِ الَّذِیْ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ وَھُوَ الْعَلِیْمُ الْبَصِیْرُ O
قفل چہارم)بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ہ بِسْمِ اللہِ السَّمِیْعِ الْبَصِیْرِ الَّذِیْ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ وَھُوَ الْغَنِیُّ القَدِیرْ، O
قفل پنجم)بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ؕ بِسْمِ اللہِ السَّمِیْعِ الْبَصِیْرِ الَّذِیْ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُ O
قفل ششم)بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ہ بِسْمِ اللہِ السَّمِیْعِ الْبَصِیْرِ الَّذِیْ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُ الْحَکِیْمُ ؕ فَاللہُ خَیْرٌ حَافِظاً ہ وَّھُوَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ O"
ظالم اور شیطان کے شر سے پناہ:۔ اس کے لئے حضرت انس صحابی
"رضی اﷲتعالیٰ عنہ کی دعا بے حد نافع اور بہت ہی فائدہ بخش ہے امام الہند حضرت شیخ عبد الحق محدث رحمۃ اﷲ تعالی علیہ نے اپنے ایک مکتوب میں اس کو پوری تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے اس مکتوب کا نام ''استیناس الانوار القبس فی شرح دعاء انس'' ہے یہ مکتوب ''اخبار الاخیار'' ص ۱۹۱ کے حاشیہ پر چھپا ہے اس میں آپ لکھتے ہیں۔
امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اﷲ تعالی علیہ جمع الجوامع'' میں محدث ابوالشیخ کی کتاب الثواب اور تاریخ ابن عسا کر سے نقل کرتے ہیں کہ ایک روز حجاج بن یوسف ثقفی ظالم گورنر نے حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو مختلف اقسام کے چار سو گھوڑے دکھا کر کہا کہ اے انس! کیا تم نے اپنے صاحب (یعنی رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم) کے پاس بھی اتنے گھوڑے اور یہ شان و شوکت دیکھی ہے حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ خدا کی قسم میں نے رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے پاس اس سے بہتر چیزیں دیکھی ہیں اور میں نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم سے سنا ہے کہ گھوڑے تین طرح کے ہیں ایک وہ گھوڑا جو جہاد کے لئے رکھا جائے پھر اس کے رکھنے کا ثواب بیان فرمایا (یہ عام طور پر حدیث کی کتابوں میں موجود ہے) دوسرا وہ گھوڑا جو اپنی سواری کے لئے رکھا جاتا ہے تیسرا وہ گھوڑا جو نام و نمود کے لئے رکھا جاتا ہے اس کے رکھنے سے آدمی جہنم میں جائے گا اے حجاج! تیرے گھوڑے ایسے ہی ہیں''۔
حجاج اس حدیث کو سن کر آگ بگولا ہوگیا اور کہا کہ اے انس! اگر مجھ کو اس کا لحاظ نہ ہوتا کہ تم نے رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی خدمت کی ہے اور امیرالمومنین (عبدالملک بن مروان) نے تمہارے ساتھ رعایت کرنے کی ہدایت کی ہے تو میں تمہارے ساتھ بہت برا معاملہ کر ڈالتا۔"
حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اے حجاج! قسم بخدا تو میرے ساتھ کوئی بد عنوانی نہیں کر سکتا میں نے رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم سے چند کلمات سنے ہیں جن کی برکت سے میں ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی پناہ میں رہتاہوں اوران کلمات کی بدولت کسی ظالم کی سختی اور کسی شیطان کے شر سے ڈرتا ہی نہیں حجاج اس کلام کی ہیبت سے دم بخود رہ گیا اور سر جھکا لیا تھوڑی دیر کے بعد سر اٹھا کر بولا کہ اے ابو حمزہ (یہ حضرت انس کی کنیت ہے) یہ کلمات مجھے بتا دیجئے حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں ہرگز تجھے نہ بتاؤں گا اس لئے کہ تو اس کا اہل نہیں ہے راوی کا بیان ہے کہ جب حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کاآخری وقت آگیا تو ان کے خادم حضرت ابان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ان کے سرہانے آکر رونے لگے حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کیا چاہتا ہے؟ حضرت ابان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کی وہ کلمات ہمیں تعلیم فرمایئے جن کے بتانے کی حجاج نے درخواست کی تھی اور آپ نے انکار فرما دیا تھا حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا لو سیکھ لو ان کو صبح و شام پڑھنا وہ کلمات یہ ہیں۔
دعائے انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ:۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۵بسْمِ اللہِ عَلٰی نَفْسِیْ وَدِیْنِیْ بِسْمِ اللہِ عَلٰی اَھْلِیْ وَمَالِیْ وَوَلَدِیْ۔ بِسْمِ اللہِ عَلٰی مَا اَعْطَانِیَ اللہُ اَللہُ رَبِّیْ لَا اُشْرِکُ بِہٖ شَیْاً ؕ اَﷲُ اَکْبَرُ اَللہُ اَکْبَرُ اَللہُ اَکْبَرُ وَاَعَزُّ وَاَجَلُّ وَاَعْظَمُ مِمَّا اَخَافُ وَاَحْذَرُ عَزَّ جَارُکَ وَجَلَّ ثَنَاءُ کَ وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکَ اَللّٰھُمَّ اِنِیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ نَفْسِیْ وَمِنْ شَرِّ کُلِّ شَیْطَانٍ مَّرِیْدٍO وَمِنْ شَرِّ کُلِّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍO فَاِنْ تَوَلَّوْافَقُلْ حَسْبِیَ اللہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَؕ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِO اِنَّ وَلِیِّ ےَ اللہُ الَّذِیْ نَزَّلَ الْکِتٰبَ وَھُوَ یَتَوَلَّی الصّٰلِحِیْنَ O
اس دعا کو تین مرتبہ صبح کو اور تین مرتبہ شام کو پڑھنا بزرگوں کا معمول ہے۔
"(جامع الاحادیث للسیوطی،مسند انس بن مالک،رقم۱۲۰۶۳،ج۱۸،ص۴۸۷،
اخبار الاخیار(فارسی)،ص۲۹۲)"
ہر مرض سے شفاء:۔ یہ کلمات پڑھے جائیں او ران کا تعویذ پہنا جائے ۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ وَباِﷲِ وَلَا حَوْ لَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِO اُسْکُنْ اَیُّھَا الْوَجْعُ سَکَّنْتُکَ بِالَّذِیْ یُمْسِکُ السَّمَآءُ اَنْ تَقَعَ عَلَی الْاَرْضِ اِلَّا بِاِذْنِہٖ ج اِنَّ اللہَ بِالنَّاسِ لَرَءُ وْفٌ رَّحِیْمٌO بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِO وَبِاللہِ وَلَا حَوْ لَ وَلَا قُوَّۃَ اِلّاَ بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ اُسْکُنْ اَیُّھَا الوَجْعُ سَکَّنْتُکَ بِالَّذِیْ یُمْسِکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ اَن تَزُ ولَا وَلَئِنْ زَالَتَا اِنْ اَمْسَکَھُمَا مِنْ اَحَدٍ مِنْ بَعْدِہٖ ؕ اِنَّہٗ کَانَ حَلِیْماً غَفُوْراً O
"یہ حضرت امام شافعی رحمۃ اﷲ تعالی علیہ کا مجرب عمل ہے امام موصوف کا قول ہے کہ اس کے پڑھنے کی برکت سے مجھے کبھی طبیب (ڈاکٹر) کی ضرورت ہی نہیں ہوئی ۔(فیوض قرآنی)
حرز ابو دُجانہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ:۔جو جن و شیطان وغیرہ کے شر اور شرارتوں سے بچانے والا بہترین وظیفہ اور اعلی درجے کا عمل ہے حضرت امام سیوطی رحمۃ اﷲ تعالی علیہ ''خصائص کبری'' جلد ۲ص۹۸ میں امام بیہقی کی روایت لکھتے ہیں کہ حضرت ابو دجانہ رضی اﷲتعالیٰ عنہ نے حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے دربار اقدس میں گزارش کی کہ یا رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم! میں رات کو بستر پر لیٹتا ہوں تو اپنے گھر میں چکی چلنے کی آواز' شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ جیسی آواز سنا کرتا ہوں اور کبھی کبھی بجلی کی سی چمک بھی دیکھتا ہوں ایک رات میں نے کچھ خوف زدہ ہو کر سر اٹھا یا تو صحن میں ایک کالا سایہ نظر آیا جو اونچا اور لمبا ہوتا جا رہا ہے میں نے بڑھ کر اس کو چھوا تو اس کی کھال ساہی کی کھال کی طرح کاٹنے والی تھی پھر اس نے میرے منہ پر آگ کا ایک شعلہ پھینکا اور مجھے محسوس ہوا کہ میں جل جاؤں گا یہ سن کر حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے حکم فرمایا کہ قلم دوات اور کاغذ لاؤ میں نے پیش"
کیا تو آپ نے حضرت علی کرم اﷲوجہہ سے فرمایا کہ لکھو۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ھٰذَا کِتَابٌ مِّنْ رَّسُوْلِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ اِلٰی مَنْ طَرَقَ الدَّارَ مِنَ الْعُمَّارِ وَ الزُّوَّارِ وَالسَّائِحِیْنَ اِلَّا طَارِقٌ یَّطْرُقُ بِخَیْرٍ یَارَحْمٰنُO اَمَّا بَعْدُ فَاِنَّ لَنَا وَلَکُمْ فِی الْحَقِّ سَعَۃً فَاِنْ تَکُ عَاشِقاً مُوْلِعاً اَوْفَاجِرًا مُقْتَحِمًا اَوْرَاعِیاً حَقْاً مُبْطِلاً فَھٰذَا کِتَا بٌ یَّنْطِقُ عَلَیْنَا وَ عَلَیْکُم بِالْحَقِّ اِنَّا کُنَّا نَسْتَنْسِخُ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَO وَرُسُلُنَا یَکْتُبُوْنَ مَا تَمْکُرُوْنَO اُتْرُکُوْاصَاحِبَ کِتَابِیْ ھٰذَا وَاَنْطَلِقُوْ اِلٰی عَبَدَۃِ الْاَ صَنْامِ وَاِلٰی مَنْ یَّزْ عَمُ اَنَّ مَعَ اللہِ اِلٰھًا اٰخَرَ لَآاِلٰہَ اِلَّا ھُوَ ؕ کُلَّ شَیْءٍ ھَالِکٌ اِلَّا وَجْھَہٗ لَہُ الْحُکْمُ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ O تُقْلَبُوْنَ O حٰمۤ O لَا تُنْصَرُوْنَ O حٰمۤ O عٓسٓقٓO تَفَوَّقَ اَعْدَآءُ اللہِ وَبَلَغَتْ حُجَّۃُ اللہِ وَلَا حَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ ؕ فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللہُ وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ؕ
یہ حرز آسیب زدہ کی گردن میں تعویذ بنا کر پہنا دیا جائے ان شاء اﷲ تعالیٰ آسیب جاتا رہے گا اگر گھر میں آسیب کا اثر ہے تو دیوار پر چسپاں کر دیا جائے ان شاء اﷲ تعالیٰ آسیب بھاگ جائے گا چنانچہ حضرت ابو دجانہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اس حرز کو لے کر گھر آئے اور رات کو اپنے سر کے نیچے رکھ کر سوئے تو ان کی آنکھ اس وقت کھلی جب کوئی چلاچلا کر کہہ رہا تھا کہ اے ابو دجانہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ! لات و عزی کی قسم ہے کہ میں ان کلمات سے جل رہا ہوں میں اس تحریر والے کے حق کا وسیلہ دے کر کہتا ہوں کہ اگر تم نے اس حرز کو اٹھا لیا تو ہم تمہارے گھر اور تمہارے ہمسایہ کے گھر نہ آئیں گے حضرت ابو دجانہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فجر کو مسجد نبوي صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم میں آئے اور نماز پڑھ کر رات کاماجرا سنایا تو حضور علیہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا۔
اے ابو دجانہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ! اس ذات کی قسم ہے مجھے جس نے حق کے ساتھ بھیجا ہے اب یہ آسیب قیامت تک عذاب میں رہے گا۔
(الخصائص الکبریٰ،ج۲،ص۱۶۶)
خفقان کا تعویذ:۔دل دھڑکتا ہو یا دل گھبراتا ہو یا دل میں درد یا جلن ہو تو یہ تعویذ لکھ کر گلے میں ڈال دیا جائے اور ڈور اتنا بڑا ہو کہ تعویذ دل کے پاس لٹکا رہے تعویذ یہ ہے
بسم اﷲ الرحمن الرحیم' یااﷲ یا رحمن یا رحیم' دل مارا کن مستقیم' بحق ایاک نعبد و ایاک نستعین وبحق الا بذکر اللہ تطمئن القلوب وبحق طٰہٰ ویٰسۤ وحق نۤ وصۤ وبحق یا بدوح.
امام دارمی امام بیہقی وغیرہ کی روایت ہے کہ رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا کہ سورۂ فاتحہ ہر مرض کی دوا ہے اس سورہ کا ایک نام ''شافیہ'' اور ایک نام ''سورۃ الشفا'' ہے اس لئے کہ یہ ہر مرض کے لئے شفاء ہے ۔
(سنن الدارمی،باب فضل خاتمہ الکتاب،رقم۳۳۷۰،ج۲،ص۵۳۸۔صاوی، الفاتحہ،ج۱،ص۱۳)
"روزی کی فراوانی وغیرہ:۔مسند دارمی میں ہے کہ سو مرتبہ سورۂ فاتحہ پڑھ کر جو دعا مانگی جائے اس کو اﷲ تعالیٰ قبول فرماتا ہے۔
مکان سے جن بھاگ جائے:۔اگر کسی گھر میں جن رہتا ہو اور پریشان کرتا ہو تو سورهٔ فاتحہ اور آیۃ الکرسی اور سورهٔ جن کی ابتدائی پانچ آیتیں پڑھ کر اور پانی پر دم کر کے مکان کے اطراف و جوانب میں چھڑک دینے کے بعد جن مکان میں سے چلا جائے گا اور ان شاء اﷲ تعالیٰ پھر نہ آئے گا ۔"
(فیوض قرآنی)
شفاءِ امراض:۔ بزرگوں نے فرمایا ہے کہ فجر کی سنتوں اور فرض کے درمیان میں ۴۱ بار
سوره فاتحہ پڑھ کر مریض پر دم کرنے سے آرام ہو جاتا ہے اور آنکھ کا درد بہت جلد اچھا ہو جاتا ہے اور اگر اتنا پڑھ کر اپنا تھوک آنکھوں میں لگا دیا جائے تو بہت مفید ہے۔
(فیوض قرآنی)
حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اﷲ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی مشکل پیش آجائے تو سورهٔ فاتحہ اس طرح چالیس مرتبہ پڑھو کہ بسم اﷲ الرحمن الرحیم کی میم کو الحمد کے لام میں ملاؤ اور الرحمن الرحیم کو تین بار پڑھو اور ہر مرتبہ آخر میں تین بار ''آمین'' کہو ان شاء اﷲ تعالیٰ مقصد حاصل ہوگا ۔
(فوائد الفوادمع ھشت بہشت،ح۲،ص۷۹بتغیرقلیل)
بیماری اور آفتوں کو دفع کرنے کے لئے:۔سات دنوں تک روزانہ گیارہ ہزار مرتبہ صرف اتنا پڑھے
اِیَّاکَ نَعْبُدُوَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ
اول آخر تین تین بار درود شریف بھی پڑھو بیماریوں اور بلاؤں کو دور کرنے کے لئے بہت ہی مجرب عمل ہے۔
(فیوض قرآنی)
شیطان بھاگ جائے:۔حدیث شریف میں ہے کہ جس گھر میں سوره بقرہ پڑھی جاتی ہے وہاں سے شیطان بھاگ جاتا ہے۔
(ترمذی کتاب فضائل القران،باب ما جاء فی سورۃ البقرۃ،الحدیث۲۸۸۶،ج۴،ص۴۰۲)
بڑی برکت:۔حدیث شریف میں ہے کہ سورهٔ بقرہ سیکھو کہ اس کا حاصل کرنا بڑی برکت ہے اور اس کو چھوڑ دینا اور حاصل نہ کرنا بڑی حسرت کی بات ہے باطل پرست (جادوگر) اس کی تاب نہیں لا سکیں گے ۔
(مجمع الزوائد،باب منہ:فی فضل القرآن،الحدیث۱۱۶۳۳،ص۳۰۰،ج۷)
حدیث شریف میں ہے کہ یہ آیت قرآن مجید کی آیتوں میں بہت ہی عظمت والی آیت ہے۔
(درمنثور،ج۲،ص۶)
"اس کے فوائد بہت زیادہ ہیں جو شخص ہر نماز کے بعد آیۃ الکرسی پڑھے گا اس کو حسب ذیل برکتیں نصیب ہوں گی۔
(۱)وہ مرنے کے بعد جنت میں جائے گا۔
(۲)وہ شیطان اور جن کی تمام شرارتوں سے محفوظ رہے گا۔
(۳)اگر محتاج ہوگا تو چند دنوں میں اس کی محتاجی اور غریبی دور ہو جائے گی۔
(۴)جو شخص صبح و شام اور بستر پر لیٹتے وقت آیۃ الکرسی اور اس کے بعد کی دو آیتیں خالدون تک پڑھا کریگا وہ چوری غرق آبی اور جلنے سے محفوظ رہے گا۔
(۵)اگر سارے مکان میں کسی اونچی جگہ پر لکھ کر اس کا کتبہ آویزاں کر دیا جائے تو ان شاء اﷲ تعالیٰ اس گھر میں کبھی فاقہ نہ ہو گا۔ بلکہ روزی میں برکت اور اضافہ ہو گا اور اس مکان میں کبھی چور نہ آسکے گا۔"
(فیوض قرآنی)
تمہیں کوئی نہ دیکھ سکے:۔اگر تم کسی خطرناک جگہ دشمنوں کے نرغے میں پھنس جاؤ یا دشمن تمہیں گرفتار کرنا چاہیں تو اپنے ساتھیوں سے کہو کہ وہ ایک دوسرے سے پیٹھ لگا کر بیٹھیں پھر تم ان کے گرد آیۃ الکرسی پڑھتے ہوئے ایک دائرہ کھینچو پھر تم بھی دائرہ کے اندر لوگوں سے پیٹھ لگا کر بیٹھو اور سات مرتبہ آیۃ الکرسی پڑھو پھر قرآن کی ان آیتوں کو بھی پڑھو۔
وَلَا یَئُوْدُہٗ حِفْظُھُمَاج وَھُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ O وَحِفْظاً مِّنْ کُلِّ شَیْطٰنٍ مَّارِدٍO وَحِفْظاً ہ ذٰالِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ O وَحَفِظْنٰھَا مِنْ کُلِّ شَیْطٰنِ
الرَّجِیْمِO اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَO لَہٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْ م بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ یَحْفَظُوْنَہٗ مِنْ اَمْرِ اللہِ ؕ اَﷲُ حَفِیْظٌ عَلَیْھِمٌO وَمَا اَنْتَ عَلَیْھِمْ بِوَکِیْلٍO اِنْ کُلُّ نَفْسٍ لَّمَّا عَلَیْھَا حَافِظٌO بَلْ ھُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِیْدٌo فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍO فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِیَ اللہُ ق لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ ؕ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَھُوَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِO
کے بعد تین مرتبہ
یَا حَفِیْظُ
کہو پھر تین بار یہ پڑھو
یَا حَفِیْظُ احْفَظْنَاO اَللّٰھُمَّ احْرِسْنَا بِعَیْنِکَ الَّتِیْ لَا تَنَامُOوَاکْنِفْنَا بِکَنْفِکَ الَّذِیْ لَا یُرَامُO
پھر تین بار یا اﷲ پڑھو اورتین بار یارب العلمین اب دائرہ کے تمام لوگ اور تم خود بھی بالکل خاموش ہو جاؤ آپس میں بھی بات چیت نہ کی جائے ان شاء اﷲتعالیٰ تم لوگوں کو کوئی بھی نہ دیکھ سکے گا اور کوئی بھی ضرر نہ پہنچا سکے گا بہت مجرب عمل ہے ۔
(فیوض قرآنی)
"خواص سوره آل عمران:۔جو شخص قرض دار ہو گیا اگر وہ روزانہ سات بار سوره آل عمران پڑھتا رہے تو انشاء اﷲ تعالیٰ قرض سے سبکدوش ہوجائے گا اور اﷲ تعالیٰ غیب سے اس کی روزی کا سامان اور انتظام فرمائے گا۔
خواص سوره نساء:۔اس سورہ کو سات مرتبہ پڑھ کر پانی پر دم کر کے میاں بیوی کو پلا دو تو دونوں میں محبت و موافقت پیدا ہو جائے گی اور اگر اس سورہ کو مشک و زعفران سے لکھ کر اور دھو کر خفقان کے مریض کو پلا دیں تو مرض خفقان زائل ہو جائے گا۔"
خواص سورۂ مائدہ:۔جو شخص اس سورہ کو روزانہ پڑھے گا وہ قحط اور فاقہ سے محفوظ رہے گا اور غیب سے اس کی روزی کا انتظام ہو جایا کریگا اس سورہ کو لکھ کر اور دھو کر استسقاء کے مریض کو پلا دیں تو آرام ہو جائے گا۔
"خواص سورۂ انعام:۔اس کے پڑھنے سے ہر طرح کی مشکل آسان ہو جاتی ہے کہا گیا ہے کہ مشکل دور ہونے کے لئے ایک بیٹھک میں اس کو اکتالیس بار پڑھو۔
خواص سورۂ اعراف:۔تین بار پڑھ کر حاکم کے پاس جاؤ حاکم مہربان ہوجائے گا اور روزانہ اس کی تلاوت کرنے سے ہر آفت سے محفوظ رہو گے۔
خواص سورۂ انفال:۔جو بلا قصور قید ہو سات بار اس سورہ کو پڑھے ان شاء اﷲ تعالیٰ قید سے رہائی ہو جائے گی۔
خواص سورهٔ توبہ:۔(۱)گیارہ مرتبہ پڑھ کر حاکم کے سامنے جاؤ وہ نرمی سے پیش آئے گا۔(۲)اس کا نقش مال و اسباب میں رکھو برکت ہوگی۔
خواص سورهٔ یونس:۔ (۱)اکیس بار پڑھنے سے دشمن پر فتح ہوگی۔
(۲)تیرہ بار پڑھنے سے مصیبت دور ہوتی ہے۔
خواص سورهٔ ہود:۔دشمن پر فتح پانے کے لئے اس کو ہرن کی جھلی پر لکھ کر تعویذ بنا لو۔
خواص سورهٔ یوسف:۔(۱)۔حفظِ قرآن کی سہولت کے لئے پہلے سوررهٔ یوسف یاد کر لو اس کی برکت سے پورا قرآن مجید حفظ کرنا آسان ہو جائے گا۔
(۲)جو شخص عہدہ سے معزول ہوگیا ہو وہ اس سورہ کو تیرہ بار پڑھے عہدہ بحال ہو جائے گا اور حاکم مہربان ہوگا۔
(۳)مفلس آدمی اسے پڑھ کر دعا مانگے ان شاء اﷲ چند روز میں غنی ہو جائے گا۔
خواص سورهٔ رعد:۔ جس گھر کے کاروبار کا فروغ اور جس باغ اور کھیت کی پیداوار کی ترقی منظور ہو اس کے چاروں کونوں پر اس سورہ کی ابتدائی آیتیں لقوم یتفکرون تک لکھ کر دفن کر دو لیکن دفن اس طرح کرو کہ تعویذ کو ہانڈی میں رکھ کر اور ہانڈی کے منہ کو بند"
"کر کے دفن کرو تاکہ بے ادبی نہ ہو اگر رونے والے بچوں پر انیس بار پڑھ کر اس سورہ کو دم کر دیں تو بچے ہنسنے کھیلنے لگیں گے۔
خواص سورهٔ ابراہیم:۔جو شخص جادو کے زور سے نامرد بنا دیا گیا ہو وہ روزانہ تین بار اس سورہ کو پڑھے ان شاء اﷲ تعالیٰ جادو دفع ہو جائے گا اور نامردی دور ہو جائے گی۔
خواص سورهٔ حجر:۔اس سورہ کو لکھ کر تعویذ پہننے والا لوگوں کی نظروں میں محبوب ہوگا۔(۲)اس کے کاروبار میں ترقی اور روزی میں برکت ہوگی۔
خواص سورهٔ نحل:۔اگر اس کو لکھ کر دشمن کے مکان میں دفن کر دیں تو گھر ویران ہو جائے گا کھیت اور باغ میں دفن کر دیں تو ستیاناس ہو جائے گا لیکن یہ اسی دشمن کے لئے کرنا جائز ہے جس کو تباہ کرنے کے لئے شریعت اجازت دے۔
خواص سورهٔ بنی اسرائیل:۔اگر کوئی لڑکا کند ذہن یا توتلا ہو تو اس سورہ کومشک و زعفران سے لکھ کر گھولو اور پلاؤ ان شاء اﷲ تعالیٰ ذہن کھل جائے گا اور لڑکا فصیح زبان والا ہو جائے گا۔
خواص سورهٔ کہف:۔اس سورہ کو ہمیشہ پڑھنے والا برص و جذام اور بَلا، خصوصاً دجال کے فتنوں سے محفوظ رہے گا۔
خواص سورهٔ مریم:ـپریشان حال آدمی سات بار پڑھے تو غنی ہو جائے اس سورہ کو لکھ کر پینا تمام آفتوں سے بچنے کا تعویذ ہے باغ اور کھیت میں اس کا پانی ڈال دو تو پیدوار بڑھ جائے گی۔
خواص سوره طہٰ:۔جس لڑکی کا نکاح نہ ہوتا ہو وہ اکیس بار پڑھے ان شاء اﷲ تعالیٰ"
"کسی صالح مرد سے شادی ہو جائے گی اس کو بکثرت پڑھنے والے کی روزی کشادہ ہو جاتی ہے اور اس پر کوئی جادو نہیں چل سکتا۔
خواص سورهٔ انبیاء:۔جو شخص روزانہ اس کو تین مرتبہ پڑھے اس کا دل نور ایمان سے روشن ہو جاتا ہے اور اس کا رنج و غم دورہو جائے گا۔
خواص سورهٔ حج:۔کشتی اور جہاز پر سوار ہو کر تین بار پڑھ لو ان شاء اﷲتعالیٰ سلامتی کے ساتھ کشتی ساحل پر پہنچے گی اور اس کی تلاوت سے جان و مال محفوظ رہے گا۔
خواص سورهٔ مومنون:۔اس کی تلاوت کی برکت سے نماز کی کاہلی دور ہو جائے گی فسق وفجور سے نفرت اور شراب کی عادت چھوٹ جائے گی اس کا تعویذ پہننا مفلسی کو دور کرتا ہے۔
خواص سورهٔ نور:۔جسے احتلام ہو جایا کرتا ہے وہ تین بار اس سورہ کو پڑھ کر سوئے دشمنوں کی زبان بندی کے لئے پانچ بار پڑھیں زنا کار کو تین مرتبہ پڑھ کر اور پانی پر دم کر کے پلا دو ان شاء اﷲ اس کی یہ بری عادت چھوٹ جائے گی۔
خواص سورهٔ فرقان:۔اس کی تلاوت سے ظالم کے ظلم سے پناہ رہے گی اس کے نقش کا تعویذ سانپ بچھو سے محفوظ رکھتا ہے۔
خواص سورهٔ شعراء:۔اگر اولاد آدم یا ملازم نافرمان ہوں اور شرارت کرتے ہوں تو ان کی اصلاح کی نیت سے سات مرتبہ اس سورہ کو باوضو پڑھ کر دعا مانگو ان شاء اﷲتعالیٰ اصلاح ہو جائے گی۔
خواص سورهٔ نمل:۔اس کو ہرن کی جھلی میں لکھ کر صندوق میں رکھ دینے سے سانپ بچھو وغیرہ سے حفاظت رہے گی۔"
"خواص سوره قصص:۔بیمار کو تین روز تک اس سورہ کو پانی پر دم کر کے پلائیں ان شاء اﷲ تعالیٰ شفاء ہو گی بالخصوص جذام دور کرنے کے لئے بہت مفید ہے۔
خواص سورهٔ عنکبوت:۔غم دور کرنے کے لئے اس سورہ کو سات بار پڑھو۔
خواص سوره روم:۔دشمنوں پر فتح پانے کے لئے اس کو اکیس بار پڑھیں۔
خواص سوره لقمان:۔اس کو پڑھنے والا کبھی پانی میں غرق نہیں ہوگا اور ہر بیماری سے شفاء پائے گا۔
خواص سوره سجدہ:۔اس کو سات مرتبہ مریض بالخصوص جذامی اور دق والے پر پڑھ کر دم کریں ان شاء اﷲ شفاء ہو گی۔
خواص سوره احزاب:۔جس لڑکی کے نکاح کا پیغام نہ آتا ہو اس کو اس سورہ کا نقش پہنا دو بہت جلد اس کی شادی ہو جائے گی۔
خواص سورهٔ سبا:۔ظالم کے ظلم سے نجات پانے کے لئے اس کو سات بار پڑھو اور موذی جانوروں سے بچنے کے لئے اس کو لکھ کر تعویذ بناؤ اور پہن لو۔
خواص سوره فاطر:۔اگر اسے روزانہ بلا ناغہ با وضو پڑھا جائے تو روح میں بڑی طاقت اور بلند پروازی آجائے گی اور غیبی نعمتوں کے ملنے کا انتظام ہو جائے گا۔
خواص سورهٔ یٰس:۔کسی مردہ پر اس کو پڑھا جائے تو اس کو راحت ملتی ہے جو شخص ہر جمعہ کو اپنے والدین یا دونوں میں سے ایک کی زیارت کے لئے ان کی قبر پر جائے اور سورره یس پڑھے تو ان کے اتنے گناہ بخش دئے جائیں جتنے اس سورہ میں حروف ہیں ۔"
(الدرالمنثور،ج۷،ص۴۹،۴۰)
علامہ خواجہ احمد دیربی نے ''فتح الملک المجید'' میں لکھا ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم
"نے حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ سورره یس پڑھو اس میں بیس برکتیں ہیں:۔
(۱)بھوکا آدمی اس کو پڑھے تو آسودہ کیا جائے(۲)پیاسا پڑھے تو سیراب کیا جائے (۳)ننگا پڑھے تو لباس ملے (۴)مرد بے عورت والا پڑھے تو جلد اس کی شادی ہو جائے (۵)عورت بے شوہر والی پڑھے تو جلد شادی ہو جائے(۶)بیمار پڑھے تو شفا پائے(۷) قیدی پڑھے تو رہا ہو جائے (۸)مسافر پڑھے تو سفر میں اﷲعزوجل کی طرف سے مدد ہو (۹)غمگین پڑھے تو اس کا رنج و غم دور ہو جائے(۱۰)جس کی کوئی چیز گم ہوگئی ہو وہ پڑھے تو جو کھویا ہے وہ پاجائے باقی برکتوں کا ذکر نہیں کیا ہے سورره یس کی ایک آیت"
سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبِّ رَّحِیْمِ O
کو ایک ہزار چار سو انہتر بار پڑھو ان شاء اﷲتعالیٰ جس مقصد سے پڑھو گے مراد پوری ہوگی خواجہ دیربی لکھتے ہیں کہ یہ مجرب ہے اور
سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبِّ رَّحِیْمِ O
کو پانچ جگہ ایک کاغذ پر لکھ کر تعویذ باندھو تو حوادثات اور چور وغیرہ سے حفاظت رہے گی جو شخص صبح کو سورره یس پڑھے گا اس کا پورا دن اچھا گزرے گا اورجو شخص رات میں اس کو پڑھے گااس کی پوری رات اچھی گزرے گی حدیث شریف میں ہے کہ یس قرآن کا دل ہے۔
(جامع الترمذی،کتاب فضائل القران،باب ما جاء فی فضل یسۤ،الحدیث۲۸۹۶،ج۴،ص۴۰۶)
"خواص سوره الصافات:۔جس مکان میں جن رہتے ہوں وہاں اس سورہ کو لکھ کر صندوق میں مقفل کردیں ان شاء اﷲ جن کوئی ضرر نہ پہنچا سکیں گے۔
خواص سورهٔ صۤ:۔نظر بد کو دفع کرنے کے لئے سات بار اس سورہ کو پڑھ کر دم کریں۔
خواص سورهٔ زمر:۔اس کو روزانہ سات بار پڑھنے سے عزت اور دولت غیب سے ملتی ہے۔"
"خواص سوره مومن:۔جسے پھوڑے نکلتے ہوں وہ روزانہ اس سورہ کو ایک بار پڑھ لیا کرے اور اگر اس سورہ کو لکھ کر دوکان میں آویزاں کریں تو خریدار بکثرت آئیں۔
خواص سورهٔ حٰمۤ السجدہ:۔جس کی آنکھوں میں کوئی عارضہ ہو وہ اس سورہ پاک کو لکھ کر پاک صاف پانی میں دھوئے اور آنکھوں میں لگائے یا اسی پانی میں سرمہ گھس کر آنکھوں میں لگائے ان شاء اﷲ تعالیٰ شفاء ہوگی۔
خواص سورهٔ شوریٰ:۔جو شخص اس سورہ کو روزانہ ایک بارپڑھتا رہے گا وہ دشمنوں پر غالب رہے گا۔
خواص سورهٔ زخرف:۔اس کو سات بار روزانہ پڑھنے سے تمام حاجتیں پوری ہوتی ہیں اور اس کا تعویذ تمام امراض کے لئے شفا ہے۔
خواص سورهٔ دخان:۔کوئی مشکل درپیش ہو تو اس کو سات بار پڑھیں او ل و آخر گیارہ گیارہ بار درود شریف بھی پڑھ لیں۔
خواص سورهٔ جاثیہ:۔جو شخص جان کنی کے عالم میں ہو اس پر اس سورہ کو پڑھ کر دم کرو ان شاء اﷲتعالیٰ سکرات کی سختی سے نجات پاجائے گا اور خاتمہ بالخیر ہو گا۔
خواص سورهٔ احقاف:۔اس کا دم کیا ہوا پانی آسیب والے کے لئے بہت فائدہ مند ہے۔
خواص سورهٔ محمد:۔ اس کو آب زمزم میں مشک و زعفران حل کر کے لکھو اور پیو! عزت وعظمت ملے گی اور طرح طرح کی بیماریوں سے شفاء حاصل ہوگی۔
خواص سورهٔ فتح:۔دشمنوں پر فتح پانے کے لئے اس کو اکیس مرتبہ پڑھو اگر رمضان کا چاند دیکھ کر اس کے سامنے پڑھا جائے تو ان شاء اﷲ تعالیٰ سال بھر امن رہےگا۔"
"خواص سوره حجرات:۔محبت رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم اور ایمان کی سلامتی اور گھر میں خیر و برکت کے لئے اس کو اکتالیس بار پڑھ کر دعا مانگو اور پانی پر دم کر کے پی لو۔
خواص سورهقۤ:۔باغ میں پھلوں کی کثرت اور کھیتوں میں پیداوار بڑھانے کے لئے اس سورہ کو اکیس مرتبہ پڑھ کر اور پانی پر دم کر کے درختوں اور کھیتوں پر چھڑک دیں بے شمار خیر و برکت ان شاء اﷲ تعالیٰ ہوگی۔
خواص سوره ذاریات:۔اس کو ستر بار پڑھنے سے آدمی غنی ہو جاتا ہے اور قحط دفع ہو جاتا ہے۔
خواص سوره طور:۔اگر جذامی اس کو پڑھے شفایاب ہو اگر مسافر پڑھے سفر میں بلاؤں اور آفتوں سے محفوظ رہے۔
خواص سوره نجم:۔اسے اکیس بار پڑھنے سے حاجت بر آتی ہے اور اس کا پڑھنے والا دشمنوں پر فتح پاتا ہے۔
خواص سوره قمر:۔شب جمعہ میں اس کو پڑھنے سے دشمنوں پر فتح ملتی ہے اور مرادیں پوری ہوتی ہیں۔
خواص سوره الرحمن:۔اسے گیارہ بار پڑھنے سے تمام مقاصد پورے ہوتے ہیں اس کو لکھ کر اور دھو کر طحال کے مریض کو پلانا بہت مفید ہے۔
خواص سوره واقعہ:۔مشکوۃ ج۱ص۱۸۹ میں حدیث ہے کہ جو شخص روزانہ سوررهٔ واقعہ پڑھے گا اس کو کبھی فاقہ نہ ہوگا۔"
(مشکوۃ المصابیح،کتاب فضائل القران،الفصل الثالث،رقم۲۱۸۱،ج۱،ص۵۹۷)
حضرت خواجہ کلیم اﷲ صاحب رحمۃ اﷲ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ ادائے قرض اور فاقہ
دور کرنے کے لئے اس کو بعد مغرب پڑھو ۔
(مرقع کلیمی ص۱۳)
بعض بزرگوں کا ارشاد ہے کہ مغرب کے بعد بلا کچھ بات کئے سورره واقعہ پڑھ کر یہ دعا پڑھو۔
اَللّٰھُمَّ یَا مُسَبِّبَ الْاَسْبَابِ وَیَامُفَتِّحَ الْاَبْوَابِ وَیَاسَرِیْعَ الْحِسَابِ یَّسِرْ لَنَا الْحِسَابَO اَللّٰھُمَّ اِنْ کَانَ رِزْقِیْ فِی السَّمَآءِ فَاَنْزِلْہُ وَاِنْ کَانَ فِی الْاَرْضِ فَاَخْرِجْہُ وَاِنْ کَانَ بِعِیْدًا فَقَرِّبْہُ اِلَیَّ وَاِنْ کَانَ قَرِیْبًا فَیَسِّرْہُ وَاِنْ کَانَ قَلِیْلاً فَکَثِّرہُ وَاِنْ کَانَ کَثِیْرًا فَخَلِّدْہُ وَطَیِّبْہُ وَاِنْ کَانَ طَیِّباً فَبَارِکْ لِیْ فِیْہِ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌO
ان شاء اﷲ تعالیٰ کبھی فاقہ نہ ہوگا۔
"خواص سوره حدید:۔بیمار آدمی یا دشمن سے پریشان آدمی اس کو لکھ کر اپنے پاس رکھے تو انشاء اﷲ تعالیٰ بیماری اور پریشانی دور ہو جائے گی اور بعض بزرگوں کا قول ہے کہ جو شخص اس سورہ کو لکھ کر اپنے پاس رکھے گا تلوار وغیرہ کے حملوں سے محفوظ رہے گا۔
خواص سورهٔ مجادلہ:۔دو شخصوں یا جماعتوں کی باہم جنگ و جدال ختم کرانے کے لئے اس کا پڑھنا مفید ہے۔
خواص سوره حشر:۔اگر حاجت براری کے لئے چار رکعت نماز پڑھی جائے اور ہر رکعت میں سورره حشر ایک بار پڑھی جائے تو ان شاء اﷲ تعالیٰ حاجت پوری ہو گی چینی کی تختی پر اس کو لکھ کر پینا نسیان کا علاج ہے اس سورہ کی آخری تین آیتیں بہت اہم ہیں حدیث میں ہے کہ ان آیتوں میں ''اسم اعظم''ہے۔
خواص سوره ممتحنہ:۔جس لڑکی کی شادی نہ ہوتی ہو اس کے لئے سورره ممتحنہ"
"پانچ مرتبہ پڑھی جائے ان شاء اﷲ تعالیٰ اس کا نکاح کسی نیک مرد سے ہو جائے گا۔
خواص سوره صف:۔جو لڑکا ماں باپ کا نافرمان ہو اس پر تین بار سورره صف پڑھ کر دم کر دو ان شاء اﷲ تعالیٰ فرمانبردار ہو جائے گا مسافر اس کو پڑھے تو امن وامان سے رہے گا روزی میں خیر و برکت ہوگی۔
خواص سوره جمعہ:۔میاں بیوی میں اگر مخالفت ہو جائے تو جمعہ کے دن اس سورہ کو تین بار پڑھ کر اور پانی پر دم کر کے دونوں کو پلا دو دونوں میں ان شاء اﷲ تعالیٰ موافقت ہو جائے گی۔
خواص سوره منافقون:۔چغلخوروں کے شر سے بچنے کے لئے اسے روزانہ پڑھو اور اگر آنکھ میں درد ہو تو اس کو پڑھ کر دم کرو۔
خواص سوره طلاق:۔رنج و غم دور کرنے کے لئے اورہر بیماری سے شفاء کے لئے اس کی تلاوت بہت مفید ہے۔
خواص سوره تحریم:۔ادائے قرض اور حصول غنا کے لئے اکیس بار پڑھو۔
خواص سوره ملک:۔حدیث شریف میں ہے کہ جو شخص ہر رات میں اسے پڑھے گا وہ عذاب قبر سے محفوظ رہے گا ۔"
(السنن الکبری للنسائی،کتاب عمل الیوم واللیلۃ،الفصل فی قراء ۃ تبارک الذی،رقم۱۰۵۴۷،ج۶،ص۱۷۹)
"خواص سوره نون:۔نماز میں اس سورہ کو پڑھنے سے فقر و فاقہ دور ہو جاتا ہے اور ستر بار پڑھنے سے چغلخوروں سے حفاظت ہو جاتی ہے۔
خواص سوره الحاقہ:۔(۱)پانی پر دم کر کے آسیب زدہ کو پلاؤ۔(۲)جو بچہ زیادہ روتا ہو اس کو بھی پلاؤ۔(۳)جب بچہ پیدا ہو تو نہلانے کے بعد اس کا پڑھا ہوا پانی"
"بچے کے منہ پر مل دو تو بچہ ان شاء اﷲ تعالیٰ بہت ذہین ہوگا۔
خواص سوره معارج:۔احتلام کو روکنے کے لئے سونے سے پہلے آٹھ بار پڑھنا مفید ہے۔
خواص سوره نوح:۔اس کی تلاوت د شمنوں پر غالب آنے کے لئے بہت مفید ہے۔
خواص سوره جن:۔اس کی تلاوت سے آسیب اور جنوں کا اثر دور ہو جاتا ہے۔
خواص سوره مزمل:۔اس کو گیارہ بار پڑھنے سے ہر مشکل آسان ہو جاتی ہے۔
خواص سوره مدثر:۔اس کو پڑھ کر حفظ قرآن مجید کی دعا مانگو ان شاء اﷲ تعالیٰ قرآن مجید کا یاد کرنا آسان ہو جائے گا۔
خواص سوره قیامۃ:۔ اس کوپڑھ کر پانی پر دم کر کے پینے سے قلب میں نرمی اور رقت پیدا ہو جاتی ہے اور روزانہ پڑھنے سے مقبولیت حاصل ہوتی ہے۔
خواص سوره دھر:۔اس کو بکثرت پڑھنے سے علم و حکمت کی باتیں زبان پر جاری ہو جاتی ہیں اور پچھتر بار پڑھنے سے روزی میں برکت ہوتی ہے۔
خواص سوره مرسلات:۔اس کو پڑھ کر دم کرنے سے ہر مرض خاص کر پھوڑا اچھا ہو جاتا ہے۔
خواص سوره النبا :۔اس کو پڑھنے سے ضعف بصر کی شکایت دور ہو جاتی ہے پانی پر دم کر کے آنکھوں میں لگانا بھی مفید ہے حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء علیہ الرحمۃ نے فرمایا ہے کہ جو شخص عصر کے بعد اس سورہ کو پانچ مرتبہ پڑھے گا وہ اسیر عشق الٰہی عزوجل ہو جائے گا۔ (فوائد الفوادمع ھشت بہشت، ح۳،ص۱۰۱)"
"خواص سوره والنازعات:۔جو شخص روزانہ اس کو پڑھے اس کو جان کنی کی تکلیف نہیں ہوگی۔
خواص سورهٔ عبس:۔اس کی تلاوت نظر کی کمزوری اور رتوندھے کے لئے مفید ہے۔
خواص سوره تکویر:۔پڑھ کر آنکھوں پر دم کرنے سے آشوب چشم اور جالا وغیرہ دور ہو جاتا ہے اور اگر اس سورہ کو زعفران سے لکھ کر سات روز تک نامرد کو پلایا جائے تو امید ہے کہ انقلاب حال شروع ہو جائے گا۔
خواص سوره انفطار:۔اس کی تلاوت کی برکت سے قیدی جلد چھوٹ جاتا ہے۔
خواص سوره المطففین:۔جس چیز پر پڑھ دو گے ان شاء اﷲ تعالیٰ وہ دیمک سے محفوظ رہے گی اور اگر لکھ کر بانجھ عورت کے گلے میں تعویذ پہنا دو تو ان شاء اﷲتعالیٰ وہ صاحب اولاد ہو جائے گی۔
خواص سوره انشقاق:۔جس بچے کا دودھ چھڑانا منظور ہو اسے اس سورہ کا تعویذ پہنا دو درد زہ کی تکلیف میں گڑ اور پانی پر دم کر کے پلانے سے بہت جلد پیدائش ہو جاتی ہے۔
خواص سوره بروج:۔عصر کے بعد تلاوت کرنے سے پھوڑا پھنسی سے نجات مل جاتی ہے۔
خواص سوره طارق:۔اگر کان میں گونج یا درد پیدا ہو جائے تو اس کو پڑھ کر دم کرنے سے ان شاء اﷲتعالیٰ آرام ہو جائے گا اور بواسیر کا مریض پڑھتا رہے تو ان شاء اﷲتعالیٰ جلد شفا پائے گا۔
خواص سوره اعلیٰ:۔اگر مسافر پڑھتا رہے سفر کی تمام آفتوں سے محفوظ رہے گا۔"
"خواص سوره غاشیہ:۔اس کو پڑھ کر دم کرنے سے مریض کو شفا ملتی ہے۔
خواص سوره فجر:۔آدھی رات کو پڑھ کر اگر بیوی سے صحبت کریں تو نیک بخت او لاد پیدا ہوگی۔
خواص سوره بلد:۔اس کو پڑھنے سے امن و عافیت اور لوگوں کی محبت ملے گی۔
خواص سوره والشمس:۔اس کو پڑھ کر مرگی والے کے کان میں پھونک مارنا بہت مفید ہے اگر بکری کے دودھ پر دم کر کے بد زبان آدمی کو پلاؤ ان شاء اﷲ تعالیٰ بد زبانی جاتی رہے گی۔
خواص سوره واللیل:۔بچہ کی ولادت کے وقت اس کو تعویذ بنا کر بچے کو پہنا دو بچہ ہر قسم کے کیڑے مکوڑوں سے محفوظ رہے گا جاڑا بخار والے کو اس کا تعویذ نفع بخش ہے۔
خواص سوره والضحیٰ:۔اس کو ۳۵ مرتبہ پڑھ کر دعا مانگیں تو ان شاء اﷲ تعالیٰ بھاگا ہوا آدمی واپس آجائے گا۔
خواص سوره الم نشرح:۔جس مال پر خرید نے کے بعد تین مرتبہ اسے پڑھ دیا جائے اس میں ان شاء اﷲ تعالیٰ خوب برکت ہوگی۔
خواص سوره والتین:۔اس کو روزانہ تین مرتبہ جو پڑھے گا اس کے اخلاق و کردار نہایت بہترین ہو جائیں گے اگر حاملہ عورت کو ابتداء حمل سے روزانہ یہ سورہ پاک دھو دھو کر پلاتے رہیں تو ان شاء اﷲ تعالیٰ لڑکا حسین و جمیل پیدا ہو جائے گا سفید چینی کی طشتری پر زعفران سے لکھ کر پلائیں۔
خواص سوره اقرء :۔گٹھیا اور جوڑوں کے درد کا علاج ترکیب یہ ہے کہ نماز فجر سے پہلے سات مرتبہ اس سورہ کو پڑھ کر تلاوت کا ایک سجدہ کریں اور سجدہ میں"
حَسْبِیَ اللہُ
وَنَعْمَ الْوَکِیْلُO نِعْمَ الَمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِیْرُ
"سات مرتبہ پڑھیں۔
خواص سوره قدر:۔جو شخص روزانہ اس کو صبح و شام تین تین بار پڑھے گا اﷲتعالیٰ اس کی عزت بڑھا دے گا۔
خواص سوره بیّنہ:۔یہ برص اور یرقان کا علاج ہے ترکیب یہ ہے کہ اس سورہ کو
بکثرت پڑھا کریں اور اس کا نقش پانی میں گھول کر پلائیں ان شاء اﷲ تعالیٰ صحت ہو جائے گی۔
خواص سوره زلزال:۔یہ سورہ چوتھائی قرآن کے برابر ہے اس کو ستر مرتبہ پڑھنے سے مشکل دور ہو جاتی ہے اور اس کے پڑھنے سے آسیب دور ہو جاتا ہے۔
خواص سوره والعادیات:۔جس آدمی یا جانور کو نظر لگی ہو اس پر سات مرتبہ اس سورہ کو پڑھ کر دم کرو نظر دفع ہو جائے گی درد جگر والے کو یہ لکھ کر دھو کر تین دن تک پلائیں۔
خواص سوره القارعہ:۔ اس سورہ کو ایک سو ایک بار پڑھ دینے سے نظر دفع ہو جاتی ہے مکان میں لکھ کر لگانے سے بلاؤں سے امان اور حفاظت رہتی ہے۔
خواص سوره تکاثر:۔یہ ہزار آیتوں کے برابر ہے اس کو تین سو بار پڑھنے سے قرض بہت جلد ان شاء اﷲ تعالیٰ ادا ہو جائے گا اگر کسی مردہ سے ملاقات کرنی ہو تو اس سورہ کو شب جمعہ میں ایک سو تیرہ مرتبہ پڑھ کر سو جاؤ۔
خواص سوره والعصر:۔اس کو پڑھنے سے غم دور ہو جاتا ہے مصیبت زدہ پر سات مرتبہ اس سورہ کو پڑھ کر دم کر دو۔
خواص سوره الھمزہ:۔دشمن کے شر سے حفاظت کے لئے روزانہ گیارہ مرتبہ پڑھو۔
خواص سوره فیل:۔دشمن کے شر سے حفاظت کے لئے اس سورہ کو ایک سو بار پڑھ کر دعا مانگو۔"
"خواص سوره قریش:۔جان کی حفاظت اور فاقہ سے امن کے لئے روزانہ اس سورہ کو ستائیس مرتبہ پڑھنا مجرب ہے۔
خواص سوره الماعون:۔بڑی مشکل پیش آجائے تو اس سورہ کو ہزار بار پڑھنا بہت مفید ہے۔
خواص سوره الکوثر:۔لاولد صاحب اولاد ہو جائے اس کے لئے اس سورہ کو روزانہ پانچ سو مرتبہ پڑھے تین ماہ تک پڑھنے کے بعد ا ن شاء اﷲ تعالیٰ حمل قرار پا جائے گا اور آدمی صاحب اولاد ہو جائے گا۔
خواص سوره کافرون:۔یہ چوتھائی قرآن کے برابر ہے جو ضرورت مند اتوار کے دن طلوع آفتاب کے وقت دس بار اس سورہ کو پڑھے اس کا کام بن جائے گا۔
خواص سوره اللہب:۔دشمنوں کی مغلوبیت کے لئے اس کو بکثرت پڑھنا مفید ہے۔
خواص سوره اخلاص:۔یہ سورره پاک تہائی قرآن کے برابر ہے جو بیمار اپنی بیماری کے زمانے میں اس کو پڑھتا رہے اگر وہ اسی بیماری میں مرگیا تو حدیث کا بیان ہے کہ وہ قبر کے دبوچنے اور قبر کی تنگی کے عذاب سے محفوظ رہے گا اور قیامت کے دن فرشتے اس کو چاروں طرف سے گھیرے میں لے کر اور اپنے بازوؤں پر بٹھا کر پل صراط پار کرا دیں گے اور جنت میں پہنچادیں گے۔
جو شخص اس سورہ کو صبح و شام تین تین مرتبہ نیچے لکھی ہوئی دعا کی صورت میں پڑھے گا ان شاء اﷲتعالیٰ اس کی ہر دعا پوری ہوگی پڑھنے کی ترکیب یہ ہے۔"
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِO اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰالَمِیْنَO وَالصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّصَحْبِہٖ وَسَلِّمْO قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَدٌO لَیْسَ کَمِثْلِہٖ اَحَدٌO لَا تُسَلِّطْ عَلٰی اَحَدٍO وَلَا تُجَوِّجْنِیْ اِلٰی اَحَدٍO وَاَغْنِنِیْ یَارَبِّ عَنْ کُلِ اَحَدٍO بِفَضْلِ قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَدٌO اَﷲُ الصَّمَدُO لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْOوَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدُO اِلٰھِیْ یَامَنْ ھُوَ قَدِیْمٌ دَائِمٌ یَا حَیُّ یَاقَیُّوْمُ یَا اَوَّلُ یَا آخِرُ اِقْضِ حَاجَتِیْ یَا فَرْدُ یَافَرْدُ یَا صَمَدُ وَ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی سَیِّدنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلَّمَ۔
خواص سوره الفلق والناس:۔صحیح مسلم میں حدیث ہے کہ (امن و پناہ کے باب میں) سورره فلق اور سورره ناس جیسی کوئی سورہ نہ دیکھو گے۔
(صحیح مسلم،کتاب صلاۃ المسافرین،باب فضائل القران مایتعلق بہ،رقم۸۱۴،ص۴۰۶)
" ان دونوں سورتوں میں جن و شیطان اور حاسدوں کے شر سے محفوظ رہنے کی بے نظیر تاثیر ہے ان کو عمل میں لانے کی چند صورتیں درج ذیل ہیں۔
(۱)مسحور پر سو مرتبہ ان دونوں سورتوں کو پڑھ کر دم کرنے سے ان شاء اﷲ تعالیٰ سحر کا اثر زائل ہو جائے گا اور اگر پانی پراتنی ہی بار پڑھ کر دم کر دیا جائے اور پلایا جائے جب بھی جادو ٹوٹ جائے گا۔
(۲)اگر گیارہ گیارہ مرتبہ بھی پڑھیں جب بھی فائدہ ہو گا کئی روز تک ایسا کرنا ہوگا۔
(۳)جن بچوں کو ان دونوں سورتوں کا تعویذ پہنا دیا جائے وہ جن و شیطان اور تمام زہریلے جانوروں سے محفوظ رہیں گے ۔"
(فیوض قرآنی)
دماغ کی کمزوری:۔پانچوں نمازوں کے بعد سر پر داہنا ہاتھ رکھ کر گیارہ مرتبہ یَا قَوِیُّ پڑھو۔
"نظر کا کمزور ہونا:۔پانچوں نمازوں کے بعد گیارہ مرتبہ یَا نُوْرُ پڑھ کر دونوں ہاتھوں کے پوروں پر دم کرکے آنکھوں پر پھیر لیں۔
زبان میں لکنت:۔فجر کی نماز پڑھ کر ایک پاک کنکری منہ میں رکھ کر یہ آیت اکیس مرتبہ پڑھیں"
رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ وَیَسِّرْ لِیْ اَمْرِیْ وَ احْلُلْ عُقْدَۃً مِّنْ لِّسَانِیْ یَفْقَھُوْاقَوْلِیْ۔
(پ۱۶،طٰہ:۲۵۔۲۷)
اختلاج قلب:۔یہ بسم اﷲ سمیت لکھ کر گلے میں باندھیں ڈور اتنا لمبا رہے کہ تعویذ دل پر پڑا رہے
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اَلَّذِینَ اٰمَنُوْاوَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُھُمْ بِذِکْرِ اللہِ اَلاَ بِذِکْرِ اللہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ۔
(پ،۱۳،الرعد:۲۸)
درد شکم:۔یہ آیت پانی وغیرہ پر تین بار پڑھ کر پلا دیں یا لکھ کر پیٹ پر باندھ دیں
لَا فِیۡہَا غَوْلٌ وَّ لَا ہُمْ عَنْہَا یُنۡزَفُوۡنَ ﴿47﴾
تلی بڑھ جانا:۔اس آیت کو لکھ کر تلی کی جگہ باندھیں
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ذٰلِکَ تَخْفِیۡفٌ مِّنۡ رَّبِّکُمْ وَرَحْمَۃٌ ؕ
ناف ٹل جانا:۔اس آیت کو لکھ کر ناف کی جگہ باندھیں
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم اِنَّ اللہَ یُمْسِکُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ اَنۡ تَزُوۡلَا ۬ۚ وَلَئِنۡ زَالَتَاۤ اِنْ اَمْسَکَہُمَا مِنْ اَحَدٍ مِّنۡۢ بَعْدِہٖ ؕ اِنَّہٗ کَانَ حَلِیۡمًا غَفُوۡرًا ﴿41﴾
بخار:۔اگر بغیر جاڑے کے ہو تو یہ آیت لکھ کر گلے میں باندھیں اور اسی کو پڑھ کر دم کریں(پ22،فاطر:41)
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم قُلْنَا یٰنَارُ کُوۡنِیۡ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤی اِبْرٰہِیۡمَ ﴿ۙ69﴾
اور اگر بخار جاڑے کے ساتھ ہو تو یہ آیت لکھ کر گلے میں باندھیں(پ17،الانبیاء:69)
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ
الرَّحِیْم بِسْمِ اللہِ مَجْرٖؔؔىھَا وَمُرْسٰىہَا ؕ اِنَّ رَبِّیْ لَغَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿41﴾
"پھوڑا پھنسی:۔پاک صاف ڈھیلا پیس کر اس پر یہ دعا تین مرتبہ پڑھ کر تھوکے اور اس مٹی پر تھوڑا پانی چھڑک کر وہ مٹی تکلیف کی جگہ پر دن میں دو چار بار مل لیا کرے چاہے پھوڑے پر یہ مٹی لگا کر پٹی باندھ دے۔
گھر میں سے سانپ بھگانا:۔لوہے کی چار کیلیں لے کر ایک ایک کیل پر پچیس پچیس مرتبہ یہ آیت دم کرکے مکان کے چاروں کو نوں پر زمین میں گاڑ دیں ان شاء اﷲ تعالیٰ سانپ اس گھر میں نہیں رہے گا اور آسیب بھی چلا جائے گا آیت یہ ہے"
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم اِنَّہُمْ یَکِیۡدُوۡنَ کَیۡدًا ﴿ۙ15﴾وَّ اَکِیۡدُ کَیۡدًا ﴿ۚۖ16﴾فَمَہِّلِ الْکٰفِرِیۡنَ اَمْہِلْہُمْ رُوَیۡدًا ﴿٪17﴾
"با ؤلے کتے کا کاٹ لینا:۔اوپر ذکر کی ہوئی آیت کو روٹی یا بسکٹ کے چالیس ٹکڑوں پر لکھ کر ایک ٹکڑا روز اس شخص کو کھلا دیں ان شاء اﷲ تعالیٰ اس شخص کو باؤلا پن اور ہڑک نہ ہوگی۔
بانجھ پن:۔چالیس لونگیں لے کر ہر ایک پر سات سات بار اس آیت کو پڑھے اور جس دن عورت حیض سے پاک ہو کر غسل کرے اس دن سے ایک لونگ روزمرہ سوتے وقت کھانا شروع کرے اور اس پر پانی نہ پیوے اور اس درمیان میں ضرور شوہر کے ساتھ سوئے آیت یہ ہے"
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم اَوْکَظُلُمٰتٍ فِیۡ بَحْرٍ لُّجِّیٍّ یَّغْشٰىہُ مَوْجٌ مِّنۡ فَوْقِہٖ مَوْجٌ مِّنۡ فَوْقِہٖ سَحَابٌ ؕ ظُلُمٰتٌۢ بَعْضُہَا فَوْقَ بَعْضٍ ؕ اِذَاۤ اَخْرَجَ یَدَہٗ لَمْ یَکَدْ یَرٰىہَا ؕ وَ مَنۡ لَّمْ یَجْعَلِ اللہُ لَہٗ نُوۡرًا فَمَا لَہٗ مِنۡ نُّوۡرٍ ﴿٪4۰﴾
ان شاء اﷲ تعالیٰ ضرور اولاد ہوگی ۔
حمل گر جانا:۔اس آیت کا تعویذ بنا کر کمر میں باندھے اور تعویذ ناف کے نیچے پیڑو پر رہے
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم وَ اصْبِرْ وَمَا صَبْرُکَ اِلَّا بِاللہِ وَلَا تَحْزَنْ عَلَیۡہِمْ وَلَا تَکُ فِیۡ ضَیۡقٍ مِّمَّا یَمْکُرُوۡنَ ﴿127﴾اِنَّ اللہَ مَعَ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا وَّالَّذِیۡنَ ہُمۡ مُّحْسِنُوۡنَ ﴿128﴾٪
" ان شاء اﷲ تعالیٰ حمل گرنے سے محفوظ رہے گا۔
پیدائش کا درد:۔یہ آیت ایک پرچے پر لکھ کر کپڑے میں لپیٹ کر عورت کی بائیں ران میں باندھیں یا سات مرتبہ گڑ پانی پر پڑھ کر کھلائیں بچہ آسانی کے ساتھ پیدا ہوگا وہ آیت ہے"
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم اِذَا السَّمَآءُ انۡشَقَّتْ ۙ﴿1﴾وَ اَذِنَتْ لِرَبِّہَا وَ حُقَّتْ ۙ﴿2﴾وَ اِذَا الْاَرْضُ مُدَّتْ ﴿ۙ3﴾وَ اَلْقَتْ مَا فِیۡہَا وَ تَخَلَّتْ ۙ﴿4﴾
بچہ زندہ نہ رہنا:۔اجوائن اور کالی مرچ آدھ آدھ پاؤ لے کر پیر کے دن سورج ڈھلنے کے بعد چالیس بار سوررهٔ والشمس اس طرح پڑھے کہ ہر دفعہ کے ساتھ درود شریف بھی پڑھے اور ہر مرتبہ اجوائن اور کالی مرچ پر دم کر کے اور شروع حمل سے دودھ چھڑانے تک روزانہ تھوڑی تھوڑی اجوائن اور کالی مرچ کھا لیا کرے ان شاء اﷲ تعالیٰ اولاد زندہ رہےگی۔
قل اعوذ برب الفلقO اور قل اعوذ برب الناسO بِسْمِ اﷲِ سمیت تین تین بار پڑھ کر بچے پر دم کرے اور یہ تعویذ لکھ کر بچے کے گلے میں پہنائے
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمO اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّاتِ کُلِّھَا مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَO اَعُوْذُبِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ کُلِّ شَیْطٰانٍ وَّھَامَّۃٍOوَمِنْ شَرِّ کُلِّ عَیْنٍ
لَّامَّۃِOاَعُوْذُ بِکَلمَاتِ اللہِ التَّامَّات مِنْ غَضَبِہٖ وَعِقَابِہٖ وَمِنْ شَرِّ عِبَادِہٖ مِنْ ھَمَزَاتِ الشَّیَاطِیْنِ وَ اَنْ یَّحْضُرُوْنَOوَ صَلَّی اللہُ تَعالٰی عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہٖ مُحَمَّدٍ وَّ آلہٖ وَصَحْبِہٖ اَجْمَعِیْنَO
"ہیضہ اور وبائی امراض میں:۔ان دونوں میں ہر کھانے پینے کی چیز پر سورره انا انزلناہ پڑھ کر دم کر لیا کریں ان شاء اﷲ تعالیٰ حفاظت رہے گی اور جس کو مرض ہو جائے اس کو بھی کسی چیز پر دم کر کے کھلائیں پلائیں ان شاء اﷲ تعالیٰ شفاء حاصل ہوگی۔
چیچک کا گنڈا:۔نیلا سات رنگ کا گنڈا لے کر اسی پر سورره الرحمن پڑھیں اور ہر"
فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ
"پر پھونک مار کر ایک گرہ لگا دیں پھر یہ گنڈا بچے کے گلے میں ڈال دیں چیچک سے حفاظت رہے گی اور اگر چیچک نکلنے کے بعد ڈالیں تو ان شاء اﷲ تعالیٰ چیچک کی زیادہ تکلیف نہ رہے گی۔
دودھکم ہونا:۔یہ دونوں آیتیں نمک پر سات بار پڑھ کر اُڑد کی دال میں کھلائیں اور بسم اﷲ سمیت دونوں آیتوں کو پڑھیں پہلی آیت"
وَالْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَہُنَّ حَوْلَیۡنِ کَامِلَیۡنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنۡ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَ ؕ
اور دوسری آیت
وَ اِنَّ لَکُمْ فِی الۡاَنْعَامِ لَعِبْرَۃً ؕ نُسْقِیۡکُمۡ مِّمَّا فِیۡ بُطُوۡنِہٖ مِنۡۢ بَیۡنِ فَرْثٍ وَّدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَآئِغًا لِّلشّٰرِبِیۡنَ ﴿66﴾
جادو ٹونا کے لیے:۔یہ آیت لکھ کر مریض کے گلے میں پہنائیں اور پانی پڑھ کر پانی پلائیں اور اسی پڑھے ہوئے پانی سے مریض کو کسی بڑی لگن یا ٹب میں بٹھا کر نہلائیں اور پانی کسی جگہ ڈال دیں
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ فَلَمَّاۤ اَلْقَوۡا قَالَ مُوۡسٰی مَا جِئْتُمۡ بِہِ ۙ السِّحْرُ ؕ اِنَّ اللہَ سَیُبْطِلُہٗ ؕ اِنَّ اللہَ لَا یُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِیۡنَ ﴿81﴾
وَیُحِقُّ اللہُ الْحَقَّ بِکَلِمٰتِہٖ وَلَوْکَرِہَ الْمُجْرِمُوۡنَ ﴿٪۸۲﴾
اور
قلْ اَعُوْذُبِرَبِّ الْفَلَقِ
اور
قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ
" پوری پوری سورہ ایک ایک مرتبہ۔
ایام ماہواری کی کمی:۔اگر ایام ماہواری میں کمی ہو اور اس سے تکلیف ہو تو ان آیات کو لکھ کر گلے میں ڈالیں اور ڈور اتنا بڑا ہو کہ تعویذ ناف کے نیچے پڑا رہے ۔"
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم وَ جَعَلْنَا فِیۡہَا جَنّٰتٍ مِّنۡ نَّخِیۡلٍ وَّ اَعْنَابٍ وَّ فَجَّرْنَا فِیۡہَا مِنَ الْعُیُوۡنِ ﴿ۙ34﴾لِیَاۡ کُلُوۡا مِنۡ ثَمَرِہٖ ۙ وَ مَا عَمِلَتْہُ اَیۡدِیۡہِمْ ؕ اَفَلَا یَشْکُرُوۡنَ ﴿35﴾ (پ23،یسۤ:34،35) اَوَلَمْ یَرَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰہُمَا ؕوَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ کُلَّ شَیۡءٍ حَیٍّ ؕ اَفَلَا یُؤْمِنُوۡنَ ﴿3۰﴾
ایام ماہواری کی زیادتی:۔اگر کسی عورت کو ایام ماہواری زیادہ آتے ہوں اور اس سے تکلیف ہو تو ان آیتوں کو لکھ کر تعویذ گلے میں ڈالیں اور ڈور اتنا بڑا ہو کہ تعویذ ناف کے نیچے پڑا ہو
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم وَ قِیۡلَ یٰۤاَرْضُ ابْلَعِیۡ مَآءَکِ وَ یٰسَمَآءُ اَقْلِعِیۡ وَغِیۡضَ الْمَآءُ وَقُضِیَ الۡاَمْرُ وَاسْتَوَتْ عَلَی الْجُوۡدِیِّ وَقِیۡلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿44﴾
غائب کو واپس بلانا:۔اگر کسی کا لڑکا یا کوئی بھی کہیں چلا گیا اور لا پتا ہوگیا تو اس کو واپس بلانے کے لئے نیچے کی آیتوں کو لکھ کر اس تعویذ کو گلے یا نیلے کپڑے میں لپیٹ کر گھر کی اندھیری کوٹھری میں دو پتھروں کے درمیان اس طرح رکھ دیا جائے کہ اس پر کسی کا پاؤں نہ پڑے پتھر نہ ہوں تو چکی کے دو پاٹوں کے درمیان اس کو دبا دینا چاہیے اور لفظ فلاں کی جگہ اس لا پتا کا نام لکھیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمO اَوْکَظُلُمٰتٍ فِیْ بَحرٍ لُجِّیٍّ یَغْشٰہُ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِہٖ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِہٖ سَحَابٌ ظُلُمٰتٌم بَعْضُھَا فَوْقَ بَعْضٍ ؕ اِذَۤا اَخْرَجَ یَدَہٗ لَمْ یَکَدْ یَرٰھَاؕ وَمَنْ لَّمْ یَجْعَلِ اللہُ لَہٗ نُوْرًا فَمَالَہٗ مِنْ نُوْرٍO اِنَّارَآدُّ وْہُ اِلَیْکِ فَرَدَدْنٰہُ اِلٰی اُمُّہٖ کَیْ تَقَرَّ عَیْنُھَا وَلَا تَحْزَنَ وَلِتَعْلَمَ اَنَّ وَعْدَ اللہِ حَقُّ وَّ لٰکِنَّ اَکْثَرَ ھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَO یبُنَیَّ اِنَّھَآ اِنْ تَکُ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِنْ خَرْدَلٍ فَتَکُنْ فِیْ صَخْرَۃٍ اَوْ فِی السَّمٰوٰتِ اَوْ فِی الْاَرْضِ یَاْ تِ بِھَا اللہُ ؕ اِنَّ اﷲَ لَطِیْفٌ خَبِیْرٌ O حَتّٰی اِذَا ضَاقَتْ عَلَیْھِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَیْھِمْ اَنْفُسُھُمْ وَظَنُّوۤا اَنْ لَّا مَلْجَاَمِنَ اللہِ اِلَّا اِلَیْہِ ؕ ثُمَّ تَابَ عَلَیْھِمْ لِیَتُوْبُواؕ اِنَّ اﷲَ ھُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُO اَللَّھُمَّ یَا ھَادِیَ الضَّالِّ وَیَارَادَّ الضَّآلَۃِ اُرْدُوْا عَلَیّ ضَالَّتِیْ فُلان
"غریبی دور ہونے کے لیے:۔بعد نماز عشاء اول آخر گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف اور درمیان میں گیارہ مرتبہ تسبیح یَا مُعِزُّ کی پڑھ کر دعا مانگیں اور اگر چاہیں تو یہ دوسرا وظیفہ پڑھ لیا کریں کہ بعد نماز عشا آگے پیچھے سات سات مرتبہ درود شریف پڑھ کر بیچ میں چودہ تسبیح اور چودہ دانہ یَا وَھَّابُ پڑھ کر دعا کریں ان شاء اﷲ تعالیٰ روزی میں فراخی اور برکت ہو گی۔
بچوں کا زیادہ رونا:۔یہ تعویذ لکھ کر بچوں کے گلے میں پہنائیں۔"
اَفَمِنْ ھٰذَا الْحَدِیثِ تَعْجَبُوْنَO وَتَضْحَکُوْنَ وَلَاتَبْکُوْنَO وَلَبِثُوْافِی کَھْفِھِمْ ثَلٰثَ مِائَۃٍ سِنِیْنَ وَازْدَادُوْ تِسْعًاO
دردسر کے لیے:۔یہ دعا پڑھ کر بار بار سر پر دم کریں اور اسی کو لکھ کر سر میں باندھیں
بِسْمِ اللہِ خَیْرِ الْاَ سْمَآءِ بِسْمِ اللہِ رَبِّ الْاَرْضِ وَالسَّمَآءِ بِسْمِ اللہِ الَّذِیْ بِیَدِہِ الشِّفَآءُ بِسْمِ اللہِ الَّذِیْ لَا یَضُرُّ مَعَ ا سْمِہٖ شَیْئٌ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَاءO
درد سر آدھا سیسی:۔یہ تعویذ لکھ کر سات تار کورے سوت کے دھاگہ میں باندھ کر سر میں باندھیں اور جس طرف درد ہو ادھر تعویذ رہے۔
صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وعلی راسہ الشریف والہ و صحبہ وبارک وسلمO
(۱)صَلَّی اللہُ عَلَی النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ وَاٰلِہٖ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلّمْ صَلَاۃً وَّ سَلَامًا عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہِO
"اس درود شریف کو بعد نماز جمعہ مدینہ منورہ کی طرف رخ کر کے اور ادب کے ساتھ ہاتھ باندھ کر ایک سو مرتبہ پڑھیں تو دین و دنیا کی بے شمار نعمتوں سے سرفراز ہوں گے۔
(۲)مسجد میں پہلے داہنا قدم رکھ کر داخل ہوں اور یہ دعا پڑھیں :۔"
اَللّٰھُمَّ افْتَحْ لِیْ اَبْوَابَ رَحْمَتِکَO
(ابن ماجہ،کتاب المساجد...الخ،باب الدعاء...الخ، الحدیث ۷۷۲،ج۱،ص۴۲۶)
(۳)مسجد سے نکلتے وقت پہلے بایاں قدم باہر نکالو اور یہ دعا پڑھو:۔
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَO
(صحیح مسلم،کتاب صلوۃ المسافرین...الخ،باب ما یقول اذا...الخ،الحدیث۷۱۳،ص۳۶۰)
(۴)چاند دیکھ کر یہ دعا پڑھو
اَللّٰھُمَّ اَھْلِلْہٗ عَلَیْنَا بِالْیُمْنِ وَالْاِیْمَانِ وَالسَّلَا مَۃِ وَ الْاِسْلَامِ ؕ رَبِّی وَرَبُّکَ اللہُ یَا ھِلَا لُ O
(ترمذی،کتاب الدعوات،باب مایقول عند رؤیۃ الھلال،الحدیث۳۴۶۲،ج۵،ص۲۸۱)
(۵)کشتی اور جہاز پر سوار ہوتے وقت یہ دعا پڑھیں امن و امان سے سفر تمام ہو گا۔
بِسْمِ اللہِ مَجْرٖھَا وَمُرْ سٰھَآ اِنَّ رَبِّیْ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔
(المعجم الکبیر للطبرانی،الحدیث۱۲۶۶۱،ج۱۲،ص۹۷)
(۶)موٹر' ٹرین' رکشا' ہوائی جہاز وغیرہ پرسوار ہوتے وقت یہ دعاپڑھو سلامتی سے رہو گے
سُبْحٰنَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا ھٰذَا وَمَا کُنَّا لَہٗ مُقْرِنِیْنَO
(سنن ابی داود،کتاب الجہاد،باب مایقول الرجل...الخ،الحدیث۲۶۰۲،ج۳،ص۴۹)
(۷)جب سونے لگے تو یہ دعا پڑھ لے
اَللّٰھُمَّ بِاِسْمِکَ اَمُوْتُ وَاَحْیَاO
(صحیح البخاری،کتاب الدعوات،باب مایقول اذا نام،الحدیث ۶۳۱۲،ج۴،ص۱۹۲)
(۸) جب سو کر اٹھے تو یہ دعا پڑھ لے
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَحْیَانَا بَعْدَ مَا اَمَاتَنَا وَاِلَیْہِ النُّشُوْ رُ O
(صحیح البخاری،کتاب الدعوات،باب مایقول اذا نام،الحدیث۶۳۱۲،ج۴،ص۱۹۲)
(۹)جب کوئی ڈراؤنا یا برا خواب دیکھے اور آنکھ کھل جائے تو تین مرتبہ پڑھے
اعوذ باﷲ من الشیطن الرجیمO
پھر تین مرتبہ بائیں طرف تھوکے پھر اگر سونا چاہے تو کروٹ بدل کر سو جائے ان شاء اﷲتعالیٰ برے خواب سے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔
(صحیح البخاری،کتاب التعبیر،باب اذا رأی ما یکرہ...الخ،الحدیث۷۰۴۴،ج۴،ص۴۲۳)
(۱۰)جب آسمان سے کوئی تارا ٹوٹتا ہوا نظر آئے تو نگاہ نیچی کرلے اور یہ دعا پڑھے:۔
مَاشَآءَ اللہُ لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ۔
(عمل الیوم و اللیلۃ،باب مایقول اذا انقض الکوکب ،الحدیث۶۵۳،ص۱۹۸)
(۱۱)کوڑھی اندھے لنگڑے وغیرہ مریض یا مصیبت زدہ کو دیکھے تو یہ دعا پڑھ لے ان شاء اﷲ تعالیٰ اس مرض اور مصیبت سے محفوظ رہے گا مگر زکام و آشوب چشم اور خارش کے مریضوں کو دیکھ کر یہ دعا نہ پڑھے کیونکہ ان بیماریوں سے بدن کی اصلاح ہوتی ہے وہ دعا یہ ہے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ عَافَانِیْ مِمَّا ابْتَلَاکَ بِہٖ وَفَضَّلَنِیْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقَ تَفْضِیْلًا
(ترمذی،کتاب الدعوات،باب ما یقول اذا رأی مبتلی،الحدیث۳۴۴۲،ج۵،ص۲۷۲)
(۱۲)زہریلے جانوروں سے حفاظت کے لئے یہ دعا صبح و شام کو پڑھ لیا کرو
اَعُوْذُبِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَO
اس دعا کو جو صبح کو پڑھ لے وہ دن بھر زہریلے جانوروں سے محفوظ رہے گا اور جو شام کو پڑھ لے وہ رات بھر ان جانوروں سے امن وامان میں رہے گا۔
(صحیح مسلم،کتاب الذکر والدعاء...الخ،باب فی التعوذمن ...الخ،الحدیث۲۷۰۹،ص۱۴۵۳)
اَللّٰھُمَّ اکْفِنِیْ بِحَلَا لِکَ عَنْ حَرَامِکَ وَاَغْنِنِیْ بِفَضْلِکَ عَمَّنْ سِوَاکَ۔
(سنن الترمذی،احادیث شتی،باب ۱۲۱،الحدیث۳۵۷۴،ج۵،ص۳۲۹)
" ہر نماز کے بعد گیارہ گیارہ مرتبہ صبح و شام سو سو بار روزانہ پڑھے اور اول وآخر تین تین بار درود شریف بھی پڑھ لے۔
(۱۴)بازار میں داخل ہو تو یہ کلمات پڑھ لے"
لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ وَھُوَ حَیٌّ لَّا یَمُوْتُ بِیَدِہِ الْخَیْرُ وَھُوَ عَلٰی کُلِ شَیِءٍ قَدِیْرٌ۔
(جامع ترمذی،کتاب الدعوات، باب مایقول اذا دخل السوق،الحدیث۳۴۳۹،ج۵،ص۲۷۱)
(۱۵)جب نیا لباس پہنے تو یہ پڑھے
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ کَسَا نِیْ مَا اُوَارِیْ بِہٖ عَوْرَتِیْ وَ اَتَجَمَّلُ بِہٖ فِیْ حَیَاتِیْO
(جامع ترمذی ،کتاب الدعوات ،الحدیث۳۵۷۱،ج۵،ص۳۲۷)
(۱۶)جب آئینہ دیکھے تو یہ دعا پڑھے
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ اَللّٰھُمَّ کَمَا حَسَّنْتَ خَلْقِیْ فَحَسِّنْ خُلُقِیْO
(کتاب الدعاء للطبرانی،باب القول عند النظرفی المرأۃ،الحدیث۴۰۴،ص۱۴۵)
(۱۷)جب کسی کو رخصت کرے تو یہ دعا پڑھے
اَسْتَوْدِعُ اللہَ دِیْنَکَ وَاَمَانَتَکَ وَخَوَاتِیْمَ عَمَلِکَO
(ابوداود،کتاب الجہاد،باب فی الدعاء عند الوداع،الحدیث ۲۶۰۰،ج۳،ص۴۸)
(۱۸)سفر کے لیے روانہ ہوتے وقت یہ دعا پڑھ لے تو امن و سلامتی کے ساتھ سفر تمام ہوگا
اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْئَلُکَ فِیْ سَفَرِنَا ھٰذَا الْبِرَّ وَ التَّقْوٰیO وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضٰیO اَللّٰھُمَّ ھَوِّنْ عَلَیْنَا ھٰذَا السَّفَرَO وَاطْوِ عَنَّا بُعْدَہٗO اَللّٰھُمَّ اَنْتَ الصَّاحِبُ فِی السَّفَرِ وَ الْخَلِیْفَۃُ فِی الْاَھْلِO اَللّٰھُمَّ اِنِیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ وَّعْثَاءِ السَّفَرِO وَکَاٰ بَۃِ الْمَنْظَرِO وَ سُوْءِ الْمَنْقَلَبِO فِی الْاَھْلِ وَالْمَالِ وَالْوَلَدِO
(صحیح مسلم،کتاب الحج،باب مایقول اذا...الخ،الحدیث۱۳۴۲،ص۷۰۰)
(۱۹)جب سفر سے واپس ہو تو یہ دعا پڑھے۔
اٰ ئِبُوْنَO تَائِبُوْنَO عَابِدُوْنَO لِرَبِّنَاحَامِدُوْنَO
(سنن الترمذی،کتاب الدعوات،باب ما یقول اذا قدم من السفر،الحدیث۳۴۵۱،ج۵،ص۲۷۶)
(۲۰)جب کسی منزل یا اسٹیشن پر اترے تو یہ دعا پڑھے ان شاء اﷲ تعالیٰ ہر قسم کے نقصان سے محفوظ رہے گا۔
رَبِّ اَنْزِلْنِیْ مُبٰرَکاًO وَّاَنْتَ خَیْرُ الْمُنْزِلِیْنَO
(الدر المنثور،ج۶،ص۹۷)
(۲۱)آنکھوں میں سرمہ لگاتے وقت یہ دعا پڑھنی چاہیے
اَللّٰھُمَّ مَتِّعْنِیْ بِالسَّمْعِ وَالْبَصَرِO
(سنن الترمذی،احادیث شتی،باب ۱۳۸،الحدیث۳۶۲۲،ج۵،ص۳۴۹)
(۲۲)کھانا کھانے کے بعد اس دعا کو پڑھے
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَطْعَمَنَا وَسَقَانَا وَھَدَانَا وَجَعَلَنَا مِنَ المُسْلِمِیْنَO
(ابوداود،کتاب الاطعمہ،باب ما یقول الرجل اذا طعم،الحدیث۳۸۴۹،ج۳،ص۵۱۳)
(۲۳)جب کوئی نعمت ملے تو یہ پڑھے
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ بِنِعْمَتِہٖ تَتِمُّ الصَّالِحَاتُO
(سنن ابن ماجہ،کتاب الادب ،باب فضل الحامدین،الحدیث۳۸۰۳،ج۴،ص۲۵۰)
(۲۴)ہر بلا ہر نقصان سے امان ملنے کے لئے صبح کو اور شام کو تین تین مرتبہ اس دعا کو پڑھ لے ان شاء اﷲ تعالیٰ ہر بلا اور ہر نقصان سے محفوظ رہے گا۔
بِسْمِ اللہِ الَّذِیْ لَا یَضُرُّ مَعَ اسْمِہٖ شَیْئٌ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَآءِ وَھُوَ السَّمِیْعُ الُعَلِیْمُO
(سنن ابن ماجہ،کتاب الدعاء،باب مایدعوبہ الرجل...الخ،الحدیث۳۸۶۹،ج۴،ص۲۸۴)
(۲۵)جب آندھی چلے تو یہ دعا پڑھے۔
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ مِنْ خَیْرِ ھَا وَ خَیْرِ مَا فِیْھَا وَ خَیْرِ مَا اُرْسِلَتْ بِہٖO وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّھَا وَشَرِّ مَافِیْھَا وَشَرِّ مَا اُرْسِلَتْ بِہٖO
(صحیح مسلم،کتاب صلوۃ الاستسقاء،باب التعوذ عند رؤیۃ الریح...الخ،الحدیث۸۹۹،ص۴۴۶)
(۲۶)بادلوں کی گرج اور بجلی کی کڑک کے وقت یہ دعا پڑھنی چاہیے۔
اَللّٰھُمَّ لَا تَقْتُلْنَا بِغَضَبِکَ وَلَا تُھْلِکْنَا بِعَذَابِکَ وَعَافِنَا قَبْلَ ذٰلِکَO
(جامع ترمذی،کتاب الدعوات،باب مایقول اذا سمع الرعد،الحدیث۳۴۶۱،ج۵،ص۲۸۱)
(۲۷)اگر کسی قوم یا کسی گروہ سے جان و مال کا خوف ہو تو یہ دعا پڑھے۔
اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْO وَنَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْO
(سنن ابی داود،کتاب الوتر،باب ما یقول الرجل اذا خاف قوما،الحدیث۱۵۳۷،ج۲،ص۱۲۷)
(۲۸)مرغ کی آواز سن کر یہ پڑھے۔
اَسْئَلُ اﷲَ مِنْ فَضْلِہٖ الْعَظِیْمِO
(صحیح مسلم،کتاب الذکرو الدعاء ...الخ،باب استحباب الدعاء...الخ،الحدیث۲۷۲۹،ص۱۴۶۱)
(۲۹)گدھا بولے تو یہ دعا پڑھیں۔
لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِO
"صبا نے کس کی آمد کی سنائی مرادِبلبل بے تاب لائی
مچی ہیں شادیاں کیسی گلوں میں مبارکبادیاں ہیں بلبلوں میں
یہ نرگس کس کا رستہ دیکھتی ہے یہ سوسن کس کی مدحت کر رہی ہے
کھلے پڑتے ہیں سب غنچے یہ کیا ہے انہیں کس پھول کا شوق لقا ہے
نئی پوشاک بدلی ہے گلوں نے مچایاشورہے کیوں بلبلوں نے
نئی معلوم ہے یہ ماجرا کیا یہ کیسا حکم ہے رضواں کو آیا
بنا دے تو چمن ہر ایک بن کو نہ ہو جنت سے کچھ نسبت دلہن کو
ہوا مالک کو یہ حکمِ خداوند کہ دروازے جہنم کے ہوں سب بند
قریشی جانور کیوں بولتے ہیں یہ کس کے وصف میں لب کھولتے ہیں
زمین کی سمت کیوں مائل ہیں تارے یہ کس کی دید کے سائل ہیں تارے
یہ بت کس واسطے اوندھے پڑے ہیں زمیں پہ کیوں خجالت سے گرے ہیں
زمیں پر کیوں ملائک آرہے ہیں یہ کیوں تحفے پہ تحفے لا رہے ہیں
یہ آمد کون سے ذیشان کی ہے یہ آمد کون سے سلطان کی ہے
اسی حیرت میں تھے اہل تماشہ کہ ناگہ ہاتفِ غیبی یہ بولا"
"وہ اٹھی دیکھ لو گردِ سواری عیاں ہونے لگے انوار باری
نقیبوں کی صدائیں آرہی ہیں کسی کی جان کو تڑپا رہی ہیں
مؤدب ہاتھ باندھے آگے آگے چلے آتے ہیں کہتے آگے آگے
دا جن کے شرف پر سب نبی ہیں یہی ہیں وہ یہی ہیں وہ یہی ہیں
یہی والی ہیں سارے بیکسوں کے یہی فریادرس ہیں بے بسوں کے
انہیں کی ذات ہے سب کا سہارا انہیں کے درسے ہے سب کاگزارا
انہیں سے کرتی ہیں فریاد چڑیاں انہیں سے چاہتی ہیں داد چڑیاں
یہی ہیں جو عطا فرمائیں دولت کریں خود جو کی روٹی پر قناعت
انہیں پر دونوں عالم مر رہے ہیں انہیں پر جان صدقے کر رہے ہیں
فزوں رتبہ ہے صبح وشام ان کا محمد مصطفی ہے نام ان کا
کوئی دامن سے لپٹا رورہا ہے کوئی ہر گام محوِالتجاء ہے
ادھر بھی اک نظر ہو تاج والے کوئی کب تک دلِ مضطر سنبھالے
بہت نزدیک آپہنچا وہ پیارا فدا ہے جان ودل جس پر ہمارا
اٹھیں تعظیم کو یارانِ محفل ہوا جلوہ نما وہ جانِ محفل"
"الحمد للہ رب العٰلمین والصلوۃ والسلام علی رسولہ محمد و الہ وصحبہ اجمعین
سَلِّمُوْایَاقَوْمِ بَلْ صَلُّوْا عَلٰی الصَّدْرِالاَمِیْں
مُصْطَفٰی مَا جَاءَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْں"
"آوازہوبلند درود و سلام کی محفل ہے ذکر مولدِخیر الانام کی
اللہ کا ۔۔ہے اور قدسیوں کابھی کیا شان ہے رسول علیہ السلام کی"
"رَبِّ سَلِّمْ عَلٰی رَسُوْلِ اللہ
مَرْحَبَا مَرْحَبَا رَسُوْلِ اللہ"
"بھیج اے رب میرے درودوسلام اپنے پیارے نبی پر بھیج مدام"
اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِکْ عَلٰی سَیِّدِنَامُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ
"بزم ہستی کے تاجدار آئے گلشن دہر کی بہار آئے
جس کے دامن میں چھپ سکے دنیا وہ رسول کرم شعار آئے"
روایت ہے کہ ا للہ تعالی نے زمین و آسمان بلکہ تمام عالم اور سارے جہان کے پیدا کرنے سے بہت پہلے اپنے حبیب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے نور کو پیدا فرمایااور اپنے پیارے حبیب علیہ الصلوۃو السلام کے مقدس نور سے اپنی تمام کائنات کو شرفِ وجود سے سر فراز فرمایا جیسا کہ خود حضورِاقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ :
'' اَوَلُ مَاخَلَقَ اللہُ نُوْرِیْ''
یعنی سب سے پہلے اللہ تعالی نے میرے نور کو پیدا فرمایا :
'' وَکُلُّ الْخَلَائِقِ مِنْ نُوْرِیْ ''
اور تمام مخلوق کو اللہ تعالیٰ نے میرے نور سے خلق فرمایا
''وَاَنَا مِنْ نُوْرِ اللہِ''
اور میں اللہ کا نور ہوں ۔
"رَبِّ سَلَّمْ عَلیٰ رَسُوْلِ اللہ مَرْحَبَا مَرْحَبَا رَسُوْلِ اللہ"
"بھیج اے رب میرے درودوسلام اپنے پیارے نبی پر بھیج مدام"
" برسہابرس بلکہ ہزاروں برس تک یہ نور محمدی خداوند قدوس کی تسبیح وتقدیس میں مشغول ومصروف رہا یہاں تک کہ اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا تو اس مقدس نور کو ان کی پیشانی میں امانت رکھا،اور جب تک خداوند عالم کو منظور تھا ، حضرت آدم علیہ السلام بہشت کے باغوں میں اپنی بیوی حضرت حوا کے ساتھ سکونت فرماتے تھے یہاں تک کہ جب خدا وند عالم کے حکم سے حضرت آدم وحوا علیہما السلام بہشتِبریں سے روئے زمین پر تشریف لائے اوربال بچوں کی پیدائش کا سلسلہ شروع ہوا تو نور محمدی جو آپ کی پیشانی میں جلوہ گر تھا ،وہ آپ کے فرزند حضرت شیث علیہ السلام کی پیشانی میں منتقل ہوا اور سلسلہ بسلسلہ ،درجہ بدرجہ نورِ محمدی مقدس پیٹھوں سے مبارک شکموں کی طرف تفویض ہوتارہا،اور جن جن مقدس پیشانیوں میں یہ نور چمکتا رہا ہر جگہ عجیب عجیب معجزات وخوارق عادات کا ظہور ہوتا رہا اور اس نور پاک کی برکتوں کے فیوض طرح طرح سے ظاہر ہوتے رہے۔ چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام کی مقدس پیشانی میں اس نور محمدی نے یہ جلوہ دکھایا کہ حضرت آدم علیہ السلام مسجود ملائکہ ہو گئے اور تمام فرشتوں نے ان کے سامنے سجدہ کیا یہی نور جب حضرت نوح علیہ السلام کو ملاتو طوفان میں اسی نور کی بدولت ان کی کشتی سلامتی کے ساتھ جودی پہاڑ پر پہنچ کر ٹھہر گئی ۔اسی نور محمدی کا فیضان تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب نمرودکافر نے آگ کے شعلوں میں ڈال دیا تو وہ آگ جس کے بلند شعلوں کے اوپر سے کوئی پرند بھی نہیں گزرسکتاتھاایک دم ٹھنڈی اور سلامتی و راحت کا باغ بن گئی۔
یہی وجہ ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام آپ کی تشریف آوری کے مشتاق و"
منتظررہے۔اور ہر دور کے مقدس رسولو ں کی جماعت آپ کی آمد آمد کے انتظار میں آپ کی مدح وثناء کا خطبہ پڑھنے میں مشغول رہی ۔ چنانچہ ہر زمانے کے مقدس نبیوں اور رسولوں کا یہ حال رہا کہ
"خلیل اللہ نے جس کے لیے حق سے دعائیں کیں
ذبیح اللہ نے وقت ذبح جس کی التجائیں کیں
جو بن کے روشنی پھر دیدۂ یعقوب میں آیا
جسے یوسف نے اپنے حسن کے نیرنگ میں پایا
دلِ یحیٰ میں ارمان رہ گئے جس کی زیارت کے
لب عیسیٰ پہ آئے وعظ جس کی شانِ رحمت کے"
الغرض نور محمدی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم برابر ایک پیشانی سے دوسری پیشانیوں میں منتقل ہوتا رہا اور اپنے فیوض و برکات کے جلوؤں سے ہر دور کے لوگوں کو نورانیت بخشتا رہا ،یہاں تک کہ یہ نور پاک حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے دادا حضرت عبد المطلب کو ملا اسی نور اقدس کا طفیل تھا کہ ابرہہ بادشاہ حبش کا وہ لشکر جو کعبہ ڈھانے کے ليے چڑھائی کرکے آیا تھا حضرت عبدالمطلب کی بدولت چھوٹے چھوٹے پرندے ابابیلوں کی کنکریوں سے پورا لشکر مع ہاتھیوں کے ہلاک وبرباد ہوگیااور خدا کا مقدس گھر خانہ کعبہ ایک کافر کے حملوں سے سلامت رہا۔
"سَلِّمُوْایَاقَوْمِ بَلْ صَلُّوْا عَلٰی الصَّدْرِالاَمِیْں
مُصْطَفٰی مَا جَاءَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْں"
"صَلَّی اللہُ عَلٰی النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ وَ اٰلِہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ
صَلَاۃً وَّ سَلَامًا عَلَیْکَ یَارَسُوْلَ اللہِ"
حضرت عبدالمطلب سے یہ نور پاک منتقل ہو کر حضور علیہ الصلوۃوالسلام کے والد ماجد حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ کو ملا اور حضرت عبداللہ سے آپ کی والدہ ماجدہ بی بی آمنہ رضی اللہ تعالی عنہا کو تفویض ہوا، ایام حمل میں طرح طرح کے فیوض وبرکات کا ظہور ہوتا رہا۔ چنانچہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی والدہ ماجدہ کا بیان ہے کہ ہر رات خواب میں ایک فرشتہ آکر مجھے نبی آخرالزمان صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی تشریف آوری کی بشارت وخوشخبری سناتا رہا،یہاں تک کہ وہ مقدس وقت قریب سے قریب تر ہوتا رہاکہ خزانہ قدرت کی سب سے زیادہ انمول دولت روئے زمین کی طرف متوجہ ہو اور خداوند قدوس کی نعمتوں میں سے سب بڑی نعمت کا ظہور ہو چنانچہ
"ربیع الاول امیدوں کی دنیا ساتھ لے آیا
دعاؤں کی قبولیت کو ہاتھوں ہاتھ لے آیا
خدا نے ناخدائی کی خود انسانی سفینے کی
کہ رحمت بن کے چھائی بارھویں شب اس مہینے کی"
ربیع الاول کے مبارک مہینے کی بارھویں تاریخ آگئی اس رات میں عجیب عجیب مناظر ِقدرت کے جلوے نظر آ ئے جن کے بیان سے زبان قاصر و عاجز ہے حضرت جبرئیل علیہ السلام ستر ہزار مقدس فرشتوں کی فوج لے کر آسمان سے حرم کعبہ میں اترپڑے ،سبحان اللہ!
"یکایک ہوگئی ساری فضاء تمثال آئینہ
نظر آیا معلق عرش تک ا ک نور کا زینہ"
"خدا کی شان رحمت کے فرشتے صف بہ صف اترے
پرے باندھے ہوئے سب دین ودنیا کے شرف اترے"
حضرت جبرئیل امین علیہ السلام ایک مرتبہ خانہ کعبہ میں جاکر خداوندقدوس کے حضور سر بسجود ہو کر دعا مانگتے کہ یااللہ !جلد اپنے محبوب کو دنیا میں بھیج دے ۔اور ایک مرتبہ کاشانہِ نبوت پر حاضر ہو کر بصد ذوق وشوق التجائیں کرتے کہ
اِظْہَرْ یَاسَیِّدَ الْمُرْسَلِیْنَ اِظْہَرْ یَاخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ اِظْہَرْ یَاشَفِیْعَ المُذْنِبِیْنَ
یعنی اے تمام رسولوں کے سردارظاہر ہو جائيے اور اے تمام نبیوں کے خاتم تشریف لائيے اور اے تمام گناہگارانِ امت کو اپنی شفاعت کے دامن میں چھپانے والے آقاجلد ظہور پر نور فرمائيے یہی عالم تھا کہ صبح صادق نمودار ہوئی اور سارے جہان کی سوئی ہوئی قسمت بیدار ہوئی کہ:
"ابھی جبرئیل اترے بھی نہ تھے کعبہ کے منبر سے کہ اتنے میں صداآئی یہ عبداللہ کے گھر سے
مبارک ہو کہ دورراحت و آرام آپہنچا نجات دائمی کی شکل میں اسلام آپہنچا
مبارک ہو کہ ختم المرسلیں تشریف لے آئے جناب رحمۃ للعالمیں تشریف لے آئے
بصد انداز یکتائی بغایت شان زیبائی امیں بن کر امانت آمنہ کی گود میں آئی"
یعنی بنی آخر الزماں ختم پیغمبراں حضور سید المرسلیں رحمۃللعالمیں صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی ولادت باسعادت ہوئی اور ہر طرف مبارک باد کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں اور سر
زمین حرم کا ذرہ ذرہ زبان حال سے یوں مترنم ریز تھا کہ
"مبارک ہو کہ وہ شہہ پردے سے باہر آنے والاہے
گدائی کو زمانہ جس کے در پہ آنیوالا ہے
فقیروں سے کہو حاضر ہو ں جو مانگیں گے پائیں گے
کہ سلطان جہاں محتاج پرور آنے والا ہے
چکوروں سے کہو ماہ دل آرا ہے چمکنے کو
خبرذروں کو دو ،مہر منور آنے والا ہے
حسن کہہ دے اٹھیں سب امتی تعظیم کی خاطر
کہ اپنا پیشوا اپنا پیمبر آنے والا ہے"
"یا نبی سلام علیک یا رسول سلام علیک
یا حبیب سلام علیک صلوات اللہ علیک
السلام اے تاج والے دو جہاں کے راج والے
عاصیوں کی لاج والے اے مرے معراج والے
یا نبی سلام علیک یانبی سلام علیک
یا حبیب سلام علیک صلوات اللہ علیک
کاش حاصل حضوری دور ہو جائے یہ دوری
دیکھ لوں وہ شکل نوری دل کی یہ حسرت ہو پوری
یا نبی سلام علیک یا رسول سلام علیک
یا حبیب سلام علیک صلوات اللہ علیک"
"السلام اے تاج والے دو جہاں کے راج والے
عاصیوں کی لاج والے اے مرے معراج والے"
"یانبی سلام علیک یانبی سلام علیک
یا حبیب سلام علیک صلوات اللہ علیک"
" کاش حاصل حضوری دور ہو جائے یہ دوری
دیکھ لوں وہ شکل نوری دل کی یہ حسرت ہو پوری"
"یانبی سلام علیک یا رسول سلام علیک"
"یا حبیب سلام علیک صلوات اللہ علیک"
"دکھ بھرے نالوں کا صدقہ در کے پالوں کا صدقہ
کربلا والوں کا صدقہ بھیک دو لالوں کا صدقہ"
"یانبی سلام علیک یا رسول سلام علیک
یا حبیب سلام علیک صلوات اللہ علیک"
"تم شفیع المذنبیں ہو سرور دنیا و دیں ہو
صادق الوعد و امیں ہو رحمۃ للعالمیں ہو"
"یانبی سلام علیک یا رسول سلام علیک
یا حبیب سلام علیک صلوات اللہ علیک"
"بانی محفل کی سن لو سامعیں کے دل کی سن لو
رحم کے قابل کی سن لو عاشقِ بسمل کی سن لو"
"یانبی سلام علیک یا رسول سلام علیک
یا حبیب سلام علیک صلوات اللہ علیک"
"پوچھا گل سے یہ میں نے کہ اے خوبرو تجھ میں آئی کہاں سے نزاکت کی خو
یاد میں کس کی ہنستا مہکتا ہے تو ہنس کے بولا کہ اے طالب رنگ وبو"
" اللہُ اللہُ اللہُ اللہُ"
"عرض کی میں نے سنبل سے اے مشکبو صبح کو کرکے شبنم سے تازہ وضو"
"جھوم کر کون سا ذکر کرتاہے تو سن کے کرنے لگا دم بدم ذکر ہُو"
" اللہُ اللہُ اللہُ اللہُ"
"جب کہا میں نے بلبل سے اے خوش گلو کیوں چمن میں چہکتاہے تو چارسُو
دیکھ کر گل کسے یاد کرتا ہے تو وجد میں بول اٹھا وحدہ وحدہ"
" اللہُ اللہُ اللہُ اللہُ"
"جب پپیہے سے پوچھاکہ اے نیم جاں یاد میں کس کی کہتا ہے تو پی کہاں
کون ہے پی ترا کیاہے نام و نشاں بول اٹھا بس وہی جس پہ شیداہے تو"
" اللہُ اللہُ اللہُ اللہُ"
"میں نے قمری سے کی جا کے یہ گفتگو گاتی رہتی ہے کوکو توکیوں کوبکو
ڈھونڈتی ہے کسے کس کی ہے آرزو بولی سن میرا نغمہ ہے حق سرّہ"
" اللہُ اللہُ اللہُ اللہُ"
"آکے جگنو جو چمکا مرے روبرو عرض کی میں نے اے شاہدشعلہ رو
کس کی طلعت ہے تو کس کا جلوہ ہے تو یہ کہا جس کا جلوہ ہے ہر چار سو"
" اللہُ اللہُ اللہُ اللہُ"
"میں نے پوچھا یہ پروانے سے دوبدو کس ليے شمع کی لو پہ جلتا ہے تو
شعلہ نار میں ہے کس کی جستجو جلتے جلتے کہا اس نے یانورہ"
" اللہُ اللہُ اللہُ اللہُ"
"اعظمی گرچہ بے حد گنہ گار ہے مجرم و بے عمل ہے خطا کار ہے
حق تعالی مگر ایسا غفار ہے اس کی رحمت کا نعرہ ہے لاتقنطوا"
" اللہُ اللہُ اللہُ اللہُ"
"اے میرے معبود حق اے کردگار سارے عالم کاتو ہے پروردگار
فضل سے تیرے ہی اے رب کریم گلشن ہستی کی ہے ساری بہار
کر دیا مجھ کو غلام مصطفی ہو گیا میں دوجہاں کا تاجدار
بخش دے یارب خطائیں سب میری تو ہے غفار اور میں عصیاں شعار
تیری رحمت پر بھروسا ہے مجھے فضل کا تیرے میں ہوں امیدوار
کس طرح ہو شکر نعمت کا تری شکر ہے محدود نعمت بے شمار
ناز ہے اتنی سی نسبت پر مجھے میں ہوں مجرم اور تو آمر زگار
تیرے سجدوں نے وہ رفعت دی مجھے رفعت افلاک ہے مجھ پر نثار
بندہ فرماکر بڑھایا کس قدر قدسیوں میں میرا شاہانہ وقار
خاک بوس طیبہ ہے یہ اعظمی حشر میں یارب نہ ہو یہ شرمسار"
"سرور عالم نبیُّ الانبیاء میرے رسول اولیں و آخریں کے پیشوا میرے رسول
صدر بزم انبیاء مولائے کل فخر رسل محرم اسرارِ حق، شان خدا میرے رسول
مظہر شان الہی تاجدار کائنات نائب حق حاکم ہر ماسوامیرے رسول
مہبط لولاک سیار فلک عرش آستاں صاحب معراج ومصداق دنی میرے رسول
سورۂ والفجرعکس روئے روشن کا بیاں مطلع والشمس و شرح والضحی میرے رسول
مطلع انور رشک آفتاب وماہتاب نیّربرج شرف نور خدامیرے رسول"
"ابن مریم کی بشارت روح پیغام کلیم بانی کعبہ کی تاریخی دعا میرے رسول
منصب شان رسالت لقب ختم الرسل منزل محبوبیت میں مصطفی میرے رسول
جنکے قدموں سے ہے وابستہ دوعالم کی نجات وہ امیر کارواں وہ حق نما میرے رسول
اعظمی مومن ہوں ربُّ العٰلمیں میراخدا رحمۃ للعٰلمیں صلّ علی میرے رسول"
"نگار طیبہ ازل سے ہے تیری آرزو میرے وجود کا مقصد ہے جستجو تیری
ترا سکوت ہے لطف وکرم کی اک دنیا نسیم خلد کی جنت ہے گفتگو تیری
نسیم خلد نے مانگی ہے بھیک خوشبو کی کھلی مدینہ میں جب زلف مشکبو تیری
میری وفات کادن میری عید کا دن ہو بوقت مرگ جو صورت ہو روبرو تیری
گناہ کرکے بھی امید وار جنت ہوں سناہے جب سے کہ لطف و کرم ہے خو تیری
کہاں نہیں رخ انور کی جلوہ سامانی جہاں میں طلعت زیباسے چار سوتیری
حریم کعبہ میں بھی یاد آئی طیبہ کی کہ یادگارحرم میں ہے کوبکو تیری
نہ چھوٹے دامن عبدیت اعظمی ان کا اسی سے دونوں جہاں میں ہے آبرو تیری"
"یہ حالت ہے اب سانس لینا گراں ہے مگر آپ کا نام ورد زباں ہے
کوئی جانے کیا اس کا پرچم کہاں ہے سرعرش جس کے قدم کا نشاں ہے
وہ فانوس فطرت ہیں دونوں جہاں میں انہیں کی تجلی یہاں ہے وہاں ہے
یہ سارا جہاں ان کے زیر قدم ہے کہ پامال ان کا مکاں لامکاں ہے"
"کف دست رحمت میں ہے ساراعالم زمین آپ کی آپ کاآسماں ہے
مسلم ہے ان کو خدا کی نیابت کلام خدا مصطفی کی زباں ہے
نہ پوچھ اعظمی منزل سر بلندی مرا سر ہے محبوب کا آستاں ہے"
"حاجیو !اب گنبد سرکار تھوڑی دور ہے رحمت حق کا علمبردار تھوڑی دور ہے
ہے خریدارگنہ رحمت کا تاجر جس جگہ عاصیو! وہ مصطفی بازار تھوڑی دور ہے
عشق و مستی میں قدم آگے بڑھا کردیکھ لو گنبد خضراء کا وہ مینار تھوڑی دور ہے
نعمت کونین ملتی ہے گداؤں کو جہاں وہ محمد کا سخی دربار تھوڑی دور ہے
لے کے آئے تھے جہاں جبریل بھی فوج ملک وہ احد کا جنتی کہسار تھوڑی دور ہے
وہ شہیدان محبت کی مبارک خوابگاہ وہ بقیع پاک خلدآثار تھوڑی دور ہے
اللہ اللہ وہ گلستان مدینہ مرحبا پھول سے بہترہیں جسکے خار تھوڑی دور ہے
چل پڑا ہوں گرتا پڑتاسوئے طیبہ المدد اے مسیحا اب تیرا بیمار تھوڑی دور ہے
دشت طیبہ ہے یہاں چل سر کے بل اے اعظمی مصطفی کا جنتی دربار تھوڑی دورہے"
"مبارک آگئے مکہ مدینہ دیکھنے والے خدا کا گھر رسول حق کاروضہ دیکھنے والے
حریم کعبہ میں مستوں کا میلہ دیکھنے والے مزارمصطفی پہ حق کا جلوہ دیکھنے والے
جلال کعبہ کا اونچا منارہ دیکھنے والے جمال گنبد حضراء کاتارا دیکھنے والے"
"لپٹ کر رونے والے کعبہ جاں کے غلافوں سے نبی کے درپہ رحمت کابرسنا دیکھنے والے
طواف کعبہ میں ہرہر قدم پر جھومنے والے بھرے پیالوں میں زمزم کا چھلکنا دیکھنے والے
جمال اقدس روضہ بسا ہے ان کی آنکھوں میں حقیقت میں ہیں یہ جنت کا نقشہ دیکھنے والے
کمال شوق سے ہم ان کو سوسوباردیکھیں گے بڑے پیارے ہیں یہ مکہ مدینہ دیکھنے والے
مبارک ہیں مبارک ہیں خداشاہدمبار ک ہیں یہ مکہ دیکھنے والے مدینہ دیکھنے والے
ملا ہے اعظمی مکہ مدینہ سے شرف ان کو نگاہ دل سے دیکھیں ان کارتبہ دیکھنے والے"
"مبارک مرحبا مکہ مدینہ دیکھنے والے زمیں پرعرش کی منزل کا زینہ دیکھنے والے
حطیم کعبہ میں سجدے وہ بوسے سنگ اسود کے در کعبہ پہ رونا گڑگڑانا دیکھنے والے
مقام ملتزم میزاب اوررکن یمانی پر ہمیشہ ابررحمت کابرسنادیکھنے والے
وہ پیاسوں کاہجوم عاشقانہ کیف کاعالم وہ پیمانوں میں زمزم کاچھلکنادیکھنے والے
طواف کعبہ کی مستی صفامروہ کے منظرمیں شراب معرفت کاجام ومینادیکھنے والے
منٰی میں عید قربانی کامنظردیکھ کر آئے سرعرفات پروانوں کا میلہ دیکھنے والے"
"فرشتے پربچھاتے ہیں جہاں تیرے قدم پہنچے خداکاگھررسول حق کا روضہ دیکھنے والے
ستارہ تیری قسمت کاثریاسے بھی اونچاہے جمال گنبدخضراء کا جلوہ دیکھنے والے
مبارک ہیں مبارک اعظمی بیشک مبارک ہیں خدا کاگھرنبی کے درکاجلوہ دیکھنے والے"
"حسن یوسف اورہے طٰہٰ کاجلوہ اور ہے ماہ کنعاں اور ہے مہرمدینہ اورہے
آسمانوں پرگئے ادریس وعیسٰی شک نہیں دم میں سیر لامکاں معراج اسرٰی اور ہے
ہے خلیل اللہ حبیب اللہ میں فرق عظیم شان خلت اور ہے تاج فترضٰی اور ہے
انفلاق بحر برہان عظیم الشان تھا انشقاق بدر کالیکن نتیجہ اور ہے
مفت بھی لیتے نہیں عاشق حیات خضر کو خالی جینا اور ہے مرمر کے جینااور ہے
جنتی پھولوں کی خوشبوتومسلم ہے مگر نکہت گل اور ہے ان کاپسینہ اور ہے"
"اعظمی تھی نوح کی کشتی میں عالم کی نجات اہل بیت پاک کالیکن سفینہ اور ہے"
"سب سے ا ولی واعلیٰ ہمارابنی سب سے بالا و والا ہمارابنی
جس کوشایاں ہے عرش خداپرجلوس ہے وہ سلطان والا ہمارابنی
خلق سے اولیاء اولیاء سے رسل اوررسولوں سے اعلیٰ ہمارابنی
حسن کھاتا ہے جن کے نمک کی قسم وہ ملیح دل آرا ہمارابنی
جس کی دو بوند ہیں کوثروسلسبیل ہے وہ رحمت کادریا ہمارابنی
کیا خبر کتنے تارے کھلے چھپ گئے پر نہ ڈوبے نہ ڈوبا ہمارابنی
جس نے مردہ دلوں کو دی عمر ابد ہے وہ جان مسیحا ہمارابنی
غمزدوں کو رضا مژدہ دیجے کہ ہے بے کسوں کاسہارا ہمارا بنی"
"زہے عزت واعتلائے محمد کہ ہے عرش حق زیرپائے محمد
مکاں عرش ان کا فلک فرش ان کا ملک خادمان سرائے محمد
خداکی رضا چاہتے ہیں دو عالم خدا چاہتا ہے رضائے محمد
عصائے کلیم اژدہائے غضب تھا گروں کاسہارا عصائے محمد
خدا ان کو کس پیار سے دیکھتا ہے جو آنکھیں ہیں محو لقائے محمد
اجابت کا سہرا عنایت کا جوڑا دلہن بن کے نکلی دعائے محمد
رضاپل سے اب وجدکرتے گزريے کہ ہے رب سلم صدائے محمد"
"سر تا بہ قد م ہے تن سلطان زمن پھول لب پھول دہن پھول ذقن پھول بدن پھول
واللہ جو مل جائے مرے گل کا پسینہ مانگے نہ کبھی عطر نہ پھر چاہے دلہن پھول
تنکا بھی ہمارے تو ہلائے نہیں ہلتا تم چاہو تو ہو جائے ابھی کوہ محن پھول
دل اپنا بھی شیدائی ہے اس ناخن پا کا اتنا بھی مہ نو پہ نہ اے چرخ کہن پھول
دل بستہ وخوں گشتہ نہ خوشبونہ لطافت کیوں غنچہ کہوں ہے مرے آقا کادہن پھول
کیا بات رضا اس چمنستان کرم کی زہرا ہے کلی جس میں حسین اور حسن پھول"
"ہے لب عیسیٰ سے جاں بخشی نرالی ہاتھ میں سنگریزے پاتے ہیں شیریں مقالی ہاتھ میں
ابر نیساں مومنوں پر تیغ عریاں کفر پر جمع ہیں شان جلالی وجمالی ہاتھ میں
مالک کونین ہیں گو پاس کچھ رکھتے نہیں دوجہاں کی نعمتیں ہيں ان کے خالی ہاتھ میں"
"سایہ افگن سرپہ ہو پرچم الٰہی جھوم کر جب لواء الحمد لے امت کا والی ہاتھ میں
دستگیر ہر دو عالم کر دیا سبطین کو اے میں قرباں جان جاں انگشت کیالی ہاتھ میں
آہ وہ عالم کہ آنکھیں بند اور لب پر درود وقف سنگ درجبیں روضہ کی جالی ہاتھ میں
حشر میں کیاکیا مزے وارفتگی کے لوں رضا لوٹ جاؤں پاکے وہ دامان عالی ہاتھ میں"
"وہ کمال حسن حضور ہے کہ گمان نقص جہاں نہیں یہی پھول خارسے دورہے یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں
میں نثارتیرے کلام پرملی یوں تو کس کوزباں نہیں وہ سخن ہے جس میں سخن نہ ہووہ بیاں ہے جس کا بیاں نہیں
بخداخدا کایہی ہے درنہیں اورکوئی مفر مقر جو وہاں سے ہویہیں آکے ہو جویہاں نہیں توو ہاں نہیں
دوجہاں کی بہتریاں نہیں کہ امانیئ دل وجاں نہیں کہو کیاہے وہ جویہاں نہیں مگراک نہیں کہ وہ ہاں نہیں
وہی نورحق وہی ظل رب ہے انہیں سے سب ہے انہیں کاسب نہیں ان کی ملک میں آسماں کہ زمیں نہیں کہ زماں نہیں"
"سرعرش پر ہے تری گزر دل فرش پر ہے تیری نظر ملکوت وملک میں کوئی شے نہیں وہ جوتجھ پہ عیاں نہیں
کروں مدح اہل دول رضا پڑے اس بلا میں میری بلا میں گدا ہوں اپنے کریم کا میرا دین پارہ ناں نہیں"
"عرش حق ہے مسندرفعت رسول اللہ کی دیکھنی ہے حشر میں عزت رسول اللہ کی
قبر میں لہرائیں گے تا حشر چشمے نور کے جلوہ فرماہو گی جب طلعت رسول اللہ کی
لاورب العرش جس کوجو ملا ان سے ملا بٹتی ہے کونین میں نعمت رسول اللہ کی
وہ جہنم میں گیاجوان سے مستغنی ہوا ہے خلیل اللہ کو حاجت رسول اللہ کی
ٹوٹ جائیں گے گنہ گاروں کے فوراً قیدوبند حشر کو کھل جائے گی طاقت رسول اللہ کی
یارب اک ساعت میں دھل جائیں سیہ کاروں کے جرم جوش پر آجائے اب رحمت رسول اللہ کی
اے رضا خود صاحب قرآں ہے مدّاح رسول تجھ سے کب ممکن ہے پھر مدحت رسول اللہ کی"
"اے مدینے کے تاجدار سلام اے غریبوں کے غم گسار سلام
تری اک اک اداپہ اے پیارے سو درودیں فدا ہزار سلام
رب سلم کے کہنے والے پر جان کے ساتھ ہوں نثار سلام
میری بگڑی بنانے والے پر بھیج اے میرے کردگار سلام
پردہ میرا نہ فاش حشر میں ہو اے میرے حق کے راز دار سلام
عرض کرتا ہے یہ حسن تیرا تجھ پر اے خلد کی بہار سلام"
"عجب رنگ پرہے بہار مدینہ کہ سب جنتیں ہيں نثار مدینہ
مبارک ہو اے عندلیبوں تمہیں گل ہمیں گل سے بہتر ہے خار مدینہ
مری خاک یارب نہ برباد جائے پس مرگ کردے غبار مدینہ
رگ گل کی جب نازکی دیکھتاہوں مجھے یاد آتے ہیں خار مدینہ
جدھر دیکھیے باغ جنت کھلا ہے نظر میں ہیں نقش ونگار مدینہ
رہیں ان کے جلوے بسیں ان کے جلوے مرا دل بنے یاد گار مدینہ
بنا آسماں منزل ابن مریم گئے لامکاں تاجدار مدینہ"
"تمہارانام مصیبت میں جب لیا ہوگا ہمار بگڑا ہوا کام بن گیا ہوگا
دکھائی جائے گی محشر میں شان محبوبی کہ آپ ہی کی خوشی آپ کا کہاہوگا
خدائے پاک کی چاہیں گے اگلے پچھلے خوشی خدائے پاک خوشی ان کی چاہتا ہوگا
کسی کے پاؤ ں کی بیڑی یہ کاٹتے ہوں گے کوئی اسیر غم ان کو پکارتا ہوگا
کسی کے پلے پہ ہوں گے یہ وقت وزن عمل کوئی امید سے منہ ان کاتک رہا ہوگا
کوئی کہے گا دہائی ہے یارسول اللہ تو کوئی تھام کے دامن مچل گیاہوگا
کسی کو لے کے فرشتے چلیں گے سوئے جحیم وہ ان کا راستہ پھر پھرکے دیکھتاہوگا
کوئی قریب ترازو کوئی لب کوثر کوئی صراط پہ ان کو پکارتا ہوگا
وہ پاک دل کہ نہیں جس کو اپنا اندیشہ ہجوم فکر و تردد میں گھر گیا ہوگا"
"سلطان جہاں محبوب خداتیری شان وشوکت کیا کہنا ہرشے پہ لکھا ہے نام تراترے ذکر کی رفعت کیا کہنا
معراج ہوئی تا عرش گئے حق تم سے ملا تم حق سے ملے سب راز فاوحٰی دل پہ کھلے یہ عزت و حشمت کیا کہنا
ہر ذرہ تیرا دیوانہ ہے ہردل میں تیرا کاشانہ ہے ہر شمع تری پروانہ ہے اے شمع ہدایت کیا کہنا
آنکھوں سے کیادریاجاری اورلب پہ دعاپیاری پیاری روروکے گزاری شب ساری اے حامی امت کیا کہنا
عالم کی بھریں ہردم جھولی خودکھائیں فقط جو کی روٹی وہ شان عطاوسخاوت کی یہ زہد وقناعت کیا کہنا
وہ پھول بتولی گلشن کے اک سبزہوئے اک سرخ ہوئے بغدادوعرب جن میں مہکے ان پھولوں کی نکہت کیا کہنا"
"جا کے صبا تو کوئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم لاکے سنگھا خوشبوئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم
چاک ہے ہجر سے اپنا سینہ دل میں بسا ہے شہر مدینہ چشم لگی ہے سوئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم"
"رنگ ہے ان کا باغ جہاں میں ان کی مہک ہے خلد وجناں میں سب میں بسی خوشبوئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم
ہونہ کبھی تاحشرنمایاں ایسا ہلال عید ہو قرباں دیکھے اگر ابروئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم
تشنہ دہانو غم ہے تمہیں کیا ابر کرم اب جھوم کے برسا لو وہ کھلے گیسوئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم
شمس وقمر میں ارض وفلک میں جن وبشر میں حوروملک میں سایہ فگن ہے روئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم
دین کے دشمن ان کو ستائیں دیتے رہیں یہ سب کو دعائیں سب سے نرالی خوئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم
ہو نہ جمیل قادری مضطر ہاتھ اٹھا کر حق سے دعا کر مجھ کو دکھا دے کوئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم"
"اے دین حق کے رہبر تم پر سلام ہردم میرے شفیع محشر تم پر سلام ہردم
اس بے کس وحزیں پر جو کچھ گزررہی ہے ظاہر ہے سب وہ تم پر تم پر سلام ہر دم
بندہ تمہارے در کا آفت میں مبتلا ہے رحم اے حبیب داور تم پر سلام ہر دم"
"بے وارثوں کے وارث بے والیوں کے والی تسکین جان مضطر تم پر سلام ہر دم
للہ اب ہماری فریاد کو پہنچئے بے حد ہے حال ابتر تم پر سلام ہر دم
دریوزہ گر ہوں میں بھی ادنٰی سااس گلی کا لطف وکرم ہو مجھ پر تم پر سلام ہر دم
کوئی نہیں ہے میرامیں کس سے داد چاہوں سلطان بندہ پرور تم پر سلام ہر دم
بہر خدا بچاؤ ان خار ہائے غم سے اک دل ہے لاکھ نشتر تم پر سلام ہر دم
میرے مولیٰ میرے سرور رحمۃ للعالمیں میرے آقامیرے رہبر رحمۃ للعالمیں
مظہر ذات خدامحبوب رب دوسرا بادشاہ ہفت کشوررحمۃ للعالمیں
عالم علم لدنی آپ کو حق نے کیا حال سب روشن ہیں تم پررحمۃ للعالمیں
تونے فرمایا ہُوَالْمُعْطِیْ وَاِنِّی قَاسِم کیوں نہ مانگوں تیرے در پررحمۃ للعالمیں"
"میں پیام زندگی سمجھوں اگر یوں موت آئے آپ کا در ہو مرا سررحمۃ للعالمیں
ہم سیہ کاروں کی بخشش کا کوئی ساماں نہیں نازہے تیرے کرم پررحمۃ للعالمیں
بس خداان کو نہ کہنا اور جو چاہو کہو سب سے بالا سب سے بہتررحمۃ للعالمیں
دست اقدس سینے پر ہوروح کھنچتی ہومری لب پہ جاری ہوبرابررحمۃ للعالمیں
سایۂ عرش الہٰی میں کھڑا کرنا مجھے ہیں سیہ عصیاں سے دفتررحمۃ للعالمیں"
"آئینہ منفعل ترے جلوے کے سامنے ساجد ہیں مہ ومہر ترے تلوے کے سامنے
جاری ہے حکم یہ کہ دوپارہ قمر ہوا انگشت مصطفی کے اشارے کے سامنے
کیوں دربدر فقیر تمہارا کرے سوال جب تم ہوبھیک مانگنے والے کے سامنے
جنت تو کھینچتی ہے کہ میری طرف چلو ایمان لے چلا ہے مدینے کے سامنے"
"اہل نظر نے غور سے دیکھا تو یہ کھلا کعبہ جھکا ہوا ہے مدینے کے سامنے
یہ وہ کریم ہیں کہ جو مانگو وہی ملے اے سائلو چلو تو دعا لے کے سامنے
رب کریم یہ ہے دعا میری روز محشر شرمندہ میں نہ ہوں ترے پیارے کے سامنے"
"بیاں ہو کس سے کمال محمد عربی ہے بے مثال جمال محمد عربی
مجال کیا ہے کہ انس وملک کریں تعریف خدا سے پوچھیے حال محمد عربی
زمانہ پلتا ہے اس آستان عالی سے عجب ہے جودونوال محمد عربی
لگارہے ہیں ہمیشہ مہرومہ چکر ملا نہ کوئی مثال محمد عربی
اندھیری رات نہ ہوگی مری لحد میں کبھی میں ہوں غلام بلال محمد عربی
گیاہ وخاروخس وخاک سے وہ بدترہے نہیں ہے جس کو خیال محمد عربی
یہ جان کیا دوجہاں مجھے گرمیسرہوں کروں فدا بجمال محمد عربی
جمیل قادری شکر خدا کہ تو بھی ہوا غلام عترت و آل محمد عربی"
"کہاں گلشن کہاں روئے محمد کہاں سنبل کہاں موئے محمد
ہے عالم آہن و آہن ربا کا کھنچا جاتا ہے دل سوئے محمد"
"نہ چھانی مشت خاک اپنی کسی نے ہے دل ہی میں رہ کوئے محمد
دل صد چاک میں مانند شانہ رچی ہے بوئے گیسوئے محمد
دم جاں بخش اعجازمسیحا نسیم گلشن کوئے محمد
حیات جاوداں پاتا ہے آسی قتیل تیغ ابروئے محمد"
"نہ میرے دل نہ جگر پر نہ دیدۂ تر پر کرم کرے وہ نشان قدم تو پتھر پر
تمہارے حسن کی تصویر کوئی کیاکھینچے نظرٹھہرتی نہیں عارض منور پر
کسی نے لی رہ کعبہ کوئی گیاسوئے دیر پڑے رہے تیرے بندے مگر تیرے درپر
گناہ گار ہوں میں واعظو تمہیں کیافکر مرا معاملہ چھوڑو شفیع محشر پر
پلادے کہ آج تو مرتے ہیں رنداے ساقی ضرور کیا کہ یہ جلسہ ہو حوض کوثر پر
اخیر وقت ہے آسی چلو مدینے کو نثار ہو کے مرو تربت پیمبر پر"
"نظر آتی ہے گلشن میں ہوا نا ساز گار اپنی گل باغ خلیلی بھیج دے بادبہار اپنی
اٹھ اے امت کے والی کفر دھمکاتا ہے مسلم کو علی کو بھیج دے آجائیں لے کر ذوالفقار اپنی
طریق مصطفی کو چھوڑنا ہے وجہ بربادی اسی سے قوم دنیا میں ہوئی بے اقتدار اپنی
ہمیں کرنی ہے شاہنشاہ بطحا کی رضا جوئی وہ اپنے ہوگئے تو رحمت پروردگار اپنی
بنے گی گرمیئ خورشید خنکی باغ جنت کی وہ جس دم لے کے آئیں گے نسیم خوشگوار اپنی
وہ بیٹھے ہوں اٹھا ہو بارگاہ پاک کا پردہ کہانی در پہ کہتا ہوں شفیق جاں نثار اپنی"
"اجالی رات ہوگی اور میدان قبا ہوگا زبان شوق پر یا مصطفی یا مصطفی ہوگا
کہ اترے ہونگے رحمت کے فرشتے آسمانوں سے خدا کا نور ہوگا روضۂ خیر الورٰی ہوگا"
"وہ نخلستان مکہ وہ مدینہ کی گزرگاہیں کہیں نور نبی ہوگا کہیں نور خدا ہوگا
یلملم ہی سے شورش ہوگی دل کی بیقراری میں پہن کر جامۂ احرام زائر جھومتا ہوگا
نہ پوچھو عاشقوں کا ولولہ جدہ کے ساحل پر لبوں پر نغمہ اِنْ نِلْتِ یَا رِیْحَ الصَّبَا ہوگا
جھکی ہوگی مری گردن گناہوں کی خجالت سے زباں پر یا رسول اللہ اُنْظُرْحَالَنَا ہوگا
کچھ اونٹوں کی قطاروں میں انوکھی سادگی ہوگی حدی خوانوں سے طیبہ کا بیاباں گونجتا ہوگا
کبھی کوہ مفرح سے نظارے ہونگے گنبد کے کبھی بیر علی پر عاشقوں کا جھمگھٹا ہوگا
شفیق اس دن نہ پوچھو درد الفت کی فراوانی کہ ہم ہوں گے حجاز پاک کا دار الشفا ہوگا"
"نہیں تیرے سوا کوئی پیامی اِلَیْہِ یَاصَبَا بَلِّغْ سَلَامِیْ
وہ سوجائیں تو معراج منامی وہ جاگیں تو خدا سے ہم کلامی
ہے شاہوں کو بھی وجۂ نیک نامی شہِ خوباں ترے در کی غلامی
ہر اک شیدا ہے سلطان عرب کا عراقی ہو کہ رومی ہو کہ شامی"
"نگاہ سیر گاہ لِیْ مَعَ اللہِ تَعَالیٰ اللہ تری عالی مقامی
اسی سرد خراماں کا ہے صدقہ نسیم صبح! تیری خوش خرامی
شفیق انداز حسرت کے علاوہ مرے اشعار میں ہے رنگ جامی"
"محمد کا دارالسلام اللہ اللہ وہ باران فیض دوام اللہ اللہ
جہان رسالت کے خورشید تابان نبوت کے ماہ تمام اللہ اللہ
نگاہوں میں طیبہ کی پھرتی ہے اکثر حسیں صبح پر نورشام اللہ اللہ
سر حشر تشنہ لبوں کو وہ اپنے پلائیں گے کوثر کا جام اللہ اللہ
جبیں اسکے قدموں پہ جھکتی ہے سب کی جوہے مصطفی کا غلام اللہ اللہ
دل مضطرب بہر طیبہ ہے نالاں کریں اب کوئی اہتمام اللہ اللہ
نسیم اور ان کی محبت کی منزل زہے عاشق تیز گام اللہ اللہ"
"یہ کیسا مبارک مقام آرہا ہے لبوں پر درود و سلام آرہاہے
ادب سے چلو اور سروں کو جھکالو محمد کا دارالسلام آرہاہے
بسائی گئی راہ میں نکہت گل رسول خدا کا غلام آرہاہے
قدم چومنے آرہے ہیں فرشتے زمیں پر وہ ماہ تمام آرہاہے"
"مدینے کے آقا کا ہر ہر سوالی تبسم بہ لب شاد کام آرہاہے
وہ دیکھو اٹھیں رحمتوں کی گھٹائیں زبان پر محمد کا نام آرہاہے
غریبوں کا مونس یتیموں کا ہمدم لیے زندگی کا پیام آرہاہے
رسول گرامی کے روضہ کی جانب زمانہ بصد احترام آرہاہے
نسیم ثنا خوانِ سرور،مبارک ! خدا کی طرف سے سلام آرہاہے"
"سلطان دو جہاں سے میرا سلام کہنا محبوب دو جہاں سے میرا سلام کہنا
امت کے پاسباں سے میرا سلام کہنا وحدت کے راز داں سے میرا سلام کہنا
عظمت کے حکمراں سے میرا سلام کہنا رفعت کے آسماں سے میرا سلام کہنا
روضے کے نوری جلوے آنکھوں میں رکھ کے لانا پر نور آستاں سے میرا سلام کہنا
عرش علا کی شوکت خلد جناں کی زینت پیغمبر اماں سے میرا سلام کہنا"
"ارض و سما کے سرور صدرشک ماہ اختر تنویر کہکشاں سے میرا سلام کہنا
تجھ پر نثار جاؤں باد صبا خدارا تسکین قلب وجاں سے میرا سلام کہنا
روضے کی جالیوں سے بھی ہم کنار ہوکر خلد نظر سماں سے میرا سلام کہنا
شاہ وگدا کے خالی دامن کو بھرنے والے عالم کے حکمراں سے میرا سلام کہنا
اے عازم مدینہ عرض نسیم لے جا غم خوار بیکساں سے میرا سلام کہنا"
"زمیں پر مالک خلد بریں تشریف لاتے ہیں جہاں میں رحمۃ للعالمیں تشریف لاتے ہیں
مبارک وہ شہ دنیا ودیں تشریف لاتے ہیں امام انبیاء ومرسلیں تشریف لاتے ہیں
سکوں بخش دل اندوہ گیں تشریف لاتے ہیں بہار گلشن علم و یقیں تشریف لاتے ہیں
سلاطین جہاں جس کے قدم پر سر جھکائیں گے وہی محبوب رب العالمیں تشریف لاتے ہیں"
"نبوت کے رسالت کے شریعت کے طریقت کے مقدس تاجدار اولیں تشریف لاتے ہیں
فقیروبے نوا اب دل شکستہ رہ نہیں سکتے دو عالم جس کے ہے زیر نگیں تشریف لاتے ہیں
زمیں سے آسماں تک روشنی ہی روشنی ہوگی کہ شمع پر ضیاء نورمبیں تشریف لاتے ہیں
ہزاروں عیدہے قربان اس پر نور ساعت پر کہ جس میں رحمۃ للعالمیں تشریف لاتے ہیں
جہان حسن کے مسند نشیں کی آمد آمد ہے شہ خوبان ورشک مہ جبیں تشریف لاتے ہیں
نسیم آواز دو جن و بشر بہر سلام آئیں سریر آرائے بزم مرسلیں تشریف لاتے ہیں"
"فخرعیسی ناز آدم الصلوٰۃ و السّلام روح ایماں جان عالم الصلوٰۃ و السّلام
تاجدار عرش اعظم الصلوٰۃ و السّلام شمع حق نور مجسم الصلوٰۃ و السّلام
سرور ارض وسما سلطان بزم انبیاء خلق میں سب سے مکرم الصلوٰۃ و السّلام"
"رنج وغم کی شام ہو یا لطف وراحت کی سحر باادب پڑھتے رہیں ہم الصلوٰۃ و السّلام
جب شب معراج رکھا عرش پر تم نے قدم مسکرائی روح آدم الصلوٰۃ و السّلام
راحت قلب حزیں ہے آپ کا ذکر جمیل اے سکون چشم پر نم الصلوٰۃ و السّلام
ہم اسیران غم وافکار پر بہر خدا ہو کرم سلطان اکرم الصلوٰۃ و السّلام
ہر گھڑی آغوش رحمت میں وہ رہتا ہے نسیم جو پڑھا کرتا ہے ہر دم الصلوٰۃ و السّلام"
"نبی کی نگاہ کرم اللہ اللہ بیاباں ہے رشک ارم اللہ اللہ
کہاں بارگاہ رسالت کی رفعت کہاں معصیت کار ہم اللہ اللہ
وہ شہر مدینہ کی صبح دل آراء وہ پر کیف شام و سحر اللہ اللہ
جب آمد ہوئی سرور دوجہاں کی گرے منہ کے بل سب صنم اللہ اللہ
سوالی کوئی ان کا محروم کیوں ہو وہ ہیں شاہ جود و کرم اللہ اللہ
وہ چاہیں تو ذرے بنیں ماہ و انجم اشاروں مین رب کی قسم اللہ اللہ
نسیم ان کے جنت بکف آستاں پر فرشتوں کے سر بھی ہیں خم اللہ اللہ"
"مکیں آپ کے مکاں آپ کا ہے حقیقت میں سارا جہاں آپ کا ہے
ہیں شاہان عالم جہاں سر خمیدہ وہ جنت بکف آستاں آپ کا ہے
حقیقت کی آنکھوں سے دیکھے توکوئی ہر اک شے میں جلوہ عیاں آپ کا ہے
سر عرش ہے ان کی عظمت کاپرچم دو عالم مین سکہ رواں آپ کا ہے
یہاں سے وہاں تک ہے رحمت ہی رحمت اگر نام ورد زباں آپ کا ہے
مقدس مطہر مبارک منور ازل ہی سے نام و نشاں آپ کا ہے
حبیب خدا تاجدار مدینہ زمیں آپ کی آسماں آپ کا ہے
نسیم حزیں پر نگاہ کرم ہو کہ وہ بھی شہا مدح خواں آپ کا ہے"
"جان ایمان یارسول اللہ تیرے قربان یارسول اللہ
عرش وفرش و فلک ہیں سب تیرے زیر فرمان یارسول اللہ
اور کس کے حضور لے جاؤں خالی دامان یارسول اللہ
تیری ہستی بنائی ہے رب نے کیسی ذیشان یارسول اللہ
منزلیں قبر و حشر کی ہوں گی تم سے آسان یارسول اللہ
ہوگا محشر میں سائباں سر پر تیرا دامان یارسول اللہ
تا ابد قلب میں رہے روشن شمع ایمان یارسول اللہ"
"تیرے انسانیت پہ ہیں بے شک لاکھوں احسان یارسول اللہ
کعبۂ دل نہ کیوں ہوں عرش مقام تم ہو مہمان یارسول اللہ
کردو پورے نسیم کے دل کے سارے ارمان یارسول اللہ"
"تو شمع رسالت ہے عالم تیرا پروانہ تو ماہ نبوت ہے اے جلوہ جانانہ
جوساقیئ کو ثر کے چہرے سے نقاب اٹھے ہر دل بنے مے خانہ ہر آنکھ ہو پیمانہ
دل اپنا چمک اٹھے ایمان کی طلعت سے کر آنکھیں بھی نورانی اے جلوۂ جانانہ
میں شاہ نشیں ٹوٹے دل کو نہ کہوں کیسے ہے ٹوٹا ہوا دل ہی سرکار کا کاشانہ
کیوں زلف معنبر سے کوچے نہ مہک اُٹھیں ہے پنجۂ قدرت جب زلفوں کا تری شانہ
ہر پھول میں بو تیری ہر شمع میں ضو تیری بلبل ہے ترا بلبل پروانہ ہے پروانہ
اس در کی حضوری ہی عصیاں کی دوا ٹھہری ہے زہر معاصی کا طیبہ ہی دواخانہ"
"آباد اسے فرما ویراں ہے دل نوری جلوے ترے بس جائیں آباد ہو ویرانہ"
"شب معراج عجب نور ہے سبحان اللہ پتا پتا شجر طور ہے سبحان اللہ
اک قدم فرش پر ہے ایک قدم عرش پر ہے ان کو نزدیک ہے جو دور ہے سبحان اللہ
غیب کیا چیز ہے دیکھ آئے ہیں وہ غیب الغیب یعنی وہ ذات جو مشہور ہے سبحان اللہ
دیکھ آئے ہیں وہ آیات خدائے برتر یہی قرآن میں مسطور ہے سبحان اللہ
مرحبا کہتا ہے کوئی تو کوئی صلّ علیٰ نغمہ سنجی میں لب حور ہے سبحان اللہ
ربّ ھَب لی یہ کہا رب نے کہ اے میرے حبیب تم کو منظور تو منظور ہے سبحان اللہ
اے شفاعت کے دھنی تیری شفاعت سن کر شادماں ہر دل رنجور ہے سبحان اللہ
پالیا ان کو تو کونین کو پایا سیّد یعنی جھولی مری بھر پور ہے سبحان اللہ"
"نہ ہوتی جو منظور بعثت کسی کی تو دنیا میں ہوتی نہ خلقت کسی کی
خدا کی قسم انبیاء بھی نہ آتے نہ مقبول ہو تی عبادت کسی کی
یہ چاند اور سورج کی نوری شعائیں نمایاں ہے ان میں صباحت کسی کی
شفاعت کی کنجی عطاکرکے مولیٰ دکھائے گامحشر میں عزت کسی کی
سبھی انبیاء تا بموسیٰ وعیسیٰ سنانے کو آئے بشارت کسی کی
کسی کی محبت سے جنت ملے گی دلائے گی دوزخ عداوت کسی کی
لبوں پر گنہ گار عارف کے یارب دم نزع جاری ہو مدحت کسی کی"
"جہاں میں جو آئینہ دار نبی ہیں حقیقت میں وہ چار یار نبی ہیں
رفیق نبی غم گسار بنی ہیں فدائے نبی جاں نثار نبی ہیں
بڑا ان کا رتبہ ہے اللہ اکبر
ابوبکر و فاروق و عثمان و حیدر
یہ چاروں خلافت کے مسند نشیں ہيں یہ چاروں اراکین دین نبی ہیں
یہی باغبان ریاض یقیں ہیں یہی راز دار رسول امیں ہيں"
"یہ محبوب سرور یہ مقبول داور
ابوبکر و فاروق و عثمان و حیدر
یہ پروانے ہیں شمع باغ حرا کے فدائے نبی اور مقرب خدا کے
نمونے ہیں یہ سیرت انبیاء کے یہ پتلے وفا کے یہ پیکر حیا کے
یہ عدل مجسم یہ صدق مصور
ابوبکر و فاروق و عثمان و حیدر
یہ معراج ایماں کے ہیں چار زینے یہ چاروں ہیں تاج شرف کے نگینے
مجلّٰی ہیں انوار سے ان کے سینے سنوارا ہے ان کو جمال نبی نے
مزکیّٰ مصفّا مقدّس مطہّر
ابوبکر و فاروق و عثمان و حیدر
الہٰی تڑپتی ہے جب تک رگ جاں محبت رہے ان کے سینے میں رقصاں
ولا ان کی ہے جان دیں روح ایماں خدا سے دعا ہے یہی میری ہر آں
رہے تا دم مرگ میری زباں پر
ابوبکر و فاروق و عثمان و حیدر"
"واہ رے داغ عشق رسول شام کو تارا صبح کو پھول
کیسے چھپیں انوار ِرسول چاند پہ کس نے ڈالی دھول
پیش نظر ہے شکل رسول دیدے خدایا حشر کو طول"
"نام محمد لے کے تو دیکھ رحمتیں ہیں بے تابِ نزول
بات مدینے جیسی کہاں کون کرے فردوس قبول
ان سے یہ کہنا جا کے صبا دل ہے بہت دوری سے ملول
اب تو بلا لو پاس مجھے اب تو گزارش کر لو قبول
پیش نظر روضہ ہو خمار اور پڑھوں میں نعت رسول"
"عدم سے لائی ہے ہستی میں آرزوئے رسول کہاں کہاں لیے پھرتی ہے جستجوئے رسول
خوشاوہ دل کہ ہو جس دل میں آرزوئے رسول خوشا وہ آنکھ کہ ہو محو حسن روئے رسول
تلاش نقش کف پائے مصطفی کی قسم چنے ہیں آنکھوں سے ذرات خاک کوئے رسول
پھر ان کے نشۂ ایماں کا پوچھنا کیا ہے جو پی چکے ہیں ازل میں مئے سبوئے رسول
بلائیں لوں تری اے جذب شوق صلّ علی کہ آج دامن کھنچ رہا ہے سوئے رسول
شگفتہ گلشن زہرا کا ہر گل تر ہے کسی میں رنگ علی ہے کسی میں بوئے رسول"
"عجب تماشا ہو میدان حشر میں بیدم ؔ کہ سب ہوں پیش خدااور میں روبروئے رسول"
"حب احمد ازل ہی سے سینے میں ہے میں یہاں ہوا مرادل مدینے میں ہے
عطر جنت میں بھی ایسی خو شبو نہیں جیسی خوشبو نبی کے پسینے میں ہے
اس ليے ہے اسی سمت کعبہ جھکا گھر خدا کا محمد کے سینے میں ہے
پھول تو پھول کانٹوں میں بھی حسن ہے لطف جنت سے بڑھ کر مدینے میں ہے
کیا مقدر ہے بوبکر و فاروق کا جن کا گھر رحمتوں کے خزینے میں ہے
بے سہارا نہ سمجھے زمانہ مجھے میرے آقا کا مسکن مدینے میں ہے
موت لائی حیات اب نئی زندگی یہ مزہ میرے مرمر کے جینے میں ہے"
"دیدار حق دکھائے گی اے بیبیو نماز جنت تمہیں دلائے گی اے بیبیو نماز
دربار مصطفی میں تمہیں لیکے جائے گی خالق سے بخشوائے گی اے بیبیو نماز
عزت کے ساتھ نوری لباس اچھے زیورات سب کچھ تمہیں پہنائے گی اے بیبیو نماز
جنت میں نرم نرم بچھونوں کے تخت پر آرام سے سلائے گی اے بیبیو نماز
خدمت تمہاری حوریں کریں گی ادب کیساتھ رتبہ بہت بڑھائے گی اے بیبیو نماز
کوثر کے سلسبیل کے شربت پلائے گی میوے تمہیں کھلائے گی اے بیبیو نماز
سب عطر وپھول ہوں گے نچھاور پسینے پر خوشبو میں جب بسائے گی اے بیبیو نماز"
"رحمت کے شامیانوں میں خوشبوکےساتھ ساتھ ٹھنڈی ہوا چلائے گی اے بیبیو نماز
باغ بہشت روضۂ رضواں بہار خلد سب کچھ تمہیں دکھائے گی اے بیبیو نماز
حوریں ترانے گائیں گی اور جھوم جھوم کر نغمے تمہیں سنائے گی اے بیبیو نماز
پڑھتی رہو نماز کہ دونوں جہان میں سب کچھ تمہیں دلائے گی اے بیبیو نماز
فاقہ سے مفلسی سے جہنم کی آگ سے سب سے تمہیں بچائے گی اے بیبیو نماز
پڑھ کر نماز ساتھ لو سامان آخرت محشر میں کام آئے گی اے بیبیو نماز
بات اعظمی کی مانو نہ چھوڑو کبھی نماز اللہ سے ملائے گی اے بیبیو نماز"
"یاالہٰی رحم فرما مصطفی کے واسطے حضرت بو بکر باصدق و صفا کے واسطے
بہر سلماں قاسم و جعفر بحق بایزید ابوالحسن اور بوعلی باخدا کے واسطے
خواجہ یوسف عبدخالق عارف و محمودحق شہ عزیزان علی صدرالعلاء کے واسطے
بابا سمّاسی محمد سیّدمیر کلال شہ بہاؤالدین امام الاولیاء کے واسطے
شیخ علاؤالدین و یعقوب و عبیداللہ ولی خواجہ زاہد شاہ درویش خدا کے واسطے"
"شاہ اَمکِنگی محمد خواجہ باقی بحق حضرت احمد مجدد حق نما کے واسطے
خواجہ معصوم و سیف الدین و محسن دہلوی سیّد نور محمد پارسا کے واسطے
مظہر حق جان جان و شاہ عبداللہ ولی مولوی عبد رحمٰن مقتدٰی کے واسطے
مولوی عبدالغفور و سیّد احمد میاں حافظ ابرار حسن پیر ہدٰی کے واسطے
حضرت محبوب احمد کے توسل کر عطا نعمت دارین عبدالمصطفی کے واسطے
(رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین)"
"یاالہٰی رحم فرما مصطفی کے واسطے یارسول اللہ کرم کیجيے خدا کے واسطے
مشکلیں حل کر شہِ مشکل کشا کے واسطے کر بلائیں رد شہید کربلا کے واسطے
سید سجاد کے صدقے میں ساجد رکھ مجھے علم حق دے باقر علم ہدی کے واسطے"
"صدق صادق کا تصدق صادق الاسلام کر بے غضب راضی ہو کاظم اور رضا کے واسطے
بہر معروف و سری معروف دے بیخود سری جند حق میں گن جنید باصفا کے واسطے
بہر شبلی شیر حق دنیا کے کتوں سے بچا ایک کا رکھ عبدواحد بے ریا کے واسطے
بوالفرح کا صدقہ کر غم کو فرح دے حسن و سعد بو الحسن اور بوسعید سعد زا کے واسطے
قادری کر قادری رکھ قادریوں میں اٹھا قدر عبدالقادر قدرت نما کے واسطے
اَحْسَن اللہُ لَہٗم رِزْقاً سے دے رزق حسن عبدرزّاق ابن غوث الاولیاء کے واسطے
نصرابی صالح کا صدقہ صالح و منصور رکھ دے حیات دیں محی جاں فزا کے واسطے
طور عرفاں و علو و حمد و حسنی و بہا دے علی موسیٰ حسن احمد بہا کے واسطے
بہر ابراھیم مجھ پر نار غم گلزار کر بھیک دے داتا بھکاری بادشاہ کے واسطے"
"خانۂ دل کو ضیا دے روئے ایماں کو جمال شہ ضیا مولیٰ جمال الاولیاء کے واسطے
دے محمد کے ليے روزی کر احمد کے ليے خوان فضل اللہ سے حصہ گدا کے واسطے
دین ودنیاکے مجھے برکات دے برکات سے عشق حق دے عشقی عشق انتما کے واسطے
حب اہل بیت دے آل محمد کے ليے کر شہید عشق حمزہ پیشوا کے واسطے
دل کو اچھا تن کو ستھر اجان کو پر نور کر اچھے پیارے شمس دیں بدر العلٰی کے واسطے
دو جہاں میں خادم آل رسول اللہ کر حضرت آل رسول مقتدٰی کے واسطے
نور جان و نور ایماں نور قبر و حشر دے ابوالحسن احمد نوری لقا کے واسطے
کر عطا احمد رضائے احمد مرسل مجھے میرے مولیٰ حضرت احمد رضا کے واسطے
سایۂ جملہ مشائخ یا خدا ہم پر رہے میرے مرشد حضرت حامد رضا کے واسطے"
"یا الہٰی ان مشائخ کے وسیلے کر عطا نعمت کونین عبدالمصطفی کے واسطے
صدقہ ان اعیاں کا دے چھ عین عز و علم و عمل عفو عرفاں عافیت اس بے نوا کے واسطے
رضی اللہ تعالیٰ عنہم"
شجرۂ مبارکہ ہر روز بعد نماز فجر ایک بار پڑھ لیا کریں ،اس کے بعد درودِغوثیہ سات بار،الحمد شریف ایک بار، آیۃ الکرسی ایک بار، قل ھواللہ شریف سات بار،پھر درود غوثیہ تین بارپڑھ کر اس کا ثواب ان تمام مشائخِ کرام کی ارواحِ طیبہ کو نذر کریں جس کے ہاتھ پر بیعت کی ہے اگر وہ زندہ ہے تو اس کے ليے دعائے عافیت و سلامت کریں ورنہ اس کا نام بھی شاملِ فاتحہ کر لیا کریں۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلَا نَا مُحَمَّدٍ مَعْدَنِ الْجُوْدِوَ الْکَرَمِ وَ اٰلِہٖ وَ بَارِکْ وَسَلِّمْ
" بعدنمازفجر یَاعَزِیْزُیَااَللہُ بعدنماز ظہر یَا کَرِیْمُ یَااَللہ
بعد نمازعصر یَاجَبَّارُیَااَللہُ بعد نمازمغرب یَاسَتَّارُیَااَللہ
بعدنماز عشاء یَاغَفَّارُیَااَللہُ
سب سو سو بار اول و آخر تین تین بار درود شریف ،ان کو روزانہ پڑھنے سے دین و دنیا کی بے شمار برکتیں ظاہر ہوں گی۔"
۱۔ اَللہُ رَبِّیْ لَا شَرِیْکَ لَہ
،آٹھ سو چوہتربار اول وآخر درودشریف گیارہ گیارہ بار اس قدر معین تعدادمیں باوضو قبلہ رو دوزانو بیٹھ کرتاحصول مراد پڑھیں اور اسی کلمہ کو اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے وضو بے وضو ہر حال میں بے گنتی بے شمار پڑھتے رہیں ،ان شاء اللہ تعالیٰ مراد پوری ہوگی۔
۲۔ حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الوَکِیْلُ
ساڑھے چار سو مرتبہ روزانہ تا حصول مراد پڑھیں،اول وآخر درودشریف گیارہ گیارہ بار ،جس وقت گھبراہٹ ہو اسی کلمہ کو بکثرت پڑھیں، ان شاء اللہ تعالی کام بن جائے گا۔
۳۔ ''طفیل حضرت دستگیر دشمن ہوئے زیر'' بعد نماز عشاء ایک سو گیارہ بار اور اول آخر گیارہ گیارہ بار درودشریف پڑھیں۔یہ تینوں عمل نہایت مجرب اور آسان ہیں ، ان سے غفلت نہ کی جائے۔
"یاالہٰی ہر جگہ تیری عطا کا ساتھ ہو جب پڑے مشکل شہ مشکل کشا کا ساتھ ہو
یا الہٰی بھو ل جاؤں نزع کی تکلیف کو شادی دیدار حسن مصطفی کا ساتھ ہو
یا الہٰی گور تیرہ کی جب آئے سخت رات ان کے پیارے منہ کی صبح جانفزا کا ساتھ ہو
یا الہٰی جب پڑے محشر میں شور داروگیر امن دینے والے پیارے مصطفی کا ساتھ ہو"
"یا الہٰی جب زبانیں باہر آئیں پیاس سے ساقی کوثر شہ جود و عطاکا ساتھ ہو
یا الہٰی گرمی محشر سے جب بھڑکیں بدن دامن محبوب کی ٹھنڈی ہوا کا ساتھ ہو
یا الہٰی رنگ لائیں جب مری بیباکیاں ان کی نیچی نیچی نظروں کی حیا کا ساتھ ہو
یا الہٰی جب بہیں آنکھیں حساب جر م سے ان تبسم ریز ہونٹوں کی دعا کا ساتھ ہو
یا الہٰی جب سر شمشیر پر چلنا پڑے ربِّ سَلِّم کہنے والے پیشوا کا ساتھ ہو
یا الہٰی جب رضا خواب گراں سے سر اٹھائے دولت بیدار حسن مصطفی کا ساتھ ہو"
کنوئیں میں کسی آدمی یا جانور کا پاخانہ' پیشاب' یا مرغی یا بطخ کی بیٹ یا خون یا تاڑی شراب وغیرہ کسی نجاست کا ایک قطرہ بھی گر پڑے یا کوئی بھی ناپاک چیز کنوئیں میں پڑ جائے تو کنواں ناپاک ہو جائے گا اس کا کل پانی نکالا جائے گا۔
(الدرالمختار وردالمحتار،کتاب الطہارۃ، فصل فی البئر،ج۱،ص۴۰۷۔۴۰۹)
مسئلہ:۔اگر کنوئیں میں آدمی' گائے' بھینس' بکری یا اتنا ہی بڑا کوئی جانور گر کر مر جائے یا چھوٹے سے چھوٹا بہنے والے خون والا جانور کنوئیں میں مر کر پھول پھٹ جائے یا ایسا جانور جس کا جھوٹا ناپاک ہے کنوئیں میں گر پڑے اگرچہ زندہ نکل آئے جیسے سور' کتا تو ان سب صورتوں میں کنواں ناپاک ہو جائے گا اور کل پانی نکالا جائے گا۔
"(الدرالمختار وردالمحتار،کتاب الطہارۃ، فصل فی البئر،ج۱،ص۴۰۷۔۴۱۰/
الفتاوی القاضی خان ، کتاب الطہارۃ ، فصل فی مایقع فی البئر،ج۱،ص۵)"
مسئلہ:۔ اگر بلی یا مرغی یا اتنا ہی جانور کنویں میں گر کر مر جائے اورپھولنے پھٹنے سے پہلے نکال لیا جائے تو چالیس ڈول پانی نکالنا واجب اورساٹھ ڈول پانی نکال دینا مستحب ہے اتنا پانی نکال دینے سے کنواں پاک ہوجائے گا۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ،الباب الثالث،الفصل الاول،النوع الثالث ماء لآبار،ج۱،ص۱۹)
مسئلہ:۔اگر چوہا' چھپکلی' گرگٹ یا ان کے برابریا ان سے چھوٹا جانور کنوئیں میں گر کر مرجائے۔ا ور پھولنے پھٹنے سے پہلے نکال لیا جائے تو بیس ڈول پانی نکالنا واجب اور تیس ڈول پانی نکال دینا مستحب ہے اس کے بعد کنواں پاک ہو جائے گا۔