Pages
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَزَلَ الْقُرْآنُ عَلٰی خَمْسَۃِ اَوْجُہٍ حَلاَلٍ وَحَرَامٍ وَمُحْکَمٍ وَمُتَشَابِہٍ وَاَمْثَالٍ فَاَحِلُّوا الْحَلاَلَ وَحَرِّمُوا الْحَرَامَ وَعَمِلُوْا بِالْمُحْکَمِ وَاٰمَنُوْا بِالْمُتَشَابِہٖ وَاعْتَبِرُوْا بِالْاَمْثَالِ۔
(مشکاۃ المصابیح،کتاب الإیمان،باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ،الفصل الثانی،ج۱،ص۹۹،رقم۱۸۲)
"حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن پانچ طریقوں پر نازل ہوا۔ حلال و حرام و محکم و متشابہ اور امثال۔ تو تم لوگ حلال کو حلال جانو اور حرام کو حرام جانو اور محکم پر عمل کرو اور متشابہ پر ایمان لاؤ اور مثلوں (گزشتہ امتوں کے قصوں اور مثالوں)سے عبرت حاصل کرو۔
قرآن عظیم کے مذکورہ بالا پانچوں مضامین پر مطلع ہونے کے لئے ضروری ہے کہ قرآن پاک کو بغور اور بار بار سمجھ کر پڑھاجائے۔ اسی لئے تلاوتِ قرآن مجید کا اس قدر زیادہ ثواب ہے کہ ہر حرف کے بدلے دس نیکیاں ملتی ہیں یعنی مثلاً کسی نے صرف المۤ پڑھا اور اس کی تلاوت مقبول ہو گئی تو اس کو تیس نیکیاں ملیں گی کیونکہ اس نے قرآن کے تین حرفوں کو پڑھا ہے۔"
(۱) مسواک کر کے صحیح طریقے سے وضو کرلے اور قبلہ رو ہو کر بیٹھ جائے اور
اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ؕ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
"پڑھ کر الفاظ و معانی میں غوروفکر کرتے ہوئے دل کو پوری طرح متوجہ کر کے خشوع و خضوع اور نہایت عجز و انکساری کے ساتھ تلاوت میں مشغول ہواور نہ بہت بلند آواز سے پڑھے اور نہ بہت پست آواز کرے۔ بلکہ درمیانی آواز سے پڑھے۔
(۲)بہتر یہ ہے کہ دیکھ کر تلاوت کرے کیونکہ قرآن مجید کو دیکھنا بھی عبادت ہے اور عبادتوں میں ثواب بھی دوگنا ملتا ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ جس نے دیکھ کر قرآن مجید کی تلاوت کی اس کے لئے دو ہزار نیکیاں لکھی جائیں گی اور جس نے زبانی پڑھا اس کے لئے ایک ہزار نیکیاں لکھی جائیں گی۔"
(کنزالعمال،کتاب الاذکار،قسم الاقوال،الباب فی تلاوۃالقرآن الخ رقم۲۳۰۱،ج۱،ص۲۶۰)
" (۳)تین دن سے کم میں قرآن کریم نہ ختم کرے بلکہ کم از کم تین دن یا سات دن یا چالیس دن میں قرآن کریم ختم کرے تاکہ معانی و مطالب کو سمجھ کر تلاوت کرے۔
(۴)ترتیل کے ساتھ اطمینان سے اور ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کرے۔ ارشاد ربانی ہے:"
وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیۡلًا ؕ﴿4﴾ (پ29،المزّمّل:4)
" یعنی خوب ٹھہر ٹھہر کر قرآن مجید کو پڑھو۔
اس میں کئی فائدے ہیں،اولاً تو اس سے قرآن مجید کی عظمت ظاہر ہوتی ہے۔ اور ثانیاً قرآن مجید کے عجائب و غرائب کو سوچنا اور معانی کو سمجھنا ہی تلاوت کا مقصود اعظم ہے اور یہ ترتیل کے بغیر دشوار ہے۔
(۵)بوقت تلاوت ہر لفظ کے معانی پر نظر رکھے اور وعدہ و وعید کو سمجھنے کی کوشش کرے اور ہر خطاب میں اپنے کو مخاطب تصور کرے اور امر و نہی اور قصص و حکایات میں اپنے آپ کو مرجع خطاب سمجھے اور احکام پر عمل پیرا ہونے اور ممنوعات سے باز رہنے کا پختہ ارادہ کرلے۔
(۶)دورانِ تلاوت جس جگہ جنت اور اس کی نعمتوں کا ذکر آئے یا حفظ و امان اور سلامتی ایمان یا کسی بھی پسندیدہ چیز کا ذکر آئے تو ٹھہر کر دعا کرے اور جس جگہ جہنم اور اس کے عذابوں کا ذکر آئے یا ان جیسی کسی بھی باعث خوف چیز کا تذکرہ آئے تو ٹھہر کر ان چیزوں سے اللہ عزوجل کی پناہ مانگے اور خوف ِ الٰہی عزوجل سے رو پڑے اورا گررونا نہ آئے تو کم از کم رونے کی صورت بنالے۔
(۷)رات کے وقت تلاوت کی کثرت کرے کیونکہ اس وقت ذہن پر سکون اور دل مطمئن ہوتا ہے۔ تلاوت کے لئے سب سے افضل وقت سال بھر میں رمضان شریف کے آخری دس ایام اور ذوالحجہ کے ابتدائی دس دن ہیں۔ اس کے بعد جمعہ پھر دو شنبہ پھر پنج شنبہ اور رات میں تلاوت کا بہترین وقت مغرب اور عشاء کے درمیان ہے اور اس کے بعد نصف شب کے بعد"
"اور دن میں سب سے عمدہ صبح کا وقت ہے۔
(۸)خوش الحانی اور تجوید کے ساتھ حروف کی صحیح ادائیگی اور اوقاف کی رعایت کرتے ہوئے تلاوت کرے مگر اس کا لحاظ رہے کہ خوش الحانی کے لئے قواعد موسیقی اور گانے کے لہجوں کا ہرگز ہرگز استعمال نہ کرے۔
(۹)تلاوت کے وقت قرآن کریم کی عظمت پر نظر رکھے اور آیت کریمہ"
"لَوْ اَنۡزَلْنَا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیۡتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَۃِ اللہِ ؕ
(پ28،الحشر :21)"
"یعنی اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر اتارتے تو ضرورتو اسے دیکھتا جھکا ہوا پاش پاش ہوتا اللہ کے خوف سے ۔ آیت کے اس مضمون کو بوقت تلاوت اپنے ذہن میں حاضر رکھے اور خوف ِ الٰہی سے بھرپور ہو کر نہایت عاجزی کے ساتھ تلاوت کرے۔
(۱۰)جو آیتیں اپنے حال کے مطابق ہوں، ان کو بار بار پڑھنا چاہے اور قرآن عظیم پڑھتے وقت یہ خیال جمائے کہ گویا خداوند ِ تعالیٰ کے حضور میں پڑھ رہا ہے۔ جب اس منزل پر پہنچ جائے تو یہ تصور جمائے کہ گویا رب کریم مجھ ہی سے خطاب فرما رہا ہے اور اس ترقی کی انتہا یہ ہے کہ یہ تصور پیدا ہوجائے کہ قرآن عظیم پڑھنے والا گویا اللہ تعالیٰ اور اس کی صفات و افعال کو اس کے کلام میں دیکھ رہا ہے۔ لیکن یہ بلند مرتبہ صدیقین کے لئے مخصوص ہے ہرکس و ناکس کو یہ حاصل نہیں ہوتا۔
(۱۱)جب تنہائی میں ہو تو درمیانی آواز سے تلاوت کرنا بہتر ہے۔ لیکن اگر بلند آواز سے تلاوت کرنے میں ریاکاری کا خوف ہو یا کسی نمازی کی نماز میں خلل کا اندیشہ ہو یا کچھ لوگ گفتگو میں مصروف ہیں اور ان کے تلاوت نہ سننے کا گمان ہو تو ان صورتوں میں قرآن مجید کو آہستہ پڑھنا بہتر ہے۔ ایسے مواقع کے لئے حدیثوں میں وارد ہوا ہے کہ ''پوشیدہ عمل''ظاہری عمل سے ستر گناہ"
"زیادہ ثواب رکھتا ہے۔
بہرحال قرآن مجید کی تلاوت کے وقت آداب کا لحاظ رکھنا نہایت ضروری ہے تاکہ دین و دنیا کی بے شمار برکتیں حاصل ہوں اور ہرگز ہرگز آداب سے غفلت نہ ہونے پائے کہ یہ غفلت برکات دین سے بہت بڑی محرومی کا سبب ہے۔"
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنَا مِنَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَلَا تَجْعَلْنَا مِنَ الْغَافِلِیْنَ اٰمِین بِجَاہِ سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَعَلٰی اٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ اَجْمَعِیْنَ o
"بسم اللہ الرحمن الرحیم
مُبَسْمِلاً وَمُحَمِّدًا وَّمُصَلِّیًّا"
"بحمدہٖ تعالیٰ''عجائب القرآن''طبع ہوجانے کے بعدجوپینسٹھ عنوانوں پرقرآنی عجائبات کا بہترین گلدستہ ہے۔ اب قرآن مجید کے مزید چند عجائبات اور تعجب خیز و حیرت انگیز واقعات کا مجموعہ، جو ستر عنوانوں پر مشتمل ہے، نیز ان عنوانات سے تعلق رکھنے والی آیتوں کا ترجمہ، تفسیر و شانِ نزول و نکات و درسِ ہدایت ''غرائب القرآن'' کے نام سے ناظرین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
''عجائب القرآن'' اور ''غرائب القرآن'' یہ دونوں کتابیں قرآن مجید کے مضامین پر ایام علالت میں میری محنتوں کا ثمرہ ہیں۔ مولیٰ تعالیٰ اپنے حبیب کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طفیل میری ان دینی تصنیفات کو قبولیت دارین کی کرامتوں سے سرفراز فرمائے۔ اور میرے لئے ،نیز والدین، اساتذہ و تلامذہ و مریدین کے لئے زادِ آخرت و ذریعہ مغفرت بنائے اور میرے نواسہ عزیز القدر مولانا فیض الحق صاحب کو فیضانِ علم و عمل و برکاتِ دارین کی دولتوں سے مالا مال فرمائے کہ وہ اس کتاب کی تدوین و تبییض میں میرے شریک ِ کار بنے رہے۔(آمین)
ناظرین کرام سے گزارش ہے کہ وہ میری مکمل صحت و عافیت کے لئے دعائیں کرتے رہیں۔ تاکہ میں صحت مند ہو کر آخرِ حیات تک درسِ حدیث و مواعظ و تصنیفات کا کام جاری رکھ سکوں۔"
وما ذالک علی اللہ بعزیز وھو حسبی ونعم الوکیل وصلی اللہ تعالٰی علی حبیبہ محمد والہ وصحبہ اجمعین
" عبدالمصطفیٰ الاعظمی عفی عنہ
گھوسی۔۲۳ رمضان ۱۴۰۲ھ"
"بسم اللہ الرحمن الرحیم
مُبَسْمِلاً وَمُحَمِّدًا وَّمُصَلِّیًّا"
حضرت آد م علیہ السلام کی نہ ماں ہیں نہ باپ۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو مٹی سے بنایا ہے۔ چنانچہ روایت ہے کہ جب خداوند قدوس عزوجل نے آپ کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا تو حضرت عزرائیل علیہ السلام کو حکم دیا کہ زمین سے ایک مٹھی مٹی لائیں۔ حکمِ خداوندی عزوجل کے مطابق حضرت عزرائیل علیہ السلام نے آسمان سے اتر کر زمین سے ایک مٹھی مٹی اٹھائی تو پوری روئے زمین کی اوپری پرت چھلکے کے مانند اتر کر آپ کی مٹھی میں آگئی۔ جس میں ساٹھ رنگوں اور مختلف کیفیتوں والی مٹیاں تھیں یعنی سفید و سیاہ اور سرخ و زرد رنگوں والی اور نرم و سخت، شیریں و تلخ، نمکین و پھیکی وغیرہ کیفیتوں والی مٹیاں شامل تھی ۔
(تذکرۃ الانبیاء، ص ۴۸)
پھر اس مٹی کو مختلف پانیوں سے گوندھنے کا حکم فرمایا۔ چنانچہ ایک مدت کے بعد یہ چپکنے والی بن گئی۔ پھر ایک مدت تک یہ گوندھی گئی تو کیچڑ کی طرح بو دار گارا بن گئی۔ پھر یہ خشک ہو کر کھنکھناتی اور بجتی ہوئی مٹی بن گئی۔ پھر اس مٹی سے حضرت آدم علیہ السلام کا پُتلا بنا کر جنت کے دروازے پر رکھ دیا گیا جس کو دیکھ دیکھ کر فرشتوں کی جماعت تعجب کرتی تھی۔ کیونکہ فرشتوں نے ایسی شکل و صورت کی کوئی مخلوق کبھی دیکھی ہی نہیں تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس پتلے میں روح کو داخل ہونے کا حکم فرمایا۔ چنانچہ روح داخل ہو کر جب آپ کے نتھنوں میں پہنچی تو آپ کو چھینک آئی اور جب روح زبان تک پہنچ گئی، تو آپ نے ''الحمدللہ'' پڑھا اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ''یرحمک اللہ''یعنی اللہ تعالیٰ تم پر رحمت فرمائے۔ اے ابو محمد (آدم)میں نے تم کو
اپنی حمد ہی کے لئے بنایا ہے۔ پھر رفتہ رفتہ پورے بدن میں روح پہنچ گئی اور آپ زندہ ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے۔
(تفسیر خازن،ج۱، ص ۴۳،پ۱، البقرۃ :۳۰)
ترمذی اور ابو داؤد میں یہ حدیث ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کا پتلا جس مٹی سے بنایا گیا چونکہ وہ مختلف رنگوں اور مختلف کیفیتوں کی مٹیوں کا مجموعہ تھی اسی لئے آپ کی اولاد یعنی انسانوں میں مختلف رنگوں اور قسم قسم کے مزاجوں والے لوگ ہوگئے۔
(تفسیر صاوی،ج۱،ص ۴۹،پ۱،البقرۃ :۳۰)
حضرت آدم علیہ السلام کی کنیت ابو محمد یا ابو البشر اور آپ کا لقب ''خلیفۃ اللہ''ہے اور آپ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں۔ آپ نے نو سو ساٹھ برس کی عمر پائی اور بوقت وفات آپ کی اولاد کی تعداد ایک لاکھ ہوچکی تھی۔ جنہوں نے طرح طرح کی صنعتوں اور عمارتوں سے زمین کو آباد کیا۔
(تفسیر صاوی،ج۱،ص ۴۸،پ۱،البقرۃ :۳۰)
قرآن مجید میں بار بار اس مضمون کا بیان کیا گیا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق مٹی سے ہوئی۔ چنانچہ سورئہ آل عمران میں ارشاد فرمایا کہ:۔
"اِنَّ مَثَلَ عِیۡسٰی عِنۡدَ اللہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ ؕ خَلَقَہٗ مِنۡ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ ﴿59﴾
(پ3،اٰل عمران: 59)"
"ترجمہ کنزالایمان :۔ عیسیٰ کی کہاوت اللہ کے نزدیک آدم کی طرح ہے اسے مٹی سے بنایا پھر فرمایا ہو جا وہ فوراً ہوجاتا ہے۔
دوسری آیت میں اس طرح فرمایا کہ:۔"
اِنَّا خَلَقْنٰہُمۡ مِّنۡ طِیۡنٍ لَّازِبٍ (پ23،الصّافات: 11)
"ترجمہ کنزالایمان:۔بیشک ہم نے ان کو چپکتی مٹی سے بنایا۔
کہیں یہ فرمایا کہ:۔"
"وَلَقَدْ خَلَقْنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوۡنٍ ﴿ۚ26﴾
(پ14،الحجر:26)"
"ترجمہ کنزالایمان:۔ اور بیشک ہم نے آدمی کو بجتی ہوئی مٹی سے بنایا جو اصل میں ایک سیاہ بودار گارا تھی۔
حضرت حواء رضی اللہ تعالیٰ عنہا:۔جب حضرت آدم علیہ السلام کو خداوند ِ قدوس نے بہشت میں رہنے کا حکم دیا تو آپ جنت میں تنہائی کی وجہ سے کچھ ملول ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ پر نیند کا غلبہ فرمایا اور آپ گہری نیند سو گئے تو نیند ہی کی حالت میں آپ کی بائیں پسلی سے اللہ تعالیٰ نے حضرت حواء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو پیدا فرمادیا۔
جب آپ نیند سے بیدار ہوئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ایک نہایت ہی خوبصورت اور حسین و جمیل عورت آپ کے پاس بیٹھی ہوئی ہے۔ آپ نے ان سے فرمایا کہ تم کون ہو؟ اور کس لئے یہاں آئی ہو؟ تو حضرت حواء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواب دیا کہ میں آپ کی بیوی ہوں اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اس لئے پیدا فرمایا ہے تاکہ آپ کو مجھ سے اُنس اور سکون قلب حاصل ہو۔ اور مجھے آپ سے اُنسیت اور تسکین ملے اور ہم دونوں ایک دوسرے سے مل کر خوش رہیں اور پیار و محبت کے ساتھ زندگی بسر کریں اور خداوند ِ قدوس عزوجل کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے رہیں۔"
(تفسیر روح المعانی، ج۱، ص ۳۱۶،پ۱، البقرۃ :۳۵)
قرآن مجید میں چند مقامات پر اللہ تعالیٰ نے حضرت حواء کے بارے میں ارشاد فرمایا ، مثلاً!
"وَّخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالًا کَثِیۡرًا وَّنِسَآءً ۚ
(پ4،النساء :1)"
ترجمہ کنزالایمان:۔ اور اسی میں سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت پھیلا دیئے۔
"درسِ ہدایت:۔حضرت آدم و حواء علیہما السلام کی تخلیق کا واقعہ مضامین قرآن مجید کے ان عجائبات میں سے ہے جس کے دامن میں بڑی بڑی عبرتوں اور نصیحتوں کے گوہر آبدار کے انبار پوشیدہ ہیں جن میں سے چند یہ ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے بنایا اور حضرت حواء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے پیدا فرمایا۔ قرآن کے اس فرمان سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ خلاّق عالم جل جلالہ نے انسانوں کو چار طریقوں سے پیدا فرمایا ہے:
(اول)یہ کہ مرد و عورت دونوں کے ملاپ سے ،جیسا کہ عام طور پر انسانوں کی پیدائش ہوتی ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں صاف صاف اعلان ہے کہ"
اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنۡسَانَ مِنۡ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ ٭ۖ (پ29،الدھر : 2)
"ترجمہ کنزالایمان:۔بےشک ہم نے آدمی کو پیدا کیا ملی ہوئی منی سے
(دوم)یہ کہ تنہا مرد سے ایک انسان پیدا ہو۔ اور وہ حضرت حواء رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو حضرت آدم علیہ السلام کی بائیں پسلی سے پیدا فرمادیا۔
(سوم)یہ کہ تنہا ایک عورت سے ایک انسان پیدا ہو۔ اور وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں جو کہ پاک دامن کنواری بی بی مریم علیہا السلام کے شکم سے بغیر باپ کے پیدا ہوئے۔
(چہارم)یہ کہ بغیر مرد و عورت کے بھی ایک انسان کو خداوند ِ قدوس عزوجل نے پیدا فرما دیا اور وہ انسان حضرت آدم علیہ السلام ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو مٹی سے بنا دیا۔
ان واقعات سے مندرجہ ذیل اسباق کی طرف راہنمائی ہوتی ہے۔
(۱)خداوند ِ قدوس ایسا قادر و قیوم اور خلاّق ہے کہ انسانوں کو کسی خاص ایک ہی طریقے سے پیدا فرمانے کا پابند نہیں ہے، بلکہ وہ ایسی عظیم قدرت والا ہے کہ وہ جس طرح چاہے انسانوں کو پیدا فرما دے۔ چنانچہ مذکورہ بالا چار طریقوں سے اس نے انسانوں کو پیدا فرمادیا۔ جو اس کی"
"قدرت و حکمت اور اس کی عظیم الشان خلاّقیت کا نشانِ اعظم ہے۔
سبحان اللہ! خداوند ِ قدوس کی شانِ خالقیت کی عظمت کا کیا کہنا؟ جس خلّاقِ عالم نے کرسی و عرش اور لوح و قلم اور زمین و آسمان کو ''کُن'' فرما کر موجود فرما دیا اس کی قدرتِ کاملہ اور حکمتِ بالغہ کے حضور خلقتِ انسانی کی بھلا حقیقت و حیثیت ہی کیا ہے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ تخلیق انسان اس قادر مطلق کا وہ تخلیقی شاہکار ہے کہ کائنات عالم میں اس کی کوئی مثال نہیں۔ کیونکہ وجود انسان عالم خلق کی تمام مخلوقات کے نمونوں کا ایک جامع مرقع ہے۔ اللہ اکبر!کیا خوب ارشاد فرمایا۔ مولائے کائنات حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے کہ ؎"
" اَتَحْسِبُ اِنَّکَ جِرْمٌ صَغِیْرٌ وَفِیْکَ اِنْطَوَی الْعَالَمُ الْاَکْبَرُ"
"ترجمہ:۔ اے انسان! کیا تو یہ گمان کرتا ہے کہ تو ایک چھوٹا سا جسم ہے؟ حالانکہ تیری عظمت کا یہ حال ہے کہ تیرے اندر عالم اکبر سمٹا ہوا ہے۔
(۲)ممکن تھا کہ کوئی مرد یہ خیال کرتا کہ اگر ہم مردوں کی جماعت نہ ہوتی تو تنہا عورتوں سے کوئی انسان پیدا نہیں ہو سکتا تھا۔ اسی طرح ممکن تھا کہ عورتوں کو یہ گمان ہوتا کہ اگر ہم عورتیں نہ ہوتیں تو تنہا مردوں سے کوئی انسان پیدا نہ ہوتا۔ اسی طرح ممکن تھا کہ عورت و مرد دونوں مل کر یہ ناز کرتے کہ اگر ہم مردوں اور عورتوں کا وجود نہ ہوتا تو کوئی انسان پیدا نہیں ہوسکتا تھا، تو اللہ تعالیٰ نے چاروں طریقوں سے انسانوں کو پیدا فرما کر عورتوں اور مردوں دونوں کا منہ بند کردیا کہ دیکھ لو، ہم ایسے قادر و قیوم ہیں کہ حضرت حواء علیہا السلام کو تنہا مرد یعنی حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے پیدا فرما دیا۔ لہٰذا اے عورتو! تم یہ گمان مت رکھو کہ اگر عورتیں نہ ہوتیں تو کوئی انسان پیدا نہ ہوتا۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تنہا عورت کے شکم سے بغیر مرد کے پیدا"
فرما کر مردوں کو تنبیہ فرما دی کہ اے مردو! تم یہ ناز نہ کرو کہ اگر تم نہ ہوتے تو انسانوں کی پیدائش نہیں ہو سکتی تھی۔ دیکھ لو! ہم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تنہا عورت کے شکم سے بغیر مرد کے پیدا فرمادیا۔ اور حضرت آدم علیہ السلام کو بغیر مرد و عورت کے مٹی سے پیدا فرما کر عورتوں اور مردوں کا منہ بند فرمادیا کہ اے عورتو! اور مردو! تم کبھی بھی اپنے دل میں خیال نہ لانا کہ اگر ہم دونوں نہ ہوتے تو انسانوں کی جماعت پیدا نہیں ہو سکتی تھی۔ دیکھ لو!حضرت آدم علیہ السلام کے نہ باپ ہیں نہ ماں، بلکہ ہم نے ان کو مٹی سے پیدا فرمادیا۔سبحان اللہ!سچ فرمایا اللہ جل جلالہ نے کہ
اللہُ خَالِقُ کُلِّ شَیۡءٍ وَّہُوَ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ ﴿16﴾ (پ 13،الرعد:16)
"ترجمہ کنزالایمان:۔ اللہ ہر چیز کا بنا نے والا ہے اور وہ اکیلا سب پر غالب ہے
وہ جس کو چاہے اور جیسے چاہے اور جب چاہے پیدا فرما دیتا ہے۔ اس کے افعال اور اس کی قدرت کسی اسباب و علل، اور کسی خاص طور طریقوں کی بندشوں کے محتاج نہیں ہیں۔ وہ"
فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ
"ہے۔
یعنی وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے (پ۳۰،البروج:۱۶)۔اس کی شان"
یَفْعَلُ اللہُ مَا یَشَاءُ وَیَفْعَلُ اللہُ مَا یُرِیْد
ہے۔ یعنی جس چیز اور جس کام کا وہ ارادہ فرماتا ہے اسکو کرڈالتا ہے۔ نہ کوئی اسکی مشیت وارادہ میں دخل انداز ہو سکتا ہے، نہ کسی کو اسکے کسی کام میں چون و چرا کی مجال ہو سکتی ہے۔
واللہ تعالٰی اعلم۔
"حضرت آدم علیہ السلام کا لقب ''خلیفۃ اللہ''ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو اپنی خلافت سے سرفراز فرمانے کا ارادہ فرمایا تو اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ اور فرشتوں میں جو مکالمہ ہوا وہ بہت ہی تعجب خیز ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت ہی فکر انگیز و عبرت آموز بھی ہے، جو حسب ذیل ہے:
اللہ تعالیٰ:''اے فرشتو! میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں جو میرا نائب بن کر زمین میں میرے احکام کو نافذ کریگا۔"
"ملائکہ:اے باری تعالیٰ کیا تو زمین میں ایسے شخص کو اپنی خلافت و نیابت کے شرف سے سرفراز فرمائے گا جو زمین میں فساد برپا کریگا اور قتل و غارت گری سے خوں ریزی کا بازار گرم کریگا؟ اے خداوند تعالیٰ! اس شخص سے زیادہ تیری خلافت کے حق دار تو ہم ملائکہ کی جماعت ہے، کیونکہ ہم ملائکہ نہ زمین میں فساد پھیلائیں گے، نہ خوں ریزی کریں گے بلکہ ہم تیری حمد و ثناء کے ساتھ تیری سبوحیت کا اعلان اور تیری قدوسیت اور پاکی کا بیان کرتے رہتے ہیں اور تیری تسبیح و تقدیس سے ہر لحظہ و ہر آن رطب اللسان رہتے ہیں اس لئے ہم فرشتوں کی جماعت ہی میں سے کسی کے سرپر اپنی خلافت و نیابت کا تاج رکھ کر اس کو ''خلیفۃ اللہ''کے معزز لقب سے سربلند فرما۔
اللہ تعالیٰ:اے فرشتو!آدم (علیہ السلام)کے خلیفہ بنانے میں جو حکمتیں اور مصلحتیں ہیں ان کو میں ہی جانتا ہوں، تم گروہِ ملائکہ ان حکمتوں اور مصلحتوں کو نہیں جانتے۔
فرشتے باری تعالیٰ کے اس ارشاد کو سن کر اگرچہ خاموش ہوگئے مگر انہوں نے اپنے دل میں یہ خیال چھپائے رکھا کہ اللہ تعالیٰ خواہ کسی کو بھی اپنا خلیفہ بنا دے مگر وہ فضل و کمال میں ہم فرشتوں سے بڑھ کر نہ ہو گا۔ کیونکہ ہم ملائکہ فضیلت کی جس منزل پر ہیں وہاں تک کسی مخلوق کی بھی رسائی نہ ہو سکے گی۔ اس لئے فضیلت کے تاجدار بہرحال ہم فرشتوں کی جماعت ہی رہے گی۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرما کر تمام چھوٹی بڑی چیزوں کا علم ان کو عطا فرما دیا اس کے بعد پھر اللہ تعالیٰ اور ملائکہ کا حسب ذیل مکالمہ ہوا۔
اللہ تعالیٰ:اے فرشتو! اگر تم اپنے اس دعویٰ میں سچے ہو کہ تم سے افضل کوئی دوسری مخلوق نہیں ہو سکتی تو تم تمام ان چیزوں کے نام بتاؤ جن کو میں نے تمہارے پیش نظر کر دیا ہے۔
ملائکہ:اے اللہ تعالیٰ!تو ہر نقص و عیب سے پاک ہے ہمیں تو بس اتنا ہی علم ہے جو تونے ہمیں عطا فرما دیا ہے اس کے سوا ہمیں اور کسی چیز کا کوئی علم نہیں ہے ہم بالیقین یہ جانتے ہیں اور مانتے ہیں کہ بلاشبہ علم و حکمت کا خالق و مالک تو صرف توہی ہے۔"
"پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو مخاطب فرما کر ارشاد فرمایا کہ اے آدم تم ان فرشتوں کو تمام چیزوں کے نام بتاؤ۔ تو حضرت آدم علیہ السلام نے تمام اشیاء کے نام اور ان کی حکمتوں کا علم فرشتوں کو بتا دیا جس کو سن کر فرشتے متعجب و محو حیرت ہو گئے۔
اللہ تعالیٰ:اے فرشتو! کیا میں نے تم سے یہ نہیں فرما دیا تھا کہ میں آسمان و زمین کی چھپی ہوئی تمام چیزوں کو جانتا ہوں اور تم جو علانیہ یہ کہتے تھے کہ آدم فساد برپا کریں گے اس کو بھی میں جانتا ہوں اور تم جو خیالات اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے تھے کہ کوئی مخلوق تم سے بڑھ کر افضل نہیں پیدا ہو گی، میں تمہارے دلوں میں چھپے ہوئے ان خیالات کو بھی جانتا ہوں۔
پھر حضرت آدم علیہ السلام کے فضل و کمال کے اظہار و اعلان کے لئے اور فرشتوں سے ان کی عظمت و فضیلت کا اعتراف کرانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے سب فرشتوں کو حکم فرمایا کہ تم سب حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرو چنانچہ سب فرشتوں نے آپ کو سجدہ کیا لیکن ابلیس نے سجدہ سے انکار کردیا اور تکبر کیا تو کافر ہو کر مردودِ بارگاہ ہو گیا۔
اس پورے مضمون کو قرآن مجید نے اپنے معجزانہ طرزِ بیان میں اس طرح ذکر فرمایا ہے:"
وَ اِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیۡ جَاعِلٌ فِی الۡاَرْضِ خَلِیۡفَۃً ؕ قَالُوۡۤا اَتَجْعَلُ فِیۡہَا مَنۡ یُّفْسِدُ فِیۡہَا وَیَسْفِکُ الدِّمَآءَ ۚ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ ؕ قَالَ اِنِّیۡۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوۡنَ ﴿30﴾وَعَلَّمَ اٰدَمَ الۡاَسْمَآءَ کُلَّہَا ثُمَّ عَرَضَہُمْ عَلَی الْمَلٰٓئِکَۃِ فَقَالَ اَنْۢبِـُٔوْنِیْ بِاَسْمَآءِ ہٰۤؤُلَآءِ اِنۡ کُنۡتُمْ صٰدِقِیۡنَ ﴿31﴾قَالُوۡا سُبْحٰنَکَ لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ الْعَلِیۡمُ الْحَکِیۡمُ ﴿32﴾قَالَ یٰۤاٰدَمُ اَنۡۢبِئْہُمۡ بِاَسْمَآئِہِمْ ۚ فَلَمَّاۤ اَنۡۢبَاَہُمْ بِاَسْمَآئِہِمْ ۙ قَالَ اَ لَمْ اَ قُلۡ لَّکُمْ اِنِّیۡۤ اَعْلَمُ غَیۡبَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرْضِ وَاَعْلَمُ مَا تُبْدُوۡنَ وَمَا کُنۡتُمْ تَکْتُمُوۡنَ ﴿33﴾وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اسْجُدُوۡا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوۡۤا اِلَّاۤ اِبْلِیۡسَ ؕ اَبٰی وَاسْتَکْبَرَ وَکَانَ مِنَ الْکٰفِرِیۡنَ ﴿34﴾ (پ1،البقرۃ:30-34)
"ترجمہ کنزالایمان:۔ اور یاد کروجب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔ بولے کیا ایسے کو نائب کریگا جو اس میں فساد پھیلائے اور خون ریزیاں کرے اور ہم تجھے سراہتے ہوئے تیری تسبیح کرتے اور تیری پاکی بولتے ہیں فرمایا مجھے معلوم ہے جو تم نہیں جانتے اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے پھر سب اشیاء ملائکہ پر پیش کر کے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ بولے پاکی ہے تجھے ہمیں کچھ علم نہیں مگر جتنا تونے ہمیں سکھایا۔ بے شک تو ہی علم و حکمت والا ہے۔ فرمایا اے آدم بتا دے انہیں سب اشیاء کے نام جب آدم نے انہیں سب کے نام بتا دیئے فرمایا میں نہ کہتا تھا کہ میں جانتا ہوں آسمانوں اور زمین کی سب چھپی چیزیں اور میں جانتا ہوں جو کچھ تم ظاہر کرتے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے منکر ہوا اور غرور کیا اور کافرہو گیا۔
درسِ ہدایت:۔ان آیاتِ کریمہ سے مندرجہ ذیل ہدایت کے اسباق ملتے ہیں۔
(۱)اللہ تعالیٰ کی شان"
فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ
"ہے۔یعنی وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے نہ کوئی اس کے ارادہ میں دخل انداز ہو سکتا ہے نہ کسی کی مجال ہے کہ اس کے کسی کام میں چون و چرا کرسکے۔ مگر اس کے باوجود حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق و خلافت کے بارے میں خداوند قدوس نے ملائکہ کی جماعت سے مشورہ فرمایا۔ اس میں یہ ہدایت کا سبق ہے کہ باری تعالیٰ جو سب سے زیادہ علم و قدرت والا ہے اور فاعل مختار ہے جب وہ اپنے ملائکہ سے مشورہ فرماتا ہے تو بندے جن کا علم اور اقتدار و اختیار بہت ہی کم ہے تو انہیں بھی چاہے کہ وہ جس کسی کام کا ارادہ کریں تو اپنے مخلص دوستوں، اور صاحبان عقل ہمدردوں سے اپنے کام کے بارے میں مشورہ کرلیا کریں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت اور اس کا مقدس دستور ہے۔
(۲)فرشتوں نے حضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں یہ کہا کہ وہ فسادی اور خوں ریز"
"ہیں۔ لہٰذا ان کو خلافتِ الٰہیہ سے سرفراز کرنے سے بہتر یہ ہے کہ ہم فرشتوں کو خلافت کا شرف بخشا جائے۔ کیونکہ ہم ملائکہ خدا کی تسبیح و تقدیس اور اس کی حمد و ثناء کو اپنا شعار زندگی بنائے ہوئے ہیں لہٰذا ہم ملائکہ حضرت آدم علیہ السلام سے زیادہ خلافت کے مستحق ہیں۔
فرشتوں نے اپنی یہ رائے اس بناء پر دی تھی کہ انہوں نے اپنے اجتہاد سے یہ سمجھ لیا کہ پیدا ہونے والے خلیفہ میں تین قوتیں باری تعالیٰ ودیعت فرمائے گا، ایک قوت شہویہ، دوسری قوت غضبیہ، تیسری قوت عقلیہ اور چونکہ قوت شہویہ اور قوت غضبیہ ان دونوں سے لوٹ مار اور قتل و غارت وغیرہ قسم قسم کے فسادات رونما ہوں گے، اس لئے فرشتوں نے باری تعالیٰ کے جواب میں یہ عرض کیا کہ اے خداوند تعالیٰ!کیا تو ایسی مخلوق کو اپنی خلافت سے سرفراز فرمائے گا جو زمین میں قسم قسم کے فساد برپا کریگا اور قتل و غارت گری سے زمین میں خوں ریزی کا طوفان لائے گا۔ اس سے بہتر تو یہ ہے کہ تو ہم فرشتوں میں سے کسی کو اپنا خلیفہ بنا دے۔ کیونکہ ہم تیری حمد کے ساتھ تیری تسبیح پڑھتے ہیں اور تیری تقدیس اور پاکی کا چرچا کرتے رہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ فرما کر فرشتوں کو خاموش کردیا کہ میں جس مخلوق کو خلیفہ بنا رہا ہوں اس میں جو جو مصلحتیں اور جیسی جیسی حکمتیں ہیں ان کو بس میں ہی جانتا ہوں تم فرشتوں کو ان حکمتوں اور مصلحتوں کا علم نہیں ہے۔
وہ مصلحتیں اور حکمتیں کیا تھیں؟ اس کا پورا پورا علم تو صرف عالم الغیوب ہی کو ہے۔ مگر ظاہری طور پر ایک حکمت اور مصلحت یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ فرشتوں نے حضرت آدم علیہ السلام کے بدن میں قوت شہویہ و قوت غضبیہ کو فساد و خوں ریزی کا منبع اور سرچشمہ سمجھ کر ان کو خلافت کا اہل نہیں سمجھا۔ مگر فرشتوں کی نظر اس پر نہیں پڑی کہ حضرت آدم علیہ السلام میں قوت شہویہ اور قوت غضبیہ کے ساتھ ساتھ قوت عقلیہ بھی ہے اور قوت عقلیہ کی یہ شان ہے کہ اگر وہ غالب ہوکر قوت شہویہ اور قوت غضبیہ کو اپنا مطیع و فرمانبردار بنا لے تو قوت شہویہ و قوت غضبیہ بجائے فساد و خوں ریزی کے ہر خیر و خوبی کا منبع اور ہر قسم کی صلاح و فلاح کا سرچشمہ بن جایا کرتی"
"ہیں، یہ نکتہ فرشتوں کی نگاہ سے اوجھل رہ گیا۔ اسی لئے باری تعالیٰ نے فرشتوں کے جواب میں فرمایا کہ میں جو جانتا ہوں اس کو تم نہیں جانتے اور فرشتے یہ سن کر خاموش ہو گئے۔
اس سے یہ ہدایت کا سبق ملتا ہے کہ چونکہ بندے خداوند قدوس کے افعال اور اس کے کاموں کی مصلحتیں اور حکمتوں سے کماحقہ واقف نہیں ہیں اس لئے بندوں پر لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کسی فعل پر تنقید و تبصرہ سے اپنی زبان کو روکے رہیں۔ اور اپنی کم عقلی و کوتاہ فہمی کا اعتراف کرتے ہوئے یہ ایمان رکھیں اور زبان سے اعلان کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ کیا اور جیسا بھی کیا بہرحال وہی حق ہے اور اللہ تعالیٰ ہی اپنے کاموں کی حکمتوں اور مصلحتوں کو خوب جانتا ہے جن کا ہم بندوں کو علم نہیں ہے۔
(۳)اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو تمام اشیاء کے ناموں، اور ان کی حکمتوں کا علم بذریعہ الہام ایک لمحہ میں عطا فرما دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ علم کا حصول کتابوں کے سبقاً سبقاً پڑھنے ہی پر موقوف نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ جس بندے پر اپنا فضل فرما دے اس کو بغیر سبق پڑھنے اور بغیر کسی کتاب کے بذریعہ الہام چند لمحوں میں علم حاصل کرا دیتا ہے اور بغیر تحصیل علم کے اس کا سینہ علم و عرفان کا خزینہ بن جایا کرتا ہے۔ چنانچہ بہت سے اولیاء کرام کے بارے میں معتبر روایات سے ثابت ہے کہ انہوں نے کبھی کسی مدرسہ میں قدم نہیں رکھا۔ نہ کسی استاد کے سامنے زانوئے تلمذتہ کیا نہ کبھی کسی کتاب کو ہاتھ لگایا، مگر شیخ کامل کی باطنی توجہ اور فضل ربی کی بدولت چند منٹوں بلکہ چند سیکنڈوں میں الہام کے ذریعے وہ تمام علوم و معارف کے جامع کمالات بن گئے اور ان بزرگوں کے علمی تبحر اور عالمانہ مہارت کا یہ عالم ہو گیا کہ بڑے بڑے درسگاہی مولوی جو علوم و معارف کے پہاڑ شمار کئے جاتے تھے ان بزرگوں کے سامنے طفل مکتب نظر آنے لگے۔
(۴)ان واقعات سے معلوم ہوا کہ خدا کی نیابت اور خلافت کا دارو مدار کثرتِ عبادت اور"
"تسبیح و تقدیس نہیں ہے بلکہ اس کا دارومدار علوم و معارف کی کثرت پر ہے۔ چنانچہ حضرات ملائکہ علیہم السلام باوجود کثرت عبادت اور تسبیح و تقدیس ''خلیفۃ اللہ''کے لقب سے سرفراز نہیں کئے گئے اور حضرت آدم علیہ السلام علوم و معارف کی کثرت کی بناء پر خلافت کے شرف سے ممتاز بنا دیئے گئے جس پر قرآن مجید کی آیات کریمہ شاہد عدل ہیں۔
(۵)اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ علوم کی کثرت کو عبادت کی کثرت پر فضیلت حاصل ہے اور ایک عالم کا درجہ ایک عابد سے بہت زیادہ بلند تر ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کے علمی فضل و کمال اور بلند درجات کے اظہار و اعلان کے لئے اور ملائکہ سے اس کا اعتراف کرانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے تمام فرشتوں کو حکم فرمایا کہ تمام فرشتے حضرت آدم علیہ السلام کے روبرو سجدہ کریں۔ چنانچہ تمام ملائکہ نے حکم الٰہی کی تعمیل کرتے ہوئے حضرت آدم کو سجدہ کرلیا اور وہ اس کی بدولت تقرب الی اللہ اور محبوبیت خداوندی کی منزل بلند پر فائز ہو گئے اور ابلیس چونکہ اپنے تکبر کی منحوسیت میں گرفتار ہو کر اس سجدہ سے انکار کر بیٹھا تو وہ مردود ِ بارگاہ الٰہی ہو کر ذلت و گمراہی کے ایسے عمیق غار میں گر پڑا کہ قیامت تک وہ اس غار سے نہیں نکل سکتا اور ہمیشہ ہمیشہ وہ دونوں جہان کی لعنتوں کا حق دار بن گیا اور قہر قہار و غضب جبار میں گرفتار ہو کر دائمی عذاب ِ نار کا سزاوار بن گیا۔
(۶)اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی کے علم کو جانچنے اور علم کی قلت و کثرت کا اندازہ لگانے کے لئے امتحان کا طریقہ جو آج کل رائج ہے یہ اللہ تعالیٰ کی سنت قدیمہ ہے کہ خداوند ِ عالم نے فرشتوں کے علم کو کم اور حضرت آدم علیہ السلام کے علم کو زائد ظاہر کرنے کے لئے فرشتوں اور حضرت آدم علیہ السلام کا امتحان لیا۔ تو فرشتے اس امتحان میں ناکام رہ گئے اور حضرت آدم علیہ السلام کامیاب ہو گئے۔
(۷)ابلیس نے حضرت آدم علیہ السلام کو خاک کا پُتلا کہہ کر ان کی تحقیر کی اور اپنے کو آتشی"
مخلوق کہہ کر اپنی بڑائی اور تکبر کا اظہار کیا اور سجدہ آدم علیہ السلام سے انکار کیا ،درحقیقت شیطان کے اس انکار کا باعث اس کا تکبر تھا اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ تکبر وہ بری شے ہے کہ بڑے سے بڑے بلند مراتب و درجات والے کو ذلت کے عذاب میں گرفتار کردیتی ہے بلکہ بعض اوقات تکبر کفر تک پہنچا دیتا ہے اور تکبر کے ساتھ ساتھ جب محبوبانِ بارگاہ الٰہی کی توہین اور تحقیر کا بھی جذبہ ہو تو پھر تو اس کی شناعت و خباثت اور بے پناہ منحوسیت کا کوئی اندازہ ہی نہیں کرسکتا اور اس کے ابلیس لعین ہونے میں کوئی شک و شبہ کیا ہی نہیں جا سکتا۔ اس لئے ان لوگوں کو عبرت آموز سبق لینا چاہے جو بزرگان دین کی توہین کر کے اپنی عبادتوں پر اظہار تکبر کرتے رہتے ہیں کہ وہ اس دور میں ابلیس کہلانے کے مستحق نہیں تو پھر کیا ہیں؟
واللہ تعالیٰ اعلم۔
"حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے کتنے اور کس قدر علوم عطا فرمائے اور کن کن چیزوں کے علوم و معارف کو عالم الغیب والشہادۃ نے ایک لمحہ کے اندر ان کے سینہ اقدس میں بذریعہ الہام جمع فرما دیا، جن کی بدولت حضرت آدم علیہ السلام علوم و معارف کی اتنی بلند ترین منزل پر فائز ہو گئے کہ فرشتوں کی مقدس جماعت آپ کے علمی وقار و عرفانی عظمت و اقتدار کے روبرو سربسجود ہو گئی ،ان علوم کی ایک فہرست آپ قطب زمانہ حضرت علامہ شیخ اسمٰعیل حقی علیہ الرحمۃ کی شہرہ آفاق تفسیر روح البیان شریف میں پڑھئے جس کا ترجمہ حسب ذیل ہے، وہ فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو تمام چیزوں کا نام، تمام زبانوں میں سکھا دیا اور ان کو تمام ملائکہ کے نام اور تمام اولاد ِ آدم کے نام، اور تمام حیوانات و نباتات وجمادات کے نام، اور تمام چیز کی صنعتوں کے نام اور تمام شہروں اور تمام بستیوں کے نام اور تمام پرندوں اور درختوں کے نام اور جو آئندہ عالم وجود میں آنے والے ہیں سب کے نام اور قیامت تک پیدا ہونے والے تمام جانداروں کے نام اور تمام کھانے پینے کی چیزوں کے نام اور جنت کی تمام نعمتوں"
کے نام اور تمام چیزوں اور سامانوں کے نام، یہاں تک کہ پیالہ اور پیالی کے نام۔ اور حدیث شریف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو سات لاکھ زبانیں سکھائی ہیں۔
(تفسیر روح البیان،ج۱، ص ۱۰۰،پ۱، البقرۃ:۳۱)
ان علوم مذکورہ بالا کی فہرست کو قرآن مجید نے اپنے معجزانہ جوامع الکلم کے انداز بیان میں صرف ایک جملہ کے اندر بیان فرما دیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے کہ:
وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ کُلَّھَا۔
" اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے۔ (پ۱،البقرۃ :۳۱)
درسِ ہدایت:۔حضرت آدم علیہ السلام کے خزائن علم کی یہ عظیم فہرست دیکھ کر سوچئے کہ جب حضرت آدم علیہ السلام کے علوم و معارف کی یہ منزل ہے تو پھر حضور سید آدم و سرور اولادِ آدم، خلیفۃ اللہ الاعظم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علوم عالیہ کی کثرت و وسعت اور ان کی رفعت و عظمت کا کیا عالم ہو گا؟ میں کہتا ہوں کہ واللہ حضرت آدم علیہ السلام کے علوم کو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے علوم سے اتنی بھی نسبت نہیں ہوسکتی جتنی کہ ایک قطرہ کو سمندر سے اور ایک ذرہ کو تمام روئے زمین سے نسبت ہے۔ اللہ اکبر! کہاں علوم آدم اور کہاں علوم سید عالم! ؎"
" فرش تا عرش سب آئینہ ، ضمائر حاضر
بس قسم کھائیے اُمّی! تیری دانائی کی"
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّبَارِکْ وَسَلِّمْ
ابلیس جس کو شیطان کہا جاتا ہے۔ یہ فرشتہ نہیں تھا بلکہ جن تھا جو آگ سے پیدا ہوا تھا۔ لیکن یہ فرشتوں کے ساتھ ساتھ ملا جلا رہتا تھا اور دربارِ خداوندی میں بہت مقرب اور بڑے بڑے بلند درجات و مراتب سے سرفراز تھا۔ حضرت کعب احبار رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ابلیس
چالیس ہزار برس تک جنت کا خزانچی رہا اور اَسّی ہزار برس تک ملائکہ کا ساتھی رہا اور بیس ہزار برس تک ملائکہ کو وعظ سنا تا رہا اور تیس ہزار برس تک مقربین کا سردار رہا اور ایک ہزار برس تک روحانیین کی سرداری کے منصب پر رہا اور چودہ ہزار برس تک عرش کا طواف کرتا رہا اور پہلے آسمان میں اس کا نام عابد اور دوسرے آسمان میں زاہد، اور تیسرے آسمان میں عارف اور چوتھے آسمان میں ولی اور پانچویں آسمان میں تقی اور چھٹے آسمان میں خازن اور ساتویں آسمان میں عزازیل تھا اور لوح محفوظ میں اس کا نام ابلیس لکھا ہوا تھا اور یہ اپنے انجام سے غافل اور خاتمہ سے بے خبر تھا۔
(تفسیر صاوی، ج۱،ص۵۱،پ۱، البقرۃ : ۳۴، تفسیر جمل ،ج۱ ص ۶۰ )
لیکن جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تو ابلیس نے انکار کردیا اور حضرت آدم علیہ السلام کی تحقیر اور اپنی بڑائی کا اظہار کر کے تکبر کیا اسی جرم کی سزا میں خداوند ِ عالم نے اس کو مردود ِ بارگاہ کر کے دونوں جہان میں ملعون فرما دیا اور اس کی پیروی کرنے والوں کو جہنم میں عذاب ِ نار کا سزاوار بنادیا۔ چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہوا کہ:
قَالَ مَا مَنَعَکَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُکَ ؕ قَالَ اَنَا خَیۡرٌ مِّنْہُ ۚ خَلَقْتَنِیۡ مِنۡ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَہٗ مِنۡ طِیۡنٍ ﴿12﴾قَالَ فَاہۡبِطْ مِنْہَا فَمَا یَکُوۡنُ لَکَ اَنۡ تَتَکَبَّرَ فِیۡہَا فَاخْرُجْ اِنَّکَ مِنَ الصّٰغِرِیۡنَ ﴿13﴾قَالَ اَنۡظِرْنِیۡۤ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوۡنَ ﴿14﴾قَالَ اِنَّکَ مِنَ المُنۡظَرِیۡنَ ﴿15﴾قَالَ فَبِمَاۤ اَغْوَیۡتَنِیۡ لَاَقْعُدَنَّ لَہُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیۡمَ ﴿ۙ16﴾ثُمَّ لَاٰتِیَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَیۡنِ اَیۡدِیۡہِمْ وَ مِنْ خَلْفِہِمْ وَعَنْ اَیۡمَانِہِمْ وَعَنۡ شَمَآئِلِہِمْ ؕ وَلَا تَجِدُ اَکْثَرَہُمْ شٰکِرِیۡنَ ﴿17﴾قَالَ اخْرُجْ مِنْہَا مَذْءُوۡمًا مَّدْحُوۡرًا ؕ لَمَنۡ تَبِعَکَ مِنْہُمْ لَاَمْلَـَٔنَّ جَہَنَّمَ مِنۡکُمْ اَجْمَعِیۡنَ ﴿18﴾ (پ8،الاعراف:12۔18)
ترجمہ کنزالایمان:۔ فرمایا کس چیز نے تجھے روکا کہ تونے سجدہ نہ کیا جب میں نے تجھے حکم دیا تھا بولا میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اسے مٹی سے بنایا۔ فرمایا تو
"یہاں سے اتر جا تجھے نہیں پہنچتا کہ یہاں رہ کر غرور کرے نکل تو ہے ذلت والوں میں بولا مجھے فرصت دے اس دن تک کہ لوگ اٹھائے جائیں فرمایا تجھے مہلت ہے بولا تو قسم اس کی کہ تو نے مجھے گمراہ کیا میں ضرور تیرے سیدھے راستہ پر ان کی تاک میں بیٹھوں گا پھر ضرور میں ان کے پاس آؤں گا ان کے آگے اور پیچھے اور داہنے اوربائیں سے اور تو ان میں اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا فرمایا یہاں سے نکل جا رد کیا گیا راندہ ہوا ضرور جو ان میں سے تیرے کہے پر چلا میں تم سب سے جہنم بھر دوں گا۔
درسِ ہدایت:۔قرآن مجید کے اس عجیب واقعہ میں عبرتوں اور نصیحتوں کی بڑی بڑی درخشندہ اور تابندہ تجلیاں ہیں اسی لئے اس واقعہ کو خداوند قدوس نے مختلف الفاظ میں اور متعدد طرز بیان کے ساتھ قرآن مجید کے سات مقامات میں بیان فرمایا ہے یعنی سورہ بقرہ، سورہ اعراف، سورہ حجر، سورہ بنی اسرائیل، سورہ کہف، سورہ طٰہٰ، سورہ صمیں اس دل ہلا دینے والے واقعہ کا تذکرہ مذکور ہے جس سے مندرجہ ذیل حقائق کا درس ہدایت ملتا ہے۔
(۱)اس سے ایک بہت بڑا درس ہدایت تو یہ ملتا ہے کہ کبھی ہرگز ہرگز اپنی عبادتوں اور نیکیوں پر گھمنڈ اور غرور نہیں کرنا چاہے اور کسی گنہگار کو اپنی مغفرت سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہے کیونکہ انجام کیا ہو گا اور خاتمہ کیسا ہو گا عام بندوں کو اس کی کوئی خبر نہیں ہے اور نجات و فلاح کا دارومدار درحقیقت خاتمہ بالخیر پر ہی ہے بڑے سے بڑا عابد اگر اس کا خاتمہ بالخیر نہ ہوا تو وہ جہنمی ہو گا اور بڑے سے بڑا گنہگار اگر اس کا خاتمہ بالخیر ہو گیا تو وہ جنتی ہو گا دیکھ لو ابلیس کتنا بڑا عبادت گزار اور کس قدر مقرب بارگاہ تھا اور کیسے کیسے مراتب و درجات کے شرف سے سرفراز تھا۔ مگر انجام کیا ہوا؟ کہ اس کی ساری عبادتیں غارت و اکارت ہو گئیں اور وہ دونوں جہان میں ملعون ہو کر عذاب ِ جہنم کا حق دار بن گیا۔ کیونکہ اس کو اپنی عبادتوں اور بلندی ئ درجات پر غرور اور تکبر ہو گیا تھا مگر وہ اپنے انجام اور خاتمہ سے بالکل بے خبر تھا۔"
حدیث شریف میں ہے کہ ایک بندہ اہل جہنم کے اعمال کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے اور ایک بندہ اہل جنت کے عمل کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ جہنمی ہوتا ہے۔
اِنَّمَاالْاَعْمَالُ بِالْخَوَاتِیْم
یعنی عمل کا اعتبار خاتموں پر ہے۔
(مشکوٰۃالمصابیح،کتاب الایمان،باب الایمان بالقدر، الفصل الاول، ص ۲۰ )
خداوندکریم ہر مسلمان کو خاتمہ بالخیر کی سعادت نصیب فرمائے اور برے انجام اور برے خاتمہ سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
واللہ تعالیٰ اعلم۔
" (۲)اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عالم ہو یا جاہل متقی ہو یا گنہ گار ہر آدمی کو زندگی بھر شیطان کے وسوسوں سے ہوشیار اور اس کے فریبوں سے بچتے رہنا چاہے۔ کیونکہ شیطان نے قسم کھا کر خدا کے حضور میں اعلان کردیا ہے کہ میں آگے پیچھے اور دائیں بائیں سے وسوسہ ڈال کر تیرے بندوں کو صراط مستقیم سے بہکاتا رہوں گا اور بہت سے بندوں کو خدا کا شکر گزار ہونے سے روک دوں گا۔
(۳)شیطان نے آگے پیچھے اور دائیں بائیں چار جانبوں سے انسانوں پر حملہ آور ہونے اور وسوسہ ڈالنے کا اعلان کیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ اوپر اور نیچے ان دو جانبوں سے شیطان انسانوں پر کبھی حملہ آور نہیں ہو گا نہ اوپر اور نیچے کی جانب سے کوئی وسوسہ ڈال سکے گا۔ لہٰذا اگر کوئی انسان اپنے اوپر یا نیچے کی طرف سے کوئی روشنی یا کوئی بھی حیرت انگیز و تعجب خیز چیز دیکھے تو اسے سمجھ لینا چاہے کہ یہ شیطانی کرتب یا ابلیس کا وسوسہ نہیں ہے بلکہ اس کو خیر سمجھ کر اس کی جانب متوجہ ہو اور خداوند قدوس کی طرف سے خیر اور بھلائی کی امید رکھے۔"
واللہ تعالیٰ اعلم۔
جب ''میدان تیہ'' میں بنی اسرائیل نے یہ خواہش ظاہر کی کہ ہم زمین سے اگنے والے غلے اور ترکاریاں کھائیں گے تو ان لوگوں کو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سمجھایا کہ تم لوگ
"''من و سلویٰ'' کے نفیس کھانے کو چھوڑ کر گیہوں، دال اور ترکاریوں جیسی خسیس اور گھٹیا غذائیں کیوں طلب کررہے ہو؟ مگر جب بنی اسرائیل اپنی ضد پر اڑے رہے تو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ تم لوگ میدان تیہ سے نکل کر شہر بیت المقدس میں داخل ہوجاؤ اور وہاں بے روک ٹوک اپنی پسند کی اور من بھاتی غذائیں کھاؤ مگر یہ ضروری ہے کہ تم لوگ بیت المقدس کے دروازے میں کمال ادب و احترام کے ساتھ جھک کر داخل ہونا اور داخل ہوتے وقت یہ دعا مانگتے رہنا کہ یا اللہ! تو ہمارے گناہوں کو معاف فرما دے تو ہم تمہارے گناہوں کو بخش دیں گے۔
مگر بنی اسرائیل جو ہمیشہ سے سرکش اور شرارتوں کے عادی اور خدا کی نافرمانیوں کے خوگر تھے، بیت المقدس کے قریب پہنچ کر ایک دم ان لوگو ں کی رگ شرارت بھڑک اٹھی اور یہ نافرمان لوگ بجائے جھک کے داخل ہونے کے اپنی سرینوں پر گھسٹتے ہوئے دروازے میں داخل ہوئے اور حِطَّۃٌ(معافی کی دعا )کے بدلے حبۃ فی شعرۃ (ایک دانہ ہے ایک بال میں)کہتے ہوئے اور مذاق و تمسخر کرتے ہوئے بیت المقدس کے دروازے میں گھستے چلے گئے۔ فرمانِ ربانی کی اس نافرمانی اور حکم الٰہی کے ساتھ تمسخر کی وجہ سے ان لوگوں پر قہر خداوندی بصورت عذاب نازل ہو گیا کہ اچانک ان لوگوں میں طاعون کی بیماری وبائی شکل میں پھیل گئی اور گھنٹہ بھر میں ستر ہزار بنی اسرائیل درد و کرب سے مچھلی کی طرح تڑپ تڑپ کر مر گئے۔"
" (صاوی،ج ۱،ص۳۱ و جلالین)"
طاعون:۔ایک مہلک وبائی بیماری ہے جس کو ڈاکٹر ''پلیگ''کہتے ہیں اس بیماری میں گردن اور بغلوں اور کنجِ ران میں آم کی گٹھلی کے برابر گلٹیاں نکل آتی ہیں۔ جن میں بے پناہ درد اور ناقابل برداشت سوزش ہوتی ہے اور شدید بخار چڑھ جاتا ہے اور آنکھیں سرخ ہوجاتی ہیں اور دردناک جلن سے شعلہ کی طرح جلنے لگتی ہیں اور مریض شدتِ درد اور شدید بے چینی و بے قراری میں تڑپ تڑپ کر بہت جلد مرجاتا ہے اور جس بستی میں یہ وبا پھیل جاتی ہے اس بستی کی اکثر آبادی
"موت کے گھاٹ اتر جاتی ہے اور ہر طرف ویرانی اور خوف و ہراس کا دور دورہ پھیل جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے اس واقعہ کا ذکر فرماتے ہوئے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ:۔"
وَ اِذْ قُلْنَا ادْخُلُوۡا ہٰذِہِ الْقَرْیَۃَ فَکُلُوۡا مِنْہَا حَیۡثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَّادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّقُوۡلُوۡا حِطَّۃٌ نَّغْفِرْلَکُمْ خَطٰیٰکُمْ ؕ وَسَنَزِیۡدُ الْمُحْسِنِیۡنَ ﴿58﴾فَبَدَّلَ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا قَوْلًا غَیۡرَ الَّذِیۡ قِیۡلَ لَہُمْ فَاَنۡزَلْنَا عَلَی الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا رِجْزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا کَانُوۡا یَفْسُقُوۡنَ ﴿٪59﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔ اور جب ہم نے فرمایا اس بستی میں جاؤ پھر اس میں جہاں چاہو بے روک ٹوک کھاؤ اور دروازہ میں سجدہ کرتے داخل ہو اور کہو ہمارے گناہ معاف ہوں ہم تمہاری خطائیں بخش دیں گے اور قریب ہے کہ نیکی والوں کو اور زیادہ دیں تو ظالموں نے اور بات بدل دی جو فرمائی گئی تھی اس کے سوا توہم نے آسمان سے ان پر عذاب اتارا بدلہ ان کی بے حکمی کا۔ (پ1،البقرۃ:58۔59)
"اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ خداوند قدوس کی نافرمانی اور احکام ربانی کے ساتھ تمسخر و مذاق کرنے کا کتنا بھیانک اور کس قدر ہولناک انجام ہوتا ہے کہ آخرت کا عذاب تو اپنی جگہ برقرار ہی ہے دنیا میں قہر الٰہی بصورت عذاب نازل ہوجاتا ہے جس سے لوگ ہلاک ہوکر فنا کے گھاٹ اتر جاتے ہیں اور بستیاں ویران ہوجاتی ہیں معاذ اللہ منہ۔
فائدہ:۔''طاعون'' بنی اسرائیل کے حق میں عذاب تھا مگر اس خیرالامم یعنی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے حق میں یہ بیماری رحمت ہے کیونکہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ طاعون کی بیماری میں مرنے والا شہید ہوتا ہے۔"
" (تفسیر صاوی، ج۱،ص۶۸،پ۱،البقرۃ: ۵۹)"
مسئلہ یہ ہے کہ جس بستی میں طاعون کی وبا پھیلی ہو وہاں جانا نہیں چاہے اور اگر اپنی بستی میں وبا آجائے تو بستی چھوڑ کر دوسری جگہ بھاگنا نہیں چاہیئے بلکہ طاعون کی وبا میں اپنی بستی ہی
کے اندر خدا پر توکل کر کے صبر کے ساتھ رہنا چاہے اگر اس بیماری میں مر گیا تو شہید ہو گا اور طاعون کے ڈر سے بستی چھوڑ کر بھاگنے والے پر اتنا بڑا گناہ ہوتا ہے جتنا کہ جہاد کے دن میدان چھوڑ کر بھاگنے والوں پر گناہ ہوتا ہے اس لئے ہرگز ہرگز بھاگنا نہیں چاہے بلکہ اس بیماری میں صبر کے ساتھ اپنی ہی بستی میں مقیم رہنا چاہے کہ اس پر خداوند تعالیٰ نے اجر و ثواب کا وعدہ فرمایا ہے۔
(واللہ تعالیٰ اعلم)
"یہ چھوٹی چھوٹی دو پہاڑیاں ہیں جو حرم کعبہ مکرمہ کے بالکل قریب ہی ہیں اور آج کل تو بلند عمارتوں اور اونچی سڑکوں اور یہ دونوں پہاڑیوں کے درمیان چھت بن جانے اور تعمیرات کے ردوبدل سے دونوں پہاڑیاں برائے نام ہی کچھ بلندی رکھتی ہیں۔ انہی دونوں پہاڑیوں پر چڑھ کر اور چکر لگا کر حضرت بی بی ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس وقت پانی کی جستجو اور تلاش کی تھی جب کہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام شیر خوار بچے تھے اور پیاس کی شدت سے بے قرار ہو گئے تھے اسی لئے زمانہ قدیم سے یہ دونوں پہاڑیاں بہت مقدس مانی جاتی ہیں اور حجاج کرام ان دونوں پہاڑیوں پر چڑھ کر بڑے احترام اور جذبہ عقیدت کے ساتھ طواف کرتے اور دعائیں مانگا کرتے تھے۔
مگر زمانہ جاہلیت میں ایک مرد جس کا نام ''اساف'' تھا اور ایک عورت جس کا نام ''نائلہ'' تھا ان دونوں خبیثوں نے خانہ کعبہ کے اندر زنا کاری کرلی تو ان دونوں پر یہ قہر الٰہی نازل ہو گیا کہ یہ دونوں مسخ ہو کر پتھر کی مورت اور بت بن گئے پھر زمانہ جاہلیت کے بت پرستوں نے ان دونوں مجسموں کو کعبہ سے اٹھا کر صفا و مروہ کی دونوں پہاڑیوں پر رکھ دیا اور ان دونوں بتوں کی پوجا کرنے لگے۔
پھر جب عرب میں اسلام پھیل گیا تو مسلمان ''اساف و نائلہ'' دونوں بتوں کی وجہ سے ان"
دونوں پہاڑیوں پر جانے کو گناہ سمجھنے لگے اس وقت اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ حکم نازل فرمایا کہ صفا و مروہ کے طواف اور ان دونوں کی زیارت میں کوئی حرج و گناہ نہیں بلکہ حج و عمرہ دونوں عبادتوں میں صفا و مروہ کا طواف ضروری ہے۔
" (تفسیر صاوی، ج۱،ص۱۳۲،پ۲، البقرۃ : ۱۵۸)"
فتح مکہ کے دن حضور سید اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں پہاڑیوں پر سے ''اساف و نائلہ'' دونوں بتوں کو توڑ پھوڑ کر نیست و نابود کردیا اور ان دونوں پہاڑیوں کو حسب دستور سابق مقدس و معظم قرار دے کر ان دونوں کا طواف حج و عمرہ میں ضروری قرار دیا گیا۔ چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا کہ:۔
اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنۡ شَعَآئِرِ اللہِ ۚ فَمَنْ حَجَّ الْبَیۡتَ اَوِاعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡہِ اَنۡ یَّطَّوَّفَ بِہِمَا ؕ وَمَنۡ تَطَوَّعَ خَیۡرًا ۙ فَاِنَّ اللہَ شَاکِرٌ عَلِیۡمٌ ﴿158﴾ (پ2،البقرۃ:158)
"ترجمہ کنزالایمان:۔ بےشک صفا اور مروہ اللہ کے نشانوں سے ہیں تو جو اس گھر کا حج یا عمرہ کرے اس پر کچھ گناہ نہیں کہ ان دونوں کے پھیرے کرے اور جو کوئی بھلی بات اپنی طرف سے کرے تو اللہ نیکی کا صلہ دینے والا خبردار ہے۔
درسِ ہدایت:۔صفا اور مروہ دونوں پہاڑیوں پر حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے دوڑ کر پانی تلاش کیا تو ایک نبی یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی اور ایک نبی یعنی حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی ماں حضرت بی بی ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے قدم ان پہاڑیوں پر پڑ جانے سے ان دونوں پہاڑیوں کو یہ عزت و عظمت مل گئی کہ حضرت بی بی ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی ایک مقدس یادگار بن جانے کا ان دونوں پہاڑیوں کو اعزاز و شرف مل گیا اور یہ دونوں پہاڑیاں حج و عمرہ کرنے والوں کے لئے طواف و سعی کا ایک مقبول و محترم مقام بن گئیں۔ اس سے یہ ہدایت کا سبق ملتا ہے کہ اللہ والوں اور اللہ والیوں سے اگر کسی جگہ کو کوئی خاص تعلق حاصل ہوجائے تو وہ"
"جگہ بہت معزز و معظم بن جاتی ہے اور ہر مسلمان کے لئے وہ جگہ قابل تعظیم و لائق احترام ہوجاتی ہے ورنہ مکہ معظمہ میں بہت سی پہاڑیاں اور چھوٹے بڑے بہت سے پہاڑ ہیں، مگر صفا و مروہ کی چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں کو جو تقدس و عظمت حاصل ہے وہ کسی دوسرے پہاڑ کو حاصل نہیں۔ اس کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے کہ یہ دونوں پہاڑیاں ایک اللہ والی کی ایک مبارک جدوجہد کی یادگار ہیں۔
اسی پر گنبد خضراء اور اولیاء اللہ کے روضوں اور ان حضرات کی عبادت گاہوں اور دوسرے مقدس مقامات کو قیاس کرلینا چاہے کہ یہ سب خاصانِ خدا کی نسبت وتعلق کی وجہ سے معزز و معظم اور قابل تقدس و لائق تعظیم و احترام ہیں اور ان سب جگہوں کی تعظیم و توقیرخداوند قدوس کی خوشنودی کا باعث اور ان سب مقامات کی بے ادبی و تحقیر قہر قہار و غضب جبار کا سبب ہے۔ لہٰذا ان لوگوں کو جو گنبد خضراء اور مقابر اولیاء اللہ کی بے ادبی کرتے اور ان کو منہدم اور مسمار کرنے کا پلان بناتے رہتے ہیں، انہیں ان حقائق کے ستاروں سے ہدایت کی روشنی حاصل کرنی چاہے اور اپنی نحوستوں اور بدبختیوں سے تائب ہو کر صراطِ مستقیم کی راہ پر ثابت قدم ہوجانا چاہے۔ خداوند قدوس اپنے حبیب کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کے طفیل میں سب کو ہدایت کا نور عطا فرمائے اور صراطِ مستقیم کی شاہراہ پر چلائے۔ (آمین)"
حضرت موسیٰ علیہ السلام جب کوہِ طور پر چالیس دن کے لئے تشریف لے گئے تو ''سامری''منافق نے چاندی سونے کے زیورات پگھلا کر ایک بچھڑے کی مورت بنا کر حضرت جبرائیل علیہ السلام کے گھوڑے کے پاؤں تلے کی مٹی اس مورت کے منہ میں ڈال دی تو وہ زندہ ہو کر بولنے لگا۔ پھر سامری نے مجمع عام میں یہ تقریر شروع کردی کہ اے بنی اسرائیل! حضرت موسیٰ (علیہ السلام) خدا سے باتیں کرنے کے لئے کوہِ طور پر تشریف لے گئے ہیں لیکن خدا تو خود ہم
"لوگوں کے پاس آگیا ہے اور بچھڑے کی طرف اشارہ کر کے بولا کہ یہی خدا ہے ''سامری'' نے ایسی گمراہ کن تقریر کی کہ بنی اسرائیل کو بچھڑے کے خدا ہونے کا یقین آگیا اور وہ بچھڑے کو پوجنے لگے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہِ طور سے واپس تشریف لائے تو بنی اسرائیل کو بچھڑا پوجتے دیکھ کر بے حد ناراض ہوئے پھر غضب و جلال میں آکر اس بچھڑے کو توڑ پھوڑ کر برباد کردیا ۔پھر اللہ تعالیٰ کا یہ حکم نازل ہوا کہ جن لوگوں نے بچھڑے کی پرستش نہیں کی ہے وہ لوگ بچھڑا پوجنے والوں کو قتل کریں۔ چنانچہ ستر ہزار بچھڑے کی پوجا کرنے والے قتل ہو گئے ۔اس کے بعد یہ حکم نازل ہوا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ستر آدمیوں کو منتخب کر کے کوہِ طور پر لے جائیں اور یہ سب لوگ بچھڑا پوجنے والوں کی طرف سے معذرت طلب کرتے ہوئے یہ دعا مانگیں کہ بچھڑا پوجنے والوں کے گناہ معاف ہوجائیں، چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے چن چن کر اچھے اچھے ستر آدمیوں کو ساتھ لیا اور کوہِ طور پر تشریف لے گئے۔ جب لوگ کوہِ طور پر طلب معذرت و استغفار کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آواز آئی کہ:۔
''اے بنی اسرائیل!میں ہی ہوں، میرے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں میں نے ہی تم لوگوں کو فرعون کے ظلم سے نجات دے کر تم لوگوں کو بچایا ہے لہٰذا تم لوگ فقط میری ہی عبادت کرو اور میرے سوا کسی کو مت پوجو۔
اللہ تعالیٰ کا یہ کلام سن کر یہ ستر آدمی ایک زبان ہو کر کہنے لگے کہ اے موسیٰ!ہم ہرگزہرگز آپ کی بات نہیں مانیں گے جب تک ہم اللہ تعالیٰ کو اپنے سامنے نہ دیکھ لیں۔ یہ ستر آدمی اپنی ضد پر بالکل اَڑ گئے کہ ہم کو آپ خدا کا دیدار کرایئے ورنہ ہم ہرگز نہیں ما نیں گے کہ خداوند عالم نے یہ فرمایا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان لوگوں کو بہت سمجھایا، مگر یہ شریر و سرکش لوگ اپنے مطالبہ پر اڑے رہ گئے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے غضب و جلال کا اظہار اس طرح فرمایا کہ ایک فرشتہ آیا اور اس نے ایک ایسی خوفناک چیخ ماری کہ خوف و ہراس سے لوگوں کے دل"
پھٹ گئے اور یہ ستر آدمی مر گئے۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خداوند عالم سے کچھ گفتگو کی اور ان لوگوں کے لئے زندہ ہوجانے کی دعا مانگی تو یہ لوگ زندہ ہو گئے۔
" (تفسیر صاوی،ج۱،ص۶۴،۶۵،پ۱،البقرۃ : ۵۵، ۵۶ )"
وَ اِذْ قُلْتُمْ یٰمُوۡسٰی لَنۡ نُّؤْمِنَ لَکَ حَتّٰی نَرَی اللہَ جَہۡرَۃً فَاَخَذَتْکُمُ الصّٰعِقَۃُ وَاَنۡتُمْ تَنۡظُرُوۡنَ ﴿55﴾ثُمَّ بَعَثْنٰکُمۡ مِّنۡۢ بَعْدِ مَوْتِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوۡنَ ﴿56﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔ اور جب تم نے کہا اے موسیٰ ہم ہرگز تمہارا یقین نہ لائیں گے جب تک علانیہ خدا کو نہ دیکھ لیں تو تمہیں کڑک نے آلیا اور تم دیکھ رہے تھے پھر مرے پیچھے ہم نے تمہیں زندہ کیا کہ کہیں تم احسان مانو۔(پ1،البقرۃ:55،56)
درسِ ہدایت:۔(۱)اس واقعہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ اپنے پیغمبر کی بات نہ مان کر اپنی ضد پر اڑے رہنا بڑی ہی خطرناک بات ہے پھر ان ستر آدمیوں کا مر کر زندہ ہوجانا یہ خداوند قدوس کی قدرت کاملہ کا اظہار و اعلان ہے، تاکہ لوگ ایمان رکھیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سب مرے ہوئے انسانوں کو دوبارہ زندہ فرمائے گا۔
(۲) اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کا قانون یہ تھا کہ گناہ ِ شرک کرنے والوں کو قتل کردیا جائے ،پھر قوم کے نیک لوگ ان کے لئے طلب معذرت اور دعاءِ مغفرت کریں، تب ان شرک کرنے والوں کی توبہ قبول ہوتی تھی۔ مگر ہمارے حضور سید الانبیاء خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت چونکہ آسان شریعت ہے اس لئے اس کے قانون میں توبہ قبول ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ گناہ کرنے والے نے اگرچہ کفر و شرک کا گناہ کرلیا ہو سچے دل سے اپنے گناہ پر اللہ تعالیٰ کے حضور شرمندہ ہو کر معافی طلب کرے اور اپنے دل میں یہ عہد و عزم کرے کہ پھر وہ یہ گناہ نہیں کریگا تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرما لے گا اور اس کے گناہ کو معاف فرما دے گا۔ توبہ قبول ہونے کے لئے گناہ کرنے والوں کو قتل نہیں کیا"
"جائے گا۔
سبحان اللہ!یہ حضور رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت کے طفیل ہے کہ وہ اپنی امت پر رؤف و رحیم اور بے حد مہربان ہیں تو ان کے طفیل اللہ تعالیٰ بھی اپنے حبیب کی امت پر بہت زیادہ رحیم و کریم بلکہ ارحم الراحمین ہے ۔"
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّبَارِکْ وَسَلِّمْ
"یہ نمرود اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کا مناظرہ ہے جس کی روئیداد قرآن مجید میں مذکور ہے۔
نمرود کون تھا؟:۔''نمرود''بڑے طنطنے کا بادشاہ تھا سب سے پہلے اس نے اپنے سر پر تاج شاہی رکھا اور خدائی کا دعویٰ کیا۔ یہ ولد الزنا اور حرامی تھا اور اس کی ماں نے زنا کرالیا تھا جس سے نمرود پیدا ہوا تھا کہ سلطنت کا کوئی وارث پیدا نہ ہو گا تو بادشاہت ختم ہوجائے گی۔ لیکن یہ حرامی لڑکا بڑا ہو کر بہت اقبال مند ہوا اور بہت بڑا بادشاہ بن گیا۔ مشہور ہے کہ پوری دنیا کی بادشاہی صرف چار ہی شخصوں کو ملی جن میں سے دو مومن تھے اور دو کافر۔ حضرت سلیمان علیہ السلام اور حضرت ذوالقرنین تو صاحبان ایمان تھے اور نمرودو بخت نصر یہ دونوں کافر تھے۔ نمرود نے اپنی سلطنت بھر میں یہ قانون نافذ کردیا تھا کہ اس نے خوراک کی تمام چیزوں کو اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔ یہ صرف ان ہی لوگوں کو خوراک کا سامان دیا کرتا تھا جو لوگ اس کی خدائی کو تسلیم کرتے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اس کے دربار میں غلہ لینے کے لئے تشریف لے گئے تو اس خبیث نے کہا کہ پہلے تم مجھ کو اپنا خدا تسلیم کرو جبھی میں تم کو غلہ دوں گا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھرے دربار میں علی الاعلان فرما دیا کہ تو جھوٹا ہے اور میں صرف ایک خدا کا پرستار ہوں جو"
وحدہ لاشریک لہ
ہے یہ سن کر نمرود آپے سے باہر ہو گیا
اور آپ کو دربار سے نکال دیا اور ایک دانہ بھی نہیں دیا۔ آپ اور آپ کے چند متبعین جو مومن تھے بھوک کی شدت سے پریشان ہو کر جاں بلب ہو گئے۔ اس وقت آپ ایک تھیلا لے کر ایک ٹیلے کے پاس تشریف لے گئے اور تھیلے میں ریت بھر کر لائے اور خداوند قدوس سے دعا مانگی تو وہ ریت آٹا بن گئی اور آپ نے اس کو اپنے متبعین کو کھلایا اور خود بھی کھایا۔ پھر نمرود کی دشمنی اس حد تک بڑھ گئی کہ اس نے آپ کو آگ میں ڈلوا دیا۔ مگر وہ آگ آپ پر گلزار بن گئی اور آپ سلامتی کے ساتھ اس آگ سے باہر نکل آئے اور علی الاعلان نمرود کو جھوٹا کہہ کر خدائے
وحدہ لاشریک لہ
کی توحید کا چرچا کرنے لگے۔ نمرود نے آپ کے کلمہ حق سے تنگ آ کر ایک دن آپ کو اپنے دربار میں بلایا اور حسب ذیل مکالمہ بہ صورت مناظرہ شروع کردیا۔
" (تفسیر صاوی،ج۱،ص۲۱۹،۲۲۰،پ۳، البقرۃ، : ۲۵۸)"
"نمرود:اے ابراہیم! بتاؤ تمہارا رب کون ہے جس کی عبادت کی تم لوگوں کو دعوت دے رہے ہو؟
حضرت ابراہیم:اے نمرود! میرا رب وہی ہے جو لوگوں کو جلاتا اور مارتا ہے۔
نمرود: یہ تو میں بھی کرسکتا ہوں چنانچہ اس وقت اس نے دو قیدیوں کو جیل خانہ سے دربار میں بلوایا ایک کو موت کی سزا ہوچکی تھی اور دوسرا رِہا ہوچکا تھا۔ نمرود نے پھانسی پانے والے کو تو چھوڑ دیا اور بے قصور کو پھانسی دے دی اور بولا کہ دیکھ لو کہ جو مردہ تھا میں نے اس کو جِلادیا اور جو زندہ تھا میں نے اس کو مردہ کردیا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سمجھ لیا کہ نمرود بالکل ہی احمق اور نہایت ہی گھامڑ آدمی ہے جو ''جِلانے اور مارنے'' کا یہ مطلب سمجھ بیٹھا ،اس لئے آپ نے اس کے سامنے ایک دوسری بہت ہی واضح اور روشن دلیل پیش فرمائی۔ چنانچہ آپ نے ارشاد فرمایا:
حضرت ابراہیم:اے نمرود! میرا رب وہی ہے جو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے اگر تو"
"خدا ہے تو ایک دن سورج کو مغرب سے نکال دے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ دلیل سن کر نمرود مبہوت و حیران رہ گیا اور کچھ بھی نہ بول سکا۔ اس طرح یہ مناظرہ ختم ہو گیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اس مناظرہ میں فتح مند ہو کر دربار سے باہر تشریف لائے اور توحید ِ الٰہی کا وعظ علی الاعلان فرمانا شروع کردیا۔ قرآن مجید نے اس مناظرہ کی روئیداد ان لفظوں میں بیان فرمائی کہ:۔"
اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیۡ حَآجَّ اِبْرٰہٖمَ فِیۡ رَبِّہٖۤ اَنْ اٰتٰىہُ اللہُ الْمُلْکَ ۘ اِذْ قَالَ اِبْرٰہٖمُ رَبِّیَ الَّذِیۡ یُحْیٖ وَیُمِیۡتُ ۙ قَالَ اَنَا اُحْیٖ وَاُمِیۡتُ ؕ قَالَ اِبْرٰہٖمُ فَاِنَّ اللہَ یَاۡتِیۡ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاۡتِ بِہَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُہِتَ الَّذِیۡ کَفَرَ ؕ وَاللہُ لَا یَہۡدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿258﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔اے محبوب کیا تم نے نہ دیکھا تھا اسے جو ابراہیم سے جھگڑا اس کے رب کے بارے میں اس پر کہ اللہ نے اسے بادشاہی دی جب کہ ابراہیم نے کہا کہ میرا رب وہ ہے کہ جلاتا اور مارتا ہے بولا میں جلاتا اورمارتا ہوں ابراہیم نے فرمایا تو اللہ سورج کو لاتا ہے پورب سے تو اس کو پچھم سے لے آ تو ہوش اُڑ گئے کافر کے اور اللہ راہ نہیں دکھاتا ظالموں کو۔ (پ3،البقرۃ:258)
درسِ ہدایت:۔اس واقعہ سے چند اسباق کی روشنی ملتی ہے کہ:
(۱)حضرت ابراہیم علیہ السلام خداوند تعالیٰ کی توحید کے اعلان پر پہاڑ کی طرح قائم رہے نہ نمرودکی بے شمار فوجوں سے خائف ہوئے، نہ اس کے ظلم و جبر سے مرعوب ہوئے بلکہ جب اس ظالم نے آپ کو آگ کے شعلوں میں ڈلوادیا اس وقت بھی آپ کے پائے عزم و استقلال میں بال برابر لغزش نہیں ہوئی اور آپ برابر نعرہ توحید بلند کرتے رہے پھر اس بے رحم نے آپ پر دانہ پانی بند کردیا۔ اس پر بھی آپ کے عزم و استقامت میں ذرہ برابر فرق نہیں آیا۔ پھر اس نے آپ کو مناظرہ کا چیلنج دیا اور دربارِ شاہی میں طلب کیا تاکہ شاہی رعب و داب دکھا کر آپ"
علیہ السلام کو مرعوب کردے لیکن آپ نے بالکل بے خوف ہو کر مناظرہ کا چیلنج قبول فرمالیا اور دربارِ شاہی میں پہنچ کر ایسی مضبوط اور دندان شکن دلیل پیش فرمائی کہ نمرود کے ہوش اڑ گئے اور وہ ہکا بکا ہو کر لاجواب اور خاموش ہو گیا اور بھرے دربار میں اس کلمہ حق کی تجلی ہو گئی کہ
جَآءَ الْحَقُّ وَ زَہَقَ الْبَاطِلُ ؕ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَہُوۡقًا
"ترجمہ کنزالایمان:حق آیا اور باطل مٹ گیا بے شک باطل کو مٹناہی تھا۔(پ15، بنی اسرائیل:81)
بالآخر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی صداقت و حقانیت کا پرچم سربلند ہو گیا اور نمرود ایک مچھر جیسی حقیر مخلوق سے ہلاک کردیا گیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اُسوہ حسنہ سے علماء حق کو سبق لینا چاہے کہ باطل پرستوں کے مقابلہ میں ہر قسم کے خوف و ہراس اور تکالیف سے بے نیاز ہو کر آخری دم تک ڈٹے رہنا چاہے اور یہ ایمان و یقین رکھنا چاہے کہ ضرور ضرور نصرتِ خداوندی ہماری امداد و دستگیری فرمائے گی اور بالآخر باطل پرستوں کے مقابلہ میں ہم ہی فتح مند ہوں گے اور باطل پرست یقینا خائب و خاسر ہو کر ہلاک و برباد ہوجائیں گے۔
(۲)یہ ایمان و عقیدہ مضبوطی کے ساتھ رکھنا چاہے کہ اللہ تعالیٰ ہم حق پرستوں کو غیب سے روزی کا سامان دے گا کیونکہ ظالم نمرود نے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو غلہ دینا بند کردیا اور ملک بھر میں ان کو کہیں ایک دانہ بھی نہیں ملا تو اللہ تعالیٰ نے ریت اور مٹی کو ان کے لئے آٹا بنادیا اور اسلام کے اس عقیدہ کی حقانیت کا سورج چمک اٹھا کہ"
اِنَّ اللہَ ہُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّۃِ الْمَتِیۡنُ ﴿58﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔ بے شک اللہ ہی بڑا رزق دینے والا قوت والا قدرت والا ہے۔(پ27،الذاریات:58)
بہرحال حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ طرزفکر و عمل اور آپ کا یہ اُسوہ تمام حق پرست عالموں کے لئے چراغ راہ ہے اور حقیقت یہ ہے کہ آپ کے اُسوہ حسنہ پر عمل کرنے والے ضرور ضرور کامیابی سے ہمکنار ہوں گے یہ وہ تابندہ حقیقت ہے جو آفتاب عالم تاب سے بھی"
زیادہ تابناک اور روشن ہے۔ سبحان اللہ! کس قدر حقیقت افروز ہے یہ شعر کہ
" آج بھی ہو جو ابراہیم کا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا"
" حضرت آدم اور حضرت حواء علیہما السلام نہایت ہی آرام اور چین کے ساتھ جنت میں رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا تھا کہ جنت کا جو پھل بھی چاہو بے روک ٹوک سیر ہو کر تم دونوں کھا سکتے ہو۔ مگر صرف ایک درخت کا پھل کھانے کی ممانعت تھی کہ اس کے قریب مت جانا۔ وہ درخت گیہوں تھا یا انگور وغیرہ تھا۔ چنانچہ دونوں اس درخت سے مدت دراز تک بچتے رہے۔ لیکن ان دونوں کا دشمن ابلیس برابر تاک میں لگا رہا۔ آخر اس نے ایک دن اپنا وسوسہ ڈال ہی دیا اور قسم کھا کر کہنے لگا کہ میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں اور اللہ تعالیٰ نے جس درخت سے تم دونوں کو منع کردیا ہے وہ ''شجرۃ الخلد ''ہے یعنی جو اس درخت کا پھل کھائے گا، وہ کبھی جنت سے نہیں نکالا جائے گا۔ پہلے حضرت حوا علیہا السلام اس شیطانی وسوسہ کا شکار ہو گئیں اور انہوں نے حضرت آدم علیہ السلام کو بھی اس پر راضی کرلیا اور وہ ناگہاں غیر ارادی طور پر اس درخت کا پھل کھا گئے۔
آپ نے اپنے اجتہاد سے یہ سمجھ لیا کہ"
لَاتَقْرَبَا ھٰذِہِ الشَّجَرَۃَ
(پ۱،البقرۃ:۳۵) کی نہی تنزیہی ہے اور واقعی ہرگز ہرگز نہی تحریمی نہیں تھی۔ ورنہ حضرت آدم علیہ السلام نبی ہوتے ہوئے ہرگز ہرگز اس درخت کا پھل نہ کھاتے کیونکہ نبی تو ہر گناہ سے معصوم ہوتا ہے بہرحال حضرت آدم علیہ السلام سے اس سلسلے میں اجتہادی خطا سرزد ہو گئی اور اجتہادی خطا معصیت نہیں ہوتی۔
(تفسیر خزائن العرفان، ص ۱۰۹۴،پ۱،البقرۃ:۳۶)
لیکن حضرت آدم علیہ السلام چونکہ دربارِ الٰہی میں بہت مقرب اور بڑے بڑے درجات پر
فائز تھے اس لئے اس اجتہادی خطا پر بھی مورد ِ عتاب ہو گئے۔ فوراً ہی بہشتی لباس دونوں کے بدن سے گر پڑے اور یہ دونوں جنت کے پتوں سے اپنا ستر چھپانے لگے، اور خداوند قدوس کا حکم ہو گیاکہ تم دونوں جنت سے زمین پر اتر پڑو۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے دو خاص باتیں ارشاد فرمائیں۔ ایک تو یہ کہ تمہاری اولاد میں بعض، بعض کا دشمن ہو گا کہ ہمیشہ آپس میں انسانوں کی دشمنی چلتی رہے گی۔ دوسری یہ کہ عمر بھر تم دونوں کو زمین میں ٹھہرنا ہے پھر اس کے بعد ہماری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں اس واقعہ کو بیان فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ:
فَاَزَلَّہُمَا الشَّیۡطٰنُ عَنْہَا فَاَخْرَجَہُمَا مِمَّا کَانَا فِیۡہِ ۪ وَقُلْنَا اہۡبِطُوۡا بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۚ وَلَکُمْ فِی الۡاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰی حِیۡنٍ ﴿36﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔تو شیطان نے جنت سے انہیں لغزش دی اور جہاں رہتے تھے وہاں سے انہیں الگ کردیا اور ہم نے فرمایا نیچے اترو آپس میں ایک تمہارا دوسرے کا دشمن اور تمہیں ایک وقت تک زمین میں ٹھہرنا اور برتنا ہے۔(پ1،البقرۃ:36)
اس ارشاد ربانی سے یہ سبق ملتا ہے کہ یہ جو انسانوں میں مختلف وجوہات کی بناء پر عداوتیں اور دشمنیاں چل رہی ہیں یہ کبھی ختم ہونے والی نہیں۔ لاکھ کوشش کرو کہ دنیا میں لوگوں کے درمیان عداوت اور دشمنی کا خاتمہ ہوجائے مگر چونکہ یہ حکم خداوندی کے باعث ہے اس لئے یہ عداوتیں کبھی ہرگز ختم نہ ہوں گی۔ کبھی ایک ملک دوسرے ملک کا دشمن ہو گا، کبھی مزدور اور سرمایہ دار میں دشمنی رہے گی، کبھی امیر و غریب کی عداوت زور پکڑے گی، کبھی مذہبی و لسانی دشمنی رنگ لائے گی، کبھی تہذیب و تمدن کے باہمی ٹکراؤ کی دشمنی ابھرے گی، کبھی ایمان داروں اور بے ایمانوں کی عداوت رنگ دکھائے گی۔
الغرض دنیا میں انسانوں کی آپس میں عداوت و دشمنی کا بازار ہمیشہ گرم ہی رہے گا اس لئے"
"لوگوں کو اس سے رنجیدہ اور کبیدہ خاطر ہونے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے اور نہ اس عداوت اور دشمنی کو ختم کرنے کی تدبیروں پر غوروخوض کر کے پریشان ہونے سے کوئی فائدہ ہے۔
کیونکہ جس طرح اندھیرے اور اجالے کی دشمنی، آگ اور پانی کی دشمنی، گرمی اور سردی کی دشمنی کبھی ختم نہیں ہوسکتی، ٹھیک اسی طرح انسانوں میں آپس کی دشمنی کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ اللہ عزوجل نے حضرت آدم و حوا علیہما السلام کے زمین پر آنے سے پہلے ہی یہ فرما دیا کہ"
بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ
یعنی ایک انسان دوسرے انسان کا دشمن ہو گا تو یہ عداوت و دشمنی خلقی اور فطری ہے جو حکم ِ الٰہی اور اس کی مشیت سے ہے تو پھر بھلا کون ہے جو اس عداوت کا دنیا سے خاتمہ کراسکتا ہے
واللہ تعالیٰ اعلم۔
حضرت آدم علیہ السلام نے جنت سے زمین پر آنے کے بعد تین سو برس تک ندامت کی وجہ سے سر اٹھا کر آسمان کی طرف نہیں دیکھا اور روتے ہی رہے روایت ہے کہ اگر تمام انسانوں کے آنسو جمع کئے جائیں تو اتنے نہیں ہوں گے جتنے آنسو حضرت داؤد علیہ السلام کے خوف ِ الٰہی سے زمین پر گرے اور اگر تمام انسانوں اور حضرت داؤد علیہ السلام کے آنسوؤں کو جمع کیا جائے تو حضرت آدم علیہ السلام کے آنسو ان سب لوگوں سے زیادہ ہوں گے۔
(تفسیر صاوی،ج۱،ص۵۵،پ۱،البقرۃ: ۳۷)
بعض روایات میں ہے کہ آپ نے یہ پڑھ کر دعا مانگی کہ
"سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالٰی جَدُّکَ
لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْلِی اِنَّہٗ لَایَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلاَّ اَنْتَ۔"
یعنی اے اللہ! میں تیری حمد کے ساتھ تیری پاکی بیان کرتا ہوں۔ تیرا نام برکت والا ہے اور تیری بزرگی بہت ہی بلند مرتبہ ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ میں نے اپنی جان پر ظلم کیا
ہے تو مجھے بخش دے کیونکہ تیرے سوا کوئی نہیں جو گناہوں کو بخش دے۔
" (تفسیر جمل علی الجلالین، ج۱،ص۶۳،پ۱، البقرۃ:۳۷)"
اور ایک روایت میں ہے کہ آپ نے
قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنۡفُسَنَا ٜ وَ اِنۡ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیۡنَ ﴿23﴾
یعنی اے ہمارے پروردگار! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کرلیا اور اگر تو ہمیں رحم فرما کر نہ بخشے گا تو ہم گھاٹا اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔
" (تفسیر جلالین، ص۱۳۱،پ۸، الاعراف:۲۳)"
لیکن حاکم و طبرانی و ابو نعیم و بیہقی نے حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کی ہے کہ جب حضرت آدم علیہ السلام پر عتاب ِ الٰہی ہوا تو آپ توبہ کی فکر میں حیران تھے۔ ناگہاں اس پریشانی کی عالم میں یاد آیا کہ وقت پیدائش میں نے سراٹھا کر دیکھا تھا کہ عرش پر لکھا ہوا ہے
لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ ِ
اسی وقت میں نے سمجھ لیا تھا کہ بارگاہِ الٰہی میں وہ مرتبہ کسی کو میسر نہیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا نام اپنے نام اقدس کے ساتھ ملا کر عرش پر تحریر فرمایا ہے۔ لہٰذا آپ نے اپنی دعا میں
رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا
کے ساتھ یہ عرض کیا کہ
اسئلک بحق محمد ان تغفرلی
اور ابن منذر کی روایت میں یہ کلمات بھی ہیں کہ
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ بِجَاہِ مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَکَرَامَتِہِ عَلَیْکَ اَنْ تَغْفِرَلِیْ خَطِیْئَتِی
یعنی اے اللہ! تیرے بندہ خاص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جاہ و مرتبہ کے طفیل میں اور ان کی بزرگی کے صدقے میں جو انہیں تیرے دربار میں حاصل ہے میں تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ تو میرے گناہ کو بخش دے۔ یہ دعا کرتے ہی حق تعالیٰ نے ان کی مغفرت فرما دی اور توبہ مقبول ہوئی۔
(تفسیر خزائن العرفان، ص ۱۰۹۴، ۱۰۹۵،پ۱، البقرۃ:۳۷)
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ:
فَتَلَقّٰۤی اٰدَمُ مِنۡ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیۡہِ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ ﴿37﴾ (پ1،البقرۃ:37)
"ترجمہ کنزالایمان:۔پھر سیکھ لئے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ
قبول کی بیشک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔
درسِ ہدایت:۔اس واقعہ سے چند اسباق پر روشنی پڑتی ہے جو یہ ہیں:
(۱)اس سے معلوم ہوا کہ مقبولانِ بارگاہِ الٰہی کے وسیلہ سے بحق فلاں و بجاہ فلاں کہہ کر دعا مانگنی جائز اور حضرت آدم علیہ السلام کی سنت ہے۔
(۲)حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ دسویں محرم کو قبول ہوئی جنت سے نکلتے وقت دوسری نعمتوں کے ساتھ عربی زبان بھی آپ سے بھلا دی گئی تھی اور بجائے اس کے سریانی زبان آپ کی زبان پر جاری کردی گئی تھی۔ مگر توبہ قبول ہونے کے بعد پھرعربی زبان بھی آپ کو عطا کردی گئی۔"
(تفسیر خزائن العرفان، ص ۱۰۹۵،پ۱، البقرۃ: ۳۷)
(۳)چونکہ حضرت آدم علیہ السلام کی خطا اجتہادی تھی اور اجتہادی خطا معصیت نہیں ہے اس لیے جو شخص حضرت آدم علیہ السلام کو عاصی یا ظالم کہے گا وہ نبی کی توہین کے سبب سے کافر ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ مالک و مولیٰ ہے وہ اپنے بندہ خاص حضرت آدم علیہ السلام کو جو چاہے فرمائے اس میں ان کی عزت ہے دوسرے کی کیا مجال کہ خلافِ ادب کوئی لفظ زبان پر لائے اور قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے فرمائے ہوئے کلمات کو دلیل بنائے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں انبیائے کرام علیہم السلام کی تعظیم و توقیر اور ان کے ادب و اطاعت کا حکم فرمایا ہے لہٰذا ہم پر یہی لازم ہے کہ ہم حضرت آدم علیہ السلام اور دوسرے تمام انبیاء کرام کا ادب و احترام لازم جانیں اور ہرگزہرگز ان حضرات کی شان میں کوئی ایسا لفظ نہ بولیں جس میں ادب کی کمی کا کوئی شائبہ بھی ہو۔
واللہ تعالیٰ اعلم۔
"حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارہ''حواری''جو آپ پر ایمان لا کر اور اپنے اپنے اسلام کا اعلان کر کے اپنے تن من دھن سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نصرت و حمایت کے لئے ہر وقت اور ہر دم کمربستہ رہے، یہ کون لوگ تھے؟ اور ان لوگوں کو ''حواری'' کا لقب کیوں اور کس معنی کے لحاظ سے دیا گیا؟
تو اس بارے میں صاحب تفسیر جمل نے فرمایا کہ ''حواری''کا لفظ ''حور'' سے مشتق ہے جس کے معنی سفیدی کے ہیں چونکہ ان لوگوں کے کپڑے نہایت سفید اور صاف تھے اور ان کے قلوب اور نیتیں بھی صفائی ستھرائی میں بہت بلند مقام رکھتی تھیں اس بناء پر ان لوگوں کو ''حواری'' کہنے لگے اور بعض مفسرین کا قول ہے کہ چونکہ یہ لوگ رزق حلال طلب کرنے کے لئے دھوبی کا پیشہ اختیار کر کے کپڑوں کی دھلائی کرتے تھے اس لئے یہ لوگ ''حواری'' کہلائے اور ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ سب لوگ شاہی خاندان سے تھے اور بہت ہی صاف اور سفید کپڑے پہنتے تھے اس لئے لوگ ان کو حواری کہنے لگے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس ایک پیالہ تھا جس میں آپ کھانا کھایا کرتے تھے اور وہ پیالہ کبھی کھانے سے خالی نہیں ہوتا تھا۔ کسی نے بادشاہ کو اس کی اطلاع دے دی تو اس نے آپ کو دربار میں طلب کر کے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ تو آپ نے فرمایا کہ میں عیسیٰ بن مریم خدا کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ وہ بادشاہ آپ کی ذات اور آپ کے معجزات سے متاثر ہو کر آپ پر ایمان لایا اور سلطنت کا تخت و تاج چھوڑ کر اپنے تمام اقارب کے ساتھ آپ کی خدمت میں رہنے لگا۔ چونکہ یہ شاہی خاندان بہت ہی سفید پوش تھا۔ اس لئے یہ سب ''حواری''کے لقب سے مشہور ہو گئے اور ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ سفید پوش مچھیروں کی ایک جماعت تھی جو مچھلیوں کا شکار کیا کرتے تھے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان لوگوں کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا کہ تم لوگ مچھلیوں کا شکار کرتے ہو اگر تم لوگ میری"
"پیروی کرنے پر کمربستہ ہوجاؤ تو تم لوگ آدمیوں کا شکار کر کے ان کو حیات جاودانی سے سرفراز کرنے لگو گے۔ ان لوگوں نے آپ سے معجزہ طلب کیا تو اس وقت ''شمعون''نامی مچھلی کے شکاری نے دریا میں جال ڈال رکھا تھا مگر ساری رات گزر جانے کے باوجود ایک مچھلی بھی جال میں نہیں آئی تو آپ نے فرمایا کہ اب تم جال دریا میں ڈالو۔ چنانچہ جیسے ہی اس نے جال کو دریا میں ڈالا لمحہ بھر میں اتنی مچھلیاں جال میں پھنس گئیں کہ جال کو کشتی والے نہیں اٹھا سکے۔ چنانچہ دو کشتیوں کی مدد سے جال اٹھایا گیا اور دونوں کشتیاں مچھلیوں سے بھر گئیں۔ یہ معجزہ دیکھ کر دونوں کشتی والے جن کی تعداد بارہ تھی سب کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئے۔ ان ہی لوگوں کا لقب ''حواری'' ہے۔
اور بعض علماء کا قول ہے کہ بارہ آدمی حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے اور ان لوگوں کے ایمان کامل اور حسن نیت کی بناء پر ان لوگوں کو یہ کرامت مل گئی کہ جب بھی ان لوگوں کو بھوک لگتی تو یہ لوگ کہتے کہ یا روح اللہ! ہم کو بھوک لگی ہے، تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام زمین پر ہاتھ ماردیتے تو زمین سے دو روٹیاں نکل کر ان لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچ جایا کرتی تھیں اورجب یہ لوگ پیاس سے فریاد کیا کرتے تھے تو حضرت عیسٰی علیہ السلام زمین پر ہاتھ مار دیا کرتے اور نہایت شیریں اور ٹھنڈا پانی ان لوگوں کو مل جایا کرتا تھا اسی طرح یہ لوگ کھاتے پیتے تھے۔ ایک دن ان لوگوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پوچھا کہ اے روح اللہ ! ہم مومنوں میں سب سے افضل کون ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ جو اپنے ہاتھ کی کمائی سے روزی حاصل کرکے دکھائے۔ یہ سن کر ان بارہ حضرات نے رزقِ حلال کے لئے دھوبی کا پیشہ اختیار کرلیا چونکہ یہ لوگ کپڑوں کو دھو کر سفید کرتے تھے اس لئے ''حواری''کے لقب سے پکارے جانے لگے۔
اور ایک قول یہ بھی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ان کی والدہ نے ایک رنگریز کے ہاں"
"ملازم رکھوا دیا تھا۔ ایک دن رنگریز مختلف کپڑوں کو نشان لگا کر چند رنگوں کو رنگنے کے لئے آپ کے سپرد کر کے کہیں باہر چلا گیا۔ آپ نے ان سب کپڑوں کو ایک ہی رنگ کے برتن میں ڈال دیا۔ رنگریز نے گھبرا کر کہا کہ آپ نے سب کپڑوں کو ایک ہی رنگ کا کردیا۔ حالانکہ میں نے نشان لگا کر مختلف رنگوں کا رنگنے کے لئے کہہ دیا تھا ۔آپ نے فرمایا کہ اے کپڑو!تم اللہ تعالیٰ کے حکم سے انہی رنگوں کے ہوجاؤ، جن رنگوں کا یہ چاہتا تھا۔ چنانچہ ایک ہی برتن میں سے لال، سبز، پیلا، جن جن کپڑوں کو رنگریز جس جس رنگ کا چاہتا تھا وہ کپڑا اسی رنگ کا ہو کر نکلنے لگا۔ آپ کا یہ معجزہ دیکھ کر تمام حاضرین جو سفید پوش تھے اور جن کی تعداد بارہ تھی، سب ایمان لائے یہی لوگ ''حواری''کہلانے لگے۔
حضرت امام قفال علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ ممکن ہے کہ ان بارہ حواریوں میں کچھ لوگ بادشاہ ہوں اور کچھ مچھیرے ہوں اور کچھ دھوبی ہوں اور کچھ رنگریز ہوں۔ چونکہ یہ سب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مخلص جاں نثار تھے اور ان لوگوں کے قلوب اور نیتیں صاف تھیں اس بناء پر ان بارہ پاکبازوں اور نیک نفسوں کو ''حواری'' کا لقب معزز عطا کیا گیا۔ کیونکہ ''حواری''کے معنی مخلص دوست کے ہیں۔"
(تفسیر جمل علی الجلالین، ج۱، ص ۲۴۔۴۲۳،پ۳، آل عمران:۵۲)
بہرحال قرآن مجید میں حواریوں کا ذکر فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ:
فَلَمَّاۤ اَحَسَّ عِیۡسٰی مِنْہُمُ الْکُفْرَ قَالَ مَنْ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللہِ ؕ قَالَ الْحَوَارِیُّوۡنَ نَحْنُ اَنۡصَارُ اللہِ ۚ اٰمَنَّا بِاللہِ ۚ وَاشْہَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوۡنَ ﴿52﴾ (پ3،آل عمران:52)
ترجمہ کنزالایمان:۔ پھر جب عیسیٰ نے ان سے کفر پایا بولا کون میرے مددگار ہوتے ہیں اللہ کی طرف حواریوں نے کہا ہم دین خدا کے مددگار ہیں ہم اللہ پر ایمان لائے اور آپ گواہ ہوجائیں کہ ہم مسلمان ہیں۔
دوسری جگہ قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ:
وَ اِذْ اَوْحَیۡتُ اِلَی الْحَوَارِیّٖنَ اَنْ اٰمِنُوۡا بِیۡ وَ بِرَسُوۡلِیۡ ۚ قَالُوۡۤا اٰمَنَّا وَاشْہَدْ بِاَنَّنَا مُسْلِمُوۡنَ ﴿111﴾ (پ7،المائدۃ:111)
"ترجمہ کنزالایمان:۔اور جب میں نے حواریوں کے دل میں ڈالا کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاؤ بولے ہم ایمان لائے اور گواہ رہ کہ ہم مسلمان ہیں۔
درسِ ہدایت:۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواری اگرچہ تعداد میں صرف بارہ تھے مگر یہودیوں کے مقابلہ میں آپ کی نصرت و حمایت میں جس پامردی اور عزم و استقلال کے ساتھ ڈٹے رہے اس سے ہر مسلمان کو دین کے معاملہ میں ثابت قدمی کا سبق ملتا ہے۔
اس قسم کے مخلص احباب اور مخصوص جاں نثار اصحاب اللہ تعالیٰ ہر نبی کو عطا فرماتا ہے۔ چنانچہ جنگ خندق کے دن حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ہر نبی کے ''حواری'' ہوئے ہیں اور میرے حواری ''زبیر'' ہیں۔"
(مشکوٰۃالمصابیح،کتاب الفتن،باب مناقب العشرۃرضی اللہ عنہم،الفصل الاول،ص۵۶۵)
"اور حضرت قتادہ کا بیان ہے کہ قریش میں بارہ صحابہ کرام حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ''حواری'' ہیں جن کے نام نامی یہ ہیں۔
(۱)حضرت ابوبکر (۲)حضرت عمر (۳)حضرت عثمان (۴)حضرت علی (۵)حضرت حمزہ (۶)حضرت جعفر (۷) حضرت ابوعبیدہ بن الجراح (۸)حضرت عثمان بن مظعون (۹)حضرت عبدالرحمن بن عوف (۱۰)حضرت سعد بن ابی وقاص (۱۱)حضرت طلحہ بن عبیداللہ (۱۲)حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔ کہ ان مخلص جاں نثاروں نے ہر موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت و حمایت کا بے مثال ریکارڈ قائم کردیا۔"
(تفسیر معالم التنزیل للبغوی،ج۱، ص ۲۳۶،پ۳، آل عمران:۵۲)
"حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں چند آدمی اور وفات اقدس کے بعد بہت لوگ مرتد ہونے والے تھے جن سے اسلام کی بقا کو شدید خطرہ لاحق ہونے والا تھا۔ لیکن قرآن مجید نے برسوں پہلے یہ غیب کی خبر دی اور یہ پیش گوئی فرما دی کہ اس بھیانک اور خطرناک وقت پر اللہ تعالیٰ ایک ایسی قوم کو پیدا فرمائے گا جو اسلام کی محافظت کرے گی اور وہ ایسی چھ صفتوں کی جامع ہو گی جو تمام دنیوی و اخروی فضائل و کمالات کا سرچشمہ ہیں اور یہی چھ صفات ان محافظین اسلام کی علامات اور ان کی پہچان کا نشان ہوں گی اور وہ چھ صفات یہ ہیں:
(۱)وہ اللہ تعالیٰ کے محبوب ہوں گے (۲)وہ اللہ تعالیٰ سے محبت کریں گے
(۳) وہ مومنین پر بہت مہربان ہوں گے (۴) وہ کافروں کے لئے بہت سخت ہوں گے (۵)وہ خدا کی راہ میں جہاد کریں گے (۶)وہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خائف نہیں ہوں گے۔
صاحب تفسیر جمل نے کشاف کے حوالہ سے تحریر فرمایا ہے کہ عرب کے گیارہ قبیلے اسلام قبول کرلینے کے بعد آگے پیچھے اسلام سے منحرف ہو کر مرتد ہو گئے۔ تین قبائل توحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی موجودگی میں اور سات قبیلے حضرت امیرالمومنین ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں اور ایک قبیلہ حضرت امیرالمومنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے خلیفہ ہونے کے بعد۔ مگر یہ گیارہ قبائل اپنی انتہائی کوششوں کے باوجود اسلام کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے۔ بلکہ مجاہدین اسلام کے سرفروشانہ جہادوں کی بدولت یہ سب مرتدین تہس نہس ہو کر فنا کے گھاٹ اتر گئے اور پرچم اسلام برابر بلند سے بلند تر ہوتا ہی چلا گیا۔ اور قرآن مجید کا وعدہ اور غیب کی خبر بالکل سچ اور صحیح ثابت ہو کر رہی۔
زمانہ رسالت کے تین مرتدین:۔(۱)قبیلہ بنی مدلج جس کا رئیس ''اسودعنسی''"
"تھا جو ''ذوالحمار'' کے لقب سے مشہور تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل اور یمن کے سرداروں کو فرمان بھیجا کہ مرتدین سے جہاد کریں۔ چنانچہ فیروز دیلمی کے ہاتھ سے اسود عنسی قتل ہوا اور اس کی جماعت بکھر گئی اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بستر علالت پر یہ خوشخبری سنائی گئی کہ اسود عنسی قتل ہو گیا ہے۔ اس کے دوسرے دن ہی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا وصال ہو گیا۔
(۲)قبیلہ بنو حنیفہ جس کا سردار ''مسیلمہ کذاب'' تھا۔ جس سے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جہاد فرمایا اور لڑائی کے بعد حضرت وحشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ سے مسیلمۃ الکذاب مقتول ہوا اور اس کا گروہ کچھ قتل ہو گیا اور کچھ دوبارہ دامنِ اسلام میں آگئے۔
(۳)قبیلہ بنو اسد، جس کا امیر طلحہ بن خویلد تھا۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مقابلہ کے لئے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھیجا اور جنگ کے بعد طلحہ بن خویلد شکست کھا کر ملک شام بھاگ گیا مگر پھر دوبارہ اسلام قبول کرلیا اور آخری دم تک اسلام پر ثابت قدم رہا اور اس کی فوج کچھ کٹ گئی کچھ تائب ہو کر پھر دوبارہ مسلمان ہو گئے۔"
(۱)قبیلہ فزارہ جس کا سردار عیینہ بن حصن فزاری تھا (۲)قبیلہ غطفان جس کا سردار قرہ بن سلمہ قشیری تھا(۳)قبیلہ بنو سلیم جس کا سرغنہ فجاء ۃ بن یالیل تھا (۴)قبیلہ بنی یربوع جس کا سربراہ مالک بن بریدہ تھا (۵)قبیلہ بنو تمیم جن کی امیر سجاح بنت منذر ایک عورت تھی جس نے مسیلمۃالکذاب سے شادی کرلی تھی(۶)قبیلہ کندہ جو اشعث بن قیس کے پیروکار تھے (۷)قبیلہ بنو بکر جو خطمی بن یزید کے تابعدار تھے۔ امیرالمؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان مرتد ہونے والے ساتوں قبیلوں سے مہینوں تک بڑی خونریز جنگ فرمائی۔ چنانچہ کچھ ان میں سے مقتول ہو گئے اور کچھ توبہ کر کے پھر دامنِ اسلام میں آگئے۔
"دورِ فاروقی کا مرتد قبیلہ:۔امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت میں صرف ایک ہی قبیلہ مرتد ہوا اور یہ قبیلہ غسان تھا۔ جس کی سرداری جبلہ بن ایہم کررہا تھا۔ مگر حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پرچم کے نیچے صحابہ کرام نے جہاد کر کے اس گروہ کا قلع قمع کردیا اور پھر اس کے بعد کوئی قبیلہ بھی مرتد ہونے کے لئے سر نہیں اٹھا سکا۔
اس طرح مرتد ہونے والے ان گیارہ قبیلوں کا سارا فتنہ و فساد مجاہدین ِ اسلام کے جہادوں کی بدولت ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا۔"
" (تفسیر جمل علی الجلالین،ج۲، ص ۲۳۹،پ۶، المائدۃ:۵۴)"
ان مرتدین سے لڑنے والے اور ان شریروں کا قلع قمع کرنے والے صحابہ کرام تھے۔ جن کے بارے میں برسوں پہلے قرآنِ مجید نے غیب کی خبر دیتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَنۡ یَّرْتَدَّ مِنۡکُمْ عَنۡ دِیۡنِہٖ فَسَوْفَ یَاۡتِی اللہُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّہُمْ وَیُحِبُّوۡنَہٗۤ ۙ اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیۡنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیۡنَ ۫ یُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ وَلَا یَخَافُوۡنَ لَوْمَۃَ لَآئِمٍ ؕ ذٰلِکَ فَضْلُ اللہِ یُؤْتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ ﴿54﴾ (پ6،المائدہ:54)
"ترجمہ کنزالایمان:۔اے ایمان والو تم میں جو کوئی اپنے دین سے پھرے گا تو عنقریب اللہ ایسے لوگ لائے گا کہ وہ اللہ کے پیارے اور اللہ ان کا پیارا مسلمانوں پر نرم اور کافروں پر سخت اللہ کی راہ میں لڑیں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا اندیشہ نہ کریں گے یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے۔
درسِ ہدایت:۔ان آیات سے حسب ِ ذیل انوار ہدایت کی تجلیاں نمودار ہوتی ہیں۔
مرتدین کے فتنوں اور شورشوں سے اسلام کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ"
"مرتدوں کے مقابلہ کے لئے ہر دور میں ایک ایسی جماعت کو پیدا فرما دے گا جو تمام مرتدین کی فتنہ پردازیوں کو ختم کر کے اسلام کا بول بالا کرتے رہے گی جن کی چھ نشانیاں ہوں گی۔
ان آیات بینات سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم جنہوں نے مرتدین کے گیارہ قبائل کی شورشوں کو ختم کر کے پرچم اسلام کو بلند سے بلند تر کردیا۔ یہ صحابہ کرام مندرجہ ذیل چھ عظیم صفات کے شرف سے سرفراز تھے۔ یعنی (۱)صحابہ کرام اللہ کے محبوب ہیں (۲)وہ کافروں کے حق میں بہت سخت ہیں (۳)وہ اللہ تعالیٰ کے محب ہیں(۴)وہ مسلمانوں کے لئے رحم دل ہیں (۵)وہ مجاہد فی سبیل اللہ ہیں(۶)وہ اللہ تعالی کے معاملہ میں کسی ملامت کرنے والے کا اندیشہ و خوف نہیں رکھتے۔
پھر آیت کے آخر میں خداوند قدوس نے ان صحابہ کرام کے مراتب ودر جات کی عظمت و سربلندی پر اپنے فضل و انعام کی مہر ثبت فرماتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا کہ یہ سب اللہ کا فضل ہے اور اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم بڑی وسعت والا ہے اور اللہ تعالیٰ ہی کو خوب معلوم ہے کہ کون اس کے فضل کا حق دار ہے۔
اللہ اکبر!سبحان اللہ! کیا کہنا ہے صحابہ کرام کی عظمتوں کی بلندی کا۔ رسول نے صحابہ کرام کے فضل و کمال کا اعلان فرمایا اور خداوند قدوس نے ان لوگوں کے جامع الکمالات ہونے کا قرآن مجید میں خطبہ پڑھا۔"
ہجرت کے بعد گو برابر اسلام ترقی کرتا رہا اور ہر محاذ پر کفار کے مقابلہ میں مسلمانوں کو فتوحات بھی حاصل ہوتی رہیں اور کفار اپنی چالوں میں ناکام و نامراد بھی ہوتے رہے۔ مگر پھر بھی کفار برابر اسلام کی بیخ کنی میں مصروف ہی رہے اور یہ آس لگائے ہوئے تھے کہ کسی نہ کسی دن ضرور اسلام مٹ جائے گا اور پھر عرب میں بت پرستی کا چرچا ہو کر رہے گا۔ کفار اپنی اسی
"موہوم امید کی بناء پر برابر اپنی اسلام دشمن اسکیموں میں لگے رہے اور طرح طرح کے فتنے بپا کرتے رہے۔
مگر ۱۰ ھ حجۃ الوداع کے موقع پر جب کافروں نے مسلمانوں کا عظیم مجمع میدانِ عرفات میں دیکھا اور ان ہزاروں مسلمانوں کے اسلامی جوش اور رسول کے ساتھ ان کے والہانہ جذبات عقیدت کا نظارہ دیکھ لیا تو کفار کے حوصلوں اور ان کی موہوم امیدوں پر اوس پڑ گئی اور وہ اسلام کی تباہی و بربادی سے بالکل ہی مایوس ہو گئے۔ چنانچہ اس واقعہ کی عکاسی کرتے ہوئے خاص میدانِ عرفات میں بعد عصر یہ آیات نازل ہوئیں۔"
(جمل ج ۱ ص ۴۶۴)
اَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ دِیۡنِکُمْ فَلَا تَخْشَوْہُمْ وَاخْشَوْنِ ؕ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیۡنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیۡکُمْ نِعْمَتِیۡ وَرَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسْلَامَ دِیۡنًا ؕ
"ترجمہ کنزالایمان:۔آج تمہارے دین کی طرف سے کافروں کی آس ٹوٹ گئی تو ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کردیا۔ اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا۔(پ6،المائدۃ:3)
روایت ہے کہ ایک یہودی نے امیرالمؤمنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ تمہاری کتاب میں ایک ایسی آیت ہے کہ اگر ہم یہودیوں پر ایسی آیت نازل ہوئی ہوتی تو ہم لوگ اس دن کو عید کا دن بنالیتے۔ تو آپ نے فرمایا کہ کون سی آیت؟ تو اس نے کہا کہ"
'' اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیۡنَکُمْ ''
"(پ6،المائدۃ:3) والی آیت۔ تو آپ نے فرمایا کہ جس دن اور جس جگہ اور جس وقت یہ آیت نازل ہوئی ہم اس کو اچھی طرح جانتے اور پہچانتے ہیں وہ جمعہ کا دن تھا اور عرفات کا میدان تھا اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام عصر کے بعد خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی۔
آپ کا مطلب یہ تھا کہ اس آیت کے نزول کے دن تو ہماری دو عیدیں تھیں۔ ایک تو عرفہ کا"
دن یہ بھی ہماری عید کا دن ہے۔ دوسر اجمعہ کا دن یہ بھی ہماری عید ہی کا دن ہے اس لئے اب الگ سے ہم کو عید منانے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔
" (تفسیر جمل،ج۲، ص ۱۸۰، پ۶،المائدۃ: ۳)"
یہ بھی روایت ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد حضرت امیرالمؤمنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ رونے لگے۔ تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دریافت فرمایا کہ اے عمر! تم روتے کیوں ہو؟ تو آپ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہمارا دین روز بروز بڑھتا جا رہا ہے لیکن اب جب کہ یہ دین کامل ہو گیا ہے تو یہ قاعدہ ہے کہ ''ہر کمالے را زوالے'' کہ جو چیز اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہے وہ گھٹنا شروع ہوجاتی ہے پھر اس آیت سے وفات نبوی کی طرف بھی اشارہ مل رہا ہے کیونکہ حضور(علیہ الصلوٰۃ والسلام )دین کو کامل کرنے ہی کے لئے دنیا میں تشریف لائے تھے تو جب دین کامل ہوچکا تو ظاہر ہے کہ حضور(صلی اللہ علیہ وسلم )اب اس دنیا میں رہنا پسند نہیں فرمائیں گے۔
" (تفسیر جمل علی الجلالین، ج۲، ص ۱۸۰،پ۶، المائدۃ: ۳)"
"درسِ ہدایت:۔ (۱)اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس بات پر مہر لگا دی کہ اب کافروں کی کوئی جدوجہد اور کوشش بھی اسلام کو ختم نہیں کرسکتی۔ کیونکہ کفار کی امیدو آس پر ناامیدی و یاس کے بادل چھا گئے ہیں۔ کیونکہ ان کا اسلام کو مٹا دینے کا خواب اب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے گا۔
(۲)اس آیت نے اعلان کردیا کہ دین اسلام مکمل ہوچکا ہے اب اگر کوئی یہ کہے کہ اسلام میں فلاں فلاں مسائل ناقص رہ گئے ہیں یا اسلام میں کچھ ترمیم اور اضافہ کی ضرورت ہے تو وہ شخص کذاب اور جھوٹا ہے اور درحقیقت وہ قرآن کی تکذیب کرنے والا ملحد اور اسلام سے خارج ہے۔ دین اسلام بلاشبہ یقینا کامل و مکمل ہوچکا ہے اس پر ایمان رکھنا ضروریات دین میں سے ہے۔"
"علمائے تفسیر کا بیان ہے کہ ایک دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وعظ فرمایا اور قیامت کی ہولناکیوں کا اس انداز میں بیان فرمایا کہ سامعین متاثر ہو کر زار و قطار رونے لگے، اور لوگوں کے دل دہل گئے اور لوگ اس قدر خوف و ہراس سے لرزہ براندام ہو گئے کہ دس جلیل القدر صحابہ کرام حضرت عثمان بن مظعون حجمی کے مکان پر جمع ہوئے جن میں حضرت ابوبکر صدیق و حضرت علی و حضرت عبداللہ بن مسعود و حضرت عبداللہ بن عمر و حضرت ابو ذر غفاری و حضرت سالم و حضرت مقداد و حضرت سلمان فارسی و حضرت معقل بن مقرن و حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین تھے اور ان حضرات نے آپس میں مشورہ کر کے یہ منصوبہ بنایا کہ اب آج سے ہم لوگ سادھو بن کر زندگی بسر کریں گے، ٹاٹ وغیرہ کے موٹے کپڑے پہنیں گے اور روزانہ دن بھر روزے رکھ کر ساری رات عبادت کریں گے، بستر پر نہیں سوئیں گے اور اپنی عورتوں سے الگ رہیں گے اور گوشت چربی اور گھی وغیرہ کوئی مرغن غذا نہیں کھائیں گے نہ کوئی خوشبو لگائیں گے اور سادھو بن کر روئے زمین میں گشت کرتے پھریں گے۔
جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو صحابہ کرام کے اس منصوبہ کی اطلاع ملی تو آپ نے حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ مجھے ایسی ایسی خبر معلوم ہوئی ہے تم بتاؤ کہ واقعہ کیا ہے؟ تو حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے ساتھیوں کو لے کر بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! حضور کو جو اطلاع ملی ہے وہ بالکل صحیح ہے۔ اس منصوبہ سے بجز نیکی اور خیر طلب کرنے کے ہمارا کوئی دوسرا مقصد نہیں ہے۔ یہ سن کر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے جمال نبوت پر قدرے جلال کا ظہور ہو گیا اور آپ نے فرمایا کہ میں جو دین لے کر آیا ہوں اس میں ان باتوں کا حکم نہیں ہے۔ سنو! تمہارے اوپر تمہاری جانوں کا بھی حق ہے۔ لہٰذا کچھ دن روزہ رکھو اور کچھ دنوں میں کھاؤ پیو اور رات کے کچھ حصے میں جاگ کر"
"عبادت کرو اور کچھ حصے میں سو رہا کرو۔ دیکھو میں اللہ کا رسول ہو کر کبھی روزہ رکھتا ہوں اور کبھی روزہ نہیں بھی رکھتا ہوں۔ اور گوشت، چربی، گھی بھی کھاتا ہوں۔ اچھے کپڑے بھی پہنتا ہوں اور اپنی بیویوں سے بھی تعلق رکھتا ہوں اور خوشبو بھی استعمال کرتا ہوں یہ میری سنت ہے اور جو مسلمان میری سنت سے منہ موڑے گا وہ میرے طریقے پر اور میرے فرماں برداروں میں سے نہیں ہے۔
اس کے بعد صحابہ کرام کا ایک مجمع جمع فرما کر آپ نے نہایت ہی مؤثر وعظ بیان فرمایا جس میں آپ نے برملا ارشاد فرمایا کہ سن لو! میں تمہیں اس بات کا حکم نہیں دیتا کہ تم لوگ سادھو بن کر راہبانہ زندگی بسر کرو۔ میرے دین میں گوشت وغیرہ لذیذ غذاؤں اور عورتوں کو چھوڑ کر اور تمام دنیاوی کاموں سے قطع تعلق کر کے سادھوؤں کی طرح کسی کُٹی یا پہاڑ کی کھوہ میں بیٹھ رہنا یا زمین میں گشت لگاتے رہنا ہرگز ہرگز نہیں ہے۔ سن لو! میری امت کی سیاحت جہاد ہے اس لئے تم لوگ بجائے زمین میں گشت کرتے رہنے کے جہاد کرو اور نماز و روزہ اور حج وزکوٰۃ کی پابندی کرتے ہوئے خدا کی عبادت کرتے رہو اور اپنی جانوں کو سختی میں نہ ڈالو۔ کیونکہ تم لوگوں سے پہلے اگلی امتوں میں جن لوگوں نے سادھو بن کر اپنی جانوں کو سختی میں ڈالا، تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان لوگوں پر سخت سخت احکام نازل فرما کر انہیں سختی میں مبتلا فرما دیا جن احکام کو وہ لوگ نباہ نہ سکے اور بالآخر نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے احکام سے منہ موڑ کر وہ لوگ ہلاک ہو گئے۔"
" (تفسیر جمل علی الجلالین،ج۲، ص ۲۶۷، پ۷،المائدۃ:۸۶)"
حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اس وعظ کے بعد ہی سورہ مائدہ کی مندرجہ ذیل آیات شریفہ نازل ہو گئیں۔
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُحَرِّمُوۡا طَیِّبٰتِ مَاۤ اَحَلَّ اللہُ لَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوۡا ؕ اِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیۡنَ ﴿87﴾وَکُلُوۡا مِمَّا رَزَقَکُمُ اللہُ حَلٰـلًا طَیِّبًا ۪ وَّاتَّقُوا اللہَ الَّذِیۡۤ اَنۡتُمۡ بِہٖ مُؤْمِنُوۡنَ ﴿88﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔اے ایمان والو! حرام نہ ٹھہراؤ وہ ستھری چیزیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے حلال کیں اور حد سے نہ بڑھو۔ بیشک حد سے بڑھنے والے اللہ تعالیٰ کو ناپسندہیں۔ اور کھاؤ جو کچھ تمہیں اللہ نے روزی دی حلال پاکیزہ اور ڈرو اللہ تعالیٰ سے جس پر تمہیں ایمان ہے۔ ( پ7،المائدۃ:87)
درسِ ہدایت:۔ ان آیات سے سبق ملتا ہے کہ اسلام میں سادھو بن کر زندگی بسر کرنے کی اجازت نہیں ہے، عمدہ غذاؤں اور اچھے کپڑوں کو اپنے اوپر حرام ٹھہرا کر اور بیوی بچوں سے قطع تعلق کر کے سادھوؤں کی طرح کسی کٹیا میں دھونی رما کر بیٹھ رہنا، یا جنگلوں اور بیابانوں میں چکر لگاتے رہنا ، یہ ہرگز ہرگز اسلامی طریقہ نہیں ہے۔ خوب سمجھ لو کہ جو مفت خور بابا لوگ اس طرح کی زندگی گزار کر اپنی درویشی کا ڈھونگ رچا کر کٹیوں یا میدانوں میں بیٹھے ہوئے اپنی بابائیت کا پرچار کررہے ہیں اور جاہلوں کو اپنے دام تزویر میں پھانسے ہوئے ہیں۔ خوب آنکھ کھول کر دیکھ لو اور کان کھول کر سن لو کہ یہ سادھوؤں کا رنگ ڈھنگ اسلامی طریقہ نہیں ہے بلکہ اصل اور سچا اسلام وہی ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور ان کے مقدس طریقے کے مطابق ہو۔ لہٰذا جو شخص سنتوں کا دامن تھام کر زندگی بسر کررہا ہو، درحقیقت اسی کی زندگی اسلامی زندگی ہے اور صوفیہ کرام کی درویشانہ زندگی بھی یہی ہے۔
خوب سمجھ لو کہ نبوت کی سنتوں کو چھوڑ کر زندگی کا جو طریقہ بھی اختیار کیا جائے وہ درحقیقت نہ اسلامی زندگی ہے نہ صوفیہ کی درویشانہ زندگی۔ لہٰذا آج کل جن باباؤں نے راہبانہ اور سادھوؤں کی زندگی اختیار کررکھی ہے ان کے اس طرز عمل کو اسلام اور بزرگی سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ مسلمانوں کو اس سے ہوشیار رہنا چاہے۔ اور یقین رکھنا چاہے کہ یہ سب مکر و کید کا خوبصورت جال بچھائے ہوئے ہیں جس میں بھولے بھالے عقیدت مند مسلمان پھنسے رہتے ہیں اور اس بہانے بابا لوگ اپنا اُلو سیدھا کرتے رہتے ہیں۔ ایک سچی حقیقت کا"
اظہار اور حق کا اعلان ہم عالموں کا فرض ہے جس کو ہم ادا کررہے ہیں۔
" مانو نہ مانو آپ کو یہ اختیار ہے
ہم نیک و بد جناب کو سمجھائے جائیں گے"
قرآن مجید نے بار بار اس مسئلہ پر روشنی ڈالی اور اعلان فرمایا کہ ہر کافر مسلمان کا دشمن ہے اور کفار کے دل و دماغ میں مسلمانوں کے خلاف ایک زہر بھرا ہوا ہے اور ہر وقت اور ہر موقع پر کافروں کے سینے مسلمانوں کی عداوت اور کینے سے آگ کی بھٹی کی طرح جلتے رہتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کفار کے تین مشہور فرقوں یہود و مشرکین اور نصاریٰ میں سے مسلمانوں کے سب سے بڑے اور سخت ترین دشمن کون ہیں؟ اور کون سا فرقہ ہے جس کے دل میں نسبتاً مسلمانوں کی دشمنی کم ہے؟ تو اس سوال کے جواب میں سورہ مائدۃ کی مندرجہ ذیل آیت شریفہ نازل ہوئی ہے۔ لہٰذا اس پر کامل ایمان رکھتے ہوئے اپنے بڑے اور چھوٹے دشمنوں کو پہچان کر ان سبھوں سے ہوشیار رہنا چاہے۔ ارشاد خداوندی ہے کہ:
لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الْیَہُوۡدَ وَالَّذِیۡنَ اَشْرَکُوۡا ۚ وَلَتَجِدَنَّ اَقْرَبَہُمْ مَّوَدَّۃً لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّا نَصٰرٰی ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّ مِنْہُمْ قِسِّیۡسِیۡنَ وَرُہۡبَانًا وَّاَنَّہُمْ لَا یَسْتَکْبِرُوۡنَ ﴿82﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔ ضرور تم مسلمانوں کا سب سے بڑھ کر دشمن یہودیوں اور مشرکوں کو پاؤ گے اور ضرور تم مسلمانوں کی دوستی میں سب سے زیادہ قریب ان کو پاؤ گے جو کہتے تھے ہم نصاریٰ ہیں یہ اس لئے کہ ان میں عالم اور درویش ہیں اور یہ غرور نہیں کرتے۔ (پ6،المائدۃ:82)
درسِ ہدایت:۔ اس آیت کی روشنی میں گزشتہ تواریخ کے صفحات کی ورق گردانی کر کے اپنے ایمان کو مزید اطمینان بخشیے کہ یہودیوں اور مشرکوں نے مسلمانوں کے ساتھ جیسی جیسی سخت"
"عداوتوں کا مظاہرہ کیا ہے، عیسائیوں نے ان لوگوں سے بہت کم مسلمانوں کے ساتھ بُر ا برتاؤ کیا ہے اور یہودیوں اور مشرکوں نے مسلمانوں پر جیسے جیسے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ہیں، عیسائیوں نے اس درجہ مسلمانوں پر مظالم نہیں کئے ہیں۔ لہٰذا مسلمانوں کو چاہے کہ یہود و مشرکین کو اپنا سب سے بڑا دشمن تصور کر کے کبھی بھی ان لوگوں پر اعتماد نہ کریں اور ہمیشہ ان بدترین دشمنوں سے ہوشیار رہیں اور عیسائیوں کے بارے میں بھی یہی عقیدہ رکھیں کہ یہ بھی مسلمانوں کے دشمن ہی ہیں مگر پھر بھی ان کے دلوں میں مسلمانوں کے لئے کچھ نرم گوشے بھی ہیں۔ اس لئے یہ یہودیوں اور مشرکوں کی بہ نسبت کم درجے کے دشمن ہیں۔
یہی اس آیت مبارکہ کا خلاصہ ومطلب ہے جو مسلمانوں کے واسطے ان کے چھوٹے بڑے دشمنوں کی پہچان کے لئے بہترین شمع راہ بلکہ روشنی کا منارہ ہے۔"
واللہ تعالیٰ اعلم۔
قرآن مجید نے متعدد جگہ پر یہودیوں کی شرارتوں اور فتنہ پردازیوں کا تفصیلی بیان کرتے ہوئے بار بار یہ اعلان فرمایا ہے کہ ان ظالموں نے اپنے انبیاء اور پیغمبروں کو بھی قتل کئے بغیر نہیں چھوڑا، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ:
اِنَّ الَّذِیۡنَ یَکْفُرُوۡنَ بِاٰیٰتِ اللہِ وَیَقْتُلُوۡنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیۡرِ حَقٍّ ۙ وَّیَقْتُلُوۡنَ الَّذِیۡنَ یَاۡمُرُوۡنَ بِالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِ ۙ فَبَشِّرْہُمۡ بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿21﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔وہ جو اللہ کی آیتوں سے منکر ہوتے اور پیغمبروں کو ناحق شہید کرتے اور انصاف کا حکم کرنے والوں کو قتل کرتے ہیں انہیں خوشخبری دو دردناک عذاب کی۔ (پ3،ال عمران:21)
حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہودیوں نے ایک دن میں پینتالیس نبیوں اور ایک سو ستر صالحین کو قتل کردیا تھا جو ان کو اچھی باتوں کا حکم دیا کرتے تھے۔"
(تاریخ ابن کثیر، ج ۲، ص۵۵)
چنانچہ
"حضرت یحییٰ و حضرت زکریا علیہما السلام کی شہادت بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔
حضرت یحییٰ علیہ السلام کی شہادت:۔ابن عساکر نے"
''المستقصی فی فضائل الاقصیٰ''
میں حضرت یحییٰ علیہ السلام کی شہادت کا واقعہ اس طرح تحریر فرمایا ہے کہ دمشق کے بادشاہ ''حداد بن حدار''نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی تھیں۔ پھر وہ چاہتا تھا کہ بغیر حلالہ اس کو واپس کر کے اپنی بیوی بنالے۔ اس نے حضرت یحییٰ علیہ السلام سے فتویٰ طلب کیا تو آپ نے فرمایا کہ وہ اب تم پر حرام ہوچکی ہے اس کی بیوی کو یہ بات سخت ناگوار گزری اور وہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے قتل کے درپے ہو گئی۔ چنانچہ اس نے بادشاہ کو مجبور کر کے قتل کی اجازت حاصل کرلی اور جب کہ وہ ''مسجد جبرون'' میں نماز پڑھ رہے تھے بحالت سجدہ ان کو قتل کرادیا اور ایک طشت میں ان کا سر مبارک اپنے سامنے منگوایا ۔ مگر کٹا ہوا سر اس حالت میں بھی یہی کہتا رہا کہ ''تو بغیر حلالہ کرائے بادشاہ کے لئے حلال نہیں''اور اسی حالت میں اس پر خدا کا یہ عذاب نازل ہوگیا وہ عورت ،سر مبارک کے ساتھ زمین میں دھنس گئی۔
(البدایہ والنہایہ،ج۲،ص۵۵)
حضرت زکریا علیہ السلام کا مقتل یہودیوں نے جب حضرت یحییٰ علیہ السلام کو قتل کردیا تو پھر ان کے والد ماجد حضرت زکریا علیہ السلام کی طرف یہ ظالم لوگ متوجہ ہوئے کہ ان کو بھی شہید کردیں۔ مگر جب حضرت زکریا علیہ السلام نے یہ دیکھا تو وہاں سے ہٹ گئے اور ایک درخت کے شگاف میں روپوش ہو گئے۔ یہودیوں نے اس درخت پر آرا چلا دیا۔ جب آرا حضرت زکریا علیہ السلام پر پہنچا تو خدا کی وحی آئی کہ خبردار اے زکریا ! اگر آپ نے کچھ بھی آہ و زاری کی تو ہم پوری روئے زمین کو تہ و بالا کردیں گے۔ اور اگر تم نے صبر کیا تو ہم بھی ان یہودیوں پر اپنا عذاب نازل کردیں گے۔ چنانچہ حضرت زکریا علیہ السلام نے صبر کیا اور ظالم یہودیوں نے درخت کے ساتھ ان کے بھی دو ٹکڑے کردیئے۔
(تاریخ ابن کثیر، ج ۲،۵۲)
اس میں اختلاف ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کی شہادت کا واقعہ کس جگہ پیش آیا؟ پہلا قول
یہ ہے کہ ''مسجد جبرون'' میں شہادت ہوئی۔ مگر حضرت سفیان ثوری نے شمر بن عطیہ سے یہ قول نقل کیا ہے کہ بیت المقدس میں ہیکل سلیمانی اور قربان گاہ کے درمیان آپ شہید کئے گئے جس جگہ آپ سے پہلے ستر انبیاء علیہم السلام کو یہودی قتل کر چکے تھے۔
(تاریخ ابن کثیر، ج ۲، ص ۵۵)
"بہرحال یہ سب کومُسلّم ہے کہ یہودیوں نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کو شہید کردیا اور جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ان کی شہادت کا حال معلوم ہوا تو آپ نے علی الاعلان اپنی دعوتِ حق کا وعظ شروع کردیا اور بالآخر یہودیوں نے آپ کے قتل کا بھی منصوبہ بنا لیا۔ بلکہ قتل کے لئے آپ کے مکان میں ایک یہودی داخل بھی ہو گیا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک بدلی بھیج کر آسمان پر اٹھا لیا جس کا مفصل واقعہ ہماری کتاب ''عجائب القرآن'' میں مذکور ہے۔
درسِ ہدایت:۔ حضرت یحییٰ اور حضرت زکریا علیہما السلام کی شہادت کے واقعات اور حالات سے اگرچہ حقیقت میں نگاہیں بہت سے نتائج حاصل کرسکتی ہیں۔ تاہم چند باتیں خصوصی طور پر قابل توجہ ہیں:
(۱)دنیا میں ان یہودیوں سے زیادہ شقی القلب اور بدبخت کوئی اور نہیں ہو سکتا جو حضرات انبیاء علیہم السلام کو ناحق قتل کرتے تھے۔ حالانکہ یہ برگزیدہ اور مقدس ہستیاں نہ کسی کو ستاتی تھیں نہ کسی کے مال و دولت پر ہاتھ ڈالتی تھیں بلکہ بغیر کسی اجرت و عوض کے لوگوں کی اصلاح کر کے انہیں فلاح و سعادت دارین کی عزتوں سے سرفراز کرتی تھیں۔ چنانچہ حضرت ابو عبیدہ صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ قیامت کے دن سب سے بڑے اور زیادہ عذاب کا مستحق کون ہو گا؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ:"
رَجُلٌ قَتَلَ نَبِیًّا اَوْمَنْ اَمَرَ بِالْمَعْرُوْفِ وَنَھٰی عَنِ الْمُنْکَرِ۔
وہ شخص جو کسی نبی کویا ایسے شخص کو قتل کرے جو بھلائی کا حکم دیتا ہو اور برائی سے روکتا ہو۔
" (تفسیر ابن کثیر، ج۲، ص ۲۲، پ۳، آل عمران:۲۱)"
"بہرحال ظالم یہودیوں نے اپنی شقاوت سے خدا کے نبیوں کے ساتھ جو ظالمانہ سلوک کیا اور جس بے دردی کے ساتھ ان مقدس نفوس کا خون بہایا اقوام عالم میں اس کی مثال نہیں مل سکتی۔ اس لئے خداوند قہار و جبار نے اپنے قہر و غضب سے ان ظالموں کو دونوں جہان میں ملعون کردیا۔ لہٰذا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ ان ملعونوں سے ہمیشہ نفرت و دشمنی رکھے۔
(۲)بنی اسرائیل چونکہ مختلف قبائل میں تقسیم تھے اس لئے ان کے درمیان ایک ہی وقت میں متعدد نبی اور پیغمبر مبعوث ہوتے رہے اور ان سب نبیوں کی تعلیمات کی بنیاد حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب توریت ہی رہی اور ان سب انبیاء کرام علیہم السلام کی حیثیت حضرت موسیٰ علیہ السلام کے نائبین کی رہی۔
(۳)علماء کرام کو اپنی زندگی کی آخری سانس تک حق پر ڈٹ کر اُس کی تبلیغ کرتے رہنا چاہے اور حق کے معاملہ میں اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں کرنی چاہے۔ جیسا کہ آپ نے پڑھ لیا کہ سرکٹ جانے کے بعد بھی حضرت یحییٰ علیہ السلام کے کٹے ہوئے سر سے یہی آواز آتی رہی کہ تین طلاقوں کے بعد بغیر حلالہ کرائے ہوئے عورت سے اس کا شوہر دوبارہ نکاح نہیں کرسکتا۔"
واللہ تعالیٰ اعلم۔
" جنگ اُحد کا مکمل اور مفصل بیان تو ہم اپنی کتاب ''سیرۃ المصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم'' میں تحریر کرچکے ہیں مگر ہم یہاں تو صرف منافقوں کی ایک خطرناک سازش کا ذکر کررہے ہیں جو جنگ اُحد کے دن ان بدبختوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کی تھی۔ جس پر قرآن مجید نے روشنی ڈالی ہے اور جو بہت ہی قابل عبرت اور نہایت ہی نصیحت آموز ہے اور وہ یہ ہے کہ:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ سے باہر جنگ کے لئے نکلے تو ایک ہزار کا لشکر پرچم نبوت کے نیچے تھا۔ اس لشکر میں تین سو منافقین بھی عبداللہ بن ابی کی سرکردگی میں ہم رکاب"
تھے۔ منافقین پہلے ہی کفار مکہ کے ساتھ یہ سازش کرچکے تھے کہ مخلص مسلمانوں کو بزدل بنانے کے لئے یہ طریقہ اختیار کریں گے کہ شروع میں مسلمانوں کے لشکر کے ساتھ نکلیں گے پھر مسلمانوں سے کٹ کر مدینہ واپس آجائیں گے۔ چنانچہ منافقوں کا سردار یہ بہانہ بنا کر لشکر اسلام سے کٹ کر جدا ہو گیا کہ جب محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)نے ہم تجربہ کاروں کی بات نہیں مانی کہ مدینہ میں رہ کر مدافعانہ جنگ کرنی چاہے بلکہ الٹا نوجوانوں کی بات مان کر مدینہ سے نکل پڑے تو ہم کو کیا ضرورت ہے کہ ہم اپنی جانوں کو ہلاکت میں ڈالیں۔ مگر الحمدللہ عزوجل!کہ منافقوں کا مقصد پورا نہیں ہوا کیونکہ مخلص مسلمانوں پر ان لوگوں کے لشکر اسلام سے جدا ہوجانے کا مطلق کوئی اثر نہیں پڑا۔ البتہ مسلمانوں کے دو قبیلے ''بنوسلمہ''و ''بنو حارثہ''میں کچھ تھوڑی سی بددلی اور بزدلی پیدا ہوچکی تھی مگر مخلص مسلمانوں کے جوش جہاد کو دیکھ کر ان دونوں قبیلوں کی بھی ہمت بلند ہو گئی اور یہ لوگ بھی ثابت قدم رہ کر پورے جاں نثارانہ جذبات سرفروشی کے ساتھ مشرکین کے دل بادل لشکروں سے ٹکرا گئے اور آخری دم تک پرچم نبوت کے زیرِ سایہ مشرکوں سے جنگ کرتے رہے اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ
وَ اِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَہْلِکَ تُبَوِّیُٔ الْمُؤْمِنِیۡنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ ؕ وَاللہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ ﴿121﴾ۙ اِذْ ہَمَّتۡ طَّآئِفَتٰنِ مِنۡکُمْ اَنۡ تَفْشَلَا ۙ وَاللہُ وَلِیُّہُمَا ؕ وَعَلَی اللہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوۡنَ ﴿122﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔اور یاد کرو اے محبوب جب تم صبح کو اپنے دولت خانہ سے برآمد ہوئے مسلمانوں کو لڑائی کے مورچوں پر قائم کرتے اور اللہ سنتا جانتا ہے جب تم میں کے دو گروہوں کا ارادہ ہوا کہ نامردی کر جائیں اور اللہ ان کا سنبھالنے والا ہے اور مسلمانوں کو اللہ ہی پر بھروسہ چاہے۔(پ4،اٰل عمران:121)
"الغرض جنگ اُحد میں منافقوں کی یہ خطرناک سازش اور خوفناک تدبیر بالکل ناکام ہو کر رہ گئی اور بحمداللہ عزوجل اگرچہ ستر مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا لیکن آخر میں فتح مبین نے پیغمبر کے قدم نبوت کا بوسہ لیا اور مشرکین ناکام ہو کر میدانِ جنگ چھوڑ کر اپنے گھروں کو چلے گئے اور پرچم اسلام بلند ہی رہا۔
درسِ ہدایت:۔ اس واقعہ سے سبق ملتا ہے کہ اگر مومنین ا خلاصِ نیت کے سا تھ متحد ہوکرمیدانِ جنگ میں کافروں کے ساتھ جواں مردی اور اُولو العزمی کے ساتھ جہاد میں ڈٹے رہیں تو منافقوں اور کافروں کی ہر سازش و تدبیر کو خداوند قدوس ناکام بنا دیتا ہے مگر یہ حقیقت بڑی ہی صداقت مآب ہے کہ"
" برائے فتح پہلی شرط ہے ثابت قدم رہنا
جماعت کو بہم رکھنا، جماعت کا بہم رہنا"
"یہ حضرت حزقیل علیہ السلام کے خلیفہ اور جانشین ہیں۔ بیشتر مؤرخین کا اس پر اتفاق ہے کہ حضرت الیاس علیہ السلام حضرت ہارون علیہ السلام کی نسل سے ہیں اور ان کا نسب نامہ یہ ہے۔ الیاس بن یاسین بن فخاس بن عیزار بن ہارون علیہ السلام۔ حضرت الیاس علیہ السلام کی بعثت کے متعلق مفسرین و مؤرخین کا اتفاق ہے کہ وہ شام کے باشندوں کی ہدایت کے لئے بھیجے گئے اور ''بعلبک'' کا مشہور شہر ان کی رسالت و ہدایت کا مرکز تھا۔
ان دنوں ''بعلبک'' شہر پر ''ارجب'' نامی بادشاہ کی حکومت تھی جو ساری قوم کو بت پرستی پر مجبور کئے ہوئے تھا اور ان لوگوں کا سب سے بڑا بت ''بعل'' تھا جو سونے کا بنا ہوا تھا اور بیس گز لمبا تھا اور اس کے چار چہرے بنے ہوئے تھے اور چار سو خدام اس بت کی خدمت کرتے تھے جن کو ساری قوم بیٹوں کی طرح مانتی تھی اور اس بت میں سے شیطان کی آواز آتی تھی جو لوگوں"
"کو بت پرستی اور شرک کا حکم سنایا کرتا تھا۔ اس ماحول میں حضرت الیاس علیہ السلام ان لوگوں کو توحید اور خدا پرستی کی دعوت دینے لگے مگر قوم ان پر ایمان نہیں لائی۔ بلکہ شہر کا بادشاہ ''ارجب'' ان کا دشمن جاں بن گیا اور اس نے حضرت الیاس علیہ السلام کو قتل کردینے کا ارادہ کرلیا۔ چنانچہ آپ شہر سے ہجرت فرما کر پہاڑوں کی چوٹیوں اور غاروں میں روپوش ہو گئے اور پورے سات برس تک خوف و ہراس کے عالم میں رہے اور جنگلی گھاسوں اور جنگل کے پھولوں اور پھلوں پر زندگی بسر فرماتے رہے۔ بادشاہ نے آپ کی گرفتاری کے لئے بہت سے جاسوس مقرر کردیئے تھے۔ آپ نے مشکلات سے تنگ آکر یہ دعا مانگی کہ الٰہی! مجھے ان ظالموں سے نجات اور راحت عطا فرما تو آپ پر وحی آئی کہ تم فلاں دن فلاں جگہ پر جاؤ اور وہاں جو سواری ملے بلاخوف اس پر سوار ہو جاؤ۔ چنانچہ اس دن اس مقام پر آپ پہنچے تو ایک سرخ رنگ کا گھوڑا کھڑا تھا۔ آپ اس پر سوار ہو گئے اور گھوڑا چل پڑا تو آپ کے چچا زاد بھائی حضرت ''الیسع'' علیہ السلام نے آپ کو پکارا اور عرض کیا کہ اب میں کیا کروں؟ تو آپ نے اپنا کمبل ان پر ڈال دیا۔ یہ نشانی تھی کہ میں نے تم کو بنی اسرائیل کی ہدایت کے لئے اپنا خلیفہ بنا دیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو لوگوں کی نظروں سے اوجھل فرما دیا اور آپ کو کھانے اور پینے سے بے نیاز کردیا اور آپ کو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی جماعت میں شامل فرمالیا اور حضرت الیسع علیہ السلام نہایت عزم و ہمت کے ساتھ لوگوں کی ہدایت کرنے لگے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ہر دم ہر قدم پر ان کی مدد فرمائی اور بنی اسرائیل آپ پر ایمان لائے اور آپ کی وفات تک ایمان پر قائم رہے۔
حضرت الیاس کے معجزات:۔ اللہ تعالیٰ نے تمام پہاڑوں اور حیوانات کو آپ کے لئے مسخر فرما دیا اور آپ کو ستر انبیاء کی طاقت بخش دی۔ غضب و جلال اور قوت و طاقت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ہم پلہ بنا دیا۔ اور روایات میں آیا ہے کہ حضرت الیاس اور حضرت خضر علیہما السلام ہر سال کے روزے بیت المقدس میں ادا کرتے ہیں اور ہر سال حج کے لئے مکہ"
"مکرمہ جایا کرتے ہیں اور سال کے باقی دنوں میں حضرت الیاس علیہ السلام تو جنگلوں اور میدانوں میں گشت فرماتے رہتے ہیں اور حضرت خضر علیہ السلام دریاؤں اور سمندروں کی سیر فرماتے رہتے ہیں اور یہ دونوں حضرات آخری زمانے میں وفات پائیں گے جب کہ قرآن مجید اٹھا لیا جائے گا۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک حدیث مروی ہے کہ ہم لوگ ایک جہاد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو راستہ میں ایک آواز آئی کہ یا اللہ! تو مجھ کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں بناد ے جو امت مرحومہ اور مستجاب الدعوات ہے تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ اے انس! تم اس آواز کا پتا لگاؤ تو میں پہاڑ میں داخل ہوا، تو اچانک یہ نظر آیا کہ ایک آدمی نہایت سفید کپڑوں میں ملبوس لمبی داڑھی والا نظر آیا جب اس نے مجھے دیکھا تو پوچھا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہو؟ تو میں نے عرض کیا کہ جی ہاں تو انہوں نے فرمایا کہ تم جا کر حضور سے میرا سلام عرض کرو اور یہ کہہ دو کہ آپ کے بھائی الیاس (علیہ السلام)آپ سے ملاقات کا ارادہ رکھتے ہیں۔ چنانچہ میں نے واپس آ کر حضور سے سارا معاملہ عرض کیا تو آپ مجھ کو ہمراہ لے کر روانہ ہوئے اور جب آپ ان کے قریب پہنچ گئے تو میں پیچھے ہٹ گیا۔ پھر دونوں صاحبان دیر تک گفتگو فرماتے رہے اور آسمان سے ایک دستر خوان اتر پڑا تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مجھے بلا بھیجا اور میں نے دونوں حضرات کے ساتھ میں کھانا کھایا۔ جب ہم لوگ کھانے سے فارغ ہوچکے تو آسمان سے ایک بدلی آئی اور وہ حضرت الیاس علیہ السلام کو اٹھا کر آسمان کی طرف لے گئی اور میں ان کے سفید کپڑوں کو دیکھتا رہ گیا۔"
" (تفسیر صاوی،ج۵، ص۱۷۴۹،پ۲۳، الصّافات:۱۲۴ )"
حضرت الیاس اور قرآن:۔قرآن مجید میں حضرت الیاس علیہ السلام کا تذکرہ دو جگہ آیا ہے سورہ انعام میں اور سورہ الصّٰفٰت میں۔ سورہ انعام میں تو صرف ان کو انبیاء علیہم
السلام کی فہرست میں شمار کیا ہے اور سورہ الصّٰفٰت میں آپ کی بعثت اور قوم کی ہدایت کے متعلق مختصر طور پر بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ سورہ انعام میں ہے:
وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِہٖ دَاوٗدَ وَ سُلَیۡمٰنَ وَ اَیُّوۡبَ وَ یُوۡسُفَ وَ مُوۡسٰی وَ ہٰرُوۡنَ ؕ وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیۡنَ ﴿ۙ84﴾وَ زَکَرِیَّا وَ یَحْیٰی وَ عِیۡسٰی وَ اِلْیَاسَ ؕ کُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿ۙ85﴾وَ اِسْمٰعِیۡلَ وَ الْیَسَعَ وَ یُوۡنُسَ وَ لُوۡطًا ؕ وَکُلًّا فَضَّلْنَا عَلَی الْعٰلَمِیۡنَ ﴿ۙ86﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔اور اس کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون کو اور ہم ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں نیکو کاروں کو اور زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ اور الیاس کو یہ سب ہمارے قرب کے لائق ہیں۔ اور اسمٰعیل اور یسع اور یونس اور لوط کو اور ہم نے ہر ایک کو اس کے وقت میں سب پر فضیلت دی۔(پ7،الانعام:84)
اور سورہ الصّٰفٰت میں اس طرح ارشاد فرمایا کہ:"
وَ اِنَّ اِلْیَاسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیۡنَ ﴿123﴾ؕاِذْ قَالَ لِقَوْمِہٖۤ اَلَا تَتَّقُوۡنَ ﴿124﴾اَتَدْعُوۡنَ بَعْلًا وَّ تَذَرُوۡنَ اَحْسَنَ الْخَالِقِیۡنَ ﴿125﴾ۙاللہَ رَبَّکُمْ وَ رَبَّ اٰبَآئِکُمُ الْاَوَّلِیۡنَ ﴿126﴾فَکَذَّبُوۡہُ فَاِنَّہُمْ لَمُحْضَرُوۡنَ ﴿127﴾ۙاِلَّا عِبَادَ اللہِ الْمُخْلَصِیۡنَ ﴿128﴾وَ تَرَکْنَا عَلَیۡہِ فِی الْاٰخِرِیۡنَ ﴿129﴾ۙسَلٰمٌ عَلٰۤی اِلْ یَاسِیۡنَ ﴿130﴾اِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیۡنَ ﴿131﴾اِنَّہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیۡنَ ﴿132﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔اور بیشک الیاس پیغمبروں سے ہے۔ جب اس نے اپنی قوم سے فرمایا کیا تم ڈرتے نہیں کیا بعل کو پوجتے ہو اور چھوڑتے ہو سب سے اچھا پیدا کرنے والے اللہ کو جو رب ہے تمہارا اور تمہارے اگلے باپ دادا کا پھر انہوں نے اسے جھٹلایا تو وہ ضرور پکڑے آئیں گے مگر اللہ کے چنے ہوئے بندے اور ہم نے پچھلوں میں اس کی ثنا باقی رکھی سلام ہو الیاس پر بیشک ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو بیشک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل الایمان بندوں میں ہے۔(پ23،الصفات:123 تا 132)
حضرت الیاس علیہ السلام اور ان کی قوم کا واقعہ اگرچہ قرآن مجید میں بہت ہی مختصر مذکور ہے تاہم اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ یہودیوں کی ذہنیت اس قدر مسخ ہو گئی تھی کہ کوئی ایسی برائی نہیں تھی جس کے کرنے پر یہ لوگ حریص نہ ہوں باوجودیکہ ان میں ہدایت کے لئے مسلسل انبیاء کرام تشریف لاتے رہے مگر پھر بھی بت پرستی، کواکب پرستی اور غیر اللہ کی عبادت ان لوگوں سے نہ چھوٹ سکی۔ پھر یہ لوگ اعلیٰ درجے کے جھوٹے، بدعہد اور رشوت خور بھی رہے اور اللہ تعالیٰ کے مقدس نبیوں کو ایذائیں دینا اور ان کو قتل کردینا ان ظالموں کا محبوب مشغلہ رہا ہے۔ بہرحال ان ظالموں کے واقعات سے جہاں ان لوگوں کی بدبختی و کجروی اور مجرمانہ شقاوت پر روشنی پڑتی ہے، وہیں ہم لوگوں کو یہ نصیحت و عبرت بھی حاصل ہوتی ہے کہ اب جب کہ نبوت کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے تو ہمارے لئے بے حد ضروری ہے کہ خدا کے آخری پیغام یعنی اسلام پر مضبوطی سے قائم رہ کر یہودیوں کے ظالمانہ طریقوں کی مخالفت کریں اور کفار کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں اور مصیبتوں پر صبر کر کے خدا کے مقدس نبیوں کے اسوہ حسنہ کی پیروی کریں۔
واللہ تعالیٰ اعلم۔
"جنگ بدر کا مفصل حال تو ہم اپنی کتاب ''سیرۃ المصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم'' میں مکمل لکھ چکے ہیں یہاں جنگ ِ بدر میں نصرتِ الٰہی نے بارش کی صورت میں جو تجلی فرمائی جس سے میدانِ جنگ کا نقشہ بھی بدل گیا، اس کا ہم ایک جلوہ دکھا رہے ہیں۔
واقعہ یہ ہوا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تین سو تیرہ صحابہ کرام کی جماعت کو ہمراہ لے کر مقام بدر میں تشریف لے گئے اور بدر کے قریب پہنچ کر مدینہ کی جانب والے رُخ ''عدوۃ الدنیا'' پر خیمہ زن ہو گئے اور مشرکین آگے بڑھے تو بدر پہنچ کر مدینہ سے دور مکہ کی جانب والے ''عدوۃ القصویٰ'' پر اُترے اور محاذ جنگ کا نقشہ اس طرح بنا کہ مشرکین اور مسلمان بالکل آمنے"
"سامنے تھے مگر مسلمانوں کا محاذ جنگ اس قدر ریتیلا تھا کہ انسانوں اور گھوڑوں دونوں کے قدم ریت میں دھنسے جا رہے تھے اور وہاں چلنا پھرنا دشوار تھا اور مشرکین کا محاذ جنگ بالکل ہموار اور پختہ فرش کی طرح تھا۔ غرض دشمن تعداد میں تین گنے سے زیادہ، سامان جنگ سے پوری طرح مکمل ،رسل و رسائل میں ہر طرح مطمئن تھے۔ پھر مزید برآں ان کا محاذ جنگ بھی اپنے محل وقوع کے لحاظ سے نہایت عمدہ تھا۔ ان سہولتوں کے علاوہ پانی کے سب کنوئیں بھی دشمنوں ہی کے قبضے میں تھے۔ اس لئے مسلمانوں کو پانی کی بے حد تکلیف تھی، خود پینے کے لئے کہاں سے پانی لائیں؟ جانوروں کو کیسے سیراب کریں؟ وضو اور غسل کی کیا صورت ہو؟ غرض صحابہ کرام انتہائی فکر مند اور پریشان تھے۔ اس موقع پر شیطان نے مسلمانوں کے دلوں میں وسوسہ ڈال دیا کہ اے مسلمانو!تم گمان کرتے ہو کہ تم حق پر ہو اور تم میں اللہ عزوجل کا رسول بھی موجود ہے اور تم اللہ والے ہو اور حال یہ ہے کہ مشرکین پانی پر قابض ہیں اور تم بغیر وضوو غسل کے نمازیں پڑھتے ہو اور تم اور تمہارے جانور پیاس سے بے تاب ہو رہے ہیں۔
اس موقع پر ناگہاں نصرتِ آسمانی نے اس طرح جلوہ سامانی فرمائی کہ زور دار بارش ہوگئی جس نے مسلمانوں کے لئے ریتیلی زمین کو جما کر پختہ فرش کی طرح ہموار بنا دیا اور نشیب کی وجہ سے حوض نما گڑھوں میں پانی کا ذخیرہ مہیا کردیا اور دشمنوں کی زمین کو کیچڑ والی دلدل بنا دیا جس پر کافروں کا چلنا پھرنا دشوار ہو گیا اور مسلمان ان پانی کے ذخیروں کی وجہ سے کنوؤں سے بے نیاز ہو گئے اور مسلمانوں کے دلوں سے شیطانی وسوسہ دور ہو گیا اور لوگ مطمئن ہو گئے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں اس عجیب و غریب بارش کی منظر کشی ان الفاظ میں فرمائی ہے کہ:"
وَیُنَزِّلُ عَلَیۡکُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً لِّیُطَہِّرَکُمۡ بِہٖ وَیُذْہِبَ عَنۡکُمْ رِجْزَ الشَّیۡطٰنِ وَلِیَرْبِطَ عَلٰی قُلُوۡبِکُمْ وَیُثَبِّتَ بِہِ الۡاَقْدَامَ ﴿ؕ11﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔اور آسمان سے تم پر پانی اتارا کہ تمہیں اس سے ستھرا کردے اور
"شیطان کی ناپاکی تم سے دور فرما دے اور تمہارے دلوں کی ڈھارس بندھائے اور اس سے تمہارے قدم جمادے۔ (پ9،الانفال:11)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بدر میں اس ناگہانی بارش کے چار فائدے بیان فرمائے ہیں:
(۱)تاکہ جو بے وضو اور بے غسل ہوں وہ وضو اور غسل کر کے پاک و صاف اور ستھرے ہو جائیں۔
(۲)مسلمانوں کے دلوں سے شیطانی وسوسہ دور ہوجائے۔
(۳)مسلمانوں کے دلوں کو ڈھارس مل جائے کہ ہم حق پر ہیں اور اللہ تعالیٰ ضرور ہماری مدد فرمائے گا۔
(۴)محاذ جنگ کی ریتیلی زمین اس قابل ہوجائے کہ اس پر قدم جم سکیں الغرض جنگ بدر کی یہ بارش مسلمانوں کے لئے بارانِ رحمت اور کفار کے لئے سامانِ زحمت بن گئی۔
درسِ ہدایت:۔جنگ بدر میں مسلمانوں کو جن مشکل حالات کا سامنا تھا ظاہر ہے کہ عقل انسانی عالم اسباب پر نظر کرتے ہوئے اس کے سوا اور کیا فیصلہ کرسکتی تھی کہ وہ اس جنگ کو ٹال دیں۔ مگر صادق الایمان مسلمانوں نے اپنے رسول کی مرضی پا کر ہر قسم کی بے سروسامانی کے باوجود حق و باطل کی معرکہ آرائی کے لئے والہانہ اور فداکارانہ جذبات کے ساتھ خود کو پیش کردیا اور نہایت ثابت قدمی اور اُولو العزمی کے ساتھ میدانِ جنگ میں کود پڑے تو اللہ تعالیٰ نے ان مسلمانوں کی کس کس طرح امداد و نصرت فرمائی ،اس پر ایک نظر ڈال کر خداوند ِ قدوس کے فضل عظیم کی جلوہ سامانیوں کا نظارہ کیجئے اور یہ دیکھئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس جنگ میں کس کس طرح مسلمانوں کی مدد فرمائی۔
(۱)مسلمانوں کی نگاہ میں دشمنوں کی تعداد اصل تعداد سے کم نظر آئی تاکہ مسلمان مرعوب نہ ہوں اور مشرکین کی نظروں میں مسلمان مٹھی بھر نظر آئیں تاکہ وہ جنگ سے جی نہ چرائیں اور حق"
"و باطل کی جنگ ٹل نہ جائے۔(انفال)
(۲)اور ایک وقت میں مسلمان مشرکین کی نظر میں دگنے نظر آئے تاکہ مشرکین مسلمانوں سے شکست کھا جائیں۔ (آلِ عمران)
(۳)پہلے مسلمانوں کی مدد کے لئے ایک ہزار فرشتے بھیجے گئے۔ پھر فرشتوں کی تعداد بڑھا کر تین ہزار کردی گئی۔ پھر فرشتوں کی تعداد پانچ ہزار ہو گئی۔ (آلِ عمران)
(۴)مسلمانوں پر عین معرکہ کے وقت تھوڑی دیر کے لئے غنودگی اور نیند طاری کر دی گئی جس کے چند منٹ بعد ان کی بیداری نے ان میں ایک نئی تازگی اور نئی روح پیدا کردی۔ (انفال)
(۵)آسمان سے پانی برسا کر مسلمانوں کے لئے ریتیلی زمین کو پختہ زمین کی طرح بنا دیا اور مشرکین کے محاذ ِ جنگ کی زمین کو کیچڑ اور پھسلن والی دلدل بنا دیا۔ (انفال)
(۶)نتیجہ جنگ یہ ہوا کہ ذرا دیر میں مشرکین کے بڑے بڑے نامی گرامی پہلوان اور جنگجو شہسوار مارے گئے۔ چنانچہ ستر مشرکین قتل ہوئے اور ستر گرفتار ہو کر قیدی بنائے گئے اور مشرکین کا لشکر اپنا سارا سامان چھوڑ کر میدانِ جنگ سے بھاگ نکلا اور یہ سارا سامان مسلمانوں کو مالِ غنیمت میں مل گیا۔
مسلمان اگرچہ خداوند ِ قدوس کی مذکورہ بالا امداد اور اس کے فضل سے فتح یاب ہوئے،تاہم اس جنگ میں چودہ مجاہدین ِ اسلام نے بھی جام ِ شہادت نوش کیا۔"
" (زرقانی، ج ۲، ص ۲۷۰)"
یہ واقعہ ہمیں متنبہ کررہا ہے کہ اگر مسلمان خدا پر بھروسہ کر کے حق و باطل کی جنگ میں ثابت قدمی اور پامردی کے ساتھ ڈٹے رہیں تو تعداد کی کمی اور بے سروسامانی کے باوجود ضرور خدا کی مدد اُتر پڑے گی اور مسلمانوں کو فتح نصیب ہو گی۔ یہ رب العزت کے فضل و کرم کا وہ دستور ہے کہ جس میں ان شاء اللہ تعالیٰ قیامت تک کوئی تبدیلی نہیں ہو گی۔ بس شرط یہ ہے کہ مسلمان نہ
بدل جائیں، اور ان کے اسلامی خصائل و کردار میں کوئی تبدیلی نہ ہو۔ ورنہ خدا کا دستور تو نہ بدلا ہے نہ کبھی بدلے گا اس کا وعدہ ہے کہ
فَلَنۡ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللہِ تَبْدِیۡلًا ۬ۚ
یعنی ہر گز ہرگز خدا کے دستور میں کوئی ردو بدل نہیں ہو گا۔(پ22،الفاطر:43)
واللہ تعالیٰ اعلم۔
"فتح مکہ کے بعد مشرکینِ عرب کی شوکت کا قریب قریب خاتمہ ہو گیا اور لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے۔ یہ دیکھ کر ''ہوازن''اور ''ثقیف''کے دونوں قبائل کے سرداروں کا اجتماع ہوا، اور انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)اپنی قوم ''قریش''کو مغلوب کر کے مطمئن ہو گئے ہیں۔ لہٰذا اب ہماری باری ہے تو کیوں نہ ہم پیش قدمی کر کے حملہ آور ہو کر ان مسلمانوں کا قلع قمع کرکے رکھ دیں۔ چنانچہ ہوازن اور ثقیف کے دونوں قبائل نے مالک بن عوف نضری کو اپنا بادشاہ بنا کر مسلمانوں سے جنگ کی تیاری شروع کردی۔ یہ خبر پا کر ۱۰ شوال ۸ ھ مطابق فروری ۶۳۰ کو دس ہزار مہاجرین و انصار اور دو ہزار مکہ کے نو مسلم اور اسی وہ مشرکین جو اسلام قبول نہ کرنے کے باوجود اپنی خواہش سے مسلمانوں کے رفیق بن گئے۔ کل تقریباً بارہ ہزار آدمیوں کا لشکر ساتھ لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ''مقام حنین''پہنچ گئے۔ جب دشمن کے مقابلہ میں صف آرائی کا وقت آیا تو آپ نے مہاجرین کا پرچم حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیا اور انصار میں بنی خزرج کا علمبردار حضرت حباب بن منذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بنایا اور اَوس کا جھنڈا حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عنایت فرمایا اور خو دنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بہ نفس نفیس بدن پر ہتھیار سجا کر ڈبل زرہ پہن کر اور سر انور پر آہنی ٹوپی رکھ کر اپنے خچر پر سوار ہوئے اور اسلامی فوج کی کمان سنبھال لی۔
مسلمانوں کے دلوں میں اپنے لشکر کی اکثریت دیکھ کر کچھ گھمنڈ پیدا ہو گیا یہاں تک کہ بعض"
"لوگوں کی زبان سے بغیر ''ان شاء اللہ''کہے یہ لفظ نکل گیا کہ آج ہماری قوت کو کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ مسلمانوں کا اپنی فوج کی عددی اکثریت اور عسکری طاقت پر بھروسہ کر کے فخر کرنا خداوند تعالیٰ کو پسند نہیں آیا لہٰذا مسلمانوں پر خدا کی طرف سے یہ تازیانہ عبرت لگا کہ جب جنگ شروع ہوئی تو اچانک دشمن کی ان ٹولیوں نے جو گوریلا جنگ کے لئے پہاڑوں کی مختلف گھاٹیوں میں گھات لگائے بیٹھی تھی اس زور و شور کے ساتھ تیر اندازی شروع کردی کہ مسلمان تیروں کی بارش سے بدحواس ہو گئے اور اس ناگہانی تیر بارانی کی بوچھاڑ سے ان کی صفیں درہم برہم ہو گئیں اور تھوڑی ہی دیر میں مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور چند مہاجرین و انصار کے سوا تمام لشکر میدانِ جنگ سے فرار ہو گیا۔
اس خطرناک صورتِ حال اور نازک گھڑی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچر پر سوار برابر آگے بڑھتے چلے جا رہے تھے اور رجز کا یہ شعر بلند آواز سے پڑھ رہے تھے۔"
" انا النبی لا کذب انا ابن عبدالمطلب"
"یعنی میں نبی ہوں یہ کوئی جھوٹی بات نہیں، میں عبدالمطلب کا فرزند ہوں۔
بالآخر حضور کے حکم پر حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بآواز بلند بھاگے ہوئے مسلمانوں کو پکارا اور یا معشر الانصار یا اصحاب بیعۃ الرضوان کہہ کر للکارا۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ للکار اور پکار سن کر تمام جاں نثار مسلمان پلٹ پڑے اور پرچم نبوت کے نیچے جمع ہو کر ایسی جاں نثاری کے ساتھ داد شجاعت دینے لگے کہ دم زدن میں میدانِ جنگ کا نقشہ ہی پلٹ گیا اور یہ نتیجہ نکلا کہ شکست کے بعد مسلمان فتح مند ہو گئے اور پرچم اسلام سربلند ہوگیا، ہزاروں کفار گرفتار ہو گئے اور بہت سے تلوار کا لقمہ بن گئے اور بے شمار مالِ غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آیا اور کفارِ عرب کی طاقت و شوکت کا جنازہ نکل گیا۔
جنگ حنین میں مسلمانوں کے اپنی کثرت تعداد پر غرور کے انجام میں شکست اور پھر فتح و"
نصرت کا حال خداوند ذوالجلال نے قرآن کریم میں ان الفاظ سے ذکر فرمایا ہے کہ:
لَقَدْ نَصَرَکُمُ اللہُ فِیۡ مَوَاطِنَ کَثِیۡرَۃٍ ۙ وَّیَوْمَ حُنَیۡنٍ ۙ اِذْ اَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنۡکُمْ شَیْـًٔا وَّضَاقَتْ عَلَیۡکُمُ الۡاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیۡتُمۡ مُّدْبِرِیۡنَ ﴿ۚ25﴾ثُمَّ اَنۡزَلَ اللہُ سَکِیۡنَتَہٗ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ وَعَلَی الْمُؤْمِنِیۡنَ وَاَنۡزَلَ جُنُوۡدًا لَّمْ تَرَوْہَا ۚ وَعَذَّبَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ؕ وَ ذٰلِکَ جَزَآءُ الْکٰفِرِیۡنَ ﴿26﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔بے شک اللہ نے بہت جگہ تمہاری مدد کی اور حنین کے دن جب تم اپنی کثرت پر اِترا گئے تھے تو وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین اتنی وسیع ہو کر تم پر تنگ ہو گئی پھر تم پیٹھ دے کر پھر گئے پھر اللہ نے اپنی تسکین اتاری اپنے رسول پر اور مسلمانوں پر اور وہ لشکر اتارے جو تم نے نہ دیکھے اور کافروں کو عذاب دیا اور منکروں کی یہی سزا ہے۔ (پ10،التوبہ:26.25)
جنگ حنین کا یہ واقعہ دلیل ہے کہ مسلمانوں کو میدانِ جنگ میں فتح و کامرانی فوجوں کی کثرت اور سامانِ جنگ کی فراوانی سے نہیں ملتی۔ بلکہ فتح و نصرت کا دارومدار درحقیقت پروردگار کے فضل عظیم پر ہے۔ اگر وہ رب کریم اپنا فضل عظیم فرما دے تو چھوٹے سے چھوٹا لشکر بڑی سے بڑی فوج پر غالب ہو کر مظفر و منصور ہو سکتا ہے اور اگر اس کا فضل و کرم شامل حال نہ ہو تو بڑے سے بڑا لشکر چھوٹی سے چھوٹی فوج سے مغلوب ہو کر شکست کھا جاتا ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو لازم ہے کہ کبھی بھی اپنے لشکر کی کثرت پر اعتماد نہ رکھیں بلکہ ہمیشہ خداوند قدوس کے فضل و کرم پر بھروسہ رکھیں۔"
واللہ تعالیٰ اعلم۔
ہجرت کی رات حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دولت خانہ سے نکل کر مقام ''حزورہ''کے پاس کھڑے ہو گئے اور بڑی حسرت کے ساتھ ''کعبہ مکرمہ''کو دیکھااور فرمایا کہ اے شہر مکہ! تو مجھ کو تمام دنیا سے زیادہ پیارا ہے اگر میری قوم مجھ کو تجھ سے نہ نکالتی تو میں تیرے
سوا اور کسی جگہ سکونت پذیر نہ ہوتا۔ پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پہلے ہی قرار داد ہوچکی تھی، وہ بھی اسی جگہ آگئے اور اس خیال سے کہ کفار ہمارے قدموں کے نشان سے ہمارا راستہ پہچان کر ہمارا پیچھا نہ کریں پھر یہ بھی دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پائے نازک زخمی ہو گئے ہیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کو اپنے کندھوں پر سوار کرلیا اور اس طرح خار دار جھاڑیوں اور نوک دار پتھروں والی پہاڑیوں کو روندتے ہوئے اسی رات غارِ ثور پہنچے۔
(مدارج النبوۃ، بحث ''غارِ ثور'' ج۲، ص ۵۸)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہلے خود غار میں داخل ہوئے اور اچھی طرح غار کی صفائی کی اور اپنے کپڑوں کو پھاڑ پھاڑ کر غار کے تمام سوراخوں کو بند کیا پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غار کے اندر تشریف لے گئے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گود میں اپنا سر مبارک رکھ کر سو گئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک سوراخ کو اپنی ایڑی سے بند کررکھا تھا سوراخ کے اندر سے ایک سانپ نے بار بار یارِ غار کے پاؤں میں کاٹا۔ مگر جاں نثار نے اس خیال سے پاؤں نہیں ہٹایا کہ رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب ِ راحت میں خلل نہ پڑجائے۔ مگر درد کی شدت سے یارِ غار کے آنسوؤں کی دھار کے چند قطرات سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے رخسار پر نثار ہو گئے۔ جس سے رحمتِ عالم بیدار ہو گئے اور اپنے یارِ غار کو روتا دیکھ کر بے قرار ہو گئے۔ پوچھا ابوبکر کیا ہوا؟ عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے سانپ نے کاٹ لیا ہے یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے زخم پر اپنا لعاب ِ دہن لگا دیا، جس سے فوراً ہی سارا درد جاتا رہا اور زخم بھی اچھا ہو گیا۔ تین رات حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اس غار میں رونق افروز رہے۔ کفار مکہ نے آپ کی تلاش میں مکّہ کا چپہ چپہ چھان مارا۔ یہاں تک کہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے غار ثور تک پہنچ گئے مگر غار کے منہ پر حفاظتِ خداوندی کا پہرہ لگا ہوا تھا۔ یعنی غار کے منہ پر مکڑی نے جالا تن دیا تھا اور کنارے پر کبوتری نے انڈے دے
رکھے تھے یہ منظر دیکھ کر کفار آپس میں کہنے لگے کہ اگر اس غار میں کوئی انسان موجود ہوتا تو نہ مکڑی جالا تنتی، نہ کبوتری یہاں انڈے دیتی۔ کفار کی آہٹ پا کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کچھ گھبرا گئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اب ہمارے دشمن اس قدر قریب آگئے ہیں کہ اگر وہ اپنے قدموں پر نظر ڈالیں گے تو ہم کو دیکھ لیں گے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللہَ مَعَنَا
" مت گھبراؤ، خدا ہمارے ساتھ ہے۔( پ10،التوبہ:40 )
پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر سکینہ اتر پڑا کہ وہ بالکل ہی مطمئن اور بے خوف ہو گئے اور چوتھے دن یکم ربیع الاول دو شنبہ کے روز حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام غار سے باہر تشریف لائے اور مدینہ منورہ کو روانہ ہو گئے۔ اس غار ِ ثور کے واقعہ کو قرآن مجید نے ان لفظوں میں بیان فرمایا ہے:۔"
اِلَّا تَنۡصُرُوۡہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللہُ اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ثَانِیَ اثْنَیۡنِ اِذْ ہُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوۡلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللہَ مَعَنَا ۚ فَاَنۡزَلَ اللہُ سَکِیۡنَتَہٗ عَلَیۡہِ وَاَیَّدَہٗ بِجُنُوۡدٍ لَّمْ تَرَوْہَا وَجَعَلَ کَلِمَۃَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوا السُّفْلٰی ؕ وَکَلِمَۃُ اللہِ ہِیَ الْعُلْیَا ؕ وَاللہُ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ ﴿40﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔ اگر تم محبوب کی مدد نہ کرو تو بیشک اللہ نے ان کی مدد فرمائی جب کافروں کی شرارت سے انہیں باہر تشریف لے جانا ہوا صرف دو جان سے جب وہ دونوں غار میں تھے جب اپنے یار سے فرماتے تھے غم نہ کھا بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے تو اللہ نے اس پر اپنا سکینہ اتارا اور ان فوجوں سے اس کی مدد کی جو تم نے نہ دیکھیں اور کافروں کی بات نیچے ڈالی اللہ ہی کا بول بالا ہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔(پ10،التوبہ:40)
درسِ ہدایت:۔ یہ آیت اور غارِ ثور کا واقعہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی"
"فضیلت اور ان کی محبت و جاں نثاریئ رسول کا وہ نشانِ اعظم ہے جو قیامت تک آفتاب ِ عالمتاب کی طرح درخشاں اور روشن رہے گا۔ کیوں نہ ہو کہ پروردگار نے انہیں اپنے رسول کے ''یارِ غار'' ہونے کی سند مستند قرآن میں دے دی ہے جو کبھی ہرگز ہرگز نہیں مٹ سکتی ہے۔
سبحان اللہ! حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ وہ فضل و شرف ہے جو نہ کسی کو ملا ہے نہ کسی کو ملے گا۔"
" مرتبہ حضرت صدیق کا ہو کس سے بیاں
ہر فضیلت کے وہ جامع ہیں نبوت کے سوا"
"منافقین کو یہ تو جراء ت ہوتی نہ تھی کہ علانیہ اسلام کی مخالفت کرتے۔ مگر وہ لوگ درپردہ اسلام کی بیخ کنی میں ہمیشہ مصروف رہتے اور اس کوشش میں لگے رہتے تھے کہ مسلمانوں میں اختلاف اور پھوٹ ڈال کر اسلام کو نقصان پہنچائیں۔ چنانچہ اس مقصد کی تکمیل کے لئے جہاں ان بے ایمانوں نے دوسری بہت سی فتنہ سامانیاں برپا کررکھی تھیں، ان میں سے ایک واقعہ رجب ۹ھ میں بھی رونما ہوا جو درحقیقت نہایت ہی خطرناک سازش تھی۔ مگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ عزوجل نے منافقین کی اس خوفناک مہم سے بذریعہ وحی آگاہ فرمادیا اور دشمنانِ اسلام کی ساری اسکیموں پر پانی پھر گیا۔
اس کا واقعہ یہ ہے کہ رجب ۹ ھ میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع ملی کہ ''تبوک''کے میدان میں جو مدینہ منورہ سے چودہ منزل پر دمشق کے راستہ پر واقع ہے۔ ''ہرقل''شاہِ روم مسلمانوں کے مقابلہ کے لئے لشکر جمع کررہا ہے آپ نے عرب میں سخت گرمی اور قحط کے باوجود جہاد کے لئے اعلان فرما دیا اور مسلمان جوق در جوق شوقِ جہاد میں مدینہ کے اندر جمع ہونے لگے۔"
"ابھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تیاریوں ہی میں مصروف تھے کہ منافقین نے وقت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سوچا کہ مسجد ''قبا''کے مقابلہ میں اس حیلہ سے ایک مسجد تیار کریں کہ جو لوگ کسی عذر کی وجہ سے مسجد نبوی میں نہ جا سکیں وہ لوگ یہاں نماز پڑھ لیا کریں اور منافقوں کا خاص مقصد یہ تھا کہ اس مسجد کو اسلام کی تخریب کاری کے لئے اڈہ بنا کر اور اس میں جمع ہو کر اسلام کے خلاف سازشیں کرتے اور اسکیمیں بناتے رہیں اور شاہ ِ روم کی خفیہ امدادوں اور اسلحہ وغیرہ کے ذخیروں کا اس مسجد کو مرکز بنائیں اور یہیں سے اسلام کے خلاف ریشہ دوانیوں کا جال پورے عالم اسلام میں بچھاتے رہیں ۔یہ سوچ کر منافقین خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ ہم لوگوں نے ضعیفوں اور کمزوروں کے لئے قریب میں ہی ایک مسجد بنائی ہے اب ہماری تمنا ہے کہ حضور وہاں چل کر اس میں نماز پڑھ دیں تو وہ مسجد عنداللہ مقبول ہوجائے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس وقت تو میں ایک بہت ہی اہم جہاد کے لئے مدینہ سے باہر جا رہا ہوں، واپسی پر دیکھا جائے گا۔
مگر جب آپ بخیریت اور فتح و کامرانی کے ساتھ مدینہ واپس تشریف لائے تو وحی الٰہی کے ذریعہ اس مسجد کی تعمیر کا حقیقی سبب آپ کو معلوم ہوچکا تھا اور منافقین کی خفیہ اور خطرناک سازش بے نقاب ہوچکی تھی۔ چنانچہ آپ نے مدینہ منورہ پہنچتے ہی سب سے پہلے یہ کام کیاکہ صحابہ کرام علیہم الرضوان کی ایک جماعت کو یہ حکم دے کر وہاں بھیجا کہ وہ وہاں جائیں اور اس مسجد کو آگ لگا کر خاک سیاہ کردیں۔
چونکہ اس مسجد کی بنیاد حقیقتاً تقویٰ اور للہیت کی جگہ تفریق بین المسلمین اور تخریب اسلام پر رکھی گئی تھی اس لئے بلاشبہ وہ اس کی مستحق تھی کہ اس کو جلا کر برباد کردیا جائے اور درحقیقت اس تخریب کاری کے اڈہ کو مسجد کہنا حقیقت کے خلاف تھا اس لئے قرآن مجید نے اس حقیقتِ حال کو ظاہر کرتے ہوئے اعلان فرما دیا کہ یہ مسجدِ تقویٰ نہیں بلکہ ''مسجد ضرار''کہلانے کی مستحق ہے"
ملاحظہ فرمایئے اس مسجد کے بارے میں قرآن مجید کے غضب ناک تیور اور پرُجلال الفاظ:
وَالَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَّکُفْرًا وَّتَفْرِیۡقًۢا بَیۡنَ الْمُؤْمِنِیۡنَ وَ اِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللہَ وَرَسُوۡلَہٗ مِنۡ قَبْلُ ؕ وَلَیَحْلِفُنَّ اِنْ اَرَدْنَاۤ اِلَّا الْحُسْنٰی ؕ وَاللہُ یَشْہَدُ اِنَّہُمْ لَکٰذِبُوۡنَ ﴿107﴾لَاتَقُمْ فِیۡہِ اَبَدًا ؕ لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَی التَّقْوٰی مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ اَحَقُّ اَنۡ تَقُوۡمَ فِیۡہِ ؕ فِیۡہِ رِجَالٌ یُّحِبُّوۡنَ اَنۡ یَّتَطَہَّرُوۡا ؕ وَاللہُ یُحِبُّ الْمُطَّہِّرِیۡنَ ﴿108﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔ اور وہ جنہوں نے مسجد بنائی نقصان پہنچانے کو اور کفر کے سبب اور مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کو اور اس کے انتظار میں جو پہلے سے اللہ اور اس کے رسول کا مخالف ہے اور وہ ضرور قسمیں کھائیں گے ہم نے تو بھلائی چاہی اور اللہ گواہ ہے کہ وہ بیشک جھوٹے ہیں اس مسجد میں تم کبھی کھڑے نہ ہونا بیشک وہ مسجد کہ پہلے ہی دن سے جس کی بنیاد پرہیزگاری پر رکھی گئی ہے وہ اس قابل ہے کہ تم اس میں کھڑے ہو اس میں وہ لوگ ہیں کہ خوب ستھرا ہونا چاہتے ہیں اور ستھرے اللہ کو پیارے ہیں۔(پ11،التوبۃ:107)
درسِ ہدایت:۔ایک ہی عمل،عمل کرنے والے کی نیت کے فرق سے اچھا بھی ہو سکتا ہے اور برا بھی، طیب بھی بن سکتا ہے اور خبیث بھی۔
مسجد کی تعمیر ایک عمل خیر ہے مگر جب ''لوجہ اللہ'' کی نیت ہو تو ثواب ہی ثواب ہے اور اگر ''شرو فساد'' کی نیت ہو تو عذاب ہی عذاب ہے۔ مسجد قبا اور مسجد نبوی کی تعمیر مقبول بارگاہِ الٰہی اور باعث ِ ثواب ہوئی۔ کیونکہ ان دونوں مسجدوں کے بنانے والوں کی نیت خدا کی رضا اور ان د؛ونوں مسجدوں کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی تھی اور منافقوں کی بنائی ہوئی مسجد مردود بارگاہ ِ الٰہی ہو گئی اور سراسر باعث ِ عذاب بن گئی کیونکہ اس مسجد کو تعمیر کرنے والوں کی نیت رضائے الٰہی نہیں تھی اور اس مسجد کی بنیاد تقویٰ پر نہیں رکھی گئی تھی بلکہ ان لوگوں کی غرض فاسد تخریب ِ اسلام اور تفریق بین المسلمین تھی، تو یہ مسجد قطعاً غیر مقبول ہو گئی۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ"
"علیہ وسلم کو اس مسجد میں قدم رکھنے کی بھی ممانعت فرما دی اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس مسجد کو نہ صرف ویران فرما دیا بلکہ اس کو جلا کر نیست و نابود کرڈالا۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس زمانے میں بھی اگر کسی مسجد کو گمراہ فرقوں والے اہل حق کے خلاف کمین گاہ اور جاسوسی کا مرکز بنا کر اہل حق کے خلاف فتنہ پردازیاں کرنے لگیں تو مسلمانوں پر لازم ہے کہ اس مسجد میں نماز کے لئے نہ جائیں بلکہ اس کا بائیکاٹ کر کے اس کو ویران کردیں ۔اور ہرگز ہرگز نہ اس مسجد میں نماز پڑھیں، نہ اس کی تعمیر و آبادکاری میں کوئی امداد و تعاون کریں۔
یا پھر تمام مسلمان مل کر گمراہ فرقوں کو اس مسجد سے بے دخل کردیں اور اس مسجد کو اپنے قبضے میں لے کر گمراہ کا تسلط ختم کر دیں تاکہ ان لوگوں کے شر و فساد اور فتنہ انگیزیوں سے مسجد ہمیشہ کے لئے پاک ہوجائے۔"
واللہ تعالیٰ اعلم۔
فرعون جب اپنے لشکروں کے ساتھ دریا میں غرق ہونے لگا تو ڈوبتے وقت تین مرتبہ اس نے اپنے ایمان کا اعلان کیا مگر اس کا ایمان مقبول نہیں ہوا اور وہ کفر ہی کی حالت میں مرا۔ لہٰذا بعض لوگوں نے جو یہ کہا ہے کہ فرعون مومن ہو کر مرا، ان کا قول قابلِ اعتبار نہیں ہے۔
" (تفسیر صاوی،ج۳، ص ۸۹۱،پ۱۱،یونس:۹۰)"
ڈوبتے وقت ایک مرتبہ فرعون نے ''اٰمَنْتُ'' کہا یعنی میں ایمان لایا۔ دوسری مرتبہ
اَنَّہ، لَآ اِلٰہَ اِلاَّ الَّذِیٓ اٰمَنَتْ بِہٖ بَنُوْ اِسْرَآئِیْلَ
کہا یعنی اس اللہ کے سوا جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے دوسرا کوئی خدا نہیں ہے اور تیسری بار یہ کہا کہ
وَ اَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیۡنَ ﴿۹۰﴾
یعنی میں مسلمان ہوں۔
(پ۱۱، یونس:۹۰)
روایت ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے فرعون کے منہ میں خداوند تعالیٰ کے حکم سے
کیچڑ بھردی اور وہ اچھی طرح کلمہ ایمان ادا نہیں کرسکا۔
" (تفسیر جلالین،ص ۱۷۸،پ۱۱، یونس:۹۰)"
یہ بھی ایک حکایت منقول ہے کہ جب فرعون تختِ سلطنت پر بیٹھ کر خدائی کا دعویٰ کرتا تھا تو حضرت جبرئیل علیہ السلام آدمی کی شکل میں اس کے پاس یہ فتویٰ طلب کرنے کے لئے تشریف لے گئے کہ کیا فرماتے ہیں بادشاہ اس غلام کے بارے میں جو اپنے مولیٰ کے دیئے ہوئے مال اور اس کی نعمتوں میں پلا بڑھا پھر اس نے اپنے مولیٰ کی ناشکری کی اور اس کے حقوق کا انکار کرتے ہوئے خود اپنی سیادت کا اعلان کردیا بلکہ خدائی کا دعویٰ کرنے لگا تو فرعون نے اس کا جواب یہ لکھا کہ ایسا غلام جو اپنے مولیٰ کی ناشکری کر کے اپنے مولیٰ کا باغی ہو گیا اس کی سزا یہی ہے کہ وہ دریا میں غرق کردیا جائے چنانچہ جب ڈوبتے وقت فرعون پر موت کا غرغرہ سوار ہو گیا تو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے فرعون کا وہ دستخطی فتویٰ اس کو دکھایا اس کے بعد فرعون مر گیا۔
" (تفسیر صاوی،ج۳، ص ۸۹۱، پ۱۱، یونس:۹۰)"
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ عظیم میں اس واقعہ کا ذکر فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:
وَجٰوَزْنَا بِبَنِیۡۤ اِسْرَآءِیۡلَ الْبَحْرَ فَاَتْبَعَہُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُوۡدُہٗ بَغْیًا وَّ عَدْوًا ؕ حَتّٰۤی اِذَاۤ اَدْرَکَہُ الْغَرَقُ ۙ قَالَ اٰمَنۡتُ اَنَّہٗ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا الَّذِیۡۤ اٰمَنَتْ بِہٖ بَنُوۡۤا اِسْرَآءِیۡلَ وَ اَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیۡنَ ﴿90﴾آٰلۡـٰٔنَ وَقَدْ عَصَیۡتَ قَبْلُ وَکُنۡتَ مِنَ الْمُفْسِدِیۡنَ ﴿91﴾فَالْیَوْمَ نُنَجِّیۡکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوۡنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰیَۃً ؕ وَ اِنَّ کَثِیۡرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰیٰتِنَا لَغٰفِلُوۡنَ ﴿٪92﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔اور ہم بنی اسرائیل کو دریا پار لے گئے تو فرعون اور اس کے لشکروں نے ان کا پیچھا کیا سرکشی اور ظلم سے یہاں تک کہ جب اسے ڈوبنے نے آلیا بولا میں ایمان لایا کہ کوئی سچا معبود نہیں سوا اس کے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور میں مسلمان ہوں کیا اب اور پہلے سے نافرمان رہا اور تو فسادی تھا آج ہم تیری لاش کوا ترا دیں گے کہ تو اپنے پچھلوں
"کے لئے نشانی ہو اور بیشک لوگ ہماری آیتوں سے غافل ہیں۔ (پ11، یونس90)
فرعون کے غرق ہوجانے کے بعد بھی بنی اسرائیل پر اس کی ہیبت کا اس درجہ دبدبہ چھایا ہوا تھا کہ لوگوں کو فرعون کی موت میں شک و شبہ ہونے لگا تو اللہ تعالیٰ نے فرعون کی لاش کو خشکی پر پہنچا دیا اور دریا کی موجوں نے اس کی لاش کو ساحل پر ڈال دیا تاکہ لوگ اس کو دیکھ کر اس کی موت کا یقین بھی کرلیں اور اس کے انجام سے عبرت بھی حاصل کریں۔
مشہور ہے کہ اس کے بعد ہی سے پانی نے لاشوں کو قبول کرنا چھوڑ دیا اور ہمیشہ پانی لاشوں کو اوپر تیراتا رہتا ہے یا کنارے پر پھینک دیتا ہے۔"
" (تفسیر صاوی، ج۳، ص ۸۹۲،پ۱۱، یونس:۹۲)"
"درسِ ہدایت:۔فرعون نے باوجودیکہ تین مرتبہ اپنے ایمان کا اعلان کیا مگر اس کا ایمان پھر بھی مقبول نہیں ہوا اس کی کیا وجہ ہے؟ تو اس کے بارے میں مفسرین نے تین وجہیں بیان فرمائیں ہیں:
(اول)یہ کہ فرعون نے اپنے ایمان کا اقرار اس وقت کیا جب عذابِ الٰہی اس کے سر پر مسلط ہو گیا اور موت کا غرغرہ اس پر طاری ہو گیا اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ"
فَلَمْ یَکُ یَنۡفَعُہُمْ اِیۡمَانُہُمْ لَمَّا رَاَوْا بَاۡسَنَا ؕ
"یعنی اللہ تعالیٰ کا یہ دستور ہے کہ جب کسی قوم پر عذاب آجاتا ہے تو اس وقت ان کا ایمان لانا ان کو کچھ بھی نفع نہیں پہنچاتا۔(پ24،المومن:85 )
چونکہ فرعون، عذاب آجانے کے بعد، جب موت کا غرغرہ سوار ہو گیا، اس وقت ایمان لایا اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرعون کے ایمان کو قبول نہیں فرمایا اور حضرت جبرائیل علیہ السلام کو حکم دیا کہ اس کے منہ میں کیچڑ بھردیں اور یہ کہہ دیں کہ اب تو ایمان لایا ہے حالانکہ اس سے پہلے تو ہمیشہ ایمان لانے سے انکار کرتا رہا اور لوگوں کو گمراہ کر کے فساد پھیلاتا رہا۔"
(دوم)دوسرا قول یہ ہے کہ خدا کی توحید کے ساتھ رسول کی رسالت پر بھی ایمان لانا ضروری ہے اور فرعون نے
لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا الَّذِیۡۤ اٰمَنَتْ بِہٖ بَنُوۡۤا اِسْرَآءِیۡلَ
"کہا یعنی صرف خدا کی وحدانیت کا اقرار کیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی رسالت پر ایمان نہیں لایا۔ اس لئے وہ مومن نہ ہو سکا۔ (پ11، یونس:90)
(سوم)تیسر اقول یہ ہے کہ فرعون نے ایمان لانے کے قصد سے کلمہ ایمان کا تلفظ نہیں کیاتھا بلکہ صرف غرق سے بچنے کے لئے یہ کلمہ کہا تھا جیسا کہ اس کی عادت تھی کہ ہر مصیبت اور عذاب نازل ہونے کے وقت وہ گڑگڑا کر خدا کی طرف رجوع کرتا تھا۔ لیکن مصیبت ٹل جانے کے بعد پھر"
اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی
"کہہ کر اپنی خدائی کا ڈنکا بجایا کرتا تھا۔(پ۳۰،النّٰزعٰت: ۲۴)
معلوم ہوا کہ صرف کلمہ اسلام کا تلفظ جب کہ ایمان لانے کی نیت نہ ہو بلکہ جان بچانے کے لئے کہا ہو، ایمان کے لئے کافی نہیں ہے۔ لہٰذا فرعون کا ایمان مقبول نہیں ہوا اور صحیح قول یہی ہے کہ فرعون کفر ہی کی حالت میں غرق ہو کر مرا۔ اس پر قرآن مجید کی آیتیں اور حدیثیں شاہد عدل ہیں۔ اسی لئے علامہ صاوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر میں تحریر فرمایا کہ جن لوگوں نے یہ کہا کہ فرعون مومن ہو کر مرا، ان لوگوں کا قول قابلِ اعتبار نہیں ہے۔"
واللہ تعالیٰ اعلم۔
حضرت نوح علیہ السلام ساڑھے نو سو برس تک اپنی قوم کو خدا کا پیغام سناتے رہے مگر ان کی بدنصیب قوم ایمان نہیں لائی بلکہ طرح طرح سے آپ کی تحقیر و تذلیل کرتی رہی اور قسم قسم کی اذیتوں اور تکلیفوں سے آپ کو ستاتی رہی یہاں تک کہ کئی بار ان ظالموں نے آپ کو اس قدر زدو کوب کیا کہ آپ کو مردہ خیال کر کے کپڑوں میں لپیٹ کر مکان میں ڈال دیا۔ مگر آپ پھر مکان سے نکل کر دین کی تبلیغ فرمانے لگے۔ اسی طرح بار ہا آپ کا گلا گھونٹتے رہے یہاں تک کہ آپ کا دم گھٹنے لگا اور آپ بے ہوش ہوجاتے مگر ان ایذاؤں اور مصیبتوں پر بھی آپ یہی
"دعا فرمایا کرتے تھے کہ اے میرے پروردگار! تو میری قوم کو بخش دے اور ہدایت عطا فرما کیونکہ یہ مجھ کو نہیں جانتے ہیں۔
اور قوم کا یہ حال تھا کہ ہر بوڑھا باپ اپنے بچوں کو یہ وصیت کر کے مرتا تھا کہ نوح (علیہ السلام) بہت پرانے پاگل ہیں اس لئے کوئی ان کی باتوں کو نہ سنے اور نہ ان کی باتوں پر دھیان دے ،یہاں تک کہ ایک دن یہ وحی نازل ہوگئی کہ اے نوح ! اب تک جو لوگ مومن ہوچکے ہیں ان کے سوا اور دوسرے لوگ کبھی ہرگز ہرگز ایمان نہیں لائیں گے۔ اس کے بعد آپ اپنی قوم کے ایمان لانے سے ناامید ہوگئے ۔ اور آپ نے اس قوم کی ہلاکت کے لئے دعا فرمادی۔ اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ آپ ایک کشتی تیار کریں چنانچہ ایک سو برس میں آپ کے لگائے ہوئے ساگوان کے درخت تیار ہو گئے اور آپ نے ان درختوں کی لکڑیوں سے ایک کشتی بنائی جو ۸۰ گز لمبی اور ۵۰ گز چوڑی تھی اور اس میں تین درجے تھے، نچلے طبقے میں درندے، پرندے اور حشرات الارض وغیرہ اور درمیانی طبقے میں چوپائے وغیرہ جانوروں کے لئے اور بالائی طبقے میں خود اور مومنین کے لئے جگہ بنائی۔ اس طرح یہ شاندار کشتی آپ نے بنائی اور ایک سو برس کی مدت میں یہ تاریخی کشتی بن کر تیار ہوئی جو آپ کی اور مومنوں کی محنت اور کاری گری کا ثمرہ تھی۔ جنہوں نے بے پناہ محنت کر کے یہ کشتی بنائی تھی۔
جب آپ کشتی بنانے میں مصروف تھے تو آپ کی قوم آپ کا مذاق اُڑاتی تھی۔ کوئی کہتا کہ اے نوح! اب تم بڑھئی بن گئے؟ حالانکہ پہلے تم کہا کرتے تھے کہ میں خدا کا نبی ہوں۔ کوئی کہتا اے نوح! اس خشک زمین میں تم کشتی کیوں بنا رہے ہو؟ کیا تمہاری عقل ماری گئی ہے؟ غرض طرح طرح کا تمسخر و استہزاء کرتے اور قسم قسم کی طعنہ بازیاں اور بدزبانیاں کرتے رہتے تھے اور آپ ان کے جواب میں یہی فرماتے تھے کہ آج تم ہم سے مذاق کرتے ہو لیکن مت گھبراؤ جب خدا کا عذاب بصورتِ طوفان آجائے گا تو ہم تمہارا مذاق اُڑائیں گے۔"
"جب طوفان آگیا تو آپ نے کشتی میں درندوں، چرندوں اور پرندوں اور قسم قسم کے حشرات الارض کا ایک ایک جوڑا نر ومادہ سوار کرا دیا اور خود آپ اور آپ کے تینوں فرزند یعنی حام، سام اور یافث اور ان تینوں کی بیویاں اور آپ کی مومنہ بیوی اور۷۲ مومنین مرد و عورت کل ۸۰ انسان کشتی میں سوار ہو گئے اور آپ کی ایک بیوی ''واعلہ'' جو کافرہ تھی، اور آپ کا ایک لڑکا جس کا نام ''کنعان'' تھا، یہ دونوں کشتی میں سوار نہیں ہوئے اور طوفان میں غرق ہو گئے۔
روایت ہے کہ جب سانپ اور بچھو کشتی میں سوار ہونے لگے تو آپ نے ان دونوں کو روک دیا۔ تو ان دونوں نے کہا کہ اے اللہ کے نبی! آپ ہم دونوں کو سوار کرلیجئے۔ ہم عہد کرتے ہیں کہ جو شخص"
سَلاَمٌ عَلٰی نُوْحٍ فِی الْعٰلَمِیْنَ
"پڑھ لے گا ہم دونوں اس کو ضرر نہیں پہنچائیں گے تو آپ نے ان دونوں کو بھی کشتی میں بٹھالیا۔
طوفان میں کشتی والوں کے سوا ساری قوم اور کل مخلوق غرق ہو کر ہلاک ہو گئی اور آپ کی کشتی ''جودی پہاڑ'' پر جا کر ٹھہر گئی اور طوفان ختم ہونے کے بعد آپ مع کشتی والوں کے زمین پر اُتر پڑے اور آپ کی نسل میں بے پناہ برکت ہوئی کہ آپ کی اولاد تمام روئے زمین پر پھیل کر آباد ہوگئی اسی لئے آپ کا لقب ''آدم ثانی'' ہے۔"
(تفسیر صاوی،پ۱۲، ھود: ۳۶۔۳۹)
قرآن مجید میں خداوند (عزوجل)نے اس واقعہ کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ:
وَ اُوۡحِیَ اِلٰی نُوۡحٍ اَنَّہٗ لَنۡ یُّؤْمِنَ مِنۡ قَوْمِکَ اِلَّا مَنۡ قَدْ اٰمَنَ فَلَا تَبْتَئِسْ بِمَا کَانُوۡا یَفْعَلُوۡنَ ﴿ۚ36﴾وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا وَلَا تُخَاطِبْنِیۡ فِی الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا ۚ اِنَّہُمۡ مُّغْرَقُوۡنَ ﴿37﴾ وَیَصْنَعُ الْفُلْکَ ۟ وَکُلَّمَا مَرَّ عَلَیۡہِ مَلَاٌ مِّنۡ قَوْمِہٖ سَخِرُوۡا مِنْہُ ؕ قَالَ اِنۡ تَسْخَرُوۡا مِنَّا فَاِنَّا نَسْخَرُ مِنۡکُمْ کَمَا تَسْخَرُوۡنَ ﴿ؕ38﴾فَسَوْفَ تَعْلَمُوۡنَ ۙ مَنۡ یَّاۡتِیۡہِ عَذَابٌ یُّخْزِیۡہِ وَیَحِلُّ عَلَیۡہِ عَذَابٌ مُّقِیۡمٌ ﴿39﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔اور نوح کو وحی ہوئی کہ تمہاری قوم سے مسلمان نہ ہوں گے مگر جتنے
ایمان لاچکے تو غم نہ کھا اس پر جو وہ کرتے ہیں اور کشتی بنا ہمارے سامنے اور ہمارے حکم سے اور ظالموں کے بارے میں مجھ سے بات نہ کرنا وہ ضرور ڈوبائے جائیں گے اور نوح کشتی بناتا ہے اور جب اس کی قوم کے سردار اس پر گزرتے اس پر ہنستے بولا اگر تم ہم پر ہنستے ہو تو ایک وقت ہم تم پر ہنسیں گے جیسا تم ہنستے ہو تو اب جان جاؤ گے کس پر آتا ہے وہ عذاب کہ اسے رسوا کرے اور اترتا ہے وہ عذاب جو ہمیشہ رہے۔(پ12، ھود: 36 ۔39)
"یوں تو اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو دوسو برس پہلے ہی بذریعہ وحی مطلع کردیا تھا کہ آپ کی قوم طوفان میں غرق کردی جائے گی۔ مگر طوفان آنے کی نشانی یہ مقرر فرما دی تھی کہ آپ کے گھر کے تنور سے پانی ابلنا شروع ہوگا۔ چنانچہ پتھر کے اس تنور سے ایک دن صبح کے وقت پانی ابلنا شروع ہو گیا اور آپ نے کشتی پر جانوروں اور انسانوں کو سوار کرانا شروع کردیا پھر زور دار بارش ہونے لگی جو مسلسل چالیس دن اور چالیس رات موسلا دھار برستی رہی اور زمین بھی جا بجا شق ہو گئی اور پانی کے چشمے پھوٹ کر بہنے لگے۔ اس طرح بارش اور زمین سے نکلنے والے پانیوں سے ایسا طوفان آگیا کہ چالیس چالیس گز اُونچے پہاڑوں کی چوٹیاں ڈوب گئیں۔
چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے کہ:۔"
حَتّٰۤی اِذَا جَآءَ اَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّوۡرُ ۙ قُلْنَا احْمِلْ فِیۡہَا مِنۡ کُلٍّ زَوْجَیۡنِ اثْنَیۡنِ وَ اَہۡلَکَ اِلَّا مَنۡ سَبَقَ عَلَیۡہِ الْقَوْلُ وَمَنْ اٰمَنَ ؕ وَمَاۤ اٰمَنَ مَعَہٗۤ اِلَّا قَلِیۡلٌ ﴿۴۰﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آیا اور تنور اُبلا ہم نے فرمایا کشتی میں سوار کرلے ہر جنس میں سے ایک جوڑا نر ومادہ اور جن پر بات پڑچکی ہے ان کے سوا اپنے گھر والوں اور باقی مسلمانوں کو اوراس کے ساتھ مسلمان نہ تھے مگر تھوڑے۔(پ۱۲،ھود:۴۰)
اور آسمان و زمین کے پانی کی فراوانی اور طغیانی کا بیان فرماتے ہوئے ارشادِ ربانی ہوا کہ:۔"
فَفَتَحْنَاۤ اَبْوَابَ السَّمَآءِ بِمَآءٍ مُّنْہَمِرٍ ﴿۫ۖ11﴾وَّ فَجَّرْنَا الْاَرْضَ عُیُوۡنًا فَالْتَقَی الْمَآءُ عَلٰۤی اَمْرٍ قَدْ قُدِرَ ﴿ۚ12﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔تو ہم نے آسمان کے دروازے کھول دیئے زور کے بہتے پانی سے اور زمین چشمے کر کے بہادی تو دونوں پانی مل گئے اس مقدار پر جو مقدر تھی۔(پ27،القمر:11)
یعنی طوفان آگیا اور ساری دنیا غرق ہو گئی۔"
(تفسیر صاوی، ج۳،ص ۹۱۳،پ۱۲، ھود:۴۲)
طوفان کتنا زور دار تھا اور طوفانی سیلاب کی موجوں کی کیا کیفیت تھی؟ اس کی منظر کشی قرآن مجید نے ان لفظوں میں فرمائی ہے:۔
وَ ہِیَ تَجْرِیۡ بِہِمْ فِیۡ مَوْجٍ کَالْجِبَالِ
"ترجمہ کنزالایمان:۔اور وہ انہیں لئے جا رہی ہے ایسی موجوں میں جیسے پہاڑ۔(پ12،ھود:42)
حضرت نوح علیہ السلام کشتی پر سوار ہو گئے اور کشتی طوفانی موجوں کے تھپیڑوں سے ٹکراتی ہوئی برابر چلی جا رہی تھی یہاں تک کہ سلامتی کے ساتھ کوہِ جودی پر پہنچ کر ٹھہر گئی۔ کشتی پر سوار ہوتے وقت حضرت نوح علیہ السلام نے یہ دعا پڑھی تھی کہ:"
بِسْمِ اللہِ مَجْرٖؔؔىھَا وَمُرْسٰىہَا ؕ اِنَّ رَبِّیْ لَغَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿41﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔اللہ کے نام پر اس کا چلنا اور اس کا ٹھہرنا بیشک میرا رب ضرور بخشنے والا مہربان ہے۔(پ12،ھود:41)
"حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی طوفان کے تھپیڑوں میں چھ ماہ تک چکر لگاتی رہی یہاں تک کہ خانہ کعبہ کے پاس سے گزری اور کعبہ مکرمہ کا سات چکر طواف بھی کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہ کشتی جودی پہاڑ پر ٹھہر گئی، جو عراق کے ایک شہر ''جزیرہ'' میں واقع ہے۔
روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر پہاڑ کی طرف یہ وحی کی کہ حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کسی"
ایک پہاڑ پر ٹھہرے گی تو تمام پہاڑوں نے تکبر کیا۔ لیکن ''جودی''پہاڑ نے تواضع اور عاجزی کا اظہار کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کو یہ شرف بخشا کہ کشتی جودی پہاڑ پر ٹھہری۔اور ایک روایت ہے کہ بہت دنوں تک اس کشتی کی لکڑیاں اور تختے باقی رہے تھے۔ یہاں تک کہ اگلی امتوں کے بعض لوگوں نے اس کشتی کے تختوں کو جودی پہاڑ پر دیکھا تھا۔محرم کی دسویں تاریخ عاشورا کے دن یہ کشتی جودی پہاڑ پر ٹھہری۔ چنانچہ اس تاریخ کو کشتی کی تمام مخلوق یعنی انسان اور وحوش و طیور وغیرہ سبھی نے شکرانہ کا روزہ رکھا اور حضرت نوح علیہ السلام نے کشتی سے اُتر کر سب سے پہلی جو بستی بسائی اس کا نام ''ثمانین''رکھا۔ عربی زبان میں ثمانین کے معنی ''اَسی'' ہوتے ہیں ،چونکہ کشتی میں ۸۰ آدمی تھے اس لئے اس گاؤں کا نام ''ثمانین''رکھ دیا گیا۔
(تفسیر صاوی، ج۳، ص ۹۱۵۔۹۱۴،پ۱۲، ھود :۴۴)
وَاسْتَوَتْ عَلَی الْجُوۡدِیِّ وَقِیۡلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۴۴﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔ اور کشتی کوہ جودی پر ٹھہری اور فرمایا گیا کہ دور ہوں بے انصاف لوگ۔(پ12،ھود:44)
حضرت نوح علیہ السلام کا ایک بیٹا جس کا نام ''کنعان'' تھا۔ وہ صدقِ دل سے آپ پر ایمان نہیں لایا تھا، بلکہ وہ منافق تھا۔ اور اپنے کفر کو چھپائے رکھتا تھا۔ لیکن طوفان کے وقت اس نے اپنے کفر کو ظاہر کردیا۔ حضرت نوح علیہ السلام نے کشتی پر سوار ہوتے وقت اس کو بلایا اور فرمایا کہ میرے پیارے بیٹے! تم کشتی پر سوار ہوجاؤ اور کافروں کا ساتھ چھوڑ دو تو اس نے کہا کہ میں طوفان میں پہاڑوں پر چڑھ کر پناہ لے لوں گا تو آپ نے بڑی دل سوزی کے ساتھ فرمایا کہ بیٹا! آج خدا کے عذاب سے کوئی کسی کو نہیں بچا سکتا۔ ہاں جس پر خداوند کریم اپنا رحم فرمائے بس وہی بچ سکتا ہے۔ باپ بیٹے میں یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ ایک زور دار موج آئی اور کنعان غرق ہو گیا اور ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ کنعان ایک بلند پہاڑ پر چڑھ کر ایک غار
میں چھپ گیا اور غار کے تمام سوراخوں کو بند کرلیا مگر جب طوفان کی موج اس پہاڑ کی چوٹی سے ٹکرائی تو غار میں پانی بھر گیا ۔اس طرح کنعان اپنے بول و براز میں لت پت ہو کر غرق ہو گیا۔
" (تفسیر صاوی، ج۳،ص ۹۱۴،پ۱۲،ھود:۴۳)"
قرآن مجید میں اللہ عزوجل نے اس واقعہ کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ:
وَنَادٰی نُوۡحُ ۣابْنَہٗ وَکَانَ فِیۡ مَعْزِلٍ یّٰـبُنَیَّ ارْکَبۡ مَّعَنَا وَلَا تَکُنۡ مَّعَ الْکٰفِرِیۡنَ ﴿42﴾قَالَ سَاٰوِیۡۤ اِلٰی جَبَلٍ یَّعْصِمُنِیۡ مِنَ الْمَآءِ ؕ قَالَ لَاعَاصِمَ الْیَوْمَ مِنْ اَمْرِ اللہِ اِلَّا مَن رَّحِمَ ۚ وَحَالَ بَیۡنَہُمَا الْمَوْجُ فَکَانَ مِنَ الْمُغْرَقِیۡنَ ﴿43﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔ اور نوح نے اپنے بیٹے کو پکارا اور وہ اس سے کنارے تھا اے میرے بچے ہمارے ساتھ سوار ہوجا اور کافروں کے ساتھ نہ ہو بولا اب میں کسی پہاڑ کی پناہ لیتا ہوں وہ مجھے پانی سے بچالے گا کہا آج اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں مگر جس پر وہ رحم کرے اور اُن کے بیچ میں موج آڑے آئی تو وہ ڈوبتوں میں رہ گیا۔ (پ12،ھود:42)
بیٹے کو اپنے سامنے اس طرح غرقاب ہوتے دیکھ کر حضرت نوح علیہ السلام کو بڑا صدمہ و رنج پہنچا اور آپ نے جناب باری تعالیٰ میں عرض کیا کہ اے میرے پروردگار! میرا بیٹا کنعان تو میرے گھر والوں میں سے ہے اور تیرا وعدہ سچا ہے اور تو احکم الحاکمین ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نوح! یہ آپ کا بیٹا کنعان آپ کے ان گھر والوں میں سے نہیں ہے جن کو بچانے کاہم نے وعدہ کیا تھالہذا،اے نوح! تمہارا یہ سوال ٹھیک نہیں ہے اس لئے تم مجھ سے ایسی کسی بات کا سوال نہ کرو جس کا تمہیں علم نہیں ہے تو حضرت نوح علیہ السلام نے کہا کہ اے میرے پروردگار! میں تیری پناہ مانگتا ہوں کہ میں تجھ سے کسی ایسی بات کا سوال کروں جو مجھے معلوم نہیں ہے اور اگر تو مجھے معاف فرما کر رحم نہ فرمائے گا تو میں نقصان میں پڑ جاؤں گا۔"
(تفسیر صاوی،ج۳، ص ۹۱۶۔۹۱۵(ملخصاً)،پ۱۲،ھود، : ۴۵۔ ۴۷)
قرآن مجید میں حضرت حق جل جلالہ نے اس واقعہ کو بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:
وَنَادٰی نُوۡحٌ رَّبَّہٗ فَقَالَ رَبِّ اِنَّ ابۡنِیۡ مِنْ اَہۡلِیْ وَ اِنَّ وَعْدَکَ الْحَقُّ وَ اَنۡتَ اَحْکَمُ الْحٰکِمِیۡنَ ﴿45﴾قَالَ یٰنُوۡحُ اِنَّہٗ لَیۡسَ مِنْ اَہۡلِکَ ۚ اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیۡرُ صَالِحٍ ۫٭ۖ فَلَا تَسْـَٔلْنِ مَا لَـیۡسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ ؕ اِنِّیۡۤ اَعِظُکَ اَنۡ تَکُوۡنَ مِنَ الْجٰہِلِیۡنَ ﴿46﴾قَالَ رَبِّ اِنِّیۡۤ اَعُوۡذُ بِکَ اَنْ اَسْـَٔلَکَ مَا لَـیۡسَ لِیۡ بِہٖ عِلْمٌ ؕ وَ اِلَّا تَغْفِرْ لِیۡ وَ تَرْحَمْنِیۡۤ اَکُنۡ مِّنَ الْخٰسِرِیۡنَ ﴿47﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔اور نوح نے اپنے رب کو پکارا عرض کی اے میرے رب میرا بیٹا بھی تو میرا گھر والا ہے اور بیشک تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب سے بڑھ کر حکم والا فرمایا اے نوح وہ تیرے گھر والوں میں نہیں بیشک اس کے کام بڑے نالائق ہیں تو مجھ سے وہ بات نہ مانگ جس کا تجھے علم نہیں میں تجھے نصیحت فرماتا ہوں کہ نادان نہ بن۔ عرض کی اے میرے رب میں تیری پناہ چاہتا ہوں کہ تجھ سے وہ چیز مانگوں جس کا مجھے علم نہیں اور اگر تو مجھے نہ بخشے اور رحم نہ کرے تو میں ریا کار ہوجاؤں۔(پ12،ھود:45۔47)
جب حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑ پر پہنچ کر ٹھہر گئی اور سب کفار غرق ہو کر فنا ہوچکے تو اللہ تعالیٰ نے زمین کو حکم دیا کہ اے زمین! جتنا پانی تجھ سے چشموں کی صورت میں نکلا ہے تو ان سب پانیوں کو پی لے۔ اور اے آسمان! تو اپنی بارش بند کردے۔ چنانچہ پانی گھٹنا شروع ہو گیا اور طوفان ختم ہو گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ضرت نوح علیہ السلام کو حکم دیا کہ اے نوح! آپ کشتی سے اُتر جایئے۔ اللہ کی طرف سے سلامتی اور برکتیں آپ پر بھی ہیں اور ان لوگوں پر بھی ہیں جو کشتی میں آپ کے ساتھ رہے۔
(پ۱۲،ھود:۴۸)
حدیث شریف میں آیا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے روئے زمین کی خبر لانے کے
لئے کسی کو بھیجنے کا ارادہ فرمایا تو سب سے پہلے مرغی نے کہا کہ میں روئے زمین کی خبر لاؤں گی تو آپ نے اس کو پکڑ لیا اور اس کے بازوؤں پر مہر لگا کر فرمایا کہ تجھ پر میری مہر ہے، تو پرند ہوتے ہوئے بھی لمبی اُڑان نہ اُڑ سکے گی اور میری امت تجھ سے فائدہ اٹھائے گی۔ پھر آپ نے کوے کو بھیجا تو وہ ایک مردار دیکھ کر اس پر گر پڑا اور واپس نہیں آیا۔ تو آپ نے اس پر لعنت فرما دی اور اس کے لئے بددعا فرما دی کہ وہ ہمیشہ خوف میں مبتلا رہے۔ چنانچہ کوے کو حل و حرم میں کہیں بھی پناہ نہیں ہے۔ پھر آپ نے کبوتر کو بھیجا تو وہ زمین پر نہیں اُترا بلکہ ملک سبا سے زیتون کی ایک پتی چونچ میں لے کر آگیا تو آپ نے فرمایا کہ تم زمین پر نہیں اُترے اس لئے پھر جاؤ اور روئے زمین کی خبر لاؤ۔ تو کبوتر دوبارہ روانہ ہوا اور مکہ مکرمہ میں حرم کعبہ کی زمین پر اُترا اور دیکھ لیا کہ پانی زمین حرم سے ختم ہو چکا ہے اور سرخ رنگ کی مٹی ظاہر ہو گئی ہے۔ کبوتر کے دونوں پاؤں سرخ مٹی سے رنگین ہو گئے۔ اور وہ اسی حالت میں حضرت نوح علیہ السلام کے پاس واپس آگیا اور عرض کیا کہ اے خدا کے پیغمبر! آپ میرے گلے میں ایک خوبصورت طوق عطا فرمایئے اور میرے پاؤں میں سرخ خضاب مرحمت فرمایئے اور مجھے زمین حرم میں سکونت کا شرف عطا فرمایئے۔ چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام نے کبوتر کے سر پر دست شفقت پھیرا اور اس کے لئے یہ دعا فرما دی کہ اس کے گلے میں دھاری کا ایک خوبصورت ہار پڑا رہے اور اس کے پاؤں سرخ ہوجائیں اور اس کی نسل میں خیر و برکت رہے اور اس کو زمین حرم میں سکونت کا شرف ملے۔
(تفسیر صاوی،ج۳، ص ۹۱۶،پ۱۲، ھود: ۴۸)
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا کہ:
وَ قِیۡلَ یٰۤاَرْضُ ابْلَعِیۡ مَآءَکِ وَ یٰسَمَآءُ اَقْلِعِیۡ وَغِیۡضَ الْمَآءُ وَقُضِیَ الۡاَمْرُ وَاسْتَوَتْ عَلَی الْجُوۡدِیِّ وَقِیۡلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿44﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔اور حکم فرمایا گیا کہ اے زمین اپنا پانی نگل لے اور اے آسمان تھم جا
"اور پانی خشک کردیا گیا اور کام تمام ہوا اور کشتی کوہِ جودی پر ٹھہری اور فرمایا گیا کہ دور ہوں بے انصاف لوگ۔(پ12،ھود:44)
اور حضرت نوح علیہ السلام کو کشتی سے اترنے کا حکم دے کر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ:"
قِیۡلَ یٰنُوۡحُ اہۡبِطْ بِسَلٰمٍ مِّنَّا وَ بَرَکٰتٍ عَلَیۡکَ وَعَلٰۤی اُمَمٍ مِّمَّنۡ مَّعَکَ ؕ
"ترجمہ کنزالایمان:۔ فرمایا گیا اے نوح کشتی سے اتر ہماری طرف سے سلام اور برکتوں کے ساتھ جو تجھ پر ہیں اور تیرے ساتھ کے کچھ گروہوں پر۔(پ۱۲، ھود:۴۸)
درسِ ہدایت:۔حضرت نوح علیہ السلام کے اس واقعہ میں بڑی بڑی عبرتوں کے سامان ہیں جن کے انوار و تجلیات سے قلوب ِ مومنین پر ایسی ایمانی روشنی پڑتی ہے جس سے مومنین کا سینہ نور ِ عرفان و جلوہ ایمان سے منور اور روشن ہوجاتا ہے۔ چند تجلیوں کی نشاندہی حاضر ہے:
(۱)حضرت نوح علیہ السلام ساڑھے نو سو برس تک اپنی قوم کی ایذاء رسانیوں اور دلخراش طعنوں اور گالیوں کے باوجود صبر و تحمل کے ساتھ اپنی قوم کو ہدایت کا درس دیتے رہے اور جب تک ان پر وحی نہیں آگئی کہ یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے اس وقت تک آپ برابر ہدایت کا وعظ سناتے ہی رہے۔ جب بذریعہ وحی آپ ان لوگوں کے ایمان سے مایوس ہوگئے تو آپ نے ان ظالموں کے لئے ہلاکت کی دعا فرمائی۔ قوم مسلم کے واعظوں اور ہادیوں کے لئے حضرت نوح علیہ السلام کا اسوہ حسنہ چراغ ہدایت و منارئہ نور ہے کہ وہ بھی صبر و استقلال کے ساتھ برابر تبلیغ و ارشاد کا کام جاری رکھیں۔
(۲)حضرت نوح علیہ السلام اور مومنین طوفان کے عظیم سیلاب میں جب کہ طوفان کی موجیں پہاڑوں کی طرح سر اُٹھا رہی تھیں، کشتی پر سوار تھے اور طوفانی موجوں کے سیلاب ِ عظیم میں ایک تنکے کی طرح یہ کشتی ہچکولے کھاتی چلی جا رہی تھی۔ مگر حضرت نوح علیہ السلام اور مومنین توکل کی ایسی منزل بلند میں تھے کہ نہ ان لوگوں کو کوئی گھبراہٹ تھی نہ کوئی پریشانی۔ اس میں"
"مومنین کے لئے یہ ہدایت ہے کہ بڑی سے بڑی مصیبت کے وقت میں بھی مومن کو اللہ تعالیٰ پر بھروسا رکھ کر مطمئن رہنا چاہے۔
(۳)حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا کنعان کافر تھا۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ نیکوں کی اولاد کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ نیک ہی ہوں۔ بروں کی اولاد اچھی اور اچھوں کی اولاد بری ہوسکتی ہے۔ یہ خداوند تعالیٰ کی مشیت اور مرضی پر موقوف ہے۔ وہ جس کو چاہے اچھا بنا دے اور جس کو چاہے برا بنا دے۔"
واللہ تعالیٰ اعلم۔
"ایک شخص جو کفار عرب کے سرداروں میں سے تھا اس کے پاس حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے چند صحابہ کرام (علیہم الرضوان)کو تبلیغ اسلام کے لئے بھیجا۔ چنانچہ ان حضرات نے اس کے پاس پہنچ کر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام سنا کر اسلام کی دعوت دی تو اس گستاخ نے ازراہ ِ تمسخر کہا کہ اللہ کون ہے؟ کیسا ہے اور کہاں ہے؟ کیا وہ سونے کا ہے یا چاندی کا ہے یا تانبے کا؟ اس کا یہ متکبرانہ اور گستاخانہ جواب سن کر صحابہ کرام (علیہم الرضوان)کے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور ان حضرات نے بارگاہ ِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم میں واپس حاضر ہو کر سارا ماجرا سنایا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اس شخص سے بڑھ کر کافر اور باری تعالیٰ کی شان میں گستاخی کرنے والا تو ہم لوگوں نے دیکھا ہی نہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ تم لوگ دوبارہ اس کے پاس جاؤ۔ چنانچہ
یہ حضرات دوبارہ اس کے پاس پہنچے، تو اس خبیث نے پہلے سے بھی زیادہ گستاخانہ الفاظ زبان سے نکالے۔ صحابہ کرام (علیہم الرضوان)اس کی گستاخیوں اور بدزبانیوں سے رنجیدہ ہو کر دربارِ نبوت میں واپس پلٹ آئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری مرتبہ ان صحابہ کرام (علیہم الرضوان)کو اس کے پاس بھیجا جہاں یہ لوگ پہنچ کر اس کو دعوتِ اسلام دینے لگے"
"اور وہ گستاخ ان حضرات سے جھگڑا کرتے ہوئے بدزبانی اور گالی گلوچ پر اُتر آیا۔ صحابہ کرام (علیہم الرضوان) ارشاد نبوی کے مطابق صبر کرتے رہے ۔
اسی دوران میں لوگوں نے دیکھا کہ ناگہاں ایک بدلی آئی اور اس بدلی میں اچانک گرج اور چمک پیدا ہوئی۔ پھر ایک دم نہایت ہی مہیب گرج کے ساتھ اس کافر پر بجلی گری جس سے اس کی کھوپڑی اُڑ گئی اور وہ لمحہ بھر میں جل کر راکھ ہو گیا ۔یہ منظر دیکھ کر صحابہ کرام (علیہم الرضوان) بارگاہِ اقدس میں واپس آئے تو ان حضرات کو دیکھتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ جس گستاخ کے یہاں گئے تھے وہ تو جل کر راکھ ہو گیا۔ صحابہ کرام نے انتہائی حیرت و تعجب سے عرض کیا کہ یا رسول ! آپ کو کیسے اور کس طرح اس کی خبر ہوگئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابھی ابھی مجھ پر یہ آیت نازل ہوئی ہے۔"
(تفسیر صاوی ، ج ۳ ، ص ۹۹۶۔۹۹۵ ،پ۱۳، الرعد: ۱۳)
وَ یُرْسِلُ الصَّوَاعِقَ فَیُصِیۡبُ بِہَا مَنۡ یَّشَآءُ وَہُمْ یُجَادِلُوۡنَ فِی اللہِ ۚ وَ ہُوَ شَدِیۡدُ الْمِحَالِ ﴿ؕ۱۳﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔اور کڑک بھیجتا ہے تو اسے ڈالتا ہے جس پر چاہے اور وہ اللہ میں جھگڑتے ہوتے ہیں اوراس کی پکڑ سخت ہے۔(پ۱۳،الرعد:۱۳)
باری تعالیٰ کی شان میں اس طرح کی گستاخی کرنے والوں کو بارہا عذابِ الٰہی نے اپنی گرفت میں لے کر ہلاک کرڈالا لہٰذا خبردار، خبردار! اس مقدس جناب میں ہرگزہرگز کوئی ایسا لفظ زبان سے نہ نکالنا چاہے جو شانِ الوہیت میں بے ادبی قرار پائے۔ آج کل بہت سے لوگ بیماریوں اور مصیبتوں کے وقت خداوند تعالیٰ کی شان میں ناشکری کے الفاظ بول کر خداوند قدوس کی بے ادبی کربیٹھتے ہیں۔ جس سے ان کا ایمان بھی جاتا رہتا ہے اور وہ دنیا و آخرت میں عذاب کے حق دار بن جاتے ہیں۔ (توبہ
نعوذباللہ منہ)
"کفار قریش کے پانچ سردار (۱)عاص بن وائل سہمی(۲)اسود بن مطلب(۳)اسود بن عبدیغوث (۴)حارث بن قیس (۵)ولید بن مغیرہ۔
یہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت زیادہ ایذائیں دیتے اور آپ کا بے حد تمسخر اور مذاق اُڑایا کرتے تھے۔ ایک روز حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد حرام میں تشریف لائے تو یہ پانچوں خُبَثَاء بھی پیچھے پیچھے آئے اور حسب عادت تمسخر اور طعن و تشنیع کے الفاظ بکنے لگے اسی حالت میں حضرت جبرائیل علیہ السلام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے اور انہوں نے ولید بن مغیرہ کی پنڈلی کی طرف اور عاص بن وائل سہمی کے پاؤں کے تلوے کی طرف اور اسود بن مطلب کی آنکھوں کی طرف اور اسود بن عبد یغوث کے پیٹ کی طرف اور حارث بن قیس کے سر کی طرف اشارہ فرمایا اور یہ کہا کہ میں ان لوگوں کے شر کو دفع کروں گا۔
چنانچہ تھوڑے ہی عرصہ میں یہ پانچوں دشمنانِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم طرح طرح کی بلاؤں میں گرفتار ہو کر ہلاک ہو گئے۔ ولید بن مغیرہ ایک تیر بیچنے والے کی دکان کے پاس سے گزرا۔ ناگہاں ایک تیر کا پیکان اس کے تہمد میں چبھ گیا۔ مگر اس کو نکالنے کے لئے اس نے تکبر سے سر نیچا نہ کیا اور کھڑے کھڑے تہبند ہلا ہلا کر پیکان کو نکالنے لگا جس سے اس کی پنڈلی زخمی ہو گئی اور وہ زخم اچھا نہیں ہوا بلکہ اسی زخم کی تکلیف اٹھا اٹھا کر وہ مر گیا۔
عاص بن وائل سہمی کے پاؤں میں ایک کانٹا چبھ گیا جس سے اس کے پاؤں میں زہر باد ہو گیا اور اس کا پاؤں پھول کر اونٹ کی گردن کی طرح موٹا ہو گیا اسی تکلیف میں وہ تڑپ تڑپ کر اور کراہتے ہوئے ہلاک ہو گیا۔
اسود بن مطلب کی آنکھوں میں ایسا درد اٹھا کہ وہ اندھا ہو گیا اور درد کی شدت سے وہ بے قراری میں اپنا سر دیوار سے بار بار ٹکراتا تھا اور اسی درد و کرب کی بے چینی میں وہ مر گیا اور یہ کہتا"
"ہوا مرا کہ مجھ کو محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے قتل کیا ہے۔
اسود بن عبد یغوث کو استسقاء ہو گیا جس سے اس کا پیٹ بہت زیادہ پھول گیا اور وہ اسی مرض میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر ہلاک ہو گیا۔
حارث بن قیس کی ناک سے خون اور پیپ بہنے لگا اور وہ اسی میں مر کر ہلاک ہو گیا۔ اس طرح یہ پانچوں گستاخانِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بہت جلد بڑی بڑی تکلیفیں اٹھا کر ہلاک ہو گئے۔"
(تفسیر صاوی،ج۳، ص ۱۰۵۳۔۱۰۵۲،پ۱۴، الرعد:۹۵)
ان ہی پانچوں گستاخوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید کی یہ آیت نازل فرمائی:۔
اِنَّا کَفَیۡنٰکَ الْمُسْتَہۡزِءِیۡنَ ﴿ۙ95﴾الَّذِیۡنَ یَجْعَلُوۡنَ مَعَ اللہِ اِلٰہًا اٰخَرَ ۚ فَسَوْفَ یَعْلَمُوۡنَ ﴿96﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔ بیشک ان ہنسنے والوں پر ہم تمہیں کفایت کرتے ہیں جو اللہ کے ساتھ دوسرا معبود ٹھہراتے ہیں تو اب جان جائیں گے۔ (پ14،الحجر:95۔96)
درسِ ہدایت:۔ حضرات انبیاء علیہم السلام کے ساتھ طعن و تمسخر، ان کی ایذاء رسانی اور توہین و بے ادبی وہ جرم عظیم ہے کہ خداوند قہار و جبار کا قہر و غضب ان مجرموں کو کبھی معاف نہیں فرماتا۔ ایسے لوگوں کو کبھی غرق کر کے ہلاک کردیا، کبھی ان کی آبادیوں پر پتھر برسا کر ان کو برباد کردیا، کبھی زلزلوں کے جھٹکوں سے ان کی بستیوں کو الٹ پلٹ کر کے تہس نہس کردیا۔ کچھ ذلت کے ساتھ قتل ہو گئے۔ کچھ طرح طرح کے امراض میں مبتلا ہو کر ایڑیاں رگڑتے رگڑتے اور تڑپتے تڑپتے مر گئے۔
اس زمانے میں بھی جولوگ بارگاہِ نبوت میں گستاخیاں اور بے ادبیاں کرتے رہتے ہیں وہ کان کھول کر سن لیں کہ ان کے ایمان کی دولت تو غارت ہوہی چکی ہے، اب ان شاء اللہ تعالیٰ وہ کسی نہ کسی عذاب ِ الٰہی میں گرفتار ہو کر ذلت کی موت مرجائیں گے اور دنیا ان کے منحوس وجود سے"
پاک ہوجائے گی۔ سن لو اللہ تعالیٰ کا وعدہ کبھی ہرگز ہرگز غلط نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا تم لوگ انتظار کرو اور ہم بھی انتظار کررہے ہیں اور اگر عذابِ الٰہی کی مار سے بچنا چاہتے ہو تو اس کی فقط ایک ہی صورت ہے کہ صدقِ دل سے توبہ کر کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و عظمت سے اپنے دلوں کو معمور و آباد کرلو اور اپنے قول و فعل اور اعتقاد سے تعظیم و توقیر نبوی کو اپنا دینی شعار بنالو۔ پھر تم دیکھنا کہ ہر قدم پر تمہارے اوپر خداوند قدوس کی رحمتیں نازل ہوں گی اور خاتمہ بالخیر کی کرامتوں سے تم سرفراز ہو کر دونوں جہاں کی سعادتوں سے بہرہ مند ہوجاؤ گے۔
(واللہ تعالیٰ اعلم)
نزولِ قرآن کے وقت جو چوپائے عام طور پر بار برداری اور سواری کے لئے استعمال ہوتے تھے وہ چار جانور تھے۔ اونٹ، گھوڑے، خچر، گدھے۔باربرداری اور سواری کے ان چار جانوروں کا ذکر قرآن مجید میں خاص طور سے صراحتاً مذکور ہے ان کے علاوہ قیامت تک جتنی سواریاں اور باربرداری کے سادھن عالم وجود میں آنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان سب کا تذکرہ قرآن مجید میں اجمالاً بیان فرما دیا ہے۔ چنانچہ سورہ نمل کی مندرجہ ذیل آیت کو بغور پڑھ لیجئے ارشاد ربانی ہے کہ:۔
وَ الۡاَنْعَامَ خَلَقَہَا ۚ لَکُمْ فِیۡہَا دِفْءٌ وَّ مَنَافِعُ وَمِنْہَا تَاۡکُلُوۡنَ ﴿۪5﴾وَلَکُمْ فِیۡہَا جَمَالٌ حِیۡنَ تُرِیۡحُوۡنَ وَحِیۡنَ تَسْرَحُوۡنَ ﴿۪6﴾ وَتَحْمِلُ اَثْقَالَکُمْ اِلٰی بَلَدٍ لَّمْ تَکُوۡنُوۡا بٰلِغِیۡہِ اِلَّا بِشِقِّ الۡاَنۡفُسِ ؕ اِنَّ رَبَّکُمْ لَرَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ ۙ﴿7﴾وَّالْخَیۡلَ وَ الْبِغَالَ وَالْحَمِیۡرَ لِتَرْکَبُوۡہَا وَزِیۡنَۃً ؕ وَ یَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوۡنَ ﴿8﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔ اور چوپائے پیدا کئے ان میں تمہارے لئے گرم لباس اور منفعتیں ہیں اور ان میں سے کھاتے ہو اور تمہارا ان میں تجمل ہے جب انہیں شام کو واپس لاتے ہو اور جب چرنے کو چھوڑتے ہو اور وہ تمہارے بوجھ اٹھا کر لے جاتے ہیں ایسے شہر کی طرف کہ اس
"تک نہ پہنچتے مگر ادھ مرے ہو کر بیشک تمہارا رب نہایت مہربان رحم والا ہے اور گھوڑے اور خچر اور گدھے کہ ان پر سوار ہو اور زینت کے لئے اور وہ پیدا کر ے گا جس کی تمہیں خبر نہیں۔ (پ14،النحل:5۔8)
اس آیت مبارکہ میں آخری جملہ"
وَ یَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوۡنَ ﴿۸﴾
میں قیامت تک عالم وجود میں آنے والے تمام بار برداری کے ذرائع اور قسم قسم کی ان مختلف سواریوں کے پیدا ہونے کا بیان ہے جو نزولِ قرآن کے وقت تک ایجاد نہیں ہوئی تھیں۔ مثلاً سائیکل، موٹر، ریل گاڑیاں، سڑکیں، بحری جہاز، ہوائی جہاز، ہیلی کاپٹر، راکٹ وغیرہ وغیرہ تمام نقل و حمل کے سامان اور سواریوں کے ذرائع سب کا اجمالاً ذکر فرما کر اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ کا اظہار اور غیب کی خبر کا اعلانِ عام فرمایا ہے۔ ذرائع نقل و حمل اور سواریوں کے علاوہ اس آیت میں تو اس قدر عموم ہے کہ اس میں قیامت تک پیدا ہونے والی ہر ہر چیز اور تمام کائناتِ عالم کا اجمالاً بیان ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم۔
"چاروں سواریاں جو نزولِ قرآن کے وقت عرب میں عام تھیں۔ ان کے بارے میں کچھ خصوصیات حسب ِ ذیل ہیں جو یاد رکھنے کے قابل ہیں۔
اونٹ: ۔ یہ بہت سے نبیوں اور رسولوں کی سواری ہے۔ خود حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ کی سواری فرمائی اور آپ کی دو اونٹنیاں بہت مشہور ہیں۔ ایک ''قصویٰ'' اور دوسری ''عضباء'' جس کے بارے میں روایت ہے کہ یہ کبھی دوڑ میں کسی اونٹ سے مغلوب نہیں ہوئی تھی مگر ایک مرتبہ ایک اعرابی کے اونٹ سے دوڑ میں پیچھے رہ گئی تو حضرات صحابہ کرام کو بہت شاق گزرا۔ اس موقع پر آپ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ پر یہ حق ہے کہ جب وہ کسی دنیا کی چیز کو بلند فرما دیتا ہے تو اس کو پست بھی کردیتا ہے۔ مروی ہے کہ آپ کی اونٹنی ''عضباء''نے آپ کی وفات کے بعد غم میں نہ کچھ کھایا اور نہ پیا اور وفات پا گئی اور بعض روایتوں میں آیا ہے کہ قیامت کے دن اسی اونٹنی پر سوار ہو کر حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا میدانِ محشر میں"
تشریف لائیں گی۔
(تفسیر روح البیان، ج۵، ص ۸۹،پ۱۴، النحل:۷)
''حیات الحیوان'' میں ہے کہ اونٹ کے بالوں کو جلا کر اس کی راکھ اگر بہتے ہوئے خون پر چھڑک دی جائے تو خون فوراً بند ہوجائے گا اور اونٹ کی کلنی اگر کسی عاشق کی آستین میں باندھ دی جائے تو اس کا عشق زائل ہوجائے گا اور اونٹ کا گوشت بہت مقوی باہ ہے۔
" (تفسیر روح البیان، ج۵، ص ۹،پ۱۴،النحل:۷)"
گھوڑا:۔ سب سے پہلے گھوڑے پر حضرت اسماعیل علیہ السلام نے سواری فرمائی۔ آپ سے پہلے یہ وحشی اور جنگلی چوپایہ تھا۔ اسی لئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ تم لوگ گھوڑے کی سواری کرو کیونکہ یہ تمہارے باپ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی میراث ہے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو بیویوں کے بعد سب سے زیادہ گھوڑا محبوب تھا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ گھوڑا میدانِ جنگ میں یہ تسبیح پڑھتا ہے
''سُبُّوْحٌ قُدُّوْسٌ رَّبُّ الْمَلٰئِکَۃِ وَالرُّوْح''
"خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند گھوڑے تھے جن پر آپ سواری فرمایا کرتے تھے۔
منقول ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت خضر علیہ السلام سے دریافت فرمایا کہ کون کون سی سواریاں آپ کو پسند ہیں؟ تو آپ نے فرمایا کہ گھوڑا اور گدھا اور اونٹ کیونکہ گھوڑا اولو العزم رسولوں کی سواری ہے اور اونٹ حضرت ہود، حضرت صالح، حضرت شعیب و حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری ہے اور گدھا حضرت عیسیٰ وحضرت عزیر علیہما السلام کی سواری ہے اور میں کیوں نہ اس چوپائے (گدھے)سے محبت رکھوں جس کو مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے زندہ فرمایا۔"
(تفسیر روح البیان،ج۵، ص ۱۱۔۱۰ (ملخصاً) پ۱۴، النحل:۸)
خچر:۔یہ بھی ایک مبارک سواری ہے۔ روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت میں چھ خچر تھے۔ ان میں سے ایک سفید رنگ کا تھا جو مقوقس والئ مصر نے بطور ہدیہ آپ کی خدمت
مبارکہ میں پیش کیا تھا جس کا نام ''دلدل'' تھا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اندرون شہر مدینہ اور اپنے باہر کے سفروں میں اس پر سواری فرمایا کرتے تھے۔ اس کی عمر بہت زیادہ ہوئی یہاں تک کہ اس کے سب دانت ٹوٹ گئے اور اس کی خوراک کے لئے جو کوٹ کر دَلیا بنایا جاتا تھا۔ یہ حضور کی وفات کے بعد مدتوں زندہ رہا۔ چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی خلافت کے دوران اس پر سوار ہوئے۔ اور آپ کے بعد حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی جنگ ِ خوارج کے موقع پر اسی خچر پر سوار ہو کر جنگ کے لئے نکلے۔ پھر آپ کے بعد آپ کے صاحبزادگان حضرت امام حسن و حضرت امام حسین و حضرت محمد بن الحنفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے بھی اس کی سواری کا شرف پایا۔
(تفسیر روح البیان،ج۵، ص۱۱، پ۱۴، النحل: ۸ )
گدھا:۔یہ بھی انبیاء اور رسولوں کی سواری ہے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ملکیت میں بھی دو گدھے تھے، ایک کا نام ''عفیر''اور دوسرے کا نام ''یعفور''تھا۔ روایت ہے کہ ''یعفور'' آپ کو خیبر میں ملا تھا اور اس نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کلام کیا تھا کہ یا رسول اللہ!میرا نام ''زیاد بن شہاب''ہے اور میرے باپ داداؤں میں ساٹھ ایسے گدھے گزرے ہیں جن پر نبیوں نے سواری فرمائی ہے اور آپ بھی اللہ کے نبی ہیں لہٰذا میری تمنا ہے کہ آپ کے بعد دوسرا کوئی میری پشت پر نہ بیٹھے۔ چنانچہ اس چوپائے کی تمنا پوری ہو گئی کہ آپ کی وفات اقدس کے بعد ''یعفور'' شدتِ غم سے نڈھال ہو کر ایک کنوئیں میں گر پڑا اور فوراً ہی موت سے ہمکنار ہو گیا۔ یہ بھی روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ''یعفور'' کو بھیجا کرتے تھے کہ فلاں صحابی کو بلا کر لاؤ تو یہ جاتا تھا اور صحابی کے دروازہ کو اپنے سر سے کھٹکھٹاتا تھا تو وہ صحابی یعفور کو دیکھ کر سمجھ جاتے کہ حضور نے مجھے بلایا ہے چنانچہ وہ فوراً ہی یعفور کے ساتھ دربار نبوی میں حاضر ہوجایا کرتے تھے۔ حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص ادنیٰ کپڑا پہنے گا اور بکری کا دودھ دوہے گا اور گدھے کی سواری کریگا۔ اس میں بالکل ہی تکبر نہیں ہو گا۔
(تفسیر روح البیان،ج۵، ص۱۱، پ۱۴، النحل: ۸ )
درسِ ہدایت:۔ان چاروں سواریوں کو حقیر نہیں سمجھنا چاہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بطور انعام و احسان کے ان جانوروں کی تخلیق کا ذکر فرمایا ہے اور پھر ان چاروں سواریوں پر حضرات انبیاء علیہم السلام سوار ہوئے ہیں لہٰذا ان سواریوں کی توہین و تحقیر بہت بڑی گستاخی و بے ادبی ہے جو کفر تک پہنچا دینے والی منحوسیت ہے بلکہ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ ان چوپایوں کو اللہ تعالیٰ کی نعمت جان کر شکر بجا لائے اور حضرات انبیاء علیہم السلام کی نسبت سے ان سواریوں کی دل سے قدر کرے اور ہرگز ہرگز ان کی توہین و تحقیر نہ کرے کہ اس میں ایمان کی سلامتی بلکہ ایمان کی نورانیت کا راز مضمر ہے اور ان چاروں سواریوں کے بعد جو دوسری سواریاں ایجاد ہوئی ہیں ان پر بھی سوار ہونا جائز ہے اور ان سواریوں کے بارے میں یہ ایمان رکھنا لازم ہے کہ یہ سب خدا ہی کی پیدا کی ہوئی ہیں اور یہ سب سواریاں وہی ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے
وَ یَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوۡنَ ﴿۸﴾
فرما کر ان کے پیدا کرنے کا وعدہ فرمایا ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم۔
"عربی میں شہد کی مکھی کو ''نحل'' کہتے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ایک سورہ نازل فرمائی جس کا نام سورہ نحل ہے۔ اس سورہ میں شہد اور شہد کی مکھی کے فضائل اور اس کے فوائد و منافع کا تذکرہ فرمایا ہے، جو قابل ذکر ہے اور درحقیقت یہ مکھیاں عجائباتِ عالم کی فہرست میں ایک بہت ہی نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ اس مکھی کی چند خصوصیات حسب ِ ذیل ہیں:۔
(۱)اس مکھی کے گھروں یعنی چھتّوں کا ڈسپلن اور نظام ِ عمل اتنا منظم اور باقاعدہ ہے گویا ایک ترقی یافتہ ملک کا ''نظام سلطنت''ہے۔ جو پورے نظام و انتظام کے ساتھ نظم مملکت چلا رہا ہے جس میں کوئی خلل اور فساد رونما نہیں ہوتا۔
(۲)ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں یہ مکھیاں اس طرح رہتی ہیں کہ ان کا ایک بادشاہ ہوتا ہے جو جسم اور قد میں تمام مکھیوں سے بڑا ہوتا ہے۔ تمام مکھیاں اسی کی قیادت میں سفر اور قیام کرتی ہیں اس بادشاہ کو ''یعسوب'' کہتے ہیں۔
(۳)ان کا ''یعسوب'' ان مکھیوں کے لئے تقسیم کار کرتا ہے اور سب کو اپنی اپنی ڈیوٹی پر لگا کر کام کراتا ہے۔ چنانچہ کچھ مکھیاں مکان بناتی ہیں جو سوراخوں کی شکل میں ہوتا ہے یہ مکھیاں ان سوراخوں کو اتنی خوبصورتی اور یکسانیت کے ساتھ مسدس (چھ گوشوں والا)شکل کا بناتی ہیں کہ گویا کسی ماہر انجینئر نے پرکار کی مدد سے ان سوراخوں کو بنایا ہے۔ سب کی شکل بالکل یکساں اور ایک جیسی، سب کی لمبائی چوڑائی اور گہرائی بالکل برابر ہوتی ہے۔
(۴)کچھ مکھیاں ''یعسوب'' کے حکم سے انڈے بچے پیدا کرنے کا کام انجام دیتی ہیں، کچھ شہد تیار کرتی ہیں، کچھ موم بناتی ہیں، کچھ پانی لاتی ہیں، کچھ پہرہ دیتی رہتی ہیں، مجال نہیں کہ کوئی دوسری مکھی ان کے گھر میں داخل ہوسکے۔
(۵)یہ مکھیاں پھلوں پھولوں وغیرہ کا رس چوس چوس کر لاتی ہیں اور شہد کے خزانے میں جمع"
"کرتی رہتی ہیں اور پھلوں پھولوں کی تلاش میں جنگلوں اور میدانوں میں سینکڑوں میل الگ الگ دور دور تک چلی جاتی ہیں مگر یہ اپنے چھتوں کو نہیں بھولتی ہیں اور بلا تکلف کسی تلاش کے سیدھے سینکڑوں میل کی دوری سے اپنے چھتوں میں پہنچ جاتی ہیں۔
(۶)یہ مکھیاں مختلف رنگوں اور مختلف ذائقوں کا شہد تیار کرتی ہیں، کبھی سرخ، کبھی سفید، کبھی سیاہ، کبھی زرد، کبھی پتلا، کبھی گاڑھا، مختلف موسموں میں اور مختلف پھلوں پھولوں کی بدولت شہد کے مختلف رنگ اور ذائقے بدلتے رہتے ہیں۔
(۷)یہ اپنے چھتے کبھی درختوں پر ،کبھی پہاڑوں پر ،کبھی گھروں میں ،کبھی دیواروں کے سوراخوں میں ،کبھی زمین کے اندر بنایا کرتی ہیں اور ہر جگہ یکساں ڈسپلن اور نظام کے ساتھ ان کا کارخانہ چلتا رہتا ہے۔
(۸)نافرمان اور باغی مکھیوں کو ان کا ''یعسوب'' مناسب سزائیں بھی دیتا ہے یہاں تک کہ بعض کو قتل بھی کروادیتا ہے اور سب کو اپنے کنٹرول میں رکھتا ہے۔ کبھی کوئی شہد کی مکھی کسی نجاست پر نہیں بیٹھ سکتی اور اگر کوئی کبھی بیٹھ جائے تو ان کا بادشاہ ''یعسوب''اس کو سخت سزا دے کر چھتے سے نکال دیتا ہے۔
قرآن مجید نے اس شہد کی مکھیوں کے مسائل کا خطبہ پڑھتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:۔"
وَ اَوْحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِیۡ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوۡتًا وَّمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا یَعْرِشُوۡنَ ﴿ۙ68﴾ثُمَّ کُلِیۡ مِنۡ کُلِّ الثَّمَرٰتِ فَاسْلُکِیۡ سُبُلَ رَبِّکِ ذُلُلًا ؕ یَخْرُجُ مِنۡۢ بُطُوۡنِہَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُہٗ فِیۡہِ شِفَآءٌ لِّلنَّاسِ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ ﴿69﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔اور تمہارے رب نے شہد کی مکھی کو الہام کیا کہ پہاڑوں میں گھر بنا اور درختوں میں اور چھتوں میں پھر ہر قسم کے پھل میں سے کھا اور اپنے رب کی راہیں چل کہ
"تیرے لئے نرم و آسان ہیں اس کے پیٹ سے ایک پینے کی چیز رنگ برنگ نکلتی ہے جس میں لوگوں کی تندرستی ہے بیشک اس میں نشانی ہے دھیان کرنے والوں کو۔(پ14،النحل:68۔69)
درسِ ہدایت:اللہ تعالیٰ نے شہد کو تمام بیماریوں کے لئے شفا فرمایا ہے چنانچہ بعض امراض میں تنہا شہد سے شفاء حاصل ہوتی ہے اور بعض امراض میں شہد کے ساتھ دوسری دواؤں کو ملا کر بیماریوں کا علاج کرتے ہیں جیسا کہ معجونوں اور جوارشوں اور طرح طرح کے شربتوں کے ذریعے تمام بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے اور ان سب دواؤں میں شہد شامل کیا جاتا ہے اسی طرح سکنجبین میں بھی شہد ڈالی جاتی ہے جو پیٹ کے امراض کے لئے بے حد مفید ہے۔ بہرحال ہر مسلمان کو یہ ایمان رکھنا چاہے کہ شہد میں شفاء ہے اس لئے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے شہد کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ"
شِفَآءٌ لِّلنَّاسِ ؕ
یعنی اس میں لوگوں کے لئے شفا ہے(پ14،النحل:29)
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
انسان کی وہ طویل عمر جس میں انسان کے تمام قویٰ مضمحل اور بیکار ہوجاتے ہیں اور آدمی بالکل ہی ناقص القوۃ، کم عقل اور قلیل الفہم ہو کر بچپن کی ہیئت کے مثل عقل و دانائی اور ہوش و خرد سے عاری اور نسیان کے غلبہ سے سارا علم بھول جاتا ہے اور اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے سے مجبور ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس عمر انسانی کا ذکر فرماتے ہوئے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ:
وَاللہُ خَلَقَکُمْ ثُمَّ یَتَوَفّٰىکُمْ ۟ۙ وَ مِنۡکُمۡ مَّنۡ یُّرَدُّ اِلٰۤی اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِکَیۡ لَا یَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَیْـًٔا ؕ اِنَّ اللہَ عَلِیۡمٌ قَدِیۡرٌ ﴿٪70﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔اور اللہ نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہاری جان قبض کریگا اور تم میں کوئی سب سے ناقص عمر کی طرف پھیرا جاتا ہے کہ جاننے کے بعد کچھ نہ جانے بیشک اللہ سب کچھ جانتا سب کچھ کرسکتا ہے۔
اس ''ارذل العمر'' کی کوئی مقدار معین نہیں ہے، تاریخی تجربہ ہے کہ بعض لوگ ساٹھ ہی برس کی عمر میں ایسے ہوجاتے ہیں کہ بعض لوگ ایک سو برس کی عمر پاکر بھی کھوسٹ عمر کی منزل میں نہیں پہنچتے۔ ہاں امام قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ نوے برس کی عمر والے کے تمام قویٰ اور حواس عمل و تصرف سے ناکارہ ہوجاتے ہیں اور وہ ہر قسم کی کمائی اور حج و جہاد وغیرہ کے قابل نہیں رہ جاتے اور یہ عمراور اس کی کیفیات واقعی اس قابل ہیں کہ انسان اس سے خدا کی پناہ مانگے۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سات چیزوں سے پناہ مانگا کرتے تھے اور یوں دعا مانگا کرتے تھے۔
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْۤ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْبُخْلِ وَالْکَسَلِ وَاَرْذَلِ الْعُمُرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ وَفِتْنَۃِ الدَّجَّالِ وَفِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ
(صحیح البخاری،ج۳،ص۲۵۷،حدیث۴۷۰۷بتغیرقلیل )
"اے اللہ!میں تیری پناہ مانگتا ہوں کنجوسی سے اور کاہلی سے اور کھوسٹ عمر سے اور قبر کے عذاب سے اور فتنہ دجال سے اور زندگی کے فتنے سے اور موت کے فتنے سے۔
اسی لئے منقول ہے کہ مشہور بزرگ اور مستند عالم دین حضرت محمد بن علی واسطی رحمۃ اللہ علیہ اپنی ذات کے لئے خاص طور پر یہ دعا مانگا کرتے تھے۔"
" یَا رَبِّ لاَ تُحْیِنِیْ اِلٰی زَمَنٍ اَکُوْنُ فِیْہِ کَلاَّ عَلٰی اَحَدٍ
خُذْ بِیَدِیْ قَبْلَ اَنْ اَقُوْلَ لِمَنْ اَلْقَاہُ عِنْدَ الْقِیَام خُذْ بِیَدِیْ"
"یعنی اے اللہ!مجھے اتنے زمانے تک زندہ مت رکھ کہ میں کسی پر بوجھ بن جاؤں تو اس سے قبل میری دست گیری فرمالے کہ میں ہر ملنے والے سے اٹھتے وقت یہ کہوں کہ تم میرا ہاتھ پکڑلو۔
حدیث شریف میں ہے اور بعض لوگوں نے اس کو حضرت عکرمہ کا قول بتایا ہے کہ جو شخص قرآن کو پڑھتا رہے وہ ارذل العمر(کھوسٹ)کو نہ پہنچے گا اور ایسے ہی جو قرآن میں غوروفکر کرتا رہے گا اور قرآن پر عمل بھی کرتا رہے گا وہ بھی اس کھوسٹ عمر سے محفوظ رہے گا۔"
" (تفسیر روح البیان،ج۵،ص ۵۴۔۵۵ (ملخصاً)،پ۱۴، النحل:۰ ۷)"
"درسِ ہدایت:۔زندگی اور موت اور کم یا زیادہ عمر یہ اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ و اختیار میں ہے وہ جس کو چاہے کم عمر عطا فرمائے جس کو چاہے طویل عمر بخشے۔ کسی انسان کو ہرگزہرگز اس میں کوئی دخل نہیں ہے انسان کو چاہے کہ بہرحال خداوند قدوس کی مرضی پر صابر و شاکر رہے۔ ہاں البتہ یہ دعا مانگتا رہے کہ اللہ تعالیٰ میری زندگی کو نیکیوں میں گزارے اور ہر قسم کے گناہوں سے محفوظ رکھے کیونکہ تھوڑی سی عمر ملے اور نیکیوں میں گزرے تو اس سے بڑا کوئی انعام نہیں اور عمر طویل پائے مگر حسنات اور نیکیوں میں نہ گزرے تو وہ لمبی عمر بہت بڑا خسارہ اور وبال ہے اور اس کا ہر وقت دھیان رکھے کہ کسی بوڑھے شخص کی بے ادبی نہ ہونے پائے بلکہ ہمیشہ بوڑھوں کا اعزاز و احترام پیش نظر رہے، کیونکہ
ایک حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے دربار رسالت میں فقر و فاقہ کی شکایت کی، تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"
لَعَلَّکَ مَشَیْتَ اَمَامَ شیْخ
یعنی غالباً تم کسی بوڑھے آدمی کے آگے آگے چلے ہو گے۔ یہ اسی کی نحوست ہے۔
" (تفسیر روح البیان، ج۵، ص ۵۶،پ۱۴، النحل:۷۰)"
مکہ مکرمہ میں ایک بڑھیاریطہ بنت سعد بن تمیم قرشیہ تھی۔ جس کے مزاج میں وہم اور عقل میں فتور تھا وہ روزانہ دوپہر تک محنت کر کے سوت کاتا کرتی تھی اور دوپہر کے بعد وہ کاتے ہوئے سوت کو توڑ کر ریزہ ریزہ کرڈالتی تھی اور اپنی باندیوں سے بھی تڑواتی تھی، یہی روزانہ کا اس کا معمول تھا۔
(تفسیر صاوی، ج۳، ص ۱۰۸۹،پ۱۴،النحل:۹۲)
جو لوگ اللہ تعالیٰ کے نام کی قسمیں کھا کر یا اس کے نام پر لوگوں سے کوئی عہد کر کے اپنی قسموں اور عہدوں کو توڑ دیا کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اس عورت سے تشبیہ
دیتے ہوئے قسموں اور عہدوں کے توڑنے سے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا کہ:
وَ اَوْفُوۡا بِعَہۡدِ اللہِ اِذَا عٰہَدۡتُّمْ وَلَا تَنۡقُضُوا الۡاَیۡمَانَ بَعْدَ تَوْکِیۡدِہَا وَ قَدْ جَعَلْتُمُ اللہَ عَلَیۡکُمْ کَفِیۡلًا ؕ اِنَّ اللہَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوۡنَ ﴿91﴾وَلَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّتِیۡ نَقَضَتْ غَزْلَہَا مِنۡۢ بَعْدِ قُوَّۃٍ اَنۡکَاثًا ؕ
"ترجمہ کنزالایمان:۔اور اللہ کا عہد پورا کرو جب قول باندھواور قسمیں مضبوط کر کے نہ توڑو اور تم اللہ کو اپنے اوپر ضامن کرچکے ہو بیشک اللہ تمہارے کام جانتا ہے اور اس عورت کی طرح نہ ہو جس نے اپنا سوت مضبوطی کے بعد ریزہ ریزہ کر کے توڑ دیا۔(پ14،النحل:91۔92)
درسِ ہدایت:۔ہر قسم کی بدعہدی اور عہد شکنی ممنوع اور شریعت میں گناہ ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر بلا ضرورت اس کو توڑنا بھی جائز نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اَوْفُوا بِالْعُفُوْ یعنی اپنے عہدوں اور معاہدوں کو پورا کرو اور فرمایا کہ"
وَاحْفَظُوْا اَیْمَانَکُمْ
یعنی اپنی قسموں کی حفاظت کرو۔ ہاں البتہ اگر کسی خلاف شرع بات کی قسم کھالی ہو تو ہرگز ہرگز اس قسم پر اڑے نہیں رہنا چاہے بلکہ لازم ہے کہ اس قسم کو توڑ کر اس کا کفارہ ادا کرے۔
واللہ تعالیٰ اعلم۔
''حصور''یمن کا ایک گاؤں تھا اس گاؤں والوں کی ہدایت کے لئے حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام سے بہت پہلے اللہ تعالیٰ نے ایک نبی کو بھیجا جن کا نام موسیٰ بن میشا تھا جو حضرت یعقوب علیہ السلام کے پرپوتے تھے۔ گاؤں والوں نے آپ کو جھٹلایا اور پھر آپ کو قتل کردیا اس ناجائز حرکت پر خدا کا قہر و غضب اور اس کا عذاب گاؤں والوں پر اُتر پڑا۔ گاؤں والے طرح طرح کی بلاؤں میں گرفتار ہو گئے یہاں تک کہ ''بخت نصر''کافر و ظالم بادشاہ اس گاؤں پر مسلط ہو گیا۔ اور اس نے نہایت ہی بے دردی کے ساتھ پورے گاؤں کے تمام مردوں کو قتل کردیا اور
سب عورتوں کو گرفتار کر کے لونڈی بنالیا اور شہر کو تاخت و تاراج کر کے اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ جب شہر میں قتل عام شروع ہوا تو گاؤں والے بھاگنے لگے اس وقت فرشتوں نے بطور مذاق کے کہا کہ اے گاؤں والو! مت بھاگو اور اپنے گھروں میں اپنے مال و دولت کو لے کر آرام و حسین زندگی بسر کرو۔ کہاں بھاگ رہے ہو؟ ٹھہرو! یہ انبیاء علیہم السلام کے خون ناحق کا بدلہ ہے جو تمہیں مل رہا ہے، آسمان سے ملائکہ کی یہ آواز پورے گاؤں میں آتی رہی اور ''بخت نصر''کے لشکروں کی تلواریں ان کے سر اُڑاتی رہیں۔ جب گاؤں والوں نے یہ منظر دیکھا تو اپنے گناہوں اور جرموں کا اقرار کرنے لگے مگر ان کی آہ و زاری اور گریہ و بے قراری نے ان کو کوئی نفع نہیں دیا۔ گاؤں میں ہر طرف خون کی ندیاں بہہ گئیں اور سارا گاؤں تہس نہس ہو گیا قرآن مجید نے ان لوگوں کی ہلاکت و بربادی کی داستان کو ان لفظوں میں بیان فرمایا ہے:۔
وَکَمْ قَصَمْنَا مِنۡ قَرْیَۃٍ کَانَتْ ظَالِمَۃً وَّ اَنۡشَاۡنَا بَعْدَہَا قَوْمًا اٰخَرِیۡنَ ﴿11﴾فَلَمَّاۤ اَحَسُّوۡا بَاۡسَنَاۤ اِذَا ہُمۡ مِّنْہَا یَرْکُضُوۡنَ ﴿ؕ12﴾لَاتَرْکُضُوۡا وَارْجِعُوۡۤا اِلٰی مَاۤ اُتْرِفْتُمْ فِیۡہِ وَ مَسٰکِنِکُمْ لَعَلَّکُمْ تُسْـَٔلُوۡنَ ﴿13﴾قَالُوۡایٰوَیۡلَنَاۤ اِنَّاکُنَّا ظٰلِمِیۡنَ ﴿14﴾فَمَا زَالَتۡ تِّلْکَ دَعْوٰىہُمْ حَتّٰی جَعَلْنٰہُمْ حَصِیۡدًا خَامِدِیۡنَ ﴿15﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔اور کتنی ہی بستیاں ہم نے تباہ کردیں کہ وہ ستمگار تھیں اور ان کے بعد اور قوم پیدا کی تو جب انہوں نے ہمارا عذاب پایا جبھی وہ اس سے بھاگنے لگے نہ بھاگو اور لوٹ کے جاؤ اُن آسائشوں کی طرف جو تم کو دی گئی تھیں اور اپنے مکانوں کی طرف شاید تم سے پوچھنا ہو بولے ہائے خرابی ہماری بیشک ہم ظالم تھے تو وہ یہی پکارتے رہے یہاں تک کہ ہم نے انہیں کردیا کاٹے ہوئے بجھے ہوئے۔(پ17،الانبیاء:11۔15)
اور بعض مفسرین کرام نے فرمایا ہے کہ اس آیت میں گاؤں سے مراد گزشتہ ہلاک شدہ امتوں کے گاؤں ہیں۔ یعنی حضرت نوح و حضرت لوط و حضرت صالح و حضرت شعیب علیہم السلام کی"
قوموں کی بستیاں جو طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک و برباد کردی گئیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم۔
" (تفسیر صاوی،ج۴، ص ۱۲۹۲،پ۱۷، الانبیاء:۱۱)"
درسِ ہدایت:۔حضرات انبیاء علیہم السلام کی تکذیب و توہین اور ان کی ایذاء رسانی و قتل یہ سب بڑے بڑے وہ جرم عظیم ہیں کہ خداوند قدوس کا عذاب ان لوگوں پر ضرور ہی آتا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید گواہ ہے کہ بہت سی بستیاں انہیں جرموں میں تباہ و برباد کردی گئیں۔
قرآن مجید میں حضرت ذوالکفل علیہ السلام کا ذکر صرف دو سورتوں یعنی سورہ ''انبیاء''اور سورہ ''ص ۤ '' میں کیا گیا ہے اور ان دونوں سورتوں میں صرف آپ کا نام مذکور ہے۔ نام کے علاوہ آپ کے حالات کا مجمل یا مفصل کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ سورہ انبیاء میں یہ ہے :
وَ اِسْمٰعِیۡلَ وَ اِدْرِیۡسَ وَ ذَا الْکِفْلِ ؕ کُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیۡنَ﴿85﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔اور اسماعیل اور ادریس ، ذوالکفل کو (یاد کرو)وہ سب صبر والے تھے۔ (پ17،الانبیاء:85)
اور سورہ ''ص ۤ ''میں اس طرح ارشاد ہوا کہ:"
وَ اذْکُرْ اِسْمٰعِیۡلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْکِفْلِ ؕ وَکُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِ ﴿ؕ48﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔اور یاد کرو اسمٰعیل اور یسع اور ذوالکفل کو اور سب اچھے ہیں۔(پ23،صۤ:48)
حضرت ذوالکفل علیہ السلام کے متعلق قرآن مجید نے نام کے سوا کچھ نہیں بیان کیا ہے اسی طرح حدیثوں میں بھی آپ کا کوئی تذکرہ منقول نہیں ہے۔ لہٰذا قرآن و حدیث کی روشنی میں اس سے زیادہ نہیں کہا جا سکتا کہ ذوالکفل علیہ السلام خدا کے برگزیدہ نبی اور پیغمبر تھے جو کسی قوم کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوئے تھے۔
البتہ حضرت شاہ عبدالقادر صاحب دہلوی ارشاد فرماتے ہیں کہ حضرت ذوالکفل علیہ السلام حضرت ایوب علیہ السلام کے فرزند ہیں اور انہوں نے خالصاً لوجہ اللہ کسی کی ضمانت کرلی تھی۔"
جس کی وجہ سے ان کو کئی برس قید کی تکلیف برداشت کرنی پڑی۔
(موضح القرآن)
"اور بعض مفسرین نے تحریر فرمایا کہ حضرت ذوالکفل علیہ السلام درحقیقت حضرت حزقیل علیہ السلام کا لقب ہے۔
اور زمانہ حال کے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ذوالکفل ''گوتم بدھ'' کا لقب ہے اس لئے کہ اس کے دارالسلطنت کا نام ''کپل وستو'' تھا جس کامعرب ''کفل ''ہے اور عربی میں ''ذو'' ، ''صاحب'' اور ''مالک''کے معنی میں بولا جاتا ہے اس لئے یہاں بھی ''کپل وستو'' کے مالک اور بادشاہ کو ''ذوالکفل'' کہا گیا اور ان لوگوں کا دعویٰ ہے کہ ''گوتم بدھ'' کی اصل تعلیم توحید اور حقیقی اسلام ہی کی تھی مگر بعد میں یہ دین دوسرے ادیان و ملل کی طرح مسخ و محرف ہوگیا۔ مگر واضح رہے کہ زمانہ حال کے چند لوگوں کی یہ رائے کہ ''ذوالکفل'' گوتم بدھ کا لقب ہے میرے نزدیک یہ محض ایک خیالی تُک بندی ہے۔ تاریخی اور تحقیقی حیثیت سے اس رائے کی کوئی وقعت نہیں ہے۔"
واللہ تعالیٰ اعلم۔
بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ذوالکفل علیہ السلام انبیاء بنی اسرائیل میں سے ہیں اور بنی اسرائیل کے ان حالات و واقعات کے سوا جن کی تفصیلات قرآن مجید میں مختلف انبیاء بنی اسرائیل کے ذکر میں آتی رہی ہیں، حضرت ذوالکفل علیہ السلام کے زمانہ میں کوئی خاص واقعہ ایسا درپیش نہیں ہوا جو عام تبلیغ و ہدایت سے زیادہ اپنے اندر عبرت وموعظت کا پہلو رکھتا ہو۔ اس لئے قرآن مجید نے فقط ان کے نام ہی کے ذکر پر اکتفا کیا اور حالات و واقعات کا ذکر نہیں فرمایا فقط۔
واللہ تعالیٰ اعلم۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے پانچ نہروں کو جنت سے جاری فرمایا ہے۔ (۱) جیحون (۲)یحون (۳)دجلہ(۴)فرات(۵)نیل۔
"یہ پانچوں ندیاں ایک ہی چشمہ سے جاری ہوئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعہ جنت کے اس چشمہ کو پہاڑوں کے اندر امانت رکھ دیا ہے اور پہاڑوں سے ان نہروں کو زمین پر جاری فرما دیا ہے۔ جس سے لوگ طرح طرح کے فوائد حاصل کررہے ہیں۔ جب یاجوج ماجوج کے نکلنے کا وقت ہو گا تو اللہ تعالیٰ حضرت جبرئیل علیہ السلام کو زمین پر بھیجے گااور وہ چھ چیزوں کو زمین سے اُٹھا لے جائیں گے۔
(۱)قرآن مجید (۲)تمام علوم (۳)حجر اسود (۴)مقام ابراہیم (۵)موسیٰ علیہ السلام کا تابوت (۶)مذکورہ بالا پانچوں نہریں اور جب یہ چھ چیزیں زمین سے اُٹھالی جائیں گی تو دین و دنیا کی برکتیں روئے زمین سے اُٹھ جائیں گی اور لوگ ان برکتوں سے بالکل محروم ہوجائیں گے۔"
(تفسیر صاوی،ج۴، ص ۱۳۶۰،پ۱۸،المومنون: ۱۸)
اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ:
وَ اَنۡزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءًۢ بِقَدَرٍ فَاَسْکَنّٰہُ فِی الْاَرْضِ ٭ۖ وَ اِنَّا عَلٰی ذَہَابٍۭ بِہٖ لَقٰدِرُوۡنَ ﴿ۚ18﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔اور ہم نے آسمان سے پانی اتارا ایک اندازہ پر پھر اسے زمین میں ٹھہرایا اور بیشک ہم اس کے لے جانے پر قادر ہیں۔ (پ18،المومنون:18)
اس آیت میں"
وَ اِنَّا عَلٰی ذَہَابٍۭ بِہٖ لَقٰدِرُوۡنَ ﴿ۚ۱۸﴾
"کا یہی مطلب ہے کہ ان پانیوں اور نہروں کو ایک وقت ہم اُٹھا کر جہاں سے ہم نے اُتارا ہے وہاں پہنچا دیں گے اور زمین سے یہ سب ناپید ہوجائیں گے۔
درسِ ہدایت:۔تو بندوں پر لازم ہے کہ خداوند قدوس کی ان نعمتوں کی شکر گزاری کے ساتھ حفاظت کریں اور ہرگزہرگز پانی کو بیکار ضائع نہ کریں اور ہر وقت خدا سے ڈرتے رہیں کہ کہیں یہ نعمت ہم سے سلب نہ کرلی جائے۔"
واللہ تعالیٰ اعلم۔
اللہ تعالیٰ بڑا قادر و قیوم ہے۔ اگر وہ چاہے تو ایک لمحہ میں ہزاروں انسانوں کو پیدا فرما دے مگر وہ قادر ِ مطلق اپنی قدرتِ کاملہ کے باوجود اپنی حکمتِ کاملہ سے انسانوں کو بتدریج شرف ِ وجود بخشتا ہے۔ چنانچہ نطفہ ماں کی بچہ دانی میں پہنچ کر طرح طرح کی کیفیات اور قسم قسم کے تغیرات سے ایک خاص قسم کا مزاج حاصل کر کے جما ہوا خون بن جاتا ہے۔ پھر وہ جما ہوا خون گوشت کی ایک بوٹی بن جاتا ہے۔ پھر گوشت کی بوٹی ہڈیاں بن جاتی ہیں۔ پھر ان ہڈیوں پر گوشت چڑھ جاتا ہے اور پورا جسم تیار ہوجاتا ہے پھر اُس میں رُوح ڈالی جاتی ہے اور یہ بے جان بدن جان دار ہوجاتا ہے اور اس میں نطق اور سمع و بصر وغیرہ کی مختلف طاقتیں ودیعت رکھی جاتی ہیں۔ پھر ماں اس بچہ کو جنتی ہے اس طرح مختلف منازل و مراحل کو طے کر کے ایک انسان بتدریج عالم وجود میں آتا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید نے تخلیق انسانی کے ان مراحل کا نقشہ ان الفاظ میں پیش فرمایا ہے کہ:
ثُمَّ جَعَلْنٰہُ نُطْفَۃً فِیۡ قَرَارٍ مَّکِیۡنٍ ﴿۪13﴾ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظٰمًا فَکَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًا ٭ ثُمَّ اَنۡشَاۡنٰہُ خَلْقًا اٰخَرَ ؕ فَتَبٰرَکَ اللہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیۡنَ ﴿ؕ14﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔پھر اسے پانی کی بوند کیا ایک مضبوط ٹھہراؤ میں پھر ہم نے اس پانی کی بوند کو خون کی پھٹک کیا پھر خون کی پھٹک کو گوشت کی بوٹی پھر گوشت کی بوٹی کو ہڈیاں پھر ان ہڈیوں پر گوشت پہنایا پھر اسے اور صورت میں اُٹھان دی تو بڑی برکت والا ہے اللہ سب سے بہتر بنانے والاہے۔ (پ18،المومنون:13۔14)
درسِ ہدایت:۔تخلیق انسانی کے ان مختلف مراحل سے گزرنے میں خداوندقدوس کی کون کون سی حکمتیں اور کیا کیا مصلحتیں پوشیدہ ہیں؟ ان کو بھلا ہم عام انسان کیا اور کیونکر سمجھ سکتے ہیں؟"
لیکن کم سے کم ہر انسان کے لئے اس میں عبرتوں اور نصیحتوں کے بہت سے سامان ہیں تاکہ انسان یہ سوچتا رہے اور کبھی اس سے غافل نہ رہے کہ میں اصل میں کیا تھا؟ اور خداوند قدوس نے مجھے کیا سے کیا بنا دیا؟ یہ غور کر کے خداوند تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ پر ایمان لائے اور کبھی فخر و تکبر اور خودنمائی کو اپنے قریب نہ آنے دے اور یہ سوچ کر کہ میں نطفہ کی ایک بوند سے پیدا ہوا ہوں ہمیشہ عاجزی و فروتنی کے ساتھ منکسر المزاج بن کر زندگی بسر کرے اور یہ سوچ کر قیامت پر بھی ایمان لائے کہ جس خدا نے مجھے ایک بوند نطفہ پانی سے انسان بنا دیا وہ بلاشبہ اس پر بھی قادر ہے کہ مرنے کے بعد دوبارہ مجھے زندہ کر کے میرے اعمال نیک و بد کا حساب لے گا۔
واللہ تعالیٰ اعلم۔
قرآن مجید میں مبارک درخت سے مراد ''زیتون'' کا درخت ہے۔ طوفانِ نوح علیہ السلام کے بعد یہ سب سے پہلا درخت ہے جو زمین پر اُگا اور سب سے پہلے جہاں اُگا وہ کوہِ طور ہے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام خدا سے ہم کلام ہوئے۔ زیتون کے درخت کی عمر بہت زیادہ ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ بعض عالموں نے فرمایا ہے کہ تین ہزار برس تک یہ درخت باقی رہتا ہے۔
(تفسیر صاوی، ج۴، ص ۱۳۶۰، پ۱۸، المومنون:۲۰)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ زیتون میں بہت سے فوائد اور منفعتیں ہیں۔ اس کے تیل سے چراغ جلایا جاتا ہے اور یہ بطور سالن کے بھی استعمال کیا جاتا ہے اور اس کی سر اور بدن پر مالش بھی کرتے ہیں اور یہ چمڑے کی دباغت میں بھی کام آتا ہے اور اس سے آگ بھی جلاتے ہیں اور اس کا کوئی جزو بھی بیکار نہیں۔ یہاں تک کہ اس کی راکھ سے ریشم دھو کر صاف کیا جاتا ہے اور یہ حضرات انبیاء علیہم السلام کے مکانوں اور مقدس زمینوں میں اُگتا ہے اور اس کے لئے ستر انبیاء کرام نے برکت کی دعا مانگی ہے۔ یہاں تک کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام اور حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس دعاؤں سے بھی یہ
درخت سرفراز ہوا ہے۔
(تفسیر صاوی، ج۴، ص ۱۴۰۵، پ۱۸،نور:۳۵)
اللہ تعالیٰ نے اس مبارک درخت کے بارے میں ارشاد فرمایا :
وَشَجَرَۃً تَخْرُجُ مِنۡ طُوۡرِ سَیۡنَآءَ تَنۡۢبُتُ بِالدُّہۡنِ وَصِبْغٍ لِّلْاٰکِلِیۡنَ ﴿20﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔اور وہ پیڑ پیدا کیا کہ طورِ سینا سے نکلتا ہے لے کر اُگتا ہے تیل اور کھانے والوں کے لئے سالن۔(پ18،المومنون:20)
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:"
یُّوۡقَدُ مِنۡ شَجَرَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ زَیۡتُوۡنَۃٍ لَّا شَرْقِیَّۃٍ وَّلَا غَرْبِیَّۃٍ ۙ
"ترجمہ کنزالایمان:۔روشن ہوتا ہے برکت والے پیڑ زیتون سے جو نہ پورب کا نہ پچھم کا۔(پ18،النور:35)
درسِ ہدایت:۔زیتون ایک بڑی برکتوں والا درخت ہے یوں تو ہر جگہ یہ درخت بغیر کسی محنت اور پرورش کے ہوتا ہے لیکن خاص طور پر ملک شام اور عام طور پر ملک عرب میں بکثرت پایا جاتا ہے اور ان مقامات پر اس کا تیل بھی لوگ کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ مکہ مکرمہ میں گوشت اور مچھلی بھی اسی تیل میں تل کر لوگ کھاتے ہیں۔ اس کے تیل کو عربی میں ''زیت'' کہتے ہیں اور یہ تیل بیچنے والا ''زیات'' کہلاتا ہے۔ اگر مل سکے تو مسلمانوں کو چاہے کہ تبرکاً اس کا استعمال کریں کیونکہ قرآن میں اس کو مبارک درخت فرمایا گیا ہے اور ستر انبیاء کرام نے اس میں برکت کے لئے دعائیں فرمائی ہیں۔ لہٰذا اس کے بابرکت ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں اور جب بابرکت چیز ہے تو اس میں یقینا فوائد و منافع بھی بہت زیادہ ہوں گے۔"
واللہ تعالیٰ اعلم۔
''رس'' لغت میں پرانے کنوئیں کے معنی میں آیا ہے۔ اس لئے ''اصحاب الرس'' کے معنی ہوئے ''کنوئیں والے''اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ''اصحاب الرس'' کے نام سے ایک قوم کی سرکشی اور نافرمانی کی وجہ سے اس کی ہلاکت کا ذکر فرمایا ہے۔ چنانچہ سورہ فرقان میں ارشاد فرمایا کہ:
وَّعَادًا وَّ ثَمُوۡدَا۠ وَاَصْحٰبَ الرَّسِّ وَقُرُوْنًۢا بَیۡنَ ذٰلِکَ کَثِیۡرًا ﴿38﴾وَکُلًّا ضَرَبْنَا لَہُ الْاَمْثَالَ ۫ وَکُلًّا تَبَّرْنَا تَتْبِیۡرًا ﴿39﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔اور عاد اور ثمود اور کنوئیں والوں کو اور ان کے بیچ میں بہت سی سنگتیں اور ہم نے سب سے مثالیں بیان فرمائیں اور سب کو تباہ کر کے مٹا دیا۔(پ19،الفرقان:38۔39)
اور سورہ ق ۤ میں ہلاک شدہ قوموں کی فہرست بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اس طرح فرمایا کہ:"
کَذَّبَتْ قَبْلَہُمْ قَوْمُ نُوۡحٍ وَّ اَصْحٰبُ الرَّسِّ وَ ثَمُوۡدُ ﴿ۙ12﴾وَ عَادٌ وَّ فِرْعَوْنُ وَ اِخْوَانُ لُوۡطٍ ﴿ۙ13﴾وَّ اَصْحَابُ الْاَیۡکَۃِ وَ قَوْمُ تُبَّعٍ ؕ کُلٌّ کَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ وَعِیۡدِ ﴿14﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔ان سے پہلے جھٹلایا نوح کی قوم اور رس والوں اور ثمود اور عاد اور فرعون اور لوط کے ہم قوموں اور بن والوں اور تبع کی قوم نے ان میں ہر ایک نے رسولوں کو جھٹلایا تو میرے عذاب کا وعدہ ثابت ہو گیا۔(پ26،قۤ:12۔14)
''اصحاب الرس'' کون تھے؟ اور کہاں رہتے تھے؟ اس بارے میں مفسرین کے اقوال اس قدر مختلف ہیں کہ حقیقت حال بجائے منکشف ہونے کے اور زیادہ مستور ہو گئی ہے۔ بہرحال ہم مختصراً چند اقوال یہاں ذکر کر کے ایک اپنی بھی پسندیدہ بات تحریر کرتے ہیں۔
قول اول:علامہ ابن جریر کی رائے یہ ہے کہ ''رس'' کے معنی غار کے بھی آتے ہیں۔ اس لئے ''اصحاب الاخدود''(گڑھے والوں)ہی کو ''اصحاب الرس'' بھی کہتے ہیں۔
قول دوم:ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں اس قول کو حق بتایا ہے کہ ''اصحاب الرس'' قوم عاد"
سے بھی صدیوں پہلے ایک قوم کا نام ہے۔ یہ لوگ جس جگہ آباد تھے وہاں اللہ تعالیٰ نے ایک پیغمبر حضرت حنظلہ بن صفوان کو مبعوث فرمایا تھا اس سرکش قوم نے اپنے نبی کی بات نہیں مانی اور کسی طرح بھی حق کو قبول نہیں کیا بلکہ اپنے پیغمبر کو قتل کردیا۔ جس کی سزا میں پوری قوم عذابِ الٰہی سے ہلاک و برباد ہو گئی۔
(تفسیر سورہ فرقان و تاریخ ابن کثیر، ج ۱)
قول سوم:ابن ابی حاتم کا قول ہے کہ آذر بائیجان کے قریب ایک کنواں تھا اس کنوئیں کے قریب جو قوم آباد تھی اس نے اپنے نبی کو کنوئیں میں ڈال کر زندہ دفن کردیا تھا۔ اس لئے ان لوگوں کو ''اصحاب الرس'' کہاگیا۔
(تفسیر ابن کثیر، ج۶، ص ۱۰۱،پ۱۹،الفرقان: ۳۸)
"قول چہارم:قتادہ کہتے ہیں کہ ''یمامہ''کے علاقہ میں ''فلج'' نامی ایک بستی تھی ''اصحاب الرس'' وہیں آباد تھے اور یہ وہی قوم ہے جس کو قرآن مجید میں ''اصحاب القریہ'' بھی کہا گیا ہے اور یہ مختلف نسبتوں سے پکارے جاتے ہیں۔
قول پنجم:ابوبکر عمر نقاش اور سہیلی کہتے ہیں کہ ''اصحاب الرس'' کی آبادی میں ایک بہت بڑا کنواں تھا جس کا پانی وہ لوگ پیتے تھے اور اس سے اپنے کھیتوں کی آبپاشی بھی کرتے تھے اور ان لوگوں نے گمراہ ہو کر اپنے پیغمبر کو قتل کردیا تھا، اس جرم میں عذاب ِ الٰہی اُتر پڑا اور یہ پوری قوم ہلاک و برباد ہو گئی۔
قول ششم:محمد بن کعب قرظی فرماتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ"
اِنَّ اَوَّلَ النَّاسِ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ الْعَبْدُ الْاَسْوَدُ
"یعنی جنت میں سب سے پہلے جو شخص داخل ہو گا وہ ایک کالا غلام ہو گا۔
اور یہ اس لئے کہ ایک بستی میں اللہ تعالیٰ نے اپنا ایک نبی بھیجا مگر ایک کالے غلام کے سوا کوئی ان پر ایمان نہیں لایا پھر اہل شہر نے اس نبی کو ایک کنوئیں میں ڈال کر کنوئیں کے منہ کو ایک"
بھاری پتھر سے بند کردیا، تاکہ کوئی کھول نہ سکے۔ مگر یہ سیاہ فام غلام روزانہ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لاتا اور ان کو فروخت کر کے کھانا خریدتا اور کنوئیں پر پہنچ کر پتھر اٹھاتا اور نبی کی خدمت میں کھانا پیش کرتا تھا۔ کچھ دنوں کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس غلام پر جنگل میں نیند طاری کردی اور یہ چودہ سال تک سوتا ہی رہ گیا۔ اس درمیان میں قوم کا دل بدل گیا اور ان لوگوں نے نبی کو کنوئیں میں سے نکال کر توبہ کرلی اور ایمان قبول کرلیا پھر چند دنوں کے بعد نبی کی وفات ہو گئی۔ چودہ سال کے بعد جب کالے غلام کی آنکھ کھلی تو اس نے سمجھا کہ میں چند گھنٹے سویا ہوں، جلدی جلدی لکڑیاں کاٹ کر وہ شہر میں پہنچا تو یہ دیکھ کر کہ شہر کے حالات بدلے ہوئے ہیں دریافت کیا تو سارا قصہ معلوم ہوا اور اسی غلام کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جنت میں سب سے پہلے ایک کالا غلام جائے گا۔
(تفسیر ابن کثیر، ج۶، ص ۱۰۱،پ۱۹، الفرقان: ۳۸)
"قول ہفتم:مشہور مؤرخ علامہ مسعودی بیان کرتے ہیں کہ ''اصحاب الرس'' حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں اور یہ دو قبیلے تھے ''قیدما''(قیدماہ )اور دوسرا ''یامین'' یا ''رعویل''اور یہ دونوں قبیلے یمن میں آباد تھے۔
قول ہشتم:مصر کے ایک عالم فرج اللہ ذکی کردی کہتے ہیں کہ لفظ ''رس'' ، ''ارس'' کا مخفف ہے اور یہ شہر قفقاز کے علاقہ میں واقع ہے اس وادی میں اللہ تعالیٰ نے ایک نبی کو مبعوث فرمایا جن کا نام ابراہیم زردشت تھا۔ انہوں نے اپنی قوم کو دین حق کی دعوت دی مگر ان کی قوم نے سرکشی اور بغاوت اختیار کی چنانچہ یہ قوم عذابِ الٰہی سے ہلاک کردی گئی۔
''اصحاب الرس'' کے بارے میں یہ آٹھ اقوال ہیں جن میں سے سبھی اقوال معرض بحث میں ہیں اور لوگوں نے ان اقوال و روایات پر کافی رد و قدح کیا ہے جن کی تفصیلات کو ذکر کر کے ہم اپنی مختصر کتاب کو طول دینا پسند نہیں کرتے۔"
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ''اصحاب الرس'' کے بارے میں قرآن مجید سے اتنا تو پتا چلتا ہے کہ ان لوگوں کا وجود یقیناحضرت عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان کے زمانہ کی کسی قوم کا تذکرہ ہے یا کسی قدیم العہد قوم کا ذکر ہے تو قرآن مجید نے اس کے بارے میں کچھ بھی بیان نہیں فرمایا ہے اور مذکورہ بالا تفسیری روایتوں سے اس کا قطعی فیصلہ ہونا بہت ہی مشکل ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم۔
''ایکہ'' جھاڑی کو کہتے ہیں ان لوگوں کا شہر سرسبز جنگلوں اور ہرے بھرے درختوں کے درمیان تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی ہدایت کے لئے حضرت شعیب علیہ السلام کو بھیجا۔ آپ نے ''اصحاب ایکہ'' کے سامنے جو وعظ فرمایا وہ قرآن مجید میں اس طرح بیان کیا گیا ہے ، آپ نے فرمایاکہ
اَلَا تَتَّقُوۡنَ ﴿177﴾ۚاِنِّیۡ لَکُمْ رَسُوۡلٌ اَمِیۡنٌ ﴿178﴾ۙفَاتَّقُوا اللہَ وَ اَطِیۡعُوۡنِ ﴿179﴾ۚوَ مَاۤ اَسْـَٔلُکُمْ عَلَیۡہِ مِنْ اَجْرٍ ۚ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیۡنَ ﴿180﴾ؕاَوْفُوا الْکَیۡلَ وَ لَا تَکُوۡنُوۡا مِنَ الْمُخْسِرِیۡنَ ﴿181﴾ۚوَزِنُوۡا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیۡمِ ﴿182﴾ۚوَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَہُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیۡنَ ﴿183﴾ۚ وَ اتَّقُوا الَّذِیۡ خَلَقَکُمْ وَ الْجِبِلَّۃَ الْاَوَّلِیۡنَ ﴿184﴾ؕقَالُوۡۤا اِنَّمَاۤ اَنۡتَ مِنَ الْمُسَحَّرِیۡنَ ﴿185﴾ۙوَمَاۤ اَنۡتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا وَ اِنۡ نَّظُنُّکَ لَمِنَ الْکٰذِبِیۡنَ ﴿186﴾ۚفَاَسْقِطْ عَلَیۡنَا کِسَفًا مِّنَ السَّمَآءِ اِنۡ کُنۡتَ مِنَ الصّٰدِقِیۡنَ ﴿187﴾ؕقَالَ رَبِّیۡۤ اَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُوۡنَ ﴿188﴾فَکَذَّبُوۡہُ فَاَخَذَہُمْ عَذَابُ یَوْمِ الظُّلَّۃِ ؕ اِنَّہٗ کَانَ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیۡمٍ ﴿189﴾ (پ19،الشعراء:177 تا 189)
ترجمہ کنزالایمان:۔کیا ڈرتے نہیں بیشک میں تمہارے لئے اللہ کا امانت دار رسول ہوں تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو اور میں اس پرکچھ تم سے اجرت نہیں مانگتا میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارے جہان کا رب ہے ناپ پورا کرو اور گھٹانے والوں میں نہ ہو اور سیدھی ترازو سے تولو
"اور لوگوں کی چیزیں کم کر کے نہ دو اور زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھرو اور اس سے ڈرو جس نے تم کو پیدا کیا اور اگلی مخلوق کو بولے تم پر جادو ہوا ہے تم تو نہیں مگر ہم جیسے آدمی اور بیشک ہم تمہیں جھوٹا سمجھتے ہیں تو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرادو اگر تم سچے ہو فرمایا میرا رب خوب جانتا ہے جو تمہارے کو تک ہیں تو انہوں نے اسے جھٹلایا تو انہیں شامیانے والے دن کے عذاب نے آلیا۔ بیشک وہ بڑے دن کا عذاب تھا۔
خلاصہ یہ کہ ''اصحاب ایکہ''نے حضرت شعیب علیہ السلام کی مصلحانہ تقریر کو سن کر بدزبانی کی اور اپنی سرکشی اور غرور و تکبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے پیغمبر کو جھٹلا دیا اور یہاں تک اپنی سرکشی کا اظہار کیا کہ پیغمبر سے یہ کہہ دیا کہ اگر تم سچے ہو تو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا کر ہم کو ہلاک کردو۔
ا س کے بعد اس قوم پر خداوند قہار و جبار کا قاہرانہ عذاب آگیا وہ عذاب کیا تھا؟ سنئے اور عبرت حاصل کیجئے۔
حدیث شریف میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر جہنم کا ایک دروازہ کھول دیا جس سے پوری آبادی میں شدید گرمی اور لو کی حرارت و تپش پھیل گئی اور بستی والوں کا دم گھٹنے لگا تو وہ لوگ اپنے گھروں میں گھسنے لگے اور اپنے اوپر پانی کا چھڑکاؤ کرنے لگے مگر پانی اور سایہ سے انہیں کوئی چین اور سکون نہیں ملتا تھا۔ اور گرمی کی تپش سے ان کے بدن جھلسے جارہے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ایک بدلی بھیجی جو شامیانے کی طرح پوری بستی پر چھا گئی اور اس کے اندر ٹھنڈک اور فرحت بخش ہوا تھی۔ یہ دیکھ کر سب گھروں سے نکل کر اس بدلی کے شامیانے میں آگئے جب تمام آدمی بدلی کے نیچے آگئے تو زلزلہ آیا اور آسمان سے آگ برسی۔ جس میں سب کے سب ٹڈیوں کی طرح تڑپ تڑپ کر جل گئے۔ ان لوگوں نے اپنی سرکشی سے یہ کہا تھا کہ اے شعیب! ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا کر ہم کو ہلاک کردو۔ چنانچہ وہی عذاب اس صورت میں اس"
سرکش قوم پر آگیا اور سب کے سب جل کر راکھ کا ڈھیر بن گئے۔
" (تفسیر صاوی،ج۴، ص ۱۴۷۴،پ۱۹، الشعرآء:۱۸۹)"
"ایک ضروری توضیح:۔واضح رہے کہ حضرت شعیب علیہ السلام دو قوموں کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے تھے۔ ایک قوم ''مدین''دوسرے ''اصحاب ایکہ''ان دونوں قوموں نے آپ کو جھٹلادیا، اور اپنے طغیان و عصیان کا مظاہرہ اور اپنی سرکشی کا اظہار کرتے ہوئے ان دونوں قوموں نے آپ کے ساتھ بے ادبی اور بدزبانی کی اور دونوں قومیں عذابِ الٰہی سے ہلاک کردی گئیں۔ ''اصحاب مدین''پر تو یہ عذاب آیا کہ فَاَخَذَتْھُمُ الصَّیْحَۃُ یعنی حضرت جبرئیل علیہ السلام کی چیخ اور چنگھاڑ کی ہولناک آواز سے زمین دہل گئی اور لوگوں کے دل خوف ِ دہشت سے پھٹ گئے اور سب دم زدن میں موت کے گھاٹ اُتر گئے۔
اور ''اصحاب ایکہ''، ''عذاب یوم الظلۃ''سے ہلاک کردیئے گئے جس کا تفصیلی بیان ابھی ابھی آپ پڑھ چکے ہیں۔"
(تفسیر صاوی،ج۴، ص ۱۴۷۳، پ۱۹، الشعرآء:۱۷۶)
حضرت موسیٰ علیہ السلام بچپن ہی سے فرعون کے محل میں پلے بڑھے مگر جب جوان ہو گئے تو فرعون اور اس کی قوم قبطیوں کے مظالم دیکھ کر بے زار ہو گئے اور فرعونیوں کے خلاف آواز بلند کرنے لگے۔ اس پر فرعون اور اس کی قوم جو ''قبطی'' کہلاتے تھے، آپ کے دشمن بن گئے اور آپ فرعون کا محل بلکہ اس کا شہر چھوڑ کر اطراف میں چھپ کر رہنے لگے۔ ایک دن جب شہر والے دوپہر میں قیلولہ کررہے تھے تو آپ چپکے سے شہر میں داخل ہوگئے اور اس شہر کا نام ''منف'' تھا جو مصر کے حدود میں واقع ہے اور ''منف''دراصل ''مافہ'' تھا جو عربی میں ''منف'' ہو گیا اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ شہر ''عین الشمس'' تھا اور بعض مفسرین نے کہا کہ یہ شہر ''حابین'' تھا جو مصر سے دو کوس دور ہے۔
(تفسیرخازن،ج۳،ص۴۲۷،پ۲۰،القصص:۱۴)
یا ''ام خنان''یا
مصر تھا۔
(تفسیر صاوی،ج۴، ص ۱۵۲۲، پ۲۰، القصص: ۱۴)
"جب آپ شہر میں پہنچے تو یہ دیکھا کہ ایک شخص آپ کی قوم کا اسرائیلی اور ایک شخض فرعون کی قوم کا قبطی دونوں لڑ جھگڑ رہے ہیں۔ اسرائیلی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فریاد کر کے مدد مانگی۔ اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے قبطی کو ایک گھونسہ ماردیا جس سے اس کا دم نکل گیا۔ اس پر آپ کو بہت افسوس ہوا اور آپ خدا سے استغفار کرنے لگے۔ فرعون کی قوم کے لوگوں نے فرعون کو اطلاع دی کہ کسی اسرائیلی نے ہمارے ایک قبطی کو مار ڈالا ہے اس پر فرعون نے قاتل اور گواہوں کی تلاش کا حکم دیا۔
فرعونی چاروں طرف گشت کرتے پھرتے تھے۔ مگر کوئی سراغ نہیں ملتا تھا۔ رات بھر صبح تک حضرت موسیٰ علیہ السلام فکر مند رہے کہ خدا جانے اس قبطی کے مارے جانے کا کیا نتیجہ نکلے گا اور اس کی قوم کے لوگ کیا کریں گے؟ دوسرے روز جب موسیٰ علیہ السلام کو پھر ایسا اتفاق پیش آیا کہ وہی اسرائیلی جس نے ایک دن پہلے آپ سے مدد طلب کی تھی آج پھر ایک فرعونی سے لڑرہا تھا تو آپ نے اسرائیلی کو ڈانٹا کہ تو روز روز لوگوں سے لڑتا ہے اپنے کو بھی پریشانی میں ڈالتا ہے اور اپنے مددگاروں کو بھی فکر میں مبتلا کرتا ہے لیکن پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اسرائیلی پر رحم آگیا اور آپ نے چاہا کہ اس کو فرعونی کے ظلم سے بچائیں تو اسرائیلی بولا کہ اے موسیٰ! کیا تم مجھے بھی ایسے ہی قتل کرنا چاہتے ہو جیسا کہ کل تم نے ایک آدمی کو قتل کردیا۔ کیا تم یہی چاہتے ہو کہ زمین میں سخت گیر بنو اور اصلاح چاہتے ہی نہیں۔ اتنے میں شہر کے کنارے سے ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا اور یہ خبر دی کہ دربارِ فرعون کے قبطی آپس میں آپ کے قتل کا مشورہ کررہے ہیں۔ لہٰذا آپ شہر سے نکل جایئے میں آپ کا خیر خواہ ہوں تو آپ شہر سے باہر نکل گئے اور اس انتظار میں رہے کہ دیکھئے اب کیا ہوتا ہے؟ پھر آپ نے یہ دعا مانگی کہ اے میرے رب! مجھے ظالموں سے بچالے۔ یہ دعا مانگ کر آپ ہجرت کر کے مدین حضرت شعیب علیہ السلام کے پاس پہنچ"
گئے۔ انہوں نے آپ کو پناہ دی اور پھر اپنی ایک صاحبزادی بی بی صفورا سے آپ کا نکاح بھی کردیا۔
(پ۲۰، القصص: ۱۵۔ ۲۳ملخصاً)
جس شخص نے شہرکے کنارے سے دوڑتے ہوئے آ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو آپ کے قتل کا منصوبہ تیار ہونے کی خبر دی اور ہجرت کا مشورہ دیا وہ فرعون کے چچا کا لڑکا تھا، جس کا نام حزقیل یا شمعون یا سمعان تھا۔ یہ خاندان فرعون میں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لاچکا تھا۔
(تفسیر صاوی،ج۴، ص ۱۵۲۴،پ۲۰، القصص:۲۰)
درسِ ہدایت:۔اس واقعہ سے علماء حق کو عبرت و نصیحت حاصل کرنی چاہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور دوسرے انبیاء کرام علیہم السلام راہ ِ تبلیغ میں کیسے کیسے حادثات سے دو چار ہوئے مگر صبر و استقامت کا دامن ان حضرات کے ہاتھوں سے نہیں چھوٹا۔ یہاں تک کہ نصرتِ خداوندی نے ان حضرات کی ایسی دستگیری فرمائی کہ یہ حضرات کامیاب ہو کر رہے اور ان کے دشمنوں کو ہزیمت اور ہلاکت نصیب ہوئی۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
کفار نے بتوں کو معبود بنا کر ان کی امداد و اعانت اور نصرت و نفع رسانی پر جو اعتماد اور بھروسا رکھا ہے، اللہ تعالیٰ نے کفار کی اس حماقت مـآبی کے اظہار اور ان کی خود فریبیوں کا پردہ چاک کرنے کے لئے ایک عجیب مثال بیان فرمائی ہے جو بہت زیادہ عبرت خیز اور اعلیٰ درجے کی نصیحت آموز ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ:
مَثَلُ الَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللہِ اَوْلِیَآءَ کَمَثَلِ الْعَنۡکَبُوۡتِ ۖۚ اِتَّخَذَتْ بَیۡتًا ؕ وَ اِنَّ اَوْہَنَ الْبُیُوۡتِ لَبَیۡتُ الْعَنۡکَبُوۡتِ ۘ لَوْ کَانُوۡا یَعْلَمُوۡنَ ﴿41﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔ان کی مثال جنہوں نے اللہ کے سوا اور مالک بنالیے ہیں مکڑی کی طرح ہے اس نے جالے کا گھر بنایا اور بیشک سب گھروں میں کمزور گھر مکڑی کا گھر کیا اچھا ہوتا
"اگر جانتے۔(پ20،العنکبوت:41)
مطلب یہ ہے کہ مکڑی جالے کا گھر بنا کر اپنے خیال میں مگن رہتی ہے کہ میں مکان میں بیٹھی ہوئی ہوں مگر اس کے مکان کا یہ حال ہے کہ وہ نہ دھوپ سے بچا سکتا ہے نہ بارش سے، نہ گرمی سے محفوظ رکھ سکتا ہے نہ سردی سے حفاظت کرسکتا ہے اور ہوا کے ایک معمولی جھونکے سے تہس نہس ہو کر برباد ہوجایا کرتا ہے۔ یہی حال کفار کا ہے کہ ان لوگوں نے بتوں کو اپنے نفع و نقصان کا مالک بنالیا ہے اور ان بتوں کی امداد و نصرت پر اعتماد اور بھروسا کررکھا ہے۔ حالانکہ بتوں سے ہرگز ہرگز کوئی نفع و نقصان نہیں پہنچ سکتا اور کافروں کا بتوں پر اعتماد اتنا ہی کمزور سہارا ہے جتنا کہ مکڑی کا جالا کمزور ہوتا ہے۔ کاش کفار اس بات کو سمجھ لیتے تو یہ ان کے حق میں بہت ہی اچھا ہوتا۔
مکڑی:۔مکڑی ایک عجیب الخلقت جانور ہے اس کے آٹھ پاؤں اورچھ آنکھیں ہوتی ہیں یہ بہت ہی قناعت پسند جانور ہے۔ مگر خدا کی شان کہ سب سے حریص جانور یعنی مکھی اور مچھر اس کی غذا ہیں۔ مکڑی کئی کئی دنوں تک بھوکی پیاسی بیٹھی رہتی ہے مگر اپنے جالے سے نکل کر غذا تلاش نہیں کرتی۔ جب جالے کے اندر کوئی مکھی یا مچھر پھنس جاتا ہے تو یہ اس کو کھا لیتی ہے ورنہ صبر و قناعت کر کے پڑی رہتی ہے۔
مکڑی کے فضائل میں یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ ہجرت کے وقت جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غارِ ثور میں تشریف فرما تھے تو مکڑی نے غار کے منہ پر جالا تن دیا تھا اور کبوتری نے انڈے دے دیئے تھے۔ جس کو دیکھ کر کفار واپس چلے گئے کہ اگر غار میں کوئی شخص گیا ہوتا تو مکڑی کا جالا اور انڈا ٹوٹ گیا ہوتا۔"
(تفسیر صاوی،ج۴، ص ۱۵۶۴، پ۰،العنکبوت:۴۱)
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے آپ نے فرمایا کہ اپنے گھروں سے مکڑیوں
کے جالوں کو دور کرتے رہو کہ یہ مفلسی اور ناداری کا باعث ہوتے ہیں۔
(تفسیر خزائن العرفان، ص ۷۲۲،پ۲۰، العنکبوت:۴۱)
"حضرت لقمان کی مدح و ثناء اور ان کی بعض نصیحتوں کا تذکرہ قرآن میں بڑی عظمت و شان کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور انہی کے نام پر قرآن مجید کی ایک سورہ کا نام ''سورہ لقمان''رکھا گیا۔
محمد بن اسحٰق صاحب مغازی نے ان کا نسب نامہ اس طرح بیان کیا ہے۔ لقمان بن باعور بن باحور بن تارخ۔ یہ تارخ وہی ہیں جو حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلا م کے والد ہیں اور مؤرخین نے فرمایا کہ آپ حضرت ایوب علیہ السلام کے بھانجے تھے اور بعض کا قول ہے کہ آپ حضرت ایوب علیہ السلام کے خالہ زاد بھائی تھے۔
حضرت لقمان نے ایک ہزار برس کی عمر پائی۔ یہاں تک کہ حضرت داؤد علیہ السلام کی صحبت میں رہ کر ان سے علم سیکھا اور حضرت داؤد علیہ السلام کی بعثت سے پہلے آپ بنی اسرائیل کے مفتی تھے۔ مگر جب حضرت داؤد علیہ السلام منصب ِ نبوت پر فائز ہوگئے تو آپ نے فتویٰ دینا ترک کردیا اور بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ حضرت لقمان نے فرمایا ہے کہ میں نے چار ہزار نبیوں کی خدمت میں حاضری دی ہے۔ اور ان پیغمبروں کے مقدس کلاموں میں سے آٹھ باتوں کو میں نے چن کر یاد کرلیا ہے، جو یہ ہیں:
(۱)جب تم نماز پڑھو تو اپنے دل کی حفاظت کرو۔
(۲)جب تم کھانا کھاؤ تو اپنے حلق کی حفاظت کرو۔
(۳)جب تم کسی غیر کے مکان میں رہو تو اپنی آنکھوں کی حفاظت کرو۔
(۴)جب تم لوگوں کی مجلس میں رہو تو اپنی زبان کی حفاظت رکھو۔
(۵)اللہ تعالیٰ کو ہمیشہ یاد رکھو۔"
" (۶)اپنی موت کو ہمیشہ یاد کرتے رہا کرو۔
(۷)اپنے احسانوں کو بھلادو۔
(۸)دوسروں کے ظلم کو فراموش کردو۔
حضرت عکرمہ اور امام شعبی کے سوا جمہور علماء کا یہی قول ہے کہ آپ نبی نہیں تھے بلکہ آپ حکیم تھے اور بنی اسرائیل کے نہایت ہی بلند مرتبہ صاحب ایمان اور بہت ہی نامور مرد صالح تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے سینہ کو حکمتوں کا خزینہ بنا دیا تھا۔ قرآن مجید میں ہے:"
وَلَقَدْ اٰتَیۡنَا لُقْمٰنَ الْحِکْمَۃَ اَنِ اشْکُرْ لِلہِ ؕ وَمَنۡ یَّشْکُرْ فَاِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہٖ ۚ وَمَنۡ کَفَرَ فَاِنَّ اللہَ غَنِیٌّ حَمِیۡدٌ ﴿12﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔ اور بیشک ہم نے لقمان کو حکمت عطا فرمائی کہ اللہ کا شکر کر اور جو شکر کرے وہ اپنے بھلے کو شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرے تو بیشک اللہ بے پرواہ ہے سب خوبیوں سراہا۔ (پ21،لقمان:12)
حضرت لقمان عمر بھر لوگوں کو نصیحتیں فرماتے رہے۔ تفسیر فتح الرحمن میں ہے کہ آپ کی قبر مقام ''صرفند'' میں ہے جو ''رملہ'' کے قریب ہے اور حضرت قتادہ کا قول ہے کہ آپ کی قبر ''رملہ'' میں مسجد اور بازار کے درمیان میں ہے اور اس جگہ ستر انبیاء علیہم السلام بھی مدفون ہیں۔ جن کو آپ کے بعد یہودیوں نے بیت المقدس سے نکال دیا تھا اور یہ لوگ بھوک پیاس سے تڑپ تڑپ کر وفات پا گئے تھے۔ آپ کی قبر پر ایک بلند نشان ہے اور لوگ اس قبر کی زیارت کے لئے دور دور سے جایا کرتے ہیں۔"
(تفسیر روح البیان،ج۷، ص ۷۷، پ۲۱، لقمان:۱۲)
حکمت کیا ہے؟:۔''حکمت'' عقل و فہم کو کہتے ہیں اور بعض نے کہا کہ ''حکمت'' معرفت اور اصابت فی الامور کا نام ہے۔ اور بعض کے نزدیک حکمت ایک ایسی شے ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کے دل میں یہ رکھ دیتا ہے اس کا دل روشن ہوجاتا ہے وغیرہ وغیرہ مختلف اقوال ہیں۔ اللہ
تعالیٰ نے حضرت لقمان کو نیند کی حالت میں اچانک حکمت عطا فرما دی تھی۔ بہرحال نبوت کی طرح حکمت بھی ایک وہبی چیز ہے ، کوئی شخص اپنی جدوجہد اور کسب سے حکمت حاصل نہیں کرسکتا۔ جس طرح کہ بغیر خدا کے عطا کئے کوئی شخص اپنی کوششوں سے نبوت نہیں پا سکتا۔ یہ اور بات ہے کہ نبوت کا درجہ حکمت کے مرتبے سے بہت اعلیٰ اور بلند تر ہے۔
(تفسیر روح البیان، ج۷، ص ۷۴۔۷۵، (ملخصاً)پ۲۱، لقمان:۱۱)
"حضرت لقمان نے اپنے فرزند کو جن کا نام ''انعم'' تھا۔ چند نصیحتیں فرمائی ہیں جن کا ذکر قرآن مجید کی سورہ لقمان میں ہے۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی دوسری نصیحتیں آپ نے فرمائی ہیں جو تفاسیر کی کتابوں میں مذکور ہیں۔
مشہور ہے کہ آپ درزی کا پیشہ کرتے تھے اور بعض نے کہا کہ آپ بکریاں چراتے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ آپ حکمت کی باتیں بیان کررہے تھے تو کسی نے کہا کہ کیا تم فلاں چرواہے نہیں ہو؟ تو آپ نے فرمایا کہ کیوں نہیں، میں یقینا وہی چرواہا ہوں تو اس نے کہا کہ آپ حکمت کے اس مرتبہ پر کس طرح فائز ہو گئے؟ تو آپ نے فرمایا کہ باتوں میں سچائی اور امانتوں کی ادائیگی اور بیکار باتوں سے پرہیز کرنے کی وجہ سے۔"
(تفسیر صاوی، ج۵، ص۱۵۹۸، پ۲۱، لقمان:۱۲)
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں امانت کا ذکر فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:
اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَاَبَیۡنَ اَنۡ یَّحْمِلْنَہَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْہَا وَ حَمَلَہَا الْاِنۡسَانُ ؕ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوۡمًا جَہُوۡلًا ﴿ۙ72﴾لِّیُعَذِّبَ اللہُ الْمُنٰفِقِیۡنَ وَ الْمُنٰفِقٰتِ وَ الْمُشْرِکِیۡنَ وَ الْمُشْرِکٰتِ وَ یَتُوۡبَ اللہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیۡنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ ؕ وَکَانَ اللہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴿٪73﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔بیشک ہم نے امانت پیش فرمائی آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے اور آدمی نے اٹھالی بیشک وہ اپنی جان کو مشقت میں ڈالنے والا بڑا نادان ہے۔ تاکہ اللہ عذاب دے منافق مردوں اور منافق عورتوں اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو اور اللہ توبہ قبول فرمائے مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کی اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (پ22،الاحزاب:72۔73)
وہ امانت جس کو اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں اور پہاڑوں پر پیش فرمایا تو ان سبھوں نے خوف ِ الٰہی سے ڈر کر اس امانت کو قبول کرنے سے انکار کردیا لیکن انسان نے امانت کے اس بوجھ کو اٹھا لیا۔ سوال یہ ہے کہ وہ امانت درحقیقت کیا چیز تھی؟ تو اس بارے میں مفسرین کے چند اقوال ہیں مگر حضرت علامہ احمد صاوی علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ اس امانت کی سب سے بہترین تفسیر یہ ہے کہ وہ امانت شرعی پابندیوں کی ذمہ داری ہے۔
روایت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے شریعت کی پابندیوں کو آسمانوں اور زمینوں اور پہاڑوں کے روبرو پیش فرمایا تو ان تینوں نے عرض کیا کہ اے باری تعالیٰ! ہمیں اس بارگراں کے اٹھانے میں کیا حاصل ہو گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم ان (احکام شریعت)کی پابندی کرو گے تو تمہیں بہترین صلہ و انعام دیا جائے گا تو تینوں نے جواب میں عرض کیا کہ اے باری تعالیٰ! ہم تو بہرحال تیرے حکم کے فرمانبردار ہیں، باقی ثواب و عذاب سے ہمیں کوئی مطلب نہیں ہے لیکن خوف ِ الٰہی سے ڈر کر کانپتے ہوئے ان تینوں نے اس امانت کو قبول کرنے سے اپنی معذوری ظاہر کرتے ہوئے انکار کردیا ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس امانت کو حضرت آدم علیہ السلام کے سامنے پیش فرمایا تو آپ نے بھی دریافت کیا کہ امانت کی ذمہ داری قبول کرلینے سے ہمیں کیا ملے گا؟ تو باری تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم اچھی طرح اس کی پابندی کرو گے تو تمہیں بڑے بڑے انعام و اکرام سے نوازا جائے گا اور اگر تم نے نافرمانی کی تو طرح طرح کے"
عذابوں میں تمہیں گرفتار کیا جائے گا تو حضرت آدم علیہ السلام نے اس بار امانت کو اُٹھا لیا تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے آدم! میں اس سلسلے میں تیری مدد کروں گا۔
(تفسیر صاوی، ج۵، ص۶۰۔۱۶۵۹،پ۲۲،الاحزاب: ۷۲)
"درسِ ہدایت:۔ابلیس نے سجدہ آدم علیہ السلام کے بارے میں خدا کا حکم ماننے سے انکار کیا تو وہ راندہ درگاہِ الٰہی ہو کر دونوں جہاں میں مردود ہو گیا۔ مگر آسمانوں اور زمینوں اور پہاڑوں نے امانت کو اٹھانے کے بارے میں حکم ِ الٰہی ماننے سے انکار کیا تو وہ بالکل معتوب نہیں ہوئے اس کی کیا وجہ ہے؟ اور اس کا راز کیا ہے؟ تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ابلیس کا انکار بطور ِ استکبار (تکبر)تھا اور آسمانوں وغیرہ کا انکار بطور ِ استصغار (تواضع)تھا۔ یعنی ابلیس نے اپنے کو بڑا سمجھ کر سجدہ آدم علیہ السلام سے انکار کیا تھا اور ظاہر ہے کہ تکبر وہ گناہ ِ عظیم ہے جو اللہ تعالیٰ کو بہت ناپسند ہے اور تواضع وہ پیاری ادا ہے جو خداوند قدوس کو بے حد محبوب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابلیس انکار کر کے عذابِ دارین کا حق دار بن گیا اور آسمان و زمین وغیرہ انکار کر کے موردِ عتاب بھی نہیں ہوئے بلکہ خدا کے رحم و کرم کے مستحق ہو گئے۔
اللہ اکبر! کہاں استکبار؟ اور کہاں استصغار؟ کہاں تکبر؟ اور کہاں تواضع؟ کہاں اپنے کو بڑا سمجھنا؟ اور کہاں اپنے کو چھوٹا سمجھنا۔ دونوں میں بہت عظیم فرق ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو تکبر سے بچائے اور تواضع کا خوگر بنائے۔ آمین۔"
واللہ تعالیٰ اعلم۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کا ایک خاص معجزہ ا ور اُن کی سلطنت کا ایک خصوصی امتیاز یہ ہے کہ ان کے زیرِ نگین صرف انسان ہی نہیں تھے بلکہ جن اور حیوانات بھی تابع فرمان تھے اور سب آپ کے حاکمانہ اقتدار کے زیرِ حکم تھے اور یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایک مرتبہ دربار ِ خداوندی (عزوجل)میں یہ دعا کی تھی کہ:
قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِیۡ وَہَبْ لِیۡ مُلْکًا لَّا یَنۡۢبَغِیۡ لِاَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِیۡ ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ الْوَہَّابُ ﴿35﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔اے میرے رب مجھے بخش دے اور مجھے ایسی سلطنت عطا کر کہ میرے بعد کسی کو لائق نہ ہو بیشک تو ہی ہے بڑی دین والا۔(پ23،صۤ:35)
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا مقبول فرمالی اور آپ کو ایسی عجیب و غریب حکومت اور بادشاہی عطا فرمائی کہ نہ آپ سے پہلے کسی کو ملی، نہ آپ کے بعد کسی کو میسر ہوئی۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن ارشاد فرمایا کہ گزشتہ رات ایک سرکش جن نے یہ کوشش کی کہ میری نماز میں خلل ڈالے تو خداوند تعالیٰ نے مجھ کو اس پر قابو دے دیا اور میں نے اس کو پکڑ لیا اس کے بعد میں نے ارادہ کیا کہ اس کو مسجد کے ستون سے باندھ دوں تاکہ تم سب دن میں اس کو دیکھ سکو۔ مگر اس وقت مجھ کو اپنے بھائی سلیمان (علیہ السلام)کی یہ دعا یاد آگئی کہ"
وَہَبْ لِیۡ مُلْکًا لَّا یَنۡۢبَغِیۡ لِاَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِیۡ... الخ
یہ یاد آتے ہی میں نے اس کو چھوڑ دیا۔
(بخاری شریف، کتاب الانبیاء، باب قول اللہ عزوجل ووھبنا لداؤد سلیمن الخ، ج۱،ص ۴۸۷،۴۸۶۔ فتح الباری، کتاب الانبیاء، باب قول اللہ عزوجل ووھبنا الخ، رقم الحدیث ۳۴۲۳، ج۶، ص ۵۶۶)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ خداوند تعالیٰ نے تمام انبیاء و رسل کے خصائص و معجزات و خصوصی امتیازات و کمالات مجھ میں جمع فرما دیئے ہیں اس لئے قوم جن کی تسخیر پر بھی مجھ کو قدرت حاصل ہے لیکن چونکہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس اختصاص کو اپنا خصوصی طغراء امتیاز قرار دیا ہے اس لئے میں نے اس سلسلہ کا مظاہرہ کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ قرآن کریم کی حسب ِ ذیل آیتوں میں بھی حضرت سلیمان علیہ السلام کے اس معجزانہ اقتدار ِ حکومت کا تذکرہ ہے۔
(1) وَ مِنَ الشَّیٰطِیۡنِ مَنۡ یَّغُوۡصُوۡنَ لَہٗ وَ یَعْمَلُوۡنَ عَمَلًا دُوۡنَ ذٰلِکَ ۚ وَکُنَّا لَہُمْ حٰفِظِیۡنَ ﴿ۙ82﴾
"ترجمہ کنز الایمان:۔ اور شیطان میں سے وہ جو اس کے لئےغوطہ لگاتے اور اس کے سوا اور کام کرتے اور ہم انہیں روکے ہوئے تھے۔(پ17،الانبیاء:82)
اسی طرح سورہ ""سبا""میں ارشاد فرمایا:"
وَ مِنَ الْجِنِّ مَنۡ یَّعْمَلُ بَیۡنَ یَدَیۡہِ بِاِذْنِ رَبِّہٖ ؕ وَ مَنۡ یَّزِغْ مِنْہُمْ عَنْ اَمْرِنَا نُذِقْہُ مِنْ عَذَابِ السَّعِیۡرِ ﴿12﴾یَعْمَلُوۡنَ لَہٗ مَا یَشَآءُ مِنۡ مَّحَارِیۡبَ وَ تَمَاثِیۡلَ وَ جِفَانٍ کَالْجَوَابِ وَ قُدُوۡرٍ رّٰسِیٰتٍ ؕ
"ترجمہ کنزالایمان:۔اور جنوں میں سے وہ جو اس کے آگے کام کرتے اس کے رب کے حکم سے اور جوان میں ہمارے حکم سے پھرے ہم اسے بھڑکتی آگ کا عذاب چکھائیں گے اس کے لئے بناتے جو وہ چاہتا اونچے اونچے محل اور تصویریں اور بڑے حوضوں کے برابر لگن اور لنگر دار دیگیں۔ (پ 22، سبا:12۔ 13)
اور سورہ نمل میں یہ فرمایا کہ:"
(3) وَ حُشِرَ لِسُلَیۡمٰنَ جُنُوۡدُہٗ مِنَ الْجِنِّ وَالْاِنۡسِ وَالطَّیۡرِ فَہُمْ یُوۡزَعُوۡنَ ﴿17﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔اور جمع کئے گئے سلیمان کے لئے اس کے لشکر جنوں اور آدمیوں اور پرندوں سے تو وہ روکے جاتے تھے۔ (پ19،النمل: 17)
اور سورہ ص ۤ میں اس طرح ارشاد فرمایا کہ"
(4) وَالشَّیٰطِیۡنَ کُلَّ بَنَّآءٍ وَّ غَوَّاصٍ ﴿ۙ37﴾وَّاٰخَرِیۡنَ مُقَرَّنِیۡنَ فِی الْاَصْفَادِ ﴿38﴾ہٰذَا عَطَآؤُنَا فَامْنُنْ اَوْ اَمْسِکْ بِغَیۡرِ حِسَابٍ ﴿39﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔اور دیو بس میں کردیئے ہر معمار اور غوطہ خور اور دوسرے اور بیڑیوں
"میں جکڑے ہوئے یہ ہماری عطا ہے اب تو چاہے تو احسان کر یا روک رکھ تجھ پر کچھ حساب نہیں۔ (پ23،صۤ:37۔39)
درسِ ہدایت:۔بعض ملحدین جن کو معجزات کے انکار اور انکارِ جن کا مرض ہو گیا ہے وہ لوگ ان آیتوں کے بارے میں عجیب عجیب مضحکہ خیز باتیں بکتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ''جن''سے مراد انسانوں کی ایک ایسی قوم ہے جو اس زمانے میں بہت قوی ہیکل اور دیو پیکر تھی اور وہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے علاوہ کسی کے قابو میں نہیں آتی تھی اور حیوانات کی تسخیر کے بارے میں یہ بکتے ہیں کہ قرآن میں اس سلسلے کا ذکر صرف '' ہُدہُد '' سے متعلق ہے اور یہاں '' ہُدہُد'' سے پرند مراد نہیں ہے بلکہ ہُدہُد ایک آدمی کا نام تھا جو پانی کی تفتیش پر مقرر تھا۔اس قسم کی لغویات اور رکیک باتیں کرنے والے یا تو جذبہ الحاد میں قصداً قرآن مجید کی تحریف کرتے ہیں یا قرآن کی تعلیمات سے جاہل ہونے کے باوجود اپنے دعویٰ بلادلیل پر اصرار کرتے رہتے ہیں۔
خوب سمجھ لو کہ قرآن مجید نے ''جن''کے متعلق جابجا بصراحت یہ اعلان کیا کہ وہ انسانوں سے جدا خدا کی ایک مخلوق ہے صرف ایک آیت پڑھ لو جو اس بارے میں قول فیصل ہے۔"
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنۡسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوۡنِ ﴿56﴾
"یعنی ہم نے جن اور انسانوں کو صرف اسی لئے پیدا کیا ہے کہ وہ خدا کے عبادت گزار بنیں۔(پ27،الذاریات:56)
دیکھ لو اس آیت میں جن کو ایک انسان سے جدا ایک مخلوق ظاہر کر کے دونوں کی تخلیق کی حکمت بیان کی گئی ہے لہٰذا اس آیت کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہنا کہ جن انسانوں ہی میں سے ایک قوی ہیکل قوم کا نام ہے، غور کیجئے کہ یہ کتنی بڑی جہالت کی بات ہے۔
اسی طرح جب '' ہُدہُد'' کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں صاف صاف پرند فرمایا ہے اور ارشاد فرمایا ہے کہ"
وَ تَفَقَّدَ الطَّیۡرَ
(پ19، النمل:20) یعنی حضرت سلیمان علیہ السلام نے پرندوں کا جائزہ لیا تو اس تصریح کے بعد کسی کو کیا حق ہے کہ اس کے خلاف کوئی رکیک اور لچر تاویل کرے۔ اور یہ کہے کہ ہُدہُد پرند نہیں تھا بلکہ ایک آدمی کا
نام تھا۔ سوچئے کہ یہ مغرب زدہ ملحدوں کا علم ہے یا ان کی جہالت کا قطب مینار ہے۔
وَلاَحَوْلَ وَلاَقُوَّۃَ اِلاَّ بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم O
"حضرت سلیمان علیہ السلام کا یہ بھی ایک خاص معجزہ اور آپ کی نبوت کا خصوصی امتیاز تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ''ہوا'' کو ان کے حق میں مسخر کردیا تھا اور وہ ان کے زیرِ فرمان کردی گئی تھی۔ چنانچہ حضرت سلیمان علیہ السلام جب چاہتے تو صبح کو ایک مہینے کی مسافت اور شام کو ایک مہینے کی مسافت کی مقدار ہوا کے دوش پر سفر کرلیتے تھے۔
قرآن کریم نے آپ کے اس معجزے کے متعلق تین باتیں بیان کی ہیں۔ ایک یہ کہ ہوا کو حضرت سلیمان علیہ السلام کے حق میں مسخر کردیا۔ دوسرے یہ کہ ہوا ان کے حکم کے اس طرح تابع تھی کہ شدید تیز و تند ہونے کے باوجود ان کے حکم سے نرم اور آہستہ روی کے باعث راحت ہوجاتی تھی، تیسری بات یہ کہ ہوا کی نرم رفتاری کے باوجود اس کی تیز رفتاری کا یہ عالم تھا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے صبح و شام کا جدا جدا سفر ایک شہ سوار کے مسلسل ایک ماہ کی رفتار کے برابر تھا گویا حضرت سلیمان علیہ السلام کا تخت انجن اور مشین جیسے ظاہری اسباب سے بالاتر صرف ان کے حکم سے ایک بہت تیز رفتار ہوائی جہاز سے بھی زیادہ تیز مگر سبک روی کے ساتھ ہوا کے کاندھے پر اُڑا چلا جاتا تھا۔
اس مقام پر تختِ سلیمان اور آپ کے سفر کے متعلق جو تفصیلات سیرت کی کتابوں اور تفسیروں میں منقول ہیں ان میں بہت سے واقعات اسرائیلیات کا ذخیرہ ہیں جن کو بعض واعظین بیان کرتے ہیں مگر وہ قابل اعتبار نہیں اور ان پر بہت سے اعتراضات بھی وارد ہوتے ہیں۔ قرآن مجید نے اس واقعہ کے متعلق صرف اس قدر بیان کیا ہے کہ:"
وَ لِسُلَیۡمٰنَ الرِّیۡحَ عَاصِفَۃً تَجْرِیۡ بِاَمْرِہٖۤ اِلَی الْاَرْضِ الَّتِیۡ بٰرَکْنَا فِیۡہَا ؕ وَکُنَّا بِکُلِّ شَیۡءٍ
عٰلِمِیۡنَ ﴿81﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔اور سلیمان کے لئے تیز ہوا مسخر کردی کہ اس کے حکم سے چلتی اس زمین کی طرف جس میں ہم نے برکت رکھی اور ہم کو ہر چیز معلوم ہے۔ (پ17،الانبیاء:81)
اور سورہ سبا میں یہ ارشاد فرمایا کہ:"
وَ لِسُلَیۡمٰنَ الرِّیۡحَ غُدُوُّہَا شَہۡرٌ وَّ رَوَاحُہَا شَہۡرٌ ۚ (پ22،سبا:12)
"ترجمہ کنزالایمان:۔اور سلیمان کے بس میں ہوا کردی اس کی صبح کی منزل ایک مہینہ کی راہ اور شام کی منزل ایک مہینہ کی راہ۔
اور سورہ ص ۤ میں فرمایا کہ:"
فَسَخَّرْنَا لَہُ الرِّیۡحَ تَجْرِیۡ بِاَمْرِہٖ رُخَآءً حَیۡثُ اَصَابَ ﴿ۙ36﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔تو ہم نے ہوا اس کے بس میں کردی کہ اس کے حکم سے نرم نرم چلتی جہاں وہ چاہتا۔(پ23،صۤ:36)
"حضرت سلیمان علیہ السلام چونکہ عظیم الشان عمارتوں اور پرشوکت قلعوں کی تعمیر کے بہت شائق تھے اس لئے ضرورت تھی کہ گارے اور چونے کے بجائے پگھلی ہوئی دھات گارے کی جگہ استعمال کی جائے لیکن اس قدر کثیر مقدار میں یہ کیسے میسر آئے یہ سوال تھا جس کا حل حضرت سلیمان علیہ السلام چاہتے تھے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی اس مشکل کو اس طرح حل کردیا کہ ان کو پگھلے ہوئے تانبے کے چشمے عطا فرمائے۔
بعض مفسرین کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حسب ِ ضرورت حضرت سلیمان علیہ السلام کے لئے تانبے کو پگھلا دیتا تھا اور یہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے لئے ایک خاص نشان اور ان کا معجزہ تھا آپ سے پہلے کوئی شخص دھات کو پگھلانا نہیں جانتا تھا۔"
(تذکرۃ الانبیاء،ص۳۷۷،پ۲۲، سبا :۱۲)
اور نجار کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام پر یہ انعام فرمایا کہ زمین کے جن حصوں میں آتشی مادوں کی وجہ سے تانبا پانی کی طرح پگھل کر بہہ رہا تھا ان چشموں کو حضرت سلیمان علیہ السلام پر آشکارا فرمایا۔ آپ سے پہلے کوئی شخص بھی زمین کے اندر دھات کے چشموں سے آگاہ نہ تھا۔ چنانچہ ابن کثیر بروایت قتادہ ناقل ہیں کہ پگھلے ہوئے تانبے کے چشمے یمن میں تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام پر ظاہر فرما دیا۔
(البدایہ والنہایہ، ج ۲،ص ۲۸)
قرآن مجید نے اس قسم کی کوئی تفصیل نہیں بیان فرمائی ہے کہ تانبے کے چشمے کس شکل میں حضرت سلیمان علیہ السلام کو ملے مگر قرآن کی جس آیت میں اس معجزہ کا ذکر ہے مذکورہ بالا دونوں توجیہات اس آیت کا مصداق بن سکتی ہیں۔ اور وہ آیت یہ ہے:
وَ اَسَلْنَا لَہٗ عَیۡنَ الْقِطْرِ ؕ
"ترجمہ کنزالایمان:۔ اور ہم نے اس کے لئے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ بہایا۔(پ22،سبا:12)
درسِ ہدایت:۔ہوا پر حکومت اور پگھلے ہوئے تانبے کے چشموں کا مل جانا یہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا معجزہ ہے جو قرآن مجید سے ثابت ہے اس پر ایمان لانا ضروریاتِ دین میں سے ہے۔ بعض ملحدین جن کو معجزات کے انکار کی بیماری ہو گئی ہے وہ ان معجزات کے بارے میں عجیب عجیب مضحکہ خیز باتیں بکتے اور رکیک تاویلات کرتے رہتے ہیں۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ ان ملحدوں کی باتوں پر کوئی توجہ نہ کریں اور معجزات پر یقین رکھتے ہوئے ایمان لائیں۔"
واللہ تعالیٰ اعلم۔
ایک مرتبہ جہاد کی ایک مہم کے موقع پر شام کے وقت حضرت سلیمان علیہ السلام نے گھوڑوں کو اصطبل سے لانے کا حکم دیا۔ جب وہ پیش کئے گئے تو چونکہ آپ کو گھوڑوں کی نسلوں اور ان
"کے ذاتی اوصاف کے علم کا کمال حاصل تھا اس لئے جب آپ نے ان گھوڑوں کو اصیل سبک رو اور خوش رو پایا اور یہ ملاحظہ فرمایا کہ ان کی تعداد بہت زیادہ ہے تو آپ پرمسرت و انبساط کی کیفیت طاری ہو گئی اور آپ فرمانے لگے کہ ان گھوڑوں سے میری محبت ایسی مالی محبت میں شامل ہے جو پروردگار کے ذکر ہی کا ایک شعبہ ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے اس غوروفکر کے درمیان گھوڑے اصطبل کو روانہ ہو گئے۔ چنانچہ جب آپ نے نظر اٹھائی تو وہ گھوڑے نگاہ سے اوجھل ہوگئے تھے۔ تو آپ نے حکم دیا کہ ان گھوڑوں کو واپس لاؤ۔
جب وہ گھوڑے واپس لائے گئے تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے جوش محبت میں ان گھوڑوں کی پنڈلیوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنا اور تھپتھپانا شروع کردیا۔ کیونکہ یہ گھوڑے جہاد کا سامان تھے اس لئے آپ ان کی عزت و توقیر کرتے ہوئے ایک ماہر فن کی طرح سے ان گھوڑوں کو مانوس کرنے لگے اور اظہارِ محبت فرمانے لگے۔ قرآن مجید نے اس واقعہ کو حسب ِ ذیل عبارت میں بیان فرمایا ہے:"
وَ وَہَبْنَا لِدَاوٗدَ سُلَیۡمٰنَ ؕ نِعْمَ الْعَبْدُ ؕ اِنَّہٗۤ اَوَّابٌ ﴿ؕ30﴾اِذْ عُرِضَ عَلَیۡہِ بِالْعَشِیِّ الصّٰفِنٰتُ الْجِیَادُ ﴿ۙ31﴾فَقَالَ اِنِّیۡۤ اَحْبَبْتُ حُبَّ الْخَیۡرِ عَنۡ ذِکْرِ رَبِّیۡ ۚ حَتّٰی تَوَارَتْ بِالْحِجَابِ ﴿32﴾ٝرُدُّوۡہَا عَلَیَّ ؕ فَطَفِقَ مَسْحًۢابِالسُّوۡقِ وَالْاَعْنَاقِ ﴿33﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔اور ہم نے داؤد کو سلیمان عطا فرمایا کیا اچھا بندہ بیشک وہ بہت رجوع لانے والا جب کہ اس پر پیش کئے گئے تیسرے پہر کو کہ رُوکئے تو تین پاؤں پر کھڑے ہوں چوتھے سم کا کنارہ زمین پر لگائے ہوئے اور چلایئے تو ہوا ہو جائیں تو سلیمان نے کہا مجھے ان گھوڑوں کی محبت پسند آئی ہے اپنے رب کی یاد کے لئے پھر انہیں چلانے کا حکم دیا یہاں تک کہ نگاہ سے پردے میں چھپ گئے پھر حکم دیا کہ انہیں میرے پاس واپس لاؤ تو ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنے لگا۔(پ23،صۤ:30۔33)
درسِ ہدایت:۔ان آیات کی جو تفسیر ہم نے تحریر کی ہے اس کو ابن جریر طبری اور امام رازی نے ترجیح دی ہے اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے بھی یہی تفسیر فرمائی ہے۔ جس کے ناقل علی بن ابی طلحہ ہیں ان آیات کی تفسیر میں بعض مفسرین نے گھوڑوں کی پنڈلیاں اور گھوڑوں کی گردنوں کو تلوار سے کاٹ ڈالنا تحریر کیا ہے اور اسی قسم کے بعض دوسرے کمزور اقوال بھی تحریر کئے ہیں جن کی صحت پر کوئی دلیل نہیں ہے اور وہ محض حکایات اور داستانیں ہیں جو دلائل قویہ کے سامنے کسی طرح قابل قبول نہیں اور یہ تفسیر جو ہم نے تحریر کی ہے اس پر نہ کوئی اشکال و اعتراض پڑتا ہے نہ کسی تاویل کی ضرورت پیش آتی ہے۔
(تفسیر خزائن العرفان،ص ۸۱۹، پ۲۳، ص ۤ: ۳۳)
حضرت داؤد علیہ السلام خداوند قدوس کی تسبیح و تقدیس میں بہت زیادہ مشغول و مصروف رہتے تھے اور آپ اس قدر خوش الحان تھے کہ جب آپ زبور شریف پڑھتے تھے تو آپ کے وجد آفریں نغموں سے نہ صرف انسان بلکہ وحوش و طیور بھی وجد میں آجاتے اور آپ کے گرد جمع ہو کر خدا کی حمد کے ترانے گاتے اور اپنی اپنی سریلی اور پرکیف آوازوں میں تسبیح و تقدیس میں حضرت داؤد علیہ السلام کی ہمنوائی کرتے اور چرند و پرند ہی نہیں بلکہ پہاڑ بھی خداوند تعالیٰ کی حمد و ثناء میں گونج اٹھتے تھے۔ چنانچہ حضرت داؤد علیہ السلام کے ان معجزات کا ذکر جمیل اللہ تعالیٰ نے سورہ انبیاء و سورہ سبا و سورہ ص ۤ میں صراحت کے ساتھ بیان فرمایا کہ:
وَّ سَخَّرْنَا مَعَ دَاوٗدَ الْجِبَالَ یُسَبِّحْنَ وَ الطَّیۡرَ ؕ وَکُنَّا فٰعِلِیۡنَ
"ترجمہ کنزالایمان:۔اور داؤد کے ساتھ پہاڑ مسخر فرما دیئے کہ تسبیح کرتے اور پرندے اور یہ ہمارے کام تھے۔ (پ17،الانبیاء:79)
اور سورہ سبا میں اس طرح ارشاد فرمایا کہ:"
وَلَقَدْ اٰتَیۡنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضْلًا ؕ یٰجِبَالُ اَوِّبِیۡ مَعَہٗ وَالطَّیۡرَ ۚ
"ترجمہ کنزالایمان:۔ اور بیشک ہم نے داؤد کو اپنا بڑا فضل دیا اے پہاڑو اس کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع کرو اور اے پرندو۔(پ22،سبا :10)
اور سورہ ص ۤ میں ارشاد ربانی اس طرح ہوا کہ:"
اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَہٗ یُسَبِّحْنَ بِالْعَشِیِّ وَ الْاِشْرَاقِ ﴿ۙ18﴾وَالطَّیۡرَ مَحْشُوۡرَۃً ؕ کُلٌّ لَّہٗۤ اَوَّابٌ ﴿19﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔ بیشک ہم نے اس کے ساتھ پہاڑ مسخر فرمادیے تسبیح کرتے شام کو اورسورج چمکتے اورپرندے جمع کئے ہوئے سب اس کے فرمانبردار تھے ۔ (پ23،صۤ:18۔19)
"بے عقل پرندے اور بے جان پہاڑ جب خداوند قدوس کی تسبیح و تقدیس کا نغمہ گایا کرتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیتوں میں آپ پڑھ چکے تو اس سے ہم انسانوں کو یہ سبق ملتا ہے کہ ہم انسان جو عقل والے، ہوشمند اور صاحب ِ زبان ہیں ہم پر بھی لازم ہے کہ ہم خداوند قدوس کی تسبیح اور اس کی حمد و ثناء کے افکار کو ورد زبان بنائیں اور اس کی تسبیح و تقدیس میں برابر مشغول و مصروف رہیں۔
حضرت شیخ سعدی علیہ الرحمۃ نے اس سلسلہ میں ایک بہت ہی لطیف و لذیذ اور نہایت ہی مؤثر حکایت بیان فرمائی ہے اس کو پڑھئے اور عبرت و نصیحت حاصل کیجئے وہ فرماتے ہیں:"
" دوش مرغے بصبح می نالید عقل و صبرم ربود و طاقت و ہوش"
ایک پرند صبح کو چہچہا رہا تھا تو اس کی آواز سے میری عقل و صبر اور طاقت و ہوش سب غارت ہو گئے۔
" یکے از دوستانِ مخلص را مگر آوازِ من رسید بگوش"
میرے ایک مخلص دوست کے کان میں شاید میری آواز پہنچ گئی۔
" گفت باور نداشتم کہ ترا بانگ مرغے چنیں کند مدہوش"
تو اس نے کہا کہ مجھے یقین نہیں آتا کہ ایک پرند کی آواز تم کو اس طرح مدہوش کردے گی۔
" گفتم این شرط آدمیت نیست مرغ تسبیح خوان و من خاموش"
تو میں نے کہا کہ یہ آدمیت کی شان نہیں ہے کہ پرند تو تسبیح پڑھے اور میں خاموش رہوں۔
"اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے بازو اور پر بنا دیئے ہیں جن سے وہ فضائے آسمانی میں اُڑ کر کائناتِ عالم میں فرامینِ ربانی کی تعمیل کرتے رہتے ہیں۔ کسی فرشتے کے دو پر کسی کے تین اور کسی کے چار پر ہیں۔
علامہ زمخشری کا بیان ہے کہ میں نے بعض کتابوں میں پڑھا ہے کہ فرشتوں کی ایک قسم ایسی بھی ہے جن کو خلاق عالم جل جلالہ نے چھ چھ بازو اور پر عطا فرمائے ہیں۔ دو بازوؤں سے تو وہ اپنے بدن کو چھپائے رکھتے ہیں اور دو بازوؤں سے وہ اُڑتے ہیں اور دو بازو ان کے چہرے پر ہیں جن سے وہ خدا سے حیا کرتے ہوئے اپنے چہروں کو چھپائے رکھتے ہیں۔
اور حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ میں نے ''سدرۃ المنتہیٰ'' کے پاس حضرت جبرئیل علیہ السلام کو دیکھا کہ ان کے چھ سو بازو تھے اور یہ بھی ایک روایت میں ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے کہا کہ آپ اپنی اصل صورت مجھے دکھا دیجئے تو انہوں نے جواب دیا کہ آپ اس کی تاب نہ لا سکیں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اس کی خواہش بلکہ تمنا ہے تو حضرت جبرئیل علیہ السلام ایک مرتبہ اپنی اصل صورت میں وحی لے کر آپ کے پاس حاضر ہوئے تو ان کو دیکھتے ہی آپ پر غشی طاری ہو گئی تو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے اپنے بدن سے ٹیک لگا کر آپ کو سنبھالے رکھااور اپنا ایک ہاتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ پر اور ایک ہاتھ دونوں شانوں کے درمیان"
رکھ دیا۔ جب آپ کو افاقہ ہوا تو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا کہ یار سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر آپ حضرت اسرافیل کو دیکھ لیتے تو آپ کا کیا حال ہوتا؟ ان کو تو اللہ تعالیٰ نے بارہ ہزار بازو عطا فرمائے ہیں اور ان کا ایک بازو مشرق میں ہے اور دوسرا بازو مغرب میں ہے اور وہ عرشِ الٰہی کو اپنے کندھوں پر اُٹھائے ہوئے ہیں۔
" (تفسیر صاوی،ج۵، ص۱۶۸۶، پ ۲۲، فاطر:۱)"
فرشتوں کے بازوؤں اور پروں کا ذکر سورہ فاطر کی اس آیت میں ہے کہ:
اَلْحَمْدُ لِلہِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ جَاعِلِ الْمَلٰٓئِکَۃِ رُسُلًا اُولِیۡۤ اَجْنِحَۃٍ مَّثْنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ ؕ یَزِیۡدُ فِی الْخَلْقِ مَا یَشَآءُ ؕ اِنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿1﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔سب خوبیاں اللہ کو جو آسمانوں اور زمین کا بنانے والا فرشتوں کو رسول کرنے والا جن کے دو دو تین تین چار چار پر ہیں۔ بڑھاتا ہے آفرینش میں جو چاہے بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (پ22،فاطر :1)
درسِ ہدایت:۔فرشتوں کے وجود پر ایمان لانا ضروریاتِ دین میں سے ہے اور اس پر ایمان لانا بھی ضروری ہے کہ فرشتوں کے بازو اور پر بھی ہیں۔ کسی کے دو دو کسی کے تین تین کسی کے چار چار۔ اور کسی کے اس سے بھی زیادہ ہیں۔ اب رہا یہ سوال کہ فرشتوں کے اتنے زیادہ پر کیونکر اور کس طرح ہیں؟ تو قرآن نے اس کا شافی اور مسکت جواب دے دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی کوئی حد نہیں ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ لہٰذا وہ سب کچھ کرسکتا ہے وہ فرشتوں کو بال و پر بھی عطا فرما سکتا ہے اور بلاشبہ عطا فرمائے بھی ہیں لہٰذا اس سلسلے میں بحث و مباحثہ اور سوال و جواب یہ سب گمراہی کے دروازے ہیں۔ ایمان کی خیریت اسی میں ہے کہ بغیر چون وچرا کے اس پر ایمان لائیں اور کیوں اور کیسے کے علم کو اللہ اعلم کہہ کر خدا کے سپرد کردیں۔"
ایک مرتبہ ابوجہل اور اس کے قبیلے کے دو آدمیوں نے حلف اٹھایا کہ اگر ہم لوگوں نے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کو دیکھ لیا تو ہم پتھر سے ان کا سر کچل دیں گے۔ جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نماز کے لئے حرم کعبہ میں تشریف لے گئے اور ابوجہل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو وہ ایک بہت بڑا پتھر اپنے دونوں ہاتھوں سے اُٹھا کر چلا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس پتھر کو پھینکنے کے لئے اپنے سر کے اوپر دونوں ہاتھوں سے اٹھایا تو اس کے دونوں ہاتھ اس کی گردن میں آگئے اور پتھر اس کے ہاتھوں میں چپک کر رہ گیا اور دونوں ہاتھ طوق بن کرٹھوڑی کے پاس بندھ گئے اور وہ اس طرح ناکام ہو کر لوٹ آیا۔ اس کے دوسرے دن ولید بن مغیرہ نے جھنجھلا کر کہا کہ تم پتھر مجھے دے دو۔ میں اس کو ان کے سر پر دے ماروں گا۔ چنانچہ اس بدنصیب نے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھر چلانے کا ارادہ کیا تو ایک دم اندھا ہو گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت کی آواز تو سنتا رہا مگر آپ صلی اللہ علیہ سلم کی صورت نہیں دیکھ سکتا تھا، مجبوراً پلٹ گیا تو اپنے ساتھیوں کو بھی نہ دیکھ سکا۔ جب آواز دی تو ساتھیوں نے پوچھا کہ کیا ہوا؟ تو اس نے اپنی مجبوری کا حال بیان کیا پھر اس کے تیسرے ساتھی نے غصہ میں بھر کر پتھر کو اپنے ہاتھ میں لیا مگر یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچتے ہی الٹے پاؤں بدحواس ہو کر بھاگا اور ہانپتے کانپتے ہوئے اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا کہ میں جب ان کے قریب پہنچا تو میں نے دیکھا کہ ایک ایسا سانڈ ان کے قریب اپنی دم ہلا رہا ہے کہ میں نے آج تک ایسا خوفناک سانڈ دیکھا ہی نہیں تھا۔ لات و عزیٰ کی قسم! اگر میں ان کے قریب جاتا تو وہ مجھے ہلاک کردیتا۔
(تفسیر صاوی، ج۵، ص۱۷۰۶، یٰسۤ :۸۔۹)
اس واقعہ کا ذکر سورہ یٰس ۤ میں ان لفظوں کے ساتھ مذکور ہے۔
اِنَّا جَعَلْنَا فِیۡۤ اَعْنَاقِہِمْ اَغْلٰلًا فَہِیَ اِلَی الۡاَذْقَانِ فَہُمۡ مُّقْمَحُوۡنَ ﴿8﴾وَ جَعَلْنَا مِنۡۢ بَیۡنِ اَیۡدِیۡہِمْ سَدًّا وَّ مِنْ خَلْفِہِمْ سَدًّا فَاَغْشَیۡنٰہُمْ فَہُمْ لَا یُبْصِرُوۡنَ ﴿9﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔ہم نے ان کی گردنوں میں طوق کردیئے ہیں کہ وہ ٹھوڑیوں تک ہیں تو یہ اب اوپر کو منہ اٹھائے رہ گئے اور ہم نے ان کے آگے دیوار بنا دی اور ان کے پیچھے ایک دیوار اور انہیں اوپر سے ڈھانک دیا تو انہیں کچھ نہیں سوجھتا۔(پ22،یسۤ:8۔9)
درسِ ہدایت:۔یہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں سے ہے۔ بارہا کافروں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی سازش کی اور اپنی خفیہ چالبازیوں اور دسیسہ کاریوں میں کوئی دقیقہ باقی نہیں چھوڑا، مگر رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم پر کبھی بھی کوئی آنچ نہ آسکی اور خداوند قدوس کا وعدہ پور اہوا کہ"
وَاللہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ
یعنی اے محبوب! اللہ تعالیٰ لوگوں کی چالوں سے آپ کو اپنی حفاظت میں رکھے گا۔(پ6،المائدہ:67)
واللہ تعالیٰ اعلم۔
"عرشِ الٰہی کے اٹھانے والے ملائکہ فرشتوں کے سب سے اعلیٰ طبقات میں ہیں۔ ان میں سے ہر فرشتے کے بازوؤں پر چار پر ہیں اور دو پر ان کے چہروں کے اوپر ہیں۔ جن سے یہ اپنی آنکھوں کو چھپائے رکھتے ہیں اور خوفِ خداوندی کے باعث یہ فرشتے ساتویں آسمان کے فرشتوں سے زیادہ خدا کا خوف رکھتے ہیں اور ساتویں آسمان والے فرشتے چھٹے آسمان والے فرشتوں سے خوفِ الٰہی میں بڑھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح چھٹے آسمان والے پانچویں آسمان والوں سے اور پانچویں آسمان والے چوتھے آسمان والوں سے اور چوتھے آسمان والے تیسرے آسمان والوں سے اور تیسرے آسمان والے دوسرے آسمان والوں سے اور دوسرے آسمان والے پہلے آسمان والوں سے خوف و خشیت ربانی میں اعلیٰ درجہ رکھتے ہیں۔ پھر عرشِ الٰہی کے گرد رہنے والے فرشتے جن کو ''کروبیین'' کہتے ہیں یہ باقی فرشتوں کے سردار ہیں اور بہت ہی وجاہت والے ہیں۔
منقول ہے کہ عرش کے گرد ملائکہ کی ستر ہزار صفیں ہیں۔ اس طرح کہ ایک صف ایک صف"
کے پیچھے ہے۔ یہ سب عرش کا طواف کرتے رہتے ہیں۔ پھر ان سبھوں کے بعد ستر ہزار ملائکہ کی صف ہے اور وہ اپنے ہاتھ اپنے کاندھوں پر رکھتے ہوئے خدا کی تسبیح و تکبیر پڑھتے رہتے ہیں۔ پھر ان کے بعد اور ایک سو صفیں فرشتوں کی ہیں جو اپنا داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھے ہوئے تسبیح و تکبیر اور دعا میں مشغول ہیں ۔
(تفسیر صاوی، ج۵، ص۱۸۱۵، پ۲۴، المومن:۷)
اور سب فرشتوں کی دعا کیا ہے۔ اس کو قرآنِ مجید کے الفاظ میں ملاحظہ کیجئے۔ ارشادِ ربانی ہے کہ:
اَلَّذِیۡنَ یَحْمِلُوۡنَ الْعَرْشَ وَ مَنْ حَوْلَہٗ یُسَبِّحُوۡنَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْ وَ یُؤْمِنُوۡنَ بِہٖ وَ یَسْتَغْفِرُوۡنَ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۚ رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلَّ شَیۡءٍ رَّحْمَۃً وَّ عِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِیۡنَ تَابُوۡا وَ اتَّبَعُوۡا سَبِیۡلَکَ وَقِہِمْ عَذَابَ الْجَحِیۡمِ ﴿7﴾رَبَّنَا وَ اَدْخِلْہُمْ جَنّٰتِ عَدْنِ ۣالَّتِیۡ وَ عَدۡتَّہُمۡ وَمَنۡ صَلَحَ مِنْ اٰبَآئِہِمْ وَ اَزْوَاجِہِمْ وَ ذُرِّیّٰتِہِمْ ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ الْعَزِیۡزُ الْحَکِیۡمُ ۙ﴿8﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔وہ جو عرش اُٹھاتے ہیں اور جو اس کے گرد ہیں اپنے رب کی تعریف کے ساتھ اس کی پاکی بولتے اور اس پر ایمان لاتے اور مسلمانوں کی مغفرت مانگتے ہیں اے رب ہمارے تیرے رحمت و علم میں ہر چیز کی سمائی ہے تو انہیں بخش دے جنہوں نے توبہ کی اور تیری راہ پر چلے اور انہیں دوزخ کے عذاب سے بچالے اے ہمارے رب اور انہیں بسنے کے باغوں میں داخل کر جن کا تونے ان سے وعدہ فرمایا ہے اور ان کو جو نیک ہوں ان کے باپ دادا اور بی بیوں اور اولاد میں بیشک تو ہی عزت و حکمت والا ہے۔(پ24،المومن:7۔8)
درسِ ہدایت:۔آپ نے عرشِ الٰہی کے اٹھانے والے اور عرش کا طواف کرنے والے فرشتوں کی دعا ملاحظہ کرلی کہ وہ سب مقدس فرشتے ہم مسلمانوں اور ہمارے والدین اور بیویوں اور ہماری اولاد کے لئے جہنم سے نجات پانے اور جنت عدن میں داخل ہونے کی دعائیں مانگتے رہتے ہیں۔ اللہ اکبر!کتنا بڑا احسانِ عظیم ہے ہم مسلمانوں پر حضور اکرم صلی اللہ"
علیہ وسلم کا کہ آپ ہی کے طفیل میں ہم مسلمانوں کو یہ رتبہ بلند اور درجہ عالیہ حاصل ہوا ہے کہ بے شمار طبقہ اعلیٰ کے فرشتے ہم گناہ گار مسلمانوں کے لئے دعائیں مانگتے رہتے ہیں وہ بھی کون سے فرشتے؟ عرشِ الٰہی کے اٹھانے والے فرشتے اور عرشِ الٰہی کا طواف کرنے والے فرشتے سبحان اللہ!کہاں ہم اور کہاں ملاءِ اعلیٰ کے ملائکہ،مگر حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کا طفیل ہے کہ اس نے ہم قطروں کو سمندر ناپیدا کنار اور ہم ذروں کو آفتاب عالمتاب بنا دیا۔ سبحان اللہ! سبحان اللہ! ایک بار بصد اخلاص نبی مکرم رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھئے۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّبَارِکْ وَسَلِّمْ
اللہ تعالیٰ کا دستور یہ ہے کہ وہ کسی کو صرف بیٹی عطا فرماتا ہے اور کسی کو صرف بیٹا دیتا ہے اور کچھ لوگوں کو بیٹا اور بیٹی دونوں ہی عطا فرما دیا کرتا ہے۔ اور کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن کو بانجھ بنا دیتا ہے نہ انہیں بیٹی دیتا ہے نہ بیٹا اور یہ دستورِ خداوندی صرف عام انسانوں ہی تک محدود نہیں بلکہ اس نے اپنے خاص و مخصوص بندوں یعنی حضرات انبیاء علیہم السلام کو بھی اس خصوص میں چاروں طرح کا بنایا ہے۔ چنانچہ حضرت لوط اور حضرت شعیب علیہما السلام کے صرف بیٹیاں ہی تھیں کوئی بیٹا نہیں تھا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صرف بیٹے ہی بیٹے تھے کوئی بیٹی ہوئی ہی نہیں۔ اور حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے چار بیٹے اور چار بیٹیاں عطا فرمائیں اور حضرت عیسیٰ و حضرت یحییٰ علیہما السلام کے کوئی اولاد ہی نہیں ہوئی۔
(تفسیر روح البیان،ج۸، ص۳۴۲۔۳۴۳، پ۲۵،الشوریٰ:۴۹۔۵۰)
قرآن مجید میں رب العزت جل جلالہ نے اس مضمون کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ:
یَہَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ اِنَاثًا وَّ یَہَبُ لِمَنۡ یَّشَآءُ الذُّکُوۡرَ ﴿ۙ49﴾اَوْ یُزَوِّجُہُمْ ذُکْرَانًا وَّ اِنَاثًا ۚ
وَ یَجْعَلُ مَنۡ یَّشَآءُ عَقِیۡمًا ؕ اِنَّہٗ عَلِیۡمٌ قَدِیۡرٌ ﴿50﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔جسے چاہے بیٹیاں عطا فرمائے اور جسے چاہے بیٹے دے یا دونوں ملا دے بیٹے اور بیٹیاں اور جسے چاہے بانجھ کردے بے شک وہ علم و قدرت والا ہے۔ (پ25،الشورٰی:49۔50)
درسِ ہدایت:۔اللہ تعالیٰ بیٹی دے یا بیٹا دے یا دونوں عطا فرمائے یا بانجھ بنا دے بہرحال یہ سبھی خدا کی نعمتیں ہیں۔ مذکورہ بالا آیت کے آخری حصہ یعنی"
اِنَّہ، عَلِیْمٌ قَدِیْرٌ
میں اسی طرف اشارہ ہے کہ کون اس کے لائق ہے کہ اس کو بیٹی ملے اور کون اس قابل ہے کہ اس کو بیٹا ملے اور کون اس کی اہلیت رکھتا ہے کہ اس کو بیٹا اور بیٹی دونوں ملیں اور کون ایسا ہے کہ اس کے حق میں یہی بہتر ہے کہ اس کے کوئی اولاد ہی نہ ہو۔ ان باتوں کو اللہ تعالیٰ ہی خوب جانتا ہے کیونکہ وہ بہت علم والا اور بڑی قدرت والا ہے۔ انسان اپنی ہزار علم و آگہی کے باوجود اس معاملہ کو نہیں جانتا کہ انسان کے حق میں کیا بہتر ہے اور کیا بہتر نہیں ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ:
وَعَسٰۤی اَنۡ تَکْرَہُوۡا شَیْـًٔا وَّہُوَ خَیۡرٌ لَّکُمْ ۚ وَعَسٰۤی اَنۡ تُحِبُّوۡا شَیْـًٔا وَّہُوَ شَرٌّ لَّکُمْ ؕ وَاللہُ یَعْلَمُ وَ اَنۡتُمْ لَا تَعْلَمُوۡنَ ﴿216﴾٪
"ترجمہ کنزالایمان:۔اور قریب ہے کہ کوئی بات تمہیں بری لگے اور وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور قریب ہے کہ کوئی بات تمہیں پسند آئے اور وہ تمہارے حق میں بری ہو اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔(پ2،البقرہ:216)
اس لئے بندوں کو چاہے کہ اگر اپنی خواہش کے مطابق کوئی چیز نہ مل سکے تو ہرگز ناراض نہ ہوں بلکہ یہ سوچ کر صبر کریں کہ ہم اس چیز کے لائق ہی نہیں تھے اس لئے ہمیں خدا نے نہیں دیا وہ علیم و قدیر ہے وہ خوب جانتا ہے کہ کون کس چیز کا اہل ہے اور کون اہل نہیں ہے۔"
اس کے الطاف تو ہیں عام شہیدی سب پر
تجھ سے کیا ضد تھی اگر تو کسی قابل ہوتا
بیٹیا ں: اس زمانے میں دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ بیٹیوں کی پیدائش سے چڑتے ہیں اور منہ بگاڑ لیتے ہیں بلکہ بعض بدنصیب تو اول فول بک کر کفرانِ نعمت کے گناہ میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ واضح رہے کہ بیٹیوں کی پیدائش پر منہ بگاڑ کر ناراض ہوجانا یہ زمانہ جاہلیت کے کفار کا منحوس طریقہ ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:
وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُہُمْ بِالۡاُنۡثٰی ظَلَّ وَجْہُہٗ مُسْوَدًّا وَّہُوَ کَظِیۡمٌ ﴿ۚ58﴾یَتَوَارٰی مِنَ الْقَوْمِ مِنۡ سُوۡٓءِ مَا بُشِّرَ بِہٖ ؕ اَیُمْسِکُہٗ عَلٰی ہُوۡنٍ اَمْ یَدُسُّہٗ فِی التُّرَابِ ؕ اَلَا سَآءَ مَا یَحْکُمُوۡنَ ﴿59﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔ اور جب ان میں کسی کو بیٹی ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو دن بھر اس کا منہ کالا رہتا ہے اور وہ غصہ کھاتا ہے لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اس بشارت کی برائی کے سبب کیا اسے ذلت کے ساتھ رکھے گا یا اسے مٹی میں دبا دے گا ارے بہت ہی برا حکم لگاتے ہیں۔ (پ14،النحل:58۔59)
خوب سمجھ لو کہ مسلمانوں کا اسلامی طریقہ یہ ہے کہ بیٹیوں کی پیدائش پر بھی خوش ہو کر اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کا شکر ادا کرے اور مندرجہ ذیل حدیثوں کی بشارت پر ایمان رکھ کر سعادتِ دارین کی کرامتوں سے سرفراز ہو۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مندرجہ ذیل حدیثیں ارشاد فرمائی ہیں:
(۱)عورت کے لئے یہ بہت ہی مبارک ہے کہ اس کی پہلی اولاد لڑکی ہو۔
(۲)جس شخص کو کچھ بیٹیاں ملیں اور وہ ان کے ساتھ نیک سلوک کرے یہاں تک کہ کفو میں ان کی شادی کردے تو وہ بیٹیاں اس کے لئے جہنم سے آڑ بن جائیں گی۔
(۳)حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ تم لوگ بیٹیوں کو برا مت سمجھو، اس لئے کہ میں بھی
چند بیٹیوں کا باپ ہوں۔"
" (۴)جب کوئی لڑکی پیدا ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے لڑکی! تو زمین پر اتر۔ میں
تیرے باپ کی مدد کروں گا۔"
(تفسیر روح البیان،ج۸، ص۳۴۲،پ۲۵، الشوریٰ:۴۹۔۵۰)
"۵ ھ کے غزوہ بنی مصطلق میں جب مسلمان فتح یاب ہو گئے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قبیلہ کے سردار کی بیٹی حضرت جویریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح فرما لیا تو صحابہ کرام نے تمام اسیرانِ جنگ کو یہ کہہ کر رہا کردیا کہ جس خاندان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کرلی، اس خاندان کا کوئی آدمی لونڈی غلام نہیں رہ سکتا۔ مسلمانوں کے اس حسنِ سلوک اور اخلاقِ کریمانہ سے متاثر ہو کر تمام قبیلہ مشرف بہ اسلام ہو گیا۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ''ولید بن عقبہ''کو اس قبیلہ والوں کے پاس بھیجا تاکہ وہ قبیلے کے دولت مندوں سے زکوٰۃ وصول کر کے ان کے فقراء پر تقسیم کردیں۔
قبیلہ بنی المصطلق کے لوگوں کو جب ''ولید''کی اس آمد کا علم ہوا تو وہ عامل اسلام کے استقبال کے لئے خوشی خوشی ہتھیار لے کر بستی سے باہر میدان میں نکلے۔ زمانہ جاہلیت میں اس قبیلہ اور ولید میں کچھ ناچاقی رہ چکی تھی اس لئے پرانی عداوت کی بناء پر استقبال کے لئے اس اہتمام کو ولید نے دوسری نظر سے دیکھا اور سمجھا اور قبیلہ والوں سے اصل معاملہ دریافت کئے بغیر ہی مدینہ واپس چلا آیا، اور دربارِ نبوت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ قبیلہ بنی مصطلق کے لوگ تو مرتد ہو گئے اور انہوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا اس خبر سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم رنجیدہ ہوئے اور مسلمان بے حد برافروختہ ہوگئے بلکہ مقابلہ کے لئے جہاد کی تیاریاں ہونے لگیں۔ ادھر بنی مصطلق کو ولید کے اس عجیب طرزِ عمل سے بڑی حیرت ہوئی اور جب ان لوگوں کو معلوم ہوا کہ ولید نے دربارِ نبوت میں غلط بیانی اور تہمت طرازی کردی ہے تو ان لوگوں نے ایک معزز اور باوقار وفد دربارِ نبوت میں بھیجا جس نے بنی المصطلق کی طرف سے صفائی پیش کی۔ ایک"
جانب اپنے عامل ولید کا بیان اور دوسری جانب بنی المصطلق کے وفد کا یہ بیان دونوں باتیں سن کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خاموشی اختیار فرمالی۔ اور وحی الٰہی کا انتظار فرمانے لگے، آخر وحی اُتر پڑی اور سورہ''حجرات'' کی آیات نے نازل ہو کر نہ صرف معاملہ کی حقیقت ہی واضح کردی بلکہ اس خصوص میں ایک مستقل قانون اور معیارِ تحقیق بھی عطا فرمادیا۔ وہ آیات یہ ہیں۔
(تفسیر خزائن العرفان،ص۹۲۸، پ۲۶،الحجرات:۶)
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ جَآءَکُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوۡۤا اَنۡ تُصِیۡبُوۡا قَوْمًۢا بِجَہَالَۃٍ فَتُصْبِحُوۡا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیۡنَ ﴿6﴾وَ اعْلَمُوۡۤا اَنَّ فِیۡکُمْ رَسُوۡلَ اللہِ ؕ لَوْ یُطِیۡعُکُمْ فِیۡ کَثِیۡرٍ مِّنَ الْاَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَ لٰکِنَّ اللہَ حَبَّبَ اِلَیۡکُمُ الْاِیۡمَانَ وَ زَیَّنَہٗ فِیۡ قُلُوۡبِکُمْ وَ کَرَّہَ اِلَیۡکُمُ الْکُفْرَ وَ الْفُسُوۡقَ وَ الْعِصْیَانَ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الرّٰشِدُوۡنَ ۙ﴿7﴾فَضْلًا مِّنَ اللہِ وَ نِعْمَۃً ؕ وَ اللہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ ﴿8﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلو کہ کہیں کسی قوم کو بے جانے ایذاء نہ دے بیٹھو پھر اپنے کئے پر پچتاتے رہ جاؤ اور جان لو کہ تم میں اللہ کے رسول ہیں بہت معاملوں میں اگر یہ تمہاری خوشی کریں تو تم ضرور مشقت میں پڑو لیکن اللہ نے تمہیں ایمان پیارا کردیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں آراستہ کردیا اور کفر اور حکم عدولی اور نافرمانی تمہیں ناگوار کردی ایسے ہی لوگ راہ پر ہیں اللہ کا فضل اور احسان اوراللہ علم و حکمت والا ہے۔(پ26، الحجرات:6۔8)
درسِ ہدایت:۔(۱)خبروں کے بیان کرنے میں عام طور پ لوگوں کا یہی مزاج اور طریقہ بن چکا ہے کہ جو خبر بھی ان کے کانوں تک پہنچے اس کو بلا تکلف بیان کردیا کرتے ہیں اور حقیقتِ حال کی تفتیش اور جستجو بالکل نہیں کرتے۔ خواہ اس خبر سے کسی بے گناہ پر افتراء کیا جاتا ہو یا کسی کو نقصان پہنچتا ہو۔"
اسلام نے اس طریقہ کو بالکل غلط قرار دیا ہے بلکہ قرآن نے اسلامی آداب کا یہ قانون بتایا ہے کہ ہر خبر کو سن کر پہلے اس کی تحقیق کرلینی چاہے جب وہ خبر پایہ ثبوت کو پہنچ جائے تو پھر اس خبر کو لوگوں سے بیان کرنا چاہے اسی بات کی طرف متوجہ کرنے کے لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تنبیہ فرمائی ہے کہ
کَفٰی بِالْمَرْءِ کِذَابًا اَنْ یُّحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ
(صحیح مسلم، باب النھی عن الحدیث بکل ما سمع، رقم الحدیث ۵، ص ۸ )
یعنی آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ جو بات بھی سنے لوگوں سے (بلا تحقیق)بیان کرنے لگے۔
(واللہ تعالیٰ اعلم)
" (۲)اس آیت سے ثابت ہوا کہ ایک شخص اگر عادل اور پابند شریعت ہو تو اس کی خبر معتبر ہے۔
(۳)بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہ آیت ولید بن عقبہ ہی کے ساتھ خاص نہیں بلکہ یہ آیت عام ہے اور ہر فاسق کی خبر کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
(۴)ولید بن عقبہ کو صحابی ہوتے ہوئے قرآن مجید نے فاسق کہا تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے کیونکہ اس واقعہ کے بعد جب ولید بن عقبہ نے صدقِ دل سے سچی توبہ کرلی تو ان کا فسق زائل ہو گیا۔ لہٰذا کسی صحابی کو فاسق کہنا ہرگز ہرگز جائز نہیں ہے کیونکہ اس پر اجماع ہے کہ ہر صحابی صادق، عادل اور پابند شرع ہے۔"
واللہ تعالیٰ اعلم۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام بہت مہمان نواز تھے۔ منقول ہے کہ جب تک آپ کے دستر خوان پر مہمان نہیں آجاتے تھے آپ کھانا نہیں تناول فرماتے تھے۔ ایک دن مہمانوں کا ایک ایسا قافلہ آپ کے گھر اُتر پڑا کہ ان مہمانوں سے آپ خوفزدہ ہو گئے یہ حضرت جبرئیل علیہ السلام تھے جو دس یا بارہ فرشتوں کو ہمراہ لے کر تشریف لائے تھے اور سلام کر کے مکان کے اندر داخل ہو گئے۔ یہ سب فرشتے نہایت ہی خوبصورت انسانوں کی شکل میں تھے۔ اولاً تو یہ
"حضرات ایسے وقت تشریف لائے جو مہمانوں کے آنے کا وقت نہیں تھا۔ پھر یہ حضرات بغیر اجازت طلب کئے دندناتے ہوئے مکان کے اندر داخل ہو گئے پھر جب حضرت ابراہیم علیہ السلام حسب ِ عادت ان حضرات کی مہمان نوازی کے لئے ایک فربہ بھنا ہوا بچھڑا لائے تو ان حضرات نے کھانے سے انکار کردیا۔ ان مہمانوں کی مذکورہ بالا تین اداؤں کی وجہ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کچھ خدشہ گزرا کہ شاید یہ لوگ دشمن ہیں کیونکہ اس زمانے کا یہی رواج تھا کہ دشمن جس گھر میں دشمنی کے لئے جاتا تھا اس گھر میں کچھ کھاتا پیتا نہیں تھا۔ چنانچہ آپ ان مہمانوں سے کچھ خوف محسوس فرمانے لگے۔ یہ دیکھ کر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے کہا کہ اے اللہ کے نبی علیہ السلام آپ ہم سے بالکل کوئی خوف نہ کریں ہم اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں اور ہم دو کاموں کے لئے آئے ہیں پہلا مقصد تو یہ ہے کہ ہم آپ کو یہ بشارت سنانے آئے ہیں کہ آپ کو اللہ تعالیٰ ایک علم والا فرزند عطا فرمائے گا اور ہمارا دوسرا کام یہ ہے کہ ہم حضرت لوط علیہ السلام کی قوم پر عذاب لے کر آئے ہیں۔
فرزند کی بشارت سن کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مقدس بیوی حضرت ''سارہ''چونک پڑیں کیونکہ ان کی عمر ننانوے برس کی ہوچکی تھی اور وہ کبھی حاملہ بھی نہیں ہوئی تھیں۔ تعجب سے وہ چلاتی ہوئی آئیں اور ہاتھ سے ماٹھا ٹھونک کر کہنے لگیں کہ کیا مجھ بڑھیا بانجھ کے بھی فرزند ہو گا تو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے کہا کہ ہاں آپ کے رب کا یہی فرمان ہے اور وہ پروردگار بڑی حکمتوں والا بہت علم والا ہے۔ چنانچہ حضرت اسحٰق علیہ السلام پیدا ہوئے۔"
(تفسیر خزائن العرفان،ص۹۳۸ (ملخصاً) پ۲۶،الذاریات:۲۴ ۔ ۲۹ )
قرآن مجید نے اس واقعہ کو ان لفظوں میں بیان فرمایا ہے کہ:
ہَلْ اَتٰىکَ حَدِیۡثُ ضَیۡفِ اِبْرٰہِیۡمَ الْمُکْرَمِیۡنَ ﴿ۘ24﴾اِذْ دَخَلُوۡا عَلَیۡہِ فَقَالُوۡا سَلٰمًا ؕ قَالَ سَلٰمٌ ۚ قَوْمٌ مُّنۡکَرُوۡنَ ﴿25﴾فَرَاغَ اِلٰۤی اَہۡلِہٖ فَجَآءَ بِعِجْلٍ سَمِیۡنٍ ﴿ۙ26﴾فَقَرَّبَہٗۤ اِلَیۡہِمْ قَالَ اَلَا تَاۡکُلُوۡنَ ﴿۫27﴾
فَاَوْجَسَ مِنْہُمْ خِیۡفَۃً ؕ قَالُوۡا لَا تَخَفْ ؕ وَ بَشَّرُوۡہُ بِغُلٰمٍ عَلِیۡمٍ ﴿28﴾ فَاَقْبَلَتِ امْرَاتُہٗ فِیۡ صَرَّۃٍ فَصَکَّتْ وَجْہَہَا وَ قَالَتْ عَجُوۡزٌ عَقِیۡمٌ ﴿29﴾ قَالُوۡا کَذٰلِکِ ۙ قَالَ رَبُّکِ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ الْحَکِیۡمُ الْعَلِیۡمُ ﴿30﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔اے محبوب کیا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر آئی جب وہ اس کے پاس آ کر بولے سلام کہا سلام نا شناسا لوگ ہیں پھر اپنے گھر گیا تو ایک فربہ بچھڑا لے آیا پھر اسے ان کے پاس رکھا کہا کیا تم کھاتے نہیں تو اپنے جی میں ان سے ڈرنے لگا وہ بولے ڈریئے نہیں اور اسے ایک علم والے لڑکے کی بشارت دی اس پر اس کی بی بی چلاتی آئی پھر اپنا ماتھا ٹھونکا اور بولی کیا بڑھیا بانجھ انہوں نے کہا تمہارے رب نے یونہی فرما دیا ہے اور وہی حکیم دانا ہے۔ (پ26،الذاریات:24۔30)
درسِ ہدایت:۔اس واقعہ سے یہ ہدایت کی روشنی ملتی ہے کہ ملائکہ کبھی کبھی آدمی کی صورت میں لوگوں کے پاس آیا کرتے ہیں۔ چنانچہ بعض روایتوں میں آیا ہے کہ حج کے موقع پر حرم کعبہ اور منیٰ و عرفات و مزدلفہ وغیرہ میں کچھ فرشتوں کی جماعت انسانوں کی شکل و صورت میں مختلف بھیس بنا کر آتی ہے جو حاجیوں کے امتحان کے لئے خدا کی طرف سے بھیجی جاتی ہے۔ اس لئے حجاج کرام کو لازم ہے کہ مکہ مکرمہ اور منٰی و عرفات و مزدلفہ اور طواف ِ کعبہ و زیارتِ مدینہ منورہ کے ہجوم میں ہوشیار رہیں کہ ہرگزہرگز کسی انسان کی بھی بے ادبی و دل آزاری نہ ہونے پائے اور تاجروں یا حمالوں یا فقیروں سے جھگڑا تکرار نہ ہونے پائے۔ تمہیں کیا خبر ہے کہ یہ آدمی ہے یا آدمی کی صورت میں کوئی فرشتہ ہے جو تمہیں دھکا دے کر یا ڈانٹ کر تمہارے حلم و صبر کا امتحان لے رہا ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جس سے عام طور پر لوگ ناواقف ہیں اس لئے سفر حج میں قدم قدم پر لوگوں سے الجھتے اور جھگڑتے رہتے ہیں اور بعض اوقات دنیا و آخرت کا شدید نقصان و خسارہ اٹھاتے ہیں۔ لہٰذا اس نقصانِ عظیم سے بچنے کی بہترین تدبیر یہی ہے کہ ہر شخص کے بارے میں"
یہی خطرہ محسوس کرتے رہیں کہ شاید یہ کوئی فرشتہ ہو جو تاجر یا سائل یا مزدور کے بھیس میں ہے اور پھر اس سے سنبھل کر بات چیت کریں اور حتی الامکان اس کو راضی رکھنے کی کوشش کریں اور ہرگز ہرگز کسی تلخ کلامی یا سخت گوئی کی نوبت نہ آنے دیں کہ اسی میں سلامتی ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم۔
کفارِ مکہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے معجزہ طلب کیا تو آپ نے چاند کو دو ٹکڑے کر کے دکھا دیا ایک ٹکڑا ''جبل ابو قبیس'' پر نظر آیا اور دوسر اٹکڑا ''جبل قعیقعان'' پر دیکھا گیا۔ اس طرح چاند کو دو پارہ کر کے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کفارِ مکہ کو دکھا دیا اور فرمایا کہ تم لوگ گواہ ہوجاؤ۔
(تفسیر جلالین، ص۴۴۰،پ۲۷، القمر:۱)
یہ دیکھ کر کفار مکہ نے کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)نے جادو کر کے ہماری نظر بندی کر دی ہے اس پر انہیں کی جماعت کے لوگوں نے کہا کہ اگر یہ نظر بندی ہے تو مکہ سے باہر کے کسی آدمی کو چاند کے حصے نظر نہ آئے ہوں گے۔ لہٰذا اب باہر سے جو قافلے آنے والے ہیں ان کی جستجو رکھو اور مسافرں سے دریافت کرو اگر دوسرے مقامات سے بھی چاند کا شق ہونا دیکھا گیا ہے تو بیشک یہ معجزہ ہے۔ چنانچہ سفر سے آنے والوں سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے بیان کیا کہ ہم نے دیکھا کہ اس روز چاند کے دو ٹکڑے ہو گئے تھے۔ اس کے بعد مشرکین کو انکار کی گنجائش نہ رہی۔ لیکن وہ لوگ اپنے عناد سے اس کو جادو ہی کہتے رہے۔ یہ معجزہ عظیمہ صحاح کی احادیث کثیرہ میں مذکور ہے اور یہ حدیث اس قدر درجہ شہرت کو پہنچ گئی ہے کہ اس کا انکار کرنا عقل و انصاف سے دشمنی اور بے دینی ہے۔
(تفسیر خزائن العرفان، ص۹۵۳۔۹۵۴،پ۲۷،القمر:۱)
اللہ تعالیٰ نے اس معجزہ کا بیان قرآن کی سورہ قمر میں ان الفاظ کے ساتھ بالاعلان فرمایا کہ:
اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَ انۡشَقَّ الْقَمَرُ ﴿1﴾وَ اِنۡ یَّرَوْا اٰیَۃً یُّعْرِضُوۡا وَ یَقُوۡلُوۡا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ ﴿2﴾وَکَذَّبُوۡا وَ اتَّبَعُوۡۤا اَہۡوَآءَہُمْ وَ کُلُّ اَمْرٍ مُّسْتَقِرٌّ ﴿3﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔پاس آئی قیامت اور شق ہوگیا چاند اور اگر دیکھیں کوئی نشانی تو منہ پھیرتے اور کہتے ہیں یہ تو جادو ہے چلا آتا اور انہوں نے جھٹلایا اور اپنی خواہشوں کے پیچھے ہوئے اور ہر کام قرار پا چکا ہے۔ (پ27،القمر:1۔3)
درسِ ہدایت:۔ معجزہ ''شق القمر'' حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بے مثال معجزہ ہے جو اس آیتِ کریمہ اور بہت سی مشہور حدیثوں سے ثابت ہے ہم نے اپنی کتاب ''سیرۃ المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم''میں اس مسئلہ پر سیرِ حاصل بحث کی ہے اس کے مطالعہ سے اطمینان قلب اور جلاء ایمان حاصل کیجئے۔"
"حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کچھ اونچا سنتے تھے اس لئے جب وہ مجلس شریف میں حاضر ہوتے تو صحابہ انہیں آگے جگہ دے دیا کرتے تھے۔ ایک دن جب وہ دربارِ رسالت میں آئے تو مجلس پُر ہوچکی تھی، لیکن وہ لوگوں کو ہٹاتے ہوئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قریب پہنچ گئے۔ مگر پھر بھی ایک آدمی ان کے اور حضور کے درمیان رہ گیا۔ حضرت ثابت بن قیس اس کو بھی ہٹانے لگے لیکن وہ شخص اپنی جگہ سے بالکل نہیں ہٹا تو حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے غصہ میں بھر کر پوچھا کہ تم کون ہو؟ تو اس شخص نے کہا کہ فلاں آدمی ہوں۔یہ سن کر حضرت ثابت بن قیس نے حقارت کے لہجے میں کہا کہ اچھاتو فلانی عورت کا لڑکا ہے ۔ یہ سن کر اس شخص نے شرمندہ ہو کر سر جھکالیا اور اس کو بڑی تکلیف ہوئی اس موقع پر مندرجہ ذیل آیت نازل ہوئی۔
اور حضرت ضحاک سے منقول ہے کہ قبیلہ بنی تمیم کے کچھ لوگ بہترین پوشاک پہن کر بصورت وفد بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں آئے اور جب ان لوگوں نے ''اصحاب صفہ''کے غریب و مفلس مسلمانوں کو فرسودہ حال دیکھا تو ان کا مذاق اُڑانے لگے اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔"
(تفسیر خزائن العرفان،ص۹۲۹، پ۲۶، الحجرات:۱۱)
اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت ام المؤمنین بی بی صفیہ کو ایک دن ''یہودیہ''کہہ دیا تھا۔ جس سے ان کو بہت رنج و صدمہ ہوا۔ جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو معلوم ہوا تو حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا پر بہت زیادہ خفگی کا اظہار فرمایا اور حضرت بی بی صفیہ رضی اللہ عنہا کی دل جوئی کے لئے فرمایا کہ تم ایک نبی (حضرت موسیٰ علیہ السلام)کی اولاد میں ہو اور تمہارے چچاؤں میں بھی ایک نبی (حضرت ہارون علیہ السلام) ہیں اور تم ایک نبی کی بیوی بھی ہو یعنی میری بیوی ہو۔ اس موقع پر ان آیات کا نزول ہوا۔
(تفسیر صاوی،ج۵، ص۱۴۹۴، پ۲۶، الحجرات:۱۱)
"بہرحال ان مذکورہ بالا تینوں شانِ نزول میں سے کسی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی جس میں اللہ (عزوجل) نے کسی قوم کا مذاق اڑانے کی سخت ممانعت فرمائی۔
آیت کریمہ یہ ہے کہ:"
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا یَسْخَرْ قَوۡمٌ مِّنۡ قَوْمٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنُوۡا خَیۡرًا مِّنْہُمْ وَلَا نِسَآءٌ مِّنۡ نِّسَآءٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُنَّ خَیۡرًا مِّنْہُنَّ ۚ وَلَا تَلْمِزُوۡۤا اَنۡفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوۡا بِالْاَلْقَابِ ؕ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوۡقُ بَعْدَ الْاِیۡمَانِ ۚ وَمَنۡ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ ﴿11﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔اے ایمان والو نہ مرد مردوں سے ہنسیں عجب نہیں کہ وہ ان ہنسنے والوں سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے دور نہیں کہ وہ ان ہنسنے والیوں سے بہتر ہوں اور آپس میں طعنہ نہ کرو اور ایک دوسرے کے برے نام نہ رکھو کیا ہی برا نام ہے مسلمان ہو کر فاسق کہلانا اور جو توبہ نہ کریں تو وہی ظالم ہیں۔(پ26،الحجرات:11)
درسِ ہدایت:۔قرآن کریم کی ان چمکتی ہوئی آیتوں کو بغور پڑھئے اور عبرت حاصل کیجئے کہ اس زمانے میں جو ایک فاسقانہ اور سراسر مجرمانہ رواج نکل پڑا ہے کہ ''سید''و ''شیخ''اور"
"''پٹھان''کہلانے والوں کا یہ دستور بن گیا ہے کہ وہ دُھنیا، جولاہا، کُنجڑا، قصائی، نائی کہہ کر مخلص و متقی مسلمانوں کا مذاق بنایا کرتے ہیں بلکہ ان قوموں کے عالموں کو محض ان کی قومیت کی بناء پر ذلیل و حقیر سمجھتے ہیں بلکہ اپنی مجلسوں میں ان کا مذاق بنا کر ہنستے ہنساتے ہیں۔ جہال تو جہال بڑے بڑے عالموں اور پیرانِ طریقت کا بھی یہی طریقہ ہے کہ وہ بھی یہی حرکتیں کرتے رہتے ہیں۔ حد ہو گئی کہ جو لوگ برسوں ان قوموں کے عالموں کے سامنے زانوئے تلمذ طے کر کے خود عالم اور شیخ طریقت بنے ہیں مگر پھر بھی محض قومیت کی بناء پر اپنے استادوں کو حقیر و ذلیل سمجھ کر ان کا تمسخر کرتے رہتے ہیں۔ اور اپنے نسب و ذات پر فخر کر کے دوسروں کی ذلت و حقارت کا چرچا کرتے رہتے ہیں۔ لِلّٰہ بتایئے کہ قرآن مجید کی روشنی میں ایسے لوگ کتنے بڑے مجرم ہیں؟
ملاحظہ فرمایئے کہ قرآنِ مجید نے مندرجہ ذیل احکام اور وعیدیں بیان فرمائی ہیں:
(۱)کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اُڑائے۔ ہوسکتا ہے کہ جن کا مذاق اُڑا رہے ہیں وہ مذاق اُڑانے والوں سے دنیا و آخرت میں بہتر ہوں۔
(۲)مسلمانوں کے لئے جائز نہیں کہ ایک دوسرے پر طعنہ زنی کریں۔
(۳)مسلمانوں پر حرام ہے کہ ایک دوسرے کے لئے برے برے نام رکھیں۔
(۴)جو ایسا کرے وہ مسلمان ہو کر ''فاسق''ہے۔
(۵)اور جو اپنی ان حرکتوں سے توبہ نہ کرے وہ ''ظالم''ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ اگر کوئی گناہ گار مسلمان اپنے گناہ سے توبہ کر لے تو توبہ کے بعد اس کو اس گناہ سے عار دلانا بھی اسی ممانعت میں داخل ہے۔ اسی طرح کسی مسلمان کو کتا، گدھا، سُور کہہ دینا بھی ممنوع ہے یا کسی مسلمان کو ایسے نام یا لقب سے یاد کرنا جس میں اس کی برائی ظاہر ہوتی ہو یا اس کو ناگوار ہوتا ہو یہ ساری صورتیں بھی اسی ممانعت میں داخل ہیں۔"
(تفسیر خزائن العرفان،ص۹۳۰، پ۲۶،الحجرات:۱۱)
اور حضر ت عبداللہ بن مسعود صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اگر میں کسی کو حقیر سمجھ کر اس کا مذاق بناؤں تو مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں اللہ تعالیٰ مجھے کتا نہ بنادے۔
(تفسیر صاوی،ج۵، ص۱۹۹۴، پ۲۶، الحجرات:۱۱)
اللہ تعالیٰ نے ''لوہے'' کا ذکر فرماتے ہوئے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ:
وَ اَنۡزَلْنَا الْحَدِیۡدَ فِیۡہِ بَاۡسٌ شَدِیۡدٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ
"ترجمہ کنزالایمان:۔اور ہم نے لوہا اُتارا اس میں سخت آنچ اور لوگوں کے فائدے ۔ (پ27،الحدید:25)
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضرت آدم علیہ السلام بہشت بریں سے روئے زمین پر تشریف لائے تو لوہے کے پانچ اوزار اپنے ساتھ لائے۔ ہتھوڑا، نہائی، سنسی، ریتی، سوئی ۔ اور دوسری روایت انہی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ تین چیزیں زمین پر نازل ہوئیں۔ حجر اسود، عصاءِ موسوی اور لوہا۔"
(تفسیر صاوی،ج۶، ص۲۱۱۲، پ۲۷،الحدید:۲۵)
اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چار برکت والی چیزیں اللہ تعالیٰ نے آسمان سے نازل فرمائی ہیں۔ لوہا، آگ، پانی، نمک۔
(تفسیر صاوی،ج۶، ص۲۱۱۲، پ۲۷، الحدید:۲۵)
"درسِ ہدایت:۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ ''لوہا''جنت سے زمین پر آیا ہے اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت میں یہ ہے کہ ''لوہا''آسمان سے نازل ہوا ہے۔ ان دونوں روایتوں میں کوئی خاص تعارض نہیں۔ اس لئے کہ ''جنت'' آسمانوں کے اوپر ہی ہے تو لوہا جب جنت سے اُترا تو آسمان ہی سے زمین پر اُترا۔
''لوہا''ایک ایسی دھات ہے کہ ہر صنعت و حرفت کے آلات اس سے بنتے ہیں اور ہر قسم"
کے آلاتِ جنگ بھی اسی سے تیار ہوتے ہیں اور انسانوں کی ضروریات کے ہزاروں سامان ایسے ہیں کہ بغیر لوہے کے تیار ہی نہیں ہو سکتے۔ اس لئے قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے کہ وَمَنَافِعُ لِلنَّاس کہ اس ''لوہے'' میں لوگوں کے لئے بے شمار فوائد و منافع ہیں۔ بہرحال لوہا خداوند تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ لہٰذا لوہے کا ہر سامان دیکھ کر خداوند قدوس کی اس نعمت کا شکر ادا کرنا چاہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک صحابی نے بطور ہدیہ ایک صحابی کے گھر بکری کا ایک سر بھیج دیا تو انہوں نے یہ کہہ کر کہ ہم سے زیادہ تو میرا فلاں بھائی اس سر کا ضرورت مند ہے۔ وہ سر اس کے گھر بھیج دیا تو اُس نے کہا کہ میرا فلاں بھائی مجھ سے بھی زیادہ محتاج ہے۔ یہ کہا اور وہ سر اُس صحابی کے گھر بھیج دیا۔ اسی طرح ایک نے دوسرے کے گھر اور دوسرے نے تیسرے کے گھر اُس سر کو بھیج دیا یہاں تک کہ جب یہ سر چھٹے صحابی کے پاس پہنچا تو انہوں نے سب سے پہلے والے کے گھر یہ کہہ کر بھیج دیا کہ وہ ہم سے زیادہ مفلس اور حاجت مند ہیں اس طرح وہ سر جس گھر سے سب سے پہلے بھیجا گیا تھا پھر اسی گھر میں آگیا۔ اس موقع پر سورہ حشر کی مندرجہ ذیل آیت نازل ہوئی جس میں اللہ جل جلالہٗ نے صحابہ کرام کی سخاوت کا خطبہ ارشاد فرمایا ہے:
وَ یُؤْثِرُوۡنَ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ ؕ۟ وَ مَنۡ یُّوۡقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوۡنَ ﴿ۚ9﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔ اور اپنی جانوں پر ان کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انہیں شدید محتاجی ہو اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہیں۔ (پ28،الحشر:9)
یہ تو زمانہ رسالت کا ایک حیرت انگیز واقعہ تھا۔ امیرالمؤمنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی"
"اللہ عنہ کے عہد ِ خلافت میں تقریباً اِسی قسم کا ایک واقعہ پیش آیا جو عبرت خیز اور نصیحت آموز ہونے میں پہلے واقعہ سے کم نہیں۔ چنانچہ منقول ہے کہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے چار سو دینار ایک تھیلی میں بند کر کے اپنے غلام کو حکم دیا کہ یہ تھیلی حضرت ابو عبیدہ بن الجراح کی خدمت میں پیش کردو اور پھر تم گھر میں اس وقت تک ٹھہرے رہو کہ تم دیکھ لو کہ وہ اس تھیلی کا کیا کرتے ہیں؟ چنانچہ غلام تھیلی لے کر حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا اور عرض کیا کہ حضرت امیرالمؤمنین نے یہ دیناروں کی تھیلی آپ کے پاس بھیجی ہے اور فرمایا ہے کہ آپ اس کو اپنی حاجتوں میں خرچ کریں۔ امیرالمومنین کا پیغام سن کر آپ نے یہ دعا دی کہ اللہ تعالیٰ امیرالمومنین کا بھلا کرے۔ پھر اپنی لونڈی سے فرمایا کہ اے خادمہ!یہ سات دینار فلاں کو دے آؤ اور یہ پانچ دینار فلاں کو۔ اسی طرح انہوں نے ایک ہی نشست میں تمام دیناروں کو حاجت مندوں میں تقسیم کرادیا۔ صرف دو دینار ان کے سامنے رہ گئے تھے تو انہوں نے فرمایا کہ اے لونڈی!یہ دو دینار بھی فلاں ضرورت مند کو دے دو۔
یہ ماجرا دیکھ کر غلام امیرالمومنین کے پاس واپس آگیا تو امیرالمومنین نے چار سو دینار کی دوسری تھیلی حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجی اور غلام سے فرمایا کہ تم اس وقت تک ان کے گھر میں بیٹھے رہنا اور دیکھتے رہنا کہ وہ اس تھیلی کے ساتھ کیا معاملہ کرتے ہیں۔ چنانچہ غلام حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تھیلی لے کر پہنچا تو حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے امیرالمومنین کا تحفہ اور پیغام پانے کے بعد یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ امیرالمومنین پر اپنی رحمت نازل فرمائے اور ان کو نیک بدلہ دے پھر فوراً ہی اپنی لونڈی کو حکم دیا کہ فلاں فلاں صحابہ کے گھروں میں اتنی اتنی رقم پہنچادو۔ صرف دو دینار باقی رہ گئے تھے کہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی آگئیں اور کہا کہ خدا کی قسم! ہم لوگ بھی تو مفلس اور مسکین ہی ہیں۔ یہ سن کر وہ دینار جو باقی رہ گئے تھے بیوی کی طرف پھینک دیئے۔ یہ"
"منظر دیکھ کر غلام امیرالمومنین کی خدمت میں حاضر ہو گیا اور سارا چشم دید ماجرا سنانے لگا۔ امیرالمومنین حضرت ابو عبیدہ اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی اس سخاوت و اولو العزمی کی داستان کو سن کر فرط ِ تعجب سے انتہائی مسرور ہوئے اور فرمایا کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ صحابہ کرام یقینا آپس میں بھائی بھائی ہیں اور ایک دوسرے پر انتہائی رحم دل اور آپس میں بے حد ہمدرد ہیں۔
حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور دوسرے صحابہ کرام سے بھی یہ روایت منقول ہے۔"
(تفسیر صاوی،ج۶، ص۲۱۳۸، پ۲۸، الحشر:۹)
"ایک حدیث میں ہے کہ آیت مذکورہ بالا کا نزول اس واقعہ کے بعد ہوا کہ بارگاہِ نبوت میں ایک بھوکا شخص حاضر ہوا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواجِ مطہرات کے حجروں میں معلوم کرایا کہ کیا کھانے کی کوئی چیز ہے؟ معلوم ہوا کہ کسی بی بی صاحبہ کے یہاں کچھ بھی نہیں ہے تب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اصحابِ کرام سے فرمایا کہ جو اس شخص کو مہمان بنائے اللہ تعالیٰ اس پر رحمت فرمائے۔ حضرت ابو طلحہ انصاری کھڑے ہوگئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے کر مہمان کو اپنے گھر لے گئے۔
گھر جا کر بیوی سے دریافت کیا کہ گھر میں کچھ کھانا ہے؟ انہوں نے کہا کہ صرف بچوں کے لئے تھوڑا سا کھانا ہے۔ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ بچوں کو بہلا پھسلا کر سلادو۔ اور جب مہمان کھانے بیٹھے تو چراغ درست کرنے کے لئے اٹھو اور چراغ کو بجھادو تاکہ مہمان اچھی طرح کھالے۔ یہ تجویز اس لئے کی کہ مہمان یہ نہ جان سکے کہ اہلِ خانہ اس کے ساتھ نہیں کھا رہے ہیں۔ کیونکہ اس کو یہ معلوم ہوجائے گا تو وہ اصرار کریگا اور کھانا تھوڑا ہے۔ اس لئے مہمان بھوکا رہ جائے گا۔ اس طرح حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مہمان کو کھانا کھلا دیا اور خود اہلِ خانہ بھوکے سو رہے۔ جب صبح ہوئی اور حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی"
خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھ کر فرمایا کہ رات فلاں فلاں کے گھر میں عجیب معاملہ پیش آیا۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے بہت راضی ہے اور سورہ حشر کی یہ آیت نازل ہوئی۔
(تفسیرخزائن العرفان،ص۹۸۴،پ۲۸،الحشر:۹)
درسِ ہدایت:۔یہ آیتِ مبارکہ اور اس کی شانِ نزول کے حیرت ناک واقعات ہم مسلمانوں کے لئے کس قدر عبرت خیز و نصیحت آموز ہیں۔ اس کو لکھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہر شخص خود ہی انصاف کی عینک لگا کر اس کو دیکھ سکتا ہے۔ بشرطیکہ اس کے دل میں بصیرت کی روشنی اور آنکھوں میں بصارت کا نور موجود ہو۔
واللہ تعالیٰ اعلم۔
"ہجرت کے بعد جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ نے مدینہ اور اطرافِ مدینہ کے یہودیوں سے ''صلح و عہد'' کا معاہدہ فرمالیا۔ مگر یہودی اپنے عہد و پیمان پر قائم نہیں رہے بلکہ انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے خلاف اندرونی اور بیرونی سازشوں کا جال بچھانا شروع کردیا۔ اسی دوران یہودیوں میں سے قبیلہ ''بنونضیر''کے ذمہ دار افراد نے ایک روز یہ سازش کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جا کر یہ عرض کریں کہ ہم کو آپ سے ایک ضروری مشورہ کرنا ہے اور جب وہ تشریف لے آئیں تو دیوار کے قریب ان کو بٹھایا جائے اور وہ جب گفتگو میں مصروف ہوجائیں تو چھت کے اوپر سے ایک بھاری پتھر ان کے اوپر گرا کر ان کی زندگی کا خاتمہ کردیا جائے۔
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہودیوں کی بستی میں تشریف لے گئے۔ مگر ابھی آپ دیوار کے قریب بیٹھے ہی تھے کہ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی یہودیوں کی سازش سے آپ کو مطلع کردیا۔ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموشی کے ساتھ فوراً واپس تشریف لے گئے۔ اس طرح یہودیوں کی سازش ناکام ہو گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ پہنچ کر محمد بن مسلمہ رضی اللہ"
تعالیٰ عنہ کوبھیجا کہ وہ بنونضیر کے یہودیوں تک یہ پیغام پہنچا دیں کہ چونکہ تم لوگوں نے غداری کر کے معاہدہ توڑ ڈالا ہے اس لئے تم لوگوں کو حکم دیا جاتا ہے کہ حجاز مقدس کی سرزمین سے جلا وطن ہو کر باہر نکل جاؤ۔ منافقین نے یہ سنا تو جمع ہو کر بنو نضیر کے پاس پہنچے اور کہنے لگے کہ تم لوگ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)کے اس حکم کو ہرگز تسلیم نہ کرو اور یہاں سے ہرگز جلاوطن نہ ہو۔ ہم ہر طرح تمہارے شریک کار ہیں۔ بنو نضیر نے منافقین کی پشت پناہی دیکھی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ماننے سے انکار کردیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کی تیاری شروع کردی، اور حضرت عبداللہ بن ام مکتوم کو مدینہ کا امیر بنا کر صحابہ کرام کی ایک فوج لے کر بنو نضیر کے قلعہ پر حملہ آور ہوگئے۔ یہودی اس قلعہ میں بند ہو گئے اور انہوں نے یقین کرلیا کہ اب مسلمان ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے۔ لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے قلعہ کا محاصرہ کرلیا اور پھر حکم دیا کہ ان کے درختوں کو کاٹ ڈالو کیونکہ ممکن تھا کہ درختوں کے جھنڈ میں چھپ کر یہودی اسلامی لشکر پر چھاپہ مارتے۔ ان حالات کو دیکھ کر بنونضیر کے یہودیوں پر ایسا رعب بیٹھ گیا اور اس قدر خوف طاری ہو گیا کہ وہ لرز اُٹھے، اور ان کو منافقین کی طرف سے بھی بجز مایوسی اور رسوائی کے کچھ ہاتھ نہ آیا، آخر کار مجبور ہو کر یہودیوں نے درخواست کی کہ ہم لوگوں کو جلا وطن ہونے کا موقع دیا جائے۔ چنانچہ ان لوگوں کو اجازت دی گئی کہ سامانِ جنگ کے علاوہ جس قدر سامان بھی وہ اونٹوں پر لاد کر لے جانا چاہتے ہیں، لے جائیں۔ چنانچہ بنونضیر کے یہودی چھ سو اونٹوں پر اپنا مال و سامان لاد کر ایک جلوس کی شکل میں گاتے بجاتے مدینہ سے نکلے اور کچھ تو ''خیبر''چلے گئے اور زیادہ تعداد میں ملک شام جا کر ''اذرعات'' اور ''اریحاء'' میں آباد ہو گئے اور چلتے وقت یہودیوں نے اپنے مکانوں کو گرا کر برباد کردیا تاکہ مسلمان ان مکانوں سے فائدہ نہ اُٹھا سکیں۔
(مدارج النبوت، بحث غزوہ بنی نضیر، ج۲ ،ص ۴۸۔۱۴۷، )
اللہ تعالیٰ نے بنونضیر کے یہودیوں کی اس جلاوطنی کا ذکر قرآن مجید کی سورہ حشر میں اس
طرح فرمایا ہے کہ:
ہُوَ الَّذِیۡۤ اَخْرَجَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنْ اَہۡلِ الْکِتٰبِ مِنۡ دِیَارِہِمْ لِاَوَّلِ الْحَشْرِ ؕؔ مَا ظَنَنۡتُمْ اَنۡ یَّخْرُجُوۡا وَ ظَنُّوۡۤا اَنَّہُمۡ مَّانِعَتُہُمْ حُصُوۡنُہُمۡ مِّنَ اللہِ فَاَتٰىہُمُ اللہُ مِنْ حَیۡثُ لَمْ یَحْتَسِبُوۡا ٭ وَ قَذَفَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمُ الرُّعْبَ یُخْرِبُوۡنَ بُیُوۡتَہُمۡ بِاَیۡدِیۡہِمْ وَ اَیۡدِی الْمُؤْمِنِیۡنَ ٭ فَاعْتَبِرُوۡا یٰۤاُولِی الْاَبْصَارِ ﴿2﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔وہی ہے جس نے ان کافر کتابیوں کو ان کے گھروں سے نکالا ان کے پہلے حشر کے لئے تمہیں گمان نہ تھا کہ وہ نکلیں گے اور وہ سمجھتے تھے کہ ان کے قلعے انہیں اللہ سے بچالیں گے تو اللہ کا حکم ان کے پاس آیا جہاں سے ان کا گمان بھی نہ تھا اور اُس نے ان کے دلوں میں رعب ڈالا کہ اپنے گھر ویران کرتے ہیں اپنے ہاتھوں اور مسلمانوں کے ہاتھوں تو عبرت لو اے نگاہ والو۔ (پ28،الحشر:2)
درسِ ہدایت:۔یہودیوں کی قوم اپنے روایتی حسد و بغض اور تاریخی منافقت میں ہمیشہ سے مشہور ہے۔ خاص کر غداری اور بدعہدی تو اُن کا قومی خاصہ ہے اس کے علاوہ ان بدبختوں کا ظلم بھی ضرب المثل ہے۔ یہاں تک کہ ان لوگوں نے بہت سے انبیاء کرام کو قتل کردیا۔ دراں حالیکہ ان بدبختوں کو یہ اعتراف تھا کہ ہم ان کو ناحق قتل کررہے ہیں۔ خداوند قدوس نے ان کی بدعہدیوں اور
وعدہ شکنیوں کا قرآن مجید میں بار بار ذکر فرما کر مسلمانوں کو متنبہ فرمایا ہے کہ یہودیوں کے عہد و معاہدہ پر ہرگز ہرگز مسلمانوں کو بھروسا نہیں کرناچاہے اور ہمیشہ ان بدبختوں کی مکاریوں اور دسیسہ کاریوں سے ہوشیار رہنا چاہے۔
اور بدعہدی اور عہد شکنی کے یہ خبیث خصائل اور بدترین شرارتوں کے گھناؤنے رذائل زمانہ دراز سے آج تک بدستور یہودیوں میں موجود ہیں جیسا کہ اس دور میں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ آج کل اسرائیل کی غاصبانہ حکومت بنا کر فلسطینی عربوں کے ساتھ کیا کررہے"
ہیں؟ اور امریکہ کے یہودی کس طرح ان کی بدعہدیوں پر ان کی پیٹھ ٹھونک کر خود اترا رہے ہیں، اور اسرائیلی حکومت کا حوصلہ بڑھا رہے ہیں، حالانکہ پوری دنیا اسرائیل اور امریکہ پر لعنت و ملامت کررہی ہے مگر ان بے ایمان بے حیاؤں کی شرم و حیا اس طرح غارت ہوچکی ہے کہ ان ظالموں کو اس کا کوئی احساس ہی نہیں ہے۔ فلسطینی عرب تو ظاہر ہے کہ امریکی جیسی طاقت کا مقابلہ نہیں کرسکتے، مگر ہم ناامید نہیں ہیں اور قرآنی وعدوں سے پُر امید ہیں کہ ان شاء اللہ تعالیٰ بدستور و سابق ان لوگوں کو کوئی نہ کوئی عذابِ الٰہی تو ضرور ہلاک و برباد فرما دے گا۔
مفسرین نے فرمایا کہ عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک فرزند کو جن کا نام ''سالم'' تھا، مشرکوں نے گرفتار کرلیا تو عوف بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور اپنی مفلسی و فاقہ مستی کی شکایت کرتے ہوئے یہ عرض کیا کہ مشرکوں نے میرے بچے کو گرفتار کرلیا ہے، جس کے صدمہ سے اس کی ماں بے حد پریشان ہے تو اس سلسلے میں اب مجھے کیا کرنا چاہے؟ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم صبر کرو اور پرہیزگاری کی زندگی بسر کرو اورتم بھی بکثرت
وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ
"پڑھا کرو اور بچے کی ماں کو بھی تاکید کردو کہ وہ بھی کثرت سے اس وظیفہ کا ذکر کرتی رہیں۔ یہ سن کر عوف بن مالک اشجعی اپنے گھر چلے گئے اور اپنی بیوی کو یہ وظیفہ بتا دیا۔ پھر دونوں میاں بیوی اس وظیفہ کو بکثرت پڑھنے لگے۔
اسی درمیان میں وظیفہ کا یہ اثر ہوا کہ ایک دن مشرکین ''سالم''کی طرف سے غافل ہو گئے چنانچہ موقع پا کر حضرت سالم مشرکوں کی قید سے نکل بھاگے اور چلتے وقت مشرکوں کی چار ہزار بکریاں اور پچاس اونٹوں کو بھی ہانک کر ساتھ لائے اور اپنے گھر پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹایا۔ ماں باپ نے دروازہ کھولا تو حضرت سالم موجود تھے، ماں باپ بیٹے کی ناگہاں ملاقات سے بے حد"
خوش ہوئے اور عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بیٹے کی سلامتی کے ساتھ قید سے رہائی کی خبر سنائی اور یہ فتویٰ دریافت کیا کہ مشرکین کی یہ بکریاں اور اونٹ ہمارے لئے حلال ہیں یا نہیں؟ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجازت دے دی کہ وہ اونٹوں اور بکریوں کو جس طرح چاہیں استعمال کریں
(تفسیر خزائن العرفان، ص۱۰۰۴، پ۲۸،الطلاق:۲)
وَ مَنۡ یَّـتَّقِ اللہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا ۙ﴿2﴾وَّ یَرْزُقْہُ مِنْ حَیۡثُ لَا یَحْتَسِبُ ؕ وَ مَنۡ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللہِ فَہُوَ حَسْبُہٗ ؕ اِنَّ اللہَ بَالِغُ اَمْرِہٖ ؕ قَدْ جَعَلَ اللہُ لِکُلِّ شَیۡءٍ قَدْرًا ﴿3﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔ اور جو اللہ سے ڈرے اللہ اس کے لئے نجات کی راہ نکال دے گا اور اسے وہاں سے روزی دے گا جہاں اس کا گمان نہ ہو اور جو اللہ پر بھروسہ کرے تو وہ اسے کافی ہے بیشک اللہ اپنا کام پورا کرنے والا ہے بیشک اللہ نے ہرچیز کا ایک اندازہ رکھا ہے۔(پ28،الطلاق:2۔3)
حدیث شریف میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ایک ایسی آیت جانتا ہوں کہ اگر لوگ اس آیت کو لے لیں تو یہ آیت لوگوں کو کافی ہوجائے گی۔ اور وہ آیت یہ ہے"
وَمَنْ یَّتَّقِ اللہَ
سے آخر آیت تک۔
(تفسیر صاوی،ج۶، ص۲۱۸۲، پ۲۸، الطلاق:۳)
حکایت عجیبہ:۔علامہ :اجہوری نے اپنی کتاب ''فضائل رمضان'' میں تحریر فرمایا ہے کہ ایک مرتبہ کچھ لوگ سمندر میں کشتی پر سوار ہو کر سفر کررہے تھے تو سمندر میں سے ایک آواز دینے والے کی آواز آئی مگر اس کی صورت نہیں دکھائی پڑی۔ اس نے کہا کہ اگر کوئی شخص مجھے دس ہزار دینار دے دے تو میں اس کو ایک ایسا وظیفہ بتا دوں گا کہ اگر وہ ہلاکت کے قریب پہنچ گیا ہو اور اس وظیفہ کو پڑھ لے تو تمام بلائیں اور ہلاکتیں ٹل جائیں گی۔ تو کشتی والوں میں سے ایک نے بلند آواز سے کہا کہ آؤ میں تجھ کو دس ہزار دینار دیتا ہوں تو مجھے وہ وظیفہ بتا دے تو آواز آئی کہ تو
"دیناروں کو سمندر میں ڈال دے۔ مجھے مل جائیں گے۔
چنانچہ کشتی والے نے دس ہزار دیناروں کو سمندر میں ڈال دیا تو اس غیبی آواز والے نے کہا کہ وہ وظیفہ وَمَنْ یَّتَّقِ اللہَ آخر آیت تک ہے تجھ پر جب کوئی مصیبت پڑے تو اس کو پڑھ لیا کرو۔ یہ سن کر کشتی کے سب سواروں نے اس کا مذاق اُڑایا اور کہا کہ تونے دس ہزار دیناروں کی کثیر دولت ضائع کردی تو اس نے جواب دیا کہ ہرگزہرگز میں نے اپنی دولت کو ضائع نہیں کیا ہے اور مجھے اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ یہ قرآن شریف کی آیت ضرور نفع بخش ہو گی۔ اس کے بعد چند دن کشتی چلتی رہی۔ پھر اچانک طوفان کی موجوں سے کشتی ٹوٹ کر بکھر گئی اور سوائے اس آدمی کے کشتی کا کوئی آدمی بھی زندہ نہیں بچا۔ یہ کشتی کے ایک تختے پر بیٹھا ہوا سمندر میں بہتا چلا جارہا تھا یہاں تک کہ ایک جزیرہ میں اتر پڑا۔ اور چند قدم چل کر یہ دیکھا کہ شاندار محل بنا ہوا ہے اور ہر قسم کے موتی اور جواہرات وہاں پڑے ہوئے ہیں۔ اور اس محل میں ایک بہت ہی حسین عورت اکیلی بیٹھی ہوئی ہیں اور ہر قسم کے میوے اور کھانے کے سامان وہاں رکھے ہوئے ہیں۔ اس عورت نے اس سے پوچھا۔
''کہ تم کون ہو اور کیسے یہاں پہنچ گئے۔''
تو اس نے عورت سے پوچھا کہ :
''تم کون ہو اور یہاں کیا کررہی ہو؟''
تو اس عورت نے اپنا قصہ سنایا کہ میں بصرہ کے ایک عظیم تاجر کی بیٹی ہوں میں اپنے باپ کے ساتھ سمندری سفر میں جارہی تھی کہ ہماری کشتی ٹوٹ گئی اور مجھے کوئی اچانک کشتی میں سے اچک کر لے بھاگا۔ اور میں اس جزیرہ میں اس محل کے اندر اس وقت سے پڑی ہوں۔ ایک شیطان ہے جو مجھے اس محل میں لے آیا ہے وہ ہر ساتویں دن یہاں آتا ہے اور میرے ساتھ صحبت تو نہیں کرتا مگر بوس و کنار کرتا ہے۔ اور آج اس کے یہاں آنے کا دن ہے۔ لہٰذا تم اپنی"
جان بچا کر یہاں سے بھاگ جاؤ ورنہ وہ آ کر تم پر حملہ کردے گا۔ ابھی اس عورت کی گفتگو ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ ایک دم اندھیرا چھا گیا تو عورت نے کہا کہ جلدی بھاگ جاؤ وہ آرہا ہے ورنہ وہ تم کو ضرور ہلاک کردے گا۔ چنانچہ وہ آگیا اور یہ شخض کھڑا رہا مگر جوں ہی شیطان اس کو دبوچنے کے لئے آگے بڑھا تو اس نے وَمَنْ یَّتَّقِ اللہَ کا وظیفہ پڑھنا شروع کردیا تو شیطان زمین پر گرپڑا۔ اور اس زور کی آواز آئی کہ گویا پہاڑ کا کوئی ٹکڑا ٹوٹ کر گر پڑا ہے اور پھر وہ شیطان جل کر راکھ کا ڈھیر ہو گیا۔ یہ دیکھ کر عورت نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو فرشتہ رحمت بنا کر میرے پاس بھیج دیا ہے۔ تمہاری بدولت مجھے اس شیطان سے نجات ملی۔ پھر اس عورت نے اس مرد سے کہا کہ ان موتی جواہرات کو اٹھالو اور اس محل سے نکل کر میرے ساتھ سمندر کے کنارے چلو اور کوئی کشتی تلاش کر کے یہاں سے نکل چلو۔ چنانچہ بہت سے موتی و جواہرات اور پھل وغیرہ کھانے کا سامان لے کر دونوں محل سے نکلے اور سمندر کے کنارے پہنچے تو ایک کشتی ''بصرہ'' جا رہی تھی۔ دونوں اس پر سوار ہو کر بصرہ پہنچے۔ لڑکی کے والدین اپنی گم شدہ لڑکی کو پا کر بے حد خوش ہوئے اور اس مرد کے ممنون ہو کر اس کو بہت عزت و احترام کے ساتھ اپنے گھر میں مہمان رکھا۔ پھر لڑکی کے والدین نے پوری سرگزشت سن کر دونوں کا نکاح کردیا اور دونوں میاں بیوی بن کر رہنے لگے۔ اور تمام موتی و جواہرات جو دونوں جزیرہ سے لائے تھے، وہ دونوں کی مشترکہ دولت بن گئے اور اس عورت سے خداوند تعالیٰ نے اس مرد کو چند اولاد بھی دی اور وہ دونوں بہت ہی محبت و الفت کے ساتھ خوش حال زندگی بسر کرنے لگے۔
(تفسیر صاوی،ج۶، ص۲۱۸۳، پ۲۸، الطلاق:۲)
درسِ ہدایت:۔اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ اعمال و وظائف قرآنی میں بڑی بڑی تاثیرات ہیں۔ مگر شرط یہ ہے کہ عقیدہ درست ہو اور اعمال کو صحیح طریقے سے پڑھا جائے اور زبان گناہوں کی آلودگی اور لقمہ حرام سے محفوظ اور پاک و صاف ہو اور عمل میں اخلاص نیت اور
شرائط کی پوری پوری پابندی بھی ہو۔ تو ان شاء اللہ تعالیٰ قرآنی اعمال سے بڑی بڑی اور عجیب عجیب تاثیرات کا ظہور ہو گا۔ جس کی ایک مثال آپ نے پڑھ لی۔
واللہ تعالیٰ اعلم۔
"حضرت نوح علیہ السلام کی قوم بت پرست ہو گئی تھی۔ اور ان لوگوں کے پانچ بت بہت مشہور تھے جن کی پوجا کرنے پر پوری قوم نہایت ہی اصرار کے ساتھ کمربستہ تھی اور ان پانچوں بتوں کے نام یہ تھے۔(۱) ودّ (۲) سُواع (۳) یغُوث (۴) یَعُوق (۵) نسر
حضرت نوح علیہ السلام جو بت پرستی کے خلاف وعظ فرمایا کرتے تھے تو ان کی قوم ان کے خلاف ہر کوچہ و بازار میں چرچا کرتی پھرتی تھی اور حضرت نوح علیہ السلام کو طرح طرح کی ایذائیں دیا کرتی تھی۔ چنانچہ قرآن مجید کا بیان ہے کہ:"
وَ قَالُوۡا لَا تَذَرُنَّ اٰلِہَتَکُمْ وَ لَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّ لَا سُوَاعًا ۬ۙ وَّ لَا یَغُوۡثَ وَ یَعُوۡقَ وَ نَسْرًا ﴿ۚ23﴾وَ قَدْ اَضَلُّوۡا کَثِیۡرًا ۬ۚ
"ترجمہ کنزالایمان:۔اور بولے ہرگز نہ چھوڑنا اپنے خداؤں کو اور ہرگز نہ چھوڑنا وَدّ اور سواع اور یغوث اور یعوق اور نسر کو اور بے شک انہوں نے بہتوں کو بہکایا۔(پ29،نوح:23،24)
یہ پانچوں بت کون تھے؟ ان کے بارے میں حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا بیان ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کے یہ پانچوں فرزند تھے جو نہایت ہی دین دار و عبادت گزار تھے اور لوگ ان پانچوں کے بہت ہی محب و معتقد تھے۔ جب ان پانچوں کی وفات ہو گئی تو لوگوں کو بڑا رنج و صدمہ ہوا تو شیطان نے ان لوگوں کی تعزیت کرتے ہوئے یوں تسلی دی کہ تم لوگ ان پانچوں صالحین کا مجسمہ بنا کر رکھ لو اور ان کو دیکھ دیکھ کر اپنے دلوں کو تسکین دیتے رہو۔ چنانچہ پیتل اور سیسے کے مجسمے بنا بنا کر ان لوگوں نے اپنی اپنی مسجدوں میں رکھ لئے۔ کچھ دنوں تک تو لوگ ان مجسموں کی زیارت کرتے رہے پھر لوگ ان بتوں کی عبادت کرنے لگے اور خدا پرستی"
چھوڑ کر بت پرستی کرنے لگے۔
(تفسیر صاوی، ج۶، ص۲۲۴۵،پ۲۹، نوح:۲۳)
" حضرت نوح علیہ السلام ساڑھے نو سو برس تک ان لوگوں کو وعظ سنا سنا کر اس بت پرستی سے منع فرماتے رہے۔ بالآخر طوفان میں غرق ہو کر سب ہلاک ہو گئے۔ مگر شیطان اپنی اس چال سے باز نہیں آیا اور ہر دور میں اپنے وسوسوں کے جادو سے لوگوں کو اس طور پر بت پرستی سکھاتا رہا کہ لوگ اپنے صالحین کی تصویروں اور مجسمے بنا کر پہلے تو کچھ دنوں تک ان کی زیارت کرتے رہے اور ان کے دیدار سے اپنا دل بہلاتے رہے۔ پھر رفتہ رفتہ ان تصویروں اور مجسموں کی عبادت کرنے لگے۔ اس طرح شرک و بت پرستی کی لعنت میں د نیا گرفتار ہو گئی اور خدا پرستی اور توحید خالص کا چراغ بجھنے لگا جس کو روشن کرنے کے لئے انبیاء سابقین یکے بعد دیگرے برابر مبعوث ہوتے رہے۔ یہاں تک کہ ہمارے حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ کے لئے بت پرستی کی جڑ اس طرح کاٹ دی کہ آپ نے تصویروں اور مجسموں کا بنانا ہی حرام فرما دیا اور حکم صادر فرمادیا کہ تصاویر اور مجسمے ہرگز ہرگز کوئی شخص کسی آدمی تو آدمی کسی جاندار کے بھی نہ بنائے اور جو پہلے سے بن چکے ہیں ان کو جہاں بھی دیکھو فوراً مٹا کر اور توڑ پھوڑ کر تباہ و برباد کردو تاکہ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔
درسِ ہدایت:۔آج کل میں نے دیکھا ہے کہ بہت سے پیروں کے مریدین نے اپنے پیروں کی تصویروں کو چوکھٹوں میں بند کر کے اپنے گھروں میں رکھ چھوڑا ہے اور خاص خاص موقعوں پر اس کی زیارت کرتے کراتے رہتے ہیں بلکہ بعض تو ان تصویروں پر پھول مالائیں چڑھا کر اگربتی بھی سلگایا کرتے ہیں اور اس کے دھوئیں کو اپنے بدن پر ملا کرتے ہیں۔ اگر یہ لوگ اپنی ان خرافات سے باز نہ رہے اور علماء اہل سنت نے اس کے خلاف علم مخالفت نہ بلند کیا تو اندیشہ ہے کہ شیطان کا پرانا حربہ اور اس کی شیطانی چال کا جادو مسلمانوں پر چل جائے گا اور آنے والی نسلیں ان تصویروں کی عبادت کرنے لگیں گی۔ خوب کان کھول کر سن لو کہ:"
"حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے بت پرستی کے جس درخت کی جڑوں کو کاٹ دیا تھا۔ آج کل کے یہ جاہل بدعتی پیر اور ان کے توہم پرست مریدین بت پرستی کی ان جڑوں کو سینچ سینچ کر پھر شرک و بت پرستی کے درخت کو ہرا بھرا اور تناور بنا رہے ہیں۔ آج کل کے جاہل اور دنیا دار پیروں سے تو کیا امید کی جا سکتی ہے کہ وہ اس کے خلاف زبان کھولیں گے۔ مگر ہاں حق پرست اور حق گو علماء اہل سنت سے بہت کچھ امیدیں وابستہ ہیں کہ وہ ان کے خلافِ شرع اعمال و افعال کے خلاف ان شاء اللہ تعالیٰ ضرور علم جہاد بلند کریں گے کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ ہر اس موقع پر جب کہ اسلام کی کشتی گمراہیوں کے بھنور میں ڈگمگانے لگی ہے تو علماء اہل سنت ہی نے اپنی جان پر کھیل کر کشتی اسلام کی ناخدائی کی ہے۔ اور آخر طوفانوں کا رخ موڑ کر اسلام کی کشتی کو غرقاب ہونے سے بچا لیا ہے۔
مگر اس زمانے میں اس کا کیا علاج ہے؟ کہ ان بے شرع پیروں اور مکار باباؤں نے چند روپیوں کے بدلے کچھ مولویوں کو خرید لیا ہے اور یہ مولوی صاحبان ان بے شرع پیروں اور مکار باباؤں کو ''مجذوب'' یا فرقہ ''ملامتیہ'' کا خوبصورت لبادہ اوڑھا کر خوب خوب ان کے کشف و کرامت کا ڈنکا بجا رہے ہیں۔ اور ان باباؤں کے نذرانے سے اپنی مٹھی گرم کررہے ہیں اور اگر کوئی حق گو عالم ان لوگوں کے خلاف کوئی کلمہ کہہ دے تو بابا لوگ اپنے داداؤں کو بلا کر اس عالم کی مرمت کرادیں اور ان کے زرخرید مولوی اپنی مخالفانہ تقریروں کی بوچھاڑ سے بے چارے حق گو عالم کی زندگی دوبھر کردیں۔ میں نے بارہا علماء اہلسنت کو پکارا اور للکارا کہ لِلّٰہ اٹھو اور حق کے لئے کمربستہ ہو کر کم از کم اتنا تو کردو کہ متفقہ فتویٰ کے ذریعے یہ اعلان کردو کہ یہ داڑھی منڈے ،اول فول بکنے والے، گَنجیڑی، تارک صوم و صلوٰۃ، بے شرع بابا لوگ فاسق معلن ہیں۔ جو خود گمراہ اور مسلمانوں کے لئے گمراہ کن ہیں اور ان لوگوں کو ولایت و کرامت سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں۔ مگر افسوس کہ ایک مولوی بھی مجھ عاجز کی آواز پر لبیک کہنے والا نہیں ملا۔"
بلکہ پتا یہ چلا کہ ہر بابا کی جھولی میں کوئی نہ کوئی مولوی چھپا ہوا ہے۔ جس کے خلاف کچھ کہنا خطرے سے خالی نہیں۔ کیونکہ جو بھی ان باباؤں کے خلاف زبان کھولے گا ان نذرانہ خور مولویوں کی کاؤں کاؤں اور چاؤں چاؤں میں اس کی مٹی پلید ہوجائے گی۔
فیا اسفاہ ویاحسرتاہ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
"ابوجہل نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کعبہ میں نماز پڑھنے سے منع کیا تھا اور وہ علانیہ کہا کرتا تھا کہ اگر میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)کو نماز پڑھتے دیکھا تو اپنے پاؤں سے ان کی گردن کچل دوں گا اور ان کا چہرہ خاک میں ملا دوں گا۔ چنانچہ وہ اپنے اس فاسد ارادہ سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نماز پڑھتے دیکھ کر آپ کے قریب آیا مگر اچانک الٹے پاؤں بھاگا۔ ہاتھ آگے بڑھائے ہوئے جیسے کوئی کسی مصیبت کو روکنے کے لئے ہاتھ آگے بڑھاتاہے۔چہرے کا رنگ اُڑ گیا، اور بدن کی بوٹی بوٹی کانپنے لگی۔ اس کے ساتھیوں نے پوچھا کہ تمہارا کیا حال ہے؟ تو کہنے لگا کہ میرے اور محمد (علیہ الصلوٰۃ والسلام)کے درمیان ایک خندق ہے جس میں آگ بھری ہوئی ہے اور کچھ دہشت ناک پرند بازو پھیلائے ہوئے ہیں۔ اس سے میں اس قدر خوفزدہ ہو گیا کہ آگے نہیں بڑھ سکا اور ہانپتے کانپتے کسی طرح جان بچا کر بھاگا۔
نماز کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر ابوجہل میرے قریب آتا تو فرشتے اس کا ایک ایک عضو جدا کردیتے۔
اس کے بعد بھی ابوجہل اپنی خباثت سے باز نہیں آیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھنے سے منع کرنے لگا۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سختی سے جھڑک دیا تو ابوجہل نے غصہ میں بھر کر کہا کہ آپ مجھے جھڑکتے ہیں؟ حالانکہ آپ کو معلوم ہے کہ مکہ میں مجھ سے زیادہ جتھے والا اور مجھ سے بڑی مجلس والا کوئی نہیں ہے۔ خدا کی قسم! میں آپ کے مقابلہ میں"
سواروں اور پیدلوں سے اس میدان کو بھردوں گا۔ اس کی اس دھمکی کے جواب میں سورہ''علق'' یعنی سورہ اقراء کی یہ آیات نازل ہوئیں۔
(تفسیر خزائن العرفان،ص۱۰۷۷، پ۳۰، علق، رکوع :۱)
خداوند قدوس نے ارشاد فرمایا۔
کَلَّا لَئِنۡ لَّمْ یَنۡتَہِ ۬ۙ لَنَسْفَعًۢا بِالنَّاصِیَۃِ ﴿ۙ15﴾ نَاصِیَۃٍ کَاذِبَۃٍ خَاطِئَۃٍ ﴿ۚ16﴾ فَلْیَدْعُ نَادِیَہٗ ﴿ۙ17﴾ سَنَدْعُ الزَّبَانِیَۃَ ﴿ۙ18﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔ہاں ہاں اگر باز نہ آیا توہم ضرور پیشانی کے بال پکڑ کر کھینچیں گے کیسی پیشانی جھوٹی خطاکار اب پکارے اپنی مجلس کو ابھی ہم سپاہیوں کو بلاتے ہیں۔ (پ30،العلق:15۔18)
حدیث شریف میں ہے کہ اگر ابوجہل اپنی مجلس والوں کو بلاتا تو فرشتے اس کو بالاعلان گرفتار کرلیتے اور وہ ''زبانیہ'' کی گرفت سے بچ نہیں سکتا تھا۔"
(تفسیر خزائن العرفان،ص۱۰۷۷، پ۳۰، علق: ۱۸)
درسِ ہدایت:۔ابوجہل جب تک زندہ رہا۔ ہمیشہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دشمنی و ایذاء رسانی پر کمربستہ رہا۔ اور دوسروں کو بھی اس پر اُکساتا رہا۔ آخر قہر خداوندی میں گرفتار ہوا کہ جنگ ِ بدر کے دن دو لڑکوں کے ہاتھ سے ذلت کے ساتھ قتل ہوا اور اس کی لاش بے گوروکفن بدر کے گڑھے میں پھینک دی گئی۔ اس طرح تمام دشمنانِ رسول طرح طرح کے عذابوں میں مبتلا ہو کر ہلاک و برباد ہو گئے۔
سبحان اللہ۔
"مٹ گئے مٹتے ہیں مٹ جائیں گے اعداتیرے
نہ مٹا ہے نہ مٹے گا کبھی چرچا تیرا
تو گھٹائے سے کسی کے نہ گھٹا ہے نہ گھٹے
جب بڑھائے تجھے اللہ تعالی ٰ تیرا
عقل ہوتی تو خدا سے نہ لڑائی لیتے"
یہ گھٹائیں اُسے منظور بڑھانا تیرا
" (حدائق بخشش، حصہ اول، ص۲۷)"
شب ِ قدر بڑی برکت و رحمت والی رات ہے۔ اس رات کے مراتب و درجات کا کیا کہنا کہ خداوند قدوس نے اس مقدس رات کے بارے میں قرآن مجید کی ایک سورہ نازل فرمائی ہے جس میں ارشاد فرمایا کہ:۔
اِنَّاۤ اَنۡزَلْنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃِ الْقَدْرِ﴿1﴾ۚۖوَ مَاۤ اَدْرٰىکَ مَا لَیۡلَۃُ الْقَدْرِ ؕ﴿2﴾لَیۡلَۃُ الْقَدْرِ ۬ۙ خَیۡرٌ مِّنْ اَلْفِ شَہۡرٍ ؕ﴿ؔ3﴾تَنَزَّلُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَ الرُّوۡحُ فِیۡہَا بِاِذْنِ رَبِّہِمۡ ۚ مِنۡ کُلِّ اَمْرٍ ۙ﴿ۛ4﴾سَلٰمٌ ۟ۛ ہِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ ٪﴿5﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔بے شک ہم نے اسے شب قدر میں اُتارا اور تم نے کیا جانا کیا شب قدر ، شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر اس میں فرشتے اور جبریل اُترتے ہیں اپنے رب کے حکم سے ہر کام کے لئے وہ سلامتی ہے صبح چمکنے تک۔(پ30،القد ر:1۔5)
یعنی شب ِ قدر وہ قدر و منزلت والی رات ہے کہ اس رات میں پورا قرآن مجید لوحِ محفوظ سے آسمان دنیا پر نازل کیا گیا اور اس ایک رات کی عبادت ایک ہزار مہینوں کی عبادت سے بڑھ کر افضل ہے۔ اس رات میں حضرت جبرئیل علیہ السلام ملائکہ کے ایک لشکر کے ساتھ آسمان سے زمین پر اترتے ہیں۔ یہ رات زمین و آسمان اور سارے جہان کے لئے سلامتی کا نشان ہے۔ غروبِ آفتاب سے طلوع فجر تک اس کے انوار و برکات کی تجلیاں برابر جلوہ افروز رہتی ہیں۔
روایت ہے کہ ایک دن حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بنی اسرائیل کے ایک عابد کا قصہ بیان فرمایا کہ اس نے ایک ہزار مہینے تک لگاتار عبادت اور جہاد کیا۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یارسول"
اللہ! آپ کے امتیوں کی عمریں تو بہت کم ہیں۔ پھر بھلا ہم لوگ اتنی عبادت کیونکر کرسکیں گے؟ صحابہ کے اس افسوس پر آپ کچھ فکرمند ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے یہ سورہ نازل فرمائی کہ اے محبوب! ہم نے آپ کی امت کو ایک رات ایسی عطا کی ہے کہ وہ ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔
" (تفسیر صاوی،ج۶، ص ۲۳۹۹، پ۳۰، القدر:۳)"
مومنوں کو ملائکہ کی سلامی:۔روایت ہے کہ شب ِ قدر میں سدرۃ المنتہیٰ کے فرشتوں کی فوج حضرت جبرئیل علیہ السلام کی سرداری میں زمین پر اترتی ہے اور ان کے ساتھ چار جھنڈے ہوتے ہیں۔ ایک جھنڈا بیت المقدس کی چھت پر۔ اور ایک جھنڈا کعبہ معظمہ کی چھت پر۔ اور ایک جھنڈا طور سیناء پر لہراتے ہیں اور پھر یہ فرشتے مسلمانوں کے گھروں میں تشریف لے جا کر ہر اس مومن مرد و عورت کو سلام کرتے ہیں جو عبادت میں مشغول ہوں۔ مگر جن گھروں میں بت یا تصویر یا کتا ہو یا جن مکانوں میں شرابی یا خنزیر کھانے والا یا غسل جنابت نہ کرنے والا، یا بلاوجہ شرعی اپنی رشتہ داری کو کاٹ دینے والا رہتا ہو، ان گھروں میں یہ فرشتے داخل نہیں ہوتے۔
(تفسیر صاوی،ج۶، ص ۲۴۰۱، پ۳۰، القدر:۴)
ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ ان فرشتوں کی تعداد روئے زمین کی کنکریوں سے بھی زیادہ ہوتی ہے اور یہ سب سلام و رحمت لے کر نازل ہوتے ہیں۔
" (تفسیر صاوی،ج۶، ص ۲۴۰۱، پ۳۰، القدر:۴)"
شب ِ قدر کون سی رات ہے؟حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شب ِ قدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں یعنی اکیسویں ، تئیسویں ، پچیسویں، ستائیسویں اور انتیسویں راتوں میں تلاش کرو۔
(بخاری شریف، کتاب الصوم، باب تحری لیلۃ القدر، ج۱،ص ۲۷۰، مسلم شریف، کتاب الصیام، باب فضل لیلۃ القد ر، ص ۳۶۹)
"اس لئے بعض علماء کرام نے فرمایا کہ شب ِ قدر کی کوئی رات معین نہیں ہے لہٰذا ان پانچوں راتوں میں شب ِ قدر کو تلاش کرنا چاہے۔
مگر حضرت ابی بن کعب و حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور دوسرے علماء کرام کا قول یہ ہے کہ شب ِ قدر رمضان کی ستائیسویں رات ہے۔"
(تفسیر صاوی،ج۶، ص ۲۴۰۰، پ۳۰، القد ر)
اور بعض علماء کرام نے بطور اشارہ اس کی دلیل یہ بھی پیش کی ہے کہ ''لیلۃ القدر'' میں نو حروف ہیں اور ''لیلۃ القدر'' کا لفظ اس سورہ میں تین جگہ آیا ہے اور نو کو تین سے ضرب دینے سے ستائیس ہوتے ہیں لہٰذا معلوم ہوا کہ شب ِ قدر رمضان کی ستائیسویں رات ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم۔
(تفسیر صاوی،ج۶، ص ۲۴۰۰، پ۳۰، القدر)
شب قدر کی نماز اور دعائیں:روایت ہے کہ جو شب ِ قدر میں اخلاصِ نیت سے نوافل پڑھے گا اس کے اگلے پچھلے سب گناہ معاف ہوجائیں گے۔
" (تفسیر روح البیان،ج۱۰، ص ۸۱۔۴۸۰، پ۳۰،القدر:۳)"
(۱)شب ِ قدر میں چار رکعت نماز نفل اس ترکیب سے پڑھے کہ ہر رکعت میں ''الحمد'' کے بعدسورہ انا انزلناہ تین مرتبہ اور قل ھو اللہ پچاس مرتبہ پڑھے پھر سلام کے بعد سجدہ میں جا کر ایک مرتبہ
سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُلِلّٰہِ وَلَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّہُ وَاللہُ اَکْبَر
پڑھے۔ پھر سجدے سے سر اٹھا کر جو دعا مانگے ان شاء اللہ تعالیٰ مقبول ہو گی۔
(فضائل الشہور والایام)
(۲)حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر مجھے شب ِ قدر مل جائے تو میں کون سی دعا پڑھوں؟ تو ارشاد فرمایا کہ تم یہ دعا پڑھو۔
اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ
(سنن ابن ماجہ،کتاب الدعاء بالعفو و العافیۃ، ج۴،ص۲۷۳،رقم ۳۸۵۰ )
(۳)ایک روایت میں ہے کہ جو شخص رات میں یہ دعا تین مرتبہ پڑھ لے گا تو اس نے گویا
شب ِ قدر کو پالیا۔ لہٰذا ہر رات اس دعا کو پڑھ لینا چاہے۔ دعا یہ ہے:
لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ الْحَلِیْمُ الْکَرِیْمُ سُبْحَانَ اللہِ رَبِّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَرَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیْم
(۴)یہ دعا بھی جس قدر زیادہ پڑھ سکیں پڑھیں۔ یہ بھی حدیث میں آیا ہے، دعا یہ ہے:
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ وَالْمُعَافَاۃَ الدَّائِمَۃَ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃ
قیامت کے دن بندوں کی نیکی بدی کے حساب کے وقت جہاں بہت سے گواہ ہوں گے۔ وہاں زمین بھی گواہ بن کر شہادت دے گی۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ ہر مرد و عورت نے زمین پر جو کچھ اچھا یا برا عمل کیا ہے زمین اس کی گواہی دے گی کہے گی کہ فلاں روز یہ کام کیا اور فلاں روز یہ کام کیا۔
(تفسیر خزائن العرفان،ص۱۰۷۹، پ۳۰، الزلزال:۴)
زمین پر جو کچھ اچھے یا برے کام لوگوں نے کئے ہیں۔ان سب کو زمین نے یاد رکھا ہے اور قیامت کے دن وہ ساری خبروں کو علی الاعلان بیان کرے گی جس کو سب لوگ سنیں گے۔ اس مضمون کو خداوند (عزوجل)نے قرآن مجید میں ان لفظوں کے ساتھ ارشاد فرمایا ہے:
اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَہَا ۙ﴿1﴾وَ اَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَہَا ۙ﴿2﴾وَ قَالَ الْاِنۡسَانُ مَا لَہَا ۚ﴿3﴾یَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَہَا ﴿ۙ4﴾بِاَنَّ رَبَّکَ اَوْحٰی لَہَا ؕ﴿5﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔جب زمین تھر تھرا دی جائے جیسا اس کا تھرتھرانا ٹھہرا ہے اور زمین اپنے بوجھ باہر پھینک دے اورآدمی کہے اسے کیا ہوا اس دن وہ اپنی خبریں بتائے گی اس لئے کہ تمہارے رب نے اسے حکم بھیجا۔(پ30،الزلزال:1۔5)
درسِ ہدایت:۔قیامت کے دن بندوں کے اچھے برے اعمال کے بہت سے گواہ ہوں گے۔ ہر انسان کے کندھوں پر جو فرشتے نامہ اعمال لکھ رہے ہیں وہ مستقل گواہ ہیں۔ پھر ان کے علاوہ انسان کے اعضاء گواہی دیں گے یعنی انسان کے ہاتھ پاؤں، آنکھ کان وغیرہ وغیرہ جن"
جن اعضاء سے جو جو اعمال کئے گئے ہر ہر عضو گواہی دے گا۔ پھر زمین پر جو جو نیکی یا بدی انسان نے کی ہے ان اعمال کے بارے میں زمین ہر ہر عمل کی خبر دے گی۔ اور خداوند قدوس کے حضور گواہی دے گی۔ خلاصہ یہ ہے کہ انسان چاہے جتنا بھی چھپ کر اور چھپا کر کوئی اچھا یا برا عمل کرے، مگر وہ عمل قیامت کے دن ہرگز ہرگز چھپ نہ سکے گا۔ بلکہ ہر آدمی کا ہر عمل اس کے سامنے پیش کردیا جائے گا اور وہ اپنے تمام کرتوتوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا۔ اور ہر عمل کا بدلہ بھی پائے گا۔ چنانچہ خداوند قدوس کا ارشاد ہے کہ:
یَوْمَئِذٍ یَّصْدُرُ النَّاسُ اَشْتَاتًا ۬ۙ لِّیُرَوْا اَعْمَالَہُمْ ؕ﴿6﴾فَمَنۡ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیۡرًا یَّرَہٗ ؕ﴿7﴾وَ مَنۡ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ ٪﴿8﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔اس دن لوگ اپنے رب کی طرف پھریں گے کئی راہ ہو کر تاکہ اپنا کیا دکھائے جائیں تو جو ایک ذرہ بھر بھلائی کرے اسے دیکھے گا اور جو ایک ذرہ بھر برائی کرے اسے دیکھے گا۔ (پ30،الزلزال:6۔8)
بہرحال قیامت کا دن بڑا سخت ہو گا اور ہر آدمی کو اپنے ہر چھوٹے بڑے اور اچھے برے اعمال کا حساب دینا پڑے گا۔ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ زندگی کے ہر لمحہ میں یہ دھیان رکھے کہ جو کچھ کررہا ہوں مجھے ایک دن اپنے ان کاموں کا حساب دینا پڑے گا اور جن اعمال کو میں چھپا کر کررہا ہوں قیامت کے دن بھرے مجمع میں احکم الحاکمین کے حضور ظاہر ہو کر رہیں گے اس وقت کیسی اور کتنی بڑی رسوائی اور شرمندگی ہوگی؟"
خداوند قدوس کی راہ میں جہاد کرنے والے مجاہدین اور غازیوں کا مرتبہ کتنا بلند و بالا، اور کس قدر عظمت والا ہے اس کے بارے میں تو سینکڑوں آیتوں میں خداوند قدوس نے ان مردانِ حق کی مدح و ثناء کا خطبہ ارشاد فرمایا ہے مگر سورۃ ''والعٰدیٰت'' میں رب العزت جل جلالہ
نے مجاہدین اور غازیوں کے گھوڑوں، بلکہ ان گھوڑوں کی رفتار اور ان کی اداؤں کی قسم یاد فرما کر ان کی عزت و عظمت کا اظہار فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشاد ِ ربانی ہے کہ:
وَالْعٰدِیٰتِ ضَبْحًا ۙ﴿1﴾فَالْمُوۡرِیٰتِ قَدْحًا ۙ﴿2﴾فَالْمُغِیۡرٰتِ صُبْحًا ۙ﴿3﴾فَاَثَرْنَ بِہٖ نَقْعًا ۙ﴿4﴾فَوَسَطْنَ بِہٖ جَمْعًا ۙ﴿5﴾اِنَّ الْاِنۡسَانَ لِرَبِّہٖ لَکَنُوۡدٌ ۚ﴿6﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔قسم ان کی جو دوڑتے ہیں سینے سے آواز نکلتی ہوئی پھر پتھروں سے آگ نکالتے ہیں سم مار کر پھر صبح ہوتے تاراج کرتے ہیں پھر اس وقت غبار اُڑاتے ہیں پھر دشمن کے بیچ لشکر میں جاتے ہیں بے شک آدمی اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔ (پ30،العدیت:1۔6)
ان گھوڑوں سے مراد ،مفسرین کا اجماع ہے کہ مجاہدین اور غازیوں کے گھوڑے مراد ہیں جو خداوند قدوس کے دربار میں اس قدر محبوب و محترم ہیں کہ قرآن مجید میں حضرت حق جل مجدہ نے ان گھوڑوں بلکہ ان کی اداؤں کی قسم یاد فرمائی ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا کہ مجھے ان گھوڑوں کی قسم ہے جو جہاد میں دوڑتے ہوئے ہانپتے ہیں اور مجھے قسم ہے ان گھوڑوں کی جو پتھروں پر اپنے نعل والے کھُر مار کر رات کی تاریکی میں چنگاری نکال دیتے ہیں اور مجھے ان گھوڑوں کی قسم ہے جو صبح سویرے کفار پر حملہ کردیتے ہیں اور مجھے قسم ہے ان گھوڑوں کی جو میدانِ جنگ میں دوڑ کر غبار اُڑاتے ہیں اور مجھے قسم ہے ان گھوڑوں کی جو کفار کے بیچ لشکر میں گھس جاتے ہیں۔ اتنی قسموں کے بعد رب تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ''انسان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔''
اللہ اکبر!خداوند قدوس جن چیزوں کی قسم یاد فرمائے، ان چیزوں کی عظمتِ شان کا کیا کہنا؟ قرآن مجید میں جن جن چیزوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرما دیا کہ مجھے ان کی قسم ہے، ان تمام چیزوں کا مرتبہ اتنا بلند و بالا اور اس قدر عظمت والا ہو گیا کہ وہ تمام چیزیں ہم مسلمانوں کے لئے بلکہ ساری کائنات کے لئے معزز و محترم ہو گئیں۔ تو پھر مجاہدین کے گھوڑوں کی عزت و عظمت اور ان کے تقدس و احترام کا کیا عالم ہو گا؟"
اللہ اکبر اللہ اکبر۔
درسِ ہدایت:۔اس سے ہدایت کا یہ سبق ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوبوں کی ہر ہر چیز سے محبت فرماتا ہے اور خدا کے محبوبوں کی ہر ہر چیز قابل عزت و لائق احترام ہے۔ مجاہدین اسلام اور غازیانِ کرام چونکہ خداوند قدوس کے محبوب اور پیارے بندے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ ان مجاہدین کے گھوڑوں سے بھی اس قدر پیار و محبت فرماتا ہے کہ ان گھوڑوں بلکہ ان گھوڑوں کی رفتار اور میدانِ جنگ میں ان گھوڑوں کے حملوں کی قسم یاد فرما کر ان گھوڑوں کی عزت و عظمت کا اعلان فرما رہا ہے۔
سبحان اللہ، سبحان اللہ۔
جب مجاہدین کرام کے گھوڑوں کے بلند درجات کا خطبہ قرآن عظیم نے پڑھا تو اس سے معلوم ہوا کہ مجاہدین کے آلاتِ جنگ اور ان کے ہتھیاروں اور ان کی کمانوں، ان کی تلواروں کا بھی مرتبہ بہت بلند ہے اسی لئے بعض خانقاہوں میں بعض غازیوں کی تلواروں کو لوگوں نے بڑے اہتمام کے ساتھ تبرک بنا کر برسہا برس سے محفوظ رکھا ہے جو بلاشبہ باعث ِ برکت و لائق ِ عزت و احترام ہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم۔
مکہ مکرمہ میں نہ کاشت کاری ہوتی تھی نہ وہاں کوئی صنعت و حرفت تھی۔ پھر بھی قبیلہ قریش کے لوگ کافی خوشحال اور صاحب ِ مال تھے اور خوب دل کھول کر حاجیوں کی ضیافت اور مہمان نوازی کرتے تھے۔ قریش کی خوشحالی اور فارغ البالی کا راز یہ تھا کہ یہ لوگ ہر سال دو مرتبہ تجارتی سفر کیا کرتے تھے۔ جاڑے کے موسم میں یمن اور گرمی کے موسم میں شام کا سفر کیا کرتے تھے اور ہر جگہ کے لوگ انہیں اہل حرم اور بیت اللہ شریف کا پڑوسی کہہ کر ان لوگوں کا اکرام و احترام کرتے تھے اور ان لوگوں کے ساتھ تجارتیں کرتے تھے اور قریش ان تجارتوں میں خوب نفع اٹھاتے تھے۔ اور ان لوگوں کے حرم کعبہ کا باشندہ ہونے کی بناء پر راستہ میں ان کے قافلوں پر کسی قسم کی رہزنی اور ڈکیتی نہیں ہوا کرتی تھی۔ باوجودیکہ اطراف و جوانب میں ہر
طرف قتل و غارت اور لوٹ مار کا بازار گرم رہا کرتا تھا۔ قریش کے سوا دوسرے قبیلوں کے لوگ جب سفر کرتے، تو راستوں میں ان کے قافلوں پر حملے ہوتے تھے اور مسافر لوٹے مارے جاتے تھے اس لئے قریش جس طرح امن و امان کے ساتھ یہ دونوں تجارتی سفر کرلیا کرتے تھے دوسرے لوگوں کو یہ امن و امان نصیب نہیں تھا۔
" (تفسیر خزائن العرفان،ص۱۰۸۴۔۱۰۸۹، پ۳۰، قریش:۱ تا ۴)"
اللہ تعالیٰ نے قریش کو جو بے شمار نعمتیں عطا فرمائی تھیں ان میں سے خاص طور پر ان دو تجارتی سفروں کی نعمت کو یاد دلا کر ان کو خداوند قدوس کی عبادت کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:
لِاِیۡلٰفِ قُرَیۡشٍ ۙ﴿1﴾اٖلٰفِہِمْ رِحْلَۃَ الشِّتَآءِ وَ الصَّیۡفِ ۚ﴿2﴾فَلْیَعْبُدُوۡا رَبَّ ہٰذَا الْبَیۡتِ ۙ﴿3﴾الَّذِیۡۤ اَطْعَمَہُمۡ مِّنۡ جُوۡعٍ ۬ۙ وَّ اٰمَنَہُمۡ مِّنْ خَوْفٍ ٪﴿4﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔اس لئے کہ قریش کو میل دلایا ان کی جاڑے اور گرمی دونوں کے کوچ میں میل دلایا تو انہیں چاہے اس گھر کے رب کی بندگی کریں جس نے انہیں بھوک میں کھانا دیا اور انہیں ایک بڑے خوف سے امان بخشا۔ (پ30،قریش:1۔4)
ان لوگوں کو بھوک میں کھانا دیا یعنی ان دونوں تجارتی سفروں کی بدولت ان لوگوں کے معاش اور روزی کا سامان پیدا کردیا اور ان کے قافلوں کو لوٹ مار سے امن و امان عطا فرمایا۔ لہٰذا ان لوگوں کو لازم ہے کہ یہ لوگ رب کعبہ کی عبادت کریں جس نے ان لوگوں کو اپنی نعمتوں سے نوازا ہے نہ کہ یہ لوگ بتوں کی عبادت کریں جنہوں نے ان لوگوں کو کچھ بھی نہیں دیا۔
درسِ ہدایت:۔اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ میں اپنی دو نعمتوں کو یاد دلاکر بت پرستی چھوڑنے اور اپنی عبادت کا حکم دیا ہے۔ اس سورۃ میں اگرچہ خاص طور پر قریش کا ذکر ہے مگر یہ حکم تمام دنیا کے انسانوں کے لئے ہے کہ لوگ خدا کی نعمتوں کو یاد کریں اور نعمت دینے والے خدائے واحد کی عبادت کریں اور بت پرستی سے باز رہیں۔"
واللہ تعالیٰ اعلم۔
کفار قریش میں سے ایک جماعت دربارِ رسالت میں آئی اور یہ کہا کہ آپ ہمارے دین کی پیروی کریں تو ہم بھی آپ کے دین کا اتباع کریں گے۔ ایک سال آپ ہمارے معبودوں (بتوں)کی عبادت کریں ایک سال ہم آپ کے معبود اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں گے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی پناہ کہ میں غیر اللہ کو اس کا شریک ٹھہراؤں۔ یہ سن کر کفارِ قریش نے کہا کہ اگر آپ بتوں کی عبادت نہیں کرسکتے تو کم سے کم آپ ہمارے کسی بت کو ہاتھ ہی لگا دیجئے تو ہم آپ کی تصدیق کرلیں گے اور آپ کے معبود کی عبادت کرنے لگیں گے اس موقع پر سورۃ
قُلْ یٰآیُّھَا الْکٰفِرُوْنَ
نازل ہوئی اور حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم حرم کعبہ میں تشریف لے گئے اور کفار قریش کو یہ سورۃ پڑھ کر سنائی تو کفار قریش مایوس ہو گئے اور پھر غصہ میں جل بھن کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو طرح طرح کی ایذائیں دینے پر تل گئے۔
(تفسیر خزائن العرفان،ص۱۰۸۵، پ۳۰، الکفرون :۱)
قُلْ یٰۤاَیُّہَا الْکٰفِرُوۡنَ ۙ﴿1﴾لَاۤ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوۡنَ ۙ﴿2﴾وَ لَاۤ اَنۡتُمْ عٰبِدُوۡنَ مَاۤ اَعْبُدُ ۚ﴿3﴾وَ لَاۤ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدۡتُّمْ ۙ﴿4﴾وَ لَاۤ اَنۡتُمْ عٰبِدُوۡنَ مَاۤ اَعْبُدُ ؕ﴿5﴾لَکُمْ دِیۡنُکُمْ وَلِیَ دِیۡنِ ٪﴿6﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔تم فرماؤ اے کافرو نہ میں پوجتا ہوں جو تم پوجتے ہو اور نہ تم پوجتے ہو جو میں پوجتا ہوں اور نہ میں پوجوں گا جو تم نے پوجا اور نہ تم پوجو گے جو میں پوجتا ہوں تمہیں تمہارا دین اور مجھے میرا دین۔(پ30،الکافرون :1۔6)
درسِ ہدایت:۔اس سورۃ پاک کے مضمون اور حضور سید لولاک صلی اللہ علیہ وسلم کے طرزِ عمل سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ کفر و اسلام میں کبھی مفاہمت اور موافقت نہیں ہو سکتی جو مسلمان کفار کی خوشنودی اور ان کی خوشامد کے لئے ان کی مذہبی تقریبات میں حصہ لیتے ہیں اور بت"
پرستی کی مشرکانہ رسموں میں چندہ دے کر شرکت کرتے ہیں ان کو اس سورۃ سے ہدایت کا نورانی سبق حاصل کرنا چاہے اور ایمان رکھنا چاہے کہ توحید اور شرک کبھی ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے جو موحد ہو گا وہ کبھی مشرک نہیں ہو سکتا اور جو مشرک ہو گا وہ کبھی موحد نہیں ہو گا۔
واللہ تعالیٰ اعلم۔
"کفارِ عرب نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ کے بارے میں طرح طرح کے سوال کئے کوئی کہتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا نسب اور خاندا ن کیا ہے؟ اس نے ربوبیت کس سے میراث میں پائی ہے؟ اور اس کا وارث کون ہو گا؟ کسی نے یہ سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ سونے کا ہے یا چاندی کا؟ لوہے کا ہے یا لکڑی کا؟ کسی نے یہ پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کیا کھاتا پیتا ہے؟
ان سوالوں کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم پر سورۃ قُلْ ھُوَا للہُ نازل فرمائی اور اپنی ذات و صفات کا واضح بیان فرما کر اپنی معرفت کی راہ روشن کردی اور کفار کے جاہلانہ خیالات و اوہام کی تاریکیوں کو جن میں وہ لوگ گرفتار تھے اپنی ذات و صفات کے نورانی بیان سے دور فرما دیا۔"
(تفسیر خزائن العرفان،ص۱۰۸۶،پ۳۰، اخلاص: ۱)
ارشاد فرمایا کہ:
"قُلْ ہُوَ اللہُ اَحَدٌ ۚ﴿1﴾اَللہُ الصَّمَدُ ۚ﴿2﴾لَمْ یَلِدْ ۬ۙ وَ لَمْ یُوۡلَدْ ۙ﴿3﴾وَ لَمْ یَکُنۡ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ ٪﴿4﴾
(پ30،الاخلاص:1۔4)"
"ترجمہ کنزالایمان:۔تم فرماؤ وہ اللہ ہے وہ ایک ہے اللہ بے نیاز ہے نہ اس کی کوئی اولاد اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا اور نہ اس کے جوڑ کا کوئی۔
درسِ ہدایت:۔اللہ تعالیٰ نے سورۃ قل ھو اللہ کی چند آیتوں میں ''علم الہیات'' کے وہ نفیس اور اعلیٰ مطالب بیان فرما دیئے ہیں کہ جن کی تفصیلات اگر بیان کی جائیں تو کتب خانے کے کتب خانے پُر ہوجائیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ربوبیت اور الوہیت میں صفت"
"عظمت و کمال کے ساتھ موصوف ہے۔ مثل و نظیر و شبیہ سے پاک ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔
وہ کچھ کھاتا ہے نہ پیتا ہے، نہ کسی کا محتاج ہے بلکہ سب اس کے محتاج ہیں وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
وہ قدیم ہے اور پیدا ہونا حادث کی شان ہے اس لئے نہ وہ کسی کا بیٹا ہے نہ کسی کا باپ ہے نہ اس کا کوئی مجانس ہے اور نہ اس کا عدیل و مثیل ہے۔
اس سورۃ مبارکہ کی فضیلتوں کے متعلق بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں اسکو تہائی قرآن کے برابر بتایا گیا ہے یعنی اگر تین مرتبہ اس سورۃ کو پڑھا جائے تو پورے قرآن کی تلاوت کا ثواب ملے گا۔
ایک شخص نے حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے اس سورۃ سے محبت ہے تو آپ نے فرمایا کہ اس کی محبت تجھے جنت میں داخل کر دے گی۔"
(تفسیر خزائن العرفان،ص۱۰۸۶، پ۳۰، اخلاص:۱)
قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی وہ جلیل القدر اور عظیم الشان کتاب ہے، جس میں ایک طرف حلال و حرام کے احکام ،عبرتوں اور نصیحتوں کے اقوال، انبیائے کرام اور گزشتہ امتوں کے واقعات و احوال، جنت و دوزخ کے حالات مذکور ہیں اور دوسری طرف اس کے باطن کی گہرائیوں میں علوم و معارف کے خزانوں کے بے شمار ایسے سمندر موجیں ماررہے ہیں جو قیامت تک کبھی ختم نہیں ہو سکتے۔ چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی اس عظیم الشان جامعیت کا بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:
لاَ یَشْبَعُ مِنْہُ الْعُلَمَآءُ وَلاَ یَخْلَقُ عَنْ کَثْرَۃِ الرَّدِّ وَلاَ یَنْقَضِیْ عَجَائِبُہٗ
قرآنی مضامین کا احاطہ کر کے کبھی علماء آسودہ نہیں ہوں گے اور بار بار پڑھنے سے قرآن
پرانا نہیں ہو گا اور قرآن کے عجیب و غریب مضامین کبھی ختم نہیں ہوں گے۔
(مشکوٰۃ شریف، کتاب فضائل القرآن، الفصل الثانی، ص ۱۸۶)
چنانچہ حضرت سیدنا علی خواص رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:
اِنَّ اللہَ تَعَالٰی اِطَّلَعَنِی عَلٰی مَعَانِیْ سُوْرَۃِ الْفَاتِحَۃِ فَظَھَرَلِیْ مِنْھَا مِائَۃَ أَلْفِ عِلْمٍ وَّاَرْبَعُوْنَ اَلْفِ عِلْمٍ وَتِسْعَمِائَۃٍ وَّ تِسْعُوْنَ عِلْمًا ط
بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھے سورۃ فاتحہ کے معانی پر آگاہ فرمایا تو ان میں سے ایک لاکھ چالیس ہزار نو سو ننانوے علوم مجھ پر منکشف ہوئے۔
(الدولۃ المکیۃ، النظر الخامس فی دلائل المدعی من الاحادیث والاقوال والایات، ص ۷۹)
اسی طرح امام شعرانی علیہ الرحمۃ اپنی کتاب میزان میں تحریر فرماتے ہیں کہ:
قَدِ اسْتَخْرَجَ اَخِیْ اَفْضَلُ الدِّیْنِ مِنْ سُوْرَۃِ الْفَاتِحَۃِ مَائَتَیْ اَلْفِ عِلْمٍ وَّ سَبْعَۃً وَّاَرْبَعِیْنَ اَلْفِ عِلْمٍ وَّتِسْعَ مِائَۃٍ وَتِسْعَۃً وَّ تِسْعُوْنَ عِلْمًا
میرے بھائی افضل الدین نے سورۃ فاتحہ سے دو لاکھ سینتالیس ہزار نو سو ننانوے علوم نکالے ہیں۔
(الدولۃ المکیۃ، النظر الخامس فی دلائل المدعی من الاحادیث والاقوال والایات، ص ۷۹)
ان روایتوں سے اچھی طرح واضح ہوتا ہے کہ قرآن مجید اگرچہ ظاہر میں تیس پاروں کا مجموعہ ہے لیکن اس کا باطن کروڑوں بلکہ اربوں علوم و معارف کا ایسا خزانہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوسکتا کسی عارف باللہ کا مشہور شعر ہے کہ!
"جَمِیْعُ الْعِلْمِ فِی الْقُرْاٰنِ لٰکِنْ تَقَاصَرَ عَنْہُ اَفْہَامُ الرِّجَالِ"
یعنی تمام علوم قرآن میں موجود ہیں لیکن لوگوں کی عقلیں ان کے سمجھنے سے قاصر و کوتاہ ہیں۔ الحاصل قرآن مجید میں صرف علوم و معارف ہی کا بیان نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید میں پوری کائنات اور سارے عالم کی ہر ہر چیز کا واضح اور روشن تفصیلی بیان ہے یعنی آسمان کے ایک
ایک تارے، سمندر کے ایک ایک قطرے ،سبزہ ہائے زمین کے ایک ایک تنکے، ریگستان کے ایک ایک ذرے، درختوں کے ایک ایک پتے، عرش و کرسی کے ایک ایک گوشے، عالم کائنات کے ایک ایک کونے، ماضی کا ہر ہر واقعہ، حال کا ہر ہر معاملہ ،مستقبل کا ہر ہر حادثہ قرآن مجید میں نہایت وضاحت کے ساتھ تفصیلی بیان کیا گیا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ!
فَرَّطْنَا فِی الۡکِتٰبِ مِنۡ شَیۡءٍ
" ترجمہ کنزالایمان:۔ ہم نے اس کتاب میں کچھ اُٹھا نہ رکھا۔(پ7،الانعام:38)
لیکن واضح رہے کہ قرآن کی یہ اعجازی شان ہمارے تمہارے اور عام لوگوں کے لئے نہیں ہے بلکہ قرآن کی اس اعجازی شان کا کامل ظہور تو صرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص ہے اور صرف آپ ہی کا یہ معجزہ ہے کہ آپ نے قرآن مجید کے تمام مضامین و معانی کو تفصیلی طور پر جان لیا اور پورا قرآن نازل ہوجانے کے بعد کائنات عالم کی کوئی شے، ماضی و حال اور مستقبل کا کوئی واقعہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پوشیدہ نہیں رہا اور آپ نے ہر غیب و شہادت کو تفصیلی طور پر جان لیا کیونکہ خداوند قدوس کا ارشاد ہے کہ:۔"
وَ نَزَّلْنَا عَلَیۡکَ الْکِتٰبَ تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیۡءٍ۔
"ترجمہ کنزالایمان:۔ اور ہم نے تم پر یہ قرآن اُتارا کہ ہر چیز کا روشن بیان ہے۔(پ14،النحل:89)
پھر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صدقے میں بعض اولیاء کرام اور علماء عظام کو بھی بقدر ظرف ان کے باطنی علوم و معارف سے حصہ ملا ہے جن میں سے کچھ کتابوں کے لاکھوں صفحات پر ستاروں کی طرح چمک رہے ہیں اور کچھ سینوں کے صندوق اور دلوں کی تجوریوں میں اب تک مقفل ہی رہ گئے ہیں جو آئندہ ان شاء اللہ تعالیٰ قیامت تک صفحات قرطاس پر جلوہ ریز ہوتے رہیں گے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس غیبی خبر"
وَلاَ تَنْقَضِیْ عَجَآئِبُہٗ
کا وقتاً فوقتاً ظہور ہوتا رہے گا اور امت مسلمہ ان کے فیوض و برکات سے مستفیض و مالا مال ہوتی ہی رہے گی۔ بہرحال یہ یقین و
"ایمان رکھنا چاہے کہ ہم نے ''عجائب القرآن'' اور ''غرائب القرآن'' میں جو قرآن کے چند عجیب و غریب مضامین کا ایک مختصر مجموعہ تحریر کیا ہے اور ہم سے پہلے بہت سے علماء کرام نے مضامینِ قرآن پر ہزاروں کتابیں اور لاکھوں صفحات تحریر فرمائے ہیں، قرآن مجید کے علوم و معارف کے سامنے ان سب تحریروں کو وہ نسبت بھی حاصل نہیں جو ایک قطرہ کو دنیا بھر کے سمندروں سے اور ایک ذرہ کو تمام روئے زمین سے حاصل ہو، کیونکہ قرآن مجید تو علوم و معارف کا وہ خزانہ ہے جو کبھی ختم ہی نہیں ہو سکتا بلکہ قیامت تک علماء کرام اس بحر ناپیدا کنار سے ہمیشہ عجیب و غریب مضامین کے موتی نکالتے ہی رہیں گے اور ہزاروں لاکھوں کتابوں کے دفتر تیار ہوتے ہی رہیں گے۔
میں اگرچہ اس پر بہت خوش ہوں کہ قرآن کریم کے چند مضامین پر دو مختصر مجموعے لکھ کر میں ان علماء کرام کی جوتیوں کی صف میں جگہ پاگیا جنہوں نے اپنے نوکِ قلم سے قرآنی آیات کے ایسے ایسے در شہوار اور گوہر آبدار صفحات قرطاس پر بکھیر دیئے جن کی چمک دمک سے مومنین کے ایمان و عرفان میں ایسی تابانی و تابندگی پیدا ہو گئی جو قیامت تک روشن رہے گی مگر میں انتہائی متاسف اور شرمندہ ہوں کہ اپنی علمی کوتاہی اور کم فہمی کی وجہ سے اور پھر اپنی علالت کے باعث کچھ زیادہ نہ لکھ سکا اور نہ کوئی ایسی نادر بات لکھ سکا جو اہل علم کے لئے باعث ِ کشش و قابل مسرت ہو۔
بہرحال دعاگو ہوں کہ خداوند کریم بطفیل نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم میری اس حقیر خدمت کو قبول فرما کر اس کو مقبولیت دارین کی کرامتوں سے سرفراز فرمائے۔ (آمین)"