Pages
حضرت سیدنا عمیر بن سعد الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت سیدنا عمربن خطاب رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے انہیں حَمص کاگورنر بناکر بھیجا۔ایک سال گزر گیالیکن ان کی کوئی خبر نہ آئی۔ چنانچہ حضرت سید ناعمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کاتب کو بلایااورفرمایا:'' عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف خط لکھو کہ جیسے ہی تمہیں میر ایہ خط ملے فوراً میرے پاس چلے آؤ، مالِ غنیمت و خَراج وغیرہ بھی ساتھ ليتے آنا۔''جب حضرت سیدنا عمیر بن سعدرضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہکا پیغام ملا تو آپ نے اپنا تھیلا اٹھایا،اس میں زادِ راہ اور ایک پیالہ رکھا، پانی کا برتن لیا پھر اپنی لاٹھی اٹھاکر پیدل ہی سفر کرتے ہوئے مدینہ منوّرہ پہنچ گئے۔ آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ حضرت سیدنا عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں اس حال میں حاضر ہوئے کہ آپ کاچہرہ گرد آلود اوررنگ متغیر ہو چکا تھا اور طویل سفر کے آثار چہرے پر ظاہر تھے۔ آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے حاضر ہوتے ہی
اَلسَّلَامُ عَلَیکُمْ یَااَمِیْرَ الْمُؤمِنِیْن وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہ، وَمَغْفِرَتُہُ
"کہا۔ حضرت سیدنا عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سلام کا جواب دیااورپوچھا:''اے عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہ ! تمہارا کیا حال ہے؟'' حضرت سیدنا عمیررضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے عرض کی:'' میراوہی حال ہے جو آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ دیکھ رہے ہیں، کیاآپ نہیں دیکھ رہے کہ میں صحیح وسالم ہوں اور دنیا میرے ساتھ ہے جسے میں کھینچ رہا ہوں۔
حضرت سیدنا عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا:''تم کیاکچھ لے کر آئے ہو؟'' آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاگما ن تھا کہ شایدحضرت عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہ مالِ غنیمت وغیرہ لائے ہوں گے، حضرت سیدنا عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی:'' میرے پاس میراتھیلاہے جس میں اپنازادِراہ رکھتاہوں، ایک پیالہ ہے جس میں کھاناکھاتاہوں اور اسی سے اپناسر اور کپڑے وغیرہ دھوتاہوں،ایک پانی کا برتن ہے جس میں پانی پیتاہوں اور وضو وغیرہ کرتاہوں اورایک لاٹھی ہے جس پر ٹیک لگاتاہوں اور اگر کوئی دشمن آ جائے تو اسی لاٹھی سے اس کامقابلہ کرتاہوں، خدا عزوجل کی قسم!اس کے علاوہ میرے پاس دنیاوی مال ومتاع نہیں۔''حضرت سیدناعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دریافت فرمایا:''اے عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ! کیاتم پیدل آئے ہو ؟''انہوں نے عرض کی:''جی ہاں۔''آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے پوچھا: ''کیا مسلمانوں میں سے کوئی ایسا نہ تھاجو تمہیں سواری دیتاتاکہ تم اس پر سوار ہوکرآتے ؟''آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے عرض کی :''نہیں، ان میں سے کسی نے مجھے کہا نہ ہی میں نے کسی سے سوال کیا۔''حضرت سیدنا عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:''وہ کتنے برُ ے لوگ ہیں جن کے پاس سے تم آئے ہو ۔ حضرت سیدنا عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا :''اے عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ ! انہیں برانہ کہے ،میں ان لوگوں کو صبح کی نمازپڑھتے چھوڑ کر آیاہوں، وہ اللہ عزوجل کی عبادت کرنے والے ہیں ۔'' حضرت سیدنا عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا:"
"''تم جس مال کی وصولی کے لئے بھیجے گئے تھے وہ کہاں ہے ؟ ا ور تم نے وہاں رہ کر کیاکیاکام سر انجام ديئے؟''حضرت سیدنا عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی: ''آپ مجھ سے کیاپوچھناچاہتے ہیں ؟''حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ''سبحان اللہ عزوجل! میں جو پوچھنا چاہتا ہوں وہ بالکل واضح ہے۔''
حضرت سیدنا عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی:''اللہ عزوجل کی قسم! اگرمجھے اس بات کاخوف نہ ہوتاکہ میرے نہ بتانے سے آپ کو غم ہو گاتو میں ہر گزآپ کو نہ بتاتا،سنئے!جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے بھیجاتھاتو وہاں پہنچ کرمیں نے وہاں کے تمام نیک لوگو ں کو جمع کیا اور انہیں مال جمع کرنے کے لئے کہا۔جب انہوں نے مالِ غنیمت اور جزیہ وغیرہ جمع کر لیاتو میں نے اس مال کواس کے مصارف(یعنی خرچ کرنے کی جگہوں)میں خرچ کر دیا۔اگراس میں سے کچھ بچتاتو میں یہاں ضرور لے کر آتا۔'' حضرت سید ناعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دریافت فرمایا:'' تم یہاں کچھ بھی نہیں لے کر آئے؟'' انہوں نے عرض کی:''نہیں۔''حضرت سید نا عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ''حضرت عمیررضی اللہ تعا لیٰ عنہ کو دوبارہ وہاں کاحاکم بناکر بھیجاجاتاہے اس کے لئے عہد لکھو۔''حضرت سید ناعمیررضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے جب یہ سناتو عرض کی:'' اب میں یہ کام نہ توآپ کے لئے کروں گانہ آپ کے بعد کسی اور کے لئے، کیونکہ اس کام میں مَیں اپنے آپ کو گناہوں سے نہیں بچا سکتابلکہ مجھ سے ایک خطابھی سر زد ہوئی ہے، میں نے ایک نصرانی کو یہ کہہ دیاتھا کہ'' اللہ عزوجل تجھے رسواکرے حالانکہ وہ ہمیں جزیہ دیا کرتاتھا اور ذمی کافر کو اذیت دینامنع ہے لہٰذا میں اب یہ عہدہ قبول نہیں کروں گا۔''پھر انہوں نے حضرت سید نا عمررضی اللہ تعا لیٰ عنہ سے اجازت چاہی اور اپنے گھرکی طرف روانہ ہو گئے۔
ان کاگھر مدینہ منورہ سے کافی دور تھا۔وہ پیدل ہی گھر کی جانب چل دیئے۔ جب وہ چلے گئے تو حضرت سید ناعمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:'' ان کے بارے میں تحقیق کرنی چاہے۔ لہٰذا آ پ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے حارث نامی ایک شخص کو بلایااور اسے ایک سو دینار دے کر فرمایا:'' تم حضرت عمیررضی اللہ تعا لیٰ عنہ کے پاس جاؤ اور وہاں مہمان بن کر رہو، اگر وہاں دولت کے آثار دیکھو تو واپس آ جا نا اور اگرانہیں تنگدستی اور فقروفاقہ کی حالت میں پاؤ تو یہ دینار اُنہیں دے دینا۔''
جب وہ شخص وہا ں پہنچا تو دیکھاکہ حضرت سیدنا عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھے ہیں اور اپنے کُرتے سے گردوغباروغیرہ صاف کر رہے ہیں۔وہ ان کے پاس گئے اور سلام عرض کیا،آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے جواب دیااو ر فرمایا:'' اللہ عزوجل آپ پررحم فرمائے، آپ ہمارے ہاں مہمان ہو جائيے۔ لہٰذا وہ ان کے ہاں بطورِ مہمان ٹھہر گیا پھر حضرت سیدنا عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے پوچھا:''آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں؟ ''اس نے کہا:''میں مدینہ منورہ سے آیاہوں۔'' حضرت سیدنا عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا:'' امیر المؤمنین کو کس حال میں چھوڑ کر آئے ہو ؟''جواب دیا:''اچھی حالت میں ۔''پھرآپ رضی اللہ"
"تعالیٰ عنہ نے پوچھا:''کیا حضرت سیدنا عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ مجرموں کوسزانہیں دیتے ؟''اس نے کہا:''کیوں نہیں۔''وہ حدود قائم فرماتے ہیں اور انہوں نے تو اپنے بیٹے پر بھی کسی خطا ۱؎پر حد قائم فرمائی یہاں تک کہ وہ فوت ہو گئے ۔'' حضرت سیدنا عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا،اے اللہ عزوجل !تو حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عزت عطافرما،ان کی مدد فرما، بے شک وہ تجھ سے بہت زیا دہ محبت کرتے ہیں۔
وہ شخص حضرت سید نا عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں تین دن مہمان رہا۔ آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کے ہاں جَوکی ایک روٹی ہوتی جو اسے کھلا دیتے اور خود بھوکے رہتے ۔ یہاں تک کہ آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ مشقت میں پڑ گئے اور آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کو بہت زیادہ پریشانی ہونے لگی۔چنانچہ آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے اس سے معذرت کرتے ہوئے فرمایا:''ہمیں بہت زیادہ پریشانی کاسامنا ہے ،اگر آپ مناسب سمجھیں تو ہم سے رخصت ہو جائیں ،جب اس نے یہ سنا تو دینار نکال کر آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کی بارگاہ میں پیش کئے اور کہا:'' یہ امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کے لئے بھیجے ہیں،انہیں قبول فرمائيے اور اپنی ضروریات میں استعمال کيجئے۔''جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ سنا تو ایک زور دار چیخ ماری اور فرمایا:''مجھے ان کی کچھ حاجت نہیں،انہیں واپس لے جاؤ۔''یہ دیکھ کر آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کی زوجہ محترمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے عر ض کی:'' آپ انہیں قبول کر لیجئے، اگر ان کی ضرورت محسوس ہو تو استعمال کر لیناورنہ حاجت مندوں اور فقراء میں تقسیم فرمادینا۔''حضرت سید نا عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ''اللہ عزوجل کی قسم! میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جس میں انہیں رکھ سکوں ۔''یہ سن کر آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کی زوجہ محترمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے کرتے کانیچے والاحصہ پھاڑ کر دیا،اور کہا:''اس میں رکھ لیجئے۔''آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے وہ دینار لے کر اس کپڑے میں رکھ لئے پھر گھر سے باہر تشریف لے گئے اور تمام دینار شہداء کے اقرباء اور فقراء ومساکین میں تقسیم فرمادیئے ۔ جب واپس گھر آئے توآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ایک دینار بھی نہ تھا،دینار لانے والے کا گمان تھا کہ شاید مجھے بھی کچھ حصہ ملے گا لیکن آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سب دینار فقراء میں تقسیم فرمادئیے تھے۔ پھر حضرت سیدنا عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے فرمایا:''امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو میراسلام عرض کرنا۔'' پھر وہ شخص وہاں سے روانہ ہوکر حضرت سیدنا عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہوا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے پوچھا:''تم نے وہاں کیا دیکھا؟'' عرض کی: ''بہت تنگدستی اور فقر وفاقہ کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں ،پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا :'' انہوں نے دیناروں کاکیاکیا؟''عرض کی:'' مجھے معلوم نہیں۔''"
" ۱؎:ان کی خطایہ تھی کہ انہوں نے نبیذ پی تھی جس سے نشہ ہو گیاتھا۔ فتاوی فیض الرسول میں ہے :''ان کی جانب شراب پینے اور زنا کرنے کی نسبت غلط ہے، صحیح یہ ہے کہ انہوں نے نبیذ پی تھی جس کے سبب نشہ ہوگیا تھاتوحضرت عمرفاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان پر حد قائم فرمائی، پھر وہ بیمار ہوکر انتقال فرماگئے ۔''
(فتاوی فیض الرسول بحوالہ مجمع البحار ،ج ۲،ص۷۱۰ )"
" پھر حضرت سیدنا عمرفاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی طرف خط بھیجا اور اس میں لکھا:'' جیسے ہی ہمارایہ خط پہنچے فوراً ہمارے پاس چلے آؤ ،لہٰذا خط پاکر حضرت سیدنا عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہو گئے ،حضرت سیدنا عمرِفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے پوچھا:'' آپ نے دینار کہاں خرچ کئے ؟بولے: ''میں نے جہاں چاہا انہیں خرچ کیا،آپ ان کے متعلق کیوں پوچھ رہے ہیں؟''آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:''میں تمہیں قسم دے کر کہتا ہوں مجھے بتاؤ تم نے وہ دینار کہاں خرچ کئے؟''حضرت سیدناعمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی:'' میں نے وہ دینار اپنی آخرت کے لئے ذخیرہ کر لئے ہیں۔''
حضرت سیدناعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ سن کر فرمایا:''اللہ عزوجل آپ پر رحم فرمائے اورآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خوش وخرم رکھے، اسی طرح حضرت سیدنا عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کو دعائیں دیتے رہے، پھر حکم فرمایا: انہیں چھ من گندم اور کچھ کپڑے د ے دیئے جائیں۔'' آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ سن کر کہاـ:'' مجھے گندم کی کوئی حاجت نہیں، مَیں گھر میں دو صاع گندم چھوڑ کر آیاہوں، جب وہ ختم ہوجائے گی تو اللہ عزوجل ہمیں اور عطافرمائے گا ۔پس آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گندم قبول نہ فرمائی اور کپڑے بھی یہ کہہ کر لئے کہ فلاں غریب عورت کو ان کی حاجت ہے ،میں یہ کپڑے اسے دے دوں گا، پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگئے اور کچھ عرصہ بعد آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اِنتقال ہو گیا۔(اللہ عزوجل کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین)
جب حضرت سیدنا عمرفاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوان کے وصال کی خبر ملی تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بہت صدمہ ہوا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ا ن کی تد فین کے لئے پیدل ہی جنت البقیع کی طرف چل پڑے، بہت سے لو گ بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھے، جب حضرت سیدنا عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دفن کر دیا گیا تو حضرت سیدناعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں سے کہا:''تم اپنی اپنی خواہش کااظہار کرو۔'' ان میں سے ایک شخص بولا: ''اے امیر المؤمنین رضی اللہ تعا لیٰ عنہ !میری یہ خواہش ہے کہ میرے پاس بہت سامال ہو اورمیں اس کے ذریعے غلاموں کوآزادکرواؤں تاکہ اللہ عزوجل کی رضا نصیب ہو۔'' دوسرے نے کہا:''میری یہ خواہش ہے کہ میرے پاس بہت سامال ہو جسے میں اللہ عزوجل کی راہ میں خرچ کردوں۔''ایک اور شخص نے کہا:''میری خواہش ہے کہ اللہ عزوجل مجھے بہت زیادہ قوت عطا فرمائے تا کہ میں بئرِ زمزم سے پانی نکال کر حجاج کو سیراب کروں ۔'' پھر حضرت سیدنا عمرفاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا: ''میری تو یہ خواہش ہے کہ مجھے عمیربن سعدرضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے لوگ مل جائیں جنہیں میں گورنر بناؤں او ر مسلمانوں کے کاموں کا والی بنا دوں ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم)"
" حضرت سید نا خالد بن معدان علیہ رحمۃ اللہ المنَّا ن فرماتے ہیں:''حضرت سیدنا عمرفاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت سیدناسعید بن عامر بن حذیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوحمص کا عامل مقرر فرمایاپھر جب حضرت سید ناعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حمص تشریف لے گئے تو آپ نے اہل حمص سے دریافت فرمایا:''تم نے اپنے عامل کو کیسا پایا؟''تو انہوں نے حضرت سید نا سعید بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلاف شکایات کیں۔ (گورنروں اور عاملوں کی بکثرت شکایات کرنے کی وجہ سے حمص کو ''کوفہ صغرٰی' 'کہاجاتاہے) انہوں نے حضرت سیدنا عمرفاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کی: ''ہمیں اپنے امیرسے چار شکایات ہیں :
(۱) یہ ہمارے پاس دن چڑھے بہت دیر سے تشریف لاتے ہیں :
(۲) یہ رات کو کسی کی بات نہیں سنتے۔
(۳)مہینے میں ایک دن ایسا بھی آتاہے کہ اس دن یہ ہمارے پاس تشریف ہی نہیں لاتے ۔
(۴) کبھی کبھی ان پر بہت زیادہ رنج و غم کی کیفیت طا ر ی ہو جاتی ہے اور یہ بے ہوش ہو جاتے ہیں ۔
حضرت سیدنا عمرفاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت سید ناسعید بن عامر بن حذیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایااور تمام لوگوں کو جمع کیا،پھر دعافرمائی : '' اے میرے پروردگار عزوجل !آج اس معاملے میں میرے فیصلے کوکمزور نہ کرنا(یعنی مجھے صحیح فیصلہ کرنے کی توفیق عطافرمانا)۔''پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور ارشاد فرمایا:''تمہیں ان کے بارے میں کیاشکایات ہیں ؟'' لوگوں نے عرض کی: ''یہ ہمارے پاس دن چڑ ھے بہت دیر سے تشریف لاتے ہیں۔'' حضرت سید ناسعید بن حذیم رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے جب یہ شکایت سنی توارشاد فرمایا:''مجھے یہ بتاتے ہوئے شرم آتی ہے کہ میں کیوں دیر سے آتا ہوں، خدا عزوجل کی قسم! میرے پاس کوئی خادم نہیں،میں خود آٹاپیستاہوں،پھر اسے گوندھ کر روٹی پکاتاہوں، اس کے بعد وضوکر کے ان کے پاس آجاتاہوں۔ میرے دیر سے آنے کی یہی وجہ ہے۔''
حضرت سید ناعمرِ فاروق رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے لوگوں سے پوچھا :''اور کیا شکایت ہے ؟''کہنے لگے:'' یہ رات کو ہمارے
مسائل نہیں سنتے ۔''حضرت سید ناعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا:'' اے سعید! تمہارے پاس اس شکایت کا کیاجواب ہے؟'' انہوں نے کہا :''میں نے دن مخلوق کے لئے خاص کررکھاہے اور رات کواپنے رب عزوجل کی عبادت میں مصروف ہوتاہوں۔''پھر انہوں نے تیسری شکایت کرتے ہوئے کہا:'' ہر مہینے ایک دن ایسابھی ہو تاہے کہ یہ ہمارے پاس تشریف ہی نہیں لاتے ۔'' حضرت سیدنا"
"عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:''اے سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ! تم کیاکہتے ہو؟'' عرض کی:'' حضور! میرے پاس کوئی خادم نہیں، مہینے میں ایک مرتبہ میں اپنے کپڑے دھوتاہوں۔میرے پاس کوئی دوسرالباس نہیں ہوتا جسے پہن کر ان کے پاس آؤں۔ پھر جب و ہ کپڑے سوکھ جاتے ہیں تو انہیں پہن کر ان کے پا س آجاتاہوں۔''چوتھی شکایت کرتے ہوئے وہ لوگ کہنے لگے:''انہیں کبھی کبھی شدید دورہ پڑتاہے او ر یہ بیہوش ہو جاتے ہیں۔
حضرت سید ناعمر رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے فرمایا:''اے سعیدرضی اللہ تعا لیٰ عنہ !اس شکایت کاجواب دو۔''آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی:''اسلام کی دولت حاصل ہونے سے پہلے میں نے حضورصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے ایک صحابی حضرت سیدنا خبیب الانصاری رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کوایک میدان میں دیکھا تھا جنہیں کفارِ قریش نے کھجور کے درخت سے باندھ رکھا تھا اور تیروں سے ان کاجسم چھلنی کر رہے تھے،میں بھی ان لوگوں میں موجود تھا۔ پھر قریش ان سے پوچھنے لگے :''کیاتوا س بات کو پسند کرتاہے کہ تیری جگہ محمد( صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)کویہ سزا دی جائے ؟''یہ سن کر ان صحابی رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ورضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا:''خدا عزوجل کی قسم! میں تو اس بات کو بھی پسند نہیں کرتا کہ میں گھر میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہوں اور میر ے آقا صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو کوئی کانٹابھی چبھے، میرے آقاصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پر میری ہزاروں جانیں قربان:
؎ ترے نام پر سر کو قربان کر کے ترے سر سے صدقے اتارا کروں میں
یہ اک جان کیا ہے اگر ہوں کروڑوں ترے نام پر سب کو وارا کروں میں (سامانِ بخشش)
اس کے بعد اس صحابی رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہ میں استغاثہ پیش کیا،اوریامحمد(صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم) یامحمد (صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم) کی صدائیں بلندکیں ۔ افسوس !وہا ں ہوتے ہوئے بھی میں ان کی کچھ مدد نہ کر سکا (کیونکہ آپ اس وقت مسلمان نہ تھے)شاید میرا یہ گناہ کبھی بھی معاف نہ کیاجائے۔ بس یہ خیال آتے ہی میری حالت خراب ہوجاتی ہے،اور مجھ پر غشی طاری ہو جاتی ہے۔'' حضر ت سید نا عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا:''اللہ عزوجل کاشکر ہے کہ اس نے میری فراست کو ضائع نہیں کیا اور مجھے ایسی عظیم ہستیاں عطافرمائیں۔پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت سیدنا سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک ہزار دینار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:''ان کے ذریعے اپنی ضروریات پوری کرلینا ۔''جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجہ محترمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے دینار دیکھے، توکہنے لگی :''اللہ عزوجل کاشکر ہے کہ اس نے ہمیں غنی کر دیا۔'' یہ سن کر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا:''ہمارے لئے زیادہ بہتری اسی میں ہے کہ ہم یہ تمام دولت ان لوگوں کودے دیں جوہم سے زیادہ محتاج ہیں، کیاتو اس بات پر راضی ہے ؟''وہ صبر وشکر کی پیکر بولی :'' میں راضی ہوں۔''"
" پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمام دینار تھیلیوں میں بھرے اور اپنے گھر کے سب سے امین شخص کو بلایااور فرمایا:'' یہ تھیلی فلاں خاندان کی بیواؤں کودے دو،یہ فلاں خاندان کے یتیم کو،یہ فلاں خاندان کے مسکین کو اور یہ فلاں خاندان کے حاجت مند کودے دو۔'' اس طرح آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ساری رقم تقسیم فرمادی صرف کچھ دینارباقی بچے۔ جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھرتشریف لائے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجہ محترمہ رضی اللہ تعا لیٰ عنہا نے پوچھا:''کیا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہہ مار ے لئے غلام نہیں خریدیں گے ؟جو مال بچاہے اس سے غلام خرید لیناچاہے۔'' آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:''اگر ہم سے زیادہ کوئی محتاج آگیاتوہم یہ مال اس کو دے دیں گے۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ تعالی عليہ وسلم)"
حضر ت سید نا اسد بن حارثہ ثقفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت سید نا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے دس صحابہ کرام علیہم الرضوان پر مشتمل ایک قافلہ کسی محاذ پر روانہ فرمایااور حضرت سید نا عاصم بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان پر امیرمقرر فرمایا،جب یہ حضرات عسفان اور مکہ مکرمہ کے درمیان واقع ایک وادی میں پہنچے تو قبیلہ ہذیل کے کچھ لوگوں کو ان کی خبر ملی ،لہٰذا سوتیر اندازوں نے ان کا تعاقب شروع کر دیا، ایک جگہ صحابہ کرام علیہم الر ضوان کا یہ قافلہ کھانے کے لئے ٹھہرااور وہاں کھجوریں وغیرہ تناول فرمائیں،پھر آگے روانہ ہو گئے۔ جب یہ لوگ پیچھاکرتے ہوئے اس مقام پر پہنچے اور وہاں کھجورو ں کی گٹھلیا ں دیکھیں توآپس میں کہنے لگے :'' یہ تو مکہ مکرمہ کی کھجورو ں کی گٹھلیاں ہیں ،انہیں ڈھونڈو، وہ ضرور کہیں آس پاس ہی موجود ہوں گے،جب حضرت سیدناعاصم بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے محسوس فرمایاکہ ہمارا پیچھا کیاجارہاہے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان کولے کر ایک میدان میں آگئے جیسے ہی یہ میدان میں آئے تو دشمنو ں نے انہیں گھیر لیا اور کہاـ: ''تم سب اپنے آپ کوہمارے حوالے کر دو، ہم وعدہ کرتے ہیں کہ تمہیں قتل نہیں کریں گے۔''حضرت سیدنا عاصم بن ثابت رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے فرمایا:'' میں ہرگزکسی کافرکے وعدہ کااعتبارنہیں کروں گا،ہم اپنے آپ کو تمہارے حوالے نہیں کریں گے۔'' جب دشمنوں نے یہ سنا تو ان پر تیروں کی بارش کر دی۔ حضرت سیدناعاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں دعاکے لئے ہاتھ اٹھادیئے اور عرض کی:
" '' اے میرے پروردگار عزوجل !ہماری اس حالت کی خبر رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعا لیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو پہنچا دے۔ ابھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مصروفِ دعا ہی تھے کہ ان ظالموں نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تیرمار مار کرشہید کر دیااور اسی طرح اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کو بھی شہید کرتے رہے جب آخر میں صرف حضرت سید نا خبیب ، حضرت سید نا زید بن ثابت اور ایک اور صحابی رضی اللہ تعا لیٰ عنہم باقی رہ گئے، تو انہوں نے اپنے آپ کوان کے حوالے کر دیا۔کفار نے یہ دیکھ کر فوراًان سے تلواریں چھین لیں اور انہیں گھیرے میں لے لیااور زدوکوب کرنے لگے۔ یہ دیکھ کر ان میں سے ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:''خدا عزوجل کی قسم! یہ تمہاری پہلی بد عہدی ہے، اب میں ہر گز تمہارے وعدے پر اعتبار نہ کروں گااور تمہارے ساتھ نہ جاؤں گا،یہ سن کر کفار نے انہیں گھسیٹناشروع کر دیا انہوں نے مزاحمت کی اور ان کے ساتھ جانے سے انکار کیاتو ظالموں نے انہیں بھی شہید کر دیا، پھر وہ حضرت سید نا خبیب اور حضرت سید نا زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو مکہ مکر مہ لے گئے اورانہیں وہا ں فروخت کر دیا۔
یہ واقعہ غزوہ بدر کے بعد پیش آیا۔غزوہ بدر میں حضرت سید ناخبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حارث بن عامرکوقتل کیاتھا،چنانچہ بنوحارث نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خریدلیا اورآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کرنے کے لئے ایک دن مقرر کیا تا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کر کے حارث بن عامرکے قتل کابدلہ لے سکیں۔پھرآپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کو قید میں ڈال دیا گیا ۔ ایک دن آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حارث کی لڑکی سے استرا مانگاتاکہ بال وغیرہ کاٹنے کے لئے اسے تیز کریں ۔لڑکی نے استرا دے دیا۔
تھوڑی دیر بعد اس لڑکی کاایک چھوٹاسابچہ آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیااور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گود میں بیٹھ گیا،اس لڑکی کو یہ بات معلوم نہ تھی۔ جب وہ دوبارہ اس طرف آئی اور اس نے دیکھا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں استرا ہے اور بچہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گود میں بیٹھا ہوا ہے تو وہ بہت خوفزدہ ہوئی کہ کہیں یہ میرے بچے کوقتل نہ کر دے ،جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے خوفزدہ دیکھاتو فرمایا،کیاتو اس بات سے خوفزدہ ہے کہ میں اسے قتل کر دوں گا؟اس نے کہا:''ہاں۔''آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ''خداعزو جل کی قسم! میں ہرگز ایسانہیں کر وں گا،پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بچے کواس کی طرف بھیج دیا۔'' وہ لڑکی کہاکرتی تھی:'' خدا عز وجل کی قسم! میں نے خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بہتر کوئی قیدی نہیں دیکھا۔''میں نے ایک دن دیکھا:'' حضرت سید نا خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں انگور کاایک خوشہ تھااور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس میں سے تناول فرمارہے تھے حالانکہ ان دنوں مکہ مکرمہ میں کہیں بھی انگور نہ تھے، یہ رزق اللہ تعالیٰ نے انہیں عطافرمایا تھا،اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کوایسی ایسی جگہ سے رزق عطا فرماتا ہے کہ جہاں کا وہم وگمان بھی نہیں ہوتا۔
جب حضرت سید نا خبیبرضی اللہ تعالیٰ عنہ کوشہید کرنے کے لئے حدودِ حرم سے باہرلایاگیا تو اس مرد مجاہد کوکفار مکہ نے چاروں"
"طرف سے گھیر لیااور تماشائی بن کر ایک سچے عاشق رسول اور ربُّ العٰلَمِین کی وحدانیت کاعلی الاعلان اظہار کرنے والے مردِ مؤمن کے گرد جمع ہوگئے ،آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بالکل نہ گھبرائے اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پایہ استقلال میں ذر ہ برابربھی کمی نہ آئی بلکہ آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل میں جلتی ہوئی ایمان کی شمع مزید روشن ہوگئی اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کفارِ بد اطوار سے فرمایا: ''مجھے دورکعت اداکر لینے دو تاکہ میں اپنے اس ر بِّ حقیقی عزوجل کی بارگاہ میں آخری بار سجدہ ریزہوسکوں جس کے نام پر مجھے شہادت مل رہی ہے ،انہوں نے اجازت دے دی اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیڑیاں کھول دیں ،آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قبلہ رو ہو کر نمازشروع فرمادی۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑے اطمینان سے نمازاداکی پھر کفار سے مخاطب ہوکر ارشاد فرمایا:''اگرمجھے اس بات کااحساس نہ ہوتاکہ میری طویل نمازسے شاید تم یہ سمجھنے لگو گے کہ میں موت کے خوف سے نماز طویل کر رہاہوں تو میں بہت خشوع خضوع سے نمازپڑھتااور اپنے ربّ عزوجل کی بارگاہ میں خوب طویل سجدے کرتا۔ پھر ان ظالموں نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوکھجور کے ایک تنے کے ساتھ باندھ دیا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہِ بے کس پناہ میں استغاثہ پیش کیااور یامحمداہصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّمیامحمداہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی صدائیں بلند کیں، پھر اللہ عزوجل کی بارگاہ میں اس طرح دعاکی: ''اے پروردگار عزوجل! تو ا ن سب کو چن چن کر تباہ وبرباد کر دے اور ان میں سے کسی کو بھی باقی نہ رکھ۔'' اس کے بعد ابوسروعہ بن عقبہ بن حارث آگے بڑھااور اس ظالم نے ایک سچے عاشق رسول کو بڑی ہی بے دردی سے شہید کر دیا۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)
؎ غلامانِ محمد ا جان دینے سے نہیں ڈرتے
یہ سرکٹ جائے یا رہ جائے کچھ پرواہ نہیں کرتے
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!دیکھا آپ نے !ا س مرد مجاہد نے جان تو دے دی لیکن شمعِ ایمان کو کفر وشرک کی آندھیوں سے محفوظ رکھا،ان کی شہادت ہمارے لئے مشعلِ راہ ہے، انہوں نے وقتِ شہادت بھی نماز نہ چھوڑی، بس دل میں یہی آرزو مچل رہی تھی کہ وقتِ رخصت بھی اپنے ربّ عزوجل کی بارگاہ میں سر جھکا لوں اور اس کی عبادت کر لوں۔اللہ عزوجل ہمیں بھی ان کے صدقے صبر واستقامت عطا فرمائے اور ہمارا خاتمہ بالخیر فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
حضرت سیدنا جابررضی اللہ تعالیٰ عنہ حضورصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے صحابہ کرام علیہم الرضوان کے مجاہدات اور عبادات کاذکر کرتے ہوئے شمعِ رسالت کے دوپروانوں کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :''ایک مرتبہ ہم رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے ساتھ کسی غزوہ میں گئے، واپسی پر ہم پہاڑی علاقے سے گزرے اور رسو ل اللہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے وہاں قیام کاحکم فرمایا۔ سب صحابہ کرام علیہم الرضوان آرام کی خاطر وہاں ٹھہر گئے، اللہ کے محبوب عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:''آج رات تم میں سے کون پہرہ دے گا؟''ایک مہاجر اور ایک انصاری صحابی ر ضی اللہ تعالیٰ عنہما کھڑے ہوئے اور عرض کی: ''یارسول اللہ عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم!یہ سعادت ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں، ہمیں قبول فرمالیجئے۔''چنانچہ وہ دونوں صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہمااجازت پاکر پہرہ دینے کے لئے تیار ہوگئے ،دونوں نے مشورہ کیااور انصاری صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:''ہم ایسا کرتے ہیں کہ آدھی رات ہم میں سے ایک پہرہ دے گااور دوسرا سو جائے گا پھر بقیہ آدھی رات دوسراپہرہ دے گااور پہلاسو جائے گا،انصاری صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:''آپ آرام فرمائیں،میں جاگتاہوں پھر آپ پہرہ دینا پس مہاجر صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آرام فرمانے لگے اور انصاری صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہرہ دینے کے لئے تیار ہوگئے۔ کچھ دیرکے بعد انہوں نے نمازپڑھناشروع کردی اور سورہ کہف کی قراءَت کرنے لگے۔ دشمنوں کی طرف سے ایک شخص آیااوراس نے پہاڑی پر چڑھ کردیکھاتواسے ایک شخص نمازپڑھتاہوادکھائی دیا، اس نے کمان پرتیر چڑھایا اور نشانہ باندھ کر اس صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر تیرچلادیاتیرآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جسم میں پیوست ہوگیا لیکن آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کوئی حرکت نہ کی اور نمازمیں مشغول رہے اس ظالم نے دوسراتیرمارا ،وہ بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جسم اقدس میں اترگیالیکن آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نماز نہ توڑی پھر اس نے تیسرا تیرمارا،وہ بھی سیدھا آیااور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو زخمی کرتاہواجسم میں پیوست ہوگیا۔آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے رکوع وسجود کئے اورنمازمکمل کرنے کے بعد اپنے رفیق کوجگایا۔جب اس کافر نے دیکھاکہ یہاں یہ اکیلا نہیں بلکہ اس کے رفقاء بھی قریب ہی موجود ہیں تووہ فورا ًبھاگ گیا۔مہاجرصحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے رفیق کی یہ حالت دیکھی توجلدی جلدی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جسم سے تیر نکالے اور پوچھا:'' جب آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ پر دشمن نے حملہ کیاتو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے جگایاکیوں نہیں؟'' اس پرقرآن و نماز کے شیدائی ا س ا نصاری صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا:'' میں نے نمازمیں ایک سورت شروع کی ہوئی تھی میں نے یہ گوارا نہ کیاکہ سورت کو ادھوراچھوڑکر نمازتوڑڈالوں،خدا عزوجل کی قسم! اگر مجھے حضو رصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے پہرے کی ذمہ داری نہ دی ہوتی تومیں اپنی جان دے دیتالیکن سورت کو ضرورمکمل کرتالیکن مجھے حضورصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے پہرہ دینے کا
"حکم فرمایاتھا اس لئے میری ذمہ داری تھی کہ اس کو احسن طریقے سے سر انجام دوں۔ جب میں نے دیکھاکہ میں بہت زیادہ زخمی ہوگیاہوں تواسی احساس ذمہ داری کی وجہ سے نماز کومختصر کر دیااورآپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کوجگادیاتاکہ دشمن مزید حملہ نہ کرسکے ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)
(سبحان اللہ عزوجل! قربان جا یئے! ان پاک ہستیوں کو نماز و قرآن سے کیسی محبت ولگن تھی کہ جان کی پرواہ نہ کی اور نماز میں مشغول رہے اور قرآن کی تلاوت جاری رکھی۔ اللہ عزوجل ان کے صدقے ہمیں بھی عبادت کی حقیقی لذت ،قرآن کی محبت اورحضو ر صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا سچاعشق عطافرمائے ۔)"
" ایک مرتبہ رحمتِ عالم، نورِ مجسم ،شاہِ بنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے والد محترم حضرت سیدنا عبداللہ بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہیں سفر پرجارہے تھے کہ راستے میں ایک یہودی عورت ملی جو اپنے مذہب کی کتابوں کو خوب جانتی تھی اور وہ کاہنہ بھی تھی،اس کانام ''فاطمہ بنت مُرّ ''تھا،بہت زیادہ حسین وجمیل اورپارساتھی، لوگ اس سے شادی کی خواہش کرتے تھے ،حسن و خوبصورتی میں اس کابہت چرچا تھا، جب اس کی نظر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر پڑی تو اسے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیشانی میں نورِ نبوت چمکتاہوا نظرآیا،وہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قریب آکر کہنے لگی:''اے نوجوان! اگرتو مجھ سے ابھی مباشرت کرلے تو میں تجھے سو اونٹ دوں گی۔'' یہ سن کر عفت وحیاکے پیکر حضرت سیدنا عبداللہرضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے فرمایا:'' مجھے حرام کام میں پڑنے سے موت زیادہ عزیز ہے اورحلال کام تیرے پاس نہیں یعنی تو میرے لئے حلال نہیں پھر میں تیری خواہش کیسے پوری کر سکتا ہو ں۔''
پھرآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ واپس گھر تشریف لائے اور حضرت سیدتنا آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے صحبت فرمائی۔ چند دنوں کے بعد ایک مرتبہ پھرآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ملاقات اس عورت سے ہوئی، اس نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چہرہ انور پر نورنبوت نہ پا کر پوچھا:''تم نے مجھ سے جدا ہونے کے بعد کیاکیا؟''آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ''میں اپنی زوجہ کے پاس گیااور اس سے مباشرت کی۔''یہ سن کر وہ بولی:''خدا عزوجل کی قسم! میں بدکارہ نہیں لیکن میں نے تمہارے چہرے پر نورِنبو ت دیکھا تو میں نے چاہاکہ وہ نور مجھے مل جائے مگر اللہ عزوجل کوکچھ اور ہی منظورتھااس نے جہاں چاہا اس نور کو رکھا۔جب یہ بات لوگوں کو معلوم ہوئی توانہوں نے اس عورت سے پوچھا: ''کیا واقعی عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تجھے قبول نہ کیا ،کیاتونے اسے اپنی طرف دعو ت دی"
"تھی؟'' یہ سن کر اس نے چند اشعار پڑھے ،جن کاترجمہ یہ ہے :
میں نے ایک بجلی دیکھی جس نے سیاہ بادلوں کو بھی جگمگادیا،اس بجلی میں ایسا نور تھاجوسارے ماحول کوچودھویں کے چاند کی طرح روشن کررہاتھا،میں نے چاہاکہ اس نور کوحاصل کرلوں تاکہ اس پر فخرکرتی رہوں مگرہر پتھر کی رگڑ سے آگ پیدانہیں ہوتی مگر اے عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ !وہ زُہری عورت (یعنی حضرت سیدتنا آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا)بڑی نصیب والی ہے جس نے تیرے دونوں کپڑے لے لئے وہ کیا جانے کہ اس نے کتنی عظیم چیز حاصل کر لی ہے۔ (یعنی حضرت سیدتنا آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے تم سے و ہ شہزادہ حاصل کر لیاجس کے وجود پردو چادریں ہیں: ایک حکومت کی اور دوسر ی نبوت کی) وہ عورت اکثر یہ اشعار پڑھاکرتی تھی ۔
(اس واقعہ سے رحمتِ عالم ،نورِ مجسَّم شاہِ بنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے والدِمحترم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پاک دامنی کابخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ ایک نوجوان کوحسین وجمیل مال دار عورت گناہ کی دعوت دے اورصر ف گناہ کی دعوت ہی نہیں بلکہ سواونٹ بھی ساتھ دے لیکن پھر وہ غیرت مند اور عفت وحیاکاپیکر اپنی عزت کومحفوظ رکھنے کے لئے اس کی طرف بالکل بھی توجہ نہ دے اوراس کی دعوت کو ٹھکرادے،توکیایہ عمل پاکدامنی ،تقوی، پرہیزگاری اور خوفِ خدا عزوجل کی ایک اعلیٰ ترین مثال نہیں ؟یقینا یہ خوف خدا عزوجل کی بہترین مثال ہے ،ایسے مرد مؤمن کی پاکدامنی پرکروڑوں سلام۔
سیدی اعلیٰحضرت، امام اہلسنت،مجدد دین وملت، الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن نے''فتاوی رضویہ شریف'' جلد ۳۰صفحہ ۲۷۰ پر حضور نبی ئرحمت،شافعِ امّت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّمکافرمانِ اقدس نقل فرمایا ،چنانچہ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہماسے مروی ہے، حضور نبئ پاک، صاحبِ لولاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے : '' اللہ عزوجل مجھے ہمیشہ پاک ستھری پشتوں سے پاک رحموں میں منتقل فرماتا رہاصاف ستھرا آراستہ جب دو شاخیں پیدا ہوئیں ،میں ان میں بہتر شاخ میں تھا۔''"
(بحوالہ کنز العمال،ج۱۲، ص۱۹۲،الحدیث:۳۵۴۸۴)
" سبحان اللہ عزوجل صادق ومصدوق صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کاکلام بالکل بر حق ہے ۔اللہ عزوجل ان مبارک ہستیوں کے صدقے ہمیں بھی شرم وحیاکی عظیم نعمت سے مالامال فرمائے ۔)
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)"
" حضرت سیدنا اُسیدبن صفوان رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:'' جب حضر ت سیدناصدیق اکبر رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کاوصال ہوا تومدینے کی فضا میں رنج وغم کے آثار تھے،ہر شخص شدَّتِ غم سے نڈھال تھا،ہر آنکھ سے اشک رواں تھے، صحابہ کرام علیہم الرضوان پر اسی طرح پریشانی کے آثار تھے جیسے حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے وصال ظاہری کے وقت تھے، سارا مدینہ غم میں ڈوبا ہواتھا۔پھر جب حضرت سیدنا صدیق اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ کو غسل دینے کے بعد کفن پہنایاگیاتو حضرت سیدناعلی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم تشریف لائے، اورکہنے لگے: آج کے دن نبی آخرالزماں صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے خلیفہ ہم سے رخصت ہو گئے۔پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت سیدنا صدیق اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس کھڑے ہوگئے اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصاف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:''اے صدیق اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ! اللہ عزوجل آپ پر رحم فرمائے، آپ رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے بہترین رفیق ، اچھے محب ،بااعتماد رفیق اورمحبوب خداعزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے رازداں تھے۔ حضورصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مشورہ فرمایاکرتے تھے،آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگوں میں سب سے پہلے مؤمن ، ایمان میں سب سے زیادہ مخلص، پختہ یقین رکھنے والے اور متقی و پرہیزگار تھے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دین کے معاملات میں بہت زیادہ سخی اور اللہ کے رسول عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے سب سے زیادہ قریبی دوست تھے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صحبت سب سے اچھی تھی، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کامرتبہ سب سے بلند تھا، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمارے لئے بہترین واسطہ تھے، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اندازِخیر خواہی ،دعوت وتبلیغ کاطریقہ ، شفقتیں اور عطائیں رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی طرح تھیں، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے بہت زیادہ خدمت گزار تھے۔ اللہ عزوجل آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کواپنے رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّماور اسلام کی خدمت کی بہترین جزاء عطافرمائے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دینِ متین اور نبی ئکریم، رء ُوف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بہت زیادہ خدمت کی، اللہ عزوجل اپنی رحمت کے شایانِ شان آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جزاء عطافرمائے ۔(آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)
جس وقت لوگوں نے رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کوجھٹلایا توآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلَّم کی تصدیق فرمائی ،حضور نبی کریم ،رء ُوف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے ہر فرمان کو حق وسچ جانااور ہرمعاملے میں آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی تصدیق فرما ئی، اللہ عزوجل نے قرآ نِ کریم میں آپ کو صدیق کالقب عطافرمایا فرمانِ باری تعالیٰ ہے :"
وَالَّذِیۡ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِہٖۤ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُوۡنَ ﴿33﴾
ترجمہ کنزالایمان:اوروہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے اور وہ جنہوں نے ان کی تصدیق کی یہی ڈر والے ہیں۔(پ24،الزمر :33)
" اس آیت میں صَدَّقَ بِہ ٖسے مراد صدیق اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ یاتمام مؤمنین ہیں ۔
پھرحضرت سیدنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیم نے مزید فرمایا:'' اے صدیقِ اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ!جس وقت لوگوں نے بخل کیاآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سخاوت کی ،لوگوں نے مصائب وآلام میں رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کاساتھ چھوڑ دیا لیکن آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے ساتھ رہے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور نبی کریم ،رء ُوف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی صحبتِ با برکت سے بہت زیادہ فیضیاب ہوئے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان تویہ ہے کہ ،آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوثانی اثنین کالقب ملا ، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ یارِغار ہیں ،اللہ عزوجل نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر سکینہ نازل فرمایا، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی ئکریم ،رء ُوف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے ساتھ ہجرت فر مائی، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے رفیق وامین اور خلیفہ فی الدین تھے، آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے خلافت کاحق اداکیا، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مرتدوں سے جہادکیا، حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے وصا لِ ظا ہری کے بعد لوگوں کے لئے سہارا بنے، جب لوگو ں میں اُداسی اور مایوسی پھیلنے لگی تو اس وقت بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوصلے بلند رہے۔لوگو ں نے اپنے اسلام کوچھپایالیکن آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ایمان کااظہار کیا،جب لوگوں میں کمزوری آئی توآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو تقویت بخشی،ان کی حوصلہ افزائی فرمائی اور انہیں سنبھالا۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمیشہ نبی کریم، رء ُوف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی سنتوں کی اتباع کی ، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے خلیفہ بر حق تھے ،منافقین وکفار آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوصلوں کو پست نہ کر سکے، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کفارکو ذلیل کیا،باغیوں پر خوب شدت کی ، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کفار ومنافقین کے لئے غیض وغضب کاپہاڑ تھے ۔ لوگوں نے دینی اُمور میں سستی کی لیکن آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بخوشی دین پرعمل کیا۔لوگوں نے حق بات سے خاموشی اختیار کی مگر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے علی الاعلان کلمہ حق کہا،جب لوگ اندھیروں میں بھٹکنے لگے توآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذات ان کے لئے منارہ نور ثابت ہوئی۔ انہو ں نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف رُخ کیااور کامیاب ہوئے ،آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سب سے زیادہ ذہین وفتین،اعلیٰ کِردار کے مالک،سچے ،خاموش طبیعت،دور اَندیش، اچھی رائے کے مالک، بہادر اور سب سے زیادہ پاکیزہ خصلت تھے ۔
خداعزوجل کی قسم! جب لوگو ں نے دین اسلام سے دوری اختیار کی توسب سے پہلے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی نے اسلا م قبول کیا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمانوں کے سردار تھے، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں پر مشفق باپ کی طرح شفقتیں فرمائیں، جس بوجھ سے وہ لوگ تھک کر نڈھال ہوگئے تھے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں سہارادیتے ہوئے وہ بوجھ اپنے کندھوں پر لاد لیا۔ جب لوگوں نے بے پروائی کامظاہرہ کیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قوم کی باگ ڈورسنبھالی ،جس چیزسے لوگ بے خبر تھے آ پ رضی اللہ"
"تعالیٰ عنہ اسے جانتے تھے اورجب لوگوں نے بے صبری کامظاہرہ کیاتوآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صبرسے کام لیا۔ جوچیزلوگ طلب کرتے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ عطا فر ما دیتے ۔ لوگ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیروی کرتے رہے اورکامیابی کی طرف بڑھتے رہے ۔اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشوروں اورحکمت عملی کی وجہ سے انہیں ایسی ایسی کامیابیاں عطاہوئیں جو ان لوگوں کے وہم وگمان میں بھی نہ تھیں۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کافروں کے لئے دردناک عذاب اور مؤمنوں کے لئے رحمت ،شفقت اور محفوظ قلعہ تھے۔خداعزوجل کی قسم!آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی منزلِ مقصودکی طرف پرواز کر گئے۔ اور اپنے مقصودکوپالیا، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے کبھی غلط نہ ہوئی، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کبھی بزدلی کا مظاہرہ نہ کیا،آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ بہت نڈرتھے ، کبھی بھی نہ گھبراتے گویا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جذبوں اور ہمتوں کا ایسا پہاڑ تھے جسے نہ تو آندھیاں ڈگمگاسکیں نہ ہی سخت گرج والی بجلیاں متزلزل کر سکیں۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ با لکل ایسے ہی تھے جیسے حضورصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں فرمایا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بدن کے اعتبار سے اگرچہ کمزور تھے لیکن اللہ عزوجل کے دین کے معاملے میں بہت زیادہ قوی ومضبوط تھے۔ آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ اپنے آپ کوبہت عاجز سمجھتے، لیکن اللہ عزوجل کی بارگاہ میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کارتبہ بہت بلندتھا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگوں کی نظروں میں بھی بہت باعزت و باوقار تھے۔ ''
حضرت سیدناعلی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تعریف کرتے ہوئے مزید فرما یا:''آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کبھی کسی کو عیب نہ لگایا، نہ کسی کی غیبت کی اورنہ ہی کبھی لالچ کیا۔بلکہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگوں پر بہت زیادہ شفیق ومہربان تھے، کمزوروناتواں لوگ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک محبوب اورعزت وا لے ہو تے، اگر کسی مالدار اورطاقتور شخص پر ان کا حق ہوتا تو انہیں ضرور ان کاحق دلواتے۔ طاقت اورشان وشوکت والوں سے جب تک لوگوں کا حق نہ لے لیتے وہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک کمزور ہوتے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک امیر وغریب سب برابر تھے، آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کے نزدیک لوگوں میں سب سے زیادہ مقرب ومحبوب وہ تھاجو سب سے زیادہ متقی و پرہیزگارتھا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ صدق وسچائی کے پیکرتھے ،آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کافیصلہ اٹل ہوتا ،آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت مضبوط رائے کے مالک ا ور حلیم وبردبار تھے۔ خدا عزوجل کی قسم! آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہم سب سے سبقت لے گئے،آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد والے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کامقابلہ نہیں کر سکتے ۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سب کوپیچھے چھوڑ دیا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی منزلِ مقصود کوپہنچ گئے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوبہت عظیم کامیابی حاصل ہوئی ، (اے یارِغار!) آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس شان سے اپنے اصلی وطن کی طرف کوچ کیا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عظمت کے ڈنکے آسمانو ں میں بج رہے ہیں اور آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کی جدائی کاغم ساری دنیاکورُلارہاہے"
۔اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہٖ رَاجِعُوْنَ۔
" ہم ہرحال میں اپنے رب عزوجل کے ہر فیصلے پر راضی ہیں ، ہر معاملے میں اس کی اطاعت کرنے والے ہیں۔ اے صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ !رسول اللہ عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے وصال کے بعدآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جدا ئی کا غم مسلمانوں کے لئے سب سے بڑاغم ہے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذات اہل اسلام کے لئے عزت کا باعث بنی ،آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمانوں کے لئے بہت بڑاسہارا اورجائے پناہ تھے۔ اللہ عزوجل نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آخری آرام گاہ اپنے پیارے نبی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے قرب میں بنائی۔ اللہ عزوجل ہمیں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے اچھا اجر عطا فرمائے، اورہمیں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد صراطِ مستقیم پرثابت قدم رکھے۔ اور گمراہی سے بچائے ۔''(آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)
لوگ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کا کلام خاموشی سے سنتے رہے۔جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خاموشی اختیار کی تو لوگوں نے زاروقطار رونا شروع کر دیا اور سب نے بیک زبان ہوکر کہا، اے حیدرِ کرَّار!آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بالکل سچ فرمایا، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بالکل سچ فرمایا۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علی وسلم)"
" حضرت سیدنا عمر وبن میمون رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:''جس دن حضرت سیدنا عمرفاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر حملہ کیا گیا اس دن میں وہیں موجود تھا ۔ حضرت سیدنا عمرفاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نمازِ فجر کے لئے صفیں درست کرو ارہے تھے۔ میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بالکل قریب کھڑا تھا، ہمارے درمیان صرف حضرت سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما حائل تھے۔ حضرت سیدنا عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ صفوں کے درمیان سے گزرتے اور فرماتے :اپنی صفیں درست کرلو۔جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیکھاکہ صفیں بالکل سیدھی ہوچکی ہیں، نمازیوں کے درمیان بالکل خلا نہیں رہااورسب کے کندھے ملے ہوئے ہیں تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آگے بڑھے ا ور تکبیرتحریمہ کہی۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عادتِ کریمہ تھی کہ صبح کی نماز میں اکثر سورہ یوسف اور سورہ نحل میں سے قراء َت فرماتے، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہلی رکعت میں کچھ زیادہ تلاوت فرماتے تاکہ بعدمیں آنے وا لے بھی جماعت میں شامل ہو سکیں، ابھی آپ رضی اللہ"
"تعالیٰ عنہ نے نمازشروع ہی کی تھی کہ ایک مجوسی غلام جو پہلی صف میں چھپ کر کھڑا تھااس نے موقع پاتے ہی ایک دودھاری تيز خنجرسے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر حملہ کردیا۔ حضرت سیدناعمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آواز سنائی دی کہ مجھے کسی کُتےّ نے قتل کردیا یا کاٹ لیا ہے وہ مجوسی غلام حملہ کرنے کے بعد پیچھے پلٹا اور بھاگتے ہوئے تیرہ نماز یوں پر حملہ کیا جن میں سے سات شہید ہوگئے ،ایک نمازی نے آگے بڑھ کر اس پر کپڑا ڈالا اور اسے پکڑ لیا، جب اس بدبخت غلام نے دیکھا کہ اب میں پکڑا جاچکاہوں ،تو اپنے ہی خنجرسے خودکشی کر لی، جب حضرت سیدناعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر حملہ ہوا تو صفوں میں دور دور کھڑے اکثر نمازی اس حملہ سے بے خبر تھے جب انہوں نے حضر ت سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قراء َت نہ سنی توسبحان اللہ ، سبحان اللہ کہنا شروع کردیا۔ حضرت سیدنا عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آگے بڑھ کر نماز فجر پڑھائی ، اکثر لوگو ں کونماز کے بعد واقعہ کا علم ہوا۔ حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ شدید زخمی ہوچکے تھے، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت سیدناابن عباس رضی اللہ تعا لیٰ عنہما سے فرمایا:''اے ابن عباس رضی اللہ تعا لیٰ عنہما!معلوم کرو کہ مجھے کس نے زخمی کیا ہے؟ ''آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ باہر گئے ،کچھ دیر بعد واپس آکربتایا: ''مغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے غلام(ابولؤلؤہ فیروز) نے آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ پر حملہ کیا ہے ۔''
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:''وہی غلام جو لوہار تھا ؟'' حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے جواب دیا:''جی ہاں ۔ ' ' حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : ''اللہ عزوجل اسے غارت کرے !میری اس سے کوئی دشمنی نہیں تھی ،بلکہ میں نے تو اسے نیکی کی دعوت دی تھی ، میں تو اس کے ساتھ بھلائی کا خواہاں تھا ۔ اللہ عزوجل کا شکر ہے کہ میں کسی مسلمان کے ہاتھوں زخمی نہ ہوا۔'' پھر آپ رضی
اللہ تعالیٰ عنہ کو گھرلے جایا گیا۔ حضرت سیدناعمر وبن میمون رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:'' ہم لوگ بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر کی طر ف چل دیئے ۔ لوگو ں پر مصیبتوں کاپہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔گویا اس سے پہلے کبھی ایسی پریشانی اور مصیبت سے دو چار نہ ہوئے تھے۔ لوگ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تسلی دینے لگے:حضور! آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر یشان نہ ہوں،آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زخم جلد ہی ٹھیک ہوجائیں گے، پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوکھجور کی نبیزپلائی گئی لیکن وہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیٹ سے زخموں کے ذریعے باہر آگئی۔ پھر دودھ پلایا گیا تو وہ بھی زخموں کے راستے پیٹ سے باہر نکل آیا ، لوگ سمجھ گئے کہ اب ہم آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صحبت سے زیادہ دیر تک فیضیاب نہ ہو سکیں گے۔
پھر لوگو ں نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تعریف کرنا شروع کردی، ایک نوجوان آکرکہنے لگا: ''اے امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ! آپ کو مبارک ہو کہ عنقریب اللہ عزوجل آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پہلے رِحلت فرمانے والے دیگر صحابہ کرام علیہم الرضوان سے ملا دے گا ۔اے امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ! آپ کو خلافت کا منصب عطا کیا گیا تو آپ رضی اللہ"
"تعالیٰ عنہ نے عدل وانصاف سے کام لیا، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک اچھے خلیفہ اور لوگوں کے خیر خواہ و محسن ہیں۔'' حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ سن کر ارشاد فرمایا: ''میں تو اس بات کو پسند کرتا تھا کہ مجھے بقدرِ کفایت رزق ملے، نہ کوئی میرا مقروض ہو، نہ ہی میں کسی کا مقروض ہوؤں۔'' پھر وہ نوجوان واپس جانے لگا تو اس کا تہبند ٹخنوں سے نیچے تھا اور زمین پرلگ رہا تھا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگو ں سے فرمایا:'' اس نوجوان کو میرے پاس بلاؤ۔'' جب وہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑی ہی شفقت سے فرمایا:'' اے بھتیجے !اپنا کپڑا ٹخنوں سے اونچا کر لے، بیشک اس میں تیرے کپڑوں کی پاکیزگی اور تیرے رب عزوجل کی بارگاہ میں تیرا یہ عمل تقوی اور پر ہیز گاری کے زیادہ قریب ہے۔( سبحان اللہ عزوجل! قربان جائیے ان پاکیزہ ہستیوں کے جذبہ تبلیغ پرکہ آخری لمحات میں بھی نیکی کی دعوت دینا ترک نہ کی اورا س حالت میں بھی خلافِ شرع کام برداشت نہ ہوسکا۔ اللہ عزوجل ان کے صدقے ہمیں بھی جذبہ تبلیغ عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الا مین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)
پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے صاحبزادے حضرت سیدناعبداللہ بن عمر رضی اللہ تعا لیٰ عنہما سے فرمایا:''حساب لگا کر بتا ؤ، ہم پر کتناقرض ہے ؟'' انہوں نے حساب لگا کر بتایا:'' تقریباً چھیاسی ہزار(86,000) درہم ۔''
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ''اگر یہ قرض میرے مال سے ادا ہوجائے تو ادا کردینااوراگر میرا مال کافی نہ ہو توبنی عدی بن کعب کے مال سے ادا کرنا اگر پھر بھی ناکافی ہو توقریش سے سوال کرنا،ان کے علاوہ اور کسی سے سوال نہ کرنا، پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے صاحبزادے سے فرمایا: '' تم اُم المؤمنین حضرت سیدتناعائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بارگاہ میں چلے جاؤ اور ان سے عرض کر و کہ عمر بن خطاب اس بات کی اجازت چاہتا ہے کہ اسے اس کے ساتھیوں کے ساتھ دفن کیا جائے اور حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے قرب میں جگہ عطا فرمائی جائے ۔ حضرت سیدناعبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما حضرت سیدتناعائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور سلام عرض کیا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رور ہی تھیں، آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے کہا :'' حضر ت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کو سلام عرض کرر ہے ہیں اور اس بات کی اجازت چاہتے ہیں کہ انہیں ان کے ساتھیوں کے قرب میں دفن کیا جائے۔'' آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے یہ سن کر ارشاد فرمایا:'' یہ جگہ تومیں نے اپنے لئے رکھی تھی لیکن اب میں یہ جگہ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایثار کر تی ہوں، انہیں جاکر یہ خوشخبری سنا دو۔''چنانچہ حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما اجازت لے کر واپس تشریف لائے۔
جب حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بتایا گیا کہ حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما آگئے ہیں توآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ''مجھے بٹھا دو۔'' آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوسہارا دے کر بٹھا دیا گیا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ''اے میرے بیٹے! کیا خبر لائے ہو؟ ''آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی:'' حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعا لیٰ عنہا نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اجازت عطا فرمادی ہے، آپ"
"رضی اللہ تعالیٰ عنہ خوش ہو جائیں ،جس چیز کو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پسند کیا کرتے تھے وہ آپ کو عطا کردی گئی ہے ۔'' یہ سن کر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:'' مجھے اس چیز سے زیادہ اور کسی چیز کی فکر نہیں تھی ، الحمد للہ عزوجل مجھے میری پسندیدہ چیز عطا کردی گئی ہے۔''
پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:'' جب میری روح پر واز کرجائے تو مجھے اٹھا کرسرکارِ ابد ِقرار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے روضہ اقدس پر لے جانا ، پھر بارگاہِ نبوت میں سلام عرض کرنا اور حضرت سیدتناعائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے عرض کرنا:''عمر بن خطاب اپنے دوستو ں کے ساتھ آرام کی اجازت چاہتا ہے ، اگر وہ اجازت دے دیں تو مجھے وہاں دفن کردینا اور اگر اجازت نہ ملے تو مجھے عام مسلمانوں کے قبر ستان میں دفنادینا ۔
جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رو ح خالقِ حقیقی عزوجل سے جا ملی تو ہم لوگ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مسجد نبو ی شریف علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام میں لے گئے،اور حضرت سیدناعبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے حجرہ مبارکہ سے باہر کھڑے ہو کر اُم المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو سلام عرض کیا ،اور حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حجرہ مبارکہ میں دفن کرنے کی اجازت طلب کی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اجازت عطا فرمادی ، چنانچہ حضرت سیدناعمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوحضورنبی پاک، صاحبِ لولاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے جلووں میں حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پہلو میں دفن کر دیا گیا۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:''میرے چچا حضرت سیدنا انس بن نضر رضی اللہ تعالیٰ عنہ غزوہ بد ر میں نہ جاسکے ، جب ان سے میری ملاقات ہوئی تو انہوں نے ا فسوس کرتے ہوئے فرمایا :'' غزوہ بد ر جو کہ مسلمانوں اور کفار کے درمیان پہلی جنگ تھی میں اس میں حاضر نہ ہوسکا ۔ اگراب اللہ ربُّ العزَّت نے مجھے کسی غزوہ میں شرکت کاموقع دیا تو تُودیکھے گا میں کس بہادری سے لڑتا ہوں، پھر جب غزوي اُحد کا موقع آیا توکچھ لوگ بھاگنے لگے ،میرے چچا حضرت سیدنا انس بن نضر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی:''اے میرے پر و ر دگار عزوجل!ان بھاگنے والوں میں جومسلمان ہیں، میں ان کی طرف سے معذرت خواہ
"ہوں اور جو مشرک ہیں، میں ان سے بری ہوں۔ پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تلوار لے کر میدان کارْ زَار کی طر ف دیوانہ وار بڑھے۔ راستے میں حضرت سیدنا سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات ہوئی تو فرمایا:''اے سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ ! کہا ں جاتے ہو ؟ اس پاک پرورد گار عزوجل کی قسم جس کے قبضي قدرت میں میری جان ہے! میں اُحد پہاڑ کے قریب جنت کی خوشبو محسوس کر رہا ہوں (پھر یہ کہتے ہوئے آگے بڑھے) واہ جنت کی ہوا کیسی عمدہ،خوشگواراور پاکیزہ ہے۔ باربار یہی کلمات دہراتے رہے(اور لڑتے لڑتے شہید ہوگئے)
حضرت سیدناسعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:'' جیسا کارنامہ انہوں نے سرانجام دیا ہم ایسا نہیں کر سکتے ،جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نعش مبارک کو ڈھونڈا گیا تو ہم نے اسے شہیدوں میں پایا، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جسم مبارک پر تیروں ،تلواروں اور نیزوں کے ا سّی(80)سے زائد زخم تھے، اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اعضاء جگہ جگہ سے کاٹ دیئے گئے تھے ، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پہچاننابہت مشکل ہوچکاتھا۔پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہمشیرہ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کواُنگلیوں کے نشانات سے پہچانا، حضرت سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:'' ہم آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کودیکھ کر یہ آیت پڑھ رہے تھے:"
مِنَ الْمُؤْمِنِیۡنَ رِجَالٌ صَدَقُوۡا مَا عَاہَدُوا اللہَ عَلَیۡہِ ۚ
ترجمہ کنزالایمان :مسلمانوں میں کچھ وہ مرد ہیں جنہوں نے سچاکردیاجوعہد اللہ سے کیاتھا ۔( پ21،الاحزاب: 23)
"(صحیح البخاری، کتاب الجھاد، باب قول اﷲ:مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث۲۸۰۵،ص۲۲۶)
(السنن الکبری للبیھقی،کتاب السیر، باب من تبرع بالتعرض للقتل.....الخ، الحدیث۱۷۹۱۷،ج۹،ص۷۵۔۷۶)"
ایک مرتبہ پتھر تو ڑنے والے چند مزدور حضر ت سیدنا وھب بن منبہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کی: ''حضور! جس قدر مصیبتوں کا ہمیں سامنا ہے ۔کیا ہم سے پہلے لوگ بھی کبھی ایسی مصیبتوں سے دو چار ہوئے؟'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ان کی یہ بات سن کر ارشاد فرمایا:''اگر تم اپنی مصیبتوں اور اپنے سے سابقہ لوگوں کے مصائب کا موازنہ کرو تو تمہیں ان کے مصائب کے سامنے اپنی مصیبتیں ایسے محسوس ہوں گی جیسے آگ کے مقابلے میں دُھواں (یعنی ان کی مصیبتیں آگ اور تمہاری مصیبتیں دھوئیں کی طرح ہیں) پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا :''بنی اسرائیل میں ایک عورت تھی، جس کانام سارہ تھا،اس کے سات بیٹے
"تھے۔ جس ملک میں وہ رہتی تھی وہاں کا بادشاہ بڑا ظالم تھا ۔ وہ لوگوں کو زبر دستی خنزیر کا گوشت کھلاتا ، جو انکار کر تا اسے قتل کروا دیتا ، چنانچہ اس عورت کوبھی اس کے بیٹوں سمیت بادشاہ کے سامنے لایا گیا ، اس ظالم بادشا ہ نے سب سے بڑے لڑکے کو بلوایا اور کہا: ''یہ خنزیر کا گو شت کھاؤ۔'' اس مردِ مجاہد نے جواب دیا:''میں اللہ عزوجل کی حرام کی گئی چیز کوہرگز نہیں کھاؤں گا۔''بادشاہ نے جب یہ سنا تو حکم دیاکہ اسے سخت ترین سزادی جائے، جلاد آگے بڑھا اور اس کے ہر ہر عضو کو کا ٹ ڈالا او راسے شہید کردیا ۔
پھر ظالم بادشاہ نے اس سے چھوٹے لڑکے کو بلایااور اس کے سامنے بھی خنزیر کا گو شت رکھتے ہوئے کہا:'' اسے کھاؤ ۔'' اس نے بھی جرأ تِ ایمانی کا مظا ہرہ کرتے ہوئے جواب دیا:''میں اللہ عزوجل کی حرام کی گئی اشیاء کبھی بھی نہیں کھاؤں گا ، یہ سن کر ظالم بادشاہ آگ بگولا ہوگیا اور اس نے حکم دیا کہ ایک تا نبے کی دیگ میں تیل ڈال کر اسے آگ پر رکھ دو، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا ۔ جب تیل خوب گرم ہوگیا تو اس نوجوان مجاہدکو تیل میں ڈال دیا گیا۔ اس طر ح اس نے بھی جامِ شہادت نوش کر لیا۔'' پھر بادشا ہ نے اس سے چھوٹے کو بلایا اور کہا:'' یہ گو شت کھاؤ۔'' اس نے بادشا ہ سے کہا:'' تو ذلیل و کمزور ہے ، تو اللہ عزوجل کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں، تو مجھے اللہ عزوجل کے حکم کے خلاف کسی بات پر ہر گز آمادہ نہیں کرسکتا، جو تیرے جی میں آئے تو کر لے، لیکن میں اللہ عزوجل کی حرام کردہ ا شیاء کبھی بھی نہیں کھاؤں گا۔'' بادشاہ یہ سن کر ہنسنے لگا اور لوگو ں سے کہنے لگا:''کیا تم جانتے ہو کہ اس نے مجھے گالی کیوں دی ؟'' اس نے یہ سوچ کرمجھے گالی دی ہے کہ میں گالی سن کر طیش میں آجاؤں گا اور فورا ًاسے قتل کرنے کا حکم دے دو ں گا، اس طرح یہ آسانی سے موت کے گھاٹ اتر جائے گا، لیکن میں ہرگز ایسا نہیں کرو ں گا۔ پھر اس ظالم بادشاہ نے حکم دیا کہ اسے سخت سے سخت سزا دی جائے۔
چنانچہ ظالم بادشاہ کے حکم پر پہلے اس نوجوان کی گردن کی کھال کاٹی گئی پھر اس کے سر اور چہرے کی کھال اُتار لی گئی۔ اور اس طر ح اسے بھی شہید کردیا گیا۔ بادشاہ نے اسی طرح مختلف ظالمانہ انداز میں باقی بھائیوں کو بھی شہید کر وادیا، آخر میں سب سے چھوٹا بھائی بچا، با دشاہ نے اس کی والدہ کو بلایا اور کہا: ''میں تیرا بھی یہی حشر کروں گا، اگر تو اپنی اور اپنے اس بیٹے کی سلامتی چاہتی ہے، تو اسے تنہا ئی میں لے جا کر سمجھا اگر یہ ایک لقمہ کھانے پر بھی راضی ہو گیا تو میں تم دونوں کوچھوڑ دو ں گا۔پھر تم من پسند زندگی گزارنا۔'' اس عورت نے کہا:'' ٹھیک ہے ،میں اسے سمجھانے کی کوشش کرتی ہوں۔'' پھروہ اپنے بیٹے کو تنہائی میں لے گئی اور کہا:''اے میرے لختِ جگر !کیا تو جانتا ہے کہ تیرے بھائیوں میں سے ہر ایک پر میرا ایک حق ہے اور تجھ پر میرے دو حق ہیں، وہ اس طرح کہ میں نے تیرے بھائیوں کو دو دو سال دودھ پلایا تھا۔ تیری پیدا ئش سے چند دن قبل تیرے والد کا انتقال ہوگیا پھر جب تیری ولادت ہوئی تو توُ بہت زیادہ کمزور تھا۔مجھے تجھ پر بڑا ترس آیا اور میں نے تیری کمزوری اور تجھ سے اپنی شدید محبت کی"
" وجہ سے تجھے چار سال دودھ پلایا ۔میں تجھے اللہ عزوجل اوراس احسان کا واسطہ دے کر کہتی ہوں جو میں نے تجھ پر کیا کہ تو ہر گز اس چیز کو نہ کھا ناجسے اللہ ربُّ العزَّت نے حرام کیا ہے اور برو زِ قیامت اپنے بھائیوں سے اس حال میں نہ ملنا کہ تو ان میں سے نہ ہو ، جب سعادت مند بیٹے نے ماں کی یہ باتیں سنیں تو کہا :''میں توڈر رہاتھا کہ شاید آپ مجھے خنزیر کا گو شت کھانے پر ابھاریں گیں لیکن اللہ عزوجل کا شکر ہے کہ اس نے مجھے تم جیسی عظیم ماں عطا فرمائی۔ ''
پھر وہ عورت اپنے بیٹے کو لے کر بادشاہ کے پاس آئی اور کہا:'' یہ لو، اب یہ وہی کریگا جو میں نے اس سے کہا ہے۔'' بادشاہ بڑا خوش ہو ا اور اس کی طر ف خنزیر کا گوشت بڑھاتے ہوئے کہا:''یہ لو، اس میں سے کچھ کھالو۔''یہ سن کر بہادر نوجوان نے جواب دیا:''خدا عزوجل کی قسم! میں ہر گز اس چیز کو نہیں کھاؤں گا جسے اللہ عزوجل نے حرام کیا ہے۔'' بادشاہ کویہ سن کر بہت غصہ آیا۔ چنانچہ اس ظالم نے اس مرد مجاہد کو بھی شہید کروادیا۔ اسی طرح یہ بھی اپنے بھائیوں سے جا ملا۔ پھر بادشاہ نے اس عظیم عورت سے کہا:''میراخیال ہے کہ مجھے تیرے ساتھ بھی وہی سلوک کرنا پڑے گا جو تیرے بیٹوں کے ساتھ کیا ہے۔ اے بڑھیا! تیری ہلاکت ہو،تو صرف ایک لقمہ ہی کھالے تومیں تجھے منہ مانگا انعام دو ں گا ، اور جوتو کہے گی میں وہی کرو ں گا، تو صرف ایک لقمہ کھالے، پھر عیش وعشرت سے زندگی گزارنا۔''یہ سن کر اس عظیم ماں نے جواب دیا: ''اے ظالم !تو نے میرے بچوں کو میرے سامنے مار ڈالا،اور اب تو یہ چاہتا ہے کہ میں تیرے کہنے پر اللہ عزوجل کی نافرمانی بھی کرو ں ،اپنے بچو ں کی موت کے بعد مجھے زندگی سے کوئی سرو کار نہیں۔ خدا عزوجل کی قسم! تو جو کچھ کر سکتا ہے کرلے میں کبھی اللہ عزوجل کی حرام کردہ شئے نہیں کھاؤں گی۔ ''یہ سن کر اس سفاک وظالم بادشاہ نے اسے بھی شہیدکر وا دیا۔ اس طرح اس عظیم ماں کی روح بھی اپنے عظیم فرزندوں سے جا ملی۔ (سبحان اللہ عزوجل !ان سب نے ایک ایک کر کے اپنی جانیں تو دے دیں لیکن اللہ عزوجل کے حکم کی خلاف ورزی نہ کی )
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)"
حضرت سیدنااسلم رضی اللہ تعا لیٰ عنہ فرماتے ہیں:''امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعا لیٰ عنہ اکثر رات کے وقت مدینہ منورہ کا دورہ فرماتے تا کہ اگر کسی کو کوئی حاجت ہو تو اسے پورا کریں ، ایک رات میں بھی ا ن کے ساتھ تھا ، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ چلتے چلتے اچانک ایک گھر کے پاس رک گئے، اندرسے ایک عورت کی آواز آ رہی تھی:'' بیٹی دودھ میں تھوڑا ساپانی ملادو ۔''
" لڑکی یہ سن کر بولی :''امی جان !کیا آپ کو معلوم نہیں کہ امیر المؤمنین حضرت سید نا عمربن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا حکم جاری فرمایا ہے؟'' اس کی ماں بولی:'' بیٹی! ہمارے خلیفہ نے کیا حکم جاری فرمایا ہے؟'' لڑکی نے کہا:'' امیر المؤمنین حضرت سید نا عمربن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےیہ اعلان کروایا ہے کہ کوئی بھی دودھ میں پانی نہ ملائے۔''
ماں نے یہ سن کر کہا:'' بیٹی! اب تو تمہیں حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہیں دیکھ رہے، انہیں کیا معلوم کہ تم نے دودھ میں پانی ملایا ہے، جاؤ اور دودھ میں پانی ملادو۔'' لڑکی نے یہ سن کر کہا:'' خدا عزوجل کی قسم! میں ہر گز ایسا نہیں کرسکتی کہ ان کے سامنے تو ان کی فرمانبر داری کروں اور ان کی غیر موجود گی میں ان کی نافرمانی کروں،اس وقت اگر چہ مجھے امیر المؤمنین حضرت سید نا عمربن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہیں دیکھ رہے، لیکن میرا رب عزوجل تو مجھے دیکھ رہا ہے ، میں ہر گز دودھ میں پانی نہیں ملاؤں گی ۔''
حضرت سیدنا عمرفاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ماں بیٹی کے درمیان ہونے والی تمام گفتگو سن لی تھی ۔ آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے مجھ سے فرمایا:'' اے اسلم(رضی اللہ تعا لیٰ عنہ)! اس گھر کو اچھی طر ح پہچان لو ۔''پھر آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہساری رات اسی طر ح گلیوں میں دورہ کرتے رہے، جب صبح ہوئی تو مجھے اپنے پاس بلایا اور فرمایا:'' اے اسلم(رضی اللہ تعا لیٰ عنہ)! اس گھر کی طرف جاؤ اور معلوم کرو کہ یہاں کون کون رہتا ہے؟ اوریہ بھی معلوم کرو کہ وہ لڑکی شادی شدہ ہے یا کنواری؟''
حضرت سیدنا اسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ''میں اس گھر کی طر ف گیا اور ان کے بارے میں معلومات حاصل کیں تو پتہ چلا کہ اس گھر میں ایک بیوہ عورت اور اس کی بیٹی رہتی ہے ، اور اس کی بیٹی کی ابھی تک شادی نہیں ہوئی ۔''معلومات حاصل کرنے کے بعدمیں حضرت سیدنا عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور انہیں ساری تفصیل بتائی،
آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ فرمایا: ''میرے تمام صاحبزادوں کو میرے پاس بلا کر لاؤ ۔'' جب سب آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کے پاس جمع ہوگئے توآپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے ان سے فرمایا :''کیا تم میں سے کوئی شادی کرنا چاہتا ہے؟'' حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور حضرت سیدنا عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے عرض کی:''ـ ہم تو شادی شدہ ہیں۔''
پھر حضرت سیدنا عاصم بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کی:'' ابا جان! میں غیر شادی شدہ ہوں، میری شادی کر ا دیجئے۔''چنا نچہ آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے اس لڑکی کو اپنے بیٹے سے شادی کے لئے پیغام بھیجا جو اس نے بخوشی قبول کرلیا۔ اس طرح حضرت عاصم رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کی شادی اس لڑکی سے ہوگئی اور پھر ان کے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی جس سے حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کی ولادت ہوئی۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدنا ابو بردہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:''جب حضرت سید نا ابو موسیٰ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے تمام بیٹوں کو اپنے پاس بلاکر فرمایا:'' میں تمہیں صاحب الرغیف (یعنی روٹی والے) کا قصہ سناتا ہوں ، اسے ہمیشہ یاد رکھنا،
پھرفرمایا:''ایک عابد شخص اپنی جھو نپڑی میں لوگو ں سے الگ تھلگ عبادت کیاکرتا تھا ۔ وہ ستر سال تک اسی جھونپڑی میں رہا ،اس عرصہ میں کبھی بھی اس نے عبادت کو ترک نہ کیا اور نہ ہی کبھی اپنی جھونپڑی سے باہر آیا۔پھر ایک دن وہ جھونپڑی سے باہر آیا تو اسے شیطان نے ایک عورت کے فتنے میں مبتلا کردیا، اور وہ سات دن یا سات راتیں اسی عورت کے ساتھ رہا، سات دن کے بعد جب اس کی آنکھوں سے غفلت کا پردہ ہٹا تو وہ اپنی اس حرکت پر بہت نادم ہوا، اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تو بہ کی، اور وہاں سے رخصت ہوگیا ۔ وہ اپنے اس فعل پر بہت نادم تھا ،اب اس کی یہ حالت تھی کہ ہر ہر قدم پر نما ز پڑھتا اور تو بہ کرتا۔ پھر ایک رات وہ ایسی جگہ پہنچا جہاں بارہ مسکین رہتے تھے ۔ وہ بہت زیادہ تھکا ہوا تھا، تھکاوٹ کی وجہ سے وہ ان مسکینوں کے قریب گر پڑا ۔
ایک راہب روزانہ ان بارہ مسکینوں کو ایک ایک روٹی دیتا تھا ۔ جب وہ راہب آیا تو اس نے رو ٹی دینا شروع کی اور اس عا بد کو بھی مسکین سمجھ کر ایک روٹی دے دی ،اوران بارہ مسکینوں میں سے ایک کو روٹی نہ ملی تو اس نے راہب سے کہا : ''آج آپ نے مجھے روٹی کیوں نہیں دی؟'' راہب نے جب یہ سنا تو کہا:''میں تو بارہ کی بارہ روٹیاں تقسیم کر چکاہوں ۔''پھر اس نے مسکینوں سے مخاطب ہو کر کہا: ''کیا تم میں سے کسی کو دو روٹیاں ملی ہیں؟'' سب نے کہا :''نہیں ہمیں توصرف ایک ایک ہی ملی ہے ۔ ' '
یہ سن کر راہب نے اس شخص سے کہا : ''شاید تم دوبارہ روٹی لینا چاہتے ہو،جاؤ آج کے بعد تمہیں روٹی نہیں ملے گی۔''
جب اس عابد نے یہ سنا تو اسے اس مسکین پر بڑا ترس آیا چنانچہ اس نے وہ روٹی مسکین کو دے دی اور خود بھوکار ہا اور اسی بھوک کی حالت میں اس کا انتقال ہوگیا ۔
جب اس کی ستر سالہ عبادت اور غفلت میں گزری ہوئی سات راتوں کا وزن کیا گیا ،تو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں گزاری ہوئیں راتیں اس کی ستر سالہ عبادت پر غالب آگئیں۔ پھرجب ان سات راتوں کا موازنہ اس روٹی سے کیا گیا جو اس نے مسکین کو دی تھی تو وہ روٹی ان راتوں پر غالب آگئی اور اس کی مغفرت کردی گئی۔
حضرت سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہی حکایت اس طرح مروی ہے: ''ایک عابد نے ستر سال تک اللہ عزوجل کی عبادت کی ، پھر اس نے ایک فاحشہ عورت سے گناہ کیا۔ تو اللہ عزوجل نے اس کے تمام اعمال ضائع کردیئے،(پھرجب اسے اپنے گناہ"
"کا احساس ہوا تو وہ تا ئب ہو گیا)کچھ دنوں کے بعد اسے ایسی بیماری لا حق ہوئی کہ وہ چلنے پھرنے سے معذور ہوگیا ۔ ایک دن اس نے دیکھا کہ ایک شخص روٹیاں تقسیم کر رہا ہے گرتے پڑتے یہ بھی وہاں پہنچا اور اس نے بھی ایک روٹی حاصل کرلی۔ ابھی اس نے روٹی کھانا شرو ع بھی نہ کی تھی کہ اسے ایک مسکین نظرآیا ،چنانچہ اس نے وہ روٹی مسکین کو دے دی اور خود بھو کا ہی رہا۔ اللہ عزوجل کی بارگاہ میں اس کا یہ عمل ایسا مقبول ہوا کہ اس کی مغفرت کردی گئی اور اسے ستر سالہ عبادت کا ثواب بھی لوٹا دیا گیا ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدنا علقمہ بن مرثد رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں :'' تا بعین کرام رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین میں سے آٹھ بزرگ ایسے عظیم ہیں گویا ان پرزہدو تقوی کی انتہاء ہو گئی ۔
حضرت سیدناعامر بن عبداللہ ، حضرت سیدنااویس قرنی ، حضرت سیدنا ہرم بن حیان ، حضرت سیدنا ربیع بن خُثیم، حضرت سیدنا ابو مسلم خولانی ، حضرت سیدنا اسود بن یزید، حضرت سیدنا مسروق بن اجدع اور حضرت سیدناحسن بن ابو حسن رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" پھرآپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت سیدناعامر بن عبداللہ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہما کے متعلق بتایا:'' حضرت سیدنا عامر بن عبداللہ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہما جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو بہت خشو ع و خضوع سے نماز پڑھتے ۔ شیطان ان کو بہکانے کے لئے سانپ کی شکل میں آتا اور ان کے جسم سے لپٹ جاتا، پھر قمیص میں داخل ہو کر گریبان سے نکلتا ، لیکن آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نہ تو اس سے خوفزدہ ہوتے،نہ ہی اسے دور کرتے بلکہ انتہائی خشوع خضوع سے اپنی نماز میں مگن رہتے۔''
جب ان سے کہا جاتا :'' آ پ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ سانپ کو اپنے آپ سے دور کیوں نہیں کرتے؟کیاآپ کو اس سے ڈر نہیں لگتا؟''تو آ پ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے: ''مجھے اس بات سے حیاء آتی ہے کہ میں اللہ عزوجل کے علاوہ کسی اور سے ڈروں ۔''
پھر کسی کہنے والے نے کہا:آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ جتنی محنت ومشقت کر رہے ہیں اس کے بغیر بھی تو جنت حاصل کی جاسکتی"
"ہے اور اس کے بغیر بھی جہنم کی آگ سے بچا جاسکتا ہے۔'' توآپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا:'' اللہ عزوجل کی قسم !میں توخوب مجاہدات کرو ں گا اوردن رات اپنے رب عزوجل کی عبادت کروں گا ۔ اگر نجات ہوگئی تو اللہ عزوجل کی رحمت سے ہوگی، اور خدا نخواستہ جہنم میں گیا تو اپنی محنت ومشقت میں کمی کی وجہ سے جاؤں گا ۔''
پھر جب آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی وفات کا وقت قریب آیا توآپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ زار وقطاررونے لگے ۔لوگو ں نے پوچھا : ''حضور! آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ اتنا کیوں رورہے ہیں؟ کیا موت کا خوف آپ کو رلا رہا ہے؟''توآپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ''میں کیوں نہ روؤں ،کیا مجھ سے بھی زیادہ کوئی رونے کا حقدارہے ؟خدا عزوجل کی قسم! میں نہ توموت کے خوف سے رو رہاہوں ،نہ ہی اس بات پرکہ دنیا مجھ سے چھوٹ رہی ہے، بلکہ مجھے تو اس بات کا غم ہے کہ میری عبادت وریاضت، راتوں کا قیام اور سخت گرمیوں کے روزے چھوٹ جائیں گے، پھر کہنے لگے: اے میرے پاک پروردگار عزوجل! دنیا میں غم ہی غم اور مصیبتیں ہی مصیبتیں ہیں اور آخرت میں حساب و عذاب کی سختیاں پھر انسان کو آرام وسکون کیسے نصیب ہو؟''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدنا علقمہ بن مرثد رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:''حضرت سیدنا ربیع بن خثیم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بہت بلند مرتبہ بزرگ تھے۔ جب ان کو فالج کا مرض لاحق ہوا تو ان سے کہا گیا:'' حضور: اگر آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ چاہیں تو آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کا علاج کیا جاسکتا ہے۔''یہ سن کر آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا: ''بیشک علاج حق ہے ، لیکن عاد وثمود کیسی بڑی بڑی قومیں تھیں، ان میں بڑے بڑے ماہر طبیب تھے ، اور ان میں بیماریاں بھی تھیں، ا ب نہ تو وہ طبیب باقی رہے نہ ہی مریض۔'' اسی طرح جب آ پ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ سے یہ پوچھا جاتا :'' آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ لوگو ں کو وعظ ونصیحت کیوں نہیں کرتے؟'' توآپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ جو اباً ارشاد فرماتے: ''ـابھی تو مجھے خود اپنی اصلاح کی ضرورت ہے ،پھر میں لوگوں کو کیسے نصیحت کروں؟انہیں کیسے ان کے گناہوں پر ملامت کروں؟'' بے شک لوگ اللہ عزوجل سے دو سرو ں کے گناہوں کے بارے میں تو ڈرتے ہیں لیکن اپنے گناہوں کے بارے میں اس سے بے خوف ہیں ۔''
جب آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ سے پوچھا جاتا:'' آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے صبح کس حال میں کی؟''تو ارشاد فرماتے:'' ہم نے صبح اس حال میں کی کہ اپنے آپ کو کمزور اور گناہ گار پایا، ہم اپنے حصے کا رزق کھاتے ہیں اور اپنی موت کے انتظار میں ہیں ۔''"
" حضرت سیدنا علقمہ بن مرثد رحمۃاللہ تعالیٰ علیہما فرماتے ہیں:'' جب حضرت سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت سیدنا ربیع بن خثیم رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کو دیکھتے تو سورہ حج کی آیت مبارکہ کایہ حصہ ''وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِیْنَ'' تلاوت کرتے اور فرماتے:'' اے ربیع رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ! اگر تجھے حضورصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم دیکھتے تو تجھ سے بہت خوش ہوتے۔''
حضرت سیدنا ربیع بن خثیم رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ اکثر اپنے آپ کومخاطب کرکے فرمایا کرتے: ''اے ربیع! اپنا زاد راہ باندھ لے اور سفرِآخرت کی خوب تیار ی کرلے، اور سب سے پہلے اپنی اصلاح کراور اپنے نفس کو خوب نصیحت کر۔ ''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدنا علقمہ بن مرثد رحمۃاللہ تعالیٰ علیہما فرما تے ہیں:'' حضرت سیدنا ابومسلم خولانی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کبھی بھی کسی ایسے شخص کے پاس نہ بیٹھتے جو دنیاوی با توں میں مشغول ہوتا ۔ ایک مرتبہ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ مسجد میں گئے تو دیکھا کہ کچھ لوگ ایک جگہ جمع ہیں ، آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے یہ گمان کیا کہ یہ لوگ ذکر اللہ عزوجل کے لئے یہاں جمع ہیں۔ چنانچہ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ ان کے پاس جاکر بیٹھ گئے ۔ وہ لوگ آپس میں باتیں کررہے تھے ، کوئی کہہ رہا تھا :'' میرا غلام فلاں فلاں جگہ گیا ۔'' کوئی کہہ رہا تھا: ''میں نے غلام کو سفر کا سامان مہیا کردیا ہے ۔ ''الغر ض اسی طرح کی دنیاوی باتیں اس محفل میں ہو رہی تھیں۔''
جب آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے ان کی یہ باتیں سنیں تو فرمایا:'' سبحان اللہ عزوجل! ''میراتو تمہارے متعلق کچھ اور ہی گمان تھا مگر تم کچھ اور نکلے۔ میری اور تمہاری مثال تو ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص سردی کے موسم میں شدید موسلا دھار بارش میں بھیگ رہا ہو پھر اچانک اسے ایک بڑی عمارت نظر آئی، جب وہ پناہ لینے کے لئے اس میں داخل ہوا تو اسے معلوم ہوا کہ اس بلند وبالاعمارت پر تو چھت ہی نہیں ، اور اس عمارت سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوسکتا ۔''
میں بھی تمہارے پاس اس لئے آیا تھا کہ ''شاید تم ذکر اللہ عزوجل میں مشغول ہو، لیکن تم تو دنیا دار لوگ ہو، تمہارے پاس بیٹھنا فضول ہے، یہ کہتے ہوئے آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ وہاں سے تشریف لے گئے ۔''
جب آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ بڑھاپے کی وجہ سے بہت زیادہ کمزور ہوگئے تو لوگوں نے عرض کی:'' حضور! اپنے مجاہدات میں کچھ کمی کردیجئے۔'' آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا:''اے لوگو ! تمہارا اس بارے میں کیا خیال ہے؟ اگر تم مقابلے کے لئے میدان میں گھوڑا بھیجوتوکیا تم اس کے سوار کو ہدایت نہیں کر و گے کہ گھوڑا خوب بھگانا، اور کسی کو اپنے سے آگے نہ نکلنے دینا اورجب"
"تمہیں وہ جیت کانشان نظر آئے جس تک پہنچنا ہے تو گھوڑے کی رفتار مزید تیز کردینا ۔''
لوگو ں نے کہا:'' حضور! ہم ایسی ہی ہدایتیں گھڑ سوار کو کرتے ہیں۔''پھر آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا: ''اے لوگو! میں بھی اپنی موت کے بالکل قریب پہنچ چکاہوں، پھر میں اپنے عمل کو کم کیسے کردوں؟ بلکہ اب تو مجھے اپنے رب عزوجل کی اور بھی زیادہ عبادت کرنی چاہے۔''پھر فرمایا:'' ہر کوشش کرنے والے کی کوئی نہ کوئی غایت ہوتی ہے،اورہرشخص کی غایت موت ہے۔کچھ تواپنی موت تک پہنچ چکے اورجو باقی ہیں عنقریب وہ بھی پہنچ جائیں گے، بالآخر مرنا سب نے ہے۔"
" حضرت سیدنا علقمہ بن مرثد رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:'' حضرت سیدنااسود بن یزید علیہ رحمۃاللہ المجید عبادت وریاضت میں خوب کوشش فرماتے ۔بہت زیادہ مجاہدات کرتے ،بکثرت روزے رکھتے یہاں تک کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا رنگ سبزی مائل اور پیلا پڑگیا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اسّی(80) حج کئے۔''
حضرت سیدنا علقمہ بن قیسرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ان سے کہتے:''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کب تک اپنے جسم پر مشقت کرتے رہیں گے؟''یہ سن کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے: ''میں اپنے جسم کے آرام وسکون کے لئے ہی تو یہ سب کچھ کر رہا ہو ں۔ '' پھرجب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے وصال کا وقت قریب آیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ رونے لگے۔لوگو ں نے پوچھا:'' حضور! یہ رونا کیسا ؟''فرمایا : ''میں کیوں نہ رو ؤں؟ کیا مجھ سے بھی زیادہ کوئی رونے کا حق دارہے ؟( پھر عاجزی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ) خد ا عزوجل کی قسم! اگر اللہ عزوجل نے مجھے بخش بھی دیا تب بھی مجھے اپنے گناہوں کی وجہ سے اللہ عزوجل سے حیا آتی رہے گی،اگر بندہ کوئی چھوٹے سے چھوٹا گناہ بھی کرلے اور اسے بخش بھی دیا جائے لیکن پھر بھی اسے اپنے گناہ پر شر مندگی ضرور رہے گی ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدنا علقمہ بن مرثد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے منقول ہے ،حضرت سیدنا مسروق بن اجدع رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی زوجہ محترمہ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہا فرماتی ہیں:''حضرت سیدنا مسروق علیہ رحمۃ اللہ المعبود نماز میں طویل قیام کرتے جس کی وجہ سے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی پنڈلیاں سوج جاتیں۔جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نماز پڑھتے تو میں ان کے پیچھے بیٹھ جاتی،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی حالت دیکھ دیکھ کر مجھے بہت تر س آتا اور میں روتی رہتی ۔
پھرجب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے وصال کا وقت قریب آیا توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ رونے لگے۔ جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے رونے کا سبب پوچھا گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا :''میں کیوں نہ روؤں، اس وقت میں اپنے آپ کو اس حالت میں پاتا ہوں کہ موت میرے سامنے ہے ،میرے ایک طر ف جنت اور دوسری طر ف جہنم ہے، اب معلوم نہیں کہ موت مجھے جہنم کی طر ف دھکیلتی ہے یا جنت میں لے جاتی ہے۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدناعلقمہ بن مرثد رحمۃاللہ تعا لیٰ علیہ حضرت سیدنا حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی کے متعلق فرماتے ہیں:''ہم نے حضرت سیدنا حسن بصری علیہ رحمۃاللہ القوی سے زیادہ غمگین کسی بھی شخص کو نہیں دیکھا، آپ رحمۃاللہ تعا لیٰ علیہ ہر وقت غمگین و اداس رہتے ، اور فرما یا کرتے: ہم ہنستے ہیں او ر ہمیں اس بات کی فکر ہی نہیں کہ اگر (بر وزِ قیامت ) اللہ عزوجل نے ہمارے اعمال کے بارے میں یہ فرمادیا:'' جاؤ تمہارا کوئی بھی عمل میرے نزدیک مقبول نہیں۔'' ( تو ہمارا کیا بنے گا )
آپ رحمۃاللہ تعا لیٰ علیہ فرمایا کرتے:'' اے ابن آدم! تیری ہلاکت ہو، کیا تو اللہ عزوجل سے مقابلہ کرناچاہتا ہے ؟ہا ں !ہا ں ! جس نے اللہ عزوجل کی نافرمانی کی گویااس نے اپنے پر وردگارعزوجل سے جنگ کی۔ خدا عزوجل کی قسم! میں ستّر(70) بدری صحابہ کرام علیہم الرضوان سے ملا ہوں، ان میں سے اکثر او ن کا لباس پہنتے ،اگرتم انہیں دیکھتے تو انہیں دیوانہ سمجھتے،اور اگر وہ تمہارے نیک و پرہیز گار لوگو ں کو دیکھ لیتے تو ان کے متعلق کہتے:'' ان کے اندر کوئی قابل تعریف بات نہیں۔''اوراگر وہ تمہارے گناہگاروں اور برے لوگو ں کو دیکھ لیتے تو ان کے متعلق فرماتے :'' (ایسا لگتا ہے جیسے) ان لوگو ں کا آخرت پر ایمان ہی نہیں۔''
پھر آپ رحمۃاللہ تعا لیٰ علیہ نے فرمایا :''خدا عزوجل کی قسم! میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے جن کے نزدیک دنیا کی وقعت"
"قدموں کی خاک جتنی بھی نہیں ، اور وہ ایسے عظیم لوگ تھے کہ اگر ان میں سے کسی کو رات کے وقت تھوڑا سابھی کھانا ملتا تو کہتا: میں اکیلا یہ سارا کھانا نہیں کھاؤں گا بلکہ اس میں سے کچھ ضرور اللہ عزوجل کی رضا کی خاطر صدقہ کر وں گا، حالانکہ خود ان کی ایسی حالت ہوتی کہ ان پر صدقہ کیا جائے ۔
حضرت سیدناعلقمہ بن مرثدرحمۃاللہ تعا لیٰ علیہ فرماتے ہیں:''جب حضرت سیدناعمر بن ہبیرہ رحمۃاللہ تعا لیٰ علیہ عراق کے گور نر بن کر آئے تو انہوں نے حضرت سیدناامام حسن بصری اور امام شعبی علیہما رحمۃاللہ الکافی کو اپنے پاس بلایا اور انہیں ایک گھر دے دیا جس میں آپ دونوں حضرات رحمۃاللہ تعالیٰ علیہما تقریبا ًایک ماہ قیام فرما رہے۔ ایک دن صبح صبح ایک خادم ان کے پا س آیا اور کہا:'' حضرت سیدنا عمر بن ہبیرہ رحمۃاللہ تعا لیٰ علیہ آپ سے ملاقات کے لئے آرہے ہیں ، اتنی ہی دیر میں حضرت سیدناعمربن ہبیرہ رحمۃ اللہ تعا لیٰ علیہ اپنی لاٹھی سے سہارا لیتے ہوئے وہاں آپہنچے۔ آتے ہی سلام کیااور بڑے مؤدبا نہ انداز میں آپ دونوں حضرات رحمۃاللہ تعا لیٰ علیہماکے سامنے بیٹھ گئے ۔
پھر(گورنرِ عراق) حضرت سیدنا عمربن ہبیرہ رحمۃاللہ تعا لیٰ علیہ نے کہا:''یزید بن عبدالملک نے مجھے ایک خط بھیجا ہے جس میں کچھ احکام نافذ کرنے کا حکم دیاگیا ہے، اور میں جانتا ہوں کہ ان احکام کے نفاذ میں ہلاکت ہی ہلاکت ہے ۔ اب اگر میں اس کی اطاعت کرتا ہوں تو اللہ عزوجل کی نافرمانی ہوتی ہے ، اور اگر اللہ عزوجل کی اطاعت کرو ں تو اس (یعنی یزید بن عبدالملک )کے حکم سے رو گر دانی ہو گی ،اب آپ حضرات ہی کوئی ایساطریقہ بتائیں کہ میں یزید بن عبدالملک کے حکم سے خلا صی پاجاؤں۔''
یہ سن کرحضر ت سیدنا حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی نے حضرت سیدناامام شعبی علیہ رحمۃاللہ الکافی سے فرمایا:'' اے ابو عمر! تم ہی ان کے سوال کا جواب دو۔'' حضرت سیدناامام شعبیعلیہ رحمۃاللہ الکافی نے کچھ اس طرح گفتگو کی:''اے ابن ہبیرہ!تمہاری سلامتی اسی میں ہے کہ تم یزید بن عبد الملک کی بات مان لو۔'' یہ سن کر حضرت سیدناعمر بن ہبیرہ رحمۃااللہ تعالیٰ علیہ حضرت سیدناحسن بصری علیہ رحمۃاللہ القوی کی طرف متو جہ ہوئے اور عرض کی:'' حضور !آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں؟'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:''امام شعبی علیہ رحمۃاللہ الکافی نے جو کچھ کہا وہ تو آپ سن چکے۔''عر ض کی:'' حضور! آپ (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) اس بارے میں کیا ارشاد فرماتے ہیں ؟''
اما م حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی نے ارشاد فرمایا:'' اے ابن ہبیرہ! عنقریب اللہ عزوجل کے فر شتوں میں سے ایک فرشتہ تیرے پاس آئے گا،جوبہت مضبوط اور انتہائی کرخت لہجے والاہوگا۔وہ کبھی بھی اللہ عزوجل کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتا، پھر وہ تجھے تیرے خوبصورت و کشادہ محل سے نکال کر انتہائی تنگ و تاریک قبر میں پہنچا دے گا۔ اے ابن ہبیرہ !اگر تو اللہ عزوجل سے ڈرے گا تو"
"وہ تجھے یزید بن عبد الملک کے شر سے محفوظ رکھے گا جبکہ یزید بن عبد الملک تجھے اللہ عزوجل کی پکڑ سے ہر گز نہیں بچا سکتا۔
اے ابن ہبیرہ ! ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا ،اگر تو نے یزید بن عبدالملک کا کوئی ایسا حکم مانا جس میں اللہ عزوجل کے حکم کی نافرمانی ہو تو کہیں ایسا نہ ہوکہ اس کی وجہ سے اللہ عزوجل تجھ پر نگاہِ غضب ڈالے اور مغفرت کے دروازے تجھ پر بندکر دے ۔
میری ملاقات اس امت کے سابقہ لوگو ں سے بھی ہوئی ہے۔ وہ دنیا سے اتنے ہی دور بھاگتے تھے جتنی تم اس کی خواہش کرتے ہو، حالانکہ دنیا ان کے قدموں میں گر تی تھی اور تم سے کوسو ں دور بھا گتی ہے۔ اے ابن ہبیرہ! اللہ عزوجل نے جس مقام سے تجھے ڈرایا ہے، میں بھی تجھے اس مقام سے ڈراتا ہوں ۔''اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے:"
ذٰلِکَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِیۡ وَخَافَ وَعِیۡدِ ﴿14﴾
"ترجمہ کنزالایمان:یہ اس لئے ہے جومیرے حضورکھڑے ہونے سے ڈرے اورمیں نے جوعذاب کاحکم سنایاہے اس سے خوف کرے۔ ( پ13، ابراہیم:14)
پھرآپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' اگر تواللہ عزوجل کی اطاعت کریگا تو اللہ عزوجل تجھے یزید بن عبدالملک کے شرسے بچائے گا اور اگر تو یزید بن عبدالملک کی اطاعت اور اللہ عزوجل کی نافرمانی کریگاتو اللہ عزوجل تجھے یزید بن عبدالملک کے سپر د کر دے گا ۔''
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی یہ نصیحت آموز باتیں سن کر حضرت سیدنا عمر بن ہبیرہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی آنکھیں بھر آئیں اور وہ زار وقطار روتے ہوئے وہاں سے چلے گئے۔
دو سرے دن حضرت سیدناعمربن ہبیرہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ان دو نوں بزرگو ں کے لئے تحائف بھجوائے، حضرت سیدنا امام شعبی علیہ رحمۃاللہ الہادی کی نسبت حضرت سیدنا حسن بصری علیہ رحمۃاللہ القوی کے تحائف زیادہ تھے(حضرت سیدنا امام شعبیعلیہ رحمۃاللہ الہادی)مسجد کی طر ف روانہ ہوئے اور (تحائف دیکھ کر) کہا :''اے لوگو! تم میں سے جو بھی اس بات پر قادر ہو کہ وہ اللہ عزوجل کے حکم کو دنیا داروں پر تر جیح دے تو اسے ضرور ایسا ہی کرنا چاہے ۔
اس پاک پر ورد گار عزوجل کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! ایسا نہیں ہے کہ جس چیز کو حضرت سیدنا حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ ا لقوی جانتے ہیں ،میں اس سے جاہل ہوں، بلکہ بات دراصل یہ ہے میں نے ابن ہبیرہ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی خوشنودی چاہی لیکن اللہ عزوجل نے مجھے اس سے دور کردیا(یعنی میں حضرت سیدنا حسن بصری علیہ رحمۃاللہ القوی کے مرتبے کو نہیں پہنچ سکتا )"
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)
" حضرت سیدنا علقمہ بن مرثد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حضرت سیدنااویس قرنی علیہ رحمۃاللہ الغنی کے حالات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :'' حضرت سیدنااویس قرنی علیہ رحمۃ اللہ الغنی کے خاندان والوں نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو مجنون سمجھا ہوا تھا، اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے لئے اپنے گھروں کے قریب کمرہ بنا یاہوا تھا۔ دودوسال گزر جاتے لیکن گھر والے آپ کی طر ف تو جہ نہ دیتے، نہ ہی آپ کی خبر گیری کرتے ۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی گزر بسر اس طر ح کرتے کہ کھجور کی گٹھلیاں چنتے ، شام کو انہیں بیچتے اور ان کے بدلے جو رَدِّی کھجور یں وغیرہ ملتیں انہیں افطاری کے لئے رکھ لیتے (اور انہیں کھا کر اللہ عزوجل کا شکر ادا کرتے )
جب حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعا لیٰ عنہ خلیفہ بنے، توایک مرتبہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حج کے اجتماع میں فرمایا: ''اے لوگو ! کھڑے ہوجاؤ ۔'' حکم پاتے ہی تمام لوگ کھڑے ہوگئے ۔پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: '' قبیلہ ُمراد کے لوگو ں کے علاوہ سب بیٹھ جائیں۔''(چند لوگوں کے علاوہ) سب بیٹھ گئے۔ پھر فرمایا: ''تم میں سے ''قبیلہ قرن''کے لوگ کھڑے رہیں باقی سب بیٹھ جائیں ۔''ایک شخص کے علاوہ سب بیٹھ گئے، یہ کھڑا ہونے والا شخص حضرت سیدنا اویس قرنی علیہ رحمۃ اللہ الغنی کا چچا تھا ۔
امیر المؤ منین حضرت سیدناعمر رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے ان سے پوچھا :''کیاآپ ''قبیلہ قرن ''کے رہنے والے میں ا؟'' انہوں نے عرض کی :''جی ہاں !میں'' قرن ''ہی کا رہنے والاہوں۔'' پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا :''کیا آپ اویس قرنی کو جانتے ہيں ؟'' اس نے جواب دیا:'' حضور! آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جس اویس( رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) کے متعلق سوال کررہے ہیں وہ تو ہمارے ہاں احمق مشہور ہے، وہ اس لائق کہاں کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے متعلق استفسار فرمائیں ،وہ توپاگل و مجنون ہے ۔''
یہ سن کرآپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ رونے لگے، اور فرمایا:'' میں اُس پر نہیں بلکہ تم پر رو رہاہوں،میں نے نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر، دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَر صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ''اللہ عزوجل اُویس قرنی کی شفاعت سے'' قبیلہ ربیعہ'' اور ''قبیلہ مضر'' کے برابر لوگو ں کوجنت میں داخل فرمائے گا ۔ ''"
" (سنن ابن ماجۃ، ابواب الزھد، باب صفۃ النار، الحدیث۴۳۲۳،ص۲۷۴۰)
(مصنف ابن ابی شیبۃ، کتاب الفضائل، باب ما ذکر فی اویس القرنی، الحدیث۱،ج۷،ص۵۳۹)"
حضرت سیدنا ہرم بن حیان علیہ رحمۃ اللہ المنان فرماتے ہیں:'' جب مجھ تک یہ حدیث پہنچی تو میں فوراً ''کو فہ'' کی طر ف روانہ ہوا ۔میرا وہاں جانے کا صرف یہی مقصد تھا کہ حضرت سیدنااویس قرنی علیہ رحمۃ اللہ الغنی کی زیارت کرلو ں،اور ان کی صحبت سے فیضیاب ہوسکوں۔'' کوفہ '' پہنچ کرمیں انہیں تلاش کرتا رہا۔ بالآخر میں نے انہیں دوپہر کے وقت نہرفرات کے کنارے وضوکرتے پایا ۔ جو نشانیاں مجھے ان کے متعلق بتائی گئی تھیں ان کی وجہ سے میں نے انہیں فوراً پہچان لیا ۔
" ان کا رنگ انتہائی گندمی ،جسم دبلا پتلا،سر گرد آلوداور چہرہ انتہائی بارعب تھا۔ میں نے قریب جاکر انہیں سلام کیا۔ انہوں نے سلام کا جواب دیا، اور میری طرف دیکھا۔ میں نے فوراً مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا لیکن انہوں نے مصافحہ نہ کیا۔میں نے کہا : ''اے اویس (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)! اللہ عزوجل آپ پر رحم فرمائے ،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کیسے ہیں؟ ''ان کو اس حالت میں دیکھ کراور ان سے شدید محبت کی وجہ سے میری آنکھیں بھر آئیں اور میں رونے لگا۔ مجھے روتا دیکھ کر وہ بھی رونے لگے ۔
اور مجھ سے فرمایا:'' اے میرے بھائی ہرم بن حیان (علیہ رحمۃاللہ المناّ ن )!اللہ عزوجل آپ کو سلامت رکھے، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کیسے ہیں ؟ اورمیرے بارے میں اپ کوکس نے بتا یا کہ میں یہاں ہوں؟ ''میں نے جواب دیا:''اللہ عزوجل نے مجھے تمہاری طر ف راہ دی ہے۔''
یہ سن کرآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے'' لَا اِلٰہَ اِلَّااللہُ ''اور'' سُبْحٰنَ اللہِ ''کی صدائیں بلند کیں،اور فر مایا:''بے شک ہمارے رب عزوجل کا وعدہ ضرور پورا ہونے والا ہے ۔''
پھر میں نے ان سے پوچھا :''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو میرااور میرے والد کا نام کیسے معلوم ہوا؟ ''حالانکہ آج سے پہلے نہ کبھی میں نے آپ کو دیکھا اور نہ ہی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مجھے دیکھا۔''
یہ سن کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ''مجھے میرے علیم وخبیرپروردگار عزوجل نے خبردی ہے۔ اے میرے بھائی ھر م بن حیان(علیہ رحمۃاللہ المناّ ن )! میری روح تیری روح کو اس وقت سے جانتی ہے جب (عالمِ ارواح) میں تمام روحوں کی آپس میں ملاقات ہوئی تھی ۔بے شک بعض مؤمن اپنے بعض مؤمن بھائیوں کوجانتے ہیں اور وہ اللہ عزوجل کے حکم سے ایک دوسرے سے اُلفت ومحبت رکھتے ہیں، اگرچہ ان کی بظاہرملاقات نہ ہوئی ہو،اگرچہ وہ ایک دوسرے سے بہت دور رہتے ہوں۔
پھر میں نے ان سے کہا :''اللہ عزوجل آپ پر رحم فرمائے ،مجھے رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی کوئی حدیث سنائیے۔''یہ سن کر انہوں نے فرمایا: ''آپ پر میرے ماں باپ قربان! مجھے نہ تو حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی صحبت با برکت نصیب ہو ئی ا ور نہ ہی میں ان کی زیارت سے مشرف ہوسکا ،ہاں! اتنا ضرور ہے کہ میں نے ان عظیم ہستیوں کی زیارت کی ہے جن کی نظریں میرے آقاو مولیٰ حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے والضّحی والے چہرے کی زیارت کرچکی ہیں ۔میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ اپنے اوپر اس بات کا دروازہ کھولوں کہ لوگ مجھے محدث ، مفتی یا راوی کہیں، میں لوگوں سے دور رہنا چاہتاہوں اور اپنی اس حالت پر خوش ہوں۔''
پھر میں نے ان سے کہا :'' اے میرے بھائی! مجھے اللہ عزوجل کے کلام سے کچھ تلاوت ہی سنا دیجئے ، اور مجھے کچھ نصیحت"
فرمائیے تا کہ میں اسے یاد رکھوں ۔ بے شک میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے صرف اللہ عزوجل کی رضا کی خاطر محبت کرتا ہوں ۔یہ سن کر حضرت سیدنااویس قرنی علیہ رحمۃ اللہ الغنی نے میرا ہاتھ پکڑا،اوراَعُوْذُ بِاللہِ السَّمِیْعِ الْعَلِیْمِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْم پڑھ کر فرمایا: میرے رب عزوجل کا کلام سب کلاموں سے اچھا ہے ۔پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے سورہ دخان کی یہ آیتیں تلاوت فرمائیں:
وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَمَا بَیۡنَہُمَا لٰعِبِیۡنَ ﴿38﴾مَا خَلَقْنٰہُمَاۤ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَہُمْ لَا یَعْلَمُوۡنَ ﴿39﴾ اِنَّ یَوْمَ الْفَصْلِ مِیۡقَاتُہُمْ اَجْمَعِیۡنَ ﴿ۙ40﴾یَوْمَ لَا یُغْنِیۡ مَوْلًی عَنۡ مَّوْلًی شَیْـًٔا وَّ لَا ہُمْ یُنۡصَرُوۡنَ ﴿ۙ41﴾اِلَّا مَنۡ رَّحِمَ اللہُ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ الْعَزِیۡزُ الرَّحِیۡمُ ﴿٪42﴾
"ترجمہ کنزالایمان:اورہم نے نہ بنائے آسمان اورزمین اورجوکچھ ان کے درمیان ہے،کھیل کے طورپر۔ہم نے انہیں نہ بنایامگرحق کے ساتھ لیکن ان میں اکثر جانتے نہیں۔بے شک فیصلہ کادن ان سب کی میعاد ہے۔ جس دن کوئی دوست کسی دوست کے کچھ کام نہ آئے گا اور نہ ان کی مدد ہوگی، مگر جس پراللہ رحم کرے، بے شک وہی عزت والا مہربان ہے۔ (پ 25،الدخان: 38تا42)
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ چند آیتیں پڑھیں پھر ایک زور دار چیخ ماری۔ میرے گمان کے مطابق شاید آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بے ہوش ہوگئے تھے، جب انہیں کچھ افاقہ ہوا تو فرمانے لگے:'' اے ابن حیان!تیرا باپ فوت ہوچکا، عنقریب تو بھی اس دنیا سے رخصت ہوجائے گا۔ پھر یا تو تیرا ٹھکانا جنت میں ہو گایا پھر معا ذ اللہ عزوجل جہنم میں ۔(اللہ عز وجل ہم سب کو جہنم کے عذاب سے محفوظ رکھے)
اے ابن حیان علیہ رحمۃ اللہ المناّن!تیرا باپ حضرت سیدناآدم علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام اور تیری ماں '' حضرت سیدتناحوا'' رضی اللہ تعا لیٰ عنہا اس دنیا فانی سے جاچکے ، حضرات انبیاء کرام علیٰ نبیناوعلیہم الصلوٰۃ والسلام حضرت سیدنا نوح ، حضرت سیدنا ابراہیم خلیل اللہ، حضرت سیدنا موسیٰ کلیم اللہ ،حضرت سیدناداؤ د علیٰ نبیناوعلیہم الصلوٰۃ والسلام اور ہمارے پیارے آقا، مدینے والے مصطفٰے صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّمبھی اس دنیا سے ظاہری پردہ فرما چکے ، خلیفہ اوّل امیرالمؤمنین حضر ت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی انتقال ہوگیا، اور میرے بھائی اور دوست خلیفہ ثانی امیرالمؤمنین حضرت سیدنا عمر فارو ق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی وصال ہوگیا۔ جب میں نے یہ سنا توفوراً کہا :''حضور! یہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کیا فرمارہے ہیں؟ حضرت سیدنا عمر فارو ق ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ تو ابھی حیات ہیں ،ان کا ابھی وصال نہیں ہوا۔'' یہ سن کرآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' مجھے میرے پروردگار عزوجل نے خبردی ہے ، اورمیرا دل اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ ان کا انتقال ہوچکا ہے، عنقریب میں اور آپ بھی اس دنیا فانی سے رخصت ہوجائیں گے۔''
پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہِ بے کس پناہ میں درودوسلام کے گجرے نچھاور کئے اور آہستہ آواز میں دعائیں مانگنا شروع کردیں۔"
" پھر فرمایا:'' میری ایک نصیحت ہمیشہ یاد رکھنا۔ کتاب اللہ عزوجل میں تمام احکامات آچکے ، تمام انبیاء کرام علیٰ نبیناوعلیہم الصلوٰۃ والسلام اوراولیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا اس دنیا سے کوچ کرجانا ہمارے لئے ایک بہت بڑی نصیحت ہے ۔ہمیشہ موت کو یاد رکھنا۔اپنے دل کودنیا میں نہ الجھانا اور جب تو یہاں سے اپنی قوم کے پاس جائے تو انہیں (عذابِ آخرت) سے خوب ڈرانا ، اور تمام لوگو ں کا خیر خواہ اور ناصح بن کر رہنا اور کبھی بھی جماعت سے دور نہ ہونا ، اگر تو مسلمانوں کی بڑی جماعت سے جدا ہوگیا ،تو توُ دین سے جدا ہوجائے گا ۔ تجھے معلوم بھی نہ ہوگا اور تو جہنم میں داخل ہوجائے گا ۔''
پھر فرمایا:''اے میرے بھائی! تو اپنے لئے بھی دعا کرنا اور مجھے بھی دعاؤں میں یاد رکھنا۔''اس کے بعد آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اللہ عزوجل کی بارگاہ میں دعا کرنے لگے :''اے پرور دگار عزوجل! ہرم بن حیان کا گمان ہے کہ''یہ مجھ سے تیری خاطر محبت کرتا ہے اور تیر ی رضاہی کی خاطرمجھ سے ملاقات کرنے آیا ہے ۔ یا اللہ عزوجل! مجھے جنت میں اس کی پہچان کرادینا ، اور جنت میں بھی میری اس سے ملاقات کرادینا ۔یا اللہ عزوجل! جب تک یہ دنیا میں باقی رہے اس کی حفاظت فرما ، اور اسے تھوڑی ہی دنیا پر راضی رہنے کی توفیق عطا فرما۔یا اللہ عزوجل اسے جو نعمتیں تو نے عطا کی ہیں۔ان پر شکر کرنے والا بنادے ،ہماری طر ف سے اسے خوب بھلائی عطا فرما ۔''
پھر مجھ سے فرمایا:'' اے ابن حیان!تجھ پر اللہ عزوجل کی رحمت ہو اور خوب برکت ہو، آج کے بعد میں تجھ سے ملاقات نہ کرسکوں گا،بے شک میں شہرت کو پسند نہیں کرتا۔جب میں لوگو ں کے درمیان ہوتا ہوں تو سخت پریشان اور غمگین رہتا ہوں۔بس مجھے توتنہائی بہت پسند ہے۔آج کے بعد تو میرے متعلق کسی سے نہ پوچھنا۔ اور نہ ہی مجھے تلاش کرنا۔میں ہمیشہ تجھے یاد رکھوں گا، اگر چہ تم مجھے نہ دیکھو گے اور میں تجھے نہ دیکھ سکوں گا۔ میرے بھائی! تو مجھے یا در کھنا ،میں تجھے یا د رکھوں گا۔ میرے لئے دعا کرتے رہنا۔ اللہ عزوجل نے چاہا تو میں تجھے یاد رکھوں گا اور تیرے لئے دعا کرتا رہوں گا۔ اب تو اس سمت چلا جا اور میں دوسری طر ف چلا جاتا ہوں ۔
یہ کہہ کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ایک طر ف چل دیئے۔ میں نے خواہش ظاہر کی کہ کچھ دُو رتک آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ساتھ چلوں، لیکن آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے انکار فرمادیا، اور ہم دونوں روتے ہوئے ایک دوسرے سے جدا ہوگئے۔
میں بار بار آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو مڑمڑ کر دیکھتا ،یہاں تک کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ایک گلی کی طر ف مڑگئے۔ اس کے بعد میں نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کوبہت تلاش کیا لیکن آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مجھے نہ مل سکے، اور نہ ہی کوئی ایسا شخص ملا جو مجھے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے متعلق خبر دیتا۔ہاں! اللہ عزوجل نے مجھ پر یہ کرم کیا مجھے ہفتے میں ایک ،دو مرتبہ خواب میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی زیارت ضرور ہو تی ہے ، (اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)))"
" حضرت سیدناابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، رحمتِ عالم، نورِ مجسَّم شاہِ بنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:''بےشک اللہ عزوجل اپنے بندوں میں سے ان کو زیادہ پسند فرماتا ہے جو مخلص ، پر ہیز گار اور گمنام ہوتے ہیں ، جن کے چہرے گرد آلود ، بھوک کی وجہ سے پیٹ کمر سے ملے ہوئے ، اور بال بکھرے ہوئے ہوں ، اگر وہ امراء کے پاس جانا چاہیں تو انہیں اجازت نہ ملے ، اگر کسی محفل میں موجود نہ ہوں تو کوئی ان کے متعلق سوال نہ کرے ، اوراگر موجود ہوں تو کوئی انہیں اہمیت نہ دے ، اگر وہ کسی سے ملاقات کریں تو لوگ ان کی ملاقات سے خوش نہ ہوں ، اگر وہ بیمار ہوجائیں تو کوئی ان کی عیادت نہ کرے ، اور جب مرجائیں تو لوگ ان کے جنازہ میں شریک نہ ہوں ۔
صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی :''یا رسول اللہ عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! ایسے لو گوں سے ہماری ملاقات کیسے ہوسکتی ہے ؟ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: '' اویس قرنی (علیہ رحمۃاللہ الغنی) انہی لوگوں میں سے ہيں۔'' صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:'' یا رسول اللہ عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم!اویس قرنی علیہ رحمۃ اللہ الغنی کون ہے ؟''میٹھے میٹھے آقا، مدینے والے مصطفٰے صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے غیب کی خبر دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :''اس کا قددرمیانہ ،سینہ چوڑا ، رنگ شدید گندمی ، داڑھی سینہ تک پھیلی ہوئی اس کی نگاہیں جھکی جھکی ، اپنے سیدھے ہاتھ کو الٹے ہاتھ پر رکھ کر قرآن پاک کی تلاوت کرتا ہے، زارو قطار رونے والا ہے ، اس کے پاس دو چادریں ہیں؛ ایک بچھانے کے لئے اور ایک اوڑھنے کے لئے ، دنیا والوں میں گمنام ہے، لیکن آسمانوں میں اس کا خوب چرچاہے ۔ اگر وہ کسی بات پر اللہ عزوجل کی قسم کھالے تو اللہ عزوجل ضرور اس کی قسم کو پورا کریگا، اس کے سیدھے کندھے کے نیچے سفید نشان ہے۔ کل بروزِ قیامت نیک لوگو ں سے کہا جائے گا : '' تم لوگ جنت میں داخل ہوجاؤ۔'' لیکن اویس قرنی ( علیہ رحمۃ اللہ الغنی) سے کہا جائے گا :'' تو ٹھہرجا اور لوگو ں کی سفارش کر ۔'' چنانچہ وہ قبیلہ ربیعہ اور مضر کے لوگو ں کی تعداد کے برابر گناہگاروں کی سفارش کریگا ۔''"
" (حلیۃ الاولیاء، اویس بن عامر القرنی، الحدیث:۱۵۶۷،ج۲، ص۹۶۔۹۷)
(صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل اویس القرنی، الحدیث:۲۲۴(۲۵۴۲)، ص۱۱۲۳)"
" پھر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے حضرت سیدنا عمر فاروق اور حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْھَہُ الْکَرِیْم کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا: ''جب بھی تم دونوں کی ملاقات اویس قرنی علیہ رحمۃ اللہ الغنی سے ہو ، تو اس سے اپنے لئے دعائے مغفرت کروانا۔''
حضر ت سیدنا علقمہ بن مرثد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:'' حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم اور حضرت سیدناعلی المرتضیٰ رضی"
"اللہ تعالیٰ عنہما تقریباًدس سال تک حضرت سیدنااویس قرنی علیہ رحمۃاللہ الغنی کو تلاش کرتے رہے، لیکن ان کے بارے میں معلو مات نہ ہو سکیں۔پھر جس سال امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتقال ہوا، اسی سال آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حج کے موقع پر جبل'' ابو قیس''پر کھڑے ہوکرلوگو ں سے مخاطب ہوتے ہوئے باآواز بلند فرمایا :
''اے یمن سے آنے والے حاجیو! کیا تم میں کوئی اویس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نامی شخص موجود ہے؟ ''یہ سن کر ایک بوڑھا شخص کھڑا ہوا اور عرض کی:''ہم نہیں جانتے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کس اویس کے متعلق پوچھ رہے ہیں ؟ ہاں! میرا ایک بھائی ہے جس کا نام اویس ہے ، لیکن وہ تو بہت غریب اور عام سا آدمی ہے ، وہ اس قابل کہاں کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے متعلق سوال کریں،وہ تو ہمارا چرواہا ہے، اور ہمارے ہاں اس کی کوئی قدر ومنزلت نہیں۔''یہ سن کر حضرت سیدنا عمربن خطاب رضی اللہ تعا لیٰ عنہ بہت غمگین ہوئے گویا کہ حضرت سیدنا اویس قرنی علیہ رحمۃ اللہ الغنی کے بارے میں اس شخص کااس طرح بولناآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سخت ناگوار گزرا ہو۔''
تھوڑی دیربعدآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس بوڑھے شخص سے پوچھا :'' تیرا وہ بھائی کہا ں ہے ؟کیا وہ ہمارے حرم میں موجود ہے ؟ ''اس نے جواب دیا :''جی ہاں! وہ حرم شریف ہی میں موجود ہے،شاید! اب وہ میدان عرفات کی طر ف ہوگا۔''
یہ سن کر امیرالمؤمنین حضرت سیدناعمر فاروق اعظم اور حضرت سیدناعلی المرتضٰی رضی اللہ تعا لیٰ عنہما فوراً میدان عرفات کی طرف چل دیئے ۔جب وہاں پہنچے تو دیکھا کہ وہ عاشقِ صادق ایک درخت کے نیچے نماز پڑھ رہا ہے، اور اونٹ اس کے اردگرد چررہے ہیں ۔ یہ دیکھ کر حضرت سیدناعمر فاروق اعظم اور حضرت سیدناعلی المرتضٰی رضی اللہ تعا لیٰ عنہما اپنی سواریوں سے نیچے اترآئے اور اس عاشقِ صادق کے پاس آکر سلام کیا۔
حضرت سیدنا اویس قرنی علیہ رحمۃ اللہ الغنی نے نماز کو مختصر کیا، اور نماز سے فارغ ہو کر سلام کا جواب دیا ۔ امیرالمؤمنین حضرت سیدناعمر فاروق اعظم اور حضرت سیدناعلی المرتضٰی رضی اللہ تعا لیٰ عنہما نے پوچھا:'' اے شخص! تو کون ہے ؟'' اس نے جواب دیا:'' میں اپنی قوم کا مزدور او رچروا ہا ہوں۔ آپ دونوں حضرات رضی اللہ تعا لیٰ عنہما نے فرمایا :''ہم تجھ سے ان چیز وں کے متعلق سوال نہیں کررہے بلکہ یہ بتائیں،آپ کا نام کیا ہے؟'' انہوں نے جواب دیا: ''میں عبداللہ (یعنی اللہ عزوجل کا بندہ) ہوں ۔'' فرمایا:'' یہ تو ہم بھی جانتے ہیں کہ زمین وآسمان میں موجود تمام لوگ اللہ عزوجل ہی کے بندے ہیں ،تم اپنا وہ نام بتاؤ جو تمہاری ماں نے رکھا ہے؟''
یہ سن کر حضرت سیدنا اویس قرنی علیہ رحمۃاللہ الغنی نے عرض کی:'' آپ لوگ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟ ''توانہوں نے ارشاد فرمایا:''ہمارے میٹھے میٹھے آقا، مدینے والے مصطفےٰصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ہمیں اویس قرنی علیہ رحمۃ اللہ الغنی کے متعلق چند نشانیاں"
"بتائی ہیں، ہم آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی باتوں اور رنگت کے متعلق بتائی ہوئی نشانیاں توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ میں دیکھ چکے ہیں ، لیکن ہمارے غیب دان آقا، مدینے والے مصطفےٰصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ایک نشانی اور بتائی تھی کہ اس کے سیدھے کندھے کے نیچے ایک سفید نشان ہوگا۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ذرا اپناسیدھاکندھا ہمیں دکھادیں ،اگر وہ نشان موجود ہوا تو ہم پہچا ن جائیں گے کہ آپ ر حمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہی کے متعلق ہمارے غیب دان آقا، مدینے والے مصطفےٰصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے غیب کی خبر دی ہے ۔
یہ سن کر حضرت سیدنا اویس قرنی علیہ رحمۃ اللہ الغنی نے اپنے کندھے سے چادر ہٹائی تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مبارک کندھے کے نیچے سفید نشان موجود تھا۔ نشان دیکھتے ہی دونوں صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے حضرت سیدنا اویس قرنی علیہ رحمۃ اللہ الغنی کو بو سہ دیا اور فرمایا : ''ہم گواہی دیتے ہیں کہ تم ہی وہ اویس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہو جس کے متعلق ہمیں نبی غیب داں صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے خبر دی تھی۔ اللہ عزوجل آپ پر رحم فرمائے، آپ رحمۃ اللہ تعا لیٰ علیہ ہمارے لئے مغفرت کی دعا کریں ۔''
یہ سن کر حضرت سیدنااویس قرنی علیہ رحمۃ اللہ الغنی نے عرض کی:'' میں نہ توصر ف اپنے لئے استغفارکرتا ہوں اور نہ ہی کسی فردِ معین کے لئے،بلکہ میں تو ہر مؤمن مرد وعورت کے لئے استغفار کرتا ہوں۔ آپ لوگو ں پر اللہ عزوجل نے میرا حال تو منکشف فرماہی دیا ہے ، اب آپ اپنے متعلق بتائیں کہ'' آپ کون ہیں ؟''
حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْھَہُ الْکَرِیْم نے یہ سن کرجواب دیا: ''یہ امیرالمؤمنین حضرت سیدنا عمربن خطاب رضی اللہ تعا لیٰ عنہ ہیں۔ اور میں علی بن ابو طالب (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)ہوں۔'' یہ سنتے ہی حضر ت سیدنا اویس قرنی علیہ رحمۃ اللہ الغنی باادب کھڑے ہوگئے اورعرض کی:''اے امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ !اللہ عزوجل آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سلامت رکھے اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔''
یہ سن کرامیر المؤمنین حضرت سیدنا عمربن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ''اللہ عزوجل آپ پر بھی رحم فرمائے ، آپ رحمۃ اللہ تعا لیٰ علیہ اسی مقام پر میرا انتظار فرمائیں۔ تاکہ میں آپ رحمۃ اللہ تعا لیٰ علیہ کے لئے مکہ مکرمہ سے کچھ چیزیں خرید لاؤں اور کچھ کپڑے وغیرہ لے آؤں آپ رحمۃ اللہ تعا لیٰ علیہ مجھے یہیں ملنا ۔ ''
آپ رحمۃ اللہ تعا لیٰ علیہ نے عرض کی:'' حضور! آپ تکلف نہ فر مائیں ،شاید! آج کے بعد میں آپ کی زیارت نہ کر سکوں گا او ر ویسے بھی میں کپڑوں اور پیسوں کا کیا کروں گا؟ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دیکھ ہی رہے ہیں کہ میرے پاس اون کی دو چادریں موجود ہیں، میں انہیں پھاڑتو نہیں دو ں گا ۔اور یہ دیکھیں میرے پاس چمڑے کے جوتے ہیں میں اتنی جلدی انہیں بیکار تھوڑاہی کرو ں گا، باقی رہا پیسوں کا مسئلہ تو میری قوم نے مجھے اونٹوں کی رکھوالی اورچرائی کے بدلے چار درھم دیتے ہیں جو میرے لئے کافی ہیں ۔"
" اے امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ! میرے اور آپ کے سامنے ایک تنگ اور دشوار گزار گھاٹی ہے، جسے صرف کمزور اور ضعیف لوگ ہی عبور کرسکیں گے پس ہوسکے تو اپنے آپ کو ہلکا کرلیں ،اللہ عزوجل آپ پر رحم وکرم فرمائے ۔''
یہ سن کرحضرت سیدنا عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا درہ زمین پرمارا اور فرمایا:'' اے عمر! کاش! تجھے تیری ماں نے جناہی نہ ہوتا ،کاش! وہ بانجھ ہوتی ۔''
پھر فرمایا :''کیا کوئی ایسا ہے جو مجھ سے خلافت کو اس کی ذمہ داریوں اور اس کے ثواب کے ساتھ قبول کرلے ۔''
حضرت سیدنا اویس قرنی علیہ رحمۃ اللہ الغنی نے عرض کی:''اے امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ !جو کوئی اللہ عزوجل سے ڈرتا ہے وہ اس (خلافت) سے دوربھاگتاہے (ہماری جدائی کا وقت آگیا ہے)اب آپ ایک طرف تشریف لے جائیں او رمیں دوسری طر ف چلاجاتا ہوں۔چنانچہ امیرالمؤمنین حضرت سیدناعمرفاروق اور حضرت سیدناعلی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہما مکۃ المکرمہ کی طرف تشریف لے گئے ۔اور آپ رحمۃ اللہ تعا لیٰ علیہ اونٹوں کو لے کر دو سری طرف چل دیئے، اور اونٹوں کو قوم کے حوالے کردیا ۔
پھرسب کام چھوڑ کر صرف اللہ عزوجل کی عبادت میں مشغول ہوگئے اور بالا ۤخر اپنے خالق حقیقی عزوجل سے جاملے ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)))"
حضرت سیدنا خالد بن صفوان بن الاھتم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم فرماتے ہیں :''ایک مرتبہ (یمن کے گورنر) یوسف بن عمرنے مجھے عراق کے ایک وفد کے ساتھ خلیفہ ہشام بن عبدالملک کے پاس بھیجا ،جب میں وہاں پہنچا تو دیکھا کہ خلیفہ ہشام بن عبدالملک اپنے لشکر،اہل وعیال ، خادموں اور غلاموں کے ساتھ سیرو سیاحت کے لئے روانہ ہو رہاہے۔چنانچہ میں بھی اس سفرمیں لشکرکے ساتھ شامل ہوگیا۔ خلیفہ نے ایک ایسی وادی میں لشکرکے پڑاؤ کا حکم دیا جونہایت وسیع وعریض ، خوبصورت اور صاف ستھری تھی۔ موسم بہارمیں وہاں کئی بارشیں ہوچکی تھیں جس کی وجہ سے وادی پھولوں اور مختلف قسم کے نباتات سے آراستہ وپیراستہ تھی ۔وہ وادی ایسی خوبصورت اوردل کولبھانے والی تھی کہ اسے دیکھتے ہی وہاں قیام کرنے کو جی چاہتا تھا اور ویسے بھی وہ ہر اعتبار سے قیام کے لئے موزوں تھی۔وہاں کی مٹی ایسی تھی جیسے کافورکی ڈلیاں،اور وہاں کے ڈھیلے ایسے صاف وشفاف تھے کہ اگر انہیں اٹھا کر پھینکا جائے تو ہاتھ بالکل گَرد آلودنہ ہوں۔وہاں خلیفہ کے لئے وہ ریشمی خیمے نصب کئے گئے جنہیں یوسف بن عمرنے یمن سے بھجوایا تھا، پھر ان خیموں میں سرخ ریشم کے چار بسترلگائے گئے اور ایسے ہی سر خ ریشمی تکیے ان پر رکھے گئے ۔
" تمام انتظامات کے بعدجب محفل سج گئی اور تمام لوگ اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے ، تو میں نے سرا ٹھا کرخلیفہ کی طرف دیکھا۔ اس کی نظر بھی مجھ پر پڑ گئی ،اس کے دیکھنے کا انداز ایسا تھا گویا وہ کہہ رہا ہو:'' بولو! کیا بولنا چاہتے ہو؟'' میں نے کہا :''اے امیر المؤمنین! اللہ عزوجل آپ پراپنی رحمتیں نازل فرمائے۔اور آپ کو نعمتوں پر شکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور امور خلافت میں اللہ عزوجل آپ کو سیدھی راہ پر رکھے۔ اور آپ کا انجام ایسا فرمائے جو قابل تعریف ہو، اللہ عزوجل نے آپ کویہ نعمتیں اس لئے دی ہیں تاکہ آپ ان کے ذریعے تقوی اختیار کریں ۔اللہ عزوجل نے آپ کو بکثرت پاکیزہ نعمتیں عطا کی ہیں، ان میں کوئی کدورت (یعنی مَیل) نہیں۔ اور ایسی نعمتیں عطا کی ہیں جن میں خوشیاں ہیں، غم نہیں۔
آپ مسلمانوں کے لئے ایک قابل اعتماد خلیفہ ہیں اور آپ ان کے لئے خوشی او رسرور کا با عث ہیں۔ جب انہیں کوئی مصیبت درپیش ہوتی ہے تو وہ آپ ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں ، اورہر مشکل کے وقت آپ ان کے لئے جائے پناہ ہیں، اے امیر المؤمنین! اللہ عزوجل مجھے آپ پر فدا کرے ، جب مجھے آپ کی ہم نشینی اور زیارت کا موقع مل ہی گیا ہے تواب میرا حق بنتا ہے کہ اللہ عزوجل نے آپ پر جو نعمتیں نچھا ور فرمائی ہیں اور جو جو کمالات عطاکئے ہیں ،میں آپ کوان کی یاد دہانی کراؤں اور آپ کوان نعمتوں پر شکر کرنے کی تر غیب دلاؤں ۔ اس کا سب سے بہتر ین طریقہ یہ ہے کہ میں آپ کو سابقہ بادشاہوں کے قصے سناؤں، کیا آپ کی طرف سے مجھے اس بات کی اجازت ہے؟ یہ سن کر خلیفہ ہشام بن عبدالملک سیدھا ہو گیا،سب تکیے ایک طرف رکھ دیئے اورکہا:''اب مجھے سابقہ بادشاہوں کے حالات بتاؤ۔''
میں نے کہا :''اے امیرالمؤمنین! سابقہ با دشاہوں میں ایک بادشاہ تھا ۔وہ بھی سیر وسیاحت کے لئے ایسے ہی موسم میں نکلا جیسا اب موسم ہے، اس سال بھی خوب بارشیں ہوئی تھیں۔زمین پھولوں اورنباتا ت سے مزین ہوگئی تھی ۔جب اس بادشاہ نے ان تمام نعمتوں،اپنے مال ومتاع، خُدّام اور لشکر کی طر ف نظرکی تو بڑے فخرسے کہنے لگا:'' جیسی نعمتیں میرے پاس ہیں کیا کسی اور کو بھی ایسی عظیم الشان نعمتیں ملی ہیں؟'' اس وقت اس کے لشکر میں ایک حق گو مرد مجاہد بھی موجود تھا ۔اس نے بڑے دلیرانہ اندازمیں کہا :'' اے بادشاہ! تو نے ایک بہت بڑے امرکے متعلق سوال کیا ہے۔ اگر اجازت ہو تو میں اس کا جواب دو ں؟''
بادشاہ نے کہا :''ہاں! تم جواب دو۔''چنانچہ اس مردِ مجاہد نے فرمایا:'' اے بادشاہ! یہ جو نعمتیں تمہارے پاس موجودہیں کیایہ تمام کی تمام ہمیشہ تمہارے پاس رہیں گی؟ کیاان میں کمی واقع نہ ہو گی؟کیایہ تجھے بطور میراث نہیں پہنچیں؟کیا تجھ سے زائل ہوکریہ تیرے بعد والوں کو نہ مل جائیں گی؟''
جب بادشاہ نے اس باہمت ومخلص مبلغ کی حقیقت پر مبنی گفتگو سنی تو کہنے لگا: ''اے نوجوان ! تو نے جو باتیں کیں وہ بالکل"
"بر حق ہیں ،کیونکہ ان نعمتوں میں کمی بھی ہوجائے گی۔ اورجس طرح یہ مجھے میراث میں ملی ہیں اسی طرح میرے مرنے کے بعد میرے ورثاء کو مل جائیں گی۔
یہ سن کراس باہمت مبلغ نے کہا :''اے بادشاہ!جب یہ سب باتیں حق ہیں تو پھران معمولی نعمتوں پر فخرکرنا ایک تعجب خیزبات نہیں؟ا ے بادشاہ! یہ نعمتیں تیرے پاس بہت کم عرصہ رہيں گی، اورجب تو اس دنیا سے جائے گا تو خالی ہاتھ جائے گا۔ اورکل بروزِ قیامت تجھ سے ان تمام نعمتو ں کا حساب لیاجائے گا(اوریہ انتہائی سخت امرہے) پھربھی ا س دنیائے فانی میں تیرا دل کیونکر لگاہوا ہے؟''
دین کا درد رکھنے والے مبلغ کی یہ باتیں بادشاہ کے دل میں تا ثیرکاتیربن کر پیوست ہوگئیں ۔ اس کی آنکھوں سے غفلت کا پردہ ہٹ گیا،اور اس نے بے چین ہو کر کہا: ''اے نوجوان !پھر تم ہی مجھے بتاؤکہ میں ان مصائب سے نجات پاکر کس طرح اپنے مقصدِ اصلی تک پہنچ سکتا ہوں ؟''ا س پر اس خیرخواہ مبلغ نے کہا :''اے بادشاہ! تیرے لئے نجات کے د و راستے ہیں:ایک تویہ ہے کہ تو اپنی بادشاہت قائم رکھ۔ اور ہر حال میں اللہ عزوجل کی اطاعت کر، تمام فیصلے شریعت کے مطابق کر،عدل وانصاف سے کام لے۔ خوشی وغمی ، تنگی اور فراخی ہر حال میں اپنے رب عزوجل کا شکر ادا کر۔ دوسری صورت یہ ہے کہ توتاج وتخت چھوڑ کر درویشی لباس اختیار کرلے، اور کسی پہاڑ کے دامن میں گوشہ نشین ہوکر اپنے پاک پروردگار عزوجل کی عبادت میں مشغول ہو جا۔ تیری نجات کے یہی دوراستے ہیں تو جس کو چاہے اختیارکرلے ۔''بادشاہ نے کہا: ''اے نو جوان! کل میرے پاس آنا، آج رات میں غورکرو ں گا، کہ کونسا راستہ اختیار کرو ں۔ اگرمیں نے بادشاہت والا راستہ اختیارکیاتومیں تجھے اپنا وزیربناؤں گا۔ اور ہر معاملے میں تیری اطاعت کرو ں گا،کبھی بھی تیری نافرمانی نہ کرو ں گا ۔
اوراگربادشاہت چھوڑکرگو شہ نشینی اختیارکروں گاتوتوُمیرے ساتھ میرا رفیق بن کر رہنا ۔میں تیری ہربات مانوں گا۔'' اتنا کہنے کے بعدبادشاہ اپنے خیمے کی طرف چلاگیا ۔
صبح کے وقت جب وہ مخلص مبلغ بادشاہ کے پاس گیا تو اس نے دیکھا کہ بادشاہ نے شاہی تاج اورشاہی لباس اتارکرفقیروں والا لباس پہنا ہوا ہے۔اس بادشاہ نے پختہ ارادہ کر لیاتھا کہ خلوت میں رہ کر اپنے رب عزوجل کی عبادت کریگا ۔ چنانچہ وہ تاج و تخت اوردنیا کی رنگینیوں کوچھوڑ کراس مخلص مبلغ کے ساتھ جنگل کی طرف چلا گیا۔اور وہ دونوں آخری وقت تک وہیں ایک پہاڑپراپنے خالقِ حقیقی عزوجل کی عبادت میں مشغول رہے۔''
بنو تمیم کے مشہور شاعر''عدی بن زید العیادی المرادی''نے ان کی شان میں چند اشعارکہے ،جن کا مفہوم کچھ اس"
"طرح ہے :
ترجمہ :(۱)۔۔۔۔۔۔ اے زمانے کو گالی دینے والے! کیا تو ہرچیزمیں کامل، اورہرعیب سے بری ہے۔
(۲)۔۔۔۔۔۔ یا تو نے زمانے سے پختہ عہدلے رکھا ہے؟یا توجاہل اور مغرور ہے؟
(۳)۔۔۔۔۔۔کیا کوئی ایسا شخص بھی ہے جسے موت نے چھوڑدیا ہو؟یا کوئی ایسا شخص ہے جو (تجھے) موت سے بچالے؟
(۴)۔۔۔۔۔۔کہاں ہے کسرٰی ،فارس کے بادشاہ اور ان سے پہلے کے بادشاہ؟ ابو ساسان اور سابور کہا ں گئے؟
(۵)۔۔۔۔۔۔ بہت شان وشوکت والے بادشاہ اور رومی بادشاہ کہا ں ہیں؟ ان میں سے کوئی ایک بھی تو باقی نہ رہا۔
(۶) ۔۔۔۔۔۔وہ بادشاہ کہا ں ہے جس نے ایک محل بنایا جس کے ایک جانب سے دریائے دجلہ اور دو سری جانب سے دریائے'' حلبور''بہتا تھا۔
(۷)۔۔۔۔۔۔اور اس نے محل کو سنگ مرمرسے آراستہ کیا اوراسے مختلف رنگوں سے مزین کیا او ر اس میں ایسے باغا ت لگائے جن میں پرندوں کے گھونسلے تھے۔(یعنی باغ میں ہروقت پرندے چہچہاتے رہتے تھے)
(۸)۔۔۔۔۔۔ موت نے اسے بھی نہ چھوڑا اور اس کی بادشاہت جاتی رہی اور وہ عظیم الشان محل بھی ویران ہوگیا۔
(۹)۔۔۔۔۔۔خورنق کے بادشاہ نے جب ایک دن غورو فکر کیا (تو اسے ہدایت کی راہ ملی) لہٰذا ہدایت پانے کے لئے غور وفکر ضروری ہے۔
(۱۰)۔۔۔۔۔۔ جب اس نے اپنی حالت پر غورکیا اوران کثیر نعمتوں میں غوروفکرکیا جواسے عطا کی گئیں اور جب اس نے وسیع وعریض سمندرکو عبرت کی نگاہ سے دیکھا ۔
(۱۱) ۔۔۔۔۔۔تواس کا دل ڈرگیا۔ اورکہا کہ ایسی زندگی پرکیا اِترانا اور کیا غرور کرنا جو موت کی طرف لے جارہی ہے۔
(۱۲) ۔۔۔۔۔۔بالآخراسے حکومت ، کامیابی اورسرداری کے بعد قبرمیں دفن کردیا گیا۔
حضرت سیدناخالدبن صفوان بن الاھتم علیہ رحمۃاللہ الاعظم کی زبانی خورنق کے بادشاہ کا واقعہ سن کر خلیفہ ہشام بن عبدالملک رونے لگا ۔اور اتنا رویا کہ اس کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہوگئی ۔او را س کا عمامہ بھی آنسوؤں سے بھیگ گیا۔پھر خلیفہ نے حکم دیا: ''تمام خیمے اکھاڑ دیئے جائیں اور تمام بستراٹھالئے جائیں اور تمام لشکر فوراً محل کی طرف روانہ ہو جائے۔''
چنانچہ خلیفہ اپنے سارے لشکرکولے کرروتا ہوا محل کی طرف روانہ ہوگیا۔ وہاں پہنچ کر اس نے( تمام امورِ مملکت اپنے بھائیوں کے سپردکئے اور خود)محل کا ایک کونہ سنبھال لیا۔اورتمام دنیاوی آسائشوں کوچھوڑکراپنے مالک حقیقی عزوجل کی عبادت میں مشغول ہوگیا۔جب اس کے اہل خانہ اور خُدّام وغیرہ نے خلیفہ کی یہ حالت دیکھی تووہ سب کے سب حضرت سیدنا خالدبن صفوان بن الاھتم علیہ رحمۃاللہ الاعظم کے پاس آئے، اور کہنے لگے: آپ رحمۃ اللہ تعا لیٰ علیہ نے امیرالمؤمنین کی کیا حالت کردی ہے ۔آپ رحمۃ اللہ تعا لیٰ علیہ نے اس کی تمام لذّات ختم کردی ہیں۔ آپ رحمۃ اللہ تعا لیٰ علیہ کی باتیں سن کر اس نے سیر وسیاحت کو بھی ترک کردیا ہے ۔
توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' تم سب مجھ سے دور ہوجاؤ ، بے شک میں نے اپنے پروردگارعزوجل سے وعدہ کیا ہے"
"کہ''جب بھی میں کسی بادشاہ سے ملوں گا تواسے نیکی کی دعوت دوں گااوربری باتوں سے منع کروں گا۔اوراسے اللہ عزوجل کی یاد ضروردلاؤں گا۔( چنانچہ خلیفہ کونصیحت کرکے میں نے اللہ عزوجل سے کیا ہوا اپناوعدہ پورا کیا ہے، کوئی برُا کام نہیں کیا)
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)))"
"حضرت سیدنافضیل بن عیاض علیہ رحمۃاللہ الوھّاب کی خلیفۃ المسلمین ہارون الرشید علیہ رحمۃ اللہ المجیدکو نصیحت
فضل بن ربیع کابیان ہے:''جب خلفیۃ المسلمین ہارون الرشیدعلیہ رحمۃاللہ المجیدحج ادا کرنے کے لئے مکۃالمکرمہ آئے، تو ان دنوں مَیں اپنے گھرہی میں موجود تھا۔اچانک مجھے اطلاع ملی کہ ہارون الرشیدعلیہ رحمۃاللہ المجید میرے پا س تشریف لارہے ہیں۔ اطلاع ملتے ہی میں فوراً حاضرخدمت ہو ااور عرض کی:''حضور!آپ رحمۃ اللہ تعا لیٰ علیہ نے کیوں زحمت فرمائی ، مجھے پیغام بھجوا دیا ہوتا میں خود ہی حاضرہوجاتا ۔''
خلیفہ ہارون الرشیدعلیہ رحمۃاللہ المجیدنے فرمایا:'' اے ابن ربیع ! میرے دل میں ایک بات کھٹک رہی ہے،تم جلدی سے مجھے کسی ایسے بزرگ کے پاس لے چلو جو میری مشکل کو آسان کر دے، کیا تمہاری نظرمیں کوئی ایسا شخص ہے؟''میں نے کہا:'' جی ہاں!حضرت سیدنا سفیان بن عیینہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مکہ مکرمہ میں موجود ہیں۔ ''خلیفہ نے کہا :''مجھے فوراً ان کے پاس لے چلو۔''
چنانچہ ہم ان کے گھر پہنچے اور میں نے دروازہ کھٹکھٹایا ۔اندرسے آوازآئی: ''کون ہے؟''میں نے کہا :''خلیفہ ہارون الرشیدعلیہ رحمۃاللہ المجید تشریف لائے ہیں۔ جلدی سے حاضرخدمت ہوجاؤ۔ہارون الرشید کانام سنتے ہی حضرت سیدنا سفیان بن عیینہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فوراًباہرآئے اور کہا:'' حضور! آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے تکلیف کیوں کی؟'' مجھے حکم نامہ بھیجا ہوتا میں خود ہی حاضر ہوجاتا۔''خلیفہ نے کہا :''اللہ عزوجل آپ پر رحم فرمائے۔ہم جس مقصد کے لئے آئے ہیں اس کے متعلق کچھ ارشاد فرمائیے۔'' پھرخلیفہ ہارون الرشید علیہ رحمۃاللہ المجیدنے ان کے سامنے اپنا مسئلہ پیش کیا اور دیرتک ان سے باتیں کرتے رہے۔
پھران سے پوچھا:'' کیا آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پر کسی کا قرض ہے؟'' کہا:''جی ہاں! میں مقروض ہوں۔'' خلیفہ نے فرمایا:'' اے عباس ! ان کا قرض ادا کر دینا۔''پھرآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مجھے لے کر وہاں سے آگے چل دیئے اور فرمایا: ''میں ان سے مطمئن نہیں ہو ا، مجھے کسی اور بزرگ کے پاس لے چلو۔''"
" میں نے عرض کی:''حضرت سیدنا عبدالرزاق ابن ہمام علیہ رحمۃاللہ المنّان کے پاس چلتے ہیں۔''فرمایا:''جلدی کرو،چنانچہ ہم ان کے گھرپہنچے اوردروازہ کھٹکھٹایا، اندرسے آواز آئی:'' کون ہے ؟''میں نے کہا:''جلدی باہر تشریف لائیے، خلیفہ ہارون الرشیدعلیہ رحمۃاللہ المجید آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے ملنے آئے ہیں۔'' یہ سنتے ہی حضرت سیدناعبدالرزاق ابن ہمام علیہ رحمۃاللہ المنّان باہر تشریف لائے ،اور کہنے لگے:'' حضور! آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کیوں زحمت فرمائی ، مجھے پیغام بھیجا ہوتا میں خود حاضر ہو جاتا۔'' خلیفہ نے کہا:'' اللہ عزوجل آپ پررحم فرمائے،ہم آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس ایک مقصد لے کر حاضر ہوئے ہیں، ہماری پریشانی دور فرمادیجئے۔''
پھرخلیفہ نے ان کے سامنے اپنا مسئلہ پیش کیا،اور کچھ دیران سے باتیں کرتے رہے۔پھرفرمایا:'' کیا تم پر کسی کا قرض ہے ؟'' انہوں نے جواب دیا:''جی ہاں۔'' خلیفہ نے کہا:'' اے عباس ان کا قرض ادا کردینا ۔''یہ کہہ کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ آگے بڑھے، اورمجھ سے فرمانے لگے:''ان کے پاس آنے سے بھی میرا مسئلہ حل نہیں ہوا، اے ابن ربیع ! مجھے کسی بہت کا مل بزرگ کی بارگاہ میں لے چلو۔''
میں نے عرض کی:'' حضور!اب ہم حضرت سیدنا فضیل بن عیاض علیہ رحمۃاللہ الوھاب کی بارگاہ میں چلتے ہیں ۔''(وہاں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسئلہ ضرورحل ہوجائے گا) خلیفہ ہارون الرشید علیہ رحمۃاللہ المجیدنے فرمایا: ''ٹھیک ہے ،انہیں کی بارگاہ چلتے ہیں۔''
چنانچہ ہم ان کے گھرپہنچے دیکھا تو وہ نماز میں مشغول تھے اوربار بار قرآن پاک کی کسی آیت کو پڑھ رہے تھے۔ میں نے دروازہ پردستک دی، اندرسے پوچھا گیا: ''کون ہے ؟''میں نے کہا:'' حضور!باہر تشریف لائیں،خلیفہ ہارون الرشیدعلیہ رحمۃاللہ المجید آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے ملناچاہتے ہیں۔''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جواب دیا: ''مجھے امیرالمؤمنین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے کیا غرض ؟ اورانہیں مجھ سے کیا کام ہے ؟''میں نے کہا:''سبحان اللہ عزوجل! کیا آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علی ہپرامیرکی اطا عت واجب نہیں؟ کیاآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضور نبی رحمت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی یہ حدیث پاک نہیں سنی کہ'' مؤمن کے لئے یہ جائز نہیں کہ اپنے آپ کو ذلت میں ڈالے۔''"
(جامع الترمذی، ابواب الفتن، باب لا یتعرض من البلاء لما لا یطیق، الحدیث:۲۲۵۴،ص۱۸۷۹)
فرمانِ مصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سنتے ہی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نیچے تشریف لے آئے اور چراغ بجھا دیا پھرکمرے کے ایک کونے میں جاکر چھپ گئے۔ ہم کمرے میں داخل ہوئے اورآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو ڈھونڈنے لگے ۔ اچانک خلیفہ ہارون الرشید علیہ رحمۃاللہ المجید کی ہتھیلی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے جسم سے لگی۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرمانے لگے:'' اے امیرالمؤمنین! رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ آپ کی ہتھیلی کتنی نرم ونازک ہے ،اے کاش! یہ جہنم کی آگ سے بچ جائے۔'' یہ سن کر میں نے دل میں کہا :'' آج آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
"خوب وعظ ونصیحت فرمائیں گے اور امیر المؤمنین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے (خوف خدا عزوجل) کے متعلق خوب کھل کر بات کریں گے۔ ''
پھر خلیفہ ہارو ن الرشید علیہ رحمۃ اللہ المجیدنے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے عرض کی: ''حضور! ہم آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بار گاہ میں ایک مسئلہ لے کر حاضر ہوئے ہیں، خدارا! ہمارا مسئلہ حل فر ما دیجئے تاکہ میرے بیقراردل کوقرار آ جائے۔''
توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' جب حضرت سیدنا عمربن عبدالعزیز علیہ رحمۃ اللہ العزیزخلیفہ بنے توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت سیدناسالم بن عبداللہ، حضرت سیدنا محمدبن کعب قرظی اورحضرت سیدنارجاء بن حیوٰۃ رحمھم اللہ تعالیٰ کو اپنے پاس بلایا اور ان سے کہنے لگے :''میں تو اس خلافت کی وجہ سے سخت مصیبت میں گر فتار ہوگیا ہوں، مجھے امورِ خلافت کے بارے میں کچھ مشورہ دیجئے۔''
پھرحضرت سیدنافضیل بن عیاض رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:''اے امیر المؤمنین!دیکھئے !حضرت سیدناعمربن عبدالعزیز علیہ رحمۃاللہ العزیز نے خلافت کو مصبیت سمجھا لیکن آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اورآپ کے ساتھی اسے نعمت سمجھتے ہیں۔''
اے امیرالمؤمنین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ!جب حضرت سیدناعمربن عبدالعزیز علیہ رحمۃاللہ العزیز نے ان حضرات سے مشورہ لیا توحضرت سیدنا سالم بن عبداللہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:''اے عمربن عبدالعزیز علیہ رحمۃاللہ العزیز ! اگر تو اللہ عزوجل کے عذاب سے بچنا چاہتا ہے تو مسلمانوں میں سے جو بزرگ ہیں، ان کی عزت اپنے باپ کی طرح کر، اورجودرمیانی عمرکے ہیں انہیں اپنے بھائیوں کی طرح جان،اورجوتجھ سے عمر میں چھوٹے ہیں انہیں اپنی اولاد کی طرح سمجھ ۔''
حضرت سیدنا رجاء بن حیوٰۃ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:''اے عمربن عبدالعزیز علیہ رحمۃاللہ العزیز !اگرتوعذابِ الٰہی عزوجل سے بچنا چاہتا ہے تومسلمانوں سے محبت کر، اوران کے لئے بھی وہی پسند کر جواپنے لئے پسند کرتا ہے تو دُنیا وآخرت میں مامون رہے گا ۔''
اس کے بعدحضرت سیدنافضیل بن عیاض علیہ رحمۃاللہ الوھاب نے فرمایا: ''اے خلیفہ! میں بھی تجھے سمجھا رہا ہوں اور میں تیرے بارے میں اس دن کی سختی سے شدید خوف زدہ ہوں ''جس دن قدم پھسل رہے ہوں گے۔'' ذرا سوچ! کیا وہاں تجھے کوئی مشورہ دینے والا ہوگا؟ کیا وہاں تیرے وزیر ،مشیرتیراساتھ دیں گے؟
؎ نہ بیلی ہوسکے بھائی، نہ بیٹا باپ تے مائی
توکیوں پھرتا ہے سودائی، عمل نے کام آناہے
یہ سن کر خلیفہ ہارون الرشیدعلیہ رحمۃاللہ العزیز اتنا رو ئے کہ ان پرغشی طاری ہو گئی۔ میں نے کہا :''حضور !خلیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پر کچھ نرمی فرمایئے ۔''توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا :''اے ربیع !میں ان پر نرمی ہی توکررہا ہوں جبھی تو ایسی باتیں کی ہیں۔ اے ابن ربیع ! حقیقت تو یہ ہے کہ تو اور تیرے دوستوں نے تو خلیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو بربادکردیا ہے۔"
" جب خلیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کوکچھ افاقہ ہو ا تو فرمایا:''اللہ عزوجل آپ پررحم فرمائے ،مجھے کچھ اور نصیحت فرمائیے ۔''
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا :اے امیر المؤمنین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ !مجھے خبر پہنچی ہے کہ حضرت سیدنا عمربن عبدالعزیزعلیہ رحمۃاللہ العزیز کے ایک گورنرنے شکایت کی تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اسے خط بھیجا جس میں لکھا تھا:
'' میں تجھے جہنمیوں کی اس شدید بے چینی وبے آرامی سے ڈراتا ہوں جو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہوگی۔ خبر دار!ایسے کاموں سے کوسوں دور بھاگنا جوتجھے اللہ عزوجل کی یادسے دور کردیں۔ یاد رکھ !آخری لمحات میں امید یں ختم ہوجائیں گی۔ ''
جب اس گو رنر نے یہ خط پڑھا تو فوراً حضرت سیدنا عمربن عبدالعزیز علیہ رحمۃاللہ العزیز کی طرف چل دیا۔جب وہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس پہنچا توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس سے پوچھا:'' تجھے کس چیزنے یہاں آنے پرمجبورکیا ؟''اس نے عرض کی:'' حضور! آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے خط نے میرا دل پارہ پارہ کر دیا ہے ،اب میں کبھی بھی گورنر کا عہدہ قبول نہیں کروں گا یہاں تک کہ مجھے موت آجائے۔'' یہ سن کر خلیفہ ہارون الرشید علیہ رحمۃاللہ المجیدپھرزورزورسے رونے لگے ،اورفرمایا: اے فضیل بن عیاض رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ !اللہ عزوجل آپ پر رحم فرمائے،مزیدکچھ نصیحت فرمائیے۔''
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:''اے امیرالمؤمنین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ!جب ہمارے پیارے آقا، دو عالم کے داتا صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے پیارے چچاحضرت سیدناعباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہ میں عرض کی:''یا رسول اللہ عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم مجھے کسی شہر کا حاکم بنا دیں تو حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے فرمایا: ''بے شک امارت (یعنی حکومت) حسرت وندامت ہے ، اگرتجھ سے ہوسکے تو کبھی بھی (کسی پر)امیرنہ بننا ۔''"
" (سنن النسائی،کتاب آداب القضاۃ، باب النھی عن مسألۃ الامارۃ، الحدیث:۵۳۸۷،ص۲۴۳۱)
(حلیۃ الاولیاء، الفضیل بن عیاض، الحدیث:۱۱۵۳۶، ج۸، ص۱۰۹)"
" خلیفہ ہارون الرشید علیہ رحمۃاللہ المجیدیہ سن کر پھررونے لگے، اور عرض کی: ''اللہ عزوجل آپ پر رحم فرمائے، مزید کچھ ارشاد فرمائیں ۔''
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' اے حسین وجمیل چہرے والے! یاد رکھ! کل بروز ِقیامت اللہ عزوجل تجھ سے مخلوق کے بارے میں سوال کریگا ۔اگر تو چاہتا ہے کہ تیرا یہ خو بصورت چہرہ جہنم کی آگ سے بچ جائے تو کبھی بھی صبح یاشام اس حال میں نہ کرناکہ تیرے دل میں کسی مسلمان کے متعلق کینہ یا عداوت ہو۔ بے شک رسول اللہ عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:''جس نے اس حال میں صبح کی کہ وہ کینہ پرورہے تو وہ جنت کی خوشبو نہ سونگھ سکے گا۔''"
(حلیۃ الاولیاء، الفضیل بن عیاض، الحدیث۱۱۵۳۶،ج۸،ص۱۱۰)
خلیفہ ہارون الرشیدعلیہ رحمۃاللہ المجید رونے لگے ،اور عرض کی :''حضور! آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پرکسی کا کوئی قرض وغیرہ ہے ؟ ''
توآپ نے فرمایا:'' جی ہاں! میرے پروردگار عزوجل کا مجھ پر قرض ہے ، لیکن اس نے ابھی تک میرا محاسبہ نہ کیا۔ اگر اس نے مجھ سے سوال کرلیایا میرا حساب لے لیا تو میرے لئے ہلاکت ہوگی ، اوراگر مجھے جواب دینے کی تو فیق نہ دی گئی تو میری تباہی وبر بادی ہے۔'' خلیفہ نے کہا :''حضور! میری مراد یہ ہے کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پر کسی بندے کا توکوئی قرض وغیرہ نہیں ؟''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' میرے رب عزوجل نے مجھے اس کا حکم نہیں دیا۔بے شک مجھے تو یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں اس کی اطاعت کرو ں، اور اس کا مخلص بندہ بن جاؤں ۔'' اللہ عزوجل ارشاد فرماتاہے:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنۡسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوۡنِ ﴿56﴾مَاۤ اُرِیۡدُ مِنْہُمۡ مِّنۡ رِّزْقٍ وَّ مَاۤ اُرِیۡدُ اَنۡ یُّطْعِمُوۡنِ ﴿57﴾ اِنَّ اللہَ ہُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّۃِ الْمَتِیۡنُ ﴿58﴾ (پ 27،الذٰریٰت : 56تا8 5 )
"ترجمہ کنزالایمان:اورمیں نے جنّ اور آدمی اتنے ہی لئے بنائے کہ میری بندگی کریں۔ میں ان سے کچھ رزق نہیں مانگتااورنہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھانادیں۔بے شک اللہ ہی بڑا رزق دینے والا،قوت والا،قدرت والا ہے۔
حضرت سیدنا فضیل بن عیاض علیہ رحمۃاللہ الوھاب کی نصیحت آموز باتیں سن کرخلیفہ ہارون الرشید علیہ رحمۃ اللہ المجید کے دل پر بہت گہرااثر ہوا۔پھر خلیفہ نے ایک ہزار دینار آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو دیتے ہوئے عرض کی:'' حضور! یہ حقیر سا نذرانہ قبول فرمالیں، انہیں اپنے اہل وعیال پر خرچ کریں اور ان کے ذریعے عبادت پر قوت حاصل کریں۔''
یہ سن کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' سبحان اللہ عزوجل! میں تجھے نجات کا راستہ بتارہاہوں اور تو اس کے صلہ میں مجھے یہ( حقیر) دولت دے رہاہے۔اللہ عزوجل تجھے نیک اعمال کی تو فیق دے،اورتجھے سلامت رکھے۔ ''
ٍ پھرآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ خاموش ہوگئے ، اور ہم سے کوئی کلام نہ فرمایا۔ فضل بن ربیع کہتے ہیں: پھر ہم آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس سے اٹھ کر چلے آئے۔جب ہم دروازے پر پہنچے توخلیفہ ہارون الرشید علیہ رحمۃ اللہ المجید نے مجھ سے کہا :''اے عباس !جب بھی مجھے کسی کے پاس لے جانا چاہو تو ایسے ہی پاکباز اولیاء کرا م کے پاس لے جایا کرو،بے شک ایسے لوگ ہی مسلمانوں کے سردار ہیں ۔''
ابھی ہم یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ حضرت سیدنا فضیل بن عیاض علیہ رحمۃاللہ الوھاب کے اہلِ خانہ میں سے ایک عورت آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس آئی اور کہنے لگی: '' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جانتے ہی ہیں کہ ہم کیسے تنگ حالات میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اگر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہوہ رقم قبول کرلیتے تو اس میں کیا حرج تھا،ہمارے حالات کچھ بہتر ہوجاتے۔'' تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس عورت سے فرمایا: ''میری اور تم لوگو ں کی مثال اس قوم کی سی ہے کہ جن کے پاس اونٹ ہو اور وہ اس کے ذریعے روزی"
"حاصل کرتے ہوں پھرجب وہ اونٹ بوڑھا ہوجائے تو اسے ذبح کر لیں، اور اس کا گو شت کھالیں ۔ خلیفہ ہارو ن الرشید علیہ رحمۃ اللہ المجید نے جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی گفتگو سنی تو مجھ سے کہا :''آؤ! ہم دوبارہ انہیں مال پیش کرتے ہیں، شاید! اب قبول فرما لیں ۔''
جب حضرت سیدنا فضیل بن عیاض رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے دیکھا کہ ہم دوبارہ آرہے ہیں توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وہاں سے اٹھے اور جاکر چھت پر بیٹھ گئے ۔''
خلیفہ ہارون الرشید علیہ رحمۃاللہ المجید بھی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس چھت پر پہنچ گئے، اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ساتھ ہی زمین پر بیٹھ گئے۔پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے گفتگو کرنا چاہی مگر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ خاموش رہے اور کوئی جواب نہ دیا۔
اتنی دیر میں ایک سیاہ فام لونڈی آئی ۔اور کہنے لگی:'' آپ لوگ ساری رات انہیں تنگ کرتے رہے ہیں ،خدارا! اب آپ یہاں سے تشریف لے جائیں،اللہ عزوجل آپ پر رحم فرمائے ۔''چنانچہ ہم وہاں سے واپس پلٹ آئے ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)))"
" فضل بن ربیع کا بیان ہے :''میں ایک مرتبہ سفرحج میں خلیفہ ہارو ن الرشیدعلیہ رحمۃاللہ المجیدکے ساتھ تھا۔ واپسی پرجب ہمارا گزر ''کوفہ'' سے ہوا تودیکھا کہ حضرت سیدنابہلول دانا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ایک جگہ کھڑے ہیں اوربہت بلندآواز سے چیخ رہے ہیں۔ میں نے ان سے کہا:'' خاموش ہو جائیے۔'' خلیفۃ المسلمین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تشریف لارہے ہیں۔ یہ سن کر وہ خاموش ہو گئے۔ پھرجب خلیفہ ہارو ن الرشیدعلیہ رحمۃاللہ المجیدکی سواری قریب آئی توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے زورسے کہا: ''اے امیرالمؤمنین(رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) ! ذرا میری بات سنئے۔'' خلیفہ نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی آوازسنی تو رک گئے۔
حضرت سیدنابہلول دانا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' اے امیرالمؤمنین (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)!مجھے'' ایمن بن نایل''رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حدیث سنائی کہ حضرت سیدنا قدامہ بن عبداللہ عامری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ''میں نے رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّمکو''وادیئ منیٰ''میں دیکھا کہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ایک سادے سے کجاوے میں تشریف فرماتھے اور وہاں نہ مارنا تھا، نہ اِدھر اُدھر ہٹانا تھا اورنہ ہی یہ کہ ایک طرف ہو جاؤ ۔''"
(جامع الترمذی، ابواب الحج، باب ماجاء فی کراھیۃ طرد الناس...الخ، الحدیث:۹۰۳،ص۱۷۳۷)
؎ تیری سادگی پہ لاکھوں تیری عاجزی پہ لاکھوں ہوں سلام عاجزانہ مدنی مدینے والے ا!
" فضل بن ربیع کا بیان ہے :میں نے امیر المؤمنین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے کہا:'' حضور! یہ بہلول دیوانہ ہے۔''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا :''میں انہیں جانتا ہوں، پھرکہا :''اے بہلول(رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) ! مجھے کچھ اور نصیحت کرو۔''چنانچہ انہوں نے یہ دو عربی اشعار پڑھے، جن کا مفہوم یہ ہے :
ترجمہ:(۱)۔۔۔۔۔۔(بالفر ض ) اگرتجھے ساری دنیا کی حکومت مل جائے اور تمام لو گ تیرے مطیع وفرمانبردار بن جائیں ،
(۲)۔۔۔۔۔۔پھر بھی کیا تیرا آخری ٹھکانا تنگ وتا ریک قبر نہیں؟(یعنی تیرے مرنے کے بعد) لوگ باری باری تجھ پر مٹی ڈالیں گے ۔
یہ سن کر خلیفہ ہارو ن الرشید علیہ رحمۃاللہ المجیدنے کہا:''اے بہلول رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ! آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حق بات کو پہچا ن لیا،مجھے کچھ اور نصیحت فرما یئے۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' اے امیر المؤمنین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ!اللہ عزوجل نے جس کو حسن وجمال اور مال دیا، پھر اس نے اپنے آپ کو گناہوں سے محفوظ رکھا اور اپنے مال کو اللہ عزوجل کی راہ میں خرچ کیا تو اس کا نام نیک لوگو ں میں لکھ دیا جاتا ہے ۔''
فضل بن ربیع کابیان ہے :یہ گفتگوسن کرخلیفہ ہارون الرشیدعلیہ رحمۃاللہ المجید سمجھے کہ شاید یہ کچھ مال وغیرہ طلب کر رہے ہيں لہٰذاان سے کہنے لگے :'' اے بہلول رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ! اگر آپ پر کسی کا قرض وغیرہ ہو تو وہ میں ادا کر دوں گا ۔''تو انہوں نے فرمایا: '' اے امیر المؤمنین!رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ! ایسا ہرگزنہ کر۔ کیا تو قر ض کو قر ض کے بد لے ادا کرنا چاہتا ہے ؟ جا اور جاکر حق داروں کو ان کا حق ادا کر۔ اورپہلے اپنے نفس کا قرض اتار ۔بے شک تیرے پاس ایک ہی زندگی ہے۔جب تو مر جائے گاتوپھردوبارہ دنیامیں نہ بھیجاجائے گا۔''پھرامیرالمؤمنین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کہا: '' اے بہلول رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ! میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے لئے کچھ وظیفہ مقرر کرنا چاہتا ہوں۔''تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' اے امیر المؤمنین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ! ایسا ہرگز نہ کر ۔ مجھے میرا اجر و ہی پروردگار عز وجل دے گا جو تجھے نواز تا ہے ، ایسا ہرگزنہیں ہوسکتا کہ میرا پروردگار عزوجل تجھے تو رزق دے ،اور مجھے میرے رزق سے محروم رکھے۔'' اتنا کہنے کے بعد آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ یہ اشعار پڑھتے ہوئے واپس پلٹ گئے:"
" ؎ تَوَکَّلْتُ عَلَی اللہِ وَمَااَرْجُوْ سِوَی اللہِ
وَمَا الرِّزْقُ مِنَ النَّاسِ بَلِ الرِّزْقُ عَلَی اللہِ"
" ترجمہ : میں نے اللہ عزوجل پربھروسہ کیا اور میں اس کے سوا کسی او ر سے امید نہیں رکھتا لوگوں کے پاس رزق نہیں بلکہ رزق کے خزانے تو اللہ عزوجل ہی کے پاس ہیں۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)))"
" حضرت سیدنا ابو جہم بن حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:'' غزوہ یرموک کے دن میں اپنے چچا زاد بھائی کو تلاش کر رہا تھا اور میرے پاس ایک بر تن میں پانی تھا۔ میرا یہ ارادہ تھا کہ میں زخمیوں کو پانی پلاؤں گا ۔اتنی ہی دیر میں مجھے میرے چچا زاد بھائی نظر آئے۔میں ان کی طر ف لپکا دیکھاتو وہ زخموں سے چُورچُوراور خون میں لت پت تھے، میں نے ان کے چہرے سے خون صاف کیا اور پوچھا :'' کیا تم پانی پیؤ گے؟'' انہوں نے گردن کے اشارے سے ہاں کی تو میں نے پانی کا پیالہ ان کی طرف بڑھا دیا ۔
ابھی انہوں نے برتن منہ کے قریب ہی کیا تھاکہ اچانک کسی زخمی کے کراہنے کی آواز آئی ، فوراً پیالہ میری طر ف بڑھایا اور کہا: ''جاؤ، پہلے اس زخمی کو پانی پلاؤ۔'' میں دوڑ کر وہاں پہنچا تو دیکھا کہ وہ حضرت سیدنا عمر و بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھائی حضرت سیدنا ہشام بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے ۔ میں نے ان سے پوچھا :''کیا تم پانی پینا چاہتے ہو؟ ''انہوں نے اثبات میں سر ہلایا۔ میں نے ان کو پانی دیا ۔اتنے میں ایک اور زخمی کی آواز آئی ، تو انہوں نے فرمایا :''جاؤ ،پہلے میرے اس زخمی بھائی کو پانی پلاؤ۔'' میں دوڑ کر وہاں پہنچا تووہ بھی جامِ شہادت نوش فرما چکے تھے،میں واپس حضرت سیدنا ہشام بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پا س آیا تو وہ بھی اپنے خالقِ حقیقی عزوجل کی بارگاہ میں جا چکے تھے۔ پھر میں اپنے چچا زاد بھائی کے پاس آیا تووہ بھی واصلِ بحق ہو چکے تھے۔
امام واقدی اور حضرت سیدنا ابن الا عرابی ر حمہمااللہ تعالیٰ سے مروی ہے :'' حضرت سیدنا عکرمہ بن ابو جہلرضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب پانی دیا گیا تو انہوں نے دیکھا کہ حضرت سیدنا سہل بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی شدید پیاس میں مبتلا ہیں اور ان کی طر ف دیکھ رہے ہیں تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پانی نہ پیا، اور فرمایا: ''جاؤ، پہلے میرے بھائی کو پانی پلاؤ۔''
جب ان کو پانی دیا گیا توانہوں نے دیکھا کہ حضرت سیدنا حارث بن ہشام رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی شدید زخمی حالت میں ہیں،اورشدّتِ پیاس کی وجہ سے ان کی طرف دیکھ رہے ہیں تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:'' جاؤ،پہلے میرے بھائی کو پانی پلاؤ ، جب ان کے پاس پہنچے تووہ بھی دم تو ڑ چکے تھے۔دوبارہ جب حضرت سیدناسہل بن حارث اور حضرت سیدناعکرمہ بن ابو جہل رضی اللہ تعالیٰ عنہماکے پاس گئے تووہ بھی جاں بحق ہو چکے تھے۔
حضرت سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب ان کے پاس سے گزرے تو ارشادفرمایا:''تم جیسے عظیم لوگو ں پر میری جان قربان ہو ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدنا یزید بن میسرہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:''ہم سے پہلی امتوں میں ایک شخص تھا جس نے بہت زیادہ مال ومتا ع جمع کیا ہوا تھا ،اور اس کی اولاد بھی کافی تھی ، طر ح طر ح کی نعمتیں اسے میسر تھیں، کثیر مال ہونے کے باوجود وہ انتہائی کنجوس تھا۔اللہ عزوجل کی راہ میں کچھ بھی خرچ نہ کرتا ، ہر وقت اسی کوشش میں رہتا کہ کسی طر ح میری دولت میں اضافہ ہوجائے۔جب وہ بہت زیادہ مال جمع کر چکا تو اپنے آپ سے کہنے لگا :''اب تو میں خوب عیش و عشرت کی زندگی گزار وں گا ۔چنا نچہ وہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ خوب عیش وعشرت سے رہنے لگا۔
بہت سے خُدّام ہر وقت ہاتھ باندھے اس کے حکم کے منتظر رہتے،الغر ض! وہ ان دنیاوی آسائشوں میں ایسا مگن ہوا کہ اپنی موت کو بالکل بھول گیا۔ ایک دن ملک الموت حضرت سیدناعزرا ئیل علیہ السلام ایک فقیر کی صورت میں اس کے گھر آئے، اور دروازہ کھٹکھٹا یا۔ غلام فوراً دروازے کی طر ف دوڑے، اور جیسے ہی دروازہ کھولا تو سامنے ایک فقیر کو پایا، اُس سے پوچھا:'' تویہاں کس لئے آیاہے؟''ملک الموت علیہ السلام نے جواب دیا : '' جاؤ، اپنے مالک کو باہر بھیجو مجھے اُسی سے کام ہے ۔''
خادموں نے جھوٹ بولتے ہوئے کہا:''وہ تو تیرے ہی جیسے کسی فقیر کی مدد کرنے باہر گئے ہیں۔'' حضرت سیدنا ملک الموت علیہ السلام یہ سن کر وہاں سے چلے گئے۔ ''کچھ دیر بعد دوبارہ آئے اور دروازہ کھٹکھٹایا، غلام باہر آئے تو ان سے کہا:'' جاؤ، اور اپنے آقا سے کہو: مَیں ملک الموت علیہ السلام ہوں۔''
جب اس مالدار شخص نے یہ بات سنی تو بہت خوف زدہ ہوا اور اپنے غلاموں سے کہا:'' جاؤ، اور ان سے بہت نرمی سے گفتگو کرو۔'' خدام باہر آئے اور حضرت سیدنا ملک الموت علیہ السلام سے کہنے لگے:''آپ ہمارے آقا کے بدلے کسی اور کی رو ح قبض کرلیں اور اسے چھوڑدیں، اللہ عزوجل آپ کو بر کتیں عطا فرمائے ۔''
حضرت سیدناملک الموت علیہ السلام نے فرمایا:''ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا۔''پھر ملک الموت علیہ السلام اندر تشریف لے گئے،اور اس مالدار شخص سے کہا:'' تجھے جو وصیت کرنی ہے کرلے، میں تیری روح قبض کئے بغیر یہاں سے نہیں جاؤں گا ۔''
یہ سن کر سب گھر والے چیخ اُٹھے ، اور رو نا دھونا شروع کردیا ، اس شخص نے اپنے گھر والوں اور غلاموں سے کہا:''سونے چاندی سے بھرے ہوئے صندو ق اور تابوت کھول دو، اور میری تمام دولت میرے سامنے لے آؤ۔'' فوراََ حکم کی تعمیل ہوئی ،او ر سارا خزانہ اس کے قدموں میں ڈھیر کردیا گیا ۔ وہ شخص سونے چاندی کے ڈھیر کے پاس آیا اور کہنے لگا: ''اے ذلیل وبد تر ین مال! تجھ پر لعنت ہو ، تو نے ہی مجھے پرور دگار عزوجل کے ذکر سے غافل رکھا ، تو نے ہی مجھے آخرت کی تیاری سے روکے رکھا ۔''"
" یہ سن کر وہ مال اس سے کہنے لگا:'' تو مجھے ملامت نہ کر ، کیا تو وہی نہیں کہ دنیاداروں کی نظروں میں حقیر تھا؟ میں نے تیری عزت بڑھائی۔ میری ہی وجہ سے تیری رسائی بادشاہوں کے دربار تک ہوئی ورنہ غریب ونیک لوگ تو وہاں تک پہنچ ہی نہیں سکتے، میری ہی وجہ سے تیرا نکاح شہزادیوں اور امیر زادیوں سے ہوا۔ ورنہ غریب لوگ ان سے کہا ں شادی کر سکتے ہیں۔ اب یہ تو تیری بدبختی ہے کہ تو نے مجھے شیطانی کاموں میں خرچ کیا ۔اگر تو مجھے اللہ عزوجل کے کاموں میں خرچ کرتا تو یہ ذلت ورسوائی تیرا مقدر نہ بنتی۔کیا میں نے تجھ سے کہا تھا کہ تو مجھے نیک کاموں میں خرچ نہ کر؟ آج کے دن میں نہیں بلکہ تو زیادہ ملامت ولعنت کا مستحق ہے ۔''
اے ابن آدم !بے شک میں اورتُودونوں ہی مٹی سے پیدا کئے گئے ہیں ۔ پس بہت سے لوگ ایسے ہیں جونیکی کی راہ پرگامزن ہیں اور بہت سے گناہوں میں مستغرق ہیں۔( امام ابن جوزی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں :)''گویا مال ہر شخص سے اسی طرح کہتا ہے، لہٰذا مال کی برائیوں سے بچ کر رہواور اسے نیک کاموں میں خرچ کرو۔''"
" حضرت سیدنا عبدالرحمن بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں :'' پہلی اُمتو ں میں ایک بادشاہ تھا ۔ خوب شان وشوکت سے اس کے دن رات گزر رہے تھے۔ ایک دن اس کی قسمت کا ستارہ چمکا اور وہ اپنی آخرت کے بارے میں غور وفکر کرنے لگا، اور سوچنے لگا کہ میں جن دنیاوی آسائشو ں میں گم ہو کر اپنے رب عزوجل کو بھول چکاہوں عنقریب یہ ساری نعمتیں مجھ سے منقطع ہوجائیں گی، میری حکومت وباد شاہت نے تو مجھے اپنے پاک پروردگار عزوجل کی عبادت سے غافل کر رکھا ہے ۔
چنانچہ وہ رات کی تا ریکی میں اپنے محل سے نکلا،اور ساری رات تیزی سے سفر کرتا رہا۔ جب صبح ہوئی تو وہ اپنے ملک کی سر حد عبور کر چکا تھا۔ اس نے ساحلِ سمند ر کا رخ کیا اور وہیں رہنے لگا۔وہاں وہ اینٹیں بنابنا کر بیچتا،جو رقم حاصل ہوتی اس"
"میں سے کچھ اپنے خر چ کے لئے رکھ لیتااور باقی سب صدقہ کر دیتا۔
اسی حالت میں اسے کافی عرصہ گزر گیا۔ بالآخر اس کی خبراس ملک کے بادشاہ کو ہوئی ،تو اس بادشاہ نے پیغام بھیجا:'' مجھ سے آکرملو۔''لیکن اس نے انکار کر دیا، اور بادشاہ کے پاس نہ گیا ۔ بادشاہ نے پھر اپنا قاصد بھیجااور اسے اپنے پاس بلوایا اس نے پھر انکار کر دیا، اور کہا:'' بادشاہ کو مجھ سے کیا غرض ،اور مجھے بادشاہ سے کیا کام کہ میں اس کے پاس جاؤں ۔''
جب بادشاہ کو یہ بتایا گیا تو وہ خود گھوڑے پر سوار ہو کر ساحلِ سمندر پر آیا۔ جب اس نیک شخص نے دیکھا کہ بادشاہ میری طرف آرہا ہے تواس نے ایک طر ف دوڑ لگا دی۔ بادشاہ نے جب اسے بھاگتے دیکھا تو وہ بھی اس کے پیچھے پیچھے بھاگنے لگا لیکن وہ بادشاہ کی نظروں سے اوجھل ہوگیا ۔ جب بادشاہ اسے نہ ڈھونڈ سکا تو بلند آواز سے کہا:''اے اللہ عزوجل کے بندے !میں تجھ سے کچھ بھی نہیں کہوں گا، تو مجھ سے خوف زدہ نہ ہو (میں تجھ سے ملا قات کرنا چاہتا ہوں )۔''
جب اس نیک شخص نے یہ سنا تو وہ بادشاہ کے سامنے آگیا ۔ بادشاہ نے اس سے کہا:'' اللہ عزوجل تجھے بر کتیں عطا فرمائے، تو کون ہے ؟ اور کہاں سے آیا ہے ؟'' اس نے اپنا نام بتا یا اور کہا :'' میں فلاں ملک کا بادشاہ تھا ، جب میں نے غور وفکر کیا تومجھے معلوم ہوا کہ میں جس دنیا کی دولت میں مست ہوں، یہ تو عنقریب فنا ہوجائے گی،اور اس دولت وحکومت نے تو مجھے غفلت کی نیند سلارکھا ہے۔
؎وہ ہے عیش وعشرت کا کوئی محل بھی جہاں تاک میں ہر گھڑی ہو اجل بھی
بس اب اپنے اس جہل سے تو نکل بھی یہ جینے کا انداز اپنا بدل بھی
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے
چنانچہ میں نے اپنے تمام سابقہ گناہوں سے توبہ کی اور تمام دنیاوی آسائشوں کو چھوڑکر دنیا سے الگ تھلگ اپنے رب عزوجل کی عبادت شروع کردی، اللہ عزوجل میری اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول ومنظور فرمائے۔ جب بادشاہ نے یہ سنا،تو کہنے لگا: ''میرے بھائی !جو کچھ تو نے کیا میں تو تجھ سے زیادہ اس کا حق دار ہوں۔یہ کہتے ہوئے وہ گھوڑے سے اتر ا ،اور اسے وہیں چھوڑ کر اس نیک شخص کے ساتھ چل دیا۔
چنانچہ وہ دونوں بادشاہ ایک ساتھ رہنے لگے،اور اب وہ ہر وقت اپنے رب عزوجل کی عبادت میں مصروف رہتے ، اور انہوں نے دعا کی:'' اے ہمارے پرور دگار عزوجل! ہمیں ایک ساتھ موت دینا ۔'' چنا نچہ ان دونوں کا ایک ہی دن انتقال ہوا اور ان کی قبر یں بھی ایک ساتھ ہی بنائی گئیں۔
یہ حکایت نقل کرنے کے بعد حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :''اگر میں مصر میں ہوتا تو ان کی قبروں کی جونشانیاں ہمیں اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہ ٌعَنِ الْعُیوب عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے بتائی ہیں مَیں"
ان کی وجہ سے انہیں ضرور پہچان لیتا اور تمہیں وہ قبریں ضرور دکھا تا۔''
(المسند للامام احمد بن حنبل، مسند عبد اﷲ بن مسعود، الحدیث: ۴۳۱۲، ج۲، ص۶۶ا۔۱۶۷)
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)
" حضرت سیدناکمیل بن زیاد رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:''ایک مرتبہ امیر المؤمنین حضرت سیدنا علی المرتضی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے میرا ہاتھ پکڑ ا اور مجھے جنگل کی طر ف لے گئے ۔ پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک جگہ بیٹھ گئے اور ایک آہِ سرد بھر کر فرمایا: ''اے کمیل(رضی اللہ تعالیٰ عنہ)!یہ دل بر تنوں کی مانند ہیں، ا ن میں سب سے بہتر وہ ہے جو سب سے زیادہ نصیحت قبول کرنے والا ہو۔ لہٰذا میں تجھے جو نصیحتیں کرو ں انہیں اچھی طر ح یاد رکھنا پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہنے فرمایا :''اے کمیل(رضی اللہ تعالیٰ عنہ)!لوگ تین طر ح کے ہیں :
(۱) عالم ربانی
(۲) راہ نجات(یعنی دین ) کے طلب گار
(۳) بیوقوف وکمتر لوگ :جو ہر بلانے والے کی بات پر کان دھریں ، ہر ہواکی طر ف جھک جائیں، علم کے نور سے کبھی منور نہ ہوئے ہوں ، اور نہ ہی کسی مضبو ط شئے کو پناہ گاہ بنایا ہو۔
اے کمیل(رضی اللہ تعالیٰ عنہ)! علم مال ودولت سے بہتر ہے کیونکہ علم تیری حفاظت کرتا ہے جبکہ مال کی حفاظت تجھے کرنی پڑتی ہے، مال خرچ کر نے سے کم ہوتا ہے جبکہ علم خر چ کرنے سے بڑھتا ہے ،علم حاکم ہے اور مال محکوم ۔
اے کمیل(رضی اللہ تعالیٰ عنہ)! عالم کی محبت دین ہے اوراس محبت کی وجہ سے بہت بڑا اجردیاجائے گا۔علم دنیاوی زندگی میں عالم کونیک اعمال کی ترغیب دلاتاہے اوراس کی وفات کے بعداس کابہترین سرمایہ ہے جبکہ مال سے ملنے والی آسائشیں اس مال کے ساتھ ہی ختم ہوجاتی ہیں ۔
اے کمیل بن زیاد(رضی اللہ تعالیٰ عنہ)! بڑے بڑے مال دار زندہ ہونے کے با وجود مُردوں کی طر ح ہیں، علماء کرام اگرچہ دنیا سے پر دہ کر چکے لیکن جب تک زمانہ باقی ہے تب تک وہ باقی رہیں گے ، ان کی آنکھیں اگر چہ بند ہوگئیں لیکن ان کی عظمت اورشان وشوکت آج بھی دلوں میں زندہ و باقی ہے۔"
" پھر حضرت سیدنا علی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے اپنے سینے کی طر ف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:''افسوس !یہاں علم تو بہت جمع ہے، کا ش! مجھے کوئی اس کا اہل مل جائے تاکہ میں سارا علم اسے دے دوں، پھر فرمایا :''ہاں! میری کچھ لوگو ں سے ملاقات ہوئی لیکن میں ان سے مطمئن نہ ہوا ، وہ دین کو دنیا کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں اور اللہ عزوجل کی نعمتو ں کے ذریعے اس کے بندوں پر بڑھائی چاہتے ہیں،اوراپنے دلائل کے ذریعے اللہ عزوجل کی تقدیر پر غالب آنا چاہتے ہیں ۔ کچھ لوگ ایسے ملے جو اہلِ حق کے فرمانبر دار تو ہیں لیکن ان میں بصیرت وحکمت نہیں، تھوڑے سے شک وشبہ سے ان کا دل ڈگمگاجاتا ہے ، نہ اِدھر کے نہ اُدھر کے ، بس خواہشات نفسانیہ کے پیچھے پڑے ہیں ، ہر وقت مال ودولت جمع کرنے میں مگن ہیں ۔دین کے مبلغین سے انہیں کوئی غرض نہیں ، ایسے ہی لوگ ہیں جو چو پایوں کی طر ح ہیں۔ اسی طرح اہل علم کے اٹھنے سے علم بھی اٹھتا جارہاہے ۔
لیکن دنیا میں ہروقت ایسے لوگ بھی موجود رہتے ہیں جو اللہ عزوجل کی حدو د کو قائم کرنے والے ہیں تا کہ اللہ عزوجل کی نشانیا ں بالکل معدو م نہ ہوجائیں۔ ان میں سے کچھ تو مشہور ومعرو ف ہوتے ہیں اور کچھ پوشیدہ ۔ لیکن ایسے لوگ بہت کم ہیں ، ایسے لوگو ں کی اللہ عزوجل کے ہاں بہت قدرو منزلت ہے، انہیں کے ذریعے اللہ عزوجل اپنی نشانیوں کی حفاظت فرماتا ہے ۔یہاں تک کہ یہ لوگ اللہ عزوجل کی ان نشانیوں کو اپنے جیسے لوگو ں تک پہنچا دیتے ہیں اور ان کے دلوں میں یہ نشانیاں اچھی طر ح راسخ کردیتے ہیں ، علم نے انہیں واضح حقیقت پر کھڑا کردیا پھر وہ راستے جو (دنیا دارو ں ) کے لئے مشکل تھے ان کے لئے آسان ہو جاتے ہیں۔اورجن چیزوں سے جاہل لوگ خوف زدہ ہوتے ہیں یہ لوگ(یعنی علماء ربانی ) ان سے بالکل نہیں ڈرتے ۔
اہل علم دنیا میں ایسے رہتے ہیں کہ ان کے بدن تودنیامیں ہوتے ہیں مگر ان کی روحیں ملاء اعلیٰ میں ہوتی ہیں۔
اے کمیل بن زیاد(رضی اللہ تعالیٰ عنہ)! ایسے لوگ ہی زمین میں اللہ عزوجل کے خلیفہ ہیں اور اس کے دین کے مبلغ ہیں۔ ہائے !ہائے! میں ایسوں کو دیکھنے کا کتنا مشتا ق ہوں ۔
(اللہ عزوجل میری اور تمہاری مغفرت فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدنا ابراہیم بن بشار علیہ رحمۃاللہ الغفار فرماتے ہیں:'' ایک مرتبہ میں حضرت سیدنا ابراہیم بن ادہم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم کے ساتھ تھا۔ ہم ایک صحراء میں پہنچے ،وہاں ایک اونچی قبر تھی۔ حضرت سیدنا ابراہیم بن ادہم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم اس قبر کو دیکھ کر رونے لگے۔
مَیں نے پوچھا :''حضور!یہ کس کی قبر ہے ؟''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:''یہ حمید بن جابر علیہ رحمۃاللہ القادر کی قبر ہے جو کہ ان تمام شہرو ں کے حاکم تھے ، پہلے یہ دنیاوی دولت کے سمندر میں غر ق تھے ، پھر اللہ عزوجل نے انہیں ہدایت عطا فرمائی (اور ان کا شمار اللہ عزوجل کے نیک بندو ں میں ہونے لگا )
مجھے ان کے متعلق خبر ملی ہے کہ ایک رات یہ اپنی لہو ولعب کی محفل میں مست تھے، دنیا کی دولت و آسائش کے دھوکے میں تھے ،جب کافی رات بیت گئی تو اپنی سب سے زیادہ محبوب اہلیہ کے ساتھ خواب گاہ میں گئے اور خواب خرگو ش کے مزے لینے لگے۔ اسی رات انہوں نے خواب دیکھا کہ ایک شخص اپنے ہاتھ میں ایک کتاب لئے ان کے سر ہانے کھڑا ہے ، انہوں نے اس سے وہ کتاب طلب کی اور اسے کھولا تو سنہری حروف میں یہ عبارت لکھی ہوئی تھی: ''باقی رہنے والی اشیاء پر فانی چیزوں کو تر جیح نہ دے۔ '' اپنی بادشاہی،اپنی طاقت،اپنے خدام اوراپنی نفسانی خواہشات سے ہر گز دھوکا نہ کھا،اور اپنے آپ کو دنیا میں طاقتو ر نہ سمجھ، اصل طاقتورذات تو وہ ہے کہ جو معدوم نہ ہو۔اصل بادشاہی تو وہ ہے جسے زوال نہ ہو، حقیقی خوشی وفرحت تو وہ ہے جو بغیر لہو ولعب کے حاصل ہو۔'' لہٰذا اپنے رب عزوجل کے حکم کی طر ف جلدی کر۔ بے شک اللہ عزوجل فرماتا ہے:"
وَسَارِعُوۡۤا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُہَا السَّمٰوٰتُ وَالۡاَرْضُ ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیۡنَ ﴿133﴾
"ترجمہ کنزالایمان:اوردوڑواپنے رب کی بخشش اور ایسی جنت کی طرف جس کی چوڑان میں سب آسمان وزمین آجائیں پرہیزگاروں کے لئے تیاررکھی ہے۔(پ4،اٰل عمران:133)
حضرت سیدنا ابراہیم بن ادہم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم فرماتے ہیں :''پھر ان کی آنکھ کھل گئی ۔وہ بہت خوفزدہ تھے۔ پھر کہنے لگے: ''یہ (خواب) اللہ عزوجل کی طر ف سے میرے لئے تنبیہ ونصیحت ہے۔''یہ کہہ کر فوراً اپنی بادشاہت کو چھوڑا اور اپنے ملک سے نکل کر ایسی جگہ آ گئے جہاں کوئی انہیں پہچان نہ سکے ، اور انہوں نے ایک پہاڑ پر اللہ عزوجل کی عبادت کرنا شرو ع کردی ۔''
حضرت سیدنا ابراہیم بن ادہم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم فرماتے ہیں : ''جب مجھے ان کے بارے میں علم ہوا تو میں ان کے پاس آیا ، اوران سے ان کے حالات دریافت کئے تو انہوں نے مجھے اپنا یہ واقعہ سنایا، اور میں نے انہیں اپنے سابقہ حالات کے بارے میں"
"بتایا، پھر ان کے انتقال تک میں اکثر ملاقات کے لئے ان کے پا س آتا،بالآ خر ان کا انتقال ہوگیا اور اسی جگہ انہیں دفن کردیا گیا،یہ انہیں کی قبر ہے ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدنا ابو وداعہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:''مَیں حضرت سیدنا سعید بن مسیب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی محفل میں باقاعدگی سے حاضر ہوا کرتا تھا،پھر چند دن میں حاضر نہ ہوسکا۔ جب دوبارہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس حاضر ہوا توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے پوچھا:'' تم اتنے دن کہاں تھے؟'' میں نے کہا:'' میری اہلیہ کا انتقال ہوگیا تھابس اسی پریشانی میں چند دن حاضر ی کی سعادت حاصل نہ ہو سکی ۔'' یہ سن کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:''تو نے مجھے اطلاع کیوں نہیں دی تا کہ میں بھی جنازہ میں شرکت کرتا ؟'' حضرت سیدنا ابو وداعہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:'' ا س پر میں خاموش رہا۔'' جب میں نے رخصت چاہی تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' کیا تم دوسری شادی کرنا چاہتے ہو؟'' میں نے کہا:'' حضور! میں تو بہت غریب ہوں، میرے پاس بمشکل چند درہم ہوں گے، مجھ جیسے غریب کی شادی کون کروائے گا۔'' تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرمانے لگے:'' میں تیری شادی کرواؤں گا ۔'' میں نے حیران ہوتے ہوئے عرض کی:''کیا آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہمیری شادی کرائیں گے ؟'' فرمایا:'' جی ہاں!میں تیری شادی کراؤں گا۔'' پھرآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اللہ عزوجل کی حمد بیان کی اور حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّمپر درود وسلام پڑھا اور میری شادی اپنی بیٹی سے کرادی ۔
میں وہاں سے اٹھا او رگھر کی طر ف روانہ ہوا ۔میں اتنا خوش تھا کہ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرو ں ، پھر میں سوچنے لگا کہ مجھے کس کس سے اپنا قرضہ وصول کرنا ہے ، اور اسی طر ح میں آنے والے لمحات کے بارے میں سوچنے لگا پھر میں نے مغر ب کی نمازمسجد میں ادا کی اور دوبارہ گھر کی طرف چلا آیا ۔میں گھر میں اکیلا ہی تھا، پھر میں نے زیتو ن کا تیل اور رو ٹی دستر خوان پر رکھی اور کھانا شرو ع ہی کیا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی ۔میں نے پوچھا:'' کون ؟'' آواز آئی:'' سعید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ۔''میں سمجھ گیا کہ ضرور یہ حضرت سیدنا سعید بن مسیب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہی ہوں گے۔ اتنی دیر میں وہ اندر تشریف لے آئے۔ میں نے کہا:''آپ"
"رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مجھے پیغام بھیج دیتے، میں خود ہی حاضر ہوجاتا۔''فرمانے لگے:'' نہیں،بلکہ تم اس بات کے زیادہ حق دار ہو کہ تمہارے پا س آیاجائے۔'' میں نے کہا:''فرمائیے! میرے لئے کیاحکم ہے ؟آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: '' اب تم غیر شادی شدہ نہیں ہو، تمہاری شادی ہوچکی ہے، میں اس بات کو نا پسند کرتا ہوں کہ تم شادی ہوجانے کے بعد بھی اکیلے ہی رہو ، پھر ایک طرف ہٹے تو ان کی بیٹی ان کے پیچھے کھڑی تھی۔ انہوں نے اس کا ہاتھ پکڑ ااور کمرے میں چھوڑ آئے اور مجھے فرمایا:'' یہ تمہاری زوجہ ہے۔'' اتنا کہنے کے بعد تشریف لے گئے ۔میں دروازے کے قریب گیا اور جب اطمینان ہوگیا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جاچکے ہیں تو میں واپس کمرے میں آیا تواس شرم وحیا کی پیکر کو زمین پر بیٹھے ہوئے پایا ۔میں نے جلدی سے زیتون کے تیل اور روٹیوں والا برتن اٹھا کر ایک طر ف رکھ دیا تاکہ وہ اسے نہ دیکھ سکے۔پھر میں اپنے مکان کی چھت پر چڑھا اور اپنے پڑوسیوں کو آواز دینے لگا۔تھوڑی ہی دیر میں سب جمع ہوگئے اور مجھ سے پوچھنے لگے :'' تمہیں کیا پریشانی ہے ؟'' میں نے کہا:'' حضرت سیدنا سعید بن مسیب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی بیٹی سے میری شادی کرادی ہے اور وہ اپنی بیٹی کو میرے گھر چھوڑ گئے ہیں۔ لوگو ں نے بے یقینی سے پوچھا :''کیا حضرت سیدنا سعید بن مسیب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے تجھ سے اپنی بیٹی کی شادی کرائی ہے ؟'' میں نے کہا:'' اگر تمہیں یقین نہیں آتا تو میرے گھر جا کر دیکھو، ان کی بیٹی میرے گھر میں موجود ہے۔'' یہ سن کر سب میرے گھر آگئے ۔جب میری والدہ کو یہ خبر ملی تو وہ بھی فوراً ہی آگئیں اور مجھ سے فرمانے لگیں:'' اگر تین دن سے پہلے تو اس کے پاس گیا توتجھ پر میرا چہرہ بھی دیکھنا حرام ہے۔تین دن تک میں اس کی اصلاح کرلوں اس کے بعد ہی تواس سے قربت اختیار کرنا۔''میں تین دن انتظار کرتا رہا، چوتھے دن جب اس کے پا س گیا اور اسے دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا۔ وہ حسن وجمال کا شاہکار تھی ، قرآن پاک کی حافظہ، حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّمکی سنتوں کو بہت زیادہ جاننے والی،اور شوہر کے حقوق کو بہت زیادہ پہچاننے والی تھی ۔اسی طر ح ایک مہینہ گزر گیا۔ نہ تو حضر ت سیدنا سعید بن مسیب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ میرے پاس آئے اور نہ ہی میں حاضر ہو سکا ، پھر میں ہی ان کے پاس گیا۔ وہ بہت سارے لوگوں کے جھرمٹ میں جلوہ فرماتھے ، میں نے ان کو سلام کیا انہوں نے جواب دیا ۔اس کے بعد مجلس کے ختم ہونے تک انہوں نے مجھ سے کوئی بات نہ کی ،جب سب لوگ جاچکے اور میرے علاوہ کوئی اور نہ بچا تو انہوں نے مجھ سے فرمایا:'' اس انسان کو کیسا پایا ؟''
میں نے عرض کی:''حضور!( آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بیٹی ایسی صفات کی حامل ہے کہ) شاید کوئی دشمن ہی اسے ناپسند کرے ورنہ دوست تو ایسی چیز وں کو پسند کرتے ہیں۔'' فرمایا :''اگر وہ تجھے تنگ کرے تو لاٹھی سے اصلاح کرنا پھر جب میں گھر کی طرف روانہ ہوا تو انہوں نے مجھے بیس ہزار درہم دیئے۔ میں انہیں لے کر گھر کی طر ف چلا آیا۔
حضر ت سیدنا عبداللہ بن سلمان علیہ رحمۃاللہ المنان فرماتے ہیں : ''حضرت سیدنا سعید بن مسیب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی اسی"
"صاحبزادی کے لئے خلیفہ عبدالملک بن مروان نے اپنے بیٹے ولید کی شادی کا پیغام بھیجا تھا لیکن حضرت سیدنا سعید بن مسیبرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے انکار کر دیا ، عبد الملک نے ہر طر ح کوشش کی کہ کسی طر ح آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ راضی ہوجائیں لیکن آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ برابر انکار کرتے رہے پھر وہ ظلم وستم پر اتر آیا اور ایک سرد رات اس ظالم نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو سو کوڑے مارے اور اُون کا جبہ پہنا کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہپر ٹھنڈا پانی ڈلوایا۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدنا مطر وق رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:''سرکاروالا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگار، شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختارباِذنِ پروردگار عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن کانام ''حممۃ''تھا۔ایک بار حضرت سیدنا ہرم بن حیان علیہ رحمۃاللہ المنان نے ان کے ہاں رات کو قیام کیاتودیکھاکہ وہ ساری رات روتے ہی رہے۔ صبح حضرت سیدنا ہرم بن حیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے پوچھا:''تمہیں کس چیز نے اتنا رُلایا ؟ ''کہنے لگے:'' مجھے اس دن کی یاد نے رُلایا ہے جس دن قبریں پھٹ جائیں گی اوراہلِ قبور باہر آجائیں گے۔ اسی طرح ایک رات حضرت سیدنا حممۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت سیدناہرم بن حیان علیہ رحمۃاللہ المنان کے ہاں گزاری۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پھر ساری رات روتے رہے۔ صبح ان سے پوچھا گیا: ''آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوکس چیز نے رلایا ؟'' توآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے لگے:'' مجھے اس دن کی یاد نے رلایاہے جس دن ستارے ٹوٹ پھوٹ جائیں گے۔''
حضرت سیدنا مطر وق رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:'' جب یہ دونوں حضرات(یعنی حضرت سیدنا ہرم بن حیان اور حضرت سیدنا حممہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما ) بازار میں جاتے اور کسی عطربیچنے والے کی دُکان کے قریب سے گزرتے تو اللہ عزوجل سے جنت مانگتے، اور جب کسی لوہار کی دکان کے قریب سے گزرتے تو جہنم کی آگ سے پناہ مانگتے، اور پھر اپنے اپنے گھرو ں کی طر ف چلے جاتے۔ ان کی عبادت کا انداز یہ تھاکہ ساری ساری رات اللہ عزوجل کی عبادت کرتے یہاں تک کہ صبح ہوجاتی ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :''حضرت سیدناعمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرے پڑوسی تھے ، میں نے لوگو ں میں ان سے زیادہ افضل کسی کو نہیں پایا ، ان کی راتیں عبادت میں گزرتیں،دن کو رو زہ رکھتے، اور سارا دن لوگو ں کی حاجات پورا کرنے میں گزرجاتا،جب حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاانتقال ہوگیاتومیں نے اللہ عزوجل سے دعاکی: ''مجھے حضرت سیدناعمربن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خواب میں زیارت ہوجائے۔'' الحمد للہ عزوجل !میری دعا قبول ہوئی او ر ایک رات میں نے خواب دیکھا کہ حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ شریف کے بازار کی جانب جارہے ہیں ، میں نے سلام کیا ۔انہوں نے جواب دیا۔ میں نے پوچھا :'' آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کیا حال ہے؟'' فرمایا:''ابھی ابھی حساب و کتاب سے فارغ ہوا ہوں، اگر میں اپنے رب عزوجل کو رحیم وکریم نہ پاتا تو میری خلافت مجھے لے ڈوبتی۔''
اسی طر ح حضرت سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں:'' میں نے اپنے والدِ گرامی حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خواب میں دیکھا تو عرض کی:'' آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا معاملہ کیسا رہا ؟''فرمانے لگے:'' الحمد للہ عزوجل! بہتر رہا ،قریب تھا کہ میری خلافت مجھے لے ڈوبتی لیکن میں نے اپنے پر وردگار عزوجل کو بہت رحیم وکریم پایا۔'' پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہنے مجھ سے پوچھا:''بیٹا!بتاؤ تم سے جدا ہوئے مجھے کتناعرصہ ہوگیا ہے ؟''میں نے عرض کی :'' تقریبا ًبارہ سال ہوچکے ہیں ۔'' تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:'' میں ابھی ابھی حساب وکتاب سے فارغ ہوا ہوں۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
حضر ت سیدنا ہیثم بن عدی علیہ رحمۃاللہ القوی فرماتے ہیں:'' حضرت سیدنا عمر بن عبدالعزیز علیہ رحمۃاللہ المجید کی زوجہ حضرت فاطمہ بنت عبدالملک بن مروان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا کے پاس ایک لونڈی تھی جو حسن وجمال میں بے مثال تھی،وہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو بہت محبوب تھی، خلیفہ بننے سے پہلے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی زوجہ سے کہا:''یہ لونڈی مجھے ہبہ کردو۔'' لیکن انہوں نے انکار کر دیا ۔
" پھر جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو خلیفہ بنا یا گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی زوجہ محترمہ اس لونڈی کو تیار کرکے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں لائی اور عرض کی:'' میں یہ لونڈی بخوشی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو پیش کرتی ہوں کیونکہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو یہ بہت زیادہ پسند ہے ۔''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بہت خوش ہوئے ، اور فرمایا:'' اسے میرے پاس بھیج دو۔''جب وہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہکے پاس آئی توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس کا حسن وجمال دیکھ کربہت متعجب ہوئے ،اور اس سے قربت اختیار کرنا چاہی لیکن پھر رک گئے، اور اس لونڈی سے کہا:'' بیٹھ جاؤ، اور پہلے مجھے یہ بتاؤ: تم کون ہواور فاطمہ کے پاس تم کہا ں سے آئیں ؟''
وہ کہنے لگی:'' میں'' کوفہ'' کے گو رنر کی غلامی میں تھی اور وہ گورنر حجاج بن یوسف کا بہت مقروض تھا ، اس نے مجھے حجاج بن یوسف کے پاس بھیج دیا۔ حجاج بن یوسف نے مجھے عبدالملک بن مرو ان کے پاس بھیج دیا۔ ان دنوں میرالڑکپن تھا ، پھر عبدالملک بن مروان نے مجھے اپنی بیٹی فاطمہ کوہبہ کر دیااوریوں میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس پہنچ گئی ۔''
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس سے پوچھا :'' اس گو رنر کا کیا ہوا؟'' کہنے لگی:'' وہ تو مرگیا۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے پوچھا:'' کیا اس کی کوئی اولاد ہے؟''اس نے جواب دیا:''جی ہاں! اس کا ایک لڑکاہے۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے استفسار فرمایا: ''اس کا کیا حال ہے ؟''کہنے لگی:'' اس کاحال بہت براہے، بہت زیادہ مفلسی کی زندگی گزار رہا ہے۔''
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اسی وقت کوفہ کے موجود ہ گورنر'' عبدالحمید علیہ رحمۃ اللہ المجید''کو خط لکھا کہ فلاں شخص کو فوراً میرے پاس بھیج دو، فوراً حکم کی تعمیل ہوئی اور وہ شخص آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہکے پاس آگیا ۔ آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے پوچھا:'' تجھ پر کتنا قرض ہے؟'' تواس نے جتنا بتا یا آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے سارا ادا کردیا۔
پھر فرمایا :'' یہ لونڈی بھی تمہاری ہے، اسے لے جاؤ۔'' یہ کہتے ہوئے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے وہ لونڈی اس کے حوالے کردی ،جوں ہی اس نے لونڈی کا ہاتھ پکڑنا چاہا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا :'' خبردار ! تم دونوں ایک دوسرے کی قربت سے بچنا،ہو سکتا ہے تیرے والد نے اس لونڈی سے وطی کی ہو۔''(کیونکہ اولاد پراپنے باپ، داداکی موطو ء ہ حرام ہےتفسیر نعیمی، ج۴،ص۵۶۵ملخصًا)
اس نے کہا :''اے امیر المؤمنین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ !یہ لونڈی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہی رکھ لیجئے۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:''مجھے اب اس کی کوئی حاجت نہیں۔'' اس نے عرض کی:'' پھرآ پ مجھ سے خرید لیں۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے پھر انکار کردیا اور فرمایا:'' جاؤ،اسے اپنے ساتھ ہی لے جاؤ۔''یہ سن کروہ(لونڈی )کہنے لگی:''اے امیرالمؤمنین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ! آپ تو مجھے بہت چاہتے تھے ، اب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی وہ چاہت کہاں گئی ؟ ''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' میری تجھ سے محبت وچاہت اپنی جگہ بر قرار ہے بلکہ اب تو اور زیادہ بڑھ گئی ہے ۔'' پھر ان دونوں کو روانہ کردیا ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدنا جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :'' میں نے حضرت سیدنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ فرماتے سنا:'' ایک مرتبہ حضرت سیدناسہیل بن عمرو،حضرت سیدناحارث بن ہشام، حضرت سیدناابو سفیان بن حرب رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور قریش کے دیگر بڑے بڑے سردار حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات کے لئے حاضر ہوئے ۔جب وہاں پہنچے تو دیکھا کہ حضرت سیدناصہیب، حضرت سیدنا بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور اسی طر ح کے کچھ اور بدری صحابہ کرام بھی ملاقات کے لئے آئے ہوئے تھے، جو پہلے غلامی کی زندگی گزار چکے تھے، پھر آزاد ہو گئے اوروہ دنیاوی اعتبار سے بہت غریب تھے ۔
امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پہلے انہی غریب صحابہ کرام علیہم الرضوان کو بلایاکیونکہ یہ پہلے آئے ہوئے تھے یہ دیکھ کہ ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے لگے:'' جیساآج ہم نے دیکھاہے ایسا کبھی نہیں دیکھا، غریبو ں کو تو بلا لیا گیا لیکن ہماری طرف تو جہ ہی نہ کی گئی اور ہمیں دروازے سے باہر ہی ٹھہرا دیا گیا ۔''
یہ سن کر حضرت سیدنا سہیل بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو کہ بہت حق گواور سمجھدار تھے، کہنے لگے:'' اے لوگو! خداعزوجل کی قسم! آج میں تمہارے چہرے پر ناگواری کے آثار دیکھ رہا ہوں اگر غصہ کرنا ہی ہے تو اپنے آپ پر کرو کیونکہ تمہیں اورانہیں ایک ساتھ اسلام کی دعوت دی گئی، ان خوش نصیبوں نے حق بات قبول کرنے میں جلدی کی اور تم نے سستی سے کام لیا۔ ذرا غور توکرو ،اس وقت تم کیا کرو گے جب بر وزِ قیامت انہیں (جنت کی طر ف )جلد ی بلا لیا جائے گا اور تمہیں چھوڑ دیا جائے گا۔
اس کے بعد حضرت سیدنا سہیل بن عمر و رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے کپڑے جھاڑے اور وہاں سے تشریف لے گئے۔ حضرت سیدنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:'' خدا عزو جل کی قسم! حضرت سید نا سہیل بن عمر و رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بالکل حق فرمایا،اللہ عزوجل کبھی بھی اپنی اطاعت میں سبقت لینے والے بندے کو اس جیسا نہیں بناتا جو اس کی اطاعت میں سستی کرے ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدنا بکر بن عبداللہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں : ''گذشتہ لوگو ں میں ایک بادشاہ تھا،جو بہت زیادہ سرکش تھا۔وہ اللہ عزوجل کی نافرمانی میں حد سے گزراہوا تھا ۔اس دور کے مسلمانوں نے اس ظالم وسر کش بادشاہ سے جہاد کیا اور اسے زندہ گرفتار کر لیا ۔اب اس کو قتل کرنے کے لئے مختلف قسم کی سزائیں تجویز کی جانے لگیں، بالآخر یہ طے پایا کہ اسے ایک تانبے کی بڑی دیگ میں کسی اونچی جگہ پر رکھا جائے اور اس کے نیچے آگ جلادی جائے تاکہ یہ یکدم مرنے کی بجائے تڑپ تڑپ کر مرے اور اس ظالم کو اس کے ظلم کی پوری پوری سزاملے۔
چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور اسے تانبے کی دیگ میں رکھ کر نیچے آگ جلا دی۔ وہ بادشاہ بہت گھبرایا اور اپنے جھوٹے خداؤں کو باری باری پکارناشرو ع کردیا اور کہنے لگا:'' اے میرے معبودو! میں ہمیشہ تمہاری عبادت کرتا رہا ،تمہیں سجدے کرتا رہا، اب مجھے اس درد ناک عذاب سے بچاؤ۔'' اسی طر ح باری باری اس نے تمام جھوٹے خداؤں کو پکارا لیکن اس کا پکارنا رائیگاں گیا۔ کیونکہ وہ تو خود اپنی حفاظت کے محتاج تھے، اس کی کیا حفاظت کرتے۔ بالآ خر وہ اپنے جھوٹے خداؤں سے مایوس ہوگیا او راس نے اپنا چہرہ آسمان کی طر ف اٹھایا اور خالقِ حقیقی عزو جل کی طرف دل سے متو جہ ہوا، اور''لَااِلٰہَ اِلاَّاللہُ''کی صدائیں بلند کرنے لگا اور گڑگڑا کر سچے دل سے اللہ عزوجل کو پکار نے لگا۔
اللہ ربُّ العزَّت عزوجل کی بارگاہ میں اس کی یہ مخلصا نہ گریہ وزاری مقبول ہوئی ، اور اللہ تعالیٰ نے ایسی بارش بر سائی کہ ساری آگ بجھ گئی۔ پھر تیز ہوا چلی اور اسے دیگ سمیت اڑاکر لے گئی، اب وہ ہوا میں اڑنے لگااوریہ صدا بلند کرتا رہا،'' لَااِلٰہَ اِلاَّ اللہُ، لَااِلٰہَ اِلاَّاللہُ،لَااِلٰہَ اِلاَّاللہُ۔''پھر اللہ عزوجل نے اسے دیگ سمیت ایسی قوم میں اُتا را جو مسلمان نہ تھی بلکہ ساری قوم ہی کافر تھی ، جب لوگو ں نے دیکھا کہ دیگ میں ایک شخص ہے اوروہ کلمہ طیبہ ''لَااِلٰہَ اِلاَّاللہُ'' پڑھ رہا ہے تو سب لوگ اس کے گر د جمع ہوگئے اور کہنے لگے:'' تیری ہلاکت ہو! یہ تو کیا کہہ رہا ہے ۔''
بادشاہ نے کہا:''میں فلاں ملک کا بادشاہ ہوں اور میرے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا ہے ۔''جب لوگو ں نے بادشاہ کا قصہ سنا تو سب کے سب کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئے اور معبودِ حقیقی عزوجل کی عبادت کرناشروع کر دی۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدنا قدامہ بن حماطہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :''میں نے حضرت سیدنا سہم بن منجاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ فرماتے سنا کہ'' ایک مرتبہ ہم حضرت سیدنا علاء بن حضر می رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ جنگ کے لئے ''دارین'' کی طر ف روانہ ہوئے ۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مستجاب الدعوات تھے، آپ رضی اللہ تعالیٰ علیہ نے راستے میں تین دعائیں کیں اور تینوں مقبول ہوئیں۔راستے میں ایک جگہ پانی بالکل ختم ہوگیا،ہم نے ایک جگہ قافلہ روکا، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وضو کے لئے پانی منگوایا اور وضو کرنے کے بعد دورکعتیں ادا فرمائیں، پھر دعا کے لئے ہاتھ اٹھادیئے اور بارگاہ ِخدا وندی عزوجل میں اس طر ح عرض گزار ہوئے :''اے ہمارے پروردگار عزوجل !ہم تیرے بندے ہیں ،تیری راہ کے مسافر ہیں،ہم تیرے دشمنوں سے قتال کریں گے ، اے ہمارے رحیم وکریم پروردگار عزوجل !ہمیں بارانِ رحمت سے سیراب فرما دے تا کہ ہم وضو کریں اور اپنی پیاس بجھائیں ۔''
اس کے بعد قافلے نے کوچ کیا۔ ابھی ہم نے تھوڑی سی مسافت ہی طے کی تھی کہ گھنگور گھٹائیں چھاگئیں اور یکایک بارانِ رحمت ہونے لگی ، سب نے اپنے اپنے بر تن بھرلئے اور پھر ہم وہاں سے آگے چل دیئے ۔
حضرت سیدنا سہم بن منجاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:'' تھوڑی دور چلنے کے بعد مجھے یاد آیا کہ میں اپنا برتن تو اسی جگہ بھول آیاہوں جہاں بارش ہوئی تھی۔ چنانچہ میں اپنے رفقاء کو بتا کراس طرف چل دیاجہاں بارش ہوئی تھی۔ جب میں وہاں پہنچاتویہ دیکھ کر مجھے بڑی حیرانگی ہوئی کہ ابھی کچھ دیر پہلے جہاں شدید بارش کا سماں تھا اب وہاں بارش کے آثار تک نہ تھے ۔ ایسا لگتا تھا جیسے یہاں کی زمین پر بر سوں سے ایک قطرہ بھی نہیں برسا۔ بہر حال میں اپنے بر تن کولے کر واپس قافلے میں شامل ہوگیا ۔
جب ہم ''دارین'' پہنچے تو ہمارے اور دشمنوں کے درمیان ٹھاٹھیں مارتا سمند ر تھا۔ ہمارے پاس ایسا سازو سامان نہ تھا کہ ہم سمندر پار کر سکیں۔ ہم بہت پریشان ہوئے اور معاملہ حضرت سیدنا علاء بن حضر می رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں پیش کیا گیا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہنے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور ان کلمات کے ساتھ دعا کرنے لگے :''یَاعَلِیُّ،یَاعَلِیْمُ،یَاحَلِیْمُ،یَاعَظِیْمُ ''اے ہمارے پروردگار عزوجل! ہم تیرے بندے ہیں اور تیری راہ کے مسافر ہیں ،ہم تیرے دشمنوں سے قتال کریں گے، اے ہمارے پروردگار عزوجل! ہمارے لئے ان کی طر ف کوئی راستہ بنادے ۔''
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دعا قبول ہوئی اور ہمارے لئے سمندر میں راستے بن گئے ۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمیں لے کر سمندر میں اُتر گئے اور ہم نے اس طرح سمندر پار کیا کہ ہمارے کپڑ ے بھی گیلے نہ ہوئے۔جنگ کے بعد جب ہماری واپسی ہوئی تو راستے میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیٹ میں درد ہونے لگا اور اسی درد کی حالت میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وصال ہوگیا۔ ہم نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو"
"غسل دینا چاہالیکن پانی بالکل ختم ہوگیا تھا۔ چنانچہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بغیر نہلائے کفن دیا گیا، پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دفن کر دیا گیا ۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تدفین کے بعد ہم وہاں سے رخصت ہوگئے۔ ایک جگہ ہمارے قافلے کو پانی میسر آیا تو ہم نے باہم مشورہ کیا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو غسل دے کر دوبارہ دفن کیا جائے ۔چنا نچہ ہم اس جگہ پہنچے جہاںآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دفن کیا تھا۔ لیکن وہاں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی لاش موجود نہ تھی۔ خوب تلاش کیا لیکن آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا لاشہ مبارک نہ مل سکا پھر ہمیں ایک شخص نے بتا یا کہ میں نے حضر ت سیدنا علاء بن حضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو وصال سے پہلے یہ دعا کرتے سنا تھا :''یَاعَلِیُّ، یَاعَلِیْمُ، یَاحَلِیْمُ،یَاعَظِیْمُ ''اے ہمارے پروردگار عزوجل !میری موت کو ان لوگو ں پر پوشیدہ کر دینا اور میرے ستر کو کسی پر ظاہر نہ فرمانا۔ جب ہم نے یہ سنا تو ہم واپس لوٹ آئے اور ہم سمجھ گئے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ دعا بھی قبول ہوچکی ہے، اسی لئے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جسم اطہرنہیں مل رہا ۔
حضرت سیدنا عمر بن ثابت بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:'' ایک مرتبہ بصرہ کے رہنے والے ایک شخص کے کان میں ایک کنکری چلی گئی، طبیبوں نے بہت علاج کیا مگر وہ نہ نکلی بلکہ مزید اندر چلی گئی اور دماغ تک جا پہنچی، اس شخص کا تکلیف کے مارے برا حال تھا، راتوں کی نینداور دن کا آرام وسکون سب برباد ہوگیا ، پھر بصرہ میں حضرت سیدنا حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی کے رفقاء میں سے ایک شخص آیا ۔یہ غم کا مارا اس کے پاس پہنچا اور اپنا درد بیان کیا ۔
حضرت سیدنا حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی کے رفیق نے کہا :'' تیرابھلا ہو ، اگر تو چاہتا ہے کہ تیری تکلیف دور ہو جائے تو ان کلمات کے ساتھ اللہ عزوجل سے دعا کر جن کے ذریعے حضرت سیدنا علاء بن حضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ دعا کرتے تھے ، انہوں نے صحراؤں اور سمندروں میں ان کلمات سے دعا کی تو ان کی دعا مقبول ہوئی۔پس تو بھی انہیں کلمات کے ذریعے دعا کر۔'' وہ شخص عرض گزار ہوا :''وہ کلمات کون سے ہیں؟'' اس نے بتایا:'' وہ کلمات یہ ہیں:''یَاعَلِیُّ،یَاعَلِیْمُ،یَاحَلِیْمُ،یَاعَظِیْمُ ''جیسے ہی اس شخص نے ان کلمات کے ساتھ دعاکی فوراً اس کے کان سے وہ کنکری نکلی اور دیوار سے جا لگی اور اس شخص کو سکون نصیب ہوگیا۔
علامہ ابن حجر عسقلانی قدِّس سرہ، الرَّبانی فرماتے ہیں:'' حضرت سیدنا علاء بن حضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اصل نام ''عبداللہ بن عماد بن اکبر بن ربیعہ بن مالک بن عوف حضرمی'' تھا ۔
آپ نبی ئمُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم، رسولِ اکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے صحابی تھے ، حضورنبی ئ رحمت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو'' بحرین ''کا امیر بنا کر بھیجا ۔حضرت سیدنا ابو بکر صدیقرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت میں بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بحرین کے امیر رہے اور حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بحرین کاامیر بر قرار رکھا۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدنا وہب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے منقول ہے :''ایک مرتبہ حضرت سیدنا عیسیٰ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام سے ان کے حواریوں نے پوچھا:'' اے عیسیٰ علیہ السلام !اللہ عزوجل کے وہ اولیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کو ن ہیں جن پر کوئی خوف ہوگا نہ غم۔''
تو حضرت سیدنا عیسیٰ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوۃ و السلام نے ارشاد فرمایا:''وہ لوگ ایسے ہیں کہ جب دنیا دار وں کی نظریں دنیا کے ظاہر پر ہوتی ہیں تو ان کی نظریں دنیا کے انجام اور باطن پر ہوتی ہیں۔جن چیزوں سے انہیں (دینی اعتبار سے) نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتاہے تو ان اشیاء کو فنا کر ڈالتے ہیں۔ جن چیزوں کے بارے میں انہیں علم ہوتاہے کہ یہ اشیاء انہیں چھوڑ دیں گی تو ایسی چیزوں کو پہلے ہی ترک کردیتے ہیں ،ان کی نظروں میں کسی شئے کی کثرت ،انتہائی قلیل ہوتی ہے اور یہ لوگ عارضی چیزوں کی طرف توجہ ہی نہیں دیتے ۔
جب انہیں دنیوی چیزیں ملتی ہیں تو غمگین ہوجاتے ہیں ، دنیاوی آسائشوں کو خاطر میں نہیں لاتے، جس رتبے اور عہدے کے اہل نہیں ہوتے اسے کبھی بھی قبول نہیں کرتے ۔ان کے نزدیک دنیا پرانی ہوچکی ہے، یہ اس کی تجدید نہیں چاہتے، دنیا ان کی نظروں میں کچھ بھی نہیں، یہ اسے کوئی وقعت نہیں دیتے،خواہشات ان کے سینوں میں دم تو ڑ چکی ہیں، یہ دنیا کو ترک کرنے کے بعد دوبارہ طلب نہیں کرتے بلکہ اخروی نعمتوں کے خواہش مند رہتے ہیں، انہوں نے اپنی دنیوی نعمتو ں کے بدلے اخروی و دائمی نعمتوں کو خرید لیا ہے، اور یہ اس سودے پر بہت خوش ہیں اور اسے نفع بخش سمجھتے ہیں۔ جب انہوں نے دیکھا کہ اہلِ دنیا، دنیا کے حصول کے لئے ایک دوسرے سے دست وگریباں ہیں اور دنیا انہیں دھتکار کر چلی گئی تو انہوں نے موت کی یاد کو اپنا مشغلہ بنالیااور زندگی کے متعلق غور وفکر ترک کردیا۔ یہ لوگ اللہ عزوجل اور اس کے ذکر سے محبت کرتے ہیں اور اس کے نور سے فیض یاب ہوکر منور ہوجاتے ہیں۔
ان کی باتیں عجیب وغریب اوران کی حالت حیران کن ہوتی ہے ،کتاب اللہ میں ایسے لوگو ں کے لئے خوشخبریاں ہیں اور یہ کتاب اللہ عزوجل پر عمل کرنے والے ہیں۔قرآن حکیم میں ان کی صفات بیان کی گئی ہیں، اور یہ قرآن پاک کی خوب تلاوت کرتے ہیں، ان کے متعلق قرآن کریم میں معلومات ہیں اور یہی لوگ قرآن پاک کو صحیح سمجھنے والے ہیں۔ یہ اپنے نیک اعمال کو زیادہ گمان نہیں کرتے بلکہ انہیں بہت کم خیال کرتے ہیں،اورجس(یعنی ثواب وانعام)کی انہیں آخرت میں اُمیدہے اس کے علاوہ (دنیا کی)کسی اور نعمت کی امید نہیں رکھتے اور (اخروی عذاب) کے علاوہ کسی اور چیز سے نہیں ڈرتے بلکہ ہر وقت جہنم کے خوف سے لرزاں رہتے ہیں۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدنا عثمان بن عطاء رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں :'' حضرت سیدنا ابومسلم خولانی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ جب مسجد سے اپنے گھر کی طر ف تشریف لے جاتے تو دروازے پر پہنچ کر '' اللہ اکبر '' کی صدابلند کرتے ،جواب میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی زوجہ محترمہ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہا بھی '' اللہ اکبر '' کہتیں ۔پھر جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ صحن میں جاتے تو '' اللہ اکبر '' کہتے ،جواب میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی زوجہ بھی '' اللہ اکبر '' کہتیں ۔جب کمرے میں داخل ہوتے تو پھر '' اللہ اکبر '' کہتے اور جواب میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی زوجہ محترمہ بھی '' اللہ اکبر '' کہتیں ،یہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا ہرروز کا معمول تھا ۔
ایک رات جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ گھر تشریف لائے اورآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے دروازے پر پہنچ کر حسبِ معمول '' اللہ اکبر '' کہا لیکن جواب نہ ملا ، پھر جب صحن میں پہنچ کر '' اللہ اکبر '' کہا تب بھی جواب نہ ملا۔ جب کمرے میں پہنچے اور '' اللہ اکبر '' کہا تب بھی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی زوجہ نے جواباً '' اللہ اکبر '' نہ کہا ۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی زوجہ محترمہ نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو کھانا دیا اور چپ چاپ زمین پر بیٹھی رہی، ایسا لگتا تھا جیسے وہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے ناراض ہیں ، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے گھر میں روشنی کے لئے چراغ تک نہیں تھا (لیکن آپ پھر بھی صابر وشاکر تھے ) ۔جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی زوجہ کوناراض پایا تو ان سے دریافت کیا:''اے اللہ عزوجل کی بندی! توکیوں پریشان ہے ؟''
یہ سن کر وہ کہنے لگی :'' تمہارا امیر المؤمنین حضر ت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں بڑا مرتبہ ہے، وہ تمہاری بہت تعظیم کرتے ہیں، اگر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ان سے ایک خادم مانگ لیں تو وہ ضرور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو عنایت فرمادیں گے، ہمارے پاس ایک بھی خادم نہیں جو ہماری خدمت کرسکے ، خادم آجائے گا تو ہمیں آسانی ہوجائے گی ۔'' یہ سن کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھادیئے اور اس طرح بارگاہ خداوندی عز وجل میں عرض گزار ہوئے :''اے میرے پروردگار عزوجل !اسے اندھا کر دے جس نے میرے گھر والوں کا ذہن خراب کیا ہے اور ہم میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ ''
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی دعا کا اثر فوراً ظاہر ہوا اور پڑوسیوں کی ایک عورت کی آنکھیں اچانک بے نور ہوگئیں جو اپنے گھر میں تھی اور اسی نے آکر آ پ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی زوجہ محترمہ سے کہا تھا کہ اگر تو اپنے خاوند سے کہے تو وہ امیرالمؤمنین حضرت سیدناامیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے غلام حاصل کرسکتے ہیں،اوراگر تمہیں غلام مل گیاتواس طرح تمہاری زندگی پرسکون ہو جائے گی۔کچھ نظر نہ آنے کی بنا ء پر اس نے گھر والوں سے کہا:'' تم نے چراغ کیوں بجھادیئے ؟'' گھر والوں نے کہا:''چراغ توجل رہے ہیں، شاید! تمہاری آنکھیں بے کار ہوچکی ہیں۔'' اب وہ عورت بہت پریشان ہوئی اور جب اسے معلوم ہواکہ یہ حضرت"
"سیدنا ابو مسلم خولانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی دعا کا اثر ہے تو وہ اپنی حرکت پربہت شرمندہ ہوئی اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے معافی چاہی اور زار وقطار رونے لگی ، اور عرض کرنے لگی: ''مجھے اللہ عزوجل کی رضا کی خاطر معاف فرما دیں اور اللہ عزوجل کی بارگاہ میں دعا فرمائیں کہ میری بینائی لوٹ آئے۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو اس پر تر س آنے لگا اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں دعا کے لئے ہاتھ اٹھادیئے اور اس کی بینائی کے لئے دعا کی۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ابھی دعا سے فارغ بھی نہ ہوئے تھے کہ اس عورت کی آنکھیں منور ہوگئیں اور وہ بالکل ٹھیک ہوگئی ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
حضرت سیدنا حماد بن جعفر بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہم فرماتے ہیں:''مجھے میرے والد نے بتایاکہ ایک مرتبہ ہمارا لشکر جہاد کے لئے'' کابُل ''کی طر ف گیا۔ ہمارے ساتھ حضرت سیدناصلہ بن اشیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے ، رات کے وقت لشکر نے ایک جگہ قیام کیا، میں نے دل میں ٹھان لی کہ آج میں حضرت سیدنا صلہ بن اشیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوخوب غورسے دیکھو ں گاکہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کس طر ح عبادت کرتے ہیں کیونکہ لوگو ں میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عبادت کاخوب چرچاہے لہٰذا میں ان کی طرف متوجہ ہوگیا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نماز پڑھی اور پھر لیٹ گئے اور لوگو ں کے سونے کا انتظار کرنے لگے ، جب لوگ خواب خرگوش کے مزے لینے لگے توآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دم اُٹھے اور قریبی جنگل کی طر ف چل دیئے ۔ میں بھی چپکے چپکے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیچھے چل دیا ، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وضو کیا اور نماز کے لئے کھڑے ہوگئے ،یکایک ایک خونحوار شیر نمودار ہوا اورآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طر ف بڑھنے لگا۔ میں بہت خوفزدہ ہواا ور درخت پر چڑھ گیا ، لیکن آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شجاعت پر قربان جاؤں، نہ تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ شیر سے ڈرے، نہ ہی اس کی طر ف توجہ دی بلکہ نماز ہی میں مگن رہے ، جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سجدے میں گئے تو میں نے گمان کیا کہ اب شیر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر حملہ کریگا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو چیر پھاڑدے گا لیکن شیر زمین پر بیٹھ گیا ،آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اطمینان سے نماز مکمل کی اور سلام پھیر نے کے بعد شیر کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ''اے جنگلی درندے!جاکسی دوسری جگہ اپنا رزق تلاش کر ۔''آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اتنا فرماناتھا کہ شیر اُلٹے قدموں چل پڑا۔ وہ ایسی خوفناک آواز سے دھاڑ رہا
"تھا کہ لگتا تھا کہ پہاڑ بھی اس کی دھاڑ سے پھٹ جائیں گے ، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پھر نماز میں مشغول ہوگئے ،طلوعِ فجر سے کچھ دیر قبل آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیٹھ گئے اور ایسے پاکیزہ الفاظ میں اللہ ربُّ العزَّت کی حمد کی کہ میں نے کبھی حمدکے ایسے کلمات نہ سنے تھے ، مگر جس کو اللہ عزوجل چاہے تو فیق عطا فرمائے ،وہ جس پر چاہے اپنا خاص کرم کرے ۔
پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دیئے اور یوں دعا کرنے لگے :'' اے میرے پروردگارعزوجل! میں تجھ سے التجاء کرتا ہوں کہ مجھے جہنم کی آگ سے بچا، میں اس قابل کہا ں کہ تجھ سے جنت طلب کروں۔''
پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ واپس لشکر کی طر ف لوٹ آئے ۔ اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس حال میں صبح کی کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بالکل تر و تازہ تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ گویا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ساری رات بستر پر گزاری ہو ، اور مجھ پر جو تھکاوٹ اور سستی طاری تھی اسے اللہ عزوجل ہی بہتر جانتا ہے ۔
پھر لشکر نے دشمن کی طر ف پیش قدمی کی اور جب دشمن کی سرحد کے قریب پہنچے تو امیر لشکر نے اعلان کیا کہ کوئی سوار اپنی سواری پر بھاری سامان نہ چھوڑے، تمام مجاہدین اپنی اپنی سواریاں ہلکی کرلیں۔
اتفاقی بات تھی کہ حضرت سیدنا صلہ بن اشیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خچر سامان سمیت کہیں بھاگ گیا ۔جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خبر ہوئی توآپ نے نماز پڑھنا شرو ع کردی۔ لوگو ں نے کہا:'' حضور! سارا لشکر جاچکاہے اور آپ ابھی یہیں موجود ہیں۔'' آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور اس طر ح بارگاہ خداوندی عزوجل میں عرض گزار ہوئے:''اے میرے پروردگار عزوجل! تجھے تیری عزت وجلال کی قسم! میری سواری مجھے سامان سمیت لوٹا دے۔ ''ابھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دعا سے فارغ بھی نہ ہوئے تھے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سواری سامان سمیت سامنے موجود تھی۔ پھر جب دشمنوں سے جنگ چھڑی اوردعوتِ مبارزت دی گئی تو ہمارے لشکر کی طر ف سے حضرت سیدنا صلہ بن اشیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت سیدنا ہشام بن عامررضی اللہ تعالیٰ عنہ میدانِ جنگ میں اترے اور ایسے جنگی جو ہر دکھائے کہ جس طر ف جاتے دشمنوں کی لاشیں بکھیردیتے،جو دشمن سامنے آتا اسے واصلِ جہنم کر دیتے ، نیز ہ زنی اورشمشیر زنی کے ایسے جوہر دکھائے کہ دشمنوں کے پاؤ ں اکھڑ گئے ، ان کے حوصلے پست ہوگئے اور وہ کہنے لگے : ''جب عرب کے دو شہسواروں نے ہمار ا یہ حال کردیا تو اگر پورا عربی لشکر ہم سے لڑا تو ہمارا کیا انجام ہوگا ،بہتری اسی میں ہے کہ ہم مسلمانوں سے صلح کرلیں ۔چنانچہ انہوں نے ہم سے جزیہ کی شرط پرصلح کرلی اور مسلمانوں کا لشکر فتح یا ب ہو کر واپس پلٹا ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :'' حضرت سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کابیٹا جو کہ حضرت سیدتنا اُم سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بطن سے تھا وہ فو ت ہوگیا، حضرت سیدتنا اُم سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے تمام گھر والوں سے کہاکہ جب تک میں ابو طلحہ کوبیٹے کی وفات کا نہ بتاؤں اس وقت تک کوئی بھی انہیں اس کے متعلق نہ بتائے۔ جب حضرت سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ شام کو گھر تشریف لائے تو حضر ت سیدتنا اُم سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انہیں رات کا کھانا پیش کیااورجب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھانے سے فارغ ہو چکے تو حضرت سیدتنااُم سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہانے ایسا بناؤ سنگھار کیا کہ اس سے پہلے کبھی نہ کیا تھا پھر حضرت سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے ہمبستری کی اور جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فراغت پاچکے تو حضرت سیدتنا اُم سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا:''اے ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ! آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر کسی قوم کو کوئی چیز امانت کے طورپر دی جائے اورپھر وہ امانت ان سے طلب کی جائے تو انہیں وہ امانت واپس کر نی چاہے یا نہیں؟'' آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:'' انہیں ضرور وہ امانت ادا کرنی چاہے۔'' یہ جواب سن کر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا:''بس پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے بیٹے کو اسی طرح گمان کریں (یعنی وہ بھی ایک امانت تھی جو واپس لے لی گئی)۔''
انہوں نے صبح حضورنبی پاک، صاحبِ لَوْلاک، سیّاحِ اَفلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر سارا واقعہ بتایا توغمخوار آقا صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے یہ دعا فرمائی: '' اللہ عزوجل تمہاری اس رات میں تمہارے لئے برکت عطا فرمائے ۔''پھر حضرت سیدتنا اُم سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا حاملہ ہوگئیں۔
ایک مرتبہ سفر میں حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے ساتھ حضرت سیدتنااُم سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی تھیں۔ جب حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سفر سے واپس تشریف لائے تو رات کا وقت تھا۔ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سفر سے واپسی پر رات کو مدینے میں نہ جاتے۔جب آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم مدینہ شریف کے قریب پہنچے تو حضرت سیدتنا اُم سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دردِ ز ہ اٹھا، چنانچہ حضرت سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کے پاس ٹھہرادیا گیا اور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم آگے تشریف لے گئے، حضرت سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بارگاہِ خداوندی میں عرض کی :''اے میرے پر وردگار عزوجل! تو خوب جانتا ہے کہ میں تواس بات کو پسند کرتا ہوں کہ جب مدینہ طیبہ سے نکلوں تب بھی تیرے محبوب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّمکا ساتھ ہو، اور جب مدینہ منورہ میں داخلہ ہوں تب بھی تیرے محبوب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی رفاقت نصیب ہو، اور تجھے معلوم ہے کہ اب میں کیسی آزمائش میں مبتلا ہوگیا ہوں ۔'' حضرت سیدتنا اُم سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کی:''اے ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ! اب میں پہلے کی طرح شدید درد محسوس نہیں کررہی۔'' چنانچہ ہم چل پڑے اور جب مدینہ منورہ آئے تو انہیں دو بارہ دردِ زہ شرو ع ہوگیاا ورخوشیاں لٹاتا ہوا ایک مدنی منا تولُّد ہوا ۔"
حضرت سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر میری والدہ نے مجھ سے فرمایا:'' اے انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ! تم جب تک صبح اس بچے کو رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی خدمتِ بابر کت میں نہ لے جاؤ اس وقت تک کوئی بھی اسے دو دھ نہ پلائے۔'' چنانچہ میں صبح بچے کو لے کر بارگاہِ نبوی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام میں حاضر ہوگیا، اس وقت حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے ہاتھ میں اونٹوں کو داغنے والا آلہ تھا ۔آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی نظرِ عنایت جب مجھے پر پڑی تو استفسارفرمایا:'' شاید! اُم سلیم کے ہاں بیٹے کی ولادت ہوئی ہے؟'' میں نے کہا:''جی ہاں۔'' پھر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے وہ لوہے کا آلہ رکھ دیا۔ میں بچے کو حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے پاس لے آیا۔آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اسے اپنی آغو شِ رحمت میں لے لیا اور مدینہ منورہ کی ''عجوہ '' کھجو ر منگوائی ، آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اپنے دہن اقدس میں لے کر چبائی، جب وہ خوب نرم ہوگئی تو بچے کے منہ میں ڈال دی، بچے نے اسے چوسنا شرو ع کردیا۔ یہ دیکھ کر حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اس بچے کے چہر ے پر اپنا دست شفقت پھیرا اوراس بچے کا نام'' عبداللہ ''رکھا۔
(صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل ابی طلحۃ الأنصاری، الحدیث:۱۰۷(۲۱۴۴)،ص۱۱۰۹)
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)
" حضرت سیدنا ابن یسار مسلم علیہ رحمۃ اللہ المنعم فرماتے ہیں:''ایک مرتبہ میں تجارت کی غر ض سے ''بحرین ''کی طر ف گیا، وہاں میں نے دیکھا کہ ایک گھر کی طرف بہت لوگوں کاآناجاناہے، میں بھی اس طرف چل دیا۔وہاں جاکردیکھاکہ ایک عورت نہایت ا فسردہ اورغمگین پھٹے پرانے کپڑے پہنے مصلے پر بیٹھی ہے اور اس کے ارد گرد غلاموں اورلونڈیوں کی کثرت ہے، اس کے کئی بیٹے اوربیٹیاں ہیں، تجارت کابہت سارا سازو سامان اس کی ملکیت میں ہے ، خریداروں کا ہجوم لگاہوا ہے،وہ عورت ہر طر ح کی نعمتوں کے باوجود نہایت ہی غمگین تھی نہ کسی سے بات کرتی ، نہ ہی ہنستی۔
میں وہاں سے واپس لوٹ آیا اور اپنے کاموں سے فا رغ ہونے کے بعد دوبارہ اسی گھر کی طر ف چل دیا۔ وہاں جاکر میں نے اس عورت کو سلام کیا۔ اس نے جواب دیا اور کہنے لگی:'' اگر کبھی دوبارہ یہاں آنا ہواور کوئی کام ہو تو ہمارے پاس ضرور آنا ،"
" پھر میں واپس اپنے شہر چلا آیا۔ کچھ عرصہ بعد مجھے دوبارہ کسی کام کے لئے اسی عورت کے شہر میں جانا پڑا۔ جب میں اس کے گھر گیا تو دیکھاکہ اب وہاں کسی طر ح کی چہل پہل نہیں۔ نہ تجارتی سامان ہے، نہ خدّام ولونڈیا ں نظر آرہی ہیں اور نہ ہی اس عورت کے لڑکے موجود ہیں ،ہر طر ف ویرانی چھائی ہوئی ہے ۔میں بڑا حیران ہوا اور میں نے دروازہ کھٹکھٹایاتو اند رسے کسی کے ہنسنے اور باتیں کرنے کی آواز آنے لگی۔ جب دروازہ کھولا گیااورمیں اندر داخل ہواتو دیکھا کہ وہی عورت اب نہایت قیمتی اور خوش رنگ لباس میں ملبوس بڑی خوش وخرم نظر آرہی تھی ، اور اس کے ساتھ صرف ایک عورت گھر میں موجود تھی۔ اس کے علاوہ کوئی اور نہ تھا ۔ مجھے بڑا تعجب ہوا اور میں نے اس عورت سے پوچھا:'' جب میں پچھلی مرتبہ تمہارے پاس آیا تھاتو تم کثیر نعمتوں کے باوجود غمگین اور نہایت افسردہ تھی لیکن اب خادموں ، لونڈیوں اور دو لت کی عدم موجودگی میں بھی بہت خوش اور مطمئن نظر آرہی ہو، اس میں کیا راز ہے ؟''
تو وہ عورت کہنے لگی:'' تم تعجب نہ کرو ، بات در اصل یہ ہے کہ جب پچھلی مرتبہ تم مجھ سے ملے تو میرے پاس دنیاوی نعمتوں کی بہتات تھی، میرے پاس مال ودولت اور اولاد کی کثرت تھی ، اس حالت میں مجھے یہ خوف ہوا کہ شاید! میرا رب عزوجل مجھ سے ناراض ہے، اس وجہ سے مجھے کوئی مصیبت اور غم نہیں پہنچتا ورنہ اس کے پسندیدہ بندے تو آزمائشوں اور مصیبتوں میں مبتلا رہتے ہیں۔ اس وقت یہی سوچ کر میں پریشان و غمگین تھی اور میں نے اپنی حالت ایسی بنائی ہوئی تھی ۔
اس کے بعد میرے مال واولاد پر مسلسل مصیبتیں ٹو ٹتی رہیں،میرا سارا اثاثہ ضائع ہوگیا ، میرے تمام بیٹوں اوربیٹیوں کاانتقال ہوگیا،خدّام ولونڈیاں سب جاتی رہیں اور میری تمام دنیاوی نعمتیں مجھ سے چھن گئیں۔ اب میں بہت خوش ہوں کہ میرا رب عزوجل مجھ سے خوش ہے اسی وجہ سے تو اس نے مجھے آزمائش میں مبتلا کیا ہے۔پس میں اس حالت میں اپنے آپ کو بہت خوش نصیب سمجھ رہی ہوں، اسی لئے میں نے اچھا لباس پہنا ہوا ہے ۔ حضرت سیدنا یسار مسلم علیہ رحمۃ اللہ المُنْعِم فرماتے ہیں:اس کے بعد میں وہاں سے چلاآیا اور میں نے حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو اس عورت کے متعلق بتایا تو وہ فرمانے لگے :''اس عورت کا حال تو حضرت سیدنا ایوب علیٰ نبیناوعلیہ الصلوٰۃ و السلام کی طرح ہے اور میرا تو یہ حال ہے کہ ایک مرتبہ میری چادر پھٹ گئی میں نے اسے ٹھیک کروایا لیکن وہ میری مرضی کے مطابق ٹھیک نہ ہوئی تو مجھے اس بات نے کافی دن غمگین رکھا۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدنا احمد جعفر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں،میں نے حضرت سیدنا ابو علی حسین بن خیران کویہ کہتے ہوئے سناکہ ایک مرتبہ حضرت سیدنا ابو تراب نخشبی علیہ رحمۃاللہ القوی حجام کے پاس گئے اور فرمایا:'' اللہ عزوجل کی رضا کے لئے میرے سر کے بال مونڈ دو۔'' حجام نے کہا:'' بیٹھ جایئے۔'' آپ بیٹھ گئے اور حجام نے آپ کے با ل مونڈ نا شروع کر دیئے ، اسی دوران اس شہر کے حاکم کاوہاں سے گزر ہوا تو اس نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو دیکھ کر اپنے خدّام سے پوچھا:'' کیا یہ حضرت سیدنا ابو تراب نخشبی علیہ رحمۃاللہ القوی تونہیں ؟'' خدّام نے کہا:''جی ہاں! یہ حضرت سیدنا ابو تراب نخشبی علیہ رحمۃاللہ القوی ہی ہیں۔'' حاکم نے خدّام سے کہا: ''تمہارے پاس اس وقت کتنی رقم موجود ہے؟'' ایک خادم نے کہا:'' حضور! میرے پاس اس وقت اس چمڑے کے بیگ میں ایک ہزار دینار ہیں۔'' حاکم نے کہا:''جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حلق کروا چکیں توآپ کو ہماری طر ف سے یہ ہزار دینار نذرانہ پیش کرنا اور معذرت بھی کرنا کہ اس وقت ہمارے پاس اتنے ہی موجود تھے ورنہ کچھ زیادہ نذرانہ پیش کرتے ۔''
خادم آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس آیا اور عرض گزار ہوا :'' حضور! یہ کچھ رقم حاکم شہر نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے لئے بھجوائی ہے اورانہوں نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو سلام عرض کیا ہے ، اور کہا ہے کہ ہمارے پاس ابھی اسی قدر رقم موجود تھی ورنہ کچھ زیادہ پیش کرتے، یہی حقیرسا نذرانہ قبول فرمالیں ۔''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ سن کر کہا:'' یہ رقم اس حجام کو دے دو۔'' حجام فوراً بولا: ''میں اتنی رقم کا کیا کرو ں گا ؟''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا :'' یہ رقم لے لو۔'' حجام نے عرض کی :''میں یہ رقم کبھی بھی قبول نہیں کروں گا، خداعزوجل کی قسم ! اگر یہ دو ہزار دینار بھی ہوتے پھر بھی میں انہیں قبول نہ کرتا۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس خادم سے فرمایا:'' یہ رقم واپس اپنے حاکم کے پاس لے جاؤ اور اس سے کہنا کہ یہ تو حجام نے بھی قبول نہیں کی، اسے آپ اپنے پاس رکھیں اوراپنے ان امور میں خرچ کریں جو آپ کے ذمہ ہیں۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدنا ابو عبداللہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ایک مسجد میں مُؤذِّن تھے ۔آپ ر حمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:'' میرا ایک نوجوان پڑوسی تھا، جیسے ہی میں اذان دیتا وہ فوراً مسجد میں آجاتا اور ہر نماز میرے ساتھ باجماعت پڑھتا ، نماز کے فوراً بعد جوتے پہنتا اور اپنے گھر کی طر ف روانہ ہوجاتا، میری یہ خواہش تھی،اے کاش !یہ نوجوان مجھ سے گفتگو کرے یا مجھ سے اپنی کوئی حاجت طلب کرے ، پھرایک دن وہ نوجوان میرے پاس آیا اور کہنے لگا:'' اے ابو عبداللہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ!کیا تم مجھے کچھ دیر کے لئے عاریتاََ قرآن پاک دے سکتے ہو تا کہ میں تلاوت کرسکو ں؟'' میں نے اسے قرآن پاک دے دیا، اس نے قرآن حکیم کو اپنے سینے سے لگایا اور کہنے لگا :''آج ہمیں ضرور کوئی عظیم واقعہ پیش آنے والا ہے۔'' یہ کہہ کر وہ نوجوان اپنے گھر کی طر ف روانہ ہوگیااور سارا دن مجھے نظر نہ آیا۔ میں نے مغر ب کی اذان دی اور نماز پڑھی لیکن وہ نوجوان نہ آیا پھر عشاء کی نماز میں بھی وہ نہ آیا تو مجھے بڑی تشویش ہوئی ۔ نماز کے فوراً بعدمیں اس کے گھر کی طر ف روانہ ہوگیا۔جب وہاں پہنچا تو دیکھا کہ اس نوجوان کی میت وہاں موجود ہے اور ایک طر ف بالٹی اور لوٹا پڑا ہوا ہے اور قرآن پاک اس نوجوان کی گو د میں ہے۔ میں نے قرآن پاک اٹھایا اور لوگو ں کو اس کی موت کی خبردی اور پھر ہم نے اسے اٹھا کر چار پائی پر رکھا۔ میں ساری رات یہ سوچتا رہا کہ اس کا کفن کس سے مانگوں ؟اسے کفن کون دے گا؟ جب نماز فجر کا وقت ہوا تو میں نے اذان دی اور پھر جیسے ہی مسجد میں داخل ہوا تو مجھے محراب میں ایک نور سا نظر آیا۔جب وہاں پہنچا تو دیکھا کہ ایک کفن وہاں پڑا ہوا ہے ، میں نے اسے اٹھایا اور اپنے گھر رکھ آیا اور اللہ رب العزت کا شکر ادا کیا کہ اس نے کفن کا مسئلہ حل فرمادیا پھر میں نے نما ز فجر پڑھنا شروع کی جب سلام پھیرا تو دیکھاکہ میری دائیں طرف حضرت سیدنا ثابت بنائی ، حضرت سیدنا مالک بن دینار، حضرت سیدنا حبیب فارسی اور حضرت سیدنا صالح المری رحمہم اللہ تعالیٰ موجود ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا:'' اے میرے بھائیو! آج صبح صبح آپ لوگ یہاں کیسے تشریف لائے؟ خیریت تو ہے؟''وہ فرمانے لگے:'' کیا تمہارے پڑوس میں آج رات کسی کا انتقال ہوا ہے ؟'' میں نے کہا :''جی ہاں ! ایک نوجوان کا انتقال ہوا ہے جو میرے ساتھ ہی نماز پڑھا کرتا تھا۔'' انہوں نے کہا:'' ہمیں اس کے پا س لے چلو۔'' میں انہیں لے کر اس نوجوان کے گھر پہنچا تو حضرت سیدنا مالک بن دینار علیہ رحمۃاللہ الغفار نے اس کے چہرے سے کپڑا ہٹایا اور اس کے سجدے والی جگہ کو بو سہ دینے لگے، پھر فرمایا :''اے حجاج رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ !میرے ماں باپ تجھ پر قربان ! جہاں بھی تیرا حال لوگو ں پر ظاہر ہوا تو نے اس جگہ کو چھوڑ دیا اور ایسی جگہ سکونت اختیار کرلی جہاں کوئی تجھے جاننے والا نہ تھا ۔''
اس کے بعد ان بزرگوں نے اس نوجوان کو غسل دینا شرو ع کیا۔ ان میں سے ہر ایک کے پاس ایک کفن تھا ، ہر ایک یہی"
"کہنے لگا:'' اس نوجوان کومیں کفن دو ں گا۔'' جب معاملہ طول پکڑ گیا تو میں نے ان سے کہا:'' میں ساری رات اسی پریشانی میں رہا کہ اس نوجوان کوکفن کون دے گا،پھر صبح جب میں مسجد میں آیا اور اذان دینے کے بعد نماز پڑھنے لگا تو سامنے محراب میں مجھے یہ کفن نظر آیا، میں نہیں جانتاکہ کس نے یہ کفن وہاں رکھا تھا۔''اس پرسبھی کہنے لگے :''اس نوجوان کویہی کفن دیا جائے گا ۔'' پھر ہم نے اسے وہی کفن دیا اور اسے لے کر قبرستان کی طر ف چل دیئے، اس نوجوان کے جنازہ میں اتنے لوگ شریک ہوئے کہ ہمیں کندھا دینے کا بھی موقع نہ مل سکا ، معلوم نہیں کہ اتنے زیادہ لوگ کہاں سے اس نوجوان کے جنازے میں شرکت کے لئے آگئے تھے؟
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدنا ابو عبداللہ براثی علیہ رحمۃاللہ الکافی فرماتے ہیں،مجھے حضرت سیدنا خلف برزائی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بتایا:'' میری کفالت میں ایک کوڑھ زدہ نوجوان دیا گیا جس کے ہاتھ پاؤں کٹے ہوئے تھے اور آنکھوں سے بھی اندھا تھا، میں نے اسے کوڑھ زد ہ لوگوں کے ساتھ کر دیا،اسی طر ح کافی دن گزر گئے کہ میں اس سے بالکل غافل رہا۔ پھر مجھے اس کا خیال آیا، چنانچہ میں اس کے پاس گیا او راس سے کہا: ''اے اللہ عزوجل کے بندے! تمہارا کیا حال ہے؟ میں تمہاری طر ف سے کافی دن غفلت میں رہا ،تم سے تمہارا حال دریافت نہ کر سکا ۔''
وہ کہنے لگا:'' میرا ایک دوست ہے جس کی محبت نے میری تمام تکلیفو ں کا احاطہ کیا ہوا ہے، اس کی محبت کی وجہ سے مجھے اپنا درد وغم محسوس نہیں ہوتا، میرا وہ دوست مجھ سے کبھی بھی غافل نہیں ہوتا ۔''
میں نے کہا:'' (مجھے معاف کرنا) میں تمہیں بھول گیا تھا۔'' وہ کہنے لگا:'' مجھے تمہارے بھولنے کی کوئی پرواہ نہیں، مجھے یا د کرنے والا موجود ہے ، اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک دوست دوسرے دوست کو یاد نہ رکھے، میرا دوست ہر وقت میراخیال رکھتا ہے۔'' میں نے اس سے کہا:'' اگر تم چاہو تومیں تمہاری شادی کسی ایسی عورت سے کرادوں جو تمہاری اس گندگی کو دور کردے اور تمہارے زخموں کی دیکھ بھال کرے۔''تو وہ رونے لگا، پھر ایک آہِ سرد دل پر درد سے کھینچی اور آسمان کی طر ف نظر اٹھاتے ہوئے کہنے لگا: '' اے میرے دل و جان سے پیارے دوست!'' اتنا کہہ کر اس پر بے ہوشی طاری ہوگئی ، پھر جب افاقہ ہوا تو میں نے اس سے پوچھا :''تم کیا کہتے"
"ہو؟ کیا تمہاری شادی کرادوں؟'' کہنے لگا :''تم میری شادی کیسے کراؤ گے حالانکہ میں تو دنیا کا بادشاہ اور سردار ہوں۔'' میں نے کہا: ''تیرے پاس دنیا کی کونسی نعمت ہے؟'' ہاتھ پاؤں تیرے نہیں، آنکھوں سے تو اندھا ہے اور تواپنے منہ سے اس طرح کھاتا ہے جیسے جانور کھاتے ہیں، پھر بھلا تو دنیا کا سردار کیسے ہو سکتا ہے؟'' وہ کہنے لگا:'' میں اپنے مولا سے راضی ہوں کہ اس نے میرے جسم کو آزمائش میں مبتلا کیا اور میری زبان کو اپنے ذکر سے تر و تازہ رکھا ، یہ میری سب سے بڑی خوش نصیبی ہے ۔''
پھر وہ شخص میرے پاس سے چلا گیا اور کچھ ہی عرصہ بعد اس کا انتقال ہوگیا ، میں اس کے لئے کفن لے کر آیا جو کچھ بڑا تھا، میں نے بڑا حصہ کا ٹ لیا اور اس کو کفن پہنا کر نماز جنازہ پڑھی پھر اسے دفنا دیا گیا، رات کو میں نے خواب دیکھا تو کوئی کہنے والا کہہ رہا تھا :'' اے خلف! تم نے ہمارے ولی اور دوست کے کفن میں کنجوسی کی، یہ لو تمہارا کفن تمہیں واپس دیا جاتا ہے ، او رہم نے اپنے اس ولی کو سندس وریشم کا قیمتی کفن پہنادیاہے ۔جب میں بیدار ہوا تو میں نے دیکھا کہ میرا دیا ہوا کفن گھر میں پڑا ہوا تھا ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدنابشربن حارث علیہ رحمۃاللہ الوارث فرماتے ہیں:''ایک مرتبہ میں ملک شام روانہ ہوا،راستے میں میری ملاقات ایک عجیب وغریب شخص سے ہوئی، اس کے جسم پر ایک پھٹا پرانا کرتہ تھا جس میں جگہ جگہ گرہیں لگی ہوئی تھیں ، وہ بڑا حیران وپریشان ایک جگہ بیٹھا ہوا تھا گویا کہ وہ کسی خوفناک چیز سے وحشت زدہ ہے ۔ میں اس کے قریب گیا اورکہا:''اے بھائی! اللہ عزوجل آپ پر رحم فرمائے، آپ کہا ں سے آئے ہیں ؟''کہنے لگا :'' اسی کے پاس سے آیاہوں۔'' میں نے پوچھا :''کہاں کا ارادہ ہے؟'' کہنے لگا : ''اسی کی طرف۔'' میں نے کہا:'' اللہ عزوجل آپ پر رحم کرے، نجات کس چیز میں ہے ؟'' کہنے لگا:'' تقوی و پرہیزگاری اور اس ذات کے بارے میں غور وفکر کرنے میں جس کے تم طالب ہو ۔''
میں نے کہا:'' مجھے کچھ نصیحت فرمائیے ۔'' وہ شخص کہنے لگا:'' میں تمہیں اس قابل نہیں سمجھتاکہ تم نصیحت قبول کرو گے۔''میں نے کہا:'' ان شاء اللہ عزوجل ! میں نصیحت قبول کروں گا۔''یہ سن کر اس نے کہا: ''لوگو ں سے ہمیشہ دور بھاگنا،کبھی ان کی قربت اختیار نہ کرنا ، دنیا سے ہمیشہ بے رغبت رہنا ورنہ یہ تجھے ہلاکتوں کے منہ میں ڈال دے گی۔جس نے دنیاکی حقیقت کوجان لیا وہ کبھی بھی اس کی طر ف سے مطمئن نہیں ہوگا، جس نے اس کی تکالیف کودیکھ لیااس نے ان تکالیف کی دوائیں بھی تیار کر لیں، اور جس نے آخرت کوجان لیاوہ اس کے حصول میں مگن ہوگیا۔جوشخص بھی آخرت کی نعمتوں میں غوروفکرکرتاہے وہ ضروران کوطلب"
"کرتاہے اورمشکل ترین نیک اعمال اس کے لئے آسان ہوجاتے ہیں۔جب ان اخروی نعمتوں کی طرف ہرسمجھدارکادل مائل ہوتاہے توجس پروردگارعزوجل نے یہ نعمتیں بنائیں اورانہیں پاکیزہ وسرورکن بنایا وہ ذات اس بات کی زیادہ مستحق ہے کہ اس کی طر ف رغبت کی جائے، اوراسی کی رضاکے لئے اعمال صالحہ کئے جائیں ۔لہٰذاعقل مندلوگ مخلوق کی بجائے خالق کی طرف دل لگائے ہوئے ہیں، اسی کی محبت کے اسیرہیں۔وہ پروردگارعزوجل انہیں اپنی محبت کے جام پلاتاہے اوریہ لوگ اپنی زندگی میں ہر وقت اس کی محبت کے پیاسے ہیں،انہیں سیریابی ہوتی ہی نہیں،وہ ہر وقت اپنے خالق حقیقی عزو جل کے عشق میں مست رہتے ہیں ۔
پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوکر پوچھنے لگا:''کیاتم ان باتوں کوسمجھ چکے ہوجومیں نے بیان کیں؟''میں نے کہا:''اللہ عزوجل آپ پر رحم فرمائے، جوکچھ آپ نے بیان کیامیں وہ تمام باتیں سمجھ چکاہوں۔''کہنے لگا:''اللہ عزوجل کاشکرہے کہ اس نے تمہیں یہ باتیں سمجھا دیں۔یہ کہتے وقت اس کے چہرے پرایک خوشی کی لہردوڑگئی،پھر مجھ سے کہا:''تمہارے لئے وہ لوگ مشعلِ راہ ہیں جو اس کی محبت کے پیاسے ہیں اور وہ جامِ عشق سے سیرنہیں ہو تے،ان کے دلوں میں حکمت کے چشمے موجزن ہیں، یہ لوگ بہت عقل مند و تیز فہم ہیں، ان کی خواہشات انہیں گمراہ نہیں کرسکتیں اورنہ ہی کوئی انہیں اللہ عزوجل کی محبت سے غافل کر سکتاہے،اپنی مضبوطی اور دلیری میں یہ شیرکی طر ح ہیں،اپنے توکل میں غنی ہیں،مصیبتوں میں ثابت قدم رہنے والے ہیں،مخلوق میں سب سے زیادہ نرم دل اور انیس ہیں،شرم وحیا کے معاملے میں بہت شدید ہیں اور اپنے مقاصدمیں بہت شریف۔ نہ غرو ر وتکبر کرتے ہیں، نہ ہی جھوٹی عاجزی کرتے ہیں۔ پس یہ لوگ اللہ عزوجل کے مخلص بندے اور مخلوق کے لئے چمکتے ہوئے چراغ ہیں۔
پھر مجھ سے کہا:''اللہ عزجل ہمیں ان چند کلمات کا اچھا صلہ عطا فرمائے ۔'' پھر اس نے سلام کیا اور جانے لگا تومیں نے کہا:''میں آپ کی صحبت میں رہنا چاہتا ہوں۔''مگراُس نے انکار کردیا اور کہا:''میں تجھے یا د رکھوں گا تو مجھے یا د رکھنا۔'' یہ کہہ کر وہ چلا گیا، اور میں وہیں کھڑااسے دیکھتا رہا ۔
حضرت سیدنا بشر بن حارث علیہ رحمۃاللہ الوارث فرماتے ہیں:'' جب حضرت سیدنا عیسٰی بن یونس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے میری ملاقات ہوئی اور میں نے انہیں یہ واقعہ سنایاتو وہ فرمانے لگے :''کہ اس نے تجھ سے محبت کا اظہار کیا ،وہ بہت نیک شخص ہے اور اس کا شمار بڑے بڑے اولیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ میں ہوتاہے، اس نے ایک پہاڑ پر رہائش رکھی ہوئی ہے ، صرف نماز جمعہ کے لئے شہر میں آتا ہے اور اس دن سوکھی لکڑیاں بیچتا ہے، ان سے جو رقم ملتی ہے وہ اسے پورے ہفتے کفایت کرتی ہے۔ مجھے تو تعجب ہے کہ اس نے تجھ سے بات چیت کی اورتو نے اس سے سنی ہوئی نصیحتو ں کو یاد کرلیا۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہماسے مروی ہے، ایک مرتبہ حضرت سیدنا عیسیٰ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام بہت سے لوگوں کو لے کر بارش کی دعا کرنے چلے ، وحی نازل ہوئی کہ'' جب تک تمہارے ساتھ گناہگار لوگ موجودہیں بارش نہیں برسائی جائے گی۔'' چنانچہ آپ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے اعلان کیا:'' تم میں سے جو جو گناہگار ہے وہ چلا جائے، جس نے کوئی گناہ کیا ہو وہ ہمارے ساتھ نہ رکے۔'' یہ سن کر تمام لوگ واپس پلٹ گئے لیکن ایک ایساشخص باقی رہا جس کی ایک آنکھ ضائع ہوچکی تھی۔ آپ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس سے دریافت فرمایا:'' تم واپس کیوں نہیں گئے؟'' وہ شخص عرض گزار ہوا: '' یا رو ح اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام ! میں نے لمحہ بھر بھی اللہ عز وجل کی نافرمانی نہیں کی، البتہ! ایک مرتبہ بلا قصد میری نظر ایک اجنبی عورت کے پاؤں پر پڑگئی تھی، اپنے اس فعل پر میں بہت شرمندہ ہوا اور اپنی سیدھی آنکھ نکال پھینکی ۔خدا عزوجل کی قسم !اگر میری دوسری آنکھ ایسی خطا کرتی تو میں اسے بھی نکال پھینکتا۔''
یہ سن کرحضرت سیدنا عیسیٰ علیٰ نبیناو علیہ الصلوٰۃ والسلام رونے لگے اور اتنا روئے کہ آپعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی مبارک داڑھی آنسوؤں سے تر ہوگئی، پھر اس شخص سے فرمایا:''تو ہمارے لئے دعا کر میری نسبت تو زیادہ دعا کرنے کا حق دار ہے کیونکہ میں تونبوت کی وجہ سے گناہوں سے معصوم ہوں،اور تو معصوم بھی نہیں لیکن پھربھی ساری زندگی گناہوں سے بچتا رہا۔ ' '
چنانچہ وہ شخص آگے بڑھا اور اپنے ہاتھ بلند کردیئے، پھر کچھ اس طر ح سے بارگاہ خداوندی عزوجل میں عرض گزار ہوا: ''اے ہمارے پر وردگار عزوجل! تو نے ہی ہمیں پیدا فرمایااورتو ہماری پیدائش سے پہلے بھی جانتا تھا کہ ہم کیا عمل کرنے والے ہیں، پھر بھی تو نے ہمیں پیدا فرمایا، جب تو نے ہمیں پیدا فرمادیا تو تُو ہی ہمارے رزق کا کفیل ہے۔ اے ہمارے پاک پروردگار عزوجل! ہمیں بارانِ رحمت عطا فرما۔''
اس پاک پروردگار عزوجل کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں عیسیٰ (علیہ السلام) کی جان ہے! ابھی وہ شخص دعاسے فارغ بھی نہ ہونے پایا تھا کہ ایسی بارش آئی گویا آسمان پھٹ پڑا ہواور اس کی دعاکی برکت سے پیاسے سیراب ہوگئے ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدنا منصور بن عمار علیہ رحمۃاللہ الغفار فرماتے ہیں،میں ایک اندھیری رات سفر پر روانہ ہوا،میں راستے میں ایک جگہ بیٹھ گیا، اچانک میں نے کسی نوجوان کے رونے کی آواز سنی جو روتے ہوئے اس طر ح کہہ رہا تھا :''اے میرے پروردگار عزوجل! تیری عزت و جلال کی قسم !میں نے تیری نافرمانی تیری مخالفت کی بناء پر نہیں کی اور نہ ہی گناہ کرتے وقت میں تیرے عذاب سے بے خبر تھا بلکہ میری بدبختی نے گناہ کو میرے لئے مزیّن کردیا،اور میں تیری صفتِ ستّاری کی وجہ سے گناہوں پر دلیر ہو گیا۔تو بار بار میرے گناہوں پر پردہ ڈالتا رہا، میں گناہوں پر جرأ ت کرتا رہا۔ہائے میری بر بادی! اب مجھے تیرے عذاب سے کون بچائے گا؟ اگر تو نے مجھ سے تعلق ختم کردیا تو میں کس سے رشتہ قائم کروں گا۔ ہا ئے افسوس! میں نے ساری جوانی تیری نافرمانی میں گزار دی، میں بار بار تو بہ کرتا پھر گناہ کر ڈالتا، اب تو توبہ کرتے ہوئے شرم آتی ہے ۔''
حضرت سیدنا منصور بن عمار علیہ رحمۃاللہ الغفار فرماتے ہیں:''اس نوجوان کی گریہ وزاری سن کر میں نے قرآن پاک کی یہ آیت تلاوت کی :"
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا قُوۡۤا اَنۡفُسَکُمْ وَ اَہۡلِیۡکُمْ نَارًا وَّ قُوۡدُہَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَۃُ عَلَیۡہَا مَلٰٓئِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ
"ترجمہ کنزالایمان:اے ایمان والو!اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اورپتھر ہیں، اس پر سخت کرّے(طاقتور)فرشتے مقررہیں۔(پ28، تحریم: 6 )
جب میں نے یہ آیت تلاوت کی تو مجھے ایک چیخ سنائی دی اور پھرخاموشی طاری ہوگئی۔ اس کے بعد میں وہاں سے آگے روانہ ہوگیا، صبح جب میں دوبارہ اسی مکان کے قریب آیا تو وہاں کسی کا جنازہ رکھا ہوا تھا، اور ایک بوڑھی عورت وہاں موجود تھی۔ میں نے اس سے پوچھا :''یہ کس کا جنازہ ہے ؟'' کہنے لگی :''تو کون ہے؟ اور اس کے متعلق پوچھ کر میرے غم کوکیوں تازہ کرنا چاہتا ہے؟'' میں نے کہا:'' میں ایک مسافر ہوں ۔''پھر اس بوڑھی عورت نے بتایا:''یہ میرے بیٹے کی لاش ہے، کل رات یہ نماز پڑھ رہا تھا کہ کوئی شخص گلی سے گزرا اور اس نے ایسی آیت پڑھی جس میں جہنم کی آگ کا تذکرہ تھا ، پس اُس آیت کو سن کر میرا بیٹا تڑ پنے لگا اور اس نے روتے روتے جان دے دی۔'' یہ سن کر حضرت سیدنا منصور بن عمار علیہ رحمۃاللہ الغفار وہاں سے چلے آئے اور اپنے آپ کو مخاطب کر کے فرمانے لگے :''اے ابن عمار علیہ رحمۃاللہ الغفار! ''ایسے ہوتے ہیں ڈرنے والے۔ ''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدنا صالح مر ی علیہ رحمۃاللہ القوی فرماتے ہیں، ایک مرتبہ حضرت سیدنامالک بن دینار علیہ رحمۃاللہ الغفار میرے پاس آئے اور فرمانے لگے:'' کل صبح فلاں جگہ پہنچ جانا، میرے کچھ اور دوست بھی وہاں پہنچ جائیں گے، پھر ہم حضرت سیدنا ابو جہیزرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہسے ملاقات کے لئے چلیں گے۔'' میں نے کہا:'' ٹھیک ہے ،میں مقررہ وقت پر وہاں پہنچ جاؤں گا۔'' جب میں صبح اس جگہ پہنچا جہاں کا مجھے کہا گیا تھا تو حضرت سیدنامالک بن دینار علیہ رحمۃاللہ الغفار مجھ سے پہلے ہی وہاں موجود تھے اور ان کے ساتھ حضرت سیدنا محمد بن واسع ، حضرت سیدنا ثابت بنائی اور حضرت سیدنا حبیب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم بھی موجود تھے۔ میں نے ان سب کو ایک ساتھ دیکھ کر دل میں کہا :''اللہ عزوجل کی قسم! آج کا دن بہت خوش کن ہوگا۔'' پھر ہم سب حضرت سیدنا ابو جہیزرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی طرف چل دیئے۔ حضرت سیدنا ابو جہیزرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے گھر میں عبادت کے لئے ایک جگہ مخصوص کر رکھی تھی۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ'' بصرہ شہر'' میں صرف نمازِ جمعہ کے لئے تشریف لاتے اور نماز کے بعد فوراً ہی واپس تشریف لے جاتے ۔
حضرت سیدنا صالح مری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہفرماتے ہیں:'' ہم ایک انتہائی خوبصورت جگہ سے گزرے تو حضرت سیدنا مالک بن دینارعلیہ رحمۃ اللہ الغفارنے فرمایا: ''اے ثابت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ !اس جگہ نماز پڑھ لو، کل بر وزِ قیامت یہ جگہ تمہاری گواہی دے گی۔'' پھر ہم حضرت سیدنا ابو جہیزرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے گھر پہنچے اور ان کے متعلق پوچھا تو پتاچلا کہ وہ نماز پڑھنے گئے ہیں ، ہم ان کا انتظار کرنے لگے ،کچھ ہی دیر بعد حضرت سیدنا ابو جہیز رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تشریف لائے، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نہایت غمزدہ ،پر یشان حال اور بہت کمزور تھے، ایسا لگتاتھا جیسے ابھی قبر سے نکل کر آرہے ہوں ۔ پھر انہوں نے مختصر سی نماز پڑھی اور نہایت غمگین حالت میں ایک جگہ بیٹھ گئے۔ ان سے مصافحہ کرنے کے لئے سب سے پہلے حضرت سیدنا محمد بن واسع رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ گئے اور انہوں نے سلام کیا ، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جواب دیا اور پوچھا:'' تم کون ہو؟ میں تمہاری آواز نہیں پہچان پایا۔''حضرت سیدنا محمد بن واسع رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے عرض کی :'' میں بصرہ سے آیا ہوں۔'' پوچھا:'' تمہارا نام کیا ہے؟''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جواب دیا:'' میرا نام محمد بن واسع ہے ۔'' یہ سن کر فرمانے لگے:'' مرحبا ،مرحبا! کیاتم ہی محمد بن واسع ہو جن کے متعلق بصرہ والے یہ کہتے ہیں کہ سب سے زیادہ فضیلت والے یہی ہیں ،خوش آمدید بیٹھ جائیے۔'' پھر حضرت سیدنا ثابت بنائی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے سلام کیا، ان سے بھی نام پوچھا تو انہوں نے بتایا: '' میرانام ثابت بنائی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہے۔'' یہ سن کر فرمانے لگے:'' مرحبا، اے ثابت !کیا تمہار ے ہی متعلق لوگوں میں مشہور ہے کہ سب سے زیاد ہ لمبی نماز پڑھنے والے ثابت بنائی ہیں ،خوش آمدید! آپ (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) تشریف رکھیں ۔''
پھر حضرت سیدنا حبیب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سلام کے لئے حاضر ہوئے۔ ان سے پوچھا:'' تمہارا نام کیا ہے؟'' عرض کی:"
" ''حبیب ۔''فرمایا:'' کیا تم ہی وہ حبیب ہو جن کے متعلق مشہور ہے کہ اللہ عزوجل کے سوا کبھی کسی سے کوئی سوال نہیں کرتے ، خوش آمدید! تشریف رکھئے ۔''پھر حضرت سیدنا مالک بن دینار علیہ رحمۃاللہ الغفار نے سلام کیا اور جب اپنا نام بتایا تو فرمایا:''مرحبا !مرحبا! اے مالک بن دینار علیہ رحمۃاللہ الغفار! تمہارے ہی متعلق مشہور ہے کہ تم سب سے زیادہ مجاہد ہ کرنے والے ہو۔'' پھر انہیں بھی اپنے پاس بٹھا لیا۔
پھر میں سلام کے لئے حاضر ہوا ۔جب میرا نام پوچھاتو میں نے اپنا نام بتا یا، فرمانے لگے:'' اچھا! تمہارے ہی متعلق مشہور ہے کہ تم قرآن بہت اچھا پڑھتے ہو ، میری بڑی خواہش تھی کہ تم سے قرآن سنوں: آج مجھے قرآن سناؤ ۔'' حکم ملتے ہی میں نے تلاوت شروع کردی۔ خدا عزوجل کی قسم! ابھی میں تَعَوُّذْ(یعنی اَعُوْذُبِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم) بھی مکمل نہ کر پایا تھا کہ وہ بے ہوش ہو گئے۔ جب افاقہ ہوا تو فرمانے لگے:'' اے صالح (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)!مجھے قرآن سناؤ۔ ''چنانچہ میں نے قرآن پاک کی یہ آیت تلاوت کی:"
وَ قَدِمْنَاۤ اِلٰی مَا عَمِلُوۡا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰہُ ہَبَآءً مَّنۡثُوۡرًا ﴿23﴾
"ترجمہ کنزالایمان:اور جو کچھ انہوں نے کام کئے تھے ہم نے قصد فرما کر انہیں باریک باریک غبار کے بکھرے ہوئے ذرے کردیا کہ روزن کی دھوپ میں نظر آتے ہیں۔(پ19،الفرقان:23)
جیسے ہی انہوں نے یہ آیت سنی ایک چیخ ماری اور پھر ان کے گلے سے عجیب وغریب آواز آنے لگی اور تڑپنے لگے پھر یکدم ساکت ہوگئے۔ ہم ان کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ ان کی روح قفس عنصری سے پر وا ز کر چکی تھی ، ہم نے لوگو ں سے پوچھا : ''کیا ان کے گھر والوں میں سے کوئی موجود ہے؟'' لوگو ں نے بتایا:'' ایک بوڑھی عورت ان کی خدمت کرتی ہے۔'' جب اس بوڑھی عورت کو بلایا گیا تو اس نے پوچھا:'' کس طرح ان کا انتقال ہوا؟'' ہم نے بتایا:'' ان کے سامنے قرآن کی ایک آیت پڑھی گئی جسے سنتے ہی ان کی روح پرواز کر گئی۔''
اُس عورت نے پوچھا:'' تلاوت کس نے کی تھی ؟شاید! حضرت سیدنا صالح قاری علیہ رحمۃاللہ الباری نے تلاوت کی ہو گی۔'' ہم نے کہا:'' جی ہاں! تلاوت تو حضرت صالح رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہی نے کی ہے لیکن تم انہیں کس طر ح جانتی ہو ؟''کہنے لگی: ''میں انہیں جانتی تو نہیں مگر حضرت سیدنا ابو جہیز رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ اگر میرے سامنے حضرت سیدنا صالح قاری علیہ رحمۃاللہ الباری نے تلاوت کی تو میں ان کی تلاوت سنتے ہی مرجاؤں گا ۔''
پھر اس عورت نے کہا:'' خدا عزوجل کی قسم! حضرت صالح رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (کی پردرد آواز)نے ہمارے حبیب کو قتل کرڈالا ۔'' یہ کہہ کر وہ عورت رونے لگی۔ پھرہم سب نے مل کرحضرت سیدنا ابو جہیز رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی تجہیز وتکفین کی۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدنا عبد الواحد بن یزید علیہ رحمۃاللہ المجید فرماتے ہیں :'' ایک مرتبہ میں ایک راہب کے پاس سے گزرا جو لوگو ں سے الگ تھلگ اپنے صومعہ (یعنی عبادت خانہ) میں رہتا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا :''اے راہب !تو کس کی عبادت کرتا ہے؟'' کہنے لگا: ''میں اس کی عبادت کرتا ہوں جس نے مجھے اور تجھے پیدا کیا ۔''میں نے پوچھا:'' اس کی عظمت وبزرگی کا کیاعالم ہے؟'' اس نے جواب دیا: ''وہ بڑی عظمت ومرتبت کا مالک ہے، اس کی عظمت ہر چیزسے بڑھ کر ہے ۔'' میں نے پوچھا :''انسان کو دولتِ عشق کب نصیب ہوتی ہے ؟'' تو وہ کہنے لگا:'' جب اس کی محبت بے غرض ہو اور وہ اپنے معاملہ میں مخلص ہو۔''
میں نے پوچھا:''محبت کب خالص وبے غر ض ہوتی ہے ؟'' اس نے جواب دیا:'' جب غم کی کیفیت طاری ہو اور وہ محبوب کی اطاعت میں لگ جائے ۔''میں نے کہا:'' محبت میں اخلاص کی پہچان کیا ہے ؟'' کہنے لگا:'' جب غمِ فرقت کے علاوہ کوئی اور غم نہ ہو۔
میں نے پوچھا:'' تم نے خلوت نشینی کو کیوں پسند کیا ؟''کہنے لگا:''اگر توتنہائی وخلوت کی لذت سے آشنا ہوجائے توتجھے اپنے آپ سے بھی وحشت محسوس ہونے لگے ۔''
میں نے پوچھا:''انسان کو خلوت نشینی سے کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے ؟'' راہب نے جواب دیا:'' لوگو ں کے شر سے امان مل جاتی ہے اور ان کی آمد ورفت کی آفت سے جان چھوٹ جاتی ہے۔'' میں نے کہا:'' مجھے کچھ اور نصیحت کر۔'' تووہ کہنے لگا: ''ہمیشہ حلال رزق کھاؤ پھر جہاں چاہوسوجا ؤ تمہیں غم وپریشانی نہ ہوگی۔''میں نے پوچھا:'' راحت وسکون کس عمل میں ہے ؟'' اس نے کہا:'' خلافِ نفس کام کرنے میں۔''مَیں نے پوچھا: ''انسان کو راحت وسکون کب میسر آئے گا ؟ ''تووہ کہنے لگا:'' جب وہ جنت میں پہنچ جائے گا۔''
میں نے پوچھا:'' اے راہب! تو نے دنیا سے تعلق توڑ کر اس صومعہ (یعنی عبادت خانہ) کو کیوں اختیار کرلیا؟'' کہنے لگا:'' جو شخص زمین پر چلتا ہے وہ اوندھے منہ گر جاتا ہے اور دنیا داروں کو ہروقت چوروں کا خوف رہتا ہے،پس میں نے دنیا داروں سے تعلق ختم کرلیا اور دنیا کے فتنہ وفساد سے محفو ظ رہنے کے لئے اپنے آپ کواس ذات کے سپرد کردیا جس کی بادشاہی زمین و آسمان میں ہے، دنیا دار لوگ عقل کے چور ہیں پس مجھے خوف ہوا کہ یہ میری عقل چُرا لیں گے اور حقیقی بات یہ ہے کہ جب انسان اپنے دل کو تمام خواہشاتِ نفسانیہ اور بر ائیوں سے پاک کرلیتا ہے تو اس کے لئے زمین تنگ ہوجاتی ہے ( یعنی اسے دنیا قید خانہ معلوم ہوتی ہے) پھر وہ آسمانوں کی طر ف بلندی چاہتا ہے اور قُربِ الٰہی عزوجل کا متمنّی ہوجاتا ہے اور اس بات کو پسند کرتا ہے کہ ابھی فوراََ اپنے مالک حقیقی عزوجل سے جا ملے۔''"
" پھر میں نے اس سے پوچھا:'' اے راہب! تو کہا ں سے کھاتا ہے ؟'' کہنے لگا:'' میں ایسی کھیتی سے اپنا رزق حاصل کرتاہو ں جسے میں نے کاشت نہیں کیا بلکہ اسے تو اس ذات نے پیدا فرمایا ہے جس نے یہ چکّی یعنی داڑھیں میرے منہ میں نصب کیں،میں اسی کا دیا ہوا رزق کھاتا ہوں۔'' میں نے پوچھا:'' تم اپنے آپ کو کیسا محسو س کرتے ہو؟'' کہنے لگا:'' اس مسافر کا کیا حال ہوگا جو بہت دشوار گزار سفر کے لئے بغیر زادِراہ کے روانہ ہوا ہو ، او راس شخص کا کیا حال ہوگا جو اندھیری اور وحشت ناک قبر میں اکیلا رہے گا، وہاں کوئی غم خوار ومو نِس نہ ہوگا پھر اس کا سامنا اس عظیم و قہار ذات سے ہوگا جو احکمُ الحاکمین ہے جس کی بادشاہی تمام جہانوں میں ہے۔'' اتنا کہنے کے بعد وہ راہب زار وقطار رونے لگا۔
میں نے پوچھا:'' تجھے کس چیز نے رلایا ؟'' کہنے لگا:''مجھے جوانی کے گزرے ہوئے وہ ایام رُلا رہے ہیں جن میں ،مَیں کچھ نیکی نہ کرسکا اور سفرِ آخرت میں زادِ راہ کی کمی مجھے رُلا رہی ہے، کیا معلوم میرا ٹھکانا جہنم ہے یا جنت؟''
میں نے پوچھا:'' غریب کون ہے ؟'' کہنے لگا:'' غریب اور قابلِ رحم وہ شخص نہیں جو روزی کے لئے شہربہ شہر پھرے بلکہ غریب (اور قابلِ رحم) تو وہ شخص ہے جو نیک ہو اور فاسقوں میں پھنس جائے ۔''
بار بارصرف(زبان سے) استغفار کرنا (اور دل سے توبہ نہ کرنا) توجھوٹو ں کا طریقہ ہے ، اگر زبان کو معلوم جاتا کہ کس عظیم ذات سے مغفرت طلب کی جارہی ہے تو وہ منہ میں خشک ہوجاتی۔ جب کوئی دنیا سے تعلق قائم کرتا ہے توموت اس کا تعلق ختم کردیتی ہے ۔
پھرکہنے لگا:''اگر انسان سچے دل سے تو بہ کرے تواللہ عزوجل اس کے بڑے بڑے گناہوں کو بھی معاف فرمادیتا ہے ، اور جب بندہ گناہوں کو چھوڑنے کا عزمِ مصمّم کرلے تو اس کے لئے آسمانوں سے فتوحات اترتی ہیں،اور اس کی دعائیں قبول کی جاتی ہیں ، او ر ان دعاؤں کی برکت سے اس کے سارے غم کافور ہوجاتے ہیں۔''راہب کی حکمت بھری باتیں سن کرمیں نے اس سے کہا:'' میں تمہارے ساتھ رہنا چاہتا ہوں ،کیا تم اس بات کو پسند کر وگے ؟''تو وہ راہب کہنے لگا:''میں تمہارے ساتھ رہ کر کیا کروں گا، مجھے تو اس خدا عزوجل کا قرب نصیب ہے جو رزّاق ہے اورروحوں کو قبض کر نے والا ہے ،وہی موت وحیات دینے والا ہے ، وہی مجھے رزق دیتا ہے ،کوئی اور ایسی صفات کا مالک ہو ہی نہیں سکتا (یعنی مجھے وہ ذات کا فی ہے ، میں کسی غیر کا محتاج نہیں)"
" حضرت سیدنا عبداللہ بن الفرج العابد علیہ رحمۃاللہ الماجد فرماتے ہیں :'' ایک مرتبہ مجھے کسی تعمیر ی کام کے لئے مزدور کی ضرورت پڑی، میں بازار آیا اور کسی ایسے مزدور کو تلاش کرنے لگا جو میری خواہش کے مطابق ہو، یکایک میری نظر ایک نوجوان پر پڑی جو سب سے آخر میں بیٹھا ہو ا تھا۔ چہرہ شرافت وعبادت کے نور سے چمک رہا تھا ، اس کا جسم بہت ہی کمزور تھا ، اس کے سامنے ایک زنبیل اور رسی پڑی ہوئی تھی،اس نے اُون کاجبہ پہنا ہوا تھا اور ایک موٹی چادر کا تہبند باندھا ہوا تھا ۔
میں اس کے پا س آیا او رپوچھا:'' اے نوجوان! کیا تم مزدو ری کرو گے ؟'' کہنے لگا:'' جی ہاں۔'' میں نے پوچھا : '' کتنی اُجرت لوگے ؟ ''اس نے جوا ب دیا:''ایک درہم اور ایک دانق (یعنی درہم کاچھٹا حصہ) لوں گا۔'' میں نے کہا: ''ٹھیک ہے ، میرے ساتھ چلو۔'' وہ نوجوان کہنے لگا:''جیسے ہی مُؤذِّن ظہر کی اذان دے گا میں کام چھوڑ کر نماز کی تیاری کرو ں گا اور نماز کے بعد دوبارہ کام شروع کردوں گا، پھر جب عصر کی اذان ہوگی تو میں فوراًکام چھوڑ کر نماز کی تیاری کروں گا اور نماز کے بعد کام کروں گا،اگر تمہیں یہ شرط منظور ہے تو میں تمہارے ساتھ چلتا ہو ں ورنہ کوئی اور مزدور ڈھونڈ لو۔'' میں نے کہا:'' مجھے تمہاری یہ شرط منظور ہے ۔ میں اسے لے کر اپنے گھر آیا او ر کام کی تفصیل بتا دی ، اس نے کام کے لئے کمر باندھی اور اپنے کام میں مشغول ہوگیا ۔اورمجھ سے کوئی بات نہ کی۔ جب مؤذن نے ظہر کی اذان دی تو اس نے مجھ سے کہا:''اے عبداللہ! مؤذن نے اذان دے دی ہے۔'' میں نے کہا:''آپ جایئے اور نماز کی تیاری کیجئے ۔'' نماز سے فراغت کے بعد وہ عظیم نوجوان دوبارہ اپنے کام میں مشغول ہوگیا اور بڑی دیا نتداری سے احسن انداز میں کام کرنے لگا۔ عصر کی اذان ہوتے ہی اس نے مجھ سے کہا:''اے عبداللہ! مؤذن اذان دے چکا۔'' میں نے کہا :''جائیے اور نماز پڑھ لیجئے۔'' نماز کے بعد وہ دوبارہ کام میں مشغول ہوگیا اور غروبِ آفتاب تک کام کرتا رہاپھر میں نے اسے طے شدہ اُجرت دی اور وہ وہاں سے رخصت ہوگیا ۔
کچھ دنوں کے بعد مجھے دوبارہ مزدور کی ضرورت پڑی تو مجھ سے میری زوجہ نے کہا:''اسی نوجوان کو لے کر آناکیونکہ اس کے عمل سے ہمیں بہت نصیحت حاصل ہوئی ہے او روہ بہت دیا نتدار ہے، چنانچہ میں بازار گیا تو مجھے وہ نوجوان کہیں نظر نہ آیا۔ میں نے لوگو ں سے اس کے متعلق پوچھا تو وہ کہنے لگے:'' کیا آپ اسی کمزورو نحیف نوجوان کے بارے میں پوچھ رہے ہیں جو سب سے آخر میں بیٹھتا ہے ؟'' میں نے کہا:''جی ہا ں، میں اسی کے متعلق پوچھ رہا ہوں ۔''تو انہوں نے کہا:'' وہ تو صرف ہفتہ کے دن آتا ہے، اس کے علاوہ کسی دن کام نہیں کرتا۔'' یہ سن کرمیں واپس آگیا اور ہفتے کا انتظار کرنے لگا پھر بروز ہفتہ میں دو بارہ بازار گیا تو میں نے اس پُرکشش وعظیم نوجوان کو اسی جگہ موجود پایا۔ میں اس کے پاس گیا اور اس سے پوچھا:'' کیا تم مزدوری کرو گے؟''"
" اس نے کہا :''جی ہاں، لیکن میری وہی شرائط ہوں گی جو میں نے پہلے بتائی تھیں ۔''میں نے کہا: ''مجھے منظور ہے، تم میرے ساتھ چلو۔'' وہ میرے ساتھ میرے گھر آیا او رمیں نے اسے کام کی تفصیل بتادی وہ بڑی دیانتداری سے پہلے کی طر ح کام کرتارہا اور اس نے کئی مزدوروں جتنا کام کیا، شام کو میں نے اسے طے شدہ اُجرت سے زیادہ رقم دینا چاہی تو اس نے زائد رقم لینے سے انکار کردیا۔ میں نے بہت اصرار کیا مگر وہ نہ مانا اور اجرت لئے بغیر ہی وہاں سے جانے لگا مجھے اس بات سے بڑا رنج ہوا کہ وہ بغیر اجرت لئے ہی جا رہا ہے۔ میں نے اس کا پیچھا کیا اور بصد عاجزی اسے اُجرت دی۔ اس نے زائد رقم واپس کر دی اورطے شدہ مزدوری لے کر وہاں سے روانہ ہوگیا ۔ کچھ دنوں کے بعد جب دوبارہ ہمیں مزدور کی ضرورت پڑی تومیں ہفتہ کے دن بازار گیا اور اسی نوجوان کو تلاش کرنے لگا لیکن وہ مجھے کہیں نظر نہ آیا میں نے اس کے متعلق پوچھا تو لوگو ں نے بتایا کہ وہ ہفتے میں صرف ایک دن کام کرتا ہے اور مزدوری میں ایک درہم اور ایک دانق (یعنی درہم کا چھٹا حصہ) اُجر ت لیتاہے، وہ روزانہ ایک دانق اپنے استعمال میں لاتا ہے ۔آج وہ بیمارتھااس لئے نہیں ایا ۔میں نے پوچھا :'' وہ کہا ں رہتا ہے؟'' لوگو ں نے بتا یا:'' فلاں مکان میں رہتا ہے۔'' میں وہاں پہنچا تو وہ ایک بڑھیا کے مکان میں موجود تھا۔ بڑھیا نے بتا یا کہ یہ کئی دنوں سے بیمار ہے۔ میں اس کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ وہ سخت بیماری میں مبتلاہے اور اینٹوں کا تکیہ بنایا ہوا ہے ، میں نے اسے سلام کیا او ر پوچھا:'' اے میرے بھائی! کیا تمہاری کوئی حاجت ہے ؟'' کہنے لگا:''جی ہا ں، مجھے تم سے ایک ضروری کام ہے، کیا تم اسے پورا کر و گے ؟ میں نے کہا: ''ان شاء اللہ عزوجل میں تمہارا کام ضرور پورا کروں گا، بتاؤ! کیا کام ہے ؟''
اس نوجوان نے کہا:''جب میں مرجاؤں تو یہ لوٹا اور زنبیل بیچ کر گور کن کو اُجرت دے دینا اور کفن کے لئے مجھے میرا یہی اُون کا جبہ اور چادر کا فی ہے، مجھے اسی لباس میں سپرد خاک کردینا اور میری جیب میں ایک انگوٹھی ہے اسے اپنے پاس رکھنا اور میری تدفین کے بعد اسے امیر المؤمنین ہارو ن الرشید علیہ رحمۃاللہ المجید کے پاس لے جانا، جب ان کی شاہی سوا ری فلاں دن فلاں مقام سے گزرے توانہیں کہنا: ''میرے پاس آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی ایک امانت ہے پھر انہیں یہ انگوٹھی دکھا دینا،وہ خود ہی تمہیں اپنے پاس بلا لیں گے اوراس بات کا خیال رکھنا کہ یہ کام میری تدفین کے بعد ہی کرنا۔'' میں نے کہا:'' ٹھیک ہے،میں تمہاری وصیت پر عمل کرو ں گا ۔''
پھر اس عظیم نوجوان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ مجھے اس کی موت کا بہت دکھ ہوا ،بہر حال میں نے اس کی وصیت کے مطابق اس کی تجہیز وتکفین کی اور پھر انتظار کرنے لگا کہ خلیفہ ہارو ن الرشید علیہ رحمۃاللہ المجیدکی سواری کس دن نکلتی ہے۔ جب وہ دن آیا تو میں راستے میں بیٹھ گیا ،امیر المؤمنین رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ جاہ وجلال کے عالم میں ہزارو ں شہسواروں کے ساتھ بڑی شان وشوکت سے چلے آرہے تھے۔جب ان کی سواری میرے قریب سے گزری تو میں نے بلند آواز سے کہا:''اے امیر"
"المؤمنین (رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ) !میرے پاس آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی ایک امانت ہے۔'' پھر میں نے وہ انگوٹھی دکھائی، انہوں نے انگوٹھی دیکھ کر حکم دیا کہ اسے ہمارے مہمان خانے میں لے جاؤ میں اس سے علیٰحد گی میں گفتگو کرو ں گا۔
چنانچہ مجھے محل میں پہنچا دیا گیا،جب خلیفہ ہارو ن الرشید علیہ رحمۃاللہ المجید کی واپسی ہوئی تو انہوں نے مجھے اپنے پاس بلایا اور باقی تمام لوگو ں کو باہر جانے کا حکم دیا، پھر مجھ سے پوچھا:'' تم کون ہو؟'' میں نے کہا:'' میرا نام عبداللہ بن فرج ہے۔'' انہوں نے پوچھا: '' تمہارے پاس یہ انگوٹھی کہاں سے آئی؟''میں نے اس عظیم نوجوان کا سارا واقعہ خلیفہ ہارو ن الرشید علیہ رحمۃاللہ المجید کو سنادیا ۔''
یہ سن کر وہ اس قدر روئے کہ مجھے ان پر ترس آنے لگا ۔ پھر جب وہ میری طر ف متوجہ ہوئے تومیں نے ان سے پوچھا : ''اے امیر المؤمنین رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ !اس نوجوان سے آپ کا کیا رشتہ تھا ؟''آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا :'' وہ میرا بیٹا تھا ۔'' میں نے پوچھا:'' اس کی یہ حالت کیسے ہوئی؟''آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:''وہ مجھے خلافت ملنے سے پہلے پیدا ہوا تھا۔'' ہم نے اس کی خوب نیک ماحول میں پرورش کی او راس نے قرآن کا علم سیکھا پھرجب مجھے خلافت کی ذمہ داری سونپی گئی تو اس نے مجھے چھوڑ دیا، اور میری دنیاوی دولت سے کوئی فائدہ حاصل نہ کیا، یہ اپنی ماں کا بہت فرمانبردار تھا، میں نے اِس کی ماں کو ایک انگوٹھی دی جس میں بہت ہی قیمتی یا قوت تھا اور اس سے کہا:'' یہ میرے بیٹے کو دے دو تا کہ بوقتِ ضروت اسے بیچ کر اپنی حاجت پوری کر سکے۔'' اس کے بعد وہ ہمیں چھوڑ کر چلا گیا اور ہمیں اس کے متعلق بالکل معلومات نہ مل سکیں،آج تم نے اس کے متعلق بتایاہے پھرآپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ رونے لگے اورکہا:''آج رات مجھے اس کی قبر پر لے چلنا ۔''
جب رات ہوئی اور ہم دونوں اس کی قبر پر پہنچے تو خلیفہ ہارو ن الرشیدعلیہ رحمۃ اللہ المجید اس کی قبر کے پاس بیٹھ گئے اور زاروقطار رونا شروع کر دیا اور ساری رات روتے روتے گزاردی جب صبح ہوئی تو ہم وہاں سے واپس آگئے۔ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ مجھ سے فرمانے لگے:'' تم روزانہ رات کے وقت میرے پاس آیا کرو،ہم دونوں اس کی قبر پر آیا کریں گے۔''چنانچہ میں ہر رات ان کے پاس جاتا، وہ میرے ساتھ قبر پر آتے اور رونا شروع کردیتے پھر واپس چلے جاتے ۔حضرت سیدنا عبداللہ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں :'' مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ نوجوان خلیفۃ المسلمین ہارون الرشید علیہ رحمۃاللہ المجید کا شہزاد ہ تھا۔'' مجھے تو اس وقت معلوم ہوا جب خودامیر المؤمنین رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے بتایا کہ وہ میرا بیٹاتھا۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدنا یحییٰ بن اسود کلابی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:'' حضرت سیدنا ابراہیم بن ادہم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کو میں نے اپنے باغ کی دیکھ بھال کے لئے اجیر(یعنی ملازم) رکھا، تقریبا ًایک سال بعد میں اپنے کچھ دوستو ں کے ساتھ با غ میں گیا اور حضرت سیدنا ابراہیم بن ادہم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم سے کہا :''ہمارے لئے چند میٹھے انار توڑ لاؤ ۔''وہ گئے اور چند انار ہمارے سامنے رکھے۔ جب ہم نے انہیں کھایا تو وہ بہت کھٹے تھے ، میں نے ان سے کہا :'' تمہیں اس باغ میں پورا ایک سال گز رچکا ہے، ابھی تک تمہیں میٹھے اور کھٹے انارو ں کی بھی پہچان نہ ہوسکی؟'' تووہ فرمانے لگے :'' آپ مجھے بتا دیجئے کہ کس درخت کے انار میٹھے ہیں، میں ابھی حاضر کردو ں گا۔'' پھر میں نے انہیں میٹھے اناروں کے بارے بتایا تو وہ میٹھے ا نار لے آئے۔
پھر ایک شخص عمدہ اونٹ پر سوار ہو کر ہمارے پاس آیا اور اس نے حضرت سیدنا ابراہیم بن ادہم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کے بارے میں پوچھا:'' ابراہیم بن ادہم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کون ہیں؟'' میں نے اسے بتایا :'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فلاں جگہ موجو د ہیں ۔'' وہ شخص آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس آیا اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی دست بوسی کی اور نہایت مؤدبانہ انداز میں کھڑا ہوگیا۔ حضرت سیدنا ابراہیم بن ادہم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم نے استفسار فرمایا:'' تم یہاں کس سلسلے میں آئے ہو؟'' وہ شخص کہنے لگا:'' میں ''بلخ شہر ''سے آیا ہوں، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے چند غلاموں کا انتقال ہوگیا ہے، میں ان کا مال لے کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔ یہ تیس ہزار درہم آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہہی کے ہیں، آپ انہیں قبول فرمالیں ۔''
حضرت سیدنا ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا:''تمہیں میرے پاس آنے کی کیا ضرورت تھی؟'' وہ کہنے لگا: ''حضور! میں اتنی دور سے سفر کی تکالیف برداشت کر کے حاضرہوا ہوں، برائے کرم !یہ رقم قبول فرما لیجئے۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:''ایک چادر بچھا ؤ اور سارا مال اس پر ڈال دو۔'' اس نے ایسا ہی کیا ۔پھرآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا :'' اس مال کے برابر برابر تین حصے کرو ۔'' اس نے تین حصے کر دیئے تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' ایک حصہ تیرے لئے کیونکہ تو سفر کی صعوبتیں اور مشکلات بر داشت کر کے یہاں پہنچاہے ، اور دوسراحصہ لے جاؤ اور اسے بلخ کے غرباء و مساکین میں تقسیم کردینا۔
پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہحضرت سیدنا یحییٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی طر ف متوجہ ہوئے جن کے با غ میں آپ بطورِ اجیر کام کرتے تھے اور ان سے فرمایا:'' یہ ایک حصہ تم لے لو اور اسے '' عسقلان'' کے غرباء وفقراء میں تقسیم کردینا ۔'' اتنا کہنے کے بعدآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وہاں سے تشریف لے گے اور ان تیس ہزار دراہم میں سے ایک درہم بھی نہ لیا۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدنا ابو حازم علیہ رحمۃ اللہ المُنعم فرماتے ہیں :'' جب حضرت سیدنا عمر بن عبد العزیز علیہ رحمۃاللہ المجید خلیفہ بن گئے تو ایک دن میں ا ن سے ملاقات کے لئے گیا۔ وہ کچھ لوگو ں میں تشریف فرماتھے ، میں انہیں نہ پہچان سکا لیکن انہوں نے مجھے پہچان لیا اور فرمایا:'' اے ابو حازم ( علیہ رحمۃ اللہ المُنعم)! میرے قریب آؤ ، میں ان کے قریب گیااور عرض کی:'' کیا آپ ہی امیر المؤمنین عمر بن عبد العزیز (علیہ رحمۃاللہ المجید) ہیں؟'' انہوں نے فرما یا:''جی ہاں میں ہی عمر بن عبدالعزیز ہوں۔''
میں بہت حیران ہوا اور عرض کی:'' جس وقت آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ مدینہ منورہ میں ہمارے امیر تھے اس وقت آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہکا حسن وجمال عروج پر تھا، چہرہ انتہائی تاباں اور روشن تھا، آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے پاس بہترین لباس اور بہت ہی عمدہ سواریاں تھیں ،آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے کثیر خدّام تھے، اور آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی رہائش گاہ بہت ہی عمدہ تھی ۔ اب آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کو کس چیز نے اس حال میں پہنچا دیا۔حالانکہ اب توآپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ امیر المؤمنین ہیں،اب توآپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے پاس زیادہ آسائشیں ہونی چاہيں تھیں۔'' امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر بن عبدالعزیز علیہ رحمۃاللہ المجیدیہ سن کر رونے لگے اور فرمایا:''اے ابو حازم علیہ رحمۃ اللہ المُنعم!اس وقت میرا کیا حال ہوگا جب میں اندھیر ی قبر میں پہنچ جاؤں گا اور میری آنکھیں بہہ کر میرے رخساروں پر آجائیں گی ، میرا پیٹ پھٹ جائے گا، زبان خشک ہوجائے گی اور کیڑے میرے جسم پر رینگ رہے ہوں گے چاہے میں کتنا ہی انکار کرو ں۔''
پھر روتے ہوئے فرمانے لگے:'' اے ابو حازم (علیہ رحمۃ اللہ المُنعِم)!مجھے وہ حدیث سناؤ جو تم نے مجھے مدینہ منورہ میں سنائی تھی۔'' تومیں نے کہا:'' اے امیر المؤمنین رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ! میں نے حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کویہ فرماتے ہوئے سناکہ نبی ئمُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم، رسولِ اَکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے فرمایا:'' تمہارے سامنے دشوار گزار گھاٹی ہے جس سے صرف کمزور اور نحیف لوگ ہی گزر سکیں گے۔ '' ( حلیۃ الاولیاء،مسند عمر بن عبد العزیز،رقم :۷۲۹۸،ج۵،ص۳۳۳)
یہ حدیثِ پاک سن کرحضرت سیدنا عمر بن عبدالعزیز علیہ رحمۃاللہ المجید بہت دیر تک روتے رہے، پھر فرمایا:'' اے ابوحازم (علیہ رحمۃ اللہ المُنعم)!کیا میرے لئے یہ بہتر نہیں کہ میں اپنے جسم کو کمزور ونحیف بنالوں تا کہ اس ہولناک وادی سے گزر سکوں؟ لیکن مجھے اس خلافت کی آزمائش میں مبتلا کر دیا گیا ہے، پس معلوم نہیں کہ مجھے نجات ملے گی یا نہیں ۔'' پھر آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ پر غشی طاری ہوگئی۔ لوگوں نے آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے متعلق باتیں بنانا شروع کردیں، میں نے لوگو ں سے کہا:'' تم امیر المؤمنین رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے متعلق باتیں نہ بناؤ، تمہیں کیا معلوم!یہ کس مصیبت سے دوچار ہيں ۔''"
" پھر انہوں نے اچانک رونا شرو ع کردیا اور اتنا زور سے روئے کہ ہم سب نے ان کی آواز سنی، پھر یکدم ہنسنے لگے ۔میں نے کہا:'' حضور! ہم نے آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کو بڑی تعجب خیز حالت میں دیکھا ۔پہلے تو آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ خوب روئے پھر ہنسنا شروع کردیا، اس میں کیا راز ہے ؟'' انہوں نے پوچھا :'' کیا تم نے مجھے اس حالت میں دیکھ لیا؟''میں نے کہا :''جی ہاں! ہم سب نے آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہکی یہ تعجب خیزحالت دیکھی ہے۔''تو آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرمانے لگے:'' اے ابو حازم (علیہ رحمۃ اللہ المُنعم) ! بات دراصل یہ ہے کہ جب مجھ پر غشی طاری ہو ئی تو میں نے خواب دیکھا کہ قیامت قائم ہوچکی ہے ، اور مخلوق حساب و کتاب کے لئے میدان محشر میں جمع ہے، تمام اُمتوں کی 120صفیں ہیں جن میں سے اسّی(80)صفیں اُمتِ محمد یہ علیٰ صاحبہاالصلوٰۃ والسلام کی ہیں۔ تمام لوگ منتظر ہیں کہ کب حساب کتاب شرو ع ہوتاہے۔
اچانک ندادی گئی :'' عبداللہ بن عثمان ابوبکرصدیق (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کہاں ہے؟'' چنانچہ حضرت سیدناابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فر شتو ں نے بارگاہِ خداوندی عزوجل میں حاضر کیا۔ ان سے مختصر حساب لیا گیا اور انہیں دائیں جانب جنت کی طر ف جانے کا حکم ہوا ۔پھر حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آواز دی گی ؟ وہ بھی بارگاہِ ربُّ العزَّت عزوجل میں حاضر کئے گئے اور مختصر حساب کے بعد انہیں بھی جنت کا مژدہ سنادیا گیا،پھرحضرت سیدناعثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی مختصر حساب کے بعدجنت میں جانے کا حکم سنایا گیا پھر حضرت سیدنا علی المرتضی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْھَہُ الْکَرِیْم کو ندادی گئی۔ چنا نچہ وہ بھی بارگاہِ احکم الحاکمین عزوجل میں حاضر ہوگئے اور انہیں بھی مختصر حساب کے بعد جنت کا پر وانہ مل گیا۔
جب میں نے دیکھا کہ اب میری باری آنے والی ہے تو میں منہ کے بل گر پڑا اور مجھے معلوم نہیں کہ خلفاء اربعہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے بعد والوں کے ساتھ کیا معاملہ پیش آیا، پھر ندادی گئی کہ عمر بن عبد العزیزکہا ں ہے ؟ میری حالت خراب ہونے لگی اور میں پسینے میں شرابور ہوگیا، مجھے بارگاہِ خداوندی عزوجل میں حاضر کیا گیا اور مجھ سے حساب کتاب شرو ع ہوا اور ہر اس فیصلے کے بارے میں پوچھا گیا جو میں نے کیا حتّٰی کہ گٹھلی ،اس کے دھاگے اورگٹھلی کے چھلکے تک کے بارے میں پوچھ گچھ کی گئی، پھر مجھے بخش دیا گیا (اور جنت میں جانے کا حکم صادر ہوا)راستے میں میری ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی جو گلے سڑے جسم کے ساتھ راکھ پر پڑا تھا۔ میں نے فرشتو ں سے پوچھا :''یہ کون ہے ؟'' توفرشتو ں نے کہا:'' آپ اس سے بات کیجئے، یہ آپ کو جواب دے گا۔'' میں اس کے پاس گیا اور اسے ٹھو کر مار ی تو ا س نے آنکھیں کھول دیں اور سر اٹھا کر میری طرف دیکھنے لگا۔میں نے اس سے پوچھا: ''تو کون ہے ؟'' اس نے کہا:''آپ کون ہو؟'' میں نے کہا :''میں عمر بن عبدالعزیز ہوں۔'' پھر اس نے پوچھا :''اللہ ربُّ العزَّت نے آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا ؟'' میں نے کہا :'' مجھے میرے رحیم وکریم پروردگار عزوجل نے اپنے فضل وکرم سے بخش دیا اور"
"میرے ساتھ بھی وہی معاملہ فرمایا جو خلفاء اربعہ علیہم الرضوان کے ساتھ فرمایا اور مجھے بھی جنت میں جانے کا حکم ہوا ہے۔ان کے علاوہ باقی لوگو ں کے بارے میں مجھے معلوم نہیں کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ ہوا۔ وہ شخص کہنے لگا:''آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کو بہت بہت مبارک ہو کہ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کا میاب ہو گئے ۔''میں نے پوچھا :'' تم کون ہو؟'' اس نے کہا :''میرا نام حجاج بن یوسف ہے، مجھے جب اللہ عزوجل کی بارگاہ میں پیش کیا گیا تو میں نے اپنے پروردگار عز وجل کوبہت غضب وقہر کے عالم میں پایا اور مجھے ہر اس قتل کے بدلے سخت عذاب دیا گیا جو میں نے دنیا میں کیا تھاجن طریقوں سے میں نے دنیا میں بے گناہ لوگوں کو قتل کیا تھا انہی طریقوں سے مجھے بھی سخت عذاب دیا گیا۔اب میں یہاں پڑاہوا ہوں اور اپنے رب عزوجل کی رحمت کا اُمیدوار ہوں جس طر ح کہ سب مُوحِّدین منتظر ہیں۔ اب یا تو ہمارا ٹھکانا جنت ہوگا یا جہنم ۔''حضر ت سیدنا ابو حازم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: ''حضرت سیدنا عمربن عبد العزیز علیہ رحمۃاللہ المجید کے اس خواب کے بعد میں نے عہد کرلیا کہ آئندہ کبھی بھی کسی مسلمان کو قطعی جہنمی نہیں کہوں گا۔'' (یعنی بندہ چاہے کتناہی گناہ گار کیوں نہ ہو اللہ عزوجل کی رحمت بڑی وسیع ہے وہ جسے چاہے بخش دے )
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
حضرت سیدنا محمدبن عیینہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں :'' ایک مرتبہ حضرت سیدنا حمیری بن عبداللہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ شکار کے لئے گئے۔ جب وہ ایک ویران جگہ پہنچے تو اچانک ان کی سواری کے سامنے ایک سانپ آگیا اور اپنی دم پرکھڑا ہوگیا اور بڑی لجاجت سے حضرت سیدنا حمیری بن عبداللہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے عرض گزار ہوا :'' (خدا کے لئے)مجھے میرے دشمن سے پناہ دیجئے، اللہ رب العزت عز وجل آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کوا پنے عرش عظیم کے سائے میں اس دن پناہ دے گا جس دن اس کے عرش کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا، برائے کرم !مجھے میرے دشمن سے بچالیجئے ورنہ وہ میرے ٹکڑے ٹکڑے کردے گا۔'' حضرت سیدنا حمیری بن عبداللہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:''میں تجھے کہاں چھپاؤں ؟ ''وہ سانپ کہنے لگا :'' اگر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نیکی کرنا چاہتے ہيں تو مجھے اپنے پیٹ میں پناہ دے دیجئے۔''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے پوچھا:''آخر تو ہے کون اور مجھ سے پناہ کیوں چاہتا ہے ؟ '' سانپ نے کہا: ''میں مسلمان ہوں، مجھے مسلمان سمجھ کر پناہ دے دیجئے ۔''حضرت سیدنا حمیری بن عبداللہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس کے لئے اپنا منہ کھول دیا اور اسے اپنے پیٹ میں جانے دیا۔کچھ دیر کے بعد ایک نوجوان آیا جس نے ایک تیز تلوار اپنے کندھے پر لٹکائی ہوئی
"تھی۔ اس نے آتے ہی کہا:'' اے شیخ! کیا تم نے ایک سانپ دیکھا ہے ،مجھے گمان ہے کہ شاید تم نے اسے اپنی چادر میں چھپارکھا ہے ؟'' حضرت سیدنا حمیری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کہا:'' میں نے کسی سانپ کو نہیں دیکھا ۔''نوجوان یہ بات سن کر وہاں سے چلاگیا ۔ اس نوجوان کے جاتے ہی سانپ نے اپنا منہ نکالااور پوچھا:''کیامیرا دشمن جاچکا؟'' آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا: ''ہاں! وہ جا چکا ، اب تو بھی میرے جسم سے باہر آجا تا کہ مجھے تکلیف نہ ہو۔'' تو وہ مکار سانپ کہنے لگا :''اب تو میں تیرے جسم سے باہر نہیں آؤں گا، اب تیرے لئے دو راستے ہیں یا تو میں تجھے زہر سے ہلاک کردو ں گا یا تیرے دل میں سوراخ کردوں گا۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس سے کہا :'' تو مجھے کس دشمنی کی وجہ سے سزا دینا چاہتا ہے؟'' سانپ نے کہا:'' تُوبہت احمق ہے کہ تو نے مجھے نیکی کے لئے منتخب کیا،کیا تو مجھے نہیں جانتا کہ میں نے تیرے باپ آدم سے کس طر ح دشمنی کی آخر تو نے میرے ساتھ احسان کیوں کیا؟'' آخر تجھے مجھ سے کیا لالچ تھا،نہ تو میرے پاس مال و دولت ہے اور نہ ہی کوئی سواری وغیرہ ہے کہ جسے بطور انعام تجھے دوں۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا:''میں نے تو صرف رضائے الٰہی عزوجل کے لئے تیرے ساتھ نیکی کی تھی، اگر تو مجھے مارنا ہی چاہتا ہے تو مجھے پہاڑ پر جانے دے تا کہ میں وہیں رہ کر اپنی جان دے دو ں ۔'' سانپ نے کہا:'' ٹھیک ہے، تم پہاڑ پر چلے جاؤ۔'' چنانچہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پہاڑ پر آئے اور موت کا انتظار کرنے لگے۔
جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پہاڑ پر پہنچے تواچانک وہاں ایک نوجوان نظر آیا جس کا چہرہ چودھویں کے چاند کی طر ح روشن تھا، اس نے کہا:'' اے شیخ! آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہیہاں زندگی سے مایوس ہو کر موت کا انتظار کیوں کر رہے ہیں؟'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے سانپ والا سارا واقعہ بتایااور کہا:''اب سانپ میرے پیٹ میں موجود ہے، میں نے تواِسے دشمن سے بچانے کے لئے پناہ دی تھی مگریہ مجھے مارنا چاہتا ہے ۔''
اس نوجوان نے کہا:'' میں اپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہکی مدد کے لئے آیاہوں۔''پھر اس نے اپنی چادر سے ایک بُوٹی نکالی اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو کھلائی۔ جیسے ہی آپ نے وہ بُوٹی کھائی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا چہرہ متغیر ہوگیا اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کپکپانے لگے پھر اس نوجوان نے دوبارہ وہی بُو ٹی کھلائی توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پیٹ میں شدید ہل چل ہوئی اور درد سا محسوس ہونے لگا ، پھر جب تیسری بار وہ بُوٹی کھلائی توسانپ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر پیچھے کے مقام سے نکل گیا اورآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو سکون حاصل ہوا۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس نوجوان سے پوچھا :''اے محسن! آپ یہ تو بتاؤ کہ آپ کون ہو؟آج آپ نے مجھ پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔''
وہ نوجوان کہنے لگا : ''کیا آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مجھے نہیں پہچا نا ؟ ارے میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا نیک عمل ہوں۔جب"
"سانپ نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو دھوکا دیا اورآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہکی جان کے در پے ہوگیا تو تمام ملائکہ نے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں عرض کی:'' یااللہ عزوجل !اس کوسانپ کے شرسے محفوظ رکھ ۔''چنانچہ اللہ ربُّ العزَّت عزوجل نے مجھے حکم فرمایا: '' اے فلاں بندے کے نیک عمل! تو جاکر میرے بندے کی مدد کر اور اس سے کہہ کہ تو نے محض ہماری رضا کی خاطر نیکی کی، جا تیری اس نیکی کے بدلے ہم نے تجھے احسان کرنے والوں میں شامل کرلیا اور ہم تیرا انجام بھی محسنین کے ساتھ فرمائیں گے اور ہم تیرے دشمنوں سے تیری حفاظت کریں گے ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)
وضاحت:یہ حکایت اس لئے پیش کی گئی ہے کہ گناہ ومعاصی سے انسان کو ہمیشہ دور رہنا چاہے ورنہ شیطان ہر طر ح انسان کو ورغلانے کی کوشش کرتاہے اور اس حکایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر انسان محض رضائے الٰہی عزوجل کے لئے نیکی کرے تو اللہ رب العزت جل جلالہ اس کی مدد فرماتا ہے ، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ شیطان انسا ن کا کھلا دشمن ہے وہ ہر صورت میں آکر ہرطر ح کی جھوٹی قسمیں کھاکر انسان کو ور غلاتا ہے لہٰذا سمجھ دار وہی ہے جو اپنے دشمن کی جانب سے ہر وقت چو کنا رہے ، اور اس کے ہر وار کو ناکام بنا دے ۔"
" حضرت سیدنا عبداللہ بن سہل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں،حضرت سیدنا حاتم اصم علیہ رحمۃاللہ الاکرم نے فرمایا: میں تقریباً تیس سال حضرت سیدنا شفیق بلخی علیہ رحمۃ اللہ القوی کی صحبت با بر کت میں رہا ، ایک دن انہوں نے مجھ سے پوچھا :''اے حاتم (علیہ رحمۃاللہ الاکرم) ! تم اتنے دن ہمارے ساتھ رہے ،تم نے کیا سیکھا؟'' میں نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہکی صحبت میں رہ کر جو اہم باتیں سیکھی تھیں، وہ بیان کرنی شروع کردیں کہ ''جب میں نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ میرے رزق کا مالک اللہ ربُّ العزَّت ہے ،میرے حصے کا رزق اسی کی ملکیت میں ہے تو میں اللہ ربُّ العزَّت کے علاوہ تمام مخلوق سے بے نیاز ہوگیا ۔
پھر میں نے دیکھا کہ اللہ ربُّ العلمین نے مجھ پردو فرشتے مقرر فرمائے ہیں جو میری ہر بات کو لکھتے ہیں تو میں نے اپنے اوپر یہ بات لازم کرلی کہ حق کے سوا کچھ نہ بولوں گا۔ پھر میں نے غورکیاکہ مخلوق کی نظر ظاہر پر ہوتی ہے اورخالق عزوجل انسان کی باطنی کیفیت کو دیکھتا ہے تو میں نے اپنے باطن کی اصلاح میں تگ ودو شروع کر دی اور لوگو ں سے پہلو تہی اختیار کرلی ۔"
" پھر جب میں نے دیکھا کہ ملک الموت علیہ السلام ہمیں اللہ ربُّ العزَّت کی بارگاہ میں ضرور لے جائیں گے، تو میں نے اپنے آپ کو ان کی آمد سے پہلے ہی اللہ عزوجل کی بارگاہ میں پیش ہونے کے لئے تیار کر لیا تا کہ ان کی آمد کے وقت میں کسی چیز کی طرف محتاج نہ ہوں۔''
یہ سن کر حضرت سیدنا شفیق بلخی علیہ رحمۃ اللہ الغنی نے فرمایا:''اے حاتم اصم !تمہاری کوشش بے کار نہ گئی بلکہ تم اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے ۔''
حضرت سیدنا حاتم اصم علیہ رحمۃاللہ الاعظم فرماتے ہیں :'' ایک مرتبہ مجھ سے حضرت سیدنا شفیق بلخی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ''لوگ چار چیز وں کا دعوی تو کرتے ہیں لیکن ان کا عمل ان کے دعوی کے بالکل خلاف ہے :
(1)۔۔۔۔۔۔ لوگ دعوی تو یہ کرتے ہیں کہ ہم اللہ عزوجل کے غلام ہیں مگر وہ عمل آزاد لوگوں والے کرتے ہیں ۔
(2) ۔۔۔۔۔۔ان کا دعوی تو یہ ہے کہ ہمارے رزق کا کفیل اللہ ربُّ العزّت ہی ہے لیکن وہ اس بات پر مطمئن نہیں ہوتے۔
(3) ۔۔۔۔۔۔ان کا دعوی تو یہ ہے کہ آخرت کی زندگی دنیاوی زندگی سے بہتر ہے لیکن پھر بھی وہ دنیا کا مال جمع کرنے میں سر گرداں ہیں۔
(4) ۔۔۔۔۔۔ان کا دعوی تویہ ہے کہ موت بر حق ہے لیکن ان کے اعمال ایسے ہیں جیسے انہوں نے مرنا ہی نہیں۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
حضرت سیدنا ابراہیم بن عبداللہ بن علاء رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں، میں نے ابو عامر واعظ علیہ رحمۃ اللہ الواحد کو یہ فرماتے ہوئے سنا :'' ایک مرتبہ میں مسجد نبوی شریف کی نور بار فضاؤں میں بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک ایک کالا غلام آیا جس کے پاس ایک خط تھا، اس نے وہ خط مجھے دیا اور پڑھنے کو کہا۔ میں نے خط کھولا تو اس میں یہ مضمون لکھا تھا۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ؕ
( اے ابو عامر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ!)اللہ عزوجل نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہکو اُمور ِآخرت میں غور وخوض کرنے کی سعادت عطا فرمائی۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہکو(لوگوں سے )عبرت حاصل کرنے کی توفیق بخشی ،اور خلوت نشینی کی عظیم دولت سے سرفراز فرمایا، اے
"ابو عامر!بے شک میں بھی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ا ن بھائیوں میں سے ہوں جو سفر آخرت کے مسافر ہیں۔ مجھے خبر ملی ہے کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مدینہ منورہ میں آئے ہوئے ہیں ،مجھے اس بات سے بہت خوشی ہوئی اورمیں اپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی زیارت کا متمنی ہوں اور مجھے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی صحبت اختیار کرنے اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہکی گفتگو سننے کا اتنا شوق ہے کہ میرا رواں رواں آپ کے دیدار کی طلب میں تڑپ رہا ہے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو اس کریم ذات کا واسطہ جس نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو محبت کے جام پلائے مجھے اپنی قدم بوسی اور زیارت سے محروم نہ کیجئے گا (برائے کرم میرے غریب خانہ پر تشریف لائیے اور مردہ دلوں کو جلابخشئے) ۔
والسّلام
حضرت سیدنا ابو عامر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں :'' میں اسی وقت اس خط لانے والے غلام کے ساتھ اس کے آقا کے گھر کی طر ف چل دیا ، ہم چلتے ہوئے ایک ویران جگہ پرپہنچے ،وہاں ایک خستہ حال ٹو ٹا پھوٹا گھرتھا ۔غلام نے مجھے دروازے کے پاس کھڑا کیا اور کہا:''آپ (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)تھوڑی دیر یہاں انتظارفرمائیں،میں اپ کے لئے اجازت طلب کرتا ہو ں۔چنانچہ میں وہاں انتظار کرنے لگا ۔ کچھ دیر کے بعد غلام نے آ کر کہا:''حضور! اند ر تشریف لے آئے ۔''جب میں کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ کمرہ نہایت بو سیدہ اور خالی ہے ، اس کا دروازہ کھجور کے تنے سے بنا ہوا ہے اور ایک نہایت کمزور ونحیف شخص قبلہ رو بیٹھا ہوا ہے، چہرے پر خوف وکرب کے آثار نمایاں ہیں اور اسے دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ یہ شدید غم وپریشانی میں ہے ۔ کثرت بکاء (یعنی بہت زیادہ رونے) کی وجہ سے اس کی آنکھیں بھی ضائع ہوچکی تھیں۔ میں نے اسے سلام کیا ، اس نے سلام کا جواب دیا۔ جب میں نے غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ اندھا اوراپاہج بھی ہے اور نہایت غم و الم میں مبتلا ہے اور اسے جذام کی بیماری بھی لاحق ہے۔ پھر اس نے مجھ سے کہا:''اے ابو عامر(رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)!اللہ عزوجل آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے دل کو گناہوں کی بیماری سے حفاظت میں رکھے،میں ہمیشہ اس بات کا خواہش مند رہا ہوں کہ آپ (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) کی صحبت اختیار کرو ں اور آپ (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)سے نصیحت آموز گفتگو سنوں،اے ابو عامر(رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)! مجھے ایک ایسا زخمِ دل لاحق ہے کہ تمام واعظین وناصحین بھی اس کا علاج نہ کرسکے اور اطباء اس کے علاج سے عاجز آچکے ہیں ۔ مجھے یہ خبر ملی ہے کہ آپ (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) کی تجویزکردہ دوا اور مرہم زخموں کے لئے بے حد سود مند ہے، برائے کرم! میرے زخمی دل کا علاج فرمائیں اگرچہ دوا کتنی ہی تلخ وناگوار کیوں نہ ہو، میں شفاء کی امید لگائے دوا کی تلخی و ناگواری برداشت کرلوں گا۔''
حضرت سیدنا ابو عامر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں :اس بزرگ کی یہ بات سن کر مجھ پر رُعب ودبدبہ طاری ہوگیا ، اس کی باتوں میں مجھے بڑی حقیقت نظر آئی ۔ میں کافی دیر خاموش رہا اور غور وفکر کرتارہا پھر میں نے اس بزرگ سے کہا :''اگر تم اپنی بیماری"
"کا علاج چاہتے ہو تو اپنی نظر کو عالم ملکوت کی طرف پھیر و ،اپنے کانوں کو اسی عالم کی طر ف مشغول کر لو اور اپنے ایمان کی حقیقت کو جنت ما وٰی کی طرف منتقل کرلو۔ اگر ایسا کرو گے تو ربِّ کائنات عزوجل نے اپنے مقرب بندوں کے لئے جو نعمتیں اور آسائشیں اس میں رکھی ہیں وہ تم پر منکشف ہوجائیں گی۔اسی طر ح پھر اپنی تمام تو جہ جہنم کی طر ف کرو اور اس میں غور وفکر کرو اور حقیقی نظر سے اس کو دیکھو تو تمہیں وہ تمام عذاب ومصائب نظر آجائیں گے جو اللہ جلّ جلالہ کے دشمنوں اور نافرمانوں کے لئے تیار کئے گئے ہیں۔ اگر اس طرح کر و گے تو تمہیں دونوں چیزوں میں فرق معلوم ہوجائے گا اور یہ بات بالکل واضح ہوجائے گی کہ نیکوں او ر بدوں کی موت برابر نہیں ۔''
حضرت سیدنا ابو عامر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں ،میری یہ بات سن کر وہ بزرگ رونے لگے اور سرد آہیں بھرنے لگے اور ایک چیخ مار کرکہنے لگے:'' اے ابو عامر(رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)! اللہ عز وجل کی قسم! تمہاری دوا نے فوراََ میرے زخمی دل پر اثر کیا ہے ،میں اُمید رکھتاہوں کہ تمہارے پاس مجھے ضرور شفا ء نصیب ہوجائے گی، رحیم وکریم پروردگارعزوجل آپ پر رحم فرمائے۔ مجھے مزید نصیحت فرمائیے۔''
حضرت سیدنا ابو عامر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں ،پھر میں نے اس بزرگ سے کہا:''اے مرد صالح !اللہ عزوجل تجھے اس وقت بھی دیکھتا ہے جب تو تنہائی میں ہوتا ہے اور جب تو جلوت میں ہوتا ہے توبھی وہ تجھے دیکھتا ہے۔'' تواس بزرگ نے پہلے کی طر ح پھر چیخ ماری پھر فرمایا:''وہ کون سی ہستی ہے جو میرے گناہوں کو معاف کرے،جو میرے غم و حزن کو دورکرے اورمیری خطاؤں کومعاف کرے؟اے میرے رحیم وکریم پروردگار عزو جل !تیری ہی ذات ایسی ہے جو میری مدد گار ہے ، اور میں تجھی پر بھروسہ کرتا ہوں اورتیری ہی طر ف رجوع کرتا ہوں۔'' اتناکہنے کے بعد وہ بزرگ زمین پر گرے اور ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔
حضرت سیدنا ابو عامر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:''کچھ دیر بعد ایک لڑکی وہاں آئی جس نے اُون کا کرتہ پہنا ہوا تھا اور اُون ہی کی چادر اوڑھی ہوئی تھی اور اس کے ماتھے پر سجدوں کی کثرت کی وجہ سے نورانی نشانات بن چکے تھے ،روزوں کی کثرت کی وجہ سے اس کارنگ زرد ہوگیا تھااور طویل قیام کی وجہ سے پاؤں سوجھے ہوئے تھے۔ اس نے مجھ سے کہا :''اے عارفین کے دلوں کو تقویت دینے والے اور اے غم زدوں کی مصیبتو ں کو حل کرنے والے! تو نے بہت اچھا کیا، ان شا ء اللہ عزوجلتمہارا یہ عمل رائیگاں نہیں جائے گا ، اے ابو عامر! یہ بزرگ میرے والد تھے او رتقریباً بیس سال سے کوڑھ کی بیماری انہیں لاحق تھی، یہ ہر وقت نماز ہی میں مشغول رہتے یہاں تک کہ یہ اپاہج ہوگئے،رونے کی کثرت کی وجہ سے ان کی آنکھیں ضائع ہو گئیں اور یہ اللہ رب"
"العزت سے امید رکھتے تھے کہ آپ سے ملاقات ضرور ہوگی ۔''اور یہ فرمایا کرتے تھے:'' میں ایک مرتبہ حضرت سیدنا ابو عامر واعظ علیہ رحمۃ اللہ الواحدکی محفل میں حاضر ہوا تھا۔ ان کی پُراثر باتوں نے میرے مردہ دل کو زندہ کردیا ، اور مجھے خوابِ غفلت سے بیدار کر دیا، اگر دو بارہ کبھی میں ان کی محفل میں چلا گیا یا ان کی باتیں سن لیں تو میں ان کی باتیں سن کر ہلاک ہوجاؤں گا ،پھر وہ لڑکی کہنے لگی: '' اے ابو عامر(رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)! اللہ عزوجل تمہیں جزائے خیر عطا فرمائے کہ تم نے میرے والد کو وعظ ونصیحت کی اور ان کو سکون وآرام مہیا کیا، اللہ عزوجل تمہیں اس کا اچھا صلہ عطا فرمائے ۔''
پھر وہ لڑکی اپنے باپ کے پاس آئی اور اس کی آنکھوں کو بوسہ دینے لگی او ر روتے ہوئے کہنے لگی :''اے وہ عظیم شخص جس نے اللہ عز وجل کے خوف سے رورو کر اپنی آنکھیں گنوا دیں ! اے میرے کریم باپ !تجھے تیرے رب عز وجل کے عذاب کی وعیدوں نے ہلاک کردیا ، تم ہمیشہ اپنے رب عزوجل کے خوف سے گریہ وزاری کرتے رہے اور دعا ء و استغفار میں مشغول رہے۔''
میں نے اس سے پوچھا:''اے نیک بندی !تو اتنا کیوں رو رہی ہے ؟ ''اور اتنی غمزدہ کیوں ہو رہی ہے، تمہارے والدِگرامی تو اب دارالجزاء میں جاچکے ہيں اور وہ اپنے ہر عمل کا بدلہ دیکھ چکے ہوں گے اوران کے اعمال ان کے سامنے پیش کردیئے جائیں گے اگر ان کے اعمال اچھے تھے تو ان کے لئے خوشخبری ہے اور اگر اعمال نامقبول تھے تو یہ افسوسناک بات ہے۔''
یہ سن کر اس لڑکی نے بھی اپنے باپ کی طر ح چیخ ماری اور تڑپنے لگی اوراسی حالت میں ان کی روح بھی عالم بالا کی طرف پر واز کر گئی۔ پھر میں عصر کی نماز کے لئے مسجد نبوی شریف علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام میں حاضر ہوا اور میں نے نماز کے بعد ان دونوں باپ بیٹی کے لئے خوب رو رو کردعا کی ، پھر وہ غلام آیا اور اس نے اطلاع دی کہ ان دونوں کی تکفین ہوچکی ہے ،آپ نماز جنازہ کے لئے تشریف لے چلیں ۔ پھرہم نے ان کی نماز جنازہ پڑھی اور انہیں دفنا دیا گیا ۔ پھر میں نے لوگوں سے دریافت کیا:'' یہ باپ بیٹی کون تھے؟ ''تو مجھے بتایاگیا:''یہ حضرت سیدنا حسن بن علی بن ابوطالب رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی اولاد سے ہیں ۔
حضرت سیدنا ابو عامر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں :'' مجھے کافی دنوں تک ان کی موت کا افسوس رہا پھر ایک رات میں نے ان دونوں باپ بیٹی کو خواب میں دیکھا، انہوں نے سبز جنّتی حُلّے زیب تن کئے ہوئے تھے۔میں نے ان کو دیکھ کر کہا :'' مرحبا! تمہیں مبارک ہو،میں تو تمہاری وجہ سے بہت غمگین تھا، تمہارے ساتھ اللہ عزوجل نے کیا معاملہ فرمایا؟ ''اس بزرگ نے فرمایا: ''ہمیں بخش دیا گیا اور ہمیں نعمتیں ملیں، ان میں تم بھی ہمارے ساتھ شریک ہو۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدنا محمد بن داؤد دینوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں ، میں نے حضرت سیدنا اسحاق ہروی علیہ رحمۃاللہ القوی کو یہ فرماتے ہوئے سنا :'' ایک مرتبہ میں بصرہ میں موجودتھا کہ میرے پا س حضرت سیدنا ابن خیوطی علیہ رحمۃاللہ القوی تشریف لائے اور میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا:'' چلو، ہم اُبُلَّہ چلتے ہیں۔'' ( یہ بصرہ کے ایک قصبہ کانام ہے)
چنانچہ ہم سفر پر روانہ ہوئے۔ بدرِ کامل نے اپنی روشنی سے سارے قصبے کو نور بار کیا ہواتھا ، ہر طرف خاموشی کا سماں تھا جب ہم اس قصبہ کے قریب پہنچے تو وہاں ایک عظیم الشان عمارت نظر آئی جو کسی رئیس کی ملکیت میں تھی ، پھر یکایک خاموش فضاؤں میں سارنگی بجنے کی آواز آئی۔ جب ہم اس سمت گئے تو دیکھاکہ ایک لونڈی محل کے قریب بیٹھی سارنگی بجار ہی ہے اوربار بار ایک شعر گنگنارہی ہے،جس کامفہوم یہ ہے:'' تم روزانہ بدلتے ہو، کیا تمہیں اس کے علاوہ بھی کوئی شئے زیبا ہے۔ ''
اس عمارت کی ایک طرف ایک فقیر دو چادروں میں لپٹا ہوا بیٹھا تھا۔ جب اس نے یہ شعر سنا تو زور زور سے چیخنے لگا اور لونڈی سے کہنے لگا:'' خدارا! وہ شعر مجھے دوبارہ سنا ؤ،ہائے افسوس !میرا حال بھی میرے رب عزوجل کے ساتھ ایسا ہی ہے۔ جلدی کرو ،مجھے دوبارہ وہ شعر سناؤ ، جب اس لونڈی کے مالک نے یہ حالت دیکھی تو لونڈی سے کہا :'' سارنگی بجانا چھوڑ دو اور اس فقیر کو جا کر شعر سنا ؤ، یہ خدا رسیدہ بزرگ ہے ۔'' چنانچہ وہ لونڈی اس فقیر کے پاس آئی اور دوبارہ یہی شعر پڑھا،وہ شعر پڑھتی جاتی اور فقیر چیختا جاتا اور کہتا : ''خدا عزوجل کی قسم! میری حالت بھی میرے رب عزوجل کے ساتھ ایسی ہی ہے۔'' پھر یکدم اس نے ایک دِل خراش چیخ ماری اور زمین پر گر پڑا۔ ہم اس کے پاس گئے اور اسے ہلا جلا کر دیکھا تو اس کی رو ح قفس عنصری سے پرواز کر چکی تھی۔
جب یہ خبر اس عظیم الشان عمارت کے مالک کو پہنچی تو وہ نیچے آیا اور اس فقیر کی لاش کو اپنے گھر لے گیا ۔ہمیں اس واقعہ پر بہت افسوس ہوا ،پھر ہم اپنے کام کے سلسلہ میں آگے روانہ ہوگئے ۔جاتے وقت ہم نے دیکھا کہ اس صاحبِ عمارت نے اپنے سامنے موجود تمام آلاتِ لہو ولعب تو ڑ دیئے تھے،پھر ہم وہا ں سے روانہ ہوگئے۔
پھر جب صبح ہمارا گزر اسی مقام سے ہوا تو دیکھا کہ اس عمارت کے گرد لوگو ں کاجمِ غفیرہے اور وہاں اس فقیر کا جنازہ رکھا ہو ا ہے ، ایسے لگتا تھا گویا پورے شہرِبصرہ میں اس فقیر کی موت کی اطلاع پہنچادی گئی ہے ، شہر کا ہر عام وخاص اس کے جنازے میں شرکت کے لئے موجود تھا، قاضی اور حکام بھی وہاں موجود تھے ۔
پھر اس خدا رسیدہ بزرگ کے جنازہ کو سوئے قبر ستان لے جایا گیا۔ اس کے پیچھے فوجی لشکراور عوام خواص کا ہجوم تھا ، سب کے سب ننگے سراور ننگے پاؤں تھے ،سب افسردہ وغمگین تھے، جب اس مرد قلندر کو دفنایا گیا تو اس عمارت والے رئیس نے"
"لوگوں سے کہا :'' تم سب لوگ گواہ ہوجاؤ، میرے تمام غلام اور لونڈیاں آج کے بعداللہ عزوجل کی رضا کی خاطرآزادہیں، میری تمام جاگیر اور مال و دولت سب اللہ عزوجل کی راہ میں وقف ہے، میری ملکیت میں چار ہزار دینار ہیں، میں انہیں بھی اللہ عزوجل کی راہ میں وقف کرتا ہوں۔'' پھر اس نے اپنا قیمتی لباس اُتارکر پھینک دیا، اب اس کے پاس صرف ایک شلوار باقی بچی۔ اس نیک بخت رئیس کی یہ حالت دیکھ کر قاضی نے کہا:''میرے پاس دو چادریں موجود ہیں، آپ وہ قبول فرمالیں۔'' چنانچہ قاضی صاحب نے اس رئیس کو وہ دو چادریں دے دیں۔ اس نے ایک کو اوڑھ لیا اور دوسری کو بطورِ تہبند استعمال کیا، لوگ میت سے زیادہ رئیس کی اس حالت پر روئے، پھر وہ نیک بخت رئیس مالکِ حقیقی عزوجل کی رضا کی خاطر اپنی تمام دولت چھوڑ کردائمی نعمتوں کے حصول کے لئے ایک نامعلوم سمت روانہ ہوگیا۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" ایک مرتبہ حضرت سیدنا عمر بن عبدالعزیز علیہ رحمۃاللہ المجید نے حضرت سیدنا سالم بن عبداللہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی طر ف ایک تحریربھیجی جس کا مضمون کچھ اس طر ح تھا ۔السَّلام علیکم: عمر بن عبدالعزیز (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) کی طر ف سے آپ پر سلامتی ہو۔
وحدہ، لاشریک ذات جو رحیم و کریم ہے، اس کی حمد وثناء کے بعدعمر بن عبدالعزیزعرض کرتا ہے:''اے سالم بن عبد اللہ (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)!اللہ ربُّ العزَّت نے اس امت کی حکومت کا بوجھ میرے کندھوں پرڈال دیاہے اور میرے مشورے کے بغیر ہی امورِ خلافت میرے سپرد کردیئے گئے ، میں نے کبھی بھی خلافت کی خواہش نہ کی تھی ، بس اللہ ربُّ العزَّت کی مرضی ،اب اس کے حکم سے مجھے خلافت کی ذمہ داری ملی ہے ۔لہٰذا میں اُمورِ خلافت کے تمام مسائل میں اسی کریم ذات سے مدد طلب کرتا ہوں کہ وہ مجھے اچھے اعمال اور اطاعت کی تو فیق عطا فرمائے اور مجھے مخلوق پر شفقت ونرمی کی تو فیق مرحمت فرمائے ۔ وہی ذات میری مدد کرنے والی ہے، (اے میرے بھائی) جب آپ کے پاس میری یہ تحریر پہنچے تو تو مجھے امیرالمؤمنین حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرت کے متعلق اور ان کے فیصلوں کے بارے میں کچھ معلومات فراہم کرنا اور یہ بتانا کہ انہوں نے مسلمانوں اور ذمیوں کے ساتھ اپنے دورِ خلافت میں کیسا رویہ اختیار کیا؟ میں امور خلافت میں ان کی پیروی کرنا چاہتا ہوں، اللہ عزوجل میری مدد فرمائے گا ۔
والسّلام:من عمر بن عبدالعزیز (علیہ رحمۃ اللہ المجید)"
جب یہ تحریر حضرت سیدناسالم بن عبد اللہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو پہنچی تو انہوں نے حضرت سیدناعمر بن عبدالعزیز علیہ رحمۃ اللہ المجید کو اس کا جواب لکھاجس کا مضمون کچھ اس طرح تھا:''اے عمر بن عبدالعزیز (علیہ رحمۃ اللہ المجید)!تم پر سلامتی ہو، اللہ رب العزت کی حمد وثنا اور حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پردرود وسلام کے بعدمیں کہتا ہوں:'' اللہ رب العزت قادرِ مطلق ہے ، اس کی عظمت وبلندی کوکوئی نہیں پہنچ سکتا ،اس کا کوئی شریک نہیں، وہ کسی غیر کے شریک ہونے سے منزّہ و مبرّأ ہے، جب اس نے چاہا دنیا کو پیدا فرمایا اور جب تک چاہے گا باقی رکھے گا ،اس نے دنیاکی ابتدا ء و انتہا ء کے درمیان بہت قلیل مدت رکھی جو حقیقتاً دن کے کچھ حصے کے برابربھی نہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس دنیا اور اس میں موجود تمام مخلوقات کی فناء کا فیصلہ بھی فرمادیا اور یہ سب چیزیں فانی ہیں، صرف اللہ عزوجل کی ذات ہی کوبقاء ہے، اس کے سوا باقی سب چیزیں فانی ہیں، جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ عزوجل ارشادفرماتاہے:
کُلُّ شَیۡءٍ ہَالِکٌ اِلَّا وَجْہَہٗ ؕ لَہُ الْحُکْمُ وَ اِلَیۡہِ تُرْجَعُوۡنَ ﴿٪88﴾
"ترجمہ کنزالایمان:ہر چیز فانی ہے سوااس کی ذات کے، اسی کاحکم ہے اور اسی کی طرف پھر جاؤگے ۔(پ20،القصص:88)
(اے عمر بن عبد العزیز رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ!) بے شک دنیا والے دنیا کی کسی چیز پر قادر نہیں، وہ خودمختار نہیں، جب انہیں حکم الٰہی عزوجل ہوگا وہ اس دنیا کو چھوڈ دیں گے اور یہ بے وفا دنیا ان کو چھوڑ دے گی۔ اللہ عزوجل نے (لوگو ں کی رہنمائی) کے لئے قرآن کریم اور دیگر کتب سماویہ نازل فرمائیں ، انبیاء ورُسُل علیہم الصلوٰۃوالسلام مبعوث فرمائے ،اپنی کتاب میں جزاء وسزا بیان فرمائی، مثالیں بیان فرمائیں اور اپنے دین کی وضاحت قرآن کریم میں فرمادی ، حرام وحلال اشیاء کا بیان اسی کتاب میں فرما دیا اورعبرت آموز واقعات اس میں بیان فرمائے ۔
اے عمر بن عبدالعزیز(رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)! کیاتجھ سے اس بات کا وعدہ نہیں لیاگیا کہ تو ہر ایک انسان کے کھانے پینے کا ذمہ دار ہے اور تو ان کو کافی ہے بلکہ تجھے تو خلافت دی گئی ہے، بے شک تجھے بھی اتنا کچھ ہی کھانا اور لباس کافی ہے جتنا کہ ایک عام انسان کو کافی ہے ،بے شک تجھے جوذمہ داری ملی ہے یہ اللہ رب العزت ہی کی طر ف سے ملی ہے ۔ اگر تجھ میں اتنی استطاعت ہے کہ تو اپنے آپ کو اور اپنے اہل خانہ کو نقصان و بر بادی سے بچا سکتا ہے تو ضرور بچا اور قیامت کی ہولناکیوں سے بچ اور نیکی کرنے کی طاقت اور برائی سے بچنے کی تو فیق اللہ رب العزت ہی کی طرف سے ہے۔ بے شک جو لوگ تجھ سے پہلے گزرے انہوں نے جو کچھ کرنا تھا وہ کیا ،جو ترقیاتی کام کرنے تھے کئے، جن چیز وں کوختم کرنا تھا ختم کیا ،اور ہر شخص اپنے اپنے انداز میں اپنی ذمہ داریوں کوادا کرتا رہا اور یہی سمجھتا رہا کہ اصل طریقہ یہی ہے جو میں نے اختیار کیا ہے، ان میں سے بعض لوگو ں نے قابلِ گرفت لوگو ں سے بھی نہایت نرمی سے کام لیا اور ان کی سرکشی کے باوجود انہیں بے جا ڈھیل دی تو اللہ رب العزت نے ایسے لوگو ں پر"
"آزمائش کا دروازہ کھول دیا۔ اگر تو بھی کسی قابلِ گر فت شخص سے نرمی کا بر تا ؤ کرنا چاہتا ہے توکر، پھر ا س کاانجام خود ہی دیکھ لے گا اگر تو نے کسی مجرم سے کسی دینی معاملہ میں نرمی کا بر تاؤ کیا تو اللہ رب العزت تجھ پر بھی آزمائش کے دروازے کھول دے گا ، اگر تو کسی کو گورنر بننے کے قابل نہ سمجھے تو بے دھڑک اس کو عہدے سے معزول کردے اور کسی کا خوف نہ کر اور اس بات سے نہ ڈر کہ اب کون گورنر وحاکم بنے گا ۔اس بات کا مالک اللہ ربُّ العٰلمین ہے ،وہ تیرے لئے ان نا اہل گو رنروں اور حاکموں سے بھی اچھے مدد گار لوگ عطا فرما دے گا، تو مخلوق سے بالکل بھی نہ ڈر اور اپنی نیت کو خالص رکھ۔ ہر انسان کی مدد اس کی نیت کے مطابق کی جاتی ہے، جس کی نیت کامل ہے تو اس کو اجر بھی کامل ہی ملے گا اور جس کی نیت میں فتور ہوگا اس کو صلہ بھی ایسا ہی دیا جائے گا ۔ الغرض انسان کی مدد اس کی نیت کے مطابق کی جاتی ہے۔
اے عمر بن عبدالعزیز(علیہ رحمۃاللہ المجید) ! اگر تو یہ چاہتا ہے کہ بر وز ِقیامت تو اس حال میں آئے کہ کوئی تیرے خلاف ظلم کا دعویدار نہ ہو اور جو لوگ تجھ سے پہلے گزر گئے وہ تجھ پر رشک کرتے ہوں کہ اس کے متبعین کو اس سے کوئی شکایت نہیں، اس کی رعایا اس سے خوش ہے توتُوایسے ا عمال کرکہ تجھے اس دن وہ مقام حاصل ہوجائے یعنی اپنے اعمال اچھے رکھ اور بے شک اللہ عزوجل ہی کی طرف سے نیکی کرنے کی قوت دی جاتی ہے اور برائی سے بھی وہی ذات بچانے والی ہے۔
اورجو لوگ موت اور اس کی ہولناکیوں سے خوف کھاتے تھے مرنے کے بعدان کی وہ آنکھیں ان کے چہروں پر بہہ گئیں جو دُنیوی لذتوں سے سیر ہی نہ ہوتی تھیں،ان کے پیٹ پھٹ گئے اور وہ تمام چیزیں بھی ضائع ہوگئیں جو وہ کھایا کرتے تھے ، ان کی وہ گر د نیں جو نرم نازک تکیوں پر آرام کرنے کی عادی تھیں آج قبر کی مٹی میں بوسیدہ حالت میں پڑی ہیں۔ جب وہ دنیا میں تھے تو لوگ ان سے خوش ہوتے اور ان کی خدمت کرتے لیکن آج یہی لوگ موت کے بعد ایسی حالت میں ہیں کہ ان کے جسم گل سڑگئے، اگر ان لوگو ں کو اور ان کی دنیوی غذاؤں کو آج کسی مسکین کے سامنے رکھ دیا جائے تو وہ بھی اس کی بد بو سے اذیت محسوس کرے، اب اگر ان کے تَعَفُّن زدہ جسموں پر خوب خوشبو ملی جائے تب بھی ان کی بد بو ختم نہ ہو بلکہ خوشبو ملنا اِسراف ہوگا ۔
ہاں! اللہ عزوجل جسے چاہے اپنی رحمتِ خاصہ سے حصہ عطا فرمائے اور اسے دائمی نعمتیں عطا فرمائے ،بے شک ہم سب اسی کی طر ف لوٹنے والے ہیں ۔
اے عمر بن عبد العزیز (علیہ رحمۃاللہ المجید) !تیرے ساتھ واقعی ایک بہت بڑا معاملہ درپیش ہے، توکبھی بھی جزیہ اور زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے ایسے عامل مقرر نہ کرنا جو بہت زیادہ سختی کریں اور لوگو ں سے بہت زیادہ تر ش روئی سے پیش آئیں اور بے جاان کا خون بہائیں۔ اے عمر!اس طرح مال حاصل کرنے سے بچ، ایسی خون ریزی سے ہمیشہ کوسوں دور بھاگ ، اور اگر تجھے"
"کسی گورنر کے بارے میں یہ خبر ملے کہ وہ لوگوں پر ظلم کرتا ہے اور پھر بھی تو اسے گورنری کے عہدے سے معزول نہ کرے تو یاد رکھ!اگرتو اس طرح کی جرأتیں کریگا تو تجھے جہنم سے بچانے والا کوئی نہ ہو گااورتورسوائی و ذلت کی طرف مائل ہوجائے گا ۔اللہ رب العزت ہم سب کو اپنی حفظ وامان میں رکھے، آمین۔ اور اگر تو ان تمام ظلم وزیادتی والے امور سے اجتناب کرتا رہا تو تجھے دلی سکون حاصل ہوگا اور تو مطمئن رہے گا۔(ان شاء اللہ عزوجل)
اے عمر بن عبدالعزیز (علیہ رحمۃاللہ المجید) !تو نے مجھ سے کہا کہ میں امیرالمؤمنین حضرت سیدناعمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرت اور ان کے فیصلوں کے متعلق تجھے معلومات فراہم کروں تو اے عمر بن عبد العزیز (علیہ رحمۃاللہ المجید) !امیرالمؤمنین حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور کے مطابق فیصلے کئے ۔جیسی ان کی رعایا تھی اب ایسی نہیں ، ان کے فیصلے اس دور کے اعتبار سے تھے اور تم اپنے دور کے اعتبار سے فیصلے کرو، اور اپنے دور کے لوگو ں کو مدِّنظر رکھتے ہوئے ان سے معاملات کرو، اگر تم ایسا کرو گے تو مجھے اللہ رب العزت سے امید ہے کہ وہ تمہیں بھی امیرالمؤمنین حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسی مدد و نصرت عطا فرمائے گا اورجنت میں ان کے ساتھ مقام عطا فرمائے گا۔ اور اے عمر بن عبدالعزیز! تم یہ آیتِ مبارکہ پڑھا کرو:"
وَمَاۤ اُرِیۡدُ اَنْ اُخَالِفَکُمْ اِلٰی مَاۤ اَنْہٰکُمْ عَنْہُ ؕ اِنْ اُرِیۡدُ اِلَّا الۡاِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ ؕ وَ مَا تَوْفِیۡقِیۡۤ اِلَّا بِاللہِ ؕعَلَیۡہِ تَوَکَّلْتُ وَ اِلَیۡہِ اُنِیۡبُ ﴿88﴾
"ترجمہ کنزالایمان:اورمیں نہیں چاہتاہوں کہ جس بات سے تمہیں منع کرتاہوں آپ اس کے خلاف کرنے لگوں،میں توجہاں تک بنے سنوارنا ہی چاہتاہوں،اور میری توفیق اللہ ہی کی طرف سے ہے، میں نے اسی پر بھروسہ کیااوراسی کی طرف رجوع کرتاہوں ۔ (پ12، ھود:88)
اے عمر بن عبدالعزیز (علیہ رحمۃاللہ المجید) ! اللہ رب العزت تجھے اپنے حفظ وامان میں رکھے اور دارین کی سعادتیں عطا فرمائے ۔آمین
والسّلام:منسالم بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدنا ابو القاسم انباری علیہ رحمۃ اللہ الباری فرما تے ہیں،مجھے ایک شخص نے بتایا کہ'' میں ایک دن صبح صبح حضرت سیدنا بشر بن حارثعلیہ رحمۃاللہ الوارثسے ملاقات کے لئے حاضر ہوا۔ جیسے ہی میں دروازے کے قریب پہنچا تو اندر سے کسی کی درد بھری آواز سنائی دی۔میں دروازہ کھٹکھٹانے سے باز رہا اور کان لگا کر گھر سے آنے والی درد بھری آواز سننے لگا ۔حضرت سیدنا بشر بن حارث علیہ رحمۃاللہ الوارث کے سامنے ایک خربوزہ رکھاہواتھا اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ شدید خواہش کے باوجود اس کو نہیں کھار ہے تھے بلکہ اپنے نفس کوملامت کرتے ہوئے کہہ رہے تھے :''اے نفس !تیرا ناس ہو ،کیا تو اسے کھانا چاہتا ہے تجھے اس کی طر ف رغبت کیوں ہوئی ؟''
اسی طر ح بار بار اپنے نفس کو ملامت کررہے تھے ، جب میں نے دیکھا کہ معاملہ طُول پکڑ گیا ہے اور دن بلند ہو رہا ہے تو مجھ سے نہ رہا گیا اور میں نے دروازے پر دستک دے دی ، آواز آئی:'' کون ؟'' میں نے اپنا نام بتایا۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:''اندر آجاؤ۔'' میں اندر داخل ہوا اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس بیٹھ گیا اور میں نے عرض کی :''اے ابو نصر بشر بن حارث (علیہ رحمۃاللہ الوارث) ! آپ اپنے نفس پر اتنی سختی کیوں کر رہے ہیں؟اسے حلال چیز کے کھانے سے کیوں روک رہے ہیں؟ کیا اللہ رب العزت جلّ جلالہ نے بندو ں کو رخصت اور رعایتیں عطا نہ فرمائیں؟ کیا یہ چیزیں ہمارے لئے حلال نہیں ہيں؟ پھر آپ(رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) اپنے اوپر اتنی سختی کیوں کر رہے ہو ؟''
حضرت سیدنابشربن حارث علیہ رحمۃاللہ الوارث فرمانے لگے :''اے میرے بھائی! میں نے کافی عرصہ سے اپنے نفس کوصبرکاعادی بنارکھاہے۔ جب کبھی یہ کسی چیز کی خواہش کرتاہے تومیں اسے صبرکی تلقین کرتا ہوں اوریہ صبرکرنے پرآمادہ ہو جاتا ہے ، اگراس کوڈھیل دی جائے تویہ مزید خواہشات کامتمنی ہوتاہے۔ پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک شعرپڑھا جس کا مفہوم یہ ہے: ''نفس کے لئے یہی بہتر ہے کہ انسان اسے خواہشات سے روکے رکھے۔ اگر اسے اس کی دل پسند چیز کھلاؤ گے تو وہ مزید طلب کریگا اور اسے ہر طر ح حاصل کرنے کی کوشش کر ے گا ۔''
پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے وہ خربوزہ پھینک دیا اور کہا:''اسے یہاں سے اٹھالو۔'' پھر کچھ اشعار پڑھنے لگے ،جن کا مفہوم یہ ہے :''بے شک میرا نفس مجھ سے مطالبہ کرتا ہے کہ میں پیٹ بھر کر اس کی من پسند غذائیں کھاؤں اور اپنے دین کو داؤ پر لگا دوں، مگریہ ناممکن بات ہے، اور جو شخص دنیا حاصل کر لے لیکن دین سے محروم رہے تو وہ بہت زیادہ خسارے میں ہے۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدنا محمد بن حسین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں، حضرت سیدنا مخول نے مجھے بتایا کہ'' ایک مرتبہ حضرت سیدنا بہیم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ میرے پا س آئے اور مجھ سے فرمانے لگے :''میرا حج کا ارادہ ہے ، اگر تمہارے علم میں کوئی ایسا شخص ہے جو حج کا ارادہ رکھتاہوتومجھے اس کے بارے میں بتاؤ تاکہ ہم دونوں سفرِحج پرروانہ ہوں اور ایک دوسرے کی رفاقت میں حج کی سعادت حاصل کریں۔'' میں نے حضرت سیدنابہیم (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)سے عرض کی:''ہمارے پڑوس میں ایک دین دار اور بہت نیک شخص رہتا ہے وہ بھی حج کاارادہ رکھتاہے، آیئے میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہکی اس سے ملاقات کر ادیتا ہوں۔چنانچہ میں انہیں اپنے اس دوست کے پاس لے گیا اور اسے صورت حال سے آگاہ کیاتو وہ تیار ہو گیا اور کہا:''ان شاء اللہ عزوجل ہم ایک ساتھ سفرِ حج پر روانہ ہوں گے۔
پھر ہم وہاں سے چلے آئے اور حضرت سیدنا بہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے گھر تشریف لے گئے۔ کچھ ہی دنوں بعد میرا وہی دوست میرے پاس آیا اورکہنے لگا :'' میں یہ چاہتا ہوں کہ جس شخص کو آپ نے میرا رفیق بنایا ہے آپ اسے میرا رفیق نہ بنائیں بلکہ اس کے لئے کوئی اور رفیق تلاش کر لیں ،میں اس کے ساتھ سفر نہیں کر سکتا۔'' جب میں نے یہ سنا تو اپنے اس دوست سے کہا: ''تجھ پر افسوس ہے! آخر کیوں تو اس کے ساتھ سفر کرنے کو تیار نہیں؟ خدا عزوجل کی قسم !پورے کوفہ میں میرے نزدیک ان سے بڑھ کرکوئی متقی و پر ہیز گار نہیں ،میں نے ان کے ساتھ کئی سمندری اور صحرائی سفرکئے ہیں، میں نے ان میں ہمیشہ بھلائی اور خیر ہی کو پایا اور تم ہو کہ ان کی رفاقت سے محروم رہنا چاہتے ہو، آخر وجہ کیا ہے؟'' وہ کہنے لگا:'' مجھے خبر ملی ہے کہ جسے آپ میرا رفیق بنانا چاہتے ہیں وہ تو ہر وقت روتے ہی رہتے ہیں اور انہیں رونے سے کبھی فرصت ہی نہیں ملتی، ہر وقت آہ وبکا کرتے رہتے ہیں، اب آپ ہی بتائیے کہ میں ایسے شخص کے ساتھ سفر کیسے کر سکتا ہوں؟ان کے رونے کی وجہ سے ہمارا سفرخوش گوار نہیں رہے گا اور ہمیں بہت پر یشانی ہوگی ۔''
میں نے اپنے اس دوست سے کہا :''بعض اوقات انسان وعظ ونصیحت سن کر رو پڑتا ہے تو اس میں کیا حرج ہے ؟یہ تو رقتِ قلبی کی وجہ سے ہوتا ہے کیاآپ کبھی وعظ ونصیحت سن کر نہیں روئے ؟ ''اس نے کہا:'' یہ تو آپ بجا فرمارہے ہیں لیکن ان کے بارے میں تو مجھے یہ خبر ملی ہے کہ وہ ہر وقت ہی روتے رہتے ہیں اور ان کا رونا بہت طویل ہوتا ہے ۔''
میں نے کہا :'' آپ اس کی صحبت اختیار کریں، اللہ رب العزت آپ کو اس مرد صالح کے ذریعے بر کتیں عطا فرمائے گا، آپ بے فکر ہو کر ان کے ساتھ سفر کریں۔''چنانچہ میرا وہ دوست تیار ہوگیا اور کہنے لگا:'' ٹھیک ہے، میں ان کے ساتھ سفر کرنے کو تیار ہوں، اللہ ربُّ العزَّت ہمارے اس سفر میں خیر و برکت عطا فرمائے ۔"
" پھر جس دن ان کی حج کے لئے روانگی تھی تو میں اور میرا دوست حضرت سیدنا بہیمرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس پہنچے تودیکھا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ایک دیوار کے سائے تلے بیٹھے زار وقطار رو رہے ہیں اور آپ کے آنسوداڑھی مبارک کو تر کرتے ہوئے زمین پر گر رہے ہیں ۔
جب میرے دوست نے یہ دیکھا تو مجھ سے کہنے لگا:'' دیکھو! انہوں نے تو ابھی سے ہی رونا شرو ع کردیا ،بقیہ سفر میں ان کا کیا حال ہوگا ۔آپ نے تو مجھے بڑی آزمائش میں ڈال دیا ہے، میں ان کے ساتھ سفر کس طر ح کر سکوں گا؟'' میں نے کہا : ''ہو سکتا ہے کہ یہ اپنے اہل وعیال سے جدائی کی وجہ سے رو رہے ہوں۔ میری یہ بات حضرت سیدنا بہیم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے سن لی اور کہا :''اے مخول! میں گھر والوں سے جدائی کی وجہ سے نہیں رو رہا بلکہ مجھے تو سفر آخرت کی طوالت اور صعوبتیں رُلا رہی ہیں۔'' یہ کہہ کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پھر رونے لگے۔
مجھ سے میرادو ست کہنے لگا :''ان کی رفاقت کے لائق تو حضرت سیدنا داؤد طائی اور حضرت سیدنا سلام ابو الاخوص رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہماجیسے بزرگ ہیں کیونکہ وہ بھی ایسے ہی رونے والے ہیں۔ جب یہ سب جمع ہوں گے تو انہیں قرار نصیب ہو جائے گا یا پھر سارے ہی رورو کر جان دے دیں گے ،میں ان کی رفاقت کے قابل نہیں ۔''
میں نے پھر اپنے دوست کو سمجھا یا اور کہا:'' آپ تھوڑا صبر سے کام لیں اور انہیں برداشت کریں، ہوسکتاہے یہ سفر آپ کے لئے ذریعہ نجات بن جائے۔'' بالآخر وہ کہنے لگا:'' اکثر لوگ جب حج پر روانہ ہوتے ہیں تو وہ خوش خوش اور بہت زیادہ زادِ راہ لے کرجاتے ہیں اور ان میں کوئی بھی غم زدہ یا محتاج نہیں ہوتا۔ میں نے تو ہمیشہ ایسے ہی خوشحال لوگو ں کے ساتھ سفرکیا ہے، اب پہلی مرتبہ مجھے ایسے شخص کی رفاقت مل رہی ہے جو گریہ وزاری کرنے والا ہے۔ بہر حال میں ان کے ساتھ سفر ضرور کروں گا شاید! یہ سفر میرے لئے خیر و برکت کا سبب بنے ۔ بالآخرمیرا وہ دوست سفرکے لئے تیار ہوگیا۔ حضرت سیدنا بہیمرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کوہمارے مابین ہونے والی گفتگو کا علم نہ تھا ورنہ وہ اگر ہماری یہ باتیں سن لیتے تو کبھی بھی میرے اس دوست کے ساتھ سفر نہ کرتے۔ بہر حال میں نے ان دونوں کو سو ئے حرم روانہ کردیا ۔
؎ مدینے جانے والو ! جاؤ جاؤ فی امان اللہ (عزوجل)
کبھی تو اپنا بھی لگ جائے گا بستر مدینے میں
پھر جب حاجیوں کے قافلے فریضہ حج ادا کر کے اور اپنی آنکھوں سے سبز سبزگنبد اور خانہ کعبہ کے جلوے دیکھ کر واپس کوفہ پہنچے تومیں اپنے اس دوست کے پاس گیااسے سلام کیااورپوچھا: ''آپ نے ا پنے رفیق کو کیسا پایا؟ ''تو اس نے مجھے دعائیں"
"دیتے ہوئے کہا: ''اللہ عزوجل آپ کو میری طرف سے اچھا بد لہ عطا فرمائے، خدا عزوجل کی قسم! آپ نے جس مردِ قلندر کو میرا رفیق بنایا مجھے ان میں حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرت کے جلوے نظر آتے تھے، انہوں نے حقِ صحبت خوب ادا کیا۔وہ خود تنگ دست ہونے کے باوجود مجھ پر خرچ کرتے رہے حالانکہ میں اپنے ساتھ بہت سارا زادِراہ لے گیا تھا مگر وہ مجھ پر اپنے زادِراہ سے خرچ کرتے رہے،میں جوان تھا اور وہ ضعیف العمر ۔لیکن پھر بھی انہوں نے میری خدمت کی ۔وہ میرے لئے کھانا تیار کرتے اور مجھے کھلاتے اور خود سارا دن روزہ رکھتے، اللہ رب العزت انہیں جزائے خیر عطا فرمائے ۔(آمین)
میں نے اپنے دوست سے پوچھا:''آپ خوف زدہ تھے کہ وہ روتے بہت زیادہ ہیں، اس کا کیاہوا؟ کیا تمہیں ان کے رونے سے پریشانی نہیں ہوئی ؟''و ہ کہنے لگا:''خدا عز وجل کی قسم! مجھے ان سے محبت ہوگئی اوران کے رونے کی وجہ سے مجھے قلبی سکون ملتااورمیں بھی ان کے ساتھ رویاکرتاتھا۔پھرابتداء ً توہمارے رونے کی وجہ سے دوسرے رفقاء کوپریشانی ہوئی لیکن پھر وہ بھی ہم سے مانوس ہوگئے پھر ایسا ہوتا کہ ہمیں روتادیکھ کر وہ بھی روناشروع کردیتے اوران سب نے ہم سے پیارومحبت بھرا سلوک کیااورجب ہم روتے تو ہمارے رفقاء بھی یہ کہتے ہوئے رونے لگتے :'' جس غم نے انہیں رُلایاہے وہ سفرِ آخرت کاغم توہمیں بھی لاحق ہے پھر ہم کیوں نہ روئیں لہٰذا وہ بھی ہمارے ساتھ رونے لگتے ۔الحمدللہ عزوجل !ہمارایہ سفر بہت اچھارہا۔اللہ عزوجل آپ کوجزاء خیر عطا فرمائے۔
پھر میں سیدنابہیم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس آیااوران سے پوچھا:'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے رفیق کو کیساپایا؟''وہ فرمانے لگے :''الحمدللہ عزوجل! وہ بہت اچھے رفیق ثابت ہوئے، وہ اللہ عزوجل کاذکر کثرت سے کرنے والے، قرآن پاک کی بہت زیادہ تلاوت کرنے والے، بہت جلد رودینے والے اوراپنے ہم سفر کی لغزشوں سے درگزرکرنے والے تھے۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سید ناعبدالرحمن بن یزید بن جابر علیہ رحمۃاللہ القادرفرماتے ہیں :'' ایک مرتبہ میں نے حضرت سیدنایزید بن مرثد علیہ رحمۃاللہ الاحدسے پوچھا:'' میں نے ہمیشہ آپ (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)کوروتے ہوئے ہی دیکھاہے کبھی آ پ کی آنکھیں آنسوؤں سے خالی نہیں ہوتیں؟آخرآ پ(رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) اتناکیوں روتے ہیں ؟''توانہوں نے مجھ سے فرمایا:''آپ یہ سوال کیوں کررہے ہیں؟'' میں نے کہا:''اس امید پر کہ شاید مجھے اس سوال کی وجہ سے کچھ فائدہ حاصل ہواورمجھے کوئی نصیحت آمیزجواب ملے ۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' میرے رونے کی وجہ تم پر ظاہر ہے۔'' میں نے پھر پوچھا:'' آپ(رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) صرف تنہائی میں ہی ایسی گریہ وزاری کرتے ہیں یا اس کے علاوہ بھی روتے ہیں ؟'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ سن کر فرمایا:'' خدا عزوجل کی قسم! مجھ پر یہ حالت اکثرطاری رہتی ہے۔ کبھی میرے سامنے کھانا لایا جاتا ہے تومجھ پرخوفِ خدا عزوجل سے رقت طاری ہوجاتی ہے اور میں کھانے سے بے پرواہ ہوجاتاہوں۔ کبھی ایسابھی ہوتاہے کہ میں اپنے اہل وعیال کے ساتھ ہوتاہوں تواچانک مجھ پریہ کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور میں بے اختیار روناشروع کردیتاہوں، مجھے دیکھ کرمیرے بچے اورتمام گھروالے بھی روناشروع کردیتے ہیں حالانکہ انہیں معلوم بھی نہیں ہوتاکہ وہ کیوں رورہے ہیں بس میرے رونے کی وجہ سے وہ بھی میرے ساتھ رونے لگتے ہیں۔
میری زوجہ اکثریہ شکایت کرتی ہے کہ ہائے افسوس! شاید ہی مسلمانوں کی عورتو ں میں کوئی ایسی عورت ہوگی جس کے شوہر کوآ پ (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) جیساغم لاحق ہو، میں تو تمہاری محبت وپیار کوترس گئی ہوں، عور توں کوجوخوشی اورسرور اپنے شوہرکی خوشی سے ملتاہے میں اس سے محروم ہوں، آپ (ر حمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) پر کبھی ایسی خوشی طاری نہیں ہوتی جسے دیکھ کر میری آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔''
میں نے پوچھا:'' اے میرے بھائی!آخر وہ کون سی چیز ہے جس نے آپ( رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) کواتناغمزدہ اورخوف وحزن کامجسمہ بنا دیا ہے ؟''توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرمانے لگے:''اے میرے بھائی! اگر میری نافرمانیوں کے صلہ میں مجھے گرم پانی میں غوطے لگانے کافیصلہ سنادیاجاتاتوپھربھی یہ اتنی سخت سزا ہے کہ اس کی وجہ سے روناچاہے لیکن معاملہ تو اس سے کہیں زیادہ سخت ہے کیونکہ اللہ عزوجل کی نافرمانیوں کی وجہ سے مجرموں کو جہنم کی آ گ میں قید کیاجائے گا اور وہ آ گ ہماری برداشت سے باہر ہے، پھر میں اس آگ کے خوف سے کیوں نہ روؤں۔ (اللہ کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)
؎دردِ سر ہو یا بخار آئے تڑپ جاتا ہوں
میں جہنم کی سزا کیسے سہوں گا یا رب(عزوجل)"
" حضرت سیدناسہل بن یحییٰ المروزی علیہ رحمۃاللہ القوی فرماتے ہیں :''خلیفہ سلیمان بن عبد الملک کی وفات کے بعد جب حضرت سیدناعمر بن عبد العزیز علیہ رحمۃاللہ المجیدنے اسے دفن کردیااور قبرستان سے واپس آنے لگے توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کوشاہی سواری پیش کی گئی۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے پوچھا:''یہ کیاہے ؟''عرض کی گئی،'' یہ وہ سواری ہے جس پر خلفاء سوار ہواکرتے ہیں چونکہ اب آپ(رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) ہی ہمارے خلیفہ ہیں لہٰذا شاہی سوار ی حاضر خدمت ہے، قبو ل فرمائیے۔''
یہ سن کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' اسے مجھ سے دور کردو،میرے لئے میراخچر ہی کافی ہے۔ چنانچہ آپ نے شاہی سواری کو چھوڑا اور اپنے خچر پر سوار ہوگئے پھر ایک خادم آیا اور عرض کی:'' حضور!چلئے ،میں آپ کے خچر کی لگام پکڑ کرساتھ ساتھ چلتاہوں۔'' آپ نے اس سے بھی انکار فرمادیااور خود ہی اپنے خچر پر سوارہوکرروانہ ہوگئے اور لوگوں سے فرمایا:'' تم مجھے عجیب وغریب مخلوق نہ سمجھومیں بھی تمہاری ہی طرح ایک عام مسلمان ہوں، مجھے اپنے جیساہی سمجھو۔''
سب لوگ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پیچھے پیچھے آرہے تھے، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مسجد میں داخل ہوئے اور منبر پر چڑھ کر خطبہ دینے لگے ۔تمام لوگ جمع ہو گئے اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کاکلام سننے لگے ۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرما یا:''اے لوگو!میرے کندھوں پر خلافت کابارِگراں رکھ دیاگیاہے مگر میں اسے سر انجام دینے کی طاقت نہیں رکھتالہٰذا جس نے میری بیعت کی ہے میں اسے اختیار دیتاہوں کہ وہ میرے علاوہ جس کے ہاتھ پر چاہے بیعت کر لے میں یہ خلافت قبول نہیں کرتالہٰذا مسلمانوں میں سے تم جسے چاہو اپناخلیفہ مقرر کر لو۔''جب لوگوں نے یہ سناتو ان کی چیخیں بلندہونے لگیں اورسب نے بیک زبان کہا:'' اے عمر بن عبد العزیز (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)!ہم نے آپ ہی کوخلیفہ مقرر کیا،ہم آ پ(رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)سے راضی ہیں، ہم سب آپ ہی کی خلافت پر متفق ہیں۔ آپ اللہ عزوجل کانام لے کر اُمور خلافت سر انجام دیں، اللہ عزوجل اس میں برکت دے گا۔''جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے لوگوں کی یہ عقیدت دیکھی اور آپ کواس بات کا یقین ہوگیاکہ لوگ بخوشی میری خلافت قبول کرنے پر آمادہ ہیں تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اللہ عزوجل کی حمد وثناء کی اور حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پر درود وسلام پڑھنے کے بعد لوگوں سے کچھ اس طرح مخاطب ہوئے:''اے لوگو!میں تمہیں اللہ عزوجل سے ڈرنے کی وصیت کرتاہوں، تم تقوی اختیار کرو اور اپنی آخرت کے لئے اعمال صالحہ کرو ۔بے شک جوشخص آخرت کے لئے نیک اعمال کریگااللہ عزوجل اس کی دُنیوی حاجات کوخود پورافرمائے گا۔
اے لوگو!تم اپنے باطن کی اصلاح کی کوشش کرواللہ عزوجل تمہارے ظاہر کی اصلاح فرمائے گا۔موت کوکثرت سے یاد کیا کرو اور موت سے پہلے اپنے لئے اعمالِ صالحہ کاخزانہ اکٹھا کرلو،موت تمام لذات ختم کردے گی۔ اے لوگو! تم اپنے آباؤاجداد"
"کے احوال میں غور وفکرکیاکرووہ بھی دنیامیں آئے اور ز ندگی گزار کرچلے گئے اسی طرح تم بھی چلے جاؤگے۔ اگر تم ان کے احوال کویادنہ رکھو گے تو موت تمہارے لئے بہت سختی کاباعث ہوگی لہٰذا موت سے پہلے موت کی تیاری کرلو۔
اور بے شک یہ امت مسلمہ اپنے رب عزوجل ،اس کے نبی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اور اس کی کتاب قرآن مجید کے بارے میں ایک دوسر ے سے جھگڑا نہیں کرے گی، اس مسئلے میں ان کے درمیان اختلاف نہ ہوگا بلکہ ان کے درمیان عداوت وفساد تو دراہم ودنانیر کی وجہ سے ہوگا۔ اللہ عزوجل کی قسم! میں کسی ایک کوبھی ناحق کوئی چیز نہ دوں گااور حق دار کواس کاحق ضرور دوں گا۔'' پھرآپ نے مزید فرمایا:'' اے لوگو!جو اللہ عزوجل کی اطاعت کرے، تم پر اس کی اطاعت واجب ہے اور جواللہ عزوجل کی اطاعت نہ کرے اس کی اطاعت ہرگز نہ کرو۔ جب تک میں اللہ عزوجل کی اطاعت کرتارہوں اس وقت تک تم میری اطاعت کرنااگر تم دیکھو کہ (معاذاللہ عزوجل )میں اللہ عزوجل کی اطاعت نہیں کررہاتو اس معاملے میں تم میری ہرگز اطاعت نہ کرنا۔''
یہ خطبہ دے کر آپ منبر سے نیچے تشریف لے آئے۔اپنا مال ودولت اور تمام کپڑے وغیرہ منگوائے اور انہیں بیت المال میں جمع کرادیاپھر تمام شاہی لباس جو خلفاء کے لئے تھے اور تمام آرائشی چیزیں منگوائیں اور حکم دیاکہ ان کوبیچ کربیت المال میں جمع کرا دو۔ آپ کے حکم کی تعمیل ہوئی اور تمام رقم مسلمانوں کے بیت المال میں جمع کردی گئی۔
آپ دن رات لوگوں کے مسائل حل کرنے میں مصروف رہتے کبھی تو ایسا بھی ہوتاکہ آرام کے لئے بالکل وقت نہ ملتا اور آ پ لوگوں کے مسائل کی وجہ سے آرام کوترک کردیتے۔ ایک دن ظہر کی نماز سے قبل بہت زیادہ تھکاوٹ محسوس ہونے لگی تو کچھ دیر قیلولہ کرنے کے لئے کمرے میں تشریف لے گئے ابھی آ پ لیٹے ہی تھے کہ آپ کے صاحبزادے حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے : ''اے امیرالمؤمنین (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ! آپ(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) یہاں کیسے تشریف فرماہیں ؟''آپ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)نے فرمایا: ''مجھے مسلسل بے آرامی کی وجہ سے بہت زیادہ تھکاوٹ ہورہی تھی اس لئے کچھ دیر کے لئے آرام کی غرض سے آیاہوں۔''توآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صاحبزادے نے کہا: ''حضور! لوگ آپ(رضی اللہ تعالیٰ عنہ)کے منتظر ہیں اور مظلوم اپنی فریاد لے کر حاضر ہیں اور آپ(رضی اللہ تعالیٰ عنہ)یہاں آرام فرماہیں۔'' آپ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے فرمایا:''میں ساری رات نہیں سوسکا اب تھوڑی دیر آرام کرکے ظہر کے بعد لوگوں کے مسائل حل کروں گا۔''توآپ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے عظیم صاحبزادے نے کہا: ''اے امیرالمؤمنین (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)! کیاآپ کویقین ہے کہ آپ ظہر تک زندہ رہيں گے؟
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب اپنے لختِ جگر کافکرِ آخرت سے بھرپوریہ جملہ سنا تو فرمایا: '' اے میرے بیٹے ! میرے قریب آؤ۔''جب وہ قریب آئے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی پیشانی کوبوسہ دیا اور فرمانے لگے:'' تمام تعریفیں اللہ عزوجل کے"
"لئے ہیں جس نے مجھے ایسی اولاد عطافرمائی جودین کے معاملہ میں میری مدد کرتی ہے۔''
پھرآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوراً ہی آرام کئے بغیر باہرتشریف لائے اور اعلان کروادیاکہ جس کاکسی پر کوئی حق ہے یاجس کوکوئی مسئلہ درپیش ہے وہ آجائے میں اسے اس کاحق دلواؤں گااور اس کے مسائل حل کروں گا۔ تھوڑی دیر میں ایک ذمی کافرآیااور کہنے لگا: '' میں حمص سے آیاہوں اور آپ سے کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ چاہتاہوں ۔''آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا: ''آخر تمہارا معاملہ کیاہے؟ تم کس بات کافیصلہ چاہتے ہو؟''وہ ذمی جواباً کہنے لگا:'' عباس بن ولیدنے میری زمین مجھ سے غصب کرلی ہے۔'' عباس بن ولید بھی اسی مجلس میں موجود تھے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے پوچھا:'' ا ے عباس! تم اس بارے میں کیا کہتے ہو؟'' عباس بن ولید کہنے لگے:'' حضور !یہ زمین مجھے امیر المؤمنین ولید بن عبد الملک نے دی تھی، ان کی لکھی ہوئی سند میرے پاس موجود ہے۔''پھرآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ذمی سے فرمایا:'' اے ذمی !تواس بارے میں کیا کہتا ہے؟ اس کے پاس تو زمین کی ملکیت کی سند ولید بن عبدالملک کی طرف سے موجود ہے جس کے مطابق یہ زمین عباس کی ملکیت میں ہے۔'' ذمی کہنے لگا:''اے امیر المؤمنین ! میں اپ سے کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ چاہتاہوں۔'' امیرالمؤمنین حضرت سیدناعمر بن عبد العزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ''ولید بن عبد الملک کی کتاب (یعنی سند) کی بجائے کتاب اللہ زیادہ لائق ہے کہ اس کی پیروی کی جائے ۔ لہٰذا اے عباس! تو یہ زمین اس ذمی کوواپس کردے۔ چنانچہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہ زمین عباس بن ولید سے لے کر اس ذمی کودلوائی تب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوقرار حاصل ہوا۔اسی طرح جو بھی جائداد اور زمین وغیرہ شاہی خاندان کے پاس ناحق موجودتھی وہ سب کی سب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے حق داروں کوواپس کرادی ،جن لوگوں کے اموال ناحق مقبوض تھے سب ان کوواپس کردئیے گئے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انتہائی عدل وانصاف کا مظاہرہ کیا اورشاہی خاندان کے پاس کوئی چیزبھی ایسی نہ چھوڑی جس پر کسی دوسرے کاحق ثابت ہورہا ہو۔
جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عدل وانصاف پر مبنی ان فیصلوں کی خبر عمربن ولید بن عبد الملک کوپہنچی تو اس نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف ایک مکتوب بھیجااور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوبہت زیادہ سخت الفاظ سے مخاطب کیا۔چنانچہ اس نے لکھا:
''اے عمربن عبدالعزیز (علیہ رحمۃ اللہ المجید) ! تم نے اپنے سے پہلے تمام خلفاء پر عیب لگایاہے اور تم حد سے تجاوز کرگئے ہو، تم نے بغض وعناد کی وجہ سے اپنے پہلوں کے طریقوں کو چھوڑدیاہے اور ان کے خلاف چل رہے ہو،تم نے قریش اور ان کی اولاد کی میراث کو جبراََبیت المال میں داخل کرکے اللہ عزوجل کی نافرمانی کی ہے اور قطع رحمی سے کام لیاہے۔اے عمر بن عبد العزیز !اللہ عزوجل سے ڈرو اور اس بات کاخیال کرو کہ تم ظلم وزیادتی سے کام لے رہے ہو،اے عمر بن عبد العزیز !ابھی تمہارے پاؤں صحیح طور پر تختِ"
"خلافت پر جمے بھی نہیں اور تم نے ایسے سخت فیصلے کرناشروع کردئیے ہیں۔ یاد رکھو!تم اللہ عزوجل کی نگاہ میں ہوجوبہت جبّار وقہار ہے ۔''
جب حضرت سیدناعمر بن عبد العزیزرضی اللہ تعالیٰ عنہ کواس کایہ خط ملاتوآپ نے اس کوپڑھ کراسی انداز میں اسے عدل وانصاف اور جرأتِ ایمانی سے بھرپورخط روانہ کیاجس کامضمون کچھ اس طرح تھا:
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ط
اللہ عزوجل کے بندے عمربن عبدالعزیز کی طرف سے عمربن ولید کو۔تمام تعریفیں اللہ عزوجلکے لئے ہیں جوتمام جہانوں کاپالنے والاہے اور سلام ہوتمام رسولوں پر۔
امَّابعد!اے عمر بن ولید!مجھے تمہاری طرف سے جو مکتوب ملاہے اس کاجواب اسی اندازمیں لکھ رہاہوں۔ اے عمر بن ولید!تو ذرا اپنے آپ کو پہچان کہ کس کی اولادہے؟ تو ایک ایسی لونڈی کے بطن سے پیداہواتھاجسے ذبیان بن دیان نے خریدا تھااور اس کی قیمت بیت المال سے ادا کی تھی پھر اس نے وہ لونڈی تیرے والدکو تحفۃََ دے دی تھی ۔اور اب تو اتناشدید وسخت بن رہاہے اور تو گمان کررہاہے کہ میں نے حدوداللہ نافذ کرکے ظلم کیاہے۔ یاد رکھ! وہ زمین اور جائداد جو تمہارے خاندان والوں کے پاس ناحق تھی وہ میں نے ان کے حق داروں کودے کرظلم نہیں کیابلکہ اللہ عزوجل کی کتاب کے مطابق فیصلہ کیاہے۔ ظالم تو وہ شخص ہے جس نے اللہ عزوجل کے احکام کالحاظ نہ رکھا اور جس نے ایسے لوگوں کوگورنر اوربلند حکومتی عہدے دئیے جو صرف اپنے اہل خانہ اور اپنی اولاد کا بھلا چاہتے تھے اور مسلمانوں کی مشکلات اور ان کے حقوق سے انہیں کوئی غرض نہ تھی اوروہ اپنی مرضی سے فیصلے کرتے تھے۔ اے عمر بن ولید! تجھ پر اور تیرے باپ پر بہت زیادہ افسوس ہے، بروزِقیامت تم دونوں سے حق مانگنے والوں کی تعدادبہت زیادہ ہوگی،اس دن لوگ تم سے اپنے حقوق کامطالبہ کریں گے اور مجھ سے زیادہ ظالم تو حجاج بن یوسف تھاجس نے ناحق خون بہایااور مالِ حرام پر قبضہ کیااور مجھ سے زیادہ ظالم و نافرمان تو وہ شخص تھاجس نے اللہ عزوجل کی حدود قائم کرنے کے لئے قرہ بن شریک جیسے شخص کومصرکاگورنرمقرر کیا حالانکہ وہ نراجاہل تھا،اس نے شراب کو عام کیااور آلاتِ لہوولعب کوخوب پروان چڑھایا۔
اے عمر بن ولید! تمہیں مہلت ہے کہ جن جن کاحق تم پرہے جلد ان کو واپس کردو ورنہ تمہارے اور تمہارے گھر والوں کے پاس جوبھی ایسا مال ہے کہ اس میں کسی غیرکاحق شامل ہے تو میں اسے حق داروں میں تقسیم کردوں گااور اگر تم غور وفکر کرو تو تمہارے اموال میں بہت سارے لوگو ں کا حق شامل ہے۔ اگردنیاوآخر ت کی بھلائی چاہتے ہوتو دوسروں کے حق واپس کردو۔
وَالسَّلَامُ عَلَیْنَاوَلَاسَلَامُ اللہِ عَلٰی الظّٰلِمِیْن یعنی ہم پر سلامتی ہواور ظالموں پر اللہ عزوجل کی طرف سے سلامتی نہ ہو۔
حضرت سیدناعمربن عبد العزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرت وکردارسے آپ کے دشمن بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور انہوں"
"نے بھی اعتراف کیاکہ یہ مردِ مجاہدواقعی خلافت کے لائق ہے ۔یہاں تک کہ جولوگ آپ کی جان کے درپے تھے انہوں نے بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اچھی سیرت اور کردار سے متاثر ہوکر اپنے ارادوں کو ترک کر دیا۔ خوارج بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہسے دشمنی رکھتے تھے اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قتل کرناچاہتے تھے لیکن جب ان کو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرت اور طرز حکومت کی خبر ہوئی تو انہوں نے آپس میں یہ طے کیاکہ ہم ایسے عظیم شخص سے جنگ کریں اور اسے قتل کردیں،یہ کام ہمیں زیب نہیں دیتالہٰذا وہ اپنے اس مذموم فعل سے باز رہے اور جب تک اللہ عزوجل نے چاہاآپ نہایت عدل وانصاف سے اُمورِخلافت انجام دیتے رہے ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
حضرت سیدناعبد اللہ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں، ایک مرتبہ حضرت سیدناابراہیم بن ادہم علیہ رحمۃاللہ الاعظم نے اپنی توبہ سے قبل کاایک واقعہ بتایاجو واقعات آپ کی توبہ کاسبب بنے ان میں یہ سب سے پہلا واقعہ تھا،آپ فرماتے ہیں:''موسم گرماکی ایک سخت دوپہر،مَیں اپنے محل کے بالاخانے میں دنیاکی رنگینیوں میں مگن تھا،مجھے ہرطرح کی سہولت میسر تھی، محل کی ایک کھڑکی شارع عام کی طرف کھلتی تھی جس سے میں باہرکے نظاروں سے لطف اندوز ہواکرتاتھا۔ ا س دن بہت شدید گرمی تھی لیکن میں اپنے آرام دہ، ٹھنڈے ،ہوا دار بالاخانے میں اپنے رفقاء کے ساتھ بڑے سکون سے خوش گپیوں میں مصروف تھا۔یکایک میری نظر اس کھڑکی کی طرف پڑی جو شارع عام کی طرف کھلتی تھی۔ میں نے دیکھاکہ اس سخت گرمی میں ایک بزرگ بوسیدہ سی چادر میں لپٹا دنیا کے غموں سے بے فکرمحل کی دیوا رکے سائے تلے بڑے سکون سے بیٹھاہے۔ میں اس کی یہ حالت دیکھ کربہت حیران ہوا۔ میں نے فوراََخادم کوبلایااور کہا:'' اس بزرگ کے پاس جاؤ اور اسے میری طرف سے سلام عرض کرنااور کہناکہ آپ کچھ دیر محل میں تشریف لے چلیں، ہمارا بادشاہ آپ کو بلارہاہے۔'' خادم فوراََبزرگ کے پاس گیا اوراسے میر اپیغام دیا۔وہ خادم کے ساتھ میرے پاس آیااور مجھے سلام کیا۔میں نے جواب دیااور اسے اپنے پہلومیں بٹھایا اس کی قربت سے مجھے دلی سکون نصیب ہوا اور میرے دل سے دنیاکی محبت زائل ہونے لگی۔ میں نے اس بزرگ کے لئے کھانامنگوایاتو اس نے کھانے سے انکار کردیا۔میں نے اس سے پوچھا:''آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں ؟'' فرمانے لگے:'' میں وراء النہر سے آیاہوں۔'' میں نے پوچھا:''کہاں
"کااراد ہ ہے؟'' فرمانے لگے: ''ان شاء اللہ عزوجل حج کاارادہ ہے۔'' میں بہت حیران ہواکیونکہ اس دن ذوالحجۃ الحرام کی دوتاریخ تھی ۔میں نے پوچھا:'' آپ حج کے لئے اب روانہ ہوئے ہیں حالانکہ ذوالحجۃ الحرام کی دو تاریخ ہوچکی ہے، آپ اتنے کم وقت میں حرمین شریفین کیونکر پہنچ پائیں گے ؟''تو وہ بزرگ فرمانے لگے:'' اللہ عزوجل جوچاہتاہے کرتاہے ،وہ ہرشے پر قادر ہے۔''میں نے کہا:''حضور! اگر آپ قبول فرمائیں تو میں بھی آپ کے ساتھ حرمین شریفین کی حاضری کے لئے چلوں۔'' فرمایا: ''جیسے تمہاری مرضی۔'' چنانچہ میں نے اسی وقت ارادہ کرلیاکہ اس بزر گ کی صحبت ضرورحاصل کروں گااوراس کے ساتھ حج کرنے جاؤں گا۔جب رات ہوئی تو اس بزرگ نے مجھ سے فرمایا:'' چلو!ہم اپنے سفر پر روانہ ہوتے ہیں۔''میں سفر کی کچھ ضروری چیزیں لے کر ان کے ساتھ چلنے کوتیار ہوگیا۔انہوں نے میراہاتھ پکڑا اور ہم رات ہی کو بلخ سے روانہ ہوگئے۔ ہم نے رات کے کچھ ہی حصہ میں کافی فاصلہ طے کر لیا پھر ہم ایک گاؤں میں پہنچے تو مجھے ایک شخص ملامیں نے اسے چند ضروری اشیاء لانے کو کہا تو اس نے فوراً وہ چیزیں حاضر کردیں پھرہمیں کھاناپیش کیا۔ہم نے کھاناکھایا ،پانی پیااور اللہ عزوجل کاشکر اداکیا۔پھر اس بزرگ نے مجھ سے فرمایا:''اٹھئے، پھر انہوں نے میراہاتھ پکڑا اورچل دیئے ہم منزل پر منزل طے کرتے جاتے۔ مجھے ایسا محسوس ہو رہاتھاکہ زمین ہمارے لئے سمیٹ دی گئی ہے اور خود بخودہمیں کھینچ کر منزل کی طرف لے جا رہی ہے۔ ہم کئی شہروں اور بستیوں کو پیچھے چھوڑ تے ہوئے اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھے۔ جب بھی کوئی شہر آتاتو وہ بزرگ مجھے بتاتے کہ یہ فلاں شہر ہے، یہ فلاں جگہ ہے۔
جب ہم کوفہ پہنچے تو انہوں نے مجھ سے کہا:'' تم مجھے رات کو فلا ں وقت فلاں جگہ ملنا۔''اتناکہنے کے بعد وہ وہاں سے چلے گئے ۔جب میں وقتِ مقررہ پر اس جگہ پہنچاتو وہ بزرگ وہیں موجو دتھے۔ انہوں نے مجھے دیکھاتو میراہاتھ پکڑا اور پھر منزل کی طرف چل دیئے۔ میں حیران تھاکہ اس بزرگ کی صحبت میں نہ تومجھے تھکاوٹ کا احساس ہو رہاتھا اور نہ ہی کسی قسم کی وحشت محسوس ہورہی تھی ۔ہماری منزل قریب سے قریب تر ہوتی جارہی تھی۔ پھر اس بزر گ نے فرمایا: '' اے ابراہیم! اب ہم اپنی عقیدتوں کے مرکز اورعُشَّاق کی آنکھوں کی ٹھنڈک ''مدینہ منورہ '' کی نور بار فضاؤں میں داخل ہونے والے ہیں، سامنے سبزسبز گنبد ہے ۔
؎کیا سبز سبز گنبد کا خوب ہے نظارہ !
ہے کس قدر سہانا کیسا ہے پیارا پیارا !
ہم دھڑکتے دل کے ساتھ روضہ رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پرحاضر ہوئے اور درود وسلام کے نذرانے پیش کئے میرے دل کو کافی قرار نصیب ہوا ،میں روضہ رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی معطر ومعنبر فضاؤں میں گم ہو گیا۔
؎ ایسا گما دے ان کی وِلا میں خدا ہمیں ڈھونڈا کرے پر اپنی خبر کو خبر نہ ہو"
" پھر اس بزرگ نے مجھ سے فرمایا:'' اب میں کسی کام سے جارہاہوں اور رات کے فلاں حصے میں تم مجھے فلاں جگہ ملنا۔''اتناکہنے کے بعد وہ بزرگ میری نظروں سے اوجھل ہوگئے پھر جب میں مقررہ وقت پر اس جگہ پہنچاتو دیکھا کہ وہ وہاں مجھ سے پہلے ہی موجودہیں اور نمازمیں مشغول ہیں۔نماز سے فراغت کے بعد انہوں نے میراہاتھ پکڑا اور کہا:''چلو اب'' مکہ مکرمہ'' کی طرف چلتے ہیں۔'' ہم نے چلناشروع کردیا اورتھوڑی ہی دیر بعدہم'' مکہ مکرمہ'' کی مشکبار فضاؤں میں سانس لے رہے تھے۔'' اب اس بزرگ نے فرمایا :'' اے ابراہیم! اب تم مکہ مکرمہ پہنچ چکے ہو،اب میں تم سے جدائی چاہتاہو ں ۔''یہ سنتے ہی میں نے ان کادامن تھام لیااور عرض کی:'' میں آپ کی صحبتِ بابرکت سے مزید فیضیاب ہوناچاہتا ہوں۔''اس عظیم بزرگ نے فرمایا: ''میں ملک شام جانا چاہتاہوں۔'' میں نے کہا:''حضور!مجھے بھی اپنی رفاقت میں شام لے چلیں۔'' فرمانے لگے:'' جب تم حج مکمل کرلو تو مجھے بِیر زمزم کے پاس ملنا،میں وہیں تمہاراانتظار کروں گا۔''اتناکہنے کے بعد وہ بزرگ وہاں سے تشریف لے گئے اور میں حسرت بھری نگاہوں سے ان کو دیکھتارہا۔جب میں فریضہ حج ا دا کرچکاتو مقررہ وقت پربیرزمزم کے پاس پہنچا۔ وہ عظیم بزرگ وہاں میرے منتظر تھے مجھے دیکھ کر انہوں نے میر اہاتھ پکڑا اور ہم نے خانہ کعبہ کاطواف کیا،پھر ہم مکہ مکرَّمہ کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے ملک شام کی طرف روانہ ہوگئے۔
ہم جب شام کی طرف روانہ ہوئے تو اس بزرگ نے ایک مقام پر پہنچ کر پہلے ہی کی طرح مجھ سے فرمایا:''تم یہاں میراانتظار کرنامیں فلاں وقت تمہیں یہیں ملوں گا۔'' وہ وقت مقررہ پر وہاں پہنچ گئے اسی طرح انہوں نے تین مرتبہ کیاپھر ہمیں بہت جلد شام کی سرحدیں نظر آنے لگیں۔ ہم بہت ہی قلیل وقت میں مکہ مکرمہ سے شام پہنچ گئے ۔وہ بزرگ مجھے لے کر ''بیت المقدس '' پہنچے اور مسجدمیں داخل ہوئے اور مجھ سے فرمانے لگے:'' اے اللہ عزوجل کے بندے! یہی میری رہائش گاہ ہے۔ اب ہماری جدائی کاوقت آ گیاہے، اللہ عزوجل تجھے اپنی حفظ وامان میں رکھے اور تم پر سلامتی ہو۔''
اس کے بعدوہ بزرگ اچانک میری نظروں سے غائب ہوگئے ۔میں نے ان کوبہت تلاش کیا لیکن مجھے وہ نہ مل سکے اور نہ ہی ان کے متعلق کسی سے کوئی معلومات مل سکیں اور میں یہ بھی نہ جا ن سکاکہ جس عظیم ہستی کی کچھ دنوں کی صحبت نے میری زندگی کی کایا پلٹ دی، میرے دل سے دنیاکی محبت ختم کردی میرے اس محسن کانام کیاہے۔ میں اس کے نام سے بھی ناواقف رہاپھر میں اپنے دل میں اس بزرگ کی جدائی کاغم لئے شام سے بلخ کی طرف روانہ ہوااوراب میں اس سفر کو بہت طویل محسوس کررہاتھااور میراواپسی کاسفر مجھ پر بہت سخت ہوگیا تھا مجھے اس بزرگ کی رفاقت میں گزرے ہوئے نورانی لمحات بار با ریاد آرہے تھے۔ بالآخر میں سفر کی کافی صعوبتیں برداشت کر کے کئی دنوں کے بعد اپنے شہر بلخ پہنچا۔"
" جو واقعات میری توبہ کا سبب بنے یہ ان میں سب سے پہلاواقعہ تھا اور اس کی وجہ سے میں دنیاوی زندگی سے کافی بیزار ہوچکاتھا،مجھے اس بزرگ کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات باربار یاد آتے اور میں ان کے دیدار کامشتاق ہی رہالیکن دوبارہ ان سے ملاقات نہ ہوسکی۔ ''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیِّدنا یزید بن صلت الجوشی علیہ رحمۃاللہ القوی فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اپنے ایک عابد وزاہد دوست سے ملنے بصرہ گیا۔ جب میں ان کے گھر پہنچا تو دیکھا کہ ان کی حالت بہت نازک ہے اورشدَّتِ مرض سے قریبُ المرگ ہیں،ان کے بچے، زوجہ اورماں باپ اِرد گرد کھڑے رورہے ہیں اور سب کے چہروں پر مایوسی عیاں ہے۔ میں نے جاکر سلام کیا اور پوچھا:'' آپ اس وقت کیامحسوس کر رہے ہیں؟'' یہ سن کرمیرے وہ دوست کہنے لگے :''میں اس وقت ایسا محسوس کر رہا ہوں جیسے میرے جسم کے اندر چیونٹیاں گھوم پھر رہی ہوں۔''
اتنی دیر میں ان کے والد رونے لگے تومیرے دوست نے پوچھا:'' اے میرے شفیق باپ! آپ کو کس چیز نے رلایا ؟'' کہنے لگے : ''میرے لال! تیری جدائی کا غم مجھے رُلا رہا ہے، تیرے مرنے کے بعد ہمارا کیا بنے گا ۔''پھران کی ماں، بچے اور زوجہ بھی رونے لگی۔میرے دوست نے اپنی والدہ سے پوچھا:'' اے میری مہربان وشفیق ماں!تم کیوں رو رہی ہو؟'' ماں نے جواب دیا : '' میرے جگر کے ٹکڑے! مجھے تیری فرقت کا غم رُلارہا ہے، میں تیرے بغیر کیسے رہ پاؤں گی۔'' پھراپنی بیوی سے پوچھا: ''تمہیں کس چیز نے رونے پر مجبور کیا ؟'' اس نے بھی کہا :'' میرے سرتا ج! تیرے بغیر ہماری زندگی اجیرن ہوجائے گی ،جدائی کا غم میرے دل کو گھائل کر رہا ہے، تیرے بعد میرا کیا بنے گا؟'' پھر اپنے روتے ہوئے بچو ں کو قریب بلایا اور پوچھا: ''میرے بچو! تمہیں کس چیز نے رُلایا ہے ؟'' بچے کہنے لگے :''آپ کے وصال کے بعد ہم یتیم ہوجائیں گے، ہمارے سر سے سایہ پِدری اٹھ جائے گا، آپ کے بعد ہمارا کیا بنے گا؟آپ کی جدائی کا غم ہمیں رلا رہا ہے ۔''
ان سب کی یہ باتیں سن کر میرے دوست نے کہا: ''مجھے بٹھا دو۔'' جب انہیں بٹھا دیا گیاتو گھر والوں سے کہنے لگے: ''تم سب دنیا کے لئے ر ورہے ہو۔تم میں سے ہر شخص میرے لئے نہیں بلکہ اپنا نفع ختم ہوجانے کے خوف سے رو رہا ہے، کیا تم"
" میں سے کوئی ایسا بھی ہے جسے اس بات نے رُلایا ہو کہ مرنے کے بعد قبر میں میرا کیا حال ہوگا ، عنقریب مجھے وحشت ناک تنگ وتاریک قبر میں چھوڑ دیا جائے گا ، کیا تم میں سے کوئی اس بات پر بھی رویا کہ مجھے مرنے کے بعد منکر ونکیر سے واسطہ پڑے گا؟ کیاتم میں سے کوئی اس خوف سے بھی رویا کہ مجھے میرے پرور دگار عزوجل کے سامنے (حساب وکتاب ) کے لئے کھڑا کیا جائے گا ، تم میں سے کوئی بھی میری اُخروی پریشانیوں کی وجہ سے نہیں رویا بلکہ ہر ایک اپنی دنیا کی وجہ سے رو رہا ہے ،پھر ایک چیخ ماری اور ان کی رُوح قَفَسِ عُنصری سے پرواز کرگئی ۔''
(اللہ عزوحل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم،ر ء ُوف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلَّم کے صحابہ کرام علیہم الرضوان میں سے ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تجارت کیا کرتے تھے، ایک ُملک سے دوسرے ُملک اورایک شہر سے دوسرے شہر مالِ تجارت لے جاتے ، وہ بہت متقی وپرہیزگار تھے اور ان کی عادت تھی کہ اکیلے ہی سفر کرتے ۔
اسی طرح ایک مرتبہ وہ سامانِ تجارت لے کر سفر پر روانہ ہوئے ۔جب ایک جنگل میں پہنچے تو اچانک آہنی زِرہ پہنے ایک مسلّح ڈاکو نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو روک لیا اور کہا :'' اپنا سارا مال میرے حوالے کر دو اور قتل ہونے کے لئے تیار ہوجاؤ ۔'' یہ سن کر وہ صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمانے لگے : ''تمہارا مقصودمال ہے تم میرا سارا مال لے لواور مجھے جانے دو ،مجھے قتل کرنے سے تمہیں کیا فائدہ ہوگا ؟ یہ لومیں اپنا تمام مال تمہارے حوالے کرتا ہوں ۔''
یہ سن کر ڈاکونے کہا:'' میں تمہارا مال تو لوں گا ہی مگر تمہیں قتل بھی ضرور کروں گا۔'' اتنا کہنے کے بعد جب وہ حملہ کرنے کے لئے آگے بڑھا تو اس صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا :'' جب تم میرے قتل کا ارادہ کرہی چکے ہو تو مجھے تھوڑی مہلت دو تا کہ میں اپنے رب عزوجل کی بارگاہ میں سجدہ کرلوں او راس سے دعا کرلوں ۔'' یہ سن کر ڈاکو نے کہا : ''جو کرنا ہے جلدی کرو میں تمہیں قتل ضرور کروں گا ، جلدی سے نماز وغیرہ پڑھ لو ۔'' اس صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وضو کیا،چار رکعت نماز پڑھی ، پھر سجدہ کی حالت میں اللہ ربُّ العزت عزوجل سے اس طر ح دعا مانگنے لگے :"
'' یَا وَدُوْدُ یَا ذَاالْعَرْشِ الْمَجِیْد،ِ یَا فَعَّالُ لِّمَا یُرِیْدُ، اَسْئئَلُکَ بِعِزِّکَ الَّذِیْ لَا یُرَامُ وَمُلْکِ الَّذِیْ
لَایُضَامُ ، بِنُوْرِکَ الَّذِیْ مَلَأَ اَرْکَانَ عَرْشِکَ اَنْ تَکْفِیَنِیْ شَرَّ ھٰذَا اللِّصِّ، یَا مُغِیْثُ اَغِثْنِیْ، یَا مُغِیْثُ اَغِثْنِیْ، یَا مُغِیْثُ اَغِثْنِیْ۔
"ترجمہ:اے ودود! اے عرش مجید کے مالک! اے وہ ذات جو ہر اِرادے کو پورا کرنے والی ہے! میں تیری عزت کا واسطہ دیتا ہوں ایسی عزت جس کی کوئی اِنتہاء نہیں اور اے ایسی با دشاہت کے مالک! جس پر کوئی دباؤ نہیں ڈال سکتا، میں تجھے تیرے اس نور کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں جس نے تیرے عرش کے ارکان کو منور کیا ہوا ہے ،اے میرے پروردگار عزوجل!مجھے اس ڈاکو کے شر سے محفو ظ رکھ ، اے مدد کرنے والے !میری مدد فرما ، اے مدد کرنے والے! میری مدد فرما، اے مدد کرنے والے !میری مدد فرما ۔''
اس صحابی نے بڑی آہ وزاری کے ساتھ ان کلمات کے ذریعے تین مرتبہ بارگاہِ خداوندی عزوجل میں دعا کی ، ابھی وہ دعا سے فارغ بھی نہ ہو نے پائے تھے کہ ایک جانب سے ایک شَہْسَوَارہاتھ میں نیزہ لئے نمودار ہوا اور اس ڈاکو کی طرف بڑھا، جب ڈاکو نے اسے دیکھا تو اس پر حملہ کرنا چاہا لیکن سوار نے نیز ے کے ایک ہی وار سے ڈاکو کا کام تمام کردیا ۔ پھر وہ سوار اُس صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور کہا: ''کھڑے ہوجائیے۔''
یہ سن کر وہ صحابی رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ورضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوئے اور اس سوار سے کہنے لگے:'' اے عظیم شخص! میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں! آج اس مصیبت کے دن تم نے میری مدد کی ہے ،تم کون ہو؟ '' سوارنے کہا: ''میں اللہ عزوجل کے فر شتوں میں سے ایک فرشتہ ہوں اور چوتھے آسمان سے ا ۤ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مدد کے لئے آیاہوں، جب آپ(رضی اللہ تعالیٰ عنہ)نے (ان پاکیزہ کلمات کے ساتھ) پہلی بار دعا کی توآسمان کے دروازوں کی آواز ہمیں سنائی دی ، پھر جب دوسری مرتبہ دعا کی تو ہم نے آسمان میں ایک چیخ وپکار سنی، پھر جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تیسری مرتبہ یہی دعا کی تو ہمیں یہ آواز سنائی دی:'' یہ ایک پریشان حال کی دعا ہے ۔لہٰذا میں نے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں عرض کی: ''یا ربَّ العالَمین عزوجل !مجھے اس مظلوم کی مدد کر نے اور اس ڈاکو کو قتل کرنے کی اجازت دے۔'' چنانچہ میں اللہ عزوجل کے حکم سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مدد کرنے آیا ہوں۔''
(اللہ ل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)
ٍ حضرت سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :'' جو شخص وضو کر ے اور چار رکعت نماز پڑھے پھر ان مذکورہ بالا کلمات کے ساتھ اللہ ربُّ العزَّت عزوجل سے دعا کرے تو اس کی دعا قبول کی جاتی ہے،چاہے دعا کرنے والا حالتِ کرب میں دعا کرے یا اس کے علاوہ (یعنی جب بھی دعا کرے اس کی دعا قبول کی جاتی ہے)۔''"
(موسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب مجابی الدعوۃ، الحدیث:۲۳،ج۲،ص۳۲۱۔ ۳۲۳)
یاالٰہی جو دعائے نیک میں تجھ سے کروں قدسیوں کے لب سے آمیں رَبَّنَا کا ساتھ ہو
" حضرت سیدنا ابوہَیثَم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم حضرت سیدنا عبداللہ بن غالب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اپنے چند رُفقاء کے ساتھ بحری سفر پر روانہ ہوا،ہماری کشتی سمندر کے سینہ کو چیرتی ہوئی جانبِ منزل چلی جا رہی تھی۔ اچانک ہماری کشتی ایک جزیرہ کے قریب جا پہنچی، ہم نے وہاں کشتی روکی تو وہ ایک ویران اور بڑی ہولناک جگہ تھی وہاں ہمیں کوئی شخص نظر نہ آیا ۔ میں نے ارادہ کیا کہ میں اس جگہ کو ضرور دیکھوں گا شایدیہاں کوئی عجیب وغریب شےئ نظر آئے۔چنانچہ میں کشتی سے اُتر ا اور اکیلا ہی اس پرُ اَسرارجزیرے کی طرف چل دیا، وہاں کامنظر بڑاہولناک تھا، مجھے نہ تو وہاں کوئی انسان نظر آیا نہ ہی کوئی گھر و غیرہ۔ پھرکچھ دور ایک گھر نظر آیا ، میں نے جان لیا کہ اس میں ضرور کوئی نہ کوئی رہتا ہوگا اور یہاں کوئی عجیب وغریب بات ضرو ر ہوگی کیونکہ اس ویرانے میں کسی گھر کا موجود ہونا ایک عجیب سی بات تھی۔
میں نے تہیہ کر لیا کہ اس گھر کے راز کو ضرور جانوں گا ، چنانچہ میں وہاں سے واپس اپنے دو ستوں کے پاس آیا او ران سے کہا:'' مجھے تم سے ایک کام ہے، اگر تم اسے پورا کردو تو احسان ہوگا ۔''انہوں نے پوچھا :'' بتائیے کیا کام ہے ؟'' میں نے جواب دیا: ''آج رات ہم اسی جزیرہ میں قیام کریں گے اور صبح سفر پر روانہ ہوں گے۔'' میرے رفقاء میری اس خواہش پر وہیں رات بسر کرنے کے لئے تیار ہوگئے ۔ میں پھریہ سوچتے ہوئے اسی گھر کی طر ف چل دیا کہ جب رات ہوگی تو اس گھر میں رہنے والے ضرور یہاں آئیں گے اورمیں ان سے ملاقات کرلو ں گا ۔چنانچہ میں وہیں ٹھہر گیا پھر یہ سوچ کر میں اس گھر میں داخل ہوگیا کہ آخر دیکھوں تو سہی کہ اس میں کیا ہے ۔ میں نے اس چھوٹے سے گھر کو بالکل خالی پایا، اس میں صرف ایک گھڑا تھا اور وہ بھی بالکل خالی اور ایک بڑا سا تھال تھا جس میں کچھ نہ تھا ، ان کے علاوہ اس گھر میں کوئی شے نہیں تھی۔ میں ایک جگہ چھپ کر بیٹھ گیا اور رات ہونے کا انتظار کرنے لگا، جب سورج غروب ہوگیا اور رات نے اپنے پَر پھیلادیئے تو مجھے اچانک ایک آہٹ سی محسوس ہوئی اور پہاڑ کی جانب سے ہلکی ہلکی آواز آنے لگی، میں محتا ط ہو کر بیٹھ گیا اور غور سے اس آواز کو سننے لگا۔ یہ کسی نوجوان کی آوازتھی جو اَللہُ اَکْبَرُ، سُبْحَانَ اللہِ ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عزّوجل کی صدائیں لگاتا ہوا اسی گھر کی طرف آرہاتھا۔کچھ دیر بعد ایک پُر کشش نورانی شکل وصورت والانوجوان اس گھر میں داخل ہوا ، اس نے آتے ہی نماز پڑھنا شرو ع کردی اور کافی دیر نماز میں مشغول رہا،نماز سے فراغت کے بعد وہ اس بر تن کی طرف بڑھا جو بالکل خالی تھا ۔ نوجوان نے اس بر تن سے کھانا شرو ع کردیا حالانکہ میں دیکھ چکا تھا کہ وہ بر تن باکل خالی تھا لیکن وہ نوجوان اسی برتن میں سے نہ جانے کیا کھارہا تھا؟ کچھ دیر بعد وہ اٹھا اور گھڑے کی طرف آیا اور ایسا لگا گویا کہ اس میں سے پانی پی رہا ہو حالانکہ میں نے دیکھا تھا کہ اس گھڑے میں پانی کا ایک قطرہ بھی نہ تھا ، میں"
"بڑا حیران ہوا اور چھپ کر بیٹھا رہا ۔
اس نوجوان نے کھانے پینے کے بعد اللہ عزوجل کا شکر ادا کیا اور دو بارہ نماز میں مشغول ہوگیا اور فجر تک نماز پڑھتا رہا، فجر کے وقت مجھ سے رہانہ گیا پس میں اس کے سامنے ظاہر ہوگیا۔ اس کی اِقتداء میں نماز فجر ادا کی ،نماز کے بعد وہ نوجوان مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا:'' اے اللہ عزوجل کے بندے !تُو کون ہے اور میری اجازت کے بغیر میرے گھر میں کیسے داخل ہوگیا؟'' میں نے کہا :''اے مردِ صالح! اللہ عزوجل آپ پر رحم فرمائے میں کسی برُی نیت سے یہاں نہیں آیا بلکہ میں تو بھلائی ہی کے لئے یہاں آیا ہوں، مجھے چند باتوں سے بڑی حیرانی ہوئی ہے ، میں نے آپ کے آنے سے پہلے گھڑے کو دیکھا تھا تو اس میں پانی بالکل نہ تھا لیکن آپ نے اسی میں سے پانی پیا ، اسی طر ح جس بر تن سے آپ نے کھانا کھایا وہ تو باکل خالی تھا پھر آپ نے کیسے کھانا کھایا؟میرے لئے یہ باتیں بڑی حیران کن ہیں ۔'' یہ سن کر وہ نوجوان کہنے لگا : ''تم نے بالکل ٹھیک کہا کہ وہ بر تن اور گھڑا خالی تھا لیکن میں نے جو کھانا اس برتن سے کھایا وہ ایسا کھانا نہیں جسے لوگ طلب کرتے ہیں ،اسی طرح میں نے جو پانی پیا وہ ایسا نہیں جیسا لوگ پیتے ہیں ۔''
یہ سن کرمیں نے اس نوجوان سے کہا :'' اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو تازہ مچھلی لاکر دو ں''؟ نوجوان کہنے لگا:'' کیاتم مجھے (دنیوی)غذ ا کی دعوت دے رہے ہو؟'' میں نے کہا:'' اے نوجوان! اس اُمت کو یہ حکم نہیں دیا گیاجیسے آپ کر رہے ہیں بلکہ ہمیں تو یہ حکم دیا گیا کہ جماعت کے ساتھ رہیں ،مساجد میں حاضر ہوں ،باجماعت نماز کی فضیلت حاصل کریں، مریضو ں کی عیادت کریں، مسلمانوں کے جنازوں میں حاضر ہوں اور مخلوقِ خدا عزوجل کی خیر خواہی کریں، لیکن آپ نے یہ سب کام چھوڑکر گوشہ نشینی اختیار کرلی ہے اور ان سعادتوں سے محروم ہوگئے ہیں۔''یہ سن کر وہ نوجوان کہنے لگا :'' آپ نے جوباتیں ذکر کیں اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عزوجل مجھے وہ تمام سعادتیں حاصل ہیں ، یہاں قریب ہی ایک بستی ہے جہاں جاکرمیں عوام النا س کی خیر خواہی بھی کرتا ہوں اورآپ کے ذکر کردہ باقی اُمور بھی سرانجام دیتا ہوں۔'' اتنا کہنے کے بعد اس نوجوان نے ایک پرچہ پر کچھ لکھا اور پھر زمین پر لیٹ گیا میں سمجھا کہ شاید اس کا اِنتقال ہوگیا ،قریب جا کر دیکھا تو وہ واقعی خالقِ حقیقی عزوجل سے جا ملے تھے ۔جب ان کی قبر کھودی گئی تواس سے مُشک کی خوشبوآرہی تھی ۔
(اللہ ل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدنا محمد بن محمد صوفی علیہ رحمۃاللہ القوی فرماتے ہیں کہ میں ایک بار موسمِ سرما کی بہت سرد رات کسی کام سے ''حلوان'' کی پہاڑیوں میں گیا ۔سردی اپنی اِنتہاء کو پہنچ چکی تھی ،میں نے اپنے جسم پر دوہر الباس پہنا ہوا تھا اور ایک موٹا کمبل بھی اوڑ ھ رکھا تھا لیکن پھر بھی سردی کی وجہ سے مجھے بہت پریشانی ہو رہی تھی۔ اچانک میری نظر ایک نوجوان پر پڑی جس کے جسم پر صرف دو چادریں تھیں جن سے صرف ستر پوشی ہو سکتی تھی، اس کے علاوہ اس کے پاس کوئی کپڑا نہیں تھا۔وہ بالکل مطمئن نظر آرہا تھا گویا سردی کی وجہ سے اسے کوئی پریشانی ہی نہیں ۔ میں اس کی جانب بڑھا لیکن وہ مجھ سے دُور ہٹ کر چلنے لگا۔میں پھر اس کے قریب گیا لیکن وہ مجھ سے دور ہوگیا ، پھر میں جلدی جلدی چلا اور اس کے پاس پہنچ گیا اورپوچھا: ''تم مجھ سے دور کیوں بھاگ رہے ہو؟'' کیا میں کو ئی درندہ ہوں جو تم مجھ سے دوری چاہ رہے ہو؟'' یہ سن کر اس نوجوان نے کہا: ''اگر ستّر(70) درندے میرے سامنے آجائیں تو مجھے ان سے اِتنی پریشانی نہیں ہوگی جتنی تمہاری ملاقات سے ہو رہی ہے۔''
میں نے اس سے کہا :'' اتنی سخت سردی میں تم نے صرف دو معمولی چادریں جسم پر لپیٹی ہوئی ہیں اور تمہیں سردی کا احساس تک نہیں ہورہا اور میری حالت یہ ہے کہ سردی سے حفاظت کے لئے کئی کپڑے موجود ہیں پھر بھی سردی محسوس کر رہا ہوں، تم مجھے کوئی نصیحت کرو تاکہ میں اپنے رب عزوجل سے صلح کر لو ں اور میرے دل میں اس کی محبت راسخ ہوجائے ۔'' وہ نوجوان کہنے لگا :''کیا تم نصیحت آموز باتیں سننا چاہتے ہو؟'' میں نے کہا :''ہاں۔'' پھر اس نوجوان نے یہ چاراشعار پڑھے:"
"إذَا مَا عَدَتِ النَّفْسُ عَنِ الْحَقِّ زَجَرْنَاھَا
وَإنْ مَالَتْ إلَی الدُّنْیَا عَنِ الْاُخْرٰی مَنَعْنَاھَا
تُخَادِعُنَا وَنَخْدَعُھَا وَبِا لْصَّبْرِ غَلَبْنَاھَا
لَھَا خَوْفٌ مِّنَ الْفَقْر وَفِیْ الْفَقْرِ اَنَخْنَاھَا"
" ترجمہ:(۱)۔۔۔۔۔۔جب کبھی نفس اللہ عزوجل کے معاملہ میں کوتا ہی کرتاہے تو ہم اسے زجر وتو بیخ کرتے ہیں ۔
(۲)۔۔۔۔۔۔جب اُخروی نعمتو ں کو چھوڑ کر دنیا کی طر ف مائل ہوتا ہے تو ہم اسے منع کردیتے ہیں ۔
(۳)۔۔۔۔۔۔نفس ہمیں دھوکا دینا چاہتا ہے تو ہم بھی اس کا مقابلہ کرتے ہیں اور صبر کی وجہ سے اس پر غالب آجاتے ہیں۔
(۴)۔۔۔۔۔۔نفس فقر وفاقہ سے خوف زدہ ہوتا ہے جبکہ ہم فقر و فاقہ کی وجہ سے خوش ہوتے ہیں ۔
اس کے بعد وہ نوجوان میری نظرو ں سے اوجھل ہوگیا۔ تین یا چار دن کے بعدجب میری واپسی ہوئی تو میں نے حضرت سیدنا ابراہیم بن شیبان علیہ رحمۃاللہ المنّان سے ملاقات کی اور اس نوجوان کی باتوں کی وجہ سے میری یہ حالت تھی کہ میں نے"
"کمبل اُتار پھینکا تھا اور صر ف سادہ لباس پہنا ہواتھا حالانکہ سخت سردی تھی جب میں ابراہیم بن شیبانعلیہ رحمۃ الرحمن کے پاس پہنچا توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مجھ سے پوچھا: ''سفر میں تمہاری ملاقات کس سے ہوئی ۔''میں نے اس نوجوان کا واقعہ بتایا توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرمانے لگے: ''وہ ابو محمد بسطامی علیہ رحمۃ اللہ الوالی تھے اور اس دن وہ مجھ سے ملاقات کر کے گئے تھے، جو اشعار انہوں نے تمہیں سنائے وہ ہمیں بھی سناؤ ۔'' میں نے وہ اَشعار سنانا شروع کئے تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے صاحبزادے سے فرمایا: '' یہ اَشعار بہت نصیحت آموز ہیں، انہیں لکھ لو۔'' چنانچہ انہوں نے وہ اشعار قلم بند کرلئے۔
(اللہ ل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم ایک انصاری نوجوان کی عیادت کے لئے گئے، وہ اپنی بوڑھی ماں کا اِکلوتا بیٹاتھا اور وہ مرض الموت میں مبتلا تھا ، عیادت کے بعد ہم واپس ہونے والے ہی تھے کہ اس کی رو ح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔ہم وہیں ٹھہرگئے، اس کی آنکھیں بند کیں اور اس پر چادر ڈال دی۔اس نوجوان کی بوڑھی ماں ہمارے قریب ہی کھڑی تھی، ہم نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا :'' یہ جو مصیبت تجھ پر آن پڑی ہے اللہ عزوجل کی رضا کی خاطر اس پر صبر کر ۔'' یہ سن کر وہ بڑھیا کہنے لگی:'' کیا ہوا، کیا میرا بیٹا مرگیا ؟'' ہم نے کہا :''جی ہاں ۔''اس نے کہا:'' کیا تم سچ کہہ رہے ہو؟''ہم نے کہا:''ہم سچ کہہ رہے ہیں،واقعی تمہارے بیٹے کا اِنتقال ہوچکا ہے۔''یہ سن کر اس بوڑھی عورت نے دعا کے لئے اپنے ہاتھ آسمان کی طر ف بلند کئے اور بڑی آہ وزاری سے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں اس طر ح عرض گزار ہوئی :
'' اے میرے پروردگار عزوجل !میں تجھ پر ایمان لائی اور تیرے محبوب رسو ل صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی طرف میں نے ہجرت کی ،مجھے تیری ذات سے اُمیدِ واثق ہے کہ تُو ہر مصیبت میں میری مدد کریگا۔اے پروردگارعزوجل !آج کے دن مجھ پر (میرے بیٹے کی جدائی کی) مصیبت کا بو جھ نہ ڈال ۔''حضرت سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں، ابھی وہ بڑھیااپنی دعا سے فارغ بھی نہ ہونے پائی تھی کہ اس کے مردہ بیٹے کے منہ سے کپڑا ہٹ گیا اور وہ (مسکراتا ہوا) اٹھ بیٹھا اور پھر ہم سب نے مل کر کھانا کھایا۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)
؎ ہاتھ اُٹھتے ہی بر آئے ہر ُمدَّعا وہ دعاؤں میں مولیٰ اثر چاہے"
" حضرت سیدنا ابو عتبہ الخوّاص علیہ رحمۃاللہ الرزّاق فرماتے ہیں:میری ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی جو ان عظیم ہستیوں میں سے تھا جنہوں نے اپنے آپ کو عبادت الٰہی عزوجل کے لئے وقف کررکھا تھا اور لوگو ں کی نظروں سے اوجھل ہوکر پہاڑوں میں عبادت کیا کرتے تھے ۔ اس شخص نے مجھے بتایا: ''دنیا میں مجھے اولیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ اور ابدالوں سے ملاقات کرنے اور ان کی صحبت سے برکتیں لوٹنے سے زیادہ کوئی چیز مرغوب ومحبوب نہ تھی،میں بزرگوں کی تلاش میں جگہ جگہ پھرتا، جنگلوں اور پہاڑوں میں جاتا اس اُمید پر کہ شاید کسی اللہ عزوجل کے ولی سے ملاقات ہوجائے ۔''
ایک مرتبہ اسی طرح گھومتا پھر تامیں ايک ایسے ساحل پرپہنچ گیا جہاں بالکل آبادی نہ تھی اور نہ ہی اس ساحل کی طر ف کشتیاں آتی تھیں، وہ ایک ویران جگہ تھی، اچانک میری نظر ایک شخص پر پڑی جو پہاڑ کی اوٹ سے آرہا تھا، جب اس نے مجھے دیکھا تو ایک طر ف دوڑ لگادی ۔میں بھی اس کی طرف دوڑا کہ شاید یہ کوئی اللہ عزوجل کا ولی ہے ،میں اس سے ملاقات ضرور کروں گا، میں اس کے پیچھے پیچھے بھاگ رہا تھا کہ اچانک اس کا پاؤں پھسلا اور وہ گرپڑا ، میں اس کے قریب پہنچ گیا اور اس سے پوچھا: ''اے اللہ عزوجلکے بندے !تُو مجھ سے خوفزدہ ہو کر کیوں بھاگ رہا ہے ؟''
وہ خاموش رہا اور مجھ سے کوئی بات نہ کی ۔'' میں نے اس سے کہا:''میں تو تجھ سے نصیحت آموز اور خیر کی باتیں سنناچاہتا ہوں، مجھے کچھ خیر وبھلائی کی باتیں بتاؤ۔''یہ سن کر وہ شخص کہنے لگا: ''تم جہاں بھی رہو حق کو اپنے اوپر لازم کر لو،اللہ عزوجل کی قسم !میں اپنی ایسی اچھا ئیاں نہیں پاتا جن کی مثل تمہیں دعوت دوں کہ تم بھی ایسی ہی اچھائیاں کرو۔'' پھر اس شخص نے چیخ ماری اور زمین پر گرپڑا۔جب اسے دیکھاتوپتاچلاکہ اس کی رو ح جسم سے جداہو چکی ہے۔
میں بہت پریشان ہوا کہ اس ویرانے میں اس کی تجہیز و تکفین کیسے کروں گا، یہاں میری مددکوکو ن آئے گا، یہاں تو دور دور تک آبادی کانام ونشان نہیں۔ میں اسی شش وپنج میں رہا یہاں تک کہ رات نے اپنے پر پھیلانا شروع کر دیئے اورہرطرف تاریکی چھاگئی۔ میں ایک طر ف جاکر بیٹھ گیا تھوڑی ہی دیر بعد مجھ پر نیند کا غلبہ ہوگیا ۔ میں نے خواب دیکھاکہ آسمان سے چار لشکر اس پہاڑ پر اُتر ے اور انہوں نے اس شخص کے لئے قبر کھودی ، پھر اسے کفن پہنایااور نمازِ جنازہ پڑھ کر اسے دفن کردیا ۔
اچانک میری آنکھ کھل گئی اور میں خواب سے بہت خوفزدہ تھا۔ باقی رات میں نے جاگ کر گزاری،نیند میری آنکھوں سے بہت دور تھی ۔جب صبح ہوئی تو میں اسی جگہ پہنچا جہاں اس شخص کو مردہ حالت میں چھوڑا تھا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہاں اس کی لاش موجود نہ تھی۔میں نے خوب تلاش کیا لیکن اس کی لاش نہ مل سکی پھر مجھے وہاں سے کچھ فاصلہ پر ایک تازہ قبر نظر آئی، میں"
"سمجھ گیا کہ یہ وہی قبر ہے جسے میں نے خواب میں دیکھا تھا۔
؎محبت میں اپنی گما یا الٰہی عزوجل نہ پاؤں میں اپنا پتا یا الٰہی عزوجل
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدنا یوسف بن الحسن رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہما فرماتے ہیں کہ جب حضرت سیدنا ذوالنون مصریعلیہ رحمۃاللہ القوی کی صحبت میں رہتے ہوئے مجھے کافی عرصہ گزر گیا اور میں ان سے بہت زیادہ مانوس ہوگیا۔
توایک مرتبہ میں نے ہمت کر کے ان سے پوچھا :'' حضور! آپ کو سب سے پہلے کون ساعجیب وغریب واقعہ پیش آیا ؟'' یہ سن کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جواب دیا: ''میں ایامِ جوانی میں خوب لہوولعب کی محفلوں میں مگن رہتا اور دنیا کی رنگینیوں نے میری آنکھوں پر غفلت کاپردہ ڈال رکھاتھاپھر اللہ عزوجل نے مجھے تو بہ کی تو فیق عطا فرمائی اور میں تمام معاملات چھوڑ کر حج کے ارادے سے ساحلِ سمند رپر آیا، وہاں میں نے ایک بحری جہاز پایا جس میں مصری تا جر سوار تھے، میں بھی ان کے ساتھ جاملا۔
اس جہازمیں ہمارے سا تھ ایک نہایت حسین وجمیل نوجوان بھی تھا جس کی پیشانی سے سجدوں کا نور جھلک رہا تھا اور اس کے منور چہرے نے گویا ساری فضا کو نوربار کیاہوا تھا۔جب ہمارا جہاز کافی فاصلہ طے کر چکا اور وسطِ سمندر میں آگیا تو جہاز کے مالک کی رقم سے بھری تھیلی گم ہوگئی ۔اس نے پُوچھ گچھ کی لیکن تھیلی نہ ملی، لہٰذا اس نے سب سواروں کو جمع کیا اور سب کی تلاشی لینا شرو ع کردی لیکن تھیلی کسی کے پاس بھی نہ ملی بالآخر جب تلاشی لینے والا اس نوجوان کے پاس آیا تواس نوجوان نے اچانک جہاز سے سمندر میں چھلانگ لگادی ۔یہ دیکھ کر میں حیرت میں ڈوب گیا کہ سمندرکی موجوں نے اسے نہ ڈبویابلکہ وہ اس کے لئے تخت کی طر ح ہو گئیں اور وہ نوجوان لہروں پر اس طرح بیٹھ گیا جس طر ح کوئی تخت پر بیٹھتا ہے، ہم سب مسافر بڑی حیرانگی سے اسے دیکھ رہے تھے ۔ پھر اس نوجوان نے کہا:
''اے میرے پاک پروردگار عزوجل !ان لوگو ں نے مجھ پر چوری کی تہمت لگائی ہے ۔ اے میرے دل کے محبوبعزو جل! میں تجھے قسم دیتا ہوں کہ تُو سمندر کے تمام جانوروں کو حکم فرماکہ وہ اپنے اپنے مونہوں میں ہیرے جواہرات لے کر ظاہر ہوجائیں ۔''"
حضرت سیدنا ذوالنون مصری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ ابھی اس عظیم نوجوان کا کلام مکمل بھی نہ ہونے پایا تھا کہ جہاز کے چاروں جانب سمندری جانور ظاہر ہوگئے، سب کے مونہوں میں اتنے زیادہ ہیرے جواہرات تھے کہ ان کی چمک سے سارا سمندر رو شن ہوگیااور ہماری آنکھیں چندھیانے لگیں پھر اس نوجوان نے پانی کی موجوں سے چھلانگ لگائی اور لہروں پر چلتا ہوا ہماری نگاہوں سے اوجھل ہوگیا، وہ عظیم نوجوان یہ آیت تلاوت کرتاجارہا تھا :
اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیۡنُ
"ترجمہ کنزالایمان:ہم تجھی کوپوجیں اور تجھی سے مدد چاہیں ۔(پ1،الفاتحۃ:4)
حضرت سیدنا ذوالنون مصری علیہ رحمۃ اللہ الولی فرماتے ہیں : یہی وہ پہلا واقعہ ہے جس کی وجہ سے مجھے سیرو سیاحت کا شوق ہواکیونکہ سیر وسیاحت میں اکثر اولیاء کرام رحمہم اللہ المبین سے ملاقات ہوتی ہے اور حضور نبی کریم ،رء ُ وف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عظیم ہے :
''میر ی اُمت میں ہمیشہ 30مرد ایسے رہیں گے جن کے دل حضرت ابراہیم خلیل اللہ(علیہ السلام) کے دل پر ہوں گے جب ان میں سے کوئی ایک مرجائے گا تو اللہ عزوجل اس کی جگہ دوسرا بدل دے گا۔''"
(المسند للامام احمد بن حنبل، حدیث عبادۃ بن الصامت، الحدیث:۲۲۸۱۵،ج۸،ص۴۱۰۔۴۱۱)
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)
" حضرت سیدنا امام اوزاعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں : مجھے ایک بزرگ نے یہ واقعہ سنایا کہ میں اولیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کی تلاش میں ہر وقت سر گرداں رہتا اور ان کی قیام گاہوں کو ڈھونڈنے کے لئے صحراؤں ، پہاڑوں اور جنگلوں میں پھرتا تا کہ ان کی صحبت سے فیض یاب ہوسکوں ۔
ایک مرتبہ اسی مقصد کے لئے مصر کی طر ف روانہ ہوا ، جب میں مصر کے قریب پہنچاتوویران سی جگہ میں ایک خیمہ دیکھا،جس میں ایک ایسا شخص موجود تھاجس کے ہاتھ، پاؤں اور آنکھیں(جذام کی ) بیماری سے ضائع ہوچکی تھیں لیکن اس حالت میں بھی وہ مردِعظیم ان الفاظ کے ساتھ اپنے رب عزوجل کی حمد وثناء کررہا تھا :"
" ''اے میرے پروردگار عزوجل !میں تیری وہ حمد کرتا ہوں جو تیری تمام مخلوق کی حمد کے برابر ہو۔ اے میرے پروردگار عزجل! بے شک تُو تمام مخلوق کا خالق ہے اور تو سب پر فضیلت رکھتاہے، میں اس انعام پر تیری حمد کرتا ہوں کہ تُو نے مجھے اپنی مخلوق میں کئی لوگوں سے افضل بنایا۔''
وہ بزرگ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ جب میں نے اس شخص کی یہ حالت دیکھی تو میں نے کہا :''خدا عزوجل کی قسم! میں اس شخص سے یہ ضرور پوچھوں گا کہ کیا حمد کے یہ پاکیزہ کلمات تمہیں سکھائے گئے ہیں یا تمہیں الہام ہوئے ہیں؟'' چنانچہ اسی ارادے سے میں اس کے پاس گیا اور اسے سلام کیا ، اس نے میرے سلام کا جواب دیا۔ میں نے کہا:'' اے مرد ِصالح !میں تم سے ایک چیز کے متعلق سوال کرنا چاہتا ہوں کیا تم مجھے جواب دو گے ؟ ''وہ کہنے لگا: ''اگر مجھے معلوم ہوا تو ان شاء اللہ عزوجل ضرور جواب دو ں گا۔''میں نے کہا:''وہ کونسی نعمت ہے جس پر تُم اللہ عزوجل کی حمد کررہے ہواور وہ کونسی فضیلت ہے جس پر تُم شکر ادا کر رہے ہو؟ ''(حالانکہ تمہارے ہاتھ، پاؤں اور آنکھیں وغیرہ سب ضائع ہوچکی ہیں پھربھی تُم کس نعمت پر حمدبجا لارہے ہو ۔)
وہ شخص کہنے لگا :'' کیا تُو دیکھتا نہیں کہ میرے رب عزوجل نے میرے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟'' میں نے کہا :''کیوں نہیں، میں سب دیکھ چکاہوں ۔'' پھر وہ کہنے لگا :'' دیکھو!اگر اللہ عزوجل چاہتا تو مجھ پر آسمان سے آگ بر سادیتا جو مجھے جلاکر راکھ بنا دیتی، اگر وہ پر وردگار عزوجل چاہتا تو پہاڑوں کو حکم دیتا اور وہ مجھے تباہ وبر باد کر ڈالتے ، اگر اللہ عزوجل چاہتا تو سمندر کو حکم فرماتا جو مجھے غرق کردیتا یا پھر زمین کو حکم فرماتا تو وہ مجھے اپنے اندر دھنسا دیتی لیکن دیکھو، اللہ عزوجل نے مجھے ان تمام مصیبتوں سے محفوظ رکھا پھر میں اپنے رب عزوجل کا شکر کیوں نہ ادا کروں، اس کی حمد کیوں نہ کروں اوراس پاک پرور دگار عزوجل سے محبت کیوں نہ کروں؟''
پھر مجھ سے کہنے لگا :'' مجھے تم سے ایک کام ہے، اگر کر دو گے تو تمہارا احسان ہو گا،چنانچہ وہ کہنے لگا: ''میرا ایک بیٹا ہے جو نماز کے اوقات میں آتا ہے اور میری ضروریات پوری کرتا ہے اور اسی طرح افطاری کے وقت بھی آتا ہے لیکن کل سے وہ میرے پاس نہیںآیا، اگر تم اس کے بارے میں معلومات فراہم کردو تو تمہارا احسان ہوگا ۔'' میں نے کہا :''میں تمہارے بیٹے کو ضرور تلاش کرو ں گا اور پھر میں یہ سوچتے ہوئے وہاں سے چل پڑا کہ اگر میں نے اس مردِ صالح کی ضرورت پوری کردی تو شاید اسی نیکی کی وجہ سے میری مغفرت ہوجائے ۔'' چنانچہ میں اس کے بیٹے کی تلاش میں ایک طر ف چل دیا ، چلتے چلتے جب ریت کے دو ٹیلوں کے درمیان پہنچا تو وہاں کا منظر دیکھ کر میں ٹھٹھک کر ُرک گیا۔میں نے دیکھا کہ ایک درندہ ایک لڑکے کو چیر پھاڑ کر اس کا گو شت کھارہاہے ،میں سمجھ گیا کہ یہ اسی شخص کا بیٹا ہے، مجھے اس کی موت پر بہت افسوس ہوا اور میں نے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہا اور واپس اسی شخص کے خیمے کی طر ف چل دیا ۔
میں یہ سوچ رہا تھا کہ اگر میں نے اس پر یشان حال شخص کو اس کے بیٹے کی موت کی خبر فوراً ہی سنادی تووہ یہ خبر سن کر کہیں"
"مر ہی نہ جائے، آخرکس طرح اسے یہ غمناک خبر سناؤں کہ اسے صبر نصیب ہوجائے چنانچہ میں اس شخص کے پاس پہنچا، اسے سلام کیا اس نے جواب دیا ، پھر میں نے اس سے پوچھا:'' میں تم سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کیا تم جواب دو گے ؟'' یہ سن کرو ہ کہنے لگا کہ اگر مجھے معلوم ہوا تو ان شاء اللہ عزوجل ضرور جواب دو ں گا۔'' میں نے کہا :''تم یہ بتاؤ کہ اللہ عزوجل کے ہاں حضرت سیدنا ایوب علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا مقام ومرتبہ زیادہ ہے یا آپ کا ؟'' یہ سن کر وہ کہنے لگا : ''یقینا حضرت سیدنا ایوب علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا مرتبہ ومقام ہی زیادہ ہے ۔'' پھر میں نے کہا :'' جب آپ علیہ السلام کو مصیبتیں پہنچیں تو آپ علیہ السلام نے ان بڑ ی بڑی مصیبتوں پر صبر کیا یا نہیں؟''وہ کہنے لگا:'' حضرت سیدنا ایوب علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے کما حقُّہ، مصیبتوں پر صبر کیا۔ ''پھر میں نے کہا :'' ان کو تو اس قدر بیماری اور مصیبتیں پہنچیں کہ جو لوگ ان سے بہت زیادہ محبت کیا کرتے تھے انہوں نے بھی آپ علیہ السلام سے دوری اختیار کرلی اور راہ چلنے والے آپ علیہ السلام سے اعراض کرتے ہوئے چلتے تھے ۔کیا آپ علیہ السلام نے ایسی حالت میں صبر سے کام لیا یا نہیں؟'' وہ شخص کہنے لگا:'' آپ علیہ السلام نے ایسی حالت میں بھی صبر وشکر سے کام لیا اور صبر وشکر کا حق ادا کیا۔'' یہ سن کر میں نے اس شخص سے کہا: ''پھر تم بھی صبر سے کام لو، سنو!اپنے جس بیٹے کاتم نے تذکرہ کیا تھا اس کو درندہ کھا گیا ہے۔''
یہ سن کر اس شخص نے کہا: ''تمام تعریفیں اللہ عزوجل کے لئے ہیں جس نے میرے دل میں دنیا کی حسرت ڈالی۔''پھر وہ شخص رو نے لگا اور رو تے روتے اس نے جان دے دی۔ میں نے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَکہااو رسوچنے لگا کہ میں اس جنگل بیابان میں اکیلے اس کی تجہیز وتکفین کیسے کرو ں گا، یہاں اس ویرانے میں میری مدد کو کون آئے گا ۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک ایک سمت مجھے دس بارہ سواروں کا قافلہ نظر آیا۔ میں نے انہیں اشارے سے اپنی طر ف بلایا تو وہ میرے پاس آئے اور مجھ سے پوچھا:'' تم کون ہو اور یہ مردہ شخص کون ہے؟'' میں نے انہیں سارا واقعہ سنایا تو وہ وہیں رُک گئے اور اس شخص کو سمندر کے پانی سے غسل دیااور اسے وہ کفن پہنایا جو ان کے پاس تھا پھر مجھے اس کی نماز جنازہ پڑھانے کو کہا تو میں نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی اور انہوں نے میری اِقتداء میں نمازِ جنازہ ادا کی۔
پھر ہم نے اس عظیم شخص کو اسی خیمہ میں دفن کر دیا۔ ان نورانی چہروں والے بزرگو ں کا قافلہ ایک طر ف روانہ ہوگیا، میں وہیں اکیلا رہ گیا ،رات ہوچکی تھی لیکن میرا وہاں سے جانے کو دل نہیں چاہ رہا تھا ،مجھے اس صابر وشاکر انسان سے محبت ہوگئی تھی، میں اس کی قبر کے پاس ہی بیٹھ گیا ، کچھ دیر بعد مجھ پر نیند کاغلبہ ہوا تو میں نے خواب میں ایک نورانی منظر دیکھا کہ میں اور وہ شخص ایک سبز قبے میں موجود ہیں او روہ سبز لباس زیبِ تن کئے کھڑے ہوکر قرآنِ حکیم کی تلاوت کر رہا ہے ۔ میں نے اس سے پوچھا: ''کیا تُومیراوہی دوست نہیں جس پر مصیبتیں ٹو ٹ پڑی تھیں اور وہ اِنتقال کرگیا تھا ؟'' اس نے مسکراتے ہوئے کہا : ''ہاں!میں"
"وہی ہوں ۔''پھر میں نے پوچھا:'' تمہیں یہ عظیم الشان مرتبہ کیسے ملااورتمہارے ساتھ کیا معاملہ پیش آیا؟ ''یہ سن کر وہ کہنے لگا: ''اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ!مجھے میرے رب عزوجل نے ان لوگو ں کے ساتھ جنت میں مقام عطا فرمایا ہے جو مصیبتوں پر صبر کرتے ہیں اور جب انہیں کوئی خوشی پہنچتی ہے تو شکر ادا کرتے ہیں ۔''
حضرت سیدنا امام اوزاعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: '' میں نے جب سے اس بزرگ سے یہ واقعہ سنا ہے تب سے میں اہل مصیبت سے بہت زیادہ محبت کرنے لگا ہوں۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدنا زید بن اسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: میرے والد نے بتایا کہ ایک مرتبہ حضرت سیدنا عمر بن خطا ب رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگو ں کے درمیان جلوہ فرماتھے کہ اچانک ہمارے قریب سے ایک شخص گزرا جس نے اپنے بچے کو کندھوں پر بٹھا رکھا تھا۔ حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب ان باپ بیٹے کو دیکھا تو فرمایا : ''جتنی مشابہت ان دونوں میں پائی جارہی ہے میں نے آج تک ایسی مشابہت اور کسی میں نہیں دیکھی۔''یہ سن کر اس شخص نے عرض کی : ''اے امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ! میرے اس بچے کا واقعہ بہت عجیب وغریب ہے، اس کی ماں کے فوت ہونے کے بعد اس کی ولادت ہوئی ہے۔'' یہ سن کر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:'' پوراواقعہ بیان کرو۔'' وہ شخص عرض کرنے لگا:''اے امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ !میں جہاد کے لئے جانے لگا تو اس کی والدہ حاملہ تھی،میں نے جاتے وقت دعا کی :''اے اللہ عزوجل! میری زوجہ کے پیٹ میں جو حمل ہے میں اُسے تیرے حوالے کرتاہوں، تُوہی اس کی حفاظت فرمانا۔ ''
یہ دعا کر کے میں جہاد کے لئے روانہ ہوگیا جب میں واپس آیا تو مجھے بتایا گیا کہ میری زوجہ کا انتقال ہوگیا ہے ،مجھے بہت افسوس ہوا ۔ایک رات میں نے اپنے چچا زاد بھائی سے کہا :''مجھے میری بیوی کی قبر پر لے چلو۔'' چنا نچہ ہم جنت البقیع میں پہنچے اور اس نے میری بیوی کی قبر کی نشاندہی کی۔جب ہم وہاں پہنچے تو دیکھا کہ قبر سے روشنی کی کرنیں باہر آرہی ہیں۔میں نے"
"اپنے چچازاد بھائی سے کہا :'' یہ رو شنی کیسی ہے؟'' اس نے جواب دیا: ''اس قبر سے ہر رات اسی طر ح روشنی ظاہر ہوتی ہے ،نہ جانے اس میں کیا راز ہے؟'' جب میں نے یہ سنا تو ارادہ کیا کہ میں ضرور اس قبر کو کھود کر دیکھو ں گا ۔'' چنانچہ میں نے پھاؤڑا منگوایا ابھی قبر کھود نے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ قبر خود بخود کھل گئی۔ جب میں نے اس میں جھانکا تو اللہ عزوجل کی قدرت کا کرشمہ نظر آیا کہ یہ میرا بچہ اپنی ماں کی گو د میں بیٹھا کھیل رہا تھا جب میں قبر میں اُتر ا تو کسی ندادینے والے نے ندادی :'' تُو نے جو امانت اللہ عزوجل کے پا س رکھی تھی وہ تجھے واپس کی جاتی ہے ، جا! اپنے بچے کو لے جا، اگر تُواس کی ماں کو بھی اللہ عزوجل کے سپرد کر جاتا تو اسے بھی صحیح وسلامت پاتا ۔''پس میں نے اپنے بچے کو اٹھا یا اور قبر سے باہر نکالا جیسے ہی میں قبر سے باہر نکلا قبر پہلے کی طر ح دوبارہ بند ہوگئی۔
(میٹھے اسلامی بھائیو ! دیکھا آپ نے ! صحابی ئ رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم و رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا بیٹا اللہ عزوجل کے سپرد کیا تو اللہ عزوجل نے اسے قبر میں بھی زندہ رکھا۔ اے اللہ عزوجل !ہم بھی اپنا ایمان تیرے سپر د کرتے ہیں تو ہمارے ایمان کی حفاظت فرمانا اور ہمارا خاتمہ با لخیر فرمانا)
مسلماں ہے عطار ؔ تیری عطا سے ہو ایمان پر خاتمہ یا الٰہی عزوجل
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدنا نافع طاحی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:'' ایک مرتبہ میرا گزر حضرت سیدنا ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس سے ہو ا تو انہوں نے مجھ سے پوچھا :''تم کون ہو؟'' میں نے کہا:'' میں عراق کا رہنے والا ہوں، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:''کیا تم حضرت سیدنا عبداللہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جانتے ہو؟ ''میں نے کہا:''جی ہاں۔''آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا: ''حضرت سیدنا عبداللہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرے ساتھ پڑھا کرتے تھے اور میرے بہت گہرے دو ست تھے ،پھر انہوں نے حکومتی عہدہ طلب کیا اور بصرہ کے والی بن گئے، تم جب بصرہ پہنچو تو ان کے پاس جانا۔ جب وہ پوچھیں :'' کیا تمہیں کوئی حاجت ہے ؟'' تو کہنا: ''میں آپ سے تنہائی میں گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔''پھر جب وہ تنہائی میں تم سے ملاقات کریں توکہنا:'' میں حضرت سیدنا ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پیغام لے کر آیا ہوں، انہوں نے آپ کو سلام بھیجا ہے اور کہا ہے:''ہم کھجوریں کھاتے ہیں او رپانی پیتے ہیں ،زندگی ہماری بھی گزر رہی ہے اور تمہاری بھی گزر رہی ہے ۔''
حضرت سیدنا نافع طاحی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:'' جب میں حضرت سیدناعبداللہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس"
"حاضر ہوا اور انہوں نے مجھ سے پوچھا :'' کیا تمہیں مجھ سے کوئی کام ہے ؟'' میں نے کہا : ''میں علیٰحدگی میں گفتگو کرنا چاہتا ہوں، پھر میں نے کہا:''میں حضرت سیدنا ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پیغام لے کر آیا ہوں۔''جیسے ہی انہوں نے یہ سنا تو مجھے ایسا لگا جیسے وہ کانپ رہے ہوں، میں نے کہا؛انہوں نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سلام بھیجا ہے اور فرمایا ہے کہ'' ہم تو کھجوریں کھاکراور پانی پی کر گزارہ کر لیتے ہیں ، زندگی ہماری بھی گزرر ہی ہے اور تمہاری بھی۔''اتنا سننا تھاکہ حضرت سیدناعبداللہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا منہ چادر میں چھپایا اور اتنا روئے کہ چادر آنسوؤں سے تر ہوگئی۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدنا ابو سلیم الھذلی علیہ رحمۃاللہ الولی فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا عمربن عبدالعزیز علیہ رحمۃ اللہ القدیر نے جو آخری خطبہ دیا و ہ ان کلمات پر مشتمل تھا :تمام تعریفیں اللہ عز و جل کے لئے ہیں اور درود وسلام ہو نبی ئآخر الزماں حضرت سیدنامحمد مصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پر،
امَّا بعد: اے لوگو! اللہ تبارک وتعالیٰ نے تمہیں فضول پیدا نہیں فرمایااور نہ ہی تمہارے معاملات یونہی چھوڑ دیئے جائیں گے یعنی تمہارے اُمور نظر انداز نہیں کئے جائیں گے ، بے شک تمہارے لئے ایک دن مقرَّر ہے جس میں تمہارا حساب وکتاب ہو گا اور اس دن اللہ عزوجل تمہارے اعمال کا فیصلہ فرمائے گا، اس دن جو شخص اللہ عزوجل کی رحمت سے محروم رہا اور اس جنت کے حصول سے محروم رہا جس کی چوڑائی زمین وآسمان کے برابر ہے تو خدا عزوجل کی قسم !وہ شدید نقصان اورگھاٹے میں رہا جو تھوڑی چیزوں کو زیادہ کے بدلے خریدتا ہے اور باقی رہنے والی اُخروی نعمتوں کے بدلے فانی (دنیوی نعمتو ں ) کو خریدتا ہے ، اور امن کے بدلے خوف کو تر جیح دیتا ہے، کیا تمہیں یہ بات معلوم نہیں کہ تم جن کی اولاد ہو وہ اس دنیاسے جاچکے اور موت کا مزہ چکھ چکے اسی طرح عنقریب تم بھی اس دارِ فانی سے رخصت ہوجاؤ گے اور تمہاری جگہ تمہاری اولاد آجائے گی اور اسی طرح یہ سلسلہ چلتا رہے گا ، بالآخر سب کے سب اللہ عزوجل کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے، اس دنیا میں جس کی مدتِ حیات ختم ہوجاتی ہے وہ زمین کے گہرے گڑھے میں پہنچ جاتاہے اور تم لوگ اسے اپنے ہاتھوں سے قبر میں اُتارتے ہو اور وہ ایسی حالت میں قبر میں تنہا ہوتا ہے کہ نہ تو اس کے لئے بستر ہوتاہے نہ تکیہ، پھر تم اسے بے یارو مدد گار چھوڑ کر چلے آتے ہو، اس کے عزیز واقارب اس سے جدا ہوجاتے ہیں ،"
"اس کا مال ومتاع سب دنیاہی میں رہ جاتا ہے اور اس کامسکن مِٹی کی قبر ہوتی ہے ، اب وہ ہوگا اور اس کے اعمال ہوں گے اور وہ اپنے اچھے اعمال کا محتا ج ہوگا یعنی اسے اپنے کئے ہوئے اچھے اعمال کام آئیں گے باقی تمام دنیاوی معاملات سے اسے کوئی غرض نہ ہوگی جو دنیا وی چیزیں اس نے پیچھے چھوڑیں وہ اسے کچھ نفع نہ دیں گی ،پس اے لوگو ! اللہ عزوجل سے ڈرو اور موت سے پہلے موت کی تیاری کر لو،پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے عاجزی کرتے ہوئے فرمایا:'' خدا کی قسم! میں اپنے آپ کو تم سب سے زیادہ گناہگار سمجھتا ہوں۔''
اے لوگو! جب بھی مجھے یہ معلوم ہوا کہ تم میں سے کسی کو کوئی حاجت ہے تو میں نے اس کی حاجت پوری کر نے کی بھرپور کوشش کی، اسی طر ح جب بھی تمہیں کسی ایسی چیز کی ضرورت پڑی جو میرے پاس تھی اور میرے اختیار میں تھی تو میں نے اسے کبھی بھی تم سے نہیں روکااور میں نے اس بات کو پسند کیا کہ میں بھی تمہاری ہی طرح زندگی گزاروں اللہ عزوجل کی قسم !اگر میں حکومت وامارت کو ان باتوں کے علاوہ کسی اور غرض کے لئے استعمال کرتا اور حکومت کی وجہ سے دنیاوی عیش وعشرت چاہی ہو تی تو میری زبان اس بیان میں میرا ساتھ نہ دیتی جو میں نے تمہارے سامنے کیا کیونکہ وہ میری حالت سے واقف ہے کہ میں نے حکومت وامارت کو صرف اللہ عزوجل کی مخلوق کی خیر خواہی کے لئے ہی استعمال کیا اور قرآن کریم ہمارے درمیان موجود ہے جو ہمیں سچاقانون بتاتا،ہماری رہنمائی فرماتا، ہمیں اللہ عزوجل کی اطاعت کا حکم دیتا ہے اور اس کی نافرمانی سے روکتا ہے۔
حضرت سیدنا ابوسلیم الھذلی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں :'' اتنا خطبہ ارشاد فرمانے کے بعد آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی چادر اپنے منہ پر رکھی اور رونے لگے، روتے روتے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ہچکیاں بندھ گئیں اور آپ اتنا روئے کہ لوگوں نے بھی رونا شروع کر دیا اور یہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا آخری خطبہ تھا۔ ''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
ہزارو ں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ورپیدا
" حضرت سیدنا عبدالملک بن عمیر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہما فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت سیدناربعی بن خراش رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہما نے بتایا: ''ہم تین بھائی تھے اور ہم میں سب سے زیادہ عبادت گزار اور سب سے زیادہ روزے رکھنے والا ہمارا منجھلا (یعنی درمیانہ) بھائی تھا۔ ایک مرتبہ میں اپنے دونوں بھائیوں کو چھوڑ کر ایک جنگل کی طر ف نکل گیا، پھر جب میں واپس گھر پہنچا تو مجھے بتایا گیاکہ میرا وہی عبادت گزاربھائی مرض الموت میں مبتلا ہے ۔جب میں اس کے پاس پہنچا تو معلوم ہوا کہ ابھی کچھ دیر پہلے اس کا انتقال ہو چکا ہے۔ لوگوں نے اُسے ایک کپڑے میں لپیٹا ہوا تھا۔ میں اس کے لئے کفن لینے چلاگیا، جب کفن لے کر آیا تو یکایک میرے اس مردہ بھائی کے چہرے سے کپڑا ہٹ گیا۔ اس نے مجھے مسکراتے ہوئے سلام کیا۔ میں نے بڑی حیرانگی کے عالم میں جواب دیا اور اس سے پوچھا :'' اے میرے بھائی !کیا تو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوگیا ؟ ''اس نے کہا:''جی ہاں!الحمدللہ عزوجل میں دوبارہ زندہ ہوچکا ہوں،اور تم سے جدا ہونے کے بعد میں اپنے ربّ عزوجل کی بارگاہ میں حاضر ہوا ،میرا ربّ عزوجل مجھ سے بہت خوش ہے، اور وہ پاک پروردگارعزوجل مجھ سے ناراض نہیں۔ اس نے مجھے سبز رنگ کے ریشمی حُلِّے عطا فرمائے ، اور میں نے اپنا معاملہ تمہارے معاملے سے بہت آسان پایا لہٰذ اتم نیک اعمال کی طر ف خوب رغبت کرو او رسستی بالکل نہ کرو، اور (موت) سے بے خبرنہ رہو۔ دنیا سے رخصت ہونے کے بعدالحمد للہ عزوجل میری ملاقات ،میری حسرتوں کے محور حضور نبی کریم، رء ُوف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے ہوئی، انہوں نے کرم کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :'' جب تک تم نہیں آؤ گے میں تمہاری (قبر ) سے نہیں جاؤں گا۔ لہٰذا تم میری تجہیز وتکفین میں جلدی کرو اور بالکل دیر نہ کرو ، قبر میں میری ملاقات حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے ہوگی ۔ بقول شاعر:
؎قبر میں سرکار آئیں تو میں قدموں پر گروں
گر فرشتے بھی اٹھائیں تو میں ان سے یوں کہوں
اب تو پائے ناز سے میں اے فرشتو!کیوں اٹھوں
مر کے پہنچا ہوں یہاں اس دِلرُبا کے واسطے
پھر اس کی آنکھیں بند ہوگئیں ، اور اس کی روح اس طر ح آسانی سے اس کے بد ن سے نکلی جیسے کوئی کنکر جب پانی میں ڈالا جاتا ہے تو آسانی سے تہہ میں اتر جاتا ہے۔
؎جب تیری یاد میں دنیا سے گیا ہے کوئی
جان لینے کو دلہن بن کے قضا آئی ہے"
" جب یہ واقعہ اُم المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سامنے بیان کیا گیا تو انہوں نے اس کی تصدیق فرمائی اور فرمایا:'' ہم یہ حدیث بیان کرتے تھے کہ اس اُمت میں ایک شخص ایسا ہوگا جو مرنے کے بعد بات کریگا ۔''
حضرت سیدنا ربعی بن خراش رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہما فرماتے ہیں:''میرا وہ بھائی سخت سردی کی راتو ں میں بہت زیادہ قیام کرتا، اور سخت گرمیوں کے دنوں میں ہم سے زیادہ رو زے رکھتا تھا ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" اس حکایت کے راوی حضرت سیدنا جعفر السائح رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہیں ، وہ فرماتے ہیں:''حضرت سیدنا عامر بن عبدقیس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے زمانے کے عابدوں میں سب سے افضل تھے۔ انہوں نے اپنے اُوپر یہ بات لازم کرلی تھی کہ میں روزانہ ایک ہزار نوافل پڑھوں گا۔ چنانچہ وہ اشراق سے لے کر عصر تک نوافل میں مشغول رہتے پھر جب گھر آتے تو ان کے پنڈلیاں اور قدم متورّم(یعنی سوجھے ہوئے)ہوتے، ایسا لگتا جیسے ابھی پھٹ جائیں گے۔ اتنی عبادت کے باوجودآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی عاجزی کایہ عالم تھا کہ اپنے نفس کومخاطب کرکے کہتے:''اے برائیوں پر ابھارنے والے نفس! توعبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے، خداعزوجل کی قسم !میں اتنے نیک اعمال کرو ں گا کہ تجھے ایک پل بھی سکون میسر نہ ہوگا اور تو بستر سے بالکل دور رہے گا، میں تجھے ہر وقت مصروف عمل رکھوں گا ۔''
ایک مرتبہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ایک ایسی وادی میں تشریف لے گئے جس کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ خونخوار درندوں کی آماجگاہ ہے۔ اس وادی میں '' حَمَمَہ'' نامی ایک حبشی عبادت گزار بھی رہتا تھا ۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بھی وہاں رہنے لگے ۔ دونوں بزرگ اس ایک وادی میں رہتے لیکن ایک دوسرے سے ملاقات نہ کرتے ۔ حضرت سیدنا عامر بن عبد قیس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وادی کی ایک سمت میں رہتے اور حممہ عابد دوسری سمت میں رہتا۔ان دونوں کی عبادت کا یہ عالم تھا کہ جب فر ض نماز وں سے فارغ ہوجاتے تو نوافل پڑھنا شروع کردیتے۔ اسی طر ح ان دونوں بزرگوں کو اس ایک ہی وادی میں چالیس دن اور چالیس راتیں گزر گئیں ۔"
" چالیس دن کے بعد حضرت سیدنا عامر بن عبد قیس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حممہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس گئے ، سلام کیا اور پوچھا : ''اے اللہ عزوجل کے بندے! اللہ عزوجل تجھ پر رحم فرمائے،تو کون ہے ؟'' تو وہ کہنے لگا:'' تم مجھے چھوڑ دو اور میرے بارے میں فکرمند نہ ہو۔ '' حضرت سیدنا عامر بن عبد قیس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا :''میں تجھے قسم دیتا ہوں، تم مجھے اپنے بارے میں بتاؤ کہ تم کون ہو ؟'' وہ کہنے لگا:'' میرا نام حممہ ہے۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:''اگرتو وہی حممہ ہے جس کے بارے میں مجھے خبردی گئی ہے تو پھر دنیا میں سب سے بڑا عبادت گزار تو ہی ہے، آخر تمہارے اندر وہ کونسی خوبی ہے جس کی وجہ سے تمہیں یہ مرتبہ ملا ہے؟''
حممہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے عاجزی کرتے ہوئے کہا: ''میں تو بہت زیادہ سست اور کوتاہ ہوں(یعنی مجھ میں ایسی کوئی فضیلت والی بات نہیں)ہاں !میری یہ خواہش ہے کہ اگر فر ض نمازوں کی وجہ سے مجھے قیام وسجود نہ کرنا پڑتا تو میں اپنی ساری زندگی رکوع میں ہی گزارتا اور اپنا چہرہ کبھی بھی اوپر نہ اٹھاتایہاں تک کہ میر ی زندگی تمام ہوجاتی اور اسی حالت میں اپنے خالق حقیقی عزوجل سے جاملتا، لیکن کیا کر وں فرائض کی وجہ سے مجھے قیام وغیرہ کرنا پڑتا ہے۔ اچھا! آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے بارے میں بتائیں کہ'' آپ کون ہیں؟''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' میرا نام عامر بن عبد قیس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہے۔''توحممہرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کہا :'' اگرآپ وہی عا مر بن عبدقیس ہیں جن کے بارے میں مجھے خبر ملی ہے ،توپھر لوگوں میں سب سے زیادہ عبادت گزار آپ ہی ہیں، آپ بتائیں کہ آپ کے اندر ایسی کونسی خوبی ہے جس کی وجہ سے آپ کویہ مرتبہ ملا ؟''
توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بھی عاجزی کرتے ہوئے فرمانے لگے :'' میں تو بہت سست اور کوتا ہ ہوں ہاں! ایک بات ہے کہ میرے دل میں اللہ عزوجل کی ہیبت اور رُعب گَھر کر گیا ہے،اب اس پاک پروردگار عزوجل کے علاوہ مجھے کسی چیز سے خوف نہیں آتا، میں صرف اسی وَحدَہٗ لَا شَرِیک ذات سے ڈرتاہوں، اس کے علاوہ کسی اورسے نہیں ڈرتا۔'' ابھی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ یہ بات کہہ ہی رہے تھے کہ اچانک بہت سے درندوں نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو چارو ں طر ف سے گھیر لیا اور ایک خونخوار درندے نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پیچھے سے آپ پر چھلانگ لگا کر آ پ ر حمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے کندھوں پر سوار ہو گیا لیکن قربان جائیں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی دلیری پر کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس کی طرف کوئی تو جہ نہ فرمائی اوربالکل خوفزدہ نہ ہوئے، بس قرآن کریم کی یہ آیت تلاوت کرتے رہے :"
ذٰلِکَ یَوْمٌ مَّجْمُوۡعٌ ۙ لَّہُ النَّاسُ وَذٰلِکَ یَوْمٌ مَّشْہُوۡدٌ ﴿103﴾
"ترجمہ کنزالایمان:وہ دن ہے جس میں سب لوگ اکٹھے ہوں گے اوروہ دن حاضری کاہے ۔ (پ12،ھود :103)
کچھ دیر بعد درند ہ آپ کو نقصان پہنچائے بغیر وہاں سے چلا گیا۔ یہ منظر دیکھ کر حممہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ"
"علیہ سے پوچھا :'' جو منظر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے دیکھا کیا آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس سے خوفزدہ نہیں ہوئے؟''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جواباًارشاد فرمایا:'' مجھے اس سے حیا آتی ہے کہ میں اللہ عزوجل کے علاوہ کسی اور سے ڈروں۔ ''
پھر حممہرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کہا :'' کیا کرو ں مجھے اس پیٹ کی آزمائش میں مبتلا کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے کھانا وغیرہ کھانا پڑتا ہے اورپھر بول وبراز کی حاجت ہوتی ہے ۔ اگر یہ معاملات نہ ہوتے تو خدا عزو جل کی قسم! میرا رب عزوجل مجھے ہمیشہ رکوع وسجود کی حالت میں دیکھتا ۔حممہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی عبادت کا یہ عالم تھا کہ دن رات میں آٹھ سو رکعت نوافل پڑھتے۔پھر بھی اپنے نفس کو ڈانٹتے ہوئے کہتے :میں تو بہت سست اور کوتا ہ ہوں ، میں بہت سست اور کوتا ہ ہو ں ،کچھ بھی عبادت نہ کرسکا۔
(میٹھے اسلامی بھائیو!سبحان اللہ عزوجل! عمل ہو تو ایسا اور عاجزی اور خوفِ خدا عزوجل ہوتو ایسا کہ روزانہ ہزار ہزار رکعت پڑھیں ، جسم کو لمحہ بھر بھی آرام نہ دیں ،ہر وقت عبادت میں مشغول رہیں اور بتقضائے بشریت جو وقت بقد رِ ضرورت کھانے وغیرہ میں گزر جائے اس پر بھی افسوس کریں کہ کاش! ہمیں کھانے کی ضرورت ہی نہ پڑتی تاکہ جو وقت یہاں گزرتا ہے وہ بھی عبادت ہی میں گزرتا۔ ایسی عظیم عبادت کے با وجودعاجزی کرتے ہوئے اپنے آپ کو سست اور کوتا ہ سمجھنا ان عظیم ہستیوں ہی کاحصہ تھا۔ اور ایک ہماری حالت ہے کہ اوّلاً تو عمل کرتے ہی نہیں، اگر کبھی دوچار نوافل پڑھ بھی لیں تو اپنے آپ کو اولیاء کی صف میں شمار کرنے لگتے ہیں اور اپنے آپ کو بڑا متقی اور عبادت گزار تصور کرنے لگتے ہیں اور اگر کہیں عاجزی کرتے ہیں تو وہ بھی جھوٹی عاجزی جس کی دل تصدیق نہیں کر رہا ہوتا ۔اللہ عزوجل ہمارے حالِ زار پر رحم فرمائے اور ان عظیم بزرگو ں کی عبادت اور سچی عاجزی کے صدقے ہمیں بھی کثرتِ عبادت اور سچی عاجزی کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان بزرگو ں کے صدقے ہم بروں کوبھی بھلابنائے ۔آمین)
؎ہر بھلے کی بھلائی کا صدقہ
اس برُے کو بھی کر بھلا یا رب عزوجل
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدنا نافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:''ایک مرتبہ میں حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہماکے ساتھ مدینہ منورہ کی ایک وادی میں گیا۔ ہمارے ساتھ کچھ اور لوگ بھی تھے ۔گرمی اپنے جوبن پر تھی گویا سورج آگ بر سارہا تھا ۔ہم نے ایک سایہ دار جگہ میں دستر خوان لگایا اور سب مل کر کھانا کھانے لگے ۔ تھوڑی دیر بعد ہمارے قریب سے ایک چرواہا گزرا ، حضر ت سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہما نے اس سے فرمایا:'' آیئے !آپ بھی ہمارے ساتھ کھانا تناول فرمائیے ۔''چرواہے نے جواب دیا: ''میرا روزہ ہے ۔''
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے اس سے فرمایا:'' تواس شدید گرمی کے عالم میں سارا دن جنگل میں بکریاں چراتا ہے، تواتنی مشقت کا کام کرتا ہے اور پھر بھی تو نے نفلی روزہ رکھا ہوا ہے؟ کیاتجھ پر نفلی روزہ رکھنا ضروری ہے؟''
یہ سن کر وہ چرواہا کہنے لگا :''کیا وہ وقت آگیا جن کے بارے میں قرآن پاک میں فرمایا گیا:"
کُلُوۡا وَ اشْرَبُوۡا ہَنِیۡٓــًٔۢا بِمَاۤ اَسْلَفْتُمْ فِی الْاَیَّامِ الْخَالِیَـۃِ ﴿24﴾
"ترجمہ کنزالایمان:کھاؤاورپیؤ رچتاہوا ،صلہ اس کا جو تم نے گزرے دنوں میں آگے بھیجا۔(پ29، الحآ قۃ:24)
حضرت سیدنا عبد اللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہما اس چرواہے کی حکیما نہ باتیں سن کر بڑے حیران ہوئے او راس سے فرمانے لگے: '' تم ہمیں ایک بکری فروخت کر دو ہم اسے ذبح کریں گے، اور تمہیں بکری کی مناسب قیمت بھی دیں گے۔'' آپ ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ بات سن کرو ہ چرواہا عرض گزار ہوا :'' حضور! یہ بکریاں میری ملکیت میں نہیں بلکہ یہ میرے آقا کی ہیں، میں تو غلام ہوں میں انہیں کیسے فروخت کر سکتاہوں ؟'' آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کی امانت داری سے بہت متا ثر ہوئے ۔اور ہم سے فرمایا: ''یہ بھی تو ممکن تھا کہ یہ چرواہا ہمیں بکری بیچ دیتا اور جب اس کا آقا پوچھتا تو جھوٹ بول دیتا کہ بکری کو بھیڑیا کھا گیا لیکن دیکھو یہ کتنا امین ومتقی چرواہا ہے ۔''
چرواہے نے بھی یہ بات سن لی۔ اس نے آسمان کی طرف انگلی اٹھائی اور یہ کہتے ہوئے وہاں سے چلا گیا، ''اگر چہ میرا آقا مجھے نہیں دیکھ رہا لیکن میرا پر وردگار عزوجل تو مجھے دیکھ رہا ہے ،میرا رب عزوجل تو میرے ہر ہر فعل سے باخبر ہے۔''
حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما اس چرواہے کی باتوں اور نیک سیرت سے بہت متا ثر ہوئے اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس چرواہے کے مالک کے پاس پہنچے اور اس نیک چرواہے کو خر ید کر آزاد کردیا اور ساری بکریاں بھی خرید کر اس چرواہے کو ہبہ کردیں ۔ (اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
حضرت سیدنا ابو صالح رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:'' حضرت سیدنا حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی نے حضرت سیدنا عمر بن عبد العزیز علیہ رحمۃاللہ المجید کویہ نصیحت آموز خط لکھا:
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ؕ
" امَّا بَعد:اے امیر المؤمنین (علیہ رحمۃ اللہ المبین) !جان لیجئے کہ یہ دنیا دھوکے باز اور بے وفا ہے، یہ دائمی اقامت گا ہ نہیں ، حضرت سیدنا آدم علیٰ نبیناوعلیہ الصلوٰۃوالسلام کو یہاں دنیا میںآزمائش کے لئے بھیجا گیا،تحقیق ایسے امور جن پر ثواب دیاجاتا ہے ان کا حساب لیا جائے گا اور جن پر عقاب ہے ان پر سزا ہوگی،خواہ ان پر ثواب وعذاب کا حق دار ہونے کا کسی کو علم ہو یا نہ ہو بہرحال حساب ضروری ہے، ہر دور میں دنیا کو پچھاڑنا ضروری ہے ، اور اس کو پچھاڑنا عام پچھاڑ نے کی مانند نہیں بلکہ جو اسے شکست دیتا ہے یہ اس کی تعظیم کرتی ہے ، اور جواس کی تعظیم کرتا ہے یہ اسے ذلیل وخوار کردیتی ہے ۔ہر دور میں یہ ڈائن (یعنی دنیا) کسی نہ کسی کو تباہ وبرباد ضرور کرتی ہے ، یہ میٹھے زہر کی مانند ہے کہ لوگ اسے فائدہ مند شئے سمجھ کر کھالیتے ہیں حالانکہ وہ ہلاکت خیز ہوتی ہے ۔ دنیا میں زادِ راہ یہ ہے کہ دنیوی آسائشوں کو تر ک کردیا جائے ، دنیا میں تنگدستی غناء ہے، جو یہاں فقر وفاقہ کا شکار ہے درحقیقت وہی غنی ہے ۔
اے امیر المومنین (علیہ رحمۃ اللہ المبین)! دنیا میں اس مریض کی طر ح رہو جو اپنے مرض کے علاج کی خاطر دواؤں کی سختی برداشت کر تاہے تاکہ اس کا زخم اورمرض مزید نہ بڑھے ، اس تھوڑی تکلیف کو برداشت کرلو جس کی وجہ سے بڑی تکلیف سے بچا جاسکے۔
بے شک عظمت اور فضیلت کے لائق وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ حق بات کہتے ہیں،انکساری وتو اضع سے چلتے ہیں ، انکارزق حلال وطیب ہوتا ہے،ہمیشہ حرام چیزوں سے اپنی نگاہوں کو محفوظ رکھتے ہیں، وہ خشکی میں ایسے خوفزدہ رہتے ہیں جیسے سمندری مسافر ، اور خوشحالی میں ایسے دعائیں کرتے ہیں جیسے مصائب وآلام میں دعا کی جاتی ہے ۔اگر موت کا وقت متعین نہ ہوتا تو اللہ عزوجل سے ملاقات کے شوق ، ثواب کی امید اور عذاب کے خوف سے ان کی روحیں ان کے اجسام میں لمحہ بھر بھی نہ ٹھہرتیں ،خالقِ لم یَزَلْ کی عظمت اور ہیبت ان کے دلوں میں راسخ ہے اور مخلوق ان کی نظرو ں میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ (یعنی وہ فقط رضائے الٰہی عزوجل کے طلب گار ہوتے ہیں)
اے امیر المومنین (علیہ رحمۃ اللہ المبین) !جان لیجئے !'' غور وفکر کرنا،اعمالِ صالحہ اور بھلائی کی طرف لے جاتا ہے ، گناہوں پر"
"ندامت اعمالِ قبیحہ کو چھوڑنے کی طرف لے جانے والی ہے ،فانی اشیاء اگر چہ کثیر ہوں باقی رہنے والی اشیاء کی مانند نہیں،اگرچہ لوگ فانی اشیاء کے زیادہ طالب ہیں۔اس تکلیف کا بر داشت کرلینا جس کے بعد طویل ودائمی راحت ہو، اس راحت کے حصول سے بہتر ہے جس کے بعد طویل غم والم،تکالیف اور ندامت وذلت کا سامنا کر نا پڑے ۔
اس بے وفا،شکست خوردہ اور ظالم دنیا سے آخرت کی زندگی کئی در جے بہتر ہے۔یہ دھوکے باز،لوگو ں کے سامنے مزّین ہوکر آتی ہے اور خوب دھوکا د ے کر تباہ و بر باد کرڈالتی ہے ،لوگ اس کی جھوٹی امیدوں کی وجہ سے ہلاکت میں پڑجاتے ہیں، یہ اس دھوکے باز دلہن کی طر ح ہے جو کسی کو نکاح کا پیغام دے ، پھر آراستہ وپیراستہ ہو کر سامنے آجائے، لوگ ا س پر فریفتہ ہو رہے ہوں ، اس کا بناوٹی حسن وجمال آنکھوں کو خیر ہ کرنے لگے، دل اس کی طرف مائل ہوجا ئیں، اس کی ظاہر ی خوبصورتی دل ودماغ پر چھا جائے ، پھر جب اس کا شوہر اس کے قریب جائے تو وہ اسے ظالمانہ انداز میں قتل کرڈالے۔
اے امیر المؤمنین( علیہ رحمۃ اللہ المبین) !گزرے ہوئے زمانے سے کوئی عبرت حاصل نہیں کرتااورنہ ہی موجودہ صورتحال سے لوگ عبرت حاصل کرتے ہیں ،اورنہ ہی موجودہ لوگ گزرے ہوؤں سے عبرت حاصل کرتے ہیں ہر شخص اپنی ہی دنیا میں مگن ہے عقلمند لوگ بھی تجربہ کے باوجود اپنے تجربوں سے فائدہ نہیں اٹھاتے،اور سمجھ دار لوگ بھی عبرت آموز واقعات سے درسِ عبرت حاصل نہیں کرتے ۔
اب تو صورتحال یہ ہے کہ ہر شخص اس ظالم دنیا کا شیدائی ہے ،اس کی محبت میں غرق ہوچکا ہے ، اور یہ محبت عشق کے درجے تک جاپہنچی ہے ، اس کا عاشق اس کو چھوڑ کر کسی اورشئے کی طر ف راغب ہوتا ہی نہیں،دنیا اور اس کا چاہنے والا دونوں ہی ایک دوسرے کے طلبگار ہیں۔ دنیا کا شیدائی یہ سمجھتا ہے کہ میں حصولِ دنیا کے بعد کامیاب ہوگیاہوں حالانکہ وہ ہلاکت کے عمیق گڑھوں میں گر چکا ہوتا ہے وہ دھوکا کھاکر اس کی محبت میں اس طر ح گر فتار ہو جاتا ہے کہ حساب وکتاب اور اپنے مقصدِ حیات کو بھول جاتا ہے ، اپنی نیکیوں کو ضائع کر بیٹھتا ہے ، پھر وہ اس بے وفا دنیا کے عشق میں اس قدر پاگل ہوجاتا ہے کہ اس کے قدم پھسل جاتے ہیں۔جب اسے ہوش آتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ میں نے تو اپنی تمام زندگی غفلت میں گزاردی ، میں تو تباہ وبر باد ہوگیا مجھے تو بہت بڑا دھوکا دیا گیا ،ہائے! میں نے جھوٹی امیدوں پر آسرا کیوں کیا؟ اب اس شخص کی پریشانی وغم قابل ِدید ہوتا ہے ، پھر حالتِ نزع میں سختیاں بڑھ جاتیں ہیں وہ پریشانیوں اور غموں کے سمندر میں غرق ہورہا ہوتا ہے ، وہی شخص جو اپنے تئیں کامیابی حاصل کر چکا تھا اب اسے معلوم ہوتا ہے کہ در حقیقت مَیں دھوکے باز دنیا سے بُری طر ح شکست کھاچکا ہوں ،پھر وہ عاشقِ ناشاد و نامراد اس دنیا سے اسی حالت میں رخصت ہوجاتا ہے ، اور بے وفا دنیا اس کا ساتھ چھوڑ کر کسی اور کو دھوکا دینے چلی جاتی ہے، اب یہ شخص دشوار گزار"
"سفر کی طر ف بغیرہم سفر اور بغیر زادِ راہ کے روانہ ہوتا ہے ۔
اے امیر المؤمنین (علیہ رحمۃ اللہ المبین) ! اس دنیا اور اس کی فریب کاریوں سے بچئے ،اس دنیا کی مثال اس سانپ کی طرح ہے جسے ہاتھ لگائیں تو نرم ونازک معلوم ہوتاہے لیکن اس کا زہر جان لیوا ہوتا ہے ،(اسی طرح یہ دنیا بھی دیکھنے میں بہت اچھی ہے لیکن حقیقت میں بہت بری ہے)اس دنیا کی جو شے اچھی لگے اسے ترک کردیجئے ، غمِ دنیا کی وجہ سے ہلکا نہ ہوں اس کے غموں کی پرواہ بھی نہ کیجئے ،دنیا سے ہر گز محبت نہ کیجئے گا کیونکہ اس کا انجام بہت برا ہے ۔
دنیا کا عاشق جب دنیا حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو یہ بے وفادنیااسے طر ح طرح سے پریشان کرتی ہے ، اس کی خوشیوں کو غم میں بدل دیتی ہے،جو اس کی فانی اشیاء کے ملنے پر خوش ہوتا ہے وہ بہت بڑے دھوکے میں پڑا ہے اس کا فائدہ پانے والادر حقیقت شدید نقصا ن میں ہے ، دنیاوی آسائشوں تک پہنچنے کے لئے انسان تکالیف ومصائب کا سامنا کرتا ہے ، جب اسے خوشی ملتی ہے تو یہ خوشی غم و ملال میں تبدیل ہوجاتی ہے نہ تو اس کی خوشی دائمی ہے اور نہ ہی اس کی نعمتیں، ان کا ساتھ توپَل بھر کا ہے۔
اے امیر المؤمنین (علیہ رحمۃ اللہ المبین) ! اس دنیا کو تارک الدنیا کی نظرسے دیکھئے ،نہ کہ عاشقِ دنیا کی نظر سے ،جو اس دارِ ناپائیدار میں آیا وہ یہاں سے ضرور رخصت ہوگا۔نہ ہی یہاں سے جانے والا کبھی واپس آتا ہے ، اور نہ ہی اسے امید ہوتی ہے کہ کوئی اس کی واپسی کا انتظار کر رہا ہوگا ،اس کی دھوکادینے والی امیدوں میں ہرگز نہ پڑیئے، اس دنیا سے ہر دم بچئے، اس کی جو اشیاء بظاہرصاف وشفاف ہیں در حقیقت و ہ گدلی وبیکارہیں ۔
اے امیر المؤمنین(علیہ رحمۃ اللہ المبین) !یہ دنیوی زندگی بہت کم ہے ، اس کی امیدیں جھوٹی ہیں جب تک آپ دنیا میں ہیں خطرہ ہی خطرہ ہے، بہر حال اس کی نعمتیں بہت جلد ختم ہوجائیں گی اور مصبیت پیہم اترتی رہیں گی عقل مند شخص ہمیشہ اس کے دھوکوں سے محفوظ رہتا ہے ،اللہ عزوجل نے دنیا سے بچنے کی خوب تا کید فرمائی ۔
اللہ ربّ العزت کی بارگاہ میں دنیا کی وقعت کچھ بھی نہیں اس کا وزن اس کی بارگاہ میں ایک چھوٹی سی کنکری کی طر ح بھی نہیں ، جو لوگ اللہ عزوجل کو چاہنے والے ہیں اوراسی کی محبت کے طلبگار ہیں ، وہ لوگ دنیا سے بہت نفرت کرتے ہیں ۔
اے امیر المؤمنین(علیہ رحمۃ اللہ المبین)!سرکارِنامدار،مدینے کے تاجدار،باذِن پروردگاردوعالم کے مالک ومختار،شہنشاہِ اَبرار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو دنیا او راس کے خزانوں کی چابیاں عطا کی گئیں تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے لینے سے انکار فرمادیا ، حالانکہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو ان کی طلب سے منع نہ فرمایا گیا تھا اور اگر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّمان چیزوں کو قبول بھی فرمالیتے تب بھی آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے مرتبہ میں کوئی کمی واقع نہ ہوتی اور جس مقام ومرتبہ کاآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے"
"وعدہ کیا گیا ہے وہ ضرور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو ملتا،لیکن ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم جانتے تھے کہ اللہ عزوجل کویہ دنیانا پسند ہے لہٰذا آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے بھی اس کو قبول نہ فرمایا، جب اللہ عزوجل کے ہاں اس کی کوئی وقعت نہیں تو حضورصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے بھی اس کو کوئی وقعت نہ دی ،اگر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اسے قبول فرما لیتے تو لوگوں کے لئے دلیل بن جاتی کہ شاید آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اس سے محبت کرتے ہیں ،لیکن آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اسے قبول نہ فرمایا، کیونکہ یہ کیسے ہوسکتا ہے ایک شے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں ناپسند ہو اورآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اسے قبول فرمالیں ۔
اے امیر المؤمنین(علیہ رحمۃ اللہ المبین) !موت سے پہلے جتنی نیکیاں ہوسکتی ہیں کر لیجئے ورنہ بوقت نزع فائدہ نہ ہوگا، اللہ عزوجل ان نصیحت آموز باتو ں سے ہمیں اور آپ کو خوب نفع عطا فرمائے ،اللہ عزوجل آپ کو اپنی حفظ وامان میں رکھے۔ والسَّلام
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدنامالک بن فضالہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت سیدنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں:'' سابقہ اُمتوں میں'' عُقَیْب '' نامی ایک بزرگ لوگوں سے الگ تھلگ ایک پہاڑی پراللہ عزوجل کی عبادت کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ انہیں خبر ملی کہ قریبی شہر میں ایک ظالم وجابر بادشاہ ہے جو لوگو ں پر بہت ظلم کرتا ہے۔ اور بلا وجہ ان کے ہاتھ پاؤں اور ناک ،کان وغیرہ کاٹ ڈالتا ہے ۔ جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کویہ اطلاع ملی توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے اندرامْرٌبِالْمَعْرُوْف وَنَہْیٌ عَنِ الْمُنْکَر(یعنی نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے منع کرنے) کا عظیم جذبہ شدت سے ابھرا اور اپنے آپ سے کہنے لگے: ''مجھ پر یہ لازم ہے کہ میں اس ظالم کو اللہ عزوجل سے ڈرنے کی تلقین کرو ں او راسے عذابِ الٰہی عزوجل سے ڈراؤں۔'' چنانچہ آپ اَمْرٌبِالْمَعْرُوْف وَنَہْیٌ عَنِ الْمُنْکَرکے عظیم جذبہ کے تحت پہاڑ سے اترے اور اس ظالم حکمران کے پاس پہنچ کر اس سے بڑے ہی جرأت مندانہ انداز میں فرمایا: '' تو اللہ عزوجل سے ڈر۔'' وہ بد بخت وظالم بادشاہ آگ بگولا ہوگیا اور بڑے متکبرانہ انداز میں گستاخانہ جملے بکتے ہوئے اس بزرگ سے کہنے لگا: '' اے کتے ! تیرے جیسا حقیر شخص مجھے اللہ عزوجل سے ڈرنے کا حکم دے رہا ہے، میں تجھے اس گستا خی کی ضرورسزا دو ں گا اور تجھے ایسی سزادوں گا کہ آج تک دنیا میں ایسی سزا کسی کو نہیں دی گئی ہوگی ۔''
پھر اس ظالم نے حکم دیا کہ اس کے قدموں سے اس کی کھال اتا رنا شرو ع کرو اور سر تک اس کی کھال اتا ر لوتا کہ یہ درد"
"ناک عذاب میں مبتلا ہو اوراس کی رو ح تڑ پ تڑپ کر تن سے جداہو۔ حکم پاتے ہی جلا د آگے بڑھے۔ اس عظیم مبلغ کو پکڑ کر زمین پر لٹایااور اس کے قدموں سے کھال اتارنا شرو ع کردی۔ وہ صبر و شکر کا پیکر بنے رہے ،زبان سے اُف تک نہ کہا۔ لیکن جب ان کی کھال پیٹ تک اُتارلی گئی تو درد کی شدت سے ان کے منہ سے درد بھری آہ نکلی۔ انہیں فوراً حکم الٰہی عزوجل پہنچا:''اے عقیب! صبر سے کام لو، ہم تجھے غم وحزن کے گھر سے نکال کر راحت وآرام کے گھر (یعنی جنت )میں داخل کریں گے اور اس تنگ وتاریک دنیا سے نکال کر وسیع وعریض جنت میں داخل کریں گے۔'' حکم الٰہی عزوجل پاکر وہ عظیم مبلغ خاموش ہوگئے اور اس درد ناک تکلیف کو صبر سے برداشت کرتے رہے۔
جب ظالموں نے ان کی کھال چہرے تک اتارلی تو شدتِ درد سے دوبارہ ان کے منہ سے بے اختیار درد بھر ی آہ نکلی۔ انہیں پھر حکم الٰہی عزوجل پہنچا:''ا ے عقیب! تیری اس مصیبت پر دنیا اور آسمان کی مخلوق رور ہی ہے ، تمہاری اس تکلیف نے فرشتوں کی توجہ تمہاری طرف کرا دی ہے۔ اگر تو نے تیسری مرتبہ بھی ایسی ہی پُر درد آہ بھری تو میں اس ظالم قوم پر درد ناک عذاب بھیجوں گا۔اور انہیں شدید عذاب کا مزا چکھاؤں گا۔
یہ حکم الٰہی عزوجل پاکر وہ خاموش ہوگئے۔ اور پھر بالکل بھی منہ سے آواز نہ نکالی،اس خوف سے کہ کہیں میری آہ وزاری سے اللہ عزوجل میری اس قوم کو عذاب میں مبتلا نہ کردے ، میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے کوئی عذاب میں مبتلا ہو ، بالآخر اس مرد مجاہد کی تمام کھال اتارلی گئی لیکن اس نے دوبارہ سسکی تک نہ لی اور اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔
(آفرین، اے عظیم بہادر مبلغ! آفرین؛ تیرے جذبہ تبلیغ اور امت سے خیر خواہی کے جذبہ پر لاکھوں سلام۔ تو نے نیکی کی دعوت کی خاطر کتنی شدید تکالیف برداشت کیں ،اور ظالم و جابر حاکم کا ظلم وجبر تجھے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے عظیم مقصد سے نہ روک سکا۔ اور تونے اس کے سامنے حق بات کہہ کر جہاد اکبر کیا پھر امت کی خیر خواہی کی خاطر شدید تکلیف کے باوجود اف تک نہ کہا اور جا ن دے دی ۔اے مرد مجاہد۱ تیری ان پاکیزہ خصلتوں پر ہماری ہزاروں جانیں قربان ہوں، اللہ عزوجل تجھے ہماری طرف سے اچھی جزا ء عطا فرمائے، اور تیرے صدقے ہمیں بھی نیکی کی دعوت عام کرنے کی تو فیق عطا فرمائے ۔خیر خواہی امت کا عظیم جذبہ ہمیں بھی عطا فرمائے،اور ہر وقت سنّتوں کی تبلیغ کی سعادت عطافرمائے ۔)
شہا ! ایسا جذبہ پاؤں کہ میں خوب سیکھ جاؤں (صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)
تیری سنتیں سکھانا مدنی مدینے والے (صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدنا شبیب بن شیبہ الخطیب علیہ رحمۃاللہ اللطیف فرماتے ہیں:'' ایک مرتبہ ہم مکہ مکرمہ (زَادَھَااللہُ تَعَالٰی شَرْفاً وَتَعْظِیْماً)کے صحرائی راستوں میں سفر پر تھے۔ ایک جگہ ہم نے قیام کیا، دستر خوان لگایا اور کھانا کھانے لگے۔ گرمی کی شدت سے زمین تانبے کی طرح دہک رہی تھی، گرم گرم ہوائیں جسم کو جُھلسارہی تھیں ۔ ہم نے ابھی کھانا شروع ہی کیا تھا کہ ایک اعرا بی ا پنی حبشی لونڈی کے ساتھ ہمارے پاس آیا۔
ہم نے اس سے کہا :'' آیئے! ہمارے ساتھ کھانا کھائیے۔ ''تو وہ کہنے لگا:''میں رو زہ سے ہوں۔'' ہم اُس کے اِس جواب سے بہت متعجب ہوئے ( اورایسی شدید گرمی میں نفلی روزہ رکھنا واقعی تعجب خیز بات تھی )پھر وہ اعرابی ہم سے کہنے لگا : ''کیا تم میں کوئی قرآن پاک کا قاری اور کاتب ہے کہ میں اس سے کوئی چیز لکھوانا چاہتا ہوں کیا تم میں سے کوئی میری اس حاجت کو پورا کرسکتا ہے؟''
جب ہم کھانے وغیرہ سے فراغت پاچکے، تو ہم نے اس سے پوچھا:''اب بتائیے آپ ہم سے کیا چاہتے ہیں؟( حتی الامکان ہم آپ کی مدد کریں گے ) وہ اعرابی کہنے لگا:''اے میرے بھائی !بے شک یہ دنیا پہلے سے موجود تھی لیکن میں اس میں نہ تھا (پھر میں پیدا ہوا) اب یہ دنیا ایک مقررہ مدت تک باقی رہے گی لیکن میں اسے عنقریب چھوڑ جاؤں گا۔''
؎ دِلا غافل نہ ہو یکدم یہ دنیا چھوڑ جانا ہے
بغیچے چھوڑ کر خالی زمین اندر سمانا ہے
اے میرے بھائی!میں چاہتاہوں کہ اللہ عزوجل کی رضا کی خاطر ''یوم عقبہ'' کے لئے اپنی اس لونڈی کو آزاد کردوں، کیا تم جانتے ہو کہ ''یوم عقبہ'' کیا ہے؟'' قرآن کریم میں اللہ عزوجل کا ارشادِ پاک ہے:"
فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَۃَ hوَ مَاۤ اَدْرٰىکَ مَا الْعَقَبَۃُ ﴿ؕ12﴾فَکُّ رَقَبَۃٍ ﴿ۙ13﴾
"ترجمہ کنزالایمان:پھر بے تامل گھاٹی میں نہ کودا۔اور تو نے کیا جانا وہ گھاٹی کیا ہے۔ کسی بندے کی گردن چھڑانا۔(پ30،البلد:11تا13)
لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ اس لونڈی کو اللہ عزوجل کی رضا اور یوم عقبہ کے لئے آزاد کردوں۔ اب میں تم سے جو لکھواؤں وہ مجھے لکھ دو اور میرے الفاظ کے علاوہ ایک لفظ بھی زائد نہ لکھنا۔پھر اس نے لکھوانا شرو ع کیا ،اس کے الفاظ کا مفہوم یہ تھا:''یہ میری لونڈی ہے ،اور میں نے اسے اللہ عزوجل کی رضا کی خاطر، یوم عقبہ کے لئے آزاد کیا۔''اتنا لکھوانے کے بعد وہ اعرابی اس لونڈی کو آزاد کر کے ایک سمت روانہ ہو گیا ۔
حضرت سیدنا شبیب علیہ رحمۃ اللہ اللطیف فرماتے ہیں:''میں پھر بصرہ واپس آگیا اور جب بغداد میں میری ملاقات حضرت"
"سیدنا مہد ی علیہ رحمۃاللہ الہادی سے ہوئی تو میں نے انہیں اس اعرابی اور لونڈی والا واقعہ بتایا۔ تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرمانے لگے: ''اس اعرابی نے اسی طر ح اپنے سو غلام اور لونڈیا ں آزاد کی ہیں ۔اور وہ جب بھی کوئی لونڈی یا غلام آزاد کرتا ہے تو اسی طرح ایک مضمون لکھواکر ا پنے پاس رکھ لیتا ہے اور لونڈی یا غلام کو آزاد کردیتا ہے ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)"
" حضرت سیدنا یوسف بن حسن رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:''ایک مرتبہ میں حضرت سیدنا ذوالنون مصری علیہ رحمۃ اللہ القوی کے ساتھ ایک تالاب کے کنارے موجود تھا۔ اچانک ہماری نظر ایک بہت بڑے بچھو پر پڑی جو تالاب کے کنارے بیٹھا ہوا تھا، اتنی دیر میں ایک بڑاسامینڈک تالاب سے نکلا اور وہ اس بچھو کے قریب کنارے پر آگیا۔ بچھو اس مینڈ ک پر سوار ہوا اور مینڈک اسے لے کر تیرتا ہوا تالاب کے دو سرے کنارے کی طر ف بڑھنے لگا ۔یہ منظر دیکھ کر حضرت سیدنا ذوالنون مصری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مجھ سے فرمایا: ''چلو! ہم بھی تالاب کے دوسرے کنارے چلتے ہیں اس طرف ضرورکوئی عجیب وغریب واقعہ پیش آنے والا ہے ۔
چنانچہ ہم بھی تالاب کے دوسرے کنارے پہنچے ،کنارے پر پہنچ کر مینڈک نے بچھو کو اتا ر دیا ،بچھو تیزی سے ایک سمت چلنے لگا ۔ہم بھی اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگے ،کچھ دور جاکر ہم نے ایک عجیب وغریب خوفناک منظر دیکھا ۔ ایک نوجوان نشے کی حالت میں بےہوش پڑا ہے، اچانک ایک اژدھا ایک جانب سے اس نوجوان کی جانب بڑھا اور اس کے سینے پر چڑھ گیا۔ جیسے ہی اس نے نوجوان کو ڈسنا چاہا بچھو نے اس پر حملہ کیا او راس کو ایسا زہر یلا ڈنک ماراکہ وہ اژدہاتڑ پنے لگا اور نوجوان کے جسم سے دور ہٹ گیا، پھر تڑپ ترپ کر مرگیا ، جب سانپ مرگیا تو بچھو واپس تالاب کی طرف گیا ۔وہا ں مینڈ ک پہلے ہی موجود تھا۔ اس پر سوار ہو کر بچھو دو بارہ دوسرے کنارے کی طر ف چلاگیا۔
؎فانوس بن کر جس کی حفاظت ہوا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
پھرہم اس نوجوان کے پاس آئے، وہ ابھی تک نشے کے حالت میں بے ہوش پڑا تھا۔ حضرت سیدناذوالنون مصری علیہ"
رحمۃ اللہ القوی نے اس شخص کو ہلایا تو اس نے آنکھیں کھول دیں ، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' اے نوجوان! دیکھ تیرے پاک پروردگار عزوجل نے کس طر ح تیری جان بچائی ہے،یہ جو مردہ سانپ تم دیکھ رہے ہو، یہ تجھے ہلاک کرنے آیا تھا لیکن اللہ عزوجل نے تیری حفاظت اس طر ح کی کہ تالاب کے دو سرے کنارے سے ایک بچھو نے آکر اس اژدھے کو مارڈالا اور اس طرح تواژدھے کے حملے سے محفوظ رہا۔ پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس نوجوان کو سارا واقعہ بتایا اور یہ اشعار پڑھنے لگے:
"یَا غَافِلًا وَ الْجَلِیلُ يحْرُسُہ، مِنْ کُلِّ سُوْ ءٍ یَدُ وْرُ فِی ا لظُّلَمِ
کَیْفَ تَنَامُ الْعُیُوْنُ عَنْ مَلِکٍ یَاْ تِیْکَ مِنْہ، فَوَ ا ئِدُ ا لنِّعَمِ"
" ترجمہ: اے غافل! (اُٹھ) رب جلیل (اپنے بندے کی)ہر اس برائی سے حفاظت کرتا ہے جو اندھیروں میں گھومتی ہے، پھر تیری آنکھیں اس مالکِ حقیقی سے غافل ہو کر کیوں سوگئیں جس کی طر ف سے تجھے نعمتو ں کے فائدے پہنچتے ہیں ۔
نوجوان نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی زبان بااثر سے جب یہ حکمت بھرے اشعار سنے، تو وہ خواب غفلت سے جاگ گیا، اور اپنے رب عزوجل کی بارگاہ میں تائب ہوگیا ،اور کہنے لگا:'' اے میرے پاک پروردگار عزوجل !جب تو اپنے نافرمان بندو ں کے ساتھ ایسا رحمت بھرا برتاؤکرتاہے، تواپنے اطاعت گزار بندوں پرتیری رحمت کی بر سات کس قدر ہوتی ہوگی ۔
اس کے بعد وہ نوجوان ایک جانب جانے لگا تو میں نے اس سے پوچھا:''اے نوجوان! کہا ں کا ارادہ ہے ؟''اس نے کہا: ''اب میں جنگلوں میں اپنے رب عزوجل کی عبادت کرو ں گا، اور خدا عزوجلکی قسم! میں آئندہ کبھی بھی دنیا کی رنگینیوں کی طر ف التفات نہ کرو ں گا اور شہر کی طر ف کبھی بھی قدم نہ بڑھاؤں گا۔''اتنا کہنے کے بعد وہ نوجوان جنگل کی طر ف روانہ ہوگیا۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)"
حضرت سیدنا محمد بن ابو عبداللہ خزاعی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:'' شام کے رہنے والے ایک شخص نے مجھے بتایاکہ ''ایک مرتبہ میں ویران پہاڑیوں میں پہنچا ، وہ ایسی جگہ تھی کہ لوگ ایسی جگہوں کی طرف کم ہی آتے ہیں، وہاں میں نے ایک بوڑھے شخص کو دیکھا جس کی بھنویں بھی سفید ہوچکی تھیں وہ گردن جھکائے بیٹھا تھا اور اس طرح صدائیں بلند کر رہا تھا'' اگر تو نے
"دنیوی زندگی میں میری محنت ومشقت کو طویل کردیا ، اور اُخروی زندگی میں بد بختی وشقاوت کو طویل کردیا تو اے کریم پروردگار عزوجل پھر تومیں بالکل بیکارہوگیاتیری رحمت سے دورہوگیا،وہ شامی شخص کہتا ہے کہ ، میں اس بوڑھے شخص کے پاس گیا ، اسے سلام کیا تو اس نے اپنا سر اوپر اٹھایا ، اس کا سارا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا اور آنسوؤں نے زمین کو تر کردیا تھا پھر وہ میری طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا :'' کیا دنیا تمہارے لئے وسیع وعریض نہیں ،کیا وہاں کے لوگ تم سے مانوس نہیں ؟ جب میں نے اس کا یہ عقلمندانہ کلام سنا تو میں بہت متأ ثر ہوا اور کہا : ''اللہ عزوجل تم پر رحم فرمائے تم نے لوگو ں سے دوری اختیار کرلی ہے اور تم اس ویران جگہ آگئے ہو، تم نے ایسا کیوں کیا؟
یہ سن کر اس نے کہا :''اے نوجوان! جس راستہ کو تم قرب ِالٰہی عزوجل کے حصول کے لئے بہتر سمجھتے ہو ، وہی راستہ اختیار کرو ، اس کے علاوہ تمہارے لئے کوئی اور راستہ نہیں۔''
میں نے پوچھا:'' تم کہاں سے کھا تے ہو؟'' کہا : مجھے کھانے کی کم ہی حاجت پڑتی ہے، بہر حال جب مجھے بہت زیادہ بھوک محسوس ہوتی ہے تو درختو ں کے پتے اور گھاس وغیرہ کھا کر گزارہ کرلیتا ہوں ۔ میں نے کہا :'' اے بزرگ ! اگر چاہو تو میں تمہیں اس ویران جگہ سے نکال کر سر سبز وشاداب جگہ لے چلتا ہوں ؟'' یہ سن کر اس نے روتے ہوئے کہا:''بہاریں اور سر سبز وشاداب علاقوں میں اس وقت رہنا بہتر ہے جب وہا ں اللہ عزوجل کی فرمانبرداری کی جائے ، اب میں بوڑھا ہوچکا ہوں اور مرنے کے قریب ہوں، نہ اب مجھے لوگوں کے پاس جانے کی حاجت ہے اور نہ ہی سرسبز وشاداب علاقوں میں جانے کی تمنا ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)"
" حضرت سیدنا خلد بن ایوب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:'' بنی اسرائیل کے ایک عابدنے پہاڑ کی چوٹی پر ساٹھ سال تک اللہ عزوجل کی عبادت کی۔ایک رات اس نے خواب دیکھاکہ کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے:'' فلاں موچی تجھ سے زیادہ عبادت گزار ہے اور اس کا مرتبہ تجھ سے زیادہ ہے۔ ''
جب وہ عابد نیند سے بیدار ہو ا تو خواب کے بارے میں سوچا، پھرخود ہی کہنے لگا : ''یہ تو محض خواب ہے، اس کا کیا اعتبار۔'' لہٰذا اس نے خواب کی طرف توجہ نہ دی، کچھ عرصہ بعد اسے پھر اسی طرح خواب میں کہا گیا کہ فلاں موچی تجھ سے افضل"
"ہے ۔مگراب کی بار بھی اس نے خواب کی طر ف کوئی تو جہ نہ دی ،تیسری مرتبہ پھر اسے خواب میں اسی طرح کہا گیا۔باربار خواب میں جب اسے موچی کی فضیلت کے بارے میں بتایا گیا تو وہ پہاڑ سے اتر ا اور اس موچی کے پاس پہنچا۔موچی نے جب اسے دیکھا تو اپنا کام چھوڑ کر تعظیماً کھڑا ہوگیا اور بڑی عقیدت سے اس عابد کی دست بوسی کرنے لگا، پھرعرض گزار ہوا:'' حضور! آپ کو کس چیز نے عبادت خانے سے نکلنے پرمجبور کیا ہے؟ ''
وہ عابد کہنے لگا :'' میں تیری وجہ سے یہاں آیا ہوں، مجھے بتایاگیا ہے کہ اللہ عزوجل کی بارگاہ میں تیرا رتبہ مجھ سے زیادہ ہے؟'' اس وجہ سے میں تیری زیارت کرنے آیا ہوں، مجھے بتاکہ وہ کونسا عمل ہے جس کی وجہ سے تجھے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں اعلیٰ مقام حاصل ہے؟ وہ موچی خاموش رہا، گویا وہ اپنے عمل کے بارے میں بتانے سے ہچکچاہٹ محسوس کر رہا تھا۔ پھر کہنے لگا:'' میرا اورتو کوئی خاص عمل نہیں، ہاں!اتنا ضرور ہے کہ میں سارا دن رزق حلال کمانے میں مشغول رہتا ہوں اور حرام مال سے بچتا ہوں پھر اللہ تعالیٰ مجھے سارے دن میں جتنا رزق عطا فرماتا ہے میں اس میں سے آدھا اس کی راہ میں صدقہ کردیتا ہوں اور آدھا اپنے اہل وعیال پر خرچ کرتا ہوں ۔دوسرا عمل یہ ہے کہ میں کثرت سے روزے رکھتا ہوں، اس کے علاوہ کوئی اور چیز میرے اندرایسی نہیں جوباعث فضیلت ہو۔''
یہ سن کر عابد اس نیک موچی کے پاس سے چلا گیا اور دوبارہ عبادت میں مشغول ہوگیا۔کچھ عرصہ بعد پھر اسے خواب میں کہا گیا:'' اس موچی سے پوچھو کہ کس چیز کے خوف نے تمہارا چہرہ زرد کر دیا ہے ؟ چنانچہ وہ عابد دو بارہ موچی کے پا س آیا، اور اس سے پوچھا :'' تمہارا چہرہ زرد کیوں ہے؟ آخر تمہیں کس چیز کا خوف دامن گیر ہے؟ '' موچی نے جواب دیا:'' جب بھی میں کسی شخص کو دیکھتا ہوں تو مجھے یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ شخص مجھ سے اچھاہے ،یہ جنتی ہے اور میں جہنم کے لائق ہوں، میں اپنے آپ کو سب سے حقیر جانتا ہوں اور اپنے آپ کو سب سے زیادہ گناہگار تصور کرتا ہوں اور مجھے ہر وقت جہنم کا خوف کھائے جارہا ہے ۔بس یہی وجہ ہے کہ میرا چہرہ زرد ہوگیا ہے۔'' وہ عابد واپس اپنے عبادت خانے میں چلاگیا۔
حضرت سیدنا خلد بن ایوب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:''اس موچی کو اس عبادت گزار شخص پر اسی لئے فضیلت دی گئی کہ وہ دو سرو ں کے مقابلے میں اپنے آپ کو حقیر سمجھتاتھا اور اپنے علاوہ سب کو جنتی سمجھتا تھا ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)"
" حضرت سیدنا عیسیٰ بن مرحوم عطا ر علیہ رحمۃ اللہ الغفار فرماتے ہیں:''ایک نیک سیرت لونڈی حضرت سیدتنا رابعہ عدویہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا کی خدمت میں رہا کرتی تھی۔ اس لونڈی نے مجھے حضرت سیدتنا رابعہ عدویہ ر حمۃ اللہ تعالیٰ علیہا کی عبادت وریاضت کے بارے میں بتایا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہاساری ساری رات نماز میں مشغول رہتیں۔ جب صبح صادق ہوتی تو تھوڑی دیر کے لئے اپنے مصلّے پر لیٹ جاتیں، اور جب ہلکا ہلکا اجالا ہونے لگتا تو فوراََ اٹھ کھڑی ہوتیں اور اپنے نفس کو مخاطب کر کے کہتیں:'' اے نفس! تو اس ناپائیدار دنیا میں کب تک سوتا رہے گا ؟ یہ دنیا تو تنگی کا گھر ہے ، پھر اس میں اتنی نیند کیوں ؟ آج کچھ دیر جا گ لے کچھ نیک اعمال کر لے، پھر قبر میں خوب میٹھی نیند سو جانا، وہاں تجھے قیامت تک کوئی نہیں جگائے گا، عمل یہاں کر لے آرام وہاں کرنا۔''
؎جاگنا ہے جاگ لے افلاک کے سائے تلے
حشر تک سوتا رہے گا خاک کے سائے تلے
پھرآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہااٹھ بیٹھتیں اور دو بارہ عبادت میں مشغول ہوجاتیں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا نے پوری زندگی اسی طر ح عبادت وریاضت میں گزار ی ۔ جب آ پ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہاکی وفات کا وقت قریب آیا تومجھے بلا کر فرمانے لگیں :'' میری موت کی وجہ سے مجھے اذیت نہ دینا یعنی میرے مرنے کے بعد چیخ وپکار نہ کرنا ، اوراسی اُون کے جُبےّ میں میری تکفین کرنا۔''
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہااسی جبہ کو پہن کرساری ساری رات اللہ عزوجل کی عبادت میں مشغول رہتیں، لوگ نیند کے مزے لے رہے ہوتے لیکن یہ اللہ عزوجل کی بندی لذتِ عبادت سے لطف اندو ز ہورہی ہوتی۔
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا کی وفات کے بعد ہم نے آپ کو اسی جُبّہ میں کفن دیا جس کی آپ نے وصیت فرمائی تھی،اور وہ چادر بھی کفن میں شامل کر دی جسے اوڑھ کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا عبادت کیا کرتی تھیں۔
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہاکی وفات کے تقریباً ایک سال بعد میں نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہاکو خواب میں دیکھاکہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا جنت کے اعلیٰ درجوں میں ہیں اور آپ نے سبز ریشم کا بہترین لباس زیبِ بدن کیا ہوا ہے، او رسبز ریشم کا دوپٹہ اوڑھا ہوا ہے، خداعزوجل کی قسم!میں نے کبھی ایساخوبصورت لباس نہیں دیکھاجیساآپ نے پہنا ہوا تھا۔
میں نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا سے پوچھا: ''اے رابعہ ! آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا کے اس جبے اور چادر کاکیا ہوا جس میں ہم نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا کو کفن دیاتھا ؟''توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہانے فرمایا: ''اللہ عزوجل کی قسم! وہ لباس مجھ سے لے لیا گیا ،او راس کی جگہ یہ بہترین لباس مجھے عطا کیا گیا ہے جسے تم دیکھ رہی ہو، اورمیرے اس جبے اور چادر کو لپیٹ کر اس پر مہر لگادی گئی اور اسے مقام"
"عِلِّیِّین میں رکھ دیا گیا ہے تاکہ قیامت کے دن اس کے بدلے مجھے ثواب عطا کیا جائے۔ ''میں نے پوچھا:'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہاکو اپنے دنیا میں کئے ہوئے اعمال کے بدلے میں اور کیا کیا نعمتیں عطا کی گئیں ؟ ''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا فرمانے لگیں : ''اللہ عزوجل نے اپنے نیک بندو ں کے لئے جو نعمتیں تیار کر رکھی ہیں، وہ بیان سے باہر ہیں ۔تم نے تو ابھی ان نعمتوں کی ایک جھلک ہی دیکھی ہے، اس کے علاوہ نہ جانے کیاکیا نعمتیں اس نے اپنے اولیاء کے لئے تیار کررکھی ہیں۔''
پھر میں نے پوچھا:'' عبیدہ بنت ابو کلاب علیہا رحمۃ اللہ الوھا ب کے ساتھ آخرت میں کیا معاملہ پیش آیا ؟'' فرمانے لگیں: ''اللہ عزوجل کی قسم! وہ ہم سے سبقت لے گئیں اور ہم سے اعلیٰ مرتبوں میں انہیں رکھا گیا ہے۔''میں نے پوچھا:'' کس وجہ سے انہیں آپ پر فضیلت دی گئی ؟حالانکہ لوگو ں کی نظروں میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہاکا مرتبہ ان سے زیادہ تھا۔''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہانے فرمایا:'' وہ ہر حال میں اللہ عزوجل کا شکر ادا کرتی تھیں،اور دنیاوی فکروں سے پریشان نہ ہوتی تھیں۔'' پھر میں نے پوچھا :'' ابو مالک ضیغم علیہ رحمۃاللہ الاعظم کے ساتھ کیسا برتاؤ کیا گیا؟'' فرمانے لگیں:''اللہ عزوجل نے انہیں بہت بڑا انعام عطا فرمایا ہے، وہ جب چاہتے ہیں اپنے پروردگار عزوجل کی زیارت کر لیتے ہیں ، ان کا اللہ عزوجل کی بارگاہ میں بہت مرتبہ ومقام ہے ۔
میں نے پوچھا:''حضرت سیدنا بشر بن منصور علیہ رحمۃالغفور کے ساتھ کیا ہوا؟'' فرمانے لگیں :'' ان کا مرتبہ تو قابلِ رشک ہے، انہیں تو ایسی ایسی نعمتوں سے نواز اگیا ہے جن کے بارے میں انہوں نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا۔''
پھر میں نے عرض کی:'' مجھے کسی ایسے عمل کے متعلق بتادیجئے جس کے ذریعے مجھے اللہ عزوجل کا قرب او راس کی رضا نصیب ہوجائے ۔''تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہانے فرمایا:''کثرت سے ذکر اللہ عزوجل کرو ،ہر وقت اپنے اوپر ذکر اللہ عزوجل کو لازم کرلو ۔ اگرایسا کرو گی توکچھ بعید نہیں کہ تمہاری قبر میں تمہیں ایسی نعمتوں سے نوازا جائے کہ تم قابل رشک ہوجاؤ ۔''
؎میں بے کار باتوں سے بچ کر ہمیشہ
کرو ں تیری حمد و ثنا یا الٰہی عزوجل
(اے ہمارے پاک پروردگار عزوجل!ہمیں بھی ان بزرگ ہستیوں کے صدقے ایسی زبان عطا فرما جو ہر وقت تیرے ذکر میں مشغول رہے ۔ ایسا جسم عطا فرما جو دین کی راہ میں آنے والی مصیبتوں پر صبر کرے اورایسا دل عطا فرما جو ہر وقت تیرا شکر ادا کرتا رہے۔)
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)"
" حضرت سیدنا عطاء رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ زمانے کے مشہور تابعی بزرگ حضرت سیدنا ابو مسلم خولانی قدّس سرّہ الرّبّانی کی زوجہ محترمہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے کہا:'' ہمارے پاس آٹا بالکل ختم ہوگیا ہے،اور کھانے کے لئے کچھ بھی نہیں۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' کیا تیرے پاس کچھ رقم وغیرہ ہے جس سے آٹا خریدا جا سکے؟'' تو اس نے عرض کی:'' میرے پاس ایک درہم ہے جو اُون بیچ کر حاصل ہو اہے۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا : ''لاؤ وہ درہم مجھے دو، میں آٹا خرید لاتا ہوں ۔''
چنانچہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ایک درہم اور تھیلالے کر بازار کی طر ف گئے۔ جب دکان سے آٹا خرید نا چاہا تو اچانک ایک فقیر آگیااور اس نے کہا :'' اے ابو مسلم خولانی !یہ درہم مجھ پر صدقہ کردو۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وہاں سے پلٹے اور دو سری دکان پر پہنچے ، جیسے ہی آپ نے آٹا خرید نا چاہا دو بارہ وہی فقیر آگیا اور کہنے لگا:''اے ابو مسلم خولانی!میں بہت مجبور ہوں ،یہ درہم مجھ پر صدقہ کردو۔'' اسی طر ح وہ فقیر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پیچھے لگا رہا بالآخر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے وہ درہم فقیر کو دے دیا۔ اب سوچنے لگے کہ گھر والوں کو کیا جواب دوں گا، وہ تو خالی تھیلا دیکھ کر پریشان ہوجائیں گے۔
چنانچہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ایک بڑھئی کی دکان پرگئے اور وہاں سے تھیلے میں لکڑی کا برادہ اور مٹی بھری اور گھر کی طر ف چل دیئے ۔گھر پہنچ کر درواز ہ کھٹکھٹایا جیسے ہی دروازہ کھلاآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے وہ تھیلا گھر والوں کے حوالے کیا ،اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ گھر میں داخل ہوئے بغیر ہی واپس پلٹ گئے، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پریشان تھے کہ جب تھیلا کھولا جائے گا تو اس میں سے مٹی اور برادہ نکلے گااور گھر والے آٹا نہ ملنے کی وجہ سے بہت پر یشان ہوں گے ،اسی خوف وپریشانی کی وجہ سے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سارا دن گھر نہ گئے۔
جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی زوجہ محترمہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے تھیلا کھولا تو وہ نہایت ہی عمدہ آٹے سے بھرا ہوا تھا۔چنانچہ انہوں نے جلدی جلدی کھانا تیار کیا اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا انتظار کرنے لگیں۔ جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ رات گئے چپکے سے گھر میں داخل ہوئے توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی زوجہ محترمہ فوراً آپ کے لئے بہترین قسم کی روٹیاں لے کر آئی، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ روٹیاں دیکھ کر حیران ہوئے،ا ورپوچھا:''یہ روٹیاں کہا ں سے آئیں ؟''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی زوجہ محترمہ نے کہا:'' یہ اسی آٹے کی روٹیاں ہیں جسے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لے کر آئے تھے۔''یہ سن کرآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ رونے لگے ،اور اللہ عزوجل کا شکر ادا کیا کہ اس نے لاج رکھ لی اور مٹی کو عمدہ آٹے میں تبدیل کردیا۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)"
" حضرت سیدنا احمد بن سہل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بیان فرماتے ہیں، اللہ عزوجل کے ایک عظیم ولی حضرت سیدنا ابوفروہ سابح رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایاکہ میں ایک مرتبہ بعض ویران پہاڑیوں میں گھوم رہا تھا کہ ایک پہاڑ کے پیچھے سے مجھے کسی کی آواز سنائی دی، میں نے کہا : یہاں ضرور کوئی خاص بات ہے، لہٰذا میں اسی سمت چل دیا جدھر سے آواز آرہی تھی۔ جب وہاں پہنچا تو ایک شخص اللہ عزوجل کی بارگاہ میں یہ التجا کر رہا تھا: ''اے وہ پاک ذات جس نے اپنے پاک ذکر سے مجھے اُ نسیّت بخشی اور مخلوق کی محبت میرے دل سے نکال دی! اے ارحم الراحمین! مجھے تیری یاد میں آنسوبہانا بہت محبوب ہے ،اے میرے مولیٰ عزوجل !مجھے اپنی ایسی معرفت عطا فرمایا کہ مجھے تیرا قرب نصیب ہوجائے، اے اپنے مُحبّین پر احسان کر نے والے! مجھے بھی اپنے نیک بندوں میں شامل فرمالے ۔''
پھر میں نے ایک زور دار چیخ سنی ، لیکن آس پاس کوئی بھی موجودنہ تھا ،میں اسی سمت چلتارہا جہاں سے آواز آرہی تھی۔ جب وہاں پہنچا تو دیکھا کہ ایک بوڑھا شخص بے ہوش پڑا ہے اور اس کاجسم کپکپارہا ہے ، کافی دیر وہ اسی حالت میں رہا ،میں بھی وہیں کھڑا رہا۔ پھر جب اسے افاقہ ہوا تو مجھ سے پوچھا :''اللہ عزوجل آپ پر رحم فرمائے ،آپ کون ہیں ؟'' میں نے کہا:'' میں بنی آدم کا ایک فرد ہوں۔''پھر اس نے کہا:'' جاؤ! مجھ سے دور ہوجاؤ، میں انسانوں سے دور رہنے ہی میں عافیت سمجھتا ہوں۔'' اتنا کہنے کے بعد وہ بزرگ اُٹھ کھڑے ہوئے اور روتے ہوئے ایک جانب چل دیئے۔ میں نے ان سے عرض کی :'' اللہ عزوجل آپ پر رحم فرمائے، مجھے راستہ تو بتاتے جائیں۔ '' تو انہوں نے آسمان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:'' اصل منزل وہاں ہے، اصل منزل وہاں ہے۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)"
حضرت سیدناعبدالرحمن بن زید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں:'' بنی اسرائیل میں ایک عبادت گزار شخص تھا۔جو دن رات اللہ عزوجل کی عبادت میں مشغول رہتا، اسی طر ح عبادت کرتے ہوئے اسے کافی عرصہ گزر گیا، ایک مرتبہ وہ چھت پر چڑھا تو اچانک اس کی نظر باہر کھڑی ہوئی ایک حسین وجمیل عورت پر پڑی تو اس کا دل عورت کی طر ف مائل ہوگیا، وہ نیچے اترا اور اس نے ارادہ کیا کہ اس عورت کی طر ف جاؤں ،جیسے ہی اس نے گناہ کے ارادے سے اپنا ایک قدم دروازے سے
"باہر نکالا فوراَ اس کی عبادت اس کے کام آگئی ،اللہ عزوجل نے اس کی سابقہ عبادت کے سبب اسے اس گناہ سے محفو ظ رکھا ،چنانچہ وہ عابد اپنے اس فعل پر بہت نادم ہوا اور کہنے لگا:'' یہ میں کیا کرنے جارہا ہوں( یعنی میرا دل گناہ کی طر ف کیوں مائل ہوگیا ) چنانچہ وہ وہیں رک گیا اور کہنے لگا: ''جس قدم نے اللہ عزوجل کی نافرمانی کے لئے سبقت کی میں اسے واپس اس عبادت گا ہ میں نہ لاؤں گا، اے نافرمان پاؤں !تجھ پر افسوس ہے کہ تو اللہ عزوجل کی نافرمانی کے لئے باہر نکلا ،اب تو سزا کا مستحق ہے ، خدا عزوجل کی قسم! میں تجھے کبھی بھی واپس عبادت گاہ میں نہ لاؤں گا۔
چنانچہ عابد نے اپنے اس پاؤں کو باہر ہی رہنے دیا۔مسلسل سردی ،گرمی، بارش اور دھوپ وغیرہ سے اس کا پاؤں گل سڑ کر جسم سے علیٰحدہ ہوگیاتو اس عابد نے کہا:'' جو پاؤں اللہ عزوجل کی نافرمانی کے لئے بڑھے اس کی یہی سزا ہے، اے اللہ عزوجل! تیرا شکر ہے کہ تو نے مجھے اس پاؤ ں سے نجات دی جو تیری نافرمانی کے لئے بڑھا۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)"
" حضرت سیدناسری بن یحییٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناسید والان بن عیسیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے زمانے کے مشہور اولیاء کرام میں سے تھے ،وہ بہت عبادت گزار شخص تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا:'' ایک مرتبہ میں رات کے پچھلے پہر تہجد کے لئے مسجد میں گیا،اللہ عزوجل نے جتنی تو فیق دی اتنی دیر میں نے نماز پڑھی او رذکر کیا، پھر مجھ پر نیند کا غلبہ ہوگیا ، میں نے خواب دیکھا کہ ایک قافلہ مسجد میںآیا ہے ،اہل قافلہ کے چہرے نہایت حسین وجمیل اور نورانی ہیں،میں نے جان لیا کہ یہ انسان نہیں بلکہ کوئی اور مخلوق ہے۔ ان کے ہاتھوں میں تھال ہیں، جن میں عمدہ آٹے کی برف کی طرح سفیدروٹیاں ہیں،ہر رو ٹی پر انگوروں کی طر ح چھوٹے چھوٹے قیمتی موتی ہیں۔اہل قافلہ میری طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے :'' یہ رو ٹیاں کھالو۔ '' میں نے کہا:'' میرا تو رو زہ ہے۔''تو وہ کہنے لگے:'' یہ مسجد جس کا گھر ہے اس نے حکم دیا ہے کہ تم یہ کھانا کھالو ۔'' میں نے کھانا شرو ع کردیاکہ جب میرا مالک حقیقی عزوجل مجھے حکم دے رہا ہے تو پھر میں کیوں نہ کھاؤں۔ کھانے کے بعد میں نے وہ موتی اٹھانا چاہے تو مجھے کہا گیا : ''انہیں چھوڑ دو،ہم تمہارے لئے ان کے بدلے ایسے درخت لگائیں گے جن کے پھل ان موتیوں سے بہتر ہوں گے ۔''
میں نے کہا :''وہ درخت کہاں لگائے جائیں گے ؟'' کہا گیا :''ایسے گھر میں جو کبھی بر باد نہ ہوگا، اور وہاں ہمیشہ پھل اگتے رہیں گے ،کبھی ختم نہ ہو ں گے اور نہ ہی خراب ہوں گے ، وہ ایسا ملک ہے جو کبھی منقطع نہ ہوگا ، وہاں ایسے کپڑے ہوں گے جو کبھی پرانے نہ ہوں گے ، اس گھر (یعنی جنت )میں خوشی ہی خوشی ہے، میٹھے پانی کے چشمے ہیں،وہاں سکون وآرام ہے اور ایسی پاکباز"
"بیویاں ہیں جو فرمانبر دار، ہمیشہ خوش رہنے والیاں اوردل کو بھانے والی ہیں،وہ نہ تو کبھی ناراض ہوں گی اور نہ ہی ناراض کریں گی۔لہٰذا دنیا میں جتنا ہوسکے تم نیک اعمال کی کثرت کرو۔ یہ دنیا تو نیند کی مانند ہے کہ آنکھ کھلتے ہی رخصت ہوجائے گی ، لہٰذا اس میں جتنا ہوسکے عمل کرواور جلدی سے جنت کی طر ف آجاؤ جہاں دائمی نعمتیں ہیں ۔
پھر میری آنکھ کھل گئی لیکن ابھی تک میرے ذہن میں وہ خواب سمایا ہوا تھا اور میں جلدی جلدی اس گھر (یعنی جنت) میں پہنچنا چاہتا تھاجس کا مجھ سے وعدہ کیا گیا۔
حضرت سیدنا سید سری بن یحییٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:'' اس کے بعدحضرت سیدنا والان بن عیسیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تقریباً پندرہ دن زندہ رہے پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا انتقال ہوگیا ۔ جس رات انتقال ہوا میں نے اسی رات اُن کو خواب میں دیکھا، مجھ سے فرمانے لگے : ''کیاتم ان درختوں کے پھلوں کو دیکھ کر متعجب ہورہے ہوکہ ان میں کیسے کیسے پھل لگے ہوئے ہیں؟'' میں نے پوچھا:'' تمہارے لئے جو درخت جنت میں لگائے گئے ہیں ان میں کس طر ح کے پھل ہیں؟'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا :'' وہ تو ایسے پھل ہیں کہ جن کی تعریف بیان نہیں کی جاسکتی۔''
خدا عزوجل کی قسم! جب کوئی اللہ عزوجل کا مہمان بنتا ہے تو وہ پاک پروردگار عزوجل اس کو ایسی ایسی نعمتیں عطا فرماتا ہے جن کے اوصاف بیان نہیں ہوسکتے ،اس کے کرم کی کوئی انتہا نہیں ،وہ اپنے بندو ں پر بے انتہا کرم فرماتا ہے ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)
( اللہ عزوجل ہم گناہ گارو ں پر بھی اپنا خصوصی کرم فرمائے،اور ہمیں بھی اپنے مدنی حبیب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے ساتھ جنت الفردو س میں جگہ عطا فرمائے )"
حضرت سیدنا محمد بن معاویہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں،ہمیں ہمارے شیخ نے بتایا:'' ایک مرتبہ حضرت سیدنا یونس علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام اور حضرت سیدنا جبریل امین علیہ السلام کی آپس میں ملاقات ہوئی، حضرت سیدنا یونس علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے
"حضرت سیدنا جبریل علیہ السلام سے فرمایا: ''مجھے کسی ایسے شخص کے پاس لے چلو جو زمین میں سب سے بڑا عبادت گزار ہو ۔''چنانچہ حضرت سیدنا جبریل امین علیہ السلام آپ علیہ السلام کو ایک ایسے شخص کے پاس لے گئے جو جذام کا مریض تھا اور اس بیماری کی وجہ سے اس کے ہاتھ پاؤں گل سڑ کر جسم سے جدا ہوگئے تھے، اور وہ صابر وشاکر شخص کہہ رہا تھا:'' اے میرے پاک پروردگار عزوجل!جب تک تو نے چاہا ان اعضاء سے مجھے فائدہ بخشا اور جب تو نے چاہالے لیا ، تیر ا شکر ہے کہ تو نے میری امید صرف اپنی ذات میں باقی رکھی ، اے میرے پروردگار عزوجل !میرا مطلوب تَو بس تُوہی تُو ہے (یعنی میں تیری رضا پر راضی ہوں)
اس شخص کو دیکھ کر حضرت سیدنا یونس علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت سیدنا جبریل امینعلیہ السلام سے فرمایا: ''اے جبریل علیہ السلام!میں نے تو تجھے ایسے شخص کے بارے میں کہا تھا جو بہت زیادہ نماز پڑھنے والا ہو او رخوب روزے رکھنے والا ہو۔'' یہ سن کر جبریل امین علیہ السلام نے کہا:''ان مصیبتوں کے نازل ہونے سے پہلے یہ خوب روزے رکھتا اورخوب نمازیں پڑھتا تھا اور اب مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں اس کی آنکھیں بھی لے لوں۔'' یہ کہہ حضرت سیدنا جبریل امین علیہ السلام نے اس شخص کی آنکھوں کی طرف اشارہ کیا تو اس کی دونوں آنکھیں باہر امنڈ آئیں۔
عابد پھروہی الفاظ دہرانے لگا: ''اے میرے مالک حقیقی عزوجل جب تک تو نے چاہا مجھے ان آنکھوں سے فائدہ بخشا اورجب چاہا لے لیا اور اپنی ذات میں میری محبت کو باقی رکھا( اے مولیٰ تیرا شکر ہے) میرا مطلوب تو بس تو ہی توہے۔
یہ حالت دیکھ کر حضرت سیدنا جبریل امین علیہ السلام نے اس عظیم صابر و شاکر شخص سے کہا:''آؤ، ہم سب مل کر دعا کرتے ہیں کہ اللہ عزوجل تجھے تیری آنکھیں ، اور ہاتھ پاؤں لوٹا دے اور تجھے اس بیماری سے شفاء عطا فرمائے تا کہ تم پہلے کی طرح عبادت کرو اور رو زے رکھو۔'' وہ شخص کہنے لگا :''میں اس بات کو پسند نہیں کرتا۔''
حضرت سیدنا جبریل امین علیہ السلام نے فرمایا :'' آخر کیوں تم اس بات کو پسند نہیں کرتے ؟''وہ عا بد بولا:اگر میرے رب عزوجل کی رضا اسی میں ہے کہ میں بیمار رہوں تو پھر مجھے تندرستی و صحت نہیں چاہے، میں تو اپنے رب عزوجل کی رضا پر راضی ہو ں ، وہ مجھے جس حال میں رکھے میں اسی میں راضی ہوں۔''
؎جے سوہنا میرے دکھ وچ راضی میں سکھ نوں چُلّھے پاواں
اس عابد کی یہ گفتگو سن کر حضرت سیدنا یونس علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا : ''اے جبریل علیہ السلام! واقعی میں نے آج تک اس سے بڑھ کر کوئی عبادت گزار شخص نہیں دیکھا۔
حضر ت سیدنا جبریل علیہ السلام نے کہا :''یہ ایسا عظیم راستہ ہے کہ رضائے الٰہی عزوجل کے حصول کے لئے اس سے افضل"
"کوئی اور راستہ نہیں۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)"
" حضرت سیدنا سعید بن مُسَیب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:'' ایک مرتبہ حضرت سیدنا لقمان حکیم علیہ رحمۃ اللہ الرحیم نے اپنے بیٹے کو (نصیحت کرتے ہوئے )فرمایا: ''اے میرے پیارے بیٹے! جب بھی تجھے کوئی مصیبت پہنچے تو تُواسے اپنے حق میں بہتر جان اور یہ بات دِل میں بٹھالے کہ میرے لئے اسی میں بھلائی ہے اگر چہ بظاہر وہ مصیبت ہی نظر آرہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ تیرے حق میں بہتر ہوگی۔''
یہ سن کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا بیٹاکہنے لگا : ''جو کچھ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایامیں نے اس کو سن لیا او راس کا مطلب بھی سمجھ لیا لیکن یہ بات میرے بس میں نہیں کہ میں ہر مصیبت کو اپنے لئے بہتر سمجھوں ، میرا یقین ابھی اتنا پختہ نہیں ہوا ۔''
جب حضرت سیدنا لقمان حکیم علیہ رحمۃ اللہ الرحیم نے اپنے بیٹے کی یہ بات سنی تو فرمایا:'' اے میرے بیٹے ! اللہ عزوجل نے دنیامیں وقتاََ فوقتاََ انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام مبعوث فرمائے ، ہمارے زمانے میں بھی اللہ عزوجل نے نبی علیہ السلام مبعوث فرمایا ہے آؤ، ہم اس نبی علیہ السلام کی صحبت بابر کت سے فیضیاب ہونے چلتے ہیں ،ان کی باتیں سن کر تیرے یقین کو تقویت حاصل ہو گی۔'' آ پ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا بیٹااللہ عزوجل کے نبی علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہونے کے لئے تیار ہوگیا ۔
چنانچہ ان دونوں نے اپنا سامانِ سفر تیار کیا، اور خچروں پر سوار ہو کر اپنی منزل کی طر ف روانہ ہوگئے ۔ کئی دن ،رات انہوں نے سفر جاری رکھا، راستے میں ایک ویران جنگل آیا وہ اپنے سامان سمیت جنگل میں داخل ہوگئے ،اللہ تعالیٰ نے ان کو جتنی ہمت دی اتنا انہوں نے جنگل میں سفر کیا ، پھر دو پہر ہوگئی ، گرمی اپنے زور پر تھی، گرم ہوائیں چل رہی تھیں ، دریں اثناء ان کا پانی اور کھانا وغیرہ بھی ختم ہوگیا ، خچر بھی تھک چکے تھے،پیاس کی شدت سے وہ بھی ہانپنے لگے، یہ دیکھ حضرت لقمان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور آپ کا بیٹا خچروں سے نیچے اتر آئے اورپیدل ہی چلنے لگے۔ چلتے چلتے حضرت سیدنا لقمان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو بہت دور ایک سایہ اور دھواں سا نظر آیا، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے گمان کیا کہ وہاں شاید کوئی آبادی ہے ، اور یہ کسی درخت وغیرہ کاسایہ ہے، چنانچہ آپ"
"رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اسی طرف چلنے لگے ۔راستے میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے بیٹے کو ٹھوکر لگی اور اس کے پاؤں میں ایک ہڈی اس طرح گھسی کہ وہ پاؤں کے تلوے سے پار ہوکر ظاہر قدم تک نکل آئی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کابیٹادرد کی شدت سے بے ہوش ہو کر زمین پر گرپڑاآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اسے اپنے سینے سے چمٹا لیا،پھر اپنے دانتوں سے ہڈّی نکالنے لگے۔ کافی مشقت کے بعد بالآخر وہ ہڈی نکل گئی۔
بیٹے کی یہ حالت دیکھ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ شفقت پدرانہ کی وجہ سے رونے لگے۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے عمامے سے کچھ کپڑا پھاڑا اور اسے زخم پر باندھ دیا۔حضرت لقمان علیہ رحمۃ الرحمن کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو جب اُن کے بیٹے کے چہرے پر گرے تو اسے ہوش آگیا، جب اس نے دیکھا کہ میرے والد رورہے ہیں توکہنے لگا: ''اے ابا جان !آپ تو مجھ سے فرما رہے تھے کہ ہر مصیبت میں بھلائی ہے ۔لیکن اب میر ی اس مصیبت کو دیکھ کر آپ رونے کیوں لگے ؟'' اور یہ مصیبت میرے حق میں بہتر کس طر ح ہوسکتی ہے ؟حالانکہ ہماری کھانے پینے کی تمام اشیاء ختم ہوچکی ہیں ، اور ہم یہاں اس ویران جنگل میں تنہا رہ گئے ہیں، اگر آپ مجھے یہیں چھوڑ کر چلے جائیں گے تو آپ کو میری اس مصیبت کی وجہ سے بہت رنج وغم لاحق رہے گا ، اور اگر آپ یہیں میرے ساتھ رہیں گے تو ہم دو نوں یہاں اس ویرانے میں بھوکے پیاسے مر جائیں گے ، اب آپ خودہی بتائیں کہ اس مصیبت میں میرے لئے کیا بہتری ہے ؟''
بیٹے کی یہ باتیں سن کر حضرت سیدنالقمان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' اے میرے بیٹے! میرا رونا اس وجہ سے تھا کہ میں ایک باپ ہوں اور ہرباپ کااپنی اولاد کے دکھ درد کی وجہ سے غمگین ہوجانا ایک فطر ی عمل ہے، باقی رہی یہ بات کہ اس مصیبت میں تمہارے لئے کیا بھلائی ہے؟تو ہو سکتا ہے اس چھوٹی مصیبت میں تجھے مبتلا کر کے تجھ سے کوئی بہت بڑی مصیبت دو ر کردی گئی ہو ، اور یہ مصیبت اس مصیبت کے مقابلے میں چھوٹی ہو جو تجھ سے دور کر دی گئی ہے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا بیٹا خاموش ہوگیا ۔
پھر حضرت سیدنا لقمان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے سامنے نظر کی تو اب وہا ں نہ تو دھواں تھا اور نہ ہی سایہ وغیرہ ، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ دل میں کہنے لگے :''میں نے ابھی تو اس طر ف دھواں او رسایہ دیکھا تھا لیکن اب وہ کہاں غائب ہوگیا ، ہوسکتا ہے کہ ہمارے پروردگارعزوجل نے ہماری مدد کے لئے کسی کو بھیجا ہو ،ابھی آپ اسی سوچ بچار میں تھے کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو دور ایک شخص نظر آیا جو سفید لباس زیب تن کئے، سفید عمامہ سر پر سجائے، چتکبرے گھوڑے پر سوار آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی طرف بڑی تیزی سے بڑھا چلاآرہا ہے، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس سوار کو اپنی طرف آتا دیکھتے رہے یہاں تک کہ وہ آپ کے بالکل قریب ہوگیا ،پھر وہ سوار اچانک نظروں سے اوجھل ہوگیا۔"
" پھر ایک آواز سنائی دی:''کیا تم ہی لقمان ہو؟ ''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا : ''جی ہاں! میں ہی لقمان ہوں۔'' پھر آواز آئی:'' کیا تم حکیم ہو ؟''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' مجھے ہی لقمان حکیم کہا جاتاہے۔'' پھر آواز آئی:'' تمہارے اس نا سمجھ بیٹے نے تم سے کیا کہا ہے ؟'' حضرت سیدنا لقمان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' اے اللہ عزوجل کے بندے! تو کون ہے ؟ہمیں صرف تیری آواز سنائی دے رہی ہے اور توخود نظر نہیں آرہا۔'' پھر آواز آئی:''میں جبرائیل (علیہ السلام) ہوں او رمجھے صرف انبیاء کرام علیہم السلام اور مقر ّب فر شتے ہی دیکھ سکتے ہیں، اس وجہ سے میں تجھے نظر نہیں آرہا ،سنو!میرے رب عزوجل نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں فلاں شہر اور اس کے آس پاس کے لوگو ں کو زمین میں دھنسا دو ں۔ مجھے خبر دی گئی کہ تم دونوں بھی اس شہر ہی کی طر ف آرہے ہو تومیں نے اپنے پاک پروردگار عزوجل سے دعا کی کہ وہ تمہیں اس شہر میں جانے سے روکے۔ لہٰذا اس نے تمہیں اس آزمائش میں ڈال دیاا ور تیرے بیٹے کے پاؤں میں ہڈی چبھ گئی، اس طرح تم اس چھوٹی مصیبت کی و جہ سے ایک بہت بڑی مصیبت (یعنی زمین میں دھنسنے ) سے بچ گئے ہو ۔''
پھر حضرت سیدنا جبرائیل علیہ السلام نے اپنا ہاتھ اس زخمی لڑکے کے پاؤں پر پھیراتو اس کا زخم فوراً ٹھیک ہوگیا۔ پھر آپ علیہ السلام نے اپنا ہاتھ اس بر تن پر پھیرا جس میں پانی بالکل ختم ہوچکا تھا تو ہاتھ پھیر تے ہی وہ بر تن پانی سے بھر گیا اور جب کھانے والے بر تن پر ہاتھ پھیرا تو وہ بھی کھانے سے بھر گیا ۔ پھر حضرت سیدنا جبرائیل علیہ السلام نے حضرت سیدنا لقمان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ، آپ کے بیٹے اور آپ کی سواریوں کو سامان سمیت اٹھایا اور کچھ ہی دیر میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے بیٹے اور سارے سامان سمیت اپنے گھر میں موجود تھے حالانکہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا گھر اس جنگل سے کافی دن کی مسافت پر تھا ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)
(اے ہمارے پاک پروردگارعزوجل!ہم سے ہماری تمام مصیبتیں دورفرمادے ، ہم پر آنے والی بلاؤں کو شہیدِ کر بلا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صدقے ردّ فرما دے۔ ہمیں اپنے فضل و کرم سے مصائب پر صبر کرنے کی توفیق عطا فرمااور بے صبری سے بچا)
؎ یاالٰہی عزوجل ہرجگہ تیری عطاکاساتھ ہو جب پڑے مشکل ،شہ مشکل کشاکاساتھ ہو
اور...........اے اللہ عزوجل!
مشکلیں حل کر شہ مشکل کشا کے واسطے کر بلائیں رد شہید کربلا کے واسطے"
" حضرت سیدنایوسف بن حسین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:''میں نے حضرت سیدنا ذوالنون مصری علیہ رحمۃاللہ القوی کو یہ فرماتے ہوئے سنا :''ایک مرتبہ میں لبنان کی پہاڑیوں میں رات کے وقت سفر پر تھا، چلتے چلتے مجھے ایک درخت نظر آیا جس کے قریب ایک خیمہ نما جھونپڑی تھی۔ یکایک اس جھونپڑی سے ایک حسین وجمیل نوجوان نے اپنا چاندجیسا نورانی چہرہ باہر نکالا اور کہنے لگا:''اے میرے پروردگار عزوجل! میرا دل ہر حال میں (چاہے خوشی ہو یا غمی) اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ تیری ہی ذات ایسی ہے جو تمام صفاتِ کمالیہ سے متّصف ہے (یعنی تمام فضیلتیں اور عظمتیں تیرے ہی لئے ہیں)میرا دل اس بات کی گواہی کیوں نہ دے ، حالانکہ میرے دل میں تیرے سوا اور کسی کی محبت سمائی ہی نہیں، میں تو بس تجھ ہی سے محبت کرتا ہوں، افسوس ! صد ہزار افسوس! ان لوگو ں پر جنہوں نے تجھ سے محبت نہ کی،اور کوتا ہی کرتے رہے۔''
پھر اس نوجوان نے اپنا نورانی چہرہ جھونپڑی میں داخل کرلیا۔ میں اس کی باتیں سن کر بڑا حیران ہوا، میں وہیں حیران وپریشان کھڑا رہا یہاں تک کہ فجر کا وقت ہوگیا ، اس نوجوان نے پھراپنا نور بار چہرہ جھونپڑی سے باہر نکالا، اور چاند کی طر ف دیکھتے ہوئے کہنے لگا:'' اے میرے معبودِحقیقی عزوجل!تیرے ہی نور سے زمین وآسمان روشن ہیں، تیرا ہی نور اندھیروں کو ختم کرتا ہے اوراسی سے ہر جگہ اُجالاہوتا ہے، اے میرے پاک پروردگار عزوجل! تیرا جلوہ ہماری آنکھوں سے حجاب میں ہے، اور تیری معرفت اہلِ معرفت کو حاصل ہوتی ہے، اے میرے رحیم وکریم مالک عزوجل! میں اس رنج وغم کی حالت میں صرف تجھ ہی سے التجاء کرتا ہوں کہ تو مجھ پر کرم کی ایسی نظر فرما جیسی اپنے فرمانبردار بندوں پر ڈالتا ہے۔
حضرت سیدنا ذوالنون مصری علیہ رحمۃاللہ القوی فرماتے ہیں: ''جب میں نے نوجوان کی یہ باتیں سنیں، تو مجھ سے نہ رہا گیا اور میں اس کے پاس گیااسے سلام کیا، اس نے جواب دیا، میں نے کہا:''اے نوجوان !اللہ عزوجل تجھ پر رحم فرمائے ،میں تجھ سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں۔''نوجوان نے کہا:''نہیں،تومجھ سے سوال نہ کر۔'' میں نے کہا :''تو مجھے سوال کرنے سے کیوں منع کر رہا ہے؟'' اس نے کہا :''اس لئے کہ ابھی تک میرے دل سے تیرا رعب نہیں نکلا، میں ابھی تک تجھ سے خوفزدہ ہوں۔'' میں نے کہا: ''اے نیک سیرت نوجوان! میں نے ایسی کونسی حرکت کی جس نے تجھے خوفزدہ کردیا ہے؟'' وہ نوجوان کہنے لگا:'' تم کام (یعنی عبادت)کے دنوں میں بے کار پھر رہے ہو، او رآخرت کی تیاری کے لئے کچھ بھی عمل نہیں کر رہے، اے ذوالنون مصری علیہ رحمۃاللہ القوی تم نے صرف اچھے گمان پر تکیہ کیا ہوا ہے ۔''
حضرت سیدنا ذوالنون مصری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:''میں اس نوجوان کی یہ باتیں سن کر بے ہوش ہوگیا اور زمین پر"
"گر پڑا، میں کافی دیر بے ہوش رہا، پھر سورج کی تیز دھوپ کی وجہ سے مجھے ہوش آیا ،میں نے اپنا سر اٹھا کر دیکھا تو بڑا حیران ہوا کہ اب میرے سامنے نہ تو کوئی درخت ہے نہ جھونپڑی اور نہ ہی وہ نوجوان۔ یہ سب چیزیں نہ جانے کہا ں غائب ہوگئیں،میں کافی دیر اسی طرح حیران وپریشان وہاں کھڑا رہا، اس نوجوان کی باتیں اب تک میرے دل ودماغ میں گھوم رہی ہیں ، پھر میں اپنے سفر پر روانہ ہوگیا۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)
(اے ہمارے پاک پروردگار عزوجل! ہمیں بھی ہر وقت اپنے جلووں میں گم رہنے کی توفیق عطا فرما ، فکر دنیا سے بچا کر فکر آخرت نصیب فرما ، اوراپنی محبت کا ایسا جام پلا کہ ہم ہروقت تیرے جلووں میں ایسے گم ہو جائیں کہ ہمیں اپنا بھی ہوش نہ رہے)"
حضرت سیدنا جریرعلیہ رحمۃ اللہ القدیرحضرت سیدنا لیثرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے روایت کرتے ہیں:'' ایک مرتبہ حضرت سیدنا عیسیٰ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃوالسلام سفر پر روانہ ہوئے، راستے میں ایک شخص ملا، اس نے عرض کی :'' حضور! مجھے بھی اپنی بابرکت صحبت میں رہنے کی اجازت عطافرمادیں ،میں بھی آپ علیہ السلام کے ساتھ سفر کرنا چاہتا ہوں۔'' آپ علیہ السلام نے اسے اپنی ہمراہی کی اجازت عطا فرمادی اور دونوں ایک ساتھ سفر کرنے لگے۔ راستے میں ایک پتھر کے قریب آپ علیہ السلام نے فرمایا : ''آؤ ہم یہاں کھانا کھالیتے ہیں۔'' چنانچہ دونوں کھاناکھانے لگے، آپ علیہ السلام کے پاس تین روٹیاں تھیں ، ایک ایک روٹی دونوں نے کھالی، اور تیسری رو ٹی بچی رہی۔ آپ علیہ السلام رو ٹی کو وہیں چھوڑکرنہر پر گئے اور پانی پیا، پھر جب واپس آئے تو دیکھا کہ رو ٹی غائب ہے، آپ علیہ السلام نے اس شخص سے پوچھا:'' تیسری روٹی کہا ں گئی ؟ اس نے کہا:مجھے معلوم نہیں،پھر آپ علیہ السلام نے فرمایا:'' آؤ ہم اپنے سفر پر چلتے ہیں۔'' وہ شخص اٹھا اور آپ علیہ السلام کے ساتھ چلنے لگا، راستے میں ایک ہرنی اپنے دو خوبصورت بچو ں کے ساتھ کھڑی تھی، آپ علیہ السلام نے ہرنی کے ایک بچے کو اپنی طرف بلایا تو وہ آپ علیہ السلام کا حکم پاتے ہی فوراً حاضر خدمت ہوگیا،
"آپ علیہ السلام نے اسے ذبح کیا، اسے بھونااور دونوں نے اس کا گوشت کھایا، پھر آپ علیہ السلام نے اس کی ہڈیاں ایک جگہ جمع کیں اور فرمایا:''اللہ عزوجل کے حکم سے کھڑا ہوجا، یکایک وہ ہڈیاں دو بارہ ہرنی کا بچہ بن گئیں اور وہ بچہ اپنی ماں کی طرف روانہ ہوگیا، آپ علیہ السلام نے اس شخص سے فرمایا:''اے شخص! تجھے اس ذات کی قسم! جس نے تجھے میرے ہاتھوں یہ معجزہ دکھایا ،تو سچ سچ بتا کہ وہ روٹی کس نے لی تھی ؟ وہ شخص بولا: ''مجھے معلوم نہیں کہ روٹی کس نے لی تھی؟'' آپ علیہ السلام اس شخص کو لے کردو بارہ سفر پر روانہ ہوئے، راستے میں ایک دریا آیا آپ علیہ السلام نے اس شخص کا ہاتھ پکڑا اور اسے لے کر پانی پر چلتے ہوئے دریا پار کرلیا ،پھر آپ علیہ السلام نے اس سے فرمایا:'' تجھے اس پاک پروردگار عزوجل کی قسم !جس نے تجھے میرے ہاتھوں یہ معجزہ دکھایا سچ سچ بتاکہ تیسری روٹی کس نے لی تھی ؟'' اس نے پھر وہی جواب دیا کہ مجھے معلوم نہیں۔ آپ علیہ السلام اس شخص کو لے کر آگے بڑھے، راستے میں ایک ویران صحراء آگیا۔ آپ علیہ السلام نے اس سے فرمایا:''بیٹھ جاؤ، پھر آپ علیہ السلام نے کچھ ریت جمع کی اور فرمایا:'' اے ریت ! اللہ عزوجل کے حکم سے سونا بن جا تووہ ریت فوراً سونے میں تبدیل ہوگئی ۔آپ علیہ السلا م نے اس کے تین حصے کئے اور فرمایا:'' ایک حصہ میرا دوسرا تیرا اور تیسرا حصہ اس کے لئے ہے جس نے وہ روٹی لی تھی، یہ سن کر وہ شخص بولا: ''وہ روٹی میں نے ہی چھپائی تھی۔''
حضرت سیدنا عیسیٰ علیٰ نبیناوعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس شخص سے فرمایا: ''یہ تینوں حصے تم ہی لے لو۔'' اتنا کہنے کے بعدآپ علیہ السلام اس شخص کو وہیں چھوڑ کر آگے روانہ ہوگئے۔ وہ اتنا زیادہ سونا ملنے پر بہت خوش ہوا، او راس نے وہ سارا سونا اٹھالیا اتنے میں وہاں دو اور شخص پہنچے جب انہوں نے دیکھا کہ اس ویرانے میں اکیلا شخص ہے اور اس کے پا س بہت سا سونا ہے تو انہوں نے ارادہ کیا کہ ہم اس شخص کو قتل کردیتے ہیں او ر اس سے سونا چھین لیتے ہیں جب وہ اسے قتل کرنے کے لئے آگے بڑھے تو اس شخص نے کہا :''تم مجھے قتل نہ کرو بلکہ ہم اس سونے کو باہم تقسیم کرلیتے ہیں ، اس پر وہ دونوں شخص قتل سے باز رہے اور اس بات پر راضی ہوگئے کہ ہم یہ سونا برابر برابر تقسیم کرلیتے ہیں ، پھر اس شخص نے کہا :'' ایسا کرتے ہیں کہ ہم میں سے ایک شخص جاکر قریبی بازار سے کھانا خریدلائے کھانا کھانے کے بعد ہم یہ سونا باہم تقسیم کرلیں گے ۔چنانچہ ان میں سے ایک شخص بازار گیاجب اس نے کھانا خریداتو اس کے دل میں یہ شیطانی خیال آیا کہ میں اس کھانے میں زہر ملادیتا ہوں جیسے ہی وہ دونوں اسے کھائیں گے تو مرجائیں گے اور سارا سونا میں لے لوں گا، چنانچہ اس نے کھانے میں زہر ملا دیا اور اپنے ساتھیوں کی طرف چل دیا، وہاں ان دونوں کی نیّتوں میں بھی سونا دیکھ کر فتور آگیا اور انہوں نے باہم مشورہ کیا کہ جیسے ہی ہمارا تیسرا ساتھی کھانالے کر آئے گا ہم اسے قتل کر دیں گے اورسونا ہم دونوں آپس میں بانٹ لیں گے ، چنانچہ جیسے ہی وہ کھانا لے کر ان کے پاس پہنچا ان دونوں نے اسے قتل کردیا اور بڑے مزے سے زہر ملا کھانا کھانے لگے ،کچھ ہی دیر بعد زہر نے اپنا اثر دکھایا اور وہ دونوں بھی وہیں ڈھیر ہوگئے اور سونا ویسے ہی"
"وہاں پڑا رہا۔
کچھ عرصہ بعد حضرت سیدناعیسیٰ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام دوبارہ وہیں سے گزرے تو دیکھا کہ سونا وہیں موجود ہے اور وہاں تین لاشیں پڑی ہیں۔ آپ علیہ السلام نے یہ دیکھ کر لوگو ں سے فرمایا:'' یہ دنیا ایک دھوکا ہے لہٰذا اس سے بچو (یعنی جو اس کے لالچ میں پھنسا وہ ہلاک ہوگیا)
(اے ہمارے پاک پرورد گار عزوجل !ہمیں دنیاکے لالچ سے بچا کر اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا سچّاعشق عطا فرما اور مال کے وبال سے بچا)"
آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم
" حضرت سیدنا ابو الحسن فقیہہ صفار علیہ رحمۃاللہ الغفّار فرماتے ہیں:''ہم مشہورمحدث حضرت سیدنا حسن بن سفیان النسوی علیہ رحمۃاللہ القوی کی خدمت بابرکت میں رہا کرتے تھے، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی علمیت کا ڈنکا ملک بھر میں بج رہاتھا، لوگ تحصیلِ علم کے لئے دور دراز سے سفر کرکے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں حاضرہوتے اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے احادیث سن کرلکھ لیتے، الغرض آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے دور کے مشہورومعروف محدث اورفقیہہ تھے اور آپ کے کاشانہ اطہر پر طالب علموں کا ہجوم لگا رہتا اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ان علم دین کے متوالوں کو احادیث مبارکہ لکھو اتے اورانہیں فقہ کے مسائل سے آگا ہ کرتے ۔
ایک مرتبہ جب ہم آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی مجلس ِعلم میں حاضر ہوئے تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حدیث لکھوانے کی بجائے لوگو ں سے فرمایا:'' پہلے آج تم لوگ توجہ سے میری بات سنو اس کے بعد تمہیں حدیث لکھواؤں گا، تمام لوگ بڑی توجہ سے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بات سننے لگے ، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ''اے دین کا علم سیکھنے کے لئے دور دراز سے سفر کی صعوبتیں اور تکالیف جھیل کر آنے والو! بے شک میں جانتا ہوں کہ تم خوب ناز ونعم میں پلے ہو اور اہلِ فضیلت میں سے ہو، تم نے دین کی خاطر"
"اپنے اہل وعیال او ر وطنوں کو چھوڑا(یہ یقینا تمہاری قربانی ہے) لیکن خبر دار! تمہارے دل میں ہر گز یہ خیال نہ آئے کہ تم نے جو سفر کی مشقتیں اور تکالیف بر داشت کی ہیں اور حصولِ علم دین کے لئے اپنے اہل وعیال سے دوری اختیار کی ہے اور بہت سی خواہشوں کوقربان کیا مگر ان تمام مشکلات پر صبر کر کے تم نے علم دین سیکھنے کا حق ادا نہیں کیاکیونکہ تمہاری تکلیفیں دین کی راہ میں بہت کم ہیں۔ آؤ میں تمہیں اپنے زمانہ طالب علمی کی کچھ تکالیف سناتا ہوں تا کہ تمہیں بھی تکالیف پر صبر کرنے کی ہمت ورغبت ملے۔
سنو! جب مجھے علم دین سیکھنے کا شوق ہوا تو اس وقت میں عالمِ شباب میں تھا، میری شدید خواہش تھی کہ میں حدیث وفقہ کا علم حاصل کر وں۔ چنانچہ ہم چند دوست حصول ِعلم دین کے لئے مصر کی طرف روانہ ہوئے اورہم نے ایسے اساتذہ اور محدثین کی تلاش شرو ع کردی جو اپنے دور کے سب سے زیادہ ماہر حدیث اور سب سے بڑے فقیہہ اور حافظ الحدیث ہوں، بڑی تلاش کے بعد ہم اس زمانے کے سب سے بڑے محدث کے پاس پہنچے وہ ہمیں روزانہ بہت کم تعداد میں ا حادیث اِملاء کرواتے (یعنی لکھواتے) وقت گزر تا رہا یہاں تک کہ مدت طویل ہوگئی اور ہمارا ساتھ لایا ہوا نان ونفقہ بھی ختم ہونے لگا۔ جب سب کھانا وغیرہ ختم ہوگیا تو ہم نے اپنے زائد کپڑے اور چادریں وغیرہ فروخت کیں اور کچھ کھانا وغیرہ خریدا پھر جب وہ بھی ختم ہوگیا تو فاقوں کی نوبت آگئی۔ ہم سب دوست ایک مسجد میں رہا کرتے تھے، کوئی ہماری مشقتو ں اور تکالیف سے واقف نہ تھا اور نہ ہی ہم نے کبھی اپنی تنگدستی اور غربت کی کسی سے شکایت کی، ہم صبر وشکر سے علمِ دین حاصل کرتے رہے، اب ہمارے پاس کھانے کو کچھ بھی نہ رہا بالآخر ہم نے تین دن اور تین راتیں بھوک کی حالت میں گزار دیں۔ ہماری کمزوری اتنی بڑھ گئی کہ ہم حرکت بھی نہ کرسکتے تھے۔ چوتھے دن بھوک کی وجہ سے ہماری حالت بہت خراب تھی ،ہم نے سوچاکہ اب ہم ایسی حالت کو پہنچ چکے ہیں کہ ہمیں سوال کرنا جائز ہے کیوں نہ ہم لوگوں سے اپنی حاجت بیان کریں تا کہ ہمیں کچھ کھانے کو مل جائے لیکن ہماری خودداری اور عزت نفس نے ہمیں اس پرآمادہ نہ ہونے دیاکہ ہم لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائیں اور اپنی پریشانی ان پر ظاہر کریں، ہم میں سے ہر شخص اس بات سے انکار کرنے لگا کہ وہ لوگو ں کے سامنے ہاتھ پھیلائے لیکن حالت ایسی تھی کہ ہم سب قریب المرگ تھے اور مجبور ہو گئے تھے۔ چنانچہ یہ طے پایا کہ ہم قرعہ ڈالتے ہیں جس کانام آگیا وہی سب کے لئے لوگو ں سے کھانا طلب کریگا تا کہ ہم اپنی بھوک ختم کرسکیں جب سب کے نام لکھ کر قرعہ ڈالا گیا توقرعہ میرے نام نکلا، چنانچہ میں بادِلِ نخواستہ لوگوں سے اپنی حاجت بیان کرنے کے لئے تیار ہوگیا لیکن میری غیرت اس بات کی اجازت نہ دے رہی تھی پس میں عزت نفس کی وجہ سے لوگوں کے پاس مانگنے کے لئے نہ جاسکا اور میں نے مسجد کے ایک کونے میں جا کر نماز پڑھنا شروع کردی اوربہت طویل دو رکعت نماز پڑھی پھر اللہ عزوجل سے اس کے پاکیزہ اور بابرکت ناموں کے وسیلے سے دعا کی کہ وہ ہم سے اس پریشانی اور تکلیف کو دور کردے اور ہمیں"
"اپنے علاوہ کسی کا محتاج نہ بنائے۔ ابھی میں دعا سے فارغ بھی نہ ہوا تھا کہ مسجد میں ایک حسین وجمیل نوجوان داخل ہوا ۔اس نے نہایت عمدہ کپڑے پہنے تھے، اس کے ساتھ ایک خادم تھا جس کے ہاتھ میں رومال تھا۔ اس نوجوان نے مسجد میں داخل ہوتے ہی پوچھا:'' تم میں سے حسن بن سفیان(رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) کون ہے ؟ یہ سن کر میں نے سجدے سے سر اٹھایا اور کہا:''میرانام حسن بن سفیان ہے، تمہیں مجھ سے کیا کام ہے ؟'' وہ نوجوان بولا:''ہمارے شہر کے حاکم ''طولون'' نے تمہیں سلام بھیجا ہے اور وہ اس بات پر معذرت خواہ ہے کہ تم ایسی سخت تکلیف میں ہو اوراسے معلوم ہی نہیں کہ تمہاری حالت فاقوں تک پہنچ چکی ہے، ہمارا حاکم اپنی اس کوتاہی پر آپ لوگوں سے معافی کاطلبگار ہے،اس نے آپ کے لئے یہ کھانا بھجوایا ہے،کل وہ خود آپ لوگوں کی خدمت میں حاضر ہوکر معذرت کریگا، برائے کرم! آپ یہ کھانا قبول فرما لیں، پھر اس نوجوان نے کھانا اور کچھ تھیلیاں ہمارے سامنے رکھیں جن میں ہم سب احباب کے لئے ایک ایک سو دینار تھے ، ہم سب یہ دیکھ کر بہت حیران ہوئے۔
میں نے اس نوجوان سے کہا: ''یہ سب کیا قصہ ہے او رتمہارے حاکم کو ہمارے بارے میں کس نے خبر دی ہے؟''تووہ نوجوان کہنے لگا:''میں اپنے حاکم کا خادم خاص ہوں۔آج صبح جب میں اس کی محفل میں گیا تو اس کے پاس اور بھی بہت سے خدام اور درباری موجود تھے ، کچھ دیر بعد ہمارے حاکم''طولون'' نے کہا:'' میں کچھ دیر خلوت چاہتا ہوں لہٰذا تم سب یہاں سے چلے جاؤچنا نچہ ہم سب اسے تنہا چھوڑکر اپنے اپنے گھروں کی طر ف پلٹ گئے ،میں گھر پہنچا اور ابھی میں بیٹھا بھی نہ تھا کہ امیر طولون کا قاصد میرے پاس آیا، اس نے آتے ہی کہا :'' تمہیں امیر طولون بلا رہے ہیں، جتنا جلدی ہوسکے ان کی بارگاہ میں حاضرہوجاؤ ۔''میں بہت حیران ہوا کہ ابھی تو وہاں سے آیاہوں پھر ایسی کیا بات ہوگئی کہ مجھے طلب کیا گیا ہے بہر حال میں جلدی سے حاضر دربار ہوا جب میں اس کے کمرے میں پہنچا تو دیکھا کہ وہ اکیلا ہی کمرے میں موجود ہے۔ اس نے اپنا دایاں ہاتھ اپنے پہلو پر رکھا ہوا ہے اور شدید تکلیف کی حالت میں ہے۔ امیر طولون کے پہلو میں شدید درد ہو رہا تھاجیسے ہی میں ان کے پاس پہنچا تو مجھ سے کہنے لگے:''کیا تم حسن بن سفیان اور ان کے رفیق طلبا ء کو جانتے ہو ؟'' میں نے عرض کی:'' نہیں۔''
توکہنے لگے:''فلاں محلہ کی فلاں مسجد میں جاؤ، یہ کھانا اور رقم بھی لے جاؤ اور بصد احترام ان لوگوں کی بارگاہ میں پیش کرنا، وہ دین کے طالب علم تین دن اورتین راتوں سے بھوکے ہیں،او رمیری طرف سے ان سے معذرت کرنا کہ میں ان کی حالت سے ناواقف رہا حالانکہ وہ میرے شہر میں تھے میں اپنی اس حرکت پر بہت شرمندہ ہوں،کل میں خود ان کی بارگاہ میں حاضر ہو کر معافی مانگوں گا۔''اس نوجوان نے ہمیں بتایاکہ جب میں نے امیر طولون سے یہ باتیں سنیں تو میں نے عرض کی :''حضور! آخر کیا واقعہ پیش آیا ہے اور آپ کو یہ کمر کی تکلیف یکدم کیسے ہوگئی حالانکہ ابھی تھوڑی دیر پہلے آپ بالکل ٹھیک ٹھاک تھے؟''"
" امیر طولون نے مجھے بتاياکہ ''جب تم لوگ یہاں سے چلے گئے تو میں آرام کے لئے اپنے بستر پر لیٹا،ابھی میری آنکھیں بند ہی ہوئی تھیں کہ میں نے خواب میں ایک شہسوار کو دیکھا جو ہوا میں اس طرح اڑتاآرہا تھا جیسے کوئی شہسوار زمین پر چلتا ہے، اس کے ہاتھ میں ایک نیزہ تھا ۔مجھے اس کی یہ حالت دیکھ کر بڑا تعجب ہوا ، وہ اڑتا ہوا میرے دروازے پر آیا پھر گھوڑے سے اترا اور نیزے کی نوک میرے پہلو میں رکھ دی اور کہنے لگا:'' فوراً اُٹھو اور حسن بن سفیان اور ان کے رفقاء کو تلاش کرو، جلدی اُٹھو ، جلدی کرو ، وہ دین کے طلبا ء راہِ خدا عز وجل کے مسافر تین دن سے بھوکے ہیں اور فلاں مسجد میں قیام فرماہیں۔''
میں نے اس پر اسرار شہسوار سے پوچھا: ''آپ کون ہیں ؟'' اس نے کہا:'' میں جنت کے فرشتو ں میں سے ایک فرشتہ ہوں ،اور تمہیں ان دین کے طلباء کی حالت سے خبردار کرنے آیا ہوں، فوراً ان کی خدمت کا انتظام کرو۔'' اتنا کہنے کے بعد وہ سوار میری نظر وں سے اوجھل ہوگیا اور میری آنکھ کھل گئی بس اس وقت سے میرے پہلومیں شدید درد ہو رہا ہے۔ تم جلدی کرو اور یہ سارا مال اور کھانا وغیرہ لے کران دین کے طلبا ء کی خدمت میں پیش کر دو تاکہ مجھ سے یہ تکلیف دور ہوجائے۔
حضرت سیدنا حسن بن سفیان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:'' اس نوجوان سے یہ باتیں سن کر ہم سب بڑے حیران ہوئے اور اللہ عزوجل کا شکر ادا کیا اور اس رحیم وکریم مالک کی عطا پر سربسجود ہوگئے ۔
پھر ہم سب دوستوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ابھی رات ہی کو ہمیں اس جگہ سے کوچ کرجاناچاہے ورنہ ہمارا واقعہ لوگو ں میں مشہور ہوجائے گا اور حاکم شہر ہماری حالت سے واقف ہو کر ہمارا ادب واحترام کریگا ،اس طرح لوگو ں میں ہماری نیک نامی ہوجائے گی، ہوسکتا ہے پھر ہم ریا کاری او رتکبر کی آفت میں مبتلا ہوجائیں۔ ہمیں لوگو ں سے عزت افزائی نہیں چاہے، ہمیں تو اپنے رب عزوجل کی خوشنودی چاہے۔ ہم اپنا عمل صرف اپنے مالک حقیقی کے لئے ہی کرنا چاہتے ہیں، لوگو ں کے لئے ہم عمل کرتے ہی نہیں اور نہ ہی ہمیں یہ بات پسند ہے کہ ہمارے اعمال سے لوگ واقف ہوں۔ چنانچہ ہم سب دوستوں نے راتوں رات وہاں سے سفر کیا، اس علاقے کوخیر باد کہا ،اور ہم مختلف علاقوں میں چلے گئے۔علمِ دین کی راہ میں ایسی مشقتوں اور تکالیف پر صبروشکر کرنے کی وجہ سے ہم میں سے ہر ایک اپنے دور کا بہترین محدث اور ماہر فقیہہ بنا اور علم دین کی بر کت سے ہمیں بارگاہ خداوندی عزوجل میں اعلیٰ مقام عطا کیا گیا۔اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ حَمْدًاکَثِیْرًا۔
پھر جب صبح امیر طولون اس محلے میں آیا اور اسے معلوم ہوا کہ ہم یہاں سے جاچکے ہیں تو اس نے اس تمام محلے کو خریدا اور وہاں ایک بہت بڑا جامعہ بنواکراسے ایسے طالب علموں کے لئے وقف کردیا جووہاں دین کا علم سیکھیں، پھر اس نے تمام طلباء کی خوراک اور دیگر ضروریات اپنے ذمہ لے لیں اور سب کی کفالت خود ہی کرنے لگاتاکہ آئندہ کسی طالب علم کوکبھی ایسی پریشانی"
"نہ ہو جیسی ہمیں ہوئی تھی ،ہمیں جو سعادتیں ملیں وہ سب علم دین کی برکت اور ہمارے یقین کامل کا نیتجہ تھیں۔ ہمیں اپنے رب کریم پر مکمل بھروسہ ہے وہ اپنے بندوں کو بے یار ومدد گار نہیں چھوڑتا، وہ ہم سب کا والی ومالک ہے۔''
(اللہ عزوجل تمام طالب علموں کوخود داری اور یقین کامل کی دولت نصیب فرمائے اور ان کی خدمت کرنے والوں کو دارین کی سعادتیں عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)"
" حضرت سیدنا عمر بن سیلم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں :ایک مرتبہ حضرت سیدنا عیسیٰ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے حواریوں کے پاس اس حالت میں تشریف لے گئے کہ آپ علیہ السلام کے جسم انور پر اُون کا جبہ تھا اور ایک عام سی شلوار پہنی ہوئی تھی، ننگے پاؤں تھے اور سر پر بھی کوئی کپڑا وغیرہ نہیں تھا، آنکھوں سے آنسو رواں تھے، بھوک کی وجہ سے آپ علیہ السلام کا رنگ متغیر ہوگیا تھا اور پیاس کی شدت سے ہونٹ بالکل خشک ہوچکے تھے۔
آپ علیہ السلام نے اپنے حواریوں کو سلام کیا، اور فرمایا: ''اے بنی اسرائیل! اگر میں چاہوں تو اللہ عزوجل کے حکم سے دنیا تمام تر نعمتوں کے ساتھ میرے قدموں میں آجائے لیکن میں اس بات کو پسند نہیں کرتا۔اے بنی اسرائیل!تم دنیا کو ہمیشہ حقیر جانو، اسے کوئی وقعت نہ دو یہ خود تمہارے لئے نرم ہوجائے گی،تم دنیا کی مذمت کرو تمہارے لئے آخرت مزین ہوجائے گی، ایسا ہرگز نہ کرنا کہ تم آخرت کو پسِ پشت ڈال دو اور دنیا کی تعظیم وتوقیر کر و،بے شک دنیا کوئی قابل احترام شے نہیں کہ اس کی تعظیم کی جائے۔ دنیا تو تمہیں ہر روز کسی نہ کسی نئی آفت یا نقصان کی طرف بلاتی ہے لہٰذا اس کے دھوکے سے بچو۔''
پھر فرمایا:'' اے لوگو! کیا تم جانتے ہو کہ میرا گھر کہا ں ہے؟ ''لوگوں نے کہا :''اے اللہ عزوجل کے نبی علیہ السلام! آپ کا گھر کہاں ہے؟'' آپ علیہ لسلام نے فرمایا:''مساجد میری قیام گاہ ہیں، میری خوشبو اور عطریات پانی ہے، میرا بھوکا رہنا ہی میری شکم سیری ہے، میرے پاؤں میری سواری ہیں،رات کوچمکتا ہوا چاند میرا چراغ ہے، سخت سردیوں کی راتوں میں نماز پڑھنا میرا محبوب ترین عمل ہے، میرا کھانا خشک پتے وغیرہ ہیں، زمین کی گھاس اور نباتا ت میرے لئے پھلوں کی مانند ہیں، انہی سے جانوروں کو خوراک ملتی ہے، وہی سبزی اور نباتا ت میں کھالیتا ہوں، میرا لباس اُون ہے ، اللہ عزوجل سے ڈرنا میرا شعار ہے ، اور مساکین وفقراء میرے محبوب ترین رفقاء ہیں۔"
" میں صبح اس حالت میں کرتا ہوں کہ میرے پاس دنیاوی اشیاء میں سے کوئی شے نہیں ہوتی اور ایسی ہی حالت میں شام کرتا ہوں کہ میرے پاس کوئی دنیاوی شے نہیں ہوتی لیکن پھر بھی میں اس بات کی پرواہ نہیں کرتا کہ فلاں شخص اتنا مال دار ہے۔ میں اپنی اس حالت میں اپنے آپ کو بہت خوش قسمت اور بہت زیادہ غنی سمجھتا ہوں (یعنی میں اس حال میں بھی اپنے رب عزوجل کی رضا پر راضی ہوں )۔''
آپ علیہ السلام کے بارے میں یہ بھی بیان کیا جاتاہے کہ آپ علیہ السلام دنیاسے بہت زیادہ بے رغبت تھے، کبھی بھی دنیوی نعمتوں کو خاطر میں نہ لاتے ، آپ علیہ السلام نے ایک ہی اُون کے جبہ میں اپنی زندگی کے دس سال گزار دیئے، جب وہ جبہ کہیں سے پھٹ جاتا تو اسے رسّی سے باندھ لیتے یا پیوند لگا لیتے، آپ علیہ السلام نے چار سال تک اپنے مبارک بالوں میں تیل نہ لگایا، پھر چار سال بعدچربی کی چکنائی بالوں میں لگائی اور چربی کو تیل کی جگہ استعمال فرمایا۔
آپ علیہ السلام نے اللہ عزوجل پر بھروسہ کی تلقین کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:''اے بنی اسرائیل! مساجد کو لازم پکڑلو ، اور انہی میں پڑے رہو، تمہارے اصلی گھر تو تمہاری قبریں ہیں، دنیا میں تو تم ایک مہمان کی حیثیت سے ہو، عنقریب یہاں سے اپنے اصلی گھر(یعنی قبر) کی طرف چلے جاؤ گے ۔کیا تم دیکھتے نہیں کہ پرندے آسمان کی طرف پر واز کرتے ہیں، نہ تو وہ کھیتی اگاتے ہیں، نہ ہی فصل کا ٹتے ہیں لیکن پھر بھی تمام جہانوں کا پروردگار عزوجل انہیں رزق عطا فرماتا ہے۔ اے لوگو ! جَو کی روٹی کھاکر بسر اوقات کرو ، اور زمین کے نباتا ت اور سبزی وغیرہ کھاکر پیٹ بھرلیا کرو۔ اگر تم اتنی ہی دنیا پر قناعت کر لوتب بھی تم اللہ عزوجل کی نعمتوں کا شکر ادانہیں کرسکتے اور اگر تم کثیر نعمتوں کے طلبگار بنو گے اور ان سے فائدہ اٹھاؤ گے تو پھر کس طرح ان نعمتوں کا شکر ادا کرو گے ۔''
ایک مرتبہ آپ علیہ السلام نے اپنے حواریوں سے فرمایا:'' اگر تم چاہتے ہوکہ میں تمہیں اپنا دوست اوررفیق رکھوں تو تم دنیا داروں سے بالکل کنارہ کشی اختیار کرلو، مالداروں سے بالکل جدا رہو، اگر تم نے ایسا نہ کیا تو پھر میں تمہیں اپنے ساتھ نہ رکھوں گااور تمہارارفیق بھی نہ بنوں گا۔بے شک تمہیں اپنے مقصد میں کامیابی اسی وقت ہوگی جب تم اپنی خواہشات کو ترک کردو گے ، تم اس وقت تک اپنی پسندیدہ چیز کو حاصل نہیں کرسکتے جب تک تم ناپسندیدہ چیزوں پرصبر نہ کرو،اور خبردار! بدنگاہی سے ہمیشہ بچتے رہنا کیونکہ بد نگاہی کی وجہ سے دل میں شہوت ابھرتی ہے۔
خوشخبری ہے اس عظیم شخص کے لئے جس کی نظر اپنے دل پر ہوتی ہے،وہ سوچ سمجھ کر نظر اٹھاتا ہے اور اپنے دل کو نظر کے تا بع نہیں کرتابلکہ نظر کو دل کے تابع رکھتا ہے۔ افسوس ہے اس شخص پر جو دنیا کے لئے اتنی مشقتیں بر داشت کرتاہے حالانکہ یہ بے وفا دنیا اسے چھوڑ کر چلی جائے گی اور موت اسے دنیا سے جدا کردے گی،کتنا بے وقوف ہے وہ شخص جو دنیا کی فکر میں سر گرداں ہے"
"اور دنیا اسے دھوکا دیتی جارہی ہے وہ دنیا پر اعتما د کرتاہے اور دنیا اسے دھوکا دیتی ہے اور اس سے بے وفائی کرتی ہے۔
افسوس ہے ان لوگوں پر جو دنیا کے دھوکے میں پھنسے ہوئے ہیں ۔عنقریب انہیں وہ چیز (یعنی موت ) پہنچنے والی ہے جسے وہ ناپسند کرتے ہیں اور جس دن کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے وہ دن (یعنی قیامت کادن)ان سے بہت قریب ہے۔ جس چیز کووہ پسند کرتے ہیں اور جو محبوب اشیاء ان کے پاس ہیں عنقریب وہ ان تمام چیزوں کو چھوڑ کر اس دارِفانی سے رخصت ہوجائیں گے ۔
اے لوگو! تم فضول گوئی سے بچتے رہو، کبھی بھی ذکر اللہ عزوجل کے علاوہ اپنی زبان سے کوئی لفظ نہ نکالو، ورنہ تمہارے دل سخت ہوجائیں گے، بے شک دل نرم ہوتے ہیں لیکن فضول گوئی انہیں سخت کردیتی ہے۔
اور جس شخص کا دل سخت ہوجائے وہ اللہ عزوجل کی رحمت سے محروم ہوجاتا ہے(یعنی اگر تم اللہ عزوجل کی رحمت کے امید وار ہو تو اپنے دلوں کو سختی سے بچاؤ)
(اے ہمارے پاک پروردگار عزوجل !ہمیں قساوت قلبی کی بیماری سے بچا ،اور ہمارے دلوں کو اپنی یاد سے معمور رکھ، فضول گوئی سے ہماری حفاظت فرما اورہر وقت اپنا ذکر کرنے والی زبان عطا فرما)
میں بے کار باتوں سے بچ کر ہمیشہ
کروں تیری حمدو ثنا یا الٰہی عزوجل!"
" حضرت سیدنا اعمش بن مسروق علیہ رحمۃ اللہ القدوس سے روایت ہے :'' ایک نیک شخص کسی جنگل میں رہا کرتا تھا اس مرد صالح کے پاس ایک مرغ، ایک گدھا اور ایک کتا تھا ، مرغ صبح سویرے اسے نماز کے لئے جگاتا، گدھے پر وہ پانی اور دیگر سامان لاد کرلاتا اور کتا اس کے مال ومتا ع اور دیگر چیزوں کی رکھوالی کرتا۔
ایک دن ایسا ہوا کہ اس کے مرغ کو ایک لومڑی کھاگئی جب اس نیک شخص کو معلوم ہو اتو اس نے کہا : میرے لئے اس میں بہتری ہوگی(یعنی وہ اپنے رب عزوجل کی رضا پر راضی رہااور صبر کا دامن نہ چھوڑا ) لیکن گھر والے اس سے بہت پریشان ہوئے کہ ہمارا نقصان ہوگیا۔چند دن کے بعد ایک بھیڑیا آیا اور اس نے ان کے گدھے کو چیر پھاڑ ڈالا جب گھر والوں کو اس کی اطلاع ملی تو وہ بہت غمگین ہوئے اور آہ وزاری کرنے لگے کہ ہمارا بہت بڑا نقصان ہوگیا۔"
" لیکن اس نیک شخص نے کوئی بے صبری والے جملے زبان سے نہ نکالے بلکہ کہا کہ اس گدھے کے مرجانے ہی میں ہماری عافیت ہوگی، پھر کچھ عرصہ کے بعد کُتے کو بھی بیماری نے آلیا اور وہ بھی مرگیا ،لیکن اس صابر و شاکر شخص نے پھر بھی بے صبر ی اور ناشکری کا مظاہر ہ نہ کیا بلکہ وہی الفاظ دہرائے کہ ہمارے لئے اس کے ہلاک ہوجانے میں ہی عافیت ہوگی۔
وقت گزرتا رہا کچھ دنوں کے بعد دشمنوں نے رات کو اس جنگل کی آبادی پر حملہ کیا اور ان تمام لوگو ں کو پکڑ کر لے گئے جو اس جنگل میں رہتے تھے ان سب کی قید کا سبب یہ بنا کہ ان کے پاس جانور وغیرہ موجود تھے جن کی آواز سن کر دشمن متوجہ ہوگیا اور دشمنوں نے جانوروں کی آواز سے ان کی رہائش کی جگہ معلوم کرلی پھر ان سب کو ان کے مال واَسباب سمیت قیدکر کے لے گئے۔
لیکن وہ نیک شخص اور اس کا ساز وسامان سب بالکل محفو ظ رہا کیونکہ اس کے پاس کوئی جانور ہی نہ تھا جس کی آواز سن کر دشمن اس کے گھر کی طر ف آتے ۔اب اس نیک مرد کا یقین اس بات پر مزید پختہ ہوگیا کہ اللہ عزوجل کے ہر کام میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور ہوتی ہے ۔'' (اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)
(میٹھے اسلامی بھائیو!اس مرد کامل کا اس بات پر پختہ یقین تھاکہ اللہ عزوجل جب بھی ہمیں کسی مصیبت میں مبتلا کرتا ہے اس میں ہمارا ہی فائدہ اورہماری ہی بھلائی پیشِ نظر ہوتی ہے اگر چہ بظاہر نظر نہ بھی آئے )"
" حضرت سیدنا محمد بن عبید زاہد علیہ رحمۃ اللہ الواحد فرماتے ہیں :'' میرے پاس ایک لونڈی تھی جسے میں نے بیچ دیا ،بعد میں خیال آیا کہ اس لونڈی کو نہیں بیچنا چاہیئے تھا وہ میرے پاس ہی رہتی تو بہتر تھا ،اسے دو بارہ حاصل کرنے کی مجھے بہت زیادہ جستجو ہوئی لہٰذا میں لونڈی کے نئے مالک کے پاس پہنچااور اس سے کہا:''تم یہ لونڈی مجھے واپس دے دو اور ادا کردہ قیمت کے علاوہ بیس دینار مزید لے لو، وہ اس بات پر راضی نہ ہوا چنانچہ میں وہاں سے واپس آگیا ، لیکن اس لونڈی کو واپس لینے کی خواہش مزید بڑھنے لگی میں نے اپنے آپ کو بہت سمجھا یا مگر بے سود ، ساری را ت اسی پر یشانی میں جاگتے ہو ئے گزاردی ، لیکن مسئلہ پھر بھی حل نہ ہوا ،
اس لونڈی کا نیا مالک لونڈی کو لے کر مدائن چلاگیا ، اسے یہ خوف تھا کہ کہیں میں اس سے دشمنی نہ کرلوں اور زبر دستی اس سے لونڈی نہ چھین لوں، جب مجھے یہ اطلاع ملی تو میں مزید بے قرار ہوگیا ، بالآخر میں نے اسی لونڈی کانام اپنے صحن کی دیوار پر لکھ"
"دیا،جب بھی کوئی مسافر آتا اور وہ اس نام کو دیکھ کر اس کے متعلق سوال کرتا تو میں آسمان کی طر ف اپنی ہتھلیاں اٹھاتا اور کہتا : ''اے میرے سردار !میرا یہ معاملہ ہے۔ دو دن اسی طر ح گزر گئے تیسری صبح کسی نے میرا دروازہ کھٹکھٹایا میں نے پوچھا:''کون ہے ؟'' کہا:'' میں تمہاری سابقہ لونڈی کا مالک ہوں میں نے ہی تم سے یہ لونڈی خریدی تھی، اب میں بخوشی یہ لونڈی تمہیں دیتا ہوں ،یہ لواپنی لونڈی سنبھالو! اللہ عزوجل اس میں بر کت عطا فرمائے ،میں نہ تو تم سے اس کی قیمت لو ں گا اور نہ ہی اس پر کسی قسم کا نفع ،میں یہ لونڈی تمہیں تحفہ میں پیش کرتا ہوں۔''میں نے کہا: ''آخر تم یہ سب کچھ کیوں کر رہے ہو ؟'' اس نے کہا : ''کل رات مجھے خواب میں کسی کہنے والے نے کہا :'' یہ لونڈی محمد بن علی ابن عبیدرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو واپس کردو۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)"
" حضرت سیدنا بکر بن عبد اللہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:'' بنی اسرائیل کا ایک قصاب اپنے پڑوسی کی لونڈی پر عا شق ہوگیا۔ اتفاق سے ایک دن لونڈی کو اس کے مالک نے دوسرے گاؤں کسی کام سے بھیجا ،قصاب کو موقع مل گیا اوروہ بھی اس لونڈی کے پیچھے ہولیا ، جب لونڈی جنگل سے گزری تو اچانک قصاب نے سامنے آکر اسے پکڑ لیا اور اسے گناہ پر آمادہ کرنے لگا۔جب اس لونڈی نے دیکھا کہ اس قصاب کی نیت خراب ہے تو اس نے کہا:
''اے نوجوان تُو اس گناہ میں نہ پڑ !حقیقت یہ ہے کہ جتنا تُومجھ سے محبت کرتا ہے اس سے کہیں زیادہ میں تیری محبت میں گر فتار ہوں لیکن مجھے اپنے مالک حقیقی عزوجل کا خوف اس گناہ کے اِرتکاب سے روک رہا ہے ۔''
اس نیک سیرت اور خوفِ خدا عزوجل رکھنے والی لونڈی کی زبان سے نکلے ہوئے یہ الفاظ تاثیر کا تیربن کر اس قصاب کے دل میں پیوست ہوگئے اور اس نے کہا: '' جب تُو اللہ عزوجل سے اِس قدر ڈر رہی ہے تو مَیں اپنے پاک پرور دگار عزوجل سے کیوں نہ ڈرو ں، مَیں بھی تو اسی مالک عزوجل کا بندہ ہوں ، جا!تو بے خوف ہو کر چلی جا۔'' اتنا کہنے کے بعد اس قصاب نے اپنے گناہوں سے سچی تو بہ کی اور واپس پلٹ گیا ۔
راستے میں اسے شدید پیاس محسو س ہوئی لیکن اس ویران جنگل میں کہیں پانی کا دور دور تک کو ئی نام ونشان نہ تھا قریب"
"تھا کہ گرمی اور پیاس کی شدت سے اس کا دم نکل جاتا، اتنے میں اسے اس زمانے کے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک قاصد ملا،جب اس نے قصاب کی یہ حالت دیکھی تو پوچھا:''تجھے کیا پریشانی ہے؟''کہا:'' مجھے سخت پیاس لگی ہے۔''یہ سن کر قاصدنے کہا: ''آؤ! ہم دونوں مل کر دعا کرتے ہیں کہ اللہ عزوجل ہم پر اپنی رحمت کے بادل بھیجے اور ہمیں سیراب کرے یہاں تک کہ ہم اپنی بستی میں داخل ہوجائیں۔''قصاب نے جب یہ سنا تو کہنے لگا: ''میرے پاس تو کوئی ایسا نیک عمل نہیں جس کا وسیلہ دے کر دعا کرو ں، آپ نیک شخص ہیں آپ ہی دعا فرمائیں ۔''
اس قاصد نے کہا : مَیں دعا کر تا ہوں، تم آمین کہنا، پھر قاصد نے دعا کرنا شروع کی اور وہ قصاب آمین کہتا رہا،تھوڑی ہی دیر میں بادل کے ایک ٹکڑے نے ان دونوں کو ڈھانپ لیا اور وہ بادل کا ٹکڑا ان پر سایہ فگن ہوکر ان کے ساتھ ساتھ چلتا رہا ۔
جب وہ دونوں بستی میں پہنچے تو قصاب اپنے گھر کی جانب روانہ ہوا اور وہ قاصد اپنی منزل کی طر ف جانے لگا، بادل بھی قصاب کے ساتھ ساتھ رہا جب اس قاصد نے یہ ماجر ہ دیکھا توقصاب کو بلایا اور کہنے لگا :'' تم نے تو کہا تھا کہ میرے پاس کوئی نیکی نہیں ، اور تم نے دعا کرنے سے اِنکار کردیا تھا ، پھر میں نے دعا کی اورتم آمین کہتے رہے ،لیکن اب حال یہ ہے کہ بادل تمہارے ساتھ ہولیا ہے او رتمہارے سر پر سایہ فگن ہے ، سچ سچ بتاؤ! تم نے ایسی کو ن سی عظیم نیکی کی ہے جس کی وجہ سے تم پر یہ خاص کرم ہوا؟'' یہ سن کر قصاب نے اپنا سارا واقعہ سنایا۔اس پر اس قاصد نے کہا :'' اللہ عزوجل کی بارگاہ میں گناہوں سے توبہ کرنے والوں کا جومقام و مرتبہ ہے وہ دوسرے لوگوں کا نہیں ۔'' (اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)
(اے ہمارے پاک پر وَردْگار عزوجل !ہمیں بھی اپنے گناہوں سے سچی تو بہ کی توفیق عطا فرمایا اور ہمیں اپنا خوف عطا فرما، اپنے خوف سے رونے والی آنکھیں عطا فرما، گناہوں کے مرض سے نجات عطا فرماکر بیمارِ مدینہ بنادے ،دنیا کے غموں سے بچا کر غم آخرت نصیب فرما ، ہر وقت تیرے خوف اور تیرے پیارے حبیب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّمکے غم میں رونے والی آنکھیں عطا فرما ۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)
؎ ترے خوف سے تیرے ڈر سے ہمیشہ میں تھر تھر رہوں کانپتا یا الٰہی عزوجل!
بہتی رہے ہر وقت جو سرکار کے غم میں روتی ہوئی وہ آنکھ مجھے میرے خدا عزوجل دے
کب گناہوں سے کنارہ میں کروں گا یارب عزوجل! نیک کب اے میرے اللہ بنوں گا یا رب عزوجل"
" حضرت سیدنامیسرہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں :'' بنی اسرائیل میں ایک بہت عبادت گزار لکڑ ہارا تھا ، اس کی بیوی بنی اسرائیل کی عورتوں میں سب سے زیادہ حسین وجمیل تھی، دونوں میاں بیوی ہنسی خوشی زندگی گزار رہے تھے ،جب اس ملک کے بادشاہ کو لکڑ ہارے کی بیوی کے حسن وجمال کی خبر ملی تو اس کے دل میں شیطانی خیال آیا اور اس نے تہیہ کر لیا کہ میں کسی طر ح اس عورت کوضرور حاصل کروں گا، چنانچہ اس ظالم وشہوت پرست بادشاہ نے ایک بڑھیا کو اس لکڑہارے کی بیوی کے پاس بھیجا تاکہ وہ اسے ورغلائے اور لالچ دے کر اس بات پر آمادہ کرے کہ وہ لکڑہارے کو چھوڑ کر شاہی محل میں ملکہ بن کر زندگی گزارے ۔
چنانچہ وہ مکار بڑھیا لکڑہارے کی بیوی کے پاس گئی اور اس سے کہا:''تُو کتنی عجیب عورت ہے کہ اتنے حسن وجمال کے باوجودایسے شخص کے ساتھ زندگی گزار رہی ہے جو نہایت ہی مفلس اور غریب ہے جو تجھے آسائش و آرام فراہم نہیں کرسکتا، اگر تُو چاہے تو بادشاہ کی ملکہ بن سکتی ہے۔ بادشاہ نے پیغام بھیجا ہے کہ اگر تُو لکڑہارے کو چھوڑ دے گی تو مَیں تجھے اس جھونپڑی سے نکال کر اپنے محل کی زینت بناؤں گا،تجھے ہیرے جو اہرات سے آراستہ وپیراستہ کردو ں گا ، تیرے لئے ریشم اورعمدہ کپڑوں کا لباس ہوگا ، ہر وقت تیری خدمت کے لئے کنیزیں اور خُدّام ہاتھ باندھے کھڑے ہوں گے اور تجھے اعلیٰ درجے کے بستر اور تمام سہولتیں مل جائیں گی بس تُو اس غریب لکڑہارے کو چھوڑ کر میرے پاس چلی آ۔'' جب اس عورت نے یہ باتیں سنیں تولالچ میں آگئی اور اس کی نظروں میں بلند و بالا محلات اور اس کی آسائشیں گھومنے لگیں ۔چنانچہ اس نے لکڑہارے سے بے رُخی اِختیار کرلی اور ہر وقت اس سے ناراض رہنے لگی ، جب اس نیک شخص نے محسوس کیا کہ یہ مجھ سے بے رخی اختیار کر رہی ہے تو اس نے پوچھا : ''اے اللہ عزوجل کی بندی !تم نے یہ رویہ کیوں اختیار کرلیا ہے ؟ ''یہ سن کر اس لالچی عورت نے مزید سخت رویہ اختیار کرلیا،بالآخر لکڑہارے نے مجبوراً اس حسین وجمیل بے وفالالچی عورت کو طلاق دے دی ، وہ خوشی خوشی بادشاہ کے پاس پہنچی ۔
بادشاہ اسے دیکھ کر پھولانہ سمایا،اس نے فوراََ اس سے شادی کرلی، بڑی دھوم دھام سے جشن منایا گیا پھر جب بادشاہ اپنی نئی دلہن کے پاس حجرہ عروسی میں پہنچا اور پردہ ہٹایا تویکدم بادشاہ بھی اندھا ہوگیااور وہ عورت بھی اندھی ہوگئی، نہ تو وہ عورت اس بادشاہ کو دیکھ سکی نہ ہی بادشاہ اس لالچی وبے وفا عورت کے حسن وجمال کاجلوہ دیکھ سکا ۔پھر بادشاہ نے اپنی دلہن کی طر ف ہاتھ بڑھایا تا کہ اسے چھوسکے لیکن اس کا ہاتھ خشک ہوگیا پھر اس عورت نے بادشاہ کو چھونا چاہا تو اس کے ہاتھ بھی خشک ہوگئے ، جب انہوں نے ایک دوسرے سے بات کرناچاہی تو دونوں ہی بہرے اور گونگے ہوگئے اور ان کی شہوت بالکل ختم ہوگئی، اب وہ دونوں بہت پریشان ہوئے صبح جب خُدّام حاضرِ خدمت ہوئے، تو دیکھا کہ بادشاہ اور اس کی نئی ملکہ دونوں ہی گونگے ، بہرے اور اندھے ہوچکے ہیں اور"
"ان کے ہاتھ بھی بالکل بے کار ہوچکے ہیں۔
جب یہ خبر اس دور کے نبی علیہ السلام کو پہنچی تو انہوں نے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں ان دونوں کے بارے میں عرض کی تو بارگاہِ خداوندی عزوجل سے ارشاد ہوا : ''مَیں ہر گز ان دونوں کو معاف نہیں کرو ں گا، کیا انہوں نے یہ گمان کرلیا کہ جو حرکت انہوں نے لکڑہارے کے ساتھ کی میں اس سے بے خبر ہوں۔''
(اے ہمارے اللہ عزوجل ! ہمیں اپنے عذاب سے محفو ظ رکھ اور ہمیں دنیا اور عورت کے فتنے سے محفوظ رکھ ،ہماری خطاؤں کو اپنے فضل وکرم سے معاف فرما، دنیا کی محبت سے بچا کر اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّمکے عشق حقیقی کی دولت سے مالامال فرما۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)
؎دل عشقِ محمد میں تڑپتا رہے ہر دم سینے کو مدینہ میرے اللہ عزوجل بنادے (آمین)"
" حضرت سیدنا عبد الرحمن بن زیاد بن انعم علیہ رحمۃ اللہ الا کرم فرماتے ہیں: ''ایک مرتبہ حضرت سیدنا موسیٰ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام محفل میں تشریف فرما تھے کہ ابلیس ملعون آپ علیہ السلام کے پاس آیا ،اس نے اپنے سرپر مختلف رنگوں والی بڑی سی ٹوپی پہن رکھی تھی، ابلیس آپ (علیہ السلام) کے قریب آیا اوررنگین ٹو پی اُتا ر کر آپ علیہ السلام کے سامنے رکھ دی ، پھر کہنے لگا:اے موسیٰ (علیہ السلام) ! آپ پر سلامتی ہو۔
حضرت سیدناموسیٰ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃوالسلام نے اس سے پوچھا :'' تُوکون ہے ؟'' اس نے کہا: ''میں ابلیس ہوں۔'' آپ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃوالسلام نے یہ سن کر فرمایا:'' تُو ابلیس ہے، اللہ تعالیٰ تجھے سلامتی نہ دے بلکہ بر باد کرے، تُو میرے پاس کیوں آیا ہے ؟'' اس لعین نے جواب دیا :'' اللہ عزوجل کی بارگاہ میں آپ(علیہ السلام) کا مقام بہت بلند وبر تر ہے، آپ (علیہ السلام) اللہ عزوجل کے برگُزِیدہ پیغمبر ہیں، مَیں اسی لئے آپ کی بارگاہ میں سلام عرض کرنے آیا ہوں۔
آپ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃوالسلام نے پوچھا:''یہ مختلف رنگوں والی ٹوپی کیا ہے اور تُو نے یہ کیوں پہن رکھی ہے ؟'' ابلیس نے جواب دیا:'' یہ میرا جال ہے، میں اس کے ذریعے لوگو ں کے دِلوں کو شکار کرتا ہوں، انہیں اپنے جال میں پھنساتا ہوں اور ان پر"
"حاوی ہوجاتا ہوں۔''
یہ سن کر آپ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃوالسلام نے استفسار فرمایا: ''کس سبب سے تُو نیک لوگوں پر حاوی ہوجاتا ہے؟'' شیطان نے کہا: '' جب انسان (اپنے اعمال پر) مغرورہوجائے،اپنی نیکیوں کو بہت زیادہ شمار کرنے لگے اور گناہوں کوبھول جائے تو میں اس پر غالب آجاتا ہوں اوراسے مضبوطی سے جکڑ لیتا ہوں ۔''
اے موسیٰ (علیہ السلام) ! مَیں آپ کو تین باتوں سے خبر دار کرتا ہوں ،
(۱)۔۔۔۔۔۔ کبھی بھی کسی ایسی عورت کے ساتھ تنہائی میں نہ رہنا جو اَجنبیہ (یعنی غیر محرم) ہو کیونکہ جب انسان کسی غیر محرم عورت کے ساتھ ہوتا ہے تو ان دونوں کے درمیان تیسرا مَیں ہوتا ہوں اور انہیں گناہ میں مبتلا کر دیتا ہوں۔
(۲)۔۔۔۔۔۔ جب کبھی اللہ عزوجل سے کوئی وعدہ کرو تو اسے ضرور پورا کرو،اور اسے پورا کرنے میں جلدی کرو کیونکہ جب بھی کوئی شخص اللہ عزوجل سے وعدہ کرتا ہے تو مَیں اور میرے ساتھی اس کو وعدہ پورا کرنے سے روکتے ہیں ۔
(۳)۔۔۔۔۔۔ جب بھی کسی پر صدقہ کرنے کا ارادہ کرو تو فورا ًاس پر عمل کر و کیونکہ جب بھی کوئی شخص ایسا نیک ارادہ کرتاہے تو مَیں اور میرے ساتھی اسے وَرْغلاتے ہیں اور اسے اس نیک عمل سے روکتے ہیں۔اتنا کہنے کے بعد شیطان مردود آپ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃوالسلام کے پاس سے رخصت ہوگیاوہ یہ کہتا جا رہا تھا:''ہائے افسوس! موسیٰ (علیہ السلام) میرے تینوں وَاروں سے واقف ہوگئے ،ان کے ذریعے ہی تو میں لوگو ں کو بہکاتا ہوں، اب موسیٰ (علیہ السلام) تو لوگوں کوان با توں سے آگا ہ کر دیں گے۔''
(اللہ عزوجل ہمیں شیطان کے حملوں سے محفوظ فرما ئے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)"
حضرت عبد المُنعِم بن ادریس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت سیدنا وہب بن منبہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:''بنی اسرائیل میں ایک عبادت گزار شخص تھا جو اپنے زمانے کا سب سے بڑا عبادت گزار شمار کیا جاتاتھا ، وہ بستی سے الگ تھلگ ایک مکان میں اللہ عزوجل کی عبادت کیا کرتا، اسی بستی میں تین بھائی اپنی ایک جوان کنواری بہن کے ساتھ رہا کرتے تھے ، اچانک ان کے ملک پر دشمن حملہ آور ہوگیا ،ان تینوں بہادر نوجوانوں نے جہاد پر جانے کا عزمِ مُصمَّم کرلیا ، لیکن انہیں اس بات کی
"فکر لاحق ہوئی کہ ہم اپنی جوان بہن کس کے سپر د کرکے جائیں انہوں نے بہت غورو فکر کیالیکن کوئی ایسا قابل اِعتماد شخص نظرنہ آیا جس کے پاس وہ اپنی جوان کنواری بہن کو چھوڑکر جاتے، پھر انہیں اس عابد کا خیال آیا او روہ سب اس بات پر راضی ہو گئے کہ یہ عابد قابل اِعتماد ہے، ہم اپنی بہن کو اس کی نگرانی میں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔
چنانچہ وہ تینوں اس عابد کے پاس آئے اور اسے صورت حال سے آگاہ کیا۔ عابد نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا:'' میں یہ ذمہ داری ہرگز قبول نہیں کرو ں گا، لیکن وہ تینوں بھائی اس کی منت سماجت کرتے رہے بالآخر وہ عابد اس بات پر راضی ہوگیا کہ مَیں تمہاری بہن کو اپنے ساتھ نہیں رکھوں گا بلکہ میرے مکان کے سامنے جو خالی مکان ہے تم اپنی بہن کو اس میں چھوڑ جاؤ، وہ تینوں بھائی اس پر راضی ہوگئے اور اپنی بہن کو اس عابد کے مکان کے سامنے والے مکان میں چھوڑ کر جہاد پر روانہ ہوگئے ۔
وہ عابد روزانہ اپنے عباد ت خانے سے نیچے اُترتااور در وازے پر کھانا رکھ دیتا پھراپنے عبادت خانے کا دروازہ بند کر کے اُوپر اپنے عبادت خانے میں چلا جاتا پھر لڑکی کو آواز دیتا کہ کھانا لے جاؤ ،لڑکی وہاں سے کھانا لے کر چلی جاتی۔
اس طرح کا فی عرصہ تک عابد اور اس لڑکی کا آمنا سامنا نہ ہوا ۔وقت گزرتا رہا ، ایک مرتبہ شیطان مردود نے اس عابد کے دل میں یہ وسوسہ ڈالا کہ وہ بے چاری اکیلی لڑکی ہے، روزانہ یہاں کھانا لینے آتی ہے، اگر کسی دن اس پر کسی مرد کی نظر پڑگئی اور وہ اس کے عشق میں گرفتار ہوگیا تو یہ کتنی بری بات ہے،کم از کم اتنا تو کر کہ دن کے وقت تو اس لڑکی کے دروازے پر کھانا رکھ آیاکر،تا کہ اسے باہر نہ نکلنا پڑے، اس طر ح تجھے زیادہ اَجر بھی ملے گا اور وہ لڑکی غیر مردو ں کے شر سے بھی محفوظ رہے گی، اس عابد کے دل میں یہ وسوسہ گَھر کر گیا اور وہ شیطان کے جال میں پھنس گیا ۔
چنانچہ وہ روزانہ دن میں لڑکی کے مکان پر جاتااور کھانا دے کر واپس آجاتا لیکن اس سے گفتگونہ کرتا پھر کچھ عرصہ بعد شیطان نے اسے تر غیب دلائی کہ تیرے لئے نیکی کمانے کا کتنا عظیم موقع ہے کہ تُو کھانا اس کے گھر میں پہنچا دیا کر ،تا کہ اس لڑکی کو پریشانی نہ ہو، اس طر ح تجھے اس کی خدمت کا ثواب زیادہ ملے گا ، چنانچہ اس عابد نے اب گھر میں جاکر کھانا دینا شرو ع کردیا کچھ عرصہ اسی طر ح معاملہ چلتا رہا ،شیطان نے اسے پھر مشورہ دیا کہ دیکھ وہ لڑکی کتنے دنوں سے اکیلی اس مکان میں رہ رہی ہے، اسے تنہائی میں وحشت ہوتی ہوگی، اگر تُو اس سے کچھ دیر بات کرلے اور اس کے پاس تھوڑی بہت دیر بیٹھ جائے تو اس کی وحشت ختم ہوجائے گی اور اس طر ح تجھے بہت اَجر و ثواب ملے گا۔ عابد پھر شیطان لعین کے چکر میں پھنس گیا اور اس نے اب لڑکی کے پاس بیٹھنا اور اس سے بات چیت کرنا شرو ع کردی ، پہلے پہل تو اس طرح ہوا کہ وہ عابد اپنے عبادت خانے سے بات کرتا اور لڑکی اپنے مکان سے، پھر وہ دونوں دروازوں پر آکر گفتگو کرنے لگے، پھر شیطان کے اُکسانے پر وہ عابد اس لڑکی کے مکان"
"میں جا کر اس کے پاس بیٹھتا او رباتیں کرتا، بالآخر شیطان نے اب اسے ورغلانا شروع کردیا کہ دیکھ یہ لڑکی کتنی خوبصورت ہے!کیسی حسین وجمیل ہے! جب اس نے جوان لڑکی کی جوانی پرنظر ڈالی تو اس کے دل میں گناہ کا اِرادہ ہوا ۔ایک دن اس نے لڑکی سے بہت زیادہ قربت اِختیار کی اور اس کی ران پرہاتھ رکھاپھر اس سے بوس وکنار کیا،بالآخراس بدبخت عابدنے شیطان کے بہکاوے میں آکر اس لڑکی سے زنا کیا جس کے نیتجے میں لڑکی حاملہ ہوگئی او راس حمل سے ایک بچہ پیدا ہوا۔
پھر شیطان مردودنے اس عابد کے پاس آکر کہا:'' دیکھ !تیری حرکت کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا ہے، تیرا کیا خیال ہے کہ جب اس لڑکی کے بھائی آئیں گے اور وہ اپنی بہن کو اس حالت میں دیکھیں گے تو تجھے کتنی رسوائی ہوگی اور وہ تیرے ساتھ کیا معاملہ کریں گے ؟ تیری بہتری اسی میں ہے کہ تُو اس بچے کو مارڈال تا کہ انہیں اس واقعہ کی خبر ہی نہ ہو اور تُو رسوائی سے بچ جائے۔'' چنانچہ اس بد بخت نے بچے کو ذبح کر ڈالا اور ایک جگہ دفن کر دیا ، اب وہ مطمئن ہوگیا کہ لڑکی اپنی رسوائی کے خوف سے اپنے بھائیوں کو اس واقعے کی خبر نہ دے گی لیکن شیطان ملعون دوبارہ اس عابد کے پاس آیااور کہا : اے جاہل انسان !کیا توُنے یہ گمان کرلیا ہے کہ یہ لڑکی اپنے بھائیوں کو کچھ نہیں بتائے گی، یہ تیری بھول ہے ،یہ ضرور تیری حرکتوں کے بارے میں اپنے بھائیوں کو آگاہ کرے گی اور تجھے ذلت ورسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا ،تیری بہتر ی اسی میں ہے کہ تُواس لڑکی کو بھی قتل کرکے دفن کردے تاکہ معاملہ ہی ختم ہو جائے۔ عابد نے شیطان کے مشورہ پر عمل کیا اور لڑکی کوقتل کر کے اسے بھی بچے کے ساتھ ہی دفن کر دیا اور عابد دوبارہ مصروفِ عبادت ہوگیا۔
وقت گزرتا رہا جب اس لڑکی کے بھائی جہاد سے واپس آئے تو انہوں نے اس مکان میں اپنی بہن کو نہ پاکر عابد سے پوچھا تواس نے بڑے مغموم انداز میں روتے ہوئے جواب دیا :'' تمہارے جانے کے بعد تمہاری بہن کا انتقال ہوگیا اور یہ اس کی قبر ہے ،وہ بہت نیک لڑکی تھی،اتنا کہنے کے بعد وہ عابد رونے لگا اور اس کے بھائی بھی قبر کے پاس رونے لگے ۔کافی دن وہ اسی مکان میں اپنی بہن کی قبر کے پاس رہے پھر اپنے گھروں کو لوٹ گئے اور انہیں اس عابد کی باتوں پر یقین آگیا ۔
ایک رات جب وہ تینوں بھائی اپنے اپنے بستروں پر آرام کے لئے لیٹے اور ان کی آنکھ لگ گئی تو شیطان ان تینوں کے خواب میں آیا اور سب سے بڑے بھائی سے سوال کیا :'' تمہاری بہن کہاں ہے؟'' اس نے کہا :''وہ تو مرچکی ہے اور فلاں جگہ اس کی قبر ہے ۔'' شیطان نے کہا : ''اس عابد نے تم سے جھوٹ بولاہے ،اس نے تمہاری بہن کے ساتھ زنا کیااور اس سے بچہ پیدا ہوا،پھر اس نے رسوائی کے خوف سے تمہاری بہن اور اس بچے کو مار ڈالا اور ان دونوں کو ایک ساتھ دفن کردیا،اگر تمہیں یقین نہیں آئے تو تم وہ جگہ کھود کر دیکھ لو ۔'' اس طرح اس نے تینوں بھائیوں کو خواب میں آکر ان کی بہن کے متعلق بتایا ، جب صبح سب کی"
"آنکھ کھلی تو سب حیران ہوکر ایک دوسرے سے کہنے لگے :'' رات تو ہم نے عجیب وغریب خواب دیکھا ہے ۔''پھرسب نے اپنا اپنا خواب بیان کیا ،بڑا بھائی کہنے لگا :''یہ محض ایک جھوٹا خواب ہے، اس کی کوئی حقیقت نہیں، لہٰذا اسے ذہن سے نکال دو۔'' چھوٹے بھائی نے کہا : ''میں اس کی ضرورتحقیق کرو ں گا اورضرور اس جگہ کو کھود کر دیکھو ں گا ۔''
چنانچہ وہ تینوں بھائی اسی مکان میں پہنچے اور جب اس جگہ کو کھود ا جس کی شیطان نے نشاندہی کی تھی تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہاں ان کی بہن اور ایک بچہ ذبح شدہ حالت میں موجود ہیں۔ چنانچہ وہ اس بد بخت عا بد کے پاس پہنچے اور اس سے پوچھا: '' سچ سچ بتا تُو نے ہماری بہن کے ساتھ کیا کیا ہے ؟ ''عا بد نے جب ان کا غصہ دیکھا تو اپنے گناہ کا اعتراف کرلیا اور سب کچھ بتا دیا۔ چنانچہ وہ تینوں بھائی اسے پکڑ کر بادشاہ کے دربار میں لے گئے، بادشاہ نے ساری بات سن کر اسے پھانسی کا حکم دے دیا ۔
جب اس بدبخت عابد کو پھانسی دی جانے لگی تو شیطان مردو د اپنا آخری وار کرنے پھر اس کے پاس آیا اور اسے کہا:'' میں ہی تیرا وہ ساتھی ہوں جس کے مشوروں پر عمل کر کے تو عورت کے فتنے میں مبتلا ہوا ،پھر تُو نے اسے اور اس کے بچے کوقتل کر دیا، ہاں! اگر آج تُو میری بات مان لے گا تو میں تجھے پھانسی سے رہائی دلوا دو ں گا۔'' عا بد نے کہا: ''اب تومجھ سے کیا چاہتا ہے؟ ''شیطان لعین بولا: ''تُواللہ عزوجل کی وحدانیت کا اِنکار کردے اور کافر ہوجا،اگر تُوایسا کریگا تو میں تجھے آزاد کرو ا دوں گا ۔''یہ سن کر کچھ دیر تو عا بد سوچتا رہا لیکن پھر دنیاوی عذاب سے بچنے کی خاطر اُس نے اپنی زبان سے کفر یہ کلمات بکے اور اللہ عزوجل کی وحدانیت کا منکر ہوگیا (والعیاذ باللہ تعالیٰ) ۔جب شیطان ملعون نے اس بدبخت عابد کا ایمان بھی بر باد کروا دیاتو اُسے حالتِ کفر میں پھانسی دے دی گئی اور وہ فوراََاپنے ساتھیوں سمیت وہاں سے غائب ہوگیا۔''
شیطان کی شیطانیت کے بارے میں قرآن کریم بیان فرماتا ہے :"
کَمَثَلِ الشَّیۡطٰنِ اِذْ قَالَ لِلْاِنۡسَانِ اکْفُرْ ۚ فَلَمَّا کَفَرَ قَالَ اِنِّیۡ بَرِیۡٓءٌ مِّنۡکَ اِنِّیۡۤ اَخَافُ اللہَ رَبَّ الْعٰلَمِیۡنَ ﴿16﴾
ترجمہ کنزالایمان: شیطان کی کہاوت جب اس نے آدمی سے کہا کفر کر پھر جب اس نے کفر کرلیا بولا میں تجھ سے الگ ہوں میں اللہ سے ڈرتا ہوں جو سارے جہان کا رب۔(پ 28، الحشر: 6 1)
(تفسیر القرطبی، سورۃ الحشر، تحت الآیۃ:۱۶، الجزء الثامن عشر،جلد۹،ص۳۰تا۳۲)
(اے ہمار ے پروردگار عزوجل!عورت کے فتنوں اور شیطان کی مکاریوں سے ہما ری حفاظت فر ما، ہمیں دنیوی اور اُخروی ذلت ورسوائی اور عذاب سے محفوظ فرما، ہما ری عصمتو ں اور ہمارے ایمان کی حفاظت فرما ،اے اللہ عزوجل!ہم تیری ہی عطاسے مسلمان ہیں،تجھے تیرے پیارے حبیب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا واسطہ! ہمارا خاتمہ بالخیر فرما)
"مسلماں ہے عطار ؔتیری عطا سے ہو اِ یمان پر خاتمہ یا الٰہی عزو جل
آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم"
" حضرت سیدنا ابو عبداللہ واقدی قاضی علیہ رحمۃاللہ الہادی فرماتے ہیں :'' ایک مرتبہ عید کے موقع پر ہمارے پاس خرچ وغیرہ کے لئے کچھ بھی رقم نہ تھی ،بڑی تنگدستی کے دن تھے، ان دنوں یحییٰ بن خالدبر مکی حاکم تھا ، عید روز بروز قریب آرہی تھی، ہمارے پاس کچھ بھی نہ تھا، چنانچہ میری ایک خادمہ میرے پاس آئی اور کہنے لگی: ''عید بالکل قریب ہے اور گھر میں کچھ بھی خرچہ وغیرہ نہیں، آپ کوئی ترکیب کیجئے تا کہ گھر والے عید کی خوشیوں میں شریک ہوسکیں۔
خادمہ کی یہ بات سن کر مَیں اپنے ایک تا جر دوست کے پاس گیا اور اس کے سامنے اپنی حالتِ زار بیان کی ۔انہوں نے فورا ًمجھے ایک مہر بند تھیلی دی، جس میں بارہ سو درہم تھے،میں ا نہیں لے کر گھر آیااور وہ تھیلی گھر والوں کے حوالے کردی، گھر والوں کو کچھ ڈھارس ہوئی کہ اب عید اچھی گزر جائے گی ، ابھی ہم نے اس تھیلی کو کھولا بھی نہ تھا کہ میرا ایک دوست میرے پا س آیا جس کا تعلق سادات کے گھرانے سے تھا ،اس نے آکر بتایا:'' ان دنوں ہمارے حالات بہت خراب ہیں اور عید بھی قریب آگئی ہے ، گھر میں خرچہ وغیرہ بالکل نہیں ،اگر ہوسکے تو مجھے کچھ رقم قرض دے دو۔'' اپنے اس دوست کی بات سن کر میں اپنی زوجہ کے پاس گیا اور اسے صورتحال سے آگا ہ کیا، وہ کہنے لگی: ''اب آپ کا کیا ارادہ ہے ؟'' میں نے کہا:'' ہم اس طر ح کرتے ہیں کہ آدھی رقم اس سید زادے کو قرض دے دیتے ہیں اور آدھی ہم خرچ میں لے آئیں گے ،اس طر ح دونوں کا گزارہ ہوجائے گا ۔''
یہ سن کر میری زوجہ نے عشقِ رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم میں ڈوبا ہو ا جملہ کہا جس نے میرے دل میں بہت اثر کیا، وہ کہنے لگی:'' جب تیرے جیسا ایک عام شخص اپنے دوست کے پاس اپنی حاجت مندی کا سوال لے کر گیا تو اس نے تجھے بارہ سو درہم کی تھیلی عطا کی، اور اب جبکہ تیرے پاس دو عالم کے مختار ،سید الابرار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی اولاد میں سے ایک شہزادہ اپنی حاجت لے کر آیا ہے تو تُو اسے آدھی رقم دینا چاہتا ہے کیا تیرا عشق اس بات کو گوارا کرتا ہے؟ یہ ساری رقم اس سید زادے کے قدموں پر نچھاور کر دے ،اپنی زوجہ سے یہ محبت بھرا کلام سن کر میں نے وہ ساری رقم اٹھائی اور بخوشی اپنے دو ست کو دے دی، وہ دعائیں دیتا ہوا چلا گیا ۔''"
" میراوہ سیدزادہ دوست جیسے ہی اپنے گھرپہنچاتواس کے پاس میراوہی تاجردوست آیااوراس سے کہا:''میں ان دنوں بہت تنگ دستی کاشکارہوں،مجھے کچھ رقم اُدھاردے دو۔''یہ سن کراُس سیدزادے نے وہ رقم کی تھیلی میرے اس تا جردوست کودے دی جو میں اسی(تاجر)سے لے کرآیاتھا،جب میرے اس تاجردوست نے وہ رقم کی تھیلی دیکھی توفوراًپہچان گیااورمیرے پاس آکرپوچھنے لگا:''جورقم تم مجھ سے لے کرآئے ہو،وہ کہاں ہے؟''میں نے اسے تمام واقعہ بتایاتووہ کہنے لگا:''اِتِّفاق سے وہی سیدزادہ میرابھی دوست ہے،میرے پاس صرف یہی بارہ سودرہم تھے جومیں نے آپ کودے دیئے،آپ نے اس سیدزادے کودیئے اوراس نے وہ مجھے دے دیئے اس طرح ہم میں سے ہرایک نے اپنے آپ پردوسرے کوترجیح دی اوردوسرے کی خوشی کی خاطراپنی خوشی قربان کردی۔''
ہمارے اس واقعے کی خبر کسی طر ح حاکمِ وقت یحییٰ بن خالد بر مکی کوپہنچ گئی، اس نے فوراً اپنا قاصد بھیجا جس نے میرے پاس آکر یحییٰ بن خالد بر مکی کا پیغام دیا: ''مَیں اپنی کچھ مصروفیات کی بناء پر آپ کی طرف سے غافل رہااور مجھے آپ کے حالات کے بارے میں پتہ نہ چل سکا، اب میں غلام کے ہاتھ دس ہزار دیناربھیج رہا ہوںـ، ان میں سے دو ہزار آپ کے لئے،دو ہزار آپ کے تا جر دوست کے لئے اور دوہزار اس سید زادے کے لئے باقی چار ہزار دینا ر تمہاری عظیم وسعادت مند بیوی کے لئے کیونکہ وہ تم سب سے زیادہ غنی،افضل اور عشق رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی پیکر ہے ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)
(اے ہمارے پر وردگارعزوجل!ہمیں بھی ان پاکیزہ او رنیک سیرت لوگوں کے صدقے اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ خوب خیر خواہی کرنے کاجذبہ عطا فرمااور مل جل کر دین کا کام کرنے کی توفیق عطا فرما۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)"
" حضرت سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:'' ایک مرتبہ امیر المؤمنین حضرت سیدناابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دس افراد پر مشتمل ایک قافلہ یمن کی جانب روانہ فرمایا۔ مَیں بھی اس قافلے میں شریک تھا، قافلہ جانبِ منزل رواں دواں تھا، دورانِ سفر ہمارا قافلہ ایک ایسی بستی کے قریب سے گزرا جسے دیکھ کر ہمیں بہت زیادہ حیرت ہوئی ۔ اس بستی میں بہترین قسم کی عمارتیں تھیں ، ہمارے رفقاء نے کہا : ''کیا ہی اچھا ہواگر ہم اس بستی میں داخل ہوجائیں اور یہاں کے حالات معلوم کریں ۔''
چنانچہ ہمارا قافلہ اس خوبصورت بستی میں داخل ہوا ، اس کی خوبصورتی دیکھ کر ہماری حیرا نگی اِنتہاء کو پہنچ چکی تھی، ایسا لگ"
رہا تھا جیسے اس کی تمام عمارتوں کو سونے چاندی سے ڈھانپ دیا گیا ہو،اس کی عمارتیں ایسی تھیں جیسی ہم نے کبھی نہ دیکھی تھیں، اس بستی میں ایک سفید محل تھا جس کی سفیدی خالص برف جیسی تھی اور اس کا صحن بھی اسی طرح سفید تھا،وہاں پر بہترین لباس میں ملبوس چند کنواری خوبصورت نوجوان لڑکیاں موجود تھیں،ان کے درمیان میں ایک نہایت ہی حسین وجمیل دوشیزہ تھی جس کا حُسن ان سب لڑکیوں پر غالب تھا ،دوسری لڑکیاں اس کے گر د گھوم رہی تھیں اور وہ دف بجاتے ہوئے یہ شعرگنگنارہی تھی:
"مَعْشَرَ الْحُسَّادِ مُوْتُوْا کَمَدًا کَذَا تَکُوْنُ مَا بَقِیْنَا أَبَدَا
غُیِّبَ عَنَّا مَنْ نَعَانَا حَسَدًا وَکَانَ وَحْدَہٗ اِلتَقٰی الأَنْکَدَا"
" ترجمہ:اے حسد کرنے والو! تم شدت غم سے مر جاؤ، ہم تو اسی طر ح عیش وعشرت سے زندگی گزاریں گی ، جو ہم سے حسد کرتے ہوئے ہمیں موت کی خبر دیتا ہے وہ خود ہی غمگین اور محروم ہو کر پھینک دیا جاتا ہے (یعنی مرجاتا ہے)۔
وہ دو شیزہ اِنہی اَشعار کا تکرار کر رہی تھی، وہاں اس بستی میں ایک بہترین حوض بنا ہواتھا،جس میں صاف شفاف پانی تھا، قریب ہی ایک چھوٹی سی بہترین چراگاہ تھی جس میں بہترین قسم کے جانور چر رہے تھے ، عمدہ نسل کے گھوڑے، اُونٹ ، گائے اور گھوڑے کے چھوٹے چھوٹے بچے وہاں موجود تھے ، قریب ہی ایک گول محل بنا ہوا تھا۔ ہم اس جگہ کا حسن وجمال اور زیب وزینت دیکھ کر محو ِحیرت تھے ۔ ہمارے بعض رفقاء نے کہا:'' ہم کچھ دیر یہاں قیام کر لیتے ہیں تا کہ یہا ں کے مناظر سے لُطف اندوز ہوسکیں اورہمیں اس خوبصورت بستی میں کچھ دیر آرام میسر آجائے۔ چنانچہ ہم نے وہیں اپنے کجاوے اُتارے (اور سامان کو ترتیب دینے لگے) اتنے میں محل کی جانب سے کچھ لوگ آئے،ان کے پاس چٹائیاں تھیں، انہوں نے آتے ہی وہ چٹا ئیاں بچھادیں پھر ان پر انواع واقسام کے کھانے چُن دیئے،پھر ہمیں کھانے کی دعوت دی۔ ہم نے کھانا کھایا، اس کے بعد کچھ دیر آرام کیا اور وہاں کے نظاروں سے لُطف اَندوز ہوتے رہے پھر ہم نے وہا ں سے کوچ کرنے کا ارادہ کیا اور اپنے کجاوے کسنے لگے ۔
ہمیں جاتادیکھ کر محل کی جانب سے چند لوگ آئے اور کہا : ''ہمارا سردار تمہیں سلام کہتا ہے اور اس نے پیغام بھجوایا ہے کہ مَیں معذرت خواہ ہوں کہ آپ سے ملاقات نہ کرسکا اور کَمَا حَقُّہٗ آپ کی خدمت نہ کرسکا ،ان دنوں ہمارے ہاں ایک جشن کی تیاری ہو رہی ہے جس کی مصروفیت اتنی زیادہ ہے کہ میں آپ لوگوں سے ملاقات نہیں کرسکتا،برائے کرم! میری اس تقصیر کو معاف فرمانا، آپ لوگ ہمارے مہمان ہیں، آپ جب تک چاہیں ہمارے ہاں قیام فرمائیں ۔''
با دشاہ کا یہ پیغام سن کر ہم نے ان لوگو ں سے کہا:'' اب ہم یہاں مزید نہیں ٹھہرسکتے، ہماری منزل ابھی بہت دور ہے، ہم اب جانا چاہتے ہیں ،اللہ عزوجل تمہیں اس مہمان نوازی کی اچھی جزا ء اور بر کتیں عطا فرمائے ۔''
جب ہم جانے لگے تو ان خادموں نے ہمیں بہت ساکھانا اور کافی سازوسامان دیا او راتنا زادِ راہ دیا کہ وہ ہمارے تمام"
"سفر کے لئے کافی تھا۔ پھر ہم وہاں سے رخصت ہو کر اپنی منزل کی طر ف چل دیئے ،جب ہماری واپسی ہوئی توہم اس راستے کو چھوڑ کر دوسرے راستے سے مدینہ منوّرہ پہنچے۔ کافی عرصہ گزر گیا اور جب حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ بنے تو ان کے ایک وفد کے ساتھ مَیں دوبارہ سوئے یمن روانہ ہوا ، میں نے اپنے رفقاء کو اس بستی کے متعلق بتا یاکہ حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت میں ہم نے ایک عظیم الشان بستی دیکھی تھی، پھر میں نے ان کو وہ سارا واقعہ بتایا۔ یہ سن کران کاتَجَسُّس بڑھا اور ان میں سے ایک شخص نے کہا : ''کیا ہی بہتر ہو اگر ہم بھی اس بستی کو دیکھ لیں۔''
چنانچہ ہم اسی بستی کی طر ف چل دیئے۔ جب ہم وہاں پہنچے تو میں اس جگہ کو دیکھ کر بہت حیران ہوا کیونکہ اب تو وہاں کا نقشہ ہی بدل چکا تھا ، اب وہاں عظیمُ الشان محل تھا نہ ہی اس کا بہترین سفید فرش بلکہ وہاں ویرانی چھائی ہوئی تھی او رریت کے ڈھیر لگے ہوئے تھے، عمارتیں کھنڈرات میں تبدیل ہوچکی تھیں،چراگاہ میں جانور وں کا نام ونشان تک نہ تھا،بڑی بڑی خود رو گھاس نے ساری چراگاہ کو وحشت ناک بنادیا تھا ، تالاب میں پانی کا ایک قطرہ بھی نہ تھا ۔
الغرض! چند سال قبل جہاں ہر قسم کی زیب وزینت تھی اب وہا ں ویرانی چھائی ہوئی تھی، اب وہاں نہ تو خُدَّام تھے نہ ہی لونڈیاں۔ ہم سب اس منظر کو دیکھ کر محو حیرت تھے کہ ہمیں ان تباہ وبرباد عمارتوں میں ایک شخص نظر آیا۔ میں نے اپنے ایک رفیق کویہ کہتے ہو ئے بھیجاکہ ''ہم اس شخص سے دُور ہی رہتے ہیں، تم جاؤ اور یہاں کے حالات معلوم کر کے آؤ او ردیکھو ! یہ شخص کون ہے؟ ''میرا دوست وہاں گیا اور کچھ ہی دیر بعد وہ خوف زدہ سا ہماری جانب پلٹا۔ میں نے پوچھا: ''تم نے وہاں کیا دیکھا ہے کہ اتنے پریشان ہورہے ہو؟'' وہ کہنے لگا:''جب میں اس شخص کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ وہ ایک بوڑھی اور اندھی عورت ہے،جب اس نے میری آہٹ محسوس کی تو کہنے لگی: تجھے اس کی قسم جس نے تجھے صحیح وسالم بھیجا ہے،میری آنکھوں کا نور تو ضائع ہوچکاتم جو بھی ہو میرے پاس آؤ (یہ سن کر میں وہاں سے واپس آگیاہوں )۔''
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:پھر مَیں بوسیدہ اور ٹوٹی پھوٹی سیڑھیاں چڑھتا ہوا اس ویران عمارت میں پہنچا جہاں وہ بڑھیا موجود تھی۔ اس بڑھیا نے کہا: ''تم مجھ سے کیا پوچھنا چاہتے ہو ؟'' میں نے کہا :''تُو کون ہے اور وہاں اس ویرانے میں تیرے ساتھ کون کو ن رہتا ہے؟ ''یہ سن کر بڑھیا بولی : میرانام'' عمیرہ'' ہے اور مَیں اس بستی کے سردار ذویل کی بیٹی ہوں، میرا باپ ایسا سخی اور فیاض تھا کہ راہ گیرو ں کو بلا بلا کر مہمان نوازی کرتا اور لوگ ہماری اس بستی میں قیام کیا کرتے تھے اور یہاں چند سال پہلے مہمانوں کی خوب ضیافتیں ہوا کرتی تھیں ،پھر اس بڑھیا نے یہ شعر پڑھا :"
وَمِنْ مَعْشَرٍ صَارُوْا رَمِیْمًا اَبُوْہُمْ کَرِیْمٌ اَبُوْالْجِحَافِ بِالْخَیْرِذُوَیْلُ
ترجمہ: او روہ لشکر بوسیدہ وخراب بے یارو مدد گار ہوگئے جن کا باپ ذویل ایسا کریم تھاجو خیر کی طرف بہت رغبت کرتا تھا۔
میں نے اس بڑھیاسے کہا : ''تمہارے باپ اورتمہاری باقی قوم کا کیا ہوا؟ کہنے لگی:'' انہیں موت نے آلیا،وہ اس دارِفانی سے رخصت ہوگئے، زمانے نے انہیں فنا کردیا، ان کے بعد مَیں اس پرندے کے بچے کی طر ح ہو گئی ہوں جو کمزور گھونسلے میں اکیلا بیٹھا ہو ۔'' میں نے اس سے کہا :'' کیا تمہیں یا د ہے کہ چند سال پہلے ایک مرتبہ ہم یہاں سے گزرے تھے ،اس وقت یہ جگہ آباد تھی او ریہاں جشن کی تیاریا ں ہو رہی تھیں، اس محل کے صحن میں چند لڑکیا ں ایک حسین وجمیل دوشیزہ کے گر د جمع تھیں اور وہ دوشیزہ دف بجاتے ہوئے یہ شعر گنگنارہی تھی:
مَعْشَرَ الْحُسَّادِ مُوْتُوْا کَمَدًا
" ترجمہ: اے حاسدو! تم شدت غم سے مرجاؤ۔
یہ سن کر بو ڑھی عورت نے ر وتے ہوئے کہا: ''اللہ عزوجل کی قسم! مجھے وہ دن اچھی طر ح یا دہے ،ان لڑکیوں میں میری بہن بھی تھی اور دف بجا کر شعر گنگنانے والی دوشیزہ مَیں ہی تھی ۔
یہ سن کر میں نے کہا:'' اگر تم پسند کر وتو ہم تجھے اپنے ساتھ اپنے وطن لے جائیں او رتم ہمارے اہل خانہ کے ساتھ رہو؟ میری یہ بات سن کر اس نے کہا :'' یہ بات مجھ پر بہت گراں ہے کہ میں اپنی اس جگہ کو چھوڑ دوں، مَیں اسی جگہ رہنا پسند کرو ں گی یہاں تک کہ مجھے بھی اپنے باپ او رقوم کی طرح موت آجائے اور میں بھی اس دنیا ناپائیدارسے رخصت ہوجاؤں۔''
پھر میں نے پوچھا :'' تمہارے کھانے پینے کا بندو بست کس طر ح ہو تا ہے؟'' اس نے کہا :'' یہاں سے قافلے گزرتے ہیں او ر میرے لئے کھانا وغیرہ پھینک جاتے ہیں،مَیں اسے کھا کر گزارا کرلیتی ہوں او ریہاں ایک گھڑا موجود ہے جو پانی سے بھر ا رہتا ہے، مَیں نہیں جانتی کہ اسے کون بھرتا ہے، بس اسی میں سے میں پانی پی لیتی ہوں، اس طر ح میری زندگی کے دن گزر رہے ہیں ۔''
پھر اس نے مجھ سے پوچھا: ''اے مسافر !کیا تمہارے قافلے میں کوئی عورت ہے ؟میں نے کہا:'' نہیں ۔'' پھرپوچھا : ''کیاتمہارے پاس کوئی سفید چادر ہے؟ '' میں نے کہا :''ہاں، چادر تو ہے۔'' پھر میں نے اسے دو چادریں لاکر دیں جو بالکل نئی تھیں ۔ چادریں لے کر وہ ایک طر ف چلی گئی،کچھ دیر بعدانہیں پہن کر واپس آئی اور کہنے لگی: ''میں نے آج رات خواب میں دیکھا کہ مَیں دُلہن بنی ہوئی ہوں اورایک گھر سے دوسرے گھر کی جانب جارہی ہوں، یہ خواب دیکھ کر مجھے گمان ہو رہا ہے کہ میںآج مرجاؤں گی، کاش! کوئی عورت ہوتی جو میرے غسل وغیرہ کا اِنتظام کر دیتی۔'' ابھی وہ بوڑھی عورت مجھ سے یہ باتیں کرہی رہی تھی کہ یکدم زمین پر گری اور اس کی روح قَفسِ عنصری سے پرواز کر گئی ۔ ہم نے اسے تیمم کرایا او راس کی نماز جنازہ پڑھی پھر اسے وہیں دفن کردیا۔
جب میں حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اورانہیں یہ واقعہ بتا یاتو وہ رونے لگے اور فرمایا: ''اگر میں تمہاری جگہ وہاں ہوتا تو ضرور ایک کریم وفیاض باپ کی اس بیکس و بے بس بیٹی کو اپنے ساتھ لے آتا لیکن مقدَّر کی بات"
" ہے، اس کے نصیب میں یہی لکھا تھا ۔ '' (اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)
(اللہ عزوجل ہر مسلمان کی مغفرت فرمائے اور ہمیں غیروں کی محتاجی سے بچا کر صرف اپنا محتاج رکھے ،چار رو زہ اس نیرنگی دُنیاکے دھوکے سے محفو ظ رکھے اور موت سے پہلے موت کی تیاری کی تو فیق عطا فرمائے، ہمیں اپنے انجام کو ہر وقت پیش نظر رکھتے ہوئے آخرت کی تیاری کی تو فیق عطا فرمائے، دنیوی نعمتوں پر غرورو تکبر کرنے سے ہمیں محفوظ رکھے، صرف اور صرف اپنی رضا کی خاطر تمام نیک ا عمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور صبر وقناعت کی دولت عطا فرمائے اورہمیں مفلسی سے بچائے۔آمین )
نہ محتا ج کر تو جہاں میں کسی کا مجھے مفلسی سے بچا یا الٰہی عزوجل !"
" حضرت سیدنا عبد الرحمن بن حفص الجمحی علیہ رحمۃاللہ القوی فرماتے ہیں : ''ایک مرتبہ ایک قافلہ سفرپر روانہ ہوا اور اہلِ قافلہ راستہ بھول گئے، انہیں بڑی پریشانی ہوئی بالآخر ایک طرف انہیں آبادی کے آثار نظر آئے اوروہ اسی سمت چل دیئے۔ بستی سے دور ایک راہب اپنی عبادت گاہ میں مشغولِ عبادت تھا۔ سارے قافلے والے وہاں پہنچے اور راہب کوآواز دی ۔راہب نے آوازسن کرنیچے جھانکا توقافلے والوں نے کہا:''ہم راستہ بھول گئے ہیں، برائے کرم! صحیح راستے کی طرف ہماری رہنمائی کرو۔''یہ سن کراس راہب نے آسمان کی طرف اشارہ کیااور کہا: ''تمہاری (اصلی)منزل اس طرف ہے ۔''راہب کی یہ بات سن کر قافلے والے جان گئے کہ راہب ہمیں یہ سمجھا نا چاہتا ہے کہ اصلی منزل تو آخرت کی منزل ہے ۔
پھر قافلے والوں میں سے بعض نے کہا :'' ہم اس راہب سے کچھ نصیحت آموز باتیں سن لیں تو بہتر ہوگا۔'' چنانچہ وہ راہب سے کہنے لگے: ''ہم تجھ سے کچھ سوالات کر نا چاہتے ہیں،کیا تم جواب دینا پسند کرو گے؟''یہ سن کر وہ بولا:'' جو پوچھنا ہے جلدی پوچھو لیکن سوالات میں کثرت نہ کرنا کیونکہ جو دن گزر گیا وہ کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا اور جو عمر گزرگئی وہ کبھی پلٹ کر نہیں آئے گی پس جو آخرت میں کامیابی کا طالب ہو اسے چاہے کہ جلد از جلد اپنی آخرت کے لئے زادِراہ تیار کر لے ۔''قافلے والے اس راہب سے یہ حکمت بھری باتیں سن کر بہت حیران ہوئے اور اس سے پوچھا: ''کل بروز قیامت مخلوق اپنے خالقِ حقیقی عزوجل کے سامنے کس حالت میں ہوگی ؟''اس نے جواب دیا:'' اپنی اپنی نیتوں کے مطابق وہ بارگاہ خداوندی عزوجل میں حاضر ہوں گے،پھر"
"انہوں نے پوچھا: ''نجات کابہترین راستہ کیا ہے ؟''
راہب نے جواب دیا:'' تمہارے نیک اعمال جو تم آگے بھیجتے ہو وہ تمہاری نجات کا باعث بنیں گے۔'' اہلِ قافلہ نے کہا: '' اے راہب !ہمیں مزید نصیحت کرو۔''اس نے کہا :'' اپنے لئے اتنا ہی زادِراہ لو جتنا تمہارا سفر ہے اور دنیاوی سفر کے لئے صرف اتنا ہی توشہ کافی ہے جتنا ایک جانور کے لئے ہوتا ہے ۔''اس کے بعد راہب نے اہل قافلہ کوراستہ بتایا اور اپنی عبادت گاہ میں داخل ہو گیا۔''"
" حضرت سیدنا مبارک بن فُضالہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت سیدنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کر تے ہیں: ''کسی علاقے میں ایک بہت بڑا درخت تھا ،لوگ اس کی پوجا کیا کرتے تھے اور اس طرح اس علاقے میں کفر و شرک کی وبا بہت تیزی سے پھیل رہی تھی۔ایک مسلمان شخص کا وہاں سے گزر ہوا تو اسے یہ دیکھ کر بہت غُصّہ آیا کہ یہاں غیر اللہ کی عبادت کی جارہی ہے ۔چنانچہ وہ جذبہ توحید سے معمور بڑی غضبناک حالت میں کلہاڑا لے کر اس درخت کو کاٹنے چلا،اس کے ایمان نے یہ گوارا نہ کیا کہ اللہ عزوجل کے سوا کسی اور کی عبادت کی جائے ۔اسی جذبہ کے تحت وہ درخت کاٹنے جا رہا تھا کہ شیطان مردود اس کے سامنے اِنسانی شکل میں آیا اور کہنے لگا :''تُو اتنی غضبناک حالت میں کہا ں جا رہا ہے ؟''اس مسلمان نے جواب دیا : ''میں اس درخت کو کاٹنے جا رہا ہوں جس کی لوگ عبادت کرتے ہیں ۔''یہ سُن کر شیطان مردود نے کہا :'' جب تُو اس درخت کی عبادت نہیں کرتا تو دوسروں کا اس درخت کی عبادت کرنا تجھے کیا نقصان دیتاہے ؟تُو اپنے اس ارادے سے باز رہ اور واپس چلا جا ۔''اس مسلمان نے کہا : ''میں ہرگز واپس نہیں جاؤں گا۔'' معاملہ بڑھا اور شیطان نے کہا :'' میں تجھے وہ درخت نہیں کاٹنے دوں گا ۔''
چنانچہ دونو ں میں کُشتی ہو گئی اور اس مسلمان نے شیطان کو پچھاڑ دیا،پھر شیطان نے اسے لالچ دیتے ہو ئے کہا : ''اگر تُو اس درخت کو کاٹ بھی دے گا تو تجھے اس سے کیا فائدہ حاصل ہوگا۔میرا مشورہ ہے کہ تو اس درخت کو نہ کاٹ، اگر تُوایسا کریگا تو روزانہ تجھے اپنے تکیے کے نیچے سے دو دینار ملا کریں گے ۔''وہ شخص کہنے لگا:'' کون میرے لئے دو دینار رکھا کریگا ۔''شیطان نے کہا :'' میں تجھ سے وعدہ کرتا ہوں کہ روزانہ تجھے اپنے تکیے کے نیچے سے دو دینارملاکریں گے ۔''وہ شخص شیطان کی اِن لالچ بھری باتوں میں آگیااور دودینار کی لالچ میں اس نے درخت کاٹنے کاارادہ ترک کیا اور واپس گھر لوٹ آیا۔ پھر جب صبح"
"بیدارہوا تو اس نے دیکھا کہ تکیے کے نیچے دو دینار موجود تھے۔
پھر دوسری صبح جب اس نے تکیہ اٹھایاتو وہاں دینار موجود نہ تھے،اسے بڑا غُصّہ آیا اور کلہاڑ ااٹھا کر پھر درخت کاٹنے چلا۔شیطان پھرانسان کی شکل میں اس کے پاس آیا اور کہا:''کہاں کا ارادہ ہے؟''وہ کہنے لگا : ''مَیں اس درخت کو کاٹنے جارہا ہوں جس کی لوگ عبادت کرتے ہیں، میں یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ لوگ غیر خداکی عبادت کریں ،لہٰذامیں اس درخت کو کاٹ کر ہی دم لوں گا۔''شیطان نے کہا: ''تُو جھوٹ بول رہاہے،اب تُوکبھی بھی اس درخت کو نہیں کاٹ سکتا ۔''چنانچہ شیطان اور اس شخص کے درمیان پھر سے کُشتی شروع ہوگئی۔ اِس مرتبہ شیطان نے اس شخص کو بری طرح پچھاڑدیا اور اس کا گلا دبا نے لگا قریب تھا کہ اس شخص کی موت واقع ہو جاتی۔اس نے شیطان سے پوچھا: ''یہ تو بتا کہ تُو ہے کون؟'' شیطان نے کہا: ''میں ابلیس ہوں اور جب تُوپہلی مرتبہ درخت کاٹنے چلاتھاتواس وقت بھی میں نے ہی تجھے روکا تھا لیکن اس وقت تُو نے مجھے گرا دیا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت تیرا غصہ اللہ عزوجل کے لئے تھا لیکن اس مرتبہ میں تجھ پر غالب آگیا ہو ں کیونکہ اب تیراغُصّہ اللہ تعالیٰ کے لئے نہیں بلکہ دیناروں کے نہ ملنے کی وجہ سے ہے۔ لہٰذا اب تو کبھی بھی میرا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔''
(اے ہمارے پیارے اللہ عزوجل ! ہمیں ہر عمل میں اخلاص عطا فرمااور ریاکاری کی مذموم بیماری سے ہماری حفاظت فرما کر ہمیں ہر عمل صرف اپنی رضا کی خاطر کرنے کی توفیق عطا فرما اورہمیں اپنے مخلص بندو ں میں شامل فرما۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم )
؎ میرا ہر عمل بس ترے واسطے ہو کر اِخلاص ایسا عطا یا الٰہی عزوجل"
حضرت سیدناابراہیم بن بشار علیہ رحمۃاللہ الغفّار فرماتے ہیں:'' میں حضرت سیدنا ابراہیم بن ادہم علیہ رحمۃاللہ الاعظم کی صحبت بابرکت میں چھ سال اور کچھ ماہ رہا۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اکثر خاموش رہتے اور ہم سے کبھی بھی کوئی بات نہ پوچھتے بلکہ ہم ہی ان سے کلام کرتے ۔ہمیں ایسا محسوس ہوتا جیسے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے منہ میں کوئی چیز ڈال کر کلام کرنے سے روک دیا گیا ہو۔میں جب بھی آپ کودیکھتا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی حالت ایسی ہوتی جیسی اس ماں کی ہو تی ہے جس کا بچہ گم ہوگیا ہواور مجھے دنیا میں
"سب سے زیادہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہی غمگین نظر آتے اور ایسا لگتا جیسے آپ پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ہوں اور آپ کے کلیجے کو غموں نے چھلنی کر دیا ہو ،آپ کے پاخانہ اور پیشاب میں خون کی آمیزش ہوتی۔ ہمیں اس کی وجہ یہی نظر آتی کہ شدتِ غم کی وجہ سے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی یہ حالت ہو گئی ہے ۔
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہمیں وصیت کرتے ہوئے فرماتے:'' لوگو ں سے کنارہ کشی اختیار کرلو ،جسے تم نہیں جانتے اسے جاننے کی کوشش نہ کرو اور جسے جانتے ہو اس سے بھی دور رہنے میں ہی عافیت ہے ۔''
اسی طرح کی نصیحتیں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرمایاکرتے تھے ۔حضرت سیدناابراہیم بن بشاررحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: ''ایک مرتبہ حضرت سیدنا ابراہیم بن ادہم رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے ساتھ میں ،حضرت سیدناابو یوسف الغسولی اورحضرت ابو عبدا للہ سنجاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جہاد کے لئے روانہ ہوئے ،چنانچہ ہم چاروں ساحل سمندر پر پہنچے اور کشتی میں سوار ہو گئے ۔ جب کشتی چلنے لگی تواس میں سے ایک شخص کھڑا ہوااور کہنے لگا:'' سب مسافر ایک ایک دینار کرایہ ادا کریں، چنانچہ سب نے کرایہ دینا شروع کیا۔ ہماری حالت یہ تھی کہ ہمارے لباس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی شئے نہ تھی ۔ جب وہ شخص ہمارے پاس آیا تو حضرت سیدناابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کھڑے ہوئے اور کشتی سے اُتر کر ساحل پر چلے گئے،تھوڑی ہی دیر کے بعد آپ واپس آئے تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس چارایسے دینار تھے جن کی چمک سے آنکھیں چندھیا رہی تھیں۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ان دیناروں سے کرایہ ادا کیا ۔
کشتی کے لنگر اٹھا دیئے گئے اور سفر شروع ہو گیا،ہماری کشتی کے ساتھ دوسرے مما لک اسکندریہ، عسقلان، تِنِّیس اور دَقیاط وغیرہ کی کشتیاں بھی سفر کر رہی تھیں۔اس طرح تقریباًسولہ یا سترہ کشتیوں نے ایک ساتھ سفر شروع کیا،قافلے جانبِ منزل رواں دواں تھے کہ ایک رات اچانک تیزہوائیں چلنا شروع ہوگئیں، ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا چھا گیا ،سمندر میں بھو نچال سا آگیا،طوفان کا سلسلہ شروع ہوگیا ،موجوں میں اِضطراب بڑھتاہی جارہاتھا،ہمیں اپنی ہلاکت کایقین ہو چکا تھا ، سب لوگو ں نے ہاتھ اُٹھا ئے اور گڑ گڑاکر دعا ئیں مانگنے لگے۔
حضرت سیدنا ابراہیم بن ادہم رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ اپنی چادر اوڑھے اطمینا ن وسکون سے ایک جانب سو رہے تھے۔ ایک شخص نے جب آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کو اس طرح سوتے دیکھاتو آپ کے قریب آ کر کہنے لگا:'' اے اللہ عزوجل کے بندے! سمندر میں طوفان آیا ہوا ہے، ہم سب موت کے منہ میں پہنچ چکے ہیں پھر بھی آپ اطمینان سے سورہے ہیں۔آپ بھی ہمارے ساتھ مل کر دعا کریں کہ اللہ عزوجل ہمیں اس مصیبت سے نجات عطا فرمائے۔
یہ سن کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے آسمان کی طرف سر اٹھایا۔ہم نے نہ تو آپ کے ہونٹ ہلتے دیکھے اورنہ ہی آپ کے منہ"
"سے کوئی کلام سُنا،یکایک ایک غیبی آواز گونجی، کوئی کہنے والا کہہ رہا تھا :'' اے آنے والی شدید ہوا ؤ!اور ا ے مضطرب موجو! تم ٹھہر جاؤ! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ تمہارے اوپر ابراہیم بن ادہم(علیہ رحمۃ اللہ الاکرم ) موجود ہے۔ یہ آواز گونج رہی تھی لیکن معلوم نہیں کہ یہ آواز کہا ں سے آرہی تھی۔ نہ تو سمند ر میں کوئی شخص نظر آرہا تھا نہ ہی آسمان کی طرف کوئی ایسا شخص تھا جو یہ صدا بلند کر رہا ہو ، پھر اس آواز کے گونجتے ہی ہوائیں بالکل بند ہو گئیں، اندھیرا چھٹ گیا اور سمندر میں سکون آگیا ،ایک بارپھر ساری کشتیا ں ایک ساتھ سفر کرنے لگیں ۔
پھر سب کشتیوں کے مالکوں نے آپس میں ملاقات کی ،ان میں سے کسی نے کہا :'' کیا تم نے سمندری طوفان کے وقت غیبی آ واز سُنی تھی؟''سب نے بیک زبان کہا: ''ہاں! ہم نے آواز سُنی تھی ۔''پھر سب نے مشورہ کیا کہ جب ہم ساحل پر پہنچیں گے تو ہر شخص کو اس کے رفقاء کے ساتھ کر دیں گے تاکہ ہمیں معلوم ہو جائے کہ وہ غیبی آواز کس شخص کے متعلق تھی پھر ہم اس عظیم شخص سے دعا کروائیں گے جس کی برکت سے ہم ہلاکت سے بچ گئے ۔''
جب کشتیاں ساحل سمندر پر پہنچیں توسب لوگوں نے مطلوبہ قلعے کی طرف پیش قدمی کی۔جب قریب پہنچے تو معلو م ہوا کہ یہ قلعہ تو بہت مضبوط ہے اور اس کے دروازے لوہے کے ہیں ،بظاہر اس کو فتح کرنا بہت دشوار تھا، سب شش و پنج میں تھے۔ بالآخر حضرت سیدنا ابراہیم بن ادہم رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' اے لوگو!جس طرح میں کہوں تم بھی اسی طرح کہنا ،پھر آ پ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ کلمات کہے:'' لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ۔ ''لوگوں نے بھی یہ پاکیزہ کلمات کہے،یکایک قلعے کی دیوار سے ایک بہت بڑا پتھر گرپڑا آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے دوبارہ فرمایا : ''جس طرح میں کہوں تم بھی ایسے ہی کہنا۔''چنانچہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے پھر یہی کلمات فرمائے :'' لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکْبَرْ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ۔''لوگوں نے بھی یہ کلمات دہرائے پھر ایک بہت بڑا پتھر قلعے کی دیوار سے گرگیا۔
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے تیسری بار بھی یہی کلمات دہرائے اور لوگوں نے بھی کہے تو دیوار سے پھرایک پتھر گرگیا اور دیوار میں اتنا شگاف ہو گیاکہ باآسا نی اس سے گزرا جا سکے۔
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا :'' اے لوگو !جاؤاللہ عزوجل کا نام لے کر قلعے میں داخل ہوجاؤ،اللہ عزوجل بر کت عطا فرمائے گا لیکن میں تمہیں ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں:''تم کسی پر ظلم مت کرنا اورحد سے تجاوز نہ کرنا، میری اس بات کو اچھی طرح یاد رکھنا۔''لوگ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی نصیحتیں سننے کے بعد قلعے میں داخل ہوگئے۔ وہ کہتے ہیں کہ و ہاں سے ہمیں بغیر جہاد کئے اتنا مالِ غنیمت حاصل ہوا کہ ہماری کشتیاں بوجھ سے بھر گئیں ۔"
" پھر ہم واپس ہوئے اور تمام کشتیاں دوبارہ ایک ساتھ چلنے لگیں جب اللہ عزوجل نے ہمیں خیریت سے اپنی منزل تک پہنچا دیا، تو حضرت سیدنا ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے رفقاء کے ساتھ بندر گاہ کی طرف روانہ ہوئے ۔ آپ نے مالِ غنیمت کی تقسیم پرکوئی اعتراض نہ کیا حالانکہ ان لوگوں نے ہمیں مالِ غنیمت میں سے ایک دینار بھی نہ دیاتھا۔ ہم نے باقی مسافروں میں سے ایک سے پو چھا: ''تمہیں کتنا کتنا حصّہ مالِ غنیمت ملا؟'' اس نے کہا :'' ہم میں سے ہر ایک کو تقریباً ایک سوبیس سو نے کی اشرفیاں ملیں۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)
(میٹھے میٹھے اسلامی بھا ئیو!سبحان اللہ عزوجل !قربان جائیں بزرگوں کی شانِ بے نیازی پر کہ جن کی برکت سے فتح ہوئی ان کو ایک درہم بھی نہ ملالیکن پھر بھی مطالبہ نہ کیا ، وہ دنیا وی دولت کے خواہاں نہ تھے بلکہ انہیں تو صرف اللہ عزوجل کی رضا مطلوب تھی، اللہ عزوجل ہمیں بھی ان بزرگوں کے صدقے اخلاص کی دولت سے مالا مال فرمائے اور دنیاوی مال کے وبال سے بچائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)"
" حضرت سیدناسعیدبن عثمان علیہ رحمۃاللہ المنّان فرماتے ہیں :'' ایک دن ہم حضرت سیدنا محمدبن منصور علیہ رحمۃاللہ الغفور کی خدمت میں حاضر تھے ۔آپ کی بارگاہ میں اس وقت زاہدوں اور محدثین کی کثیر تعداد موجود تھی ،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرمانے لگے: ''ایک دن میں نے روزہ رکھا اورارادہ کیا کہ اس وقت تک کوئی شے نہیں کھاؤں گا جب تک مجھے معلوم نہ ہو جائے کہ یہ بالکل حلال ذریعے سے حاصل کی گئی ہے اور اس میں کسی قسم کا شبہ نہیں ۔
اس طرح میرا ایک دن گزر گیا لیکن ایسی کوئی شے نہ ملی پھر دوسرا دن گزر گیا لیکن میں نے کوئی چیز نہ کھائی یہا ں تک کہ تین دن گزر گئے لیکن میں نے کوئی چیز نہ کھائی صرف چندگھونٹ پانی پی کر گزارہ کیا۔ چوتھے دن میں نے کہا کہ آج میں اس عظیم ہستی کے ہاں کھانا کھاؤں گا جس کے رزق کو اللہ عزوجل نے حلال و طیب رکھا ہے اور اس میں کسی قسم کا شبہ نہیں۔''چنانچہ مَیں حضرت سیدنامعروف کرخی علیہ رحمۃاللہ القوی کی بارگاہ میں حاضری کے لئے روانہ ہوا ۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مسجد میں تھے، میں نے سلام کیا اور آپ کے پاس بیٹھ گیا۔ مغرب کی نماز کے بعد سب نمازی چلے گئے۔ ہم دونوں کے علاوہ صرف ایک اور شخص مسجد میں باقی رہا تو حضرت سیدنامعروف کرخی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:'' اے طوسی۔''میں نے کہا: ''حضور میں حاضر ہو ں ۔''"
" آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' اے طوسی! تُو اپنے بھائی کے پاس اس لئے آیا ہے کہ وہ تیرے ساتھ عیش و عشرت کی زندگی گزارے ۔''میں نے دل میں کہا :میں نے تو چار دنوں سے کچھ بھی نہیں کھایا اور بھوک سے میری حالت خراب ہو رہی ہے، میرے پاس رات کے کھا نے کو کچھ بھی نہیں۔ ''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کچھ دیر خاموش رہے، پھر فرمایا:'' میرے قریب آؤ۔'' میں بڑی مشکل سے اُٹھا کمزوری کی وجہ سے اٹھنا مشکل ہو رہا تھا بہر حال میں قریب چلا گیا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے میرا سیدھا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنی اُلٹی آستین میں داخل کیا تو مجھے وہاں ناشپاتی جیسا ایک پھل ملا جو کچھ سخت تھا اور ایسا محسوس ہو تا تھا جیسے اسے دانتوں سے چبایا گیاہو ۔
میں نے وہ پھل کھا یا تو اس میں مجھے بہترین قسم کا ذائقہ محسو س ہوا ۔وہ پھل اتنا لذیذ تھا کہ اس کاذائقہ بیان سے باہر ہے۔ اسے کھاتے ہی میری بھوک ختم ہو گئی اور پانی کی بھی حاجت نہ رہی،یہ دیکھ کر مسجد میں بیٹھے ہوئے اس اَجنبی شخص نے کہا : کیا تم ہی ابو جعفر ہو؟ میں نے کہا :''جی ہاں!میں ہی ابو جعفر ہوں اور میں نے آج تک کبھی بھی ایسا لذیذ اور خوش ذائقہ پھل نہیں کھایا جیسا آج کھایاہے ۔''پھر حضرت سیدنا محمد بن منصورعلیہ رحمۃ اللہ الغفور ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:'' جب تک میں دنیا میں زندہ رہو ں تم میرے اس واقعے کی ہرگز تشہیر نہ کرنا ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)"
حضرت سیدنا احمد بن بکر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں،میں نے حضرت سیدنا یحییٰ بن معاذ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کویہ فرماتے ہوئے سنا کہ ''ایک مرتبہ سفر کرتے ہوئے میں ایک ویران جنگل میں پہنچا۔کچھ دور بانس کی بنی ہوئی ایک جھونپڑی نظر آئی۔ میں اسی طرف چل دیا۔ وہاں میں نے ایک بوڑھا شخص دیکھا جو کوڑھ کے مرض میں مبتلاتھا اورکیڑے اس کے جسم کو کھارہے تھے۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر مجھے اس پربہت ترس آیا، میں نے کہا :'' اے بزرگ! اگر آپ چاہیں تو میں اللہ عزوجل سے دعا کروں کہ وہ آپ کو صحت عطا فرمادے ؟'' میری یہ بات سن کر جب اس بزرگ نے اپناسر اوپر اٹھایا تومعلوم ہوا کہ وہ نابینا ہے۔ پھر اس نے کہا :''اے یحییٰ بن معاذ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ! اگر تجھے اپنی دعا کی قبولیت پر اتنا ہی ناز ہے تو اپنے لئے دعا کیوں نہیں کرتا کہ اللہ عزوجل تیرے دل سے اناروں کی محبت نکال دے ؟''اس بزرگ کی یہ بات سن کر میں بہت حیران ہوا ۔میں نے ا للہ عزوجل سے عہد کیا تھا کہ نفسانی خواہش کی خاطر کبھی بھی کوئی چیز نہ کھاؤں گا بلکہ جس چیز کی نفس تمنا کریگا اسے ترک کر دوں گالیکن مجھے انار بہت پسند تھے، انہیں ترک کرنے پر
"میں قادر نہ ہوسکا ۔ اس بزرگ نے میری اس حالت کو جان لیا او رکہا: ''پہلے اپنے لئے دعا کرو ،میں اس بیماری کی حالت میں بھی اپنے رب عزوجل سے راضی ہو ں۔'' پھر اس بزرگ نے مجھ سے کہا: ''جاؤ! اور کبھی بھی اولیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ سے ٹکر نہ لینا ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)"
" حضرت عبد الحمید بن محمود رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:''ایک مرتبہ میں حضرت سیدناابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی خدمت میں حاضر تھاکہ ایک شخص آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے پاس آیااورعرض کی:'' حضور! ہم بہت سے لوگ حج کرنے آئے ہیں۔ صفا ومروہ کی سعی کے دوران ہمارے ایک دوست کا انتقال ہو گیا۔ غسل و تکفین وغیرہ کے بعد اسے قبرستان لے جایا گیا۔ جب اس کے لئے قبر کھودی تو ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ایک بہت بڑا اژدہاقبرمیں موجود ہے۔ ہم نے اسے چھوڑکر دوسری قبر کھودی۔ وہاں بھی وہی اژدہا موجود تھا۔پھر تیسری قبر کھودی تو اس میں بھی وہی خوفناک سانپ کنڈلی مارے بیٹھا تھا۔ ہمیں بڑی پریشانی لاحق ہوئی۔ اب ہم اس میّت کو وہیں چھوڑ کرآپ کی بارگاہ میں مسئلہ دریافت کرنے آئے ہیں کہ اس خوفناک صورت حال میں کیا کریں؟''
حضرت سیدناابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا:''وہ اژدہا اس کا بُرا عمل ہے جووہ دنیا میں کیا کرتا تھا۔تم جاؤاور ان تین قبروں میں سے کسی ایک میں اسے دفن کر دو،اللہ عزوجل کی قسم! اگر تم اس شخص کے لئے ساری زمین بھی کھو د ڈالو تب بھی وہاں اس اژدہے کو ضرور پاؤگے۔''
وہ شخص واپس چلا گیا اور اس فوت شدہ شخص کو ان کھودی ہوئی قبروں میں سے ایک قبر میں دفن کر دیا گیا اور اژدہا بدستور اس قبر میں موجود تھا ۔پھر جب ہماراقافلہ حج کے بعد اپنے علاقے میں پہنچا تو لوگو ں نے اس شخص کی زوجہ سے پو چھا:'' تمہارا شوہر ایسا کون سا گناہ کرتا تھا جس کی وجہ سے اس کو ایسی درد ناک سزا ملی ؟''اس عورت نے افسوس کرتے ہوئے کہا : ''میرا شوہر غَلِّے کا تاجر تھااوروہ غلّے میں ملاوٹ کیا کرتاتھا۔ روزانہ گھر والوں کی ضرورت کے مطابق گندم نکال لیتا اور اتنی مقدار میں جَو کا بھوسا گندم میں ملا دیتا ،یہ اس کا روز کا معمول تھا ۔بس اس (ملاوٹ کے ) گناہ کی اس کو سزا دی گئی ہے ۔ ''
(اے ہمارے پیارے اللہ عزوجل !ہمیں عذاب قبر سے محفوظ رکھنا، ہمار ی قبر میں سانپ اور بچھو نہ آئیں بلکہ ہمارے"
"پیارے آقاصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی تشریف آوری ہو اور اُن کے نورانی جسم سے ہماری قبرمنورہو جائے ۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)
؎ جب فرشتے قبر میں جلوہ دکھائیں آپ کا ہو زباں پر پیارے آقا الصلوٰۃ والسلام
یاالٰہی گورتیرہ کی جب آئے سخت رات ان کے پیارے منہ کی صبح ِ جانفزا کاساتھ ہو"
" نبی کریم،رء ُوف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشادفرمایا:'' بنی اسرائیل میں تین شخص تھے۔ایک برص(کوڑھ) کا مریض، دوسرا گنجا ،تیسرا اندھا ۔ اللہ عزوجل نے ان کی آزمائش کے لئے ایک فرشتہ (بشری صورت میں) ان کے پاس بھیجا۔پہلے وہ برص کے مریض کے پاس آیااوراس سے پوچھا:''تجھے سب سے زیادہ کون سی چیزمحبوب ہے؟''اس نے کہا:''مجھے اچھارنگ اوراچھی جِلد پسند ہے اور میری خواہش ہے کہ جس بیماری کی وجہ سے لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں وہ مجھ سے دورہوجائے۔'' فرشتے نے اس کے جسم پر ہاتھ پھیراتواس کی وہ بیماری جاتی رہی، اس کا رنگ بھی اچھا ہو گیا اور جِلد بھی اچھی ہو گئی۔'' فرشتے نے پھر اس سے پوچھا: '' تجھے کو ن سا ما ل زیادہ پسند ہے ؟''اس نے کہا:'' مجھے اونٹنی پسند ہے ۔'' اسی وقت اسے دس ماہ کی حاملہ اونٹنی دے دی گئی، اور فرشتے نے دعادی : ''اللہ تعالیٰ تجھے اس میں برکت دے ۔''
پھروہ فرشتہ گنجے کے پاس آیا اور اس سے پوچھا :'' تجھے کون سی شے سب سے زیادہ محبوب ہے ؟''اس نے کہا: ''مجھے خوبصورت بال زیادہ پسند ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ جس چیز کی وجہ سے لوگ مجھ سے گِھن کھاتے ہیں وہ دور ہوجائے۔'' فرشتے نے اس پر ہاتھ پھیرا تو اس کی وہ شے جاتی رہی جس سے لو گ گِھن کھاتے تھے اور اس کے سر پر بہترین بال آگئے۔''فرشتے نے پوچھا: ''تجھے کون سا مال زیادہ پسند ہے ؟''اس نے کہا:'' مجھے گائے بہت پسند ہے ۔ ''چنانچہ اسے ایک گابھن گائے دے دی گئی۔ فرشتے نے اس کے لئے دعا کی :'' اللہ تعالیٰ تیرے لئے اس میں برکت دے۔''
پھر فرشتہ اندھے کے پاس آیا اور اس سے کہا :'' تجھے سب سے زیادہ کون سی چیز محبوب ہے ؟''اس نے کہا: ''مجھے یہ پسند ہے کہ اللہ عزوجل میری بینائی مجھے واپس کردے تاکہ میں لوگو ں کو دیکھ سکوں۔''فرشتے نے اس پرہاتھ پھیرا تو اس کی آنکھیں روشن ہو گئیں ۔ '' پھر اس سے پوچھا :'' تجھے کون سا مال زیادہ محبوب ہے ؟'' اس نے کہا :'' بکریا ں۔''چنانچہ اسے ایک گابھن بکری دے دی گئی ۔"
" اب اونٹنی ،گائے اور بکری نے بچے دینا شروع کئے۔ کچھ ہی عرصے میں ان کے جانور اِتنے بڑھے کہ ایک کے اونٹوں ، دوسرے کی گائیوں اور تیسرے کی بکریوں سے ایک پوری وادی بھر گئی ۔پھر فرشتہ اس برص کے مریض کے پاس اس کی پہلی صورت یعنی برص کی حالت میں آیا اور اس سے کہا:'' میں ایک غریب و مسکین شخص ہوں، میرے پاس زادِراہ ختم ہوگیا ہے اور واپس جانے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی مگر اللہ عزوجل کی رحمت سے اُمید ہے اور مَیں تیری مدد کا طلب گار ہوں۔ جس ذات نے تجھے خوبصورت رنگ ،اچھی جِلد اور مال عطا کیامیں تجھے اس کا واسطہ دیتا ہوں کہ آج مجھے ایک اُونٹ دے دے تا کہ میں اپنی منزل تک پہنچ سکوں۔'' یہ سن کر اس نے انکار کرتے ہوئے کہا :'' میرے حقوق بہت زیادہ ہیں۔'' توفرشتے نے کہا : ''مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں تجھے جانتا ہوں، کیا تُووہی نہیں جس کو کوڑھ کی بیماری لاحق تھی اور لوگ تجھ سے نفرت کیا کرتے تھے اور تو فقیر و محتاج تھا ،پھر اللہ عزوجل نے تجھے مال عطا کیا ۔'' اس نے کہا : ''مجھے تو یہ سارا مال ورا ثت میں ملا ہے اور نسل در نسل یہ مال مجھ تک پہنچا ہے۔'' فرشتے نے کہا : ''اگر تُو اپنی اس بات میں جھوٹا ہے تو اللہ تعالیٰ تجھے ایسا ہی کر دے جیسا تُو پہلے تھا ۔''
پھر وہ فرشتہ گنجے کے پاس اس کی پہلی صورت میںآیااور اس سے بھی وہی بات کہی جو برص والے سے کہی تھی ۔اس نے بھی برص والے کی طر ح جواب دیا ۔ فرشتے نے کہا: ''اگر تُو اپنی بات میں جھوٹا ہے تو اللہ عزوجل تجھے تیری سابقہ حالت پر لوٹا دے۔''پھر فرشتہ اندھے کے پاس اُس کی پہلی حالت میں آیااور کہا : ''میں ایک مسکین مسافر ہو ں اور میرا زادِراہ ختم ہو چکا ہے۔ آج کے دن میں اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکتا مگر اللہ عزوجل کی ذات سے اُمید ہے اور اس کے بعد مجھے تیرا آسرا ہے ۔ میں اسی ذات کا واسطہ دے کر تجھ سے سوال کرتا ہوں جس نے تجھے آنکھیں عطا فرمائیں کہ مجھے ایک بکری دے دے تاکہ میں اپنی منزل تک پہنچ سکوں ۔'' تو وہ کہنے لگا:'' میں تو پہلے اندھا تھا پھر اللہ عزوجل نے مجھے آنکھیں عطا فرمائیں تو جتنا چاہے اس مال میں سے لے لے اور جتنا چاہے چھوڑ دے۔'' خدا عزوجل کی قسم! تُو جتنا مال اللہ عزوجل کی خاطر لینا چاہے لے لے ،مَیں تجھے مشقت میں نہ ڈالوں گا (یعنی منع نہ کروں گا )۔''یہ سن کر فرشتے نے کہا : ''تیرا مال تجھے مبارک ہو ،یہ سارا مال تُو اپنے پاس ہی رکھ۔ تم تینوں شخصوں کاامتحان لیا گیا تھا ،تیرے لئے اللہ عزوجل کی رضا ہے اور تیرے دونوں دوستوں(یعنی کوڑھی اور گنجے)کے لئے اللہ عزوجل کی ناراضگی ہے۔''
(اے ہمارے پیارے اللہ عزوجل! ہمیں مال کے وبال اور اپنی ناراضگی سے بچا کر اپنی دائمی رضا عطا فرما ،اورہم سے ایسا راضی ہو جا کہ پھر کبھی نا راض نہ ہو)
؎ عفو کر اور سدا کے لئے راضی ہو جا گرکرم کردےتوجنت میں رہوں گا یا رب عزوجل"
" حضرت سیدنااحمد بن ناصح المصیصی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:'' ایک غریب شخص بہت عبادت گزاراور کثیرالعیال تھا۔ گھر کا خرچ وغیرہ اس طرح چلتا کہ گھر والے اُون کی رسیاں بناتے اوروہ انہیں فروخت کر کے کھانے پینے کا سامان خریدلاتا، جتنا مل جاتا اسی کو کھاکر اللہ عزوجل کا شکر ادا کرتے ۔''
حسبِ معمول ایک مرتبہ وہ نیک شخص اُون کی رسیّاں بیچنے بازار گیا۔ جب رسیّاں بِک گئیں تووہ گھر والو ں کے لئے کھانے کا سامان خریدنے لگا۔اتنے میں اس کا ایک دوست اس کے پاس آیا اور کہا :'' میں سخت حاجت مند ہوں، مجھے کچھ رقم دے دو۔''اس رحم دل عبادت گزار شخص نے وہ ساری رقم اس غریب حاجت مندسائل کو دے دی اور خود خا لی ہاتھ گھر لوٹ آیا۔
جب گھر والو ں نے پوچھا:'' کھانا کہاں ہے ؟''تو اس نے جواب دیا:'' مجھ سے ایک حاجت مند نے سوال کیا وہ ہم سے زیادہ حاجت مند تھا لہٰذا میں نے ساری رقم اس کو دے دی ۔''گھر والو ں نے کہا :'' اب ہم کیا کھائیں گے؟ہمارے پاس تو گھر میں کچھ بھی نہیں۔'' اس نیک شخص نے گھر میں نظر دوڑائی تو اسے ایک ٹو ٹا ہوا پیالہ اور گھڑا نظر آیا۔اس نے وہ دو نوں چیزیں لیں اور بازار کی طر ف چل دیا اس اُمید پرکہ شاید انہیں کوئی خرید لے اور میں کچھ کھانے کا سامان لے آؤں ۔
چنانچہ وہ بازار پہنچا لیکن کسی نے بھی اس سے وہ ٹو ٹا ہوا پیالہ اور گھڑا نہ خریدا۔اتنے میں ایک شخص گزرا جس کے پاس ایک خراب پھولی ہوئی مچھلی تھی،مچھلی والے نے کہا :'' تُو میرا خراب مال اپنے خراب مال کے بدلے خرید لے یعنی یہ ٹو ٹا ہوا پیالہ اور گھڑا مجھے دے دے اور مجھ سے یہ پھولی ہوئی خراب مچھلی لے لے ۔'' اس عا بد شخص نے یہ سود ا منظور کرلیا اور خراب مچھلی لے کر گھر پلٹ آیا اور گھر والوں کے حوالے کر دی۔
جب انہوں نے اس مچھلی کو دیکھا تو کہنے لگے: ''ہم اس بے کار مچھلی کا کیا کریں؟''اس عابد شخص نے کہا :'' تم اسے بھون لو ہم اسے ہی کھالیں گے ،اللہ عزوجل کی ذات سے اُمید ہے کہ وہ مجھے رزق ضرور عطا کریگا ۔''چنانچہ گھر والوں نے مچھلی کو کاٹنا شرو ع کردیا ،جب اس کا پیٹ چاک کیا تو اس کے اند ر سے ایک نہایت قیمتی موتی نکلا ، گھر والوں نے اس عابد کو خبردی۔ اس نے کہا : '' دیکھو! اس موتی میں سورا خ ہے یانہیں۔ اگر سوراخ ہے تویہ کسی کااستعمالی موتی ہوگا اور ہمارے پاس یہ امانت ہے ۔اگر اس میں سوراخ نہیں تو پھر یہ رزق ہے جسے اللہ ربّ العزت عزوجل نے ہمارے لئے بھیجا ہے۔ ''جب اس موتی کو دیکھا گیا تو اس میں سوارخ وغیرہ نہیں تھا ،وہ کسی کا استعمالی موتی نہیں تھا۔ ان سب نے اللہ عزوجل کا شکر ادا کیا ۔
پھر جب صبح ہوئی تو وہ عا بدشخص اس موتی کو لے کر جو ہر ی کے پاس گیا اور اس سے پوچھا:'' اس موتی کی کتنی قیمت"
"ہوگی؟'' جب جوہری نے وہ موتی دیکھا تو اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں او روہ حیران ہو کر کہنے لگا:'' تیرے پاس یہ موتی کہاں سے آیا ہے ؟'' اس نیک آدمی نے جواب دیا :'' ہمیں اللہ ربّ العزت عزوجل نے یہ رزق عطا فرمایا ہے۔'' جو ہری نے کہا:'' یہ تو بہت قیمتی موتی ہے اور میں تو اس کی صرف تیس ہزار (درہم) قیمت ادا کر سکتا ہوں، حقیقت یہ ہے کہ اس کی مالیت اس سے کہیں زیادہ ہے۔ تم ایسا کرو کہ فلاں جو ہری کے پاس چلے جاؤ وہ تمہیں اس کی پوری قیمت دے سکے گا۔''
چنانچہ وہ نیک شخص اس موتی کو لے کر دوسرے جوہری کے پاس پہنچا ۔جب اس نے قیمتی موتی دیکھا تو وہ بھی اسے دیکھ کر حیران رہ گیا او رپوچھا : ''یہ تمہارے پاس کہاں سے آیا؟'' ا س عا بد نے وہی جواب دیاکہ یہ ہمیں اللہ عزوجل کی طرف سے رزق عطا کیا گیا ہے ۔''جوہری نے کہا :'' اس کی قیمت کم از کم ستر ہزار (درہم) ہے ، مجھے تو اس شخص پر افسوس ہو رہا ہے جس نے تمہیں اتنا قیمتی موتی دیاہے بہرحال ستر ہزاردرہم لے لو او ریہ موتی مجھے دے دو ۔
میں تمہارے ساتھ دو مزدور بھیجتا ہوں، وہ ساری رقم اٹھا کر تمہارے گھر تک چھوڑ آئیں گے۔چنانچہ اس جوہری نے دو مزدوروں کو درہم دے کر اس نیک شخص کے ساتھ روانہ کردیا۔ جب وہ عابد اپنے گھر پہنچا تو اس کے پاس ایک سائل آیا اور اس نے کہا:'' مجھے اس مال میں سے کچھ مال دے دو جو تمہیں اللہ عزوجل نے عطا کیا ہے ۔''
تو اس نیک شخص نے کہا:'' ہم بھی کل تک تمہاری طر ح محتاج او رغریب تھے ۔یہ لو تم اس میں سے آدھا مال لے جاؤ۔ پھر اس نے مال تقسیم کرنا شرو ع کردیا۔ یہ دیکھ کر اس سائل نے کہا : ''اللہ عزوجل تمہیں برکتیں عطا فرمائے، میں تواللہ عزوجل کا ایک فرشتہ ہوں، مجھے تمہاری آزمائش کے لئے بھیجا گیا تھا۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي الله تعالي عليه وسلم)
( میٹھے میٹھے اسلامی بھا ئیو! یہ حقیقت ہے کہ جو شخص کسی کی مدد کرتا ہے اللہ عزوجل اس کی مدد کرتا ہے۔ دوسروں کا خیرخواہ کبھی نامراد نہیں ہوتا، جو کسی پر رحم کرتا ہے اللہ عزوجل اس پر رحم کرتا ہے ، اور صدقہ کرنے سے مال میں کمی نہیں آتی بلکہ برکت ہوتی ہے اور جولوگ مال کی محبت دل میں نہیں بٹھاتے وہی لوگ سخاوت جیسی نعمت سے حصہ پاتے ہیں۔جو شخص اللہ عزوجل سے اُمید واثق رکھے اللہ عزوجل اس کو کبھی رُسوا نہیں فرماتا۔)اس حکایت میں ایک نیک شخص کی سخاوت اور یقین کا مل کی عظیم مثال موجود ہے کہ اس نے ایک سائل کو آدھا مال دینا منظور کرلیا او ردو سرا یہ کہ خود اپنے لئے کھانے کی شدید حاجت کے باوجود اللہ عزوجل کی رضا کی خاطر اپنا حصہ اپنے دوسرے حاجت مندبھائی کودے دیا ،پھر اللہ عزوجل نے بھی اسے ایسا نوا زا اور ایسی جگہ سے رزق عطا کیا جہاں سے اس کاوہم وگمان بھی نہ تھا۔ اللہ عزوجل ہمیں ہر وقت اپنی رحمتِ کا ملہ کا سایہ عطا فرمائے رکھے اور سخاوت"
"وایثار اوریقینِ کا مل کی عظیم نعمتیں عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم۔ مذکورہ حکایت کی طرح کاایک واقعہ کتب حدیث میں موجود ہے۔چنانچہ حضورنبی کریم،رء ُوف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے بیان فرمایاکہ، '' بنی اسرائیل میں تین شخص تھے۔ایک برص(کوڑھ) کا مریض، دوسرا گنجا ،تیسرا اندھا ۔ اللہ عزوجل نے ان کی آزمائش کے لئے ایک فرشتہ (بشری صورت میں) ان کے پاس بھیجا۔پہلے وہ برص کے مریض کے پاس آیااوراس سے پوچھا:''تجھے سب سے زیادہ کون سی چیزمحبوب ہے؟''اس نے کہا:''مجھے اچھارنگ اوراچھی جِلد پسند ہے اور میری خواہش ہے کہ جس بیماری کی وجہ سے لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں وہ مجھ سے دورہوجائے۔'' فرشتے نے اس کے جسم پر ہاتھ پھیراتواس کی وہ بیماری جاتی رہی، اس کا رنگ بھی اچھا ہو گیا اور جِلد بھی اچھی ہو گئی۔'' فرشتے نے پھر اس سے پوچھا: '' تجھے کو ن سا ما ل زیادہ پسند ہے ؟''اس نے کہا:'' مجھے اونٹنی پسند ہے ۔'' اسی وقت اسے دس ماہ کی حاملہ اونٹنی دے دی گئی، اور فرشتے نے دعادی : ''اللہ تعالیٰ تجھے اس میں برکت دے ۔''
پھروہ فرشتہ گنجے کے پاس آیا اور اس سے پوچھا :'' تجھے کون سی شے سب سے زیادہ محبوب ہے ؟''اس نے کہا: ''مجھے خوبصورت بال زیادہ پسند ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ جس چیز کی وجہ سے لوگ مجھ سے گِھن کھاتے ہیں وہ دور ہوجائے۔'' فرشتے نے اس پر ہاتھ پھیرا تو اس کی وہ شے جاتی رہی جس سے لو گ گِھن کھاتے تھے اور اس کے سر پر بہترین بال آگئے۔''فرشتے نے پوچھا: ''تجھے کون سا مال زیادہ پسند ہے ؟''اس نے کہا:'' مجھے گائے بہت پسند ہے ۔ ''چنانچہ اسے ایک گابھن گائے دے دی گئی۔ فرشتے نے اس کے لئے دعا کی :'' اللہ تعالیٰ تیرے لئے اس میں برکت دے۔''
پھر فرشتہ اندھے کے پاس آیا اور اس سے کہا :'' تجھے سب سے زیادہ کون سی چیز محبوب ہے ؟''اس نے کہا: ''مجھے یہ پسند ہے کہ اللہ عزوجل میری بینائی مجھے واپس کردے تاکہ میں لوگو ں کو دیکھ سکوں۔''فرشتے نے اس پرہاتھ پھیرا تو اس کی آنکھیں روشن ہو گئیں ۔''پھر اس سے پوچھا :'' تجھے کون سا مال زیادہ محبوب ہے ؟'' اس نے کہا :'' مجھے بکریا ں(بہت زیادہ محبوب ہیں )۔'' چنانچہ اسے ایک گابھن بکری دے دی گئی ۔
اب اونٹنی ،گائے اور بکری نے بچے دینا شروع کئے۔ کچھ ہی عرصے میں ان کے جانور اِتنے بڑھے کہ ایک کے اونٹوں ، دوسرے کی گائیوں اور تیسرے کی بکریوں سے ایک پوری وادی بھر گئی ۔پھر فرشتہ اس برص کے مریض کے پاس اس کی پہلی صورت یعنی برص کی حالت میں آیا اور اس سے کہا:'' میں ایک غریب و مسکین شخص ہوں، میرے پاس زادِراہ ختم ہوگیا ہے اور واپس جانے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی مگر اللہ عزوجل کی رحمت سے اُمید ہے اور مَیں تیری مدد کا طلب گار ہوں۔ جس ذات نے تجھے خوبصورت رنگ ،اچھی جِلد اور مال عطا کیامیں تجھے اس کا واسطہ دیتا ہوں کہ آج مجھے ایک اُونٹ دے دے تا کہ میں اپنی منزل تک پہنچ"
"سکوں۔'' یہ سن کر اس نے انکار کرتے ہوئے کہا :'' میرے حقوق بہت زیادہ ہیں۔'' توفرشتے نے کہا : ''مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں تجھے جانتا ہوں، کیا تُووہی نہیں جس کو کوڑھ کی بیماری لاحق تھی اور لوگ تجھ سے نفرت کیا کرتے تھے اور تو فقیر و محتاج تھا ،پھر اللہ عزوجل نے تجھے مال عطا کیا ۔'' اس نے کہا : ''مجھے تو یہ سارا مال ورا ثت میں ملا ہے اور نسل در نسل یہ مال مجھ تک پہنچا ہے۔'' فرشتے نے کہا : ''اگر تُو اپنی اس بات میں جھوٹا ہے تو اللہ تعالیٰ تجھے ایسا ہی کر دے جیسا تُو پہلے تھا ۔''
پھر وہ فرشتہ گنجے کے پاس اس کی پہلی صورت میں آیااور اس سے بھی وہی بات کہی جو برص والے سے کہی تھی ۔اس نے بھی برص والے کی طر ح جواب دیا ۔ فرشتے نے کہا: ''اگر تُو اپنی بات میں جھوٹا ہے تو اللہ عزوجل تجھے تیری سابقہ حالت پر لوٹا دے۔''پھر فرشتہ اندھے کے پاس اُس کی پہلی حالت میں آیااور کہا : ''میں ایک مسکین مسافر ہو ں اور میرا زادِراہ ختم ہو چکا ہے۔ آج کے دن میں اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکتا مگر اللہ عزوجل کی ذات سے اُمید ہے اور اس کے بعد مجھے تیرا آسرا ہے ۔ میں اسی ذات کا واسطہ دے کر تجھ سے سوال کرتا ہوں جس نے تجھے آنکھیں عطا فرمائیں کہ مجھے ایک بکری دے دے تاکہ میں اپنی منزل تک پہنچ سکوں ۔'' تو وہ کہنے لگا:'' میں تو پہلے اندھا تھا پھر اللہ عزوجل نے مجھے آنکھیں عطا فرمائیں تو جتنا چاہے اس مال میں سے لے لے اور جتنا چاہے چھوڑ دے۔'' خدا عزوجل کی قسم! تُو جتنا مال اللہ عزوجل کی خاطر لینا چاہے لے لے ،مَیں تجھے مشقت میں نہ ڈالوں گا (یعنی منع نہ کروں گا )۔''یہ سن کر فرشتے نے کہا : ''تیرا مال تجھے مبارک ہو ،یہ سارا مال تُو اپنے پاس ہی رکھ۔ تم تینوں شخصوں کاامتحان لیا گیا تھا ،تیرے لئے اللہ عزوجل کی رضا ہے اور تیرے دونوں دوستوں(یعنی کوڑھی اور گنجے)کے لئے اللہ عزوجل کی ناراضگی ہے۔''"
(بخاری شریف ،کتاب احادیث الانبیاء، باب حدیث ابرص واعمیٰ واقرع۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث: ۳۴۶۴،ص۲۸۲،۲۸۳)
" اے ہمارے پیارے اللہ عزوجل! ہمیں مال کے وبال اور اپنی ناراضگی سے بچا کر اپنی دائمی رضا عطا فرما ،اورہم سے ایسا راضی ہو جا کہ پھر کبھی نا راض نہ ہو۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)
؎ عفو کر اور سدا کے لئے راضی ہو جا گرکرم کردےتوجنت میں رہوں گا یا رب عزوجل !"
حضرت سیدنا سعیدحربی علیہ رحمۃاللہ القوی فرمایا کرتے تھے:''کچھ نوجوان ایسے ہیں کہ اپنی نوجوانی اور کم عمری کے باوجود
"اُڈھیر عمر کے دکھائی دیتے ہیں ، ان کی نظریں کبھی بھی حرام چیز کی طرف نہیں اٹھتیں ، ان کے کان ہمیشہ حرام اورلہو ولعب کی باتیں سننے سے محفو ظ رہتے ہیں ، ان کے قدم حرام وباطل اشیاء کی طر ف نہیں اٹھتے بلکہ بہت زیادہ بوجھل ہوجاتے ہیں ، ان کے پیٹ میں کبھی بھی حرام اشیاء داخل نہیں ہوتیں۔ ایسے لوگ اللہ عزوجل کو محبوب ہیں۔
آدھی رات کو وہ قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں اور رکوع وسجود کرتے ہیں تو اللہ رب العزت عزوجل ان پررحمت بھری نظرفرماتاہے، ان کی حالت یہ ہوتی ہے کہ قرآن پاک پڑھتے وقت ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں۔ جب کبھی وہ ایسی آیت کی تلاوت کرتے ہیں جس میں جنت کا تذکرہ ہوتا ہے تو ا س جنت کی محبت میں رونے لگتے ہیں اور جب ایسی آیت تلاوت کرتے ہیں جس میں جہنم کا تذکر ہ ہو تو جہنم کے خوف سے چیخنے لگتے ہیں ۔ایسا لگتا ہے جیسے وہ جہنم کی چنگھاڑ کو سن رہے ہیں اور آخرت بالکل ان کی نظرو ں کے سامنے ہے ۔
یہ پاکیزہ نوجوان اتنی کثرت سے نماز پڑھتے ہیں کہ زمین ان کی پیشانیوں اور گھٹنوں کو کھا گئی ہے (یعنی کثرتِ سجود کی وجہ سے ان کی نورانی پیشانیوں او رگھٹنوں پر داغ پڑگئے ہیں او رگو شت خشک ہوچکاہے )
شب بھر قیام کرنے او ر د ن بھر رو زہ رکھنے کی وجہ سے ان کے رنگ متغیر ہوگئے ہیں ،یہ لوگ موت کی تیاری میں مشغول ہیں اور ان کی یہ تیاری کتنی عظیم ہے او ران کی کوششیں کتنی عمدہ ہیں،ساری ساری رات رو کر گزار دیتے ہیں او راپنی آنکھوں سے نیند کو دو ر رکھتے ہیں ،ان کا دن اس حالت میں گزرتا ہے کہ یہ رو زہ رکھتے ہیں اورآخرت کی فکر میں غمگین رہتے ہیں، انہیں ہر وقت غمِ آخرت لاحق رہتا ہے ۔جب کبھی ان کے سامنے دنیا کا تذکرہ ہوتا ہے تو ان کی دنیا سے بے رغبتی میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے کیونکہ یہ دنیا کی حقیقت کو جانتے ہیں کہ یہ دنیا فانی ہے ۔ پھر جب کبھی ان کے سامنے آخرت کا تذکرہ ہوتا ہے تو آخرت کی طر ف انہیں مزید رغبت پیدا ہوتی ہے کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ آخرت کی نعمتیں ہمیشہ رہنے والی ہیں۔ دنیا ان کی نظروں میں بہت حقیر ہے اوریہ اس سے شدید نفرت کرتے ہیں ۔
ان کے نزدیک دُنیوی زندگی مصیبت ہے کیونکہ اس میں فتنے ہی فتنے ہیں اور راہِ خد ا عزوجل میں شہید ہونا انہیں بہت زیادہ محبوب ہے کیونکہ انہیں اللہ عزوجل کی ذات سے اُمید ہے کہ شہادت کے بعد راحت وآرام اور عیش و عشرت کی زندگی ہے۔ یہ کبھی بھی نہیں ہنستے ،یہ ا پنے لئے نیک اعمال کا ذخیرہ اکٹھا کررہے ہیں کیونکہ انہیں آخرت کی ہولنا کیوں کا اندازہ ہے ۔
جہاد کااعلان سن کریہ فورا ًاپنی سواریوں پر بیٹھتے ہیں ، اور میدان کا رزار کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں گویا پہلے ہی سے انہوں نے اپنے آپ کو جہاد کے لئے تیار کر رکھا ہے۔ پھر جب صف بندی ہوتی ہے اور لشکر آپس میں ملتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ دشمنوں کی طر ف سے نیز ہ بازی شرو ع ہوگئی ہے، تیر برسنے لگے ہیں، تلواریں آپس میں ٹکرانے لگی ہیں ، ہر طرف موت کی"
"گرج سنائی دے رہی ہے اور لاشیں گر رہی ہیں تو یہ لوگ موت کی گر جتی ہوئی آواز سے نہیں ڈرتے بلکہ میدانِ کا ر زار میں بے دھڑک مردانہ وار کو د پڑتے ہیں اور انہیں موت سے بالکل ڈر نہیں لگتا بلکہ انہیں تو اللہ عزوجل کے عذاب کا خوف دامن گیر رہتا ہے۔
یہ بے خوف وخطر دشمن پر جھپٹ پڑتے ہیں اور لڑتے لڑتے ان میں سے بعض کے سر تَن سے جدا ہوجاتے ہیں اور ان کے گھوڑے لشکروں میں گم ہوجاتے ہیں ان کی لاشوں کو گھوڑوں کے سُموں سے روند ھ دیا جاتا ہے پھر جب جنگ ختم ہوجاتی ہے اور لشکر واپس چلے جاتے ہیں تو ان میں سے جن کی لاشیں میدانِ جنگ میں باقی رہ جاتی ہیں ان پردرندے اور آسمانی پرندے ٹوٹ پڑتے ہیں او رانہیں کھاجاتے ہیں یہ عظیم لوگ بالآخراپنی منزل مقصود تک پہنچ جاتے ہیں۔
یہ لوگ خوش بخت اور کامیاب ہیں کیونکہ انہوں نے عظیم سعادت حاصل کرلی ہے او رجیسے ہی ان کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرتا ہے فوراً ان کے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں او ران کے جسم قبر میں پھٹنے اور گل سڑنے سے محفوظ ہیں پھر جب بر وزِ قیامت یہ اپنی قبر و ں سے نکلیں گے تو بہت زیادہ مسرو ر ہوں گے اور اپنی تلواروں کو لہراتے ہوئے میدان حشر کی طرف جائیں گے او ر یہ اس حال میں وہاں پہنچیں گے کہ عذاب سے نجات پاچکے ہوں گے۔ انہیں حساب وکتاب کے سخت مرحلے سے بھی نہیں گزرنا پڑے گا اور بغیر حسا ب وکتاب کے جنت میں داخل ہوجائیں گے ۔
وہ جنت کتنی عظیم ہے جہاں ان عظیم لوگو ں کی مہمان نوازی ہوگی اورو ہ نعمتیں کیسی دائمی اور عظیم ہیں جن کی طرف انہوں نے سبقت کی ۔
اب جنت میں ان پر نہ تو کوئی مصیبت نازل ہوگی، نہ ہی انہیں آفات وبلیّات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ جنت میں اَمن وسکون کے ساتھ رہیں گے پھر ان کا نکاح حور عین سے کیا جائے گا(جو جنت کی سب سے حسین حوریں ہیں )، ان کی خدمت کے لئے ہر وقت خُدام حاضر ہوں گے جو ان کے بلانے سے پہلے ہی ان کے پاس پہنچ جائیں گے ، وہاں کی نعمتیں ایسی دائمی نعمتیں ہیں کہ جو شخص ان کی معرفت حاصل کرلے وہ ہر وقت ان کی طلب میں لگا رہے ۔
اے لوگو!اگر تم موت کو ہر وقت پیش نظر رکھو گے او راپنی اَصلی منزل (جنت)کو یاد رکھوگے تو پھر کبھی بھی تمہیں نیک اعمال میں سستی نہ ہوگی اور نہ ہی تم دنیا کے دھوکے میں پڑوگے۔''
؎ کچھ نیکیاں کما لے جلدآخرت بنالے کوئی نہیں بھروسہ اے بھائی زندگی کا
(اے میرے اللہ عزوجل ! ہمیں بھی ان عظیم نوجوانوں جیسی صفات سے متصف فرمااور ان کے جذبہ عبادت و ریاضت میں سے ہمیں بھی کچھ حصہ عطا فرما،جس طرح ان کی نظروں میں دنیا کی کوئی حیثیت نہیں اسی طر ح ہمیں بھی دنیا سے بے رغبتی عطا"
"فرما اور ہر وقت ہمیں اپنی یاداو راپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے جلوؤں میں گم رکھ۔
اے اللہ عزوجل !ہمیں ایسا جذبہ عطا فرما دے کہ ہم ہر وقت اپنا مال اپنی جان او راپنی تمام چیزیں تیرے نام پر قربان کرنے کے لئے تیار رہیں، ہمیں شہادت کی دولت عطا فرما اور کثرت عبادت کی تو فیق دے۔ ہمارے تمام اعضاء کو گناہوں سے محفو ظ رکھ اور ہمیں جنت الفردوس میں ہمارے پیارے آقاصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّمکے پڑوس میں جگہ عطا فرما۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)
؎ جنت میں آقا کا پڑو سی بن جائے عطّار،ؔ الٰہی (عزوجل ) بہرِ رضا اور قطبِ مدینہ یا اللہ میری جھولی بھردے (عزوجل )"
" حضرت سیدنا جعفر بن سلیمان علیہ رحمۃالمنّان فرماتے ہیں ، حضرت سیدنا مالک بن دینار علیہ رحمۃاللہ الغفّار نے فرمایا: ''ایک مرتبہ حج کے موسم میں، مَیں خانہ کعبہ کا طواف کر رہا تھا ۔ حاجیوں اور عمرہ کرنے والوں کی اتنی کثرت تھی کہ انہیں دیکھ کر تعجب ہوتا تھا۔ میرے دل میں یہ خواہش اُبھری کہ کاش !کسی طر ح مجھے معلوم ہوجائے کہ ان لوگوں میں سے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں کون مقبول ہے تاکہ میں اس کو مبارکباد دوں اور جس کے بارے میں معلوم ہوجائے کہ یہ مردود ہے او راللہ عزوجل کی بارگاہ میں اس کا حج قبول نہیں تو اس کو نیکی کی دعوت دو ں اور اس کے لئے دعا کروں۔''
جب رات کو میں سویا تو خواب میں کسی کہنے والے نے کہا:''اے مالک بن دینار! تُو حاجیوں او ر عمرہ کرنے والوں کے بارے میں فکر مند ہے ؟تو سن !اس مرتبہ اللہ عزوجل نے ہر چھوٹے بڑے ، مرد وعورت ، سفیدوسیاہ رنگت والے ، عربی وعجمی الغرض ہر حج اور عمرہ کرنے والے کو بخش دیا ہے لیکن ایک شخص کی مغفرت نہیں کی گئی، اللہ عزوجل کا اس شخص پر بہت زیادہ غضب ہے اور اللہ عزوجل اس سے ناراض ہے۔ اس کا حج قبول نہیں کیا گیابلکہ اس کے منہ پر مار دیا گیا ہے ۔''
حضرت سیدنا مالک بن دینار رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: ''اس خواب کے بعد میری جو حالت ہوئی اسے اللہ عزوجل ہی بہتر جانتا ہے ۔'' میں نے یہ گمان کرلیا کہ وہ مغضوب شخص شاید مَیں ہی ہوں اور اللہ عزوجل مجھ سے ناراض ہے۔ میں بہت پریشان رہا۔ سارا دن اسی غم اور فکر میں گزر گیا پھر دو سری رات تھوڑی دیر کے لئے میری آنکھ لگی تو پھر مجھے اسی طرح کا خواب نظر آیااور"
"ایسی ہی غیبی آواز سنائی دی، پھر کہا گیا : ''اے مالک بن دینار ! تُو وہ نہیں جس کا ذکر کیا جارہا ہے بلکہ وہ تو خراسان کا ایک شخص ہے جو بلخ شہر میں رہتا ہے، اس کا نام محمد بن ہرون بلخی ہے ۔اللہ عزوجل اس سے شدید ناراض ہے، اس کا حج مردو د ہے اور اس کے منہ پر مار دیا گیا ہے ۔''
حضرت سیدنا مالک بن دیناررحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:''میں صبح خراسان سے ا ۤئے ہوئے حاجیوں کے قافلے میں گیا انہیں سلام کیا اوران سے پوچھا : ''کیا تم میں بلخ شہر کے حجاج موجود ہیں ؟ ''انہوں نے کہا :''ہاں !ہم میں بلخ کے کئی حاجی موجود ہیں ۔''میں نے پھرپوچھا: ''کیا تم میں کوئی محمد بن ہرون بلخی ہے؟'' انہوں نے کہا: ''مرحبا! اس نیک شخص کو کون نہیں جانتا ، اس سے بڑھ کر عا بد وزاہد پور ے خراسان میں کوئی نہیں ۔ ''
(حضرت سیدنا مالک بن دیناررحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ)مجھے ان لوگو ں کی زبانی اس کی تعریف سن کر بڑا تعجب ہوا کیونکہ خواب میں معاملہ اس کے برعکس تھا۔ بہرحال میں نے ان سے پوچھا :'' اس وقت وہ کہا ں ہوگا؟''لوگو ں نے کہا:'' وہ چالیس سال سے مسلسل روزے رکھ رہا ہے او رساری ساری رات عبادت میں گزار دیتا ہے، اگر تم اسے تلاش کرنا چاہتے ہو تو مکہ مکرمہ کے کسی ٹو ٹے پھوٹے مکان میں تلاش کر و وہ ایسی ہی جگہوں میں قیام کرتا ہے۔''
ان لوگوں سے یہ معلومات حاصل کرنے کے بعد میں مکہ شریف کے ویران علاقے کی طر ف گیا اور اس ابن ہرون کو ڈھونڈ نے لگا۔بالآخر ایک دیوار کے پیچھے میں نے ایک شخص کو دیکھا۔میں نے جان لیاکہ یہی ابن ہرون ہے ۔اس کی حالت یہ تھی کہ اس کا سیدھا ہاتھ کٹا ہو اتھا اور اس ہاتھ کی ہڈی میں سوراخ کر کے زنجیر ڈال دی گئی تھی۔
ابن ہرون نے اپنے کٹے ہوئے ہاتھ کو زنجیر کی مدد سے گر دن سے لٹکایا ہوا تھا۔اسی طر ح اس نے اپنے قدموں میں بھی بیڑیاں ڈال رکھی تھیں او روہ مشغولِ عبادت تھا۔جب اس نے میرے قدموں کی آہٹ سنی تو وہ میری طرف متوجہ ہو ا اور کہنے لگا: ''اے اللہ عزوجل کے بندے! تُو کو ن ہے او رکہا ں سے آیا ہے ؟'' میں نے کہا: ''میرا نام مالک بن دینار(علیہ رحمۃ اللہ الغفار) ہے اور مَیں بصرہ کا رہنے والا ہوں ۔ ''وہ کہنے لگا:'' اچھا! تم و ہی مالک بن دینار(علیہ رحمۃ اللہ الغفار ) ہو جن کی علمیت اور زُہد و تقوی کے ڈنکے پورے عراق میں بج رہے ہیں۔'' میں نے کہا :'' عالم تو اللہ عزوجل کی ذات ہے اور زاہد وعا بد حضرت سیدنا عمر بن عبد العزیز علیہ رحمۃاللہ المجید ہیں ،وہ اگر چاہیں توخوب عیش وعشرت سے زندگی گزار سکتے ہیں لیکن با دشاہت کے باوجود انہوں نے زُہد و تقوی اختیار کیا او ردنیا سے بے رغبتی ان کے اندر بد رجہ اَتم پائی جاتی ہے ، ہمیں تو دنیاوی نعمتیں میسر ہی نہیں اس لئے ان سے دور ہیں۔''
اُس نے مجھ سے کہا: ''اے مالک بن دینار (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ )! تم میرے پاس کس لئے آئے ہو ؟ اگر تم نے میرے"
"بارے میں کوئی خواب دیکھا ہے تو بیان کر و۔ ''میں نے کہا: ''مجھے تمہارے سامنے وہ خواب بیان کرتے ہوئے شرم محسوس ہو رہی ہے ۔'' تو وہ کہنے لگا:'' اے مالک بن دینار(رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ )! تم نے جوخواب دیکھاہے وہ بیان کرو اور مجھ سے شر م نہ کرو ۔''
(حضرت سیدنا مالک بن دیناررحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ) بالآخر مَیں نے اسے اپنا خواب سنایا ۔خواب سن کر وہ کافی دیر تک روتا رہا ، پھر کہنے لگا :'' اے مالک بن دینار(رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ )! مسلسل چالیس سال سے میرے بارے میں حج کے موقع پر اسی طرح کا خواب کسی نیک وزاہد بندے کو دکھا یا جاتا ہے اور اسے بتا یا جاتا ہے کہ میں جہنمی ہوں ۔ ''حضرت سیدنا مالک بن دینارعلیہ رحمۃ اللہ الغفار فرماتے ہیں کہ یہ باتیں سن کر میں نے اس سے پوچھا :'' کیا تیرے اور اللہ عزوجل کے درمیان کوئی بہت بڑا گناہ حائل ہے ؟'' اس نے کہا :''ہاں !میرا گناہ زمین و آسماں اور عرش وکرسی سے بھی بڑا ہے ۔''میں نے کہا: ''مجھے تم اپنا وہ گناہ بتاؤ تاکہ میں لوگوں کو اس کے اِرتکاب سے بچا ؤں اور انہیں اس گناہ سے ڈراؤں جس کی سزا تم بھگت رہے ہو۔ ''
تووہ کہنے لگا:'' اے مالک بن دیناررحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ! مَیں شراب کا عادی تھا اور ہر وقت شراب کے نشے میں مدہوش رہتا۔ ایک مرتبہ میں اپنے ایک شرابی دوست کے پاس گیا۔میں نے وہاں خوب شراب پی پھر جب مجھ پر نشہ طاری ہونے لگا اور میری عقل پرپردہ پڑگیا تومیں نشے کی حالت میں گرتا پڑتا اپنے گھر پہنچا اور دروازہ کھٹکھٹا یا۔ میری زوجہ نے دروازہ کھولا ۔میں گھر میں داخل ہو ا تو میری والدہ تنور میں آگ جلا کر لکڑیاں ڈال رہی تھی او راس میں خوب آگ بھڑک رہی تھی ۔''
جب میری والدہ نے مجھے نشے کی حالت میں دیکھاتو میری طر ف ا ۤئی۔ مَیں لڑکھڑاکر گرنے لگا تواس نے مجھے تھام لیا اور کہنے لگی:'' آج شعبان المعظم کی آخری تاریخ ہے اوررمضان المبارک کی پہلی رات شروع ہونے والی ہے، لوگ صبح روزہ رکھیں گے اور تیری صبح اس حالت میں ہوگی کہ تُو شراب کے نشے میں ہوگا ،کیا تجھے اللہ عزوجل سے حیا نہیں آتی؟ '' یہ سن کر مجھے غصہ آگیا اور میں نے ایک گھونسااپنی والدہ کے سینے پر مارا اور اسے اُٹھا کر جلتے ہوئے تنور میں ڈال دیا، مَیں اس وقت نشے میں تھا اور میرے ہوش وحواس بحال نہ تھے،جب میری زوجہ نے یہ درد نا ک منظر دیکھا تو اس نے مجھے دھکیل کر ایک کوٹھڑی میں بندکردیااورباہر سے کنڈی لگادی تا کہ پڑوسی میر ی آواز نہ سن سکیں اور انہیں معاملے کی خبر نہ ہو۔''
میں اسی طر ح نشے کی حالت میں پڑا رہا جب رات کافی گزر گئی تو مجھے ہوش آیا اب میرا نشہ دور ہوچکا تھا۔ میں دروازے کی طر ف بڑھا تو دروازہ بند تھا۔میں نے اپنی زوجہ کو آواز دی کہ دروازہ کھولو۔ اس نے بڑے سخت لہجے میں جواب دیا: ''میں دروازہ نہیں کھولوں گی ۔''میں نے کہا :''آخر تم مجھ سے اِتنی ناراض کیوں ہو؟ آخر مَیں نے ایسی کون سی خطا کی ہے ؟''اس نے کہا : '' تُو نے اتنی بڑی خطا کی ہے کہ تُو اس لائق ہی نہیں کہ تجھ پر رحم کیا جائے ۔''میں نے کہا :''آخربات کیا ہے؟ مجھے بھی تو"
"معلوم ہو کہ میں نے کیا بُری حرکت کی ہے؟''میری زوجہ نے کہا :'' تُو نے اپنی ماں کو قتل کر دیا ہے اور اسے جلتے ہوئے تنور میں ڈال دیا ہے اور اب وہ جل کر کوئلہ بن چکی ہے۔''
جب میں نے یہ بات سنی تو مجھ سے نہ رہا گیا اور میں نے دروازہ اُکھاڑ پھینکا او رتنور کی طرف لپکا ، جب تنور میں دیکھا تو میری والدہ جل کر کو ئلہ ہوچکی تھی ۔ میں یہ حالت دیکھ کر بہت افسردہ ہوااور اُلٹے قدموں ٹوٹے ہوئے دروازے کی طر ف بڑھا اپنا ہاتھ چوکھٹ پر رکھا اور اس ہاتھ کو کاٹ ڈالا جس سے میں نے اپنی ماں کو گھونسا مارا تھا ،پھر میں نے لوہا گر م کر کے اس ہاتھ کی ہڈی میں سوراخ کیا اور اس میں زنجیر ڈال کر گلے میں لٹکا لیا پھر اپنے دونوں پاؤں میں بھی بیڑی ڈال لی ۔ اس وقت میری ملکیت میں آٹھ ہزار دینار تھے وہ سب کے سب میں نے غروبِ آفتاب سے قبل صدقہ کردیئے۔26 لونڈیاں اور23غلام آزاد کئے اور اپنی تمام جائیداد اللہ عزوجل کے نام پر وقف کردی ۔
اب مسلسل چالیس سال سے میری یہ حالت ہے کہ دن میں روزہ رکھتا ہوں اور ساری ساری رات اپنے پر ور دگار عزوجل کی عبادت کرتا ہوں اور چالیس دن کے بعد کھانا کھا تاہو ں۔ صرف اِفطاری کے وقت تھوڑا سا پانی اور کوئی معمولی سی چیز کھالیتا ہوں ۔ میں ہر سال حج کرنے آتا ہوں او رہر سال کسی عالم وزاہد کو میرے متعلق ایسا ہی خواب دکھایا جاتا ہے جیسا آپ کودکھایا گیا ہے ، یہ ہے میری ساری داستانِ عبرت نشان۔''
حضرت سیدنا مالک بن دینار علیہ رحمۃ اللہ الغفَّار فرماتے ہیں : ''یہ سن کر میں نے اس کے چہرے کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا اور کہا :'' اے منحوس انسان! قریب ہے کہ جو آگ تجھ پر نازل ہونے والی ہے وہ ساری زمین کو جلا ڈالے۔ پھر میں وہاں سے ایک طرف ہوگیا اور ایک جگہ چھپ گیا تا کہ وہ مجھے نہ دیکھ سکے۔جب اس نے محسوس کیا کہ میں جاچکاہو ں تو اس نے اپنا ہاتھ آسمان کی طرف اٹھایا اور اللہ عزوجل سے اس طر ح مناجات کرنے لگا:
'' اے غموں اور مصیبتو ں کو دور کرنے والے! اے مجبور اور پریشان حال لوگو ں کی دعائیں قبول کرنے والے !اے میری اُمیدوں کی لاج رکھنے والے !اے گہرے سمندروں کو پیدا کرنے والے! اے میرے پا ک پروردگار عزوجل ! اے وہ ذات جس کے دستِ قدرت میں تمام بھلائیاں ہیں ! میں تیری رضا چاہتا ہوں اور تیری ناراضگی سے پناہ مانگتا ہوں ، تُو اپنے عفو وکرم کے صدقے مجھے عذاب سے محفو ظ رکھ اور مجھے اپنی ناراضگی سے بچا ۔اے میرے پاک پرورد گار عزوجل !مَیں کما حقہ تیری تعریف نہیں کرسکتا،تُوایسا ہی ہے جیسا تُونے اپنی تعریف خود بیان فرمائی ،اے میر ے رحیم وکریم پر وردگار عزوجل !تُو میری اُمیدوں کی لاج رکھ لے، بے شک میں تجھ سے تیری رحمت کا طالب ہوں۔ (مجھے یقین ہے) کہ تُومیری دعا کو رد نہیں کریگا۔ میں صرف تجھ ہی سے دعا"
"کرتا ہوں ۔ اے اللہ عزوجل !موت سے پہلے مجھے اپنی رضا کا مژدہ سنادے او رمجھے اپنے عفو وکرم کی ایک جھلک دکھادے۔''
حضرت سیدنامالک بن دینار رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کی یہ رِقّت انگیز مناجات سن کر مَیں اپنی منزل کی طرف لوٹ آیا۔ پھر جب رات کو نیند آئی تو دل کی آنکھیں کھل گئیں ۔مجھے خواب میں پیارے آقا، مدینے والے مصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی زیارت ہوئی ۔آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:''اے مالک بن دینار! تُو لوگوں کو اللہ کی رحمت اور اس کے عفووکرم سے مایوس مت کر۔'' بے شک اللہ عزوجل محمد بن ہرون کے افعال سے باخبر ہے اور اللہ عزوجل نے اس کی دعا قبول فرما کر اس کی لغزشوں اور خطاؤں کو معاف فرمادیا ہے تُو صبح اس کے پاس جانا اور اس سے کہنا :''بے شک اللہ عزوجل بر وز قیامت میدانِ محشر میں تمام اولین وآخرین کو جمع فرمائے گا ۔اگر کسی سینگ والے جانور نے بغیرسینگ والے جانور کو مارا ہوگا تو اس کو بدلہ دلوائے گا او ر ذرے ذرے کا حساب لے گا۔
اللہ عزوجل فرماتا ہے: مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم! مَیں ذرے ذرے کا حساب لوں گا اور اگر کسی نے ذرہ بھر بھی ظلم کیا ہوگا تو مظلوم کو ظالم سے اس کا حق دلواؤں گا ۔ اے ابن ہرو ن! کل بر وزِ قیامت اللہ عزوجل تجھے اور تیری ماں کو اکٹھا کریگا اور تیرے بارے میں فیصلہ ہوگا ۔فرشتے تجھے مضبوط زنجیروں میں جکڑ کر جہنم کی طرف دھکیل دیں گے پھر تُو دنیوی تین دن اور تین رات کے برابر جہنم کی آگ کا مزہ چکھے گا کیونکہ اللہ عزوجل فرما تا ہے:'' میں نے اپنے اُوپر یہ بات لازم کرلی ہے کہ میرا جو بندہ بھی ناحق کسی جان کو قتل کریگا یا شراب پئے گا تو میں اسے جہنم کی آگ کا مزہ ضرورچکھاؤں گا اگر چہ وہ کیسا ہی بر گزیدہ کیوں نہ ہو۔'' اے ابن ہرون !پھر اللہ عزوجل تیری ماں کے دل میں تیرے لئے رحم ڈالے گا او راس کے دل میں یہ بات ڈال دے گا کہ وہ اللہ عزوجل سے سوال کرے کہ:'' اے اللہ عزوجل ! تُو میرے بیٹے کو بخش دے ۔'' پھر اللہ عزوجل تجھے، تیری والدہ کے حوالے کردے گا، تیری والدہ تیرا ہاتھ پکڑ کر تجھے جنت میں لے جائے گی ۔''
حضرت سیدنا مالک بن دینار رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:'' جب صبح ہوئی تو میں فوراًا بن ہرون کے پاس گیا اور اسے بشارت دی کہ آج رات خواب میں مجھے پیارے آقاصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی زیارت نصیب ہوئی ۔ آپصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے مجھے تیرے بارے میں اس طر ح بتا یا ہے پھر میں نے اسے اپنا پورا خواب سنایا ۔ خدا عزوجل کی قسم! میراخواب سن کر وہ جھوم اُٹھا اور اس کی روح اس طر ح آسانی سے اس کے تن سے جدا ہوئی جیسا کہ پتھر کو جب پانی میں ڈالاجائے تو وہ آسانی سے نیچے کی جانب چلا جاتا ہے۔پھر اس کی تجہیز و تکفین کاانتظام کیا گیا اور میں نے اس کے جنازہ میں شرکت کی ۔ ''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ تعالی عليہ وسلم)"
(میٹھے میٹھے اسلامی بھا ئیو!اللہ عزوجل اس پر رحم فرمائے او رہم سب کو اپنی رحمت کا ملہ کا سایہ عطا فرمائے، ہمیں لمحہ بھر کے لئے بھی جہنم کی آگ میں نہ ڈالے، ہمارے کمزور جسم جہنم کی آگ کو برداشت نہیں کر سکتے،ہم سے تو دنیاوی آگ کی چنگاری بھی بر داشت نہیں ہوتی جہنم کی وہ سخت آگ کس طر ح برادشت ہوگی، اللہ عزوجل ہمیں حضور نبی ئ کریم ، رء ُوف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے صدقے نارِ جہنم سے محفوظ رکھے اور ہماری خطاؤں کو معاف فرمائے،ہمیں دین ودنیا کی بھلائیاں عطا فرمائے او راپنی دائمی رضا سے مالا مال فرمائے، سر کا رصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی ساری اُمت کی مغفرت فرمائے ۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم )
" حضرت سیدنا ابراہیم بن ادہم علیہ رحمۃاللہ الاعظم فرماتے ہیں:''میں نے بعض مشائخ سے پوچھا کہ میں رزق حلال کس طرح اور کہاں سے حاصل کروں ۔'' میرے اس سوال پر مشائخ کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اگر تُورزق حلال کا طالب ہے تو ملک شام چلا جا ، وہاں تجھے رزق حلال کمانے کے وسائل میسر آجائیں گے ۔ ''میں نے ملک شام کی طر ف کوچ کیا اور اس کے ایک شہر '' مصیصہ''میں پہنچ گیا ۔وہاں میں کافی دن رہا اور لوگو ں سے پوچھتا رہا کہ میں کو ن سا کام کرو ں جس کے ذریعے مجھے رزقِ حلال حاصل ہو اور اس میں کسی قسم کا شبہ نہ ہو لیکن میری صحیح طر ح کوئی رہنمائی نہ کرسکا۔
بالآخر میں نے اپنا مسئلہ وہاں کے مشائخ کی خدمت میں پیش کیاتو انہوں نے فرمایا: ''اگر تُو رزق حلال کا طالب ہے تو ''طر سوس'' نامی شہر میں چلا جا۔وہاں اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ! تجھے کسب حلال کے ذریعے رزق حلال میسر آجائے گا۔ چنانچہ مَیں طرسوس شہر پہنچا اور وہاں اپنے مقصد کی خاطر اِدھراُدھر گھومتا رہا۔ ایک دن میں ساحلِ سمند ر پر گیا تا کہ وہاں کوئی کام تلاش کروں جس کے ذریعے رزقِ حلال حاصل ہوسکے۔ میں ساحلِ سمندر پر تھا کہ ایک شخص آیا اور اس نے کہا :'' مجھے اپنے انگوروں کے باغ کی دیکھ بھال کے لئے ایک با غبان کی ضرو رت ہے کیا تم اُجرت پر میرے با غ کی نگہبائی کے لئے تیار ہو؟ ''میں نے کہا: ''جی ہاں! میں تیارہوں۔ ''
چنانچہ میں اس شخص کے ساتھ چلا گیا اور خوب محنت ولگن سے اپنا کام کرتا رہا ۔ مجھے اس باغ میں کام کرتے ہوئے جب کافی دن گزرگئے تو ایک دن با غ کا مالک اپنے کچھ دو ستوں کے ساتھ با غ میں آیا اور مجھے بلاکر کہا : ''ہمارے لئے بہترین قسم کے میٹھے انگور"
"توڑ کر لاؤ ۔'' یہ سن کر میں نے اپنی ٹوکری اُٹھائی اور ایک بیل سے کافی انگور لاکر اس با غ کے مالک کے سامنے رکھ دیئے۔ جب اس نے انگور کا دانہ کھایا تو وہ کھٹا تھا ۔اس نے مجھ سے کہا :'' اے با غبان !تجھ پر افسوس ہے، کیا تجھے حیا نہیں آتی کہ تُواتنے دنوں سے اس با غ میں کام کر رہا ہے او رابھی تک تجھے کھٹے اور میٹھے انگوروں کی پہچا ن نہ ہو سکی حالانکہ تُو یہاں سے انگور وغیرہ خوب کھاتا ہوگا ۔''
میں نے کہا:'' اللہ عزوجل کی قسم! میں نے آج تک اس با غ سے انگور کا ایک دانہ بھی نہیں کھایا، پھر مجھے کھٹے او رمیٹھے انگوروں کی پہچان کس طر ح حاصل ہوسکتی ہے، مجھے تو صرف اس باغ کی دیکھ بھال کے لئے خادم رکھا گیا تھا ،لہٰذا میں دیکھ بھال توکرتا رہا لیکن اس با غ میں سے انگور کا ایک دانہ بھی نہ کھا یا ۔''
حضرت سیدنا ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے یہ جواب سن کربا غ کا مالک اپنے دوستوں کی طر ف متوجہ ہوا او رکہنے لگا: ''تمہاری کیا رائے ہے ؟کیا اس سے بھی زیادہ کوئی عجیب بات ہوسکتی ہے کہ ایک شخص اتنے عرصہ تک با غ میں رہے اور پھر اِتنی ایمانداری سے رہے کہ وہاں سے ایک دانہ بھی نہ کھائے ؟یہ شخص تو ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی طر ح متقی او رپر ہیزگا ر معلوم ہوتا ہے (اس با غ والے کو معلوم نہ تھا کہ یہی حضرت سیدنا ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہیں)حضرت سیدنا ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:'' پھر میں اپنے کام میں لگ گیا اوربا غ کامالک وہاں سے رخصت ہوگیا ۔''
دوسرے دن میں نے دیکھا کہ آج پھر باغ کامالک بہت سارے لوگوں کے ساتھ باغ کی طرف آرہاہے ۔ مَیں سمجھ گیا کہ میرے اس و اقعہ کی خبر اس نے لوگوں کو دی ہوگی اس لئے لوگ مجھے ملنے آرہے ہیں ۔ چنانچہ میں چھپ کر با غ سے نکل گیا، وہ لوگ با غ میں داخل ہوئے ،ان کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ وہ مجھے باغ میں تلاش کرتے رہے لیکن میں انہیں نہ ملا،مَیں وہاں ہوتا تو انہیں ملتا میں تو وہاں سے باہرآگیا تھا ۔ وہ لوگ کافی دیر تک مجھے ڈھونڈتے رہے بالآخر تھک ہار کر واپس چلے گئے اور میں نے کسی سے بھی ملاقات نہ کی۔ (اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي الله تعالي عليه وسلم)
(میٹھے میٹھے اسلامی بھا ئیو!سبحان اللہ عزوجل ! تقوی ہو تو ایسا کہ اتنا عرصہ با غ میں رہنے کے با وجود بھی وہاں سے کوئی چیز نہ کھائی حالانکہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اگر وہاں سے انگور کھاتے تو مالک کوکوئی اعتر اض نہ ہوتا لیکن یہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی کمال درجہ احتیاط تھی۔ اللہ عزوجل ان کے صدقے ہمیں بھی تقوی وپرہیز گا ری کی دولت سے مالا مال فرمائے اور رزقِ حرام سے بچنے کی تو فیق عطا فرمائے ۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)
رہوں مست وبے خود میں تیری ولا میں پلا جام ایسا پلا یاالٰہی"
" حضرت سیدنا عبد اللہ دینوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں :'' ایک مرتبہ میرے پاس ایک فقیر آیا ۔اسے دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ یہ کسی سخت مصیبت سے دوچار اور کسی سخت تکلیف میں مبتلا ہے ۔اس کی حالت دیکھ کر میرے دل میں رحم آگیا اور میں نے سوچا کہ اسے کوئی چیز دو ں اور اس کی مدد کرو ں۔میں نے ارادہ کیا کہ اپنی جوتیاں اسے دے دو ں جیسے ہی میں نے یہ ارادہ کیا فوراََ نفس نے مجھے روک دیاا ور کہا : ''اگر تُو اپنی جوتیاں اسے دے دے گاتو تُوننگے پاؤں رہ جائے گا اور اس طر ح تُواپنے پاؤں وغیرہ کو نجاست سے کس طرح بچائے گا؟''
پھر مَیں نے ارادہ کیا کہ اسے اپنا مشکیزہ دے دو ں نفس نے پھر مجھے روک دیا اور کہا :'' اگر مشکیزہ اسے دے دے گا تو تُو وضو وغیرہ کیسے کریگا؟'' پھر میں نے ارادہ کیا کہ میں اپنا رومال اسے صدقہ کر دیتا ہوں ، نفس بد کار نے پھر مجھے منع کیا اورکہا: ''اگر تُو رومال اسے دے دے گاتو پھرتُو خود ننگے سر رہ جائے گا اور تجھے اس طر ح پریشانی ہوگی۔''
مَیں ابھی اسی شش وپنج میں تھا کہ فقیر یکایک اپنی لاٹھی لے کر اُٹھا پھر میری طر ف متوجہ ہو کر بولا:'' اے نفسِ بد کار کی بات ماننے والے ! تُو اپنا رومال اپنے پاس ہی رکھ ،میں جا رہاہوں اور میں نے اپنے رب عزوجل سے یہ عہد کر رکھا ہے کہ میں اس وقت تک ایک لقمہ بھی نہیں کھاؤں گا جب تک مجھے مخلوق سے مانگے بغیر خود بخود ر زق نہ مل جائے۔'' اتنا کہنے کے بعد وہ فقیر وہاں سے چلا گیا۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے30سال سے روٹی نہیں کھائی تھی۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي الله تعالي عليه وسلم)
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اس حکایت میں مخلوق سے سوال نہ کرنے کے بارے میں کتنا زبردست درس موجود ہے۔ واقعی اللہ عزوجل پر کامل بھروسہ رکھتے ہوئے غیر اللہ سے بے نیاز ہوجاناکامل ہستیوں کا ہی حصہ تھا۔ اے اللہ عزوجل !ہمیں بھی ایسا توکل عطا فرمایااور اپنی راہ میں خوب خرچ کر نے کی توفیق عطا فرما،شیطانی وسوسوں اور نفس کی چالوں سے ہماری حفاظت فرما۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)"
" حضرت سیدنا عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک ملک کا بادشاہ بہت ظالم اور کنجوس تھا۔ا س نے اپنے ملک میں یہ اعلان کردیا کہ'' کوئی بھی شخص کسی فقیر یامسکین پر کوئی چیز صدقہ نہ کرے، کوئی کسی غریب کی مدد نہ کرے۔اگر کسی نے ایسا کیا تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دو ں گا۔''
یہ خبر سن کر لوگوں میں سنسنی مچ گئی ،اب ہر کوئی صدقہ دینے سے ڈرنے لگا ۔ ایک دن ایک فقیر مجبور ہو کر ایک عورت کے پاس آیا اور اس سے کہا: ''اللہ عزوجل کی رضا کی خاطر مجھے کوئی چیز کھانے کے لئے دو۔'' تو وہ عورت بولی:'' ہمارے ملک کے بادشاہ نے اعلان کیا ہے کہ جوکوئی کسی کو صدقہ دے گا اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا، اب میں تمہیں کس طر ح کوئی چیز دوں ؟'' فقیر نے کہا : ''تم مجھے اللہ عزوجل کی رضا کی خاطر کوئی کھانے کی چیز دے دو۔'' عورت کو اس فقیر پربہت ترس آیا اور اس نے بادشاہ کی ناراضگی اور سزا کی پرواہ کئے بغیر اللہ عزوجل کی رضا کے لئے اس فقیر کو دو روٹیاں دے دیں۔ فقیر روٹیاں لے کر دعائیں دیتا ہوا وہاں سے چلاگیا۔
جب بادشاہ کو معلوم ہو اکہ فلاں عورت نے میرے حکم کی خلاف ورزی کی ہے تو اس نے عورت کی طرف اپنے سپاہی بھیجے اور عورت کے دونوں ہاتھ کاٹ دیئے گئے۔ کچھ عرصہ بعد بادشاہ نے اپنی والدہ سے کہا :'' مجھے کسی ایسی عورت کے بارے میں بتا ؤ جو سب سے زیادہ حسین وجمیل ہو تا کہ میں اس سے شادی کروں۔''تو اس کی والدہ نے اسے بتایا : ''ہمارے ملک میں ایک ایسی خوبصورت اور بے مثال حسن وجمال کی پیکر عورت رہتی ہے کہ میں نے آج تک اس جیسی حسین وجمیل عورت نہیں دیکھی لیکن اس میں ایک بہت بڑا عیب ہے،با دشاہ نے پوچھا :'' اس میں کیا عیب ہے ؟'' اس کی والدہ نے جواب دیا:'' اس کے دونوں ہاتھ کٹے ہوئے ہیں۔''
بادشاہ نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ فلاں عورت کو میرے پاس حاضر کیا جائے۔ چند سپاہی گئے اور اسی عورت کو بادشاہ کے پاس لے آئے جس کے ہاتھ فقیر کو روٹیاں دینے کی وجہ سے کاٹ دئیے گئے تھے ۔جب بادشاہ نے اس عورت کو دیکھا تو اس کے حسن وجمال نے بادشاہ کوحیرت میں ڈال دیا۔ بادشاہ نے اس سے کہا :'' کیا تم مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہو؟ ''عورت نے کہا: ''مجھے کوئی اعتراض نہیں اگر تم مجھ سے شادی کرنا چاہوتومجھے منظور ہے ۔''چنانچہ ان دونوں کی شادی بڑی دھوم دھام سے ہوئی، جشن منایا گیا اور اس طر ح وہ ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگے۔
بادشاہ کی دوسری بیویوں کو اس عورت سے حسد ہوگیا او روہ دن رات حسد کی آگ میں جلنے لگیں،ان کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ بادشاہ اب ہمیں اِتنی وقعت نہیں دیتا جتنی اس غریب ونادار نئی دلہن کو دیتا ہے ۔"
" چنانچہ وہ ہر وقت اسی فکر میں رہتیں کہ کسی طر ح اس نئی دلہن کو بادشاہ کی نظروں سے گرا دیا جائے لیکن وہ اپنے اس مذموم اِرادے میں کا میاب نہ ہوسکیں۔پھر اچانک بادشاہ کسی محاذ پر روانہ ہوگیا اور وہاں اسے کافی دن دشمنوں سے لڑنا پڑا۔ بادشاہ کی بیویوں کو یہ بہت اچھا موقع مل گیا۔ انہوں نے بادشاہ کو خط لکھا کہ تمہارے پیچھے سے تمہاری نئی دلہن نے تمہاری عزت کو داغ دار کر دیا ہے او روہ بدکارہ ہو گئی ہے اور اس بد کاری کے نتیجہ میں اس کے ہا ں بچہ بھی پیدا ہو اہے۔ جب با دشاہ کو یہ خط ملا تو وہ آگ بگولا ہوگیا۔ اس نے فوراََاپنے قاصد کو یہ پیغام دے کر اپنی والدہ کے پاس بھیجا کہ اس بدکارہ عورت کو اس کے بچے سمیت میرے ملک سے نکال دو، اس کے گلے میں کپڑا با ندھ کر بچہ اس میں ڈال دو اور انہیں کسی جنگل میں چھوڑ دو ۔
جب اس کی والدہ کو یہ پیغام ملا تو اس نے ایسا ہی کیا او راس کے گلے میں کپڑا ڈال کر بچہ ا س میں ڈال دیا پھر اسے ملک سے دور ایک جنگل میں چھوڑ دیا گیا۔اب وہ بیچاری تنہا جنگل میں رہ گئی لیکن اسے اپنے رب عزوجل سے کسی قسم کا کوئی شکوہ نہ تھا ،وہ تو اس کی رضا پر راضی تھی۔ وہ بیچاری اسی طر ح جنگل میں گھومتی رہی ،پیاس کی شدت نے اسے پریشان کر رکھا تھا با لآ خر اسے دور ایک نہر نظر آئی وہ نہر پر گئی اورجیسے ہی پانی پینے کے لئے جھکی تو اس کا بچہ گہرے پانی میں جاگرا اور ڈوبنے لگا۔
جب عورت نے اپنے بچے کو ڈوبتا دیکھا تو وہ رونے لگی۔اتنے میں اس کے پاس دو خوبصورت نوجوان آئے اوراس سے پوچھا:''تم کیوں رو رہی ہو؟ ''اس نے کہا: ''میں پانی پینے کے لئے جھکی تو میرا بیٹا اس نہر میں گر کر ڈوب گیا ،میں اسی کے غم میں رو رہی ہوں۔ ''ان خوبصورت نوجوانوں نے پوچھا :'' کیا تُو چاہتی ہے کہ ہم تیرے بچے کو نکال لائیں؟'' عورت نے بےتاب ہوکر کہا :'' ہاں! میں چاہتی ہوں کہ اللہ عزوجل مجھے میرا بچہ واپس لوٹا دے۔ ''
ان نوجوانوں نے دعا کی او راس کا بچہ نکال کر اسے دے دیا۔ پھر انہوں نے پوچھا: ''اے رحم دل عورت !کیا تُو چاہتی ہے کہ تیرے ہا تھ تجھے واپس کر دیئے جائیں اور تُو ٹھیک ہوجائے ؟''اس نے کہا:'' ہاں! میں چاہتی ہوں۔'' چنانچہ ان دونوں نوجوانوں نے دعا کی اور اس کے دونوں ہاتھ بالکل ٹھیک ہوگئے ۔عورت نے اللہ عزوجل کا شکر ادا کیا اور حیران کُن نظروں سے ان نوجوانوں کو دیکھنے لگی جن کی بر کت سے اسے ڈوبا ہوا بچہ بھی مل گیا اور اس کے ہاتھ بھی اسے لوٹا دیئے گئے ۔ پھران نوجوانوں نے پوچھا: ''اے عظیم عورت! کیا تُو جانتی ہے کہ ہم کون ہیں؟ ''عورت نے کہا:''میں آپ کو نہیں پہچانتی۔'' عورت کا یہ جواب سن کر انہوں نے کہا:'' ہم تیری وہی دو روٹیاں ہیں جوتُو نے ایک مجبور سائل کو دی تھیں۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي الله تعالي عليه وسلم)
( میٹھے میٹھے اسلامی بھا ئیو!سبحان اللہ عزوجل !اس حکایت میں ہمارے لئے کیسی کیسی نصیحتیں ہیں کہ اللہ عزوجل کی رضا کی"
خاطر جو نیک عمل کیا جاتا ہے وہ کبھی رائیگا ں نہیں جاتا ، آخرت میں تو اس کااَجر ملتا ہی ہے لیکن دنیا میں بھی اس کے ثمرات ظاہر ہوتے ہیں، جس طرح اس عظیم عورت کے ساتھ ہواکہ دنیا ہی میں اس کو نیکی کا بدلہ مل گیا۔ لہٰذا ہمیں بھی چاہے کہ اپنا ہر عمل اللہ عزوجل کی رضا کی خاطر کریں۔ جو عمل اللہ عزوجل کی رضا کی خاطر کیا جاتا ہے وہ کبھی رائیگا ں نہیں جاتا ۔اللہ عزوجل اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے، وہ اپنی رحمت سے کسی کو مایوس نہیں کرتا۔ اس حکایت سے یہ بھی درس ملا کہ جوکسی کے ساتھ بھلا کرتا ہے اس کے ساتھ بھی بھلا ہوتا ہے،اس کی بھر پور مدد کی جاتی ہے اور اسے مایوس نہیں کیا جاتا۔ اللہ عزوجل ہمیں بھی اپنے مسلمان بھائیوں پر خوب شفقت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کی تو فیق عطا فرما ئے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)
" جب حضرت سیدنا عمر وبن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگو ں کی یہ حالت دیکھی تو انہوں نے امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جانب خط لکھا اور انہیں ساری صورتحال سے آگاہ کیا ، جب حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضرت سیدنا عمر وبن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خط ملا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواباً لکھوا کر بھیجا:'' تم نے بالکل سچ کہا کہ اِسلام بے ہودہ پُرانی رسموں کو مٹا دیتا ہے۔مَیں تمہاری طرف مکتوب میں ایک رقعہ بھیج رہا ہوں جب تمہارے پاس میرا یہ مکتوب اور رقعہ پہنچے تو تم اس رقعے کو دریا ئے نیل میں ڈال دینا۔'' جب حضرت سیدنا فارو ق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مبارک مکتوب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ملاتو اس میں ایک چھوٹا سا رقعہ بھی تھا ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہ رقعہ لیااوراسے پڑھنا شروع کیا ۔اس مبارک رقعے میں درج الفاظ کامفہوم یہ ہے:
اللہ عزوجل کے بندے امیر المؤمنین (حضرت سیدنا)عمر(رضی اللہ تعالیٰ عنہ)کی جانب سے مصر کے دریا''نیل'' کی طرف !
اما بعد !اے دریائے نیل! اگر تُواپنی مرضی سے جاری ہوتا ہے تو جاری مت ہو (ہمیں تیری کوئی حاجت نہیں ) اور اگر تجھے اللہ عزوجل واحد وقہارجاری فرماتا ہے تو ہم اس سے سوال کرتے ہیں کہ وہ تجھے جاری فرمادے۔''
حضرت سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہ رقعہ پڑھا اور دریائے نیل میں ڈال دیا جس وقت یہ رقعہ دریامیں ڈالا گیا اس وقت دریا بالکل خشک تھا اور لوگوں نے اس ملک کو چھوڑنے کا ارادہ کرلیا تھا لیکن جب لوگ صبح دریائے نیل پر پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک ہی رات میں اللہ عزوجل نے (امیرالمؤمنین حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے رقعہ کی بر کت سے) دریا میں سولہ گز پانی جاری فرمادیا اور اللہ عزوجل نے وہ رسمِ باطل مٹادی اور آج تک یہ رسم ختم ہے۔(دریائے نیل اس کے بعد آج تک خشک نہیں ہوا )
؎ چاہیں تو اشارو ں سے اپنے کایا ہی پلٹ دیں دنیا کی
یہ شان ہے خدمت گاروں کی سرکار کا عالم کیا ہوگا
( میٹھے میٹھے اسلامی بھا ئیو!سبحان اللہ عزوجل ! اِسلام کتنا عظیم ہے کہ اس نے آکر مظلوموں کو ظلم سے نجات دلوائی، بے سہاروں کو سہارا دیا اوردینِ اسلا م ایسے عظیم اَحکام کا مجموعہ ہے کہ جن میں لوگو ں کی دنیا اور آخرت کی بھلا ئی ہے۔ اس حکایت سے معلوم ہوا کہ جو کوئی اللہ عزوجل کا ہوجاتا ہے ہر چیز ا س کے تا بع کردی جاتی ہے جو اپنے گلے میں نبی پاک ،صاحبِ لولاک، سیّاحِ افلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی غلامی کا پٹہ ڈال لیتا ہے وہ در حقیقت جہاں کا سردار بن جاتا ہے:۔
؎؎ مدینے کے گدا دیکھے ہیں دنیا کے امام اکثر
بدل دیتے ہيں تقدیریں محمد صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے غلام اکثر
ایسے عظیم لوگ اسباب پر نہیں بلکہ خالقِ اسباب پر نظر رکھتے ہیں ۔ ان کا اللہ عزوجل پرتوکل بہت کامل ہوتا ہے۔ جب غلاموں کا یہ"
حال ہے تو سردارِمکہ مکرمہ ،سلطانِ مدینہ منورہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی طاقت او راِختیار ات کا کیا عالم ہوگا ۔ اللہ عزوجل ہمیں حضورنبی کریم ، رء ُوف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی سچی غلامی عطا فرمائے اوران کے جلوؤں میں شہادت کی موت عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم )
" حضرت سیدناابوعبداللہ بلخی علیہ رحمۃاللہ القوی فرماتے ہیں:'' بنی اسرائیل میں ایک نہایت ہی پاکباز حسین وجمیل نوجوان تھا جس کے حسن کی مثال نہ تھی، وہ ٹوکر یاں بنا کر بیچا کرتا۔ اسی طرح اس کی گزر بسر ہو رہی تھی ۔ ایک روز وہ ٹوکریاں بیچتا ہوا شاہی محل کے قریب سے گزرا۔ ایک خادمہ کی اس نوجوان پر نظر پڑی تو وہ فوراً شہزادی کے پاس گئی اور اسے بتایا کہ باہر ایک نوجوان ٹوکریاں بیچ رہا ہے، وہ اِتنا خوبصورت ہے کہ میں نے آج تک ایسا خوبصورت نوجوان نہیں دیکھا۔ یہ سن کر شہزادی نے کہا:'' اسے میرے پاس بلا لاؤ۔''خادمہ باہر گئی اور نوجوان سے کہا:''اندرآجاؤ۔''
(نوجوان سمجھا شایدانہیں ٹوکریاں چاہیں ) پس وہ اس کے ساتھ محل میں داخل ہوگیا ۔ وہ اسے ایک کمرے میں لے گئی جیسے ہی وہ کمرے میں داخل ہوا اس خادمہ نے دروازہ بند کردیا ، پھر اسے دوسرے کمرے میں لے گئی اور اسی طر ح اس کا دروازہ بھی بند کردیا۔ جب وہ تیسرے کمرے میں پہنچا تو اس کے سامنے ایک خوبصورت نوجوان شہزادی موجود تھی، اس نے اپنا نقاب اُٹھایا ہوا تھا اور سینہ بھی عریا ں تھا ۔ جب نوجوان نے شہزادی کو اس حالت میں دیکھا تو کہنے لگا: ''جو چیزتم نے خرید نی ہے جلدی سے خرید لو۔'' شہزادی کہنے لگی:'' میں نے تجھے کوئی چیز خریدنے کے لئے نہیں بلایا بلکہ مَیں تو تجھ سے قُرب چاہتی ہوں اور اپنی خواہش کی تسکین چاہتی ہوں ،آؤ اور میری شہوت کو تسکین دو۔'' اس پاکباز نوجوان نے کہا :'' اے شہزادی !تُو اللہ عزوجل سے ڈر۔'' اس نیک نوجوان نے شہزادی کو بہت سمجھا یا لیکن وہ نہ مانی او ربار بار بُرائی کا مطالبہ کرتی رہی۔ پھراس نوجوان سے کہنے لگی :'' اگر تُو نے میری با ت نہ مانی تو بادشاہ کو شکایت کردو ں گی کہ یہ نوجوان برائی کے اِرادے سے محل میں گھس آیا ہے پھر تجھے بہت سخت سزا دی جائے گی، تیری بہتری اسی میں ہے کہ تُو میری بات مان لے اور میری خواہش پوری کر دے ۔'' نوجوان نے پھر اِنکار کیا اور اسے نصیحت کرنے لگا بالا ۤخر جب وہ باز نہ آئی تو اس عظیم نوجوان نے کہا :'' میں وضو کرنا چاہتا ہو ں، میرے لئے وضو کا انتظام کر دو۔'' یہ"
"سن کر شہزادی بولی :'' کیا تُو مجھے دھوکا دینا چاہتا ہے۔ پھر اس نے خادمہ سے کہا:'' اس کے لئے محل کی چھت پر وضو کا برتن لے جاؤ تا کہ یہ فرار نہ ہوسکے ۔''
چنانچہ اس نوجوان کو چھت پرلے جایا گیا۔ محل کی چھت سطح زمین سے تقریباً 40گز اونچی تھی جس سے چھلانگ لگانا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ جب نوجوان چھت پر پہنچ گیا تو اس نے اپنے پاک پرورد گار عزوجل کی بارگاہ میں عرض کی: ''اے اللہ عزوجل !مجھے تیری نافرمانی پر مجبور کیا جارہاہے اورمَیں اس برائی سے بچنا چاہتا ہوں ، مجھے یہ تو منظور ہے کہ اپنے آپ کو اس بلند و بالا چھت سے نیچے گرا دوں لیکن یہ پسند نہیں کہ میں تیری نافرمانی کر وں۔''
چنانچہ اس نے بِسْمِ اللہِ شریف پڑھ کر چھت سے چھلانگ لگادی ۔ اللہ عزوجل نے ایک فرشتے کو بھیجا جس نے اس نوجوان کو بازو سے پکڑا او رزمین پر بڑے سکون سے اُتا ر دیا اور اسے کسی قسم کی تکلیف نہ ہوئی نوجوان نے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں عرض کی:'' اے میرے پاک پرور دگار عزوجل !اگر تُوچاہے تومجھے ان ٹوکریوں کی تجارت کے بغیر بھی رزق عطا فرماسکتا ہے۔ اے میرے پروردگار عزوجل !مجھے اس تجارت سے بے نیاز کر دے ۔'' جب اس نے یہ دعا کی تو اللہ ربُّ العزَّت نے اس کی طرف ایک بوری بھیجی جو سونے سے بھری ہوئی تھی ۔ اس نے بوری سے سونا بھرنا شرو ع کردیا یہا ں تک کہ اس کی چادر بھر گئی ۔پھر اس عظیم نوجوان نے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں عرض کی:'' اے اللہ عزوجل !اگر یہ اسی رزق کا حصہ ہے جو مجھے دنیا میں ملنا تھا تو اس میں برکت عطا فرما او راگر یہ اس اَجر کا حصہ ہے جو مجھے آخرت میں ملنا ہے اور اس کی وجہ سے میرے آخرت کے اَجر میں کمی ہوگی تو مجھے یہ دولت نہیں چاہے۔''
جب اس نوجوان نے یہ کہا تو اسے ایک آواز سنائی دی :'' یہ جو سونا تجھے عطا کیا گیا ہے یہ اس اَجر کا پچیسواں حصہ ہے جو تجھے اس گناہ سے صبر کرنے پر ملا ہے ۔''تو اس عظیم نوجوان نے کہا:'' اے میرے پروردگار عزوجل !مجھے ایسے مال کی حاجت نہیں جو میرے آخرت کے خزانے میں کمی کا با عث بنے۔'' جب نوجوان نے یہ بات کہی تو وہ سارا سونا غائب ہوگیا۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدنا عبد الرحمن بن یعقوب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہمارے پاس ایک نیک بزرگ تشریف لائے جن کا نام ابو عبداللہ تھا۔ انہوں نے مجھے بتا یا کہ ایک مرتبہ میں تہجد کے وقت مسجد الحرام میں گیا اوربِیر زم زم کے قریب بیٹھ گیا ۔ اتنے میں ایک بزرگ آئے انہوں نے اپنے چہرے پر رومال ڈالا ہوا تھا۔وہ کنوئیں کے قریب آئے اور اس سے پانی نکال کر پینے لگے۔ جب وہ پی چکے تو تھوڑ ا ساپانی بر تن میں بچ گیا۔میں نے ان سے لے کر وہ پانی پیا تو وہ بہت عمدہ اور لذیذ تھا اوراس میں باداموں کا ستُّوملا ہوا تھا۔ میں نے ایسا خوش ذائقہ اورلذیذ پانی کبھی نہیں پیا تھا۔ جب میں نے اس بزرگ کی طرف دیکھا تو وہ وہاں موجود نہ تھے ۔
دو سری رات پھر تہجد کے وقت میں بیر زم زم کے پاس بیٹھ گیا۔ وہی بزرگ پھر کنوئیں کے پاس آئے پانی نکالا اور پینے لگے کچھ پانی بچ گیا۔ جب میں نے بزرگ کابچا ہوا پانی پیا تو وہ سادہ پانی نہ تھا بلکہ ا س میں خالص شہد ملا ہوا تھا او رایسا لذیذ وعمدہ تھا جیسا میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں پیا تھا۔ پانی پینے کے بعد جب میں نے اس بزرگ کی طرف دیکھا تو وہ وہاں سے جاچکے تھے۔
میں بہت حیران ہوا کہ یہ عظم الشان بزرگ کو ن ہیں؟ تیسر ی رات پھر میں تہجد کے وقت کنوئیں کے پا س بیٹھ گیا ۔ کچھ دیر بعدوہ بزرگ بھی تشریف لے آئے، کنوئیں سے ڈول بھر کر پانی نکالا اور نوش فرمانے لگے ۔آج پھر کچھ پانی بچ گیا میں نے ان کابچا ہوا پانی پیا ۔آج اس کا ذائقہ ایسا تھا جیسے اس میں خالص دودھ ملا دیا گیا ہو۔ ایسا عمدہ و لذیذ پانی میں نے کبھی نہ پیا تھا ۔ پانی پینے کے فوراً بعد میں نے اس بزرگ کا دامن تھام لیا اور عرض گزار ہوا:'' اے عظیم بزرگ !آپ کو اسی ذات کریم کا واسطہ جس نے آپ کو یہ کرامت عطا کی ہے، مجھے بتا ئیں کہ آپ کون ہیں اور آپ کانام کیا ہے ؟'' تو وہ بزرگ فرمانے لگے :'' اگر تم مجھ سے وعدہ کرو کہ جب تک میں اس دنیا میں زندہ ہوں تب تک میرے اس راز کو چھپائے رکھو گے اور لوگو ں پر ظاہر نہ کرو گے تو میں تمہیں اپنا نام بتا تا ہوں ،کیا تم مجھ سے وعدہ کرتے ہو؟'' میں نے کہا:'' جی ہاں۔'' وہ بزرگ فرمانے لگے:'' میں سفیان بن سعید ثوری ہوں۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدنا ابو عبیدہ التا جی علیہ رحمۃاللہ الہادی فرماتے ہیں،ایک مرتبہ ہم حضرت سیدنا حسن بصری علیہ رحمۃاللہ القوی کی خدمت بابرکت میں حاضر ہو ئے جبکہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بیمار تھے اور اسی بیمار ی کی حالت میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا انتقال ہوگیا۔ ہم لوگو ں نے خدمت عالیہ میں حاضر ہو کر سلام عرض کیا۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جواب دیا اور بڑی خوشی سے فرمانے لگے: ''مرحبا!خوش آمدید! اللہ عزوجل تمہیں درازی عمر با لخیر عطا فرمائے اور ہم سب کو جنت میں اعلیٰ مرتبہ عطا فرمائے ۔''
پھر ارشاد فرمایا: مَیں تمہیں چند نصیحت آموز باتیں بتا تا ہوں، انہیں تو جہ سے سننا ایسا نہ ہو کہ ایک کان سے سنو اور دوسرے کا ن سے نکال دو ۔ سنو! جس نے حضور نبی کریم ،رء ُوف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی صبح وشام زیارت کی اس نے عمل کی راہ کو اختیار کیا اور کبھی بھی اپنے وقت کو ضائع نہ کیا، ہر آن اپنے عمل میں اضافے کی کوشش کی۔جب بھی اسے کسی بات کا علم ہوا اس نے فوراًاس علم پر عمل کیا پھر تم لوگ اعمالِ صالحہ کی طر ف سعی کیوں نہیں کرتے ۔ ربِّ کعبہ کی قسم! تمہارے اعمال تمہارے ساتھ ہیں۔
اللہ عزوجل اس شخص پر رحم فرمائے جس نے اپنی زندگی آخرت کے لئے وقف کردی۔ اپنا مقصد صرف آخرت کی تیاری ہی کو رکھا، سوکھی روٹی کھا کر ہی گزارہ کرلیا ، پھٹے پُرانے کپڑے پہن کر اور زمین کو بچھونا بنا کر گزر بسر کی اور اپنے رب عزوجل کی خوب عبادت کی، اپنی خطاؤں پر شرمندگی کے آنسو بہائے ،آخرت کے خوف سے ہر وقت لرزاں وترساں رہا اور اپنی ساری زندگی اسی حال میں گزار دی یہاں تک کہ اس فانی دنیا میں اس کی مدت ختم ہوگئی اور وہ عبادت وریاضت کرتے ہوئے اس دارفانی کو چھوڑکر راحت وسکون کی جگہ (یعنی جنت )کی طر ف پہنچ گیا۔وہ شخص بہت ہی خوش قسمت ہے جس نے اپنی زندگی اس طرح عبادت وریاضت میں گزاردی ۔
اے بیوقوف انسان !اگر تجھے کوئی دنیاوی نعمت نہ ملے اور تو اس پر واویلا کرنا شروع کردے کہ مجھے یہ نعمت کیوں نہیں ملی تو یہ تیری بے وقوفی ہے۔ اللہ عزوجل جسے چاہے جو عطا کر ے اور جس سے چاہے ا پنی نعمتوں کو روک لے اوراگرتجھے کوئی دنیاوی نعمت نہ ملی تواس کے نہ ملنے میں ہی تیری بھلا ئی ہو گی ۔ پھر بھی اگر تُو اپنے رب عزوجل کی تقسیم پر راضی نہیں ہوگا تو بروزِقیامت اس پاک پروردگار عزوجل سے تیری ملاقات اس حال میں ہوگی کہ تیرے سارے اعمال اکارت ہوچکے ہوں گے۔
اللہ عزوجل اس مرد صالح پر رحمت فرمائے جس نے حلال رزق کمایا اور پھر بخوشی راہ ِخداعزوجل میں اپنامال خرچ کر کے اپنی آخرت کے لئے جمع کرلیا تا کہ وہاں محتاجی نہ ہو او راپنے مال کو ایسی جگہ استعمال کیا جہاں خرچ کرنے کا اللہ عزوجل نے حکم فرمایا"
"ہے اور فضول کاموں میں اپنے مال کو استعمال نہ کیا ۔
بے شک تمہارے اسلاف دنیا سے بقدرِ ضرورت مال استعمال میں لاتے۔ باقی تمام مال اپنے رب عزوجل کی راہ میں خرچ کردیتے او رانہوں نے اپنے مال وجان کاجنت کے بدلے اللہ عزوجل سے سودا کر لیاتھا ۔
اے لوگو! بے شک اللہ عزوجل نے دنیا کو آزمائش کے لئے اور آخرت کو جزاکے لئے بنایا ہے اور انسان کوایمان کی دولت صرف اللہ عزوجل کی عطا ہی سے نصیب ہوتی ہے۔ اللہ عزوجل جسے چاہتا ہے ایمان کی عظیم دولت سے مالا مال فرما دیتا ہے۔ بے شک اللہ عزوجل کی رضا حاصل کرنے کا ایک ہی راستہ ہے جس کی بنیا دہدایت ہے۔ جو اس راستے پر سیدھا چلتا جائے گا اس کا ٹھکانہ جنت ہے اور شیطان کے کئی راستے ہیں جن کی اِبتدا ہی گمراہی سے ہوتی ہے اور جوان راستوں میں سے کسی بھی راستے پر چلے گا وہ سیدھا جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں جاگر ے گا۔
خدا عزوجل کی قسم! اِیمان صرف زبانی کلامی دعوؤں کا نام نہیں کہ انسان دعوے کرتا پھرے کہ میں ایمان والا ہوں بلکہ ایمان تو دل کی تصدیق کا نام ہے جس کا اِقرار زبان سے ہوتا ہے۔جب دل میں پختہ یقین ہوتا ہے تو یہ یقین کی پختگی ایمان کہلاتی ہے اوراَعمالِ صالحہ اس ایمان کی تصدیق کرتے ہیں، لہٰذااے ایمان والو! نیک اعمال کے لئے خوب سعی کرو ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
حضرت سیدنا علی بن محمد مدائنی علیہ رحمۃ اللہ القوی سے منقول ہے، ایک مرتبہ شیرِ خدا حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم ایک جگہ کھڑے ہوئے اور روتے ہوئے یوں نصیحت فرمائی:''اے لوگو! یہ دنیا اس کے لئے حقائق اور سچائیوں کا گھر ہے جو اس کی حقیقت کو پہچان لے ،یہ اس کے لئے دارِ عافیت ہے جو اسے اچھی طرح سمجھ جائے ، جو یہاں سمجھداری سے تجارت کرتا ہے اسے نفع ملتا ہے،اس دنیا میں اللہ عزوجل کی مساجد ہیں ، دنیا میں ہی انبیاء کرام علیہم السلام پر وحی نازل ہوئی ، اللہ عزوجل کے ملائکہ دنیا میں بھی اس کی عبادت کرتے ہیں ،یہ دنیا اولیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ سے مزین ہے ۔اس دنیا میں رہ کر خوب نیک عمل کرو اور عافیت حاصل کرو ۔ جو شخص دنیا کی خواہ مخواہ مذمت کرتا ہے وہ اذیت میں مبتلارہتا ہے، وہ اپنے نفس اور اہل دنیا کی تعریف کرتا رہتا ہے دنیا اپنی
"تمام ترمصیبتوں کے ساتھ بلاؤں کی صورت اختیار کرکے اس کے پاس آجاتی ہے ، او ریہی دنیا اپنی خوشیوں اور آرائشو ں کے ساتھ مزین ہے ،پس اس دنیا سے خوف زدہ بھی رہنا چاہے ، اس سے بچنابھی چاہے اور (بقد رِ ضرورت ) اس کی طرف رغبت کرنی چاہے ۔
کچھ لوگ دنیا کی مذمت کرتے ہیں اور کچھ لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں اور دنیا تو عبرت اور نصیحت کی جگہ ہے ، جوچاہے اس سے عبرت ونصیحت حاصل کرے۔
اے دنیا کی دھوکے بازیوں کی وجہ سے دنیا کو ملامت کرنے والے !کیا دنیا نے تجھے زبر دستی ذلت میں ڈالا ہے ؟ اس نے کب تجھے تیری منزل مقصود سے دور کیا؟ کیا اس نے تیرے آبا ؤاجداد کو مصیبت میں گرفتار نہ کیا ؟اے انسان !تو خود اپنے ہی ہاتھوں بیماری میں مبتلا ہے اگر تو چاہے تو مرضِ دنیا کا علاج خود ہی کرسکتا ہے ،تجھے اطبّاء کے پاس جانے کی حاجت نہیں، آج جو کرنا ہے کرلے ،دنیا میں غرق ہونے سے بچ، بقدرِ کفایت اس سے نفع حاصل کرلے، کل تجھے تیری تدابیر کام نہ آئیں گے۔ آج جو کرنا ہے کر لے ، یہ دنیانئے نئے رنگوں والی اورپچھا ڑنے والی ہے۔
حضرت سیدنا علی بن محمد مدانی علیہ رحمۃاللہ القوی فرماتے ہیں، اس نصیحت آموز تقریر کے بعد آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قبر ستان والوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:''اے اہل قبور! تمہارے مرنے کے بعد تمہارے مال تقسیم ہوگئے ، تمہاری عورتوں نے شادی کر لی،اے اہل قبور! تمہارے مرنے کے بعد تمہارے مال تقسیم ہوگئے، عورتوں نے نئے نکاح کرلئے، یہ تو تمہارے بعد ہماری خبر ہے ،اب تم بتا ؤ کہ تمہارے ساتھ کیا معاملہ ہوا ؟''پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:'' اے لوگو ! اگر انہیں کلام کرنے کی اجازت ہوتی تو اس طر ح کہتے :''بے شک بہترین زادِ راہ تقوی ہے۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
حضرت سیدنا مقاتل بن صالح خراسانی قدّس سرہ الربّانی فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت سیدنا حماد بن سلمہ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے دولت خانہ پر حاضر ہوا۔ آپ کے گھر میں صرف ایک چٹائی تھی جس پر آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ تشریف فرما تھے اور آپ کے سامنے قرآن پاک رکھا ہو اتھااورآپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ تلاوت فرمارہے تھے۔ اس کے علاوہ گھر میں ایک تھیلا رکھا ہوا تھا جس میں آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی کتابیں رکھی ہوئی تھیں ۔ ایک برتن تھا جس سے آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ وضو وغیرہ کیا کرتے تھے ، ان اشیاء کے
"علاوہ گھر میں اور کوئی چیز نہ تھی ۔
میں آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے پاس بیٹھا ہوا تھاکہ کسی نے دروازے پر دستک دی۔ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے ایک بچے کو بھیجا: ''دیکھو!دروازے پر کون آیا ہے ؟'' بچہ باہر گیا اور کچھ دیر بعدآپ کی بارگاہ میں حاضر ہوا ۔''آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے پوچھا : ''کون ہے ؟''اس نے جواب دیا:'' خلیفہ کا قاصد آنا چاہتا ہے۔'' آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' جاؤاور اس سے کہو کہ صرف تم اکیلے اندر آجا ؤ اور کسی کو ساتھ نہ لانا۔'' بچے نے قاصد کو آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کا پیغام دیا۔چنانچہ قاصد آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے پاس آیا اور ایک خط آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی بارگاہ میں پیش کیا ۔ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے وہ خط لیا اور اسے کھولا تو اس میں یہ الفاظ لکھے تھے:"
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ؕ
" محمد بن سلمان کی جانب سے حماد بن سلمہ کی طرف ،
امابعد!
اے حماد بن سلمہ! اللہ عزوجل آپ (رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ) کی صبح خیریت سے کرے جیسے وہ اپنے اولیاء اوراطاعت کرنے والوں کی صبح کرتا ہے۔ حضور!مجھے ایک مسئلہ درپیش ہے جس کے متعلق آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ سے گفتگو کرنی ہے۔
والسّلام
یہ خط پڑھ کر آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے بیٹے سے فرمایا:'' جاؤ قلم دوات لے کر آؤ۔''پھر مجھے فرمایا کہ اس خط کے پیچھے یہ عبارت لکھو ۔
امّابعد!
(اے خلیفہ محمد بن سلمان!) اللہ عزوجل تیری صبح خیر سے کرے جس طرح اپنے فرمانبرداروں اور نیک بندو ں کی صبح کر تا ہے ۔ بے شک میں نے علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کی صحبت پائی ہے او ران کی یہ عا دت رہی ہے کہ وہ کسی دنیادار کے پاس مسئلہ بتانے کے لئے نہیں جاتے ۔لہٰذااگر تجھے کوئی مسئلہ درپیش ہے تو تُو میرے پاس آجا۔ پھر مجھ سے سوال کر مَیں تجھے جواب دو ں گا۔ جب تُومیرے پاس آئے تو اکیلے ہی آنا او رگھوڑے وغیرہ پر سوار ہو کر نہ آنا ،نہ ہی اپنے ساتھ سپاہی وغیرہ لانا۔ مَیں نہ تو تجھے نصیحت کرنے والا ہوں اور نہ ہی اپنے آپ کو۔ والسلام
خلیفہ وقت محمد بن سلمان کا قاصدخط لے کر وہاں سے چلا گیا۔ میں آپ کے پاس ہی بیٹھا رہا ۔ کچھ دیربعد پھر دروازے پرد ستک ہوئی۔ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' جاؤ دیکھو! دروازے پر کون ہے؟'' بچہ فوراً گیا او ر واپس آکر جواب دیا :"
" '' خلیفہ محمد بن سلمان آیا ہے۔'' آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' اس سے جا کر کہو کہ اکیلا اندر آجائے۔ ''
چنانچہ خلیفہ محمد بن سلمان اکیلا ہی اندر داخل ہوا اور آکر آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کو سلام کیا۔ پھر آپ کے سامنے دو زانو بیٹھ گیا اور کہنے لگا :''حضور! ایک بات بتائیں جیسے ہی میں نے آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کو دیکھا مجھ پر رعب ودبدبہ طاری ہوگیا اور میں خوف کی سی کیفیت محسوس کر رہا ہوں، اس میں کیا راز ہے ؟''
یہ سن کر حضرت سیدنا حماد بن سلمہ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:''میں نے حضرت سیدنا ثابت بنائی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کوسنا ہے ،وہ فرماتے ہیں، میں نے حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کویہ ارشاد فرماتے سناکہ رسول کریم رء ُوف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عظمت نشان ہے :'' بے شک جب عالم اپنے علم کے ذریعے اللہ عزوجل کی رضا چاہتا ہے تو ہر چیز اس سے ڈرتی ہے اور جو علم کے ذریعے دنیا کی دولت چاہتا ہے وہ (عالم)ہر چیز سے ڈرتا ہے ۔''"
(فردوس الأخبار للدیلمی، باب العین، فضل العالم، الحدیث۴۰۴۰،ج۲،ص۸۳تا۸۴)
پھر محمد بن سلمان عرض کرنے لگا:'' حضور! میں آپ (رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ) سے یہ مسئلہ دریافت کرنے آیا تھا کہ اگر کسی شخص کے دو بیٹے ہوں اور ایک اسے زیادہ محبوب ہو اور وہ ارادہ کر ے کہ اپنی زندگی میں ہی اپنے مال کا تیسرا حصہ اسے دے دے تو کیا اس کے لئے ایسا کرنا جائز ہے ؟ ''توحضرت سیدنا حماد بن سلمہ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا:'' ہر گز ایسا نہ کرنا۔''میں نے حضرت سیدنا ثابت بنائی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ سے یہ حدیثِ پاک سنی ہے، حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار نامدار، مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ ہدایت نشان ہے: ''اللہ عزوجل جب اپنے بندے کے ساتھ یہ ارادہ کرتا ہے کہ اس کے مال کی وجہ سے اسے عذاب نہ دے تو اس کی موت کے وقت اسے جائز وصیت کی تو فیق عطا فرمادیتا ہے ۔''
(کنز العمال، کتاب الوصیۃ/قسم الأفعال، محظورات الوصیۃ، الحدیث۴۶۱۲۳،ج۱۶،ص۲۶۶)
" حضرت سیدنا حماد بن سلمہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی زبانی یہ حدیث مبارکہ سننے کے بعد محمد بن سلمان کہنے لگا : ''حضور! اگر آپ (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) کی کوئی حاجت ہو تو ارشاد فرمائیں ؟''
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ''اگر تمہارے پاس کوئی ایسی چیز ہے جس میں دین کا کچھ نقصان نہیں تووہ لے آؤ ۔'' محمد بن سلمان نے کہا : ''حضور !میں آپ کی بارگاہ میں چالیس ہزار درہم پیش کرتا ہو ں، آپ (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) انہیں بطورِ نذرانہ قبول فرمالیں۔''تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' اس دولت کو ان مظلوموں کی طرف لوٹا دے جن سے یہ ظلماً وصول کی گئی ہے۔'' محمد بن سلمان نے کہا :'' اللہ عزوجل کی قسم! جو رقم میں آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں یہ مجھے ورثے میں ملی ہے، میں نے اسے ظلماًحاصل نہیں کیا۔''"
" آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ''مجھے اس دولت کی کوئی حاجت نہیں، اسے فوراًمجھ سے دور کر لے ،اللہ عزوجل بروزِ قیامت تجھ سے وزن کودور کرے۔'' محمد بن سلمان نے پھر کہا : ''حضور! اور کوئی حاجت ہو تو ارشاد فرمائیں ؟'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' اگر کوئی ایسی چیز ہے جس میں دین کا نقصان نہیں تووہ لے آ ۔'' محمد بن سلمان نے کہا:''اگرآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ یہ رقم اپنے پاس نہیں رکھنا چاہتے تو اپنے دستِ مبارک سے فقراء میں تقسیم کردیں۔'' حضرت سیدنا حماد بن سلمہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرمانے لگے: ''اگر مَیں یہ رقم لوگوں میں تقسیم کروں او رخوب عدل وانصاف سے کام لوں لیکن پھر بھی اگر کسی حق دار کو اس کاحق نہ ملا اور اس نے بد گمانی کرتے ہوئے یہ کہہ دیاکہ میں نے عدل وانصاف سے کام نہیں لیا تو ایسا شخص گناہ گار ہوگا ۔ لہٰذا بہتری اسی میں ہے کہ تویہ مال ودولت مجھ سے دور لے جا،اللہ عزوجل بر وزِ قیامت تیرے وزن کو ہلکا فرمائے۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدناشفیق بن ابراہیم بلخی علیہما رحمۃاللہ القوی فرماتے ہیں:''ایک مرتبہ میں حج کے اِرادے سے سفر پر روانہ ہوا۔ مقام قادسیہ میں ہمارا قافلہ ٹھہرا ۔وہاں او ربھی بہت سے عا زمِینِ حرمینِ شریفین موجود تھے،بہت سہانا منظر تھا ،بہت سے حجاج کرام وہاں ٹھہرے ہوئے تھے۔ میں انہیں دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہا تھا کہ یہ خوش قسمت لوگ سفر وہجرکی صعو بتیں بر داشت کر کے اپنے رب عزوجل کی رضاکی خاطر حج کرنے جارہے ہیں ۔میں نے اللہ عزوجل کی بار گا ہ میں عرض کی :'' اے میرے پروردگار عزوجل! یہ تیرے بندو ں کا لشکر ہے، انہیں ناکام نہ لوٹابلکہ حج قبول فرماتے ہوئے کامیابی کی دولت سے ہمکنار فرما۔''
دعا کے بعد میری نظر ایک نوجوان پر پڑی جس کے گندمی رنگ میں ایسی نورانیت تھی کہ نظریں اس کے چہرے سے ہٹتی ہی نہ تھیں۔اس نے اُون کا لباس زیبِ تن کیاہوا تھا اورسر پر عمامہ سجایا ہوا تھا۔ وہ لوگوں سے الگ تھلگ ایک جگہ بیٹھا ہوا تھا۔ میرے دل میں شیطانی وسوسہ آیا کہ یہ اپنے آپ کو صوفی ظاہر کرنا چاہتاہے تا کہ لوگ اس کی تعظیم کریں اوراسے اپنے قافلے کے ساتھ حج کے لئے لے جائیں۔ یہ خیال آتے ہی میں نے دل میں کہا : ''اللہ عزوجل کی قسم!میں ضرور اس کی نگرانی کرو ں گا اور اسے ملامت کروں گا کہ اس طر ح کا بناوٹی اندازدرست نہیں۔'' چنانچہ میں اس نوجوان کے قریب گیاجیسے ہی میں اس کے قریب پہنچا،"
اس نے میری طرف دیکھا اورمیرا نام لے کرکہا : ''اے شفیق (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)!اوریہ آیتِ مبارکہ تلاوت کرنے لگا:
اجْتَنِبُوۡا کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ ۫ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ
"ترجمہ کنز الایمان:بہت گمانوں سے بچو بےشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے۔(پ26،الحجرات: 12 )
اتنا کہنے کے بعد وہ پُر اسرار نوجوان مجھے وہیں چھوڑ کر رخصت ہوگیا ،میں نے اپنے دل میں کہا: ''یہ تو بہت حیران کن بات ہے کہ اس نوجوان نے میرے دل کی بات جان لی ا ور مجھے میرا نام لے کر پکارا حالانکہ میری کبھی بھی اس سے ملاقات نہیں ہوئی۔ یہ ضرور اللہ عزوجل کا مقبول بندہ ہے میں نے خواہ مخواہ اس کے بارے میں بدگمانی کی ،میں ضرور اس نوجوان سے ملاقات کروں گا اور معذرت کروں گا ۔'' چنانچہ میں اس نوجوان کے پیچھے ہولیا لیکن کافی تگ ودو کے بعد بھی میں اسے نہ ڈھونڈ سکا ۔
پھر ہمارے قافلے نے مقام '' واقصہ'' میں قیام کیاوہاں میں نے اس نوجوان کوحالتِ نماز میں پایا۔اس کا سارا وجود کانپ رہا تھا اور آنکھوں سے سیلِ اشک رواں تھے۔ میں نے اسے پہچا ن لیا اور اس کے قریب گیا تا کہ اس سے معذرت کروں، وہ نوجوان نماز میں مشغول تھا ۔میں اس کے قریب ہی بیٹھ گیا نماز سے فراغت کے بعد وہ میری جانب متوجہ ہوا او رکہنے لگا:'' اے شفیق! یہ آیت پڑھو:"
وَ اِنِّیۡ لَغَفَّارٌ لِّمَنۡ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اہۡتَدٰی ﴿82﴾
"ترجمہ کنزالایمان:اور بے شک میں بہت بخشنے والاہوں اسے جس نے توبہ کی اور ایمان لایااور اچھا کام کیا پھر ہدایت پر رہا۔ (پ16 ،طہ: 82)
اِتنا کہنے کے بعد وہ نوجوان پھر وہاں سے رخصت ہوگیا۔ میں نے کہا :'' یہ نوجوان ضرور اَبدالوں میں سے ہے۔'' دومرتبہ اس نے میرے دل کی باتوں کو جان لیا اور مجھے میرے نام کے ساتھ مخاطب کیا ۔میں اس نوجوان سے بہت زیادہ متاثر ہو چکا تھا۔
پھر جب ہمارے قافلے نے مقام ''ربال'' میں پڑاؤ کیا تووہی نوجوان مجھے ایک کنوئیں کے پاس نظر آیا۔ اس کے ہاتھ میں چمڑے کا ایک تھیلا تھا اور وہ کنوئیں سے پانی نکالنا چاہتا تھا۔اچانک اس کے ہاتھ سے وہ تھیلا چھوٹ کر کنوئیں میں گرگیا ، اس نوجوان نے آسمان کی جانب نظر اٹھائی اور عرض کی:'' اے میرے پروردگارعزوجل! ''جب مجھے پیاس ستا تی ہے تو تُو ہی میری پیاس بجھاتا ہے ، جب مجھے بھوک لگتی ہے تو تُو ہی مجھے کھانا عطا فرماتا ہے، میری اُمید گاہ بس تُو ہی تُو ہے، اے میرے پروردگار عزوجل ! میرے پاس اس تھیلے کے سوا اور کوئی شے نہیں ، مجھے میرا تھیلا واپس لوٹا دے ۔''
حضرت سیدنا شفیق بلخی علیہ رحمۃاللہ القوی فرماتے ہیں :'' اللہ عزوجل کی قسم! ابھی اس نوجوان کے یہ کلمات ختم ہی ہوئے تھے کہ کنوئیں کا پانی اُوپر آنا شرو ع ہوگیا۔ اس نوجوان نے اپنا ہاتھ بڑھایا ، آسانی سے تھیلا نکا لااوراسے پانی سے بھرلیا کنوئیں کا پانی واپس نیچے چلا گیا ۔نوجوان نے وضو کیا اور نماز پڑھنے لگا۔ نماز سے فراغت کے بعد وہ ایک ریت کے ٹیلے کی طر ف گیا۔ میں بھی"
"چپکے سے اس کے پیچھے ہولیا ۔ وہاں جاکر اس نے ریت اٹھائی اور اس تھیلے میں ڈالنے لگا پھر تھیلے کو ہلایا او راس میں موجود ریت ملے ہوئے پانی کو پینے لگا ۔ میں اس کے قریب گیا اورسلام عرض کیا ۔اس نے جواب دیا ۔
پھرمیں نے کہا :''اے نیک سیرت نوجوان ! جو رزق اللہ عزوجل نے تجھے عطا کیا ہے اس میں سے کچھ مجھے بھی عطا کر ۔'' یہ سن کر اس نوجوان نے کہا:''اللہ عزوجل اپنے بندو ں پر ہر وقت فضل وکر م فرماتا رہتا ہے، کوئی آن ایسی نہیں گزرتی جس میں وہ پاک پر وردگار عزوجل اپنے بندوں پر نعمتیں نازل نہ فرماتا ہو، اے شفیق !اپنے رب عزوجل سے ہمیشہ اچھا گمان رکھنا چاہے ۔'' اِتنا کہنے کے بعد اس نوجوان نے وہ چمڑے کا تھیلا میری طر ف بڑھایا جیسے ہی میں نے اس میں سے پیا تو وہ شکر اور خالص ستو ملا ہوا بہترین پانی تھا۔ ایسا خوش ذائقہ پانی میں نے آج تک نہ پیا تھا، میں نے خوب سیر ہو کر پانی پیا ۔
میں حیران تھا کہ ابھی میرے سامنے اس تھیلے میں ریت ڈالی گئی ہے لیکن اس نوجوان کی برکت سے وہ ریت ستو او رشکر میں بدل گئی ہے ،وہ پانی پینے کے بعد کئی دن تک مجھے پانی اور کھانے کی طلب نہ ہوئی۔
پھر ہمارا قافلہ مکہ مکرمہ پہنچا وہاں میں نے اسی نوجوان کو ایک کونے میں آدھی رات کو نماز کی حالت میں دیکھا ۔وہ بڑے خشو ع و خضوع سے نماز پڑھ رہا تھا، آنکھوں سے سیلِ اَشک رواں تھا۔ اس نے اسی طر ح نماز کی حالت میں ساری رات گزاردی پھر جب فجر کا وقت ہوا تو وہ اپنے مصلّے پر ہی بیٹھ گیا اور اللہ عزوجل کی حمد وثنا کرنے لگا ، فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد اس نے طواف کیااور ایک جانب چل دیا میں بھی اس کے پیچھے ہولیا ۔ اس مرتبہ میری نظروں کے سامنے ایک حیران کُن منظر تھا، اس نوجوان کے اِرد گر د کئی خُدام ہاتھ باندھے کھڑے تھے اور لوگ جوق در جوق اس کی دست بوسی اور سلام کے لئے حاضرہو رہے تھے ۔میں یہ حالت دیکھ کر حیران وپریشان کھڑا تھا۔
پھر میں نے ایک شخص سے پوچھا :'' یہ عظیم نوجوان کون ہے؟'' اس نے جواب دیا: ''یہ حضرت سیدنا موسیٰ بن جعفر بن محمد بن علی بن حسین بن علی رضوان اللہ تعالیٰ عنہم ہیں۔''میں نے کہا:'' اتنی کرامات کا ظاہر ہونا اس سید زادے کی شان کے لائق ہے ،یہی وہ ہستیاں ہیں جنہیں اللہ عزوجل اتنی کرامات سے نواز تا ہے ۔'' (اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي الله تعالي عليه وسلم)
؎ تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا تُو ہے عین نور تیرا سب گھرانہ نور کا"
" حضرت سیدنا ابو عبداللہ احمد بن عاصم انطا کی علیہ رحمۃ اللہ الکافی فرماتے ہیں، ایک شخص نے حضرت سیدناامام محمد بن سیرین علیہ رحمۃ اللہ المُبین کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض کی : ''میں نے لوگوں سے پوچھا کہ بصرہ میں سب سے زیادہ متقی و پرہیز گا ر شخص کون ہے؟تو انہوں نے آپ کی طرف میری رہنمائی کی کہ آپ پورے بصرہ میں سب سے زیادہ متقی وپرہیز گار ہیں۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' تم میرے ساتھ چلو میں تمہیں بصرہ کے سب سے بہتراور بڑے عبادت گزار سے ملواتا ہوں۔'' یہ کہہ کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے روٹی کا ایک ٹکڑا اپنی جیب میں ڈالااور اس شخص کو لے کر ایک جانب چل دیئے۔
پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بصرہ شہر کے ایک گاؤں میں گئے وہاں ایک شخص کے پاس پہنچے ،جس کے دو ننھے بچے تھے ،وہ بھوک کی وجہ سے رو رہے تھے اور اپنے والد سے کہہ رہے تھے کہ ہمیں کوئی چیز کھانے کو دو لیکن اس شخص کے پاس اس وقت کوئی بھی شے نہیں تھی۔
اس شخص نے بچو ں کو سمجھا تے ہوئے کہا:'' میرے بچو!میں تمہارا خالق نہیں ہوں، تمہارا خالق تو اللہ عزوجل ہے، اس نے ہی تمہیں پیدا کیا،تمہیں قوتِ گویائی اور قوتِ بصارت عطا فرمائی، وہی تمام جہانوں کو رزق دینے والاہے، جس کریم ذات نے تمہیں پیدا کیا ہے وہ تمہیں رزق بھی ضرور دے گا۔ اس کی ذات پر کامل یقین رکھو، وہ عنقریب تمہیں تمہارے حصہ کا رزق عطا فرمائے گا ۔''
علامہ ابن سیرین علیہ رحمۃ اللہ المُبین نے اپنے رفیق سے فرمایا:'' اس عظیم مرد کا تو کُّل دیکھو اور اس کی ایمان افر وز باتیں سنو، اس کو اپنے پر وردگار عزوجل پر کتنا یقین ہے۔'' پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے دوست کے ساتھ اس شخص کے پاس پہنچے اور فر مایا: ''ہم یہ روٹی لے کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس آئے ہیں ،آپ اسے قبول فرمالیں ۔'' یہ سن کر اس شخص نے کہا:'' آپ صحیح وقت پر پہنچے ہیں۔''
اسی دوران حضرت سیدنا مالک بن دینار علیہ رحمۃ اللہ الغفّا ر بھی تشریف لے آئے ،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے آتے ہی اس شخص سے فرمایا: '' میں یہ دو درہم آپ (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) کے پاس لے کر آیا ہوں، انہیں قبول فرمالیجئے ۔'' وہ شخص کہنے لگا: ''ان درہموں کی اب کوئی ضرورت نہیں، الحمد للہ عزوجل! ہمارے پاس آج کا رزق پہنچ چکا ہے ،وہ ہمیں آج کے لئے کافی ہے ۔'' حضرت سیدنا مالک بن دینار علیہ رحمۃ اللہ الغفار نے ارشاد فرمایا:'' آپ یہ دو درہم اپنے پاس رکھیں تا کہ کل آپ (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) ان سے کھانے کی کوئی چیزخرید سکیں ۔''"
" یہ سن کر وہ شخص کہنے لگا: ''کیا تم مجھے اس بات سے خوفزدہ کر رہے ہو کہ کل ہمیں رزق کہا ں سے ملے گا؟ حالانکہ تم دیکھ چکے ہو کہ اللہ عزوجل نے میرے آج کا رزق آج عطا فرمادیا ہے اور اسی طر ح وہ پاک پر وردگار عزوجل ہمیں روز انہ ہمارا رزق عطا فرماتا ہے، میرا اس کی ذات پر پختہ یقین ہے۔آپ (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) اپنے درہم واپس لے جائیں، کل ہمارا پر وردگار عزوجلہ میں ہمارے حصے کا رزق ضرور عطا فرمائے گا، وہ ہمارا خالق عزوجل ہے وہ ہمیں ہرگز بے یارو مدد گار نہ چھوڑے گا ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
"حضرت سیدنا یوسف بن حسین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے مروی ہے: ''ایک دفعہ حضرت سیدنا ذوالنون مصری علیہ رحمۃ اللہ القوی محفل میں جلوہ گر تھے۔ آس پاس معتقدین و محبّین کا ہجوم تھا۔ اس بابرکت محفل میں اولیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کا ذکرِ خیر ہو رہاتھا۔ حضرت سیدنا ذوالنون مصری علیہ رحمۃ اللہ القوی لوگو ں سے اولیا ء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کی کرامات سن رہے تھے ۔
حضرت ابراہیم بن ادہم علیہ رحمۃ اللہ ا لاعظم کا ذکر خیر ہونے لگا ۔لوگو ں نے کہا: آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو اللہ ربُّ العزَّت نے بہت سی خوبیوں سے نواز ا تھا،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے بہت سی کر امات کا صدور ہوا ۔ ایک مرتبہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ا پنے چند رفقاء کے ساتھ کسی پہاڑ پر بیٹھے تھے کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ایک رفیق نے کہا : ''فلاں بزرگ کی بڑی شان ہے، وہ اپنے چراغ میں تیل کی بجائے پانی ڈالتے ہیں اور ان کا چراغ پانی سے جلتا ہے اور ساری ساری رات جلتارہتا ہے ۔''
یہ سن کر حضرت سیدنا ابراہیم بن ادہم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم نے فرمایا :'' اگر اللہ عزوجل کا مخلص وصادق بندہ کسی پہاڑ کو حکم دے کہ وہ اپنی جگہ سے ہٹ جائے تو پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ دیتا ہے ۔''اِتنا کہنے کے بعدآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے پہاڑ کو ٹھوکر ماری تو یکایک پہاڑ حرکت میں آگیا، یہ دیکھ کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے رفقاء خوف زدہ ہوگئے۔
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے دوبارہ پہاڑ کو ٹھوکر ماری اور فرمایا:'' اے پہاڑ! ساکن ہوجا، میں نے تو اپنے ساتھیوں کو سمجھانے اور مثال بیان کرنے کے لئے تجھے ٹھوکر ماری تھی، اب ساکن ہو جا۔'' چنانچہ پہاڑ فورا ًساکن ہوگیا ۔
جب لوگوں نے حضرت سیدنا ذوالنون مصری علیہ رحمۃ اللہ القوی کی بارگاہ عالیہ میں حضرت سیدنا ابراہیم بن ادہم علیہ رحمۃ اللہ"
"الاعظم کی یہ کرامت بیان کی تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' اگر اللہ عزوجل کا بندہ یقینِ کا مل کے ساتھ دیوار سے کہے کہ ہمیں کھجوریں کھِلاتو اللہ عزوجل اس پر قادر ہے کہ وہ اپنے بندے کودیوار سے تازہ کجھوریں کھلادے۔'' یہ کہنے کے بعد آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے دیوار پر ا پنا دستِ کرامت مارا تو دیوار سے تازہ وعمدہ کجھوریں گرنا شر وع ہوگئیں ۔لوگو ں نے آج پہلی مرتبہ ایسی کھجوریں کھائیں جو درخت سے نہیں بلکہ ایک ولی اللہ کی کرامت سے دیوار سے حاصل ہوئیں۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت سیدنا ذوالنون مصری علیہ رحمۃ اللہ القوی مغموم ہوگئے ، او راللہ عزوجل کی بارگاہ میں عرض گزار ہوئے: '' اے میرے پاک پروردگار عزوجل !میں اس بات سے تیری پناہ چاہتاہوں کہ تُو مجھ پر ناراض ہو، مجھے اپنی ناراضگی سے ہمیشہ محفوظ رکھنا ،کبھی بھی مجھ سے ناراض نہ ہونا۔''
؎ عفو کر اور سدا کے لئے راضی ہوجا یہ کرم کر دے تو جنت میں رہوں گا یا رب عزوجل
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدنا محمد بن حسین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:''میں نے حضرت سیدنا ابو معاویہ اسود علیہ رحمۃاللہ الاحد کو مقام ''طرطوس''میں آدھی رات کے وقت دیکھا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ زار وقطار رو رہے تھے اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی زبان مبارک پر یہ نصیحت آموز کلمات جاری تھے:
خبردار! جس شخص نے دنیا ہی کو اپنا مقصد ِعظیم بنا لیا اور ہر وقت اسی کی تگ ودومیں لگا رہاتو کل بروزِ قیامت اسے بہت زیادہ غم وپر یشانی کاسامنا کرنا پڑے گا اور جو شخص آخرت میں پیش آنے والے معاملات کو یا د رکھتا ہے اوربروزِ قیامت پیش آنے والی سختیوں اور اورگھبراہٹو ں کو ہر دم پیشِ نظر رکھتا ہے تواس کا دل دنیا سے اُچاٹ ہوجاتا ہے اور جو شخص اللہ عزوجل کے عذاب کی وعیدوں سے ڈرتا ہے وہ بھی دنیا وی خواہشات کو چھوڑ دیتا ہے۔
اے مسکین! اگر تُو چاہتا ہے کہ تجھے راحت وسکون اور عظیم نعمتیں ملیں تو رات کو کم سویاکراور شب بیداری کو اپنا معمول بنا لے، جب تجھے کوئی نصیحت کرے ،نیکی کی دعوت دے اور برائی سے منع کرے تو اس کی دعوت قبول کر۔ تو اپنے پیچھے والوں کے رزق کی فکر میں غمگین نہ ہو کیونکہ تو ان کے رزق کامکلف نہیں بنایا گیا۔"
تو اپنے آپ کو اس عظیم دن کے لئے تیار رکھ جب تیرا سامنا خالق ِکائنات عزوجل سے ہوگاتو اس کی بارگاہ میں حاضر ہوگا پھر تجھ سے سوال وجواب ہوں گے۔ اس سخت دن کی تیاری میں ہر وقت مشغول رہ ، نیک اعمال کی کثرت کر اور اپنے آخرت کے خزانے کو اعمالِ صالحہ کی دولت سے جلد از جلد بھرنے کی کوشش کر، فضول مشاغل کو ترک کردے اور موت سے پہلے موت کی تیاری کرلے ورنہ بعد میں بہت پچھتا وا ہوگا ۔ جس وقت تیری روح نکل رہی ہوگی اور گلے تک پہنچ جائے گی تو تیری تمام محبوب اَشیاء جن کی تُو خواہش کیا کرتاتھا، سب کی سب دنیا ہی میں رہ جائیں گی اور ا س وقت تیری حسرت اِنتہا کو پہنچ چکی ہو گی لہٰذا اس وقت سے پہلے آخرت کی تیاری کرلے۔''
" (آخرت کی تیاری کابہترین طریقہ یہ ہے کہ ) تُوہر وقت یہ تصور رکھ کہ بس موت آپہنچی ہے ،رو ح میرے گلے میں اٹکی ہوئی ہے ،بس چندسانس باقی ہیں اور میں سکرات کے عالم میں غمگین و پریشان ہوں۔ میری تمام خواہشات ملیا میٹ ہوگئیں ، گھر والوں کے لئے جو تمنا ئیں تھیں وہ خاک میں مل گئیں۔ میرے اِرد گر د میرے اہل و عیال کھڑے ہیں اور میں انہیں بڑی حسرت سے دیکھ رہا ہوں ، ان میں سے کوئی بھی میرے ساتھ قبر میں جانے کو تیار نہیں۔ بس میرے اعمال میرے ساتھ ہوں گے ، اگر اعمال اچھے ہوئے تو آخرت میں آسانی ہوگی اوراگر (معاذ اللہ عزوجل ) اعمال برے ہوئے تو وہاں کی تکلیف بر داشت نہ ہو سکے گی ۔
؎ نہ بیلی ہو سکے بھائی نہ بیٹا باپ تے مائی تو کیوں پھرتا ہے سودائی عمل نے کام آنا ہے
پھر حضرت سیدنا ابو معاویہ اسود علیہ رحمۃاللہ الاحدنے فرمایا :''تمام اُمور میں سب سے زیادہ اَجر وثواب کا باعث صبر ہے، مصائب پر صبر کرنا بہت عظیم اَمر ہے ، لہٰذا صبر سے کام لے ۔ اپنی زبان کو ہر وقت اللہ عزوجل کے ذکر سے تر رکھ ۔کبھی بھی اس کے ذکر سے غافل نہ رہ ، ہرہر سانس پر اس کی پاکی بیان کر۔''
؎ غلام اک دم نہ کر غفلت حیاتی پر نہ غُرّہ خدا کی یاد کر ہر دم کہ جس نے کام آنا ہے
پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے دوبارہ رونا شرو ع کردیا ۔
پھر فرمانے لگے: ''ہائے افسوس! وہ دن کیسا خوفناک ہوگا جس دن میرا رنگ متغیر ہوجائے گا ، اس دن کا خوف مجھے کھائے جاتا ہے ،جب زبانیں خشک ہوجائیں گی، اگربروزِ قیامت میرا زادِ آخرت کم پڑگیا تو میرا کیا بنے گا، اس وقت میں کہاں جاؤں گا ؟کون میر ی مدد کریگا؟''اِتنا کہنے کے بعد پھر درد بھرے انداز میں رونے لگے۔
؎ دِلا غافل نہ ہو، یکدم یہ دنیا چھوڑ جانا ہے بغیچے چھوڑ کر خالی زمیں اندر سمانا ہے"
" جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے پوچھا گیا:'' حضور! یہ نصیحت آموز اور عظیم باتیں کس کے لئے ہیں اور آپ نے کہا ں سے سیکھی ہیں ؟ ''تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ''یہ ہر عقل مند کے لئے مفیدباتیں ہیں،جو بھی ان پر عمل کریگا فلاح وکامرانی سے مشرف ہوگا اور یہ تمام باتیں مَیں نے ایک بہت ہی دانا شخص حضرت سیدنا علی بن فضیل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے سیکھی ہیں۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدنا محمد بن داؤد علیہ رحمۃ اللہ الودود فرماتے ہیں، میں نے حضرت سیدنا ابو سلیمان مغربی علیہ رحمۃ اللہ القوی کو یہ فرماتے سنا: '' مَیں رزقِ حلال حاصل کرنے کے لئے پہاڑ سے لکڑیاں کاٹ کر لاتا اور انہیں بیچ کر اپنی ضرورت کی چیزیں خریدتا،اس طرح میراگزر بسر ہو تا تھا ۔ مَیں حد درجہ اِحتیاط کرتا کہ کہیں میرے رزقِ حلال میں شبہ والی یا ناجائز چیز شامل نہ ہوجائے۔الغر ض! میں خوب احتیاط سے کام لیتا اور شکوک وشبہات والی چیزوں کو ترک کردیتا ۔
ایک رات مجھے خواب میں بصرہ کے مشہور اولیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کی زیارت ہوئی ،ان میں حضرت سیدنا حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی ، حضرت سیدنا فر قد علیہ رحمۃ اللہ الاحد اور حضرت سیدنا مالک بن دینار علیہ رحمۃ اللہ الغفار بھی شامل تھے۔
مَیں نے انہیں اپنے حالات سے آگاہ کیااور عرض کی:'' آپ لوگ مسلمانوں کے امام و مقتدا ہیں، مجھے رزقِ حلال کے حصول کا کوئی ایسا طریقہ بتائیں کہ جس میں نہ خالق عزوجل کی نافرمانی ہو ،نہ مخلوق میں سے کسی کااِحسان ہو ۔'' میری یہ بات سن کر انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے مقام'' طر طوس ''سے دور ایک ایسی جگہ لے گئے جہاں حلال پر ندو ں کی کثرت تھی۔ ان بزرگو ں نے مجھے یہا ں چھوڑ دیا اور فرمایا:'' تم یہاں رہو اور اللہ عزوجل کی نعمتیں کھاؤ۔ یہی وہ طریقہ ہے جس میں نہ خالق عزوجل کی نافرمانی ہے ،نہ مخلوق میں سے کسی کا احسان۔''
حضرت سیدنا ابو سلیمان مغربی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:'' میں تقریباً چھ ماہ اس جگہ ٹھہرا رہا، وہاں سے حلال پرندے شکار کرتا، کبھی ان کو بھون کر اور کبھی کچا ہی کھالیتا اور پھر شام کو ایک مسافر خانہ میں جاکر قیام کرتا۔ میری اس حالت سے لوگ باخبر ہوگئے اورجب مَیں مشہور ہو گیا تو لوگ میری عزت کر نے لگے۔ مَیں نے اپنے دل میں سوچا کہ اب یہاں رہنا مناسب نہیں۔"
"اگرمزید یہاں رہا تو ریا کاری یا غرور و تکبرجیسے فتنوں میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے۔چنا نچہ میں نے اس مسافر خانہ میں جانا چھوڑ دیا اور تین ماہ کسی اور جگہ رہائش رکھی۔اب اللہ عزوجل کے فضل و کرم سے میں اپنے دل کو پاک وصاف اورمطمئن پاتااور میری حالت ایسی ہوچکی تھی کہ مجھے لوگوں کی باتوں سے بالکل اُنس بھی نہ رہا۔
ایک مرتبہ میں مقام'' مدیف '' کی طر ف گیا اور راستے میں بیٹھ گیا ۔ اچانک میری نظر ایک نوجوان پر پڑی جو'' لامیس ،، سے'' طر طوس ''کی جانب جارہا تھا ۔ میرے پاس کچھ رقم تھی جو میں نے اس وقت سے بچا کر رکھی تھی جب میں لکڑیاں بیچا کرتا تھا۔ میں نے سوچا، مَیں تو حلال پرندوں کا گو شت کھاکر گزارہ کر لیتا ہوں،کیا ہی اچھا ہوا گر میں یہ رقم اس مسافر کو دے دو ں تا کہ جب یہ طرطو س شہر میں داخل ہو تو وہاں سے کوئی چیز خرید کرکھالے۔ اس خیال کے آتے ہی میں اس نوجوان کی طرف بڑھا او ررقم کی تھیلی نکالنے کے لئے جیسے ہی میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو اس مسافرنوجوان کے ہونٹوں نے حرکت کی اور میرے آس پاس کی ساری زمین سونا بن گئی۔ قریب تھا کہ اس کی چمک سے میری آنکھوں کی رو شنی ضائع ہوجاتی، مجھ پر یکدم ایسی وحشت طاری ہوئی کہ میں آگے بڑھ کراسے سلام بھی نہ کر سکا اور وہ وہاں سے آگے گزر گیا ۔پھر کچھ عرصہ بعد اس عظیم نوجوان سے دوبارہ میری ملاقات ہوئی ،وہ طر طوس کے علاقے میں ایک بُر ج کے نیچے بیٹھا تھا او راس کے سامنے ایک برتن میں پانی رکھا ہوا تھا۔ میں اس کے پاس گیا، سلام کیا اوردرخواست کی:''حضور! مجھے کچھ نصیحت کیجئے۔'' میری اس بات پرنوجوان نے اپنا پاؤں پھیلا یا اوراس برتن کوالٹا دیا جس میں پانی تھا ،سارا پانی بہہ گیا اوراسے زمین نے فوراً جذب کرلیا ۔پھر اس نوجوان نے کہا: ''فضول گوئی نیکیوں کو اس طر ح چو س لیتی ہے جس طر ح خشک زمین پانی کو چُو س لیتی ہے ، پس اب تم جاؤ تمہارے لئے اتنی ہی نصیحت کافی ہے ۔ ''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)
؎ میں بے کار با تو ں سے بچ کر ہمیشہ کر وں تیری حمد وثناء یا الٰہی عزوجل !"
حضرت سیدناخلف بن تمیم علیہ رحمۃ اللہ العظیم فرماتے ہیں، مجھے حضرت سیدناابوالحصیب بشیر رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے بتایا کہ میں تجارت کیا کرتا تھا اور اللہ عزوجل کے فضل وکرم سے کافی مال دار تھا۔ مجھے ہر طر ح کی آسائشیں میسر تھیں اور میں اکثر ایران کے شہروں میں رہا کرتا تھا ۔
" ایک مرتبہ میرے ایک مزدور نے مجھے خبر دی کہ فلاں مسافر خانے میں ایک شخص مرگیا ہے، وہاں اس کا کوئی بھی وارث نہیں، اب اس کی لاش بے گور وکفن پڑی ہے۔'' جب میں نے یہ سنا تو میں مسافر خانے پہنچا، وہاں میں نے ایک شخص کو مردہ حالت میں پایا،اس کے پیٹ پر کچی اینٹیں رکھی ہوئی تھیں۔ میں نے ایک چادر اس پر ڈال دی، اس کے پاس اس کے کچھ ساتھی بھی تھے ۔ انہوں نے مجھے بتایا:'' یہ شخص بہت عبادت گزار اور نیک تھا لیکن آج اسے کفن بھی میسر نہیں اور ہمارے پاس اِتنی رقم بھی نہیں کہ اس کی تجہیز و تکفین کر سکیں ۔'' جب میں نے یہ سنا تواُجرت دے کر ایک شخص کو کفن لینے کے لئے اورایک کو قبر کھودنے کے لئے بھیجا اور ہم اس کے لئے کچی اِینٹیں تیار کرنے لگے پھر میں نے پانی گرم کیا تاکہ اسے غسل دیں۔ ابھی ہم لوگ انہیں کا موں میں مشغول تھے کہ یکایک وہ مردہ اُٹھ بیٹھا، اینٹیں اس کے پیٹ سے گر گئیں پھروہ بڑی بھیانک آواز میں چیخنے لگا:ہائے آگ، ہائے ہلاکت، ہائے بربادی! ہائے آگ، ہائے ہلاکت، ہائے بربادی! جب اس کے ساتھیوں نے یہ خوفناک منظر دیکھا تو وہ وہاں سے بھاگ گئے۔ میں اس کے قریب گیااور اس کا بازو پکڑ کر ہلایا۔ پھر اس سے پوچھا: ''تُو کون ہے اور تیرا کیا معاملہ ہے؟ ''
وہ کہنے لگا:'' میں کوفہ کارہائشی تھا اور بد قسمتی سے مجھے ایسے برے لوگوں کی صحبت ملی جو حضرات سیدنا صدیق اکبر و فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو گالیاں دیا کرتے تھے ۔ان کی صحبتِ بد کی وجہ سے میں بھی ان کے ساتھ مل کر شیخین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو گالیاں دیاکرتا او ران سے نفرت کرتا تھا ۔
سیدنا ابوالخصیب علیہ رحمۃ اللہ اللطیففرماتے ہیں، میں نے اس کی یہ بات سن کر اِستغفار پڑھا اور کہا:'' اے بد بخت !پھر تو تجھے سخت سزا ملنی چا ہے اور تُومرنے کے بعد زندہ کیسے ہوگیا ؟'' تو اُس نے جواب دیا: ''میرے نیک اعمال نے مجھے کوئی فائدہ نہ دیا۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان کی گستاخی کی وجہ سے مجھے مرنے کے بعد گھسیٹ کر جہنم کی طرف لے جایاگیا اور وہاں مجھے میرا ٹھکانا دکھایا گیا،وہاں کی آگ بہت بھڑک رہی تھی۔
پھر مجھ سے کہا گیا : ''عنقریب تجھے دو بارہ زندہ کیا جائے گا تا کہ تُو اپنے بد عقیدہ ساتھیوں کو اپنے درد ناک انجام کی خبر دے اور انہیں بتائے کہ جو کوئی اللہ عزوجل کے نیک بندوں سے دشمنی رکھتا ہے اس کا آخرت میں کیسا درد ناک انجام ہوتا ہے ، جب تُو ان کو اپنے بارے میں بتا دے گا توپھر دو بارہ تجھے تیرے اصلی ٹھکا نے (یعنی جہنم ) میں ڈال دیا جائے گا۔''
یہ خبر دینے کے لئے مجھے دوبارہ زندہ کیا گیا ہے تا کہ میری اس حالت سے گستاخانِ صحابہ کرام علیہم الرضوان عبرت حاصل کریں اور اپنی گستا خیوں سے باز آجائیں ورنہ جو کوئی ان حضرات کی شان میں گستاخی کریگا اس کا انجام بھی میری طر ح ہوگا۔''
اِتناکہنے کے بعد وہ شخص دوبارہ مردہ حالت میں ہوگیا ۔میں نے بھی اوردیگر لوگو ں نے بھی اس کی یہ عبرتناک باتیں"
"سنیں، اتنی ہی دیر میں مزدور کفن خرید لایا، میں نے وہ کفن لیا اور کہا:'' میں ایسے بدنصیب شخص کی ہر گز تجہیز وتکفین نہیں کرو ں گا جو شیخین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کاگستا خ ہو، تم اپنے ساتھی کو سنبھالو میں اس کے پاس ٹھہرنا بھی گوارا نہیں کرتا ۔''
اِس کے بعد میں وہاں سے واپس چلا آیا پھر مجھے بتا یا گیا کہ اس کے بدعقیدہ ساتھیوں نے ہی اسے غسل و کفن دیا اور ان چند بندوں ہی نے اس کی نماز جنازہ پڑھی،ان کے علاوہ کسی نے بھی نماز جنازہ میں شرکت نہ کی، اس کے بدعقیدہ ساتھیوں کی بدبختی دیکھو کہ وہ پھر بھی لوگوں سے پوچھ رہے تھے کہ تم نے ہمارے ساتھی کی نماز جنازہ میں شرکت کیوں نہیں کی؟
حضرت سیدنا خلف بن تمیم علیہ رحمۃ اللہ العظیم فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیدناابوالحصیب علیہ رحمۃ اللہ اللطیف سے پوچھا: ''کیا تم اس واقعے کے وقت وہاں موجود تھے ؟ ''انہوں نے جواب دیا :'' جی ہاں! میں نے اپنی آنکھوں سے اس بدبخت کو دوبارہ زندہ ہوتے دیکھا اور اپنے کانوں سے اس کی باتیں سنیں۔''
یہ سن کرحضرت سیدنا خلف بن تمیم علیہ رحمۃ اللہ العظیم نے فرمایا: ''اب میں بھی اس بے ادب وگستاخ شخص کی اس بد ترین حالت کی خبر لوگو ں کو ضرور دو ں گا۔
( اللہ عزوجل ہمیں صحابہ کرام علیہم الرضوان کی شان میں گستاخی اور بے ادبی سے محفو ظ رکھے اور تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان کی سچی محبت عطا فرمائے،ان کی خوب خوب تعظیم کرنے کی تو فیق عطافرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم )
؎؎ محفو ظ سدا رکھنا شہا بے ادبو ں سے اور مجھ سے بھی سرزد نہ کبھی بے ادبی ہو
صحابہ کا گدا ہوں اور اہل بیت کا خادم یہ سب ہے آپ ہی کی تو عنایت یا رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم!"
" حضرت سیدنا حسن بصری علیہ رحمۃاللہ القوی فرماتے ہیں:'' ایک فاحشہ عورت کے بارے میں مشہور تھاکہ اسے دنیا کا تہائی حُسن دیا گیاہے۔اس کی بدکاری بھی اِنتہاء کو پہنچ چکی تھی، جب تک وہ سو دینار نہ لے لیتی اپنے قریب کسی کو نہ آنے دیتی ۔لوگ اس کے حُسن کی وجہ سے اِتنی بھاری رقم ادا کرکے بھی اس سے بد کاری کرتے ۔
ایک مرتبہ ایک عا بد کی اس عورت پر اچانک نظر پڑگئی ،اِتنی حسین وجمیل عورت کو دیکھ کر وہ عابداس کے عشق میں مبتلا ہوگیااور اس نے اِرادہ کیا کہ مَیں اس حسین وجمیل عورت کا قُرب ضرور حاصل کروں گا،جب اسے معلوم ہو اکہ 100 دینار"
"دیئے بغیرمیری یہ حسرت پوری نہیں ہو سکتی تو اس نے مطلوبہ رقم حاصل کرنے کے لئے دن رات مزدوری کی۔ کافی تگ ودو کے بعد جب 100دینار جمع ہو گئے تو وہ اس بد کار عورت کے پاس پہنچا اور کہا: ''اے حسن وجمال کی پیکر!مَیں پہلی ہی نظر میں تیرا دیوانہ ہوگیا تھا، تیرا قُرب حاصل کرنے کے لئے میں نے مزدو ری کی اور اب سودینار لے کر تیرے پاس آیا ہوں۔''
یہ سن کر اس فاحشہ عورت نے کہا: ''اندر آجاؤ۔'' جب وہ عا بد کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ وہ حسین وجمیل عورت سونے کے تخت پر بیٹھی ہے۔اس نے عا بد سے کہا:''میرے قریب آؤ اور اپنی دیرینہ خواہش پوری کر لو ،مَیں حاضر ہو ں،آؤ! میرے قریب آؤ۔''وہ عا بد بے تا ب ہو کر اس کی طر ف بڑھا اور اس کے قریب تخت پر جا بیٹھا۔ جب وہ دونوں بد کاری کے لئے بالکل تیار ہوگئے تو اس عابد کی سابقہ عبادت اس کے کام آگئی اور اسے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں حاضری کا دن یاد آگیا۔ بس یہ خیال آنا تھا کہ اس کے جسم پر کپکپی طاری ہوگئی ، اس کی شہوت ختم ہوگئی اور اسے اپنے اس فعلِ بد کے ارادے پر بڑی شرمندگی ہوئی۔ اس نے عورت سے کہا: ''مجھے جانے دو اور یہ سو دینار بھی تم اپنے پاس رکھو، مَیں اس گناہ سے با ز آیا۔''اس عورت نے حیران ہوکر پوچھا: '' آخر تمہیں کیا ہوا؟ تم تو کہہ رہے تھے کہ تمہارا حسن وجمال دیکھ کر میں دیوانہ ہوگیاہوں اور میرا قُرب حاصل کرنے کے لئے تم نے بہت جتن کئے، اب جبکہ تم میرے قُرب میں ہو او رمیں نے اپنے آپ کو تمہارے حوالے کردیا ہے تواب تم مجھ سے دو ر بھاگ رہے ہو، آخر کیا چیزتمہیں میرے قُرب سے مانع ہے ؟ ''
یہ سن کر اس عابد نے کہا:'' مجھے اپنے رب عزوجل سے ڈر لگ رہا ہے اور اس کا خوف تیری طر ف مائل نہیں ہونے دے رہا، مجھے اس دن کا خوف دامن گیر ہے جب میں اپنے پر وردگار عزوجل کی بارگاہ میں حاضر ہو ں گا، اگر مَیں نے یہ گناہ کرلیا تو کل بروزِ قیامت اللہ عزوجل کی ناراضگی کا سامنا کس طر ح کرسکوں گا، لہٰذا اب میرا دل تجھ سے اُچاٹ ہو چکا ہے، مجھے یہاں سے جانے دو ۔''
عا بد کی یہ باتیں سن کر فاحشہ عورت بہت حیران ہوئی اور کہنے لگی: ''اگر تم اپنی اس گفتگو میں سچے ہو تو مَیں بھی پختہ ارادہ کر تی ہو ں کہ تمہارے علاوہ کوئی اور میرا شوہر ہر گز نہیں بن سکتا، مَیں تم ہی سے شادی کروں گی۔'' عابد کہنے لگا :'' تم مجھے چھوڑ دو مجھے بہت گھبراہٹ ہورہی ہے ۔'' عورت نے کہا: ''اگر تم مجھ سے شادی کرلو تو مَیں تمہیں چھوڑ دیتی ہوں۔''عا بد نے کہا :'' جب تک میں یہاں سے چلا نہ جاؤں اس وقت تک میں شادی کے لئے تیار نہیں۔'' عورت نے کہا: ''اچھا! ابھی تم چلے جاؤ لیکن میں تمہارے پاس آؤں گی اور تم ہی سے شادی کرو ں گی ۔'' پھر وہ عابد سر پر کپڑا ڈالے منہ چھپائے شرمندہ شرمندہ وہاں سے نکلا اور اپنے شہر کی طرف روانہ ہوگیا۔"
" فاحشہ عورت کے دل میں اس عابد کی باتیں اَثر کر چکی تھیں۔ چنانچہ اس نے اپنے تمام سابقہ گناہوں سے توبہ کر لی پھر اس نے اپنے شہر کو خیرباد کہا اور اس عابد کے بارے میں پوچھتی پوچھتی بالآخر اس کے گھر پہنچ گئی۔''لوگوں نے عابد کو بتایا کہ فلاں عورت تم سے ملاقات کرنا چاہتی ہے۔''عابد باہر آیا جیسے ہی اس کی نظر عورت پر پڑی تو ایک زور دار چیخ ماری اور اس کی روح عالمِ بالا کی طرف پرواز کر گئی۔ عورت اس کی طرف بڑھی تو دیکھا کہ اس کا جسم ساکت ہو چکا تھا۔ وہ بہت زیادہ غمزدہ ہوئی اور اس نے لوگوں سے پوچھا: ''کیا اس کا کوئی قریبی رشتہ دار ہے؟'' لوگوں نے کہا: ''ہاں، اس کا ایک بھائی ہے لیکن وہ بہت غریب ہے۔ '' یہ سن کر ا س عورت نے کہا: ''مَیں تواس نیک عابد سے شادی کرنا چاہتی تھی لیکن یہ تو دنیا سے رخصت ہو گیا،اب میں اس کی محبت میں اس کے بھائی سے شادی کروں گی۔''
چنانچہ اس عورت اور عا بدکے بھائی کی شادی ہوگئی، اللہ ربُّ العزَّت نے انہیں نیک وصالح اولاد عطا فرمائی اور ان کے ہاں سات بیٹے ہوئے جو سب کے سب اپنے زمانے کے مشہور ولی بنے ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)
(اے ہمارے پیارے اللہ عزوجل !''ہمیں بھی اپنا ایسا خوف عطا فرما کہ ہم ہر قسم کے گناہوں سے محفو ظ رہیں، ہمارا کوئی عضوکبھی بھی تیری نافرمانی والے کاموں کی طرف سبقت نہ کرے۔اے اللہ عزوجل !ہمیں عبادت کی لذت وچاشنی عطا فرما ، اگر بتقاضائے بشریت ہم سے گناہ سر زد ہو جائے تو اپنے فضل وکر م سے فوراً توبہ کی تو فیق عطا فرما، اپنی ناراضگی سے ہماری حفاظت فرما، ہمیں گناہوں پر شرمندگی عطا فرما۔ اے اللہ عزوجل !تُو ہی گناہ گارو ں کے گناہوں کو معاف فرمانے والا ہے، اپنے محبوبوں کے صدقے ہماری تمام خطائیں معا ف فرمادے اور اپنی دائمی رضا کی دولت سے ہماری جھولیاں بھر دے ۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم )
؎ بخش ہماری ساری خطائیں کھول دے ہم پر اپنی عطائیں
برسا دے رحمت کی برکھا، یا اللہ(عزوجل)! میری جھولی بھردے"
حضرت سیدنا عثمان رجائی علیہ رحمۃ اللہ الھادی فرماتے ہیں :'' ایک مرتبہ میں کسی ضروری کام کے سلسلے میں بیت المقدس سے ایک گاؤں کی طر ف روانہ ہوا۔ راستے میں ایک بوڑھی عورت ملی جس نے اُون کا جبہ پہنا ہوا تھا اور اُون ہی کی چادر اُوڑھی ہوئی
"تھی۔میں نے اسے سلام کیا اس نے جواب دیا اور پوچھا :'' بیٹا! تم کہاں سے آرہے ہو اور کہاں کا اِرادہ ہے؟ ''میں نے بتایا: ''میں بیت المقدس سے آرہا ہوں اور فلاں گاؤں کسی کام کے سلسلے میں جا رہا ہوں ۔'' اس بوڑھی عورت نے پھر پوچھا: ''جہاں سے تم آئے ہو اور جہاں جانے کا تمہارا ارادہ ہے ان دونوں علاقوں کے درمیان کتنا فاصلہ ہے ؟'' میں نے کہا: ''تقریباً! 18 میل کا فاصلہ ہوگا ۔'' وہ کہنے لگی : ''بیٹے!پھر تو تمہارا کام بہت ضروری ہوگا جس کے لئے تم نے اتنی مشقت برداشت کی ہے؟'' میں نے کہا :''جی ہاں !مجھے واقعی بہت ضروری کام ہے۔'' اس نے پوچھا :''تمہارا نام کیا ہے ؟'' میں نے کہا :''عثمان۔ ''وہ کہنے لگی: ''اے عثمان ! تم جس گاؤں میں اپنے کام سے جا رہے ہو اس کے مالک سے عرض کیوں نہیں کرتے کہ وہ تمہیں تھکا ئے بغیرتمہاری حاجت پوری کردے اور تمہیں سفر کی صعوبتیں برداشت نہ کرنی پڑیں۔''
مَیں اس کلام سے اس ضعیف عورت کی مُراد نہ سمجھ سکا اور کہا:'' میرے اور اس بستی کے مالک کے درمیان کوئی خاص تعلق نہیں کہ وہ میری حاجت کو اس طر ح پورا کردے ۔'' اس عورت نے پھر پوچھا:'' اے عثمان !وہ کون سی شے ہے جس نے تجھے اس گاؤں کے مالکِ حقیقی کی معرفت سے نابلد رکھا ہے اور تمہارا اس مالک سے تعلق منقطع ہوگیا ہے ۔''
اب مَیں اس بوڑھی عورت کی مراد سمجھ گیاکہ یہ مجھے کیا سمجھا نا چاہتی ہے یعنی یہ میری توجہ اس بات کی طرف دلا رہی ہے کہ خالق حقیقی عزوجل سے اپنا تعلق مضبوط کیوں نہیں رکھا اورتُو اس کی معرفت میں ابھی تک کامل کیوں نہیں ہوا؟جب مجھے اس کی بات سمجھ آئی تو میں رونے لگا ۔اس بڑھیا نے پوچھا :''اے عثمان! تجھے کس چیز نے رُلایا؟کیا کوئی ایسا کام ہے کہ تُونے و ہ سرانجام دیا اور اب تُو اسے بھول گیا یا پھر کوئی ایسی بات ہے کہ پہلے تو اسے بھولا ہوا تھا اب وہ تجھے یاد آگئی ہے؟'' میں نے کہا:''واقعی اب تک میں غفلت میں تھااور اب خوابِ غفلت سے بیدار ہوچکاہوں۔'' یہ سن کر اس عورت نے کہا:'' شکر ہے اس پاک پروردگار عزوجل کا جس نے تجھے غفلت سے بیدار کیاا وراپنی طرف راہ دی ۔''
اے عثمان!''کیا تم اللہ عزوجل سے محبت کرتے ہو ؟ ''میں نے کہا:''جی ہاں! میں اس پاک پروردگار عزوجل سے محبت کرتا ہوں ۔'' اس نے پھر پوچھا: ''کیا تم اپنے اس دعوے میں سچے ہو؟''میں نے کہا:'' اللہ عزوجل کی قسم! میں اس سے بہت محبت کرتا ہوں۔''
بڑھیا نے کہا :'' اے عثمان! جس پاک ذات سے تم نے محبت کی ہے کیا تم جانتے ہو کہ اس نے تمہیں کس کس حکمت سے نواز ا او رکونسی کونسی بھلائیاں عطا فرمائیں؟'' میں اس بات کا جواب نہ دے سکااور خاموش رہا۔اس نے کہا: ''اے عثمان!شاید تُوان لوگو ں میں سے ہے جو اپنی محبت کو پوشیدہ رکھنا چاہتے ہیں اور لوگوں پر ظاہر نہیں ہونے دیتے ۔''اس پر بھی میں اسے کوئی جواب نہ دے سکا اور میں نے رو نا شروع کردیا مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میں کیا جواب دو ں ۔"
" میری اس حالت کو دیکھ کر اس عظیم بوڑھی عورت نے کہا :''اے عثمان!اللہ ربُّ العزَّت اپنی حکمت کے چشمے ،اپنی معرفت کی دولت اور اپنی پوشیدہ محبت نالائقوں کو عطا نہیں فرماتا ، وہ نالائقوں اور نا اہلوں سے یہ تمام نعمتیں دور رکھتا ہے ۔''
میں نے اس عظیم عورت سے عرض کی :'' آپ میرے لئے دعا فرمائیں کہ اللہ عزوجل مجھے اپنی سچی محبت عطا فرمائے۔'' کچھ دیرکے بعد میں نے پھر اس عورت سے دعا کے لئے عرض کی تو اس نے کہا:'' اے عثمان!وہ پاک پر وردگار عزوجل تو دلوں کے بھیدوں کو بھی جانتا ہے، وہ اپنے چاہنے والوں کے دلو ں سے باخبر ہے کہ کون اس سے کتنی محبت کرتا ہے اور کون اس کی محبت کا طالب ہے؟اے عثمان!تم اپنے مطلوبہ کام کے لئے جاؤ ، خدا عزوجل کی قسم! اگر مجھے اپنی معرفت کے سَلب ہوجانے کا خوف نہ ہوتا تو ایسے ایسے عجائبات ظاہر کرتی کہ تُو حیران رہ جاتا۔''پھر اس نے ایک آہِ سرد دلِ پر درد سے کھینچی اور کہنے لگی:''اے عثمان ! جب تک تم خود اللہ عزوجل کی محبت کے لئے نہیں تڑپو گے اس وقت تک تمہیں کوئی فائدہ حاصل نہ ہوگا اور تمہیں غم سے اس وقت تک تسکین حاصل نہیں ہوگی جب تک تم خود نہیں چاہو گے۔ بندہ ہمیشہ اپنی سچی طلب اور شوقِ کا مل سے اپنی منزل کو پاتا ہے ۔''
اِتنا کہنے کے بعد وہ عظیم عورت وہا ں سے رخصت ہوگئی ۔ حضرت سیدنا عثمان علیہ رحمۃ اللہ المنان فرماتے ہیں: ''جب بھی مجھے اس بوڑھی عورت کی وہ باتیں اور ملاقات یا د آتی ہے تو مَیں بے اختیاررونے لگتا ہوں اور مجھ پر غشی طاری ہوجاتی ہے ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي الله تعالي عليه وسلم)
(اے اللہ عزوجل! ہمیں اپنی دائمی محبت عطا فرما اور اپنے محبوب بندوں میں شامل فرمالے۔اے اللہ عزوجل !تجھے تیرے ان اولیاء کرام رحمۃاللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا واسطہ جن کے دلوں میں تیری محبت کی شمعیں روشن ہيں اور وہ ہر وقت تیری محبت میں گم رہتے ہیں تُوہمیں اپنی محبت وولایت کی خیر ات سے مالا مال کردے۔آمین بجاہ النبی الامین صلي الله تعالي عليه وسلم)
؎ محبت میں اپنی گُما یا الٰہی عزوجل ! نہ پاؤں میں اپنا پتا یا الٰہی عزوجل !
تُو اپنی ولایت کی خیرات دے دے میرے غوث کا واسطہ یا الٰہی عزوجل!"
حضرت سیدناسالم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:'' ایک مرتبہ میں حضرت سیدنا ذوالنون مصری علیہ رحمۃ اللہ القوی کے ساتھ ''لبنان'' کے پہاڑو ں میں سفر پر تھا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک مقام پر پہنچ کر مجھ سے فرمایا:'' اے سالم !جب تک میں واپس
"نہ آجاؤں تم اسی جگہ ٹھہرنا ۔'' اتنا کہنے کے بعد آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ایک پہاڑ کی سمت گئے اور میری نظر وں سے اوجھل ہوگئے ۔ دو دن گزر گئے لیکن آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ واپس تشریف نہ لائے۔ مَیں اکیلا اس ویران جگہ پر یشان تھا، جب مجھے بھوک لگتی تو پتے اور سبزی کھالیتا،جب پیا س کی شدت ہوتی تو قریبی تا لاب سے پانی پی لیتا۔ بالآخر تین دن بعد حضرت سیدنا ذوالنون مصری علیہ رحمۃ اللہ القوی تشریف لائے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے چہرے کا رنگ متغیر تھا اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بہت زیادہ پریشانی کے عالم میں تھے ۔ جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی حالت کچھ سنبھلی تو میں نے عرض کی: ''حضور !کیاکسی درندے کی وجہ سے آپ پر خوف طاری ہے؟'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جواباًفرمایا:'' نہیں۔'' میں نے عرض کی:'' پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اتنے خوفزدہ اور پریشان کیوں ہیں؟'' فرمانے لگے: ''یہاں سے جانے کے بعد میں ایک غارکی طرف نکل گیا۔ جب میں اس میں داخل ہو ا تو ایک ایسے بزرگ کو دیکھا جن کی داڑھی اور سر کے بال بالکل سفید ہوچکے تھے ، جسم بہت کمزور ولاغر تھا ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے یہ بزرگ ابھی قبر سے نکل کر آرہے ہیں، وہ نہایت غمگین حالت میں اپنے پاک پروردگار عزوجل کی عبادت میں مشغول تھے اور نہایت خشوع وخضوع سے نماز پڑھ رہے تھے ۔جب انہوں نے سلام پھیرا تو میں نے آگے بڑھ کر انہیں سلام کیا ۔''انہوں نے جواب دیا او ردوبارہ نماز میں مشغول ہوگئے ،عصر تک نماز میں مشغول رہے پھر ایک پتھر سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے اور سبحان اللہ سبحان اللہ کی صدائیں بلند کرنے لگے۔ انہوں نے مجھ سے کوئی بات نہ کی بالآخر میں نے ہی ان سے عرض کی :''اللہ عزوجل آپ پر رحم فرمائے، مجھے کچھ نصیحت فرمائیے او رمیرے لئے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں دعا کیجئے ۔''
اس بزرگ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' اے بیٹا! میں دعا کر تا ہوں کہ اللہ عزوجل تجھے اپنی سچی محبت اور اپنے قُرب ِخاص کی دولت سے مالا مال فرمائے۔ اِتناکہنے کے بعد وہ بزرگ چپ ہوگئے۔'' میں نے عرض کی :''حضور!کچھ اور نصیحت فرمائیے۔'' فرمایا : ''جس شخص کو اللہ عزوجل اپنے قُرب کی دولت سے نواز تا ہے اسے چار عظیم نعمتیں عطا فرماتا ہے :
(۱)۔۔۔۔۔۔ بغیرخاندانی شان وشوکت کے عزت ۔
(۲)۔۔۔۔۔۔بغیر طلب کے علم۔
(۳)۔۔۔۔۔۔ بغیر مال کے غِناء۔
(۴)۔۔۔۔۔۔ بغیر جماعت کے اُنس والفت۔
اِتنا کہنے کے بعد اس بزرگ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک درد ناک چیخ ماری اور بے ہوش ہوگئے۔ میں نے گمان کیا کہ شاید یہ بزرگ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اِنتقال فرماچکے ہیں لیکن تین دن کے بعد انہیں افاقہ ہوا فوراً قریبی چشمے پر گئے۔ وضوکیا اور مجھ سے پوچھا:"
"''اے بیٹا! اس حالت میں میری کتنی نمازیں فوت ہوگئیں دویا تین نماز یں۔'' میں نے عرض کی :''حضور! آپ کی تین دن اور تین راتوں کی نمازیں فوت ہو چکی ہيں، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تین دن تک بے ہوشی کی حالت میں رہے ہیں ۔'' پس انہوں نے اپنی نمازیں مکمل کیں۔
پھر مجھ سے فرمایا:''جب میں اپنے پاک پروردگار عزوجل کا ذکر کرتا ہوں تو میرا شوقِ ملاقات بڑھ جاتا ہے، مجھ پر وجدانی کیفیت طاری ہوجاتی ہے ، میں مخلوق سے ملاقات کو پسند نہیں کرتا کیونکہ لوگو ں کی ملاقات مجھے میرے رب عزوجل کے ذکر سے غافل کر دیتی ہے۔بیٹا! اب تم یہاں سے چلے جاؤ تا کہ میں اپنے رب عزوجل کی عبادت کر سکوں، اللہ عزوجل تمہیں اپنی حفظ وامان میں رکھے ۔''
جب میں نے یہ سنا تومجھے رونا آگیااورمیں نے عرض کی: ''حضور! میں مسلسل تین دن آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بارگاہ میں حاضر رہا ہوں، مجھے مزید کچھ نصیحت فرما یئے۔''
تو وہ بزرگ فرمانے لگے:'' اے میرے بیٹے! اپنے رب عزوجل سے سچی محبت کر ، اس کی محبت کے عوض کوئی چیز طلب نہ کر، اس سے بے غر ض محبت کر۔بے شک جو لوگ اللہ عزوجل سے محبت کرتے ہیں وہ لوگو ں کے سردار ہیں ، زاہدوں کی نشانیاں ہیں۔ ایسے لوگ اللہ عزوجل کے منتخب شدہ بندے ہیں، اللہ عزوجل نے انہیں اپنی محبت کے لئے منتخب فرمالیاہے ،یہ لوگ اللہ عزوجل کے پسندیدہ بندے ہیں۔ اتنا کہنے کے بعد اس نیک بزرگ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک چیخ ماری او راس کی رُو ح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی ۔''
کچھ ہی دیر بعد میں نے دیکھا کہ مختلف سمتو ں سے بہت سے اولیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ پہاڑو ں سے اُتر کر آرہے ہیں۔ انہوں نے اس بزرگ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی تکفین کی، نماز جنازہ ادا کی اور اسے دفن کر دیا ۔
جب وہ جانے لگے تو میں نے ان سے پوچھا: ''یہ بزرگ کون تھے اوران کا نام کیا تھا؟'' انہوں نے بتایا :'' ان کانام شیبان المُصاب علیہ رحمۃ اللہ الوھاب ہے۔''اِتنا کہنے کے بعد وہ تمام صالحین وہاں سے چلے گئے ۔
حضرت سیدناسالم علیہ رحمۃ اللہ الدائم فرماتے ہیں کہ میں نے اہلِ شام سے حضرت سیدناشیبان المصاب علیہ رحمۃ اللہ الوہاب کے متعلق پوچھا: ''انہوں نے بتا یا کہ لوگ انہیں دیوانہ سمجھتے تھے اور بچے انہیں پاگل سمجھ کر تنگ کرتے اور پتھر مارتے اسی لئے وہ یہاں سے چلے گئے اور پہاڑوں میں مشغولِ عبادت ہو گئے۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي الله تعالي عليه وسلم)
(اے ہمارے پیارے اللہ عزوجل !ہمیں بھی اپنا قرب ِخاص عطا فرما ، دنیا کی محبت سے بچا کر اپنی محبت کی لازوال"
دولت سے سرفراز فرما، بزرگانِ دین رحمہم اللہ تعالیٰ کی طر ح خوب عبادت وریا ضت کا ذوق وشوق عطافرما، ہر وقت اپنے اور اپنے مدنی حبیب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے جلوؤں میں گم رہنے کی سعادت عطا فرما ۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)
" حضرت سیدنا علی بن الحسن رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہما فرماتے ہیں :'' عبدالملک بن مروان نے ایک شخص کو حاکم بنا کر مدینہ منورہ زَادَھَا اللہُ شَرْفاً وَّتَعْظِیْمًابھیجاتا کہ وہ بیعت وغیرہ کا سلسلہ کر ے اورانتظامات سنبھالے ۔'' چنانچہ میں حضرت سیدنا سالم بن عبداللہ، حضرت سیدنا قاسم بن محمد اور حضرت سیدنا ابوسلمہ بن عبدالرحمن رحمۃاللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے پا س گیا او ران سے کہا :''آؤ ہم سب اپنے شہر کے نئے حاکم کے پاس چلتے ہیں تا کہ اس سے ملاقات کریں اور اسے اِعتماد میں لیں۔''
چنانچہ ہم اس حاکم کے پاس گئے او راسے سلام کیا ، اس نے ہمیں اپنے پاس بلایا اور کہا:'' تم میں(حضرت سیدنا) سعید بن مسیّب (رضی اللہ تعالیٰ عنہ )کون ہے ؟'' حضرت سیدنا قاسم بن محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جواب دیا:'' حضرت سیدنا سعید بن مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُمراء سے تعلق نہیں رکھتے انہوں نے مسجد میں رہنے کو لازم کر لیا ہے ، وہ ہر وقت دربار الٰہی عزوجل میں مشغولِ عبادت رہتے ہیں ،دنیا دارو ں سے انہیں کوئی غرض نہیں ، وہ اُمراء کے درباروں میں جانا پسندنہیں فرماتے۔''
اس حاکم نے کہا :''تم لوگ اسے میرے پاس آنے کی ترغیب دلاؤ اور اسے میرے پاس ضرور لے کر آنا، اللہ عزوجل کی قسم !اگر وہ نہ آیا تو مَیں اسے ضرور قتل کردوں گا ۔'' اس حاکم نے تین مرتبہ قسم کھا کران الفاظ کے ساتھ قتل کی دھمکی دی ۔ حضرت سیدنا قاسم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اس ظالم حکمران کی یہ دھمکی سن کر ہم بہت پر یشان ہوئے اور واپس چلے آئے۔ مَیں سیدھا مسجد میں گیا اور حضرت سیدنا سعید بن مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچا،آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک ستون سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے ۔میں نے انہیں ساری صورتحال سے آگا ہ کیااور عرض کی : ''حضور!میری تو رائے یہ ہے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ عمر ہ کرنے چلے جائیں اور کچھ عرصہ مکہ مکرمہ میں گزاریں تا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس شریر حاکم کی نظرو ں سے اوجھل رہیں اور معاملہ رفع دفع ہوجائے ۔ ''
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواباً ارشاد فرمایا:'' مَیں اس عمل میں اپنی نیت حاضر نہیں پاتا اور میرے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ ہے جو خلوص نیت سے ہو اور صرف رضائے الٰہی عزوجل کے لئے ہو۔''میں نے کہا:'' پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس طر ح کریں کہ چند دن کے لئے کسی دو ست کے ہاں قیام فرمائیں اس طر ح جب کسی شخص کی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر نظر نہیں پڑے گی اور آپ"
"رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد میں نہیں ہوں گے تو چنددنوں میں معاملہ ختم ہوجائے گاا ور حاکم یہی سمجھے گا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہیں چلے گئے ہیں ۔''
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ''اگر مَیں ایسا کروں او رکسی کے گھر میں قیام کروں، توجب مؤذِن حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ، حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃکی صدائیں بلند کر کے مجھے دربار الٰہی عزوجل کی طر ف بلائے گا تو میں اس کے حکم سے روگردانی کس طر ح کر سکوں گا، دن رات مجھے میرے پاک پروردگار عزوجل کی جانب سے مسجد میں حاضری کا حکم ملے اور میں ایک ظالم حکمران کی وجہ سے احکم الحاکمین عزوجل کے حکم سے اعراض کرو ں۔ یہ بات میں کبھی بھی گوارا نہیں کرسکتا ،چاہے میری جان ہی کیوں نہ چلی جائے میں مسجد کو ہر گز ہر گز نہیں چھوڑوں گا ۔''
یہ جرأ ت مندانہ جواب سن کر میں نے عرض کی:'' حضور !پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ا س طر ح کریں کہ کسی او رمسجد میں نماز ادا فرمالیا کریں اور اپنی مجلسِ علم کسی او رجگہ قائم کر لیا کریں۔ اس طر ح بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس حاکم کی نظرو ں سے اوجھل رہ سکتے ہیں۔'' آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ میں عرصہ دراز سے اسی مسجد میں اسی ستون کے پاس اپنے پاک پر وردگار عزوجل کی عبادت کر رہا ہوں، اب کسی ظالم کے خوف سے میں اس جگہ کوچھوڑ دوں یہ مجھے ہر گز منظور نہیں ،مَیں اسی مسجد میں اسی ستون کے پاس عبادتِ الٰہی عزوجل میں مشغول رہوں گا ۔''
حضرت سیدنا قاسم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے میری تینوں باتوں سے اِنکار فرمادیا تو میں نے عرض کی: ''اللہ عزوجل آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر رحم فرمائے ،کیا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنی موت سے ڈر نہیں لگتا لو گ تو موت کے نام سے بھی کانپ جاتے ہیں اور آپ ہیں کہ حاکم کی شدید دھمکی کے باوجود ذرہ برابر بھی خوفزدہ نہیں ہوئے۔'' آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ''خدا عزوجل کی قسم! میں اپنے رب عزوجل کے علاوہ کسی سے بھی نہیں ڈرتا ،مجھے صرف اسی پاک پرو ردگار عزوجل کا خوف ہے اس کے علاوہ میں مخلوق میں کسی سے نہیں ڈرتا ۔''
میں نے عرض کی:'' حضور! حاکم نے شدید دھمکی دی ہے، میں تو بہت پریشان ہوگیا ہوں کہیں وہ ظالم حاکم آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کوئی نقصان نہ پہنچا دے ؟'' آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:'' اے قاسم(رحمۃ اللہ تعالیٰ عنہ )! تم بے فکر رہو،میرا پروردگار عزوجل میری حفاظت فرمائے گا اور ان شاء اللہ عزوجل بہتری ہوگی ۔میں اپنے رب عزوجل جو کہ عرش ِعظیم کا مالک ہے ،اس کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ وہ میرے معاملہ کو اس ظالم حاکم سے بُھلادے۔''
اے قاسم(رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) ! تم بے فکر رہو ، ان شاء اللہ عزوجل سب بہتر ہوگا ۔ یہ سن کر میں وہاں سے چلا آیا، مجھے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طر ف سے بہت پر یشانی کا سامنا تھا ۔میں روز انہ لوگو ں سے پوچھتا کہ آج شہر میں کوئی خاص واقعہ تو پیش نہیں آیا ۔"
"آج حضرت سیدنا سعید بن مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ کوئی ناخوش گوار واقعہ تو پیش نہیں آیا لیکن اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عزوجل مجھے ہر مرتبہ خیر ہی کی خبر ملتی۔اسی طرح ایک سال امن وامان سے گزر گیا وہ حاکم ایک سال وہاں رہا لیکن وہ حضرت سیدنا سعید بن مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بال بھی بیکانہ کر سکا ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دعابارگاہ ِخداوندی عزوجل میں مقبول ہوئی او رآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر اس حاکم کو بُھلادیا گیا ۔ایک سال بعد وہ حاکم معزول کردیا گیا اور اسے کسی اور جگہ کا حاکم بنادیا گیا ایک دن ا س حاکم نے اپنے غلام سے کہا:''تیرا ناس ہو ! مَیں نے علی بن حسین ،قاسم بن محمد اور سالم بن عبداللہ کے سامنے تین مرتبہ قسم کھائی تھی کہ میں سعید بن مسیب (رضی اللہ تعالیٰ عنہ )کو قتل کرو ں گا لیکن جب تک میں مدینہ منورہ میں رہا مجھے سعید بن مسیب (رضی اللہ تعالیٰ عنہ )کا خیال تک نہ آیا، نہ جانے مجھے کیا ہوگیا تھا ۔اب میں تو ان حضرات کے سامنے رُسوا ہو کر رہ گیا کہ میں اپنی قسم کو پورا نہ کرسکا ۔''
اس غلام نے کہا:'' اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں کچھ عرض کرو ں؟ '' حاکم نے کہا:'' تمہیں اجازت ہے جو کہنا چاہو بے د ھڑک کہو۔'' غلام نے کہا: ''حضور ! اللہ عزوجل نے آپ سے حضرت سیدنا سعید بن مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذکر کو بھلا دیا ور آپ کو ان کے قتل کے گناہ میں ملوث نہ ہونے دیا۔ یہ تو آپ کے حق میں اللہ عزوجل نے بہت بہتر فیصلہ فرمایا ہے ،ورنہ ( قتلِ ناحق کا) جو اِرادہ آپ نے کیا تھا اس میں سر اسر آپ کا نقصان تھا ۔اللہ عزوجل کا فیصلہ آپ کے حق میں یقینا بہتر ہے ۔'' غلام کی یہ بات سن کر حاکم نے کہا:'' اے غلام! جاؤ تم اللہ عزوجل کی رضا کی خاطر آزاد ہو ۔''"
حضرت ابو اسحاق محمد بن رشیدمعتصم باللہ سے مروی ہے:''بحری جہاز سمند ر کے سینے کو چیر تا قدرت الٰہی عزوجل کا مظاہر ہ کرتا ہوا جانبِ منزل جھومتا چلا جارہا تھا۔ اس جہاز میں ایک شخص کے پاس دس ہزار سونے کی اشرفیاں تھیں۔بحری جہاز کے مسافر اپنی منزل کی طرف گا مزن تھے۔ اچانک کسی کہنے والے نے کہا:''میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ اگر کوئی شخص اسے کیسی ہی بڑی مصیبت میں پڑھے اللہ عزوجل اس مصیبت کو اس پاکیزہ کلمہ کی برکت سے دور فرمادے گا،کیا کوئی شخص مجھ سے یہ کلمہ سیکھنا چاہتا ہے؟ جو شخص سونے کی دس ہزار اشرفیاں خرچ کر ے گا میں اسے یہ پاکیزہ کلمہ سکھاؤں گا۔جس کے پاس دس ہزار سونے کی اشرفیاں تھیں اس نے سن کر کہا: مَیں یہ عمل آپ سے سیکھنا چاہتا ہوں۔ کہنے والے نے کہا:''اپنی ساری رقم سمندر میں ڈال دو۔''
اس مردِ صالح نے ساری رقم سمند ر میں ڈال دی ، کہنے والے نے کہا : ''پڑھ! وہ کلمہ یہ آیت مبارکہ ہے:
وَ مَنۡ یَّـتَّقِ اللہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا ۙ﴿2﴾وَّ یَرْزُقْہُ مِنْ حَیۡثُ لَا یَحْتَسِبُ ؕ وَ مَنۡ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللہِ فَہُوَ حَسْبُہٗ ؕ اِنَّ اللہَ بَالِغُ اَمْرِہٖ ؕ قَدْ جَعَلَ اللہُ لِکُلِّ شَیۡءٍ قَدْرًا ﴿3﴾
"ترجمہ کنزالایمان: اور جو اللہ سے ڈرے اللہ اس کے لئے نجات کی راہ نکال دے گا۔اوراسے وہاں سے روزی دے گاجہاں اس کا گمان نہ ہو، اور جو اللہ پر بھروسہ کرے تو وہ اسے کافی ہے، بےشک اللہ اپنا کام پورا کرنے والا ہے، بےشک اللہ نے ہر چیز کا ایک اندازہ رکھاہے۔(پ28،الطلاق:2۔3)
اس نوجوان نے یہ آیات مبارکہ یاد کرلی اور اسے یقین ہوگیا کہ میں نے بہت بڑی دولت حاصل کرلی اور میری رقم رائیگا ں نہیں گئی۔
جب باقی مسافرو ں نے اس شخص کا یہ طرزِ عمل دیکھا تو کہنے لگے: ''اے مسافر!یہ تُو نے کیا کیا؟ تُو نے خواہ مخواہ اپنی رقم سمندر میں پھینک دی اوراپنی ساری دولت سے محروم ہوگیا ۔''
ابھی ان مسافر وں کی یہ بات مکمل بھی نہ ہونے پائی تھی کہ ہر طر ف سے کالی گھٹائیں چھانے لگیں، سمند ر میں طغیانی آ گئی، سر کش موجوں نے آن کی آن میں بحری جہاز کو تباہ وبر باد کر ڈالا اور سارے مسافر غرق ہوگئے ۔آیات مبارکہ سیکھنے والا شخص کہتا ہے کہ جب جہاز طو فان کی نذر ہونے لگا تو میں نے یقینِ کامل کے ساتھ انہیں آیات مبارکہ کا وِرد شرو ع کردیا۔تھوڑی ہی دیر میں مجھے ایک تختہ نظر آیا میں نے اس کا سہارا لیا۔ میری زبان پر مسلسل وہی آیات مبارکہ جاری تھیں۔ اللہ عزوجل نے کرم فرمایا اور مَیں اس تختے کے سہارے ساحل تک پہنچ گیا۔
مَیں سمند ر سے باہر نکلا او ر آس پاس کاجائزہ لیاتو مجھے قریب ہی ایک خوبصورت محل نظر آیا۔ مَیں اس میں داخل ہوا تو وہاں ایک حسین وجمیل عورت موجودتھی۔ میں نے اس سے پوچھا:'' تُم کون ہو ؟'' اس نے کہا:'' مَیں بصرہ کی رہنے والی ہوں اور مجھے ایک جِن نے یہاں قید کر رکھا ہے۔ اس سمند ر میں جو بھی جہاز غرق ہوتا ہے وہ خبیث جن اس کا تمام مال و اسباب یہاں اس محل میں لے آتا ہے۔ شاید تمہارا جہاز بھی غرق ہوگیا ہے، اب وہ خبیث جن آنے والا ہے، تم فوراً کہیں چھپ جاؤ ورنہ وہ تمہیں دیکھتے ہی قتل کر دے گا، جلدی کرو اس کے آنے کا وقت ہوگیا ہے ۔''
وہ شخص کہتا ہے کہ ہم ابھی یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ ایک جانب مجھے شدید کالا دھواں نظر آیا۔ میں سمجھ گیا کہ یہ وہی جن ہے ، میں نے فوراً بلند آواز سے اُنھیں آیات مبارکہ کا وِرد شرو ع کردیا، جب آیت مبارکہ کی آواز فضا میں بلند ہوئی تو وہ سارا دھواں خاک ہو کر ہوا میں اُڑ گیا، اب وہاں کسی جن کا نام ونشان بھی نہ تھا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عزوجل !ان آیات مبارکہ کی برکت سے ہمیں اس ظالم جن سے نجات مل گئی ۔میں نے اس عورت سے کہا :''چلو ا ٹھو! اب تم آزاد ہو، اللہ عزوجل نے اسخبیث جن کا کام تمام کردیا ہے ۔''"
" چنانچہ ہم دونوں وہاں سے اُٹھے اور محل کے خزانے سے بہت ساری دولت جمع کی۔ جتنا ہم سے ہوسکا ہم نے وہاں سے خزانہ اٹھایایہا ں تک کہ ہمارے پاس مزید کوئی ایسی چیز نہ بچی جس میں ہم مال ودولت رکھتے۔ پھر ہم ساحلِ سمند ر پر آئے اور کسی جہاز کا انتظار کرنے لگے ۔ کچھ ہی دیر بعد ہمیں دورسے ایک جہازدکھائی دیا ہم نے کپڑا لہرا کر اسے اپنی طر ف بلایا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عزوجل ! جہاز ہماری طر ف آیا اور اتفاق کی بات تھی کہ وہ جہاز بصرہ ہی کی جانب جارہا تھا۔ چنانچہ ہم دو نوں اس میں سوار ہوگئے بصرہ پہنچ کر اس عورت نے کہا:'' تم فلاں جگہ جاؤ اور ان سے میرے متعلق پوچھو کہ وہ کہا ں ہے ؟'' میں مطلوبہ جگہ پہنچا اور لوگوں سے اس عورت کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں کہا :'' وہ بیچاری تو تقریباً تین سال سے لاپتہ ہے، ہم اس کی وجہ سے بہت پریشان ہیں ۔''
میں نے کہا :''تم میرے ساتھ آؤ،میں اس سے تمہاری ملاقات کراتا ہوں۔'' وہ لوگ حیرانی اورخوشی کے عالم میں میرے ساتھ ہو لئے ۔جب انہوں نے اس عورت کو دیکھا تو بڑی عقیدت سے اس کے سامنے مؤدبانہ اَنداز میں کھڑے ہوگئے۔آج وہ لوگ بہت زیادہ خوش وخرم تھے کیونکہ اِنہیں ان کی گمشدہ مَلکہ مل چکی تھی۔ پھر اس عورت نے اپنے خادموں اور دوسرے عزیز واَقارب سے کہا: ''اس شخص نے مجھ پر بہت بڑا احسان کیا ہے لہٰذا میں اسی سے شادی کر وں گی ۔''پس ان دونوں کی شادی کردی گئی اور وہ ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگے ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)
(میٹھے اسلامی بھائیو!مذکورہ بالا آیات بہت بابرکت ہیں۔ اگر کوئی شخص بہت زیادہ پریشان ہو تو وہ ان آیات مبارکہ کا وِرد کرے اور پھر ان کی برکتیں دیکھے۔ ان شا ء اللہ عزوجل ان آیات کی برکت سے ہر پریشانی دور ہو گی اور سکون واِطمینان نصیب ہو گا۔اے ہمارے پاک پر وردگار عزوجل! ہمیں یقین کامل کی دولت سے مالامال فرما اور ہر پریشانی ومصیبت میں شکوہ وشکایت کرنے کی بجائے صبر و شکر کی توفیق عطا فرما۔اے اللہ عزوجل !ہم تیرے عاجز بندے ہیں، ہر دشمن سے ہماری حفاظت فرما،دین ودنیا میں عافیت وکرم والا معاملہ فرما، شریعت کے دائرے میں رہ کر ہمیں اپنے تمام معاملات حل کرنے کی توفیق عطا فرما اورہر وقت اپنی حفظ وامان رکھ ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)"
" ابو الفضل ربعی کے والد سے مروی ہے، ایک مرتبہ خلیفہ منصور نے منبر پر چڑھ کر خطبہ دینا شرو ع کیا۔لوگوں کوبری باتوں سے باز رہنے اور اعمالِ صالحہ کی ترغیب دلائی۔ خطبہ دیتے ہوئے اس کی آواز بھرّا گئی ،پھر زور زور سے رونے لگا ۔اسی دوران مجمع میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور بڑے جرأ ت مندانہ انداز میں گرج کر کہا : ''اے نصیحت کرنے والے! ایسی باتوں کی نصیحت کر جن پر تُو خود بھی عمل کرتا ہے اور ایسی با تو ں سے لوگو ں کو منع کر جن سے تُوخود بھی بچتا ہے، سب سے پہلے اِنسان کو اپنی اِصلاح کرنی چاہے، پھر دو سروں کو نصیحت کرنی چاہے لہٰذا پہلے تُو اپنی اصلاح کر پھر دو سروں کو نصیحت کرنا۔''
بھرے مجمع میں خلیفہ منصور اس شخص کی یہ گفتگو سن کر خاموش ہوگیا۔ کچھ دیر بعد اپنے مشیر خاص سے کہا :'' اس شخص کو یہاں سے لے جاؤ۔'' چنانچہ اس شخص کو وہاں سے دورلے جایا گیا ۔خلفیہ منصور نے دو بارہ خطبہ شروع کیا پھر نماز پڑھی اور اپنے محل کی طرف آیا او راپنے مشیر خاص کو بلا کر اس سے پوچھا :'' وہ شخص کہا ں ہے ؟'' عرض کی: '' اس کو قید میں ڈال دیا گیا ہے۔'' خلیفہ منصور نے کہا:''اسے ڈھیل دو، اس کے ساتھ نرمی سے پیش آؤ، پھر اسے مال ودولت کا لالچ دو۔ اگر وہ ان تمام باتوں سے اعراض کرے اور مال ودولت کی طرف تو جہ نہ دے تو وہ شخص مخلِص ہے اور اس نے اِصلاح کی نیت سے مجھے دوران خطبہ ٹو کا ہوگا اور وہ میری بھلائی کا خواہاں ہوگا اور اگر مال ودولت کی طرف راغب ہواور دنیا وی نعمتیں دیکھ کر خوش ہوجائے تو پھر وہ اپنی اس دعوت میں مخلص نہیں بلکہ اس کا بھرے دربار میں خلیفہ کو ڈانٹنااس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس دعوت کے ذریعے وہ اپنا رُعب جمانا چاہتا ہے، وہ دنیا وی مال کاحریص ہے اور خلفاء پر طعن وتشنیع کرنا اس کی عادت ہے ۔اگر ایسی بات ہے تو میں اسے درد ناک سزا دوں گا ، جاؤ اور جاکر اسے آزماؤ۔''
پس مشیر چلا گیا اور اس شخص کو اپنے گھر ناشتے کی دعوت دی۔انواع واقسام کے کھانے چُنے گئے ،خوب پُر تکلف دعوت کا اہتمام کیا گیا ۔ جب وہ شخص وہاں پہنچا تو مشیر نے اس سے پوچھا :'' تجھے کس چیز نے اس بات پر اُبھارا کہ تُو بھرے دربار میں خلیفہ کو سر زنش کر ے اور لوگو ں کے سامنے اسے اِتنے سخت کلمات سے نصیحت کرے ؟'' تو اس نے کہا: ''یہ مجھ پر اللہ عزوجل کی جانب سے حق تھا جسے میں نے ادا کیا،پس میں نے جو کچھ کیا درست کیا۔''یہ سن کر مشیر نے کہا :''اچھا! آؤ ہم نے تمہارے لئے دعوت کا اہتمام کیا ہے، ہماری دعوت قبول کرو اور ہمارے ساتھ کھانا کھاؤ۔ ''وہ کہنے لگا :'مجھے تمہاری دعوت کی کوئی حاجت نہیں ۔''
مشیر بولا:'' اگر تمہاری نیت اچھی ہے توہماری دعوت قبول کرنے میں کیا حرج ہے؟ آؤ! دیکھو تمہارے سامنے انواع واقسام کے کھانے موجود ہیں۔'' جب اس شخص نے طر ح طر ح کے کھانے دیکھے تو اس سے نہ رہا گیا اور اس نے خوب سیر ہو کر"
"کھانا کھایا پھر مشیر نے اسے واپس بھیج دیا ۔
کچھ دنوں بعد دوبارہ مشیر نے اسے اپنے پاس بلایا اور کہا:'' اے شخص !خلیفہ تمہارے معاملے کو بھول چکاہے اور تم ابھی تک قید میں ہو ، میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔ اگر تم چاہو تو میں تمہیں ایک لونڈی دے دو ں جو تمہاری خدمت کرے اور تم اس سے تسکین حاصل کرو ۔'' اس پروہ شخص لالچ میں آگیا اور کہنے لگا :''اگر ایسا ہوجائے تو آپ کی مہربانی ہوگی ۔''چنانچہ اس کو لونڈی بھی دے دی گئی اور اسے اچھا کھانا بھی دیا جانے لگا۔ کچھ دن کے بعد مشیر نے اس سے کہا :''اگر تم چاہو تو میں خلیفہ کی بارگاہ میں عرض کرو ں کہ وہ تمہارے لئے اور تمہارے گھر والوں کے لئے کچھ روز مرہ کے خرچ کا بند و بست کر دے ۔'' تووہ لالچی شخص کہنے لگا:''یہ تو آپ کابڑا احسان ہوگا ۔'' چنانچہ اس کے لئے اور اس کے گھر والوں کے لئے روز مرہ کے خرچ کا انتظام کر دیا گیا۔
دن گز رتے رہے، ایک دن مُشیر اس شخص کے پاس آیا اور کہا :''اے شخص! میں تمہارا خیرا خواہ ہوں ،اگر تم چاہو تو ایک ایسی راہ تمہیں بتا تا ہوں جس کے ذریعے تم خلیفہ کا قُرب حاصل کر سکتے ہو۔''اس شخص نے بے تا ب ہو کر کہا :''جلدی بتا ؤ، وہ کون سا طریقہ ہے جس کے ذریعے مجھے دربار شاہی میں کوئی مقام مل جائے اور میں خلیفہ کا مُقرب بن جاؤں۔''مشیر نے کہا :'' مَیں تمہیں مُحتسِب مقرر کرتا ہوں تم جہاں بھی خلاف شرع کام ہوتا دیکھواسے بند کرادو ،جہاں کہیں ظلم ہو رہا ہو ظالموں کو سزا دو، آج سے تم بھی سرکاری عہدہ دارو ں میں شامل ہو جاؤ اور اپنا کام سنبھالو، لوگوں کو ناجائز اُمور سے روکو اور اچھی باتوں کا حکم دو۔'' یہ سن کر اس لالچی شخص کی خوشی کی اِنتہانہ رہی۔ اسی طر ح اس کا تقریبا ًایک مہینہ گزرگیا ۔
مشیر خلیفہ منصور کے پاس آیا اور اس سے کہا: ''حضور! میں نے اس شخص کو خوب آزما لیا ہے،جب اسے کھانے کی دعوت دی گئی تو اس نے قبول کرلی، مال ودولت کے لالچ میں بھی بر ی طر ح پھنس گیاہے پھر اسے سر کاری عہدے کی پیشکش کی تو اس نے بخوشی قبول کر لی اور اب وہ بڑے سکون سے زندگی بسر کر رہا ہے۔ اگر آپ پسند فرمائیں تو اسے آپ کے دربار میں حاضر کروں۔ اب اس کی یہ حالت ہے کہ وہ خوب عیش وعشرت کی زندگی گزار رہا ہے، لوگوں کو تو بری باتوں سے منع کرتا ہے لیکن خودبرائیوں میں مبتلا ہے۔ ''
خلیفہ منصور نے کہا :'' جاؤ اور اسے ہمارے دربار میں حاضر کر و۔'' مشیر فوراََ اس شخص کے پاس پہنچا اور کہا:'' میں نے خلیفہ کو بتا دیا ہے کہ تم اب اس کے سرکاری عہدہ داروں میں شامل ہو اور تمہارے ذِمہ یہ کام ہے کہ بری باتوں سے لوگوں کو منع کر و، ظالموں کو ظلم سے روکو اور اچھی باتیں عام کرو ۔ اب خلیفہ تم سے ملاقات کرنا چاہتا ہے تم اس کے دربار میں حاضر ہوجاؤ جیسا لباس تم کہو گے تمہیں مہیا کر دیا جائے گا۔'' یہ سن کر وہ شخص بہت خوش ہوا کہ آج تو خلیفہ نے میری معرا ج کر ادی۔"
" چنانچہ اس نے ایک بہترین جبہ پہنا ، خنجرلیا ، گلے میں تلوار لٹکائی اور بڑی مغرور انہ چال چلتے ہوئے دربار کی طرف روانہ ہوا۔ اس کے بال اتنے بڑے تھے کہ کندھوں سے بھی نیچے آرہے تھے۔ وہ خوشی خوشی دربار میں پہنچا اور جاکر بڑے ادب سے خلیفہ منصور کو سلام کیا ۔
خلیفہ نے جواب دیا اور کہا :''کیا تُو وہی شخص ہے جس نے اُمراء ،وزراء اور عوام کے بھرے مجمع میں مجھے سر زنش کی تھی اور بڑے سخت کلمات کے ساتھ مجھے نصیحت کی تھی؟'' اس نے کہا :''ہا ں، میں وہی شخص ہو ں ۔'' یہ سن کر خلیفہ نے کہا : ''پھر اب تجھے کیا ہوگیاہے، اب تو تُو خود ایسی حالت میں ہے کہ تجھے سخت سزادی جائے ۔ اس دن تمہیں کیسے جرأ ت ہوئی کہ تم نے بھرے دربار میں مجھے رُسواکیااور اب تمہاری یہ حالت ہے کہ میرے سامنے جھک رہے ہو، اس وقت کیا تھا اور اب کیا ہے ؟'' تو وہ لالچی شخص کہنے لگا:''اے مہربان خلیفہ! اس واقعہ کے بعد میں نے غورو فکر کیا تو مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہے تھا ،اس وقت میں نے واقعی غلطی کی، آپ مجھے معاف فرمادیں، آپ حق پر تھے میں نے آپ پر بے جاتنقید کی تھی ، آپ کی ہاں میں ہاں ملانا ہی بہتر تھا۔''
یہ سن کر خلیفہ منصور نے کہا: '' اے شخص !تجھ پر افسوس ہے، تُو اپنے مؤقف سے پھر گیا حالانکہ تُو نے بالکل حق بات کی تھی لیکن تُو اپنی نیت میں مخلص نہ تھا، تیراغصہ اللہ عزوجل کی رضا کی خاطر نہ تھا ۔جب تُونے مجھے رُسواکیاتھاتو میں یہ سمجھا تھا تیراغضب وغصہ اللہ عزوجل کی خاطر ہے اس لئے میں نے تجھے اس وقت کوئی سزا نہ دی اور تیرے معاملے میں تو قف کیا لیکن اب مجھ پر یہ بات ظاہر ہوگئی کہ تیرا غصہ وغضب دُنیاحاصل کرنے کے لئے تھا اور تُو اپنی نیکی کی دعوت میں مخلص نہ تھا۔ رضائے الٰہی عزوجل تیرا مقصود نہ تھا بلکہ تُو حُبِّ جاہ اور دنیاوی دولت کا طالب تھا، اب میں تجھے ایسی درد ناک سزادوں گا کہ آئندہ کسی کو اس بات کی جرأ ت نہ ہوگی کہ بادشاہوں کے دربار میں ان کی بے عزتی کرے اور جس طر ح چاہے انہیں ڈانٹ دے۔ خداعزوجل کی قسم !میں تجھے عبرت کا نشان بنادو ں گا تا کہ لوگ تجھے سے عبرت پکڑیں ۔ ''
یہ کہہ کہ خلیفہ منصور نے جلاد کو حکم دیا کہ اس دنیا دار کا سرقلم کردیا جائے، جلاد آگے بڑھا اور بھرے دربار میں اس کی گردن اڑا دی گئی ۔
(اے ہمارے پیارے اللہ عزوجل! ہمیں اخلاص کی دولت سے مالا مال فرما اور دنیا وی مال کے وبال سے بچا ،ہر کام اپنی رضا کی خاطر کرنے کی تو فیق عطا فرما۔ ہمارا مطلوب بس اپنی ہی ذات کو بنائے رکھ، میرے مولا عزوجل !ہمیں صرف اپنی رضا کی خاطرسنتوں کی تبلیغ کرنے کی تو فیق عطا فرما۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)
؎ میرا ہر عمل بس ترے واسطے ہو کر اِخلاص ایسا عطا یا الٰہی عزوجل!"
" حضرت سیدناصالح بن کیسان علیہ رحمۃالرحمٰن سے مروی ہے کہ خلیفہ ولید بن یزید نے حضر ت سیدنا سعد بن ابراہیم علیہ رحمۃ اللہ العظیم کو مدینہ منورہ کا قاضی بناکر بھیجا ، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وہاں گئے اور بخوبی اپنی ذِمہ داری سرانجام دینے لگے۔ خوب عد ل وانصاف سے کام لیتے ،حدو د اللہ عزوجل کی پاسداری کرتے۔ جب حج کا سہانا مو سم قریب آنے لگا تو خلفیہ ولید بن یزید نے بھی حج کرنے کاارادہ کیا۔ چنانچہ اس نے ایک عمدہ قسم کا خیمہ بنوایا اور اس کی نیت یہ تھی کہ جب میں حج کر نے جاؤں گا تو اس خیمہ کو خانہ کعبہ کے قریب نصب کروادو ں گا۔ اس طر ح مَیں،میرے دوست احباب اور اہل وعیال اس خیمہ کے اندر رہ کر خانہ کعبہ کا طواف کریں گے اور عوام الناس باہر سے طواف کریں گے۔
ولید بن یزید بڑا ہی سخت مزاج او رمتکبر شخص تھا ۔جس کام کا اِرادہ کرلیتا اسے پورا کرنے کی بھر پور کوشش کرتاچاہے کسی پر کتنا ہی ظلم کرنا پڑے ۔جب بہترین قسم کا عمدہ خیمہ تیار ہوگیا تو اس نے وہ خیمہ ایک ہزار شہسواروں کے ساتھ مدینہ منورہ کی طر ف روانہ کیا اوراس لشکر کو بہت سا مال واسباب دیاکہ اس سارے مال کو اہل مدینہ میں تقسیم کردینا ۔ولید خود ابھی ملک شام ہی میں تھا، لشکر بڑی شان وشوکت سے چلا اور مدینہ منورہ پہنچ گیاپھر وہ خیمہ حضور نبی ئکریم ،رء ُوف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے مصلّی کے قریب نصب کر دیا گیا۔ لوگو ں نے جب یہ معاملہ دیکھا تو بہت خوفزدہ ہوئے اور سب نے جمع ہوکر مشورہ کیا کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہے۔ خلیفہ نے تو یہ حکم صادر کردیا ہے، اب اس کے حکم کو کون ٹا ل سکتا ہے۔ سب کو معلوم تھا کہ ولید بن یزید کیسا بدمزاج خلیفہ ہے پس کسی کو بھی ہمت نہ ہوئی کہ وہ لشکر والوں کو مُصلّی رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پر خیمہ نصب کرنے سے منع کرے ۔ بالآخر یہ طے پایا کہ ہم اپنے قاضی سعد بن ابراہیم علیہ رحمۃ اللہ العظیم کو جاکر اس معاملہ کی خبر دیتے ہیں ۔
چنانچہ سب لوگ جمع ہو کر حضرت سیدنا سعد بن ابراہیم علیہ رحمۃ اللہ العظیم کے پاس حاضر ہوئے اور انہیں صورتحال سے آگاہ کیا ۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' جاؤ اور جاکر اس خیمے کو آگ لگا دو ۔'' یہ سن کرلوگ خوف زدہ ہوگئے اور کہنے لگے: ''حضور! ہم میں اتنی جرأ ت نہیں کہ اس خیمہ کو آگ لگائیں۔ملک شام سے ایک ہزار شہسوار آئے ہوئے ہیں، ہم ان کی موجودگی میں یہ کا م کیسے کرسکتے ہیں؟''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جب لوگو ں سے یہ بُزدِلانہ جواب سنا تو اپنے غلام سے فرمایا :'' جاؤ اور فلاں تھیلے سے وہ قمیص نکال لاؤجسے پہن کر حضرت سیدنا عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ غزوہ بد رمیں شریک ہوئے اور انہوں نے جامِ شہادت نوش فرمایا۔'' خادم فوراََ وہ مبارک قمیص لے آیا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے وہ قمیص پہنی اور خچر پر سوار ہو کر شامی لشکر کی جانب روانہ ہوئے، تمام لوگ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پیچھے پیچھے تھے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے وہاں پہنچ کر فرمایا: ''آگ لے آؤ ۔''خادم نے"
"فوراَ حکم کی تعمیل کی۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بے خوف وخطرآگے بڑھے اور جاکر اس قیمتی خیمے کو آگ لگادی ،جب سالارِلشکر نے یہ دیکھا تو وہ بڑا غضب ناک ہوا او رآپے سے باہر ہوگیا۔ لوگوں نے اسے بتایا:''یہ مدینہ منورہ کے قاضی ہیں اور انہیں خلیفہ ولید بن یزید نے قاضی بنا کر مدینہ شریف بھیجا ہے ، تم ان سے کوئی گستاخانہ انداز اختیار نہ کرنا، تمام اہل مدینہ ِان کی بہت عزت کرتے ہیں۔ لہٰذا عا فیت اسی میں ہے کہ تم خاموشی اختیار کرو۔'' یہ سن کرسارا لشکر واپس شام کی طر ف چلا گیا اور کافی مال واسباب وہاں چھوڑ گیا۔ اہل مدینہ کے فقراء نے ان کا بچا ہوا مال واسباب لے لیا اور خوشی خوشی اپنے گھروں کو لوٹ آئے ۔
جب اس واقعہ کی خبر خلیفہ ولید بن یزید کو ہوئی تو اس نے فوراََ حضرت سیدنا سعد بن ابراہیم علیہ رحمۃ اللہ العظیم کو پیغام بھیجا تم اپنی جگہ کسی او رکو قاضی بناکر فورا ًملک شام پہنچو جیسے ہی تمہیں میرا پیغام پہنچے فوراََ چلے آنا۔
حضرت سیدنا سعد بن ابراہیم علیہ رحمۃ اللہ العظیم کو جب خلیفہ کا پیغام پہنچا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک بااعتماد شخص کو قاضی بنایا اور خود ملک شام کی جانب چل دیئے۔ جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ شام کی سر حد پر پہنچے تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو شہر سے باہر ہی روک دیا گیااور کافی عرصہ تک آپ کو داخلہ کی اجازت نہ ملی ۔ بالآخر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا زادِ راہ ختم ہونے لگا اور اب وہاں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مزید ٹھہرنا دشوار ہوگیا۔ایک رات آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مسجد میں مصروف عبادت تھے کہ ایک شخص کو دیکھا کہ نشے کی حالت میں بد مست ہے او رمسجد میں گھوم رہا ہے۔ یہ دیکھ کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے پوچھا : ''یہ شخص کون ہے ؟'' لوگو ں نے بتا یا:'' یہ خلیفہ ولید بن یزید کا ماموں ہے، اس نے شراب پی ہے اور اب نشے کی حالت میں مسجد کے اندر گھوم پھر رہا ہے۔''
یہ سن کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو بہت جلال آیا کہ یہ کتنی دیدہ دِلیری سے اللہ عزوجل کی نافرمانی کر رہا ہے اور اس کے پاک دربارمیں ایسی گندی حالت میں بے خوف گھوم پھر رہا ہے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے غلام کودرہ لانے کا حکم فرمایا۔ غلام نے درہ (کوڑا ) دیا ۔''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' مجھ پر لازم ہے کہ میں اس پر حدِ شرعی نافذ کروں چاہے یہ کوئی بھی ہو، اسلام میں سب برابر ہیں۔'' چنانچہ آپ آگے بڑھے اور مسجد میں ہی اس کو اسّی(80) کوڑے مارے ۔
پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے خچر پر سوار ہوئے اور مدینہ منورہ کی جانب روانہ ہوگئے۔ وہ شخص اسّی(80)کوڑے کھانے کے بعد نہایت زخمی حالت میں خلیفہ ولید بن یزید کے پاس پہنچا ۔ خلیفہ نے جب اپنے ماموں کی یہ حالت دیکھی تو بہت غضبناک ہوا اور پوچھا:'' تمہاری یہ حالت کس نے کی؟ کس نے تمہیں اِتنا شدید زخمی کیا ہے ؟'' اس نے جواب دیا:'' ایک شخص مدینہ منورہ سے آیا ہوا تھا، اس نے مجھے اسّی(80)کوڑے سزا دی اور کہا : ''یہ سزا دینا اور حد قائم کرنا مجھ پر لازم ہے۔ '' اس نے مجھے مارا اورپھر مدینہ منورہ کی طر ف چلاگیا۔ ''خلیفہ نے جب یہ سنا تو اس نے فوراََ حکم دیا کہ ہماری سواری تیار کی جائے، فوراََحکم کی تعمیل ہوئی اور خلیفہ کچھ سپاہیوں کو لے کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے تعاقب میں چلا اور ایک منزل پر جاکر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو روک لیا ۔
خلفیہ ولید بن یزید نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے کہا :'' اے ابو اسحاق ! تُو نے میرے ماموں کے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا ،"
"اسے اتنی درد ناک سزا کیوں دی؟'' حضرت سیدنا سعد بن ابراہیم علیہ رحمۃ اللہ العظیم نے ارشاد فرمایا:'' اے خلیفہ! تُونے مجھے قاضی بنایا تا کہ میں شریعت کے اَحکام نافذ کروں اوراس کی خلاف ورزی کرنے والے کو سزا دو ں۔'' چنانچہ جب میں نے دیکھا کہ سرعام اللہ عزوجل کی نافرمانی کی جا رہی ہے۔یہ شخص نشے کی حالت میں اللہ عزوجل کے دربار میں گھوم پھر رہا ہے اور کوئی اسے پوچھنے والا نہیں تو میر ی غیرت ایمانی نے اس بات کو گوارا نہ کیا کہ میں اللہ عزوجل کی نافرمانی ہوتی دیکھوں اورتمہاری قرابت داری کی وجہ سے چشم پوشی کروں اور شرعی حدو د قائم نہ کرو ں۔ میں نے اس شخص کو اس کے جرم کی سزا دی اور دوسری بات یہ کہ اگر میں اسے سزا نہ دیتا تو لوگ تجھ سے بدظن ہوتے کہ خلیفہ اپنے عزیزواَقارب پرحدودقائم نہیں کرتااگر چہ وہ سرِعام جرم کا اِرتکاب کریں اس طرح تمہاری بدنامی ہوتی اور لوگو ں کے دلوں میں تمہاری نفرت بیٹھ جاتی لہٰذا میں نے وہی کیا جو مجھے کرنا چا ہے تھا ۔''جب خلیفہ ولید بن یزید نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے یہ پرُ خلوص کلمات سنے تو بے اختیار پکار اٹھا:'' اے سعد بن ابراہیم ! اللہ عزوجل تجھے اچھی جزاء عطا فرمائے تُونے واقعی وہ کام کیا جو تجھ پر لازم تھا ۔''
پھر خلیفہ ولید بن یزید نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو بہت سارا مال دیا اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کومدینہ منورہ کی طر ف روانہ کردیا اور اس خیمے کے متعلق کچھ بھی گفتگو نہ کی جسے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے آگ لگائی تھی حالانکہ خلیفہ نے اسی مقصد کے لئے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو مدینہ منورہ سے شام بلایا تھا لیکن اب خلیفہ نے اس بات کا معمولی سا بھی تذکرہ نہ کیا اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہواپس مدینہ منورہ کی نور بار فضاؤں میں سانس لینے کے لئے جلدی جلدی مدینہ شریف کی طرف چل دیئے۔
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!سبحان اللہ عزوجل ! ہمارے اسلاف رحمہم اللہ تعالیٰ کیسے جرا ءت مند ہوا کرتے تھے کہ انہیں اللہ عزوجل کے علاوہ کسی سے بھی خوف نہ آتا۔ وہ اللہ عزوجل کی نافرمانی برداشت ہی نہ کرتے تھے ،چاہے اس کے لئے انہیں کتنے ہی بڑے ظالم سے ٹکر لینی پڑتی، ان کے اندر جذبہ ایمانی کو ٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ وہ صر ف اللہ عزوجل کی رضا چاہتے تھے جب وہ شریعت مُطہرہ کی خلاف ورزی دیکھتے تو ان سے یہ بات برداشت نہ ہوتی اور ہر کوئی اپنے اپنے منصب کے مطابق اَمْرٌ بِالْمَعْرُوْفاور نَہْیٌ عَنِ الْمُنْکَر کا فریضہ سرانجام دیتا، انہیں مخلوق کی ناراضگی کا خوف نہ ہوتا ، وہ اپنی نیت میں مخلص ہوتے تھے۔ اور جو شخص اپنی نیت میں مخلص ہو اللہ عزوجل اسے دنیا میں بھی اجر عطا فرماتاہے اور آخرت میں بھی۔ واقعی جو عمل صرف رضائے الٰہی عزوجل کے حصول کی خاطر کیا جائے، اس کی تو بات ہی کچھ اور ہے۔ اللہ عزوجل ہمیں اپنی دائمی رضا عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)"
" حضرت سیدنا مطفربن سہل المُقرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت سیدنا علان الخیاط علیہ رحمۃ اللہ الرّزّاق کے ساتھ بیٹھا ہواتھا ۔ دو ران گفتگو حضرت سیدنا سری سقطی علیہ رحمۃ اللہ القوی کا ذکر ِخیر شرو ع ہوگیا ،ہم ان کے فضائل ومناقب بیان کرنے لگے۔
حضرت سیدنا علان الخیاط علیہ رحمۃ اللہ الرزاق نے فرمایا: ''ایک مرتبہ میں حضرت سیدنا سری سقطی علیہ رحمۃ اللہ القوی کی خدمتِ بابرکت میں حاضر تھا، اچانک ایک عورت نہایت پریشانی کے عالم میں آئی او رآپ کو مخاطب کر کے کہنے لگی:''اے ابو الحسن( علیہ رحمۃ اللہ الاعظم) !میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پڑو س میں رہتی ہوں ، مجھ پر ایک مصیبت آن پڑی ہے ، رات میرے بیٹے کو سپاہی پکڑکرلے گئے اور مجھے خطرہ ہے کہ وہ اسے تکلیف پہنچا ئیں گے اور اسے سزا دیں گے۔ میں آپ (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)کی بارگاہ میں حاضر ہوئی ہوں۔ اگر آپ میری مدد فرمائیں اور میرے ساتھ چل کر میرے بیٹے کی سفارش کریں یا پھر کسی کو میرے ساتھ بھیج دیں جو آپ (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)کا پیغامِ سفارش حاکم کو پہنچا دیں تو مجھے اُمید ہے کہ حاکم میرے بیٹے کو چھوڑدے گا ۔ خدا را! میرے حال پر رحم فرمائیں ۔''
حضرت سیدنا علان الخیاط علیہ رحمۃ اللہ الرزاق فرماتے ہیں کہ اس عورت کی یہ فریاد سن کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کھڑے ہوئے اور نماز میں مشغول ہوگئے اور اِنتہائی خشوع وخضوع سے نماز پڑھنے لگے ۔ جب کافی دیر ہوگئی تو اس عورت نے کہا :''اے ابوالحسن (علیہ رحمۃ اللہ الاعظم )!جلدی کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ حاکم میرے بیٹے کو قید میں ڈال کر سزادے او ر اسے تکلیف پہنچائے ، برائے کرم! میرے معاملے کو جلدی حل فرمادیں ۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نماز میں مشغول رہے ،پھر سلام پھیرنے کے بعد فرمایا:''اے اللہ عزوجل کی بندی !میں تیرے ہی معاملے کو حل کر رہاہوں۔
ابھی یہ گفتگو ہو ہی رہی تھی کہ اس عورت کی خادمہ آئی اور اس نے کہا: ''محترمہ! گھر چلئے، آپ کا بیٹا بخیر و عافیت گھر لوٹ آیا ہے۔'' یہ سن کر وہ عورت بہت خوش ہوئی اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو دعائیں دیتی ہوئی وہاں سے رخصت ہوگئی ۔
حضرت سیدنا علان الخیاط علیہ رحمۃ اللہ الرزاق نے یہ واقعہ سنانے کے بعد ارشاد فرمایا:''اے مطفر! اس سے بھی زیادہ عجیب بات میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو بتا تا ہوں۔ حضرت سیدنا سری سقطی علیہ رحمۃ اللہ القوی تجارت کیا کرتے تھے اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ عہد کیا ہوا تھا کہ تین دینار سے زیادہ نفع نہیں لوں گا اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے اس عہدپر سختی سے عمل کرتے۔
ایک مرتبہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بازار تشریف لے گئے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے 60دینار کے بدلے96صاع بادام"
"خریدے اور پھر انہیں بیچنے لگے اور ان کی قیمت 63دیناررکھی ، تھوڑی دیرکے بعد آپ کے پاس ایک تاجر آیا اورکہنے لگا: ''میں یہ سارے بادام آپ سے خریدنا چاہتا ہوں۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا : ''خرید لو ۔'' اس نے پوچھا: ''کتنے دینار لو گے؟'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ''63دینار۔'' اس تا جر نے پوچھا:'' حضور! باداموں کا ریٹ بڑھ گیا ہے اور اب 96 صاع باداموں کی قیمت 90دینا ر تک پہنچ چکی ہے۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مجھے 90دینار میں یہ بادام فر وخت کردیں ۔''
حضرت سیدنا سری سقطی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے فرمایا: ''میں نے اپنے رب عزوجل سے وعدہ کرلیا ہے کہ تین دینار سے زیادہ نفع نہیں لوں گا لہٰذا میں اپنے وعدہ کے مطابق تمہیں یہ با دام بخوشی 63دینار میں فروخت کرتا ہوں، اگر چاہو تو خرید لو، میں اس سے زیادہ رقم ہر گز نہیں لوں گا۔''
وہ تاجر بھی اللہ عزوجل کا نیک بندہ تھااوراپنے مسلمان بھائی کی بھلائی کاخواہاں تھا ۔دھوکے سے ان کا مال لینے والا یا بددیانت تا جر نہ تھا۔جب اس نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی یہ بات سنی تو کہنے لگا :'' میں نے بھی اپنے رب عزوجل سے یہ عہد کر رکھا ہے کہ کبھی بھی اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ بد دیانتی نہیں کروں گا اور نہ ہی کبھی کسی مسلمان کا نقصان پسند کروں گا۔ اگر تم بادام 90 دینار میں بیچو تو میں خریدلوں گا ،اس سے کم قیمت میں کبھی بھی یہ بادام نہیں خریدوں گا ۔''
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بھی اپنی بات پر قائم رہے اور فرمایا :'' میں 63دینار سے زیادہ میں فروخت نہیں کرو ں گا ۔'' چنانچہ نہ تو اس امانت دارتاجر نے یہ بات گوارا کی کہ مَیں کم قیمت میں خریدو ں او رنہ ہی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تین دینار سے زیادہ نفع لینے پرراضی ہوئے بالآخر ان کاسودا نہ بن سکا او رتا جر وہاں سے چلا گیا ۔
یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد حضرت سیدناعلان الخیاط علیہ رحمۃ اللہ الرزاق فرماتے ہیں:'' جن لوگو ں میں ایسی عظیم خصلتیں پائی جائیں جب وہ اپنے پاک پروردگار عزوجل کی بارگاہ میں دعا کے لئے ہاتھ اٹھائیں تو ان کی دعائیں قبول کیوں نہ ہوں ۔اللہ عزوجل ایسے برگزیدہ بندوں کی دعاؤں کو شرف قبولیت ضرور عطا فرماتا ہے۔ جو اللہ عز وجل کا ہو جاتا ہے اللہ عزوجل اس کے تمام معاملات کو حل فرمادیتا ہے ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدنا محمد بن عبدالعزیز بن سلمان عابد علیہ رحمۃ اللہ الواجد فرماتے ہیں،میں نے ایک نیک شخص کویہ فرماتے ہوئے سنا:'' ایک مرتبہ مجھے حضرت سیدنا عبدالعزیز علیہ رحمۃ اللہ المجید نے اپنے پاس بلایا ۔میں اس وقت کچھ غمگین تھا لہٰذا اس وقت آپ کی خدمت میں حاضر نہ ہوسکا ۔پھر جب میں اپ کے پاس حاضر ہوا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے پوچھا:''خیر یت تو تھی، کل تم آئے نہیں۔'' میں نے کہا :''ہا ں! خیر یت تھی، اللہ عزوجل جس حال میں رکھے ہم تو اس کی رضا پر راضی ہیں، کل میں گھر والوں کو خوردونوش کاسامان مہیا کرنے کے لئے مزدوری کی تلاش میں تھا اس لئے حاضرِ خدمت نہ ہوسکا۔''
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے پوچھا:'' کیا تمہیں کل مزدوری ملی؟'' میں نے کہا: ''نہیں۔'' تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا: ''آؤ! ہم اپنے رب عزوجل کی بارگاہ میں دعا کرتے ہیں، وہ تمام جہانوں کو رزق عطا فرمانے والاہے ،آؤ! ہم اسی کریم ذات سے رزق کے لئے دعا کرتے ہیں ۔'' اتنا کہنے کے بعد حضرت سیدناعبدالعزیز علیہ رحمۃ اللہ المجید نے دعا کی اورمیں آمین کہتا رہا،پھر میں نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ آمین کہنے لگے ۔''خدا عزوجل کی قسم! ابھی ہم دعا سے فارغ بھی نہ ہونے پائے تھے کہ ہمارے کمرے میں درہم و دینار گرنا شر وع ہوگئے ۔یہ دیکھ کر حضرت سیدنا عبدالعزیز علیہ رحمۃ اللہ المجید نے فرمایا :'' اے ابراہیم ! کیا تجھے اتنا کافی ہے یاکچھ اور بھی چا ہے؟ ''اتنا کہنے کے بعد آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وہاں سے تشریف لے گئے اور میں نے جب وہ درہم ودینار جمع کئے تو سو درہم اور سو دینار تھے ۔
حضرت سیدنا محمد بن عبد العزیز علیہ رحمۃ اللہ المجید فرماتے ہیں کہ میں نے اس صالح عا بد شخص سے پوچھا کہ تم نے اس رقم کا کیا کیا ؟'' اس نے جواب دیا:'' میں نے اپنے اہل وعیال کے لئے ا س رقم سے ایک ہفتے کا راشن خرید کر ان کے حوالے کردیاتاکہ میں اہل وعیال کی طر ف سے بے فکر ہوجاؤں اور پھر دل لگا کر اللہ عزوجل کی عبادت کرو ں اور کوئی چیز میرے اور میرے رب عز وجل کے درمیان حائل نہ ہو ۔'' پھر میں راہِ خدا عزوجل کا مسافر بن گیا ۔
حضرت سیدنا محمد بن عبدالعزیز علیہ رحمۃ اللہ المجید فرماتے ہیں:'' خدا عزوجل کی قسم! یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ عزوجل
بے حساب رزق عطا فرماتا ہے ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدنامالک بن انس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں، حضرت سیدنا یونس بن یوسف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے زمانے کے مشہور اولیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ میں سے تھے ۔ زیادہ تر وقت مسجد میں گزارتے اور اپنے رب عزوجل کی عبادت میں مشغول رہتے۔ عالمِ شباب تھا ۔انہوں نے اپنی جوانی اللہ عزوجل کی عبادت کے لئے وقف کی ہوئی تھی۔ ایک مرتبہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مسجد سے باہر آرہے تھے کہ اچانک راستے میں ایک نوجوان عورت پر نظر پڑگئی اور دل کچھ دیر کے لئے اس کی طرف مائل ہوگیا لیکن پھر فوراََ اپنے اس فعل پر نادم ہوئے اور بارگاہ الٰہی عزوجل میں دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور ان الفاظ میں دعا مانگنے لگے :''اے میرے پاک پروردگار عزوجل !بے شک تُو نے مجھے آنکھیں عطا فرمائیں جو کہ بہت بڑی نعمت ہے لیکن مجھے خطرہ لگ رہا ہے کہ کہیں ان آنکھوں کی وجہ سے میں عذاب میں مبتلا نہ ہو جاؤں اور یہ آنکھیں میرے لئے ہلاکت کا با عث نہ بن جائیں، اے میرے پاک پروردگار عزوجل! تُو میری آنکھوں کی بینائی سلب کرلے۔'' جیسے ہی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ دعا سے فارغ ہوئے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بینائی ختم ہوچکی تھی اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نابینا ہوگئے تھے ۔
چنانچہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے بھتیجے کو اپنے ساتھ رکھتے جو نماز وں کے اوقات میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کومسجد تک لے جاتا اور دیگر حاجات میں بھی آپ اس سے مدد لیتے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا بھتیجا آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو مسجد میں چھوڑ جاتا اور خود بچوں کے ساتھ کھیلنے لگتا۔ جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو کوئی حاجت درپیش ہوتی تو اسے بلالیتے اسی طر ح وقت گزرتا رہا ۔
ایک مرتبہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مسجد میں تھے کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو اپنے جسم پر کوئی چیز رینگتی ہوئی محسوس ہوئی، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بھتیجے کو آوازدی لیکن وہ بچو ں کے ساتھ کھیل میں مگن رہا اور آپ کے پاس نہ آسکا ۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو خطرہ تھا کہ کوئی نقصان نہ پہنچا دے ۔ چنانچہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں دوبارہ فریاد کی اور ان الفاط کے ساتھ اپنے مالک حقیقی سے دعامانگنے لگے:''اے میرے رحیم و کریم پر وردگار عزوجل! تُو نے مجھے آنکھوں کی دولت سے نوازا جو کہ بہت بڑی نعمت تھی لیکن پھر مجھے خوف ہوا کہ کہیں ان آنکھوں کے غلط استعمال کی وجہ سے میں مبتلائے عذاب نہ ہو جاؤں، چنانچہ میں نے تجھ سے دعا کی کہ میری بینائی سلب کرلے، اے میرے مولیٰ عزوجل !اب مجھے یہ خوف ہے کہ اگر میری بینائی واپس لوٹ کر نہ آئی تو کہیں یہ میرے لئے آزمائش اور رسوائی کاباعث نہ بن جائے کیونکہ مَیں اب دیکھ تونہیں سکتا،کوئی مؤذی جانور مجھے نقصان پہنچا سکتا ہے اور باربار اپنی حاجتوں کو پورا کرنے کے لئے دوسرو ں کی مدد درکار ہوتی ہے جس سے مجھے بڑی کوفت ہوتی ہے ، اے میرے مالک ومختار پروردگار عزوجل !مجھے میری بینائی لوٹا دے تا کہ میں رسوائی او رلوگوں کی محتاجی سے بچ جاؤں۔''"
" حضرت سیدنا مالک بن انس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ ابھی وہ مرد صالح اپنی دعا سے فارغ بھی نہ ہوا تھا کہ اس کی بینائی واپس لوٹ آئی اور اب وہ خود دوسروں کی مدد کے بغیر اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگیا ۔
میں نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو دونوں حالتو ں میں دیکھا یعنی اس حال میں بھی دیکھا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بینائی ختم ہو چکی تھی اور اس حالت میں بھی دیکھا کہ دعا کی برکت سے آپ کو دوبارہ آنکھوں کی نعمت عطا کردی گئی اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پہلے کی طر ح اب بھی خود مسجد کی طرف جاتے اور اپنے رب عزوجل کی عبادت کرتے ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)
ّ (میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!سبحان اللہ عزوجل! ہمارے اسلاف رحمہم اللہ تعالیٰ کیسے عظیم لوگ تھے کہ انہیں یہ بات تو منظور تھی کہ ہماری آنکھیں ضائع ہوجائیں لیکن وہ اللہ عزوجل کی نافرمانی کو کبھی بھی بر داشت نہ کرتے۔ جب وہ دیکھتے کہ یہ چیز ہمارے لئے آخرت کے معاملے میں نقصان دہ ہے تو اس سے بالکل پرہیزکرتے، اللہ عزوجل اپنے ایسے پاکیزہ صفات لوگو ں کی دعائیں بہت جلد قبول فرماتا ہے اور انہیں کبھی رُسوا نہیں کرتا نہ ہی دوسرو ں کا محتا ج کرتا ہے۔ اللہ عزوجل ان بزرگوں کے صدقے ہمیں بھی نعمتو ں کی صحیح قدرکرنے کی تو فیق عطا فرمائے ا ور برے اعمال کی طرف رغبت دلانے والی چیز وں سے بیزار ی اور بچنے کی توفیق عطا فرمائے ،ہمیں صرف اپنا ہی محتاج رکھے ،حضورنبی کریم ،رء ُوف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے صدقے ہماری دعاؤں کو قبول فرمائے ، ہمارے ہر ہر عضو کو اپنی یادمیں مگن رکھے، بد نگاہی جیسی بری بیماری سے ہماری حفاظت فرمائے ۔اے ہمارے پیارے اللہ عزوجل !اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی نیچی نیچی نظر وں کا واسطہ ہماری بے باکیوں اور غفلتو ں سے در گزر فرما اور ہماری دائمی مغفرت فرما۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)
؎ یا الٰہی(عزوجل)! رنگ لائیں جب مری بے باکیاں اُن کی نیچی نیچی نظرو ں کی حیا کا ساتھ ہو"
حضرت سیدنا عبدالرحمن بن احمد علیہ رحمۃ اللہ الصمد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک بوڑھی عورت حضرت سیدنا بقی بن مخلدعلیہ رحمۃ اللہ الصمد کی بارگاہ میں حاضر ہوئی او ر بڑے غمگین انداز میں یوں عرض گزار ہوئی:'' حضور! میرے جوان بیٹے کو رومیوں نے قید کرلیا ہے او روہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ان کے ظلم وستم کا نشانہ بن رہا ہے۔ میرے پاس اِتنی رقم نہیں کہ مَیں فدیہ
"دے کر اسے آزاد کر الوں، میری ملکیت میں صر ف ایک چھوٹا سا گھر ہے جسے میں بیچ بھی نہیں سکتی ، اپنے لختِ جگر کی جدائی کے غم نے میرے دن کا سکون اور راتوں کی نیند اُڑا دی ، مجھے ایک پَل سکون میسر نہیں، خدا را! میری حالتِ زار پر رحم فرمائیں، اگر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کسی صاحبِ حیثیت سے کہہ دیں گے تو وہ فدیہ دے کر میرے بیٹے کو آزاد کرالے گا اور اس طر ح مجھے قرار نصیب ہوجائے گا ۔''
اس بوڑھی ماں کی یہ مامتا بھری باتیں سن کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اسے تسلی دیتے ہوئے فرمایا: ''محترمہ !اللہ عزوجل پر بھروسہ رکھووہ ضرور کرم فرمائے گا ، میں آپ کے معاملے کو حل کرنے کو شش کرتا ہوں ، آپ بے فکر ہوجائیں۔'' جب دکھیاری ماں نے ڈھارس بندھانے والی یہ باتیں سنیں تو دعائیں دیتی ہوئی وہاں سے رخصت ہوگئی ۔
راوی کہتے ہیں کہ جب وہ بڑھیا وہاں سے چلی گئی تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سرجھکا کر بیٹھ گئے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مبارک ہونٹوں کو جنبش ہوئی اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کچھ پڑھنے لگے لیکن ہم آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے کلام کو نہ سن سکے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کافی دیر تک اسی حالت میں رہے ۔
کچھ عرصہ بعد وہی بوڑھی عورت اپنے جوان بیٹے کے ساتھ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ وہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو دعائیں دے رہی تھی اور آپ کا شکر یہ ادا کر رہی تھی ،پھر کہنے لگی :''حضور! آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بر کت سے میرے بیٹے کو اللہ عزوجل نے قید سے رہائی عطا فرمادی ہے ۔ اس کا واقعہ بڑا عجیب ہے، یہ خود اپنی رہائی کا واقعہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے سامنے بیان کر نا چاہتا ہے۔''یہ سن کر آپ نے فرمایا:'' اے نوجوان! اپنا واقعہ بیان کرو ۔''تو وہ کہنے لگا :
جب مجھے رومیوں نے قید کرلیا تو انہوں نے مجھے چند اور قیدیوں کے ساتھ شامل کر دیا۔ وہ ہم سے بہت زیادہ مشقت والے کام کر واتے ۔ پھر ہم چند قیدیوں کو ایک بڑے شاہی عہدہ دار کے پاس بھیج دیا گیا ۔ اس کی ملکیت میں بہت سارے باغات تھے اور وہ بہت بڑی جاگیر کا مالک تھا ، وہ ہمارے پاؤں میں بیڑیاں ڈال کر سپاہیوں کی نگرانی میں اپنے با غا ت اور کھیتو ں میں کام کرنے کے لئے بھیجتا ۔ہم سارا دن زنجیرو ں میں جکڑے ہوئے جانوروں کی طر ح کام کرتے پھر شام کو واپس ہمیں قیدخانہ میں ڈال دیا جاتا۔ اس طرح ہم ان کی قید میں مشقتیں بر داشت کررہے تھے ۔
ایک دن ایسا ہوا کہ جب شام کو ہمیں واپس قید خانے کی طر ف لایا جارہا تھا تو یکایک میرے پاؤں میں بندھی ہوئی مضبوط بیڑیاں خود بخود ٹو ٹ کر زمین پر آپڑیں، جب سپاہیوں کو خبرہوئی تو وہ میری طر ف دوڑے او رچیختے ہوئے کہنے لگے : ''تُو نے بیڑیاں کیوں توڑ ڈالیں؟ ''میں نے کہا :''بیڑیاں خود بخود ٹوٹ گئیں ہیں ، مَیں نے تو ان کو ہاتھ بھی نہیں لگایا،اگر تمہیں یقین"
"نہیں آتا تو دو سرے قیدیوں سے پوچھ لو۔'' نوجوان کی یہ بات سن کر سپاہی بہت حیران ہوئے او رانہوں نے جاکر اپنے افسر کو یہ واقعہ بتا یا وہ بھی حیران ہوااور اس نے فوراَ ایک لوہا ر کو بلایا اور کہا: ''اس نوجوان کے لئے مضبو ط سے مضبوط بیڑیاں تیار کرو ، لوہار نے پہلی بیڑیوں سے مضبوط بیڑیاں تیار کیں ۔ مجھے دوبارہ پابندِ سلاسل کر دیا گیا۔ ابھی میں ان بیڑیوں میں چندقدم ہی چلا ہوں گا کہ وہ بھی خود بخود ٹوٹ کر زمین پر گر پڑیں۔
یہ منظر دیکھ کر سارے لوگ بہت حیران ہوئے اور انہوں نے باہم مشورہ سے ایک راہب کو بلایا اور اسے ساری صورتحال سے آگاہ کیا۔ راہب نے ساری گفتگو سن کر مجھ سے پوچھا: ''اے نوجوان! کیا تمہاری والدہ زندہ ہے؟ ''میں نے کہا :''ہاں ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عزوَجَلَّ !میری ماں زندہ ہے۔'' راہب میری بات سن کر ان لوگوں کی طرف متوجہ ہوااور کہنے لگا:'' اس نوجوان کی والدہ نے اس کے لئے دعا کی ہے، اس کی دعاؤں نے اس نوجوان کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے اور اللہ عزوجل نے اس کی ماں کی دعا قبو ل فرمالی ہے، اب چاہے تم اسے کتنی ہی مضبوط زنجیروں میں قید کر و یہ پھر بھی آزاد ہو جائے گا لہٰذا بہتر ی اسی میں ہے کہ اسے آزاد کردو جس کے ساتھ ماں کی دعائیں ہوں اس کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔'' راہب کی یہ بات سن کران رومیوں نے مجھے آزاد کردیا اور مجھے اسلامی سر حد تک چھوڑ گئے۔
جب اس نوجوان سے وہ دن اور وقت پوچھا گیاجس دن اس کی بیڑیاں ٹوٹی تھیں تو وہ وہی دن تھا جس دن بڑھیا حضرت سیدبقی بن مخلد علیہ رحمۃ اللہ الصمد کی بارگاہ میں حاضر ہوئی تھی اور اس نے دعا کے لئے عرض کی تھی او رآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس کے بیٹے کے لئے دعا کی تھی۔ اسی دن اوراسی وقت نوجوان کو روم میں وہ واقعہ پیش آیا ، اس طرح ماں کی دعاؤں اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی برکت سے اس نوجوان کو رہائی حاصل ہوئی ۔
؎ نگاہِ ولی میں وہ تا ثیر دیکھی بدلتی ہزارو ں کی تقدیر دیکھی
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اسی طرح کا واقعہ ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے کے ساتھ بھی پیش آیا، چنانچہ مروی ہے کہ حضرت سیدنا عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرزندِ ارجمند کو مشرکین نے قید کرلیا ۔ حضر ت سیدنا عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرکارِ مدینہ ،راحتِ قلب وسینہ ،باعثِ نزولِ سکینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہ بے کس پناہ میں حاضر ہوئے اور اپنے بیٹے کی قید کے متعلق بتایا اور پھر یہ بھی بتایا کہ آج کل ہم بہت تنگی کے عالم میں زندگی گزار ر ہے ہیں ۔ یہ سن کر نبی ئکریم، رء ُ وف ورحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ''اللہ عزوجل سے ڈرو،صبر کرو اور لَا حَوْلَ ولَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم کی"
"کثرت کرتے رہو ۔'' یہ سن کر حضرت سیدنا عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھر تشریف لے آئے۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجہ محترمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے بیٹے کی وجہ سے بہت پریشان تھیں ، جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا کہ حضور نبی کریم ،رء ُوف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشادفرمایا ہے کہ'' لَا حَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّابِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم کی کثرت کرو۔''تو دو نوں نے لا حول شریف پڑھنا شرو ع کردیا،ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ دروازے پر کسی نے دستک دی۔ جب باہر جاکر دیکھا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیٹا سامنے موجود تھا اور اس کے ساتھ کافرو ں کی چار ہزار بکریاں بھی تھیں ۔ ان کے بیٹے نے بتا یا کہ دشمنوں نے مجھے قید کرلیا اور مجھ سے بکریاں چروانے لگے ،آج میں نے دشمن کو غافل پایا تو ان کی بکریاں لے کر وہاں سے بھاگ آیا، انہیں میرے بھاگنے کی خبر تک نہ ہوئی ۔
اپنے بیٹے کو اپنے پاس دیکھ کر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت خوش ہوئے اور حضور نبی کریم ،رء ُوف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کی:'' میرا بیٹا دشمن کی قید سے بھاگ آیا ہے اور ان کی چار ہزار بکریاں بھی ساتھ لایا ہے ،کیا یہ بکریاں ہمارے لئے حلال ہیں؟ ''توحضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے فرمایا: ''ہاں(یہ تمہارے لئے حلال ہیں) ۔''
اس وقت سورہ طلاق کی مندرجہ ذیل آیت مبارکہ نازل ہوئی :"
وَ مَنۡ یَّـتَّقِ اللہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا ۙ﴿2﴾وَّ یَرْزُقْہُ مِنْ حَیۡثُ لَا یَحْتَسِبُ ؕ وَ مَنۡ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللہِ فَہُوَ حَسْبُہٗ ؕ اِنَّ اللہَ بَالِغُ اَمْرِہٖ ؕ قَدْ جَعَلَ اللہُ لِکُلِّ شَیۡءٍ قَدْرًا ﴿3﴾ (پ28،الطلاق:2،3)
ترجمہ کنزالایمان: اور جو اللہ سے ڈرے اللہ اس کے لئے نجات کی راہ نکال دے گااوراسے وہاں سے روزی دے گاجہاں اس کا گمان نہ ہواور جو اللہ پر بھروسہ کرے تو وہ اسے کافی ہے بےشک اللہ اپنا کام پورا کرنے والا ہے بےشک اللہ نے ہر چیز کا ایک اندازہ رکھاہے۔
(تفسیرقرطبی،سورۃ الطلاق،تحت الآیۃ:''وَمَنْ یَّتَّقِ اللہَ الٰی۔۔ لَا یَحْتَسِبُ''،ج ۱۷،ص۱۴۳۔۱۴۴)
" یہ آیتیں بڑی ہی بابر کت اور عظمت والی ہیں۔ ان کے متعلق سرکارِ دو عالم ، نورِ مجسَّم ،شاہِ بنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشادفرمایا:'' جو شخص ا س آیت کو پڑھے اللہ تعالیٰ اس کے لئے شبہاتِ دُنیا، غمراتِ موت اوربروزِ قیامت سختیوں سے خلاصی کی راہ نکالے گا۔'' اور اس آیت کی نسبت نبی ئ کریم ،رء ُوف رحیم صلَّی ا للہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے یہ بھی فرمایا: ''میرے علم میں ایک ایسی آیت ہے جسے لوگ محفو ظ کرلیں تو ان کی ہر ضرورت وحاجت کے لئے کافی ہے ۔تفسیر خزائن العرفان،سورۃ الطلاق، تحت الآیۃ:۲۔۳)
(یہ آیت مبارکہ نہایت مُجرّب ہے جسے کوئی پریشانی ہو، دنیا وی تکالیف کا سامنا ہو، فکر معاش دامن گیر ہو، دشمن کا خوف ہو یا"
دشمن کی قید میں ہو تواس آیت کو کامل یقین کے ساتھ پڑھے اِن شاء للہ عزوجل تمام پر یشانیوں سے نجات حاصل ہو جائے گی، خوشحالی اور فراخی حاصل ہوگی۔ اس کے علاوہ اُخروی نجات کے لئے بھی یہ آیت مبارکہ بہت مفید ہے۔چنانچہ اس کا وِرد کرتے رہنا چاہے، اللہ عزوجل ہمیں قرآن پاک کی تلاوت اور اس کے اَحکام پر عمل پیرا ہونے کی تو فیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)
" حضرت سیدنا مسمع بن عاصم علیہ رحمۃ اللہ المُنعم سے مروی ہے کہ حضرت سیدتنا رابعہ عدویہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا بہت زیادہ عبادت کیا کرتیں۔ ساری ساری رات قیام فرماتیں، دن کو رو زہ رکھتیں اور تلاوت قرآن پاک کیا کرتیں۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا کا ہرہر لمحہ یادِ الٰہی عزوجل میں گزرتا ۔
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ میں بہت زیادہ بیمار ہوگئی جس کی وجہ سے میں تہجد کی دولت سے محروم رہی اور دن کو بھی اپنے پاک پروردگار عزوجل کی عبادت نہ کر سکی،بیماری کی وجہ سے بہت زیادہ کمزوری آگئی،اسی طرح کئی دن گزرگئے مجھے اپنی عبادت چھوٹ جانے کا بہت افسوس ہو ا لیکن اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ!بیماری کی حالت میں بھی جتنا مجھ سے ہوسکتا میں عبادت کی کوشش کرتی ، کبھی دن میں نوافل کی کثرت کرتی ،کبھی رات کونوافل پڑھتی۔اسی طرح کئی دن گزر گئے ۔
پھر اللہ عزوجل نے کرم فرمایا او رمجھے صحت عطا فرمائی میں نے دو بارہ نئے جذبے کے ساتھ عبادت شروع کردی۔ سارا سارا دن عبادت الٰہی عزوجل میں گزر جاتا اور اسی طر ح رات کو بھی عبادت کرتی ۔
ایک رات مجھے نیند نے آلیا اور میں غافل ہو کر سوگئی۔ میں نے خواب دیکھاکہ میں فضاؤں میں اُڑ رہی ہوں ،پھر میں ایک سر سبز و شاداب با غ میں پہنچ گئی ۔ وہ باغ اتنا حسین تھا کہ میں نے کبھی ایسا با غ نہ دیکھا۔ اس باغ میں بہت خوبصورت محل تھے، ہر طر ف بلند و بالا،سر سبز درخت تھے، جگہ جگہ پھولوں کی کیا ریاں تھیں ، درخت پھلوں سے لدے ہوئے تھے ، میں اس باغ کے حسن وجمال کے نظارو ں میں گم تھی کہ یکایک مجھے ایک سبز پر ندہ نظرآیا، وہ پرند ہ اتنا خوبصورت تھا کہ اس سے پہلے میں نے کبھی ایسا پرندہ نہ دیکھا تھا، ایک لڑکی اسے پکڑنے کے لئے بھا گ ر ہی تھی، میں اس خوبصورت لڑکی اور خوبصورت پرندے کو بغور دیکھنے لگی اتنی دیر میں وہ حسین وجمیل لڑکی میری طرف متوجہ ہوئی۔ میں نے اس سے کہا: ''یہ پرندہ بہت خوبصورت ہے ،تم اسے"
"آزادی کے ساتھ گھومنے دو اور اسے مت پکڑو۔''
میری بات سن کر اس لڑکی نے کہا:'' کیا تمہیں اس سے بھی زیادہ خوبصورت چیز نہ دکھاؤں؟ ''میں نے کہا: ''ضرور دکھاؤ۔'' یہ سن کر اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے لے کر مختلف با غات سے ہوتی ہوئی ایک عظیم الشان محل کے دروازے پر پہنچ کر دستک دی۔ دروازہ فوراََ کھول دیا گیا،اند ر کا منظر بہت سہانا تھا ، دروازہ کھلتے ہی ایک خوبصورت باغ نظر آیا، وہ لڑکی مجھے لے کر باغ میں آئی اور پھر ایک خیمے کی جانب چل دی۔ میں بھی ساتھ ساتھ تھی ۔ اس نے حکم دیا کہ خیمے کے پر دے ہٹا دیئے جائیں ۔ جیسے ہی خادموں نے پردے ہٹائے تو اندر ایسی نورانی کرنیں تھیں جنہوں نے آس پاس کی تمام چیزوں کو منور کررکھا تھا۔ پورا خیمہ نور سے جگمگا رہا تھا۔ وہ لڑکی اس خیمے میں داخل ہوئی اور پھر مجھے بھی اندر بلالیاوہاں بہت ساری نوجوان کنیزیں موجود تھیں جن کے ہاتھوں میں عود (یعنی خوشبو) سے بھرے ہوئے برتن تھے اور وہ کنیز یں عود کی دھونی دے رہی تھیں۔''
یہ دیکھ کر اس لڑکی نے کہا : ''تم سب یہاں کیوں جمع ہو؟ یہ اتنا اِہتمام کیوں کیا جارہاہے؟ اورتم کس لئے خوشبو کی دھونی دے رہی ہو؟'' تو ان کنیزوں نے جواب دیا:'' آج ایک مجاہد راہِ خدا عزوجل میں شہید ہوگیاہے ، ہم اس کے اِستقبال کے لئے یہاں جمع ہیں او ریہ سارا اِہتمام اسی مرد مجاہد کی خاطر کیا جا رہا ہے ۔''
اس لڑکی نے میری جانب اشارہ کیا اور پوچھا:'' کیا ان کے لئے بھی کوئی اہتمام کیا گیاہے؟''تو ان کنیز وں نے کہا : ہاں، اس کے لئے بھی اس طر ح کی نعمتوں میں حصہ ہے ۔''پھر اس لڑکی نے اپنا ہاتھ میری طر ف بڑھایا اور کہا:''اے رابعہ عدویہ!جب لوگ نیند کے مزے لے رہے ہوں اس وقت تیرا نماز کے لئے کھڑا ہونا تیرے لئے نور ہے اور نماز سے غافل کردینے والی نیند سر اسر غفلت اور نقصان کا باعث ہے ، تیری زندگی کے لمحات تیرے لئے سواری کی مانند ہیں اور جو شخص دنیاوی زندگی میں مگن رہے اور اپنی زندگی کے قیمتی لمحات کو فضول کاموں میں گزار دے تو وہ بہت بڑے خسارے میں ہے ۔''
یہ نصیحت آموز کلمات کہنے کے بعد وہ لڑکی میری آنکھوں سے اوجھل ہوگئی اور میری آنکھ کُھل گئی ۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا فرماتی ہیں: ''جب بھی مجھے یہ خواب یاد آتا ہے تومیں بہت زیادہ حیران ہوتی ہوں۔ ''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدنا ن میر مدنی علیہ رحمۃ اللہ الولی سے مروی ہے، خلیفہ منصور جب مدینہ منورہ میں ایا تو اس وقت حضرت سیدنا محمد بن عمران طلحی علیہ رحمۃ اللہ القوی مدینہ منورہ میں عہدہ قضاء پر فائز تھے ۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بہت عادل و جرأت مند قاضی تھے۔ حق دار کو اس کا حق دلواتے اگر چہ مدِمقابل کتنا ہی اثر و رُسوخ والا ہو آپ اس معاملے میں بالکل رعایت نہ کرتے۔
میں ان کا کا تب تھا۔جب خلیفہ منصور مدینہ منورہ میں حاضر ہو ا توکچھ لوگو ں نے خلیفہ کے خلاف قاضی کی عدالت میں دعوی کیا: ''ہمارے اونٹ ناجائز طریقے سے خلیفہ نے چھین لئے ہیں لہٰذا ہمیں انصاف دلایا جائے ۔'' ان غریب لوگوں کی فریاد سن کر حضرت سیدنا محمد بن عمران طلحی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے مجھے حکم فرمایا: اے نمیر(علیہ رحمۃ اللہ القدیر)! فوراََخلیفہ کی جانب پیغام لکھو: ''چند لوگوں نے آپ کے خلاف دعوی کیا ہے اور وہ انصاف چاہتے ہیں لہٰذا آپ پر لازم ہے کہ فورا ًتشریف لائیں تا کہ فریقین کی موجود گی میں شرعی فیصلہ کیا جاسکے ۔''
حضرت سیدنا ن میر علیہ رحمۃاللہ القدیر فرماتے ہیں کہ میں نے قاضی صاحب سے عرض کی:'' حضور! مجھے اس معاملہ سے دور ہی رکھیں، خلیفہ میری لکھائی کو پہچا نتا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ میں کسی مشکل میں پھنس جاؤں۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ''اے نمیر(علیہ رحمۃ اللہ القدیر)!یہ پیغام تم ہی لکھو گے اور تم ہی اسے لے کر خلیفہ کے پاس جاؤ گے ، جلدی کر و اور پیغام لکھو۔'' میں نے جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی یہ با ت سنی تو پیغام لکھا اس پر مہر لگائی۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ''اب جلدی سے یہ خط لے کر خلیفہ کے پاس جاؤ۔'' چنانچہ مجھے مجبوراًجاناہی پڑا۔ میں سیدھا خلیفہ منصور کے مشیر خاص ربیع کے پاس گیااور اسے صورتحال سے آگاہ کرنے کے بعد کہا: ''آپ یہ پیغام خلیفہ تک پہنچا دیں ،مجھ میں اتنی ہمت نہیں۔'' ربیع نے کہا :'' تم خود ہی جاکر خلیفہ کو قاضی کا خط دو ۔''
لہٰذا چار وناچارمجھے ہی خلیفہ کے پاس جاناپڑامیں نے جا کر اسے قاضی صاحب کا خط دے دیا اور فوراََ واپس چلا آیا۔ حضرت سیدنا محمد بن عمران طلحی علیہ رحمۃاللہ القوی عدالت میں بیٹھے تھے اور لوگو ں کے مسائل حل فرما رہے تھے ۔وہاں مدینہ منورہ کے بڑے بڑے علماء کرا م ر حمہم اللہ تعالیٰ ،اُمراء اور دیگر لوگ کافی تعدا د میں موجود تھے ۔ اتنی ہی دیر میں خلیفہ منصور کا مشیر خاص ربیع کمرہ عدالت میں آیا اور اس نے خلیفہ منصور کا پیغام سنایا:
اے لوگو! خلیفہ نے آپ سب کو سلام بھیجا ہے او رکہا ہے کہ مجھے بطورِ مدعا علیہ (یعنی جس پر دعوی کیا جائے) عدالت میں طلب کیا گیاہے لہٰذا مجھ پرعدالت میں حاضر ہونالازم ہے۔ تمام لوگو ں کو تا کید ہے کہ جب میں آؤں تو کوئی بھی میری تعظیم کے لئے کھڑا نہ ہو اور نہ ہی کو ئی سلام کرنے کے لئے میری طرف بڑھے ۔"
" لوگوں کو خلیفہ کا پیغام سنانے کے بعدربیع وہاں سے چلاگیا،میں بھی ساتھ تھا۔ کچھ ہی دیر بعد خلیفہ منصور ، ربیع اور مسیب کے ساتھ آیا۔میں بھی اس کے پیچھے تھا۔ خلیفہ کو دیکھ کر مجلس سے کوئی شخص بھی تعظیم کے لئے کھڑا نہ ہوا اور نہ ہی کسی نے سلام میں پہل کی بلکہ خود خلیفہ نے آتے ہی لوگو ں کوسلام کیا پھر وہ رسول کریم،رء ُوف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی قبرِ اَنور پر حاضر ہوا، صلوٰۃوسلام پیش کرنے کے بعد ربیع سے کہا :'' اگر آج قاضی محمد بن عمران طلحی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے میرے ساتھ نرمی کا بر تا ؤ کیا اور میرے منصب کی وجہ سے کوئی غلط فیصلہ کیا تو میں اسے فورا ً معزول کردو ں گا ۔''
پھر خلیفہ منصور ،قاضی کی عدالت میں آیا اس وقت اس کے جسم پر چادر تھی اور ایک تہبند تھا۔ جب حضرت سیدنا محمد بن عمران طلحی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے خلیفہ کو دیکھا تو ذرہ برابر بھی مرعوب نہ ہوئے اور اپنی نششت پربیٹھے رہے ۔خلیفہ منصور کی چادر اس کے کندھے سے گر گئی تو کسی نے بھی اسے چادر اٹھا کر نہ دی بلکہ اس نے خود ہی اپنی چادر اٹھائی۔
قاضی محمد بن عمران علیہ رحمۃ اللہ المنان نے مقدمہ کی کاروائی شر وع کرتے ہوئے دونوں فریقوں کو اپنے سامنے بلایا۔ پھر مدعیین (یعنی دعوی کرنے والوں) سے پوچھا :''تمہارا خلیفہ پر کیا دعوی ہے؟'' انہوں نے کہا:'' ہمارے اُونٹوں کو جبراً چھینا گیا ہے۔'' چنانچہ قاضی صاحب نے خلیفہ وقت کے خلاف ان لوگو ں کے حق میں فیصلہ کردیا اور بالکل رُورعایت سے کام نہ لیا اور خلیفہ سے کہا: ''ان غریبوں کوان کا پورا پورا حق دیا جائے ۔'' چنانچہ انہیں خلیفہ کی طر ف سے ان کے اُونٹ واپس کردیئے گئے ۔
اس فیصلہ کے بعد خلیفہ منصور اپنی قیام گاہ کی طرف روانہ ہوگیا ۔ قاضی صاحب لوگو ں کے مسائل حل کرنے میں مشغول رہے اور خلیفہ کی طرف بالکل تو جہ نہ دی۔ پھر خلیفہ نے ربیع کو بلایا اور کہا:'' جاؤ اور قاضی صاحب کو بلا کر لا ؤ ۔''ربیع نے کہا: ''خدا عزوجل کی قسم !قاضی صاحب اس وقت تک آپ کے پاس نہیں آئیں گے جب تک مجلس میں موجود تمام فریا د یو ں کی فریاد نہ سن لیں۔ بہر حال میں چلا جاتاہوں اور آپ کا پیغام ان تک پہنچا دیتا ہوں۔''
چنانچہ ربیع، قاضی محمد بن عمران علیہ رحمۃ اللہ المنان کے پاس آیا اور اسے خلیفہ منصور کا پیغام د ے کر واپس آگیا ۔ قاضی صاحب لوگوں کے مسائل سنتے رہے اور فیصلے کرتے رہے جب سب لوگ چلے گئے اور مجلس بر خاست ہوگئی تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ خلیفہ منصورکے پاس گئے ، اسے سلام کیا ۔ خلیفہ نے سلام کا جواب دیا اورقاضی صاحب سے یوں مخاطب ہوئے :
اے مرد مجاہد!اے جرأ ت مند قاضی محمد بن عمران ! اللہ عزوجل تجھے تیرے دین کی طر ف سے تیری ذہانت، جرأت مندی اور اچھا فیصلہ کرنے پر اچھا بدلہ عطا فرمائے ، اللہ عزوجل تیرے حسب ونسب میں برکتیں عطا فرمائے پھر خلیفہ منصور نے خادم کو حکم دیا کہ دس ہزار دینار اس مردِ مجاہد قاضی کو ہماری طر ف سے بطور ِانعام پیش کئے جائیں۔ چنانچہ حضرت سیدنا محمد بن عمران علیہ رحمۃ اللہ المنان کو دس ہزار دینار بطور ِانعام پیش کئے گئے، پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وہاں سے واپس اپنی رہائش گاہ کی طر ف چلے آئے ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" (میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!سبحان اللہ عزوجل ! ہمارا دینِ اسلام کتناعظیم دین ہے کہ اس نے آکر تمام لوگوں کو ایک ہی صف میں کھڑاکر دیا۔ چاہے کو ئی با دشاہ ہو یا فقیر۔ جب حقوق العباد کا معاملہ ہو تو جس کا حق ثابت ہوجائے اُسے اس کاپورا پورا حق اداکرنے کا حکم دیا اور اللہ عزوجل نے دین اسلام میں ایسے ایسے مردانِ مجاہدپیدا فرمائے جو کبھی بھی حق سے روگردانی نہیں کرتے۔ ہمیشہ مظلوموں کا ساتھ دیتے ہیں ،چاہے اس کے لئے با دشاہوں سے بھی ٹکر کیوں نہ لینی پڑے ، دین اسلام نے ہمیں مساوات کا درس دیا، اللہ عزوجل ہمیں ہمیشہ حق کا ساتھ دینے کی تو فیق عطا فرمائے اور دین اسلام پر ہی ہمارا خاتمہ فرمائے۔ کتنا پیارا ہے ہمارا دین جس نے مساوات وبرابری کا درس دیا۔ آمین بجاہ ِالنبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)
؎ ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود وایاز نہ کو ئی بندہ رہا نہ کو ئی بندہ نواز"
" حضرت سیدنا مصعب بن عبد اللہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:''خلیفہ ہارون الرشید علیہ رحمۃ اللہ المجید کا دورِ خلافت تھا، حضرت سیدنا عبید بن ظبیان علیہ رحمۃ اللہ المنان رِقّہ(یعنی شہر) کے قاضی تھے اور اس شہر کا امیر (یعنی گورنر) عیسیٰ بن جعفر عبا سی تھا، حضرت سیدنا عبید بن ظبیان علیہ رحمۃ اللہ المنان ایک با ہمت، عادل اور رحم دل قاضی تھے، کسی پر ظلم برداشت نہ کرتے اور حق دار کو حق دلوا کر ہی دم لیتے۔
ایک مرتبہ ان کی عدالت میں ایک شخص آیا اور اس نے گورنر ''عیسیٰ بن جعفر'' کے خلاف دعوی کیا کہ اس نے مجھ سے پانچ لاکھ درہم لئے تھے اور اب دینے سے انکار کر رہا ہے، خدارا! مجھے میرا حق دلوایا جائے،جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس کی بات سنی تو فوراً کاتب کو بلایا اور فرمایا:'' امیرِشہر کے نام پیغام لکھو، کاتب نے پیغام لکھا، جس کا مضمون کچھ اس طرح تھا:
''اے ہمارے امیر! اللہ عزوجل آپ کو سلامت رکھے، اپنی نعمتیں آپ پر نچھاور فرمائے ، آپ کو اپنی حفظ وامان میں رکھے۔
آج میرے پاس ایک شخص نے دعوی درج کرایا ہے کہ'' امیرِ شہر نے مجھ سے پانچ لاکھ درہم لے کر واپس نہیں کئے لہٰذا مجھے میرا"
۱ؔ؎:ااس حکایت کاکچھ حصہ عربی متن میں نہیں اس لئے آخری حصہ قدرے تصرف کے ساتھ علامہ محمد صالح فرفورکی کتاب من رشخات الخلود (مترجم) ص۱۴۳سے لیا گیا ہے
"حق دلوایا جائے۔'' اے ہمارے امیر!اب شریعت کا حکم یہ ہے کہ یا تو آپ خود تشریف لائیں یا اپنا کوئی وکیل بھیجیں تاکہ فریقین کی گفتگو سن کر مَیں فیصلہ کر سکوں اور حق واضح ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔والسّلام
قاضی صاحب نے خط پر مہر ثبت فرمائی اور ایک شخص کو وہ خط دے کر امیر(یعنی گورنر) کے پاس بھیج دیا،جب قاصد نے جاکر بتایا کہ قاضی کی طرف سے آپ کو خط آیا ہے تو گورنر نے اس خط کو کوئی اہمیت نہ دی اور اپنے خادم کو بلا کر وہ خط اس کے حوالے کر دیا ۔جب قاصد نے دیکھا کہ قاضی کے خط کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی تو وہ واپس لوٹ آیا اور سارا واقعہ قاضی صاحب کو بتایا۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے دوبارہ خیر خواہی کے جذبے کے تحت خط لکھااور اس میں بھی یہی کہا :''آپ کے خلاف دعوی کیا گیا ہے لہٰذاآپ یا تو خود عدالت میں تشریف لائیں یا اپنے کسی وکیل کو بھیج دیں تاکہ شریعت کے مطابق فیصلہ کیا جا سکے، اللہ عزوجل آپ کو سلامت رکھے ۔پھر آپ نے خط پر مہر لگائی اور دوقاصدوں کو خط دے کر عیسیٰ بن جعفر کے پاس بھیجا ۔جب وہ دونوں قاصد اس کے پاس پہنچے تو اس نے خط دیکھ کر بہت غیض وغضب کااظہارکیا،خط کو زمین پرپھینک دیااورقاصدوں کو بھی ڈانٹا۔چنانچہ دونوں قاصد شرمندہ ہو کرواپس قاضی عبید بن ظبیان علیہ رحمۃ اللہ الحنّان کے پاس آئے اور انہیں سارا واقعہ کہہ سنایا۔
آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے قاصدوں کی بات سُن کر تیسری مرتبہ پھر خط بھیجا اور اس میں لکھا:''اے ہمارے امیر! اللہ عزوجل آپ کی حفاظت فرمائے آپ کو نعمتوں سے مالامال کرے۔آپ کے خلاف دعوی دائر کیاگیا ہے ۔باربارآپ کو توجہ دلائی جارہی ہے کہ یاتوآپ خود عدالت میں آئیں یا اپنے کسی وکیل کو بھیجیں تاکہ فیصلہ کیا جاسکے۔ اگر اس مرتبہ بھی آپ یاآپ کا وکیل نہ آیا تو میں یہ معاملہ خلیفہ ہارون الرشید علیہ رحمۃ اللہ المجید کی خدمت میں پیش کروں گا لہٰذا آپ جلدازجلد اس معاملے کو حل کرنے کی کوشش کریں۔والسّلام
پھر آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے دو آدمیوں کو وہ خط دے کر عیسیٰ بن جعفر کے پاس بھیجا،جب دونو ں قاصد دربار میں پہنچے تو انہیں باہر ہی روک دیا گیا۔کچھ دیر بعد عیسیٰ بن جعفر باہر آیا تو قاصدوں نے اسے قاضی صاحب کا خط دیا۔اس نے خط کی طرف کوئی توجہ نہ دی اور اسے پڑھنا بھی گوارانہ کیا اور پڑھے بغیرپھینک دیا۔قاصد بیچارے شرمندہ ہو کر قاضی صاحب کے پاس آئے اور انہیں سارا واقعہ سنایا، جب آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے یہ دیکھا کہ عیسیٰ بن جعفر اپنے عہدے اور طاقت کے گھمنڈ میں آکر قانون کی خلاف ورزی کر رہا ہے اورمیں حق دار کو اس کا حق نہ دلوا سکاتو آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے اسی سوچ کی بناء پر اپنے تمام کاغذات وغیرہ ایک تھیلے میں بھرے اور گھر کی طرف روانہ ہو گئے اور عدالت میں آنا چھوڑ دیا۔
جب معاملہ طول پکڑگیا اور آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ عدالت میں نہ آئے تو لوگوں نے خلیفہ ہارون الرشید علیہ رحمۃ اللہ المجید کو"
"بتایاکہ ہمارے قاضی صاحب دل برداشتہ ہو کر عہدئہ قضاء سے برطرف ہو گئے ہیں اورانہوں نے عدالت میں آنا چھوڑ دیا ہے۔یہ سن کرخلیفہ ہارون الرشید علیہ رحمۃاللہ المجید نے فوراًآپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کواپنے پاس بلوایا۔جب آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ وہاں پہنچے تو خلیفہ نے پوچھا:'' بتاؤ! تم دل برداشتہ کیوں ہوگئے اور کیوں اس عہدہ سے برطرف ہونا چاہتے ہو؟'' حضرت سیدنا عبید بن ظبیان علیہ رحمۃاللہ المنان نے سارا واقعہ کہہ سنایا کہ میں نے کئی مرتبہ انتہائی نرمی اورباادب طریقے سے عیسیٰ بن جعفر کو پیغام بھجوایا لیکن اس نے بالکل توجہ نہ دی ۔خلیفہ ہارون الرشید علیہ رحمۃ اللہ المجید نے جب قاضی صا حب کی یہ درد بھری داستان سنی تواسی وقت ابراہیم بن اسحاق سے فرمایا:'' فوراً عیسیٰ بن جعفر کی رہائش گاہ پر جاؤ اور اس کے گھر کے تمام راستے بند کر دو کوئی شخص بھی نہ تو باہر آسکے اور نہ ہی اندر جا سکے۔ جب تک عیسیٰ بن جعفر اس مظلوم حق دار کا حق ادا نہیں کریگا وہ اسی طرح نظر بند رہے گا۔ اگر وہ چاہتا ہے کہ اسے اس مصیبت سے آزادی مل جائے تو وہ خود چل کر قاضی کی عدالت میں جائے یا پھر اپنے کسی وکیل کو بھیج دے تاکہ عدالت میں شرعی فیصلہ ہو سکے اور حق واضح ہو جائے۔
حکم پاتے ہی ابراہیم بن اسحاق نے(50) پچاس شہسواروں کو لے کر عیسیٰ بن جعفر کی رہائش گاہ کامحاصرہ کر لیا ۔تمام راستے بندکر دیئے، کسی کوبھی آنے جانے کی اجازت نہ دی گئی ۔
جب عیسیٰ بن جعفر نے یہ حالت دیکھی تو وہ بہت حیران ہوا۔اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ مجھے اس طرح کیوں قید کیا جا رہا ہے؟شاید ہارون الرشید رحمۃاللہ تعالیٰ علیہمجھے قتل کر واناچاہتا ہے لیکن کیو ں؟ آخر میں نے ایسا کون سا جرم کیا ہے؟عیسیٰ بن جعفر بہت پریشان تھا،دوسری طرف اہل خانہ پریشان تھے، وہ چیخ وپکار کر رہے تھے اور رو رہے تھے۔ عیسیٰ بن جعفر نے ان کو خاموش کرایااور ابراہیم بن اسحاق کے ساتھ آئے ہوئے سپاہیوں میں سے ایک کو بلایااور اس سے کہا:'' ابراہیم بن اسحاق کو پیغام پہنچا دوکہ وہ مجھ سے ملاقات کرے میں اس سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔
جب ابراہیم بن اسحاق اس کے پاس آیا تواس نے پوچھا:''خلیفہ نے ہمیں اس طرح قید کیوں کروادیا ہے۔
اس نے بتايا:'' یہ سب قاضی عبیداللہ بن ظبیان (علیہ رحمۃ اللہ المنان) کی وجہ سے کیا گیا ہے انہوں نے تمہاری شکایت کی ہے کہ تم نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے،اور ایک شخص پرظلم کیا ہے۔''جب عیسیٰ بن جعفر کو سارا معاملہ معلوم ہو گیا تواسے احساس ہو گیا کہ مجھے کس جرم کی سزا مل رہی ہے ،میں نے طاقت وعہدے کے نشے میں ایک مظلوم کی بددعا لی جس کی وجہ سے مجھے ذلت ورسوائی کا سامنا کرنا پڑا،واقعی ظلم کا انجام برا ہوتا ہے اور مظلوم کی مدد ضرور کی جاتی ہے مجھے میرے جرم کی سزا مل گئی ہے۔پھر عیسیٰ بن جعفر نے اس شخص کو بلوایا جس سے پانچ لاکھ درہم لئے تھے، اسے وہ درہم واپس کئے، اس سے معذرت کی اور"
"آئندہ کبھی ایسی حرکت نہ کرنے کا پختہ ارادہ کرلیا،اب معاملہ بالکل ختم ہو چکا تھا۔ جب خلیفۃ المسلمین ہارون الرشید علیہ رحمۃ اللہ المجید کو اطلاع ملی کہ عیسیٰ بن جعفر نے مظلوم کا حق ادا کر دیا ہے اور اس سے معافی بھی مانگ لی ہے تواس نے حکم دیا کہ اب محاصرہ ختم کر دیا جائے اور تمام راستے کھول دےئے جائیں۔پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اسے پیغام بھجوایا کہ کبھی بھی کسی پر ظلم نہ کرنا۔ یہ
عہدہ ومنصب سب عارضی چیزیں ہیں، ان کے بَل بوتے پر کسی کو تنگ کرنا بہادری نہیں۔ ہمیشہ خوف خدا عزوجل کو پیش نظر رکھو، انصاف کا دامن کبھی نہ چھوڑو ،اللہ ربُّ العزَّت مظلوموں کو بہت جلد ان کا حق دلوا دیتا ہے۔ ا چھاہے وہ شخص جو اللہ عزوجل کی مخلوق کو خوش رکھے اور اس کی وجہ سے کسی بھی مسلمان کو تکلیف نہ پہنچے ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)
(سبحان اللہ عزوجل! ایسے پاکیزہ دین پر قربان جائیں جس نے ہمیں ایسے ایسے جرأت مندافراد عطا کئے جو حق کی خاطر بڑی سے بڑی طاقت سے بھی ٹکرا جاتے، کسی کی دنیاوی ہیبت وحیثیت انہیں مرعوب نہ کر سکتی تھی،وہ اس وقت تک سُکھ کا سانس نہ لیتے جب تک اہل ِحق کو اس کا حق نہ مل جائے ،انہوں نے غیرِ حق کے سامنے کبھی بھی سر نہیں جھکایا،اسلام میں ایسے ایسے حکمران بھی گزرے جنہوں نے ایک غریب مظلوم فریادی کی فریاد پر گورنروں کو پابندِ سلاسل کردیا اور جب تک حق دار کو حق نہ ملا اس وقت تک قید ہی میں رکھا،اللہ رب العزت ہمیں ایسے با ہمت وعادل حکمران اور قاضی دوبارہ عطا فرمائے جوظالموں کو ظلم کی سزا دیں اور مظلوموں اوربے بسوں کی فریاد رسی کریں ، اللہ رب العزت ہمیں اچھے قا ئدین عطا فرمائے اور ہم سے بھی اپنے دین متین کی خدمت کا کام لے لے، ہمیں خوب خوب سنتوں کی تبلیغ کی توفیق عطا فرمائے اورغیرت ایمانی سے مالامال فرمائے، ہمیں ہر حال میں حق کا ساتھ دینے کی توفیق عطا فرمائے چاہے، اگرچہ اس معاملے میں ہمیں جان ہی کیوں نہ دینی پڑے، اللہ عزوجل ہمارا خاتمہ بالخیرفرمائے ۔اٰمین بجاہ ِالنبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)
؎ غلامانِ محمد جان دینے سے نہیں ڈرتے
یہ سر کٹ جائے یا رہ جائے کچھ پرواہ نہیں کرتے"
" حضرت سیدنا محمدبن یوسف رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ حضرت سیدنا ابو سنا ن علیہ رحمۃ اللہ الحنّان سے نقل کرتے ہیں:'' ایک مرتبہ میں بیت المقدس کی پہاڑیوں میں تھا ،ایک جگہ مجھے انتہائی پریشانی کے عالم میں ادھر اُدھر گھومتاہوا ایک غمگین نوجوان نظر آیا، میں اس کے پاس آیا اور سلام کے بعد اس سے پریشانی کا سبب پوچھاتواس نے بتایا:'' ہمارے ایک پڑوسی کا بھائی فوت ہو گیا ہے، تم میرے ساتھ چلو تاکہ ہم اس کی تعزیت کریں اور اسے تسلی دیں۔''میں اس نوجوان کے ساتھ چل دیا، ہم ایک شخص کے پاس پہنچے جو بہت اداسی کے عالم بیٹھا ہوا تھا ہم نے اسے صبر کی تلقین کی اور تسلی دینے لگے لیکن اس نے ہماری باتیں نہ سنیں اوربے صبری کرتے ہوئے آہ وزاری اور چیخ و پکار کرنے لگا، ہم نے اسے محبت وپیارسے سمجھا تے ہوئے کہا:'' اے اللہ عزوجل کے بندے! اس طرح بے صبری کا مظاہرہ نہ کر، اللہ عزوجل سے ڈر!اور صبر سے کام لے۔بے شک موت ہر کسی کو آنی ہے جس نے بھی زندگی کا سفر شروع کیااس کی منزل وانتہاء موت ہے ۔موت ایک ایسا پُل ہے جس سے ہر ایک نے گزرنا ہے۔ کچھ گزر گئے کچھ گزر رہے ہیں اور کچھ گزر جائیں گے ۔
؎ یاد رکھ! ہر آن آخر موت ہے بن تو مت انجان، آخر موت ہے
مُلکِ فانی میں فنا ہر شے کو ہے سن لگا کر کان، آخر موت ہے
بارہا علمیؔ تجھے سمجھا چکے مان یا مت مان، آخر موت ہے
ہماری یہ باتیں سُن کر وہ شخص کہنے لگا:''میرے بھائیو!تم نے بالکل ٹھیک کہا، تمہاری باتیں بالکل برحق ہیں لیکن میں تو اس لئے رو رہا ہوں کہ میرے بھائی کو قبر میں بڑی پریشانی کا سامنا ہے۔
جب ہم نے اس کی بات سنی توکہا:'' سبحان اللہ عزوجل! کیا تم علمِ غیب جانتے ہو جو تمہیں معلوم ہو گیا کہ تمہارا بھائی قبر میں عذاب سے دو چار ہے؟''تو وہ کہنے لگا:'' میں اس ہولناک منظر کی وجہ سے پریشان ہوں جو میں نے دیکھا ہے۔ آؤ! میں تمہیں تفصیل سے سارا واقعہ سناتا ہوں:۔
جب میرے بھائی کا انتقال ہو گیا توتجہیز وتکفین کے بعد ہم نے اسے قبرستان لے جاکردفن کر دیا، لوگ واپس آگئے میں کچھ دیر قبر کے پاس ہی کھڑا رہا، یکایک میں نے قبر سے ایک دردناک آواز سُنی، میرا بھائی نہایت دردمندانہ انداز میں چیخ رہا تھا: ''مجھے بچاؤ ،مجھے بچاؤ۔'' جب میں نے یہ آواز سنی توکہا:'' واللہ !یہ تو میرے بھائی کی آواز ہے۔''میں نے بے چین ہو کرقبر کھودنا شروع کردی تو ایک غیبی آواز نے مجھے چونکا دیا کوئی کہنے والا کہہ رہاتھا:'' اے اللہ عزوجل کے بندے! اس قبر کو نہ کھودو ،یہ"
"اللہ عزوجل کے رازوں میں سے ایک رازہے، اسے پوشیدہ ہی رہنے دو۔'' آواز سن کر میں قبر کھودنے سے باز رہا پھر میں وہاں سے اُٹھا اور جانے لگا تو مجھے دردناک آواز سنائی دی:''مجھے بچاؤ،مجھے بچاؤ۔''مجھے اپنے بھائی پر ترس آنے لگا اور میں نے دوبارہ قبر کھودنا شروع کر دی،ابھی میں نے تھوڑی سی مٹی ہٹائی تھی کہ پھرمجھے غیبی آواز سنائی دی:'' اللہ عزوجل کے رازوں کو نہ کھولو اور قبر کھودنے سے باز رہو۔'' غیبی آواز سن کر میں نے دوبارہ قبر بند کر دی،اور میں وہاں سے جانے لگا تو پھربڑی دردناک آواز میں میرے بھائی نے مجھے پکارا:'' مجھے بچاؤ،مجھے بچاؤ۔'' اس مرتبہ جب میں نے اپنے بھائی کی آواز سنی تو مجھے بہت رحم آیااور میں نے پختہ ارادہ کر لیا کہ اب تو میں ضرور قبرکھودوں گا۔ چنانچہ میں نے قبر کھودنا شروع کی جیسے ہی میں نے قبر سے سِل ہٹائی تو قبر کا اندرونی منظر دیکھ کر میرے ہوش اُڑ گئے، اندر انتہائی خوف ناک منظر تھا، ابھی ابھی ہم نے جس بھائی کو دفنایا تھا اس کا سارا جسم آگ کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا،اس کی قبر آگ سے بھری ہوئی تھی۔جب میں نے اپنے بھائی کو اس حا لت میں دیکھا تو مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے اسے زنجیروں سے آزاد کرانے کے لئے اپنا ہاتھ اس کی گردن میں بندھی ہوئی زنجیر کی طرف بڑھایا جیسے ہی میرا ہاتھ زنجیر کو لگا میرے ہاتھ کی انگلیاں جل کر ہاتھ سے جدا ہو گئیں ،مجھے بہت زیادہ تکلیف محسو س ہونے لگی ،میں نے جیسے تیسے قبر کوبند کیااور وہاں سے بھاگ نکلا۔یہ دیکھو میرے ہاتھ کی انگلیاں بالکل جل چکی ہیں اور اب تک مجھے شدید درد ہو رہا ہے، اتنا کہنے کے بعداس نے چادر سے اپنا ہاتھ نکالا تو واقعی اس کی چار انگلیاں غائب تھیں اورہاتھ پر زخم کا عجیب وغریب نشان موجود تھا۔ ہم نے اللہ عزوجل سے عافیت طلب کی اوروہاں سے چلے آئے۔
حضرت سیدنا ابو سنان علیہ رحمۃ اللہ المنّان فرماتے ہیں:''کچھ عرصہ کے بعد جب میں حضرت سیدنا امام اوزاعی علیہ رحمۃ اللہ الہادی کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور انہیں یہ سارا واقعہ سنایا پھر پوچھا : ''حضور! جب کوئی یہودی یا نصرانی مرتا ہے تو اس کا عذابِ قبر لوگوں پر ظاہر نہیں ہوتا لیکن مسلمانوں کی قبروں کے حالات بعض مرتبہ ظاہر ہو جاتے ہیں،اس کی کیا وجہ ہے ؟''تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جواباًارشاد فرمایا:'' کفّار کے عذاب ِقبرمیں تو کسی مسلمان کو شک ہی نہیں ،انہیں تو دائمی عذاب کا سامنا کرنا ہی ہے۔ سب مسلمان یقین رکھتے ہیں کہ کفار مرتے ہی عذاب میں مبتلا ہو جاتے ہیں اس لئے ان کے عذاب کو ظاہر نہیں کیا جاتا۔ہاں بعض مرتبہ گناہگا ر مسلمانوں کی قبروں کا حال لوگوں پر منکشف کر دیا جاتا ہے تاکہ لوگ اس سے عبرت پکڑیں اور گناہوں سے تائب ہو کر اپنے پاک پرورد گا رعزوجل کی رِضا والے اعمال کی طرف راغب ہوں۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)
(اے ہمارے پیارے اللہ عزوجل! ہمیں عذابِ قبر سے محفوظ رکھنا،ہمارے کمزور جسم جہنم کی آگ برداشت نہیں کر سکیں"
"گے ہم سے تو دنیوی آگ کی تپش بھی برداشت نہیں ہوتی، ذرا سا پتنگا بھی جسم پر آ لگے تو چیخ نکل جاتی ہے ،نہ گرمی برداشت ہوتی ہے اور نہ ہی کسی قسم کی گھٹن برداشت ہوتی ہے، اگر ہمیں ہمارے گناہوں کی وجہ سے عذابِ نار میں مبتلا کر دیا گیا تو ہمارا کیا بنے گا، اے ہمارے رحیم وکریم اللہ عزوجل! اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے صدقے ہمیں عذاب ِقبر سے محفوظ رکھ، ہماری قبروں کو سانپوں ا ور بچھوؤں سے محفوظ رکھ، اگر ہماری قبروں میں ایسے عذابات آگئے تو ہم کہاں جائیں گے، کس کی پناہ لیں گے؟ اے ہمارے پاک پروردگار عزو جل!تو اپنے لطف وکرم سے ہمیں سانپوں اوربچھوؤں کے عذاب سے محفوظ رکھنا۔آمین بجاہِ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)
؎ گر کفن پھاڑ کے سانپوں نے جمایا قبضہ ہائے بر بادی کہاں جا کے چھپوں گا یا رب عزوجل
(اے ہمارے پاک پروردگار عزوجل! ہمیں قبر و حشر کی تمام مصیبتوں سے نجات عطا فرما،جب ہمیں اندھیری قبر میں اتارا جائے تو ہماری قبروں کو حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے جلوؤں سے منور فرما دے اور ہمیں ان کی رحمت کے سائے میں میٹھی میٹھی نیند سونے کی توفیق عطا فرما۔)آمین بجاہ ِالنبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم
؎ یا الٰہی ! گور تیرہ کی جب آئے سخت رات ان کے پیارے منہ کی صبحِ جاں فزاکا ساتھ ہو"
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّدا
حضرت سیدناوہب بن منبہّ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے: بنی اسرائیل کاایک عابد بقدر کفایت رزقِ حلال کماتا اور باقی وقت اللہ عزوجل کی عبادت میں گزارتا۔ایک مرتبہ مسلسل کئی روز تک اسے کہیں بھی مزدوری نہ ملی اورفاقوں تک نوبت پہنچ گئی ، کئی روز تک گھر میں چولہا نہ جلا۔ وہ خود بھی بھوکا رہا اور اہل وعیال بھی بھوک کی مشقت برداشت کرتے رہے ۔جب معاملہ حد سے بڑھ گیا تو اس نے اپنی زوجہ سے کہا :'' کل میں مزدوری کے لئے جاؤں گا تم دعا کرنا،اللہ عزوجل تمام مخلوق کو رزق دینے والا ہے وہ ہمیں بھی محروم نہ رکھے گا۔'' اس کی زوجہ نے بھی یہی مشورہ دیا کہ تم یقین کامل کے ساتھ رزق کی تلاش میں نکلو اللہ عزوجل ضرور کوئی راہ نکالے گا۔صبح سویرے وہ عابداللہ عزوجل کا نام لے کر مزدوری کی تلاش میں نکلا اور وہ بھی دوسرے مزدوروں کے ساتھ بیٹھ گیا
"کہ جس کو ضرورت ہو گی وہ مجھے مزدوری کے لئے لے جائے گا ۔
یکے بعد دیگرے تمام مزدوروں کو کوئی نہ کوئی اجرت پر کام کروانے کے لئے لے گیا لیکن اس کے پاس کوئی نہ آیا۔جب اس عابد نے یہ صورت حال دیکھی تو کہنے لگا:''اللہ عزوجل کی قسم !میں آج مالکِ حقیقی عزوجل کی مزدوری (یعنی عبادت)کروں گا۔'' چنانچہ وہ دریا پر آیا اور وضو کر کے نوافل پڑھنے لگا اور سارا دن اسی طرح رکوع و سجود میں گزار دیا۔ شام کو جب گھر پہنچا تو اس کی زوجہ نے پوچھا:''کیا کسی کے ہاں تمہیں مزدوری ملی ؟'' اس نے جو اب دیا: ''میں نے آج بہت کریم مالک کے ہاں مزدوری کی ہے، اس نے وعدہ کیا ہے کہ وہ مجھے اس مزدوری کا بہت اچھا بدلہ دے گا۔
دوسری صبح دوبارہ یہ عابد مزدوروں کی صف میں کھڑا ہو گیا۔ سب کو کوئی نہ کوئی اپنے ہاں کام پر لے گیا لیکن اس کی طرف کسی نے توجہ نہ کی۔ اس نے دل میں کہا:'' خدا عزوجل کی قسم! آج پھر میں مالک حقیقی عزوجل کی مزدوری کروں گا۔''وہ پھر دریا پر آیا وضو کیا اور خوب خشوع و خضوع کے ساتھ عبادت کرنے لگا۔ سارا دن اسی طرح رکوع وسجود میں گزر گیا۔ شام کو جب وہ گھر پہنچا اور اس کی زوجہ نے اسے خالی ہاتھ دیکھا تو کہنے لگی:''آج کیا ہوا ؟''اس نے جواباً کہا:'' آج پھر میں نے اسی مالک کے ہاں مزدوری کی ہے، وہ بڑا کریم ہے، اس نے مجھ سے وعدہ کر رکھا ہے کہ مجھے اس مزدوری کا اچھا بدلہ دے گا،میری اُجرت اس مالک کے پاس جمع ہو رہی ہے۔'' فاقوں کی ماری زوجہ نے جب یہ بات سنی تو شوہر سے جھگڑنے لگی کہ یہاں کئی دن سے فاقے ہو رہے ہیں ،بچوں کی حالت ایسی ہو گئی ہے کہ دیکھی نہیں جاتی۔ ہم میں سے کسی نے بھی کئی دنوں سے ایک لقمہ تک نہیں کھایا اور تم جس مالک کے ہاں مزدوری کر رہے ہو اس نے تمہیں اج بھی تمہاری اُجرت نہیں دی، اس طرح کیسے گزارہ ہو گا؟''
اس پروہ عابد بہت پریشان ہوا اور اس نے ساری رات کروٹیں بدلتے ہوئے گزار دی۔ بچے بھوک کی وجہ سے بلبلا رہے تھے۔ اس کی اپنی بھی حالت قابلِ رحم تھی بالآخر صبح وہ پھر بازار گیا اور مزدورں کی صف میں کھڑا ہو گیا ۔آج پھر اس کے علاوہ سب کو مزدوری مل گئی لیکن اسے کوئی بھی اپنے ساتھ نہ لے گیا ۔
وہ عابد بھی اپنے پاک پروردگا ر عزوجل کی رحمت سے مایوس ہونے والا نہیں تھا۔ وہ دریا پر پہنچااوروضو کرنے کے بعد اپنے دل میں کہا:'' میں اج پھر اپنے مالک حقیقی عزوجل کی مزدوری کروں گا، وہ ضرور مجھے اس کا بدلہ عطا فرمائے گا۔'' چنانچہ آج پھر اس نے سارا دن عبادت میں گزار دیالیکن شام تک اسے کہیں سے بھی رزق کا بندوبست ہوتا ہوا نظر نہ آیا۔ اب وہ سوچنے لگا کہ میں گھر جا کر بچوں اور بیوی کو کیا جواب دوں گا ؟پھر اس کے یقین نے اس کی ڈھارَس بندھائی کہ جس پاک پروردگار عز وجل کی تو عبادت کرتا ہے وہ تجھے مایوس نہ کریگا۔ اس کی ذات پر کامل یقین رکھ ،وہ ضرور رزق عطا فرمائے گا۔ بالآخر وہ گھر کی طرف"
"روانہ ہوا۔جب دروازے کے قریب پہنچا تو اسے گھر کے اندر سے کھانا پکنے کی خوشبو آئی اور ایسا محسوس ہواجیسے اندر بہت خوشی کا سماں ہے، سارے گھر والے خوشی سے باتیں کر رہے ہیں ۔اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ میں سچ مچ اپنے گھر میں خوشی کا سماں محسوس کر رہا ہوں اور میرے گھر سے کھانے کی خوشبو آرہی ہے۔
بہر حال اس نے دروازہ کھٹکھٹایاتو اس کی زوجہ نے دروازہ کھولا۔وہ بہت خوش تھی ،اپنے شوہر کو دیکھتے ہی کہنے لگی: ''جس مالک کے ہاں تم نے مزدوری کی ہے، وہ تو واقعی بہت کریم ہے، آج تمہارے جانے کے بعداس کا قاصد آیا تھااس نے ہمیں بہت سارے درہم ودینار اور عمدہ کپڑے دئیے ،آٹااور گوشت وغیرہ بھی کافی مقدار میں دیا ۔''اور کہا:''جب تمہارا شوہر آجائے تواسے سلام کہنا اور کہنا کہ تیرے مالک نے تیرا عمل قبول کر لیا ہے،اور وہ تیرے اس عمل سے راضی ہے۔ یہ اس کا بدلہ ہے جو تو نے عمل کیا تھا اگر تو زیادہ عمل کرتا تو تیرا اجر بھی بڑھا دیا جاتا۔''
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! یہ تودنیا میں اس کے عمل کا کچھ اجرتھا،رب کریم اس کا اصل بدلہ تو جنت میں عطا فرمائے گا۔ اللہ عزوجل کسی کا عمل ضائع نہیں کرتا۔ جو اس سے امید رکھتا ہے وہ کبھی مایوس نہیں ہوتا ،جو اس پر توکُّل کرتا ہے وہ بہت نفع میں رہتا ہے)
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدنا ربیعہ بن عثمان تیمی علیہ رحمۃ اللہ الولی فرماتے ہیں:''ایک شخص بہت زیادہ گناہگار تھا، اس کے شب وروز اللہ عزوجل کی نافرمانی میں گزرتے۔ وہ معصیت کے بحرِ عمیق میں غرق تھا۔ پھر اللہ عزوجل نے اس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرمایا اور اس کے دل میں احساس پیدا فرمایا کہ اپنے آپ پر غور کر تو کس رَوِش پر چل رہا ہے، اللہ عزوجل جب اپنے کسی بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتاہے تو اسے احساس اور گناہوں پر ندامت کی توفیق عطافرمادیتا ہے، اس پر بھی پاک پروردگار عزوجل نے کرم فرمایا اور اسے اپنے گناہوں پر شرمندگی ہوئی، غفلت کے پردے آنکھوں سے ہٹ گئے۔ سوچنے لگا کہ بہت گناہ ہوگئے ، اب پاک پروردگار عزوجل کی بارگاہ میں توبہ کر لینی چاہے۔
چنانچہ اس نے اپنی زوجہ سے کہا:'' میں اپنے سابقہ تمام گناہوں پر نادم ہوں اوراپنے پاک پروردگار عزوجل کی بارگاہ میں"
"توبہ کرتا ہوں،وہ رحیم وکریم پروردگارعزوجل میرے گناہوں کو ضرورمعاف فرمائے گا۔میں اب کسی ایسی ہستی کی تلاش میں جارہا ہوں جو اللہ عزوجل کی بارگاہ میں میری سفارش کرے ۔ ''
اتنا کہنے کے بعد وہ شخص صحراء کی طرف چل دیا۔ جب ایک ویران جگہ پہنچا تو زور زور سے پکارنے لگا :''اے زمین ! تو اللہ عزوجل کی بارگاہ میں میرے لئے شفیع بن جا، اے آسمان ! تو میرا شفیع بن جا، اے اللہ عزوجل کے معصوم فرشتو!تم ہی میری سفارش کردو۔''
وہ زاروقطار روتارہا اور اسی طرح صدائیں بلند کرتا رہا۔ ہر ہر چیزسے کہتا کہ تم میری سفارش کرو، میں اب اپنے گناہوں پر شرمندہ ہوں اورسچے دل سے تائب ہوگیا ہوں ۔
وہ عابد مسلسل اسی طرح پکارتا رہا بالآخر روتے روتے بے ہوش ہو کر زمین پر منہ کے بل گرگیا، اس کی اس طرح سے
آہ وزاری اورگناہوں پر ندامت کا یہ انداز مقبول ہوا اوراس کی طرف ایک فرشتہ بھیجا گیا جس نے اسے اٹھایا اوراس کے سر سے گَرد وغیرہ صاف کی اور کہا :'' اے اللہ عزوجل کے بندے!تیرے لئے خوشخبری ہے کہ تیری توبہ اللہ عزوجل کی بارگاہ میں قبول ہوگئی ہے۔'' اس پر وہ بہت خوش ہوا اور کہنے لگا: ''اللہ عزوجل آپ پر رحم فرمائے ،اللہ عزوجل کی بارگاہ میں میری سفارش کون کریگا؟ وہاں میرا شفیع کون ہوگا؟'' فرشتے نے جواب دیا:''تیرا اللہ عزوجل سے ڈرنا،یہ ایک ایسا عمل ہے جو تیرا شفیع ہوگا اور تیرایہی عمل بارگاہِ خداوندی میں تیری سفارش کریگا۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!سچی توبہ کی تین شرائط ہيں کہ گناہوں پر ندامت اوراس گناہ سے فوراًرک جائے اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم مصمم ہو۔ جس کو یہ چیزیں حاصل ہوجائیں اس کی توبہ قبول ہوتی ہے، اللہ عزوجل اپنے بندوں کی خطاؤں کو معاف فرمانے والا ہے۔ بندہ چاہے کتنا ہی گناہ گار کیوں نہ ہو ایک مرتبہ سچے دل سے تائب ہوجائے تو اس کے تمام گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔ میرا رحیم وکریم پروردگار عزوجل اپنے بندوں پر بہت کرم فرماتاہے ۔اے ہمارے پیارے اللہ عزوجل!ہمارے گناہوں کومعاف فرما کر ہمیں سچی توبہ کی توفیق عطافرمااور اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے صدقے ہمیں جہنم کے عذاب سے محفوظ رکھ اورساری امت مسلمہ کی مغفرت فرما۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)
؎ الٰہی واسطہ پیارے کا میری مغفرت فرما
عذابِ نار سے مجھ کو خدایا خوف آتا ہے"
" حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ امیرالمؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں :''حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے بارہ ایسے کلمات ارشاد فرمائے کہ اگر لوگ ان پر عمل کریں تو کامیابی وکامرانی سے ہمکنار ہوجائیں اورکبھی بھی غلط حرکات نہ کریں۔'' لوگوں نے عرض کی:''اے امیر المؤمنین! وہ کون سے کلمات ہیں؟''آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا :'' وہ نصیحت آموز کلمات یہ ہیں :۔
(۱)۔۔۔۔۔۔تو اپنے مسلمان بھائی کی پسند کا خیال رکھ ، اس کے ساتھ بھلائی کر ۔ پھر تجھے بھی اس کی طرف سے تیری پسندیدہ چیز ہی ملے گی۔
(۲)۔۔۔۔۔۔کبھی بھی کسی مسلمان بھائی کے کلام میں بدگمانی نہ کر (یعنی ہمیشہ اچھا پہلو تلاش کر )تجھے ضروراس کے کلام میں کوئی اچھی بات مل جائے گی۔
(۳)۔۔۔۔۔۔جب تیرے سامنے دو کام ہوں تو اس کام میں ہرگز نہ پڑ جس میں نفس کی پیروی کرنا پڑے کیونکہ نفس کی پیروی میں سرَاسر نقصان ہے ۔
(۴)۔۔۔۔۔۔جب کبھی تو اللہ عزوجل سے اپنی کسی حاجت میں حاجت برآری چاہتاہو تو دعا سے پہلے اس کے پیارے حبیب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پر کثرت سے درود پاک پڑھ۔ بے شک اللہ عزوجل اس شخص پر بہت لطف وکرم فرماتاہے جو اس سے اپنی حاجتیں طلب کرے۔ پھر اگر کوئی شخص اللہ ربُّ العزَّت سے دو چیزیں مانگتاہے تو اللہ عزوجل اسے وہ چیز عطافرماتاہے جو اس کے حق میں بہتر ہوتی ہے اور جو نقصان دہ ہواسے بندے سے روک لیتاہے ۔
(۵)۔۔۔۔۔۔جو شخص یہ چاہے کہ ہر وقت اللہ عزوجل کے ذکر میں مشغول رہے تو اسے چاہے کہ صبر کو اپنا شِعار بنالے اورہر مصیبت پر صبر کرے ۔
(۶)۔۔۔۔۔۔اورجو شخص دنیوی زندگی (میں طوالت) کا خواہش مند ہو توا سے چاہے کہ مصائب کے لئے تیار ہوجائے۔
(۷)۔۔۔۔۔۔جو شخص یہ چاہے کہ اس کا وقار وعزت برقرار رہے تو اسے چاہے کہ رِیاکاری سے بچے۔
(۸)۔۔۔۔۔۔جو شخص قائد ورہنما(یعنی سردار)بنناچاہے تو اسے چاہے کہ ہر حال میں اپنی ذمہ داری پوری کرے۔ چاہے اسے کتنی ہی دشواری کاسامنا کرنا پڑے (یعنی سرداری کے لئے ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی مشقت برداشت کرناضروری ہے۔ بغیرمشقت کے انسان کو بلند رتبہ حاصل نہیں ہوتا)۔
(۹)۔۔۔۔۔۔جس بات سے تیرا تعلق نہ ہو خواہ مخواہ اس کے بارے میں سوال نہ کر۔"
" (۱۰)۔۔۔۔۔۔بیماری سے پہلے صحت کو غنیمت جان اورفرصت کے لمحات سے بھرپور فائدہ اٹھا ، ورنہ غم وپریشانی کا سامنا ہو گا ۔
(۱۱)۔۔۔۔۔۔استقامت آدھی کامیابی ہے، جیسا کہ غم آدھا بڑھا پا ۔
(۱۲)۔۔۔۔۔۔جو چیز تیرے دل میں کھٹکے اسے چھوڑ دے کیونکہ اس کو چھوڑ دینے ہی میں تیری سلامتی ہے ۔
(سبحان اللہ عزوجل !ہمارے بزرگان دین نے ہماری رہنمائی کے لئے کیسے کیسے نصیحت آموز کلمات ارشاد فرمائے، مذکورہ بالا کلمات ایسے جامع اورحکمت آموز ہیں کہ اگر کوئی شخص ان پر عمل کرلے تو وہ دارین کی سعادتوں سے مالا مال ہوجائے، اسے دین ودنیا کے کسی معاملے میں شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے ، ان بارہ کلمات میں حضرت سیدنا علی المرتضیٰ شیرِ خدا کَرَّمَ اللہُ َتعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمنے ہمیں زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ بتا دیاہے کہ اگر اس طرح زندگی گزارو گے تو بہت جلد ترقی وکامیابی کی دولت نصیب ہوگی اور اللہ عزوجل کی رضا نصیب ہوگی۔
یہ حضرات خود علم وعمل کے پیکر ہوا کرتے تھے اورجو شخص مخلص وباعمل ہو اس کے سینے میں اللہ عزوجل علم وحکمت کے چشمے رواں فرمادیتاہے، پھر اس کی زبان سے نکلے ہوئے کلمات کتنے ہی مُردہ دلوں کو زندہ کردیتے ہیں ، کتنوں کی بگڑی بن جاتی ہے ۔ جب یہ لوگ کسی کو نصیحت کرتے ہیں تو خیر خواہی کی نیت سے کرتے ہیں اورجو بات دل کی گہرائیوں سے نکلے وہ مؤثر کیوں نہ ہو۔ حقیقۃً وہی بات اثر کرتی ہے جو دل سے نکلتی ہے ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)
؎ دل سے جوبات نکلتی ہے، اثر رکھتی ہے پر نہیں،طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
اللہ عزوجل ہمیں بزرگانِ دین کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطافرمائے ۔ امین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)"
حضرت سیدنا احمد بن حسین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہما فرماتے ہیں، میں نے حضرت سیدنا ابو عبداللہ محاملی علیہ رحمۃ اللہ الولی کو یہ فرماتے ہوئے سنا:''عید الفطر کے دن نمازِ عید کے بعد میں نے سوچا کہ آج عید کا دن ہے، کیا ہی اچھا ہوکہ میں حضرت سیدنا داؤد بن علی علیہ رحمۃ اللہ القوی کی بارگاہ میں حاضر ہوکر انہیں عید کی مبارکباد دوں ،آج تو خوشی کا دن ہے، ان سے ضرورملاقات کرنی چاہے۔ چنانچہ اسی
"خیال کے پیشِ نظر میں حضرت سیدنا داؤد بن علی علیہ رحمۃ اللہ الولی کے گھر کی جانب چل دیا۔وہ سادگی پسند بزرگ تھے اور ایک سادہ سے مکان میں رہتے تھے ۔ میں نے وہاں پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹایااوراندر آنے کی اجازت چاہی تو انہوں نے مجھے اندر بلا لیا۔
جب میں کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے سامنے ایک برتن میں پھلوں اورسبزیوں کے چھلکے اور ایک برتن میں آٹے کی بُور(یعنی بھوسی) رکھی ہوئی تھی اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اسے کھا رہے تھے۔ یہ دیکھ کر مجھے بڑی حیرت ہوئی، میں نے انہیں عید کی مبارکباد دی اور سوچنے لگا کہ آج عید کا دن ہے، ہر شخص انواع و اقسام کے کھانوں کا اہتمام کر رہا ہو گا لیکن آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ آج کے دن بھی اس حالت میں ہیں کہ چھلکے اور آٹے کی بھوسی کھا کر گزارہ کر رہے ہیں۔میں نہایت غم کے عالم میں وہاں سے رخصت ہوا اور اپنے ایک صاحب ثروَت دوست کے پاس پہنچا ،جس کانام ''جرجانی'' مشہور تھا۔جب اس نے مجھے دیکھا توکہنے لگا: ''حضور! کس چیز نے آپ کو پریشان کر دیا ہے ،اللہ عزوجل آپ کی مدد فرمائے، آپ کو ہمیشہ خوش وخرم رکھے، میرے لئے کیا حکم ہے ؟''
میں نے کہا :''اے جرجانی !تمہارے پڑوس میں اللہ عزوجل کا ایک ولی رہتا ہے، آج عید کا دن ہے لیکن اس کی یہ حالت ہے کہ کوئی چیز خرید کر نہیں کھا سکتا۔میں نے دیکھا کہ وہ پھلوں کے چھلکے کھا رہے تھے، تم تو نیکیوں کے معاملے میں بہت زیادہ حریص ہو، تم اپنے اس پڑوسی کی خدمت سے غافل کیوں ہو ؟''
یہ سن کر اس نے کہا:'' حضور! آ پ جس شخص کی بات کر رہے ہیں وہ دنیا دار لوگوں سے دور رہنا پسند کرتا ہے۔ میں نے آج صبح ہی اسے ایک ہزار درہم بھجوائے اور اپنا ایک غلام بھی ان کی خدمت کے لئے بھیجا لیکن انہوں نے میرے دراہم اور غلام کو یہ کہہ کر واپس بھیج دیا کہ جاؤ اور اپنے مالک سے کہہ دینا کہ تم نے مجھے کیا سمجھ کر یہ درہم بھجوائے ہیں؟ کیا میں نے تجھ سے اپنی حالت کے بارے میں کوئی شکایت کی ہے؟ مجھے تمہارے ان درہموں کی کوئی حاجت نہیں، میں ہر حال میں اپنے پروردگار عزوجل سے خوش ہوں، وہی میرا مقصود ِاصلی ہے، وہی میرا کفیل ہے اور وہ مجھے کافی ہے ۔''
اپنے دوست سے یہ بات سن کر میں بہت متعجب ہوا اوراس سے کہا: ''تم وہ درہم مجھے دو، میں ان کی بارگاہ میں یہ پیش کروں گا۔ مجھے امید ہے کہ وہ قبول فرما لیں گے۔''اُس نے فوراًغلام کو حکم دیا: ''ہزار ہزار درہموں سے بھرے ہوئے دو تھیلے لاؤ۔'' پھر اس نے مجھ سے کہا :'' ایک ہزار درہم میرے پڑوسی کے لئے اور ایک ہزار آپ کے لئے تحفہ ہیں۔ آپ یہ حقیر سا نذرانہ قبول فرما لیں۔''میں وہ دو ہزار درہم لے کر حضرت سیدنا داؤد بن علی علیہ رحمۃ اللہ القوی کے مکان پر پہنچااور دروازے پردستک دی ، آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ دروازے پر آئے اور اندر ہی سے پوچھا:'' اے ابو عبد اللہ محاملی! تم دوبارہ کس لئے یہاں آئے ہو ؟'' میں نے"
"عرض کی : ''حضور! ایک معاملہ درپیش ہے، اسی کے متعلق کچھ گفتگو کرنی ہے۔''پس انہوں نے مجھے اندر آنے کی اجازت عطا فرمادی میں ان کے پاس بیٹھ گیا اورپھر درہم نکال کر ان کے سامنے رکھ دیئے۔یہ دیکھ کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ''میں نے تجھے اپنے پاس آنے کی اجازت دی اور تم میری حالت سے واقف ہو گئے۔میں تو یہ سمجھا تھا کہ تم میری اس حالت کے امین ہو ۔میں نے تم پر اعتماد کیا تھا، کیا اس اعتماد کاصلہ تم اس دنیوی دولت کے ذریعے دے رہے ہو ؟جاؤ !اپنی یہ دنیوی دولت اپنے پاس ہی رکھو، مجھے اس کی کوئی حاجت نہیں ۔''
حضرت سیدنا عبد اللہ محاملی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:''ان کی یہ شانِ استغناء دیکھ کر میں واپس چلا آیا اور اب میری نظروں میں دنیا حقیر ہو گئی تھی۔ میں اپنے دوست جرجانی کے پاس گیا اسے سارا ماجرا سنایااور ساری رقم واپس کر دینا چاہی تو ا س نے یہ کہتے ہوئے وہ درہم واپس کر دیئے کہ'' اللہ عزوجل کی قسم ! میں جو رقم اللہ عزوجل کی راہ میں دے چکا اسے کبھی واپس نہ لوں گا لہٰذا یہ مال تم اپنے پاس رکھو اور جہاں چاہو خرچ کرو۔'' پھر میں وہاں سے چلا آیا اور میرے دل میں مال کی بالکل بھی محبت نہ تھی میں نے سوچ لیا کہ میں یہ ساری رقم ایسے لوگوں میں تقسیم کر دوں گا جو شدید حاجت مند ہونے کے باوجود دوسروں کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے بلکہ صبر و شکر سے کام لیتے ہیں اور اپنی حالت حتی الامکان کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیتے ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)
؎ نہ دولت دے نہ ثروت دے مجھے بس یہ سعادت دے تیرے قدموں میں مر جاؤں میں رو رو کر مدینے میں
نہ مجھ کو آزما دنیا کا مال و زر عطا کر کے عطا کر اپنا غم اور چشم گریاں یا رسول اللہلوا!
(یااللہ عزوجل!ان بزرگوں کی پاکیزہ صفات کے صدقے ہمیں بھی دنیا کی محبت سے خلاصی عطا فرما، دوسروں کے سامنے دستِ سوال پھیلانے سے ہمیں محفوظ رکھ، قناعت و صبر و شکر کی نعمت عطا فرما، ہمیں زمانے میں اپنے علاوہ کسی اور کا محتاج نہ کر ،صرف اپنا ہی محتاج رکھ اوردنیا کی حرص و محبت سے ہماری حفاظت فرما ۔ہمیں اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی سچی محبت عطا فرما، غمِ مال نہیں بلکہ غمِ مصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّممیں رونے والی آنکھیں عطا فرما۔ ہمارے دلوں میں اپنی اور اپنے حبیب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی محبت راسخ فرما ،ہمیں مال و دولت نہیں چاہے، ہم تو تیری دائمی رضا کے ہی طلب گار ہیں۔ اے ہمارے پاک پروردگا ر عزوجل !ہم سے ہمیشہ کے لئے راضی ہو جا اور ہمیں ہر حال میں اپنی رضا پر راضی رہنے کی توفیق عطا فرما، حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے صدقے ہمیں قناعت کی دولت نصیب فرما اور دوسروں کی محتاجی سے بچا۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)
؎ نہ محتاج کر تو جہاں میں کسی کا مجھے مفلسی سے بچا یا الٰہی عزوجل!"
" حضرت سیدنا ابو صالح دمشقی علیہ رحمۃ اللہ الغنی فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ مَیں ''لکام'' کے پہاڑوں میں گیا ۔ میری یہ خواہش تھی کہ اولیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ سے ملاقات ہوجائے کیونکہ اللہ عزوجل کے کچھ مخصوص بندے ایسے بھی ہوتے ہیں جو دنیا سے الگ تھلگ جنگلوں ، صحراؤں اور پہاڑوں میں رہ کر خوب دل لگا کر ذکرِ الٰہی عزوجل میں مشغول رہتے ہیں۔ ایسے لوگو ں سے فیضیاب ہونے کے لئے میں ''لکام'' کی پہاڑیوں میں سر گر داں تھا کہ یکایک مجھے ایک شخص نظر آیا جو ایک پتھر پر سر جھکا ئے بیٹھا تھا۔ اسے دیکھ کر ایسا لگتا جیسے وہ کسی بہت بڑے معاملے میں غور وفکر کر رہا ہے ۔ میں اس کے قریب گیااور سلام کرکے پوچھا: ''تم یہاں اس ویرانے میں کیا کر رہے ہو؟'' وہ شخص کہنے لگا:'' میں بہت سی چیزو ں کو دیکھ رہا ہوں اور ان کے بارے میں غو روفکر کر رہا ہوں ۔'' اس کی یہ بات سن کر میں نے کہا :'' مجھے تو تمہارے سامنے پتھروں کے علاوہ کوئی اور چیز نظر نہیں آرہی پھر تم کن چیز وں کو دیکھ رہے ہو اورکِن اشیاء کے بارے میں غور وفکر کر رہے ہو؟ '' میری اس بات پر اس شخص کا رنگ متغیر ہوگیااوراس نے مجھ پر ایک جلال بھری نظر ڈالتے ہوئے کہا: ''میں ان پتھر وں کے بارے میں غو ر وفکر نہیں کر رہا بلکہ اپنے دل کی حالت پر غور وفکر کر رہا ہوں اور اس میں پیدا ہونے والے خدشات کے بارے میں سوچ رہاہوں اوران اُمور کے بارے میں متفکر ہوں جن کا میرے پاک پروردگار عزوجل نے حکم دیا ہے۔''
پھر وہ کہنے لگا:''اے شخص! مجھے میرے پاک پروردگار عزوجل کی قسم جس نے ہماری ملاقات کرائی! تیرا یہ پوچھنا مجھے بہت عجیب لگا اور تیرے اس سوال پر مجھے بہت غصہ آیا لیکن اب میرا غصہ زائل ہوچکاہے ،اب ایسا کرو کہ تم یہاں سے چلے جاؤ۔''
میں نے اس نیک بندے سے عرض کی : ''مجھے کچھ نصیحت کیجئے تا کہ اس پر عمل کر کے دارین کی سعادتوں سے مالا مال ہوجاؤں۔تمہاری نصیحت بھری باتیں سننے کے بعد میں یہاں سے چلا جاؤں گا ۔''
یہ سن کر و ہ شخص بولا: ''جب کوئی شخص کسی کے دروازے پر ڈیرہ ڈال دے اور اس کی غلامی کرنا چاہے تو اس شخص پر لازم ہے کہ ہمیشہ اپنے مالک کی خوشنودی والے کا موں میں لگا رہے۔جو شخص اپنے گناہوں کو یاد رکھتا ہے اسے گناہوں پر شرمندگی کی نصیب ہوتی رہتی ہے (اور گناہوں پر نادم ہونا تو بہ ہے ، لہٰذا انسان کو ہر وقت اپنے گناہوں پر نظر رکھنی چا ہے)جوشخص اللہ عزوجل پر توکُّل کر لیتا ہے اور اپنے لئے اللہ عزوجل کی رحیم وکریم ذات کو کافی سمجھتا ہے وہ کبھی بھی محروم نہیں ہوتا۔ اسے رب تعالیٰ ضرور عطا فرماتا ہے ، بس انسان کا یقین کامل ہونا چاہے ۔ اگر یقین کا مل ہوگا تو وہ کبھی بھی اللہ عزوجل کی رحمت سے مایوس نہ ہوگا ۔''
حضرت سیدنا ابو صالح دمشقی علیہ رحمۃ اللہ الغنی فرماتے ہیں کہ اتنا کہنے کے بعد اس شخص نے مجھے وہیں چھوڑا اور خود ایک"
"جانب روانہ ہوگیا ۔
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!سبحان اللہ عزوجل!اس پہاڑی علاقے میں رہنے والے شخص کی کیسی نصیحت بھری گفتگو تھی، اس کے ان چند کلمات میں دنیا وآخرت کی بھلائی کے بہترین اُصول ہیں۔ اللہ عزوجل ہمیں ہر حال میں اپنا مطیع وفرمانبردار رکھے، اے اللہ عزوجل! ہمیں گناہوں پر نادم ہونے کی تو فیق عطا فرما ۔ جب بھی کوئی گناہ سر زد ہو فوراً ہمیں تو بہ کی توفیق عطا فرما،اے اللہ عز وجل !ہمارے حال زار پررحم وکرم فرما۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)
؎ ندامت سے گناہوں کا اِزالہ کچھ تو ہوجاتا ہمیں رونا بھی تو آتا نہیں ہائے ندامت سے"
" حضرت سیدنا زید بن عباس علیہ رحمۃ اللہ الرزاق فرماتے ہیں کہ جب خلیفہ ہارون الرشید علیہ رحمۃ اللہ المجید نے حج کیا تو ان سے کہا گیا کہ اس سال زمانے کے مشہور ولی حضرت سیدنا شیبان علیہ رحمۃ اللہ المنان بھی حج کے لئے آئے ہوئے ہیں ۔ جب خلیفہ ہارو ن الرشیدعلیہ رحمۃ اللہ المجید نے یہ سنا تو اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ بڑے ادب واِحترام سے انہیں میرے پاس لے آؤ ،ہم ان کی صحبت سے فیضیاب ہونا چاہتے ہیں۔'' چنانچہ حضرت سیدنا شیبان علیہ رحمۃ اللہ المنان کو بڑے ادب واِحترام کے ساتھ امیر المؤمنین ہارون الرشید علیہ رحمۃ اللہ المجید کے پاس لا یا گیا۔ خلیفہ نے انہیں اپنے پاس بٹھایا اورعرض کی : ''مجھے کچھ نصیحت کیجئے تا کہ میں آخرت میں نجات پا جاؤں۔'' تو حضرت سیدنا شیبان علیہ رحمۃ اللہ المنان نے فرمایا :'' اے امیر المؤمنین! میں عربی زبان سے اچھی طرح واقف نہیں ، آپ کسی ایسے شخص کو بلوا لیں جو میری تر جمانی کر سکے ۔''
چنانچہ ایک ایسے شخص کو لایا گیا جو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی تر جمانی کر سکے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس شخص سے کہا : ''امیر المؤمنین سے کہہ دیجئے کہ جو شخص تجھے عذابِ آخرت سے ڈراتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ اللہ عزوجل کی طر ف سے بے خوف نہ ہونا جب تک تُو امن والی جگہ(یعنی جنت )میں نہ پہنچ جائے ، ایسا شخص اس سے بہتر ہے جو تجھے لمبی لمبی اُمیدیں دلاتا ہے اور کہتا ہے کہ بس اب تو تُو بخش دیا گیا ہے حالانکہ ابھی تیری زندگی باقی ہے اور ابھی تُو امن والی جگہ میں پہنچا ہی نہیں ؟''"
" ترجمان نے امیر المؤمنین کویہ بات بتائی تواس نے کہا:'' اپنے ان کلمات کی مزید وضاحت فرما دیں ۔'' توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے تر جمان سے فرما یا:''امیر المؤمنین سے کہہ دو کہ نصیحت کرنے والوں میں تجھے دوقسم کے لوگ ملیں گے ایک تو وہ جوتجھے اس طر ح نصیحت کریں گے :'' اے امیر المؤمنین! اللہ عزوجل سے ہردم ڈرتے رہو تم بھی اُمت محمدیہ علیٰ صاحبہاالصلوٰۃ والسلام کے ایک فرد ہو مگر تم پر ایک بہت بڑی ذمہ داری آپڑی ہے اللہ عزوجل نے تمہیں لوگوں پرامیر مقرر فرمایا ہے اور ان کے مسائل حل کرنے کی ذمہ داری تمہیں سونپی ہے۔ کل بر وز قیامت تم سے تمہاری ذمہ داری کے متعلق پوچھا جائے گا۔ لہٰذا اللہ عزوجل سے ڈرتے رہو، عدل وانصاف سے کام لو، کسی کے ساتھ ظلم نہ کرو، سیدھا راستہ اختیار کرو، دشمنانِ اسلام سے جنگ کرنے کا موقع آئے تو ان سے بھرپور انداز میں جہاد کرو اوراپنے معاملے میں اللہ عزوجل سے ہر وقت ڈرتے رہو کبھی بھی اپنے آپ کو لوگوں سے بالا تر نہ سمجھو۔ ہر دم اللہ عزوجل کے خوف سے کا نپتے رہو۔''
اے امیر المؤمنین! نصیحت کرنے والوں کی دوسری قسم میں ایسے لوگ شامل ہیں جو تمہیں اس طرح کہیں گے :'' اے امیر المؤمنین !آپ تو بڑی شان والے ہیں ، آپ کو آخرت کے معاملے میں زیادہ پر یشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ آپ تونبی کریم ،رء ُ وف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے قرابت داروں میں سے ہیں لہٰذا اب آپ بے فکر ہوجائیں ۔''
پھر اس قسم کی باتیں کرنے والے لوگ تمہیں کسی غلط بات پرٹو کتے بھی نہیں اور مسلسل ایسی باتیں کرتے ہیں کہ خوفِ آخرت جاتا رہتا ہے اورایسی امیدوں کی وجہ سے بندہ آخرت کے معاملات سے بالکل بے فکر ہوجاتا ہے۔ ایسے لوگ تمہیں اُمیدیں ہی دلاتے رہیں گے او رتم اپنے آپ کومغفرت یافتہ لوگو ں میں شمار کرنے لگو گے حالانکہ ابھی نہ تو تمہیں امان ملی اورنہ ہی ابھی تم امن والی جگہ (یعنی جنت) میں داخل ہوئے ۔
اے امیر المؤمنین! ان دو سری قسم کے لوگو ں سے پہلی قسم کے لوگ اچھے ہیں۔ عشرہ مبشرہ صحابہ کرام علیہم الرضوان جنہیں دنیا میں ہی جنت کی خوشخبری دے دی گئی تھی لیکن پھر بھی ان کا عمل مزید بڑھتا ہی گیا۔ خوفِ خدا عزوجل میں مزید اضافہ ہی ہوا ۔ انہوں نے کبھی بھی یہ سوچ کر کوئی نامناسب کام نہیں کیا کہ ہمیں تو جنت کی بشارت مل گئی اب ہم جو چاہیں کریں بلکہ وہ پاکیزہ لوگ ہر آن اللہ عزوجل سے ڈرتے رہتے۔ انہوں نے خوف ورجاء والا معقول راستہ اختیار کیا ،اللہ عزوجل کی رحمت سے مایوس بھی نہیں ہوئے اور اس کے غضب سے بے خوف بھی نہ ہوئے لہٰذا اے امیر المؤمنین! راستہ وہی اچھا جو معتدل ہو نہ تو اللہ عزوجل کی رحمت سے مایوس ہونا چاہے کہ اہلِ بیت اَطہار رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو حضور نبی ئ کریم ،رء ُوف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی قرابت کی وجہ سے بڑی شان ملی ہے اور آخرت میں بھی شفاعت ضرور نصیب ہوگی لیکن اللہ عزوجل کی طر ف سے بے خوف بھی نہیں ہونا چاہے ۔''"
" حضرت سیدنا شیبان علیہ رحمۃ اللہ المنان کی یہ حکمت بھری باتیں سن کر امیر المؤمنین خلیفہ ہارو ن الرشید علیہ رحمۃ اللہ المجید اور ان کے ساتھی زارو قطا ر رونے لگے ۔ پھر امیر المؤمنین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے عرض کی:''کچھ اور نصیحت فرمایئے ۔''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ''ان پر عمل کر لو یہ تمہارے لئے کا فی ہیں۔'' اتنا کہنے کے بعد آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ امیر المؤمنین کے پاس سے تشریف لے گئے۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدنا عبدالمُنعِم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے والدسے اور وہ حضرت سیدناوہب علیہ رحمۃ اللہ الاحد سے روایت کرتے ہیں کہ کسی ملک میں ایک ظالم ومغروربادشاہ رہا کر تا تھا ۔ اس نے ایک عظیم الشان محل بنوایا اور اس کی تعمیر پرکافی مال خرچ کیا ، جب تعمیر مکمل ہوچکی تو اس نے ارادہ کیا کہ میں سارے محل کا دورہ کروں او ردیکھوں کہ یہ میری خواہش کے مطابق بنا ہے یا نہیں ۔ چنانچہ با دشاہ نے اپنے چند سپاہیوں کو ساتھ لیا اور محل کو دیکھنے چل پڑا۔ا ندر سے دیکھنے کے بعد اس نے محل کے بیرونی حصوں کو دیکھنا شروع کیا اور محل کے اردگرد گرد چکر لگانے لگا ۔ایک جگہ پہنچ کر وہ رک گیا اور ایک جھونپڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا: ''یہ ہمارے محل کے ساتھ جھونپڑی کس نے بنائی ہے ؟'' سپاہیوں نے جواب دیا:'' چند روزسے یہاں ایک مسلمان بوڑھی عورت آئی ہے ، اس نے یہ جھونپڑی بنائی ہے اوروہ اس میں اللہ عزوجل کی عبادت کرتی ہے۔''
جب بادشاہ نے یہ سنا تو بڑے مغرورانہ انداز میں بولا:'' اس غر یب بڑھیاکویہ جرأ ت کیسے ہوئی کہ ہمارے محل کے قریب جھونپڑی بنائے ، اس جھونپڑی کو فوراً گرا دو ۔'' حکم پاتے ہی سپاہی جھونپڑی کی طر ف بڑھے،بڑھیا اس وقت وہاں موجود نہ تھی ۔ سپاہیوں نے آن کی آن میں اس غریب بڑھیا کی جھونپڑی کوملیا میٹ کر دیا۔ بادشاہ جھونپڑی گر وانے کے بعد اپنے دوستوں کے ہمراہ اپنے نئے محل میں چلا گیا ۔
جب بڑھیا واپس آئی تو اپنی ٹوٹی ہوئی جھونپڑی کو دیکھ کر بڑی غمگین ہوئی اور لوگو ں سے پوچھا :'' میری جھونپڑی کس نے گرائی ہے ۔'' لوگو ں نے بتا یا :'' ابھی کچھ دیر قبل بادشاہ آیا تھا، اسی نے تمہاری جھونپڑی گروائی ہے ۔'' یہ سن کر بڑھیا بہت غمگین ہوئی اور آسمان کی طر ف نظر اٹھا کر اللہ عزوجل کی بارگاہ میں یوں عرض گزار ہوئی: ''اے میرے پاک پرور دگار عزوجل !جس وقت"
"میری جھونپڑی توڑی جارہی تھی، میں موجود نہ تھی لیکن میرے رحیم وکریم پر ودگار عزوجل! تُو تو ہر چیز دیکھتا ہے، تیری قدرت تو ہر شئے کو محیط ہے ، میرے مولیٰ عز وجل !تیرے ہوتے ہوئے تیری ایک عاجز بندی کی جھونپڑی توڑدی گئی ۔''
اللہ عزوجل کی بارگاہ میں اس بڑھیاکی آہ وزاری او ر دعا مقبول ہوئی ۔ اللہ عزوجل نے حضرت سیدنا جبرائیل علیہ السلام کو حکم دیا کہ اس پورے محل کو با دشاہ اور اس کے سپاہیوں سمیت تباہ وبر باد کر دے ۔'' حکم پاتے ہی حضرت سیدنا جبرائیل علیہ السلام زمین پر تشریف لائے اور سارے محل کو اس ظالم بادشاہ اور اس کے سپاہیوں سمیت زمین بوس کر دیا۔''
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!یہ حقیقت ہے کہ ظالم کو اس کے ظلم کا بدلہ ضرور دیا جاتا ہے۔ مظلوم کی دعا بارگاہ خدا و ندی عزوجل میں ضرور قبول ہوتی ہے ۔ اللہ عزوجل ہمیں ظالموں کے ظلم سے محفوظ رکھے اور ہماری وجہ سے کسی مسلمان کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ اے اللہ عزوجل !ہمیں ہر وقت اپنی حفظ وامان میں رکھ اور ہمارا خاتمہ بالخیر فرما۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضر ت سیدنا امام ابن شہاب زہری علیہ رحمۃ اللہ القوی سے مروی ہے کہ جب ابراہیم بن ہشام حاکم بنا تو میں اس کے ساتھ ہی رہتا ۔وہ کئی معاملات میں مجھ سے مشورہ کرتا ۔ ایک دن اس نے مجھ سے کہا :'' اے زہری (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) !کیا ہمارے شہر میں کوئی ایسا شخص ہے جس نے صحابہ کرام علیہم الرضوان کی صحبت پائی ہو، اگر کوئی ایساشخص تمہاری نظر میں ہے تو بتا ؤ ۔'' میں نے کہا : ''ہاں،حضرت سیدنا ابو حازم علیہ ر حمۃ اللہ الدائم اس شہر میں رہتے ہیں، انہیں حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صحبتِ با برکت حاصل ہوئی ہے او ران سے سنی ہوئی کئی حدیثیں بھی آپ (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) بیان فرماتے ہیں ۔''
چنانچہ ابراہیم بن ہشام نے ایک قاصد بھیج کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو بلوایا ، آپ تشریف لائے اور سلام کیا ۔ابراہیم بن ہشام نے جواب دیا اور کہا:'' اے ابو حازم علیہ رحمۃ اللہ الدائم !ہمیں کوئی حدیث سنائیے ۔''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:''اے ابراہیم بن ہشام! اگر مجھے تمہاری آخرت کی بھلائی مقصود نہ ہوتی تو میں کبھی بھی تیرے پاس حدیث نبوی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سنانے نہ آتا۔ ابراہیم بن ہشام نے پوچھا: ''حضور! آپ یہ بتائیں کہ ہمیں نجات کس طرح حاصل ہوگی؟''
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا :'' اس کا ایک ہی طر یقہ ہے کہ تم اللہ عزوجل کے اَحکام کو تمام مخلوق پر ترجیح دو، اللہ عزوجل کے حکم"
"کے خلاف کسی کی بھی بات نہ مانو، مال حلال طریقے سے حاصل کر و اور جہاں اسے صرف کرنے کا حق ہے وہیں صرف کرو ۔''
ابراہیم بن ہشام کہنے لگا :'' ان باتوں پرکَمَا حَقُّہٗ کون عمل کر سکتا ہے؟''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: '' اے ابراہیم! اگر تُو چاہتا ہے کہ تجھے دنیا میں سے اتنی چیز ملے جو تجھے کافی ہو تو تیرے لئے تھوڑی سی دنیوی نعمتیں بھی کافی ہیں اگر تو صبر کرے۔ اور اگر تُودنیا کا حریص ہے تو چاہے کتنا ہی مال و زر جمع کرلے تیری حرص ختم نہ ہوگی تُو کبھی بھی دُنیوی دولت سے بے نیاز نہ ہوگا، ہر وقت اس میں اضافے کا متمنی ہوگا ۔''
ابراہیم بن ہشام نے پوچھا :''کیا بات ہے کہ ہم جیسے لوگ موت کو ناپسند کرتے ہیں ؟'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ''تم لوگو ں نے اپنی ساری تو جہ دنیا کی دولت پر دے رکھی ہے او رہر وقت تمہارے سامنے دنیوی نعمتیں موجود رہتی ہیں ۔ اس لئے تمہیں ان نعمتوں سے جدا ہونا پسند نہیں۔ اگر تم آخرت کی تیاری کرتے اور آخرت کے لئے اعمال صالحہ کئے ہوتے تو تم موت کو کبھی بھی ناپسند نہ کرتے بلکہ آخرت کی نعمتوں کی طرف جلدی کرتے۔
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی یہ حکمت بھری باتیں سن کر حضرت سیدنا امام زہری علیہ رحمۃ اللہ القوی نے فرمایا:'' اے امیر!خدا عزوجل کی قسم !میں نے آج تک کبھی بھی اس کلام سے بہتر کلام نہیں سنا۔'' شیخ ابو حازم علیہ رحمۃ اللہ الدائم نے کیسے جامع کلمات کے ساتھ ہمیں نصیحت کی ہے، میں عرصہ دراز سے ان کا پڑوسی ہوں لیکن افسوس !میں کبھی ان کی بارگاہ میں حاضر نہ ہوسکااوران کی صحبتِ بابر کت سے محروم رہا ۔''
شیخ ابو حازم علیہ رحمۃ اللہ الدائم نے فرمایا: ''اے ابن شہاب زہری( رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ )! اگر تو ان علماء کرام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم میں سے ہوتا جو دنیا داروں سے بے نیاز ی کو پسند کرتے ہیں تو ضرور میری مجلس میں بیٹھتا اور ضرور مجھ سے ملاقات کا سلسلہ رکھتا ۔''
اس پر حضرت سیدناابن شہاب زہری علیہ رحمۃ اللہ القوی نے عرض کی: ''اے ابو حازم علیہ رحمۃ اللہ الدائم ! مجھے آپ کی اس بات نے غمزدہ کردیاہے۔'' توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ''اے زہری علیہ رحمۃ اللہ القوی! جب کوئی شخص اللہ عزوجل کی رضا کی خاطر علم حاصل کرتا ہے تو وہ شخص اپنے اس علم کی بدولت مخلوق سے بے نیاز ہوجاتا ہے، اسے کوئی دُنیوی غرض وغایت نہیں ہوتی اور ایسے عالم ِربّانی کی طرف لوگ اِکتسابِ علم کے لئے آتے ہیں۔ بڑے بڑے اُمراء ودنیا دار لوگ اس عالم ربّانی کی بارگاہ میں دست بستہ کھڑے ہوتے ہیں۔ ایسا عالم اُمراء اور عوام دونوں کے لئے با عث نجات ہوتا ہے۔ وہ ہمیشہ انہیں حق با ت ہی کا حکم دیتا ہے اور بری باتوں سے روکتا ہے۔
اگر علماء کودنیا کی حرص با دشا ہوں کے درباروں میں لے جائے تو پھر علماء اپنی شان کھو بیٹھتے ہیں اور اُمراء ان کو زیادہ"
"اہمیت نہیں دیتے، ایسے لوگو ں کا علم حاصل کرنا اس لئے ہوتاہے کہ ہماری تعظیم کی جائے، ہماری بات کو اہمیت دی جائے لیکن جب یہ امراء کی محفل میں جاتے ہیں تو ان کا وقار گر جاتا ہے ۔یہ حق بات کہنے کی جرأ ت نہیں رکھتے، ہر وقت با دشاہوں اور اُمراء کی خوشنودی کے طالب ہوتے ہیں ، ایسے علماء ان بادشاہوں اور عوام الناس دو نوں کے لئے ہلاکت کا باعث بنتے ہیں ۔''
حضرت سیدنا ابو حازم علیہ رحمۃ اللہ الدائم کی یہ باتیں سننے کے بعد ابراہیم بن ہشام نے کہا :''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی حاجت بیان کریں، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو جس چیز کی ضرورت ہو وہ دی جائے گی۔''
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ''اے ابراہیم بن ہشام! میں اپنی حاجتیں اس پاک پروردگار عزوجل کی بارگاہ میں عرض کرتا ہوں جو زمین وآسمان کا مالک ہے، میری اُمیدوں کا مرکز صرف میرامالکِ حقیقی عزوجل ہے ۔میں اس کے علاوہ کسی اور کا محتاج نہیں ، میرا مالک عزوجل مجھے جو چیز بھی عطا فرماتا ہے میں اسے بخوشی قبول کرلیتا ہوں اور جس چیز کو مجھ سے روک لیتا ہے میں کبھی بھی اس کی شکایت نہیں کرتا نہ ہی ناشکری کرتا ہوں بلکہ میں اپنے پروردگار عزوجل سے ہر حال میں خوش ہوں۔اس کے علاوہ کسی چیز کو پسند نہیں کرتا۔ یہ دو نعمتیں میرے نزدیک بہت بڑا سرمایہ ہیں:(۱)۔۔۔۔۔۔ اللہ عزوجل کی رضا(۲)۔۔۔۔۔۔زُہدوتقوی۔یہ دو نعمتیں مجھے ہر چیز سے محبوب ہیں۔''
ابراہیم بن ہشام نے عرض کی:'' اے ابو حازم (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) ! برائے کرم آپ ہمارے ہاں تشریف لایا کریں تا کہ ہم آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے اکتساب فیض کر سکیں ، اگر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نہ آنا چاہیں تو میں خودحاضر ہوجایا کرو ں گا۔''
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا :'' اے ابراہیم بن ہشام !تُو میرا خیال چھوڑدے اور میرے گھر بھی نہ آنا، اسی میں میری بھلائی ہے ، ہاں اتنا ضرور ہے کہ تُونیک اعمال کی طر ف را غب ہوجا، اگر نیک کام کریگا تو کامیابی کی راہ پر گا مزن ہوجائے گا اور تجھے نجات حاصل ہوجائے گی ۔'' اتنا کہنے کے بعدآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وہاں سے تشریف لے گئے ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
حضر ت سیدنا بکر بن عبداللہ المزنی علیہ رحمۃ اللہ الغنی سے مروی ہے:'' ایک شخص کی عادت تھی کہ وہ با دشاہوں کے درباروں میں جاتا اور ان کے سامنے اچھی اچھی باتیں کرتا با دشاہ خوش ہو کر اسے اِنعام واِکرام سے نواز تے اوراس کی خوب حوصلہ افزائی کرتے۔
" ایک مرتبہ وہ ایک بادشاہ کے دربار میں گیااوراس سے اجازت چاہی کہ میں کچھ باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ با دشاہ نے اجازت دی اور اسے اپنے سامنے کُرسی پر بٹھا یا اور کہا:'' اب جو کہنا چاہتے ہو کہو۔'' اس شخص نے کہا:'' محسن کے ساتھ احسان کر اور جو برائی کرے اس کی برائی کا بدلہ اسے خود ہی مل جائے گا۔ '' با دشاہ اس کی یہ بات سن کر بہت خوش ہوا اور اسے انعام واکرام سے نوازا ۔''یہ دیکھ کر بادشاہ کے ایک درباری کو اس شخص سے حسد ہوگیا اور وہ دل ہی دل میں کڑھنے لگا کہ اس عام سے شخص کو بادشاہ کے دربار میں اتنی عزت اور اِتنا مقام کیوں حاصل ہوگیابالآخر وہ حسد کی بیماری سے مجبور ہو کر با دشاہ کے پاس گیا اور بڑے خوشامد انہ انداز میں بولا:''با دشاہ سلامت ! ابھی جو شخص آپ کے سامنے گفتگو کرکے گیا ہے اگرچہ اس نے باتیں اچھی کی ہیں لیکن وہ آپ سے نفرت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ با دشاہ کو گندہ دہنی (یعنی منہ سے بدبُوآنے ) کامرض لاحق ہے ۔''
جب با دشاہ نے یہ سنا تو پوچھا :'' تمہارے پاس کیا ثبوت ہے کہ وہ میرے بارے میں ایسا گمان رکھتا ہے ؟'' وہ حاسد بولا: ''حضور! اگر آپ کو میری بات پر یقین نہیں آتا تو آپ آزماکر دیکھ لیں، اسے اپنے پاس بلائیں جب وہ آپ کے قریب آئے گا تو اپنی ناک پرہاتھ رکھ لے گا تا کہ اسے آپ کے منہ سے بد بُو نہ آئے۔'' یہ سن کربا دشاہ نے کہا : ''تم جاؤ جب تک میں اس معاملہ کی تحقیق نہ کرلوں اس کے بارے میں کو ئی فیصلہ نہیں کروں گا ۔''
چنانچہ وہ حاسد دربارِ شاہی سے چلا آیا اور اس شخص کے پاس پہنچا جس سے وہ حسد کرتا تھا ۔اسے کھانے کی دعوت دی، اس نے حاسد کی دعوت قبول کی اور اس کے ساتھ چل دیا۔ حاسد نے اسے جو کھانا کھلایا اس میں بہت زیادہ لہسن ڈال دیا۔ اب اس شخص کے منہ سے لہسن کی بد بُو آنے لگی بہر حال وہ اپنے گھر آگیا۔ ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ با دشاہ کا قاصد آیا اور اس نے کہا: ''بادشاہ نے آپ کو ابھی دربار میں بلایا ہے ۔'' وہ شخص قاصد کے ساتھ دربار میں پہنچا ۔ با دشاہ نے اسے اپنے سامنے بٹھا یا اور کہا: '' ہمیں وہی کلمات سناؤ جو تم سنایاکرتے ہو ۔'' اس شخص نے کہا :'' مُحسِن کے ساتھ احسان کر اور جو برائی کریگا اسے برائی کابدلہ خود ہی مل جائے گا ۔''
جب اس نے اپنی بات مکمل کرلی تو بادشاہ نے اس سے کہا :'' میرے قریب آؤ۔'' وہ بادشاہ کے قریب گیا تو اس نے فوراً ًاپنے منہ پر اپنا ہاتھ رکھ لیا تا کہ لہسن کی بدبُو سے بادشاہ کو تکلیف نہ ہو ۔ جب بادشاہ نے یہ صورتحال دیکھی تواپنے دل میں کہا کہ اس شخص نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ میرے متعلق یہ شخص گمان رکھتا ہے کہ مجھے گندہ دہنی (یعنی منہ سے بد بُوآنے ) کی بیماری ہے۔ با دشاہ اس شخص کے بارے میں بد گمانی کا شکار ہوگیا اور بلا تحقیق اس نے فیصلہ کرلیا کہ اس شخص کو سخت سزا ملنی چاہے ۔ چنانچہ اس نے اپنے گورنر کے نام اس طرح خط لکھا :''اے گورنر! جیسے ہی یہ شخص تمہارے پاس پہنچے اسے ذبح کردینا اور اس کی کھال اُتا ر کر اس میں"
"بھوسا بھر دینا اورا سے ہمارے پاس بھجوا دینا ۔''پھر با دشاہ نے خط پر مہر لگائی اور اس شخص کو دیتے ہوئے کہا :''یہ خط لے کر فلاں علاقے کے گورنر کے پاس پہنچ جاؤ۔''
با دشاہ کی عاد ت تھی کہ جب بھی وہ کسی کوکوئی بڑا اِنعام دینا چاہتا تو کسی گو رنر کے نام خط لکھتا اور اس شخص کو گورنر کے پاس بھیج دیتا وہاں اسے خوب اِنعام واِکرام سے نوازا جاتا۔ کبھی بھی با دشاہ نے سزا کے لئے کسی کو خط نہ لکھا تھا ۔آج پہلی مرتبہ بادشاہ نے کسی کو سزا دینے کے لئے گورنر کے نام خط لکھا ورنہ اس با دشاہ کے بارے میں مشہور تھا کہ جب کسی کو اِنعام دیتاتو اسے گو رنر کے پاس بھیجتا۔ بہر حال یہ شخص خط لے کر دربار شاہی سے نکلا اس بیچارے کو کیا معلوم کہ اس خط میں میری موت کا حکم ہے۔ یہ شخص خط لے کر گورنر کے پاس جا رہا تھا کہ راستے میں اس کی ملاقات اسی حاسد سے ہوگئی ۔اس نے پوچھا: ''بھائی! کہا ں کا ارادہ ہے ؟''
اس نے کہا :میں نے بادشاہ کو اپنا کلام سنایاتو اس نے مجھے ایک خط مہر لگا کر دیا اور کہا: ''فلاں گورنر کے پاس یہ خط لے جاؤ ۔'' میں اسی گو رنر کے پاس خط لئے جا رہا ہو ں۔'' حاسد کہنے لگا:'' بھائی! تویہ خط مجھے دے دے میں ہی اسے گو رنر تک پہنچا دوں گا۔ ''چنانچہ اس شریف آدمی نے خط حاسد کے حوالے کر دیا ، وہ حاسد خط لے کر خوشی خوشی گو رنر کے دربار کی طر ف چل دیا، وہ یہ سو چ کر بہت خوش ہو رہا تھا کہ اس خط میں با د شاہ نے گو رنر کے نام پیغام لکھا ہوگا کہ'' جو شخص یہ خط لے کر آئے اسے اِنعام واِکرام سے نوازا جائے ۔''میری قسمت کتنی اچھی ہے، میں نے اس شخص کو جھانسا دے کر یہ خط لے لیا ہے اب میں مالا مال ہوجاؤں گا۔ وہ حاسد انہیں سوچو ں میں مگن بڑی خوشی کے عالم میں جھومتا جھومتا گو رنر کے دربار کی جانب جا رہا تھا۔ اسے کیا معلوم تھا کہ وہ موت کے منہ میں جا رہا ہے اور جاتے ہی اسے قتل کردیا جائے گا ۔
بہر حال وہ گو رنر کے پاس پہنچا اور بڑے مو ئدبانہ انداز میں بادشاہ کا خط گورنر کو دیا۔ گو رنر نے جیسے ہی خط پڑھا تو پوچھا: ''اے شخص! کیا تجھے معلوم ہے کہ اس خط میں با دشاہ نے کیا لکھا ہے ؟'' اس نے کہا: ''با دشاہ سلامت نے یہی لکھا ہوگا کہ مجھے اِنعام واِکرام سے نوازا جائے او رمیری حاجات کو پورا کیا جائے ۔''گورنر نے یہ سن کر کہا : اے نادان شخص! بادشاہ نے اس خط میں مجھے حکم دیا ہے کہ'' جیسے ہی یہ شخص خط لے کر پہنچے اسے ذبح کردینا او راس کی کھال اُتا ر کر اس میں بھوسا بھر دینا پھر اس کی لاش میرے پاس بھجو ادینا۔ '' یہ سن کر اس حاسد کے تو ہوش اُڑ گئے اور وہ کہنے لگا:'' خداعزوجل کی قسم !یہ خط میرے بارے میں نہیں لکھا گیا بلکہ یہ تو فلاں شخص کے متعلق ہے، بےشک آپ با دشاہ کے پاس کسی قاصد کو بھیج کر معلوم کرلیں ۔ ''
گورنر نے اس کی ایک نہ سنی اور کہا :'' ہمیں کوئی حاجت نہیں کہ ہم با دشاہ سے اس معاملہ کی تصدیق کریں با دشاہ کی مہر اس خط پر موجود ہے لہٰذا ہمیں با دشاہ کے حکم پر عمل کرنا ہوگا۔'' اتنا کہنے کے بعد اس نے جلا د کو حکم دیا اور اس حاسد شخص کو ذبح کر کے اس"
"کی کھال اُتار کر اس میں بھوسا بھر دیا گیا ۔ پھر اس کی لاش کو با دشاہ کے دربار میں بھجوادیا گیا۔ وہ شخص جس سے یہ حسد کیا کرتا تھا حسبِ معمول بادشاہ کے دربار میں گیا اور با دشاہ کے سامنے کھڑے ہو کر وہی الفا ظ دہرائے:'' محسن کے ساتھ احسان کر اور جو کوئی برائی کریگا اسے عنقریب اس کی برائی کا صلہ مل جائے گا۔''جب بادشاہ نے اس شخص کوصحیح وسالم دیکھا تو اس سے پوچھا :'' میں نے تجھے جو خط دیا تھا اس کا کیا ہو ا؟''اس نے جواب دیا:'' میں آپ کا خط لے کر گورنر کے پاس جا رہاتھا کہ مجھے راستے میں فلاں شخص ملا اور اس نے مجھ سے کہا کہ یہ خط مجھے دے دو،چنانچہ میں نے اسے خط دے دیا اور وہ خط لے کر گو رنر کے پاس چلا گیا ہے ۔''
با دشاہ نے کہا :''اس شخص نے مجھے تمہارے بارے میں بتا یا تھا کہ تم میرے متعلق یہ گمان رکھتے ہو کہ میرے منہ سے بدبُو آتی ہے، کیا واقعی ایسا ہے ؟ ''اس شخص نے کہا :''با دشاہ سلامت !میں نے کبھی بھی آپ کے بارے میں ایسا نہیں سوچا۔''
توبادشاہ نے پوچھا:'' جب میں نے تجھے اپنے قریب بلایا تھاتوتُو نے اپنے منہ پر ہاتھ کیوں رکھ لیا تھا ؟'' اس شخص نے جواب دیا: ''بادشاہ سلامت! آپ کے در بار میں آنے سے کچھ دیر قبل اس شخص نے میری دعوت کی تھی اور کھانے میں مجھے بہت زیادہ لہسن کھلا دیا تھا جس کی وجہ سے میرا منہ بد بُو دار ہوگیا۔جب آپ نے مجھے اپنے قریب بلایا تو میں نے یہ بات گوارا نہ کی کہ میرے منہ کی بد بُو سے بادشاہ سلامت کو تکلیف پہنچے اسی لئے میں نے منہ پر اپنا ہاتھ رکھ لیا تھا ۔''
جب بادشاہ نے یہ سنا تو کہا:اے خوش نصیب شخص! تُو نے بالکل ٹھیک کہا تیری یہ بات بالکل سچی ہے کہ'' جو کسی کے ساتھ برائی کرتا ہے اسے عنقریب اس کی برائی کا بدلہ مل جائے گا۔'' اس شخص نے تیرے ساتھ برائی کا اِرادہ کیا اور تجھے سزا دلوانی چاہی لیکن اسے اپنی برائی کا صلہ خود ہی مل گیا ۔سچ ہے کہ جو کسی کے لئے گڑھا کھودتا ہے وہ خود ہی اس میں جا گرتا ہے ۔ اے نیک شخص! میرے سامنے بیٹھ او راپنی اسی بات کو دہرا۔'' چنانچہ وہ شخص بادشاہ کے سامنے بیٹھا اور کہنے لگا :''محسن کے ساتھ احسان کر اور برائی کرنے والے کو عنقریب اس کی برائی کی سزا خود ہی مل جائے گی۔ ''
( میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! جو کسی پر احسان کرتا ہے اس پر بھی احسان کیا جاتاہے اورجوکسی کے لئے براچاہتا ہے اس کے ساتھ برا معاملہ ہی ہوتا ہے۔ جو دو سروں کی تباہی وبربادی کا خواہاں ہوتا ہے وہ خود تباہ و بر باد ہوجاتا ہے۔ جو کسی سے حسد کرتا ہے اسے اس کے حسد کی سزا خود ہی مل جاتی ہے ، اچھے کام کا اچھا نتیجہ اور برے کا م کا برا نتیجہ، جیسی کرنی ویسی بھرنی، اللہ عزوجل ہمیں حسد جیسی بیماری سے محفوظ فرمائے آمین )
سچ ہے کہ بُرے کام کاا نجام بُرا ہے"
" حضرت سیدناعبداللہ الصنعانی قدس سرّہ الربّانی حضرت سیدنا حوثرہ بن محمد المقری علیہ رحمۃ اللہ الغنی سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت سیدنا یزیدبن ہارون واسطی علیہ رحمۃ اللہ القوی کے اِنتقال کے بعد چار راتیں گزر گئیں پھر میں نے انہیں خواب میں دیکھا تو پوچھا : ''مَافَعَلَ اللہُ بِکَ ''یعنی اللہ عزوجل نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا ؟ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرمانے لگے کہ میرے رحیم وکریم پروردگار عزوجل نے میری نیکیاں قبول فرمالیں اور میرے گناہ معاف فرمادیئے اورمجھے بہت سارے خُدّام عطا فرمائے۔ میں نے پوچھا: ''پھر اس کے بعد کیا ہو ا؟فرمایا:'' کریم کرم ہی کرتا ہے، میرا مولیٰ عزوجل بہت کریم ہے، اس نے میرے سارے گناہ معاف فرمادیئے اور مجھے جنت میں داخل فرمادیا ۔''میں نے پوچھا:'' آپ (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) کو یہ مقام ومرتبہ کِن اَعمال کی بدولت حاصل ہوا؟''
آپ نے ارشادفرمایا:''ان پانچ چیزوں کے سبب حاصل ہوا:(۱)۔۔۔۔۔۔اجتماعِ ذکرمیں شرکت (۲)۔۔۔۔۔۔گفتگومیں سچائی (۳)۔۔۔۔۔۔ حدیث بیان کرنے میں امانت وصدق سے کام لینا(۴)۔۔۔۔۔۔نمازمیں طویل قیام کرنا(۵)۔۔۔۔۔۔تنگدستی اور فقرو فاقہ کی حالت میں صبروشکرکرنا۔''
میں نے پوچھا:'' منکر نکیرکا معاملہ کیسا رہا ؟'' فرمایا :''اُس اللہ عزوجل کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں ،وہی عبادت کے لائق ہے !منکر نکیر میری قبر میں آئے اور مجھے کھڑا کرکے سوالات کرنے شروع کردئیے:''(۱) تیرا رب عزوجل کون ہے ؟(۲) تیرا دین کیا ہے ؟(۳) تیرانبی(علیہ السلام) کون ہے ؟'' ان کے یہ سوالات سن کرمیں نے اپنی سفید داڑھی سے مٹی جھاڑتے ہوئے کہا: ''اے فرشتو ! کیا تم مجھ سے سوال کرتے ہو؟میں یزید بن ہارو ن واسطی ہوں،میں دنیا میں(اللہ عزوجل کی رضا کی خاطر) ساٹھ سال تک لوگو ں کو علمِ دین سکھاتا رہا ہوں۔'' میری یہ بات سن کر ان میں سے ایک فرشتے نے کہا:'' اس نے سچ کہا ہے،یہ واقعی یزید بن ہارو ن واسطی علیہ رحمۃ اللہ القوی ہیں۔'' پھر مجھ سے کہا :'' اب تودُلہن کی طر ح سکون کی نیند سوجا ،آج کے بعد تجھے کسی قسم کا غم وخوف نہ ہوگا ۔''
پھر دو سرے فرشتے نے مجھ سے پوچھا:'' کیا تُو نے جریر بن عثمان سے بھی کوئی حدیث سیکھی ہے ؟'' میں نے کہا:'' ہاں! وہ تو حدیث میں ثقہ(یعنی پختہ) راوی ہے۔'' اس فر شتے نے کہا :''یہ بات ٹھیک ہے کہ وہ ثقہ راوی ہے لیکن وہ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْھَہُ الْکَرِیْم سے بغض رکھتا ہے اس لئے وہ اللہ عزوجل کے ہاں ناپسندیدہ شخص ہے ۔''
حضرت سید نا یز ید بن ہارون واسطی علیہ رحمۃ اللہ القوی کو خواب میں دیکھنے والا واقعہ اس طر ح بھی بیان کیا جاتا ہے کہ ایک"
"شخص حضرت سیدنا احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بارگاہ میں حاضر ہو اور عرض کی :''حضور! میں نے حضرت سیدنا یزید بن ہارو ن واسطی علیہ رحمۃ اللہ القوی کو خواب میں دیکھا تو پوچھا:'' مَا فَعَلَ اللہُ بِکَ یعنی اللہ عزوجل نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟'' تو انہوں نے جواب دیا:'' میرے پاک پروردگار عزوجل نے میرے گناہوں کو بخش دیا، مجھ پر خوب کرم فرمایا لیکن مجھ پر عتاب بھی ہوا۔'' مَیں ان کی یہ بات سن کر متعجب ہواا ور پوچھا:'' آپ کی مغفرت بھی ہوگئی، آپ پر رحم بھی کیا گیا پھر عتا ب بھی ہوا ؟''توانہوں نے جواباً فرمایا : ''ہاں ! مجھ سے پوچھا گیا کہ اے یزید بن ہارو ن واسطی ! کیا تُو نے جریر بن عثمان سے کوئی حدیث نقل کی ہے ؟ ''میں نے کہا:' 'ہاں! اللہ ربُّ العزَّت عزوجل کی قسم! میں نے اس میں ہمیشہ بھلائی ہی پائی۔'' پھر مجھ سے کہا گیا:''مگر وہ ابوالحسن حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْھَہُ الْکَرِیْم سے بغض رکھتاتھا۔''
؎ محفوظ سدا رکھنا شہا بے ادبوں سے اور مجھ سے بھی سرزد نہ کبھی بے ادبی ہو
(اے ہمارے پیارے اللہ عزوجل !ہمیں تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان اور تمام اولیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کی سچی محبت عطا فرما، ہمارے دلوں کو ان کی محبت سے معمور فرما، ان کے نقش قدم پر چلنے کی تو فیق عطا فرما، تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان پر خوب رحمتوں کی برسا ت فرما اور ان پاکیزہ ہستیوں کے صدقے ہماری مغفرت رما۔آمین بجاہ النبی ا لامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)"
حضرت سیدنا ابراہیم خواص علیہ رحمۃ اللہ الرزاق حضرت سنان علیہ رحمۃ اللہ المنا ن کے بھائی حضرت سیدنا حسن رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے روایت کرتے ہیں ،حضرت سیدنا ابو تراب نخشی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اور میرے چند رفقائحرمین شریفینکی حاضری کے لئے سفر پر روانہ ہوئے۔ میں نے سب سے الگ تھلگ رہ کر سفر کرنا پسند کیا اور انہیں چھوڑ کر اکیلا ہی سفر کرتا رہا ،چلتے چلتے جب بھوک نے بہت زیادہ ستا یا تو میرے دوستوں نے ایک ہر ن شکارکیا او رذبح کرنے کے بعد اسے بھونا پھر سب مل کر کھانے کے لئے بیٹھ گئے ۔ ابھی انہوں نے کھانا شرو ع بھی نہ کیا تھا کہ ایک بہت بڑا پرندہ آیا، اس نے بھنے ہوئے ہر ن پر حملہ کیا اور اس کا چوتھائی حصہ لے کر فضا میں بلند ہوگیا ۔ میرے رفقاء کا کہنا ہے:'' ہم نے اس کا پیچھا کیا لیکن کچھ دور جاکر و ہ ہماری نظروں سے اوجھل ہوگیا ۔''
" حضرت سیدنا ابو تر اب نخشی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:جب ہم سب دوست مکہ مکرمہ میں جمع ہوئے تو میں نے ان سے پوچھا :''کیا تمہیں دورانِ سفر کوئی عجیب وغریب واقعہ پیش آیا ؟'' انہوں نے جواب دیا:'' جی ہاں!ہمیں ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا۔''پھرانہوں نے پرندے اور ہر ن والا واقعہ سنایا۔ ان سے یہ واقعہ سننے کے بعد میں نے کہا:'' فلاں دن فلاں وقت میں سوئے حرم سفر پر رواں دواں تھا کہ اچانک ایک پرندہ آیا اور میرے سامنے بھنے ہوئے ہر ن کا چوتھائی حصہ ڈال کروہاں سے غائب ہوگیا ، دیکھو! ہمارے پاک پروردگار عزوجل نے ہمیں کس طر ح ایک ہی وقت میں ایک ہی ہرن کا گو شت کھلایا۔ ''
(اے ہمارے پیارے اللہ عزوجل !ہمیں حلال رزق عطا فرما اور حرام چیزوں سے ہماری حفاظت فرمااور ہمیں تو کُّل کی دولت سے مالا مال فرما۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)"
" حضرت سیدنا احمد بن منصور علیہ رحمۃ اللہ الغفور فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے اُستاذ حضرت سیدنا ابو یعقوب السوسی علیہ رحمۃ اللہ القوی کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ایک مرتبہ میرا ایک شاگرد میرے پاس مکہ مکرمہ آیا اور کہنے لگا:'' اے اُستادِ محترم !کل ظہر کی نماز کے بعد میں اپنے خالق حقیقی عزوجل سے جاملوں گا ۔ آپ یہ چند درہم لے لیجئے، ان سے گورکن (یعنی قبرکھودنے والے) کی اُجرت ادا کردینا اور بقیہ درہموں کی خوشبو منگوالینا اور مجھے میرے انہیں کپڑو ں میں دفن کر دینا، یہ بالکل پاک وصاف ہیں ۔'' اس کی یہ باتیں سن کر میں سمجھاکہ شایدبھوک کی و جہ سے اس کی یہ حالت ہوگئی ۔مجھے اس کی با توں پر تعجب بھی ہو رہا تھا بہر حال میں نے اس پرتوجہ رکھی ۔دو سرے دن جب نمازِ ظہر کا وقت ہوا تواس نے نماز ادا کی اورخانہ کعبہ کو دیکھنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ زمین پر گر پڑا۔ مَیں دوڑ کر اس کے قریب گیا اور اسے ہلا جُلا کر دیکھا تو اس کا جسم بے جان ہوچکا تھا اور خانہ کعبہ کا جلوہ دیکھتے دیکھتے اس کی رُوح قَفَسِ عنصری سے پرواز کر چکی تھی۔
یہ صورت حال دیکھ کر میں نے دل میں کہا:'' میرا پر وردگار عزوجل بڑا بے نیاز ہے، جسے چاہے جو مقام عطا فرمائے ،اس کی حکمتیں وہی جانے ،وہ جسے چاہے اپنی معرفت عطا کرے۔ وہ ذات پاک ہے جس نے میرے شاگر د کو اِتنا مرتبہ عطا فرمایاکہ موت سے پہلے ہی اسے حقیقت سے آگا ہی عطا فرمادی اور مَیں ایسی باتیں نہیں جانتا حالانکہ میں اس کا اُستا د ہوں۔ یہ اس کی نعمتیں ہیں جسے چاہے عطا کرے ۔''"
" مجھے اپنے اس شاگرد کی موت کا بہت غم ہوا ، بہر حال ہم نے اسے تختہ پر لٹایا اور غسل دینا شرو ع کیا جب میں نے اسے وضو کرایا تو اچانک اس نے آنکھیں کھول دیں ۔یہ دیکھ کر میں بڑا حیران ہوا اور اس سے پوچھا:''اے میرے بیٹے !کیا تُو مرنے کے بعد دو بارہ زندہ ہوگیا ؟'' اس نے بڑی فصیح وبلیغ زبان میں جواب دیا : ''(اے اُستادِ محترم)! میں موت کے بعد زندہ ہوگیا ہوں اور موت کے بعد اپنی قبر وں میں اللہ تعالیٰ کے تمام ولی زندہ ہوتے ہیں ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدنا حسن بن حضر علیہ رحمۃ اللہ الاکبر فرماتے ہیں، مجھے بغداد کے ایک شخص نے بتا یا کہ حضرت سیدنا ابو ہاشم علیہ رحمۃ اللہ الدائم نے بیان فرمایا:'' ایک مرتبہ میں نے بصرہ جانے کا ارادہ کیا۔چنانچہ میں ساحل پر آیا تا کہ کسی کشتی میں سوار ہو کر جانبِ منزل روانہ ہوجاؤں،جب وہا ں پہنچا تو دیکھا کہ ایک کشتی موجود ہے اور اس میں ایک لونڈی اور اس کا مالک سوار ہے ۔ میں نے بھی کشتی میں سوار ہونا چاہا تو لونڈی کے مالک نے کہا :'' اس کشتی میں ہمارے علاوہ کسی اور کے لئے جگہ نہیں ،ہم نے یہ ساری کشتی کرایہ پر لے لی ہے لہٰذا تم کسی اور کشتی میں بیٹھ جاؤ۔'' لونڈی نے جب یہ بات سنی تو اس نے اپنے آقا سے کہا :'' اس مسکین کو بٹھا لیجئے۔'' چنا نچہ اس لونڈی کے مالک نے مجھے بیٹھنے کی اجازت دے دی اور کشتی جھومتی جھومتی بصرہ کی جانب سطحِ سمند ر پر چلنے لگی، موسم بڑا خوشگوار تھا۔ میں ان دونوں سے الگ تھلگ ایک کونے میں بیٹھا ہوا تھا۔ وہ دونوں خوش گپیوں میں مشغول خوشگوار موسم سے خوب لُطف اَندو ز ہو رہے تھے ۔
پھر اس لونڈی کے مالک نے کھانا منگوایا اور دستر خوان بچھا دیا گیا۔ جب وہ دونوں کھانے کے لئے بیٹھے تو انہوں نے مجھے آواز دی:'' اے مسکین !تم بھی آجاؤ اور ہمارے ساتھ کھانا کھاؤ ۔'' مجھے بہت زیادہ بھوک لگی تھی اور میرے پاس کھانے کو کچھ بھی نہ تھا چنانچہ میں ان کی دعوت پر ان کے ساتھ کھانے لگا ۔
جب ہم کھانا کھا چکے تو اس شخص نے اپنی لونڈی سے کہا:'' اب ہمیں شراب پلاؤ۔'' لونڈی نے فوراً شراب کا جام پیش کیا اور وہ شخص شراب پینے لگاپھر اس نے حکم دیاکہ اس شخص کو بھی شراب پلاؤ ۔ میں نے کہا:''اللہ عزوجل تجھ پر رحم فرمائے، میں تمہارا"
"مہمان ہوں او ر تمہارے ساتھ کھانا کھا چکاہوں،اب میں شراب ہرگز نہیں پیوں گا ۔'' اس نے کہا:'' ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی۔'' پھر جب وہ شراب کے نشے میں مست ہوگیا تو لونڈی سے کہا :''سارنگی (یعنی باجا) لاؤ او رہمیں گا نا سناؤ ۔'' لونڈی سارنگی لے کر آئی اور اپنی پُر کشش آواز میں گانے لگی ، اس کا مالک گانے سنتا رہا اور جھومتا رہا ، لونڈی بھی سارنگی بجا تی رہی اور پُرکشش آواز سے اپنے مالک کا دل خوش کرتی رہی ۔
یہ سلسلہ کافی دیر تک چلتا رہا وہ دونوں اپنی ان رنگینیوں میں بدمست تھے اورمَیں اپنے رب عزوجل کے ذکر میں مشغول رہا۔ جب کافی دیر گزر گئی اور اس کا نشہ کچھ کم ہوا تو وہ میری طر ف متوجہ ہوا او رکہنے لگا:'' کیاتُونے پہلے کبھی اس سے اچھاگانا سنا ہے؟ دیکھو!کتنے پیارے انداز میں اس حسینہ نے گانا گایا ہے،کیا تم بھی ایساگا سکتے ہو ؟ '' میں نے کہا :'' میں ایک ایسا کلام آپ کو سنا سکتا ہو ں جس کے مقابلے میں یہ گانا کچھ حیثیت نہیں رکھتا ۔'' اس نے حیران ہوکر کہا :''کیا گانوں سے بہتر بھی کوئی کلام ہے؟'' میں نے کہا :''ہاں! اس سے بہت بہتر کلام بھی ہے۔'' اس نے کہا:'' اگر تمہارا دعوی درست ہے تو سناؤ ذرا ہم بھی تو سنیں کہ گانوں سے بہتر کیا چیز ہے؟''تو مَیں نے سُوْرَۃُ التَّکْوِیْر کی تلاوت شروع کردی :"
اِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ ۪ۙ﴿۱﴾وَ اِذَا النُّجُوۡمُ انۡکَدَرَتْ ۪ۙ﴿۲﴾وَ اِذَا الْجِبَالُ سُیِّرَتْ ۪ۙ﴿۳﴾
"ترجمہ کنزالایمان:جب دھوپ لپیٹی جائے اورجب تارے جھڑپڑیں اور جب پہاڑچلائے جائیں۔(پ30،التکویر:1تا3)
میں تلاوت کرتا جارہا تھا او راس کی حالت تبدیل ہوتی جارہی تھی۔اس کی آنکھوں سے سیلِ اشک رواں ہوگیا ۔بڑی توجہ وعاجزی کے ساتھ وہ کلامِ الٰہی عزوجل کو سنتا رہا ۔ایسا لگتا تھا کہ کلام ِالٰہی عزوجل کی تجلیاں اس کے سیاہ دل کو منور کر چکی ہیں اور یہ کلام تاثیر کا تیر بن اس کے دل میں اُتر چکا ہے،اب اسے عشقِ حقیقی کی لذت سے آشنائی ہوتی جارہی تھی۔تلاوت کر تے ہوئے جب میں اس آیت مبارکہ پر پہنچا :'"
'وَاِذَاالصُّحُفُ نُشِرَتْ 0
"ترجمہ کنز الایمان:اور جب نامہ اعمال کھولے جائیں گے۔(پ۳۰،التکریر:۱۰)''تو اس نے اپنی لونڈی سے کہا:''جا !میں نے تجھے اللہ عزوجل کی خاطر آزاد کیا ۔''پھر اس نے اپنے سامنے رکھے ہوئے شراب کے سارے برتن سمندر میں انڈیل دئیے۔ سارنگی ، باجا اور آلات لہو ولعب سب تو ڑ ڈالے پھر وہ بڑے مؤ دبانہ اَنداز میں میرے قریب آیا اور مجھے سینے سے لگا کر ہچکیاں لے لے کر رونے لگا او رپوچھنے لگا:''اے میرے بھائی! مَیں بہت گناہگار ہوں، مَیں نے ساری زندگی گناہوں میں گزاردی اگر میں اب توبہ کرو ں تو کیا اللہ عزوجل میری تو بہ قبول فرمالے گا ؟''
مَیں نے اسے بڑی محبت دی اور کہا:'' بے شک اللہ عزوجل تو بہ کرنے والوں اور پاکیزگی حاصل کرنے والوں کو بہت پسند فرماتا ہے ،وہ تو تو بہ کرنے والوں سے بہت خوش ہوتا ہے، اللہ عز وجل کی بارگاہ سے کوئی مایوس نہیں لوٹتا، تم اس سے تو بہ کرو وہ"
"ضرور قبول فرمائے گا ۔''
چنانچہ اس شخص نے میرے سامنے اپنے تمام سابقہ گناہوں سے تو بہ کی اور خوب رو رو کر معافی مانگتا رہا۔ پھر ہم بصرہ پہنچے اور دونوں نے اللہ عزوجل کی رضا کی خاطر ایک دوسرے سے دوستی کرلی۔ چالیس سال تک ہم بھائیوں کی طرح رہے چالیس سال بعد اس مردِ صالح کا اِنتقال ہوگیا ۔مجھے اس کا بہت غم ہوا ،پھرایک رات میں نے اسے خواب میں دیکھا تو پوچھا:'' اے میرے بھا ئی! دنیا سے جانے کے بعد تمہارا کیا ہوا تمہا را ٹھکانہ کہا ں ہے ؟'' اس نے بڑی دِلربا اورشیریں آواز میں جواب دیا: ''دنیا سے جانے کے بعد مجھے میرے رب عزوجل نے جنت میں بھیج دیا ۔''
میں نے پوچھا:'' اے میرے بھائی !تمہیں جنت کس عمل کی وجہ سے ملی؟ '' اس نے جواب دیا :''جب تم نے مجھے یہ آیت سنائی تھی:"
وَ اِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ ﴿۪ۙ10﴾
"ترجمہ کنز الایمان:اور جب نامہ اعمال کھولے جائیں گے۔ (پ30،التکویر:10)
تواسی آیت کی برکت سے میری زندگی میں انقلاب آگیا تھا۔اسی وجہ سے میری مغفرت ہوگئی اور مجھے جنت عطاکر دی گئی۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي الله تعالي عليه وسلم)
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!قرآنِ پاک ایک ایسی عظیم نعمت ہے کہ اس کو سن کر نہ جانے کتنے ایسے سیاہ دل روشن ہوگئے جو گناہو ں کے تاریک گڑھے میں گر چکے تھے ، کتنے ہی مردہ دلوں کو قرآن کریم نے جِلا بخشی ،بڑے بڑے مجرموں نے جب اسے سنا تو ان کے دل خوفِ خداوندی عزوجل سے لرز اٹھے اور وہ تمام سابقہ گناہوں سے تو بہ کر کے صلوٰۃ وسنت کی راہ پر گامزن ہوگئے۔ کلام الٰہی عزوجل ایسا بابرکت کلام ہے کہ جس نے بڑے بڑے کفار کو کفر کے ظلمت کدوں سے نکال کر ایسی عظمتیں عطا کیں کہ وہ آفتا ب ِہدایت بن کر لوگو ں کے ہادی ومقتدا بن گئے او راپنے جلوؤں سے دنیا کو منور کرنے لگے اور جو اِن کے دامن سے وابستہ ہوگیا وہ بھی منور ہوگیا ۔اے ہمارے پیارے اللہ عزوجل !ہمیں قرآن کریم کو سمجھنے، اس پر عمل کرنے اوراس کی تعلیم عام کرنے کی تو فیق عطا فرما ۔)
؎ یہی ہے آرزو تعلیمِ قرآں عام ہوجائے ہر ایک پر چم سے اُونچا پرچمِ اسلام ہوجائے
آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم"
" حضرت سیدنا عفان بن مسلم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حضر ت سیدنا حماد بن سلمہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہسے روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ سردیوں کے موسم میں زبر دست موسلادھار با رش ہوئی ، مسلسل بار ش کی وجہ سے لوگوں کو پریشانی ہونے لگی۔ حضرت سیدنا حماد بن سلمہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ ہمارے پڑوس میں ایک عبادت گزار عورت اپنی یتیم بچیوں کے ساتھ ایک پُرانے سے گھر میں رہتی تھی ۔ جب با رش ہوئی تو ان کے کچے گھر کی چھت ٹپکنے لگی اور با رش کا پانی گھرمیں آنے لگا ،ان غربیوں کے پاس صرف یہ ایک ہی کمرے پر مشتمل گھر تھا ۔ اس نیک عورت نے جب دیکھا کہ سردی کی وجہ سے بچے ٹھٹر رہے ہیں او ربار ش کا پانی مسلسل گھر میں گر رہا ہے جبکہ بار ش رکنے کا نام تک نہیں لے رہی ۔
چنانچہ اس نیک عورت نے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے او رعرض گزار ہوئی: '' اے میرے رحیم وکریم پر ورد گارعزوجل !تُو رحم اور نرمی فرمانے والا ہے، ہمارے حال زار پر رحم اور نرمی فرما۔''
وہ نیک عورت ابھی دعا سے فارغ بھی نہ ہونے پائی تھی کہ فوراً با رش رُک گئی میرا گھر چونکہ اس صالحہ عورت کے گھر سے بالکل متصل تھا۔میں ا س کی دعا سن رہا تھا جب میں نے دیکھا کہ اس عورت کی دعا سے با رش بند ہوگئی ہے تو میں نے ایک تھیلی میں دس سونے کی اشرفیاں ڈالیں او راس عورت کے دروازے پر پہنچ کر دستک دی دستک سُن کر عورت نے کہا :''اللہ عزوجل کر ے کہ آنے والا حماد بن سلمہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہو۔ ''جب میں نے یہ سنا تو کہا کہ مَیں حماد بن سلمہ ( رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ) ہی ہوں ۔میں نے تمہاری آواز سنی تھی تم دعا میں اسی طرح کہہ رہی تھی :''اے نرمی فرمانے واے پروردگار عزوجل نرمی فرما ۔'' کیا تمہاری یہ دعا مقبول ہوگئی ہے اور اللہ عزوجل نے تم سے کیا نرمی والا معاملہ فرمایا ہے ۔ وہ نیک عورت بولی:'' میرے پروردگار عزوجل نے ہم پر اس طر ح نرمی فرمائی کہ بارش رُک گئی اور جو پانی ہمارے گھر میں جمع ہوگیا تھا وہ بھی خشک ہوگیا۔ میرے بچے بھی سر دی سے محفو ظ ہوگئے ہیں، انہوں نے گرمائش حاصل کرنے کا بھی اِنتظام کر لیا ہے ۔''
جب میں نے اس عورت کی یہ باتیں سنیں تو سونے کی اشر فیوں والی تھیلی نکالی او ر کہا:'' یہ کچھ رقم ہے ،اسے تم اپنی ضروریات میں استعمال کر و ۔''ابھی ہمارے درمیان یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ ایک بچی اچانک ہمارے پاس آئی ، اس نے اُون کا پُرانا سا کُرتا پہنا ہوا تھا جو ایک جگہ سے پھٹا ہوا تھا اور اس پر پیوند لگے ہوئے تھے ۔ ہمارے پاس کر آکر وہ کہنے لگی:'' اے حماد بن سلمہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ !کیا آپ یہ دنیاوی دولت دے کر ہمارے اور ہمارے رب عزوجل کے درمیان پر دہ حائل کرنا چاہتے ہیں، ہمیں ایسی دولت نہیں چاہے جو ہمیں ہمارے رب عزوجل کی بار گاہ سے جُدا کرنے کا سبب بنے ۔''"
" پھر اس نے اپنی والدہ سے کہا :'' اے امی جان ! جب ہم نے اپنے پر وردگار عزوجل سے اپنی مصیبتو ں کی التجاء کی تو اس نے فورا ًہی دنیاوی دولت ہماری طرف بھجوادی ، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اس دنیا وی دولت کی وجہ سے اپنے مالکِ حقیقی عزوجل کے ذکر سے غافل ہو جائیں اور ہماری تو جہ اس سے ہٹ کر کسی اور کی طر ف مبذول ہوجائے۔'' پھر اس لڑکی نے اپنا چہر ہ زمین پر ملنا شروع کیا او رکہنے لگی:'' اے ہمارے پاک پروردگا رعزوجل !ہمیں تیری عزت و جلا ل کی قسم! ہم کبھی بھی تیرے دَر سے نہیں جائیں گے، ہماری اُمیدیں صرف تجھ سے ہی وابستہ رہیں گی ،ہم تیرے ہی دَر پر پڑے رہیں گے اگرچہ ہمیں دُھتکاردیا جائے لیکن ہم پھر بھی تیرے دَر کو نہیں چھوڑ یں گے ۔''
؎ تمہارے در تمہارے آستاں سے میں کہاں جاؤں نہ مجھ سا کوئی بے بس ہے نہ تم سا کوئی والی ہے
پھر اس بچی نے مجھ سے کہا:''اللہ عزوجل آپ کو اپنی حِفظ وامان میں رکھے ، برائے کرم! آپ یہ رقم واپس لے جائیں اور جہا ں سے لائے ہیں وہیں رکھ دیں۔ ہمیں اس دولت کی کوئی حاجت نہیں ،ہمیں ہمارا پر وردگار عزوجل کا فی ہے۔وہ ہمیں کبھی بھی مایوس نہیں کریگا۔ ہم اپنی تمام حاجتیں اس پاک پروردگار عزوجل کی بار گاہ میں پیش کرتے ہیں ،وہی ہماری حاجتو ں کو پورا کرنے والا ہے ، وہی تمام جہانوں کاپالنے والا اورساری مخلوق کا حاکم و والی ہے۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علی وسلم)"
حَسْبُنَااللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ نِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِیْرُ
حضرت سیدنا ابو ابراہیم یمانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:'' ایک مرتبہ ہم چند رفقاء حضرت سیدنا ابراہیم بن ادہم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم کی ہمراہی میں سمند رکے قریب ایک وادی کی طر ف گئے۔ ہم سمند ر کے کنارے کنارے چل رہے تھے کہ راستے میں ایک پہاڑ آیا جسے جبل'' کفر فیر '' کہتے ہیں۔ وہاں ہم نے کچھ دیر قیام کیا اور پھر سفر پر روانہ ہوگئے۔ راستے میں ایک گھنا جنگل آیا جس میں بکثر ت خشک درخت اور خشک جھاڑیاں تھیں، شام قریب تھی، سردیوں کا موسم تھا۔ ہم نے حضرت سیدنا ابراہیم بن ادہم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کی بارگاہ میں عرض کی :'' حضور !اگر آپ مناسب سمجھیں تو آج رات ہم ساحل سمندر پر گزار لیتے ہیں۔ یہا ں اس
"قریبی جنگل میں خشک لکڑیاں بہت ہیں۔ ہم لکڑیاں جمع کر کے آگ روشن کرلیں گے اس طر ح ہم سردی اور درندوں وغیرہ سے محفوظ رہیں گے ۔''
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی۔ ''چنانچہ ہمارے کچھ دوستوں نے جنگل سے خشک لکڑیاں اکٹھی کیں اور ایک شخص کو آگ لینے کے لئے ایک قریبی قلعے کی طر ف بھیج دیا ، جب وہ آگ لے کرآیاتو ہم نے جمع شدہ لکڑیوں میں آگ لگا دی اور سب آگ کے اِرد گر د بیٹھ گئے اور ہم نے کھانے کے لئے روٹیاں نکال لیں۔ اچانک ہم میں سے ایک شخص نے کہا :''دیکھو ان لکڑیوں سے کیسے اَنگارے بن گئے ہیں ، اے کاش! ہمارے پاس گو شت ہوتا تو ہم اسے ان اَنگاروں پر بھون لیتے ۔'' حضرت سیدنا ابراہیم ابن ادہم علیہ رحمۃاللہ الاعظم نے اس کی یہ بات سن لی اورفرمانے لگے :'' ہمارا پاک پروردگار عزوجل اس بات پر قادرہے کہ تمہیں اس جنگل میں تا زہ گو شت کھلائے ۔ ''
ابھی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ یہ بات فرما ہی رہے تھے کہ اچانک ایک طر ف سے شیر نمودار ہوا جو ایک فربہ ہرن کے پیچھے بھاگ رہا تھا۔ ہر ن کا رُخ ہماری ہی طر ف تھا۔ جب ہرن ہم سے کچھ فاصلے پر رہ گیا تو شیر نے اس پر چھلانگ لگائی او راس کی گردن پرشد ید حملہ کیا جس سے وہ تڑپنے لگا ۔یہ دیکھ کر حضرت سیدنا ابراہیم بن ادہم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم اُٹھے اور اس ہرن کی طرف لپکے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو آتا دیکھ کر شیر ہرن کو چھوڑ کر پیچھے ہٹ گیا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' یہ رزق اللہ عزوجل نے ہمارے لئے بھیجا ہے۔ چنانچہ ہم نے ہرن کو ذبح کیااور اس کا گوشت انگاروں پر بھون بھون کر کھاتے رہے اور شیر دور بیٹھا ہمیں دیکھتا رہا۔ اسی طر ح ہماری ساری رات گز ر گئی۔'' سچ ہے کہ جو اس پاک ذات پر کامل یقین رکھتا ہے وہ کبھی مایوس نہیں ہوتا ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علی وسلم)"
حضرت سیدنا محمد بن محمود سمر قندی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں ،زمانے کے مشہور ولی حضرت سیدنا یحییٰ بن معا ذ علیہ رحمۃ اللہ الجباربارگاہِ خداوندی عزوجل میں اس طرح دعاکرتے :'' اے میرے پروردگار عزوجل! میں تجھ سے اس زبان کے ذریعے دعا کرتا ہوں جو تُونے مجھے عطا کی ہے ، میرے مولیٰ عزوجل! تُو اپنے فضل وکرم سے میری دعا قبول فرما ۔ اے میرے پروردگار عزوجل!
"تُومجھے ہر حال میں رزق عطا فرماتا ہے اور ہر مصیبت میں میرامددگار تُو ہی ہے ، اے میرے مولیٰ عزوجل! میں تیری عظمتوں اور رحمتوں کو دل وجان سے ماننے والا ہوں، میں تیری عظمت کا مُعترِف ہوں، میرے پاس یہی دلیل وآسرا ہے کہ میں تجھ سے محبت کرتا ہوں۔ میری تجھ سے محبت تیری بارگاہ میں میرے لئے شفیع ہے ۔ اے رحیم وکریم مولیٰ عز وجل! تُو نے ہمیں بغیرمانگے محض اپنے فضل وکرم سے ایمان کی دولت سے نوازا، دولت ایمان سب سے بڑی دولت ہے۔
اے میرے مولیٰ عزوجل !جب ہم تجھ سے کوئی چیز مانگیں تُو ہمیں ضرور عطا فرما ئے گا ، جب بغیر مانگے تُو اتنی بڑی بڑی نعمتیں عطا فرماتا ہے تو مانگنے پربھی تُو ضرور ہماری حاجتیں پوری کریگا۔ اے میرے مولیٰ عزوجل! تُو ہم سے عفو ودر گزر والا معاملہ فرما ۔ اے میرے پاک پروردگار عزوجل !اگر معاف کرنا تیری صفت نہ ہوتی تواہل معرفت کبھی بھی تیری نافرمانی نہ کرتے۔ جب ایک لمحے کا ایمان پچاس سال کے کفر کو مٹا دیتا ہے اور انسان کو کفر کی پُرانی سے پُرانی گندگی سے پاک کردیتا ہے تو پچا س سال کا ایمان گناہوں کو کیسے نہیں مٹا ئے گا۔
اے میرے مولیٰ عزوجل !مَیں اس با ت کی اُمیدرکھتا ہوں کہ جو ایمان اپنے سے قبل کفر جیسی گندگی کو انسان سے لمحہ بھر میں دور کردیتا ہے اور ایمان کی بدولت انسان کفر جیسی بیماری سے نجات پاجاتا ہے تو یہی ایمان اپنے مابعد گناہوں کو ضرور مٹا دے گا، چاہے گناہ کتنے ہی بڑے ہوں اِیمان کی بدولت ضرور معاف کردیئے جائیں گے ۔
اے الٰہی عزوجل !تیری ذات تو وہ عظیم ذات ہے کہ اگر کوئی تجھ سے نہ مانگے توتجھے اس پر جلال آتا ہے،میں تو تجھ سے مانگ رہا ہوں۔ لہٰذا میری دعا رَدْنہ کرنابلکہ قبول فرمالینا۔ اے میرے پاک پروردگار عزوجل !مجھ پر ہر گھڑی نظرِ رحمت فرما، میرے پاس بس ایک ہی حجت ودلیل ہے کہ میں تیری عظمتوں اور تیری تمام صفات کا معترف ہوں ۔اے اللہ عزوجل! اسی حجت کے سبب میری مغفرت فرمادے ۔ اے میرے مولیٰ عزوجل! میرا اس بات پر یقینِ کامل ہے کہ میرا اور تمام جہاں کا پالنے والاتُو ہی ہے، اے اللہ عزوجل !میں اپنے آپ کو تیری رحمتوں کے سائے میں پاتا ہوں، تیری رحمت کی جلوہ گری ہر طرف ہے ۔ اے میرے پاک پرور دگار عزوجل! میں تجھ سے اس حال میں دعا کر رہا ہوں کہ میرے گناہوں سے لِتھڑے ہوئے ہاتھ دعا کے لئے پھیلے ہوئے ہیں اور آنکھیں تیری رحمت او رتیرے عفو وکر م کی اُمید سے بھیگی ہوئی ہیں ۔
ا ے میرے مولیٰ عزوجل !میری دعا قبول فرمالے کیونکہ تُوتوبُر د بار اور بخشنے والا مالک ہے ، میرے حال پر رحم فرما کیونکہ میں تو ایک کمزور و عاجز بندہ ہوں ۔اے میرے مولیٰ عزوجل !جب تجھ سے ڈرنے میں دل کو سرور و کیف حاصل ہوتا ہے تو جس وقت تُو ہم سے راضی ہوجائے گا اور ہمیں جہنم سے آزادی کا پر وانہ عطا فرمادے گا تو اس وقت ہمیں کتنا کیف وسرورحاصل ہوگا ۔"
" اے میرے مولیٰ عزوجل !جب دُنیوی زندگی میں تیری تجلیات میں اورتیری رحمتوں کے سائے تلے ہم کسی محفل میں تیرا ذکر کرتے ہیں تو ہمیں کتنا سرور ملتا ہے، توجب ہم اُخروی زندگی میں تیرے جلوؤں اور دیدار سے مشرف ہوں گے اس وقت ہماری خوشی اور کیف وسرور کا کیا عالم ہوگا۔اے اللہ عزوجل !جب ہم دنیاوی زندگی میں عبادات وریاضات کر کے خوش ہوتے ہیں اور مصیبتوں پر صبر کر کے خوش ہوتے ہیں تو جس وقت ہمیں آخرت میں بخششیں، مغفر تیں اور نعمتیں عطا ہوں گی اس وقت ہماری خوشی کا کیا عالم ہوگا ؟ جب ہم دنیا میں تیرے ذِکرکی لذت سے مَسْرور وشاداں ہوتے ہیں تو جس وقت اُخروی زندگی شر وع ہوگی اس وقت ہماری خوشی اور سرور کاعالم کیا ہوگا۔
اے میرے پاک پروردگار عزوجل! مجھے اپنے اَعمال پر بھروسا نہیں کہ میں ان کی وجہ سے بخشاجاؤ ں گا مجھے تو بس تیری رحمت سے اُمید ہے کہ تو مجھے ضروربالضرور بخشے گا مجھے تیری رحمت سے قوی اُمید ہے۔ اعمال میں اِخلاص شر ط ہے کیا معلوم کہ میرے اَعمال میں اِخلاص ہے بھی یا نہیں ؟ پھر میں کیوں نہ ڈروں اس بات سے کہ ہوسکتا ہے میرے اعمال تیری بارگاہ میں قبول ہی نہ ہوں۔اے اللہ عزوجل !میں اس بات پر پختہ یقین رکھتا ہوں کہ میرے گناہ محض تیری رحمت ہی سے بخشے جائیں گے اور یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ تُو گناہوں کو معا ف نہ کرے حالانکہ توُتو جوادوغفار ہے تو ضروربالضرور میرے گناہوں کو بخشے گا۔
یا الٰہی عزوجل !مجھے اس وقت تک دنیا سے نہ اٹھا نا جب تک تُو مجھے اپنی ملاقات کا خوب شوق عطا نہ فرمادے۔ جب میں دنیا سے جاؤں تو میرے دل میں تجھ سے ملاقات کا شوق مچل رہا ہو ، تیری زیارت کے لئے میرا دل بے قرار ہو، تیرے جلوؤں میں گم ہونے کے لئے میری روح تڑپ رہی ہو۔
اے میرے مولیٰ عزوجل !میرے پاس ایسی زبان نہیں جوتیری خوبیاں بیان کرسکے اور نہ ہی کوئی ایسا عمل ہے جسے میں حجت ودلیل بناسکوں اور اس کے ذریعے تیرا قُرب حاصل کر سکوں۔ میرے گناہوں کی کثرت نے مجھے بولنے سے عاجز کر دیا ہے اور میرے عیوب کی وجہ سے میری قوت بیانی ختم ہوچکی ہے۔
اے میرے پاک پروردگار عزوجل! میرے پاس کوئی عمل ایسا نہیں جسے تیری بارگاہ میں وسیلہ بنا سکوں ،نہ ہی کوئی ایسا عمل ہے جس کی وجہ سے میری کو تاہیاں معاف ہوجائیں ۔البتہ ! یہ بات ضرور ہے کہ میں تیری رحمت سے قوی اُمید رکھتا ہوں کہ تو مجھے ضرور بخشے گا تو ضرور مجھ پر احسان فرمائے گا اورمیں تیری ملاقات کو پسند کرتا ہوں۔ میرا یہ عمل بھی مجھے تیری بارگاہ سے ضرور مغفرت دِلوائے گا۔ یااللہ عزوجل! میں تجھے تیرے فضل وکرم کا واسطہ دیتا ہوں تُو میری غلطیوں اور کوتا ہیوں سے در گز ر فرما ۔ الٰہی عزوجل ! میری دعا کو قبول فرمالے اگر تُو قبول فرمالے گا تو میرے سارے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔ تیرے دریائے رحمت کا ایک"
"قطرہ میرے تمام گناہوں کی سیاہی دھو ڈالے گا ۔ اے میرے مالک ومختار رب عزوجل !تُو نے ہم پر اپنی عبادت لازم فرمائی حالانکہ تُو ہماری عبادت کا محتاج نہیں بلکہ توُ تو بے نیازہے، ہماری عبادت کی تجھے کوئی حاجت نہیں لیکن اے میرے مولیٰ عزوجل! میں تجھ سے مغفرت کا طالب ہوں او رمیں مغفرت کا محتاج ہوں۔ اپنے کرم سے میری اس حاجت کو پورا فرمادے اور میری مغفرت فرما۔
اے میرے پیارے اللہ عزوجل! تُو اس بات کو پسند کرتا ہے کہ میں تجھ سے محبت کرو ں حالانکہ تجھے میری محبت کی کوئی حاجت نہیں۔ا ے میرے مولیٰ عزوجل !میں تجھ سے محبت کیوں نہ کرو ں حالانکہ توُ تو میرا پیدا کرنے والاہے اور مجھے تیری محبت کی حاجت ہے ،تیری محبت کے بغیرمیرا گزارہ ہی نہیں ہو سکتا پھر میں تجھ سے محبت کیوں نہ کروں۔
اے میرے مولیٰ عزوجل !میں تیرا اَدنیٰ وحقیر بندہ ہوں، میں تجھ سے محبت کرتا ہوں،میں نے تیرا دَر لازم کرلیا ہے اب کسی اور کی طر ف ہر گز ہرگز اِلتفات نہ کروں گا۔ اے میرے مولیٰ عزوجل !میرے دل میں یہ بات اچھی طرح گَھر کرچکی ہے کہ تیری رحمت کے سہارے میں ضرور بخشا جاؤں گا مجھے تجھ سے قوی اُمید ہے ۔پھریہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں تجھ سے اُمید رکھوں پھر بھی میری مغفرت نہ ہو۔
میرا اس پاک پروردگار عزوجل پر پختہ یقین ہے جو دنیاوی زندگی میں ہماری کوتاہیوں کے با وجود ہمیں نعمتوں سے نوازتا جا رہا ہے ،وہ کل بر وزِ قیامت محض اپنے لُطف وکرم سے ہمارے حالِ زار پر ضرور رحم فرمائے گا۔وہ ایسا ستاروغفار ہے کہ دنیا میں ہماری نیکیوں کو ظاہر فرماتا اورہمارے عیوب پر پردہ ڈالتا ہے وہ بر وز قیامت ضرور ہماری ٹو ٹی پھوٹی نیکیوں کوقبول فرمائے گا اور ہماری خطاؤں اور گناہوں سے در گزر فرما کر ہمیں ضرور مغفرت کا مژدہ جا ں فزا سنائے گا او ر جو کسی پر احسان کرتا ہے اس کی شان یہ ہے کہ وہ اِحسان کو پایہ تکمیل تک پہنچاتا ہے ۔ میرا مولیٰ عزوجل ہم پر اِحسان فرمانے والا ہے وہ ضرور ہمارے گناہوں کو چھپائے رکھے گا اور ضرور ہماری مغفرت فرمائے گا۔
اے میرے مولیٰ عزوجل! تیری بارگاہ میں میرا وسیلہ تیری نعمتیں ہیں، تیرا لطف وکرم ہی میرا وسیلہ اور تیرا احسان وشان کریمی ہی تیری بارگاہ میں میرے لئے شفیع ہیں۔ اے میرے مولیٰ عزوجل! میں گناہ گار ہوں پھر میں خوش کیسے رہ سکتا ہوں اور جب تیری رحمت کی طر ف نظر کروں اور تیری بخششوں اور عطا ؤں کو مدِّ نظر رکھوں تو پھر میں غمگین اور پریشان کیسے رہ سکتا ہوں۔
اے اللہ عزوجل !جب میں اپنے گناہوں کی طر ف نظر کرتا ہوں تو سو چتا ہوں کہ تجھ سے دعا کس طر ح مانگوں؟ کس منہ سے تیری بارگاہ میں اِلتجا ئیں کروں لیکن جب تیری رحمت اور کرم کی طر ف نظر کرتا ہوں تو میری ڈھارس بندھ جاتی ہے کہ کریم سے نہ مانگوں تو کس سے مانگو ں۔ اے اللہ عزوجل! بتقاضائے بشریت مجھ سے گناہ سرزد ہوجاتے ہیں لیکن میں پھر بھی تجھ سے دعا ضرور"
"کروں گا کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ گناہگاروں سے گناہوں کے صدور کے با وجود تُو انہیں اپنی نعمتو ں سے محروم نہیں کرتا۔ اے میرے مغفرت فرمانے والے پر وردگار عزوجل !اگر تُومیری مغفرت فرمادے گا تو بے شک یہ محض تیری عطا ہے اور تُو سب سے زیادہ مغفرت فرمانے والا ہے اور اگر تُو مجھے عذاب دے گا تو تُو اس بات پر قادر ہے۔ تیرا کسی کو عذاب دینا کوئی ظلم نہیں بلکہ یہ تو تیرا عدل ہے ۔
اے میرے پروردگار عزوجل! میں ذلیل وخوار ہوں، اپنی حیثیت کے مطابق تجھ سے طلب کر رہاہوں تو اپنے کرم کے مطابق عطا فرما ۔ یا اللہ عزوجل !جب مجھے تجھ سے سوال کرنے میں اِتنا سرور ملتا ہے کہ بیان سے باہر ہے تو جس وقت تُو میری دعا قبول فرمالے گا اور مجھے بخشش ومغفرت اوراپنی دائمی رضا کی دولت سے مالا مال کردے گا تو اس وقت میری خوشی کا کیا عالم ہوگا۔ اے میرے مولیٰ عزوجل !میں تیرے خوف سے تھر تھر کانپتا ہوں کیونکہ میں اِنتہائی گناہگار و خطا کار ہوں اور تیری رحمت کا اُمید وار بھی ہوں کیونکہ تُو کریم ہے تُو رحیم وحلیم ہے۔
اے میرے مولیٰ عزوجل! میری دعا قبول فرمالے کیونکہ تُولطیف وکریم ہے، میرے حال زار پر رحم فرما،بے شک میں کمزور وعاجز بندہ ہوں۔اے میرے مولیٰ !اے میرے پروردگار! اے میرے مالک! اے رحیم وکریم ذات! مجھ پر رحم فرمامیں تیرا محتاج ہوں،میں تیرا محتاج ہوں،میں تیری بارگاہ میں رحمت ومغفرت کاطلبگار ہوں، میں اپنی حاجتیں خود پوری نہیں کرسکتا، میری اُمید گاہ کا مرکز تیری ہی ذات ہے ، تیری رحمت و مغفرت کا سب سے زیادہ حق دار میں ہی ہوں، میرے گناہ بہت زیادہ ہیں اور آخرت کا معاملہ بہت سخت ہے۔ نہیں معلوم میرا کیا انجام ہوگا۔یا الٰہی عزوجل! مجھے اپنی حفظ وامان میں رکھ اگرچہ میرے پاس نیک اعمال کا ذخیرہ نہیں لیکن پھر بھی میں تیری رحمت کاطلب گار ہوں۔اے اللہ عزوجل!میرے پاس ایسا کوئی عذر نہیں جسے تیری بارگاہ میں پیش کرکے خلاصی حاصل کرسکوں ۔اے اللہ عزوجل !مجھے تمام آفتو ں اور مصیبتوں سے اسی وقت خلاصی مل سکتی ہے جب تُولطف وکرم فرمادے، میرے تمام گناہوں کو بخش دے اور میری تمام خطاؤں کو معاف فرمادے۔یا الٰہی عزوجل! تُوپاک ہے، تمام تعریفیں تیرے ہی لئے ہیں تُو پاک ہے،تُو پاک ہے۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علی وسلم)
؎ بخش ہمار ی ساری خطائیں ، کھول دے ہم پر اپنی عطائیں بر سادے رحمت کی برکھا ، یا اللہ(عزوجل)! میری جھولی بھر د ے"
" حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں، مجھ سے حضرت سیدناسلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے اِیمان لانے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا : مَیں'' اصبہان'' کے ایک گاؤں میں رہتاتھا، میرا باپ ایک بڑا جاگیر دار تھا اور وہ مجھ سے بہت زیادہ محبت کرتا تھا، میں اس کے نزدیک تمام مخلوق سے زیادہ پیارا تھا۔ اسی محبت کی وجہ سے وہ مجھے گھر سے باہر نہ نکلنے دیتا، ہر وقت مجھے گھر ہی میں رکھتا، میری خوب دیکھ بھا ل کرتا،میرے باپ کی یہ خواہش تھی کہ مَیں پکا مجوسی (یعنی آتش پر ست) بنوں کیونکہ ہمارا آبائی مذہب ''مجوسیت'' ہی تھاا ور میرا باپ پکا مجوسی تھا۔ وہ مجھے بھی اپنی ہی طر ح بنانا چاہتا تھا لہٰذا اس نے میری ذمہ داری لگا دی کہ میں آتش کدہ میں آگ بھڑکاتا رہوں اور ایک لمحہ کے لئے بھی آگ کو نہ بجھنے دو ں۔ میں اپنی ذِمہ داری سر انجام دیتا رہا۔ ایک دن میرا باپ کسی تعمیری کام میں مشغول تھا جس کی وجہ سے وہ زمینوں کی دیکھ بھال کے لئے نہیں جاسکتا تھا۔
چنانچہ میرے باپ نے مجھے بلایا اور کہا: ''ا ے میرے بیٹے !آج میں یہاں بہت مصروف ہوں اور کھیتوں کی دیکھ بھال کے لئے نہیں جاسکتا ۔ آج وہاں تُو چلا جا او رخادموں کو فلاں فلاں کام کی ذمہ داری سونپ دینا اور ان کی نگرانی کرنا، اِدھر اُدھر کہیں متوجہ نہ ہونا، سیدھااپنے کھیتوں پرجانا ہے اور کام پورا ہونے کے فوراً بعدواپس آجانا۔'' اپنے باپ کا حکم پاتے ہی میں اپنی زمینوں کی طرف چل دیا۔ راستے میں عیسائیوں کا عبادت خانہ تھا۔ جب میں اس کے قریب سے گزرا تو مجھے اندر سے کچھ آوازیں سنائی دیں۔وہاں کچھ راہب نماز میں مشغول تھے۔ میں جب اندر داخل ہوا اور ان کااندازِ عبادت مجھے بڑا انوکھااوراچھا لگامیں نے پہلی مرتبہ اس انداز میں کسی کو عبادت کر تے ہوئے دیکھا تھا۔میں چونکہ زیادہ تر گھر ہی میں رہتاتھا اس لئے لوگو ں کے معاملات سے آگاہ نہ تھا۔ اب جب یہاں ان لوگوں کو دیکھا کہ یہ ایسے انداز میں عبادت کر رہے ہیں جو ہم سے بالکل مختلف ہے تو میرا دل ان کی طر ف راغب ہونے لگا اور مجھے ان کا اندازِ عبادت بہت پسند آیا۔
میں نے دل میں کہا :'' خدا عزوجل کی قسم! ان راہبوں کا مذہب ہمارے مذہب سے اچھا ہے ۔'' پھر میں سارادن انہیں دیکھتا رہا اور اپنے کھیتوں پر نہیں گیا۔ جب تاریکی نے اپنے پر پھیلانا شروع کئے تو میں ان لوگو ں کے قریب گیا اور ان سے پوچھا: '' تم جس دین کو مانتے ہو اس کی اصل کہاں ہے؟ یعنی تمہارا مرکز کہاں ہے؟ '' انہوں نے بتا یا:'' ہمارا مرکز'' شام'' میں ہے۔'' پھرمیں گھر چلا آیا۔ میرا باپ بہت پریشان تھا کہ نہ جانے میرا بچہ کہا ں گم ہوگیا؟ اس نے میری تلاش میں کچھ لوگوں کو آس پاس کی بستیوں میں بھیج دیا تھا۔ جب میں گھر پہنچا تو میرے باپ نے بے تاب ہوکر پوچھا:'' میرے لال! تُو کہاں چلا گیا تھا؟ ہم تو تیری وجہ سے بہت پریشان تھے۔ ''میں نے کہا :''میں اپنی زمینوں کی طرف جارہا تھا کہ راستے میں کچھ لوگوں کو نماز پڑھتے دیکھا ، مجھے"
"ان کا اندازِ عبادت بہت پسند آیا چنانچہ میں شام تک انہی کے پاس بیٹھا رہا۔''
یہ سن کر میرا باپ پریشان ہوااور کہنے لگا :''میرے بیٹے !ان لوگوں کے مذہب میں کوئی بھلائی نہیں۔ جس مذہب پر ہم ہیں اورجس پر ہمارے آباؤ اجدادتھے وہی سب سے اچھا ہے لہٰذا تم کسی اور طرف تو جہ نہ دو۔''میں نے کہا:'' ہر گز نہیں، خداعزوجل کی قسم !ان راہبوں کا مذہب ہمارے مذہب سے بہت بہتر ہے۔ ''میری یہ گفتگو سن کر میرے باپ کو یہ خوف ہونے لگا کہ کہیں میرا بیٹا مجوسیت کو چھوڑ کرنصرانی مذہب قبول نہ کرلے۔ اسی خوف کے پیشِ نظر اس نے میرے پاؤں میں بیڑیاں ڈالوا دیں اورمجھے گھر میں قید کر دیا تا کہ میں گھر سے باہر ہی نہ نکل سکوں۔ مجھے ان راہبوں سے بہت زیادہ عقیدت ہو گئی تھی۔ میں نے کسی طر یقے سے ان تک پیغام بھجوایا کہ جب کبھی تمہارے پاس ملکِ شام سے کوئی قافلہ آئے تو مجھے ضرور اطلاع دینا۔
چند رو ز بعد مجھے اِطلاع ملی کہ شام سے راہبوں کا ایک قافلہ ہمارے شہر میں آیا ہوا ہے۔ میں نے پھر راہبوں کو پیغام بھجوایا کہ جب یہ قافلہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے بعد واپس شام جانے لگے تو مجھے ضرور اطلاع دینا ۔کچھ دن بعد مجھے اِطلاع ملی کہ قافلہ واپس شام جارہا ہے ۔میں نے بہت جدو جہد کے بعداپنے قدموں سے بیڑیاں اُتا ریں اور فوراً شام جانے والے قافلے کے ساتھ جا ملا ۔ مُلکِ ''شام ''پہنچ کر میں نے لوگوں سے پوچھا:'' تم میں سب سے زیادہ معزز اورصاحب ِعلم وعمل کون ہے ؟'' لوگوں نے بتا یا:''فلاں کنیسہ(یعنی عبادت خانہ) میں رہنے والا راہب ہم میں سب سے زیادہ قابل اِحترام اور سب سے زیادہ متقی و پر ہیز گار ہے ۔''چنانچہ میں اس راہب کے پاس پہنچا اور کہا:'' مجھے آپ کا دین بہت پسند آیا ہے ، اب میں اس دین کے بارے میں کچھ معلومات چاہتا ہوں۔ اگر آپ قبول فرمالیں تومیں آپ کی خدمت کیا کروں گا اور آپ سے اس دین کے متعلق معلومات بھی حاصل کرتا رہوں گا۔ برائے کرم !مجھے اپنی خدمت کے لئے رکھ لیجئے ۔''
یہ سن کر اس راہب نے کہا:'' ٹھیک ہے، تم بخوشی میرے ساتھ رہو اور مجھ سے ہمارے دین کے بارے میں معلومات حاصل کرو۔''چنانچہ میں اس کے ساتھ رہنے لگا لیکن وہ راہب مجھے پسند نہ آیا۔وہ بہت بُرا شخص تھا، لوگو ں کو صدقات وخیرات کی ترغیب دلاتا ۔ جب لوگ صدقات وخیرات کی رقم لے کر آتے تو یہ اس رقم کو غریبو ں اور مسکینوں میں تقسیم نہ کرتا بلکہ اپنے پاس ہی جمع کرلیتا ۔ اس طرح اس بد با طن راہب نے بہت سارا خزانہ جمع کرکے سونے کے بڑے بڑے سات مٹکے بھر لئے تھے ۔ مجھے اس کی ان حرکتوں پر بہت غصہ آتا بالآخرجب وہ مرا تو لوگو ں کا بہت بڑا ہجوم اس کی تجہیز وتکفین کے لئے آیا ۔ میں نے لوگو ں کو بتایا: '' جس کے بارے میں تمہارا گما ن تھا کہ وہ سب سے بڑا راہب ہے وہ تو بہت لالچی اور گندی عادتو ں والا تھا۔ '' لوگ کہنے لگے :'' یہ تم کیا کہہ رہے ہو ؟تمہارے پاس کیا دلیل ہے کہ وہ راہب بُر ا شخص تھا؟''"
" میں نے کہا : ''اگر تمہیں میری بات پر یقین نہیں آتاتو میرے ساتھ چلو، میں تمہیں اس کامال ودولت اور خزانہ دکھاتا ہوں جو وہ جمع کرتا رہااورفقراء ومساکین اوریتیموں پر خرچ نہ کیا ۔'' لوگ میرے ساتھ چل دیئے۔ میں نے انہیں وہ مٹکے دکھائے جن میں سونا بھر اہوا تھا ۔ انہوں نے وہ مٹکے لئے اور کہا:'' خدا عزوجل کی قسم !ہم اس راہب کو دفن نہیں کریں گے ۔'' پھر انہوں نے اس کے مردہ جسم کو سولی پر لٹکایا اور پتھر مار مار کر چھلنی کردیا پھراس کی لاش کو بے گور وکفن پھینک دیا۔ اس کے بعد لوگو ں نے ایک اور راہب کواس کی جگہ منتخب کرلیا۔ وہ بہت اچھی عادات وصفات کا مالک اورانتہائی متقی وپرہیز گار شخص تھا، طمع ولا لچ اس میں بالکل نہ تھی، دن رات عبادت میں مشغول رہتا۔ دُنیوی معاملات کی طر ف بالکل بھی تو جہ نہ دیتا ،میرے دل میں اس کی عقیدت ومحبت گھر کر گئی۔ میں نے اس کی خوب خدمت کی اوراس سے نصرانیت کے بارے میں معلومات حاصل کرتا رہا ۔
جب اس کی وفات کا وقت قریب آیا تو میں نے اس سے پوچھا : ''آپ مجھے کس کے پاس جانے کی وصیت کر تے ہیں ؟ آپ کے بعد میری رہنمائی کون کریگا ؟'' وہ راہب کہنے لگا :'' اے میرے بیٹے! اللہ عزوجل کی قسم! جس دین پر میں ہوں اس میں سب سے بڑا عالم وفقیہہ ایک شخص ہے جو '' موصل '' میں رہتا ہے۔میرے نزدیک اس سے بہتر کوئی نہیں جو تمہاری رہنمائی کر سکے، اگرتم سے ہوسکے تو اس کی خدمت میں حاضر ہوجاؤ ۔'' راہب کی یہ بات سن کر میں موصل چلا گیا اوروہاں کے راہب کے پاس پہنچ گیا۔ میں نے واقعی اسے ایسا پایا جیسا اس کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ وہ بہت نیک وزاہد شخص تھا ۔چنانچہ میں اس کے پاس رہنے لگا پھر جب اس کی وفات کا وقت قریب آیا تو میں نے اس سے پوچھا : ''اب آپ مجھے کس کے پاس جانے کاحکم دیتے ہیں جو آپ کے بعد میری صحیح رہنمائی کرے؟''اس نے جواب دیا : '' اللہ عزوجل کی قسم! اس وقت ہمارے دین کا سب سے بڑا باعمل عالم '' نصیبین ''میں رہتا ہے ۔میری نظروں میں اس سے بہتر کوئی اور نہیں،اگر ہوسکے تو اس کے پاس چلے جاؤ ۔''
چنانچہ میں سفر کی صعوبتیں برداشت کرتا ہوا ''نصیبین '' پہنچا اور اس راہب کے پاس رہنے لگا۔ وہ بھی نہایت متقی وپرہیزگار شخص تھا ، جب اس کی وفات کا وقت آیا تو میں نے پوچھا: ''آپ مجھے کس کے پاس جانے کا حکم فرماتے ہیں ؟ ''اس نے کہا: ''اس وقت ہمارے دین پر قائم رہنے والوں میں سب سے بڑا باعمل راہب '' عموریہ '' میں رہتا ہے، میری نظروں میں اس سے بہتر کوئی نہیں، تم اس کے پاس چلے جاؤ وہ تمہاری صحیح رہنمائی کریگا۔'' چنانچہ میں ''عموریہ'' پہنچا اور اس راہب کی خدمت میں رہنے لگا ۔ وہ واقعی بہت نیک وصالح شخص تھا ۔ میں اس سے دینِ نصاری کے بارے میں معلومات حاصل کرتا اور دن کوبطورِ اجیر(یعنی مزدور) ایک شخص کے جانوروں کی دیکھ بھال کرتا۔اس طرح میرے پاس اتنی رقم جمع ہوگئی کہ میں نے کچھ گائے اور بکریا ں وغیرہ خرید لیں ۔ پھر جب اس راہب کی موت کا وقت قریب آیا تو میں نے اس سے پوچھا:''آپ مجھے کس کے پاس بھیجیں گے جو آپ"
"کے بعد میری صحیح رہنمائی کرے؟ ''
اس راہب نے کہا:'' اے میرے بیٹے! اب ہمارے دین پر قائم رہنے والا کوئی ایسا شخص نہیں جس کے پاس میں تجھے بھیجوں۔ ہاں! اگر تم نجات چاہتے ہو تو میری بات تو جہ سے سنو: اب اس نبی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی جلوہ گری کا وقت بہت قریب آگیا ہے جو دینِ ابراہیمی لے کر آئے گا۔ وہ سر زمین عرب میں مبعوث ہوگا اور کھجوروں والی زمین کی طرف ہجرت فرمائے گا ۔ اس نبی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی کچھ واضح نشانیاں یہ ہیں:''(۱) ۔۔۔۔۔۔وہ ہدیہ قبول فرمائیں گے (۲)۔۔۔۔۔۔ لیکن صدقے کا کھانا نہیں کھائیں گے اور (۳)۔۔۔۔۔۔ اُن کے دونوں مبارک شانوں کے درمیان مہر نبوت ہوگی ۔''
اگر تم اُس نبی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کازمانہ پاؤ تو ان کے پاس چلے جانا ان شاء اللہ عزوجل تم دنیا وآخرت میں کامیاب ہو جاؤ گے ۔اے میرے بیٹے !تم اس رحمت والے نبی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے ضرور ملنا ۔ اِتنا کہنے کے بعد اس راہب کا بھی اِنتقال ہوگیا۔پھرجب تک میرے رب عزوجل نے چاہا میں''عموریہ'' میں ہی رہا۔پھر مجھے اِطلاع ملی کہ قبیلہ ''بنی کلب ''کے کچھ تاجر عرب شریف جارہے ہیں تو میں ان کے پاس گیا اور ان سے کہا: ''میں بھی تمہارے ساتھ عرب شریف جانا چاہتاہوں، میرے پاس کچھ گائیں اور بکریاں ہیں،یہ سب کی سب تم لے لو او رمجھے عرب شریف لے چلو۔'' ان تاجروں نے میری یہ بات منظور کرلی اور میں نے انہیں تمام گائیں اور بکریاں دے دیں ۔چنانچہ ہمارا قافلہ سوئے عرب روانہ ہوا۔ جب ہم وادی ''قُرٰی'' میں پہنچے تو ان تا جروں نے مجھ پر ظلم کیا اور مجھے جبراً اپنا غلام بنا کر ایک یہودی کے ہاتھوں فر وخت کردیا۔
یہودی مجھے اپنے علاقے میں لے گیا ۔وہا ں میں نے بہت سے کجھوروں کے درخت دیکھے تو میں سمجھا کہ شاید یہی وہ شہر ہے جس کے بارے میں مجھے بتایا گیا ہے کہ نبی آخر الزّماں، سلطان ِدو جہاں ،محبوبِ رب الانس والجاں عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم یہاں تشریف لائیں گے ۔ چنانچہ میں اس یہودی کے پاس رہنے لگا اور اس کی خدمت کرنے لگا۔ کچھ دنوں کے بعد اس یہودی کا چچا زاد بھائی مدینہ منورہ زَادَ ھَااللہُ شَرْفاًوَّتَعْظِیْماًسے اس کے پاس آیا۔ اس کا تعلق قبیلہ ''بنی قریظہ'' سے تھا ۔یہودی نے مجھے اس کے ہاتھوں فر وخت کردیا ۔ وہ مجھے لے کر مدینہ منورہ زَادَ ھَااللہُ شَرْفاًوَّتَعْظِیْماً کی طر ف روانہ ہوگیا۔ خدا عزوجل کی قسم! جب میں مدینہ منورہ کی پاکیزہ فضاؤں میں پہنچا تو میں نے پہلی ہی نظر میں پہچان لیا کہ یہی جگہ میری عقیدتوں کا محور ومرکز ہے۔ یہی وہ پاکیزہ شہر ہے جس میں نبی آخر الزماں، سلطانِ دو جہاں ، سرور کون ومکاں صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی تشریف آوری ہوگی۔ جو نشانیاں راہب نے مجھے بتائی تھیں کہ وہاں بکثر ت کھجوریں ہوں گی ،وہ میں نے وہاں پالی تھیں ۔
اب مَیں منتظر تھا کہ کب میرے کانوں میں یہ صدا گونجے کہ اس پاکیزہ ہستی نے اپنے جلوؤں سے مدینہ منورہ کو نور"
"بارکردیا ہے جس کی آمد کی خبر سابقہ آسمانی کتب میں دی گئی ہے ۔
بالآخر اِنتظار کی گھڑیاں ختم ہو ئیں۔ ایک دن میں کھجور کے درخت پر چڑھا ہوا تھا اور میرا مالک نیچے بیٹھا تھا ۔ اس کا چچا زاد بھائی آیا اور کہنے لگا:'' اللہ عزوجل فلاں قبیلے (یعنی اوس وخزرج ) کو برباد کرے ،وہ لوگ مقام ''قباء ''میں جمع ہیں او رایک ایسے شخص کا دین قبول کرچکے ہیں جومکہ مکرمہ زَادَ ھَااللہُ شَرْفاًوَّتَعْظِیْماًسے آیا ہے اور وہ اپنے آپ کو اللہ عزوجل کا نبی کہتا ہے۔اس قبیلے (یعنی اوس وخزرج) کے اکثر لوگ اپنے آباء واجداد کادین چھوڑکر اس پر ایمان لاچکے ہیں۔'' جب میں نے اپنے مالک کے چچازاد بھائی کی یہ بات سنی تو میں خوشی کے عالم میں جھوم اٹھا۔قریب تھا کہ میں اپنے مالک کے اوپر گر پڑتا لیکن میں نے اپنے آپ کو سنبھالا اور جلدی جلدی نیچے اُترا۔ پھر پوچھا: ''ابھی تم نے کیا بات کہی ہے؟ اور کون شخص مکہ سے آیا ہے ؟'' میری یہ بات سن کر میرے مالک کو بہت غصہ آیا اور اس نے مجھے ایک زوردار طمانچہ مارا اور کہا:'' تمہیں ہماری باتوں سے کیا مطلب؟ جاؤ! ''جا کر اپنا کام کرو ۔''
میں نے کہا : ''میں تو ویسے ہی پوچھ رہا تھا ۔''یہ کہہ کر میں دوبارہ اپنے کام میں مشغول ہوگیا۔ میرے پاس کچھ رقم بچی ہوئی تھی۔ ایک دن موقع پاکر میں بازار گیا، کچھ کھانے پینے کی اشیاء خریدیں اور بے تا ب ہوکراس رخِ زیبا کی زیارت کے لئے قباء کی طر ف چل دیا جس کے دیدار کی تمنانے مجھے فارس سے مدینہ منورہ زَادَ ھَااللہُ شَرْفاًوَّتَعْظِیْماً تک پہنچا دیا تھا۔ جب میں وہاں پہنچا تو میں نے ان کی بارگاہِ بیکس پناہ میں حاضر ہوکر عرض کی: ''اے اللہ عزوجل کے بندے! مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ آپ اللہ عزوجل کے برگزیدہ بندے ہیں اور آپ کے اصحاب میں اکثر غریب اورحاجت مند ہیں، میں کچھ اشیائے خورد ونوش لے کر حاضر ہوا ہوں ، میں یہ اشیاء بطورِ صدقہ آپ کی بارگاہ میں پیش کرتا ہوں، آپ قبول فرمالیں۔''
یہ سن کراس پاکیزہ ومطہر ہستی نے اپنے اصحاب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ''آؤ! اوریہ چیزیں کھالو ۔'' لوگ کھانے لگے او رآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اس میں سے کچھ بھی نہ کھایا۔ یہ دیکھ کر میں نے دل میں کہا: ''ایک اور نشانی تو میں نے پالی ہے۔'' پھر کچھ دنوں کے بعد میں کھانے کا کچھ سامان لے کر حاضر خدمت ہوا اور عرض کی: ''حضور! یہ کچھ کھانے کی چیزیں ہیں، انہیں بطور ِہدیہ قبول فرمالیں۔'' آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اس میں سے کچھ کھایا اور اپنے اصحاب کو بھی اپنے ساتھ کھانے کا حکم فرمایا ۔ میں نے دل میں کہا :'' یہ دوسری نشانی بھی پوری ہوگئی ہے۔''
پھر ایک دن میں جنت البقیع کی طر ف گیا تو دیکھا آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم وہا ں موجود ہیں آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے جسمِ اَطہر پر دو چادر یں ہیں۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے گرد ا س طرح جمع ہیں جیسے شمع کے گرد پروانے جمع ہوتے ہیں۔ میں نے جا کر سلام عرض کیا اور پھر ایسی جگہ بیٹھ گیا جہاں سے میری نظرآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی پشت"
"مبارک پر پڑے تاکہ میں آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے مبارک شانوں کے درمیان مہرِنبوت کو دیکھ سکوں کیونکہ مجھے راہب نے جو نشانیاں بتائی تھیں وہ سب کی سب میں نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی ذات میں دیکھ لی تھیں۔ بس آخری نشانی (یعنی مہرِ نبوت) دیکھنا باقی تھی ۔ میں بڑی بے تابی سے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی طرف دیکھ رہا تھا جب نبی غیب داں صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے میری یہ حالت دیکھی تو میرے دل کی بات جان لی اور میری طرف پیٹھ پھیرکر مبارک شانوں سے چادر اُتارلی جیسے ہی آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے چادر ہٹائی تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے دونوں مبارک شانوں کے درمیان مہرِ نبوت جگمگارہی تھی۔ مَیں دیوانہ وار آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی طر ف بڑھا اور مہرِ نبوت کو چُومنا شروع کردیا۔ مجھ پر رقت طاری ہوگئی ،بے اِختیار میری آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ آج میری خوشی کی اِنتہاء نہ تھی جس کے روئے زیبا کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے مَیں نے اِتنی مصیبتیں اور مشقتیں جھیلیں آج وہ نورِمجسّم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم میرے سامنے موجود تھے اور میں ان کے جلوؤں میں اپنے جسم کومنور ہوتا دیکھ رہا تھا ۔
میں نے فوراً حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہ میں عرض کی:''اے میرے محبوب آقا صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! مجھے کلمہ پڑھا کر مسلمان کردیجئے اوراپنے غلاموں میں شامل فرمالیجئے۔'' پھر الْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَلّ َ مَیں مسلمان ہوگیا ۔میں ابھی تک حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی مہرِ نبوت کو بو سے دے رہا تھا آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:'' اب بس کرو۔'' چنانچہ میں ایک طرف ہٹ گیا، پھر میں نے حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو اپنی ساری رُوداد سنائی تو صحابہ کرام علیہم الرضوان بہت حیران ہوئے کہ میں کس طرح یہاں تک پہنچااورمیں نے کتنی مشقتیں برداشت کیں۔
حضرت سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے مجھ سے فرمایا:'' اے سلمان(رضی اللہ تعالیٰ عنہ )! تم اپنے مالک سے مکاتبت کرلو( یعنی اسے رقم دے کر آزادی حاصل کرلو) جب حضرت سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے مالک سے بات کی تو اس نے کہا :'' مجھے تین سو کھجوروں کے درخت لگا دو اور چالیس اوقیہ چاندی بھی دو پھر جب یہ کھجور یں پھل دینے لگ جائیں گی تو تم میری طرف سے آزاد ہوجاؤگے ۔''
میں حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہِ بیکس پنا ہ میں حاضر ہوا اور اپنے مالک کی شرطیں آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو بتائیں ۔ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے صحابہ کرام علیہم الرضوان سے فرمایا: ''اپنے بھائی کی مدد کرو ۔'' چنانچہ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے بھرپور تعاون کیا، کسی نے کھجوروں کے 30پودے لاکر دیئے، کسی نے 50 ۔ الغرض !مددگار صحابہ کرام علیہم الرضوان کی مدد سے میرے پاس 300کھجوروں کے پودے جمع ہوگئے ۔"
" پھر حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ''اے سلمان فارسی( رضی اللہ تعالیٰ عنہ) !تم جاؤ او رزمین کو ہموار کرو۔'' چنانچہ میں گیا اور زمین کو ہموار کرنے لگا تا کہ وہاں کھجور کے پودے لگائے جاسکیں ۔ ا س کام سے فارغ ہو کر میں حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کی: ''اے میرے آقا صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم!میں نے زمین ہموار کر دی ہے۔'' آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم میرے ساتھ چل دیئے۔صحابہ کرام علیہم الرضوان بھی آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے ہمراہ تھے ۔ ہم حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو کھجوروں کے پودے اُٹھا اُٹھا کر دیتے اور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اپنے دستِ اقدس سے اسے زمین میں لگاتے جاتے ۔
حضرت سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ''اس پاک پروردگار عزوجل کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں سلمان فارسی ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کی جان ہے ! حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے جتنے پودے لگائے وہ سب کے سب اُگ آئے اور ان میں بہت جلد پھل لگنے لگے ۔''چنا نچہ میں نے 300کھجوریں اپنے مالک کے حوالے کیں۔ ابھی میرے ذمہ 40اوقیہ چاندی باقی رہ گئی تھی ؟پھر حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے پاس کسی نے مرغی کے انڈے جتنا سونے کا ایک ٹکڑا بھجوایا۔ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے استفسارفرمایا: ''سلمان فارسی کا کیا ہوا ؟ '' پھر مجھے بلواکر فرمایا:""اسے لے جاؤ،اور اپنا قرض اداکرو۔""میں نے عرض کی :''ابھی 40 اوقیہ چاندی اور دینی ہے ،پھر مجھے غلامی سے آزادی ملے گی۔ ''
حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے مجھے وہ سونے کا ٹکڑا دیا اورفرمایا:'' جاؤ! او راس کے ذریعے 40اوقیہ چاندی جو تمہارے ذمہ باقی ہے، اسے ادا کرو ۔'' میں نے عرض کی:''اے میرے آقا صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! یہ اِتنا سا سونا 40اوقیہ چاندی کے برابر کس طر ح ہوگا ؟'' آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے فرمایا: ''تم یہ سونا لو اور اس کے ذریعے 40 اوقیہ چاندی جو تمہارے ذمہ ہے، اسے ادا کرو، اللہ عزوجل تمہارے لئے اسی سونے کو کافی کردے گااور تمہارے ذِمہ جتنی چاندی ہے یہ اس کے برابر ہوجائے گا ۔'' میں نے وہ سونے کا ٹکڑا لیااوراس کا وزن کیا۔ اس پاک پروردگار عزوجل کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ! وہ تھوڑا سا سونا 40 اوقیہ چاندی کے برابر ہوگیا او راس طرح میں نے اپنے مالک کو چاندی دے دی اور غلامی کی قید سے آزاد ہوکر سرکار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے غلاموں میں شامل ہوگیا۔ پھر میں غزوہ خندق میں حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے ساتھ شامل ہوا ۔اس کے بعد میں ہر غزوہ میں حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے ساتھ رہا ۔"
(المسند للامام احمد بن حنبل، حدیث سلمان الفارسی، الحدیث۲۳۷۹۸،ج۹،ص۱۸۵تا۱۸۹)
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علی وسلم)
" حضرت سیدنا حامد اسودعلیہ رحمۃ اللہ الصمد ، حضرت سیدنا ابراہیم خوّاص علیہ رحمۃ اللہ الرزاق کے عقید ت مندوں میں سے تھے ۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا ابراہیم خواص رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جب کبھی سفر پر روانہ ہوتے تو کسی کو بھی اطلاع نہ دیتے اور نہ ہی کسی کو اپنے ساتھ سفر پر چلنے کے لئے کہتے ۔جب کبھی سفر کا اِرادہ ہوتا تو ایک بر تن اپنے ساتھ لے جاتے جو وضو اور پانی پینے کے لئے استعمال فرماتے ۔
ایک مرتبہ اسی طر ح آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنا بر تن اٹھایا اور ایک سمت چل دیئے۔ میں بھی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پیچھے ہولیا۔ہماراسفرجاری رہاآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے دورانِ سفر مجھ سے کوئی بات نہ کی یہاں تک کہ ہم کوفہ پہنچ گئے ۔ وہاں ہم نے ایک دن اور ایک رات قیام کیا، پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ''قادسیہ'' کی طر ف روانہ ہوئے ۔ جب ہم قادسیہ پہنچے تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ میری طرف متو جہ ہو کر پوچھنے لگے : ''اے حامد !تم یہاں کیسے آئے ؟'' میں نے عرض کی:'' حضور! میں آپ (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) کے ساتھ ساتھ ہی سفرکرتا آرہا ہوں۔میں سارے سفر میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ساتھ رہاہوں۔''
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' میرا اِرادہ تو حج کرنے کا ہے، اگر اللہ عزوجل نے چاہا تو اب میں مکہ مکرمہ کی طرف جاؤں گا۔'' تو میں نے عرض کی :''حضور ! ان شاء اللہ عزوجل میں بھی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ساتھ مکہ شریف چلوں گا۔'' چنانچہ ہم سوئے حرم روانہ ہوئے اور مسلسل دن رات سفر کیا۔
ہمارا سفر اسی طرح جاری وساری تھا۔مکہ مکرمہ قریب سے قریب تر ہوتا جارہا تھا۔اچانک ہمیں راستے میں ایک نوجوان ملا۔ وہ بھی ہمارے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ وہ ہمارے ساتھ ایک دن اور ایک رات سفر کرتا رہا لیکن راستے میں اس نے ایک بھی نماز نہ پڑھی۔یہ دیکھ کر حضرت سیدنا ابراہیم خواص رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس سے کہا:''اے نوجوان !تُو کل سے ہمارے ساتھ ہے لیکن تُونے ایک بھی نماز نہ پڑھی حالانکہ نماز حج سے بھی زیادہ اَہمیت کی حامل ہے۔''اس نوجوان نے جواب دیا: ''اے شیخ! مجھ پر نماز فرض نہیں ۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے پوچھا: ''کیا تُو مسلمان نہیں؟ '' اس نے جواب دیا: ''نہیں،بلکہ میں نصرانی ہوں اورمیں اس جنگل بیابان میں یہ دیکھنے آیا ہوں کہ مَیں توکُّل میں کتنا کامل ہوں او رمجھے میرے پروردگار عزوجل پر کتنا بھروسا ہے کیونکہ میرا نفس مجھ سے کہتا ہے کہ تو تو کُّل میں بہت کامل ہے لیکن میں نے نفس کی بات پر یقین نہ کیا اور یہ تہیہ کرلیا کہ اپنے آپ کو آزماؤں گا او رکسی ایسی جگہ جاؤں گا جہاں میرے او رمیرے رب عزوجل کے سوا کوئی نہ ہوپھر وہاں دیکھو ں گا کہ میرے اندر کتنا توکُّل ہے۔ چنانچہ میں اس جنگل بیابان میں آگیا ہوں اوراپنے آپ کو آزمارہا ہوں۔''"
" اس نوجوان کی یہ بات سن کر حضرت سیدنا ابراہیم خواص رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وہاں سے اٹھے اور چلتے ہوئے مجھ سے فرمایا: ''اسے اس کے حال پر چھوڑ دو۔'' نوجوان بھی ہمارے ساتھ ہی چلنے لگا۔ حرم شریف سے قریب ''وادی مُرّ' 'میں پہنچ کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے پرانے کپڑے اُتار کر دھوئے پھر وضو کرنے کے بعد اس نوجوان سے پوچھا:'' تمہارا نام کیا ہے؟'' اس نے جواب دیا: '' عبدا لمسیح'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' اے عبدالمسیح! اب حرم شریف کی حد شرو ع ہونے والی ہے اور کفار کا داخلہ
حرم شریف میں حرام ہے۔
جیسا کہ اللہ عزوجل نے اپنی آخری کتا ب قرآن کریم میں ارشا د فرمایا:"
اِنَّمَا الْمُشْرِکُوۡنَ نَجَسٌ فَلَایَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِہِمْ ہٰذَا ۚ
"ترجمہ کنزالایمان:مشرک نرے ناپاک ہیں تواس برس کے بعدوہ مسجد حرام کے پاس نہ آنے پائیں۔( پ10، تو بہ :28)
لہٰذا تم اب یہیں رکو اور ہر گزہرگز حرم شریف میں داخل نہ ہونا اگر تم داخل ہوئے تو ہم حُکّام سے تمہاری شکایت کر دیں گے ۔''
اِتنا کہنے کے بعد ہم نے اس نوجوان کو وہیں چھوڑ ا اور ہم مکہ مکرمہ کی نور بار مشکبار فضاؤں میں داخل ہوگئے ۔پھر ہم میدانِ عرفات کی جانب روانہ ہوئے۔ وہاں حاجیوں کا ہجوم تھا اچانک ہم نے اسی نوجوان کو میدانِ عرفات میں دیکھا اس نے حاجیوں کی طر ح اِحرام باندھا ہوا تھا اور بے تا بانہ نظر وں سے کسی کو تلاش کر رہا تھا جونہی اس نے ہمیں دیکھا فوراً ہمارے پاس چلا آیا اور حضرت سیدنا ابراہیم خواص رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی پیشانی کو بوسہ دینے لگا۔ یہ صورتحال دیکھ کر حضرت سیدنا ابراہیم خواص رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا:'' اے عبد المسیح! تم یہاں کیسے آگئے ؟'' اس نوجوان نے عرض کی:''حضور! اب میرا نام عبد المسیح نہیں بلکہ عبد اللہ ہے (یعنی اب وہ عیسائی مسلمان ہو چکا تھا)
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:''اپنا پورا واقعہ بیان کر وکہ تم کس طرح مسلمان ہوئے، تمہاری زندگی میں یہ انقلاب کیسے آیا ؟'' اس نوجوان نے عرض کی:'' حضور! جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مجھے چھوڑ کر آگئے تھے تو میں وہیں موجود رہا اور میرے دل میں یہ خواہش مچلنے لگی کہ آخر مَیں بھی تو دیکھوں کہ وہ مکہ مکرمہ کیسی جگہ ہے جس کی طرف مسلمان سفر و ہجر کی صعوبتیں بر داشت کر کے ہر سال حج کے لئے آتے ہیں۔آخر اس میں ایسی کیا عجیب بات ہے ۔'' اسی خواہش کی بناء پر میں نے بھیس بدلا اورمسلمانوں جیسی حالت بنالی۔ میری خوش قسمتی کہ وہا ں ایک قافلہ پہنچاجو''حرمین شریفین '' آرہا تھا ۔ میں نے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کیا اور ا س قافلے میں شامل ہوگیا۔
جوں جوں ہمارا قافلہ مکہ مکرمہ سے قریب ہوتا جارہا تھا میرے دل کی دنیا بدلتی جارہی تھی۔ عجیب وغریب کیفیت کا عالم"
"تھاپھر جونہی میری نظر ''خانہ کعبہ'' پر پڑی تو میرے دل سے تمام اَدیان باطلہ کی محبت نکل گئی اور ''دینِ اسلام ''کی محبت میرے دل میں گھر کر گئی۔مَیں نے فوراً''عیسائیت ''سے توبہ کر کے محمد رسول اللہ عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی غلامی اِختیار کرلی اور مسلمان ہوگیا ۔اس وقت میرا دل بہت خوشی محسوس کر رہا تھا۔ قبولِ اسلام کے بعد میں نے غسل کیا احرام باندھا اور دعا کی:'' اے اللہ عزوجل! آج میری ملاقات حضرت سیدنا ابراہیم خواص رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے ہوجائے ۔'' بارگاہِ خداوندی عزوجل میں میری دعا قبول ہوئی اور میں اب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوں ۔''
حضرت سیدنا ابراہیم خواص رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بہت خوش ہوئے۔ اسے خوب شفقتوں اور محبتوں سے نوازا۔پھر ہماری طرف متو جہ ہوئے اور فرمایا:'' اے حامد ! دیکھ لو سچائی میں کتنی برکت ہے۔ اس نوجوان کو حق کی تلاش تھی اور یہ اپنی طلب میں سچا تھا لہٰذا اسے حق مل گیا یعنی یہ اسلام کی دولت سے مالا مال ہوگیا ۔'' پھر وہ نوجوان ہمارے ساتھ ہی رہنے لگا اور بہت بلند مرتبہ حاصل کیا ۔ بالآ خر وہ دارِ فناسے دارِ بقاء کی طرف روانہ ہوگیا ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علی وسلم)"
" حضرت سیدنا جنید بغدادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی فرماتے ہیں :'' ایک مرتبہ میں حضرت سیدنا سری سقطی علیہ رحمۃ اللہ القوی کی بارگاہ میں حاضر ہوا ۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے گھر میں تشریف فرما تھے، آنکھوں سے آنسوؤں کی بر سات ہورہی تھی، بڑے درد مندانہ اَنداز میں رو رہے تھے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے سامنے ایک صراحی ٹوٹی ہوئی تھی۔ میں نے جاکر سلام عرض کیا اور بیٹھ گیا ۔ مجھے دیکھ کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے رونا بند کردیا۔ میں نے عرض کی:'' حضور! آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو کس چیز نے رُلایا ہے؟ آخر آپ کو ایسا کون ساغم لاحق ہوگیا ہے جس کی وجہ سے آپ اتنی گریہ و زاری کر رہے ہیں؟''
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جواباً ارشاد فرمایا:'' آج میں روزے سے تھا ، میری بیٹی یہ صراحی لے کر آئی، اس میں پانی بھرا ہوا تھا ۔اس نے مجھ سے کہا: اے میرے والد گرامی! آج گرمی بہت زیادہ ہے، مَیں یہ صراحی لے کر آئی ہوں تا کہ اس میں پانی ٹھنڈا ہو جائے اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہٹھنڈے پانی سے روزہ افطار کریں۔''"
" یہ کہنے کے بعد میری بیٹی نے وہ صراحی ٹھنڈی جگہ رکھ دی ، ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ میری آنکھ لگ گئی۔ میں نے خواب میں ایک حسین وجمیل عورت دیکھی، اس نے چاندی کی قمیص پہنی ہوئی تھی ، اس کے پاؤں میں ایسی خوبصورت جوتیاں تھیں کہ میں نے آج تک ایسی جوتیاں کہیں نہیں دیکھیں اور نہ ہی ایسے خوبصورت پاؤں کبھی دیکھے۔ وہ میرے پاس اسی دروازے سے اس کمرے میں آئی۔
میں نے اس سے کہا :''تُو کس کے لئے ہے ؟'' اُس نے جواب دیا : ''مَیں اس کے لئے ہوں جو ٹھنڈے پانی کی خواہش نہ کرے اور صراحی کا ٹھنڈاپانی نہ پئے۔''اِتنا کہنے کے بعد اس نے صراحی کو اپنی ہتھیلیو ں سے گھمانا شروع کیا ۔ میں نے وہ صراحی اس سے لی اور زمین پر دے ماری پھر میری آنکھ کھل گئی ۔ یہ جو تم سامنے ٹو ٹی ہوئی صراحی دیکھ رہے ہو یہ وہی صراحی ہے ۔''
حضرت سیدنا جنید بغدادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی فرماتے ہیں :''اس کے بعد حضرت سیدنا سری سقطی علیہ رحمۃاللہ القوی نے کبھی بھی ٹھنڈا پانی نہ پیا۔ مَیں جب بھی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے گھر جاتا تو دیکھتا کہ وہ صراحی اسی طر ح ٹوٹی ہوئی پڑی ہے اور اس پر گرد وغبار کی تہہ جم چکی ہے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس خواب کے بعد صراحی کو ہاتھ تک نہ لگایا۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علی وسلم)"
" حضرت سیدنا اسماعیل بن ہشام علیہ رحمۃ اللہ السلام فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت سیدنا فتح موصلی علیہ رحمۃ اللہ القوی کے ایک مرید نے بتایا :'' ایک مرتبہ میں حضرت سیدنا فتح موصلی علیہ رحمۃ اللہ القوی کی خدمتِ بابر کت میں حاضر ہوا ۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے دونوں ہاتھ دعا کے لئے اٹھائے ہوئے تھے، آنکھوں سے سیلِ اشک رواں تھا، ہتھیلیاں آنسوؤں سے تر بتر تھیں۔ مَیں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے قریب ہوا اور غور سے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی طرف دیکھا تو میں ٹھٹھک کر رہ گیا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے آنسوؤں میں خون کی آمیزش تھی جس کی وجہ سے آنسو سرخی مائل ہوگئے تھے ۔''
مَیں یہ دیکھ کر بہت پریشان ہوا اور عرض کی:'' حضور! آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو اللہ عزوجل کی قسم! سچ سچ بتائیں؟کیا آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے آنسوؤں میں خون کی آمیزش ہے ؟''تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا :''اگر تُو نے مجھے قسم نہ دی ہوتی تو میں ہر گزنہ"
"بتاتا لیکن اب مجبور اًبتا رہا ہوں کہ واقعی میری آنکھوں سے آنسوؤں کے ساتھ خون بھی بہتا ہے اسی وجہ سے آنسوؤں کی رنگت تبدیل ہوگئی ہے ۔''
میں نے عرض کی: ''حضور! آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو کس چیز نے رونے پر مجبور کیا ہے اور آخرایسا کون سا غم آپ کو لاحق ہے کہ آپ خون کے آنسو روتے ہیں؟ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا: ''میں روتا تو اس لئے ہوں کہ میں اللہ عزوجل کے اَحکام پر عمل نہ کرسکا ، اس کی عبادت میں کوتا ہی کرتا رہا، مَیں اپنے مالک حقیقی عزوجل کی کَمَاحَقُّہٗفرمانبردار ی نہ کرسکا اور آنسوؤں میں خو ن اس لئے آتا ہے کہ مجھے یہ خوف ہمیشہ دامن گیر رہتا ہے کہ میرا یہ رونا اللہ عزوجل کی بارگاہ میں مقبول بھی ہے یا نہیں ۔ میرے اعمال میرے مولیٰ عزوجل کی بارگاہ میں قبول بھی ہوئے ہیں یا نہیں؟'' بس یہی خوف مجھے خون کے آنسو رُلاتا ہے ۔''اتنا کہنے کے بعد آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ دو بارہ رونے لگے ۔پوری زندگی آپ کی یہی کیفیت رہی او راسی حالت میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا انتقال ہوا۔
وصال کے بعد میں نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو خواب میں دیکھا تو عرض کی: ''مَافَعَلَ اللہُ بِکَ یعنی اللہ عزوجل نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا ؟'' آپ نے جواب دیا :'' میرے رحیم وکریم پروردگا ر عزوجل نے مجھے بخش دیا ۔''پھر میں نے پوچھا: ''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے آنسوؤں کا آپ کو کیاصلہ دیا گیا ؟''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ''میرے پاک پرورگار عزوجل نے مجھے اپناقُرب خاص عطا فرمایا اور پوچھا: ''اے فتح مو صلی!تم دنیا میں آنسو کیوں بہایا کرتے تھے ؟'' میں نے عرض کی: ''میرے رحیم وکریم پروردگار عزوجل! مَیں اس خوف سے آنسو بہاتا تھا کہ میں نے تیری عبادت کا حق ادا نہ کیا، تیری اطا عت نہ کرسکا، تیرے اَحکامات پر عمل پیرا نہ ہوسکا۔'' پھر اللہ عزوجل نے مجھ سے پوچھا:'' تمہارے آنسوؤں میں خون کیوں آتا تھا ؟'' میں نے عرض کی:'' اے میرے پاک پروردگار عزوجل !مجھے ہر وقت یہ خوف دامن گیر رہتا کہ نہ جانے میرے اَعمال تیری بارگاہ میں مقبول بھی ہیں یا نہیں؟ ایسا نہ ہو کہ میرے اعمال ا کارت ہوگئے ہوں، بس یہی خوف مجھے خون کے آنسورلاتا تھا ۔''
یہ سن کرمیرے پاک پروردگار عزوجل نے ارشاد فرمایا: ''اے فتح موصلی !یہ تیرا گمان تھا کہ تیرے اعمال مقبول ہیں یا نہیں، مجھے میری عزت وجلال کی قسم !چالیس سال سے تمہارے نامہ اعمال میں تم پر نگہبان فرشتوں(یعنی کراماً کاتبین) نے ایک گناہ بھی نہیں لکھا۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علی وسلم)"
حضرت سیدنا شریح رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے:'' میں نے دو سو دینار کا ایک گھر خریدا اور ایک تحریر لکھ دی ، اور عادل لوگو ں کو (اس پر) گواہ بنایا ، اس بات کی خبر حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْھَہُ الْکَرِیْم کو پہنچی تو انہوں نے مجھ سے فرمایا: ''اے شریح! مجھے خبر پہنچی ہے کہ تو نے ایک گھر خریدا ہے اور ایک تحریر لکھی ہے اور اس پر عادل لوگوں کو گواہ بھی بنایا ہے ؟'' میں نے عرض کی:'' اے امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ! یہ خبر حقیقت (پر مبنی)ہے ۔''آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ''اے شریح! جلد ہی تیرے پاس ایسا شخص آئے گا جو نہ تو تیری تحریر دیکھے گا اور نہ ہی تجھ سے تیرے گھر کے بارے میں سوال کریگا۔ وہ تجھے اس گھر سے نکال کر تیری قبر کے حوالے کردے گا ۔ اگر تو میرے پاس آتا تو میں تیرے لئے یہ مضمون لکھتا:
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ؕ
"یہ وہ گھرہے جسے حقیر بندے نے اس شخص سے خرید ا ہے جسے کوچ کرنے ( کے حکم )کی وجہ سے پر یشان کیا گیا ہے اور مرنے والا ہے ۔ اس نے ایسا گھر لیا ہے جو دھوکے کا گھر ہے اور اس پر چار حدو د مشتمل ہیں ۔
ان میں سے پہلی حد مختلف امور کی طرف دعوت دینے والی چیزوں پر ختم ہوتی ہے ،دوسری حد مصائب وتکالیف کی طرف دعوت والی باتوں پر ، تیسری حد نفسانی خواہشات اور فضول کاموں پر اور چوتھی حدد ھوکے باز شیطان پر ختم ہوتی ہے اور اس میں اس گھر کا دروازہ شرو ع ہوتا ہے ۔
اس دھوکا میں پڑے شخص نے ایک امید کے ساتھ اس شخص سے سارا گھر خرید لیا جو پیغامِ اجل کی وجہ سے پریشان ہے۔ اب یہ قناعت کی عزت سے نکل کر لالچ کے گھر میں داخل ہوگیا ہے لیکن گھر خرید نے والے نے کون سی بہت بڑی حاجت پوری کرلی ہے جبکہ بادشاہوں کے اجسام کا مالک، جابر لوگو ں کی جانوں کوسلب کرنے والا ، فر عونوں جیسے کسرٰی ، تبع ، حمیر اور وہ جس نے محل بنایا پھراسے پختہ و مزین کیا اور لوگو ں کو اکٹھا کر کے انہیں غلام بنالیا اور جو اپنے بیٹے کے لئے بھی اس ملکیت کا گمان رکھتا تھا اور ان کی بادشاہت کو ختم کرنے والا ان سب کو میدا نِ حشر میں جمع فرمائے گا اورجب فیصلہ سنانے کے لئے کرسی رکھی جائے گی اس وقت باطل کام کرنے والے خسارے میں ہوں گے اور منادی اس طرح ندا کرے گا:''دوآنکھوں والے کے لئے حق کتنا واضح اور روشن ہے۔ بے شک سفر دو دن کا ہے، نیک اعمال کر کے زادِ راہ تیا رکرلو کیونکہ انتقال اور زوال کا وقت قریب آن پہنچا ہے'' ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبیالامین صلی اللہ تعالی علی وسلم)"
" حضرت ابراہیم بن ادہم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم فرماتے ہیں،ایک مرتبہ میں ا سکندریہ کے ایک شخص سے ملا جسے اسلم بن زید اَلجھنی کہا جاتاتھا ۔ و ہ مجھ سے کہنے لگا :''اے نوجوان ! تم کون ہو؟'' میں نے کہا:'' میں خراسان کا رہنے والا ہوں۔'' اس نے پوچھا: ''تجھے دنیا سے بے رغبتی پر کس چیز نے ابھارا؟'' میں نے جواب دیا :'' دنیوی خواہشات کو ترک کرنے اور ا ن کے ترک پر اللہ عزوجل کی طرف سے ملنے والے ثوا ب کی امید نے۔''وہ کہنے لگا :'' بندے کی اللہ عزوجل سے اجر وثواب کی امید اس وقت تک پوری نہیں ہوسکتی جب تک وہ اپنے نفس کو صبر کرنے کا عادی نہ بنالے ۔ یہ سن کر اُس کے پاس کھڑے ایک شخص نے پوچھا :'' صبر کیا ہے؟ ''اس نے جواب دیا:'' صبر کی سب سے پہلی منزل یہ ہے کہ انسان ان باتوں کو بھی (خوشی سے) برداشت کرلے جو اس کے دل کو اچھی نہ لگیں۔''میں نے کہا:''اگروہ ایساکر لے تو پھر کیا ہوگا؟''
اس نے کہا :'' جب وہ ناپسند یدہ باتوں کو برداشت کرلے گا تو اللہ عزوجل اس کے دل کو نور سے بھردے گا ۔پھر میں نے اس سے پوچھا:'' نور کیا ہے ؟ '' اس نے مجھے بتایا:''یہ اس شخص کے دل میں موجود ایسا چراغ ہوتا ہے جو حق وباطل اور متشابہ میں فرق کرتا ہے ۔ اے نوجوان ! جب تو اولیاء کرا م رحمہم اللہ تعالیٰ کی صحبت اختیار کرے یا صالحین سے گفتگوکر ے تو ان کی ناراضگی سے ہمیشہ بچتے رہناکیونکہ ان کی ناراضگی میں اللہ عزوجل کی ناراضگی اور ان کی خوشی میں اللہ عزوجل کی خوشی پوشیدہ ہے۔ اے نوجوان! میری یہ باتیں یاد کرلے ، اپنے اندر برداشت کا مادہ پیدا کر اور سمجھدار ہوجا۔''
یہ نصیحت آموز باتیں سن کرمیری آنکھوں سے سیل ِاشک رواں ہوگیا۔میں نے کہا :'' اللہ عزوجل کی قسم ! میں نے اللہ عزوجل کی محبت ،اس کی رضاکے حصول اور دنیوی خواہشات کو تر ک کرنے کی خاطر اپنے والدین اورمال و دولت کو چھوڑ اہے۔'' اس نے کہا:'' بُخل سے کوسوں دور بھاگنا۔ میں نے پوچھا:'' بُخل کیا ہے؟'' اس نے کہا:'' دنیا والوں کے نزدیک توبخل یہ ہے کہ کوئی آدمی اپنے مال میں کنجوسی کرے جبکہ آخرت کے طلبگار وں کے نزدیک بخل یہ ہے کہ کوئی اپنے نفس کے ساتھ اللہ عزوجل سے کنجوسی کرے ۔ یا د رکھ ! جب انسان اللہ عزوجل کی رضا کی خاطر اپنے دل سے سخاوت کرتا ہے تو اللہ عزوجل اس کے دل کوہدایت او ر تقوی سے بھر دیتا ہے اور اسے سکون ،وقار ، اچھا عمل اورعقل سلیم جیسی نعمتیں ملتی ہیں۔اس کے لئے آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور وہ مسرور و شاداں ان دروازوں کے کھلنے کی کیفیت کو دیکھتا ہے۔''
یہ سن کراس کے رفقاء میں سے ایک شخص نے کہا :'' حضور !اس کی آتشِ عشق کو مزید بھڑکایئے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس نوجوان کو اللہ عزوجل کی طر ف سے ولایت کی توفیق عطا کی گئی ہے۔ ''"
" وہ شخص اپنے رفیق کی اس بات سے بہت متعجب ہو ا کہ'' اسے اللہ عزوجل کی ولایت کی تو فیق عطا کی گئی ہے۔'' پھر میری طرف متوجہ ہو ا اور کہنے لگا:'' اے عزیز ! عنقریب تو اچھے لوگوں کی صحبت اختیار کریگا۔ جب تجھے یہ سعادت نصیب ہو تو ان کے لئے ایسی زمین کی مانند ہوجا کہ اگر وہ چاہیں تو تجھے پاؤں کے نیچے روند ڈالیں ۔ اوراگر وہ تجھے ماریں،جھڑکیں یا دھتکاردیں تو تُو اپنے دل میں سوچنا کہ تو آیاکہاں سے ہے ؟ اگر تو غور وفکر کریگا تو اللہ عزوجل کی نصرت تیری مؤید ہوگی اور اللہ عزو جل تجھے دین کی سمجھ بوجھ عطا فرمائے گا،پھر لوگ دل وجان سے تجھے مان لیں گے ۔
اے نوجوان !یا د رکھ ،جب کسی انسان کو اچھے لوگ چھوڑ دیں ، پرہیز گار اس کی صحبت سے بچنے لگیں اور نیک لوگ اس سے ناراض ہو جائیں تو یہ اس کے لئے نقصان دہ بات ہے۔ اب اسے جان لینا چاہے کہ اللہ عزوجل مجھ سے ناراض ہے ۔جو شخص اللہ عزوجل کی نافرمانی کر ے گا تو اللہ عزوجل اس کے دل کو گمراہی اور تاریکی سے بھر دے گا ۔اس کے ساتھ ساتھ وہ رزق( کی برکت )سے محرو م ہوجائے گا اور خاندان والوں کی جفا اور صاحبِ اقتدار لوگو ں کا بغض اس کا مقدّر بن جائے گا ۔پھر اللہ عزوجل جہاں چاہے اسے ہلاک کر دے۔''
میں نے کہا:'' ایک مرتبہ میں نے ایک نیک شخص کی ہمراہی میں کوفہ سے مکہ مکرمہ تک سفر کیا۔جب شام ہوتی تو وہ دو رکعت نماز ادا کرتا۔ پھر آہستہ آہستہ کلام کرتا۔میں دیکھتا کہ ثرید سے بھرا ہوا پیالہ اور پانی سے بھرا ہوا ایک کوزہ اس کے دائیں جانب رکھا ہوتا۔ وہ اس کھانے میں سے خود بھی کھاتا اور مجھے بھی کھلاتا۔ میری یہ بات سن کر وہ شخص اور اس کے رفقاء رونے لگے۔''
پھراس نے مجھے بتایا:'' اے میرے بیٹے! وہ میرے بھائی داؤد تھے اور ان کی رہائش بلخ سے پیچھے ایک گاؤں میں تھی۔ داؤد کے وہاں سکونت اختیار فرمانے کی وجہ سے وہ گاؤں دو سری جگہوں پر فخر کرتا ہے ۔اے عزیز ! انہوں نے تجھے کیا کہا تھا ، او رکہا سکھایا تھا ؟'' میں نے کہا:'' انہوں نے مجھے اسمِ اعظم سکھایا۔'' اس شخص نے پوچھا: ''وہ کیا ہے ؟'' میں نے کہا:'' اس کا بولنا میرے لئے بہت بڑا معاملہ ہے۔ ایک بار میں نے اسم اعظم پڑھا تو فوراً ایک آدمی ظاہر ہوا اور میرا دامن پکڑ کر کہنے لگا:'' سوال کر، عطا کیا جائے گا۔ '' مجھ پر گھبراہٹ طاری ہوگئی ۔ میری یہ حالت دیکھ کر وہ بولا:'' گھبرانے کی کوئی بات نہیں ،میں خضر ہوں اورمیرے بھائی داؤد نے تمہیں اللہ عزوجل کا اسم ِاعظم سکھایا ہے ۔ا س اسم اعظم کے ذریعے کسی ایسے شخص کے لئے کبھی بھی بد دعا نہ کرنا جس سے تمہارا ذاتی جھگڑا اوراختلاف ہو، اگر ایساکروگے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ تم اسے دنیا و آخرت کی ہلاکت میں مبتلا کردو اور پھر تم بھی نقصان اُٹھاؤ ۔ بلکہ اس اسمِ اعظم کے ذریعے اللہ عزوجل سے دعا کرو کہ وہ تمہارے دل کو دینِ اسلام پر ثابت رکھے ۔تمہارے پہلو"
"کو شجاعت وبہادری عطا فرمائے، تمہاری کمزوری کو قوت سے بدل دے ۔ تمہاری وحشت کو اُنسیَّت سے اور تمہارے خوف کو امن سے بدل دے۔ ''
پھر مجھ سے کہا:''اے نوجوان ! نفس کی خواہشات کو تر ک کرنے کی غرض سے دنیا کو چھوڑنے والوں نے اللہ عزوجل کی رضا کو (اپنا) لباس ، اس کی محبت کواپنی چادر اور اس کی عظمت وبزرگی کو اپنا شعار بنالیا ہے ۔ چنانچہ اللہ عزوجل نے ان پر ایسا فضل وانعام فرمایاکہ ایسا کسی پر نہ فرمایا۔ اتناکہنے کے بعد وہ چلا گیا۔ وہ شخص میری اس بات سے بہت متعجب ہوا۔ پھر کہنے لگا :'' یقینا اللہ عزوجل ایسے ہدایت یافتہ لوگو ں سے ( دین اسلام کی) تبلیغ کا کام لیتا ہے ۔ اے عزیز ! ہم نے تجھے (ان باتوں سے) نفع پہنچا یا اور جو ہم نے سیکھا تھا وہ تجھے سکھادیا ۔ پھر ان میں سے بعض نے بعض سے کہا :'' خوب سیرہوکر کھانے کے بعد رات جاگ کر گزارنے کی طمع نہیں کی جاسکتی۔ دنیا کی محبت کے ہوتے ہوئے اللہ عزوجل سے محبت کی طمع نہیں کی جاسکتی، تقوی اور پر ہیز گاری کو ترک کرنے کے باوجود حکمت کا الہام ہونا محض خام خیالی ہے ۔
ظلمت وتاریکی کی راہوں میں گم ہونے کے باوجود تیرے سب کام صحیح ہو جائیں یہ نہیں ہو سکتا ۔ اور جب تجھے مال سے محبت ہو توپھر تو اللہ عزوجل سے محبت کی طمع نہ کر ۔ لوگو ں پر ظلم وجفا کرنے کے با جود تمہارے دل کے نرم ہونے کا گمان نہیں کیا جاسکتا ۔ فضول کلام کرنے کے باوجود رقت قلبی ، مخلوق پر رحم نہ کرنے کے باوجود اللہ عزوجل کی رحمت اور علمائے کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کی مجالس میں نہ بیٹھنے کے باوجود رشد وہدایت کی طمع محض خام خیالی ہی ہے ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبیالامین صلی اللہ تعالی علی وسلم)"
حضرت سیدنا ابو صالح رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ سے مروی ہے کہ حضرت سیدناہقل بن زیاد اوزاعی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے دورانِ وعظ ارشاد فرمایا: ''اے لوگو ! تم اللہ عزوجل کی ان نعمتوں کا بہت شکر ادا کرو جن کی وجہ سے تم اللہ عزوجل کی بھڑکائی ہوئی اس آگ سے دور کر دیئے گئے جو دلوں تک چڑھ جاتی ہے ۔ تم ایسے گھر میں ہو جس میں تھوڑی ہی دیر ٹھہرنا ہے اورتم بہت ہی قلیل عرصہ کے لئے ان لوگوں کے نائب بن کرـآئے ہو جن کی عمر یں تم سے زیادہ تھیں ، ان کے جسم تم سے زیادہ لمبے تھے، انہوں نے پہاڑوں کو کھود کر پھاڑ
"ڈالااور چٹانیں توڑ ڈالیں ۔وہ ایسے جنگجو اور بہادر تھے کہ شہرو ں میں پہنچ کر شدید حملہ کرتے ، ان کے اجسام ستونوں کی مانند تھے ۔ انہوں نے اس فانی دنیامیں بہت کم وقت گزارا ۔گردش ایا م نے ان کی طویل عمریں گھٹادیں، ان کے نشانات مٹادیئے، ان کے گھر وں کو ویران کردیا اور ان کے ذکر کو بھلادیا ۔ ان میں سے کوئی بھی باقی نہ رہا،جولوگ بہت گرجدارآواز میں باتیں کرتے تھے مرنے کے بعد کبھی ان کی دھیمی سی آواز بھی سنائی نہ دی ۔
وہ فضول امیدوں میں پڑے عیش وعشرت سے زندگی بسر کر رہے تھے۔ انہوں نے لوگوں کے انجام سے عبرت حاصل نہ کی اور غفلت کی وادیوں میں بھٹکتے رہے۔ پھر اچانک رات کے وقت ان پر اللہ عزوجل کاعذاب نازل ہو ا تو ان میں سے اکثر اپنے گھروں میں سوئے ہی رہ گئے(یعنی موت کے منہ میں اُتر گئے) ۔اور جو باقی رہ گئے تھے وہ عذاب کے آثار و نشانات ،زوالِ نعمت،اور تباہ وبرباد گھر وں کو دیکھنے لگے ۔ان باتوں میں ان لوگوں کے لئے عبرت و نشانیاں ہیں جو درد ناک عذاب سے ڈرتے ہیں ۔
ان کے بعد تمہاری عمریں کم ہوگئیں ہیں۔دنیا فناکی طرف بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔اب ہرطرف برائیوں کا دور دورہ ہے ۔ عفوو درگزر پیٹھ پھیر گیا ،خیر خواہی اور نرمی رخصت ہوگئی۔ اب عبرتناک ہولناکیاں ، مختلف قسم کی سزائیں ، فتنہ وفساد ، لغزشوں کی بھرمار اور گزرے ہوئے ان لوگوں کی بُر ی باتیں باقی رہ گئیں جن کی وجہ سے خشکی اور سمندر میں فساد برپا ہوا۔ اے لوگو! تم ان غافلوں کی طر ح نہ ہوجانا جنہیں طویل عمری کی جھوٹی امیدوں نے دھوکے میں ڈالے رکھا۔ ''
( اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اور تمہیں اطاعت گزاروں اور آخرت کی تیاری کرنے والوں میں شامل فرمائے۔ )
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبیالامین صلی اللہ تعالی علی وسلم)"
حضرت سیدناابراہیم بن بشا ر خراسانی قدّس سرہ الربانی سے مروی ہے، ایک مرتبہ مَیں ، حضرت سیدنا ابراہیم بن ادہم ، ابو یو سف غسولی اور ابوعبداللہ سنجاری رحمہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ اسکندریہ کی طرف روانہ ہوا۔ جب ہم اردن کی نہر کے قریب پہنچے توآرام کی خاطر بیٹھ گئے ۔حضرت سیدنا ابو یوسف رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے پاس خشک روٹیوں کے چند ٹکڑے تھے انہوں نے وہ ہمارے سامنے رکھ دیئے، ہم نے وہ کھائے اور اللہ عزوجل کا شکر ادا کیا ، پھرمیں جلدی سے نہر کی جانب بڑھا تاکہ پینے کے لئے پانی لاؤں مگر حضرت سیدنا ابراہیم بن ادہم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم مجھ سے پہلے نہرمیں داخل ہوگئے۔ پانی ان کے گھٹنوں تک پہنچ گیا انہوں نے بسم اللہ پڑھ کر
"اپنی ہتھیلیوں سے پانی پیا ۔ پانی پینے کے بعد اَلْحَمْدُلِلّٰہِ کہہ کرنہر سے باہر تشریف لائے پھر پاؤں پھیلا کر بیٹھ گئے اورفرمایا: ''اے ابو یوسف رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ ! اگر بادشاہ اور ان کے شہزادے ہماری نعمتوں اور سکون کو جان لیں تو وہ ہمیں تلواروں کے ساتھ مارنے لگیں۔میں نے عرض کی:'' حضور! لوگ نعمتوں اورراحت وسکون کے توطالب ہیں مگر انہوں نے سیدھے راستے کو چھوڑ دیا ہے ۔'' میری اس بات پرآپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ مسکرا دیئے۔
حضرت سیدنا ابراہیم بن بشار علیہ رحمۃاللہ الغفار مزید فرماتے ہیں:'' ایک شام ہم نے حضرت سیدنا ابراہیم بن ادہم علیہ رحمۃ اللہ الاعظمکے ساتھ گزاری ۔ ہم روزے سے تھے لیکن افطاری کے لئے ہمارے پاس کوئی چیز نہ تھی ۔ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے جب مجھے غم وحزن کے عالم میں دیکھاتو فرمایا :'' اے ابن بشار علیہ رحمۃاللہ الغفار ! دیکھو!اللہ عزوجل نے فقراء ومساکین پر نعمتوں اور راحتوں کی کیسی چھماچھم برسات فرمائی ہے کہ کل بروزِقیامت ان سے زکوٰۃ اور حج و صدقہ کے متعلق سوال نہیں فرمائے گا ۔ بلکہ فقرا ء و مساکین کے بارے میں ان لوگوں سے سوال کیا جائے گا جودنیا میں امیر ہیں لیکن آخرت میں فقیر ہوں گے،او ر جودنیا میں معزز ہیں مگر آخرت میں ذلیل و رسوا ہو ں گے ۔ لہٰذا تم غم نہ کر و، جس رزق کااللہ عزوجل نے ذمہ لیا ہے وہ عنقریب تجھے مل کر رہے گا۔ اللہ عزوجل کی قسم! بادشاہ اور غنی تو ہم ہیں۔ ہم ہی تو ہیں جنہیں دنیا میں ہی بہت جلد راحت وسرور میسر ہے ،جب ہم اللہ عزوجل کی اطاعت میں ہوں تو ہمیں کچھ پرواہ نہیں ہوتی کہ ہم کس حال میں صبح وشام کر رہے ہیں۔ ہم ہر حال میں اللہ عزوجل کے شکر گزار ہیں۔''
پھر آپ رحمۃا للہ تعالیٰ علیہ نماز کے لئے کھڑے ہوگئے ۔ میں بھی اپنی نماز ادا کرنے کے لئے کھڑا ہوگیا ۔ ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ ایک آدمی آٹھ روٹیاں اور بہت ساری کھجوریں لے کر ہمارے پاس آ یا۔ اس نے سلام کیا او رکہا ـ:''اللہ عزوجل آپ پر رحم فرمائے، یہ کچھ کھانا حاضرِ خدمت ہے، تناول فرمائیے ۔'' حضرت سیدنا ابراہیم بن ادہم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم نے مجھ سے فرمایا:'' اے مغموم! کھا نا کھاؤ۔''
ابھی ہم کھانا کھانے بیٹھے ہی تھے کہ ایک سائل آگیا اس نے کہا:''مجھے کچھ کھانا کھلاؤ ۔''آپ رحمۃا للہ تعالیٰ علیہ نے تین روٹیاں اورکچھ کھجوریں سائل کودے دیں تین روٹیاں مجھے عطافرمائیں اوردوروٹیاں خودتناول فرمائیں۔ پھرارشادفرمایا: ''مؤاسات (یعنی غمخواری ) مؤمنین کے اخلاق میں سے ہے ۔''
ابن بشار علیہ رحمۃاللہ الغفار فرماتے ہیں:'' ایک مرتبہ میں ابراہیم بن ادہم علیہ رحمۃاللہ الاعظم کے ساتھ طرابلس روانہ ہوا۔ میرے پاس دو روٹیوں کے علاوہ او رکوئی شے نہ تھی ۔راستے میں ایک سائل نے سوال کیا توآپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے مجھ سے فرمایا: ''جو کچھ تیرے پاس ہے وہ اس سائل کودے دے'' اس معاملہ میں مَیں نے تھوڑی سی سستی کی، توآپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے مجھ سے"
"فرمایا :'' کیا بات ہے ،سائل کو روٹی دینے میں تم سستی کیوں کر رہے ہو؟''یہ سن کر میں نے دونوں روٹیاں توسائل کو دے دیں لیکن میں پریشان تھا ۔آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا : ''کل تو اس ذات سے ملاقات کریگا جس کے ساتھ اس سے پہلے تو شرف ِملاقات حاصل نہیں کرسکا ۔ اور توان تمام چیزوں کااجر بھی پائے گا جنہیں تو آگے بھیجتا رہا ۔اور جو چیزیں تو دنیا میں چھوڑ جائے گاوہ تجھے کوئی فائدہ نہ دیں گی۔ لہٰذا اپنے لئے آگے کچھ مہیا کر ، تو نہیں جانتا کہ کب اچانک تجھے اپنے رب عزوجل کی طر ف سے بلاوا آجائے ۔ ''
آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی اس گفتگونے مجھے رُلا دیا ۔ اور میری نظر وں میں دنیا کی قدرو قیمت بہت کم کردی ۔ جب انہوں نے مجھے روتے ہوئے دیکھا تو ارشاد فرمایا:'' ہاں اسی طر ح زندگی بسر کرو۔''
ابن بشار علیہ رحمۃاللہ الغفار فرماتے ہیں کہ'' ایک مرتبہ میں ، حضرت سیدنا ابراہیم بن ادہم ، ابویوسف غسولی اور ابو عبداللہ سنجاری رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کے ساتھ سفر پرتھا، ہم ایک قبر ستان کے پاس سے گزرے تو حضرت سیدنا ابراہیم بن ادہم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم ایک قبر کے پاس آئے اپنا ہاتھ اس پر رکھا اور فرمایا :'' اے فلاں ! اللہ عزوجل تجھ پر رحم فرمائے ۔'' پھر دو سری قبر کے پاس آئے اور اسی طرح کہا۔آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے سات قبروں کے پاس جا کر اسی طر ح کہا۔ پھران قبروں کے درمیان کھڑے ہوگئے اور باآواز بلند اس طرح ندا کی:'' اے فلاں بن فلاں! اے اہل قبور!تم فو ت ہو گئے اور ہمیں پیچھے چھوڑ آئے ۔ ہم بھی جلد ہی تم سے ملنے والے ہیں ۔'' پھر آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہرونے لگے اور کسی گہری سوچ میں گم ہوگئے کچھ دیر اسی طرح بیٹھے رہے پھر آنسوؤں سے تربتر چہرے کے ساتھ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا :'' اے میرے بھائیو!آخرت کی تیاری کے لئے تم پر جدّو جہد اور جلدی لازم ہے،جلد ی کرو اور آخرت کی تیاری میں ایک دوسرے پر سبقت کی کوشش کرو،بے شک تیز رفتاری میں اپنے مدِّ مقابل پر وہی سبقت لے جاتا ہے جو تیز چلتا ہے۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبیالامین صلی اللہ تعالی علی وسلم)"
حضرت سیدناعبداللہ بن صالح عجلی علیہ رحمۃاللہ القوی فرماتے ہیں:'' بنی شیبان کے ایک شخص نے مجھے بتایاکہ امیر المؤمنین حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْھَہُ الْکَرِیْم نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایاـ:'' تمام تعریفیں اللہ عزوجل کیلئے
"ہیں میں اسی کی حمد بیان کرتا ہوں اور اسی سے مددمانگتا ہوں ، اس پر ایمان لاتاہوں اور اسی پر بھروسہ کرتا ہوں ،میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ عزوجل کے سواکوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اسکا کوئی شریک نہیں ۔اور اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اس کے خاص بندے اور رسول ہیں۔ اللہ عزوجل نے انہیں ہدایتِ کامل اور دینِ حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، تا کہ اس کے ذریعے وہ تمہاری بیماریوں کو دور فرمائے اور تمہیں غفلت کی نیند سے بیدار کرے۔ یا د رکھو ! تم مرنے والے ہواور تمہیں موت کے بعد دو بارہ اٹھایا جائے گا ۔ تمہیں تمہارے اعمال سے آگاہ کیاجائے گا اور ان کا بدلہ دیا جائے گا۔ لہٰذا تمہیں دنیا کی زندگی کسی طرح دھوکے میں نہ ڈالے ۔
یہ دنیا مصیبتوں میں گھِرا ہوا گھر ہے ۔ اور ہر شخص جانتا ہے کہ اس نے فنا ہو جانا ہے ۔ یہ دھوکے کا گھر ہے ۔ اس میں جو کچھ ہے زوال پذیر ہے ۔ یہ کبھی ایک کے پاس ہے تو کبھی دوسرے کے پاس۔اس میں آنے والا کبھی بھی اس کے شر سے محفوظ نہیں رہ سکتا اس میں رہنے والے خود کو خوشحال اور مسر ور سمجھتے ہیں مگر اس سوچ کی وجہ سے وہ مصیبت اورد ھوکہ میں پڑجاتے ہیں ۔ دنیوی خوشحالی دائمی نہیں ہوتی ۔ اس کے رہنے والوں میں سے ہر ایک کی موت کا وقت معین ہے ۔
اے اللہ عزوجل کے بندو ! یاد رکھو :اس نیرنگی دنیا میں تم جن گزرے ہوئے لوگو ں کی پیروی کر رہے ہو ان کی عمر یں تمہاری بنسبت بہت زیاہ تھیں ۔ ان کے گھر تمہارے گھروں سے زیادہ آباد تھے۔ وہ تم سے زیادہ طاقتور تھے ۔ دور دور تک ان کا رُعب و دبدبہ تھا ، مگر اب ان کی آواز یں بند ہوگئیں ،ان کے جسم بوسیدہ ہوگئے ،گھر ویران اور خالی ہوگئے ۔ ان کا نام ونشان تک مٹ گیا ۔ ان کے وہ بلند و بالا محلات جن کی بنیادیں بہت مضبوط تھیں،اب پتھروں ،سِلوں اور ریت میں تبدیل ہو چکے ہیں۔
اب جو لوگ یہاںآکر بسے ہیں وہ سابقہ لوگوں کوجانتے تک نہیں،اسی طرح سابقہ لوگوں کے لئے یہ نئے مکین اجنبی ہیں۔ وہ اپنے قرب وجوار اور گھر کے قریب رہنے والوں کے ساتھ ایسا تعلق نہیں رکھتے جو پڑوسیوں کا پڑوسیوں اور بھائیوں کا بھائیو ں کے ساتھ ہونا چا ہے ۔ اب ان کے درمیان تعلق ہو بھی کیسے؟ جبکہ بوسیدگی نے انہیں خوراک بنا کر ہلاک کر دیا ہے ۔ اور ان پر چٹانوں اور مٹی نے سایہ کیا ہوا ہے ؟ زندگی کے بعد موت نے انہیں آلیا،اپنے تئیں عمدہ اور خوشحا ل زندگی گزار نے کے بعد اب وہ فنا کے گھاٹ اتر گئے ۔ ان کی وجہ سے ان کے دوست واحباب مصیبت میں مبتلاہوگئے ، انہوں نے مٹی کو اپنا مسکن بنالیا اور دنیا سے کوچ کر گئے ۔ وہاں قبروں میں ان کے لئے یہ دنیوی نعمتیں ہوں گا ۔ ہائے افسوس ! ہائے افسوس ! پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قران پاک کی یہ آیت تلاوت فرمائی:"
کَلَّا ؕ اِنَّہَا کَلِمَۃٌ ہُوَقَآئِلُہَا ؕ وَ مِنْ وَّ رَآئِہِمۡ بَرْزَخٌ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوۡنَ ﴿100﴾
"ترجمہ کنزالایمان:ہشت یہ تو ایک بات ہے جووہ اپنے منھ سے کہتا ہے اور اُن کے آگے ایک آڑہے اس دن تک جس میں اٹھائے جائیں گے ۔(پ18، المؤمنون :100)
گویا تم بھی انہی کی طرح ہوگئے جس طر ح وہ قبر میں تنہا اور بوسیدہ ہوگئے ۔ اور تمیں بھی اس خواب گاہ (یعنی قبر ) میں رکھا جائے گا۔ تو اس وقت تمہاری کیا کیفیت ہوگی جب اعمال انتہاکو پہنچ چکے ہونگے ، قبروں کو الٹ پلٹ کردیا جا ئیگا، جو کچھ سینوں میں چھپا تھا وہ سامنے آ جائے گا۔پھر تمہیں حساب کتاب کے لئے مالک حقیقی عزوجل کے سامنے کھڑے کیا جائے گا، جوکہ بہت جلال والا ہے ۔ سابقہ گناہوں کے خوف کے باعث تمہارے دل تھر تھر کانپ رہے ہوں گے۔ پھر تمہارے عیوب اور راز ظاہر ہوجائیں گے۔ وہاں ہر ایک اپنے کئے کی جزا پائے گا ۔''
(اللہ عزوجل ہمیں اور تمہیں اپنی کتاب(یعنی قرآن پاک) پر عمل کرنے والا ،اور اولیاء کرام کی اتباع کرنے والا بنائے ۔ یہاں تک ہم اپنی منزل مقصود تک پہنچ جائیں۔ یقینا ہماراپروردگار عزوجل تعریف کیا ہوا اور بزرگی والا ہے ۔)
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علی وسلم)"
" حضرت سیدنا عبداللہ بن محمد قرشی علیہ رحمۃاللہ القوی کہتے ہیں، مجھے میرے والد نے بتایا کہ امیرالمؤمنین حضرت سیدنا علی المرتضیکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْھَہُ الْکَرِیْم جمعہ کے دن جب خطبہ ارشاد فرماتے تو اکثر یہ کہا کرتے :'' اے لوگو ! نیکی کے کاموں کو لازم پکڑو اور جِن ّکے فعل کو یاد کرو ۔
ایک مرتبہ ابوالاشتررحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے مجھ سے کہا :'' آؤ! امیرالمؤمنین حضرت سیدنا علی المرتضی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْھَہُ الْکَرِیْم کی خدمت چلیں اوران سے اس جن کے بارے میں سوال کریں جس کے متعلق انہوں نے حکم دیا ہے اور جس کا وہ اکثر تذکرہ کرتے رہتے ہیں ۔ چنانچہ میں اور ابو اشتر رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ امیرالمؤمنین حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْھَہُ الْکَرِیْم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیت المال میں تھے ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا:''تمہارا اس وقت میرے پاس آنا کتنا عجیب ہے ؟ ہم نے عرض کی ۔ اے امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ! آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایاتھاکہ'' نیکی کے کاموں کو لازم پکڑو اور جِن ّکے فعل کو یاد کرو ۔حضور ہمیں یہ بتائیے کہ وہ جن کون ہے؟۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا:''کیا"
"تم نہیں جانتے کہ وہ جن کون ہے ؟ ہم نے عرض کی:'' نہیں'' آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا :'' وہ تم میں تھا ۔ ہم نے عرض کی وہ کون تھا؟ ''آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا :'' مالک بن خزیم ہمدانی اپنے چند دوستوں کے ساتہ حج کے ارادے سے روانہ ہوا ، دوران سفر جب وہ کسی مقام پر پہنچا تو اس نے اپنے دوستوں سے کہا:یہاں ٹھہرجاؤ! تم پانی کے حصول پر قادر ہوگئے ہو ۔ چنانچہ انہوں نے وہیں قیام کیا اور سو گئے رات کے آخری پہر جب چاند طلوع ہوا تو پہاڑ سے ایک اژدہا بڑی تیزی کے ساتھ رینگتا ہوا ان کے پاس پہنچا۔ اور اہل قافلہ کے گرد چکرلگایا، اہل قافلہ میں سے ایک نوجوان اس اژدہے کو دیکھ رہا تھا ۔ اژدہا جب چکر لگا کر ایک ضعیف شخص کے پاس پہنچا ،تو اس نوجوان کو خوف لاحق ہوا کہ کہیں یہ اس بزرگ کوڈ س نہ لے، چنانچہ اس نے قریب ہی پڑا ہوا ڈنڈا اٹھایا اور اس پر حملہ کردیا۔ مگر نشانہ خطا ہوگیا ۔وہ بزرگ بھی جاگ گئے اور خوفزدہو کر کہنے لگے :''کیا ہے؟'' یہ اژدہاکہا ں سے نمودار ہوگیا ؟پھر اس نے قافلے والوں سے کہا: سوجاؤ ! تم نے پانی کے حصول پر قدرت حاصل کرلی ہے ۔وہ سوگئے اور پھر طلوعِ آفتا ب سے پہلے ان کی آنکھ نہ کھل سکی۔
طلوع آفتاب کے وقت وہ اٹھ کھڑے ہوئے او ران میں سے ہر شخص نے اپنی سواری کی لگا م پکڑی او رپانی کی تلاش میں نکل پڑے مگر وہ راستہ بھول گئے تھے ۔ جب اژدہے نے انہیں دیکھا تو پہاڑ پر سے بولا:'' اے لوگو ! تمہارے سامنے اس وقت تک پانی نہیں آسکتا، جب تک تم آج کے دن ان تھکے ہوئے سواری کے جانوروں کی اچھی طر ح دیکھ بھال نہ کر لو۔ پھر جب ایسا کرلو تو دیکھنا کہ سامنے ٹیلے کے پیچھے پانی کا ایک چشمہ ہے ۔''
چنانچہ وہ رکے رہے ۔پھرمطلوبہ جگہ پہنچے توو ہاں واقعی ایک چشمہ تھاجس کا پانی رکا ہوا تھا ۔ انہوں خود بھی پانی پیا ، اپنے جانوروں کو بھی پلایا، اور قافلہ دوبار ہ سوئے منزل چل دیا ۔ جب وہ ایک چھوٹی سی پہاڑی کے قریب پہنچے توکہنے لگے: اے ابو حزیم ! اگر اسی طر ح کا پانی یہاں بھی مل جائے تو کتنی بڑی خوش بختی ہے ۔ پھر وہ پہاڑی کے قریب ٹھہرگئے اور پانی کی میں تلاش نکلے اس مرتبہ پھر راستہ بھول گئے ۔ جب پہاڑی پر موجوداژدہے نے انہیں دیکھا تو پکار کرکہا : ''اے اہل قافلہ! اللہ عزوجل میری طرف سے تمہیں جزاء خیر عطا فرمائے ۔ اب میں تمہیں اپنی طرف سے الوداع کہتا ہوں اور (آخری ) سلام پیش کرتا ہوں۔احسان اور نیکی کاکام کرنے میں کسی کو ہرگز بے رغبتی نہیں ہونی چاہیئے ، یقینا جو محتاج کو محروم رکھتا ہے وہ خود محروم ہے ۔ میں وہ اژدہا ہوں کہ بھٹکے ہوؤں کو راستہ بتا کر مصیبت سے نجات دلاتا ہوں، اس پر میں شکر ادا کرتا ہوں اور یقینا شکر ادا کرنا اچھی خصلت ہے ۔ جو نیکی کاکام کرتا ہے جب تک وہ زندہ رہے اس کی ضرورت کا سامان ختم نہیں ہوتا، جبکہ برائی کا انجام برائی ہی ہے ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبیالامین صلی اللہ تعالی علی وسلم)"
" حضرت سیدناابوعبیدہ تاجی علیہ رحمۃاللہ الہادی فرماتے ہیں،میں نے حضرت سیدنا حسن بصری علیہ رحمۃاللہ القوی کو اس طرح فرماتے ہوئے سنا :'' اے ابن آدم ! تیرے لئے دنیا کشادہ کردی گئی تو تُو آخرت کے عمل سے غافل ہوگیا ، تیری موت قریب آن پہنچی ،تجھے عمل کرنے کا حکم دیا گیا ۔ اللہ عزوجل کا حق سب سے افضل ہے وہ اسوقت تک تجھ سے راضی نہ ہوگا جب تک تو ان احکام کو پورا نہ کرے جو اس نے تجھ پر لازم کئے ہیں۔ اے ابن آدم! جب تو لوگو ں کو نیکی کا کام کرتا دیکھے تو ایسے کام میں تو ان پر سبقت لے جانے کی کوشش کر او رجب تو انہیں ہلاکت وبر بادی کے کاموں میں دیکھے، تو ا ن سے اوران کے اختیار کردہ افعال سے کوسوں دور بھاگ۔ ہم نے ایسے لوگ دیکھے ہیں جنہوں نے اپنی دنیا کو عاقبت پر تر جیح دی پس وہ ذلیل وخوار ہوگئے ۔
اے ابن آدم ! تو اس وقت تک ایمان کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا جب تک تو لوگو ں کی عیب جوئی سے باز نہ آجائے، پہلے تو ان عیوب کو تلاش کر جو تیری ذات میں موجود ہیں،پھراپنی ذات سے ا صلاح کا عمل شروع کر، جب تو ایسا کریگا تو دوسروں کی عیب جوئی سے بچا رہے گا ۔ اور اللہ عزوجل کے نزدیک پسندیدہ شخص وہ ہے جو ان خصوصیات کا حامل ہو ۔
ظلم اور جفاء ظاہر ہوگئے ، علماء کم ہوگئے اور سنت کو چھوڑدیا گیا ۔ مجھے ایسی برگزیدہ ہستیوں کی ہم نشینی کا شرف حاصل ہوا ہے کہ جنکی ہم نشینی ہر بندہ ئمؤمن کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ۔ اللہ عزوجل کی قسم ! آج کوئی بھی ایسا نہیں رہا جس سے ہم فیض اور برکات حاصل کرسکیں ۔ بہترین اور اچھے لوگ گزر گئے، دنیا دار سر کش لوگ باقی رہ گئے۔
اے ابن آدم ! تو ایمان اور خیانت کو ایک ساتھ جمع نہیں کرسکتا ۔ اے ابن آدم ! توکیسے مؤمنِ کامل ہوسکتا ہے جبکہ تیرا پڑوسی امن میں نہ ہو ۔ اے ابن آدم ! تو کیسے کامل مسلمان ہو سکتا ہے جبکہ لوگ تجھ سے سلامت نہ ہوں۔ دنیا میں مؤمن کی مثال ایک اجنبی کی سی ہے جو دنیوی ذلت سے نہیں گھبراتا ۔اور نہ ہی دنیوی عزت کے حصول کی خاطر دنیا داروں سے مقابلہ کرتا ہے ۔ دنیا داروں کا اندازِ زندگی اور ہے ، جبکہ اس کا اور ۔لو گ اس کی طرف سے راحت وسکون میں ہوتے ہیں۔ مؤمن کی صبح وشام اللہ عزوجل کے خوف ہی میں ہو تی ہے، اگرچہ وہ کتنا ہی نیک کیو ں نہ ہو ۔ اس مرد مجاہدکی حقیقت کو سوائے اس کے کوئی نہیں جانتا اس لیے کہ وہ دو خوفو ں کے درمیان ہے:
(۱) اس گناہ کاخوف جو اس سے سر زد ہوا۔ اب وہ نہیں جانتا کہ اس گناہ کے بدلے اللہ عزوجل اس کے ساتھ کیا معاملہ فرمائے گا ۔
(۲)۔۔۔۔۔۔ عنقریب آنے والی موت کا خوف کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اسے کون کو ن سی ہلاکتیں اور پریشانیاں پہنچے والی ہیں۔
اللہ عزوجل اس بندے پر رحم فرمائے جس نے غور وفکر کیا ، عبرت حاصل کی اور معاملے کی گہرائی کو غور سے دیکھ لیا ۔"
" اے لوگو! سنجیدگی اختیا کر لو ۔ اب وقت آگیا ہے کہ تم آنکھیں کھول لو ۔ اللہ عزوجل کی قسم !دنیا جب اس میں رہنے والوں کیلئے کھولی گئی تو اس کے کتے (حرص اور فتنہ وفساد) بھی کھول دیئے گئے۔ ا س دنیا کے کتےّ سب سے برے ہیں۔ دنیا کے حصول کی خاطر لوگوں نے تو ایک دوسرے پر تلوار وں سے حملے کئے ۔اور بعض نے بعض کی حرمت کو حلال جانا ۔ہائے ! افسوس اس فساد پر ! یہ کتنا بڑا فساد ہے
اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں حَسن کی جان ہے! اس دنیا میں جس مؤمن نے بھی صبح کی تو غم اور پریشانی کی حالت میں کی ۔ پس جلدی سے اللہ عزوجل کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوجاؤ اس لئے کہ بندہ مؤمن کو اللہ عزوجل سے ملاقات کا شرف حاصل کئے بغیر راحت وسکون کی دولت نصیب نہیں ہوسکتی ۔
یقینا موت نے دنیا کو رسواکردیا ۔موت نے دنیا میں کسی بھی صاحبِ عقل کیلئے کوئی خوشی نہیں چھوڑی۔بندہ مؤمن نے جب دنیا کا قصد کیا تو اسے منہدم کردیا ۔اور اس کے ذریعے اپنی آخرت کو سنوارا،دنیا کی وجہ سے اپنی آخرت کوتباہ و برباد نہیں کیا ۔ جبکہ منافق نے ا پنی خواہشات کو اللہ عزوجل کی رضا پر ترجیح دی اور دنیا کو اپنا معبود بنالیا ۔
اے ابن آدم ! جتنادنیوی رزق تیرے نصیب میں ہے وہ تجھے مل کر رہے گا۔ مگر آخرت کے معاملے میں تونیکیوں کا محتاج ہے ،تجھ پر لازم ہے کہ توآخرت کی تیاری کر۔ اگر توآخرت کی تیاری میں مشغول ہو جائے گا تو دنیا خود تیرے قدموں میں آ جائے گی ۔ اللہ عزوجل ان لوگو ں پر رحم فرمائے کہ جنہیں دنیا ملی لیکن انہوں نے یہ دنیوی ما ل ودولت اس کے حقداروں
(فقرا ء ومساکین) پر خرچ کر دیا۔ پھر یہ لوگ اس حق کو ادا کرنے کے بعدہلکے پھلکے ہوگئے ۔
امیرالمؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد :'' طلب کرنے والوں کی دو قسمیں ہیں:
(۱)۔۔۔۔۔۔ آخرت کا طلبگار ، ایسا شخص اپنی طلب میں کامیاب ہوجاتا ہے اور اسکی اُخروی نعمتیں ختم نہیں ہوتیں۔
(۲)۔۔۔۔۔۔ دنیا کا طلبگار، ایسا شخص اپنی طلب میں بہت کم کامیاب ہوتا ہے، اوراسے جو دنیوی نعمتیں ملتی ہیں ان میں سے اکثر کو ضائع کر بیٹھتاہے ۔
میں نے ایسے لوگوں کی صحبت کا شرف حاصل کیا ہے جن کی نظریں آخرت ( کی نعمتوں) پر مرکوز تھیں۔ جاہل انہیں بیمار تصور کرتے تھے ۔ مگر اللہ عزوجل کی قسم! وہی سب سے زیادہ صحت مند دلوں کے مالک تھے ۔
اللہ عزوجل اس بندے پر رحم فرمائے جس نے اپنے آپ کواللہ عزوجل کی عبادت میں مشغول رکھا ۔ اور اللہ عزوجل کی کتاب قرآن مجید پر عمل پیرا ہوا ۔ اگر اس کا عمل کتا ب اللہ عزوجل کے موافق ومطابق ہوا تو اس نے اللہ عزوجل کی حمد وثناء بیان کی اور"
"اپنے اس عمل میں زیادتی کا طلبگارہوا ۔اور اگر اس کا عمل کتاب اللہ عزوجل کے منافی ہوا تو اللہ عزوجل کی نارضگی سے بچنے کیلئے قریب ہی سے لوٹ آیا ۔
دنیا کا زوال بالکل ظاہر ہے۔ اس کی نعمتیں دائمی ہوں گا ۔نہ ہی اس کے مصائب وآلام سے کوئی امن میں ہے اس کی نئی چیز پوشیدہ ہوجاتی ہے ۔صحت مند بیمار ہوجاتا ہے ، غنی فقیر بن جاتا ہے۔ اپنے رہنے والوں کو اکثر عذاب سے دو چار رکھتی ہے اور ہر حال میں انہیں کھیل تماشا بنائے رکھتی ہے ۔دنیا میں سوائے اس کے کوئی چیز تیرے لئے فائدہ مند نہیں کہ جسے تو آخرت کے لئے بھیج چکا ہے ۔ پس تو مال کو اپنے لیے دنیا میں ذخیرہ نہ کر او رنہ اس چیز میں اپنے نفس کی پیرو ی کر جس کے بارے میں تو جانتا ہے کہ اسے تو نے اپنے پیچھے چھوڑ کر چلے جانا ہے ۔ بلکہ آنے والی مشقتوں کے لئے زادِ راہ تیار کر لے ( یعنی صدقہ وخیرات کرتا کہ آگے کام آئے ) اور اللہ عزوجل کی بارگاہ اقدس سے بلاوا (یعنی موت)آنے سے قبل اس کا اہتمام کر لے ۔کہیں ایسا نہ کہ اچانک موت کے گھاٹ اتر جائے اور تیری خواہشات دھری کی دھری رہ جائیں ۔ پھراسوقت تجھے شرمندگی اٹھانا پڑے۔ مگر اسوقت کی ندامت و شرمندگی کسی کا م نہ آئے گی دنیا کو اپنے جسم کی صحبت عطا کر مگر اسے اپنے دل سے دور رکھ اور اس کے غم میں مبتلا نہ ہو۔
دنیا والوں اور ان کے امور کے درمیانراستہ خالی چھوڑ دے کیونکہ وہ تھوڑا عرصہ ہی باقی رہیں گے۔مگر حقیقت میں اس کے وبال کو سجایا ہوا پیش کیا گیا ہے ۔ لوگو ں کا دنیا کو پسند کرنا تیرے اس کو ناپسند کرنے میں اضافہ کرے اور لوگوں کا اس میں مطمئن ہونا تیرے لئے اس میں احتیاط کرنے اور اس سے مزید دور بھاگنے میں اضافہ کرے ۔ جس کام ( یعنی عبادت )کے لئے تجھے پیدا کیا گیا ہے اس میں خود محبت کر۔ اپنی مشغولیت اور فراغت اسی میں گزار دے۔ تو نے جو عمل بھی کیا تو اسے دیکھ لے گا اور اس کے بارے میں تجھ سے پوچھا جائے گا ،اب تو صبح وشام موت کا انتظار کر ۔
اے لوگو! تم ایسے برے اور مذموم گھر میں آگئے جسے آزمائش کے طور پر پیدا کیا گیا اور اس کی ایک مقررہ میعاد ہے جب وہ پوری ہوجائے تو (زندگی)ختم ہوجاتی ہے ۔ یہ ایسا فانی گھر ہے کہ اللہ عزوجل اپنی مخلوق کے اس کی طر ف جھکنے اور مائل ہونے سے راضی اور خوش نہیں ہوتا ، اس کے عیوب ، اس سے باز رہنے اور اس کے علاوہ میں رغبت رکھنے کے بارے میں بہت ساری آیات اور مثالیں بیان کی گئی ہیں، جو اس میں رہا مگر اس سے نفرت کی اور نفسانی خواہشات کو تر ک کیا تو وہی سعاوت مند رہا۔ اور جو اس میں رہا او ر اس سے رغبت اور محبت رکھی تو ایسا کرنے سے وہ بدبخت ہوگیا ۔ اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محرو م ہوگیا ۔
اس کا مال ومتاع انتہائی قلیل ہے اور اس کا فنا ہوجانا لکھ د یاگیا ہے ۔اس کے رہنے والے اسے چھوڑ کر ان منازل کی جانب جانے والے ہیں جو کبھی فنا نہ ہونگی ۔ اے ابن آدم! دنیا کی طویل عمری تجھے دھوکے میں نہ رکھے۔"
" بے شک آنے والی ہولناکیاں اور امور کی سختیاں جو کہ تمہارے سامنے ہیں ان سے آج تک کوئی بھی خلاصی نہیں پاسکا۔ خدا عزوجل کی قسم ! اس مشکل راستے پر ضرو رچلنا ہے اور تمام امور ضرور پیش آنے والے ہیں۔ پھر یا تو اس کے شر سے عافیت اور اسکی ہولناکی سے نجات مل جائے گی ۔یا پھر ایسی ہلاکت وبربادی ہوگی کہ جس کے بعد خیر اور بھلائی نہیں ہے ۔ اے ابن آدم ! موت کی تیاری میں جلدی کر اور '' کل ، کل '' کی رٹ نہ لگا ۔ جو کرنا ہے آج ہی کر لے۔ اس لئے کہ تو یہ نہیں جانتا کہ کب تجھے اللہ عزوجل کی طر ف لوٹ کر جانا ہے ۔
اے ابن آدم! تو ہرگز نیکی کے کسی کام کو بھی حقیر نہ جان ،کیونکہ جب تو اسے دار جزاء میں دیکھے گا تو اس نیکی کا وہاں موجود ہونا تجھے خوش کردے گا۔اور برائی کے کسی کام کو ہرگز حقیر نہ جان! کیونکہ جب تو اسے دیکھے گا تو اس کاوہاں موجود ہونا تجھے غمناک کردے گا ۔ اے ابن آدم ! زمین کو اپنے قدموں تلے روندھ ڈال کیونکہ یہ تیری قبر کے قریب ہے۔
اے ابن آدم ! جس وقت سے تیری ماں نے تجھے جنا اس وقت سے اب تک لگا تا ر تیری عمر کم ہوتی جار ہی ہے۔
اے ابن آدم ! تیرے لئے ایک نامہ اعمال کھول دیا گیا ہے اور تیرے اوپر دو فرشتے مقرر کردیئے گئے ہیں ۔ایک تیری دائیں جانب جبکہ دوسرا بائیں جانب ہے۔ اب کم اعمال کر! یا زیادہ، جب تو مرے گا تو اس نامہ اعمال کو لپیٹ کراسے تیرے گلے میں پہنا دیا جائے گا ۔"
اِقْرَاۡ کِتٰبَکَ ؕ کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیۡکَ حَسِیۡبًا
"ترجمہ کنز الایمان :فرمایا جائے گا کہ اپنا نامہ (نامہ اعمال )پڑھ، آج تو خود ہی اپنا حساب کرنے کوبہت ہے ۔ ( پ 15، بنی اسرائیل :14)
اے ابن آدم ! تو ریا کا ری کرتے ہوئے کوئی نیکی نہ کر او رنہ ہی شرم کی وجہ سے کسی نیکی کوچھوڑ ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علی وسلم)"
حضرت سیدناعبد الوھاب بن عبداللہ بن ابی بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، آپ فرماتے ہیں کہ ایک اعرابی امیرالمؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کی: ''اے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ! نیکی کریں
"جنت پائیں ۔''پھراس نے چند عربی اشعار پڑھے جن کاترجمہ یہ ہے:
میر ی بچیوں اور ان کی ماں کو کپڑے پہنائیے توہم ساری زندگی آپ کے لئے جنت کی دعا کریں گے ۔اللہ عزوجل کی قسم! آپ (یہ نیکی )ضرور کریں گے ۔
امیرالمؤمنین حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا:'' اگر میں ایسا نہ کر سکوں تو؟''اعرابی بولا:''اے ابوحفص رضی اللہ تعالیٰ عنہ! اگر ایسانہ ہوا تو میں چلاجلاؤں گا ۔''
امیرالمؤمنین حضرت سیدنا عمر فاورق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا :'' اگرتُو چلا گیاتو پھر کیا ہوگا ؟ ''
وہ کہنے لگا: ''تو پھر اللہ عزوجل کی قسم ! آپ سے میرے حال کے بارے میں ضرور سوال کیا جائے گا۔اور اس دن عطیات احسان اور نیکیاں ہوں گی۔ تو ( محشر کے دن) کھڑے شخص سے ان کے متعلق پوچھا جائے گا۔پھر اسے ( حساب وکتاب کے بعد) یا تو جہنم کی طرف بھیج دیا جائے گا یا جنت کی خوشخبری سنائی جائے گی ۔''
(اشعار کی صورت میں اس اعرابی کی یہ باتیں سن کر ) امیرالمؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آنکھوں سے سیلِ اشک رواں ہو گیا،یہاں تک کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی داڑھی مبارک تر ہوگئی ۔ پھرآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے غلام کو حکم فرمایا: اے غلام ! اس شخص کو میری یہ قمیص عطا کردو ۔ اور یہ اس وجہ سے نہیں کہ اس نے اچھا شعر کہا ہے، بلکہ اس دن (یعنی روز قیامت) کیلئے۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا:'' اللہ عزوجل کی قسم ! (اس وقت)اس قمیص کے علاوہ میں کسی اور چیز کا مالک نہیں۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبیالامین صلی اللہ تعالی علی وسلم)"
محمد بن علی مدائنی سے منقول ہے ، محمد بن جعفر نے ارشاد فرمایا :'' یمن کے کسی بادشاہ کا بھائی فوت ہوگیا ۔ توکسی عربی شخص نے اس کی تعزیت کرتے ہوئے اس طرح کہا:''یاد رکھ ! مخلوق ، خالق حقیقی کیلئے ہے ، شکر اسی ذات کا ہے جو انعام کرنے والی ہے ، مصائب وآلام سے بچانے پر وہ قادر ہے ۔ جو ہونا ہو وہ ضرور ہو کر رہتا ہے ۔جب ( موت کا حکم) آگیا تواسے واپس نہیں کیا جاسکتا ۔اور نہ ہی فوت ہونے والے کی واپسی کی کوئی راہ ہے ۔ تجھے ایسی چیز دی گئی ہے جو عنقریب تجھے چھوڑ جائے گی یا تو خود ہی اسے
"چھوڑ دے گا ۔ تَو جس کا م کو ضرور بضرور ہونا تھا تو اس کے ہونے کے بعد پریشانی کس بات کی ؟ اور جس بات کے ہونے کی امید ہی نہیں تو پھر اس کی طمع کیوں ؟ اور جس چیز نے عنقریب منتقل جانا ہے یا جس سے تو نے منتقل ہونا ہے تو ا س کے لئے حیلہ کیا کرنا ؟
ہمارے آباؤ اجدادگزرگئے جن کی ہم اولادہیں۔ تو جب اصل ہی ختم ہو جائے تو فرع بھی باقی نہیں رہتی ۔
لہٰذا مصائب وآلام کے وقت سب سے افضل شئے ''صبر کرنا'' ہے ۔ در اصل اس دنیا کے رہنے والے ایسے مسافر ہیں جو اپنی سواریوں کو اس دنیا کے علاوہ کسی اورمقام پر ہی اتارتے ہیں۔ تو نعمت ملنے پر شکر، اور تغیر ات زمانہ وحالات کے وقت اللہ عزوجل کے سامنے اس کی رضا کی خاطر اپنا سر تسلیمِ خم کرنا کتنی اچھی بات ہے ۔
جب تو کسی پریشان حال (بے صبرے) کو دیکھے تو اس سے عبرت حاصل کر ۔ اور جب توکوئی پریشانی دیکھے تواسے اس مسئلہ کے حل کیلئے اس کی تہہ تک پہنچنے والے شخص کی طرف لوٹا دے ۔ کیونکہ اس کا تجھ سے زیادہ کون مستحق ہے ۔
اور یادرکھ ! سب سے بڑی مصیبت اپنے پیچھے برے جانشین چھوڑ جانا ہے ۔ پس تو سدھرجا! اس لیئے کہ لوٹنے کا وقت قریب ہے ۔
یا د رکھ ! یقینا تجھ پر انعام واکرام کرنے والے اللہ عزوجل نے ہی تجھے آزمائش میں مبتلا کیا ہے ۔ اسی عطا کرنے والے نے تجھ سے ( اپنی عطا کردہ نعمت ) لے لی ہے۔ مگر اکثر( نعمتیں)تو ( تیرے پاس ) چھوڑدیں۔ لہٰذا اگر تجھے صبر کرنا بھُلادیا گیا ہے، تو پھر شکر کرنے سے تو غافل نہ ہو ۔(اگر ہوسکے تو)ا ن دونوں میں سے کسی کو نہ چھوڑ ۔ اور ایسی غفلت سے بچ جو سلبِ نعمت اور ابدی ندامت وشرمندگی کا باعث ہو ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آج ملنے والی چھوٹی مصیبت کے بجائے کل تجھے بڑی مصیبت کا سامنا کرنا پڑے۔ ہم دنیا میں جس بھی مقصد کے حصول کی کوشش کرتے ہیں تو موت او ر مصائب وآلام ہمارے درمیان آکھڑے ہوتے ہیں ۔ ہر گھونٹ اور لقمے کے ساتھ پھندا لگا ہوتا ہے ۔
کوئی بھی نعمت پہلی نعمت کے ختم ہوئے بغیر نہیں پائی جاسکتی ۔ اس دنیا میں زندگی گزار نے والا شخص جو دن بھی گزارتا ہے اس کے ساتھ ہی وہ اپنی پہلی گزرنے والی زندگی کو ختم کر رہا ہے ۔ان گزشتہ دنوں کانام ونشاں باقی نہیں رہتا بلکہ ختم ہوجاتا ہے ۔ ہمارا گزرنے والا ہر سانس ہمیں فناء کی جانب لے جا رہاہے، تو پھرہم باقی رہنے کی امید کیسے کریں ؟ یہ دن اور رات جس چیز کو بھی بلندی دیتے ہیں تو آخر کار اسے گرانا شروع کردیتے ہیں ۔اور جس شےکو وہ اکٹھا دیں آخر کا ر اسے بکھیر دیتے ہیں ۔ پس تونیک کام اور نیک لوگو ں کو تلاش کر۔ اور یاد رکھ ! بھلائی پہنچانے والا بندہ بھی بھلا ہوتا ہے اور شر پہنچا نے والا شخص شریر ہی ہوتا ہے۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علی وسلم)"
" حضرت سیدناجنید بن محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:'' میں نے حضرت سیدناسری سقطی علیہ رحمۃ اللہ القوی کویہ فرماتے ہوئے سنا:'' نوجوانی کے زمانہ میں جبکہ میرے دن بڑے اچھے گزر رہے تھے ۔ ایک رات ایسی آئی کہ میں نے خودکو ایسے پہاڑ کے دامن میں پایا جہاں کو ئی انسان نہ تھا ۔ آدھی رات کے وقت کسی منادی نے مجھے اس طر ح پکارا :'' دل ،محبوب کی یادوں سے خالی نہیں ہوتے ،بلکہ وہ تو محبوب کے گم ہوجانے کے خوف سے ہی پگھل جاتے ہیں ۔''
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میں بہت حیران ہوا اور پوچھا : یہ منادی (پکارنے والا) کوئی جن ہے یا انسان ؟ پھر یہ آواز سنائی دی '' میں ،اللہ عزوجل پر ایمان لانے والا جن ہوں ۔ میرے ساتھ میرے اور بھی دوست ہیں ۔
میں نے پوچھا: کیا ان کے پاس بھی ایسی باتیں ہیں جیسی تمہارے پاس ہیں ؟اس نے کہا :'' ہاں'' بلکہ اس سے بھی سے زیادہ اچھی باتیں ہیں۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ پھر مجھے یہ الفاظ سنائی دئیے :'' بدن کی کا ہلی اور سستی ہمیشہ سفر میں رہنے سے ہی دور ہوتی ہے ۔ ''میں نے دل میں کہا:ان کا کلام کتنا اچھاہے ۔ پھرتیسری مرتبہ یہ الفاظ سنائی دئیے :'' جو تاریکیوں سے مانوس ہوجائے تو پھر اسے کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ۔''
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میں ان کی ان باتوں کی وجہ سے بے ہوش ہوکر گر پڑا۔ (تھوڑی دیر بعد) جب ایک بہت ہی پیاری خوشبو کی وجہ سے مجھے ہوش آیا ، تو میں نے اپنے سینے پر نرگس کا ایک پھول پایا ۔ میں اس کی خوشبو سونگھتے ہی باکل ٹھیک ہوگیا ۔میں نے کہا:'' اللہ عزوجل تم پر رحم فرمائے ، مجھے کوئی نصیحت کرو۔وہ تمام جن (بیک زبان) بولے :''اللہ عزوجل کے ذکر سے متقی لوگو ں کے دل ہی جلا پاتے ہیں ،جس نے اس کی یاد کے علاوہ کسی اور کام میں طمع کی تو یقینا اس نے ایسی جگہ طمع کی جس کے وہ قابل نہ تھی اور جس نے کسی بیمار طبیب کی پیروی کی تو اس کی بیماری ہمیشہ رہے گی ۔
( اس کے بعد) وہ مجھے وہاں چھوڑ کر چل دیئے ۔ اب بھی جب کبھی میں اس واقعہ کو یاد کرتاہوں تو ان کے کلام کا اثر اپنے دل میں موجود پاتا ہوں۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علی وسلم)"
" حضرت سیدنا صالح رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے ، ایک مرتبہ امیر المؤمنین حضرت سیدنامعاویہ بن سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے حضرت سیدنا ضرار رضی اللہ تعالیٰ عنہسے فرمایاـ: '' میرے سامنے حضرت سیدنا علی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْھَہُ الْکَرِیْم کے اوصاف بیان کرو۔''
حضرت سیدنا ضرار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی :'' کیا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجھے اس سے معاف نہ رکھیں گے ؟'' ارشاد فرمایا: ''نہیں،بلکہ تم ان کے اوصاف بیان کرو۔'' حضرت سیدنا ضرار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پھر عرض کی:'' کیا مجھے اس سے عا فیت نہ دیں گے ؟'' ارشاد فرمایا:'' نہیں ،بلکہ تمہیں ان کے اوصاف ضرور بیان کرنا ہوں گے۔'' حضرت سیدناضرار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی: '' اچھا! اگر آپ ان کے اوصاف سننا ہی چاہتے ہیں تو سنئے۔
امیرالمؤمنین حضرت سیدنا علی المرتضی شیرِ خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْھَہُ الْکَرِیْم کے علم وعرفان کا اندازہ نہیں لگا یا جا سکتا ، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اللہ عزوجل کے معاملہ میں اور اس کے دین کی حمایت میں مضبوط ارادے رکھتے ، فیصلہ کن بات کرتے اور انتہائی عدل و انصاف سے کام لیتے ، ان کی ذات منبعِ علم وحکمت تھی ، جب کلام کرتے تو دہنِ مبارک سے حکمت ودانائی کے پھول جھڑتے ، دنیا اور اسی کی رنگینیوں سے وحشت کھاتے ، رات کے اندھیروں میں (عبادت الٰہی عزوجل) سے انہیں سرور حاصل ہوتا، اللہ عزوجل کی قسم ! آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت زیادہ رونے والے ، دور اندیش اور غمزدہ تھے ، اپنے نفس کا محاسبہ کرتے ، کھردرا اور موٹا لباس پسند فرماتے اور موٹی روٹی تناول فرماتے ۔
اللہ عزوجل کی قسم ! ان کا رعب ودبدبہ ایسا تھا کہ ہم میں سے ہرایک ان سے کلام کرتے ہو ئے ڈرتا تھا ،حالانکہ جب ہم ان کے پاس جاتے تو وہ خود ملنے میں پہل کرتے اور جب ہم سوال کرتے تو جواب دیتے ، اور ہماری دعوت قبول فرماتے ۔
اللہ عزوجل کی قسم ! ان کا رعب ودبدبہ ایسا تھا کہ ہم ان کے انتہائی قریب ہونے کے باوجود ان کے سامنے کلام کی جرأت نہ رکھتے ۔
جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسکراتے تو دندانِ مبارک ایسے معلوم ہوتے جیسے موتیوں کی لڑی، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دینداروں کی تعظیم کرتے ، مسکینوں سے محبت کرتے، کسی طا قتوریا صاحب ثروت کو اس کی باطل آرزو میں امید نہ دلاتے ، کو ئی بھی کمزور شخص آپ کی عدالت سے مایوس نہ ہوتابلکہ اسے امید ہوتی کہ مجھے یہا ں انصاف ضرور ملے گا ۔
اللہ عزوجل کی قسم!میں نے انہیں دیکھا کہ جب رات اپنے پر پھیلا دیتی ، تو آپ اپنی داڑھی مبارک کو پکڑ کر زارو قطا ر"
"روتے اور زخمی شخص کی طر ح تڑپتے ۔
میں نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا :'' اے دنیا ! کیا تو نے مجھ سے منہ موڑلیا ہے یا ابھی بھی تو مجھ پر مشتاق ہے ؟ اے دھوکے باز دنیا! جا، تو کسی او ر کو دھوکہ دے ،میں تجھے تین طلاقیں دے چکاہوں اب رجوع ہر گز نہیں ۔ تیری عمر بہت کم ہے اور تیری آسائشیں اور نعمتیں انتہائی حقیر ہیں، لیکن تیرے نقصانا ت بہت زیادہ ہیں ، ہائے !سفرِ (آخرت) بہت طویل ہے ،زادِ راہ بہت قلیل اور راستہ انتہائی خطرناک اورپُرپیچ ہے ۔
یہ سن کر حضرت سیدنا امیر معاویہ بن سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی آنکھوں سے سیلِ اشک رو اں ہوگئے اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ریش مبارک آنسوؤں سے تر ہوگئی اور وہاں موجود لوگ بھی زار وقطارونے لگے ۔پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:'' اللہ عزوجل ابو الحسن حضرت سیدنا علی المرتضٰے شیرِ خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْھَہُ الْکَرِیْم پررحم فرمائے ، خدا عزوجل کی قسم! وہ ایسے ہی تھے ۔
پھر حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا :'' اے ضرار رضی اللہ تعالیٰ عنہ! ان (کی جدائی کا غم) تم پر کیسا ہے؟عرض کی : '' اس عورت کے غم کی طر ح جس کی گود میں اس کے بچے کو ذبح کر دیا گیا ہو ۔'' جس طرح اس عورت کے آنسونہیں تھمتے اور نہ ہی غم کم ہوتا ہے ۔ اسی طرح میری بھی ایسی ہی حالت ہے۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علی وسلم)"
حضرت سیدنا عبد الرحمن بن عمراوزاعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:'' ایک روز میں ساحل پر تھا کہ خلیفہ ابو جعفر منصور نے مجھے بلایا ، میں اس کے پاس گیا اور سلام کیا اس نے جواب دیا، مجھے اپنے ساتھ بٹھایا پھر کہنے لگا: اے اوزاعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ! آپ نے میرے پاس آنے میں بہت دیر لگائی اس کی کیا وجہ ہے؟حالانکہ میں تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے علم وعمل کی باتیں سیکھنا چاہتاہوں۔'' میں نے کہا :اے ابو جعفر منصور! سوچ سمجھ کر بات کرو اور جو میں کہوں اس سے غفلت میں نہ رہو، ابو جعفر نے کہا: ''میں تو خود آپ سے کچھ سیکھنے کا متمنی ہوں پھر بَھلامیں کیونکر آپ کی باتوں کی طرف تو جہ نہ دوں گا؟ ''میں نے اسی لئے تو آپ کو بلوایا ہے کہ میں اپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے کچھ سیکھوں۔'' میں نے کہا:'' اے خلفیہ منصور! تم علم کی باتیں تو سنتے ہو لیکن ان پرعمل نہیں
"کرتے۔''یہ سن کر ربیع نے میری طر ف تلوار بڑھائی اورغصے کا اظہار کیا ، خلیفہ ابو جعفر منصور نے ربیع کو ڈانتے ہوئے کہا :'' اے ربیع ! یہ علم کی مجلس ہے، عقوبت (یعنی سزاوغیرہ ) کی مجلس نہیں ۔
جب میں نے خلیفہ کی یہ بات سنی تو میری ڈھارس بندھی پھر میں نے کہا :اے ابو جعفر منصور! نبی مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم، رسولِ اکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے فرمایا : '' جس کے پاس اللہ عزوجل کی طرف سے کوئی دینی نصیحت آئے تو بے شک وہ اللہ عزوجل کی جانب سے اس کے لئے نعمت ہے ، اگر وہ اس نصیحت کو قبول کرے اور شکر ادا کرے (توبہت اچھی بات ہے) ورنہ وہ نصیحت اللہ عزوجل کی جانب سے اس (بندے) کے خلاف حجت ہوگی، اور اس شخص کے گناہوں میں اضافہ ہوگا اور اللہ عزوجل کی ناراضگی اس پرزیادہ ہوگی۔''"
(شعب الایمان للبیھقی، باب فی طاعۃ أولی الأمر، فصل فی نصیحۃ الولاۃ، الحدیث:۷۴۱۰، ج۶،ص۲۹)
اے منصور! حضرت سیدنا عطیہ بن بشر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ''جو حاکم اس حال میں رات گزارے کہ اپنی رعایا سے بے خبر ہو تو اللہ عزوجل اس پر جنت حرام فرما دیتا ہے۔''
(شعب الایمان للبیھقی، باب فی طاعۃ أولی الأمر، فصل فی نصیحۃ الولاۃ، الحدیث۷۴۱۱،ج۶،ص۳۰)
" اے خلیفہ! لوگوں کے دل اس لئے تیرے بارے میں نرم ہیں کہ تواللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہ ٌعَنِ الْعُیوب عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے اقرباء میں سے ہے ،اسی قرابت داری کی وجہ سے لوگو ں نے تجھے اپنا حاکم مان لیا،ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم لوگو ں پر بہت رحم وکرم فرماتے، کسی کے لئے اپنے دروازے بند نہ فرماتے اور کسی کو ملاقات سے نہ روکتے ، سب سے مشفقانہ رویّہ رکھتے ۔ جب لوگو ں کو کوئی خوشی پہنچتی تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم بھی خوش ہوتے او راگر انہیں کوئی تکلیف پہنچی توآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پر یشان ہوجاتے ، آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّمہر معاملے میں عدل وانصاف سے کام لیتے ۔
اے خلیفہ منصور! تمہیں بہت سارے لوگوں کی ذمہ داری ملی ہے تم ان پر حاکم ہو ۔ تمہیں تو سب کی فکر ہونی چاہےئ، لیکن معاملہ اس کے بر عکس ہے تم صرف اپنی ہی بھلائی کی فکر میں ہو، تم پر تو لازم ہے کہ لوگوں میں عدل وانصاف قائم کرو، ذرا سوچو تو سہی کہ اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب لوگ تمہارے بارے میں ظلم وزیادتی کی شکایت کریں گے ؟۔
اے خلیفہ منصور ! حضرت سیدنا حبیب بن مسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ایک اعرابی کو حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے ہاتھوں چھڑی سے بلا قصد خراش آگئی تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اس اعرابی کو بلایا او رفرمایا :'' مجھ سے بدلہ لے لو ، اس نے عرض کی :''یا رسول اللہ عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! میرے ماں باپ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پر قربان ! میں نے آپ کو معاف کیا، خدا عزوجل کی قسم! اگر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم مجھے قتل بھی کر دیں تو میں آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے بدلہ نہیں لوں گا ۔"
'' یہ سن کرحُسنِ اَخلاق کے پیکر،نبیوں کے تاجور، مَحبوبِ رَبِّ اَکبر صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اس کے لئے دعائے خیر فرمائی۔
(المستدرک، کتاب الرقاق، باب دعاالنبی اعرابیا الی القصاص من نفسہ، الحدیث۸۰۱۳،ج۵،ص۴۷۱)
اے خلیفہ منصور ! نفسانی خواہشات کی پیر وی چھوڑدو، اپنے نفس کو راضی کرنے کے بجائے خدا عزوجل کی رِضا کے طلب گار بنو ، اور اس جنت کی طرف رغبت کرو جس کی چوڑائی آسمانوں و زمین سے زیادہ ہے، اور جس جنت کے بارے میں سرکارِ مدینہ ،قرارِ قلب سینہ ،با عثِ نُزولِ سکینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے فرمایا: ''( جنت میں) تم میں سے کسی کا ایک کمان پر قبضہ دنیا اور مافیہا سے بہتر ہے۔''
(صحیح البخاری، کتاب الجھاد، باب الحور العین وصفتھن، الحدیث۲۷۹۶،ص۲۲۵، لقید:بدلہ:لقاب)
" اے منصور ! بادشاہی اگر ہمیشہ رہنے والی شئے ہوتی تو تجھے ہر گز نہ ملتی، جس طر ح یہ تم سے پہلو ں کے پاس نہ رہی اسی طرح تمہارے پاس بھی نہ رہے گی ، تمہارے بعد کسی اور کو، پھر کسی او رکو، اور اسی طرح یہ سلسلہ چلتا رہے گا ۔
اے خلیفہ! کیا تجھے معلوم ہے کہ تمہارے دادا حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے اس آیت کی کیا تشریح فرمائی:"
مَالِ ہٰذَا الْکِتٰبِ لَایُغَادِرُ صَغِیۡرَۃً وَّلَاکَبِیۡرَۃً اِلَّاۤ اَحْصٰىہَا ۚ
"ترجمہ کنزالایمان:اس نوشتہ کو کیا ہوانہ اس نے کوئی چھوٹاگناہ چھوڑ ا نہ بڑاجسے گھیر نہ لیاہو۔(پ15، الکہف:49 )
سنو ! انہوں نے فرمایا:'' اس آیت میں صغیرہ خطا سے مراد تبسّم اور کبیرہ خطا سے مراد ضحک (یعنی ہنسنا ہے) ہے ، اب ذرا سوچو کہ جو اعمال ہاتھوں اور زبان سے سرزد ہوتے ہیں تو ان کا کیا حال ہوگا ۔''
امیرالمؤمنین حضرت سیدنا عمر فارو ق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کافرمان ہے:'' اگر دریائے فرات کے کنارے ایک بکری کا بچہ بھی مرجائے تو مجھے اس بات کا خوف ہے کہ کہیں مجھ سے اس کے بارے میں ( بر وزِ قیامت) سوال نہ کرلیا جائے ۔''
اے منصور! تمہارے دور ِخلافت میں توکتنے لوگ ظلم وزیادتی کے شکار ہوئے ہیں تم بروزِ قیامت کیا جواب دو گے ؟
اے خلیفہ !تم بہت بڑی آزمائش میں مبتلا کر دیئے گئے ہو ،یہ ذمہ داری جو تجھے سونپی گئی ہے اگر آسمانوں اور زمین کو سونپی جاتی تو وہ اسے لینے سے ڈرتے اور انکار کر دیتے ،مروی ہے کہ'' امیرالمؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک انصاری کو صدقہ کے مال پر عامل مقرر کیا ، کچھ دنوں بعد آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو معلوم ہو ا کہ وہ انصاری شخص عامل بننے کے لئے تیار نہیں ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے بلایا اور فرمایا :''تجھے اپنی ذمہ داری پوری کرنے سے کس بات نے روکا ؟ تمہیں معلوم نہیں کہ تمہاری اس ذمہ داری کاثواب ایسا ہے جیسا کہ اللہ عزوجل کی راہ میں جہاد کرنا ، اس کے باوجود تم یہ ذمہ داری قبول نہیں کر رہے، آخر کیا وجہ ہے ؟ اس انصاری نے عرض کی: اے امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ! مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ رسولِ اکرم ،نور مجسم، شاہ بنی"
"آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد رفرمایا:'' جو شخص لوگو ں کا حاکم بنا کل بر وزِ قیامت اسے دوزخ کے پل پر کھڑا کیاجائے گا اس کے ہاتھ اس کی گر دن سے بندھے ہونگے اور اس وقت اس جسم کے تمام اعضاء جدا جدا ہوجائیں گے ،پھر دو بارہ اسے صحیح وسالم کھڑا کیاجائے گا ،پھر اس سے حساب لیا جائے گا ، اگر وہ نیک ہو اتو اپنی نیکیوں کی بدولت نجات پائے گا ، اگر گناہ گا ر ہو ا تو اس کی وجہ سے جہنم کی آگ میں گرجائے گا ۔''
اس انصار ی سے یہ حدیث سن کر حضرت سیدنا عمر فارو ق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:''تم نے یہ حدیث کس سے سنی ؟ عرض کی: حضرت سیدنا ابو ذر اور حضرت سیدناسلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہماسے سنی ہے، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان دونوں صحابہ کرام علیہم الرضوان کے پاس ایک قاصد بھیج کر تصدیق کروائی تو ان دونوں حضرات نے فرمایا :''واقعی ہم نے یہ حدیث پاک سرکارِ مدینہ ،قرارِ قلب سینہ ،با عثِ نُزولِ سکینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے سنی ہے۔''
جب امیرالمؤمنین حضرت سیدنا عمر فارو ق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ سنا تو فرمایا :''ہائے عمر! اب کون حاکم بنے گا ، ذمہ داریاں اب کون قبول کریگا؟'' یہ سن کرحضرت سیدنا ابوذر ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا : ''وہی قبول کریگا جسکا چہرہ اللہ عزوجل زمین سے چپکا دے گا۔ ''"
(شعب الایمان للبیھقی، باب فی طاعۃ أولی الأمر، فصل فی نصیحۃ الولاۃ، الحدیث۷۴۱۵/۷۴۱۶،ج۶،ص۳۱تا۳۲)
" حضرت سیدنا امام عبدالرحمن بن عمر اوزاعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:'' میری یہ باتیں سن کر منصور نے رومال منگوایا اور اپنا چہرہ اس میں چھپا کر زارو قطار رونے لگا، اس کی حالت ایسی تھی کہ اس نے ہمیں بھی رُلادیا ۔
اے خلیفہ منصور!امیرالمؤمنین حضر ت سیدنا عمر فارو ق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا:'' حاکم وہی شخص بن سکتا ہے جو مضبوط عقل والا ، صاحب رائے ، شرم وحیا کا پیکر او راللہ عزوجل کے معاملے میں کسی ملامت گو کی ملامت سے نہ ڈرتا ہو۔
پھر فرمایا:'' حکمران چار طرح کے ہوتے ہیں:
(۱)۔۔۔۔۔۔ وہ حاکم جو خود بھی گناہوں سے بچے اور اپنے عمّال(یعنی گورنروں) کو بھی گناہوں سے بچائے ،ایسا حاکم اس مجاہد کی طر ح ہے جو راہِ خدا عزوجل میں جہاد کرے ۔
(۲) ۔۔۔۔۔۔وہ حاکم جو خود توگناہوں سے دور رہتا ہو لیکن اپنے عمّال کو برائی سے روکنے میں سُستی سے کام لے اور انہیں گناہوں سے نہ روکے، تو ایسا حاکم ہلاکت کے بالکل قریب ہے، ہاں اگر اللہ عزوجل چاہے تو وہ ہلاکت و بربادی سے بچ سکتا ہے۔
(۳) ۔۔۔۔۔۔وہ حاکم جو اپنے عمّال کو تو گناہوں سے باز رکھے لیکن خود مرتکبِ معاصی ہوتو وہ '' حطمہ'' حاکم کی طر ح ہے ، جس کے بارے میں نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر، دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَر صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :'' سب سے"
زیادہ برا حاکم'' حطمہ''ہے ۔( یعنی یہ حاکم دوسرو ں کو تو گناہوں سے بچا تا رہا لیکن خود گناہوں میں منہمک رہا اور ہلاک ہوگیا ۔)
"(شعب الایمان للبیھقی، باب فی طاعۃ أولی الأمر، فصل فی نصیحۃ الولاۃ، الحدیث۷۴۱۷/۷۴۱۸/۷۴۱۹، ج۶، ص۳۲ تا ۳۳)
(صحیح مسلم،کتاب الامارۃ، باب فضیلۃ الأمیر العادل وعقوبۃ الجائر۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث۱۸۳۰،ص۱۰۰۶)"
"(۴) ۔۔۔۔۔۔وہ حاکم جو خود بھی گناہ کرے او راس کے عمّال بھی گناہ کریں تو یہ حاکم او رعمّال سب ہلاک ہونے والے ہیں۔
اے ابو جعفر! مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ، ایک بار حضرت سیدنا جبرائیل امین علیہ السلامسیِّدُ المبلغین، رَحْمَۃُ لِّلْعٰلَمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کی: یا رسول اللہ عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! میں آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہ میں اس وقت آیا جب اللہ رب العزت نے (فرشتوں )کو حکم دیا کہ ، قیامت تک جہنم کی آگ بھڑکاتے رہو۔
سرکارِ مدینہ ،قرارِ قلب سینہ ،با عثِ نُزولِ سکینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:'' میرے سامنے دوزخ کے کچھ احوال بیان کرو، عرض کی: ''یا رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! اللہ عزوجل نے ابتدأًدوزخ کی آگ بھڑکانے کا حکم دیا چنانچہ وہ ایک ہزار سال تک جلتی رہی یہاں تک کہ سرخ ہوگئی،پھرایک ہزار سال تک دوبارہ بھڑکایاگیا تو زرد ہوگئی،پھر ایک ہزار سال تک بھڑکایا گیا تو سیاہ ہوگئی، اور اب وہ سیاہ،سخت اندھیرے والی ہے، اس کے شعلے اور انگاروں میں روشنی نہیں،اس پا ک پروردگار عزوجل کی قسم ! جس نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی نبی بر حق بنا کر بھیجا اگر جہنمیوں کے لباس کا ایک کپڑا بھی زمین والوں پر ظاہر کردیا جائے تو رو ئے زمین کے تمام لوگ ہلاک ہوجائیں، اگر جہنم کے پانی کا ایک قطرہ بھی زمین کے پانی میں ڈال دیا جائے توسارا پانی کڑوا ہوجائے اور جو بھی اسے چکھے وہ ہلاک ہوجائے ،اور جہنم کی وہ زنجیر یں جن کا تذکرہ اللہ عزوجل نے فرمایا ہے ،اگر ان میں سے ایک ذراع کے برابر بھی زمین کے تمام پہاڑوں پر ڈال دی جائے تو تمام پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں،او راگر جہنمیوں میں سے کوئی شخص جہنم سے باہر آجائے تو اس کی بد بو اور جلے ہوئے جسم کو دیکھ کر تمام لوگ ہلاک ہوجائیں۔ ''
سرکارِ مدینہ ،قرارِ قلب سینہ ،با عثِ نُزولِ سکینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم یہ سن کر رونے لگے، آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو روتا دیکھ کر حضرت سیدنا جبریل امین علیہ السلام بھی رونے لگے اور پھر عرض کی: یا رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم!اللہ عزوجل نے تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے صدقے آپ کے اگلوں، پچھلوں کے گناہ معاف فرمادیئے ہیں پھربھی آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّماس قدر رو رہے ہیں ؟ یہ سن کررسولوں کے سالار دوعالم کے مالک ومختارباذنِ پروردگار ،شہنشاہِ ابرار عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:''کیا میں اپنے رب عزوجل کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟
؎ فکرِ امت میں راتوں کو روتے رہے عاصیوں کے گناہوں کو دھوتے رہے
تم پہ قربان جاؤں مرے ماہ جبیں تم پہ ہردم کروڑوں درود وسلام"
اے جبریل امین علیہ السلام تم کیو ں رو رہے ہو؟ حالانکہ تم تو روح الامین ہو اور اللہ عزوجل کی جانب سے وحی پرامین ہو،یہ سن کر حضرت سیدناجبریل امین علیہ السلام نے عرض کی:یارسول اللہ عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم، مجھے اس خوف نے رلایا کہ کہیں میں بھی ہَارُوْتاورمَارُوْت( یہ دو فرشتوں کے نام ہیں)کی طر ح آزمائش میں مبتلا نہ ہوجاؤں بس اسی خوف نے مجھے اس مرتبے پر اعتماد کرنے سے روک دیا جو مرتبہ میرا بارگاہ خداوندی عزوجل میں ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ میں بھی قرب ِالٰہی عزوجل سے دورہوجاؤں۔''
(شعب الایمان للبیھقی، باب فی طاعۃ أولی الأمر، فصل فی نصیحۃ الولاۃ، الحدیث۷۴۲۰،ج۶،ص۳۳تا۳۴)
" اے ابو جعفر منصور !امیرالمؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں اس طرح دعا کی: ''اے میرے پاک پروردگار عزوجل! جب میرے پاس دو شخص فیصلہ کر وانے آئیں اور میرا دل ان میں سے کسی ایک کی جانب کے مائل ہوجائے تو مجھے تھوڑی سی بھی مہلت نہ دینا۔
؎ اللہ اس سے پہلے ایماں پہ موت دے دے
نقصاں میرے سبب ہو سنتِ نبی کا
اے ابو جعفر منصور ! ''اللہ عزوجل کے حضور حساب وکتا ب کے لئے کھڑا ہو نا بہت شدید ہے ، اللہ عزوجل کے نزدیک سب سے زیادہ مکرّم شے تقوی وپرہیز گاری ہے ،جو شخص اللہ عزوجل کی فرمانبرداری کے ذریعے عزت کا طلب گار ہو تو اللہ عزوجل اسے عزت و بلندی عطا فرماتا ہے ، او رجو اس کی نافرمانی کے ذریعے عزت کا طلب گار ہو تو اللہ عزوجل اسے ذلیل وخوار کردیتا ہے۔''
اے خلیفہ ابو جعفر منصور! یہ میری طر ف سے کچھ نصیحت آموز کلمات تھے انہیں قبول کرلو،اللہ عزوجل آپ پر رحم فرمائے اور سلامتی عطا فرمائے، اتنا کہنے کے بعد میں واپس جانے لگا تو خلیفہ نے کہا:'' حضور کہا ں جار ہے ہیں ؟'' میں نے کہا:''میں امیر کی اجازت سے اپنے شہر اور اہل وعیال کی طرف جارہا ہوں کیا تم مجھے جانے کی اجازت دیتے ہو ؟۔''
خلیفہ ابو جعفر منصور نے کہا:'' جایئے خوشی سے جائیے اور میں آپ کا شکر گزارہوں کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مجھے نصیحت فرمائی، میں ان باتوں پر عمل کرنے کی کوشش کرو ں گا ۔( ان شاء اللہ عزوجل) اللہ عزوجل ہی بھلائی کی تو فیق عطا فرماتا ہے اور وہی مدد گار ہے، میں اسی سے مدد طلب کرتا ہوں، اسی پر بھروسہ کرتاہوں ،وہی میرا نگہبان اور کارساز ہے ،اے عبدالرحمن بن عمر اوزاعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ! آپ مجھے نہ بھولنا اور اسی طرح کی نصیحتیں وقتاً فوقتا ًکرتے رہنا ان شاء اللہ عزوجل میں آپ کی باتوں پر ضرور عمل کروں گا۔'' میں نے کہا :''اے خلیفہ ! ان شاء اللہ عزوجل میں بھی تمہیں ایسی باتیں بتا تا رہوں گا ۔''
حضرت سیدنا محمد بن معصب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:'' جب حضرت سیدنا امام اور زاعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جانے لگے تو"
"خلیفہ منصور نے تحائف اور رقم وغیرہ بھجوائی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے تحائف وہدایا لینے سے انکار کر دیااور فرمایا:'' مجھے ان چیزوں کی ضرورت نہیں کیونکہ میں اپنی دینی نصیحتو ں کو دنیوی حقیرمال کے بدلے فروخت نہیں کرنا چاہتا ، مجھے میرے رب عزوجل کی طرف سے ملنے والا اجر ہی کافی ہے۔
؎ میرا ہر عمل بس ترے واسطے ہو
کر اخلاص ایسا عطا یا الٰہی
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علی وسلم)"
" حضرت سیدنا ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ'' یزید بن معاویہ نے حضرت سیدنا ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوپیغام بھیجا''کہ وہ اپنی صاحبزادی کا نکاح مجھ سے کردیں'' حضرت سیدنا ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انکار فرمادیا۔ پھر ایک غریب شخص نے نکاح کا پیغام بھجوایا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قبول فرمالیا اور اپنی صاحبزادی کا نکاح اس غریب شخص سے کردیا ۔
لوگوں میں یہ بات مشہور ہوگئی کہ حضرت سیدنا ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی صاحبزادی کے لئے حاکمِ وقت کارشتہ ٹھکرا دیا اور ایک غریب شخص سے اپنی صاحبزادی کا نکاح کردیا ۔ جب لوگو ں نے اس کی وجہ پوچھی ،تو حضرت سیدنا ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:''میں نے اپنی بیٹی کی بھلائی چاہتے ہوئے یہ فیصلہ کیا ہے (یعنی میرے اس عمل میں اسی کا فائدہ ہے )تمہارا کیا خیال ہے کہ جب ہر وقت میری بیٹی کے سر پر ایک بے حیاء ظالم شخص کھڑا رہتا ، او روہ ایسے محلات میں ہوتی جن کی چکا چوند روشنی آنکھوں کو خیرہ کردے تو بتاؤ کیا اس وقت میری بیٹی کا دِین سلامت رہتا۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علی وسلم)"
" حضرت سیدنا وہب بن منبہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں :''اللہ عزوجل کے ایک ولی نے گو شہ نشینی اختیار کر رکھی تھی ، لوگ اس کی زیارت وملاقات کے لئے جاتے تو وہ انہیں وعظ و نصیحت کرتا ، جب اس محفل سے لوگ واپس آتے تو علم و عمل کا خزانہ لے کر آتے ،ایک دفعہ لوگ اس کی محفل میں جمع تھے اس نے فرمایا :'' اے لوگو ! ہم نے اپنے گھروں اور اہل وعیال کو اس لئے چھوڑ دیا کہ ان میں رہ کر کہیں ہم معصیت میں مبتلا نہ ہوجائیں ، لیکن مجھے خوف ہے کہ کہیں ہمیں ایسی مصیبت لاحق نہ ہوجائے جو اس مصیبت سے بڑی ہو جو اہل ثروت اور مالداروں کو لاحق ہوتی ہے ،کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے کہ میری دینداری کی وجہ سے لوگ میری حاجات کو پورا کریں اور جب میں کوئی چیز خریدوں تو بھی لوگ میری دینداری کی وجہ سے رعایت سے کام لیں،جب میں لوگوں سے ملوں تو میری تعظیم کی جائے لوگ میرا ادب بجالائیں۔
اے لوگو! یہ تمام امور بہت تباہ کُن ہیں لہٰذا ان سے ہمیشہ بچنا،اللہ عزوجل کے اس ولی کا یہ نصیحت آموز کلام لوگوں میں پھیل گیا حتی کہ بادشاہ ِوقت کو بھی اس کی نصیحت آموز باتیں پہنچ گئیں،بادشا ہ اس ولی اللہ کی بارگاہ میں سلام عرض کرنے کے لئے حاضر ہوا ،جب وہاں پہنچا تو لوگوں نے کہا:'' اے مرد صالح! دیکھو بادشاہ تم سے ملاقات کرنے آیا ہے اس نے کہا :''باشادہ مجھ سے کیوں ملنا چاہتا ہے ؟ لوگوں نے کہا: یہ آپ کی نصیحت آموز باتیں سننے آیا ہے ، اس نیک شخص نے یہ سناتوکہا:'' کیاکھانے کی کوئی شئے ہے ؟ ایک شخص نے کہا: جی ہاں! میرے پاس کچھ کھجوریں ہیں آپ ان سے روزہ افطار کر لینا ، یہ کہہ کر اس نے کھجوریں اس مرد صالح کے حوالے کردیں اس نے فوراً کھجوریں کھانا شرو ع کردیں حالانکہ وہ سارا سال روزے رکھتا تھا ،جب با دشاہ نے یہ حالت دیکھی تو متعجب ہو کر لوگو ں سے پوچھا :'' وہ نیک مرد کہاں ہے جس کی خاطر میں یہاں آیا ہوں ، کیا یہ وہی شخص ہے؟ لوگوں نے کہا :''جی ہاں ! یہی وہ مرد صالح ہے جس کی نصیحت آموز باتیں مشہور ہیں،یہ سن کر بادشاہ نے کہا :'' مجھے تو اس میں کوئی بھلائی نظر نہیںآتی یہ کہہ کر بادشاہ وہاں سے چلا گیا۔''
جب بادشاہ چلا گیا تو نیک شخص نے کہا :شکر ہے اس پاک پر وردگار عزوجل کا جس نے مجھ سے بادشاہ کو دور کر دیا یہ بہت اچھا ہو اکہ بادشاہ مجھ سے متا ثر نہ ہوا بلکہ اس نے مجھے برا بھلاکہا (یعنی اس طرح میں حُبِّ جاہ اور ریا کاری سے بچ گیا)
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علی وسلم)"
" حضرت سیدنا ابراہیم حربی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں :''جمعہ کے دن میں نے حضرت سیدنا بشر حافی علیہ رحمۃ اللہ الکافی کے پیچھے نماز ادا کی اتنے میں ایک پر اگندہ حال شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا :''اے لوگو! ڈرو کہیں میں اپنی بات میں سچا نہ ہوجاؤ ں، مجبوری کے وقت اختیار نہیں، جب کوئی چیز موجود نہ ہو تو سکون نہیں ، جب کچھ موجودہو توسوال کرنا جائز نہیں، اے لوگو! اللہ عزوجل تم پر رحم کرے میری مدد کرو۔''
یہ سن کر حضرت سیدنا بشر حافی علیہ رحمۃ اللہ تعالی الکافی نے اس فقیر کو ایک سکّہ دیا جب سکہ لے کر وہ جانے لگا تو میں اس کے پاس گیا اور کہا :'' تم یہ سکّہ مجھے دے دو اور ایک درہم مجھ سے لے لو ، اس نے انکار کردیا، میں نے کہا:'' دو درہم لے لو، اس نے پھر انکار کیا،میں نے کہا :'' دس درہم لے لو او ریہ ایک سکہ مجھے دے دو،یہ سن کر اس قفیر نے کہا :'' اے نوجوان! آخر اس سکّے میں ایسی کیا بات ہے کہ تم اس کے بدلے دس درہم دینے کو تیار ہو؟ میں نے کہا:'' جس کے ہاتھوں تمہیں یہ سکہ ملا ہے وہ اللہ عزوجل کا نیک بندہ ہے۔ (یقینا اس کی دی ہوئی چیز بھی برکت والی ہوگی )
فقیر نے کہا:'' تب تو مجھے اس میں زیادہ رغبت ہونی چاہے ایک ولی اللہ کے ہاتھ سے دی ہوئی چیز میں کسی قیمت پر تمہیں نہیں دو ں گا ، میں اسے اپنی جان پر خرچ کرو ں گا تا کہ میری تنگدستی دور ہو اور میری حاجات پوری ہوجائیں ،میں نے کہا: ''دیکھو یہ سعادت کسی کسی کو ملتی ہے ؟ اچھا تم میرے لئے دعا کرو۔''فقیر نے دعا دیتے ہوئے کہا : ''اللہ عزوجل تمہارے دل کو زندہ رکھے ، اور تجھے ان لوگوں میں سے بنائے جنہوں نے سب کچھ دے کر(ابدی) زندگی (کی نعمتوں) کو خریدلیا اور کسی بھی قیمت پر اخروی نعمتوں کا سودا نہ کیا ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علی وسلم)"
حضرت سیدنا محمد بن کعب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں :''ایک مرتبہ حضرت سیدنا ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں چند مہمان آئے ، سخت سردی کا موسم تھا ،جب رات ہوئی تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مہمانوں کے لئے سادہ سا کھانا بھجوایا او رسردی سے بچاؤ
"کے لئے بستر وغیرہ نہ بھجوائے ،مہمانوں میں سے کسی نے کہا : ''ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اتنی سخت سرد رات میں صرف سادہ سا کھانا بھجوایا ا ور بستر وغیرہ نہیں بھجوائے ، میں اس کی وجہ ضرور معلوم کروں گا۔ ''دوسرے نے کہا : ''اس معاملے کو چھوڑ، لیکن وہ شخص نہ مانا اور حضرت سیدنا ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر کی جانب چل دیا، وہاں جاکر اسے معلوم ہواکہ حضرت سیدنا ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کی زوجہ محترمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس اتنی سرد رات میں بھی صرف اتنا لباس تھا جس سے ستر پوشی ہوسکے اس کے علاوہ کوئی لحاف وغیرہ نہ تھا ۔
اس مہمان نے کہا :'' اے ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ !کیا بات ہے کہ تم نے بھی اس طر ح بغیر لحاف کے رات گزاری ہے جس طر ح ہم نے،آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواباً ارشاد فرمایا:''بے شک ہمارے لیے آخرت میں ایک گھر ہے جس کی طر ف ہمیں منتقل ہوجانا ہے ، ہم نے تمام لحاف اور بستر وغیرہ اس گھر کی طرف بھیج دیئے ہیں (یعنی تمام مال واسباب راہ ِخدا عزوجل میں خرچ کر کے آخر ت کے لئے ذخیرہ کرلیا ہے)اگر میرے پاس کوئی بستر وغیرہ ہوتا تو میں ضرور اپنے مہمانوں کی طرف بھیجتا اور سنو! ہمارے سامنے ایک دشوار گزار گھاٹی ہے جسے کمزور شخص ، زیادہ وزن والے کی نسبت جلدی پار کرلے گا ، اے شخص !جو باتیں میں نے کیں کیا تجھے وہ سجھ آگئیں ہیں؟'' اس نے کہا:'' جی ہاں۔'' (یعنی میں خوب سمجھ چکا ہوں ۔)
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علی وسلم)"
حضرت سیدناابن مسروق رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں،میں نے حضرت سیدنا سری سقطی علیہ رحمۃ اللہ القوی کو یہ فرماتے ہوئے سنا:'' ایک مرتبہ ہمارا قافلہ ملک شام کے شہروں میں سفر پر تھا، ہم راستہ سے ہٹ کر ایک پہاڑی علاقے کی طرف جانکلے ، ہمارے رفقاء میں سے ایک شخص نے کہا:'' ہم راستے سے بھٹک چکے ہیں اور پہاڑی علاقے میں آگئے ہیں۔پہاڑی علاقوں، صحراؤں اورجنگلوں وغیرہ میں بعض نیک لوگ دنیا سے الگ تھلگ رہ کر اپنے پاک پروردگار عزوجل کی عبادت کرتے ہیں، آؤ! ہم بھی ان پہاڑوں میں کسی اللہ عزوجل کے برگزیدہ بندے کو تلاش کریں اوراس سے اکتساب فیض کریں ۔ اگر یہاں کسی وادی میں کسی عبادت گزار شخص سے ہماری ملاقات ہوگئی تو ان شاء اللہ عزوجل ہمیں ان کی صحبت سے بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔ اگر انہوں نے ہم سے گفتگو کی تو ان کی حکمت آمیزباتوں سے ہمیں بہت فائدہ ہوگا۔''
"چنانچہ ہم سب قافلے والے کسی عابد کی تلاش میں اس وادی میں گھومنے لگے،ایک جگہ انتہائی نورانی چہرے والا ایک شخص نظرآیا،جب ہم اس کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ وہ زارو قطار رو رہا ہے ۔
حضرت سیدنا سری سقطی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے اس بزرگ سے پوچھا : ''اے نیک انسان !تم کیوں رو رہے ہو، تمہیں کس چیز کے غم نے رُلایا ہے ؟''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی یہ بات سن کر اس عابد نے جو اب دیا:'' میں کیو ں نہ روؤں،ہماری اُخروی منزل کے راستے بہت دشوار گزار ہیں اوران راستوں پر چلنے والوں کی تعداد بہت کم رہ گئی ہے، نیک اعمال چھوڑدیئے گئے ہیں ، نیکیوں کی طرف رغبت کرنے والے لوگ بہت کم ہیں۔ لو گ خود حق بات نہیں کرتے لیکن دوسروں کو حق گوئی کی تلقین کرتے ہیں۔ قول وفعل میں تضاد کا یہ عالم ہے کہ ہر شخص ایک دوسرے کو نیک اعمال کی ترغیب دلاتاہوا نظر آتاہے لیکن خود عمل سے دور رہتا ہے۔ لوگوں نے نرمی اوررخصت والا راستہ اختیار کیا ہوا ہے اوراکثرباتوں میں کسی نہ کسی طرح کی تاویل نکال کر نیک اعمال میں سستی کرتے ہیں۔ آج کل لوگوں نے نیک لوگوں کی پیروی چھوڑکر نافرمانوں اوردنیا داروں کے مذموم افعال کی اتباع شروع کر دی ہے۔ ''
پھر اس عابد نے ایک زور دار چیخ ماری اورکہنے لگا:'' نجانے کیوں؟لوگوں کے دل اس فانی دنیاکی خوشیوں سے تو مسرور وشاداں ہوتے ہیں لیکن اللہ عزوجل کی محبت سے دورہیں۔اس کی سچی محبت اِن کے دلوں میں گھر کیوں نہیں کرتی، زمین وآسمان کے مالک عزوجل کی محبت سے انہیں آشنائی کیوں نہیں ہوتی ، یہ اس کی محبت میں کامل کیوں نہیں ؟''
پھر وہ عابد چیخنے لگا اوریہ کہتا ہوا وہاں سے چل پڑا:'' ہائے حسرت وافسوس! علماء سوء کی فتنہ انگیزیوں پر! ہائے شدتِ غم ! ان لوگوں پر جو(گناہوں کے باوجود) نازو نخرے کرتے ہیں اوربڑی جرأ ت مندی سے دندناتے پھرتے ہیں۔''وہ عابد کچھ سوچ کر دوبارہ ہمارے پاس آیا اورکہنے لگا :''علماء میں سے وہ علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کہاں ہیں جنہیں یہ توفیق ہوکہ وہ اپنے علم پر عمل کرتے ہوں پھر بھی ان کا شمار نیک لوگوں میں ہوتاہے ،اپنے آپ کو زاہد کہنے والوں میں حقیقی زاہد کون ہیں؟ آج کل ایسے عظیم لوگ کہاں ملتے ہیں؟'' اتنا کہنے کے بعد اس عابد نے رونا شروع کردیا۔اورکہا:
جو حقیقی عالم اورحقیقی زاہد ومتقی ہوگا اسے ہر وقت حشر کے میدان میں طویل قیام ،اس کی ہولناکیوں اوروہاں کی سختیوں کی فکر دامن گیر ہوگی اوراسے تو ہروقت یہی فکر وغم ہوگا کہ میں اللہ عزوجل کی بارگاہ میں کس طرح اس کے سوالوں کا جواب دوں گا، نجانے میرا ٹھکانہ جنت میں ہوگا یا جہنم کی آگ میرا مقدر ہوگی؟ایسی ہی باتوں میں غورو فکر کرنا علماء ربانیین کا محبوب مشغلہ ہے ۔ تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعدپھر وہ بولا: ''میں کثرت کلام سے اپنے پاک پروردگار عزوجل کی پناہ چاہتاہوں، اللہ عزوجل ہمیں فضول گوئی سے بچائے اورایسی باتیں کرنے کی توفیق عطافرمائے جو نیکی کی دعوت پر مبنی ہوں ۔''اتنا کہنے کے بعد وہ"
" شخص ہمیں چھوڑکر وہاں سے چلا گیا لیکن جاتے جاتے ہمارے دِلوں کو غم وملال اورفکر ِآخرت سے بھرگیا ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي الله تعالي عليه وسلم)
ذکرو درود ہر گھڑی وردِزباں رہے میری فضول گوئی کی عادت نکال دو"
" حضرت سیدنا علی بن احمد بغدادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی فرماتے ہیں، میں نے حضرت سیدنا ابو بکر شبلی علیہ رحمۃ اللہ الولی کو یہ فرماتے سنا:'' میں ایک مرتبہ مکہ مکرمہ سے ملک شام جارہا تھا، راستے میں میری ملاقات ایک راہب (یعنی عیسائیوں کے عالم ) سے ہوئی ۔ وہ ایک گرجا (عبادت خانہ) میں تھا۔میں نے اس سے پوچھا :'' تُو نے اپنے آپ کو لوگوں سے الگ تھلگ اس گرجا میں کیو ں قید کررکھا ہے ؟'' اس راہب نے جواب دیا :'' میں یہاں اکیلا اس لئے رہتاہوں تاکہ زیادہ سے زیادہ عبادت کر سکوں اوردُنیوی مشاغل میری عبادت میں رکاوٹ نہ بنیں۔''میں نے پوچھا :'' تُو کس کی عبادت کرتا ہے؟''اس نے جواب دیا : '' میں حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی عبادت کرتاہوں اورانہیں کے لئے اعمال صالحہ کرتاہوں ۔''
میں نے کہا :''کیا وجہ ہے کہ تُو معبودِ حقیقی اللہ عزوجل کی عبادت چھوڑ کر اس کے نبی علیہ السلام کی عبادت کرتا ہے حالانکہ عبادت کے لائق تو صرف اللہ عزوجل ہی کی ذات ہے ، معبودِ برحق تو صرف اللہ عزوجل ہی ہے پھر تُو حضرت سیدنا عیسیٰ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی عبادت کیوں کرتا ہے ؟''میری یہ بات سن کر اس راہب نے کہا: ''حضرت سیدنا عیسیٰ (علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام) نے چالیس دن اور چالیس راتیں بغیر کھائے پئے گزار دیں ۔''
میں نے اس سے پوچھا :''اے راہب !جو شخص چالیس دن اورراتیں بغیر کھائے پئے بھوکا پیاسا گزاردے توکیا وہ معبود بن جاتاہے؟ ''راہب نے کہا :''ہاں !ایسا شخص واقعی عبادت کے لائق ہے ۔ ''
حضرت سیدنا ابوبکر شبلی علیہ رحمۃ اللہ الولی فرماتے ہیں،میں نے اس سے کہا: ''اے راہب !میں یہاں تیرے ساتھ رہتا ہوں تو شمار کرنا کہ میں کتنے دن تک بغیر کھائے پئے رہ سکتاہوں ۔'' چنانچہ میں اس راہب کے ساتھ اس کے گرجا میں رہنے لگا۔ مَیں دن رات عبادتِ الٰہی عزوجل میں مشغول رہتا، نہ کچھ کھاتا نہ پیتا۔اس طرح جب چالیس دن اور چالیس راتیں گزر گئیں تو میں نے اس راہب سے کہا'' اگر تُو چاہے تومیں مزیدکچھ د ن بغیر کھائے پئے گزار سکتا ہوں۔''راہب نے جب میری یہ حالت"
"دیکھی تو پوچھا:'' تمہارا دین کون سا ہے ؟ ''میں نے کہا:'' میں نبی آخر الزماں ، شہنشاہِ کون و مکاں ، والی ئدوجہاں ،رحمت عالمیاں حضرت محمد مصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا اُمتی ہوں، مَیں ان کا ادنیٰ سا غلام ہوں اورہمارا دین ''اِسلام ''ہے ۔ ''
وہ راہب میرے پاس آیا اس نے عیسائیت سے توبہ کی اورکلمہ پڑھ کر دامنِ مصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے وابستہ ہوگیا ۔پھر میں اسے اپنے ساتھ دمشق لے آیا اوروہاں کے لوگوں سے کہا: ''اے لوگو!اپنے اس نو مسلم بھائی کی خوب خیر خواہی کرنا اور اسے کسی قسم کی پریشانی نہ ہونے دینا۔ ''
میں چند دن دمشق رہا۔وہ شخص اب ہر وقت اللہ عزوجل کی عبادت میں مشغول رہتا،خوب مجاہدات کرتا۔پھرجب میں دمشق سے واپس آیا تو اسے اس حال میں چھوڑ کرآیاکہ اس کا شمار اولیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ میں ہونے لگا ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي الله تعالي عليه وسلم)"
" حضرت سیدنا حاتمِ اَصم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم فرماتے ہیں، ایک مرتبہ میری ایک راہب سے ملاقات ہوئی ۔میں نے اس سے کہا :''تجھے اس ذات کی قسم جس کی تُو عبادت کرتاہے! اپنے معبود سے سوال کر کہ وہ ہمیں کوئی عجیب وغریب نشانی دکھائے۔ '' میری یہ بات سن کرراہب نے کہا : ''تم کیا نشانی دیکھنا چاہتے ہو؟''میں نے کہا:'' تم جس کی عبادت کرتے ہو اس سے دعا کرو کہ وہ سامنے خالی زمین میں تازہ کھجوروں سے لدا ہواایک درخت اُگادے۔''
وہ راہب اپنے گرجا میں داخل ہوا اورکچھ دیر بعد باہر آکر کہنے لگا :''وہ دیکھو! تمہارے سامنے کیا ہے ؟'' جب میں نے سامنے کی طرف دیکھا تو وہاں ایک کھجور کا درخت نظر آیا جس میں تازہ کھجوریں لگی ہوئی تھیں۔'' پھر اس راہب نے مجھ سے کہا: ''اے دینِ محمدی کو ماننے والے! اب تُواپنے معبود سے دعا کر کہ وہ ہمارے لئے کوئی عجیب وغریب نشانی ظاہر کرے ۔'' میں نے کہا : ''اے راہب! بتا تُو کس طرح کی نشانی دیکھنا چاہتاہے؟ ''اس نے کہا: ''تم اپنے معبود سے دعا کرو کہ وہ اس کھجور کے گرد سبزہ اُگادے اورہر طرف ہریالی ہی ہریالی کر دے ۔ ''راہب کی یہ بات سن کر میں ایک طرف گیااوراپنے مالک حقیقی عزوجل کی بارگاہ میں سربسجود ہو کراس طرح دعا کی :''اے میرے رحیم وکریم پروردگارعزوجل !تُو خوب جانتاہے کہ میں تجھ سے جو دعا مانگ رہا ہوں"
"تیرے دین کی سربلندی کے لئے مانگ رہا ہوں۔ اے میرے مولیٰ عزوجل!میری دعا قبول فرما۔''
جب میں نے سجدے سے سر اُٹھا یاتودیکھاکہ وہ زمین جو ابھی کچھ دیرپہلے ویران تھی اوراس پر سبزہ نام کو نہ تھا،اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ !اب وہ سرسبز وشاداب ہوچکی تھی ،ہر طرف ہریالی ہی ہریالی تھی اور کھجور کے چاروں طرف بہترین قسم کے پودے اُگے ہوئے تھے ۔
پھرمیں نے اس راہب سے پوچھا :''اے راہب! تجھے تیرے معبود کی قسم! سچ سچ بتا کہ تُو نے کن الفاظ کے ذریعے دعا کی اور کس سے دعا کی ؟''اس راہب نے جواب دیا: ''تمہارے یہاں آنے سے پہلے ہی اسلام کی محبت میرے دل میں پیدا ہو گئی تھی ۔ پھر جب تم نے نشانی دکھانے کے لئے کہا تو میں گرجا میں گیا اور تمہارے قبلہ (یعنی خانہ کعبہ)کی طرف سجدہ کیا پھر اس طرح دعا کی: ''اے میرے پروردگارعزوجل !جس دین محمدی کی محبت تُو نے میرے دل میں ڈالی ہے اگر وہ تیرے نزدیک حق وسچ اور مقبول ہے تو مجھے یہ نشانی دکھادے کہ تازہ پھلوں سے لدا ہواکھجور کا درخت اُگ آئے ۔'' میں نے ان ہی الفاظ کے ساتھ دعا مانگی تھی ۔
حضرت سیدنا حاتمِ اَصم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم نے اس راہب سے کہا :''ہمیں یہ دونوں نشانیاں ایک ہی ذات نے دکھائیں ہیں جو واقعی معبود حقیقی ہے ۔''
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی یہ باتیں سن کر اس راہب نے کہا:''حضور ! میں نصرانیت سے توبہ کرتاہوں اورسچے دل سے مسلمان ہوتا ہوں،پھر اس نے کلمہ شہادت پڑھا:"
''اَشْھَدُاَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔''
"؎ بجھ گئیں جس کے آگے سبھی مشعلیں شمع وہ لے کر آیا ہمارا نبی ا
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علی وسلم"
حضرت سیدنا حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:'' میں ایک متقی وپرہیزگار شخص کے جنازہ میں شریک ہوا۔ اسے بصرہ کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔ تدفین کے بعد لوگ اپنے اپنے گھروں کی طرف چلے گئے اور میں قریبی جنگل کی طرف چلا گیا۔ وہاں اللہ عزوجل کی قدرت میں غوروفکر کرتارہا ۔ ایک جگہ بہت گھنے درخت تھے۔ میں نے جب بغور دیکھا تو ان درختوں کے پیچھے ایک غار نظر آیا۔ میں نے اپنے دل میں کہا: ''شاید! یہ غار ڈاکوؤں اورلٹیروں کی آماجگاہ ہے۔ جب میں اس غار کے قریب گیا تو
"دیکھا کہ وہاں نورانی چہرے والا ایک حسین وجمیل نوجوان اُون کا جبّہ پہنے بڑے خشوع وخضوع سے نماز پڑھ رہا تھا۔ میں اس کے قریب جا کر بیٹھ گیا۔ اس نوجوان نے رکوع وسجود کے بعد سلام پھیرا اور میری جانب متوجہ ہوا ۔ میں نے سلام کیا اس نے جواب دیا۔ میں نے اس سے پوچھا :''اے میرے بھائی ! آپ کہاں کے رہنے والے ہیں ؟ ''اس نے کہا :''میں ملکِ ''شام ''کا رہائشی ہوں ۔ '' میں نے پوچھا :'' آپ شام سے بصرہ کس مقصد کے لئے آئے ہیں؟'' اس نے جواب دیا:'' میں نے سنا تھا کہ بصرہ اوراس کے قریبی علاقوں میں عابدین وزاہدین اور باعمل علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ بہت زیادہ ہیں۔ چنانچہ میں شام سے بصرہ چلا آیا تاکہ ان اولیاء کرام رحہم اللہ تعالیٰ سے اکتسابِ فیض کرسکوں اوران سے علم وعمل سیکھوں ۔ ''
میں نے اس سے پوچھا: ''اے بندئہ خدا عزوجل !تمہارے کھانے پینے کا اِنتظام کس طرح ہوتاہے؟ یہاں جنگل میں تمہیں کھاناکیسے میسر آتاہوگا؟''اس نے جواب دیا:'' جب بھوک لگتی ہے تو درختوں کے پتے کھالیتاہوں اورجب پیاس محسوس ہوتی ہے توجنگل میں موجودتالابوں سے پانی پی لیتاہوں۔''میں نے کہا:'' اے نوجوان ! میری خواہش ہے کہ میں تمہیں عمدہ آٹے کی دو روٹیاں پیش کردیا کروں تاکہ تم انہیں کھا کر عبادت پر قوت حاصل کرسکو ۔''تو وہ نوجوان کہنے لگا:'' ایسی باتیں چھوڑو ، میں نے کئی سالوں سے کھانا نہیں کھایا، پتے کھاکر ہی گزارہ کررہا ہوں۔'' میں نے کہا :''اے میرے بھائی! ''اگر تم ہمارے کھانے کو قبول کرلو گے تو ہماری خوش قسمتی ہوگی ۔ تم ہماری طرف سے کچھ نہ کچھ قبول کرلو تاکہ ہمیں برکتیں حاصل ہوں ۔ '' وہ نوجوان بولا: ''اچھا اگر تم بضد ہوتو جَو کے بغیر چھنے آٹے کی دو روٹیاں لے آؤ اور سالن کی جگہ نمک لانا۔ ''
حضرت سیدنا حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:پھر میں اس نوجوا ن کے پاس سے چلا آیا اور ''جَو ''کے بغیر چھنے آٹے کی دو روٹیاں پکوائیں، ان پرنمک رکھا اورواپس اسی جنگل کی طرف چل دیا۔ جب میں غار کے قریب پہنچا تو وہاں کا منظردیکھ کر میں بہت حیران ہوا۔ میں نے دیکھا کہ ایک خونخوار شیر غار کے دہانے پر بیٹھا ہوا ہے ۔ میں نے دل میں کہا:ـ'' ایسا نہ ہو کہ اس خوانخوار درندے نے اس نوجوان کو مارڈالا ہو۔'' میں بہت پریشان ہوگیا تھا۔پھر میں ایک اونچی جگہ پر چڑھا جہاں سے غار کا اندرونی حصہ نظر آرہا تھا۔ مجھے یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ !وہ نوجوان صحیح وسالم ہے اوراپنے رب عزوجل کی بارگاہ میں سربسجود ہے ۔ میں نے بلند آواز سے اسے پکارا:'' اے میرے بھائی ! تجھے کیا ہوگیا ہے کہ تُو اپنے آس پاس کے حالات سے بے خبر ہے؟ شاید عبادتِ الٰہی عزوجل میں مشغولیت کی وجہ سے تجھے باہر کے حالات کی خبر نہیں ۔'' میری یہ آواز سن کر اس نوجوان نے نماز میں تخفیف کی اور سلام پھیرنے کے بعد کہنے لگا:'' اے اللہ عزوجل کے بندے! تم نے ایسی کیا چیز دیکھ لی ہے جس کی وجہ سے تم اتنے پریشان ہو رہے ہو ؟''تو میں نے کہا:'' وہ دیکھو غار کے دہانے پر ایک خونخوار شیر گھات لگائے بیٹھا ہے"
"اورایسا لگتا ہے کہ وہ ابھی حملہ کردے گا ۔''
اس نے مجھے مخاطب کر تے ہوئے کہا :''اے خدا عزوجل کے بندے! اگر تُواس ذات سے ڈرتا جس نے اس شیر کو پیداکیا ہے تو یہ تیرے لئے بہت بہتر تھا۔ '' پھر اس نوجوان نے شیر کی طرف توجہ کی اورکہا:''اے درندے ! بے شک تُو اللہ عزوجل کے کتوں میں سے ایک کتاہے ۔ اگر تجھے بارگاہِ خداوندی عزوجل سے حکم ملا ہے کہ تُو مجھے کوئی نقصان پہنچائے تو پھرمیں تجھے روکنے کی قدرت نہیں رکھتا اور اگر تجھے اللہ ربُّ العزَّت کی طرف سے حکم نہیں ملاتو پھر مجھے تیرا کوئی خوف نہیں۔ پھر تیری بہتری اسی میں ہے کہ تُو یہاں سے چلا جا، تُو خواہ مخواہ میری اورمیرے بھائی کی ملاقات میں حائل ہورہا ہے ۔''
ابھی اس نیک خصلت نوجوان نے اپنی بات مکمل بھی نہ کی تھی کہ وہ شیر دہاڑنے لگا اوردم ہلاتا ہواوہاں سے اس طرح بھاگا جیسے اسے اپنا کوئی شکار نظر آگیا ہو۔جب شیر وہاں سے چلا گیا تو میں اس نوجوان کے پاس آیااوریہ کہتے ہوئے دونوں روٹیاں اس کے سامنے رکھ دیں کہ''اے میرے دوست ! جو چیز تُونے طلب کی تھی وہ حاضر ہے۔'' اس نے روٹیاں لیں اورانہیں حسرت بھری نگاہوں سے دیکھنے لگا پھر وہ رونے لگا،روتے روتے اس کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ پھر اس نے روٹیاں نیچے رکھ دیں اورآسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا :'' اے میرے پاک پروردگار عزوجل! میں تجھے تیرے عرشِ عظیم کا واسطہ دے کر التجاء کرتاہوں کہ اگر تیری بارگاہ میں میرا کچھ مرتبہ ومقام ہے اور میں تیری بارگاہ میں مردو دنہیں بلکہ مقبول ہوں تو اے میرے اللہ عزوجل ! مجھے اپنے قُربِ خاص میں بُلا لے اور میری ر وح قبض فرمالے ۔''
حضرت سیدنا حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں :'' ابھی اس نوجوان نے یہ دعا مکمل ہی کی تھی کہ فوراًاس کی بے قرار روح اس دُنیوی زندگی کی قید سے آزاد ہوکر عالَمِ بالا کی طرف پرواز کر گئی ۔'' میں واپس اپنے علاقے میں آیا اور چند متقی وپرہیزگار لوگوں کو جمع کیا تاکہ ہم اس نوجوان کی تجہیز وتکفین کرسکیں۔ میں اپنے ان ساتھیوں کو لے کر غار کی طرف چل دیا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو دیکھا کہ غار میں تو کوئی بھی موجود نہیں جس خوش نصیب نوجوان کی لاش کو میں ابھی ابھی یہاں چھوڑ کر گیا تھا اب وہاں اس کا نام ونشان بھی نہ تھا۔ میں بہت حیران وپریشان تھا کہ آخر اس کی لاش کہاں غائب ہو گئی۔ اچانک مجھے ایک غیبی آواز سنائی دی، کوئی کہنے والا کہہ رہا تھا:'' اے ابوسعید (یہ حضرت سیدناحسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی کی کنیت تھی )!اپنے رفقاء سے کہو کہ وہ واپس چلے جائیں اب اس نوجوان کی لاش کبھی نہیں ملے گی کیونکہ اس کی لاش کو یہاں سے اٹھا لیا گیا ہے۔''
؎ جب تری یاد میں دنیا سے گیا ہے کوئی جان لینے کو دلہن بن کے قضا آئی ہے
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علی وسلم"
" حضرت عبداللہ بن ابو ملیکہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ اُم المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے دربان حضرت سید نا ذکوان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان فرمایا:''جب اُم المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ طیِّبہ طاہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا وقتِ وصال قریب آیا تو حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہماکاشانہ اقدس پر آئے اوراندر آنے کی اجازت طلب کی ۔ میں اُم المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی بارگاہ میں حاضر ہوا ،اس وقت آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے بھتیجے حضرت سیدنا عبداللہ بن عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہماآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے سرہانے کھڑے تھے۔ میں نے عرض کی:'' باہر حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کھڑے ہیں اور اندر آنے کی اجازت طلب کر رہے ہیں ۔'' آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا : ''ابھی میرا جی نہیں چاہ رہا کہ میں( کسی سے) ملاقات کروں ۔'' حضرت سیدنا عبداللہ بن عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہمانے عرض کی:'' اے پھوپھی جان ! حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہمارے پیارے نبی کریم ،رء ُوف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان میں سے ہیں اوربڑی عظمت والے ہیں، وہ آپ کے پاس آکر آپ کے لئے سلامتی کی دعاکریں گے ۔ ''آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: ''اچھا اگر تمہاری یہی مرضی ہے تو اجازت دے دو۔ ''
چنانچہ اجازت ملتے ہی حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما حاضرِخدمت ہوئے اور عرض کی :' 'آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو خوش خبری ہو ۔'' اُم المؤمنین حضرت سیدتناعائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا :''کس بات پر خوش خبری۔''عرض کی: ''جیسے ہی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس دنیا سے رخصت ہو ں گی تو فوراً آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ملاقات آقائے دو جہاں، مالک کون ومکاں، رحمتِ عالمیاں صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّماورآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ان صحابہ کرام علیہم الرضوان سے ہو گی جو دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں اورآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تو حضورنبی ئکریم ،رء ُوف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو اپنی ازواج مطہّرات رضوان اللہ تعالیٰ علیہن اجمعین میں سب سے زیادہ محبوب تھیں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تو طیّبہ وطاہرہ ہیں کیونکہ حضورصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم خود طیب وطاہرہیں تو طیبین کے لئے طیبات ہی ہوتی ہیں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاتو بڑی شان کی مالک ہیں، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی برکت سے مسلمانوں کے لئے تیمم کی اجازت عطاکی گئی ۔جب ایک سفر میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکاہارگم ہوگیا اور اسے ڈھونڈنے میں دیر لگی اورلوگوں کے پاس پانی ختم ہوگیا تو اللہ عزوجل نے آیت تیمم نازل فرمائی :"
فَلَمْ تَجِدُوۡا مَآءً فَتَیَمَّمُوۡا صَعِیۡدًا طَیِّبًا
"ترجمہ کنزالایمان :اورپانی نہ پایاتوپاک مٹی سے تیمم کرو۔ (پ5،النسآء: 43 )
(جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر تہمت لگائی گئی تو) اللہ عزوجل نے آپ کی پاکیزگی اورطہارت کے بارے میں قرآن کی آیتیں"
"نازل فرمائیں جنہیں حضرت سیدنا جبریل امین علیہ السلام لے کر آئے،اب قیامت تک آپ کی پاکیزگی اورطہارت کا چرچا ہوتا رہے گا وہ آیتیں جو آپ کی شان میں نازل ہوئیں قیامت تک نمازوں اور خطبوں میں صبح شام مسلمانوں کی مساجد میں پڑھی جاتی رہیں گی ۔ ''
یہ سن کر اُم المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے فرمایا:'' اے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما !میری تعریف نہ کرو ،قسم ہے مجھے میرے اس پاک پروردگار عزوجل کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے!میں تو اس بات کو پسند کرتی ہوں کہ میں گمنام ہی رہتی اور میری شہرت نہ ہوتی ۔''
؎ بنتِ صدیق آرام جانِ نبی اس حریمِ براءَ ت پہ لاکھوں سلام
یعنی ہے سورہ نور جن کی گواہ ان کی پر نُور صورت پہ لاکھوں سلام"
حضرت سیدنا مالک بن دینار علیہ رحمۃ اللہ الغفارسے مروی ہے کہ خلیفۃ المسلمین خلیفہ ثانی امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک مرتبہ سلطنتِ اسلامی کے مختلف شہروں کا دورہ کرنے تشریف لے گئے تاکہ وہاں کے اِنتظامات کو دیکھیں اوران میں بہتری لائیں ۔جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ''حمص''پہنچے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہاں قیام فرمایاا ورحکم دیا کہ اس شہر میں جتنے بھی فقراء ومساکین ہیں ان کے ناموں کی فہرست بنا کر مجھے دکھاؤ ۔ جب فقراء ومساکین کے ناموں کی فہرست آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں پیش کی گئی تو اس میں حضرت سیدنا سعیدبن عامر بن حذیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام بھی تھا جوکہ ''حمص''کے گورنر تھے ۔ حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا:'' یہ سعید بن عامر(رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کون ہے؟'' لوگوں نے عرض کی :'' وہی سعید بن عامر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) جو اس شہر کے گورنر اورہمارے امیر ہیں۔'' آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے متعجب ہو کر پوچھا: ''کیاواقعی تمہارے امیر کی یہ حالت ہے ؟''لوگوں نے عرض کی: ''جی ہاں۔'' آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دریافت فرمایا: ''تمہارے امیر کی یہ حالت کیسے ہوئی کہ وہ فقیر ومسکین ہوگئے، ان کو جو وظیفہ ملتاہے وہ کہاں جاتاہے؟'' لوگوں نے عرض کی: ''اے امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ !انہیں جتنا بھی وظیفہ ملتاہے اورجب کبھی انہیں کہیں سے رقم وغیرہ ملتی ہے تو وہ اپناسارا مال فقراء ومساکین اورمسلمانوں کی حاجتوں میں خرچ کردیتے ہیں، اپنے لئے کچھ بھی نہیں بچاتے۔ ''
" یہ سن کر حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ رونے لگے پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک ہزار دینارمنگوائے اور قاصد سے فرمایا :''یہ سارے دینار سعید بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس لے جاؤ۔انہیں میرا سلام کہنا اورکہنا کہ یہ دینار امیر المؤمنین (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کے لئے بھیجے ہیں تاکہ ان کے ذریعے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی حاجتیں پوری کر سکیں، انہیں اپنی ضروریات میں استعمال کرنا۔ ''
قاصدنے دیناروں سے بھری ہوئی تھیلیاں اورامیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پیغام آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیااور وہاں سے چلا آیا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب تھیلیاں دیکھیں تو اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھنا شروع کردیا۔ یہ دیکھ کرآپ ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجہ محترمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے عرض کی:'' میرے سرتاج ! کیا ہوگیا؟ کیا کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آگیا ہے؟ کسی نے امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دھوکے سے شہید تو نہیں کردیا؟''آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:'' مجھے اس سے بھی بڑی مصیبت آ پہنچی ہے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجہ محترمہ نے عرض کی: '' آخر ایسی کون سی مصیبت آگئی کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اتنے پریشان ہورہے ہیں؟'' آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا:'' میرے پاس دنیا کی حقیر دولت آگئی ہے، میں ایک بہت بڑی آزمائش میں مبتلا ہو گیاہوں ۔ ''
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجہ محترمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے عرض کی:''میرے سرتاج !آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پریشان کیوں ہوتے ہیں،اس رقم کو جہاں مناسب سمجھیں خرچ کریں۔ '' توآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:'' کیا تم اس معاملے میں میری مدد کرو گی؟کیا تمہارے پاس تھوڑا بہت کھانا موجود ہے ؟''عرض کی:'' جی ہاں ۔'' فرمایا:'' جاؤ اورگھر میں موجود پھٹے ہوئے کپڑوں کے ٹکڑے لے آؤ ۔'' آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجہ محترمہ گھر میں موجود پُرانے کپڑوں کے ٹکڑے لے آئی ۔'' آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمام دینار نکالے اورکپڑوں میں باندھ باندھ کر رکھنے لگے۔جب سب دینار ختم ہوگئے توآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حکم صادر فرمایاکہ یہ تمام کے تمام دینار ان مجاہدین میں تقسیم کردو جو کفار سے برسرِپیکار ہیں اوراللہ عزوجل کے دین کی سربلندی کے لئے اپنے گھر باراوراہل عیال کوچھوڑ کرراہِ خداعزوجل میں اپنی جانوں کی بازی لگارکھی ہے۔ جاؤ! یہ سارے دیناراسلام کے ان شیروں کی خدمت میں پیش کردو، ہم سے زیادہ وہ اس کے ضرور ت مندہیں ۔'' یہ کہہ کر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حکم نامے پر دستخط کئے اور سارامال مجاہدین ِاسلام کے لئے بھیج دیا۔
یہ دیکھ کر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجہ محترمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کی:'' میرے سرتاج! اللہ عزوجل آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر رحم فرمائے، اگران دیناروں میں سے کچھ اپنے پاس رکھ لیتے تو ان کے ذریعے ہم اپنی ضروریات پوری کرلیتے اور ہمیں کچھ"
آسانی ہوجاتی۔'' آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا: ''میں نے اپنے محبوب آقا،احمدِمصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو یہ ارشاد فرماتے سنا : ''اگر جنت کی عورتوں میں سے کوئی عورت زمین میں ظاہر کردی جائے تو وہ زمین کو مشک کی خوشبو سے بھر دے۔' '
(الزھد لاحمد بن حنبل، زھد سعید بن عامر بن جذیمۃ بن الجمحی، الحدیث۱۰۳۰،ص۲۰۳تا۲۰۴)
" اللہ عزوجل کی قسم !ان حوروں کی اتنی خوبصورتی وپاکیزگی کے باوجودمیں تجھے جنت میں ان پر ترجیح دوں گا اورتجھے اختیار کروں گا۔'' اپنے عظیم شوہر کی یہ بات سن کر سعادت مندوفرمانبردار زوجہ محترمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاخاموش ہوگئی اورکسی قسم کی شکایت نہ کی اوردنیاکی نعمتوں پر آخرت کی نعمتوں اوردنیاوی خوشیوں پر اُخروی خوشیوں کو ترجیح دی ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علی وسلم"
" حضرت سیدنا محمد بن محمود سمر قندی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں، میں نے حضرت سیدنا یحییٰ بن معاذ رازی علیہ رحمۃ اللہ ا لباری کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ''غربت اورتنگدستی زاہدین کے دیار ہیں۔ بندہ مؤمن جب کوئی عمل کرتاہے یاتو اس کا وہ عمل نیک ہوتاہے یا بد۔ اس کا نیک عمل تو نیک ہی ہے لیکن اس کے برُے عمل کے ساتھ بھی بسا اوقات نیکیاں شامل ہوجاتی ہیں وہ اس طرح کہ جب کسی نیک انسان سے کوئی گناہ سرزدہوتاہے تو اس پر خوفِ خداوندی عزوجل طاری ہوجاتاہے اوراللہ عزوجل سے ڈرنا نیکی ہے، اس کے بعد وہ اپنے رب عزوجل سے اُمیدرکھتا ہے کہ وہ پاک پروردگار عزوجل اس کا گناہ بخش دے گاتو اس کی یہ اُمید بھی نیکی ہی ہے ۔پس مؤمن کا گناہ ایسا ہے جیسے دو شیروں کے درمیان لومڑی۔''
پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ''اولیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ حکمت کے سرچشمے ہیں ،ان کی مجالس بابرکت ہوتی ہیں گویا یہ لوگ عمدہ باغات اوراپنی پسندیدہ جگہوں میں ہیں ، ان کی مجالس میں خیر ہی خیر ہے۔ ''
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرمایا کرتے :'' اللہ ربُّ العزَّت نے قرآن کریم میں ارشادفرمایا :"
وَ اسْتَغْفِرْ لِذَنۡۢبِکَ وَ لِلْمُؤْمِنِیۡنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ ؕ
ترجمہ کنزالایمان:اوراے محبوب! اپنے خاصوں اور عام مسلمان مَردوں اورعورتوں کے گناہوں کی معافی مانگو۔( پ 26 ،محمد: 19)
" اس آیت کریمہ میں خود خدائے بزرگ وبرتر حکم فرمارہا ہے:'' اے محبوب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم!آپ مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کے لئے دعائے مغفرت کیجئے۔''کیا ایساہوسکتاہے کہ اللہ عزوجل اپنے بندوں کو خود کسی کام کا حکم فرمائے اورپھر اس کی بجا آوری پر انہیں اَجر نہ دے ،یا جو اس نے وعدہ کیا ہے اسے پورا نہ کرے؟ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا ۔وہ پاک پروردگار عزوجل تو وعدوں کو پورا کرنے والا ہے جو اس سے اُمید رکھتا ہے وہ کبھی بھی مایوس نہیں ہوتا۔ جب کسی بندے سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے اور اسے اپنے گناہ پر شرمندگی بھی ہو پھرنبی مُکرّم، نورِمجسَّم، شاہِ بنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اس کی شفاعت فرمائیں اور جس ذات کی نافرمانی اس گناہ گار شخص سے ہوئی وہ ذات بھی ایسی کریم کہ بڑے بڑے گناہوں کو محض اپنے لُطف وکرم سے بخش دے اور جو اس کے سامنے صدقِ دل سے تائب ہوجائے اوردو قطرے آنسوؤں کے بہالے تو زمین وآسمان کے برابرگناہوں کوبھی معاف فرما دے ۔ کیا وہ پاک پروردگار عزوجل ہمارے گناہوں کو معاف نہیں فرمائے گا؟ ضرور فرمائے گا ہمیں اس کی پاک ذات پر کامل یقین ہے ۔ ''
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں :''کاش!کوئی ایسا راستہ مل جائے کہ وہ ہمیں کسی عارف تک لے جائے۔ اے عارفو! تم کہاں ہو؟ میں تمہارے دیدار سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرنا چاہتا ہوں۔ تعجب وافسوس ہے ان لوگوں پر جو اولیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کی محفلوں اور ان کے قُرب سے ناآشنا ہیں اور بادشاہوں اوروزیروں کی خوشنودی کے طلبگار ہیں، محبت الٰہی عزوجل کے طلبگاروں کو دُنیوی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ جب تک انسان راہِ عشق میں تکالیف سے دوچارنہ ہو تب تک محبت کی مٹھاس نہیں پا سکتا۔''
؎ وہ عشقِ حقیقی کی لذت نہیں پا سکتا جو رنج ومصیبت سے دو چار نہیں ہوتا
دنیا کو ترک کردینا آخرت کا مَہرہے یعنی جس نے دُنیوی نعمتیں ترک کردیں اس نے آخرت کی نعمتوں کو پالیا۔ اُخروی نعمتوں کی خاطردُنیوی نعمتوں کو چھوڑ دینا ایمان ویقین کے پختہ ہونے کی دلیل ہے ۔اے میرے عقیدت مندو! جب تم دنیاحاصل کرنے پر مجبور ہوجاؤ تو بقدرِ کفایت رزقِ حلال حاصل کرولیکن دُنیوی مال ودولت کی محبت ہرگز دل میں نہ بٹھاؤ ،اپنے جسموں کو رزقِ حلا ل کی طلب میں مشغول رکھو لیکن اپنے دلوں کو اس میں مشغول نہ کرو بلکہ تمہارے دلوں میں آخرت کی محبت ہونی چاہے ،ہر وقت آخر ت کو مدِّ نطر رکھو۔ بے شک یہ دنیا تو ایک گزر گاہ ہے لہٰذا اس سے دور رہنے میں ہی عافیت ہے، بے وفا دنیا سے دل نہ لگاؤ بلکہ آخرت سے محبت کرو ،اسی کی فکر کرو کیونکہ وہاں ہمیشہ رہنا ہے، وہی دار ِ قرار ہے ۔''
؎ بے وفا دنیا پہ مت کر اعتبار تو اچانک موت کا ہو گا شکار
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' موت کا خوف موت کی تکلیف سے زیادہ ہولناک ہے یعنی جسے یہ علم ہوجائے کہ مَیں فلاں وقت مروں گا تو وہ ایسے خوف میں مبتلا ہوجائے کہ جس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا گویا موت کے خوف سے وہ گُھل گُھل کر"
"مُردوں کی مانند ہوجاتاہے ۔ ''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (عاجزی کرتے ہوئے) فرماتے ہیں:''میری حالت تو ایسی ہے کہ اگرمیر ی کوئی حاجت پوری نہ ہوتو رونے لگتا ہوں لیکن موت کے خوف سے رونا نہیں آتا ۔اے ابن آدم!تجھ پر افسوس ہے، اگر تجھے کوئی دنیاوی نعمت نہ ملے تو تُوپریشان وغمگین ہوجاتاہے اور ان عارضی چیزوں کے ملنے پر تجھے خوشی ہوتی ہے جنہیں موت تجھ سے جدا کردے گی ۔ یاد رکھ! موت آتے ہی تمام دنیاوی نعمتیں تجھ سے واپس لے لی جائیں گی۔
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے تھے :'' اگر عفو ودرگزر اوررحم وکرم اللہ عزوجل کی صفات نہ ہوتیں تو اہلِ معرفت کبھی بھی اس کی نافرمانی نہ کرتے، جب اللہ عزوجل نے اپنے عفوودرگزر اوررحم وکرم کا مژدہ جانفزاسنایاتو گناہگاروں کا آسرابڑھ گیا اور انہیں پختہ یقین ہوگیا کہ ہمارا رب عزوجل ہماری غلطیوں اورکوتاہیوں سے ضرور درگزر فرمائے گا۔ اللہ عزوجل نے اپنے عفو وکرم کا اعلان فرمایا تاکہ لوگ جان جائیں کہ ہمارا پروردگار عزوجل بہت رحیم وکریم ہے، وہ گناہ گاروں کے بڑے بڑے گناہوں کو محض اپنے لُطف وکرم سے معاف فرمادیتا ہے ،اس کی رحمت اس کے غضب پر سبقت رکھتی ہے۔ وہ اپنے بندوں پر بہت زیادہ رحیم وکریم ہے ،اس لئے گناہگار گناہ ہوجانے پر اس کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتے بلکہ وہ اپنے پروردگار عزوجل سے اُمیدِ واثق رکھتے ہیں کہ وہ گناہوں کو بخش دے گا اور رحم وکرم فرمائے گا کیونکہ اس کے رحم وکرم کی کوئی اِنتہانہیں ۔"
"؎ سَبَقَتْ رَحْمَتِیْ عَلٰی غَضَبِیْ تُو نے جب سے سنادیایارب عزوجل !
آسرا ہم گناہگاروں کا اور مضبوط ہو گیا یا رب عزوجل!
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا :'' میرے نزدیک بندہ جس گناہ کی وجہ سے اپنے آپ کو اللہ عزوجل کی رحمت کا محتاج سمجھے، وہ اس نیکی سے افضل ہے جس کی وجہ سے بندہ اپنے رب عزوجل پردلیر ہوجائے اورمغرور ہوجائے ۔ ''
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے پوچھا گیا :'' عبادت کیا ہے ؟''توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ''گوشہ نشینی اختیار کرنا ، عبادت کی دُکانداری کے لئے مالِ تجارت ہے اورجنت اس تجارت کا منافع ہے یعنی جو شخص مخلوق سے بے نیاز ہوکر صرف اللہ عزوجل کی عبادت میں مشغول رہے گا اس کو عبادت کا صلہ جنت کی صورت میں دیا جائے گا ۔ ''
(اے اللہ عزوجل !ہمیں عبادت کی لذت عطافرما اورنیک لوگوں کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطافرما ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم )
؎ تیرے غلاموں کا نقشِ قدم ہے راہِ نجات وہ کیا بہک سکے جو یہ سراغ لے کے چلے"
" سید الطائفہ حضرت سیدنا جنیدبغدادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی فرماتے ہیں:''ایک رات مجھے بڑی بے چینی ہوئی۔ میں عبادتِ الٰہی عزوجل میں مشغول رہا لیکن سکون مجھ سے کوسوں دور تھا۔ میں نے خوب کوشش کی کہ عبادت میں یکسوئی اورخشوع وخضوع حاصل ہوجائے لیکن میں اس کوشش میں کامیاب نہ ہوسکا۔ پھر میں نے قرآنِ پاک کی تلاوت شروع کردی لیکن مجھے پھر بھی یکسوئی اوردلی سکون حاصل نہ ہوا۔میں بہت حیران تھاکہ آخر آج ایسی کیا بات ہے کہ مجھے عبادتِ الٰہی عزوجل میں یکسوئی حاصل نہیں ہورہی او رمیرا سکون مجھ سے دور ہو گیا ہے ۔آخر کار رات کے پچھلے پہر میں نے اپنی چادر کندھے پر ڈالی اورگھر سے باہر نکل آیا۔ کچھ دور جاکر راستے میں مجھے ایک شخص نظر آیا جو چادرمیں لپٹا ہوا تھا۔
جب میں اس کے قریب گیا تو اس نے اپنا سر اٹھایا اورمجھ سے پوچھا : ''تم اتنے پریشان کیوں ہو؟کیا قیامت برپا ہو چکی ہے؟ ''میں نے کہا :'' کیاقیامت کا مقررہ دن آگیا ہے؟'' اس شخص نے کہا:'' نہیں،بلکہ میں تویہ پوچھ رہا ہوں کہ کیا تم دل کی ہلچل اوربے چینی کی وجہ سے پریشان ہوکر دلی سکون حاصل کرنے جارہے ہو؟''میں نے کہا :''جی ہاں! واقعی میں دِلی سکون کی تلاش میں باہر نکلا ہوں اور یہ جاننا چاہتاہوں کہ کس وجہ سے مجھے آج رات سکون نہیں مل رہا؟(پھر میں نے اس سے پوچھا:)'' اچھا یہ بتاؤ!کیا تمہیں مجھ سے کوئی حاجت ہے ؟''اس شخص نے جواب دیا:'' ہاں، مجھے تم سے حاجت ہے ۔''میں نے استفسار کیا: ''بتاؤ،کیا حاجت ہے؟''اس نے جواب دیا:'' اے ابوقاسم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ !مجھے یہ بتائیے، کیا کوئی ایسی صورت بھی ہے کہ بیماری خود ہی دوا بن جائے ؟''میں نے کہا:'' جی ہاں ، ایک صورت ایسی ہے کہ بیماری خود دوا بن جاتی ہے ۔ غور سے سن !جب تُوخواہشات نفسانیہ کی مخالفت کریگا تو دل کی تمام بیماریاں تجھ سے دور ہو جائیں گی اور یہی بیماریاں دوا بن جائیں گی ۔ ''
یہ سن کر اس شخص نے ایک آہِ سرد دلِ پُر درد سے کھینچی اور کہنے لگا:'' مجھے آج رات اس سوال کا جواب سات مرتبہ اسی طرح دیا جاچکا ہے لیکن میری یہ خواہش تھی کہ میں آپ کی زبانی اپنے سوال کا جواب سنوں۔ اللہ عزوجل کے فضل وکرم سے میری یہ خواہش پوری ہوگئی اورمیں آپ رحمۃا للہ تعالیٰ علیہ کی مبارک زبان سے اپنے سوال کا جواب سن چکا۔''اتنا کہنے کے بعد وہ شخص وہاں سے رخصت ہوگیا اور پھردوبارہ کبھی نظر نہ آیا۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علی وسلم"
" حضرت سیدنا علی بن موفق رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہما سے مروی ہے ، حضرت سیدنا حاتِم اَصم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم نے فرمایا :'' ایک مرتبہ مَیں گھوڑے پر سوار ہوکر کہیں جارہا تھا کہ راستے میں مجھے ایک تُرک (ترکی کاباشندہ)ملا۔ وہ مجھ سے تھوڑا دور تھا اورہمارے درمیان ایک دیوار حائل تھی۔ میں جیسے ہی آگے بڑھا اس نے دیوار کے قریب پہنچ کر مجھ پر رسی کا پھندا ڈالا ،میں گھوڑے سے نیچے گر گیا۔وہ شخص فوراً اپنی سواری سے اُترا اورمیرے سینے پر چڑھ کرمیری گھنی داڑھی کوبڑی مضبوطی سے پکڑلیا اور مجھے ذبح کرنے کے لئے اپنا خنجر نکال لیا۔
اس پاک پروردگار عزوجل کی قسم جو میرا مالکِ حقیقی ہے! ایسی خطرناک صورتحال میں بھی میری توجہ نہ تو اس ظالم کی طرف تھی اورنہ ہی اس کے خنجر کی طرف،بلکہ میرا دل اللہ عزوجل کی طرف متوجہ تھا کہ وہ کب مجھے اس مصیبت سے نجات دلاتاہے اورمَیں یہ دعا کررہا تھا:'' اے میرے پاک پروردگار عزوجل ! اگر تُو نے میرے حق میں یہ فیصلہ کر دیا کہ مَیں اس کے ہاتھوں ذبح کیا جاؤں تو اے میرے مولیٰ عزوجل !تیرا حکم سرآنکھوں پر، میری جان حاضر ہے۔ مَیں تیری ملکیت ہوں اور تیرا بندہ ہوں، تُو میرے بارے میں جو چاہے فیصلہ کر، مَیں تیری رضا پر راضی ہوں۔ ''
آپ رحمۃ اللہ تعا لیٰ علیہ فرماتے ہیں:'' میں یہ دعا کررہا تھا اوروہ میرے سینے پرچڑھا ہوا تھا اورمجھے ذبح کرنے ہی والا تھا کہ کچھ مسلمانوں نے اس پر تیر برسائے ۔ ایک تیر اس کو لگا اوروہ تڑپ کر میرے سینے سے دور ہوگیا۔ مَیں فوراً کھڑا ہوا اور اسی کے خنجر سے اسے ذبح کرڈالا۔ ''
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرمایا کرتے تھے:'' خدا عزوجل کی قسم! جو شخص اللہ عزوجل سے سچی محبت کریگا اور اپنے دل کو اسی کی طرف متوجہ رکھے گا وہ اپنے پروردگار عزوجل کو ماں باپ سے کہیں زیادہ رحیم وکریم پائے گا، ماں باپ کی شفقتیں اللہ عزوجل کے
رحم وکرم کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ۔''
(اللہ عزوجل ہمیں اپنی سچی محبت عطافرمائے اورہمیشہ اپنے رحم وکرم میں رکھے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم )
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علی وسلم"
" حضرت سیدنا عبداللہ بن محمدرشیدی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں،مجھے حضرت سیدنا ایوب عطّار علیہ رحمۃ اللہ الغفار نے بتایا کہ ایک مرتبہ جب میری ملاقات حضرت سیدنا بشر بن حارث حافی علیہ رحمۃ اللہ الکافی سے ہوئی تو انہوں نے مجھ سے فرمایا: ''انسان کا کوئی نیک عمل اللہ عزوجل کی بارگاہ میں ایسا مقبول ہوجاتاہے کہ وہ تمام برائیوں کو مٹا دیتا ہے ۔وہ نیک عمل مشہور ہوجاتاہے اوراس بندے کے بُرے اعمال کو پوشیدہ کردیاجاتاہے ۔''
میرے ساتھ بھی کچھ اسی طرح کا واقعہ پیش آیا۔ آج میں کہیں جارہا تھا کہ راستے میں مجھے دو شخص ملے ایک نے دوسرے سے کہا:'' دیکھو! حضرت سیدنا بشر بن حارث حافی علیہ رحمۃ اللہ الکافی جارہے ہیں ،یہ روزانہ ایک ہزار نوافل پڑھتے ہیں اورکچھ کھائے پئے بغیرمسلسل تین تین دن روزہ رکھتے ہیں ۔''ان کی یہ باتیں سن کر میں بڑا حیران ہو ا،اللہ عزوجل کی قسم ! میں نے آج تک کبھی بھی بیک وقت ایک دن میں ہزار نوافل نہیں پڑھے اورنہ ہی کبھی مسلسل تین دن بھوک وپیاس کی حالت میں گزارے لیکن لوگوں میں میرے متعلق ایسی باتیں مشہور ہونے لگی ہیں حالانکہ میں نے کبھی ایسے نیک اعمال نہیں کئے۔ ہاں! اتنا ضرور ہے کہ میرے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا ہے اگر تم جاننا چاہو تو بتاؤں۔'' میں نے عرض کی:'' حضور! ضرور ارشاد فرمائیں کہ وہ واقعہ کیا ہے جس کی وجہ سے آپ کو یہ مقام ومرتبہ ملا کہ لوگوں کے دلوں میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی محبت بیٹھ گئی ہے؟ ''
حضرت سیدنا بشر حافی علیہ رحمۃ اللہ الکافی نے فرمایا:''ایک مرتبہ مَیں کہیں جارہا تھا کہ اچانک میری نظر زمین پر پڑے ہوئے کاغذ کے ایک ٹکڑے پر پڑی، اس کاغذ پر میرے رحیم وکریم پروردگار عزوجل کا نام لکھا ہوا تھا۔یہ دیکھ کر مَیں تڑپ اٹھا کہ میرے پروردگارعزوجل کے نام کی بے حرمتی ہورہی ہے۔مَیں نے فوراً بصد عقیدت واِحترام وہ کاغذ کا ٹکڑا اُٹھا یا اورسیدھا نہر کی طرف چل دیا ۔وہاں جا کر اس کاغذ کو اچھی طرح دھویا۔اس وقت میرے پاس پانچ دانق تھے ۔مَیں نے چار دانق کی خوشبو خریدی اور بقیہ ایک دانق سے عرقِ گلاب خریدااور بڑی محبت وعقیدت سے اس کاغذ پر خوشبو ملنے لگا جس پر میرے پاک پروردگار عزوجل کا نام ِپاک لکھا ہوا تھاپھر اس کاغذ کو عرق ِگلاب میں ڈال کر ایک متبرک مقام پر رکھ کر اپنے گھر چلا آیا۔''
جب رات کو سویا تو کوئی کہنے والا کہہ رہا تھا:''اے بشر حافی (علیہ رحمہ اللہ الکافی )! جس طرح تُو نے ہمارے نام کو مُعَطَّر ومُطَہَّرکیا اسی طرح ہم بھی تیرا ذکر بلند کریں گے ۔ جس طرح تُو نے اس کاغذ کو دھویا جس پرہمارا نام لکھاتھا اسی طرح ہم بھی تیرے دل کو خوب پاک کردیں گے اورتیرا خوب چرچا ہوگا۔ ''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علی وسلم"
" (اے میرے رحیم وکریم پروردگار عزوجل !ہم تیری رحمت پہ قرباں! تُو واقعی بہت مغفرت فرمانے والا ہے، تُو جسے چاہے جو مقام ومرتبہ عطافرما دے ، اے ہمارے رحیم وکریم پروردگار عزوجل ! ہم پر بھی اپنا خصوصی کرم فرما، اپنی دائمی محبت سے ہم فقیروں کی جھولیاں بھر دے ، اپنے ذکر کی لذَّت سے ہم بے سکونوں کو سکون عطافرما اوراپنے جلوؤں سے ہمارے تاریک دلوں کو منوَّر فرما۔ اے ہمارے پالنہار! تُو اپنے نام کی قدر کرنے والوں کو اندھیروں سے نکال کر آسمانِ ولایت کے ایسے تابندہ ستارے بنا دیتا ہے کہ جن کی روشنی سے غفلت کے اندھیروں میں بھٹکے ہوؤں کو سیدھی راہ ملتی ہے ۔ اے ہمارے پروردگار عزوجل ! تیرا شکر ہے کہ تُو نے ہمیں مسلمان بنایا ، ہمارے دِلوں میں تیرا نام بسا ہوا ہے ، ہماری زبانوں پر تیرے پاک نام کا وِرد جاری رہتاہے۔ اے ہمارے مولیٰ عزوجل!جو تیراپاک نام ہمارے دِلوں پر کندہ اور ہماری زبانوں پر جاری ہے اسی کی برکت سے ہمارے بھی دلوں کو پاک وصاف فرما، گناہوں سے نفرت اور اپنے نام کی لذت عطافرمااوراس کی برکت سے ہمیں جہنم کے عذاب سے محفوظ رکھ۔ ہمیں تجھ سے اور تیرے بابرکت اَسماء سے محبت ہے ۔ اسی محبت کے صدقے ہماری مغفرت فرما،ہمیں اپنی دَائمی رضا سے مالا مال فرما اور اپنی ولایت کی خیرات عطا فرما۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)
؎ تُو اپنی ولایت کی خیرات دے دے میرے غوث کا واسطہ یا الٰہی عزوجل!"
حضرت سیدنا صالح رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حضرت سیدنا خُلَیْد بن حسّان علیہما رحمۃ المنّان سے روایت کرتے ہیں :''حضرت سیدنا حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی سخت گرمیوں میں بھی نفلی روزے رکھتے ۔ ایک دن ہم افطاری کے وقت کھانا لے کر ان کی بارگاہ میں حاضر ہوئے ۔ جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ہمارے کھانے سے روزہ افطار کرنا چاہا تو کسی نے قرآن کریم کی یہ آیت تلاوت کی:
اِنَّ لَدَیۡنَاۤ اَنۡکَالًا وَّ جَحِیۡمًا ﴿ۙ12﴾وَّ طَعَامًا ذَا غُصَّۃٍ وَّ عَذَابًا اَلِیۡمًا ﴿13﴾٭
"ترجمہ کنز الایمان:بے شک ہمارے پاس بھاری بیڑیاں ہیں اور بھڑکتی آگ اورگلے میں پھنستا کھانا اور درد نا ک عذاب۔(پ29،المزمل: 12۔13)
یہ آیت سنتے ہی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپناہاتھ کھانے سے روک لیا اورایک لقمہ بھی نہ کھایا اور فرمایا:'' یہ کھانا یہاں سے ہٹا لو۔'' دوسرے دن پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے روزہ رکھا۔ اِفطار کے وقت جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے سامنے کھانا رکھا گیا تو"
"آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو پھر وہی آیت یاد آگئی ۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک لقمہ بھی نہ کھایا اورفرمایا:'' یہ کھانا مجھ سے دورلے جاؤ ۔'' اسی طرح تیسرے دن بھی آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے بغیر کچھ کھائے اسی طرح روزہ رکھ لیا۔
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے صاحبزادے نے جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی یہ حالت دیکھی کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بغیر کھائے پئے تین دن گزار دیئے ہیں تو وہ بہت پریشان ہوئے اورزمانے کے مشہور ولی حضرت سیدنا ثابت بنائی ، حضرت سیدنا یحییٰ اوردیگر اولیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ اجمعین کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اورعرض کی: ''حضور!آپ جلد از جلد میرے والد کی مدد کو پہنچئے، انہوں نے مسلسل تین دن صرف چند گھونٹ پانی پی کر روزہ رکھا ہے اورتین دن سے کھانے کا ایک لقمہ تک نہیں کھایا ۔ ہم جب بھی ان کے سامنے سحری یا افطاری کے لئے کھانا پیش کرتے ہیں تو انہیں قرآنِ پاک کی یہ آیت یاد آجاتی ہے :"
اِنَّ لَدَیۡنَاۤ اَنۡکَالًا وَّ جَحِیۡمًا ﴿ۙ12﴾وَّ طَعَامًا ذَا غُصَّۃٍ وَّ عَذَابًا اَلِیۡمًا ﴿13﴾٭
"ترجمہ کنز الایمان:بے شک ہمارے پاس بھاری بیڑیاں ہیں اور بھڑکتی آگ اورگلے میں پھنستا کھانا اور درد ناک عذاب۔(پ29،المزمل: 12۔13)
اورآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کھانا کھانے سے اِنکار فرمادیتے ہیں ، خدارا !جلدی چلئے اور یہ معاملہ حل فرمایئے۔'' یہ سن کر تمام حضرات حضرت سیدنا حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی کے پا س آئے ،جب افطاری کا وقت ہوا تو پھرآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو مذکورہ آیت یاد آ گئی اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کھانا کھانے سے انکار کردیا لیکن جب حضرت سیدنا ثابت بنائی ، حضرت سیدنا یحییٰ اوردیگر بزرگانِ دین رحمہم اللہ تعالیٰ نے پیہم اصرار کیا توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بمشکل سَتّوملا پانی پینے پر راضی ہوئے اوران لوگوں کے اِصرار پر تیسرے دن سَتّو ملا ہوا شربت پیا۔ ''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علی وسلم"
حضرت سیدنا عبداللہ بن محمد قرشی علیہ رحمۃ اللہ الولی فرماتے ہیں:'' کسی شہر میں ایک بہت دولت مندنوجوان رہتا تھا ۔ اسے ہر طرح کی دنیاوی نعمتیں میسّر تھیں ۔اس کے پاس ایک انتہائی حسین وجمیل لونڈی تھی جس سے وہ بہت زیادہ محبت کرتا تھا۔ خوب عیش وعشرت میں اس کے لیل ونہار گزر رہے تھے ، اسے ہرطرح کی دنیاوی نعمتیں میسر تھیں لیکن وہ اولاد جیسی میٹھی نعمت سے محروم
"تھا، اس کی بڑی خواہش تھی کہ اس لونڈی کے بطن سے اس کی اولادہو۔ کافی عرصہ تک اسے یہ خوشی نصیب نہ ہوسکی پھر اللہ عزوجل کے فضل وکرم سے اس لونڈی کو استقرارِ حمل ہوا۔ اب تو اس مالدار نوجوان کی خوشی کی انتہانہ رہی ،وہ خوشی سے پھولا نہ سماتا تھا ، انتظار کی گھڑیاں اس کے لئے بہت صبر آزما تھیں ۔ بالآخر وہ وقت قریب آگیا جس کا اسے شدّت سے انتظار تھا لیکن ہوتا وہی ہے جو اللہ عزوجل چاہتاہے ۔ اچانک وہ مالدار نوجوان بیمارہوگیا اورکچھ ہی دنوں بعد اولاد کے دیدار کی حسرت دل ہی میں لئے اس بے وفا دنیا سے کوچ کر گیا۔ جس رات اس نوجوان کا انتقال ہوا اسی رات لونڈی کے بطن سے ایک خوبصورت بچے نے جنم لیا لیکن مقدر کی بات ہے کہ اس کا باپ اسے نہ دیکھ سکا،وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتاہے ۔ ''
؎ عمرِ دراز مانگ کر لائے تھے چار دن دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
بلبل کو باغباں سے نہ صیّاد سے گلہ قسمت میں قید لکھی تھی فصلِ بہار میں
(اللہ عزوجل ہم سب پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے اور ہماری مغفرت فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)"
" حضرت سیدنا زائدہ بن قدامہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہما فرماتے ہیں :'' حضرت سیدنا منصور بن معتمد علیہ رحمۃ اللہ الا َحد بہت متقی وپرہیزگار شخص تھے ۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے چالیس سال اس حال میں گزارے کہ مسلسل روزہ رکھتے اور ساری ساری رات قیام فرماتے (یعنی عبادت کرتے )آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اکثر راتوں کو روتے اوربڑے دردبھرے انداز میں اپنے پاک پروردگار عزوجل کی بارگاہ میں گریہ وزاری کرتے ،روتے روتے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ہچکیاں بندھ جاتیں ، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی والدہ محترمہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا فرماتیں:'' اے میرے لال ! کیا تو اپنے آپ کو اتنی مشقت میں ڈال کر ہلاک کرنا چاہتاہے ؟''تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ عاجزی کرتے ہوئے فرماتے:'' اے میری پیاری ماں! میں اپنے نفس کے کارناموں سے خوب آگاہ ہوں،میں اپنی حالت خوب جانتا ہوں کہ نفس مجھے کس طرح گناہوں میں مبتلا کرنا چاہتاہے ۔''
حضرت سیدنا زائدہ بن قدامہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہما فرماتے ہیں :''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ہونٹ گلاب کی پنکھڑیوں کی مانند نرم ونازک اور خوبصورت تھے۔ایک مرتبہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی نورانی آنکھوں میں سرمہ لگایا۔ سرِمبارک میں تیل ڈالا اور"
"کسی کام سے باہر تشریف لے گئے۔ راستے میں'' کوفہ ''کے گورنریوسف بن عمر نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو پکڑ لیا۔وہ چاہتا تھا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو قاضی بنا دیا جائے لیکن آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ عہدہ قبول کرنے سے صاف انکار کردیا اورفرمایا: ''میں کبھی بھی یہ ذمہ داری قبول نہ کروں گا۔ ''
جب کوفہ کے گورنر یوسف بن عمر نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کاجرأت مندانہ جواب سنا تو اسے بہت غصہ آیا اوراس نے حکم دیا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو بیڑیوں میں جکڑ کر قید خانے میں ڈال دیا جائے ۔ حضرت سیدنا زائدہ بن قدامۃ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہما فرماتے ہیں: ''جب مجھے یہ خبر ملی کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو گورنر پکڑکر لے گیا ہے تومیں فوراًاس کے دربار میں پہنچا ، سپاہی بیڑیاں لے کر آیا ہی تھا کہ دو درباری گورنر کے پا س اپنے کسی مقدمے کافیصلہ کروانے آئے لیکن اس نے نہ تو ان کے مقدمہ کی سماعت کی اورنہ ہی ان کی طرف متوجہ ہوا۔ اس کی یہ خواہش تھی کہ کسی طرح حضرت سیدنا منصور بن معتمد علیہ رحمۃ اللہ الصمد قاضی کا عہدہ قبول کرلیں اور وہی لوگوں کے درمیان فیصلہ کریں لیکن آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مسلسل انکار کرتے رہے ۔ پھر کسی کہنے والے نے یوسف بن عمر سے کہا : ''اگر تو حضرت سیدنا منصور بن معتمد علیہ رحمۃ اللہ الصمد کے جسم کا سارا گوشت بھی اتار ڈالے تب بھی یہ تیرے لئے قاضی کا عہدہ قبول نہ فرمائیں گے ۔''یہ سن کر یوسف بن عمر نے حکم دیا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو آزاد کر دیا جائے۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علی وسلم
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!سبحان اللہ عزوجل ! ہمارے بزرگان دین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی کیا انوکھی شان تھی کہ انہیں سخت سے سخت سزاتو منظور تھی لیکن اقتدار وحکومت کی ہوس نہ تھی۔وہ کبھی بھی دنیاوی عہدوں کی خواہش نہ کرتے، بلکہ ان کے نزدیک تو سب سے بڑا عہدہ یہ تھا کہ اللہ عزوجل کی رضا نصیب ہوجائے ،اس کی بارگاہ میں ہماری مقبولیت ہوجائے ۔ دنیاوی شان وشوکت، رعب ودبدبہ ان کی نظروں میں کچھ بھی نہ تھا وہ تو عاجزی اورانکساری کے پیکر ہوا کرتے تھے۔ ا ن کا سب سے اہم مقصداللہ عز وجل کی دائمی رضا کا حصول تھا۔ اے ہمارے پیارے اللہ عزوجل! ہمیں بھی دنیا کی محبت سے بچا کر اپنی محبت عطافرما ۔اورسچی عاجزی کی توفیق عطا فرما۔ ان بزرگوں کے صدقے ہم سے ہمیشہ کے لئے راضی ہوجا۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)"
" حضرت سیدنا علی بن یزیدی علیہ رحمۃ اللہ القوی کے وا لدِ گرامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں :''ملکِ شام سے مجاہدینِ اسلام کا لشکر دینِ حق کی سربلندی کے مقدس جذبہ سے سرشار دلوں میں شہادت کا شوق لئے روم کے عیسائیوں سے جہاد کرنے روانہ ہوا۔
اس عظیم لشکر میں تین سگے بھائی بھی شامل تھے ۔تنیوں شجاعت وبہادری، جنگی مہارت ، حسن وجمال اورزہد وتقوی میں اپنی مثال آپ تھے ۔وہ جامِ شہادت نوش کرنے کے لئے ہروقت تیار رہتے ۔ لشکرِ اسلام کفار کی سرکوبی کے لئے منزلوں پر منزلیں طے کرتا روم کی سرحد کی جانب بڑھتا چلا جارہاتھا۔ ان تینوں بھائیوں کا انداز ہی نرالا تھا وہ لشکر سے علیٰحدہ ہوکر چلتے ، جب لشکرِ اسلام کسی جگہ قیام کرتا تووہ لشکر سے کچھ دور قیام کرتے ۔ اگر کہیں ان کے ہم پلّہ یا ان سے زیادہ طاقتور دشمن نظر آجاتے تو یہ تین افراد پر مشتمل مختصر ساقافلہ آن کی آن میں انہیں ختم کردیتا۔
جب مجاہدین کا لشکر رومی سرحد کے قریب پہنچ گیا تو اچانک مسلمانوں کے ایک دستے پر رومی سپاہیوں کے ایک دستے نے حملہ کردیا ۔رومیوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ گھمسان کی جنگ شروع ہوگئی۔ اسلام کے جیالے اپنی جانوں سے بے فکر مجاہدانہ وار روم کی عیسائی فوج سے برسرِپیکار تھے ۔ مسلمانوں کی تعداد عیسائیوں کے مقابلے میں بہت کم تھی۔ اچانک رومیوں نے مسلمانوں پر شدید حملہ کردیا اوربہت سے مسلمان جامِ شہادت نوش کرگئے اور کچھ قید کرلئے گئے ۔ جب ان تین بھائیوں کو یہ خبر ملی تو وہ تڑپ اُٹھے اورایک دوسرے سے کہنے لگے :''اب ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کو پہنچیں اور راہ ِخدا عزوجل میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کریں ۔
چنانچہ اسلام کے یہ تینوں شیر غیظ وغضب کی حالت میں میدانِ جنگ کی طرف روانہ ہوئے ۔وہاں مسلمان بہت سختی کی حالت میں تھے ۔انہوں نے وہاں پہنچ کر نعرئہ تکبیر بلند کیا اورکہا :''اے ہمارے مسلمان بھائیو!اب تم نہ گھبراؤ، ہم تمہاری مدد کو پہنچ چکے ہیں۔ سب کے سب جمع ہوجاؤ اور ہمارے پیچھے پیچھے رہو ۔ ان شاء اللہ عزوجل ان رومی کُتّوں کو ہم تینوں شیر ہی کافی ہیں ۔
یہ سن کر مسلمانوں کا جذبہ بڑھا اور وہ ایک جگہ جمع ہونے شروع ہوگئے۔ ان تینوں بھائیوں نے آندھی وطوفان کی طرح رومیوں کی فوج پر حملہ کیا جس طرف جاتے لاشوں کے ڈھیر لگا دیتے، ان کی تلواروں اورنیزوں نے ایسے جنگی جوہر دکھائے کہ رومیوں کو اس معرکہ میں منہ کی کھانی پڑی اوروہ میدان چھوڑ کر بھاگ گئے اوراپنے لشکر سے جا ملے ۔
وہ رومی جو اس بات پر خوش ہو رہے تھے کہ آج ہم مسلمانوں پرغالب آجائیں گے جب ان پر اسلام کے بپھرے ہوئے ان تین شیروں نے حملہ کیا تو رومی ، لومڑی کی طرح میدان جنگ سے بھاگ گئے ۔جب روم کے عیسائی بادشاہ کو یہ خبر ملی کہ"
"اسلام کے تین شیروں نے جنگ کا پانسہ ہی پلٹ دیاتوبادشاہ کو ان کی بہادری پر بڑا تعجب ہوا اوراس نے اعلان کیا:'' جو کوئی ان تینوں میں سے کسی کو گرفتار کر کے لائے گا میں اسے اپنے خاص عہدے داروں میں شامل کرلوں گااوراسے گورنر بناؤں گا۔'' جب رومیوں نے یہ اعلان سنا تو روم کے بڑے بڑے بہادروں نے ان تین نوجوانوں کو قید کرنے کا ارادہ کیا اور بہت سے لوگ ان جاں نثاروں کو قید کرنے کے لئے میدانِ کارزار کی طر ف گئے ۔
دوسرے دن دونوں فوجوں میں گھمسان کی جنگ جاری تھی ۔ یہ تینوں بھائی سب میں نمایاں تھے جس طرف رخ کرتے رومیوں کی شامت آجاتی۔ ان کی گردنیں تن سے جدا ہو کر گر پڑتیں۔جب لالچی رومیوں نے دیکھا کہ یہ تینوں نوجوان اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر مصروفِ جنگ ہیں توبہت سے رومیوں نے مل کر پیچھے سے ان تینوں بھائیوں کو گھیرے میں لے لیا اورپھندا ڈال کر ان شیروں کو قید کر کے بادشا ہِ روم کے دربار میں لے گئے ۔ جب بادشاہ نے ان تینوں مجاہدوں کو دیکھاتو کہنے لگا: ''ان سے بڑھ کر نہ تو ہمارے لئے کوئی مالِ غنیمت ہے اورنہ ہی ان کی گرفتاری سے بڑھ کر کوئی فتح ۔''
پھر ان تینوں مجاہدین کو ''قسطنطنیہ ''لے جایا گیا اوربادشاہ نے ان کو اپنے دربار میں بلا کرکہا: ''تمہاری بہادری قابلِ تعریف ہے لیکن تم نے ہمارے خلاف جنگ کی جرأ ت کی لہٰذا تمہاری سزا موت کے سواکچھ نہیں۔ ہاں! اگرتم اپنے دینِ اسلام کو چھوڑ کر نصرانی ہوجاؤ تو ہم تمہاری جان بخشی کردیں گے۔ تمہیں شاہی دربار میں اعلیٰ مقام دیا جائے گا اورمیں اپنی شہزادیوں کی تم سے شادی کردوں گا۔بس تم دین اسلام کو چھوڑ کر ہمارا دینِ(عیسوی)قبول کرلو۔'' بادشاہ کی یہ بات سن کر اسلام کے ان عظیم مجاہدوں نے بہت جرأ ت مندی کا مظاہرہ کیا اوربڑی بے خوفی اوربہادری سے جواب دیا :''ہم اپنے دین کوکبھی بھی نہیں چھوڑ سکتے اس دین کی خاطر سر کٹانا ہمارے لئے بہت بڑی سعادت ہے۔تم ہمارے ساتھ جو چاہے کرو ان شاء اللہ عزوجل ہمارے پائے استقلال میں ذرہ برابر بھی فرق نہ آئے گا۔'' یہ کہہ کر تینوں بھائی بیک وقت شاہ ِروم کے دربار میں کھڑے ہوکر اپنے پیارے نبی ، دو عالَم کے والی، سلطان دوجہاں ، رحمت عالمیاں، نبی آخرالزماں، محمد مصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہِ بے کس پناہ میں استغاثہ کرتے ہوئے ''یا محمداہ ! یا محمداہ ! یا محمداہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم!''کی صدائیں بلند کرنے لگے ۔
جب بادشاہ نے یہ دیکھا تو پوچھا: ''یہ کیا کہہ رہے ہیں؟''لوگوں نے بتایا:'' یہ اپنے نبی، محمد( صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)کی بارگاہ میں استغاثہ کر رہے ہیں ۔
اس بد بخت بادشاہ کو بہت غصہ آیاکہ انہیں اپنے نبی سے اتنی محبت ہے کہ اپنی جان کی پرواہ تک نہیں بلکہ ایسی حالت میں بھی ان کی توجہ اپنے نبی کی طرف ہے پھراس بدبخت بادشاہ نے ان مجاہدین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:''کان کھول کر سن لو!اگر تم"
"نے میری بات نہ مانی اوردین عیسوی قبول نہ کیا تو میں تمہیں ایسی درد ناک سزادوں گا جس کا تم تصور بھی نہیں کرسکتے ۔ابھی موقع ہے کہ تم میری پیشکش قبول کرلو اور خوب عیش وعشرت کی زندگی گزار و۔ '' ان عاشقانِ رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اپنی غیرت ایمانی کا ثبوت دیتے ہوئے بڑی بہادری سے جواب دیا :'' ہم ایسی عیش وعشرت بھری زندگی پر لعنت بھیجتے ہیں جو ہمیں اسلام کی عظیم دولت سے محروم کردے۔ تم لاکھ کوشش کرلو لیکن ہمارے دلوں میں اسلام کی جو شمع روشن ہے تم اسے کبھی بھی نہیں بجھا سکتے، ہمارے دلوں میں ہمارے نبی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی جو محبت ہے تم اسے ہمارے دلوں سے کبھی بھی نہیں نکال سکتے۔ ہم اللہ عزوجل کی وحدانیت کے کبھی بھی منکر نہ ہوں گے ۔ ہمیں اپنی جانوں کی پرواہ نہیں، تمہیں جو کرنا ہے کرلو۔
؎ نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
بادشاہ کو بہت غصہ آیا اوراس نے اپنے جلاّدوں کو حکم دیا کہ تین بڑی بڑی دیگوں میں تیل ڈال کر ان کے نیچے آگ جلا دو۔ جب تیل خوب گرم ہوجائے اورکھولنے لگے تو مجھے اطلاع کردینا ۔ جلاد حکم پاتے ہی دوڑے اورتین دیگوں میں تیل ڈال کر ان کے نیچے آگ لگادی۔ مسلسل تین دن تک وہ دیگیں آگ پر رکھی رہیں۔ ان مجاہدین کو روزانہ نصرانیت کی دعوت دی جاتی اور لالچ دیا جاتا کہ تمہیں شاہی عہدہ بھی دیا جائے گااور شاہی خاندان میں تمہاری شادی بھی کرادی جائے گی لیکن ان کے قدم بالکل نہ ڈگمگائے ۔ چوتھے دن بادشاہ نے پھر انہیں لالچ اوردھمکی دی لیکن وہ اپنے مذموم ارادے میں کامیاب نہ ہوسکا ۔ اب بادشاہ کو بہت غصہ آیااورا س نے سب سے بڑے بھائی کو مخاطب کر کے کہا:'' اگر تو نے میری بات نہ مانی تو تجھے اس کھولتے ہوئے تیل میں ڈال دوں گا۔'' مگراس عاشقِ رسول، جرأت مندمجاہد پربادشاہ کی دھمکی کا کچھ اثر نہ ہوا۔بادشاہ نے جلادوں کوحکم دیا کہ اسے اُبلتے ہوئے تیل میں ڈال دیا جائے۔ حکم پاتے ہی جلاد آگے بڑھے اور انہوں نے اس مرد ِحق کو ابلتے ہوئے تیل میں ڈال دیا۔ آن کی آن میں اس راہِ خدا عزوجل کے عظیم مجاہد کا سارا گوشت جل گیا اورتیل میں اس کی ہڈیاں نظر آنے لگیں۔ بظاہر تو یہ نظر آرہا تھا کہ اس کا گوشت جل گیا لیکن در حقیقت اس مجاہد نے اس گرم تیل میں غوطہ لگایا اورجنت کی نہروں میں پہنچ گیا اور اسے دائمی حیات کی دولت نصیب ہوگئی اور اس کی جامِ شہادت نوش کر نے کی خواہش پوری ہوگئی۔
پھر بادشاہ نے اس سے چھوٹے بھائی کو بلایا اوراسے بھی لالچ اوردھمکیاں دیں اورکہا:'' اگر تم نے میری بات نہ مانی تو تمہارا حشر بھی تمہارے بھائی جیسا ہی ہوگا۔'' اس مردِ مجاہدنے جواب دیا:''ہم تو کب سے جامِ شہادت نوش کرنے کے لئے بےتاب ہیں۔ ہمیں نہ تودولت وشہرت چاہے اورنہ ہی ملک وحکومت بلکہ ہمارامطلوب تو راہ خدا عزوجل میں جان دے دینا ہے ۔ ہمیں موت تو بخوشی قبول ہے لیکن دین اسلام سے انحراف نا ممکن۔"
" بالآخر اس مجاہد کی دلیرانہ گفتگو سن کر بادشاہ نے حکم دیا:'' اسے بھی اس کے بھائی کے پاس پہنچا دو۔ حکم پاتے ہی ظالم جلّاد آگے بڑھے اوراس عظیم مجاہد کوبھی اُبلتے ہوئے تیل میں ڈال دیا اوراس کی روح بھی عالَمِ بالا کی طرف پرواز کر گئی، اس کا خواب بھی شرمندہ تعیبر ہوگیا کیونکہ اس کی جان رائیگاں نہ گئی بلکہ دین اسلام کی سربلندی اوراللہ عزوجل کی رضا کی خاطر اس نے جامِ شہادت نوش کیا۔ بہر حال جب بادشاہ نے ان مجاہدین کا صبرو استقلال ،بے خوفی وجرأت مندی اوردین اسلام پر استقامت دیکھی تو اسے اپنے اس فعل پر بڑی ندامت ہوئی اور کہنے لگا :'' مسلمانوں سے زیادہ بہادر اورعظیم قوم میں نے آج تک نہیں دیکھی۔ پھر بادشاہ سب سے چھوٹے مجاہد کی طرف متوجہ ہوا جس کا چہرہ عبادت وریاضت کے نور سے چمک رہا تھا اور وہ بالکل وقار واطمینان سے کھڑا تھا۔بادشاہ نے اسے اپنے پاس بلایا، اسے خوب لالچ دیااورہر طرح کے حیلے استعمال کرلئے کہ کسی طرح یہ اپنے دین سے منحرف ہوجائے لیکن بادشاہ کی کوئی تدیبر بھی اس نوجوان کے ایمان کو متزلزل نہ کرسکی ۔ بادشاہ کو پھر غصہ آنے لگا وہ اس مجاہد کے خلاف بھی کچھ فیصلہ کرنا چاہتاتھا کہ ایک گورنر اُس کے پاس آیا اور کہنے لگا :''بادشاہ سلامت !اگر میں اس نوجوان کو دین اسلام سے منحرف کردوں تو مجھے کیا انعام ملے گا؟ بادشاہ نے کہا :''میں تجھے مزید ترقی دے دوں گا اورتجھے خوب انعام واکرام سے نوازا جائے گامگر یہ تو بتاؤ کہ تم ا س نوجوان کو کس طرح بہکاؤ گے۔ جب یہ موت سے بھی نہیں ڈرتا تو پھر ایسی کون سی چیز ہے جو اس مجاہد کو اس کے دین سے پھسلا دے گی؟'' وہ بے غیرت گورنر بادشاہ کے قریب گیا اورسر گوشی کرتے ہوئے کہنے لگا: ''بادشاہ سلامت! آپ تو جانتے ہی ہیں کہ یہ عرب لوگ حسین عورتوں کے بہت شیدائی ہوتے ہیں اوران کی طرف بہت جلد مائل ہوجاتے ہیں۔ بادشاہ سلامت !پورے روم میں کوئی لڑکی میری بیٹی سے زیادہ حسین نہیں ۔ یہ آ پ اچھی طرح جانتے ہیں کہ میری بیٹی کے حسن وجمال کے چرچے پورے روم میں ہورہے ہیں۔ آپ اس نوجوان کو میرے حوالے کردیں میں اسے اپنے گھر لے جاؤں گا۔مجھے امید ہے کہ میری بیٹی اسے ضروراپنے حسن وجمال کے ذریعے گھائل کردے گی اوریہ اپنے دین سے ضرور منحرف ہو جائے گا۔ ''
بادشاہ نے کہا:'' ٹھیک ہے ،میں تمہیں چالیس دن کی مدت دیتاہوں اگر تم اسے عیسائی بنانے میں کامیاب ہوگئے تو تمہیں اتنا بڑا انعام دیا جائے گا جس کا تم تصور بھی نہیں کرسکتے ۔''
چنانچہ وہ بے غیرت گورنرجو ملک ودولت کے لالچ میں اپنی بیٹی کی عزت کا سود اکر نے کے لئے تیارہو گیا تھا،اس عظیم نوجوان کولے کر اپنے گھر کی جانب چل دیا۔ گھر جاکر گورنر نے اس نوجوان کو اپنے گھر کے سب سے اچھے کمرے میں رہائش دی اوراپنی بیٹی کو سارا واقعہ بتایا۔ اس کی بیٹی نے کہا: ''اباجان! آ پ بے فکرہوجائیں ،میں اس نوجوان کے لئے کافی ہوں ، میں چند"
"ہی دنوں میں اسے اپنے دامِ محبت میں پھنسا لوں گی۔'' چنانچہ گورنرنے اپنی بیٹی کو اس نوجوان کے پاس بھیج دیا۔وہ حسین دوشیزہ روزانہ اپنے حسن وجمال کا جال ڈال کر اس شرم وحیا کے پیکر عظیم مجاہد نوجوان کو پھنسانا چاہتی لیکن صد ہزار آفرین اس نوجوان کی پاکدامنی اور شرم وحیاء پر! اس نے کبھی بھی نظر اٹھا کر اس فتنے باز حسینہ کو نہ دیکھا جس کی ایک جھلک دیکھنے کو روم کے ہزاروں رومیوں کی نگاہیں ترستی تھیں ۔بس یہ سب دینِ اسلام کا فیضان تھا اوراس نوجوان پر نبی کریم، رء ُوف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی نظر کرم تھی کہ جن کی نگاہیں ہر وقت حیا سے جھکی رہتی تھیں۔
؎ نیچی نظروں کی شرم وحیاء پر درود
اونچی بینی کی رفعت پہ لاکھوں سلام
الغرض! اس لڑکی نے اسلام کے اس مجاہد کو بہکانے کی خوب کوشش کی لیکن وہ سارا دن نماز پڑھتا رہتا ۔ اسی طرح پوری رات تلاوت کرتے کرتے اورقیام وسجود میں گزرجاتی ۔ اس نوجوان نے کبھی بھی لڑکی کی طرف نہ دیکھا،بس ہر وقت یا دِالٰہی عزوجل میں مگن رہتا ۔ اسی طرح کافی دن گزرگئے۔مقررہ مدت ختم ہونے والی تھی۔ بادشاہ نے اس گورنر کو بلوایااورپوچھا:'' اس نوجوان کا کیا حال ہے؟ کیااس نے دین اسلام چھوڑ دیا ہے ؟''گورنر نے کہا :'' میں نے اپنی بیٹی کو اسی کام پرلگایا ہوا ہے،میں اس سے معلوم کر لیتاہوں کہ اسے کہاں تک کامیابی حاصل ہوئی ہے ؟''
گورنر اپنی بیٹی کے پاس آیا اورپوچھا :''بیٹی! اس نوجوان کا کیا حال ہے ؟'' لڑکی نے جواب دیا : ''ابّا جان !یہ تو ہر وقت گُم سُم رہتاہے ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ اس شہر میں اس کے دوبھائیوں کو ماردیا گیا ہے ،یہ ان کی یاد میں غمگین رہتا ہے اورمیری طرف بالکل متوجّہ نہیں ہوتا ۔اگر ایسا ہوجائے کہ ہمیں اس شہر سے کسی دو سرے شہر میں منتقل کردیا جائے اوربادشاہ سے مزید کچھ دنوں کی مہلت لے لی جائے، نئے شہر میں جانے سے اس نوجوان کا غم کم ہوجائے گا۔،پھر میں اسے ضرور اپنی طرف مائل کرلوں گی۔
اپنی بیٹی کی یہ بات سن کر وہ بے غیرت گورنر بادشاہ کے پاس گیا اور اسے ساری صورت حال بتا کر مدت میں طوالت اوران دونوں کے لئے کسی دوسرے شہر میں رہائش کے انتظام کا مطالبہ کیا۔ باد شاہ نے دونوں باتیں منظور کرلیں ۔ ان دونوں کو ایک دوسرے شہر میں بھیج دیااو ر کچھ دنوں کی مزیدمہلت دے دی۔ اب ایک ہی کمرے میں ایک حسین وجمیل دوشیزہ اوریہ متقی وپرہیزگار نوجوان ایک ساتھ رہنے لگے ۔وہ لڑکی روزانہ نئے نئے انداز سے بناؤ سنگھار کر کے نوجوان کو مائل کرنے کی کوشش کرتی لیکن اللہ عزوجل کا وہ نیک بندہ نماز وتلاوت میں مشغول رہتا، اس کی راتیں اللہ عزوجل کی بارگاہ میں آہ و زاری اورنیاز مندی میں گزر"
"جاتیں ۔ اسی طرح وقت گزرتا رہا مقررہ مدت ختم ہونے میں صرف تین دن باقی تھے ۔ اس لڑکی نے جب دیکھاکہ گناہ کے تمام تر مواقع میسر ہونے کے باوجود یہ عظیم نوجوان اپنے رب عزوجل کے خوف سے اوراپنے دین اسلام کے احکام پر عمل کرنے کے لئے میری طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا اوراپنے پروردگار عزوجل کی محبت میں مگن رہتاہے تو وہ لڑکی اس عظیم مجاہد سے بہت متاثر ہوئی اور دینِ اسلام کی عظمت اس کے دل میں بیٹھ گئی۔
چنانچہ ایک رات وہ اس نوجوان کے پا س آئی اورکہنے لگی: ''اے شرم وحیاکے پیکرعظیم و پاک دامن نوجوان! میں تمہاری عبادت وریاضت اورپاکدامنی سے بہت متاثر ہوئی ہوں اوراب میں تمہارے دین سے محبت کرنے لگی ہوں کہ جس کی تعلیمات ہی ایسی ہیں کہ کسی غیر عورت کو نہ دیکھا جائے تو جس دین میں ایسے اچھے اچھے احکامات ہوں یقینا وہی دین حق ہے ۔ میں آج اور ابھی عیسائیت سے توبہ کرتی ہوں اورتمہارے دین میں داخل ہوتی ہوں۔ مجھے کلمہ پڑھاکر اپنے دین میں داخل کرلیجئے ۔ پھراس لڑکی نے سچے دل سے عیسائیت سے توبہ کی اورکلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئی ۔
اب نوجوان نے اس لڑکی سے کہا :'' ہمیں اس ملک سے نکل جانا چاہے ورنہ جیسے ہی تمہارے اسلام کی خبر بادشاہ کو پہنچے گی وہ تمہاری جان کا دشمن ہوجائے گا۔ کیا کوئی ایسا طریقہ ہے کہ ہم اس ملک سے دور چلے جائیں ؟'' اس لڑکی نے کہا :''آپ بے فکر رہیں، میں آج رات ہی ساراانتظام کرلوں گی۔ آ پ تیار رہنا ہم آج رات ہی یہاں سے اسلامی ملک کی طرف روانہ ہو جائیں گے۔''جب رات نے اپنے پر پھیلائے تو نوجوان بالکل تیار تھا کیونکہ آج رات اسے اپنے ملک کی طرف روانہ ہونا تھا۔ کچھ دیر بعد وہ لڑکی آئی اورکہنے لگی:'' جلدی چلئے! باہر ہمارے لئے دو گھوڑے تیارہیں ،ہمیں فوراً یہاں سے نکلنا ہے۔ '' نوجوان کے ترغیب دلانے پر گورنر کی اس لڑکی نے جو مسلمان ہوچکی تھی، اپنے آپ کو سر سے لے کر پاؤں تک چادر میں چھپایا اورنوجوان کے پیچھے پیچھے چلنے لگی۔دونوں گھوڑوں پر سوار ہوئے اوراسلامی سرحد کی طرف بڑھنے لگے۔
وہ مجاہدآگے آگے یاد الٰہی عزوجل میں مصروف ،بڑی تیز رفتاری سے جانب منزل بڑھتا جارہا تھا ۔پیچھے یہ نو مسلم لڑکی تھی۔ چلتے چلتے جب کافی رات بِیت گئی تو ایک مقام پر انہیں گھوڑوں کے ٹاپوں کی آواز سنائی دی ۔ آواز سن کر وہ نو مسلم لڑکی گھبرا گئی۔ اس نے سمجھا شاید دشمن ہمارے تعاقب میں آرہے ہیں ،وہ کہنے لگی:'' اے نیک سیرت نوجوان! اس پاک پروردگار عزوجل کی بارگاہ میں دعاکرو جس پر ہم ایمان لائے ہیں کہ وہ ہمیں ہمارے دشمنوں سے چھٹکارا عطافرمادے ۔
ابھی لڑکی یہ بات کہہ ہی رہی تھی کہ چند شہسوار ان کے قریب آگئے۔انہیں دیکھ کر یہ دونوں بہت حیران ہوئے کیونکہ آنے والے شہسوار اس نوجوان کے بھائی تھے اوران کے ساتھ چند اورنورانی چہروں والے شہسوار بھی تھے ۔ جب نوجوان نے"
"اپنے بھائیوں کو دیکھاتوفرطِ محبت سے ان کی طرف لپکا،انہیں سلام کیااورپوچھا:''اے میرے بھائیو!تمہارے ساتھ کیا معاملہ ہوا؟''انہوں نے جواب دیا :''جب ہمیں اُبلتے ہوئے تیل میں غوطہ دیا گیا تو ہم سیدھے جنت الفردوس میں جاکر نکلے اوراللہ عزوجل نے ہمیں اپنا قرب خاص عطافرمایا ۔ اب اللہ عزوجل نے ہمیں تمہاری طرف بھیجا ہے اور ہمارے ساتھ ملائکہ کی ایک جماعت بھی آئی ہے ۔ ہمیں حکم ہوا ہے کہ تیری شادی اس نو مسلم خوش قسمت لڑکی سے کروادیں ۔ ہم تمہاری شادی کرانے آئے ہیں۔ چنانچہ فرشتوں کی نورانی بارات کی موجودگی میں اس عظیم نوجوان اور خوش قسمت نو مسلم لڑکی کا نکاح کر دیاگیا ۔پھر وہ دونوں بھائی ملائکہ کی جماعت کے ساتھ ایک سمت روانہ ہوگئے ۔
دولہا اور دلہن حسرت بھری نگاہوں سے اس نورانی قافلے کو دیکھتے رہے۔ جب یہ قافلہ نظروں سے اوجھل ہوگیا تو انہوں نے بھی ملک شام کی طرف کوچ کیا۔ ملک شام پہنچ کر انہوں نے وہیں مستقل رہائش اختیار کرلی ۔ لوگوں میں ان کا واقعہ بہت مشہور ہوچکا تھا اور پورے شام میں اس نوجوان کی پاکدامنی، اس کے بھائیوں کی شجاعت و بہادری ،اس نیک سیرت نو مسلم لڑکی کی قربانی اوراس کی دینِ اسلام سے محبت کے چرچے ہونے لگے اورآج تک ان کا واقعہ لوگوں میں مشہور ہے۔
پھر کسی شاعر نے ان خوش نصیب عظیم میاں بیوی کے بارے میں چند اشعار کہے، جن میں سے ایک شعر یہ بھی تھا :
؎ سَیُعْطٰی الصَّادِقِیْنَ بِفَضْلِ صِدْقٍ نَجَاۃٌ فِی الْحَیِاۃِ وَ فِی الْمَمَاتِ
ترجمہ:عنقریب صادقین کو ان کے صدق کے سبب دنیا اور آخرت میں نجات دی جائے گی ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علی وسلم
ٍٍ ( شیخ طریقت ،امیرِاہلِسنت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطارؔ قادری دامت برکاتہم العالیہ اپنے رسالہ'' حسینی دولہا'' میں یہ واقعہ نقل کرنے کے بعد ارشاد فرماتے ہیں:'' میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے!ان تینوں شامی بھائیوں نے ایمان پر استقامت کا کیسازبردست مظاہرہ کیا، ان کے دلوں میں ایمان کس قدرراسخ ہو چکا تھا، یہ عشق کے صرف بلندبانگ دعوے کرنے والے نہیں حقیقی معنیٰ میں مخلص عاشقانِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم تھے۔ دونوں بھائی جام شہادت نوش کر کے جنت الفردوس کی سرمدی نعمتوں کے حقدار بن گئے اور تیسرے نے روم کی حسینہ کی طرف دیکھا تک نہیں اور دن رات ربّ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت میں مصروف رہا اور یوں جو بہ نیت شکار آئی تھی خود اسیر بن کررہ گئی! ا س حکایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مشکلات میں سرکار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم سے مدد چاہنا اور یا رسول اللہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پکارنااہلِ حق کاقدیم طریقہ رہا ہے۔"
" ؎ یا رسول اللہ کے نعرے سے ہم کو پیار ہے
ان شاء اللہ عزوجل دو جہاں میں اپنا بیڑا پار ہے
اُس شامی نوجوان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عزم و استِقلال اوراس کی ایمان پر استِقامت مرحبا! ذراغور تو فرمایئے! نگاہوں کے سامنے دو پیارے پیارے بھائی جامِ شہادت نوش کر گئے مگر اس کے پائے ثَبات کو ذرا بھی لغزِش نہیں آئی نہ دھمکیاں ڈرا سکیں نہ ہی قید و بند کی صُعُوبتیں اسے اپنے عزم سے ہٹاسکیں۔ حق و صداقت کا حامی مصیبتوں کی کالی کالی گھٹاؤں سے بالکل نہ گھبرایا۔ طوفانِ بلا کے سیلاب سے اس کے پائے ثَبات میں جُنبش تک نہ ہوئی ۔ خداو مصطَفٰے عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلَّم کا شیدائی دنیا کی آفتوں کو بالکل خاطر میں نہ لایا۔ بلکہ راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں پہنچنے والی ہر مصیبت کا اس نے خوش دلی کے ساتھ خیر مقدم کیا، نیز دنیا کے مال اور حُسن وجمال کالالچ بھی اس کے عزائم سے اس کو نہ ہٹا سکا اور اس مردِ غازی نے اسلام کی خاطر ہر طرح کی راحتِ دنیا کے منہ پر ٹھوکر مار دی۔
؎ یہ غازی یہ تیرے پر اَسرار بندے جنہیں تو نے بَخشاہے ذوقِ خدائی
ہے ٹھوکر سے دو نِیم صحرا و دریا سِمَٹ کر پہاڑ ان کی ہیبَت سے رائی
آخرکار اللہ عزوجل نے رہائی کے بھی خوب اسباب فرمائے ۔وہ رومی لڑکی مسلمان ہو گئی اور دونوں رِشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے ۔'' (حسینی دولہا،ص۲۱تا۲۳)
(اے ہمارے پاک پروردگار عزوجل !ہمیں بھی شوقِ شہادت کے جذبے میں اخلاص واستقامت عطافرما۔ دین کی خاطر اپنا تن، من، دَھن سب کچھ قربان کرنے کی عظیم سعادت عطافرما۔ دین اسلام کی سربلندی کے لئے ہمیں خوب خوب تگ ودو کرنے کی توفیق مرحمت فرما۔ اے ہمارے مولیٰ عزوجل !ہمیں بھی دین اسلام پر ثابت قدم رکھ ۔ایمان وعافیت کے ساتھ سرکار مدینہ، راحتِ قلب وسینہ، فیض گنجینہ ،صاحبِ معطّرپسینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے جلوؤں میں شہادت کی موت عطافرما۔ ہمیں اپنی راہ میں سرکٹانے کی توفیق عطافرما۔ ان عظیم مجاہدوں کے صَدْقے بدنگاہی ، گندی سوچ اورگندے افعال سے ہماری حفاظت فرما۔ سرکار مدینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی جھکی جھکی باحیا آنکھوں کا واسطہ ہمیں بھی شرم وحیا سے ہر وقت نگاہیں نیچی رکھنے کی توفیق عطافرما۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)
؎ یاالٰہی عزوجل رنگ لائیں جب میری بے باکیاں
ان کی نیچی نیچی نظروں کی حیا کا ساتھ ہو"
" حضرت سیدنا فضل بن محمد رقاشی علیہ رحمۃ اللہ الکافی فرماتے ہیں،میں نے ایک مرتبہ حضرت سیدنا معروف کرخی علیہ رحمۃ اللہ القوی کو دیکھا کہ آپ زاروقطار رو رہے ہیں،میں نے عرض کی: ''حضور !آپ کو کس چیزنے رُلایا ہے ؟''ارشاد فرمایا:'' دنیا سے نیک لوگ رخصت ہوگئے اوراب صورتحال یہ ہے کہ لوگ دنیاوی نعمتوں کے حریص ہوگئے ہیں ، دین سے دوری اختیار کرلی ہے ۔ لوگوں نے آخرت کو بالکل بھلا دیاہے اوردنیا میں مگن ہوکر رہ گئے ہیں۔'' یہ درد بھرے کلمات کہنے کے بعد آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اُٹھے اور بازار کی طرف چل دیئے ۔ میں بھی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ساتھ ہولیا۔ بازار میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے بھائی کی آٹے کی دکان تھی ۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ دکان پر تشریف لے گئے ۔اپنے بھائی کو سلام کیا اوربیٹھ گئے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے بھائی نے سلام کا جواب دیا اور کہا :''بھائی جان !آپ کچھ دیر یہیں دکان میں بیٹھیں، مجھے کچھ ضروری کام ہے، میں اس سے فارغ ہوکر ابھی آتاہوں،آپ دکان کا خیال رکھئے گا۔''اتناکہنے کے بعد آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا بھائی اپنے کام سے چلا گیا۔
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ دکان پر بیٹھے ہوئے تھے ،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے دیکھا کہ کچھ اورفقراء ومساکین بازار میں موجود ہیں ۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے انہیں بلایااورآٹا دینا شروع کردیا۔فقراء ومساکین آتے رہے اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بغیر کسی عوض کے ان کو آٹا دیتے رہے یہاں تک کہ دکان میں موجود تمام آٹافقراء ومساکین میں تقسیم کر دیا۔
جب آ پ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا بھائی آیا اور اس نے صورتحال دیکھی تو پوچھا :'' آٹاکہاں گیا؟''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ''وہ آٹا میں نے فقراء ومساکین میں تقسیم کردیا۔'' یہ سن کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کابھائی کہنے لگا:'' بھائی جان !آپ نے تو مجھے کنگال کردیا ہے ۔''
بھائی کی یہ بات سن کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وہاں سے اُٹھے اور مسجد کا رخ کیاپھر عبادت الٰہی عزوجل میں مشغول ہوگئے ۔ جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے بھائی نے گَلَّہ کھولا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ گَلَّہ دراہم سے بھرا ہوا ہے۔ جب حساب لگایا تو اس گَلَّے میں اتنے درہم تھے کہ ایک درہم کے بدلے ستر درہم نفع ہوا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا بھائی بہت حیران ہوااوردل میں کہنے لگا : ''یہ سب میرے بھائی کی برکت سے ہوا ہے ۔''
چند دن بعد آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا بھائی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس آیا اور سلام عرض کیا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جواب دیا اورپوچھا :'' بھائی کیسے آنا ہوا؟''اس نے کہا :'' بھائی جان !کل آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ میری دکان پر کچھ دیر کے لئے تشریف لائیں تو یہ میرے لئے سعادت ہوگی ۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ''تم یہ بات اس لئے کہہ رہے ہو کہ اُس دن تمہیں بہت زیادہ نفع"
"ہوا۔ اب میں تمہاری دکان پر نہیں آؤں گا اور ہر مرتبہ ایسے معاملات نہیں ہوتے ،اس میں میرا کوئی کمال نہیں۔
پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:''پاک ہے میراپروردگار عزوجل، تمام تعریفیں اسی کے لئے ہیں، وہ اپنی مخلوق کو جیسے چاہے رزق عطافرمائے،جس پر چاہے جود وعطاکی بارش فرمائے،وہ مالک و مختارہے اورہم اس کے عاجز بندے ہیں۔'' پھر فرمایا: ''اگرہم اللہ عزوجل سے دنیاوی نعمتوں کا سوال کرتے تو وہ ہمیں منع نہ فرماتا لیکن ہم نے تو اپنے پروردگار عزوجل سے یہ سوال کیاہے کہ '' وہ ہمیں دنیاوی مال ودولت سے محفوظ رکھے ۔الحمدللہ عزوجل ! اس پاک پرورد گار عزوجل نے ہماری یہ دعا قبول فرما لی اور ہمیں دنیاوی مال ودولت کی حرص سے محفوظ رکھا ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علی وسلم"
" حضرت سیدنا علی بن محمد شیرازی علیہ رحمۃ اللہ الہادی فرماتے ہیں، میں نے حضرت سیدنا ابراہیم بن احمد خواص علیہ رحمۃ اللہ الرزّاق کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ''میں نے ایک نوجوان کو دیکھاجس نے دو چادریں اپنے جسم پر لی ہوئی تھیں، ایک کا تہبند بنایاہوا تھا اوردوسری کندھوں اور بقیہ جسم پر ڈالی ہوئی تھی۔ وہ خوبصورت نوجوان خانہ کعبہ کے گرد طواف کررہاتھا۔ کافی دیر تک وہ طواف کرتا رہا پھر نماز پڑھناشروع کردی، وہ نوجوان دنیاومافیہا (یعنی دنیااور جو کچھ اس میں ہے)سے بے خبراپنے رب عزوجل کی عبادت میں مصروف تھا ۔ اس کی نورانی چہرے اورعبادت وریاضت کو دیکھ کر میرے دل میں اس کی عظمت بیٹھ گئی اور وہ میری نظروں میں بہت زیادہ معزز ہوگیا۔میں روزانہ اس نوجوان کو اسی طرح طواف ونماز میں مشغول دیکھتا۔ میرے پاس چار سو درہم تھے۔ میں انہیں لے کر اس نوجوان کے پاس گیا ،وہ مقامِ ابراہیم علیہ السلام کے پا س بیٹھا ہوا تھا۔
میں نے تمام درہم اس کے قریب رکھ دیئے اورکہا:''اے میرے بھائی ! یہ حقیر سا نذرانہ میری طرف سے قبول کرلو اوراس رقم کے ذریعے اپنی ضروریات پوری کرو ۔''اس پر وہ نوجوان کھڑا ہو ااور تمام درہم اٹھا کر اِدھر اُدھر رکھ دیئے اورکہنے لگا: ''اے ابراہیم علیہ رحمۃ اللہ القدیم!میں نے اللہ عزوجل کی راہ میں ستر ہزار دینار خرچ کئے ہیں پھر مجھے یہ حالت اوراس جگہ عبادت کی سعادت نصیب ہوئی ہے اورآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مجھے اللہ عزوجل کی عبادت سے دورکرنا چاہتے ہیں اوروہ بھی اتنی کم رقم کے عوض ۔''"
" حضرت سیدنا ابرہیم خواص علیہ رحمۃ اللہ الرزاق فرماتے ہیں:''اس نوجوان کی یہ بات سن کر میں شرم سے پانی پانی ہوگیا اور اپنے آپ کو سب سے زیادہ حقیر سمجھنے لگا، پھر میں نے وہ درہم جمع کرنا شروع کر دیئے۔میں بکھرے ہوئے دراہم اٹھا رہا تھا اوروہ نوجوان میر ی طرف دیکھ رہا تھا۔آج میری نظروں میں اس سے زیادہ معزز کوئی نہ تھا۔وہ مجھے سب سے زیادہ متقی اورپرہیز گار نظر آ رہا تھا ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علی وسلم"
" حضرت سید نا علی بن محمد علیہ رحمۃ اللہ الصمد فرماتے ہیں، میں نے حضرت سیدنا ابراہیم خواص علیہ رحمۃ اللہ الرزاق کو یہ فرماتے ہوئے سنا :''میں تقریباً سترہ سال تک جنگلوں اور صحراؤں میں پھرتا رہا اورمختلف مقامات پر اپنے ربّ عزوجل کی عبادت کرتا رہا ۔ ان سترہ سالوں میں مجھے جو سب سے زیادہ عجیب واقعہ پیش آیا وہ یہ تھا :''ایک مرتبہ میں نے جنگل میں ایک ایسے شخص کو دیکھا جس کے دونوں ہاتھ پاؤں کٹے ہو ئے تھے اور وہ گھِسٹ گھِسٹ کر چل رہا تھا ۔ اس کے علاوہ بھی وہ بہت سی مشکلات سے دوچار تھا۔ میں اسے دیکھ کر بہت حیران ہو ا اور مجھے اس پر ترس آنے لگا، میں نے قریب جا کر اسے سلام کیا ،اس نے میرا نام لے کر جواب دیا۔ اس کے منہ سے اپنا نام سن کر مجھے بڑی حیرت ہوئی ،میں نے اس سے پوچھا :'' آپ سے یہ میری پہلی ملاقات ہے، پھر آپ نے میر انام کیسے جان لیا؟''
تووہ کہنے لگا:''جو ذات تجھے میرے پاس لائی ہے اسی نے مجھے تمہاری پہچان کرادی ہے۔'' میں نے کہا: ''آپ نے بالکل بجا فرمایا، واقعی میرا پروردگار عزوجل ہرچاہے پر قادر ہے۔'' پھر میں نے اس سے پوچھا: ''آپ کہاں سے آئے ہیں اور کہاں جانے کا ارادہ ہے؟'' اس نے کہا: ''میں شہر ''بخارا ''سے آرہا ہوں اور'' حرمین طیبین'' کی طرف جارہا ہوں۔''یہ سن کر مجھے بڑا تعجب ہوا کہ نہ ا س شخص کے ہاتھ ہیں نہ پاؤں۔ پھر یہ بخارا سے یہاں تک کیسے پہنچا اوراب یہ مکہ مکرمہ(زادھا اللہ شرفاًوتعظیماً) تک جانا چاہتا ہے جو یہاں سے کافی فاصلے پر ہے، یہ وہاں تک تنِ تنہا کیسے پہنچے گا؟میں انہیں خیا لات میں گم بڑی حیرت بھری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
اس شخص نے میری طرف جلال بھری نگاہ ڈالی اور کہنے لگا:'' اے ابراہیم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ !کیا تجھے اس بات پرتعجب ہورہا ہے کہ قادر وقدیر پروردگار عزوجل مجھ جیسے ضعیف واپاہج کو یہاں تک لے آیا۔''اتنا کہنے کے بعد اس شخص کی آنکھوں سے سیلِ"
"اشک رواں ہوگیا اوروہ زارو قطار رونے لگا۔میں نے اسے کہا:''آپ بالکل پریشان نہ ہوں، اللہ عزوجل کی رحمت ہر شخص کے ساتھ ہے ،وہ کسی کو مایوس نہیں کرتا۔''
پھر میں اسے وہیں چھوڑ کر آگے روانہ ہوگیا، میرا بھی اس سال حج کا ارادہ تھا جب میں مکہ مکرمہ (زادھا اللہ شرفاًوتعظیماً ) پہنچا اور طواف کے لئے خانہ کعبہ میں حاضر ہوا تو یہ دیکھ کرحیران رہ گیا کہ وہی اپاہج شخص مجھ سے پہلے خانہ کعبہ پہنچا ہوا ہے اور مشغولِ طواف ہے، وہ گھِسٹ گھِسٹ کر طواف کر رہا تھا ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علی وسلم"
" حضرت سیدنا عبداللہ بن وہب علیہ رحمۃ الرب حضرت سیدنا ابراہیم علیہ رحمۃ اللہ العظیم سے نقل فرماتے ہیں: ''بنی اسرائیل میں ایک نوجوان تھا جواہلِ دنیا سے الگ تھلگ ایک عبادت خانے میں اللہ عزوجل کی عبادت کیا کرتا تھا۔ وہ ہر وقت یاد الٰہی عزوجل میں مشغول رہتا۔کچھ بد باطن لوگ اس نوجوان سے حسد کرنے لگے اورانہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ کسی طرح اس نوجوان کو ذلیل کرنا چاہے۔
بہرحال حاسدین کی وہ جماعت ہر وقت اس عابد وزاہد نوجوان کو ذلیل کرنے کی فکر میں سرگرداں رہنے لگی۔بالآخر ان کے گندے ذہنوں میں یہ خیال آیا کہ فلاں عورت جو بہت زیادہ حسین وجمیل اورفاحشہ ہے، اس کو لالچ دے کر اس بات پر راضی کیا جائے کہ وہ اس عابدنوجوان کو اپنے فتنے میں مبتلا کر ے۔
چنانچہ ان بدبختوں کی وہ جماعت اس فاحشہ عورت کے پاس آئی اور کہا:'' اگر تو اس نوجوان کو اپنے فتنے میں مبتلا کر دے تو ہم تجھے مالا مال کردیں گے، ہمیں امید ہے کہ تو اسے رسوا وذلیل کرسکتی ہے۔ چنانچہ وہ فاحشہ عورت اس فعلِ مذموم کے لئے تیار ہو گئی اورایک رات اس نوجوان کے عبادت خانہ کی طرف چلی۔رات بہت اندھیری تھی، اُوپر سے بارش شروع ہوگئی ۔ عورت نے اس نوجوان کو پکار ا:''اے اللہ عزوجل کے بندے ! مجھے پناہ دو۔''نوجوان نے اوپر سے جھانکاتودیکھاکہ ایک جوان عورت دروازے پر کھڑی ہے اور اندر آنے کی اجازت مانگ رہی ہے۔'' اس نوجوان نے سوچا کہ اس وقت اتنی رات گئے کسی غیر محرم عورت کو داخلے کی اجازت دینا خطرے سے خالی نہیں ، چنانچہ وہ نوجوان واپس اندر چلا گیا اور نماز میں مشغول ہو گیا۔ عورت نے دوبارہ ندا دی : ''اے اللہ عزوجل کے بندے !باہر بہت زیادہ بارش ہورہی ہے اورسردی بھی بہت زیادہ ہے، خدارا!"
" مجھے ایک رات کے لئے پناہ دے دو۔'' بار بار وہ عورت یہی التجاء کرتی رہی آخر کار نوجوان نے ترس کھاتے ہوئے اسے پناہ دے دی اورخود ذکرو اذکار میں مشغول ہوگیا۔
فاحشہ عورت سینہ کھولے نیم عریاں حالت میں اس نوجوان کے سامنے آئی اور گناہ کی دعوت دیتے ہوئے اپنا آپ اس کے سامنے پیش کردیا۔ باحیا نوجوان نے فوراً نگاہیں جھکا لیں اور اس سے دورہوگیا۔ وہ دوبارہ اس کے پاس آئی اورگناہ کی دعوت دینے لگی ، نوجوان نے کہا:'' اللہ عزوجل کی قسم!میں ہرگز یہ گناہ نہیں کروں گا جب تک میں آزما نہ لوں کہ اگر میرا نفس گناہ کرے تو کیا وہ اس گناہ کے بدلے جہنم کی آگ برداشت کرلے گا۔'' پھر وہ نوجوان جلتے ہوئے چراغ کی طرف بڑھا اور اپنی انگلی اس پر رکھ دی یہاں تک کہ انگلی جل گئی ۔پھر وہ عبادت میں مشغول ہوگیا ،فاحشہ عورت نے قریب آ کر پھر اسے گناہ کی دعوت دی تو نوجوان نے اپنی دوسری انگلی جلا ڈالی، اسی طرح وہ فاحشہ عورت بار بار اسے گناہ کی دعوت دیتی رہی اور نوجوان اپنی انگلیاں جلاتا رہا، بالآخر اس پاکدامن متقی وپرہیز گار نوجوان نے اپنی ساری انگلیاں جلا ڈالیں لیکن غیر محرم عورت کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھا اور اپنی عزت کی حفاظت کرتا رہا۔ جب اس فاحشہ نے یہ صورتحال دیکھی کہ اس نوجوان نے ایک گناہ سے بچنے کے لئے اپنی ساری انگلیاں جلا ڈالی ہیں تو اس نے ایک زور دار چیخ مار ی اور تڑپ تڑپ کر مرگئی۔''
(صدہزار آفرین! اس نوجوان پر! جو اللہ عزوجل کے خوف سے ایسے وقت میں گناہ سے بازرہا جب ارتکابِ گناہ سے اسے کو ئی چیز مانع نہ تھی۔جنہیں اللہ عزوجل کا خوف ہوتاہے وہ ہر حال میں چاہے خلوت ہو یا جلوت ،اللہ عزوجل سے ڈرتے ہیں اور گناہوں کی طرف راغب نہیں ہوتے۔ اس نوجوان نے اپنی انگلیاں تو جلا ڈالیں لیکن ایک نظر بھی اس فاحشہ پر ڈالنا گوارا نہ کی، حقیقت یہ ہے کہ جس کے ساتھ اللہ عزوجل کی مدد ہوا سے کوئی رسوا وذلیل نہیں کرسکتا۔ جسے اللہ عزوجل توفیق عطافرماتاہے وہ گناہوں سے بچنے کی راہیں نکال لیتاہے۔ حاسدین نے توخوب کوشش کی کہ کسی طرح اس نوجوان کو ذلیل کریں لیکن جسے اللہ عزوجل عزت دے اسے کون ذلیل کرسکتاہے ،اس قادرِ مطلق عزوجل کے سامنے کسی کی کیا مجال! وہ جسے چاہے عزت دے ،جسے چاہے ذلیل کرے ، وہ جسے بلند کرنا چاہے اسے کوئی پست نہیں کرسکتا۔)
(اللہ عزوجل کی اُس نوجوان پر رحمت ہو..اور.. اُس کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علی وسلم
؎ فانوس بن کر جس کی حفاظت ہوا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے"
" حضرت سیدنا ابو عثمان نیشاپوری علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:''ایک مرتبہ ہم چند رفقاء اپنے استاد محترم حضرت سیدنا ابوحفص نیشاپوری علیہ رحمۃ اللہ القوی کے ساتھ نیشاپور سے دور ایک شہر کی طرف سفر پر روانہ ہوئے۔ ایک جگہ ہم نے قیام کیا تو ہمارے استاذِ محترم ہمیں وعظ ونصیحت فرمانے لگے،ان کی مخلصانہ اورحکمت بھری باتیں سن کرہمیں دلی سکون حاصل ہوا اورنیک اعمال کی طرف ہماری رغبت بڑھ گئی، استاد محترم ہمیں نصیحت فرما رہے تھے کہ اسی دوران سامنے موجود پہاڑ سے ایک فربہ ہرنی اُتری اورہمارے استاد حضرت سیدنا ابو حفص رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے سامنے آکر کھڑی ہوگئی۔ہرنی کو دیکھ کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ رونے لگے اوراتنا روئے کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ہچکیاں بندھ گئیں ۔
پھر جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو کچھ سکون حاصل ہوااورآ پ خاموش ہوئے تو میں نے عرض کی: اے ہمارے محترم استاد! آپ (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)ہمیں کتنا پیارا درس دے رہے تھے اورہمارے دلوں میں آپ (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)کی باتوں سے رِقّت اور سوزوگداز پیدا ہورہا تھا لیکن جب یہ ہرنی سامنے آئی تو آپ (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)نے زاروقطار روناشروع کردیا،آخر اس ہرنی کو دیکھ کر رونے میں کیا حکمت ہے؟''
یہ سن کرآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' ہاں!میں تمہیں بتاتاہوں کہ میں کیوں رو یا۔بات دراصل یہ ہے کہ ہم سب مسافر ہیں اورہمارے پاس زادِ راہ بھی وافر مقدار میں نہیں۔ جب میں تمہیں درس دے رہا تھا تو اچانک میرے دل میں یہ خیال آیا کہ اے کاش! میرے پا س کوئی بکری ہوتی جسے ذبح کر کے میں تمہاری دعوت کرتا۔ ابھی یہ خیال میرے دل میں آیا ہی تھا کہ فورا ً میرے سامنے یہ ہرنی آگئی۔
اسے دیکھ کر میرے دل میں یہ خوف پیدا ہوا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ اللہ عزوجل مجھے میرے نیک اعمال کا بدلہ دنیا ہی میں دے رہا ہواور کہیں میرا ربّ عزوجل مجھ سے ناراض تو نہیں ؟کیونکہ جس سے اللہ عزوجل ناراض ہوتاہے اسے دنیا ہی میں اس کے اچھے عمل کا بدلہ دے دیتاہے جیسا کہ فرعون اللہ عزوجل کا دشمن تھا لیکن جب اس نے اللہ عزوجل سے دعا کی کہ دریائے نیل جاری ہوجائے تو اللہ عزوجل نے اس کی دعا قبول کرلی اوردریائے نیل جاری فرمادیا حالانکہ وہ اللہ عزوجل کا دشمن تھا لیکن پھر بھی اس کی خواہش دنیا میں پوری کردی گئی،آخرت میں ایسے لوگوں کا کوئی حصہ نہیں۔ مجھے بھی یہ خوف ہونے لگا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ مجھے میرے نیک اعمال کا بدلہ دنیا ہی میں دیا جارہا ہو اورآخرت میں میرے لئے کچھ بھی نہ بچے اورمیں وہاں مفلس رہ جاؤں،بس اسی خیال نے مجھے رُلادیا۔ (اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علی وسلم"
" حضرت سیدنا محمد بن زیادعلیہ رحمۃ الجواد بہت متقی و پرہیزگاربزرگ تھے۔ان پر ہر وقت خوفِ خدا عزوجل کا غلبہ رہتا اور روتے ہی رہتے ۔بہت زیادہ رونے کی وجہ سے ان کی بینائی ختم ہوچکی تھی ،آپ ر حمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا: ایک مرتبہ میں نے حضرت سیدنا ابراہیم خوّاص علیہ رحمۃ الرزاق سے پوچھا: ''حضور!آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ! اتنا عرصہ جنگلوں اور صحراؤں میں اللہ عزوجل کی عبادت کرتے رہے ،کیا اس دوران کبھی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو کوئی بہت عجیب وغریب واقعہ پیش آیا؟''
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' ایک مرتبہ مجھے ایک بہت ہی عجیب وغریب واقعہ پیش آیا۔ ہوا یوں کہ ایک رات میں جنگل میں سو رہا تھا، اچانک میرے پاس شیطان لعین آیااور غصیلے انداز میں کہنے لگا:''یہاں سے اٹھو اور کہیں اور چلے جاؤ۔'' تومیں نے اس سے کہا :''اے مردود!یہاں سے دفع ہوجا۔'' شیطان کہنے لگا:'' یا تو تُو شرافت سے اٹھ جا۔یا پھر تجھے ایسی ٹھوکر ماروں گا کہ تو ہلاک ہوجائے گا۔'' میں نے کہا:'' (اے مردود!)تجھے جو کرنا ہے کرلے ، تو میرا بال بھی بِیکا نہیں کرسکتا۔'' شیطان نے جب میری یہ با ت سنی تو بڑے زور سے مجھے ٹھوکر ماری لیکن مجھے اس کی ٹھوکر ایسے معلوم ہوئی جیسے میرے جسم پر کسی نے گھاس وغیرہ پھینکی ہو یعنی مجھے اس کی ٹھوکر سے بالکل کوئی تکلیف نہ ہوئی ۔
یہ دیکھ کر شیطان کہنے لگا :''تم مجھے اللہ عزوجل کے ولی معلوم ہوتے ہو، تم کون ہو؟''میں نے کہا: ''میرا نام ابراہیم خوّاص (علیہ رحمۃ الرزاق) ہے۔''شیطان نے پوچھا: ''تم نے بالکل ٹھیک کہا،اب میری بات غور سے سنو!کچھ اشیاء حرام ہیں اور کچھ حلال۔ حلال تو وہ چیزیں ہیں جو پہاڑوں وغیرہ میں اُگتی ہیں،یہ مباح ہیں اور وہ چیزیں جو خیانت اوردھوکے سے حاصل کی جائیں، وہ ناجائز ہیں ،(پھر شیطان کہنے لگا)مجھے دریا کے کنارے دو ماہی گیر ملے جومچھلیاں پکڑ رہے تھے۔ اصلاً تو دریا وسمندر وغیرہ کی مچھلیاں مباح وجائز ہیں۔ جوانہیں پکڑلے وہ اس کی ملکیت میں آجاتی ہیں لیکن وہ دونوں ماہی گیرخائن اور دھوکے باز تھے۔ اے ابراہیم خوّاص (علیہ رحمۃ الرزاق)! ہمیشہ حلال کھاؤ اور حرام اشیاء سے کنارہ کشی اختیار کرو۔''
(اللہ عزوجل ہمیں ہروقت اپنی حفظ و امان میں رکھے ،شیطان کے مکروفریب سے ہماری حفاظت فرمائے اورہمارے دلوں سے اپنے خوف کے علاوہ سب مخلوق کا خوف نکال دے ،اور ہمیں صرف اپنا ہی محتاج رکھے ، اللہ عزوجل ہمارے اسلا ف رحمۃاللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے صدقے ہمیں بھی عبادت وریاضت میں اخلاص کی دولت نصیب فرمائے اور اپنی دائمی رضا عطافرمائے، حرام اشیاء سے ہمیں محفوظ رکھے اور رزق حلال کمانے اور کھانے کی توفیق عطافرمائے ۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم )"
" حضرت سیدنا ابو بکر حری علیہ رحمۃ اللہ القو ی فرماتے ہیں،میں نے حضرت سیدنا سری سقطیعلیہ رحمۃ اللہ القوی کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ''میں تقریباً بیس سال تک ساحلوں، جنگلوں ، پہاڑوں اورصحراؤں میں صرف اس لئے گھومتا رہا کہ شاید اللہ عزوجل کے کسی ولی سے ملاقات ہوجائے اور میں اس کی صحبتِ بابرکت سے فیض حاصل کروں، ایک دن اسی مقصدکے تحت میں ایک جنگل میں گیا۔ وہاں مجھے ایک غار نظر آیا ۔میں اس غار میں داخل ہوا تو دیکھا کہ وہاں ایک لُنجا، دو اندھے اوربہت سے کوڑھ کے مریض موجود تھے، میں نے ان سے پوچھا: ''تم لوگ یہاں کیا کر رہے ہو اوراس ویران جنگل میں اس وقت تم کس لئے جمع ہوئے ہو؟تو انہوں نے جواب دیا: ''ہم اللہ عزوجل کے ایک ولی کا انتظار کر رہے ہیں ،جس کی شان یہ ہے کہ وہ جس بیمارپر اپنا مبارک ہاتھ رکھ دیتا ہے اس کی سب بیماریاں دور ہو جاتی ہیں۔آج وہ یہاں آ ئے گا، ہم اس کے انتظار میں یہاں جمع ہیں ۔ ''
حضرت سیدنا سری سقطی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں،میں نے دل میں کہا:''ان شاء اللہ عزوجل آج میری مراد پوری ہو جائے گی اورآج میں کسی ولی ئ کامل کی زیارت سے ضرورمشرف ہوں گا۔''چنانچہ میں بھی ان مریضوں کے ساتھ بیٹھ گیا اوراس
ولی ئ کامل کاانتظار کرنے لگا ، انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اورایک نہایت کمزور ونحیف شخص اُون کا جُبہ زیب تن کئے ہماری طرف آیا، اس نے آتے ہی سلام کیا اوربیٹھ گیاپھر اندھے شخص کو اپنے پاس بلایا۔اس کی آنکھوں کی طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا تو وہ اندھا فوراً اکھیارا ہوگیا۔
پھر اس مردِ صالح نے اپنے دستِ مبارک سے لنُجے شخص کی طرف اشارہ کیا،وہ بھی فوراً درست ہوگیاپھر کوڑھ کے مریضوں کو بلایا اوران کی طرف بھی اپنا ہاتھ بڑھا کر اشارہ کیا توسب کے سب کوڑھ پن سے نجات پاگئے اوربالکل تندرست ہو گئے،جب وہاں موجود تمام مریضوں کو اپنے اپنے مرض سے شفامل گئی تو وہ نیک شخص اٹھا اور جانے لگا۔
حضرت سیدنا سری سقطی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:''جب میں نے اسے جاتے دیکھا تومیں فوراً اٹھاا وران کا دامن تھام لیا۔'' وہ کہنے لگا:'' اے سری علیہ رحمۃ اللہ القوی !تو میری طرف راغب نہ ہو، بے شک اللہ عزوجل غیّور ہے ۔ اللہ کی بارگاہ میں تیرا مقام ومرتبہ بہت بلند ہے لیکن اس نے تیرا راز پوشیدہ رکھاہوا ہے۔ اگر تو اسے چھوڑ کر کسی اورکی طرف راغب ہوگا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی بارگاہ میں تیری قدرومنزلت کم ہوجائے۔ بس اس ایک ذات پر کامل بھروسہ رکھ اوراسی کی طرف ہر دم متوجہ رہ۔''"
" ماقبل میں مذکور حکایت اس طرح بھی منقول ہے :حضرت سیدنا سری سقطی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:''میں اللہ عزوجل سے چالیس سال تک یہ دعا کرتا رہا کہ وہ مجھے اپنا کوئی کامل ولی دکھا دے، اے کاش ! میں اس کے سچے عاشق کی ایک جھلک دیکھ لوں، ایک مرتبہ میں ''لکام ''کی پہاڑیوں میں تھا، وہاں ایک جگہ میں نے بہت سے مریضوں کو جمع دیکھا۔ میں نے ان سے پوچھا:'' تم لوگ یہاں کیوں جمع ہو ؟'' انہوں نے کہا: ''مہینے میں ایک مرتبہ یہاں اللہ عزوجل کا ایک نیک بندہ آتا ہے، وہ ہم جیسے مریضوں کے لئے دعا کرتاہے، اس کی دعا کی برکت سے مریض فوراً تندرست ہوجاتے ہیں، آج ان کے آنے کا دن ہے، بس وہ آنے والا ہی ہوگا، ابھی ہم یہ باتیں کرہی رہے تھے کہ ایک نورانی چہرے والا شخص ہماری طرف آیا، پھر اس نے کچھ پڑھا اورسب مریضوں پر دم کیا۔ فوراً سارے مریض تندرست ہوگئے پھر وہ مردِصالح وہاں سے اٹھا اور واپس جانے لگاتو میں بھی اس کے پیچھے ہولیاا ورعرض کی: ''اے اللہ عزوجل کے بندے! کچھ دیر کے لئے ٹھہر جاؤ، میں تم سے کچھ باتیں کرنا چاہتاہوں ۔''
وہ نیک بندہ میری طرف متوجہ ہوا اورکہنے لگا:'' اے سری سقطی علیہ رحمۃ اللہ القوی! اللہ عزوجل کے علاوہ کسی اورکی طرف متوجہ نہ ہو، ہر وقت اسی کی یاد میں مگن رہ، کسی اورکی طرف التفات ہی نہ کر، ورنہ خطرہ ہے کہ کہیں تو اس کی بارگاہ میں غیر مقبول نہ ہوجائے۔ لہٰذا اس کے علاوہ کسی اورکی طرف متوجہ نہ ہو، اتنا کہنے کے بعد اللہ عزوجل کا وہ نیک بندہ جس سمت سے آیا تھا اسی طرف چلا گیا۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدنا محمد بن سہل بن عسکر بخاری علیہ رحمۃ اللہ الباری فرماتے ہیں،میں نے مکہ مکرمہ (زاد ھا اللہ شرفاًوتعظیماً) میں ایک جگہ دیکھا کہ ایک مغربی شخص خچر پر سوا ر ہے اوراس کے آگے آگے ایک منادی یہ ندا کر رہاہے :''ہماری ایک تھیلی گم ہوگئی ہے اگر کوئی شخص وہ تھیلی ہم تک پہنچا دے تو اسے بطورِ انعام ایک ہزار دینار دیئے جائیں گے۔''منادی مسلسل یہ اعلان کرتا جارہا تھا۔
اچانک بوسیدہ لباس پہنے ہوئے ایک معذور شخص آیا،جو بظاہر بہت غریب ومفلس معلوم ہورہا تھا۔اس نے مغربی شخص سے کہا:'' تمہاری گمشدہ تھیلی کی کیا علامت ہے ؟ اس کی کوئی نشانی بتاؤ؟'' چنانچہ مغربی شخص نے اس تھیلی کی نشانیاں بتانا شروع"
"کیں اور پھر کہنے لگا:'' اس میں لوگوں کی امانتیں رکھی ہوئی ہیں اورامانت رکھنے والوں کے نام بھی اس تھیلی میں موجود ہیں کہ فلاں کی اتنی رقم امانت ہے اورفلاں کی اتنی۔''اس معذور شخص نے کہا:'' تم میں سے پڑھنا کون جانتاہے ؟''حضرت سیدنا ابن عسکر بخاری علیہ رحمۃ اللہ الباری نے فرمایا: ''میں پڑھنا جانتاہوں۔''تواس معذور شخص نے کہا:'' تم سب میرے ساتھ آؤ۔'' چنانچہ ہم اس کے ساتھ چل دیئے، وہ ہمیں راستے سے ایک طرف ایک وادی میں لے گیا پھر اس نے ایک جگہ سے تھیلی نکالی اور مجھے پکڑ ادی پھر اس مغربی شخص سے کہا:'' بتاؤ! اس تھیلی میں کس کس کی کتنی کتنی رقم امانت ہے ؟'' مغربی شخص نے بتایا :''پانچ سودرہم فلاں بن فلاں کے ہیں، سو درہم فلاں کے ہیں۔'' اسی طرح اس نے سب کے نام گنوا دیئے، میں ساتھ ساتھ سب کے نام پڑھتا جا رہاتھا جس طرح مغربی شخص نے بتایا تھا واقعی اسی طرح اتنی ہی مقدار میں رقم تھیلی میں موجود تھی ۔
پھر اس معذور شخص نے کہا:'' یہ تھیلی اس مغربی شخص کو دے دو۔'' چنانچہ میں نے وہ تھیلی اس شخص کو دے دی ،اس نے اپنی طرف سے ایک ہزار دینار اس معذور شخص کو دیتے ہوئے کہا :''یہ تمہارا انعام ہے جس کا میں نے وعدہ کیا تھا کہ جو شخص ہماری تھیلی ڈھونڈکر دے گا اسے ایک ہزار دینار بطورِ انعام دیئے جائیں گے لہٰذا تم اس انعام کے مستحق ہو، لو! یہ ایک ہزار دینار رکھ لو۔ '' اس معذور شخص نے کہا: ''میرے نزدیک تمہاری اس تھیلی کی قیمت دو مینگنیوں جتنی بھی نہیں پھر میں تم سے ایک ہزار دینار کیسے لے لوں ؟''جاؤ! مجھے تمہاری رقم کی ضرورت نہیں۔'' اتنا کہنے کے بعد وہ معذور شخص وہاں سے اٹھا اور ایک جانب چل دیا۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)
(سبحان اللہ عزوجل !اولیاء کرام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ایسے ہوتے ہیں کہ جن کے دلوں میں دنیاوی مال ومتاع کی کوئی وقعت نہیں ہوتی، ان کی نظروں میں بڑی سے بڑی رقم بھی حقیر ہوتی ہے ،انہیں مال ودولت کی حرص نہیں ہوتی بلکہ ان کامقصد تو رضائے الٰہی عزوجل کا حصول ہوتا ہے، وہ آخرت کے طالب ہوتے ہیں اور اس کی طلب میں دن رات تگ ودو کرتے ہیں ۔ انہیں نہ تو دنیا سے سروکار ہوتاہے اورنہ ہی دنیا داروں سے ۔وہ تو بس اپنے خالق حقیقی عزوجل کی خوشنودی چاہتے ہیں اورہر کام اسی کی رضا کے لئے کرتے ہیں، اللہ عزوجل ہمیں بھی ان بزرگوں کے صدقے دنیاوی مال ودولت کی حرص سے بچائے اورآخرت کی تیاری کرنے کی توفیق عطافرمائے ،دنیا کی محبت ہمارے دلوں سے مٹا کر اپنی محبت کی نعمت سے ہمیں مالا مال فرمائے ۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)
؎ مرے دل سے دنیا کی الفت مٹا دے
مجھے اپنا عاشق بنا یا الٰہی عزوجل!"
" حضرت سیدنا ابراہیم بن شیبان علیہ رحمۃ اللہ المنّان فرماتے ہیں،میں نے حضرت سیدنا ابو عبداللہ مغربی علیہ رحمۃ اللہ القوی کو یہ فرماتے ہوئے سنا:'' میں نے بہت عرصہ سے اندھیرا نہیں دیکھا(یعنی انہیں دن کی طرح رات کے وقت بھی ہر طرف روشنی ہی روشنی نظر آتی اور رات میں بھی ہر چیز واضح نظر آتی )
حضرت سیدنا ابراہیم بن شیبان علیہ رحمۃ اللہ المنان فرماتے ہیں:''واقعی! آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کایہ فرمان بالکل درست ہے ، ہم جب کبھی سخت اندھیری رات میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ساتھ سفر پر روانہ ہوتے تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہمارے آگے آگے اسی طرح چلتے جیسے دن کے اجالے میں چل رہے ہوں اورہماری یہ کیفیت ہوتی کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا، جب ہم میں سے کوئی پھسلنے لگتا یا راستے سے ایک طرف ہونے لگتا توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے:'' سیدھی طرف ہوجاؤ !اِس طرف چلو ۔''اس طرح آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہہ ماری رہنمائی کرتے۔
ایک مرتبہ سخت اندھیری رات میں ہم آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ساتھ سفر پر روانہ ہوئے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ننگے پاؤں اورننگے سر تھے، ہم آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پیچھے پیچھے چلنے لگے ،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہہ ماری رہنمائی فرماتے رہے، ساری رات سفر جاری رہا، جب صبح ہوئی تو ہماری نظر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مبارک قدموں پر پڑی تووہ ایسے صاف وشفاف تھے جیسے کجاوے سے اترنے والی دُلہن کے پاؤں صاف وشفاف ہوتے ہیں،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مبارک قدموں پر مٹی کا نا م و نشان تک نہ تھا۔
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے معتقدین کے درمیان بیٹھ جاتے اورانہیں وعظ ونصیحت فرماتے ، میں نے کبھی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو لوگوں کے سامنے روتے ہوئے نہیں دیکھا لیکن ایک مرتبہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اتنا روئے کہ روتے روتے ہچکیاں بندھ گئیں۔
ہوایوں کہ ایک مرتبہ ہم آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ساتھ'' کوہ ِطور ''پر گئے، وہاں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ایک درخت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ہم بھی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے گرد بیٹھ گئے،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ہمیں وعظ ونصیحت کرتے ہوئے فرمایا:''انسان اس وقت تک اپنی مراد کو نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ سب سے الگ تھلگ ہوکر اپنے کام میں مشغول نہ ہوجائے۔'' ابھی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اتنی ہی بات کی تھی کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ زور زور سے رونے لگے اورتڑپنے لگے۔ ہم نے دیکھا کہ آس پاس موجود پتھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی گفتگو کے بعد ریزہ ریزہ ہوگئے ،آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ اسی طرح روتے رہے اور تڑپتے رہے،بالآخر جب حالت سنبھلی اور ہوش میں آئے تو ایسے خوف زدہ اورغمگین تھے جیسے ابھی قبر سے نکل کر آرہے ہوں۔ پھر کئی دن تک آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پر خوف طاری رہا اور اس واقعہ کے بعد آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بہت کمزور ہوگئے ۔ '' (اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامين صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سید نا ابراہیم ہروی علیہ رحمۃاللہ القوی فرماتے ہیں :'' موسم گرما کی ایک دوپہر دوران سفر میں نے ایک شخص کو ایک سمت جاتے ہوئے دیکھا ،میں بھی اس کے ساتھ ساتھ چل دیا۔ کچھ دور جاکر اس نے راستہ چھوڑ دیا اور ایک وادی کی جانب مڑ گیا، میں بھی اس کے پیچھے پیچھے چلتا رہا پھر وہ ایک غار میں داخل ہو گیا میں بھی غار میں چلا گیا۔ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ میرے سامنے ایک بڑا اژدہا نمودار ہوا ۔میں نے اپنی زندگی میں کبھی اتنا بڑا اژدہا کبھی نہ دیکھا تھا پھر وہ اژدہا غار کے دہانے کے قریب کنڈلی مار کر بیٹھ گیا اور میری طرف دیکھنے لگا۔ میں نے دل میں کہا: ''شاید۱ آج یہ مجھے کھا جائے گا، یہ خیال تو مجھے ضرور آیا لیکن نہ تو میں گھبرایااور نہ ہی خوف زدہ ہوا۔ کچھ دیر وہ اژدہا مجھے دیکھتا رہا پھر وہ رینگنا ہوا میری طرف بڑھنے لگا۔ میں بھی اپنی جگہ کھڑا رہا جب وہ میرے بالکل قریب آگیا تو میں نے دیکھا کہ اس کے منہ میں بہت ہی عمدہ قسم کے سفید آٹے کی ترو تازہ رو ٹی تھی، اس اژدھے نے وہ روٹی میرے قریب رکھی اور فوراً واپس چلا گیا،اور دوبارہ غار کے دھانے پر کنڈلی مار کر بیٹھ گیا، میں حیران و پریشان کھڑا رہا اور سوچتا رہا کہ اژدہا یہ روٹی کہاں سے لایا ہے ؟ پھر میں نے وہ روٹی کھا ئی اور دوپہر کا وقت گزارنے کے لئے آرام کی غرض سے غار ہی میں رک گیا، جب موسم کچھ ٹھنڈا ہو ا اور شام ہونے لگی تو میں اس غار سے نکلا اور چلتا ہوا اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچا ۔مجھے دیکھ کر وہ کہنے لگے : ''تم کہاں سے آرہے ہو اور اب تک کہاں تھے ؟''میں نے وادی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا :'' میں اس وادی سے آرہاہوں ۔''پھرانہوں نے پوچھا:'' کیا تم نے بھی وہ چیزدیکھی ہے جو ہم نے دیکھی؟ ''میں نے جواباً کہا: ''تم کس چیز کی بات کر رہے ہو، ذرا وضاحت کرو؟'' انہوں نے بتایا:''آج دوپہر کے وقت ہمارے سامنے ایک بہت بڑا اژدہا آیا، ہمارے بالکل قریب آکر وہ اپنی دم پر کھڑا ہو گیا اور زور زور سے پھنکارنے لگا ۔ہم خوفزدہ ہوگئے ،ہم میں ایک بزرگ بھی موجود تھے جو بہت دانا اور معاملہ فہم تھے انہوں نے ہم سے فرمایا:'' میرا گمان ہے کہ یہ اژدہا بھوکا ہے، شاید خوراک کی تلاش میں ہم تک آ پہنچا ہے ۔''یہ کہنے کے بعد انہوں نے سفید آٹے کی عمدہ روٹی اس کی طرف پھینک دی ۔اژدھے نے وہ روٹی اپنے منہ میں لی اور وہاں سے چلا گیا۔ میں نے کہا :''وہ سفید آٹے کی روٹی میں نے ہی کھائی ہے پھر میں نے انہیں سارا واقعہ سنایا۔''
(اللہ عزوجل تمام مخلوق کا رازق ہے ،وہ اپنی مخلوق کو جس طرح چاہے ان کے حصے کا رزق عطا فرمائے ،وہ ہرچاہے پر قادر ہے۔ چاہے تو موذی جانوروں کے ذریعے اپنے بندوں کو رزق عطا فرمادے جیسا کہ مذکورہ بالا حکایت میں ایک خطرناک اژدھے کے ذریعے حضرت سیدنا ابراہیم ہروی علیہ رحمۃ اللہ القوی کو ان کے حصے کا رزق عطا فرما دیا گیا۔ بس انسان کو اپنے پاک"
"پروردگار عزوجل پرکامل یقین ہونا چاہے، اللہ عزوجل ہمیں ہمارے اسلاف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے صدقے توکُّل کی دولت سے مالا مال فرمائے اور ہمیں رزق حلال کھانے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم )
؎غم روزگار میں تو مرے اشک بہہ رہے ہیں تیرا غم اگر رلاتا تو کچھ اور بات ہوتی"
" حضرت سیدنا محمد بن علی مرُاد انی قدّس سرّ ہ الربّانی فرماتے ہیں:'' ایک مرتبہ میں(بادشاہِ مصر) ''احمد بن طولون'' کی قبر کے پاس سے گزرا تو دیکھاکہ ایک شخص اس کی قبر کے قریب قرآن کریم کی تلاوت کر رہا ہے۔
پھر ایسا ہوا کہ اس شخص نے یکدم '' احمدبن طولون ''کی قبر پر آنا چھوڑدیا ۔کافی عرصہ بعد میری اس سے ملاقات ہوئی تو میں نے پوچھا: ''کیا تووہی شخص نہیں جو''احمدبن طولون'' کی قبر کے پاس قرآن پاک پڑھا کرتا تھا ؟'' تو وہ کہنے لگا: ''آپ نے بجا فرمایا، میں ہی ابن طولون کی قبر کے پاس قرآن پڑھا کرتا تھا کیونکہ وہ ہمارا حاکم تھااور عدل وانصاف کے معاملے میں مشہور تھا لہٰذا میں نے اس بات کو پسند کیا کہ اس کے لئے ایصال ثواب کروں۔ چنانچہ میں نے اس کی قبر کے پاس قرآن کریم کی تلاوت کرنا شروع کردی۔ ''
حضرت سیدنا محمد بن علی علیہ رحمۃاللہ القوی فرماتے ہیں،میں نے اس شخص سے پوچھا: ''پھر اب تم وہاں تلاوت کیوں نہیں کرتے؟''وہ شخص کہنے لگا:'' ایک رات میں نے خواب میں'' احمدبن طولون'' کو دیکھا، اس نے مجھ سے کہا:'' تم میری قبر پر قرآن کی تلاوت نہ کیا کرو ۔'' میں نے کہا:''آپ مجھے تلاوتِ قران سے کیوں منع کر رہے ہیں؟ اس نے جواب دیا:'' جب بھی تم قرآن مجید کی کوئی آیت تلاوت کرتے ہوتو مجھے سر پر زور دارضرب لگائی جاتی ہے اورکہا جاتاہے:'' کیا تم نے دنیا میں یہ آیت نہ سنی تھی؟ '' لہٰذا اس خواب کے بعد میں نے ''احمدبن طولون'' کی قبر پر تلاوت کرنا چھوڑ دی ۔''
(اللہ عزوجل ہمیں قرآن کریم کے احکام پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطافرمائے اورہمیں قبر وحشر کے عذاب سے محفوظ رکھے ، دین ودنیا میں عافیت اورکرم والا معاملہ فرمائے ،قرآنِ حکیم کو ہمارے لئے ذریعہ نجات بنائے اور اس کی برکت سے ہمیں اپنی دائمی رضا عطافرمائے ۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم )"
" حضرت سیدنا محمد بن نعیم علیہ رحمۃ اللہ العظیم فرماتے ہیں، ایک مرتبہ میں حضرت سیدنا بشر حافی علیہ رحمۃ اللہ الکافی کی بارگاہ میں حاضر ہوا اس وقت آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بیمار تھے۔ میں نے عرض کی:'' حضور! مجھے کچھ نصیحت فرمائیے ۔''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:''اس فانی دنیا میں چیونٹیوں کی یہ عادت ہے کہ وہ گرمیوں میں اپنے لئے دانے وغیرہ بلِوں میں جمع کر لیتی ہیں تاکہ سردیوں میں انہیں خوراک کے لئے باہر نہ نکلنا پڑے اورآرام سے جمع کی ہوئی خوراک کھاتی رہیں۔ایک مرتبہ اسی مقصد کے لئے ایک چیونٹی اپنے بل سے نکلی، اس نے دانہ لیا اوردوبارہ بل کی طرف جانے لگی۔اتنے میں ایک چڑیا آئی اور چیونٹی کو دانے سمیت کھا گئی۔ اب نہ تو وہ چیز باقی رہی جسے وہ چیونٹی جمع کرنا چاہتی تھی اورنہ ہی وہ چیونٹی باقی رہی کہ اپنی جمع کی ہوئی چیز کھالیتی۔
میں نے عرض کی:'' حضور! مزید کچھ نصیحت فرمائیے۔'' آپ نے ارشاد فرمایا:''تیرا اس شخص کے بارے میں کیا خیال ہے جس کا مسکن (یعنی رہائش )قبر ہو اور گزرگاہ پل صراط ہو (جو بال سے زیادہ باریک اور تلوار کی دھار سے بھی زیادہ تیز ہے)اور میدان حشر اس کے ٹھہرنے کی جگہ ہو جہاں اس سے حساب لیا جائے گا۔اور اللہ عزوجل اس سے حساب لینے والا ہو۔ پھر اس شخص کو یہ بھی معلوم نہ ہو کہ میں حساب و کتاب کے بعدجنت میں جاؤں گا اور مبارک باد کا مستحق ہوں گا یا جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میرا ٹھکانہ ہو گی اور میں وہاں عذاب دیا جاؤں گا ۔ہائے حسرت و افسوس! ایسے بندے کا غم کتنا طویل ہو گا، اوراس کو کیسی کیسی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہائے! ہائے! اس وقت رونا تو ہو گا لیکن تسلّی دینے والا کوئی نہ ہو گا، اس وقت خوف و دہشت تو طاری ہو گی لیکن کوئی امن دینے والا نہ ہو گا۔''
پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مجھ سے باربار یہی فرماتے رہے : ''ذرا اپنی حالت پر غور کر! (اس دن تیرا کیا حال ہو گا )، ذرا اپنی قبر کے بارے میں سوچ ! اس میں تیرے ساتھ کیا معاملات پیش آئیں گے ؟دنیا داروں سے تعلقات کم کر دے، اور کبھی بھی اس بات کو پسند نہ کر کہ لوگ تیری تعریف کریں اور اپنے اعمال پرلوگوں سے اپنی تعریف سننے کی خواہش نہ کر ۔دُنیوی نام و نمود نہ چاہ، عزت والا وہی ہے جو رب عزوجل کے ہاں معزز ہے اور جو اللہ عزوجل کے ہاں ذلیل ہے بظاہر وہ دنیا میں کتنا معزز ہو حقیقتاً وہ ذلیل ہے۔''
(اے ہمارے پیارے اللہ عزوجل !ہمیں دنیا اور آخرت میں عزت عطا فرما، ہر عمل اپنی رضا کی خاطر کرنے کی توفیق دے ، حُبِّ دنیا اور مال و دولت کی حرص سے ہمیں محفوظ رکھ، قبر و حشر ،حساب و کتاب ، اور برزخ کے تمام معاملات میں ہمارے ساتھ آسانی اور نرمی والا معاملہ فرما۔یا اللہ عزوجل تُوتو غفار ہے اور ہمارے پَلّے کچھ بھی نہیں ،اے ہمارے پاک پروردگا ر عزوجل تجھے تیرے حبیب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا واسطہ ہمیں بے سبب بخش دے ، اورہم پر اپنا خصوصی رحم وکرم فرما۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم )
؎ؔ بے سبب بخش دے نہ پوچھ عمل نام غفار ہے ترا یا ربّ(عزوجل)!"
" ابو عبداللہ احمد بن سلمان کہتے ہیں: '' میں موسیٰ بن بُغاء کا کاتب تھا ، اس وقت ہم ''رے'' میں تھے اور وہاں کے قاضی حضرت سیدنا احمد بن بدیل کوفی علیہ رحمۃاللہ القوی تھے ۔
احمد بن بُغاء کی اس علاقے میں کچھ زمین تھی، جس میں وہ تعمیراتی کام کروانا چاہتا تھا ۔ اسی جگہ سے متصل زمین کا ایک ٹکڑا ایک یتیم بچے کی ملکیت میں تھا ، مجھے موسی بن بُغاء نے حکم دیا کہ وہاں جاکر زمین وغیرہ دیکھوں اور مزید زمین خرید نی پڑے تو خرید لوں۔ میں وہاں پہنچا اور زمین کو دیکھا تو یہی بات سمجھ آئی کہ جب تک اس یتیم کی زمین نہ خرید ی جائے گی اس وقت تک تعمیراتی کام ٹھیک انداز میں نہ ہوگا۔ چنانچہ میں وہاں کے قاضی حضرت سیدنا احمد بن بدیل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس گیا اورعرض کی: ''آپ یتیم بچے کی زمین ہمیں فروخت کردیں ۔'' قاضی صاحب نے انکار کرتے ہوئے فرمایا :'' اس یتیم بچے کو اپنی زمین بیچنے کی ابھی کوئی حاجت نہیں اور میں یہ جرأ ت نہیں کرسکتا کہ زمین بیچ کر اسے زمین سے محروم کردوں۔ ہوسکتا ہے میں زمین کے بدلے قیمت لے لو ں اور خدا نخواستہ کسی طر ح اس کا مال ہلاک ہوجائے توگو یا میں اس کے حق کو ضائع کرنے والا ہوجاؤں گا۔''
میں نے کہا : ''آپ ہمیں وہ زمین بیچ دیں ہم اس کی دُ گنی قیمت ادا کریں گے۔ '' قاضی صاحب نے کہا : ''میں دگنی قیمت پر بھی اس کی زمین نہیں بیچوں گا کیونکہ مال تو گھٹتابڑھتا رہتا ہے۔ زیادہ مال کا لالچ مجھے زمین بیچنے کی طرف راغب نہیں کرسکتا۔'' الغر ض میں نے قاضی صاحب کو ہر طر ح سے راضی کرنے کی کوشش کی لیکن بے سود ۔ ان کے سامنے میری ایک نہ چلی۔ ان کی باتوں نے مجھے پریشان کردیا۔ میں نے تنگ آ کر کہا:''قاضی صاحب! آپ ایسا قدم نہ اٹھائیے جس سے آپ کو پریشانی ہو، کیا آپ جانتے نہیں کہ یہ موسیٰ بن بغاء کا معاملہ ہے؟ ذرا سوچ سمجھ کر قدم اٹھایئے، ایسے لوگو ں سے ٹکر لینا درست نہیں۔'' قاضی صاحب نے کہا :'' اللہ عزوجل تجھے عزت عطا فرمائے ،تو میرے معاملے میں پریشان نہ ہو ،بے شک میرا پر ورد گار عزوجل عزت والا اور بلندوبرتر ہے۔''قاضی صاحب کی یہ باتیں سن کر میں واپس پلٹ آیا اور اللہ عزوجل سے حیا ء کرتے ہوئے میں دوبارہ قاضی صاحب کے پاس نہ گیا۔ جب میں '' موسیٰ بن بغاء '' کے پاس گیا تو اس نے مجھ سے پوچھا:'' تمہیں جس کام کے لئے بھیجا تھا اس کا کیا ہوا ؟'' میں نے قاضی صاحب سے ملاقات کا سارا واقعہ بیان کردیا اور جب اسے قاضی صاحب کا یہ جملہ بتایاکہ '' بے شک میرا پرورد گار عزوجل بلند و عظیم ہے۔ ''تویہ سنتے ہی موسیٰ بن بغاء رونے لگا اور بار بار اسی جملے کو دہراتا رہا پھر مجھ سے کہا :''اب تم اس زمین کورہنے دو اور قاضی صاحب کو تنگ نہ کرو۔ جاؤ! اور اس نیک مرد کے حالات معلوم کرو۔اگر اسے کوئی حاجت درپیش ہو تو میں اسے پورا کرو ں گا، ایسے نیک لوگ دنیا میں بہت کم ہوتے ہیں ۔''"
" میں موسیٰ بن بغاء سے رخصت ہوکرحضرت سیدنا احمد بن بذیل کوفی علیہ رحمۃاللہ القوی کے پاس آیا اور کہا : ''قاضی صاحب! مبارک ہو، امیر موسیٰ بن بغاء نے زمین والے معاملے میں آپ کوعافیت بخشی اور یہ اس وجہ سے ہوا کہ میں نے وہ تمام باتیں جو ہمارے درمیان ہوئی تھیں،تفصیلاًموسیٰ بن بغاء کو بتادیں۔ اب امیر موسیٰ بن بغاء نے یہ حکم دیا ہے کہ اگرآپ کو کوئی حاجت ہو تو ہمیں بتا ئیں ہم ضرور پورا کریں گے ۔''
قاضی صاحب نے اسے دعا ئیں دی اور کہا: ''یہ سب اس کا صلہ ہے کہ میں نے ایک یتیم کے مال کی حفاظت کی، میں اس کے بدلے دنیوی مال ودولت کا طلب گار نہیں۔'' پھر میں نے موسیٰ بن بغاء کے حکم سے قاضی صاحب کو ایک لونڈی ہبہ کر دی۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامين صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدنا منصور بن عمار علیہ رحمۃ اللہ الغفار فرماتے ہیں کہ مجھے میرے ایک نیک دوست نے بتایا:'' ہمارے پاس ''واسط'' کا رہنے والا ابو عیاد نامی ایک مرد ِصالح ہے، وہ کثرت سے مجاہدے کرتا ہے۔ خوف خدا عزوجل کی عظیم سعادت سے مالامال ہے،نمک کے ساتھ روٹی کھاتا ہے ، ہمیشہ اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتاہے، وہ روزانہ دو دانق کماتا ہے، ایک دانق سے سحری وافطار کا سامان خرید لیتا ہے اور دوسرا دانق صدقہ کردیتا ہے ۔ اگر آپ اس کے پاس چلیں اور کلام فرمائیں تو وہ اس بات کو پسند کریگا اور جب آپ اسے دیکھیں گے تو امید ہے کہ اس کی ملاقات سے آپ کو بھی فائدہ ہوگا ۔''
میں نے کہا:'' میں اس سے ملاقات کا متمنی ہوں، میں ضرور اس سے ملاقات کرو ں گا۔'' چنانچہ ہم اس مردِ صالح سے ملاقات کے لئے اس کے گھر پہنچے۔ ہم نے دستک دی تو داخلے کی اجازت مل گئی۔ وہاں مجھے ایک ایسا شخص نظر آیا جسے دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کا دل دنیا سے اُچاٹ ہوگیا ہے۔وہ تنہائی پسند ہے اور لوگو ں سے اسے وحشت ہوتی ہے ،وہ خوفزدہ اور سہما سہما لگ رہا تھا ۔میں سمجھ گیا کہ مسلسل مجاہدات کی وجہ سے اس کی یہ حالت ہوگئی ہے اور یہ شخص سخت گرمیوں کے دنوں میں روزہ رکھتا اور ساری ساری رات قیام اورسجدوں میں گزار دیتا ہے ، اس کے جسم پر ٹا ٹ کا لباس تھا۔ وہ بھی صرف اتنا کہ جس سے ستر پوشی ہو سکے۔ اسے دیکھتے ہی مجھ پر سکتہ طاری ہوگیا۔ میں اسے دیکھ کر خوف محسوس کرنے لگا ۔اس کی حالت ایسی وحشت ناک تھی کہ اس"
"سے پہلے میں نے کسی کو ایسی حالت میں نہ دیکھا تھا۔ ہم اس کے قریب گئے تو میرے دوست نے میرا تعارف کراتے ہوئے کہا: ''یہ حضرت سیدنا منصور بن عمار (علیہ رحمۃ اللہ الغفار) ہیں، جن سے ملاقات کے آپ متمنی تھے۔ '' اتنا سننا تھا کہ وہ جلدی سے اٹھا ،مجھ سے مصافحہ کیا اور میرا دایاں ہاتھ پکڑ کر کہنے لگا :'' مرحبا ! مرحبا! اللہ عزوجل آپ کو درازی عمر بالخیر عطا فرمائے ، مجھے اور آپ کو دنیا کے غموں سے بچا کر غمِ آخرت کی نعمت عطا فرمائے۔'' وہ مجھے ایک ایسے کمرے میں لے گیا جہاں اس نے قبر کھو د رکھی تھی،اور میری طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا :'' میری دیرینہ خواہش تھی کہ آپ سے ملاقات کرو ں اور اپنے دل کی سختی سے آپ کو آگا ہ کرو ں، مجھے ایک بہت پرانا زخم ہے ،تمام معا لجین اس کے علاج سے عاجز آچکے ہیں ، اب آپ ہی میرے زخمی دل کا علاج کریں اور جو مناسب سمجھیں وہ مرہم میرے زخم پر رکھیں۔
میں نے کہا :'' اے میرے بھائی ! میں آپ کا علاج کس طر ح کروں میں تو خود زخمی ہوں اور میرا زخم تمہارے زخم سے کہیں زیادہ ہے ۔'' اس نے کہا :'' اگر واقعی ایسا ہے پھر تو میں آپ کا اور زیادہ مشتاق ہوں۔''میں نے کہا : ''اے میرے بھائی ! اگر تواپنے گھر میں قبر کھودکر اس سے عبرت حاصل کرتاہے اور اسے دیکھ دیکھ کر اپنے نفس کو مطمئن کرلیتا ہے اور موت سے پہلے ہی کفن خرید کر اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ میں نے آخرت کی تیاری کرلی ہے تو بعض اولیاء کرام ایسے بھی ہیں کہ ان کے سامنے ہر وقت قبر کا ہولناک منظر ہوتا ہے وہ موت سے کبھی غافل نہیں ہوتے ۔ وہ ایسے ہیں کہ ان سے زیادہ حدود اللہ کی رعایت کرنے والا تو کسی کو نہ پائے گا ۔ ان کے دل اللہ عزوجل کی منع کردہ اشیاء کی طرف رغبت نہیں کرتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ جس د ن جھوٹے لوگ بہت زیادہ خسارے میں رہیں گے۔ ایسے لوگ صرف لوجہ اللہ اعمال کرتے ہیں اور ریا کا ری سے بچتے ہیں۔''
میری یہ باتیں سن کر اس نے ایک زور دار چیخ ماری اور اپنے گھر میں کھودی ہوئی قبر میں منہ کے بل گر پڑا ، انتہائی کرب وتکلیف میں مبتلا شخص کی طر ح ہاتھ پاؤں مارنے لگا۔ اس کے گلے سے عجیب وغریب آواز آنے لگی۔ میں نے انَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھا اور کہا '' اگر میری باتیں سن کر یہ شخص ہلاک ہوگیاتو گویامیں اس کے قتل کا سبب بنوں گا۔'' مجھے اس کے سامنے ایسی نصیحت آموز باتیں نہیں کرنی چاہے تھیں ۔ اسے اسی حال میں چھوڑ کر میں اس گھر سے باہر آیا اور ایک چکی والے کے پاس جا کر سارا واقعہ کہہ سنایا۔ یہ سن کر چکی والے نے مجھے ڈانٹا اور کہا:'' میرے ساتھ چلو تا کہ ہم اس کی کچھ مدد کریں۔'' چنانچہ ہم جلدی سے اس کے گھر پہنچنے ، وہ اسی طر ح تڑپ رہا تھا ۔ہم نے فورا ًاسے باہر نکالا۔ اس کی حالت بہت نازک تھی ،اس کا جسم متعدد جگہوں سے زخمی ہوچکا تھا ۔"
" ایسا لگ رہا تھا کہ شاید یہ ابھی فوت ہوجائے گا۔ چکی والا مجھے بڑی غضبناک نظر وں سے گھوررہا تھا، میں فورا ً باہر چلا آیا۔ پھر ظہر کے وقت دو بارہ وہاں گیا تو دیکھا کہ ابھی تک اس کی ایسی ہی حالت ہے۔ مغر ب تک میں اس کے پاس رہا، پھر واپس چلا آیا اسے ابھی تک ہوش نہ آیا تھا ۔ وہ رات میں نے اتنی پریشانی اور غم کے عالَم میں گزاری کہ اس سے قبل کبھی مجھے اتنی پریشانی نہ ہوئی تھی۔صبح ہوتے ہی میں اس کے پاس پہنچا تو وہ اپنے گھر کے مشرقی حصے میں بیٹھا تھا ۔ اس نے جسم کے زخمی حصوں پر ایک پرانا کپڑا باندھا ہوا تھا۔مجھے دیکھ کر وہ بہت خوش ہوا اور آگے بڑھ کر یہ کہتے ہوئے میرا استقبال کیا : '' اے میرے محسن! تمہاری تشریف آوری کا شکر یہ،اللہ عزوجل تم پر رحم فرمائے اوراپنی حفظ واما ن میں رکھے۔'' وہ مجھے اسی طرح دعائیں دیتا رہا، میں کچھ دیر وہاں بیٹھا اور پھر خوشی خوشی واپس چلا آیا ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامين صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدنا شعیب بن حرب علیہ رحمۃالرب سے منقول ہے :'' ایک مرتبہ میں حضرت سیدنا سفیان بن سعید ثوری علیہ رحمۃ اللہ القوی کے ہمراہ '' کوفہ''سے'' مصیصہ'' حضرت سیدنا ابراہیم بن ادہم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم کی زیارت کے لئے گیا۔ ہم نے ''مصیصہ'' پہنچ کر حضرت سیدنا ابراہیم بن ادہم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم کے بارے میں دریافت کیا تو لوگو ں نے بتایا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مسجد میں ہونگے۔ ہم جامع مسجد پہنچے توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو مسجد میں لیٹے ہوئے پایا۔ میں نے قریب جا کرآپ کو بیدارکیا اورکہا:'' حضور! اٹھئے اوردیکھئے کہ آپ کے دوست حضرت سیدنا سفیان بن سعید ثوری علیہ رحمۃ اللہ القوی آپ سے ملنے آئے ہیں۔''اتناسنتے ہی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ایک جھٹکے سے اٹھے اور خوش ہوتے ہوئے حضرت سیدنا سفیان ثوری علیہ رحمۃ اللہ القوی کو گلے سے لگایا ۔ پھر دونوں دوست بیٹھ گے اور باتیں کرنے لگے ۔
میں نے اور حضرت سیدنا سفیان ثوری علیہ رحمۃ اللہ القوی نے تین دن سے کچھ نہ کھایا تھا ۔ حضرت سیدنا سفیان ثوری علیہ رحمۃ اللہ القوی نے حضرت سیدنا ابراہیم بن ادہم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم سے عرض کیـ:''اے ابو اسحاق (علیہ رحمۃ اللہ الرزاق) ! ہمیں کوئی ایسا عمل بتائیے کہ جس کے ذریعے ہم حلال رزق حاصل کر سکیں ۔''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' آؤ! ہم کھیتی کاٹنے چلتے ہیں ۔'' چنانچہ"
"ہم ایک شخص کے پاس گئے اور کہا :''ہم مزدوری کرنا چاہتے ہیں ، ہمیں اجرت پرکچھ کام دے دیجئے ۔'' اس نے کہا :'' آپ دونوں کھیتی کاٹیں۔''
چنانچہ ہم ایک دن کی دو درہم اجرت پر کھیت کی کٹائی پر اجیر(یعنی مزدور)بن گئے۔ سارا دن انتہائی محنت ،لگن اور دیانتداری سے کام کرتے رہے ۔شام کو جب کھیت کے مالک نے ہمارا کام دیکھا تو بڑا خوش ہوا اور کہنے لگا :''تم لوگوں نے بہت اچھا کام کیا ہے، یہ لو اپنی اُجرت۔'' پھر اس نے دو درہم دیتے ہوئے کہا :''تم روز انہ مزدوری کے لئے آجایا کرو۔'' پھر ہم وہاں سے چلے آئے ۔
حضرت سیدنا سفیان ثوری علیہ رحمۃ اللہ القوی نے ایک درہم مجھے دیا اور کہا:'' جاؤ! جو بہتر سمجھو، کھانے کے لئے لے آؤ۔'' چنانچہ میں بازار جاکر کھانا خریدلایا اور ان کے سامنے رکھ دیا ۔ حضرت سیدنا سفیان ثوری علیہ رحمۃ اللہ القوی نے حضرت سیدنا ابراہیم بن ادہم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم سے فرمایا: ''کھانا کھائیے۔'' حضرت سیدنا ابراہیم بن ادہم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم نے کہا : ''پہلے آپ کھائیے، آپ مجھ سے بڑے ہیں اور علم کے اعتبار سے بھی افضل ہیں۔ '' لیکن آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بھی پہلے کھانے سے انکار کر تے ہوئے کہا:'' پہلے آپ کھائیے۔'' کچھ دیر اسی طرح تکرار ہوتا رہا ۔ بالآ خر حضرت سیدنا سفیان ثوری علیہ رحمۃ اللہ القوی نے حضرت سیدنا ابراہیم بن ادہم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم سے فرمایا:'' مجھے اس کھانے سے معافی دیجئے، کیا آپ اس بات کی ضمانت دیتے ہیں کہ ہم نے مزدوری بالکل ٹھیک کی ہے اور جو رقم ہمیں ملی ہے اس میں کسی قسم کی ملاوٹ یا شبہ نہیں؟ اگر آپ یہ ضمانت دیتے ہیں تو میں کھالیتا ہوں ۔'' حضرت سیدنا ابراہیم بن ادہم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم نے عرض کی :'' میں کیسے ضمانت دے سکتا ہوں کہ یہ کھانا شبہ سے پاک ہے ؟''
توحضرت سیدنا سفیان ثوری علیہ رحمۃ اللہ القوی کہنے لگے: ''پھر مجھے اس کھانے کی کوئی حاجت نہیں۔'' یہ سن کر حضرت سیدنا ابراھیم بن ادہم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم نے کہا :'' جس چیز کو آپ نے ترک کردیا میں اسے کیسے اختیار کرسکتا ہوں، میں بھی یہ کھانا نہیں کھاؤں گا ۔''چنانچہ ہم نے کھانا وہیں چھوڑ دیااور ایک لقمہ بھی نہ کھایا۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامين صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدنا ابو سعید خراز علیہ رحمۃ اللہ الوھاب فرماتے ہیں:''ایک مرتبہ میں نے اپنے ایک متقی و پرہیز گار دوست کے ساتھ مکہ مکرمہ(زادھا اللہ شرفا ً و تعظیماً)میں قیام کیا۔ ہم تین دن وہاں رہے۔ ہم نے ایک فقیر کو دیکھا کہ اپنی جھونپڑی میں رہتا ہے، اس کے پاس صرف ایک ڈول تھا جو ٹاٹ کے رومال سے ڈھکا رہتا ۔ وہ فقیر عمدہ آٹے کی سفید روٹی کھاتا تھا۔ہم حیران تھے کہ نہ جانے یہ روٹی اس کے پاس کہاں سے آتی ہے ۔ مسلسل تین دن سے ہم نے کوئی شئے نہ کھائی تھی۔ میں نے دل میں کہا: ''خدا عزو جل کی قسم!آج میں اس فقیر سے کہوں گاکہ آج رات ہم آپ کے ہاں بطور مہمان ٹھریں گے، چنانچہ میں اس کے پاس گیا اور کہا:''آج رات ہم آپ کے مہمان ہیں۔''اس نے کہا :''خوش آمدید! یہ تو میرے لئے سعادت کی بات ہے۔''چنانچہ ہم دونوں دوست اس کی جھونپڑی میںآگئے۔ عشاء کے وقت تک میں اسے دیکھتا رہا لیکن اس کے پاس میں نے کوئی شےئ ایسی نہ دیکھی جس سے وہ ہماری ضیافت کرتا۔ کچھ دیر بعد اس نے اپنی مونچھوں پر ہاتھ پھیرا تو اس کے ہاتھ میں کوئی چیز تھی جو اس نے مجھے پکڑا دی۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ بہترین قسم کے دو درہم تھے۔ چنانچہ ہم نے کھانا خریدا اور کھا کر اللہ عزوجل کا شکر ادا کیا۔ کچھ دنوں بعد میری اس فقیر سے دوبارہ ملاقات ہوئی ۔میں نے سلام کیا اور پوچھا:''جس رات ہم آپ کے ہاں ٹھہرے تھے تو میں نے دیکھا کہ آپ کے ہاتھ میں اچانک دو درہم آگئے تھے اور یہ بہت حیران کن بات تھی ہے، میں جاننا چاہتا ہوں کہ یہ کیا راز ہے؟ اگر کسی عملِ صالح کے ذریعے آپ کو یہ کرامت ملی ہے تو وہ عمل مجھے بھی بتائیے؟'' فقیر نے کہا:''اے ابو سعید !وہ کوئی بڑا عمل نہیں، صرف ایک حرف ہے۔ ''میں نے پوچھا:'' وہ کیا ہے ؟''فقیر نے جواب دیا: ''اپنے دل سے دنیا کی محبت نکال دے اور خالق عزو جل کی محبت دل میں بٹھالے ا ن شاء اللہ عزو جل تیری تمام حاجتیں پوری ہوجائیں گی۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامين صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
حضرت سیدنا ابراہیم بن اسما عیل بن خلف علیہ رحمۃ الرب فرماتے ہیں،حضرت سیدنا احمد بن نصر حنبلی علیہ رحمۃ اللہ القوی جلیل القدر عالم تھے ، نیکی کی دعوت کی خوب دھومیں مچاتے۔ '' واثق باللہ'' نے انہیں اس لئے اپنے ہاتھوں سے شہید کیا کہ وہ قرآن کو
مخلوق نہ مانتے۔خلیفہ واثق باللہ نے انہیں شہید کر دیا اور حکم دیا کہ ان کے سر کوبغداد کی گلیوں میں پھر ایا جائے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اس کے بعد کچھ عرصہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مبارک سر کو بغداد کی مشرقی جانب اور کچھ عرصہ مغربی جانب لٹکایا گیا اور بقیہ جسم کو ''سُرّ مَنْ رَاٰی '' میں سولی پر لٹکائے رکھا ، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ شہید تو ہوگئے لیکن حق بات سے روگردانی نہ کی۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی شہادت کے بعد مجھے خبر ملی کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے سرِ اقدس سے قرآن کی تلاوت سنائی دیتی ہے۔یہ خبر ملتے ہی میں وہاں پہنچا جہاں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا سرِ اقدس لٹکایا گیا تھا وہاں بہت سے شہسوار اور پہرے دار نگرانی پر مامور تھے۔ رات کے آخری پہر جب سب سوگئے تو میں نے ان کے سر سے قرآن کریم کی یہ آیت سنی:
الٓـمّٓ ۚ﴿1﴾اَحَسِبَ النَّاسُ اَنۡ یُّتْرَکُوۡۤا اَنۡ یَّقُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا وَہُمْ لَا یُفْتَنُوۡنَ ﴿2﴾
"ترجمہ کنزالایمان: کیا لوگ اس گھمنڈ میں ہیں کہ اتنی بات پر چھوڑ دیئے جائيں گے کہ کہیں ہم ایمان لائے اوران کی آزمائش نہ ہو گی ۔ ( پ20 ،العنکبوت:1۔2)
یہ سن کر میرا جسم کانپنے لگا۔ چند دن بعد میں نے خواب دیکھا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے جسم پر ریشم کا بہترین لباس اور سر پر تاج تھا۔ میں نے پوچھا:'' مَافَعَلَ اللہُ بِکَ(یعنی اللہ عزوجل نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا) ؟''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جواباً ارشاد فرمایا: ''اللہ عزوجل نے مجھے بخش دیا اور جنت میں داخل فرمایا لیکن میں تین دن تک غمزدہ اورپریشان رہا ۔'' میں نے پوچھا:''آپ پریشان کیوں ہوئے ؟'' فرمایا :'' میں نے دیکھا کہ حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم میرے قریب سے گزرے تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اپنا رخِ زیبا مجھ سے پھیر لیا ۔''میں نے عرض کی:''یا رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم !کیا مجھے حق کی خاطر قتل نہ کیا گیا؟'' حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّمنے ارشاد فرمایا:'' بے شک تو حق کی خاطر شہید ہوا لیکن تجھے ایک ایسے شخص نے شہید کیا جو میرے اہل بیت سے ہے ،میں نے حیاء کی وجہ سے تجھ سے منہ پھیر لیا۔''
احمد بن علی بن ثابت فرماتے ہیں:''حضرت سیدنا احمد بن نصر حنبلی علیہ الرحمۃ اللہ القوی کاسر اقدس بغداد میں اور بقیہ جسم ''سُرَّ مَنْ رَاٰی'' میں چھ سال تک لٹکا رہا۔ چھ سال بعد جسمِ مبارک اور سرِ اقدس کو ایک ساتھ دفن کیا گیا ۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مزاراقدس بغداد شریف کی مغربی جانب واقع ہے ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامين صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدنامعمر بن احمد بن محمد اصبہانی قدس سرہ الربانی نقل فرماتے ہیں ، حضرت سیدناابراہیم خواص علیہ رحمۃاللہ الرزاق نے ایک دفعہ بیان فرمایا:'' میں ہر روز دریا کے کنارے جاتا اورکھجور کے پتّوں سے ٹوکریاں بناتا پھر وہ ٹوکریاں دریا میں ڈال دیتا ۔ نہ جانے کیا بات تھی کہ اس عمل سے مجھے دلی خوشی اور سکون حاصل ہوتا۔ مجھے یہ عمل کرتے ہوئے بہت دن گزرگئے ۔ ایک دن میں نے دل میں کہا:'' جوٹوکریاں میں پانی میں ڈالتا ہوں آج دیکھوں گا کہ آخر وہ کہاں جاتی ہیں ۔ چنانچہ میں نے اس دن ٹوکریاں نہ بنائیں اوردریا کے کنارے کئی گھنٹے مسلسل چلتا رہا ۔
آخر کار میں دریا کے کنارے ایک ایسی جگہ پہنچا جہاں ایک بڑھیا بیٹھی رورہی تھی ۔میں نے اس سے پوچھا :'' توکیوں رو رہی ہے ؟'' وہ کہنے لگی :'' میرے چھوٹے چھوٹے پانچ یتیم بچے ہیں، ہمیں فقر و فاقہ اور تنگدستی پہنچی تومَیں رزقِ حلال کی تلاش میں اس دریا کے کنارے پر آ گئی۔ میں نے دیکھا کہ کھجور کے پتوں سے بنی ٹوکریاں دریا میں بہتی ہوئی میری جانب آرہی ہیں۔ میں نے انہیں پکڑا اور بیچ کر ان کی قیمت کو اپنے بچوں پر خرچ کردیا ۔ دوسرے اور تیسرے دن بھی اسی طرح ہوا۔ پھر روزانہ ایسے ہی ہوتا رہااور یوں ہمارے گھر کا خرچ چلتا رہا لیکن آج ابھی تک ٹوکریاں نہیں آئيں، میں ان کے انتظار میں یہاں پریشان بیٹھی ہوں۔''
حضرت سیدناابراہیم خواص علیہ رحمۃاللہ الرزاق فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے ہاتھ آسمان کی طر ف بلند کئے اور رب کی بارگاہ میں عرض کرنے لگا: ''اے میرے رحیم کریم پرورد گار عزوجل! اگر میں جانتا کہ میری کفالت میں پانچ بچے اور بھی ہیں تو میں زیاد ہ ٹوکریاں دریا میں ڈالتا۔'' پھرمیں نے اس بڑھیا سے کہا :'' محترمہ !آپ پریشان نہ ہوں، آج آپ لو گوں کے لئے کھانے وغیرہ کا بندوبست میں کروں گا۔'' پھر میں اس کے گھر کی طر ف چل دیا۔ میں نے دیکھا کہ واقعی بڑھیاغریب عورت ہے ۔چنانچہ میں کئی سال تک اسی طرح اس غریب بڑھیا اور اس کے یتیم بچوں کی پرورش کرتا رہا۔ اللہ عزوجل اس عمل کو قبول فرمائے ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامين صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدنا خالد بن ہامان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں، میں نے حضرت سیدناابراہیم بن اسحاق حربی علیہ رحمۃ اللہ القوی کو یہ فرماتے سنا :'' ہرزمانے کے عقل مندو ں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جو تقدیر پر راضی نہیں وہ اخروی زندگی میں کامیاب نہیں ۔''
گویا میری قمیص سب سے زیادہ صاف قمیص اور میری چادر سب سے گندی چادر ہو پھر کبھی میرے دل میں یہ خیال نہیں گزرا کہ یہ دونوں ایک جیسی ہوں اور جب کبھی مجھے بخار ہوا تو اپنی والدہ ، بہن ، بیوی ، اور بیٹی یہاں تک کہ کسی سے بھی اس کی کبھی شکایت نہ کی۔ اچھاآدمی وہی ہے جو اپنے غم کو اپنی ذات تک محدود رکھے اور اپنے اہل وعیال کومغموم نہ کرے ۔
؎ ہم اپنا غم کسی کو بتاتے نہیں
خود جلتے رہتے ہیں کسی کو جلا تے نہیں
مجھے چالیس سال تک دردِ شقیقہ رہا مگر میں نے اس کے متعلق کبھی کسی کو نہ بتایا۔ د س سال میں صرف ایک آنکھ سے دیکھتا رہا کیونکہ دوسری آنکھ کی بینائی ضائع ہو چکی تھی۔ مگر میں نے کبھی کسی کو نہ بتایا ۔ تیس سال روزانہ میں صرف دو روٹیاں کھا کر ہی گزارہ کرتا رہا وہ بھی اگر میری ماں یا بہن لے آتیں تو کھالیتاورنہ اگلی رات تک بھوکا پیاسا رہتا ۔اپنی زندگی کے تیس سال اس طرح گزارے کہ روزانہ صرف ایک روٹی اور چودہ کھجوریں کھا تا۔اور اگر بالکل ادنی قسم کی کھجور ہوتی توروزانہ بیس کھجوریں استعمال کرتا ۔
ایک مرتبہ میری بیٹی بیمار ہوگئی،میری بیو ی ایک مہینہ تک اس کے پاس رہ کر اس کی دیکھ بھال کرتی رہی ۔ اس مہینے ہمارا کھانے کا خرچ ایک درہم اور ڈھائی دانق ہوا ۔میں حمام میں گیا اور ان کے لئے دو دانق (یعنی درہم کے چھٹے حصے) کا صابن خریدا ۔ لہٰذا پورے رمضان المبارک کے مہینے کا خرچ ایک درہم اور ساڑھے چار دانق ہوا لیکن ہم نے اپنا یہ حال کسی پر ظاہر نہ کیا ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامين صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
" حضرت سیدناابو حسین بن شمعون رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں ، مجھے احمد بن سلیمان قطیعی علیہ رحمۃاللہ القوی نے بتایا:'' ایک مرتبہ میں بہت زیادہ محتاج ہوگیا توحضرت سیدنا ابراہیم حربی علیہ رحمۃاللہ القوی کے پاس اپنی کیفیت بیان کرنے چلاگیا ۔ انہوں نے مجھ سے فرمایا:'' اس معاملہ میں تیرا دل تنگ نہیں ہونا چاہے ۔اللہ عزوجل غیب سے مدد فرمانے والا ہے ۔ایک مرتبہ میں بھی اتنا محتاج ہوگیا تھا کہ نوبت فاقوں تک پہنچ گئی تھی۔ میری زوجہ نے مجھ سے کہا :'' ہم دونوں تو صبر کرلیں گے مگرہمارے ان دو بچو ں کا کیا بنے گا ؟ اپنی کتا بوں میں سے کوئی کتاب ہی لے آؤ تاکہ ا سے بیچ کر یا کسی کے پاس رہن رکھ کر ہم بچوں کے لئے کھانے کا بندو بست کر لیں۔ '' مجھے اپنی دینی کتا بوں سے بہت زیادہ محبت تھی اس لئے میں نے کہا :'' ان بچو ں کے لئے کوئی چیز ادھار لے لو اور مجھے آج کے دن اور رات کی مہلت دو ۔''
میرے گھرکی دہلیز پر ایک کمرہ تھا جس میں میری کتابیں تھیں،میں وہیں بیٹھ کر کتابوں کامطالعہ اور تحریری کام کرتا تھا ۔ اس رات بھی میں اسی کمرے میں تھا کہ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا ۔میں نے پوچھا :'' کون ہے ؟'' اس نے کہا :''تمہاراپڑوسی ہوں۔'' میں نے کہا: ''اند ر آجاؤ۔ ''اس نے کہا :'' پہلے چر اغ بجھاؤ تب میں داخل ہوں گا ۔ ''میں نے چر اغ پر بر تن اوندھا کردیا اور کہا:''آجاؤ۔'' وہ اندر آیا اور میرے پاس کوئی شے چھوڑ کر چلا گیا۔ میں نے چر اغ سے برتن ہٹا یا توکیا دیکھتا ہوں کہ ایک نہایت قیمتی رومال ہے جس میں انواع واقسام کے کھانے اور پانچ سو درہم ہیں ۔میں نے اپنی بیوی کو بلا کر کہا :'' بچو ں کو جگاؤ تاکہ وہ کھانا کھالیں۔'' دوسرے دن ہم پر جتنا قرض تھا وہ ان دراہم سے ادا کردیا ۔ پھر خراسان سے حاجیوں کے قافلوں کی آمد کاوقت آگیا لہٰذا اگلی رات میں اپنے گھر کے دروازے پر بیٹھ گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک ساربان سازوسامان لدے دو اونٹ لئے آرہا ہے اور ابراہیم حربی کے گھر کے متعلق پوچھ رہا ہے ۔ یہاں تک کہ وہ میرے پاس پہنچا تو میں نے کہا :'' میں ہی ابراہیم حربی ہوں ۔'' چنانچہ اس شخص نے اونٹوں سے سامان اتارا اور کہنے لگا :'' یہ دونوں اونٹ خراسان کے ایک شخص نے آپ کے لئے بھیجے ہیں ۔'' میں نے پوچھا : ''وہ نیک شخص کون ہے ؟''کہنے لگا : ''اس نے مجھ سے قسم لی تھی کہ میں اس کے متعلق کسی کو نہ بتاؤں لہٰذا میں آپ کو اس کا نام نہیں بتا سکتا ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامين صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)"
حضرتِ سیِّدُنا ابو القاسم بن جَبَلِی علیہ رحمۃ اللہ الولی فرماتے ہیں:'' ایک مرتبہ حضرت سیِّدُنا ابراہیم حَرْبی علیہ رحمۃ اللہ القوی اتنے شدید بیمار ہوئے کہ قریبُ المرگ ہوگئے میں ان کے پاس گیا تو فرمایا:'' اے ابو قاسم! میں اور میری بیٹی ایک امرِ عظیم میں مبتلا ہیں۔'' پھر اپنی صاحبزادی سے فرمایا: ''بیٹی !یہ تمہارے چچا ہیں ان کے پاس جاؤ اور گفتگو کرو۔''
" اس نے چہرے پرنَقاب ڈالا اور میرے قریب آکر کہا :'' اے میرے چچا ! ہم بہت بڑی مصیبت میں مبتلا ہیں ،عرصۂ دراز سے ہم خشک روٹی کے ٹکڑے اور نمک کھا کر گزارہ کر رہے ہیں۔کَل خلیفہ مُعْتَضِدْبِاللہ کی طرف سے میرے والد ِ محترم کو ایک ہزار دینا راور ایک قیمتی موتی بھیجا گیا لیکن انہوں نے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ فلاں ، فلاں نے تحائف وغیرہ بھجوائے لیکن انہوں نے وہ بھی قبول نہ کئے۔''ا پنی بیٹی کی یہ بات سن کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مسکرا کراس کی طرف دیکھا اور فرمایا:'' اے میری بیٹی ! کیا تمہیں محتاجی کاخوف ہے ؟'' کہا :'' ہاں ۔'' فرمایا:'' میرے پاس اپنے ہاتھ سے لکھے ہوئے بارہ ہزار عربی مَخْطُوْطے ہیں۔ میرے مرنے کے بعد روزانہ ایک ورق ،ایک درہم کے بدلے بیچ دیا کرنا۔ میری بیٹی! اب بتاؤ کہ جس کے پاس اتنی قیمتی اشیاء موجود ہوں کیا وہ محتاج ہو سکتا ہے؟ ایسا شخص ہر گز مفلس ومحتاج نہیں ، لہٰذا تم مفلسی و محتاجی سے بے خوف ہوجاؤ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُنامحمد بن خَلَف وَکِیْع علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:''حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم حَرْبی علیہ رحمۃ اللہ القوی کاگیارہ سالہ اِکلوتا بیٹاحافظِ قرآن ،دینی مسائل سے واقف،بہت ہی فرمانبردار اور ذہین تھا۔ اچانک اس کا انتقال ہوگیا۔ میں نے تعزیت کی تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' میں توخود اس کی موت کا مُتَمَنِّیْ(یعنی تمناکرنے والا)تھا۔ ' ' میں نے کہا:'' آپ صاحبِ علم ہوکر اپنے فرمانبردار اور ذہین بیٹے کے بارے میں ایسی باتیں کر رہے ہیں! حالانکہ وہ تو قرآن وحدیث اور فقہ کا جاننے والاتھا ۔''
فرمایا:''میں نے خواب دیکھا کہ قیامت بر پا ہوگئی ۔اور میدانِ مَحشر میں گرمی اپنی انتہاکوپہنچ چکی تھی ۔ چھوٹے چھوٹے بچے اپنے ہاتھوں میں پیالے لئے، بڑھ بڑھ کر لوگوں کو پانی پلا رہے ہیں ۔ میں نے ایک بچے سے کہا:'' بیٹا! مجھے بھی پانی پلاؤ۔'' بچے نے میری طرف دیکھ کر کہا:'' تم میرے والد نہیں ہو، (میں تمہیں پانی نہیں پلا سکتا ) ۔'' میں نے پوچھا :''تم کون ہو ''؟کہا: ''ہمارا"
" انتقال چھوٹی عمر میں ہوگیا تھااور ہم ا پنے والدین کو دنیا میں چھوڑ کر یہاں آگئے۔ اب ان کے انتظار میں ہیں کہ وہ کب ہمارے پاس آتے ہیں؟'' جب وہ آتے ہیں توہر بچہ اپنے والدین کو پانی پلاتا ہے ۔'' خواب بیان کرنے کے بعد حضرت سیِّدُنا ابراہیم حَرْبی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے فرمایا:'' میں اسی لئے اپنے بیٹے کی موت کا متمنی تھا ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُناابراہیم بن مُہَلَّب علیہ رحمۃ اللہ الرَّب فرماتے ہیں:'' دورانِ سفر میں ایک ویران جنگل سے گزرا تو ایک لڑکے کو نماز میں مشغول پایا۔ جب اس نے نماز مکمل کر لی تو میں نے کہا :'' اس ویران جنگل میں تمہارا کوئی مونِس وغمخوار بھی ہے ؟'' کہا:'' کیوں نہیں! بالکل ہے۔''میں نے کہا :'' کہا ں ہے ؟'' کہا :'' میرے دائیں ،بائیں ،اوپر، نیچے ،آگے پیچھے ہر طر ف ۔''
میں سمجھ گیا کہ یہ لڑکا اہلِ معرفت میں سے ہے۔میں نے کہا:''کیاتمہارے پاس زادِ راہ بھی ہے؟'' کہا:'' کیوں نہیں۔'' میں نے کہا:''تمہارا زادِ راہ کیا ہے؟'' کہا :'' اخلاص ، توحید ، حضورِ پاک صاحب ِلَوْ لاک ،سیّاحِ افلاک صلَّی ا للہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی نبوت کا اِقرار ، ایمانِ صادق ، اور پختہ تَوَ کُّل میرا زادِ راہ ہے۔'' میں نے کہا :'' میرے بیٹے! کیا تم میرے ساتھ رہنا پسند کرو گے ؟'' کہا:'' جب کسی کو کوئی رفیق مل جائے تو وہ اسے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی یاد سے غافل کردیتا ہے اور میں کسی بھی ایسے شخص کی رفاقت نہیں چاہتا جس کی وجہ سے لمحہ بھر کے لئے بھی اپنے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ کی یاد سے غافل ہو کر عبادت کی اس لذّت سے محروم ہوجاؤں جسے میں اب محسوس کررہا ہوں ۔''میں نے کہا:'' اس خطرناک ویران جنگل میں اکیلے رہتے ہوئے تمہیں وحشت نہیں ہوتی ؟'' کہا:'' اللہ عَزَّوَجَلَّ سے محبت کی دولت ایسی دولت ہے کہ اس نے مجھ سے ہر وحشت دور کردی ہے۔اور اب یہ حال ہے کہ درندوں کے درمیان بھی خوف و وَ حْشَت محسوس نہیں ہوتی ۔'' میں نے کہا :'' تم کھاتے کہاں سے ہو ؟'' کہا:'' جس پاک پروردگارعَزَّوَجَلَّ نے مجھے ماں کے پیٹ کی تاریکیوں میں رزق دیا، وہی پروردگارعَزَّوَجَلَّ اب بھی مجھے رزق عطا فرماتا ہے ۔''
میں نے پوچھا:'' تمہارے کھانے کا انتظام کب اور کس طر ح ہوتا ہے ؟'' کہا :'' مجھے مقررہ وقت پر کھانا مل جاتا ہے چاہے میں کہیں بھی ہوں، میرا رزق مجھ تک ضرور پہنچتا ہے، میرا مولیٰ عَزَّوَجَلَّ خوب جانتا ہے کہ مجھے کس وقت کس چیز کی حاجت ہے ۔ وہ پاک پروردگارعَزَّوَجَلَّ میرے حالات سے بے خبر نہیں ،وہ ہر جگہ میرا محافظ و والی ہے۔''میں نے کہا:'' تمہاری کوئی حاجت"
"ہے جسے میں پورا کروں ؟'' کہا :'' ہاں ! ایک حاجت ہے اور وہ یہ کہ اگر دوبارہ مجھے دیکھوتو مجھ سے گفتگو نہ کرنا اور نہ ہی میرے بارے میں کسی کو بتانا۔'' میں نے کہا:'' جیسے تمہاری مرضی، اس کے علاوہ کوئی اورحاجت ہو توبتاؤ ؟'' کہا:'' ہاں! اگر ہوسکے تو دعاؤں میں یادرکھنا،جب بھی غمگین و پریشان ہوکر دعا کروتو میرے لئے بھی دعا ضرور کرنا۔''
میں نے کہا:'' میرے بیٹے ! میں تمہارے لئے کس طر ح دعا کروں جبکہ تم مجھ سے افضل ہو کیونکہ خوف خدا عَزَّوَجَلَّ اورتوکل تم میں مجھ سے بہت زیادہ ہے۔'' کہا:'' اس طر ح نہ کہے ،کیونکہ آپ عمر میں مجھ سے بڑے ہیں، آپ کو دولتِ ایمان مجھ سے پہلے نصیب ہوئی، آپ کی نماز یں اور روزے مجھ سے زیادہ ہونگے ۔''میں نے کہا:'' مجھے بھی تم سے کام ہے ۔'' اس نے کہا بتائیے !کیا کام ہے ؟'' میں نے کہا:'' میرے لیے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں دعا کرو ۔''اس نے یہ دعا کی:'' اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کو ہر لمحہ گناہوں سے محفوظ رکھے، ایسا غم عطا فرمائے جس میں اس کی رضا پوشیدہ ہو۔اور اس کے علاوہ کوئی او ر غم نہ ہو ۔''میں نے کہا:'' اے میرے لختِ جگر ! اب دوبارہ ملاقات کب ہوگی؟ میں تجھے کہاں تلاش کرو ں؟'' کہا:'' دنیا میں مجھ سے ملاقات کی امید نہ رکھنا ، اور آخرت میں مجھ سے ملنا چاہو تو ہر اس کام سے بچنا جس سے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے منع فرمایا ہے۔ اور کسی بھی ایسے کام میں اس کی نافرمانی نہ کرناجس کااس نے حکم دیا۔ آخرت متقین کے جمع ہونے کی جگہ ہے ۔ اگر وہاں مجھ سے ملنا چاہوتو ان لوگوں میں تلاش کرنا ، جودیدارِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ کر رہے ہوں میں آپ کو انہیں لوگوں میں ملوں گا ۔''
میں نے کہا:'' تجھے کیسے معلوم کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں تجھے یہ مرتبہ ملے گا ؟'' کہا:'' اس لئے کہ میں اس کی حرام کردہ اشیاء سے بغض رکھتا ہوں ،ہر گناہ اور ہر اس کام سے بچتا ہوں جس سے بچنے کا اس نے حکم دیاہے۔اور میں نے اپنے پروردگارعَزَّوَجَلَّ سے یہ دعا کی ہے کہ مجھے جنت میں اپنے دیدار کی دولتِ لازوال عطا فرمائے ۔ ''اتنا کہنے کے بعد اس لڑکے نے چیخ مارکر ایک طر ف دوڑ لگا دی اور نظروں سے اَوجھل ہوگیا ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
حضرتِ سیِّدُنا محمد بن داؤد علیہ رحمۃ اللہ الودود فرماتے ہیں:'' میں نے حضرتِ سیِّدُنا ابوبَکْر فُوْطِی اور حضرت سیِّدُنا عَمْر وبن آدَمِی علیہمارحمۃا اللہ القوی کو یہ فرماتے ہوئے سنا :'' ہم دونوں، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا کی خاطرایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔
" ایک مرتبہ ہم عروس البلاد( بغدادشریف) سے کوفہ کی جانب روانہ ہوئے۔ راستے میں ایک جگہ دو خونخوار درندے بیٹھے ہوئے تھے ۔''
حضرت سیِّدُنا ابو بَکْر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں :'' میں نے ابوعمر و رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے کہا :'' اے ابو عمر و! میں عمر میں تجھ سے بڑا ہوں تم میرے پیچھے چلو میں آگے چلتا ہوں تاکہ اگر یہ خوانخوار درندے حملہ کریں تو میں ان کی زَد میں آجاؤں اور تم بچ جاؤ ۔'' حضرت سیِّدُنا ابو عمر و رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کہا:'' اگر میں نے ایسا کیا تو میرا ضمیر مجھے کبھی معاف نہیں کریگا ۔ میں ہرگز ایسا نہیں کر سکتا ۔ آؤ ہم دونوں ایک ساتھ چلتے ہیں اگر خدانخواستہ کوئی حادثہ پیش آیا تو ہم دونوں کو ہی آئے گا ۔'' چنانچہ ہم چلے اور درندوں کے درمیان سے گزر گئے۔ حملہ تو کُجا انہوں نے حرکت تک نہ کی ۔''
ابن جَہْضَم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں :'' دوستی کا یہی تقاضا ہے کہ کسی بھی حالت میں دوست کو تکلیف نہ پہنچنے دے ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُناعلی بن حَشْرَم علیہ رحمۃ اللہ الاَکرم فرماتے ہیں:''مجھے حضرتِ سیِّدُنا فُضَیْل بن عِیَاض علیہ رحمۃ اللہ الوھاب کے ایک پڑوسی نے بتایا کہ:'' تو بہ سے قبل حضرت سیِّدُنا فُضَیْل بن عِیَاض علیہ رحمۃ اللہ الوھاب اتنے بڑے اور خطرناک ڈاکو تھے کہ پورے پورے قافلے کو اکیلئے ہی لوٹ لیتے۔ ، ایک مرتبہ ایک قافلہ آپ کے علاقے کے قریب سے گزرا، انہیں وہیں رات ہوگئی۔ آپ ڈاکہ ڈالنے کی نیت سے جب قافلے کے قریب پہنچے تو بعض قافلے والوں کو یہ کہتے ہوئے سنا :'' تم اس بستی کی طر ف نہ جاؤ بلکہ کوئی اور راستہ اختیار کرلو یہاں فُضَیْل نامی ایک خطر ناک ڈاکو رہتا ہے ۔''
جب قافلے والوں کی یہ آواز سنی توآپ پر کپکپی طاری ہو گئی اور بلندآواز سے کہا: ''اے لوگو ! میں فُضَیْل بن عِیَاض تمہارے سامنے موجود ہوں، جاؤ! بے خوف وخطر گزر جاؤ ،تم مجھ سے محفوظ ہو۔خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم آج کے بعد میں کبھی بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی نہیں کرو ں گا۔ ''اتنا کہہ کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وہاں سے چلے گئے اور اپنے تمام سابقہ گناہوں سے تو بہ کرکے راہِ حق کے مسافروں میں شامل ہوگئے ۔
ایک قول یہ ہے کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس رات قافلے والوں کی دعوت کی اور فرمایا :'' تم فُضَیْل بن عِیَاض سے اپنے آپ کو محفو ظ سمجھو ، پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ان کے جانوروں کے لیے چارہ وغیرہ لینے چلے گئے جب واپس آئے تو کسی کو قرآن"
پاک کی یہ آیتِ مبارکہ تلاوت کرتے ہوئے سنا :
اَلَمْ یَاۡنِ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡ تَخْشَعَ قُلُوۡبُہُمْ لِذِکْرِ اللہِ
ترجمۂ کنزالایمان :کیا ایمان والوں کوابھی وہ وقت نہ آیاکہ ان کے دل جھک جائیں اللہ کی یادکے لئے۔(پ27،الحدید:16)
" قرآن کریم کی یہ آیت تا ثیر کا تیربن کر آپ کے سینے میں اتر گئی ۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے گریہ وزاری شروع کردی اور اپنے کپڑوں پر مِٹی ڈالتے ہوئے کہا:'' ہاں!کیوں نہیں ! اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! اب وقت آگیا ، اب وقت آگیا ، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اسی طرح روتے رہے اور پھر اپنے تمام سابقہ گناہوں سے تو بہ کرلی۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُنا احمد بن محمدطُوْسِی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں :'' میں نے اُمّتِ محمدیہ عَلٰی صَاحِبِھَاالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مشہور ولی حضرت سیِّدُنا ابراہیم آجُرِی علیہ رحمۃ اللہ الغنی کو یہ فرماتے ہوئے سنا :'' میرے اُستاذ حضرت سیِّدُنا ابراہیم آجُرِی کبیر علیہ رحمۃ اللہ القدیر نے فرمایا: ''سردیوں کے دن تھے،میں مسجد کے دروازے کے قریب بیٹھاہوا تھاکہ میرے قریب سے ایک شخص گزرا جس نے دو گدڑیاں اوڑھ رکھیں تھیں۔ میرے دل میں یہ بات آئی کہ شاید یہ ان میں سے ہے جو بھیک مانگتے ہیں ۔کیا ہی اچھا ہوتا اگر یہ اپنے ہاتھ سے کما کرکھاتا ۔ جب میں سویا تو خواب دیکھا کہ میرے پاس دو فرشتے آئے، مجھے بازو سے پکڑا اور اسی مسجد میں لے گئے ۔ میں نے دیکھا کہ قریب ہی ایک شخص دو گدڑیاں اوڑھے سورہاہے۔جب اس کے چہرے سے گدڑی ہٹائی گئی تو میں حیران رہ گیا کہ یہ وہی شخص ہے جو میرے قریب سے گزراتھا۔ فرشتو ں نے مجھ سے کہا :'' اس کا گو شت کھاؤ۔ '' میں نے کہا:''میں نے تو اس کی غیبت نہیں کی۔ '' کہا :'' کیوں نہیں ! تیرے نفس نے اس کی غیبت کی اور تو نے اس کو حقیر جانا اور اس سے ناخوش ہوا۔''
حضرت سیِّدُنا ابراہیم آجُرِی کبیر علیہ رحمۃ اللہ القدیر فرماتے ہیں:'' پھر میری آنکھ کھل گئی خوف کی وجہ سے مجھ پر لرزہ طاری ہوگیا۔ میں مسلسل تیس (30)دن اسی مسجد کے دروازے پربیٹھا رہا،صرف فرض نماز کے لئے وہاں سے اٹھتا۔ میں دعا کرتاکہ دوبارہ وہ شخص مجھے نظر آجائے تاکہ اس سے معافی مانگو ں۔ ایک ماہ بعد وہ پُراَسرار شخص اس حال میں نظر آیاکہ اس کے جسم پر پہلے کی طرح دو گدڑیاں تھیں۔ میں فوراً اس کی طر ف لپکا، مجھے دیکھ کر وہ تیز تیز چلنے لگا ، میں بھی اس کے پیچھے ہولیا۔ جب مجھے محسوس"
"ہو ا کہ شاید میں اس کے قریب نہ پہنچ سکو ں گا اور یہ مجھ سے دور چلا جائے گا تو میں نے کہا :'' اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بندے ! میں تجھ سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔ ''اس نے کہا : '' اے ابراہیم ! کیا تم بھی ان لوگوں میں سے ہو جو دل کے ذریعے مومنین کی غیبت کرتے ہیں ؟''
حضرت سیِّدُناابراہیم کبیر علیہ رحمۃ اللہ القدیر فرماتے ہیں :'' اس کی بات سن کر میں بے ہوش ہوکر گر پڑا۔ جب افاقہ ہوا تو وہ شخص میرے سرہانے کھڑا تھا ۔'' اس نے کہا :'' کیا دوبارہ ایسا کروگے ؟'' میں نے کہا :'' نہیں ، اب کبھی بھی ایسا نہیں کرو ں گا۔ '' پھر وہ پُراَسرار شخص میری نظروں سے اوجھل ہوگیا اور دوبارہ کبھی نظر نہ آیا ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرت سیِّدُنا ابراہیم آجُرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں : '' میں ایک یہودی کا مقروض تھا وہ قرض وصول کرنے میرے پاس آیا اور کہا:'' مجھے کوئی ایسی کرامت دکھاؤ جس سے میں اسلام کی عظمت جان جاؤں اور مجھ پر یہ بات ظاہرہوجائے کہ دین ِ اسلام، یہودیوں کے دین سے بہتر ہے۔ اگر تم کوئی کرامت دکھادو تو میں مسلمان ہوجاؤں گا۔''میں نے کہا:'' کیا تم واقعی مسلمان ہوجاؤگے ؟'' اس نے کہا:'' ہاں۔''اسے دین ِاسلام کی طرف راغب ہوتا دیکھ کر میں نے اس کی چادر ،اپنی چادر میں لپیٹی اور اینٹوں کے بھَٹّے میں ڈال دی۔ پھر میں خودبھَٹے میں داخل ہوااور جلتی ہوئی آگ سے چادر یں نکال لایا۔اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ!میرا ایک بال بھی نہ جلا۔جب میں نے اس یہودی کے سامنے اپنی چادر کھولی تو وہ بالکل صحیح و سالم تھی اوریہودی کی چادر اندر ہونے کے باوجود جل کر راکھ ہو گئی تھی۔ اسلام کی یہ حَقّانیت دیکھ کروہ یہودی کلمۂ شہاد ت پڑھ کرمسلمان ہوگیا ۔''
یہ حکایت حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم آجُرِی صغیر علیہ رحمۃ اللہ الکبیر کے متعلق ہے۔ ایک بزرگ حضرتِ سیِّدُناابراہیم آجُرِی کبیر علیہ رحمۃ اللہ الکبیر بھی تھے جن کا ذکر پچھلی حکایت میں گزرا یہ دونوں اپنے دور کے زبردست ولی اور صاحبِِ کرامت بزرگ تھے۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُناحَمَّادبن سَلَمَہ اور حَمَّادبن زَیْدرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہماسے روایت ہے کہ'' حضرتِ سیِّدُناعبداللہ بن مُبَارَک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ گندم کی تجارت کیا کرتے تھے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرمایا کرتے :'' اگر پانچ بزرگ نہ ہوتے تو میں تجارت نہ کرتا ۔'' پوچھا گیا کہ وہ پانچ بزرگ کون سے ہیں جن کی خاطر آپ تجارت کرتے ہیں ؟ ''فرمایا: ''حضرتِ سیِّدُنا سفیان ثوری، حضرتِ سیِّدُنا سفیان بن عُیَیْنَہ ،حضرتِ سیِّدُنا فُضَیْل بن عِیَاض ،حضرتِ سیِّدُنا محمد بن سمّاک ، اورحضرتِ سیِّدُنا ابن عُلَیَّہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین۔ ''
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تجارت کی غرض سے خُرَاسَان کی طرف جاتے ، جو نفع حاصل ہوتا اس سے اہل وعیال کاخرچہ اور حج کے لئے زادِ راہ وغیرہ نکال کر بقیہ ساری رقم ان پانچ دوستوں کی طرف بھجوادیتے۔ ایک سال آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو خبر ملی کہ ابن عُلَیَّہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے عہدۂ قضاء قبول کرلیا ہے۔ اس اطلاع کے بعدآپ نہ توابن عُلَیَّہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے ملنے گئے اور نہ ہی انہیں رقم بھجوائی ۔ جب ابن عُلَیَّہ کو خبر ملی کہ حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ بن مُبَارَک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہمارے شہر میں آئے ہو ئے ہیں تو فوراً آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے ۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے نہ تو ان کی طرف دیکھا نہ ہی کلام فرمایا۔چنانچہ حضرت سیِّدُناابن عُلَیَّہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ واپس چلے گئے ، اور دوسرے دن آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو ایک رقعہ لکھا جس کی عبارت کچھ اس طر ح تھی:"
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
" ''اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو ہمیشہ اپنی اطاعت وفرمانبرداری میں رکھے اور سعادت مند ی عطا فرمائے ، میں تو آپ کے احسان اور صلہ رحمی کا کب سے منتظر تھا ، کل میں آپ کی بارگاہ میں حاضر ہو الیکن آپ نے مجھ سے کلام تک نہ فرمایا۔ میں محسوس کر رہا ہوں کہ شاید آپ مجھ سے خَفا ہیں ۔میں آپ کی عنایتوں سے محروم ہورہا ہوں ۔خدارا! مجھے بتائیے کہ میری کونسی بات آپ کو ناپسند ہے تا کہ میں اپنی اصلاح کروں اور آپ سے معافی مانگو ں۔ ''
جب حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ بن مُبَارَک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو ابن عُلَیَّہ کا رقعہ ملا توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جواباََ چنداشعار لکھ کر بھیجے۔ جن کا ترجمہ یہ ہے:"
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔
اے دین کو باز بنا کر مساکین کا مال شکار کرنے والے ! تونے فانی دنیا اور اس کی لذتوں کو ایسے حیلے کے ذریعے اپنے لیے جائز قرار دیا جس کی وجہ سے دین چلا گیا۔، تُو تو بے وقوفوں کا علاج کرنے والا تھا لیکن اب خود مجنون ہوگیا ۔ کہا ں گئیں تیری وہ روایتوں کی لڑیاں جو ابنِ عون اور ابنِ سیرین کے بارے میں تھیں ؟ کہاں ہیں تیری وہ روایتیں اور باتیں جو سلاطینِ دنیا کے دروازوں کو چھوڑ نے کے بارے میں تھیں ؟ اگر تو یہ کہے کہ مجھے تو مجبور اََقاضی بنا یاگیا ہے تو یہ باطل ہے۔ ''
" ابن عُلَیَّہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو یہ رُقعہ ملا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مجلسِ قضاء سے اُٹھ کرہارون الرشید کے پاس آئے او رکہا: ''اے امیر المؤمنین! میرے بڑھاپے پر رحم فرمائیں ، اب میں عہدۂ قضاء کی ذمہ داری نہیں نبھا سکتا ، برائے کرم مجھ سے یہ ذمہ داری واپس لے لیں ۔'' خلیفہ ہارون الرشید نے کہا :'' شاید اس دیوانے (حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن مُبَارَک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ) نے تجھے اس بات پر اُبھاراہے اور تیرے دل میں کھلبلی مچادی ہے ۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا :'' خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! انہوں نے مجھے بچا لیا ، انہوں نے مجھے بچالیا ،اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کو بھی ہر مصیبت سے نجات عطا فرمائے۔ آپ مجھے اس عہدے سے بَر طرف کردیں۔'' چنانچہ خلیفہ ہارون الرشید علیہ رحمۃ اللہ المجید نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا اِسْتِعْفٰی قبول کرلیا۔جب حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن مُبَارَک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو اس واقعہ کا علم ہو ا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ابن عُلَیَّہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کووہ رقم بھجوادی جو ہر سال بھجوایا کرتے تھے ، ابن عُلَیَّہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا نام اسماعیل بن ابراہیم بن اَسَدِی تھا، آپ بصرہ کے رہنے والے تھے۔
ایک روایت یہ ہے کہ شریک بن عبداللہ نَخَعِی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن مُبَارَک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے مشورہ طلب کیا کہ کیا میں قضاء کا عہد ہ قبول کرلوں ؟ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے سختی سے منع فرمادیا ،جب حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن مُبَارَک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ان کے پاس سے واپس چلے گئے تو انہوں نے قاضی کا عہدہ قبول کرلیا اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو خط لکھا کہ مجھے زبردستی قاضی بنایا گیا ہے ، شریک بن عبداللہ نَخَعِیّ علیہ رحمۃ اللہ القوی کا یہ خط پڑھ کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مذکورہ اشعار لکھ کر بھیجے۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُنا عبدالرحمن بن ابراہیم فِہْرِیّ علیہ رحمۃ اللہ القوی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ'' حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی کے مُبَارَک زمانہ میں ایک نوجوان گناہوں بھری زندگی گزار رہا تھا۔ اسی بَد مَسْتی کے عالم میں اسے سخت بیماری لاحق ہوگئی اورمِرگی کے دورے پڑنے لگے۔جب کمزوری حد سے بڑھنے لگی توانتہائی رنج وغم کے عالَم میں بہت ہی خفیف آواز کے ساتھ اپنے رحیم و کریم پروَرَدْگَار عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں اس طرح التجاکی:
'' اے میرے پروردگارعَزَّوَجَلَّ! میرے گناہوں سے درگزر فرما ، مجھے اس بیماری سے چھٹکارا عطا فرما۔ اے میرے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ! اب میں کبھی بھی گناہ نہ کرو ں گا ۔''"
" اس کی دعا قبول ہوئی اوراللہ عَزَّوَجَلَّ نے اسے شفاء عطافرمادی ۔لیکن صحتیابی کے بعد وہ دوبارہ گناہوں میں منہمک ہوگیا۔ اور پہلے سے زیادہ نافرمانی کرنے لگا ۔اللہ عَزَّوَجَلَّ نے دوبارہ اس پر بیماری مسلط فرمادی ۔ وہ پھر گڑ گڑانے لگا اور عرض گزار ہوا : ''اے میرے پاک پروردگارعَزَّوَجَلَّ! اس مرتبہ مجھے شفاء عطا فرمادے اب دو بارہ کوئی گناہ نہ کرو ں گا۔'' اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اسے پھر تندرستی عطا فرمادی۔لیکن اس کی آنکھوں پرپھر غفلت کا پردہ پڑگیااور گناہوں کی طرف مائل ہوکر پہلے سے بھی اورزیادہ نافرمان ہوگیا ۔اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اسے پھر بیماری میں مبتلا کردیا۔ اس مرتبہ مرض بہت شدید تھا۔ اس نے بڑی نقاہت بھری غمگین آواز میں خدائے رحمن ورحیم کو پکارا : '' اے میرے پروردگار عَزَّوَجَلَّ! میرے گناہوں کو بخش دے، مجھ پر رحم فرما اور مجھے بیماری سے شفاء عطافرما ۔میرے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ! میں پھر کبھی تیری نافرمانی نہ کرو ں گا۔ ''
اللہ عَزَّوَجَلَّ نے کرم کیااور پھرصحت عطا فرمادی۔ تندرست ہوتے ہی وہ پھر گناہوں میں مبتلا ہوااور بہت زیادہ نافرمان ہوگیا۔ ایک مرتبہ اچانک اس کی ملاقات حضرتِ سیِّدُناحسن بصری ، ایوب سَخْتِیَانِی،مالک بن دینار اور صالح مُرِّی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے ہوئی ۔ جب حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی نے اس نوجوان کو گناہوں میں منہمک دیکھا تو فرمایا۔''اے نوجوان! اللہ عَزَّوَجَلَّ سے اس طر ح ڈر گویا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے۔ اگر تو اسے نہیں دیکھ سکتا ،تویہ مت بھول کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ ''
یہ سن کر اس نوجوان نے کہا :'' اے ابو سعید ! مجھ سے دور رہیے ، بے شک میں تومصیبت وآفت میں ہوں اور دنیا کو خوب ظاہر کرنا چاہتا ہیں ۔''حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی اپنے ساتھیوں کی طر ف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ''اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم!بے شک اس نوجوان کی موت قریب ہے ۔ موت کے وقت اسے بہت پریشانی ہوگی ۔ نزع کی سختیاں اسے بہت تنگ کریں گی۔'' اس واقعہ کے کچھ ہی دن بعد حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی ساتھیوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ اس گناہ گا ر نوجوان کا بھائی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمتِ بابر کت میں حاضر ہو کر عرض گزار ہو ا: اے ابو سعید !میں اسی نوجوان کا بھائی ہوں جسے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے نصیحت فرمائی تھی ۔ میرے بھائی پر موت کے سائے گہرے ہوتے جارہے ہیں ،اس پر نزع کی کیفیت طاری ہے اور بڑی مصیبت میں مبتلا ہے۔ ''
حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا:'' آؤ ! چل کر دیکھتے ہیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کے ساتھ کیا معاملہ فرماتا ہے ؟'' چنانچہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اس کے گھر پہنچے۔ دروازے پردستک دی تواس کی بوڑھی ماں نے پوچھا :'' کون ہے؟ '' فرمایا:'' حسن۔ ''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی آواز سن کر بوڑھی ماں نے کہا :'' اے ابوسعید! آپ جیسے نیک شخص کو کیا چیز میرے بیٹے کے پاس کھینچ لائی حالانکہ یہ تو ہمیشہ گناہوں کامرتکب رہا اور حرام کاموں میں پڑارہا ؟'' فرمایا:'' محترمہ آپ ہمیں اپنے بیٹے کے پا س آنے کی اجازت دیں ، بے شک ہمارا پاک پروردگارعَزَّوَجَلَّ گناہوں کو بخشنے والا اور"
خطاؤں کو مٹانے والا ہے ۔''
" بوڑھی ماں نے اپنے بیٹے کو بتایا کہ حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی دروازے پر کھڑے ہیں وہ اندر آنا چاہتے ہیں۔ کہا: ''اے میری پیاری ماں ! حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی یا تو میری عیادت کرنے آئے ہیں یا پھر زَجْر و تَو بیخ کرنے ۔بہر حال آپ دروازہ کھول دیں۔'' جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اندر تشریف لائے تو دیکھا کہ نوجوان نزع کی سختیوں میں مبتلا ہے ۔ اس پرنا اُمید ی ورَنج واَلم کے سائے گہرے ہوتے جارہے ہیں۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: '' اے نوجوان !اللہ عَزَّوَجَلَّ سے معافی طلب کر! بے شک وہ رحیم وکریم پرورد گار عَزَّوَجَلَّ تیرے گناہوں کو بخش دے گا۔ '' نوجوان نے کہا : اے ابو سعید! اب وہ میرے گناہوں کو نہیں بخشے گا ۔'' فرمایا :'' اے نوجوان ! کیا تم اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے بخل ثابت کرنا چاہتے ہو ؟، وہ پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ تو بہت زیادہ کریم وجوّاد ہے۔اس کی رحمت سے مایوس کیوں ہوتے ہو۔''
کہا :'' اے ابو سعید علیہ رحمۃ اللہ المجید !میں نے رحیم وکریم پر وردگارعَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی کی ،تو اس نے مجھے بیماری میں مبتلا کردیا ۔میں نے شِفاطلب کی تو اس نے شفا ء عطا فرمائی۔ میں نے پھر نافرمانی کی تو دوبارہ بیماری میں مبتلا ہوگیا ۔ پھر گناہوں سے معافی طلب کی اور صحتیابی کی دعا مانگی۔ اس پاک پروردگارعَزَّوَجَلَّ نے مجھے شفا ء عطا فرمادی ۔میں اسی طرح گناہ کرتا رہا اوروہ معاف کرتا رہا۔اب پانچویں مرتبہ بیمار ہوا ہوں ، میں نے اس مرتبہ پھر اللہ عَزَّوَجَلَّ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کی اور صحتیابی کے لئے عرض گزار ہوا تو اپنے گھر کے کونے سے یہ غیبی آواز سنی ۔ :''تیری دعا و مناجات قبول نہیں ہم نے تجھے کئی مرتبہ آزمایا مگر ہر مرتبہ تجھے جھوٹا پایا۔''
نوجوان کی یہ بات سن کر حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا :'' چلو واپس چلتے ہیں۔ '' یہ کہہ کر آپ وہاں سے تشریف لے گئے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے جانے کے بعد اس نوجوان نے اپنی والدہ سے کہا : '' اے میری ماں !یہ حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی تھے شاید یہ میری طر ف سے میرے پاک پروردگارعَزَّوَجَلَّ سے ناامید ہوگئے ہیں حالانکہ میرا مولیٰ عَزَّوَجَلَّ تو گناہوں کو بخشنے والا اور خطاؤ ں سے در گزر فرمانے والاہے ۔ وہ اپنے بندوں کی تو بہ ضرور قبول فرماتا ہے۔
اے میری پیار ی ماں ! میری موت کا وقت قریب ہے۔ جب سانس اُکھڑنے لگے اور میرا جسم بے جان ہونے لگے ، میری آنکھیں بند ہوجائیں ، جسم پیلا پڑجائے ، آواز بند ہوجائے اور میری روح دا رُالفناء سے دارُالبقاء کی طر ف پرواز کرنے لگے تو میرا گربیان پکڑ کر مجھے گھسیٹنا، میرا چہرہ خاک آلودکردینا۔ پھر میرے پاک پرورد گا رعَزَّوَجَلَّ سے میرے گناہوں کی معافی طلب کرنا ۔بے شک وہ رحمن ورحیم مولیٰ عَزَّوَجَلَّ گناہوں کو بخشنے والا ہے ۔میں اس کی رحمت سے نا امید نہیں۔ اتنا کہہ کر نوجوان خاموش ہوگیا۔ اس کی بوڑھی ماں نے حسبِ وصیت اس کے گلے میں رسی ڈال کر گھسیٹا ،اس کے چہر ے پر مٹی ڈالی۔ پھر اپنے ہاتھ آسمان"
کی طرف بلند کئے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں اس طر ح فریاد کرنے لگی :
" ''اے میرے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ ! میں تجھ سے تیری اُس رحمت کا سوال کرتی ہوں جو تو نے حضرتِ سیِّدُنا یعقوب علٰی نبینا و علیہ الصلٰوۃ والسلام پر نازل فرمائی اور ان کے بیٹے کو ان سے ملادیا۔ اے میرے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ !تجھے اسی رحمت کا واسطہ جو تونے حضرتِ سیِّدُنا ایوب علٰی نبینا وعلیہ الصلٰوۃ والسلام پر نازل فرمائی اور ان کی آزمائش کو دور فرمادیا۔ میرے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ !میرے بیٹے پر بھی رحم فرما۔ اس کے گناہوں سے در گزر فرما کر اسے بھی معاف فرمادے ۔''
جب اس نوجوان کا انتقال ہوگیا تو اس کی والدہ نے ہاتفِ غیبی سے یہ آواز سنی ''تیرے بیٹے پر اللہ عَزَّوَجَلَّ نے رحم فرمایا اور اس کے تمام گناہ معاف فرما دئیے ' ' اسی طرح ایک آواز حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی کو سنائی دی، کوئی کہنے والا کہہ رہا تھا :'' اے ابو سعید ! اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اس نوجوان پر رحم فرماکر اس کے گناہوں کو بخش دیا، اب وہ جنتی ہے ۔'' چنانچہ حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اس نوجوان کے جنازے میں شرکت کے لئے تشریف لے گئے ۔
؎ رحمت دا دریا الٰہی ہر دم وگدا تیرا
جے اک قطرہ بخشے مینوں کم بن جاوے میرا
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
حضرتِ سیِّدُنا سلیمان بن حَرْب علیہ رحمۃ اللہ الرَّب فرماتے ہیں :'' میں حضرتِ سیِّدُنا بِشْربن حَارِث حافی علیہ رحمۃ اللہ الکافی کی زیارت کا بہت مشتاق تھا۔لیکن ابھی تک میری یہ خواہش پوری نہ ہو سکی تھی۔ ایک دن مسجد جاتے ہوئے دیکھا کہ ایک گھنے بالوں والاشخص پرانی سی چاداوڑھے دیوار کی جانب منہ کئے تھیلے سے سوکھی روٹی کے ٹکڑے نکال کر کھا رہا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا: ''کیا تم خُرَاسَان کے رہنے والے ہو۔ '' کہا:'' نہیں ،بلکہ بغداد کا رہنے والا ہوں۔ '' میں نے کہا :'' تم یہاں کس لئے آئے ہو؟'' کہا:'' آپ سے حدیث سننے آیا ہوں۔ '' میں نے کہا:''تمہارا نام کیا ہے '' ؟کہا:''آپ میرا نام پوچھ کرکیا کریں گے۔ '' میں نے کہا:'' میری خواہش ہے کہ تمہارا نام جانوں۔'' کہا:''میں ابو نصر ہوں۔'' میں نے کہا:'' میں آپ کا نام جاننا چاہتا ہوں کنیت نہیں۔ '' کہا:'' میں آپ کو اپنا نام نہیں بتاؤں گا کیونکہ اگر میں نے اپنا نام بتادیا تو میں آپ سے حدیث نہیں سن سکوں گا ۔'' میں نے کہا :'' تم اپنا نام بتا دو، اس کے بعد تم حدیث سننا چاہو تو میں تمہیں ضرور سناؤں گا اور اگر نہ سننا چاہو تو تمہاری مرضی۔'' اس نے کہا:
''میرا نام ''بِشربن حَارِث حافی ہے۔''
" میں نے خوش ہوتے ہوئے کہا:'' شکر ہے اس پاک پروردگارعَزَّوَجَلَّ کا جس نے مجھے جیتے جی آپ سے ملاقات کا شرف عطافرمایا۔ میں ان کے قریب بیٹھ کررونے لگا ۔ پھر ہم حدیث کا تکرار کرنے لگے کافی دیر حلقۂ درسِ حدیث جاری رہا ۔ میں نے کہا:''اب جبکہ آپ ہمارے شہر میں آگئے ہیں تو کیا میرے گھر نہیں چلیں گے؟'' فرمایا:'' میرے لیے کوئی مستقل رہائش گاہ نہیں۔ میں مسافر ہوں کسی ایک جگہ نہیں ٹھہر سکتا ۔'' یہ سن کرمیں رونے لگا توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بھی رو دئیے ۔پھر سلام کیا اور مجھے روتا چھوڑ کر اپنی اگلی منزل کی جانب روانہ ہوگئے ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُنا ابوبَکْر دَقَّاق علیہ رحمۃ اللہ الرزاق سے منقول ہے کہ میں نے حضرتِ سیِّدُنا احمد بن عیسیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے سنا کہ''ایک مرتبہ میں صحراء میں جارہاتھاکہ اچانک چرواہوں کے دس شکاری کتوں پر میری نظر پڑی۔ مجھے دیکھ کر وہ میری جانب لپکے ، جب قریب آئے تو میں نے مراقبہ شروع کردیا(یعنی دل میں خوفِ خداعَزَّوَجَلَّ کاتصورجمایا)۔اچانک ان کے درمیان سے ایک سفیدرنگ کا کتا نکلااور ان کتو ں پر حملہ کر کے مسلسل میرا دفاع کرتا رہا۔جب میں ان کتو ں سے کافی دور ہوگیاتواس سفیدکتے کودیکھنے کے لئے مڑامگروہ کہیں نظر نہ آیا، نہ جانے کہاں غائب ہوگیا ۔میں کتوں سے اس لئے محفوظ رہاکیونکہ میرے ایک استاذ مجھے خوف سے متعلق سکھایا کرتے تھے ،ایک دن انہوں نے مجھ سے کہا :'' آج میں تمہیں ایک ایسے خوف کے بارے میں بتاؤں گا جس سے تمام امورِ خیر تمہارے لئے جمع ہوجائیں گے۔'' میں نے پوچھا:'' وہ کیا ہے ؟ '' فرمایا : ''اللہ عَزَّوَجَلَّ کاخوف دل میں بٹھا لینا ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
ابو خلیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں :'' بصرہ میں ابو سلیمان ہاشمی نامی ایک بہت بڑا تاجر رہتاتھا۔ جس کی روز انہ کی آمدنی (۸۰)اسی ہزار درہم تھی ۔ اس نے علماء کرام سے پوچھا کہ:''بصرہ '' کی کونسی نیک عورت سے شادی کرنا میرے حق میں بہتر رہے گا۔ علماء کرام نے مشورہ دیتے ہوئے کہا:'' رَابِعَہ عَدَوِیَّۃ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہاسے شادی کر نا تمہارے حق میں بہت بہترثابت ہو گا۔ تاجر نے فوراََحضرتِ سیِّدَتُنارَابِعَہ عَدَوِیَّۃ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا کویہ خط بھیجا :
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم،
اَمّابعد:
"''(اے رابعہ عدویہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا!) میری روزانہ کی آمدنی اسّی(80) ہزاردرہم ہے۔ اِن شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ کچھ ہی دنوں میں ایک لاکھ درہم ہوجائے گی ۔میں آپ سے نکاح کرنا چاہتا ہوں ۔ آپ راضی ہوجائیں تومیں ایک لاکھ درہم بطورِ مہر دینے کو تیار ہوں، شادی کے بعد اتنے درہم مزید دوں گا۔اگرآپ راضی ہوں تومجھے اطلاع کردیں ۔
حضرت سیِّدَتُنا رابعہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا نے جب تاجر کاخط پڑھاتو جواب لکھا:"
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم،
اَمَّابعد:
"''بے شک دنیا سے کنارہ کشی بد ن اور دل کو تقویت بخشتی ہے ۔ اور دنیا کی طرف رغبت ،رنج ومَلال کا باعث ہے ۔ میرا یہ خط ملتے ہی آخرت کی تیاری میں کوشش شروع کردو۔ سفرِ آخرت کے لئے زادِ راہ اکٹھا کرنے میں مشغول ہوجاؤ۔ اپنا مال آخرت کے لئے ذخیرہ کرو۔ اپنے لئے خود وصیت کرنے والے بن جاؤ۔ اپنے غیر کو وصی نہ بنانا ۔ مسلسل روزے رکھنا ۔ اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ مجھے تجھ سے دُگنا مال دے دے اور میں اس مال کی وجہ سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی یاد سے لمحہ بھر بھی غافل ہوجاؤں تو یہ مجھے ہر گز ہر گز پسند نہیں۔میں اسی حال میں خوش ہوں ۔والسلام ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
حضرتِ سیِّدُناثابت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے منقول ہے کہ :''ایک عورت کھانا کھا رہی تھی اتنے میں سائل نے صدا لگائی: ''مجھے کھانا کھلاؤ،مجھے کھانا کھلاؤ ۔'' عورت کے پاس صرف ایک لقمہ بچا تھاجیسے ہی اس نے منہ کھولاسائل نے دوبارہ صدالگائی۔
"ہمدردو نیک عورت نے وہ لقمہ سائل کو کھلادیا ۔ کچھ عرصہ بعد وہی عورت اپنے ننھے منے بچے کے ساتھ کہیں سفر پر جارہی تھی کہ راستے میں ایک شیر اس کا بچہ چھین کر لے گیا۔ ابھی شیر تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ اچانک ایک شخص نمودار ہوااور شیر کی طرف بڑھا ، پھر شیر کے دونوں جبڑے پکڑ کے پھاڑ ڈالے اور بچہ ا س کے منہ سے نکال کر عورت کے حوالے کر تے ہوئے کہا :'' لقمے کے بدلے لقمہ۔ '' یعنی تو نے جو ایک لقمہ سائل کو کھلایا تھا اس کی بر کت سے تیرا بچہ شیر کا لقمہ بننے سے بچ گیا ۔''
حضرتِ سیِّدُناعِکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:'' حضرت سیِّدُنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ حضورنبئ پاک، صاحبِ لَوْلاک، سیّاحِ اَفلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:''ایک عورت کے منہ میں لقمہ تھا اتنے میں سائل نے صدالگائی اس نے وہ لقمہ سائل کو کھلادیا۔ کچھ عرصہ بعد اس کے ہاں ایک بچے کی ولادت ہوئی ، جب وہ کچھ بڑا ہوا تو اسے بھیڑیا اٹھا کر لے گیا عورت اس بھیڑیئے کے پیچھے بھاگتی ہوئی پکار رہی تھی '' میرا بیٹا ، میرا بیٹا'' اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ایک فرشتے کو حکم دیا کہ بھیڑیئے سے بچہ چھین لو (اور اس کی ماں کے حوالے کردو)اور اس سے کہو کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تم پر سلام بھیجا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ لقمہ لقمے کے بدلے ہے۔''"
(المجالسۃ وجواہر العلم،الجزء السادس والعشرون،الحدیث۳۶۲۲، ج۳،ص۲۷۷)
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)
اِسحاق بن ابراہیم مَوْصِلی کے والد سے منقول ہے:'' ایک مرتبہ خلیفہ ہارون الرشیدعلیہ رحمۃ اللہ المجید اور جَعْفَر بن یحیی بَرْمَکِی حج کے لئے روانہ ہوئے ،میں بھی ساتھ تھا۔ جب ہم مدینہ منورہ
زَادَھَا اللہُ شَرْفًا وَّتَعْظِیْمًا
"پہنچے تو جَعْفَربن یحیی نے مجھ سے کہا: ''کیا تم میرے لئے کوئی ایسی لونڈی تلاش کر سکتے ہو جو حسن وجمال اور ذہانت میں بے مثال ،نغمہ گنگنانے میں باکمال اور انتہائی باادب ہو۔'' میں نے کہا:'' کوشش کرتا ہوں کہ ایسی لونڈی کہیں مل جائے۔'' چنانچہ، میں ایسی صفات کی حامل لونڈی کی تلاش میں لگ گیا۔ بالآخر مجھے معلوم ہوا کہ فلاں شخص کے پاس ایسی لونڈی مل سکتی ہے۔
میں مطلوبہ شخص کے پاس پہنچا ا وراپنے آنے کا مقصد بیان کیا۔ اس نے ایک لو نڈی مجھے دکھائی تو میں اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔ اتنی خوبصورت وباادب لونڈی میں نے آج تک نہ دیکھی تھی۔اس کے چہرے کی چمک دمک آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی۔ جب اس نے نغمہ گنگنایا توآواز بڑی دلکش وسریلی تھی۔ مجھے وہ بہت پسند آئی میں نے اس کے مالک سے کہا :''بتاؤ !اس کی کیا"
"قیمت لوگے ؟'' مالک نے کہا:'' میں ایک دام بتاؤں گا او راس سے ایک پیسہ بھی کم نہ کرو ں گا۔ ''میں نے کہا :'' بتا ؤ۔ ''کہا: ''چالیس ہزار دینار۔'' میں نے کہا:'' ٹھیک ہے، یہ لونڈی ہماری ہوگئی تم کچھ انتظار کرو میں رقم کا انتظام کرتا ہوں۔''کہا:'' ٹھیک ہے یہ لو نڈی تمہاری ہے ، تم رقم لے آؤ۔''
چنانچہ، میں جَعْفَربن یحیی کے پاس آیا اور کہا:''جیسی لونڈی آپ کو مطلوب تھی وہ مل گئی ہے اس میں وہ تمام صفات بَدرجۂ اتم پائی جاتی ہیں جو آپ نے بتائی تھیں۔ وہ انتہائی حسین وجمیل، سریلی آواز کی مالک، بہترین رنگ وروپ والی اور انتہائی باادب ہے ۔ میں سودا طے کر آیا ہوں آپ مزدوروں کو حکم دیں کہ رقم اٹھائیں۔'' مزدوروں نے درہموں کی تھیلیاں اٹھائیں اورمیرے ساتھ لونڈی کے مالک کے پاس آگئے، جَعْفَر بن یحیی کچھ دیر بعد اکیلا ہی وہاں پہنچا ۔ جب لونڈی کے حسن وجمال کو دیکھا بہت متعجب ہوا اور دیکھتا ہی رہ گیا۔ اسے معلوم ہوگیا کہ میں نے اس کے لئے اچھی چیز کا انتخاب کیا ہے ۔ لونڈی نے اپنی دلکش وسریلی آواز میں نغمہ گنگنایا تو جَعْفَر بن یحیی بہت خوش ہوااورمجھ سے کہا:'' تمہارا انتخاب ہمیں بہت پسند آیا۔ جلدی سے لونڈی کی قیمت ادا کردو۔''
میں نے مالک سے کہا:'' یہ پورے چالیس ( 40) ہزار دینار ہیں ہم نے ان کا وزن کرلیا ہے اگر تم چاہوتو دوبارہ وزن کرلو۔'' اس نے کہا:'' ہمیں تم پر بھروسہ ہے ۔'' جب لونڈی نے ہماری گفتگو سنی تو اپنے مالک سے کہنے لگی :''میرے سردار !یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ کیا آپ مجھے بیچنا چاہتے ہیں ؟ ''اس نے کہا :'' تُو تو جانتی ہے کہ ہم کتنی خوشحال زندگی گزار رہے ہیں ، ابھی ہمارے حالات بہت اچھے ہیں،لیکن حالات بدلتے دیر نہیں لگتی اگر ہم پر تنگی کے دن آگئے تو کیا بنے گا؟ میں تو کسی کے سامنے کبھی بھی ہاتھ نہیں پھیلا سکتا ، لہٰذا حالات کے پیشِ نظر میں نے یہی فیصلہ کیا کہ تجھے کسی ایسے شخص کے ہاتھوں فروخت کردوں جو تجھے ہمیشہ خوش رکھے اوروہاں تیری تمام خواہشات پوری ہوسکیں۔'' لونڈی نے بڑی غمگین آوازمیں کہا: ''میرے آقا! خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! اگر آپ کی جگہ میں ہوتی اور میری جگہ آپ ہوتے تو میں تمام دنیا کی دولت کے بدلے بھی آپ کو فروخت نہ کرتی۔کیا آپ کو اپنا وعدہ یا دنہیں؟ آپ نے ہی تو وعدہ کیا تھا کہ کبھی بھی تجھے بیچ کر تیری رقم نہیں کھاؤ ں گا ۔''
لونڈی کی درد مندانہ گفتگو سن کر مالک کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے، اس نے روتے ہوئے کہا :'' تم سب گواہ ہوجاؤ کہ یہ لونڈی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا کی خاطر آزاد ہے اب میں اس سے نکاح کرتا ہوں اور میرا گھر اس کا مہر ہے ۔''جب عقدِ نکاح ہوگیا تو جَعْفَر بن یحیی نے مجھ سے کہا:'' چلو واپس چلتے ہیں۔'' میں نے مزدوروں کو حکم دیا کہ تمام رقم واپس لے چلو۔''جَعْفَر بن یحیی"
نے کہا :'' نہیں ! خداعَزَّوَجَلَّ کی قسم !اب اس رقم سے ایک درہم بھی واپس نہیں جائے گا۔'' پھر لونڈی کے مالک کی طرف متوجہ ہو کر کہا:'' یہ تمام رقم تجھے مُبَارَک ہو ،اس سے اپنی اور اپنی نئی منکوحہ کی ضروریات پوری کرو۔'' یہ کہہ کر جَعْفَر بن یحیی نے ہمیں ساتھ لیا اورچالیس ہزار دینار وہیں چھوڑ کر واپس چلاآیا۔
" حضرتِ سیِّدُناسَری بن یحیی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے مروی ہے کہ'' ایک شخص خُرَاسَان سے بصرہ آیا اور وہیں رہنے لگا۔ اس کے پاس دس ہزار درہم تھے ، جب حج کا پُربہار موسم آیا تو اس خُرَاسَانی نے اپنی زوجہ کے ساتھ حج پر جانے کا ارادہ کیا۔ اب یہ مسئلہ درپیش ہوا کہ یہ دس ہزار درہم کس کے پاس امانت رکھے جائیں؟۔ لوگوں سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا: '' تم اپنی رقم حبیب ابو محمد عجمی علیہ رحمۃ اللہ القوی کے پاس رکھ دو ۔'' چنانچہ وہ حضرتِ سیِّدُنا حبیب عجمی علیہ رحمۃ اللہ القوی کے پاس آیااورکہا : '' حضور! میں اور میری اہلیہ حج کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ہمارے پاس دس ہزار درہم ہیں آپ یہ درہم رکھ لیں اور ہمارے لئے بصرہ میں ایک اچھا ساگھر خرید لیں۔''یہ کہہ کر اس نے ساری رقم آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے حوالے کی اور اپنی زوجہ کے ہمراہ حج کے لئے روانہ ہوگیا۔ حضرتِ سیِّدُنا حبیب عجمی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا کہ اگر ہم ان دس ہزار درہم کا آٹا خریدلیں اور فقیروں پر صدقہ کردیں تو کیسا رہے گا ؟ لوگوں نے کہا:'' حضور ! یہ رقم تو اس شخص نے آپ کے پاس اس لئے رکھوائی تھی کہ آپ کوئی مکان اس کے لئے خرید لیں ۔''ارشاد فرمایا: '' میں یہ تمام رقم صدقہ کر کے اس شخص کے لئے اللہ عَزَّوَجَلَّ سے جنت میں گھر خریدوں گا ، اگر وہ اس گھر پر راضی ہوا تو ٹھیک،ورنہ ہم اس کی رقم واپس کردیں گے۔'' پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے آٹا اور روٹیاں منگواکر فقراء و مساکین میں تقسیم فرمادیں ۔''
جب وہ خُرَاسَانی ،حج کر کے واپس بصرہ آیا تو حضرتِ سیِّدُنا حبیب عجمی علیہ رحمۃ اللہ القوی کے پاس حاضر ہو کر عرض کی: ''اے ابو محمدرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ! میں نے دس ہزاردرہم آپ کے پاس رکھوائے تھے کہ آپ میرے لیے مکان خرید لیں اگر آپ نے مکان نہیں خریدا تو میری رقم مجھے واپس کردیں تاکہ میں خود کوئی مکان خریدلوں ۔'' حضرتِ سیِّدُنا حبیب عجمی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے فرمایا: ''اے میرے بھائی ! میں نے تیرے لئے ایسا شاندار گھر خریدا ہے جس میں بہت عمدہ محل ، نہریں ،میوے اور پھل دار درخت ہیں۔'' یہ سن کر وہ خُرَاسَانی اپنی زوجہ کے پاس گیا او رکہا:'' حضرتِ سیِّدُنا حبیب عجمی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے ہمارے لئے ہمارے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ سے جنت میں ایک گھر خرید لیا ہے۔'' اس کی زوجہ نے کہا:'' ٹھیک ہے یہ تو بہت اچھا ہوا۔ میں امید رکھتی ہوں کہ اللہ"
"عَزَّوَجَلَّ حبیب عجمی علیہ رحمۃ اللہ القوی کے عہد کو پورا فرمائے گا۔لیکن کیا معلوم کہ ہم ان سے پہلے ہی سفر آخرت کی طرف روانہ ہوجائیں ، تم ایسا کرو حبیب عجمی علیہ رحمۃ اللہ القوی سے ایک رقعہ لکھوا لو کہ وہ ہمیں جنت میں ایک گھر دلوانے کے ضامن ہيں ۔''
چنانچہ وہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس آیا اور کہا:''اے ابو محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ! آپ نے جو گھر ہمارے لئے خرید ا ہے وہ ہمیں قبول ہے ، آپ ہمارے لئے رقعہ لکھ دیں کہ آپ جنت میں گھر دِلوانے کے ضامن ہیں ۔'' فرمایا: ''ٹھیک ہے میں رقعہ لکھ دیتا ہوں۔ پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس طرح رقعہ لکھا:"
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
" '' یہ ضمانت نامہ ہے اس بات کا کہ حبیب ابو محمد نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے فلاں خُرَاسَانی شخص کے لئے دس ہزار درہم کے عوض جنت میں ایک ایسا گھر خریدا ہے جس میں محلات ، نہریں اور پھلدار درخت ہیں۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ذمہ کر م پر ہے کہ فلاں شخص کو ایسی صفات سے متصف گھر دے کر حبیب عجمی کو اس کے عہد سے بری کردے۔ ''
خُرَاسَانی وہ رقعہ لے کرخوشی خوشی اپنے گھرآگیا۔ ابھی اس واقعہ کو چالیس(40)دن ہی ہوئے تھے کہ وہ بیمار ہوگیا۔ اس نے اپنی زوجہ کو وصیت کی'' جب مجھے غسل دے کر کفن پہنایا جائے تو یہ رقعہ میرے کفن میں رکھوا دینا ۔'' حسبِ وصیت رقعہ اس کے کفن میں رکھ دیا گیا ۔ دفن کے بعد لوگو ں کو اس کی قبر پر ایک پرچہ ملا جس پر لکھا تھا:
'' یہ حبیب عجمی کے لئے اس گھر کا براء ت نامہ ہے جسے اس نے فلاں شخص کے لئے خریدا تھا۔اللہ عَزَّوَجَلَّ نے خُرَاسَانی کو ایسا گھر دے دیا ہے جس کا حبیب عجمی نے عہدکیا تھا ۔''
لوگ یہ پرچہ لے کر حضرتِ سیِّدُنا حبیب عجمی علیہ رحمۃ اللہ القوی کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وہ رقعہ پڑھ کر رونے لگے پھر اپنے ساتھیوں کے پاس آئے اور فرمایا :'' یہ میرے رب عَزَّوَجَلَّ کی طر ف سے میرے لئے براء ت نامہ ہے۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
حضرتِ سیِّدُنا جَعْفَر بن سلیمان علیہ رحمۃ اللہ المنّان فرماتے ہیں : '' ایک مرتبہ میں حضرتِ سیِّدُنا مالک بن دینار علیہ رحمۃ اللہ الغفار کے ساتھ جار ہا تھا۔ ایک جگہ ایک عظیم الشان محل کی تعمیرجاری تھی۔ ایک حسین و جمیل نوجوان مزدوروں ،معماروں کو تعمیر سے متعلق
"حکم دے رہا تھا۔ حضرتِ سیِّدُنا مالک بن دینار علیہ رحمۃ اللہ الغفار نے مجھ سے فرمایا: ''اے جَعْفَر (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)!دیکھو تو سہی!یہ نوجوان اس محل کی تعمیر میں کتنی دلچسپی لے رہا ہے ۔ میں اپنے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ سے دعا کروں گا کہ وہ اسے دنیوی محبت سے چھٹکارا عطا فرمائے ۔ مجھے امید ہے کہ میرا مولیٰ عَزَّوَجَلَّ اس نوجوان کو جنتی نوجوانوں کی صف میں شامل فرمائے گا۔ آؤ!ہم اسے نیکی کی دعوت دیتے ہیں ۔''
ہم نوجوان کے پاس آئے اور سلام کیا۔ اس نے بیٹھے بیٹھے ہی سلام کا جواب دیا وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کے سامنے ایک ولئ کامل کھڑا ہے ۔جب لوگوں نے بتایا کہ یہ حضرتِ سیِّدُنا مالک بن دینار علیہ رحمۃ اللہ الغفارہیں تو وہ فوراً کھڑا ہوا اور بڑے مؤدِّبا نہ انداز میں عرض گزار ہوا:'' حضور! آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو مجھ سے کوئی کام ہے ؟'' فرمایا :'' اے نوجوان ! تیرا اس محل کی تعمیر پر کتنی رقم خرچ کرنے کا ارادہ ہے ؟'' کہا :'' ایک لاکھ درہم۔ '' فرمایا :'' کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ تم ایک لاکھ درہم مجھے دے دو میں یہ تمام رقم اس کے حق داروں ،یتیموں اور مساکین میں تقسیم کردو ں اور اس کے بدلے ایک ایسے محل کا ضامن بن جاؤں جس میں بہترین خدمت گزار، سرخ یا قوت کے قُبّے اور عمدہ قمقے ہونگے ، وہاں کی مِٹی زعفران کی ا ور فر ش مُشک کا ہوگا ، وہ محل تیرے اس محل سے بہت زیادہ وسیع وعالی ہوگا ، اس کے درودِیوار میلے نہ ہونگے ، اسے معماروں اور مزدوروں نے نہیں بنایا بلکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حکم فرمایا اور وہ محل بن گیا ۔بتا ؤ تمہیں یہ سودا منظور ہے ؟ ''
نوجوان نے کہا:'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ایک رات کی مہلت دے دیں ، کل صبح میں آپ کو بتاؤں گا کہ میں نے کیا فیصلہ کیا۔'' حضرتِ سیِّدُنا جَعْفَر بن سلیمان علیہ رحمۃ اللہ المنان فرماتے ہیں کہ :''وہ رات حضرتِ سیِّدُنا مالک بن دینار علیہ رحمۃ اللہ الغفار نے بڑی بے چینی کے عالم میں گزاری، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ساری رات اسی نوجوان کے بارے میں سوچتے رہے ، تہجد کے وقت آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بارگاہِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ میں اس نوجوان کے لئے خوب دعا کی ۔فجر کی نماز کے بعد ہم دوبارہ اس کے پاس گئے۔ وہ ہمارامنتظر تھا جیسے ہی اس کی نظر حضرتِ سیِّدُنا مالک بن دینار علیہ رحمۃ اللہ الغفار پر پڑی وہ اتنہائی خوشی کے عالم میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی طرف لپکا اور بڑی گرم جوشی سے ملاقات کی، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا : ''اے نوجوان! تونے کیا فیصلہ کیا ؟ اس نے ایک لاکھ درہم آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے کہا:'' مجھے جنتی محل کا سودا منظور ہے ،آپ مجھے ضمانت نامہ لکھ دیجئے۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے قلم ،دوات منگواکر ایک کاغذ پر یہ الفاظ لکھے:"
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
''یہ ضمانت نامہ اس بات کا ہے کہ مالک بن دینارنے فلاں بن فلاں سے یہ اقرار کیاکہ'' بے شک میں اس بات کا ضامن ہوں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ تجھے اس محل کے بدلے ایک ایسا محل عطا فرمائے گا جو ا س سے بد رجہا بہتر ہوگا۔ اور اس کی یہ ،یہ صفات
"ہونگی۔ میں نے اللہ تبارک وتعالیٰ سے تیرے لئے اس مال کے ذریعے جنت میں ایک ایسا محل خریدا ہے جو عرش کے قریب ہے۔ ''
پھرآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے وہ کا غذ نوجوان کو دیا۔ اورشام سے پہلے پہلے تمام مال فقرا ومساکین میں تقسیم فرمادیا۔ اس واقعہ کے چالیس دن بعد آ پ کو مسجد کی محراب میں ایک پرچہ ملا،دیکھا تو بڑے حیران ہوئے کیونکہ یہ وہی پرچہ تھا جو اس نوجوان کو لکھ کر دیا تھا۔ اس کی دوسری طرف بغیر روشنائی کے یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے :
'' یہ براء ت نامہ ،خدائے بزرگ وبر ترکی جانب سے مالک بن دینار کے لئے ہے۔بے شک ہم نے اس نوجوان کو وہ تمام چیزیں دے دیں ہیں جن کا مالک بن دینار نے اس سے اقرار کیا تھا بلکہ ہم نے اس سے ستر گنا زیادہ دیا۔''ہم وہ رقعہ لے کر اس نوجوان کے گھر گئے تو وہاں سے رونے کی آواز یں آرہی تھیں ۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے لوگوں سے نوجوان کے بارے میں پوچھا توپتا چلا کہ کل اس نوجوان کا انتقال ہوگیا۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس کی موت کی خبرسن کر بہت غمگین ہوئے پھر غسّال کو بلاکر پوچھا :کیا تو نے اس نوجوان کو غسل دیا؟'' کہا :'' ہاں۔ '' فرمایا: ''نوجوان کی موت کا پورا واقعہ بیان کرو۔ ''
کہا:'' مرنے سے پہلے اس نوجوان نے مجھ سے کہا تھا کہ جب میں مرجاؤں اور غسل کے بعد مجھے کفن دینے لگيں تو یہ پرچہ میرے بدن اور کفن کے درمیان رکھ دینا، میں کل بروز قیامت اللہ عَزَّوَجَلَّ سے وہ چیز طلب کرو ں گا جس کی ضمانت حضرتِ سیِّدُنا مالک بن د ینارعلیہ رحمۃ اللہ الغفار نے مجھے دی تھی ۔''میں نے حسبِ وصیت پرچہ اس کے کفن میں رکھ دیا، غسّال کی یہ بات سن کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے پرچہ نکالا اور غسّال کو دکھایا ،وہ پکار اٹھا :'' یہ وہی پرچہ ہے ، قسم ہے اس پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے ! میں نے خود اپنے ہاتھوں سے یہ پرچہ اس نوجوان کے کفن میں رکھا تھا۔ ''
یہ سن کر حضرتِ سیِّدُنا مالک بن دینار علیہ رحمۃ اللہ الغفار زار وقطار رونے لگے۔لوگ بھی رونے لگے۔ اتنے میں ایک نوجوان کھڑا ہوا اور کہا :'' اے مالک بن دینار علیہ رحمۃ اللہ الغفار !آپ مجھ سے دو لاکھ درہم لے لیں اور اس نوجوان کی طرح مجھے بھی ضمانت نامہ لکھ دیں۔'' فرمایا:'' افسوس ! اب وہ وقت گزر چکا ، اب جو ہونا تھا وہ ہوگیا ، اللہ ربُّ العزت جس طر ح چاہتا ہے اپنی مخلوق میں فیصلہ فرماتا ہے ۔'' حضرتِ سیِّدُنا جَعْفَر بن سلیمان علیہ رحمۃ اللہ المنان فرماتے ہیں کہ'' حضرت سیِّدُنا مالک بن دینار علیہ رحمۃ اللہ الغفار کو جب بھی اس نوجوان کا واقعہ یاد آتا آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ زارو قطار رونے لگتے اور اس کے لئے دعا فرماتے ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)
( میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اللہ ورسول عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی خوشنودی ،جنت کی دائمی نعمتوں کے حصول اور باکردار مسلمان بننے کے لئے ''دعوتِ ا سلامی'' کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ سے'' مدنی انعامات ''نامی رسالہ حاصل کر کے اس کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کیجئے۔اور اپنے اپنے شہروں میں ہونے والے دعوت اسلامی کے ہفتہ وارسنتو ں بھرے"
"اجتماع میں پابندیئ وقت کے ساتھ شرکت فرما کر خوب خوب سنتوں کی بہاریں لُوٹئے۔ دعوت اسلامی کے سنتوں کی تربیت کے لیے بے شمار مدنی قافلے شہر بہ شہر،گاؤں بہ گاؤں سفر کرتے رہتے ہیں،آپ بھی سنتوں بھرا سفر اختیار فرما کراپنی آخرت کے لئے نیکیوں کا ذخیرہ اکٹھا کریں۔ان شاء اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ اپنی زندگی میں حیرت انگیز طور پر مدنی انقلاب برپا ہوتا دیکھیں گے۔)
؎ اللہ کرم ایسا کرے تجھ پہ جہاں میں اے دعوتِ اسلامی تیری دھوم مچی ہو !"
" حضرتِ سیِّدُنا ابو عبداللہ احمد بن یحیی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے منقول ہے کہ'' ایک مرتبہ میں حضرتِ سیِّدُنا مَعْرُوف کَرْخِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کے پاس بیٹھا تھا۔ایک شخص آیا اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے کہا:'' اے ابو محفوظ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ!آج ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ '' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:''اللہ عَزَّوَجَلَّ تم پررحم فرمائے بتاؤ کیا واقعہ پیش آیا؟'' اس نے اپنا واقعہ کچھ اس طر ح بیان کیا :
'' میرے گھر والوں نے مجھ سے مچھلی کھانے کی فرمائش کی۔ میں نے بازار جاکر مچھلی خریدی اور اسے گھر پہنچانے کے لئے ایک کمسن مزدوربلایا، اس نے مچھلی اٹھائی اور میرے پیچھے پیچھے چل دیا ۔ راستے میں اذان کی آواز سنائی دی اس مزدور لڑکے نے کہا:'' چچا جان ! اذان ہو رہی ہے کیا ہم نماز نہ پڑھ لیں؟'' اس کی یہ بات سن کر مجھے ایسا لگا جیسے وہ نو عمر لڑکا مجھے خوابِ غفلت سے بیدار کر رہا ہے۔ میں نے کہا :'' کیوں نہیں !آؤ پہلے نماز پڑھ لیتے ہیں۔''
اس نے مچھلی وضو خانے پر رکھی اور مسجد میں داخل ہو گیا ۔ہم نے باجماعت نماز ادا کی اور گھر کی طرف چل دئیے۔ گھر پہنچ کر میں نے گھر والوں کواس نیک کمسن مزدور کے بارے میں بتایا تو وہ کہنے لگے :'' اس سے کہو آج دوپہر کا کھانا ہمارے ساتھ کھالے ۔'' میں نے اسے دعوت دی تو اس نے کہا کہ :''میرا روزہ ہے۔''میں نے کہا:''افطاری ہمارے ساتھ کرلینا۔''کہا:'' ٹھیک ہے ، آپ مجھے مسجد کا راستہ بتادیں۔'' میں نے اسے مسجد پہنچا دیاوہ مغرب تک مسجد ہی میں رہا ۔ نماز کے بعدمیں نے کہا:'' اللہ عَزَّوَجَلَّ تجھ پر رحم فرمائے، آؤ گھر چلتے ہیں۔ اس نے کہا :'' کیا ہم عشاء کی نماز پڑھ کر نہ چلیں؟'' میں نے اپنے دل میں کہا ـ:'' اس کی بات مان لینے ہی میں بھلائی ہے ۔''
چنانچہ مَیں مسجد میں رُک گیا ، نمازِ عشاء کے بعد ہم گھر آئے۔ ہمارے گھر میں تین کمرے تھے ایک میں، مَیں اورمیری زوجہ رہتے تھے۔ دوسرے کمرے میں ایک پیدائشی معذور لڑکی رہتی تھی جو چلنے پھرنے سے بالکل عاجز تھی اور اسی حالت میں بیس سال گزر چکے تھے۔ تیسرا کمرہ مہمانوں کے لئے تھا ، ہم سب نے کھاناکھایا اور اپنے اپنے کمروں میں سوگئے نوعمر نیک لڑکے کو ہم نے مہمانوں"
"والے کمرے میں سلادیا ۔ رات کے آخری پہر دروازے پر کسی نے دستک دی، میں نے کہا:'' کون ہے؟۔'' اس نے اپنا نام بتا کر کہا: ''میں فلاں لڑکی ہوں۔''میں نے کہا :'' وہ تو چلنے پھرنے سے بالکل عاجز ہے ، گویا وہ تو گوشت کے ٹکڑے کی طر ح ہے اور ہر وقت اپنے کمرے ہی میں رہتی ہے تم وہ کیسے ہوسکتی ہو ؟'' اس نے کہا:'' میں وہی ہوں تم دروازہ تو کھولو۔'' ہم نے دروازہ کھولا تو واقعی ہمارے سامنے وہی لڑکی موجود تھی۔ میں نے کہا:'' تم ٹھیک کیسے ہوگئی ہو؟ ۔'' کہا:''میں نے تمہاری آوازیں سنیں تھیں کہ آج ہمارے ہاں ایک نیک مہمان آیا ہے ، میرے دل میں خیال آیا کہ اس نیک مہمان کے وسیلے سے دعا کروں شاید اسی کے صدقے اللہ عَزَّوَجَلَّ مجھے شفاء عطا فرمادے۔''
لہٰذامیں نے بارگاہِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ میں اس طر ح دعا کی:'' اے میرے پاک پروردگارعَزَّوَجَلَّ! اس مہمان کے صدقے بیماری کو زائل کردے اور مجھے تندرستی عطا فرما۔''یہ دعا کرتے ہی میں فورا ٹھیک ہوگئی اوراللہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم سے میرے ہاتھ پاؤں میں حرکت شرو ع ہوگئی ، دیکھو میں تمہارے سامنے صحیح وسالم موجود ہوں ۔ میں خود چل کر یہاں آئی ہوں ۔'' لڑکی کی یہ بات سن کر میں فوراً اس کمرے کی طرف گیا جس میں وہ نوعمر مزدور لڑکا تھا۔ دیکھا توکمرہ بالکل خالی تھا اس میں کوئی بھی نہیں ۔ میں باہردروازے کی طرف گیا تو وہ بھی بند تھا ، نجانے ہمارا نوعمر مہمان کہا ں غائب ہوگیا ۔ حضرتِ سیِّدُنا ابو عبداللہ احمد بن یحیی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں : ''حضرتِ سیِّدُنا مَعْرُوف کَرْخِی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے یہ واقعہ سن کر مجھ سے فرمایا : '' اللہ عَزَّوَجَلَّ کے اولیاء میں کم عمر بچے بھی ہوتے ہیں اور بڑی عمروالے بھی وہ لڑکا اللہ عَزَّوَجَلَّ کا ولی تھا۔ ''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُنا ابو عمر و بن عَلْوَان علیہ رحمۃ اللہ المنان فرماتے ہیں :''ایک مرتبہ میں کسی کام سے ''رَحْبَہ'' کے بازار میں گیا ۔ دیکھا کہ کچھ لوگ جنازہ اٹھائے جارہے ہیں ۔ میں نماز جنازہ کے ارادے سے ان کے ساتھ ہولیا ۔ تدفین کے بعدجب واپس ہوا توبِلاارادہ ایک حسین و جمیل عورت پر نظر پڑگئی اور میں اسے دیکھنے لگاپھر نادِم ہوکر'' اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن'' کہتے ہوئے نگاہ پھیر لی ۔اور اللہ رب ا لعزت جَلَّ جَلَالُہٗ سے اپنے اس فعل کی معافی چاہتے ہوئے گھر چلا آیا ۔
گھر پہنچا توبوڑھی خادمہ نے حیران ہوتے ہوئے کہا :'' یہ آپ کا چہرہ سیاہ کیوں ہوگیا؟'' میں نے گھبراکر آئینہ دیکھا تو"
"واقعی میرا چہر ہ سیاہ ہوچکا تھا ۔ میں سوچنے لگا کہ آخر ایسا کونسا گناہ سرزد ہوگیا جس کی نحوست سے مجھ پر یہ مصیبت آ پڑی؟۔ پھر خیال آیا کہ اس غیرعورت کو دیکھنے کی وجہ سے اس عذاب میں گرفتار ہوا ہوں ۔چنانچہ میں چالیس روز تک اللہ عَزَّوَجَلَّ سے معافی مانگتا رہا۔ پھر خیال آیا کہ مجھے اپنے مرشدِ کا مل حضرتِ سیِّدُناجنید بغدادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی کی بارگاہ میں حاضر ہونا چاہے۔ چنانچہ ،میں عروس البلاد ''بغداد شریف''کی جانب چل دیا۔ جب مرشدِ کامل کے آستانہ عالیہ پر پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹایا تو شیخِ کامل حضر تِ سیِّدُنا جنید بغدادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی کی آواز سنائی دی :
''اے ابو عمر ! اندر آجاؤ تم نے ''رَحْبَہ ''میں گناہ کیا ،اور ہم یہاں بغداد میں تمہارے لئے استغفار کر رہے ہیں۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُنا محمد بن نافع رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں :'' ابونَوَّاس علیہ رحمۃ اللہ الرزاق میرے قریبی دوست تھے ہم ایک ہی علاقے میں رہاکرتے تھے۔ پھر وہ دوسرے شہر چلے گئے اور آخری عمر تک ان سے ملاقات نہ ہو سکی۔ ایک دن اطلاع ملی کہ ابو نوَّاس علیہ رحمۃ اللہ الرزاق کا انتقال ہوگیا ہے۔ اس خبر نے مجھے بہت غمگین کیا، میں بہت زیادہ پر یشان تھا،اسی حال میں مجھے اونگھ آگئی ۔ میں نے ابونَوَّاس علیہ رحمۃ اللہ الرزاق کو دیکھاتو پکار کر کہا:''ابو نو اس ؟'' انہوں نے کہا:'' یہاں کُنیَّت نہیں۔'' میں نے کہا :''آپ حسن بن ہانی ہیں؟ ''کہا :''ہاں۔'' میں نے پوچھا:'' مَافَعَلَ اللہُ بِکَ؟'' (یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟) کہا : ''اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مجھے میرے ان چند اشعار کی وجہ سے بخش دیا جو میں نے اپنی موت سے کچھ دیر قبل کہے تھے ۔''
حضرت سیِّدُنا محمد بن نافع رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں :''پھر میری آنکھ کھل گئی، میں فوراً ان کے گھر پہنچا۔ جب اہلِ خانہ نے مجھے دیکھا تو ان کا غم تازہ ہوگیا اوروہ بِلَک بِلَک کررونے لگے۔ میں نے انہیں تسلی دی اور پوچھا:'' کیا میرے بھائی ابو نواس علیہ رحمۃ اللہ الرزاق نے انتقال سے قبل کچھ اشعار لکھے تھے ؟'' انہو ں نے کہا:''ہمیں نہیں معلوم، ہاں! اتنا ضرور ہے کہ موت سے قبل انہوں نے قلم، دوات اور ورق منگوائے تھے ۔ میں نے کہا :'' مجھے ان کی خوابگاہ (یعنی آرام کے کمرہ)میں جانے کی اجازت دو تاکہ ان اوراق کو ڈھونڈ سکوں۔'' گھر والوں نے مجھے ان کی خوابگاہ تک پہنچا یا ۔میں نے تکیہ ہٹاکر دیکھا تو وہاں کوئی چیز نہ ملی پھر دوبارہ تکیہ ہٹایا تو وہاں ایک پرچہ ملا جس پر یہ اشعار لکھے ہوئے تھے :"
"یَارَبِّ اِنْ عَظُمَتْ ذَنُوْبِیْ کَثْرَۃً فَلَقَدْ عَلِمْتُ بِاَنَّ عَفْوَکَ اَعْظَمُ
اِنْ کَانَ لَایَرْجُوْکَ اِلَّامُحْسِنٌ فَمَنِ الَّذِیْ یَدْعُوْوَیَرْجُو الْمُجْرِمُ
اَدْعُوْکَ رَبِّ کَمَااَمَرْتَ تَضَرُّعًا فَاِذَا رَدَدتَّ یَدِیْ فَمَنْ ذَا یَرْحَمُ
مَالِیْ اِلَیْکَ وَسِیْلَۃٌ اِلَّا الرِّجَا وَجَمِیْلُ عَفْوِکَ ثُمَّ اِنِّیْ مُسْلِمُ"
" ترجمہ:(۱)۔۔۔۔۔۔اے میرے مالک ومولیٰ عَزَّوَجَلَّ! بے شک میرے گناہ بے شمارہوگئے ،مگرمیں جانتاہوں کہ تیرا عفووکرم سب سے بڑھ کر ہے۔
(۲)۔۔۔۔۔۔اگرنیک لوگ ہی تجھ سے امید رکھ سکتے ہیں تو پھرمجرم کسے پکاریں ؟اور کس سے امیدرکھیں؟۔
(۳)۔۔۔۔۔۔اے میرے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ !میں تیرے حکم کے مطابق گریہ وزاری کرتے ہوئے تیری بارگاہ میں فریاد کرتاہوں اگرتُونے مجھے
خالی ہاتھ لوٹا دیاتو پھر کون رحم کر ے گا۔؟
(۴)۔۔۔۔۔۔تیری بارگاہ میں باریابی کے لئے میرے پاس امید اور تیرے عفووکرم کے سوا کوئی وسیلہ نہیں پھر یہ کہ میں تجھے ماننے والا ہوں ۔
(پیارے اسلامی بھائیو :اس حکایت میں ان شعراء کرام کے لئے مسرت کاسامان ہے جوقرآن وسنت کی روشنی میں اچھے اشعار(یعنی حمدالہٰی ،ثنائے مصطفی عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اور نصیحت بھرے اشعار) لکھتے ہیں۔اوریقیناایسوں کے لکھے ہوئے اشعار پڑھنے اورسننے سے خوفِ خداعَزَّوَجَلَّ اورعشقِ مصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی لازوال دولت ملتی ،حفاظتِ ایمان کے لئے کُڑھنے کا ذہن بنتااورنیک بننے کاجذبہ ملتاہے۔اس کی ایک مثال شیخ طریقت، امیرِاہلسنّت بانئ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطارؔقادری دامت برکاتہم العالیہ کے لکھے ہوئے کلام بھی ہیں جودعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ سے ''مغیلانِ مدینہ''اور''ارمغانِ مدینہ''کے نام سے ہدیۃً خریدے جاسکتے ہیں۔)
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
حَمَّادبن مُؤَمَّل ابوجَعْفَرکَلْبِی کہتے ہیں کہ'' مجھے میرے شیخ نے بتایا:''ایک مرتبہ میں نے حضرتِ سیِّدُنا وَکِیْع علیہ رحمۃ اللہ القوی سے پوچھا:'' حضور ! کچھ عرصہ قبل خلیفہ ہارون الرشید علیہ رحمۃ اللہ المجید نے آپ تینوں یعنی وکیع ، ابن ادریس اور حفص بن غیاث رحمہم اللہ تعالیٰ کو شاہی دربار میں کیوں بلوایا تھا ؟'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:''تم نے مجھ سے وہ سوال کیاہے جوتم سے پہلے کسی نے نہیں کیا،چلو میں تمہیں سارا واقعہ بتاتاہوں:''ہوایوں کہ امیرالمؤمنین ہارون الرشید علیہ رحمۃ اللہ المجید نے ہم تینوں کو اپنے
"دربارمیں بلا کر شاہی مسندوں پربٹھایا،پھرمجھے اپنے پاس بلایااورکہا:'' اے وکیع !'' میں نے کہا :'' امیر المؤمنین !وکیع حاضر ہے۔ ''
خلیفہ نے کہا :'' تمہارے شہر والوں نے مجھ سے ایک قاضی طلب کیا ہے ، انہوں نے مجھے جن لوگوں کے نام دئیے ان میں تمہارا نام بھی ہے ، میں چاہتا ہوں کہ تجھے اپنی امانت اور رعایا کی بھلائی کے کاموں میں معاون بنا لوں ۔ میں تجھے قاضی بناتا ہوں ، جاؤ! اور اپنا عہد ہ سنبھالو۔ '' میں نے کہا:'' اے امیر المؤمنین! میری ایک آنکھ کی بینائی ختم ہوچکی ہے او ردوسری سے بہت کم دکھائی دیتا ہے اب میری عمر بھی کافی ہوگئی ہے، لہٰذا مجھے اس عہدے سے معافی دیں۔ '' امیر المؤمنین نے کہا : '' تم یہ عہدہ قبول کر لو۔'' میں نے کہا : '' اے امیر ا لمؤمنین! اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! اگر میں اپنے بیان میں سچا ہوں تو چاہے کہ میرا عذر قبول کیا جائے اور مجھے یہ عہدہ نہ دیا جائے۔ اگر جھوٹا ہوں تو جھوٹا شخص اس لائق نہیں کہ اسے قاضی بنایا جائے ۔'' خلیفہ نے جھنجھلا کر کہا :'' جاؤ! یہا ں سے چلے جاؤ ۔''میں نے موقع غنیمت جانا اور فوراً چلا آیا۔
پھر عبداللہ بن ادریس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو ا پنے پاس بلایا ،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بہت دھیمی آواز میں خلیفہ کو سلام کیا۔ خلیفہ نے کہا :'' کیا تم جانتے ہو کہ ہم نے تمہیں کیوں بلایا ؟'' فرمایا :'' نہیں ۔''خلیفہ ہارو ن الرشید علیہ رحمۃ اللہ المجیدنے کہا:'' تمہارے شہر والوں نے مجھ سے ایک قاضی طلب کیا ہے اور جن لوگوں کے نام بھجوائے ہیں ان میں تمہارا نام بھی ہے ۔ میں تمہیں تمہارے شہر کا قاضی بناتا ہوں ،جاؤ !اور اپنا عہدہ سنبھالو۔''حضرت عبداللہ بن ادریس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کہا:'' میں اس عہدہ کے لائق نہیں۔'' خلیفہ نے غضبناک ہوکر کہا : ''چلے جاؤ!میں تمہاراچہرہ بھی نہیں دیکھناچاہتا ۔'' خلیفہ کی یہ بات سن کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بھی انتہائی جرأت مندی سے جواب دیا ، اے خلیفہ میر ی بھی یہ خواہش ہے کہ میں تمہاراچہرہ نہ دیکھو ں۔'' اتنا کہہ کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وہاں سے چلے آئے ۔
پھر حفص بن غیاث کو بلایا گیا تو انہوں نے یہ عہدہ قبول کرلیا۔پھر ہم تینوں واپس اپنے شہر کی طرف چل دئیے ۔اتنے میں ایک خادم تین تھیلیاں لے کر آیا ہر تھیلی میں پانچ پانچ ہزار درہم تھے ۔ خادم نے تھیلیاں ہمیں دیتے ہو ئے کہا:'' امیر المؤمنین نے آپ تینوں کو سلام کہا ہے اور کہاہے کہ'' آپ کویہاں آنے تک سفر کی صعوبتیں برداشت کرناپڑیں،یہ کچھ رقم لے لوتاکہ دورانِ سفر کام آسکے۔''
حضرتِ سیِّدُنا وَکِیْع علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:''میں نے تھیلی واپس کرتے ہوئے کہا:''میری طرف سے امیر المؤمنین کوسلام کہنااورکہناکہ آپ کا ہدیہ ہم تک پہنچ چکا ہے ، فی الحال مجھے ان درہموں کی ضرورت نہیں ۔ آپ کی رعایا میں جو محتاج ہو یہ رقم اسے دے دیجئے ۔''جب خادم نے درہموں کی تھیلی عبداللہ بن ادریس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو دی تو آپ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک زور دار چیخ ماری اور کہا:''یہاں سے چلے جاؤ ، مجھے یہ رقم نہیں چاہے ، پھر حفص بن غیاث کو تھیلی دی گئی تو انہوں نے قبول کرلی۔"
خادم نے ایک رقعہ حضرت سیِّدُنا عبداللہ ابن ادریس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو دیاجس میں یہ کلمات لکھے تھے:
" '' اے عبداللہ بن ادریس !اللہ عَزَّوَجَلَّ مجھے اور آپ کو سلامت رکھے ، ہم نے سوال کیا کہ ہمارے کاموں میں ہمارے معاون بن جاؤ لیکن تم نے انکا ر کیا ، پھرہم نے مال بھیجوایا تم نے وہ بھی قبول نہ کیا ، میری ایک بات ضرور مان لینا ، جب تمہارے پاس میرا بیٹا مامون آئے تو اسے علمِ حدیث سکھانا۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے رقعہ پڑھ کر خادم سے کہا:'' خلیفہ سے کہہ دینا کہ اگر تمہارا لڑکا سب لوگو ں کے ساتھ مل پڑھنا چاہے تو اسے بھیج ديں، میں علیحدہ سے ا سے نہیں پڑھاؤں گا۔ اگر دوسرے طالب علموں کے ساتھ مل کر پڑھے گا تو ان شاء اللہ عَزَّوَجَلَّ اسے ضرور علمِ حدیث سکھاؤں گا ۔''
پھر ہم وہاں سے چل دئیے ایک جگہ نماز کے لئے رکے تو سپاہی کوسوتے ہوئے دیکھا جو سردی سے ٹھٹھرا جارہا تھا۔میں نے اپنی چادر اس پر ڈالتے ہوئے کہا :'' جب تک ہم وضو و نماز سے فراغت پائیں تب تک میری یہ چادر اس کے جسم کو سردی سے بچائے رکھے گی۔'' اتنے میں حضرتِ سیِّدُناعبداللہ بن ادریس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بھی آگئے انہوں نے حفص بن غیاث کو مخاطب کر کے کہا: '' اے حفص ! اپنے شہر سے چلتے وقت جب تم اپنی داڑھی کو مہندی لگاکر حمام میں گئے تھے تو میں اسی وقت سمجھ گیا تھا کہ عنقریب تمہیں قاضی کا عہد ہ پیش کیا جائے گا اور تم اسے قبول کر لوگے ،دیکھو ایسا ہی ہوا ۔ خداعَزَّوَجَلَّ کی قسم ! اب مرتے دم تک میں تم سے کلام نہیں کرو ں گا ۔''
حضرتِ سیِّدُنا وَکِیْع علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں کہ:''پھر واقعی حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ بن ادریس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مرتے دم تک حفص بن غیاث سے گفتگو نہ کی ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
حضرتِ سیِّدُنایحیی بن لَیْث رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے مروی ہے :''ایک خُرَاسَانی شخص نے اُمِّ جَعْفَر( خلیفہ ہارون الرشید کے وزیر جَعْفَر بن یحیی کی ماں )کے مجوسی وکیل'' مرزبان'' کواپنے اونٹ ،تیس ہزار درہم کے بدلے بیچے۔ مجوسی وکیل نے رقم دینے میں شَشْ وپنج سے کام لیا۔ خُرَاسَانی جب بھی رقم کا مطالبہ کرتا مجوسی اسے ٹال دیتا۔ بار بار مطالبہ کرنے پر مجوسی نے صرف ایک ہزار درہم دئیے۔ بالآخر پریشان ہوکر خُرَاسانی اپنے ایک دوست کے پاس گیااورساراواقعہ کہہ سنایا۔ اس کے دوست نے کہا: ''تم دوبارہ
"مرزبان مجوسی کے پاس جاؤ اورکہو کہ کل قاضی کی عدالت میں حاضر ہوجانا،میں نے اپنے مال کی وصولی کے لئے فلاں شخص کو وکیل بنادیاہے ۔''پھر جب مرزبان مجوسی قاضی کی عدالت میں آئے تو تم دعوی کرنا کہ اس پر میرا اتنا اتنا مال، قرض ہے۔ جب مرزبان قاضی کے سامنے اقرار کرلے گا اوررقم نہیں دے گاتو وہ اسے گرفتار کرکے تجھے تیرا مال دلو ادے گا۔''
خُرَاسَانی فوراًمرزبان کے پاس گیااورکہا:''کل قاضی کی عدالت میں حاضر ہوجانا میں اپنے مال کی وصول کے لئے فلاں شخص کو اپنا وکیل بنا رہا ہوں۔'' صبح جب مرزبان اورخُرَاسَانی قاضی حفص بن غیاث کی عدالت میں پہنچے تو خُرَاسَانی نے کہا: ''قاضی صاحب!اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کو سلامت رکھے،اس شخص پر میرے انتیس( 29)ہزار درہم ہیں۔''قاضی صاحب نے مجوسی سے کہا :'' اے مجوسی تم کیا کہتے ہو؟کیا اس کا دعویٰ درست ہے ؟''مجوسی نے کہا:'' قاضی صاحب!اللہ تعالیٰ آپ کو سلامت رکھے اس شخص کا دعویٰ درست ہے۔'' قاضی صاحب نے کہا:'' اے خُرَاسَانی !اس نے تمہارے مال کا اقرار کرلیاہے، اب تم کیا چاہتے ہو؟''کہا:'' حضور! اس سے میرا مال دلوا دیجئے۔'' قاضی صاحب نے کہا:''اے مجوسی اس کا مال اداکرو۔''مجوسی نے کہا: ''مال کی ادائیگی تو وزیر (جَعْفَربن یحیی)کی والدہ کے ذمہ ہے ۔''قاضی صاحب نے اسے ڈانتے ہوئے کہا:'' تُوتو احمق ہے ، ابھی تو نے اقرار کیا ہے اوراب کہہ رہا ہے کہ وزیر کی والدہ کے ذمہ ہے ۔ اے خُرَاسَانی تم بتاؤ اب اس مجوسی کا کیاکیا جائے ؟'' کہا: ''حضور! اگریہ میرا مال ادا کرتاہے تو ٹھیک، ورنہ اسے قید کرلیجئے ۔'' قاضی صاحب نے کہا :'' تم کیا کہتے ہو؟''اس نے پھر وہی جواب دیا کہ مال تو وزیر کی والدہ کے ذمے ہے ۔''قاضی صاحب نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اسے قیدکرلو۔
جب اُمِ جَعْفَر کو مجوسی کی خبر ہوئی توبڑی غضبناک ہوئی اورجیلر کی طرف یہ پیغام بھیجا:'' قاضی نے مرزبان کو گرفتارکرلیاہے، اس کی طرف توجہ کرو اوراسے رہا کردو۔'' جیسے ہی جیلر کو اُمِ جَعْفَر کا حکم ملا اس نے فوراًمرزبان مجوسی کو رہا کردیا۔ جب قاضی حفص بن غیاث کو معلوم ہوا کہ مجوسی کو رہا کردیا گیا ہے تو اس نے کہا:'' میں قید کرتاہوں اورجیلر آزاد کردیتاہے ۔ اب میں اس وقت تک عدالت نہ جاؤں گاجب تک مرزبان مجوسی دوبارہ قید میں نہ آجا ئے ۔'' جیلر کو قاضی صاحب کی یہ بات معلوم ہوئی تو فوراً امِ جَعْفَر کے پاس گیا اورکہا:'' میں توبڑی مصیبت میں پھنس گیا ہوں ،اگر امیر المؤمنین نے مجھ سے پوچھ لیا کہ تم نے کس کے حکم سے مرزبان مجوسی کو آزادکیاہے؟تو میں کیا جواب دوں گا؟ براہ کرم مرزبان کوواپس جیل بھیج دیں ۔'' چنانچہ مرزبان دوبارہ قیدکرلیا گیا۔
اُمِ جَعْفَرخلیفہ ہارون الرشید علیہ رحمۃ اللہ المجید کے پاس گئی اورکہا: ''آپ کا قاضی نادان ہے، اس نے میرے وکیل کو گرفتار کرکے بہت ذلیل ورُسوا کیاہے ۔ آپ قاضی کو حکم دیں کہ وہ یہ مقدمہ حضرت سیِّدُنا امام ابویوسف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی عدالت میں بھیج دے۔'' ہارون الرشید علیہ رحمۃ اللہ المجید نے اُمِ جَعْفَر کے اصرار پر حکم جاری فرمادیا کہ تم یہ مقدمہ، امام ابویوسف رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے حوالے کردو۔ اورمجوسی کا یہ مقدمہ سرکاری رجسٹروں میں درج نہ کیا جائے۔جب قاضی حفص بن غیاث کو معلوم ہوا کہ خلیفہ نے یہ"
"حکم جاری کیا ہے اورقاصد میرے پاس پہنچنے ہی والا ہے تو فوراًوہ عدالت گئے اور اس مجوسی کے خلاف تمام ریکارڈ سرکاری کاغذات میں لکھنے لگے۔ ابھی یہ کام جاری تھا کہ خلیفہ کاقاصد آگیا اس نے آتے ہی کہا:''امیر المؤمنین کی طرف سے آپ کو پیغام آیا ہے۔ قاضی نے کہا:'' تھوڑی دیر رک جاؤ میں ایک بہت اہم کام میں مصروف ہوں اس سے فارغ ہوکرخط پڑھوں گا۔ ''قاصد نے کہا:'' آپ پہلے یہ خط پڑھ لیں کہ اس میں امیر المؤمنین نے آپ کو کیا حکم دیا ہے۔'' لیکن قاضی حفص بن غیاث اپنے کام میں مصروف رہے۔
جب تمام ریکارڈسرکاری کاغذات میں درج کردئیے توقاصد سے خط لے کر پڑھا اور کہا:'' امیر المؤمنین کو میرا سلام کہنا اور عرض کرنا کہ آپ کا خط پڑھنے سے پہلے ہی میں تمام ریکارڈ درج کرچکا تھا۔'' قاصد نے کہا:''خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم!آپ جانتے ہیں کہ آپ نے کیا کیاہے، آپ نے امیر المؤمنین کے حکم کی خلاف ورزی کی ہے ۔'' کہا:'' جاؤ اورجو تمہیں پسند ہو وہی امیر المؤمنین سے کہہ دینا۔''قاصد خلیفہ کے پاس آیا اورسارا واقعہ کہہ سنایا ۔قاصد کی بات سن کر امیر المؤمنین نے ہنستے ہوئے کہا:'' کوئی ایسا شخص لے کر آؤ جو حفص بن غیاث کے پاس تیس ہزاردرہم پہنچا دے۔''پیغام ملتے ہی یحیی بن خالد حاضرہوا اوررقم لے کر قاضی حفص بن غیاث کے پاس پہنچا آپ عدالت سے واپس آرہے تھے۔یحیی نے کہا :'' قاضی صاحب!آج تو تم نے امیر المؤمنین کو خوش کر دیا ہے اورانہوں نے تمہارے لئے تیس ہزار درہم بھجوائے ہیں، آخر تم نے ایسا کون سا عمل کیاہے؟''قاضی صاحب نے کہا: ''اللہ عَزَّوَجَلَّ امیرا لمؤمنین کی خوشیاں دوبالاکرے اوران کی حفاظت فرمائے ۔میں نے تو روزانہ کے معمولات سے زیادہ کوئی کام نہیں کیا۔''
یحیی بن خالد نے کہا:'' ذرا سوچو! تم نے ضرور کوئی خاص کام کیاہے ۔'' قاضی صاحب نے غوروفکر کرکے کہا : ''اورتو کچھ خاص کام نہیں کیا، ہاں !اتنا ضرورہے کہ آج میں نے مجوسی کے خلاف ریکارڈ سرکاری کاغذات میں درج کیاہے کہ اس نے ناحق ایک خُرَاسَانی کی رقم دبائی ہوئی تھی۔'' یحیی بن خالد نے کہا :''بس تیرے اسی کام نے امیر المؤمنین کو خوش کیا ہے ۔''یہ سن کر قاضی صاحب نے اللہ ربُّ العزَّت کا شکر ادا کیا۔
جب اُمِّ جَعْفَر کو معلوم ہواکہ خلیفہ نے قاضی صاحب کو انعام واکرام سے نوازاہے تو وہ خلیفہ ہارون الرشید علیہ رحمۃ اللہ المجید کے پاس گئی اورکہا:'' امیرالمؤمنین! آپ قاضی کومعزول کردیں۔ہارون الرشیدعلیہ رحمۃ اللہ المجید نے انکار کیا۔ وہ اصرار کرتی رہی۔ بالآخر خلیفہ ہارون الرشید علیہ رحمۃ اللہ المجید نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی جگہ حضرت سیِّدُنا امام ابویوسف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو قاضی مقرر کردیا اور آپ کو کوفہ کا قاضی بنادیا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تیرہ سال تک کوفہ کے قاضی رہے۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُناجنید بن محمد علیہ رحمۃاللہ الاحد نقل فرماتے ہیں: ''میرے چچاحضرت سیِّدُناحَارِث علیہ رحمۃ اللہ الوارث بہت زیادہ غمگین رہنے والے بزرگ تھے۔ایک مرتبہ میں اپنے گھر کے دروازے کے قریب بیٹھا تھا کہ حضرتِ سیِّدُنا حَارِث علیہ رحمۃ اللہ الوارث کا وہاں سے گزر ہوا ،میں نے دیکھا کہ بھوک کی وجہ سے ان کے چہرے پر تکلیف کے آثار نمایاں ہیں۔ میں نے فوراً قریب جا کرعرض کی: ''چچا جان!آپ ہمارے گھر تشریف لاکر خدمت کا موقع دیجئے۔'' چنانچہ، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تشریف لے آئے ۔ میرے چچا کا گھر ہمارے گھر سے کافی بڑا تھا اوران کے گھر ہر وقت انواع واقسام کے کھانے موجود رہتے۔ میں فوراً وہاں سے قسم قسم کے کھانے لے آیا۔
حضرتِ سیِّدُنا حَارِث علیہ رحمۃ اللہ الوارث نے ہاتھ بڑھا کر ایک لقمہ لیا،میں نے دیکھا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لقمے کو چباتے رہے لیکن حلق سے نیچے نہ اتارپائے۔ پھر لقمہ منہ سے باہر نکالا اورمجھ سے کوئی بات کئے بغیر تشریف لے گئے ۔ جب دوسرے دن ملاقات ہوئی تو میں نے عرض کی:'' چچا جان !کل آپ نے ہمارے گھرقدم رنْجہ فرما کر ہمیں خوش کیا، پھر اچانک کیاہوا؟ کیوں تشریف لے گئے؟'' فرمایا :''اے میرے بیٹے! اللہ عَزَّوَجَلَّ کا مجھ پرخاص کرم ہے کہ جب کوئی ایسا کھانا میرے سامنے آتاہے جس میں اس پاک پروردگارعَزَّوَجَلَّ کی رضا شامل نہ ہوتواس کھانے سے ایک بُونکلتی ہے اور میرادل اسے قبول نہیں کرتا۔جیسے ہی میں نے تمہارے پیش کردہ کھانے سے ایک لقمہ لیاتومجھے وہی بُو محسوس ہوئی لہٰذا میں نے وہ لقمہ نہ کھایا اورتمہارے گھر کے باہر پھینک کر واپس چلا آیا۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
حضرتِ سیِّدُناحبیب بن صُبْہَان علیہ رحمۃ اللہ الحنَّان فرماتے ہیں کہ میں جنگِ قادسیہ میں شریک ہوا۔ ہمارے دشمن ''مدائن'' کی طرف بھاگے تو ہم نے ان کا تعاقب کیا۔راستے میں دریائے ''دِجْلَہ'' حائل تھا۔دشمن نے پُل توڑدیا اورکشتیوں میں سوار ہوکر دریا عبور کرلیا۔جب ہم پل کے قریب پہنچے تو وہ پانی میں بہہ رہا تھا۔کوئی راہ نظر نہ آئی۔ کشتیاں تھیں نہیں کہ ان کے ذریعے دریا عبور کرتے ۔بالآخرلشکرِ اسلام میں سے ایک عظیم مجاہد نے اپنا گھوڑا لشکر سے نکالا اور دریامیں دوڑا دیا وہ مردِ مجاہد قرآنِ پاک کی یہ
آیت پڑھتا جا رہا تھا:
وَمَا کَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تَمُوۡتَ اِلَّا بِاِذْنِ اللہِ کِتٰبًا مُّؤَجَّلًا ؕ
ترجمۂ کنزالایمان:اور کوئی جان بے حکمِ خدامرنہیں سکتی سب کاوقت لکھا رکھاہے۔ (پ4، اٰلِ عمران:145)
" دیکھتے ہی دیکھتے اس عظیم مجاہد نے دریا عبور کرلیا۔ اس کے پیچھے پیچھے تمام لشکر نے اپنی اپنی سواریاں دریا میں اتار دیں اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل و کرم سے سب لشکر بمعہ سازوسامان صحیح وسالم دوسرے کنارے پر پہنچ گیا۔ یہاں تک کہ کسی کی رسی یا ایک تیر بھی گم نہ ہوا۔ جب دشمن نے ہمیں دیکھا توان کاپورا لشکر بغیر جنگ کئے بہت سارا مالِ غنیمت چھوڑ کر بھاگ گیا۔لشکرِ اسلام میں سے ہر مجاہد کو تیرہ تیرہ جانور اوربہت سے سونے چاندی کے برتن ملے۔ بغیر جنگ کئے مسلمانوں کو یہ عظیم فتح حاصل ہوئی اورمالِ غنیمت بھی بے انتہا ملا۔
؎ دشت تودشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے بحرِظلمات میں دوڑا دئیے گھوڑے ہم نے
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُنا احمد بن سعید علیہ رحمۃ اللہ المجید اپنے والد ِ محترم سے نقل کرتے ہیں: ''کوفہ میں ایک عبادت گزار،خوبصورت ونیک سیرت نوجوان رہتا تھا ۔ وہ اپنا زیادہ تر وقت مسجد میں گزارتااورہر وقت یادِالٰہی عَزَّوَجَلَّ میں مشغول رہتا ۔ ایک مرتبہ ایک حسین وجمیل اورعقل مند عورت نے اسے دیکھ لیا۔ دیکھتے ہی اس پر عاشق ہوگئی اوراسی کے خیال میں گم رہنے لگی۔ بالآخرجب اس کی محبت شدت اختیار کرگئی تو وہ راستے میں کھڑی ہوگئی۔ کچھ دیر بعد وہ عبادت گزار نوجوان مسجد کی طرف جاتا دکھائی دیا۔ وہ اس کی طرف لپکی اورکہا : '' اے نوجوان!میں تجھ سے ایک بات کرنا چاہتی ہوں، میری بات سن لو، پھر جو چاہے کرنا ۔''اس شرم وحیا کے پیکر نوجوان نے جب ایک غیر محرم اجنبیہ عورت کی آواز سنی تو اس طرف بالکل متوجہ نہ ہوا اور نگاہیں جھکائے تیزی سے مسجد کی طرف بڑھ گیا۔''
جب مسجد سے گھر کی طرف آنے لگا تو وہی عور ت ملی اور کہنے لگی: ''اے نوجوان ! میری بات سن! میں تجھ سے کچھ کہناچاہتی ہوں ۔''نوجوان نے نگاہیں جھکائے جواب دیا:''یہ تہمت کی جگہ ہے، میں نہیں چاہتا کہ لوگ مجھ پر تہمت لگانے میں"
مبتلا ہوں ۔'' عورت نے کہا:''وَاللہ عَزَّوَجَلَّ!میں تیری حالت سے اچھی طرح خبردار ہوں ،لیکن میں اپنے نفس کے ہاتھوں مجبو ر ہو کریہاں آئی ہوں، میں خوب جانتی ہوں کہ اتنا معمولی سا تعلق بھی لوگوں کے نزدیک بہت بڑا ہے ، تجھ جیسے نیک خصلت اور پاکیزہ لوگ آئینہ کی مثل ہوتے ہیں کہ ادنی سی غلطی بھی ان کو عیب دار بنادیتی ہے ۔لیکن کیا کروں میں اس معاملے میں بے بس ہوں، میرے دل کا حال یہ ہے کہ ہروقت تیری یاد میں تڑپتا ہے اورمیرے جسم کے تمام اعضاء تیری ہی طرف متوجہ ہیں۔'' نوجوان اس کی یہ گفتگو سن کر کچھ کہے بغیر اپنے گھر کی جانب چلا گیا۔ گھر جاکر اس نے نماز پڑھناچاہی لیکن اسے خشوع وخضوع حاصل نہ ہوسکا ۔ بالآخر اس نے ایک خط لکھا اور باہر آیاتو دیکھا کہ وہ عورت اسی جگہ کھڑی ہے ۔ نوجوان نے جلدی سے خط اس کی طرف پھینکا اور واپس چلا گیا۔عورت نے خط اٹھایا اور بے تاب ہوکر پڑھنے لگی تو اس میں لکھا تھا:
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم،
" ''اے عورت !یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلے کہ بندہ جب اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی کرتاہے تو وہ اس سے درگزر فرماتاہے۔ جب دوبارہ گناہ کرتاہے تو اس کی پردہ پوشی فرماتاہے لیکن جب بندہ اتنا نافرمان ہوجاتاہے کہ گناہوں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیتا ہے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ اس سے سخت ناراض ہوتاہے اوراللہ عَزَّوَجَلَّ کی ناراضگی کو زمین وآسمان ،پہاڑ،جانور،شجر وحجر کوئی بھی چیز برداشت نہیں کرسکتی پھر کس میں ہمت ہے کہ وہ اس کی ناراضگی کا سامنا کرے۔اے عورت !اگر تو اپنے بیان میں جھوٹی ہے تو میں تجھے وہ دن یاد دلاتاہوں کہ جس دن آسمان پگھل جائے گااورپہاڑ روئی کی طرح ہوجائیں گے ، اورتمام مخلوق اللہ جبَّار و قہّار کے سامنے گھٹنے ٹیک دے گی ۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم!میں تو اپنی اصلاح میں کمزور ہوں پھر بھلا میں دوسروں کی اصلا ح کیسے کرسکتاہوں ؟اوراگر تو اپنی باتوں میں سچی ہے اورواقع تیری کیفیت وہی ہے جو تو نے بیان کی، تو میں تجھے ایک ایسے طبیب کا پتہ بتاتاہوں جواُن دلوں کا بہترین علاج جانتاہے جو مرضِ عشق کی وجہ سے زخمی ہوگئے ہوں اوران زخموں کا علاج کرنا بھی خوب جانتاہے جو رنج واَلم کی بیماری میں مبتلا کردیتے ہیں۔ جان لے! وہ طبیب ِحقیقی ،اللہ عَزَّوَجَلَّ ہے، تو سچی طلب کے ساتھ اس کی بارگاہ میں حاضر ہو جا۔ بے شک میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے اس فرمانِ عالیشان کی وجہ سے تجھ سے تعلق نہیں رکھ سکتا:"
وَ اَنۡذِرْہُمْ یَوْمَ الْاٰزِفَۃِ اِذِ الْقُلُوۡبُ لَدَی الْحَنَاجِرِ کَاظِمِیۡنَ ۬ؕ مَا لِلظّٰلِمِیۡنَ مِنْ حَمِیۡمٍ وَّ لَا شَفِیۡعٍ یُّطَاعُ ﴿ؕ18﴾یَعْلَمُ خَآئِنَۃَ الْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوۡرُ ﴿19﴾
ترجمۂ کنزالایمان:اور انہیں ڈراؤ اس نزدیک آنے والی آفت کے دن سے جب دل گلوں کے پاس آجائیں گے غم میں بھرے اور ظالموں کانہ کوئی دوست نہ کوئی سفارشی جس کاکہامانا جائے اللہ جانتاہے چوری چھپے کی نگاہ اورجوکچھ سینوں میں چھپاہے۔(پ24،المؤمن:18۔19)
اے عورت!جب یہ معاملہ ہے تو خود سوچ لے کہ بھاگنے کی جگہ کہاں ہے اورراہِ فرار کیوں کر ممکن ہے؟عورت نے خط پڑھ کر اپنے پاس رکھ لیا۔ کچھ دنوں بعد پھر اسی راستے پر کھڑی ہوگئی ۔ جب نوجوان کی نظر اس پر پڑی تو وہ واپس اپنے گھر کی طرف جانے لگا۔ عورت نے پکار کر کہا:'' اے نوجوان!واپس نہ جا، اس ملاقات کے بعد پھر کبھی ہماری ملاقات نہ ہوگی، سوائے اس کے کہ بروزِ قیامت اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں ہماری ملاقات ہو۔اتنا کہہ کر وہ زور زور سے رونے لگی ۔اور روتے ہوئے کہنے لگی: ''جس پاک پروردگارعَزَّوَجَلَّ کے دستِ قدرت میں تیرے دل کے اختیارات ہیں، میں اسی سے سوال کرتی ہوں کہ تیرے بارے میں مجھ پر جو معاملہ مشکل ہوگیا ہے وہ اسے آسان فرمادے۔''پھر وہ عورت نوجوان کے قریب آئی اوربولی:'' مجھ پر احسان کر اور کوئی ایسی نصیحت کر جس پر عمل کرسکوں۔ باحیا نوجوان نے سرجھکائے نگاہیں نیچی کئے جواب دیا: خود کو اپنے نفس سے باز رکھ، نفس کی خواہشات سے بچ ۔ میں تجھے اللہ عَزَّوَجَلَّ کا یہ فرمان یاد دلاتاہوں:
وَ ہُوَ الَّذِیۡ یَتَوَفّٰىکُمۡ بِالَّیۡلِ وَ یَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمۡ بِالنَّہَارِ
ترجمۂ کنزالایمان:اوروہی ہے جورات کوتمہاری روحیں قبض کرتاہے اورجانتاہے جو کچھ دن میں کماؤ۔ (پ7،الانعام:60)
" یہ آیتِ کریمہ سن کر عورت نے اپنا سر جھکا لیا اورپہلے سے بھی زیادہ زور زورسے رونے لگی۔ جب کچھ افاقہ ہوا تو دیکھا کہ نوجوان جاچکا تھا۔ وہ اپنے گھر چلی آئی اور پھر عبادت وریاضت کو اپنا مشغلہ بنالیا۔اورہروقت یادِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں مشغول رہنے لگی۔جب بھی نوجوان کی یاد آتی اس کاخط منگوا کر آنکھوں سے لگا لیتی ۔ ایک مرتبہ کسی نے پوچھا :'' تجھے اس طرح کرنے سے کیا ملتاہے ؟'' کہا:'' کیا کروں ،کیا میرے لئے اس کے علاوہ بھی کوئی علاج ہے ؟''وہ دن بھر یادِ الٰہی عَزَّوَجَلّ میں مصروف رہتی۔ جب رات ہوجاتی تو نوافل میں مشغول ہوجاتی اوربالآخر اسی طرح عبادت وریاضت کرتے کرتے اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئی ۔''
یہ بھی منقول ہے کہ وہ عورت ایک خطرناک بیماری میں مبتلا ہوگئی جس کی وجہ سے اس کے جسم سے متاثرہ حصہ کاٹ دیا جاتا۔ ورنہ وہ بیماری پورے جسم میں پھیل جاتی ۔ طبیب اس کے جسم سے گوشت کاٹتے تو عورت کو بہت تکلیف ہوتی اوروہ انہیں روک دیتی لیکن جب اس کے سامنے نوجوان کا ذکر کیا جاتا تو اسے تکلیف محسوس نہ ہوتی اورطبیب آرام سے اس کا گوشت کاٹ لیتے ۔بالآخر اسی بیماری میں اس کی موت واقع ہوگئی۔"
" حضرتِ سیِّدُناابوعیسیٰ محمد بن ابراہیم علیہ رحمۃ اللہ الرحیم سے منقول ہے، میں نے ابو حنیفہ محمد بن عبدالرحمن علیہ رحمۃاللہ المنان کو یہ فرماتے ہوئے سنا:''عید قریب تھی، میرے پاس ان دنوں صرف تین ہزار درہم تھے۔ میرے ایک بہت قریبی دوست حَکَم بن موسیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے پیغام بھجوایاکہ میرے پاس خرچے کے لئے رقم وغیرہ نہیں، اگر تمہارے پاس کچھ رقم ہوتو بھجوا دو۔ پیغام ملتے ہی میں نے تین ہزار درہم ان کی طرف بھجوا دئیے ۔جب ان کے پاس رقم پہنچی تو انہیں خَلَّادبن اَسْلَم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم کا پیغام ملا کہ مجھے عید کے خرچ کے لئے رقم کی ضرورت ہے، ہوسکے تو مجھے کچھ رقم بھجوا دو ۔ پیغام ملتے ہی انہوں نے درہموں کی تمام تھیلیاں بغیر کھولے خَلَّادبن اَسْلَم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کی طرف بھجوادیں۔
اب میرے پاس بالکل بھی خرچہ وغیرہ نہ تھا ۔ میں نے خَلَّادبن اَسْلَم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم کو پیغام بھجوایا کہ اگر تمہارے پاس کچھ رقم ہوتو بھجوا دو تاکہ ہم عید کے موقع پر اہل وعیال کے لئے اشیاءِ خوردونوش خرید سکیں ۔ انہوں نے درہموں کی تھیلیاں بھجوائیں۔ جب میں نے انہیں کھولنا چاہا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ یہ تھیلیاں تو وہی تھیں جو میں نے حکم بن موسیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو بھجوائیں تھیں ۔میں فوراً خَلَّادبن اَسْلَم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم کے پاس گیا، ساراواقعہ سنایااورپوچھا :''آپ کے پاس یہ رقم کہاں سے آئی؟'' انہوں نے فرمایا:'' مجھے حکم بن موسیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بھجوائی تھی ۔ ''اب میں سارا معاملہ سمجھ چکا تھا کہ یہ درہموں کی تھیلیاں واپس مجھ تک کیسے پہنچیں ۔ میں حکم بن موسیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس گیا اورانہیں ایک ہزار درہم دئیے۔ پھر خَلَّادبن اَسْلَم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم کو ایک ہزار درہم بھجوائے اوربقیہ ایک ہزار درہم اپنے پاس رکھ لئے ۔اس طرح ہم تینوں کو عید کے اخراجات کے لئے کچھ نہ کچھ رقم میسرآگئی۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
حضرتِ سیِّدُناابوعبداللہ بن خَفِیْف علیہ رحمۃ اللہ الرفیق سے منقول ہے کہ حضرت سیِّدُناابوطالب خَزْرَج بن علی شِیْراز تشریف لائے ۔ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ بہت زیادہ بیمارتھے،میں ان کی خدمت کیا کرتا۔ ان دنوں میں بہت زیادہ ریاضت کیا کرتا تھا، اور باقلاء(یعنی مٹراور لوبیا) کی چند خشک پھَلیَّاں چباکرگزارہ کرلیتا۔میں دانتوں سے باقلاء کی خشک پھلیاں کاٹنے لگا تو اس کی
"آواز حضرتِ سیِّدُنا خزرج بن علی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے سن لی۔ انہوں نے پوچھا: ''یہ کیا معاملہ ہے؟''میں نے انہیں بتایا:'' ان دنوں میں ریاضت کررہاہوں اور افطار کے وقت صرف باقلاء کی چند پھلیاں کھا لیتا ہوں۔''
انہوں نے روتے ہوئے فرمایا:''اے ابو عبداللہ! اپنے اس فعل پر ثابت قدم رہنا۔پہلے میں بھی تمہاری طرح ریاضت کیا کرتا تھا ۔ایک رات اپنے دوستوں کے ساتھ کسی دعوت پر بغدادگیا۔وہاں ہماری ضیافت میں اونٹ کابھنا ہواگوشت پیش کیا گیا۔ سب کھانے لگے لیکن میں نے اپنا ہاتھ روکے رکھا۔ جب میرے دوستوں نے دیکھا تو کہا: تم کیوں نہیں کھاتے ؟بلا تکلف کھاؤ۔ میں نے ان کے اصرار پر ایک لقمہ کھالیا۔اس کے بعد سے میں ایسا محسوس کرتاہوں جیسے چالیس سال پیچھے چلا گیاہوں۔'' ابنِ خفیف علیہ رحمۃ اللہ اللطیف فرماتے ہیں :'' پھر حضرتِ سیِّدُنا خزرج بن علی علیہ رحمۃ اللہ القوی باہر تشریف لے گئے اورایک دیہات میں جاکر پرانے سے مکان میں رہائش اختیار کرلی اورپورے گھرکو اندر اورباہر سے سیاہ کردیا ۔اور فرمایا: ''مصیبت زدوں کی رہائش گاہیں ایسی ہی ہوتی ہیں ، پھراسی مکان میں اپنی ساری زندگی گزاردی اوریہیں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا انتقال ہوا۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
حضرتِ سیِّدُناجَعْفَرخُلْدِی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے منقول ہے کہ ''حضر تِ سیِّدُنا خَیْرُالنَّسّاج علیہ رحمۃ اللہ الرزّاق سے پوچھا گیا: ''آپ خیرُالنساج کے نام سے کیوں مشہورہیں ؟کیا نساج (یعنی کپڑابننا)آپ کا پیشہ رہا ہے؟''انہوں نے نفی میں سرہلادیا۔میں نے پوچھا: ''پھر یہ نام کیسے پڑا؟'' فرمایا: ''میں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ سے عہد کررکھا تھا کہ کبھی بھی نفس کی خواہش پرتازہ کھجور نہیں کھاؤں گا۔ کافی عرصہ میں اپنے عہد پر قائم رہا۔ ایک مرتبہ نفس کے ہاتھوں مجبور ہوکر میں نے کچھ کھجوریں خریدیں اورکھانے کے لئے بیٹھ گیا، ابھی ایک ہی کھجور کھائی تھی کہ ایک شخص میری طرف بڑی کڑی نگاہوں سے دیکھنے لگا ۔ پھر میرے پاس آیا اورکہا: اے خیر! تُو تو میرا بھاگا ہوا غلام ہے ۔'' میں بہت حیران ہوا کہ آخر یہ کیا معاملہ ہے ۔پھر مجھے سمجھ آگیا کہ اس شخص کا ایک غلام تھا جوبھاگ گیا تھا اوراس کے شبہ میں یہ مجھے اپنا غلام خیال کر رہا ہے اورواقعتا میری رنگت اس غلام جیسی ہوگئی تھی ۔ وہ شخص زور زور سے کہہ رہا تھا کہ تُو تو میرا بھاگا ہوا غلام ہے ۔شور سن کر بہت سارے لوگ جمع ہوگئے ۔جیسے ہی انہوں نے مجھے دیکھا تو بیک زبان بولے:'' واللہ(اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم)!یہ تو تیرا غلام'' خیر'' ہے ۔''
" میں اچھی طرح سمجھ گیا کہ مجھے کس جرم کی سزامل رہی ہے ۔وہ شخص مجھے اپنا غلام سمجھ کر اپنی دکان پر لے گیا۔ وہاں اس کے اوربھی غلام موجود تھے جو کپڑے بنتے تھے ۔ مجھے دیکھ کر دوسرے غلام کہنے لگے :اے بُرے غلام! تو اپنے آقا سے بھاگتا ہے۔؟ چل، یہاں آ،اوراپنا وہ کام کر جو تو کیا کرتاتھا۔'' پھر مالک نے مجھے حکم دیا کہ جاؤ اور فلاں کپڑا بُنو۔جیسے ہی میں کپڑا بننے لگا تو ایسا محسوس ہوا جیسے میں بہت ماہر کاری گرہوں اورکئی سالوں سے یہ کام کررہاہوں۔ چنانچہ میں دوسرے غلاموں کے ساتھ مل کر کام کرنے لگا ۔ وہاں کام کرتے ہوئے جب کئی مہینے گزر گئے تو ایک رات میں نے خوب نوافل پڑھے اورساری رات عبادت میں گزاردی پھر سجدے میں جاکر یہ دعا کی:'' اے میرے پاک پروردگارعَزَّوَجَلَّ!مجھے معاف فرمادے اب کبھی بھی اپنے عہد سے نہ پھروں گا ۔ اسی طرح دعا کرتارہا، جب صبح ہوئی تو دیکھا کہ میں اپنی اصلی صورت میں آچکا تھا۔پھر مجھے چھوڑدیا گیا۔ بس اس طرح میرا نام'' خیرُ النساج'' پڑگیا۔''
(سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ! ہمارے اسلاف رحمہم اللہ تعالیٰ کیسے کیسے مجاہدات کیا کرتے تھے۔ وہ حرام غذا سے تو ہر دم بچتے ہی تھے۔ ساتھ ساتھ حلال چیزیں بھی رضائے الہٰی کے لئے ترک کردیا کرتے ، نفسانی خواہشات کی ہرگز اتباع نہ کرتے۔ ہر کام میں حکمِ خدا عَزَّوَجَلَّ کو پیشِ نظر رکھتے۔ پیٹ کا بلکہ، ہر ہر عضو کا قفلِ مدینہ لگاتے۔
الحمدللہ عَزَّوَجَلَّ دعوت اسلامی کا مشکبا رمدنی ماحول ہمیں بزرگان دین رحمہم اللہ المبین کی یاد دلاتا ہے ۔اس ماحول میں آ کر ہر ہر عضو کا قفلِ مدینہ لگانے کا ذہن بنتا ہے۔ دعوتِ اسلامی کی اصطلاح میں ''اپنے پیٹ کو حرام غذا سے بچانا اور حلال خوراک بھی بھوک سے کم کھانا پیٹ کا ''قفلِ مدینہ'' کہلاتا ہے۔)
؎ یا الٰہی پیٹ کا قفلِ مدینہ کر عطا از پئے غوث و رضا کر بھوک کا گوہر عطا"
حضرتِ سیِّدُنامحمد بن داؤددِیْنَوَرِی علیہ رحمۃ اللہ الجلی کہتے ہیں:''میں نے حضرت سیِّدُنا ابوبَکْر مصری علیہ رحمۃ اللہ القوی کو فرماتے ہوئے سنا:''کہ ایک مرتبہ جب میں ''عسویہ''سے ''رملہ''کی طرف جارہا تھا تو راستے میں ایک ایسا شخص ملا جو ننگے پاؤں ، ننگے سرتھا۔ اس کے پاس دو چادریں تھیں ایک کا تہبند باندھا ہوا تھا اورایک کندھوں تک اوڑھی ہوئی تھی۔ موسمِ گرما عروج پر تھا میں اس شخص کو دیکھ کر بہت حیران تھا کہ اس قدر گرمی میں اس کی یہ حالت! اس کے پاس نہ تو زادِ راہ تھا اورنہ ہی کوئی ایسا برتن یا
"پیالہ وغیرہ جسے بوقت ضرورت استعمال کرسکے ۔ میں نے اپنے دل میں کہا : ''اگر اس شخص کے پاس رسی اورڈول ہوتا جس کے ذریعے یہ پانی نکال کروضو وغیرہ کرسکتا تو یہ اس کے لئے بہتر تھا۔''
میں دوپہر کے وقت اس کے پاس گیا اور کہا: ''اے نوجوان! تو نے جو چادر اپنے کندھوں تک اوڑھی ہوئی ہے اگر اسے سر پر اوڑھ لیتا تو سورج کی تپش سے بچ جاتا ۔ میری بات سن کر وہ خاموش رہا اورآگے چل دیا۔کچھ دیربعد میں نے پھر کہا: تم اتنی سخت گرمی میں ننگے پاؤں ہو،کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ کچھ دیر میں جوتے پہن لوں اورکچھ دیر تم؟''اس نے کہا :''تم بہت فضول گُو ہو، کیا تم نے کبھی حدیث ِ پاک لکھی ہے ؟''میں نے کہا:''ہاں۔'' بولا :'' کیا تمہیں معلوم نہیں کہ نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر، دوجہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَر صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشادفرمایا : ''کسی شخص کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ جوبات کام کی نہ ہو اُسے چھوڑ دے۔''"
(جامع الترمذی،ابواب الزہد،باب من حسن اسلام المرء ترکہ مالا یعنیہ،الحدیث۲۳۱۷، ص۱۸۸۵)
" یہ حدیثِ پاک سنا کر وہ کچھ دیر خاموش کھڑا رہا پھر آگے چل دیا۔اب میرے پاس پانی ختم ہوچکا تھا ۔ جب میں ساحل سمندر کے پاس پہنچا تو پیاس لگنے لگی ۔ وہ میری طرف آیا اور کہا:'' کیا تم پیاسے ہو؟''میں نے نفی میں سر ہلادیا۔ یہ دیکھ کر وہ آگے چل دیا چلتے چلتے مجھے بہت زیادہ پیاس محسوس ہونے لگی۔ وہ پھر میری طرف آیااورکہا : ''کیا تمہیں بہت زیادہ پیاس لگی ہے؟'' میں نے کہا: ''ہاں !لیکن تم یہاں میٹھا پانی کہاں سے لاؤ گے ؟'' اس نے کوئی جواب نہ دیا اورمیرا ڈول اٹھاکر سمندر میں ڈال دیا اور اسے بھر کر میرے پاس لے آیا پھر کہا:''پانی پی لو۔'' میں نے پیا تو سمندر کا وہ کھاراپانی دریائے ''نِیل'' کے میٹھے اور صاف پانی سے زیادہ شیریں اور عمدہ تھا۔اس ڈول میں تھوڑی سی گھاس پڑی ہوئی تھی۔ میں نے کہا:'' یہ شخص اللہ عَزَّوَجَلَّ کا ولی معلوم ہوتاہے ۔ میں ضروراس کی صحبت اختیار کروں گا۔
چنانچہ منزل پر پہنچ کر میں نے اس سے کہا:''میں تمہارے ساتھ سفر کرنا چاہتا ہوں۔'' کہا:''اچھا تمہیں کیاپسندہے، تم آگے چلو گے یا میں؟''میں نے کہا:'' اگرتم آگے چلو گے تو مجھے بہت پیچھے چھوڑدو گے۔'' چنانچہ، میں آگے آگے چلنے لگا ۔ میں تھوڑی دور چل کر آرام کے لئے رُک جاتا پھر چلنے لگتا۔ میں اسی طرح چلتارہا ۔ جب وہ میرے قریب آیا تو میں نے کہا: ''میں تمہارے ساتھ چلنا چاہتاہوں، مجھے اپنے ساتھ رکھ لیجئے۔''
اس نے کہا:'' اے ابوبَکْر!اگرتم اس بات پر راضی ہوکہ تم چلتے رہو اورمیں بعض جگہ بیٹھ جاؤں پھر تو ٹھیک ہے ورنہ تم میرے رفیق نہیں بن سکتے۔'' پھر وہ مجھے چھوڑ کر چل دیااور منزل پر پہنچ کر قیام کیا۔وہاں میرے کچھ دوست رہتے تھے ۔ ان کے پاس ایک بیمار شخص تھا میں نے ان سے کہا:'' اس بیمار پرڈول میں موجود پانی کے کچھ چھینٹے ڈالو۔'' انہوں نے جیسے ہی پانی اس کے اوپر ڈالا وہ فوراً صحت یاب ہوگیا اوراس کی بیماری دور ہوگئی۔ پھر میں نے اپنے دوستوں سے اس شخص کے متعلق پوچھا کہ وہ کہاں"
"ہے تو انہوں نے جواب دیا ہمیں تو وہ کہیں بھی نظر نہیں آرہا ۔میں حیران تھا کہ نہ جانے وہ باکرامت بزرگ کہاں چلاگیاتھا۔ ''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرت سعید بن ابی عُرْوَہ سے منقول ہے کہ''ایک مرتبہ'' حَجَّاج'' نامی شخص حج کے ارادے سے نکلا۔ مکۂ مکرمہ اور مدینۂ منورہ زَادَھُمَا اللہُ شَرَفاً وَّتَعْظِیْمًاکے درمیان پانی کے قریب قیام کیا ۔پھر دسترخوان بچھواکر کھانا منگوایا اوراپنے خادم سے کہا: ''جاؤ! دیکھو !آس پاس کوئی شخص نظر آئے تو اسے میرے پاس لے آؤ،تاکہ وہ میرے ساتھ کھاناکھا لے اورمیں اس سے کچھ گفتگو کر لوں۔ ' ' خادم کسی آدمی کی تلاش میں ادھر ادھر گھومنے لگا ۔بالآخر پہاڑ کے قریب اسے ایک اَعرابی ،بکری کے بالوں کی چادر اوڑھے سویا ہوا نظر آیا ۔ اس نے پاؤں مار کر اعرابی کو جگایا اورکہا:''چلو، تمہیں ہمارا امیر بُلا رہاہے ۔'' وہ اَعرابی حَجَّاج کے پاس آیاتو اس نے کہا:'' اپنے ہاتھ دھو لو اورمیرے ساتھ کھاناکھاؤ۔ ''اعرابی نے جواب دیا:'' تجھ سے پہلے میں ایک ایسی ہستی کی دعوت قبول کر چکا ہوں جو تجھ سے بہتر ہے ۔''
حَجَّاج نے پوچھا:''وہ کون ہے؟''اعرابی نے کہا:''وہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہے ۔ اس نے مجھے روزہ رکھنے کی دعوت دی میں نے اس کی دعوت قبول کرتے ہوئے روزہ رکھ لیا۔'' حَجَّاج نے کہا:'' اتنی شدید گرمی میں تو نے روزہ رکھاہے؟'' کہا: ''ہاں! میں نے روزِ محشرکی گرمی کے پیشِ نظر روزہ رکھاہے جو آج کے دن سے بہت زیادہ ہو گی ۔'' حَجَّاج نے کہا:'' تو ابھی کھاناکھالے، کل روزے کی قضا کرلینا۔ ''اعرابی نے کہا:'' کیا تم اس بات کی ضمانت دیتے ہو کہ میں کل تک زندہ رہوں گا؟۔'' حَجَّاج نے کہا: ''میں بھلااس بات کی ضمانت کیسے دے سکتاہوں؟''اعرابی نے کہا:'' اگر تم اس بات کی ضمانت نہیں دے سکتے تو پھر مجھے ایسی مدت کی اُمید کیوں دلاتے ہوجس پر تم قادر ہی نہیں ؟''
حَجَّاج نے کہا :'' کھاؤ! یہ کھانا بہت عمدہ ہے ۔'' اعرابی نے کہا :'' نہ تو تُو نے اسے عمدہ کیا ہے اورنہ ہی باورچی نے لیکن عمدہ تو یہ اس وقت ہوگا جب برائی سے بچائے ،اتنا کہہ کر اعرابی وہاں سے چلا گیا۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُنا اَبُوْھَیْثَم خالد بن ابو صَقْرسَدُوْسِی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے والد کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ''جب حضرتِ سیِّدُنا داؤد بن نصرطائی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا انتقال ہوا تو حضرتِ سیِّدُنا ابن سمّاک علیہ رحمۃ اللہ الرزاق تشریف لائے اورآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی قبر کے قریب بیٹھ گئے۔ پھر لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا: ''اے لوگو!بے شک دنیا سے بے رغبت رہنے والے دنیا میں بھی آرام وسکون سے رہتے ہیں اور کل بروزِ قیامت ان پر حساب وکتاب بھی آسان ہوگا۔اور دنیا میں رغبت کرنے والے دنیا دار لوگ یہاں بھی تھکن سے چُورچُور ہیں اورکل قیامت میں ان پر حساب وکتاب بھی سخت ہوگا۔دنیا سے بے رغبتی دنیااور آخرت میں راحت وسکون کاباعث اوراس میں رغبت کرنا دنیا وآخرت میں تھکاوٹ اورپریشانی کا باعث ہے ۔''
پھر کہنے لگے: ''اے ابو سلمان !اللہ تبارک وتعالیٰ تجھ پر رحم فرمائے ،تیرامرتبہ کتنا بلندہے کہ تُو نے اپنے نفس پر صبر کو لازم کرلیا، یہاں تک کہ نفس تیرا تابع ہوگیا۔تو نے نفس کو بھوکاوپیاسارکھا اگر تو چاہتاتو اسے کھلا پلاسکتاتھا۔تو نے اپنا کھانا انتہائی سادہ رکھا اگر تو چاہتاتو عمدہ کھانا کھاسکتا تھا۔تو نے کُھردرا لباس پہنا اگر چاہتا تو نرم لباس پہن سکتاتھا۔
اے ابوسلمان! تو نے نہ تو ٹھندا پانی طلب کیا۔ نہ ہی کبھی نرم وعمدہ لباس اور عمدہ کھانے کی خواہش کی ۔ تو نے یہ تمام چیزیں آخرت کے لئے ذخیرہ کرلیں۔میں تو یہی خیال کرتاہوں کہ تو اپنی طلب میں کامیاب ہوگیا۔ جو تو نے چاہا تجھے مل گیا۔ ایسا کون ہے جس نے تیرے جیسا عزم کیا اورتیری طرح صبرکیا؟تو نے احادیثِ مبارکہ سنیں اورلوگوں کو حدیث بیان کرتا ہوا چھوڑ آیا۔ تونے دِین کی سمجھ بوجھ حاصل کی اورلوگوں کو فتویٰ دیتا ہواچھوڑآیا۔ حرص وطمع تجھے تیرے راستے سے نہ بہکا سکے۔نہ توتُو نے لوگوں کے کاروبارمیں دلچسپی لی،نہ اچھے لوگوں سے حسد کیا،نہ عمدہ لوگوں کو عیب لگایا اور نہ ہی بادشاہوں اوردوستوں کے تحائف وغیرہ قبول کئے ۔ تو نے اپنے آپ کو اپنے گھرمیں قید رکھا، نہ کوئی تجھ سے گفتگو کرنے والاتھااور نہ ہی تیرے لئے کوئی نیاواقعہ رونما ہوا۔ تیرے گھر کے دروازے پر پردہ تک نہ تھا، نہ توتیرے پاس پانی ٹھنڈاکرنے کے لئے مٹکا تھا نہ ہی رات کا کھانا ٹھنڈا کرنے کے لئے کوئی بڑا پیالہ تھا۔ اگر تو اپنے جنازہ میں شرکت کرنے والوں اوراپنی پیروی کرنے والوں کودیکھ لیتا تو تجھے معلوم ہوجاتاکہ انہوں نے تیری کتنی تعظیم وتوقیر کی۔ تُو نے ہمیشہ زُہد کی چادر اوڑھے رکھی۔
اے لوگو!تم میں سے کوئی شخص بھی دنیا میں رہنے کی رغبت نہ کرے مگر اس جیسے لوگوں سے محبت کرے۔یقینابڑا فرمانبردار وہ ہے جو حقیقی زاہداورامورِ آخرت کے لئے خوب کوشش کرنے والا ہو۔ پاکی ہے اس پاک پروردگارعَزَّوَجَلَّ کے لئے جو فرمانبرداروں کا اجر ضائع نہیں کرتا اورنہ ہی کسی کے عمل کوبھولتا ہے ۔میرا پروردگارعَزَّوَجَلَّ بڑی عظمتوں والا ہے۔'' اتنا کہنے کے"
"بعد ابن سماک علیہ رحمۃ اللہ الرزّاق لوگوں کے ہمراہ قبرستان سے واپس چلے آئے۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُنا ابو حسین احمد بن حسین واعظ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے منقول ہے کہ'' ابو عبداللہ بن ابو موسیٰ ہاشمی علیہ رحمۃ اللہ القوی کے پاس ایک یتیم بچے کے دس ہزار دینار امانت رکھے گئے ، انہیں تنگ دستی نے آلیا اور نوبت فاقوں تک پہنچنے لگی۔ بالآخر مجبور ہو کر امانت رکھی ہوئی رقم اپنے استعمال میں لے آئے۔ جب یتیم بچہ بڑا ہوگیا تو سلطان نے حکم دیا کہ اس کا مال اس کے سپرد کر دیا جائے۔
حضرتِ سیِّدُناابو موسیٰ ہاشمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں :'' جب مجھے یہ حکم ملاتو میں بہت پریشان ہوا ،زمین اپنی تمام تر وسعت کے باوجود مجھ پر تنگ ہونے لگی۔ سمجھ میں نہیں آرہاتھا کہ میں کہاں جاؤں اورکس طرح رقم کی ادائیگی کروں۔ اسی پریشانی کے عالم میں صبح صبح گھرسے نکلا اوراپنے خچر پر سوارہوگیا۔ میرا ارادہ تھا کہ میں ''کَرْخ''جاؤں شاید کوئی راہ نکل آئے۔ میں بے خیالی کے عالَم میں اپنے خچر پر سوار نہ جانے کس سمت جارہا تھا۔ بالآخر میراخچر''سَلُولِیّ''کی سمت جانے والے راستہ پرچلتا ہوا حضرتِ سیِّدُنا دَعْلَج بن احمد علیہ رحمۃ اللہ الاحد کی مسجد کے دروازے کے پاس رک گیا۔ میں نیچے اترا اورمسجد میں داخل ہوگیا۔ فجر کی نماز میں نے حضرتِ سیِّدُنا دَعْلَج بن احمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی اقتداء میں ادا کی۔ نماز کے بعد آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ میری طرف آئے ، مجھے خوش آمدید کہااور اپنے گھر لے گئے۔ ہم ابھی بیٹھے ہی تھے کہ ایک لونڈی بہترین دسترخوان لے آئی پھر ہریسہ(یعنی گوشت اورکُوٹی ہوئی گندم ملا کر پکایا ہوا سالن)لے آئی، حضرتِ سیِّدُنا دَعْلَج بن احمدرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: کھائيے !میں نے بُجھے بُجھے دل سے چند لقمے کھائے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے میری یہ حالت دیکھی تو فرمایا: آپ کھانا کیوں نہیں کھارہے اوراتنے پریشان کیوں ہیں ؟''
میں نے انہیں ساراواقعہ بتادیااورکہا:'' اب میں پریشا ن ہوں کہ اتنا مال کہاں سے لاؤں؟'' میری روداد سن کرآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے تسلی دیتے ہوئے فرمایا:'' آپ بے فکر ہوکر کھاناکھائیں، آپ کی حاجت پوری کردی جائے گی ۔'' پھر انہوں نے میٹھا منگوایا ہم نے مل کر کھانا کھایا پھر ہاتھ دھوئے ۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی لونڈی سے فرمایا :''فلاں کمرے کا دروازہ کھولوجیسے ہی دروازہ کھلا تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہاں بہت سے تھیلے اوردیناروں سے بھرے ہوئے کافی سارے ٹوکرے رکھے تھے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وہاں سے کچھ تھیلے لے آئے میرے سامنے لاکر کھولے تو وہ دیناروں سے بھرے ہوئے تھے ۔ پھر غلام کو حکم دیا"
"کہ ترازو لے آؤ۔ غلام ترازو لے آیا اور دس ہزاردیناروزن کر کے تھیلیوں میں بھر دئیے گئے ۔'' پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ''رقم لے جائيے اور اپنا قرض ادا کیجئے ۔ ''
میں نے احسان مندانہ انداز میں کہا:'' آپ کی یہ رقم مجھ پر قرض ہے ۔ میں یہ ضرور واپس کروں گا۔'' پھرمیں ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے وہاں سے چلا آیا۔ گھر پہنچ کر سبز عمدہ چادر اوڑھی، خچر پر سوار ہوااور بادشاہ کے دربار پہنچ کر بڑے پُروقار انداز میں کہا: ''میرے متعلق لوگوں میں یہ بات مشہور ہوگئی کہ میں یتیم کامال کھا کر بھاگ گیاہوں ۔ یہ دیکھئے! یہ سارامال حاضرِ خدمت ہے۔'' یہ دیکھ کر بادشاہ نے قاضی ،گواہ اورتمام ریکارڈطلب کئے۔پھر تمام مال اس یتیم کو ادا کردیا۔ پھرمیری تعریف کرتے ہوئے شکریہ اداکیااورمجھے گھر آنے کی اجازت دے دی۔
جب میں گھر پہنچا تو ایک رئیس زادے نے مجھے بلایااور کہا:'' میں اپنی زمین تجھے ٹھیکے پر دیتاہوں ،اس سے جو فصل ہوگی ہم ایک مقررہ مقدار میں آپس میں تقسیم کرلیں گے۔ کیا تم راضی ہو؟''میں نے ہاں کردی اور زمین کی دیکھ بھال کرنے لگا۔ایک سال پورا ہوا تو میں نے فصل اس کے حوالے کردی اسے اس سال کافی نفع ہوا،میں نے تین سال کے لئے اس کی زمین لی تھی، تین سال بعد جب میں نے حساب لگایاتو میرے حصے میں تیس ہزار دینار آئے۔ میں نے دس ہزاردینار لئے اور حضرتِ سیِّدُنا دَعْلَج بن احمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی طرف چل دیا۔صبح کی نماز ان کی اقتداء میں ادا کی۔ نماز کے بعد وہ مجھے اپنے گھر لے گئے۔ دسترخوان بچھایا گیا اورہمارے سامنے ''ہریسہ''رکھ دیا گیا۔ میں نے اطمینان اورخوش دلی سے کھاناکھایا۔ جب فراغت پاچکے توحضرتِ دَعْلَج بن احمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا :'' آپ کا کیا حال ہے اورکیا خبر ہے ؟ ' ' میں نے کہا:'' اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل وکرم اورآپ کے تعاون سے میں نے تمام قرضہ اتاردیا اوراس وقت میری ملکیت میں تیس ہزار دینار ہیں۔ جو دس ہزار دینار میں نے آپ سے قرض لئے تھے وہ واپس کر نے آیا ہوں۔''
یہ سن کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ! اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم!جس وقت میں نے رقم دی تھی تواس نیت سے نہ دی تھی کہ واپس لوں گا۔جائيے! اوریہ تمام رقم اپنے بچوں پر خرچ کیجئے ۔'' میں نے حیران ہوکر پوچھا:''اے شیخ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ! آخر اتنا مال آپ کے پاس کہاں سے آیاکہ آپ دس ہزار دینار مجھے ہدیہ دے رہے ہیں؟'' فرمایا: ''بات دراصل یہ ہے کہ میں نے چھوٹی عمر میں ہی قرآنِ کریم حفظ کرلیاتھا۔پھر احادیثِ کریمہ یادکیں ۔ اس طرح میں مشہور ہوگیا، پھر مجھے ایک بہت مال دار بحری تاجر ملا۔ اس نے مجھ سے پوچھا : ''کیا تم ہی دَعْلَج بن احمدہو؟''
میں نے کہا:'' ہاں ۔'' تو وہ کہنے لگا:'' میں چاہتاہوں کہ اپنا مال تمہیں دوں تاکہ تم اس کے ذریعے تجارت کرو۔ اللہ رب العزت ہمیں جو بھی نفع دے گا وہ ہم دونوں کے درمیان برابر برابرتقسیم ہوگا۔پھر میرے مال سے مزید تجارت کرتے رہنا۔'' پھر اس نے ہزار ہزار درہم کی تھیلیاں دیتے ہوئے کہا:'' یہ سارا مال اپنے پاس رکھو اورتجارت شروع کردو۔اوریہ مزید کچھ رقم"
"رکھو۔ جہاں تم دیکھو کہ خرچ کرنا مناسب ہے بلا جھجک خرچ کرنا اورجو تمہیں مستحق نظر آئے اسے دے دینا ۔ '' چنانچہ، میں نے تجارت شروع کردی۔جتنا نفع ہوتا میں اس میں سے نصف اسے بھجوا دیتا اوروہ اتنا ہی مال مزید اس میں شامل کر کے واپس میری طرف بھیج دیتا ۔ اسی طرح کئی سال گزرگئے۔ معاہدے کا آخری سال آیا تو وہ تاجر میرے پاس آیا اورکہا :''میں اکثر سمندری سفر میں رہتاہوں ۔ بے شک مجھے بھی موت آنی ہے جو وقت اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مقرر کیا ہے وہ ضرور مجھ پر بھی آئے گا۔یہ سارا مال تم رکھ لو، اس میں سے صدقہ کرو،مساجد بناؤ اورخیر کے کاموں میں خرچ کرو۔'' اتنا کہا اوربے انتہا مال چھوڑ کر واپس چلا گیا۔ بس اس طرح میرے پاس یہ سارا مال آیااورمیں اسے ایسے ہی نیک کاموں میں خرچ کرتاہوں ۔سارا واقعہ سنانے کے بعد حضرتِ سیِّدُنا دَعْلَج بن احمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' اے ابو موسیٰ !جب تک میں زندہ رہوں تب تک یہ بات کسی کو نہ بتانا۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُنا احمد بن محمد بن مَسْرُوق رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے منقول ہے کہ میں نے حضرت سیِّدُناذُوالنُّوْن مِصْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کو یہ فرماتے ہوئے سنا:ایک مرتبہ دورانِ سفر ایک عورت نے مجھ سے پوچھا: ''تمہاراتعلق کہاں سے ہے ؟ ' ' میں نے کہا : '' میں پردیسی ہوں۔'' بولی: ''افسوس ہے تم پر! اللہ ربُّ العزَّت کے ہوتے ہوئے بھی تمہیں اَجْنَبِیَّت محسوس ہورہی ہے،وہ پاک پرور دگار عَزَّوَجَلَّ تو کمزوروں اورغریبوں کا مُونِس ومددگار ہے ۔'' یہ سن کر میں رونے لگا ۔ اس نے کہا :'' تمہیں کون سی چیز رُلارہی ہے ؟ ' ' میں نے کہا: '' میرے زخمی دل پر مرہم رکھ دی گئی ہے، اب میں جلدی نجات پاجاؤں گا ۔'' کہا: ''اگر تو اپنی بات میں سچا ہے تو پھر رویا کیوں؟'' میں نے کہا:'' کیا سچا شخص روتانہیں؟'' کہا:''نہیں !کیونکہ آنسوبہہ جانے کے بعد دل کو سکون مل جاتاہے۔''
اُس کی اس بات نے مجھے تعجب میں ڈال دیا ۔پھر وہ کہنے لگی :'' تم اتنے حیران کیوں ہورہے ہو؟''میں نے کہا:''مجھے تمہاری باتوں سے بہت تعجب ہورہاہے۔'' کہا :''کیا تم اپنے زخم کو بھول گئے ؟''میں نے کہا:''نہیں، میں اپنے زخموں کو نہیں بھولا۔ تم مجھے کوئی ایسی بات بتاؤ جس کے ذریعے اللہ عَزَّوَجَلَّ مجھے نفع دے۔'' کہا:''جو فائدہ تجھے حکماء کی باتیں سن کر ہوا کیا وہ تمہارے لئے کافی نہیں ؟''میں نے کہا :''نہیں ،میں ابھی نیک باتوں کی طلب سے بے نیاز نہیں ہوا۔ '' کہا:'' تو نے سچ کہا،پس اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے سچی محبت کر ، اس کا سچا عاشق بن جا۔کل بروزِ قیامت جب اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے اولیاء کرام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم کو"
"اپنی محبت کے جام پلائے گا تو پھر وہ کبھی بھی پیاس محسوس نہیں کریں گے ۔ '' میں رونے لگا اورمیرے سینے سے گُھٹی گُھُٹی سی آواز آنے لگی۔ پھر وہ عورت مجھے وہیں روتا چھوڑکر یہ کہتی ہوئی چلی گئی :'' اے میرے آ قا!تو کب تک مجھے ایسے گھر میں باقی رکھے گا جہاں میں کسی بھی ایسے شخص کو نہیں پاتی جو رونے میں میرا مددگار ثابت ہو۔ ''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُناعَلَّان علیہ رحمۃاللہ الحنَّان سے منقول ہے کہ ''حضرت سیِّدُنا سَری علیہ رحمۃ اللہ القوی کی ایک مریدنی کا لڑکا مدرسے جاتا تھا۔ ایک دن استاذنے آٹاپسوانے کے لئے اسے چکّی پر بھیجا ۔ راستے میں نہر تھی۔ جب وہ نہر سے گزرنے لگا تو اس میں ڈوب گیا۔جب استاذ کو اس کے ڈوبنے کی اطلاع ملی تووہ بہت پریشان ہوا اور حضرت سیِّدُنا سَرِی سَقَطِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کے پاس حاضر ہوکر سارا واقعہ کہہ سنایا ۔حضرت سیِّدُنا سَری سَقَطی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے فرمایا:'' آؤ میرے ساتھ چلو ! ہم چل دئیے ۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے وہاں پہنچ کر اس عورت کو صبر کے فضائل بتائے ۔پھر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا پر راضی رہنے کی ترغیب دلائی ۔
عورت نے کہا: ''حضور !آج آپ مجھے صبر ورضا کے متعلق خاص طور پر نصیحت کررہے ہیں، اس میں کیا حکمت ہے ؟ '' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی مُریدنی سے فرمایا: ''تمہارا بیٹا نہر میں ڈوب گیا ہے ۔'' اس نے متعجب ہوکر پوچھا : ''میرا بیٹا؟ ' ' فرمایا: ''ہاں۔ '' عورت نے کہا:''بے شک میرے رب عَزَّوَجَلَّ نے ایسا نہیں کیا ہوگا ۔'' حضرتِ سیِّدُنا سَرِی سَقَطی علیہ رحمۃ اللہ القوی اسے صبرو رضا کی تلقین کرنے لگے ۔ عورت نے کہا:'' آؤ! میرے ساتھ چلو ۔'' چنانچہ، تمام لوگ اس عورت کے ساتھ چل دئیے۔ جب نہر پر پہنچے تو عورت نے لوگوں سے پوچھا: ''بتاؤ! وہ کہاں ہے ؟ '' لوگوں نے بتایا: '' تمہارا لڑکا فلاں جگہ ڈوباہے۔''عورت نے بلند آواز سے پکارا:'' اے میرے بیٹے محمد!'' فوراً نہر سے اس کے بیٹے نے پکار کر کہا:'' اَمّی جان! میں یہاں ہوں،امی جان! میں یہاں ہوں۔ '' عورت فوراًنہر میں اتری ،اپنے بیٹے کا ہاتھ پکڑکر باہر لے آئی اور خوشی خوشی اپنے گھر چلی گئی۔''
حضرتِ سیِّدُناعَلَّان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:'' حضرتِ سیِّدُنا سَرِی سَقَطی علیہ رحمۃ اللہ القوی حضرت سیِّدُنا جنید بغدادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی کے پاس گئے اور پوچھا یہ کیامعاملہ ہے، اورایسا کیونکر ہوا؟ حضرت سیِّدُنا جنید بغدادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی نے حضرت سیِّدُنا سَری سَقَطی علیہ رحمۃ اللہ القوی سے فرمایا: '' کہو،"
قُلْ۔''
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے
'' قُل''
کہا۔
" پھر حضرت سیِّدُنا جنید بغدادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی نے فرمایا:'' بات دراصل یہ ہے کہ وہ عورت احکامات الٰہیہ عَزَّوَجَلَّ کو پورا کرنے والی تھی اورجو شخص اللہ عَزَّوَجَلَّ کے احکامات پر عمل پیرا ہو اسے کوئی ایسا حادثہ پیش نہیں آتا جسے وہ نہ جانتا ہو۔ جب اس عورت کا بیٹا ڈوباتو اسے معلوم نہ تھا ، اس لئے اسے یقین نہ آیا اور اس نے کہا: بے شک میرے رب عَزَّوَجَلَّ نے ایسا نہیں کیا۔ اسے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ذات پر یقینِ کامل تھا۔ اس لئے اس کا بیٹا اسے واپس کردیاگیا۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
حضرتِ سیِّدُنا عبدالوَھَّاب بن عَطَاء خَفَّاف علیہ رحمۃ اللہ الرزّاق سے مروی ہے کہ'' مجھے مدینۂ منورہ
زَادَہَااللہُ شَرَفًاوَّتَعْظِیْمًا
کے مشائخ نے بتایا کہ حضرت سیِّدُنا ابو عبدالرحمن فَرُّوخ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بنو اُمیہ کے دورِ خلافت میں سرحدوں کی حفاظت کے لئے خُرَاسَان گئے ۔ آپ کی زوجۂ محترمہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا اُمید سے تھیں اورآپ کا بیٹاربیعہ ماں کے پیٹ میں تھا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی زوجہ کے پاس تیس(30)ہزار دینارچھوڑکر گئے ۔ ستائیس سال بعد آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ واپس مدینۂ منورہ
زَادَہَااللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا
"آئے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ہاتھ میں نیزہ تھا اورآپ گھوڑے پر سوار تھے ۔ گھر پہنچ کر نیزے سے دروازہ اندر دھکیلا تو حضرتِ سیِّدُنا ربیعہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ باہر نکلے۔ جیسے ہی انہوں نے ایک مسلَّح شخص کو دیکھا تو بڑے غضب ناک انداز میں بولے :'' اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بندے! کیا تو میرے گھر پر حملہ کرنا چاہتاہے ؟''
حضرتِ سیِّدُنافَرُّوخ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' نہیں ، میں حملہ نہیں کرنا چاہتا۔ تم یہ بتاؤ کہ تمہیں میرے گھر میں داخل ہونے کی جراء َت کیسے ہوئی۔'' پھر دونوں میں تلخ کلامی ہونے لگی ۔قریب تھا کہ دونوں دست وگریبان ہوجاتے۔ لیکن ہمسائے بیچ میں آگئے اور لڑائی نہ ہوئی ۔ جب حضرت سیِّدُنا مالک بن اَنس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اوردوسرے بزرگ حضرات کو خبرہوئی تو وہ فوراً چلے آئے ۔لوگ انہیں دیکھ کر خاموش ہو گئے۔ حضرت سیِّدُنا ربیعہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس شخص سے کہا:'' خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم !میں اس وقت تک تمہیں نہ چھوڑوں گا جب تک تمہیں سلطان کی عدالت میں نہ لے جاؤں ۔''
حضرتِ سیِّدُنا فَرُّوخ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کہا: ''خداعَزَّوَجَلَّ کی قسم!میں بھی تجھے سلطان کی عدالت میں لے جائے بغیر نہ چھوڑوں گا۔ایک تو تم میرے گھر میں بلا اجازت داخل ہوئے اورپھر مجھی سے جھگڑا کر رہے ہو۔'' حضرت سیِّدُنا مالک بن انس"
"رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت ابو عبدالرحمن فَرُّوخ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے فرمایا:'' اے شیخ! یہ گھر تمہارا نہیں ہے ۔''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: '' میرا نام فَرُّوخ ہے اوریہ میرا ہی گھر ہے۔'' یہ سن کر آپ کی زوجۂ محترمہ جو دروازے کے پیچھے ساری گفتگو سن رہی تھیں، باہر آئیں اورکہا:''یہ میرے شوہر ہیں اورربیعہ ان کا بیٹا ہے ۔ جس وقت یہ جہاد پر گئے تھے توربیعہ میرے پیٹ میں تھا۔'' یہ سن کر دونوں باپ بیٹے گلے ملے اور ان کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو چھلک پڑے ۔حضرتِ سیِّدُنا ابو عبدالرحمن فَرُّوخ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ خوشی خوشی گھر میں داخل ہوئے اورخوش ہوتے ہوئے اپنی زوجۂ محترمہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا سے پوچھا:''یہ میرا بیٹا ہے؟''انہوں نے فرمایا: ''اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ !یہ تمہاراہی بیٹاہے۔''
پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے پوچھا:''اچھا وہ تیس ہزار دینارکہاں ہیں جو میں چھوڑ کر گیا تھا؟'' عرض کی:'' وہ میں نے ایک جگہ دفنا دئیے تھے، کچھ دن بعدنکال لوں گی۔''پھر حضرت سیِّدُنا ربیعہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مسجد چلے گئے اوراپنے حلقۂ درس میں بیٹھ گئے۔ حضرت سیِّدُنا مالک بن انس ، حسن بن زید،ابن ابی علی لَہَبِی، مُسَاحِقِی اورمدینہ شریف کے دوسرے معزز حضرات رحمہم اللہ تعالیٰ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے اردگردبیٹھ گئے ۔ پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ درسِ حدیث دینے لگے۔
حضرتِ سیِّدُنا فَرُّوخ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ گھرہی میں تھے کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی زوجۂ محترمہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا نے کہا:'' آپ مسجد نبوی شریف عَلٰی صَاحِبِہَاالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں جاکر نماز ادا فرمالیں ۔'' چنانچہ، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مسجد میں گئے تو دیکھا کہ ایک حلقہ لگا ہوا ہے اورلوگ بڑے ادب وتوجہ سے علمِ دین سیکھ رہے ہیں اورایک خوبرونوجوان انہیں درس دے رہا ہے ۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ قریب گئے تو لوگوں نے آپ کے لئے جگہ کشادہ کی۔آپ بیٹھ گئے۔ حضرتِ سیِّدُنا ربیعہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنا سر تھوڑا نیچے کرلیا۔حضرتِ سیِّدُنا ابوعبدالرحمن فَرُّوخ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ان کو پہچان نہ سکے ۔آپ نے لوگوں سے پوچھا:'' یہ کون صاحب ہیں، جو علم کے موتی لٹا رہے ہیں؟'' لوگوں نے بتایا:''یہ ربیعہ بن ابوعبدالرحمن ہیں ۔'' یہ سن کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بے حد خوش ہوئے اور فرمایا:'' اللہ ربُّ العزَّت نے میرے بیٹے کو کیسا عظیم مرتبہ عطافرمایا۔'' پھرآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ خوشی خوشی گھر تشریف لائے اور اپنی زوجہ سے فرمایا:''میں نے تمہارے لختِ جگر کو آج ایسے عظیم مرتبے پر فائز دیکھا کہ اس سے پہلے میں نے کسی علم والے کو ایسے مرتبے پر نہیں دیکھا۔ وہ تو علم کے موتی لٹانے والا سمندر ہے۔''
آپ کی زوجۂ محترمہ نے کہا :'' آپ کو اپنے تیس ہزار دینار چاہیں یا اپنے بیٹے کی یہ عظمت ورفعت ۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا:'' خداعَزَّوَجَلَّ کی قسم !مجھے تو اپنے بیٹے کی اس عظیم نعمت کے بدلے کچھ بھی نہیں چاہے۔ ''آپ کی زوجۂ محترمہ نے کہا:'' تو پھر سنئے! میں نے وہ تمام مال تمہارے بیٹے پر خرچ کر کے اسے علمِ دین سکھایا۔ ''یہ سن کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: '' خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم!تم نے مال ضائع نہیں کیا بلکہ بہت اچھی جگہ خرچ کیاہے ۔''"
"(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)
(اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ !تبلیغِ قرآن و سنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے زیرِ انتظام علم وعمل کی دولت لوگو ں کو منتقل کرنے کے لئے کئی جامعات و مدارس بنام جامعۃالمدینہ اور مدرسۃ المدینہ قائم ہیں۔ یہاں نہ صرف علم کی لازوال دولت تقسیم ہوتی ہے بلکہ عمل کا جذبہ بھی دیا جاتا ہے۔ہزارہا طلباء وطالبات یہاں سے فیض یاب ہوکر اپنی اور ساری دنیا کے لوگو ں کی اصلاح کی کو شش کے لئے مصروفِ عمل ہیں۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ دعوتِ اسلامی کو دن دُگنی رات چُگنی ترقی عطا فرمائے ۔(آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)
اللہ کرم ایسا کرے تجھ پہ جہاں میں اے دعوتِ اسلامی تیری دھوم مچی ہو"
" حضرتِ سیِّدُنا قاسم بن عثمان جَوعِی علیہ رحمۃ اللہ القوی سے منقول ہے کہ''میں نے ایک شخص کو طواف کرتے ہوئے دیکھا اس کی زبان پر بس یہی دعا جاری تھی:''اے میرے پاک پروردگارعَزَّوَجَلَّ!توہی محتاجوں کی حاجتیں پوری فرماتاہے ، لوگوں کی حاجتیں تو نے پوری کردیں ، میری حاجت ابھی تک پوری نہیں ہوئی ۔''
وہ شخص بار بار یہی کہہ رہا تھا اس کے علاوہ کچھ اور نہ کہتا ۔ میں نے پوچھا:''بھائی !تم اس کے علاوہ کوئی اوردعا کیوں نہیں مانگتے؟'' کہا: ''میں تمہیں ساراوقعہ بتاتاہوں ۔بات دراصل یہ ہے کہ ہم سات مجاہد مختلف شہروں سے جمع ہوکر ایک غزوہ میں شریک ہوئے، دشمن ہمیں قید کرکے اپنے سردار کے پاس لے گئے۔ وہ ہمیں شہید کرنے ایک ویران سی جگہ لے گئے ۔ میری نظر آسمان کی طر ف اٹھی تو دیکھا کہ سات دروازے کھلے ہوئے ہیں اورہر دروازے پر ایک حورکھڑی ہے ۔جب ہم سات مجاہدوں میں سے ایک کو دشمنوں نے شہید کردیا ۔
تو میں نے دیکھا کہ آسمان سے ایک حور اپنے ہاتھوں میں رومال لئے زمین کی طرف اُتری ۔ پھر دوسرے مجاہد کو بھی شہید کردیاگیا۔اب دوسری حور اس طرح ہاتھوں میں رومال لئے زمین کی طرف اتری۔ الغرض میرے چھے رفقاء کو باری باری اسی طرح شہید کیاگیا۔جب بھی کوئی مجاہد شہید ہوتاتو فوراً ایک حورہاتھوں میں رومال لئے زمین کی طرف اترتی۔ بالآ خر میرا نمبر بھی آگیا۔اب صرف ایک دروازہ کھلا تھا اوراس پر ایک حورباقی تھی۔ جب مجھے شہید کیا جانے لگا تو بعض لوگوں نے فدیہ دے کر مجھے چھڑوا لیا ۔ اس حور کو میں نے یہ کہتے ہوئے سنا:''اے محروم!تجھے کس چیز نے پیچھے رکھا؟''اتنا کہہ کر اس نے دروازہ بند کر"
"دیا۔ اے میرے بھائی !میں اس وقت سے آج تک اس فضیلت کے نہ ملنے پر افسردہ وغمگین ہوں ۔''
حضرت سیِّدُناقاسم جَوعِی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:'' میں اس شخص کو ان سب سے افضل سمجھتاہوں کیونکہ اس نے وہ چیز دیکھ لی جو انہوں نے نہ دیکھی ۔ اب یہ حسرت زدہ چھوڑ دیا گیا تاکہ اس نعمت کے حصول کی خاطر عمل کرتارہے۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُناحسن بن عبدالرحمن علیہ رحمۃ اللہ الحنّان فرماتے ہیں کہ'' بصرہ میں ایک مالدار شخص رہتا تھا۔ایک دن جب وہ اپنے باغ میں گیا تو دیکھا کہ اس کا نوکراپنی حسین وجمیل بیوی کے ساتھ باغ میں موجود ہے ۔ نوکر کی خوبصورت بیوی کو دیکھ کر مال دار کی نیت خراب ہوگئی۔ اس نے عورت کو محل میں بھیجااورنوکر سے کہا:'' جاؤ! ہمارے لئے کھجوریں توڑلاؤ، جب کھجوریں توڑ چکو تو فلاں فلاں کو میرے پاس بلالانا ۔''نوکر حکم پاتے ہی کھجوریں لینے چلاگیا۔ اب یہ اپنے محل میں آیا اور نوکر کی بیوی سے کہا:''تمام دروازے بندکردو ۔'' عورت نے تمام دروازے بند کردئیے تو مال دار نے کہا:'' کیاتمام دروازے بند کردئیے؟''
سمجھ دار نیک عورت نے کہا:'' صرف ایک دروازہ میں بند نہ کرسکی۔'' مال دار نے کہا:'' کون سادروازہ تو نے بند نہیں کیا؟'' اس نے کہا:'' وہ دروازہ جو ہمارے اورہمارے رب عَزَّوَجَلَّ کے درمیان ہے، میں اسے بند نہیں کرسکی۔''یہ جملہ اس مال دار کے دل میں تاثیر کا تیر بن کر پیوست ہوگیا۔ وہ گناہ سے بچ گیااوررو،رو کر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں توبہ کرتاہواوہاں سے چلا گیا۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
حضرتِ سیِّدُناعِکْرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرتِ سیِّدُنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ'' روم کی جنگ میں دوسرے مسلمانوں کے ساتھ صحابئ رسول حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن حُذَافَہ سَہْمِی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی قید کرلیا گیا۔ رومی سردار نے تمام مسلمانوں کو اپنے دربار میں بلایااور حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن حُذَافَہ سَہْمِی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا:'' نصرانی ہوجاؤ، ورنہ
"میں تمہیں تانبے کی دیگ میں ڈال کر جلادوں گا۔'' یہ سن کر صحابئ رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ورضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جرأت مندانہ جواب دیا: '' ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا، میں کبھی بھی نصرانی نہیں بنوں گا۔'' ظالم سردار نے جب یہ سنا تو تانبے کی دیگ منگواکر اس میں تیل ڈلوایا، پھر اس کے نیچے آگ جلانے کا حکم دیا۔ جب تیل خوب گرم ہوکراُبلنے لگا تو ایک مسلمان قیدی کو بلاکرکہا:'' نصرانی ہوجاؤ، اس مردِ مجاہدنے انکار کیا تو اسے اُبلتے ہوئے تیل میں ڈلوادیا۔دیکھتے ہی دیکھتے اس کا سارا گوشت جل گیا اور ہڈیاں اوپر تیرنے لگیں۔''
پھر حضر ت سیِّدُنا عبداللہ بن حُذَافَہ سَہْمِی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا گیا: ''عیسائی ہوجاؤ، ورنہ اس شخص کی طرح تمہیں بھی اس اُبلتے ہوئے تیل میں ڈال دیا جائے گا۔ صحابئ رسول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صاف انکار کردیا۔ ظالم سردار نے حکم دیا کہ اسے بھی تیل کی دیگ میں ڈال دو۔ حکم پاتے ہی جلاد وں نے آپ کو پکڑااوراُبلتے ہوئے تیل میں ڈالنے کے لئے لے چلے ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اچانک رونا شروع کردیا۔جلاد ،ظالم سردار کے پاس آئے اور بتایا کہ وہ قیدی رو رہا ہے ۔سردار بہت خوش ہوا اور حکم دیا کہ اسے ہمارے پاس لے آؤ۔ وہ یہ سمجھ رہا تھا کہ شاید آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ موت کے ڈر سے اس کی بات ماننے کے لئے تیارہو گئے ہیں ۔ جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے سامنے آئے تو فرمایا:''کیا تم لوگ یہ سمجھ رہے ہوکہ میں موت کے خوف سے رو رہا ہوں۔خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم !میں موت کے خوف سے نہیں بلکہ میں تو اس لئے رو رہا ہوں کہ میرے جسم میں صرف ایک جان ہے جو میں دینِ اسلام کے لئے قربان کر رہاہوں ۔مجھے تو یہ پسند تھا کہ میرے جسم میں اگر سوجانیں ہوتیں توایک ایک کر کے سب کواللہ عَزَّوَجَلَّ کے نام پر قربان کردیتا۔''
؎ یہ اک جان کیا ہے اگر ہوں کروڑوں ترے نام پہ سب کو وارا کروں میں
سردار آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ ایمان افروز تقریر سن کر بہت متعجب ہوا کہ اس مردِ قلند کے اندر اپنے دِین کی کتنی محبت ہے اوریہ خوشی سے دِین کی خاطر اپنی جان قربان کرنے کے لئے تیار ہے ۔ سردار نے لالچ دیتے ہوئے کہا :'' اگر تم نصرانی ہوجاؤ تو میں اپنی بیٹی کی شادی تم سے کردوں گا اور حکومت میں بھی تمہیں حصہ دوں گا۔''آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی یہ پیش کش بھی ٹھکرا دی اورصاف انکار کردیا۔پھر اس نے کہا:''اچھا اس طرح کرو کہ تم میرے سرپر بوسہ دو اگر تم یہ کروگے تو میں تمہیں بھی آزاد کر دوں گا اورتمہارے ساتھ تمہارے اسّی(80) مسلمان قیدیوں کو بھی آزاد کردوں گا ۔''
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:'' اگر واقعی تم ایسا کروگے تو میں تمہارے سر کو بوسہ دینے کے لئے تیار ہوں ۔'' سردار نے یقین دہانی کرائی کہ میں اپنی بات ضرور پوری کروں گا ۔ چنانچہ، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسلمانوں کی آزادی کی خاطر اس ظالم کے سر کا بوسہ لیا۔سردار نے حسب ِوعدہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اور اسّی مسلمان قیدیوں کو آزاد کردیا۔
جب یہ تمام مجاہدین امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں پہنچے تو امیر المؤمنین آپ رضی"
"اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھ کر کھڑے ہوگئے اورآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سر کا بوسہ لیااوربہت خوش ہوئے۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُناحامداَسْوَد علیہ رحمۃ اللہ الاحد نقل فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیِّدُناابراہیم خوَّاص علیہ رحمۃ اللہ الرزاق کو یہ فرماتے ہوئے سنا :''توَ کلُّ کے بارے میں میرے یقین کی پختگی کی ابتداء اس طرح ہوئی کہ میں جنگلوں اورصحراؤں میں سفر کرتا اوراپنے توکل کو پختہ کرتا۔ مجھے ویران اورغیرآباد علاقوں سے محبت ہوگئی ۔ ایک دن میں ایک ویران جنگل کی طرف گیا اوراس جنگل میں تین دن تین رات قیام کیا۔ جب چوتھی صبح ہوئی توبھوک وپیاس کی وجہ سے کمزوری محسوس ہونے لگی ۔ بتقاضائے بشریت مجھے رزق کے معاملے میں کچھ تردّد ہونے لگا۔ میں بڑا دِل گِیر(غمگین)ہوا۔ اچانک میرے سامنے چار بڑے بڑے اژدھے نمودار ہوئے۔ وہ اپنے منہ سے سیٹی کی سی آواز نکالنے لگے پھر بھنبھناہٹ سی سنائی دینے لگی۔ ان کی اس آواز میں ایسا غم وسوز تھا کہ ایسی غمگین آواز میں نے آج تک نہ سنی تھی۔ میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے ۔ وہ چاروں میری طرف آئے، ان میں سے ایک نے اپنا سر بلند کیا اور بڑا فصیح وبلیغ کلام کرتا ہوا مجھ سے یوں گویا ہوا:''اے ابراہیم (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) !کیا تو اپنے خالق کے بارے میں شک میں مبتلا ہے ؟''
میں نے کہا:'' نہیں!اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ میں بالکل مطمئن ہوں۔'' اس نے کہا : ''پھرتو رزق کے بارے میں شک میں کیوں مبتلا ہوا؟''وہ اژدھا میری حالت سے واقف ہوگیاتھا۔میں نے متعجب ہوکر پوچھا: ''تم میرے حال سے کیسے واقف ہوئے؟''اس نے کہا:'' مجھے اس پاک پروردگارعَزَّوَجَلَّ نے آگاہ کیا جو ہر وقت میرے ساتھ ہے۔ سنو!ہم چار اژدھے مختلف مقامات کے رہنے والے ہیں اورہم توکل جمع کرنے آئے ہیں۔''
میں نے کہا:'' یہ تو بہت ضروری ہے۔ بے شک میں نے بھی کھانے پینے کے متعلق توکل کیا ۔اس دوران اکثر اوقات بھوک وپیاس کاسامنا کرنا پڑتا ہے؟'' اس نے کہا:'' اے ابراہیم !پوشیدہ باتوں کی ٹوہ میں نہ پڑو۔بے شک اللہ عَزَّوَجَلَّ کے کچھ ایسے بندے بھی ہوتے ہیں جنہیں اس کا ذکر سیراب کرتاہے اوراس سے ان کی بھوک جاتی رہتی ہے ۔ پھر وہ کسی ایسی چیز کی پرواہ نہیں کرتے جس کے ذریعے دوسرے لوگ اپنی زندگی گزارتے ہیں اور ان لوگوں کے دلوں میں ایسی چیزوں کے متعلق کبھی"
"پریشانی نہیں ہوتی جس کے نہ ملنے پر دوسروں کو پریشانی لاحق ہوتی ہے ۔ ہاں! وہ تو صرف فتنہ وفساد سے ڈرتے ہیں ۔'' اس اژدھے کا ایسا فصیح وبلیغ کلام سن کر میں نے اپنے دل میں کہا :'' سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ !یہ اژدھا کتنا پیارا کلام کررہا ہے اورمیں اس کی بات کوکتنی اچھی طرح سمجھ رہاہوں ۔ ''
پھر میں رونے لگا۔ میں یہ باتیں سوچ ہی رہا تھا کہ وہ اژدھا پھر بولا:''اے ابراہیم ! پوشیدہ باتوں کی ٹوہ میں نہ رہو، کیا تم اللہ عَزَّوَجَلَّ کی مخلوق میں کسی کو حقیر سمجھتے ہو؟ بے شک مجھے قوتِ گویائی اسی پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ نے عطافرمائی ہے جس نے تمہارے باپ آدم علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃوالسلام کو مٹی سے پیدا فرمایا ۔ تم میرے بولنے سے متعجب ہو رہے ہو ! حالانکہ زیادہ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ ہم ایک ایسی وادی سے تیرے پاس آئے ہیں جو یہاں سے ایک ماہ کی مسافت پر ہے ۔ ہمیں ہمارے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ نے یہاں بھیجا ہے ۔''
یہ سن کرمیں بہت حیران ہوا اوراس اژدھے سے پوچھا:'' کیا وجہ ہے کہ ان چاروں اژدھوں میں سے صرف تم ہی کلام کر رہے ہواورباقی سب خاموش ہیں ؟''اس نے کہا:'' اے ابو اِسحاق علیہ رحمۃ اللہ الرزاق !بے شک! اللہ عَزَّوَجَلَّ اوراس کی مخلوق کے درمیان حجاب ہے۔ مخلوق میں کچھ لوگ ایک دوسرے کے گہرے دوست ہیں ۔کچھ وزراء اورکچھ لوگ بعض کے شاگرد ومرید ہیں۔ ان چاروں اژدھوں نے مجھے اپنا امیر مان لیا اوراپنے آپ کو میرے حوالے کردیاہے ۔ اب میں ہی ان کی نمائندگی ورہبری کر رہا ہوں۔ میری ایک بات توجہ سے سن لیجئے! اگرآپ کسی کے امیر بنو اورتمہارے رفقاء آداب ِ سفر ملحوظ رکھیں تو عنقریب تم اور تمہارے تمام رفقاء صدق واِخلاص کی اعلیٰ منازل تک رسائی حاصل کرلو گے۔ لیکن جب امیرِ قافلہ ہی راہ سے بھٹک جائے اور اس کے رفقاء اس پر برتری چاہیں تو سمجھو کہ وہ قافلہ ناکام ہوگیا۔ ناکامی کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ ماتحت اپنے امیر پر غالب آ جائیں اوراس کی طرف توجہ نہ دیں۔جب تم دیکھو کہ ماتحت اپنے امیر ونگران کے سامنے بڑی بے باکی سے بول رہا ہے اور امیر ونگران خوش ہے تو سمجھ لوکہ اب برکت اُٹھالی گئی۔''
حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم خَوَّاص علیہ رحمۃ اللہ الرزاق فرماتے ہیں:'' اتنا کہنے کے بعد اچانک وہ چاروں اژدھے میری نظروں سے غائب ہوگئے۔پھر میں چالیس روز اسی ویران وغیر آباد وادی میں رہا اور جو منظر میں نے دیکھا اس کے بارے میں سوچ سوچ کر حیران ہوتارہا ۔ یہ چالیس دن ایسے گزرے کہ نہ تومجھے کھانے پینے کی فکر رہی اورنہ ہی کسی اورقسم کی حاجت درپیش آئی۔میں چالیس دن تک بالکل نہ سویااورکئی دن تک ایک ہی وضو سے نماز پڑھتارہا۔یہ وادی بہت زیادہ غیر آباد اورویران تھی۔ کوئی چیز اس میں ایسی نہ تھی جس سے اُنسیّت حاصل کی جاتی ۔ بہرحال چالیس دن بعد ایک صبح و ہ چاروں اژدھے پھر میرے سامنے ظاہر ہوئے ۔ا نہوں نے مجھے سلام کیا۔ میں نے سلام کا جواب دیا۔ ان میں سے وہی اژدھا جو پہلے مجھ سے مخاطب ہوا تھا، کہنے لگا:"
"''اے ابو اسحاق علیہ رحمۃ اللہ الرزّاق ! میرا گمان تھا کہ ان چالیس دنوں میں کسی نہ کسی دن تو منتخب کرلیا جائے گا میں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں دعا کی تھی کہ وہ تجھے صادقین کی بعض غذا کا ذائقہ چکھا دے اوراب میں تیرا حال اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حوالے کرتاہوں۔''
پھر اس اژدھے نے اپنے منہ سے نرگس کے کچھ پھول میری طرف پھینکے۔ میں نے انہیں اٹھالیا ۔ جب سامنے دیکھاتو وہ تمام اژدھے غائب ہوچکے تھے۔میں ان کی جدائی سے بڑا غمگین ہوا۔ پھر چالیس دن تک میں کیف وسرور کے عالم میں رہانہ تو مجھے بھوک لگی نہ پیاس۔ اورمیرے جسم سے ایسی خوشبو آتی تھی جیسے میں نے پورے جسم پر عطر لگایاہوا ہو۔ اسی طرح وہ پوری وادی خوشبو سے معطر اورمعنبر رہی ۔ یہ وہ پہلا واقعہ تھا جواللہ ربُّ العزَّت نے میرے لئے ظاہر فرمایااور مجھے عجیب وغریب چیزیں دکھائیں۔"
" حضرتِ سیِّدُنا احمد بن علی اَخْمِیمِی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے منقول ہے کہ ہم حضرتِ سیِّدُنا ذُوالنُّوْن مِصْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کی محفل میں حاضرتھے ۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اولیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کی کرامات کے متعلق ارشادات فرما رہے تھے۔ اتنے میں حاضرین میں سے کسی نے پوچھا : ''اے ابوفَیْض رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ! کیا آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کسی صاحب ِ کرامت ولی کو دیکھاہے؟''یہ سن کر حضرت سیِّدُنا ذُوالنُّوْن مِصْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی یوں گویا ہوئے : '' ایک مرتبہ ایک خُرَاسَانی نوجوان سات دن تک میرے ساتھ مسجد میں رہا ۔ اس دوران اس نے کچھ بھی نہ کھا یا۔ میں نے کئی مرتبہ کھانے کی دعوت دی مگر اس نے ہر بار انکار کردیا۔ ایک مرتبہ ایک سائل نے کوئی چیز مانگی تو خُرَاسَانی نوجوان نے کہا :'' اگر تو مخلوق کو چھوڑ کر خالق عَزَّوَجَلَّ سے مانگتا تو وہ تجھے مخلوق سے بے نیاز کردیتا ۔''
سائل نے کہا: میں ابھی اس مقام تک نہیں پہنچا ۔ کہا : بتا توکیا چاہتا ہے ؟ کہا: میرا فاقہ دور ہوجائے اورمیری ستر پوشی رہے ۔ '' خُرَاسَانی نوجوان نے محراب کی جانب جاکر دو رکعت نماز ادا کی۔ جب واپس آ یا تو عمدہ پھلوں سے بھرا ہوا تھال ا ور بالکل نئے کپڑے اس کے پاس تھے ، جو اس نے سائل کو تھما دئیے۔حضرت سیِّدُنا ذُوالنُّوْن مِصْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں: میں نے نوجوان سے کہا: ''اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بندے!اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں اتنا بلندمرتبہ ہونے کے باوجود تونے ایک لقمہ بھی نہیں کھایا حالانکہ توسات دن سے بھوکا ہے ۔'' میری یہ بات سن کراسے متلی سی ہو نے لگی۔ پھر مجھ سے کہا :''اے ابوفیض!یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ دل رضائے الٰہی عَزَّوَجَلَّ کے نور سے منور ہو پھر بھی زبان اس سے کوئی چیز طلب کرے؟''میں نے کہا :''جو لوگ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے راضی ہوں کیا وہ اس سے سوال نہیں کرتے؟'' کہا: ''رضا کے کئی درجے ہیں ۔ بعض لوگ اس درجے میں ہیں کہ ولولۂ شوق ومحبت میں اس سے سوال کرتے ہیں ، بعض ایسے ہیں کہ کسی طرح سوال نہیں کرتے ، بعض ایسے ہیں کہ اپنے لئے تو اس"
"سے کچھ نہیں مانگتے لیکن دوسروں پر رحم کرتے ہوئے ان کے لئے سوال کرتے ہیں ۔''
ابھی گفتگو جاری تھی کہ جماعت کھڑی ہوگئی۔ اس نے ہمارے ساتھ عشا ء کی نماز ادا کی ۔ پھرپانی کا برتن اُٹھا کرمسجد سے باہر چلا گیا ،ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے وہ طہارت کے لئے جارہا ہو لیکن پھر وہ واپس نہ آیا اور نہ ہی دوبارہ میں نے کبھی اسے دیکھا ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُنامحمدسَمِیْن علیہ رحمۃ اللہ المبین فرماتے ہیں:'' اَیامِ ریاضت میں میری کیفیت یہ تھی کہ جو بھی عمل کرتا اسے مستقل کرتا۔ایک مرتبہ میں مجاہدین کے ایک لشکر کے ساتھ جہاد پر گیا۔ دشمنوں کے بہت بڑے رومی لشکر نے مسلمانوں پر زبردست حملہ کیا اور غالب آنے کی بھر پور کوشش کرنے لگے۔ رومی لشکر کی کثرت دیکھ کر مسلمان مجاہدین پر خوف کی سی کیفیت طاری ہونے لگی ۔ میں بھی خو ف محسوس کررہا تھا،میرا نفس مجھے اپنے وطن کی یاددلارہاتھا۔جب نفس نے بہت زیادہ بزدلی کا مظاہرہ کیا تو میں نے اسے ڈانٹااو رشرم دلاتے ہوئے کہا : اے نفسِ کذّاب!تُو تو دعویٰ کرتا تھا کہ تو بہت عبادت گزار اورمجاہدات کا شوقین ہے۔ اب جب وطن سے دور آگیا ہے تو بزدلی کا مظاہرہ کررہا ہے حالانکہ یہی تو موقع ہے کہ تو اپنے شوق کا مظاہر ہ کرے لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے تجھے شرم آنی چاہے ۔
پھر میرے دل میں خیال آیا کہ سامنے نہر میں اُتر جاؤں اور غسل کروں۔ چنانچہ، میں نے غسل کیا اورباہر آگیا۔اب میری کیفیت ہی کچھ اورتھی۔ جذبۂ شوق میرے روئیں روئیں سے عیاں تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آخر میرے اندر اتنا جذبہ کہاں سے آگیا۔ میں نے اپنا اسلحہ زیب ِ تن کیاا ورمیدان جنگ میں گھس کربڑی شدت سے دشمنوں کی صفوں پرحملہ کیا۔ میں خود نہیں جانتا تھا کہ کس طرح لڑرہا ہوں۔ میں دشمن کی صفوں کو چیرتاہواان کے پیچھے چلا گیا اورنہر کے قریب پہنچ کر ''اللہُ اَکْبَر، اللہُ اَکْبَر، اللہُ اَکْبَر،اللہُ اَکْبَر''کی صدائیں بلند کیں۔ دشمنوں نے تکبیر کی آواز سنی تو ان کے ہوش اُڑ گئے،وہ سمجھے کہ شاید مسلمانوں کی کُمُک (یعنی مدد) کے لئے مجاہدین کی فوج پہنچ چکی ہے۔ پھر رومی فوج کے پاؤں اُکھڑ گئے اور وہ دُم دَبا کر بھاگ گئے۔ مسلمان مجاہدین نے ان پربھر پور حملہ کیا ۔ نعرۂ تکبیر کی برکت سے اس جنگ میں رومیوں کے چار ہزار سپاہی مارے گئے اور اللہ ربُّ العزَّت نے میرے اس نعرہ کو مسلمانوں کی فتح ونصرت کا سبب بنادیا۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُنا محمد بن نُعَیْم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی والدہ کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ ''میں نے حضرتِ سیِّدُنا ابو عثمان حِیْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کی زوجۂ محترمہ حضرتِ سیِّدَتُنامریم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا کو یہ کہتے ہوئے سنا:'' ایک مرتبہ مجھے میرے سرتاج حضرتِ سیِّدی ابوعثمان حِیْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کے ساتھ تنہائی میسر آئی تو میں نے موقع غنیمت جان کر پوچھا :اے ابو عثمان! اپنی زندگی کا کون سا عمل ا ۤپ کو سب سے زیادہ پیارا اورمحبوب ہے؟فرمایا:'' اے مریم! جب میں عالَمِ شباب میں تھا تو اس وقت میری رہائش ''رَے'' میں تھی۔ لوگ مجھے بہت پسند کرتے۔ سب کی خواہش تھی کہ میری شادی ان کے گھر ہوجائے لیکن میں سب کو انکار کرديتا۔ایک دن ایک عورت میرے پاس آئی اور یوں گویا ہوئی: ''میں تیری محبت میں بہت زیادہ بے قرار ہوگئی ہوں، میری رات کی نیندیں اور دن کا چین برباد ہوگیاہے، میں تجھے اس کا واسطہ دے کر التجا کرتی ہوں جو دلوں کو پھیرنے والا ہے کہ تو مجھ سے شادی کر لے۔''
اس کے یہ جذبات دیکھ کر میں نے پوچھا:''کیا تمہارا باپ زندہ ہے ؟''اس نے کہا:'' جی ہاں ،میرا باپ درزی ہے اورفلاں محلے میں رہتاہے ۔میں نے اس کے والد کو نکاح کا پیغام بھجوایا تو وہ بہت خوش ہوا،اس نے فوراً گاؤں کے معزز لوگوں کو بلاکر میرا نکاح اپنی بیٹی سے کردیا۔جب میں حجرۂ عروسی میں داخل ہوا تو دیکھا کہ میری نئی نویلی دلہن ایک آنکھ سے محروم، پاؤں سے لنگڑی اورانتہائی بدشکل تھی ،اسے دیکھ کر میں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شکر اداکرتے ہوئے کہا:'' اے میرے پرورد گار عَزَّوَجَلَّ ! تمام تعریفیں تیرے ہی لئے ہیں تونے جو میرا مقدر بنایا میں اس پر تیرا شکر گزار ہوں ۔'' پھرجب میرے گھر والوں کو میری زوجہ کی کیفیت معلوم ہوئی تو مجھے برا بھلا کہا اور خوب ڈانٹا ۔ لیکن میں نے اپنی زوجہ سے کبھی کوئی ایسی بات نہ کی جو اسے بری لگتی بلکہ میں اس پر بہت زیادہ مہربان ہوگیا اوراسے ضرورت کی ہر شئے مہیا کرتا۔
میری محبت وشفقت کی وجہ سے اس کی یہ حالت ہوگئی کہ لمحہ بھر کے لئے بھی مجھ سے جدائی برداشت نہ کرتی۔ چنانچہ، اپنی اس مجبوروبے کس،محبت کی پیاسی اور معذور بیوی کی خاطر میں نے دوستوں کی محفل میں جانا چھوڑدیا اورزیادہ وقت اسی کے پاس گزارنے لگا،تاکہ اس بیچاری کا دل خوش رہے اور یہ احساسِ کمتری کا شکار نہ ہو۔ اور اس طرح میں نے اپنی زندگی کے پندرہ سال اپنی اس معذور بیوی کے ساتھ گزار دئیے ۔ بعض اوقات مجھے اتنی تکلیف ہوتی جیسے مجھے سُلگتے اَنگاروں پر ڈال دیا گیا ہو لیکن میں نے کبھی بھی اس کیفیت کا اظہار اس پر نہ کیا۔ یہاں تک کہ پندرہ سال بعد وہ اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئی ۔ میری اس معذور بیوی کو مجھ سے جو محبت تھی اسے نبھانے اوراس کو ہر طرح سے خوش رکھنے کی خاطرمیں نے جو عمل کیا وہ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)"
" حضرتِ سیِّدُنامُبَارَک بن سعید علیہ رحمۃ اللہ المجید سے منقول ہے کہ ایک شخص حضرتِ سیِّدُنا سُفْیَان علیہ رحمۃ اللہ المنّان کے پاس سات سات ہزار دینار کی دو تھیلیاں لے کر حاضر ہوا۔ اس شخص کا والد آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا بہت گہرا دوست تھا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اکثر اس کے پاس جا کرقیلولہ فرماتے اور وہ بھی اکثرآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس آیا کرتا تھا۔ دینارلانے والے نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے کہا:'' اے ابو عبداللہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ! کیا آپ کے دل میں میرے والد کی کچھ محبت ہے؟آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس کے والد کی خوب تعریف کی اور فرمایا:'' اللہ تبارک وتعالیٰ تمہارے والد پر رحم کرے، وہ بہت اچھے انسان اوربہت سی خوبیوں کے حامل تھے۔ کہا:اے ابو عبداللہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ !آپ تو جانتے ہی ہیں کہ یہ مال میرے پاس کیسے آیا ؟ اب میں چاہتاہوں کہ آپ یہ تمام دینار قبول فرمالیں اور ان کے ذریعے اپنے اہل وعیال کی کفالت پر مدد حاصل کریں ۔ ''
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس سے ساری رقم لے لی۔ جب وہ جانے لگا توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مجھ سے فرمایا :''جاؤ اور اس کو میرے پاس بلا لاؤ ۔'' میں گیا اور اسے بلالایا۔ فرمایا :'' اے بھتیجے! تمھارا مال میں نے قبول کرلیا، اب میری خواہش ہے کہ یہ مال تم قبول کرلو ۔'' اس نے انکار کرتے ہوئے کہا:'' اے ابو عبداللہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ! کیا آپ کے دل میں اس مال کے بارے میں کوئی کھٹکا ہے ؟'' فرمایا :'' نہیں ، لیکن میں چاہتاہوں کہ تم یہ واپس لے لو۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اسی طرح تکرار کرتے رہے یہاں تک کہ اس نے مال واپس لے لیا۔
جب وہ چلا گیا تو میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس آیا،اس وقت میرے پاس کچھ بھی نہ تھا میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے سامنے کھڑا ہوااور کہا :'' اے بھائی! افسوس ہے ! آپ کا دل کیسا ہے ؟کیا آپ کے اہل وعیال نہیں ، کیا آپ مجھ پررحم نہیں کریں گے؟ کیا آپ ہمارے بچوں پر رحم نہیں کریں گے؟آپ ہمارے لئے ہی وہ مال قبول کر لیتے،میں کافی دیر تک آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے اسی طرح کہتا رہا بالآخر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:اگرتم چاہو تو وہ مال لے لو اور خوش دلی سے کھاؤ، میں کبھی بھی اسے قبول نہیں کروں گا،کیونکہ اگرمیں نے وہ قبول کرلیاتواس کے متعلق سوال بھی مجھ ہی سے ہوگا ، کسی اور سے نہیں ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)"
" حضرتِ سیِّدُنا احمد بن محمد بن جَعْد علیہ رحمۃ اللہ الاحد فرماتے ہیں: جس رات حضرتِ سیِّدُنا شُرَیْح بن یُونُس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ہاں بچے کی ولادت ہوئی۔ اس رات وہ میرے پاس تشریف لائے اور تین درہم دیتے ہوئے کہا: ''ایک درہم کا شہد، ایک کا گھی اور ایک درہم کے ستّو دے دو۔'' میرے پاس اس وقت تمام اشیاء ختم ہوچکی تھیں اورمیں تمام برتن خالی کر چکا تھا تاکہ صبح سویرے بازار سے اشیاء لاکر ان میں رکھوں۔ میں نے عرض کی:''حضور! اس وقت تمام سامان ختم ہوچکا ہے اوردُکان کے سارے برتن خالی ہیں۔میں صبح سویرے سامان خریدنے جاؤں گا اس وقت آپ کی مطلوبہ اشیاء میرے پاس موجود نہیں۔''
فرمایا:'' جاؤ، دیکھو تو سہی! شاید برتنوں میں کوئی چیز مل جائے ۔'' میں نے دیکھا توسب برتن بھرے ہوئے تھے اورستّوؤں کاتھیلا بھی بھرا ہوا ہے ۔میں نے بہت سارے ستّو اوردیگر اشیاء آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے سامنے لاکر رکھ دیں ۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:''تم تو کہہ رہے تھے کہ تمام برتن خالی ہیں، اب یہ سامان اتنی جلدی کہاں سے آگیا ؟''میں نے کہا:'' حضور! آپ سکوت فرمائیں اوراپنی مطلوبہ اشیاء لے جائیں ۔'' فرمایا:'' سچ سچ بتاؤ، معاملہ کیاہے ؟ورنہ میں یہ چیزیں ہرگز نہیں لوں گا۔'' میں نے عرض کی :'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے اس فرمان کے بعد کہ '' جاؤ، دیکھوتو سہی!شاید برتنوں میں کچھ مل جائے '' جب میں نے برتن دیکھے توسب کے سب بھر ے ہوئے تھے اوریہ سب کچھ آپ ہی کی برکت سے ہوا۔فرمایا:''خبردار !جب تک میں زندہ رہوں، یہ واقعہ کسی کو نہ بتانا۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)"
" حضرتِ سیِّدُنا صالح مُرِّی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں: ایک مرتبہ میں خلیفہ مہدی کے پاس گیا اور کہا : ''آج میری گفتگو برداشت کرنا ، بے شک اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں لوگوں میں سے زیادہ قرب والا شخص وہ ہے جو لوگوں کی سخت نصیحتوں پر صبرکرے ، اورجسے حضورنبئ پاک، صاحبِ لَوْلاک، سیّاحِ اَفلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے قرابت کارشتہ ہوتووہ اس بات کازیادہ مستحق ہے کہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے اَخلاق کو اپنائے اورآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی سنتوں پر عمل پیراہو۔
اے خلیفہ!بے شک اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تجھے علم کی فہم اور واضح دلائل کا وارث بنایا اوراب تیرا عذر ختم ہوچکا ہے، حجتیں قائم"
"ہوتی رہیں گی ،اگراب بھی تو شبہات میں پڑارہے توکوئی دلیل وحجت تجھے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ناراضگی سے نہیں بچاسکے گی۔ جب تجھے علم مل گیا تو جہالت کا عذر قابل قبول نہیں ۔یہ بات اچھی طرح سمجھ لے کہ جو شخص حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی اُمت میں مخالفت اورفساد پیدا کرے اور لوگوں کودینی احکام سے بیزار کرے ،تو وہ رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا دشمن ہے، اور جو رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا دشمن ہے وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا دشمن ہے ۔ لہٰذااللہ وسول عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کی دشمنی سے بچ اور ایسی نشانیاں اپنا لے جو تیری نجات کاباعث بنیں۔ اگر تو نے اس کا اُلٹ کیا توسمجھ لے کہ اپنے آپ کو ہلاکت کے لئے پیش کردیا۔
اے خلیفہ!جان لے، بے شک پچھاڑنے والے طاقتوروں میں کمزور ترین شخص وہ ہے جو ایسے شخص کو پچھاڑے جو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف بلانے والا ہو ۔ بےشک بروز قیامت لوگوں میں سب سے زیادہ ثابت قدم وہ ہوگا جس نے کتاب اللہ اورسنتِ نبوی کو مضبوطی سے تھاما۔اور تیرے جیسے لوگ مَعْصِیَّتْ(مَعْ۔صِیْ۔ یَتْ)کی وجہ سے غالب نہیں آسکتے۔ ہاں یہ ہے کہ نافرمان کے لئے برائی نیکی کا روپ دھار کرظاہر ہوتی ہے۔ ایسوں سے بے تَوَجُّہِی برتنا اور انہیں نیکی کی دعوت نہ دینا ان کے لئے سہار ابنتا ہے ۔میری ان باتوں کواچھی طرح سمجھ کر محفوظ کر لے ۔بے شک میں نے تجھے احسن انداز میں سمجھا دیا ہے ۔''
حضرت سیِّدُنا صالح مُرِّی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں: یہ باتیں سن کر خلیفہ مہدی زاروقطار رونے لگا ۔ابوہمام کہتے ہیں: ''مجھے بعض کاتبوں نے بتایا کہ حضرت سیِّدُنا صالح مُرِّی علیہ رحمۃ اللہ القوی کا یہ نصیحت آموز کلام ہم نے خلیفہ مہدی کے خاص رجسٹروں میں لکھاہوا دیکھا۔''
( اولیاء کرام پر اللہ عزوجل کی رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)"
حضرت سیِّدُنا اَوْفٰی بن دَلْہَم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم سے منقول ہے کہ ''امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا علی المرتضیٰ، شیرِ خداکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے ارشاد فرمایا : ''علم حاصل کرواس کے ذریعے تمہاری پہچان ہوگی ، علم پر عمل کروتم اس کے اہل ہوجاؤ گے ، بے شک تمہارے بعد ایسا زمانہ آئے گا ، جس میں حق نوحصے گمنام ہوجائے گا، ا س وقت وہی لوگ نجات پائیں گے جو لوگوں سے الگ تھلگ رہیں گے اورگوشہ نشین ہوجائیں گے۔ یہی لوگ ہدایت یافتہ لوگوں کے امام اورعلم کے چراغ ہیں،یہ فحاشی پھیلانے
"والے ، فضول خرچ اورجلد باز نہیں۔ دنیا پیٹھ پھیر چکی، اور آخرت بالکل سامنے ہے ۔ دنیا اورآخرت دونوں کےمُحِبِّیْن( یعنی محبت کرنے والے) موجودہیں۔ تم آخرت چاہنے والوں میں ہونا، دنیاکے عاشق ہرگزنہ بننا۔ جو لوگ دنیا سے بے رغبت ہوچکے ہیں انہوں نے زمین کو چٹائی، مٹی کو بچھونا اور پانی کو خوشبوبنالیا۔ جو شخص جنت کا مشتاق ہے وہ شہوات سے بچتا ہے،جوجہنم کی آگ سے خوفزدہ ہے وہ ہمیشہ حرام چیزوں سے بچتاہے ، اورجو دنیا سے بے رغبت ہوجائے مصیبتیں اس پر آسان ہوجاتی ہیں۔
خوب توجہ سے سنو ! بے شک اللہ عَزَّوَجَلَّ کے کچھ ایسے خوش نصیب بندے ہیں گویا وہ اہلِ جنت کو اس کی دائمی نعمتوں میں اور جہنمیوں کو آگ کے عذاب میں دیکھ رہے ہیں ۔ یہ لوگ فتنہ وفساد نہیں پھیلاتے ۔ لوگ ان کی طرف سے امن میں ہیں۔ ان کے دل غموں سے پُر ہیں اوریہ پاک دامن ونیک سیرت لوگ ہیں ۔ ان کی حاجات بہت کم ہیں،یہ آخرت کی طویل راحت کی خاطر دنیا کی چند روزہ مصیبتوں پر صبر کر لیتے ہیں۔ان کی رات اس طرح گزرتی ہے کہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں بحالت قیام کھڑے رہتے ہیں،آنسوان کے رخساروں پربہتے ہیں اوریہ گڑگڑا کر اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو یوں پکارتے ہیں :'' اے ہمارے پاک پروردگارعَزَّوَجَلَّ ! ہمیں جہنم کی آگ سے محفوظ رکھ، اس کی قید سے بچا۔'' جب دن ہوتاہے تو یہ بہترین علماء ، بردبار، نیکو کار اور لوگوں کے راہنما ہوتے ہیں ، ان کی جسمانی حالت ایسی ہوتی ہے کہ دیکھنے والا ان کو بیمار سمجھتا ہے حالانکہ انہیں کوئی بیماری نہیں ہوتی، لوگ انہیں مجنون سمجھتے ہیں ، حالانکہ آخرت کے عظیم دن کے خوف سے ان کے ہوش اُڑجاتے ہیں اور ان کی یہ حالت ہو جاتی ہے۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)"
" حضرتِ سیِّدُنا فَتْح بن شَخْرَف علیہ رحمۃ الرَّبّ سے مروی ہے کہ'' مجھے حضرتِ سیِّدُنابِشْرحافی علیہ رحمۃ اللہ الکافی کے بھانجے حضرتِ سیِّدُناعمر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بتایا: '' بھوک کی وجہ سے میرے ماموں حضرتِ سیِّدُنابِشْرحافی علیہ رحمۃ اللہ الکافی کے پیٹ میں شدید دردہوا اورپہلو میں بھی بہت تکلیف ہوئی۔ میری والدۂ محترمہ سے ان کی یہ تکلیف دیکھی نہ گئی تو کہا:'' بھائی جان !اگر آپ اجازت دیں تو میں اپنے ہاتھوں سے کچھ جَو پیس کر دلیہ پکا لاؤں ، نرم غذا پیٹ میں جائے گی تو تکلیف میں کمی ہوجائے گی۔''
فرمایا:'' افسوس!مجھے تو یہ خوف ہے، اگر مجھ سے پوچھ لیا گیا کہ تیرے پاس یہ جَو کا آٹا کہاں سے آیا ؟تو میں کیا جواب دوں گا؟'' پھر انہوں نے دلیہ پکانے سے منع کردیا۔ میری والدہ ان کی یہ حالت دیکھ کر رونے لگی، ماموں بھی رونے لگے اور ان"
"کے ساتھ میں بھی رو دیا۔ ان کا سانس گُھٹ گُھٹ کر آرہا تھا ، بڑی بے کسی کا عالم تھا ۔ میری والدہ نے کہا : '' اے میرے بھائی!کاش میری ماں نے تجھے نہ جناہوتا ۔اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! آپ کی تکلیف وغم دیکھ کر میرا جگر ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا ہے ۔'' میری والدہ کی یہ بات سن کر ماموں جان نے کہا:'' اے کاش !ایسا ہی ہوتا کہ تیری ماں مجھے نہ جنتی، اورجب میں پیدا ہوہی گیا تھا تو کاش ! وہ مجھے دودھ ہی نہ پلاتی۔''
حضرت سیِّدُناعمر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:'' میری والدہ میرے ماموں کی حالت دیکھ کر دن رات روتی رہتی تھی۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)"
" حضرتِ سیِّدُنامُصْعَب بن احمد علیہ رحمۃ اللہ الصمد فرماتے ہیں: ایک مرتبہ زمانے کے مشہور ولی حضرتِ سیِّدُنا ابو محمد عبداللہ رِبَاطَی علیہ رحمۃ اللہ الکافی بغداد تشریف لائے، ان کا مکۂ مکرمہ زَادَہَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا جانے کا ارادہ تھا۔ کافی عرصہ سے میری خواہش تھی کہ ان کی رفاقت میں سفرِ حرمینِ شریفین کیا جائے۔ اب موقع اچھا تھا میں فوراً آپ کی بارگاہ میں حاضرہو گیا اورعرض کی: ''حضور! مجھے اپنی رفاقت میں سفر کرنے کی اجازت عطافرما دیں۔'' مگر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس سال مجھے اپنی رفاقت عطا نہ فرمائی۔ دوسرے سال بھی مجھے یہ سعادت نصیب نہ ہوسکی۔تیسرے سال میں پھرحاضر ہوا اوراپنی خواہش کا اظہار کیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا : ''اس شرط پر تم میرے ساتھ سفرکرسکتے ہوکہ ہم میں سے ایک امیر ہوگا اور اس کی اطاعت لازم ہو گی ۔ میں نے بخوشی یہ شرط قبول کرلی اورکہا: حضور آپ امیرہیں۔ فرمایا:'' نہیں، بلکہ تم امیر ہو۔''میں نے پھر عرض کی: ''حضور آپ کا مقام ومرتبہ بڑا ہے لہٰذا آپ ہی امیرہیں ۔''فرمایا:'' ٹھیک ہے ،میں ہی امیر ہوں لیکن میری نافرمانی نہ کرنا۔'' میں نے کہا:'' ٹھیک ہے میں ہرگز آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا۔''
پھر میں اس ولئ کامل کے ہمراہ سوئے حرم چل دیا ۔ جب کھانے کا وقت ہوا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مجھے بٹھایا اور خود بڑی عاجزی وانکساری کے ساتھ میرے لئے کھانا لائے ۔ میں نے چاہا کہ انہیں روکوں اور ان کی خدمت کروں لیکن معاملہ برعکس تھا۔ وہ مجھے بہت زیادہ تعظیم دے رہے تھے ۔ میں جب بھی انہیں روکنا چاہتا تو فرماتے: کیا تم نے یہ شرط منظور نہ کی تھی کہ تم حکم عدولی نہیں کروگے ؟''اسی طرح وہ میرا سب کام کرتے رہے ۔ میرا ساراسامان بھی انہوں نے اٹھائے رکھا ۔ اب میں دل"
"میں کہنے لگا میری وجہ سے انہیں بہت تکلیف ہورہی ہے ۔ اے کاش !میں ان کا رفیقِ سفر نہ بنتامگر اب مجبور ہوں، کیاکروں۔
سفر طے ہوتا رہا اوروہ ولئ کامل ہر طرح سے میری خاطر مدارات کرتے رہے۔ پھر ایسا ہوا کہ دوران سفر ہمیں بارش نے آ لیا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: اے ابو احمد( رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ) ! میل (یعنی راستے کی پہچان کیلئے بنائے ہوئے نشانات)تلاش کرو ،جب ہم میل (نشان ) کے قریب پہنچ گئے تو مجھے چھوٹی سی بُرجی(یعنی گنبد یا ستون) کی آڑ میں بٹھایا اورخود مجھ پر چادر تان کر کھڑے ہو گئے۔ میرے منع کرنے کے باوجود خود سخت سردی میں بھیگتے رہے لیکن مجھے نہ بھیگنے دیا۔ میں کچھ عرض کرتا تو فرماتے ،میں تمہارا امیر ہوں اورہم نے یہ بات طے کرلی تھی کہ تم میرے حکم کی خلاف ورزی نہیں کروگے ، لہٰذا جو میں کہوں تمہیں اس پر عمل کرنا ہوگا۔ اب میں ان کی رفاقت پر بہت پچھتارہا تھا کہ میری وجہ سے انہیں کتنی دشواری ہورہی ہے۔ اے کاش!میں ان کا رفیق نہ بنا ہوتا ۔ الغرض بغداد شریف سے مکۂ معظمہ زَادَہَا اللہُ شَرَفًا وَّتَکْرِیْمًاتک وہ نیک خصلت ولئ کامل میری ہر طرح سے خاطر مدارات کرتے رہے یہاں تک کہ ہم مکہ معظمہ زَادَہَا اللہُ شَرَفًاوَّتَعْظِیْمًا میں داخل ہوگئے۔''
(اللہ عَزَّوَجَلَّ اُن پر اپنی کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے اوران کے صدقے ہمیں اپنے مسلمان بھائیوں کی خوب خو ب خدمت و خیر خواہی کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔'')
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)"
حضرتِ سیِّدُناعمر بن ہَیَّاج بن سعید علیہ رحمۃ اللہ الوحید سے منقول ہے کہ ایک مرتبہ اسلام کے نامور قاضی حضرتِ سیِّدُنا شَرِیک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کمرۂ عدالت میں مسند ِ قضا پر جلوہ فرما تھے ، اتنے میں ایک عورت حاضرِ خدمت ہوئی اوراس طرح فریاد کی : ''میں پہلے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی پناہ چاہتی ہوں پھر قاضی کی، مجھ مظلومہ کو میرا حق دِلوایا جائے۔'' قاضی شَرِیک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس عورت کی فریاد سن کر بے چین ہوگئے اورفرمایا:'' بلا جھجک بتاؤ، تم پر کس نے ظلم کیاہے ؟'' کہا:'' امیر موسیٰ بن عیسیٰ نے۔ دریائے فرات کے کنارے میرا کھجوروں کا ایک باغ ہے جو ہمیں وراثت میں ملا ہے، میں نے اپنے بھائیوں سے اپنا حصہ علیحدہ کرکے درمیان میں دیوار تعمیر کروادی اورایک فارسی شخص کو اس کی نگہبانی کے لئے مقرر کردیا۔امیر موسیٰ بن عیسیٰ نے میرے بھائیوں سے ان کے حصہ کا تمام باغ خریدلیا، پھر اس نے مجھے بھی اپنا حصہ بیچنے کو کہا اورخطیر(بہت)رقم کا لالچ دیا ،میں نے اپنا حصہ بیچنے سے انکار کر
"دیا،اس نے کل رات پانچ سو آدمی بھیج کر اس دیوار کو گروا دیا، میں نے صبح جاکر دیکھاتو دیوار بالکل ختم کردی گئی تھی اوراب میرے اورمیرے بھائیوں کے درختوں میں کوئی نشانی باقی نہ رہی۔ خدارا!مجھے انصاف دِلائیے۔''
اس مظلومہ کی فریاد سن کر وہ عظیم قاضی بے تاب ہوگیا اورخادم کو حکم فرمایا: مِٹی اورمُہر لاؤ ۔ پھر مُہر لگا کر حکم نامہ اس عورت کے سپرد کر دیا اور کہا:''تم امیر موسیٰ بن عیسیٰ کے پاس جاؤ اوریہ حکم نامہ دے کر کہو کہ قاضی صاحب کی عدالت میں حاضر ہوجاؤ ۔ '' چنانچہ، وہ عورت حکم نامہ لے کر موسیٰ بن عیسیٰ کی رہائش گاہ پر پہنچی اوراس کے دربان کو قاضی صاحب کا پیغام دیا ۔ دربان حکم نامہ لے کر موسیٰ بن عیسیٰ کے پاس گیا اورکہا:'' آپ کے خلاف قاضی شَرِیک کی عدالت میں دعویٰ کیا جاچکاہے ، آپ کو عدالت میں طلب کیا گیا ہے ،یہ دیکھئے! قاضی صاحب کی طرف سے مُہر شدہ حکم نامہ آیا ہے ۔'' موسیٰ بن عیسیٰ نے دربان سے کہا :'' جاؤ اور شہر کے پولیس آفیسر کوہمارے پاس بلالاؤ ۔ جب پولیس افسر آیا تو کہا :''تم قاضی شَرِیک کے پاس جاؤ اورکہو کہ تم سے زیادہ عجیب معاملہ میں نے کسی کا نہیں دیکھا۔ایک عورت نے مجھ پر ناحق دعویٰ کیا اورتم اس کے دعوے پر مجھے عدالت میں طلب کرکے اس کی مدد کررہے ہو۔''پولیس آفیسر نے ڈرتے ہوئے کہا:'' حضور مجھے اس معاملے سے دور ہی رکھیں توبہترہوگا ۔ امیر نے غضب ناک ہو کر کہا:''جاؤ اورہمارے حکم پر عمل کرو ۔''
مجبوراً اسے جانا ہی پڑا ۔ جاتے ہوئے اس نے اپنے غلاموں سے کہہ دیا کہ میرے لئے جیل میں بستر وغیرہ کا انتظام کر دو۔ آج میں ضرور جیل بھیج دیا جاؤں گا ۔ پولیس افسر کو معلوم تھا کہ اسلام کا یہ انصاف پسند قاضی ایک مجرم کا پیغام لانے پرمجھے ضرور قید میں ڈال دے گا ۔ جب پولیس آفیسر نے قاضی شَرِیک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو امیر موسیٰ بن عیسیٰ کا پیغام دیاتو قاضی صاحب نے سپاہی کو حکم دیا :'' اسے گرفتار کرکے قید خانے میں ڈال دو۔'' افسر نے کہا:'' خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! مجھے معلوم تھا کہ آپ ایسا ہی کریں گے، اس لئے جیل میں جانے کے لئے پہلے ہی انتظام کر کے آیاہوں۔''جب امیر موسیٰ بن عیسیٰ کو اپنے پولیس آفیسر کی گرفتاری کی خبر پہنچی تو اس نے دربان کو بلا کر قاضی صاحب کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا : ''آپ نے ہمارے قاصد کو گرفتار کرلیا، اس نے تو صرف پیغام پہنچایا تھا، اس کا قصورکیا ہے؟'' پیغام پاکر قاضی صاحب نے حکم دیا کہ اسے بھی اس کے ساتھی کے پاس پہنچا دو۔
چنانچہ، اسے بھی قید کرلیا گیا ۔ موسیٰ بن عیسیٰ کو اپنے دربانِ خاص کی گرفتاری کی اطلاع بھی پہنچ گئی ۔ اس نے عصر کی نماز کے بعد کوفہ کے با اثر اورنمایاں لوگوں کے گروہ جن میں قاضی صاحب کے دوست اِسحاق بن صَبَّاح اَشْعَثِی بھی شامل تھے، کو پیغام بھیجا کہ جاؤ قاضی صاحب کو میرا سلام کہنا اور انہیں آگاہ کردینا کہ آپ نے میری بے عزَّتی کی ہے ،میں کوئی عام آدمی نہیں۔ کوفہ کے بااثر لوگوں کی یہ جماعت قاضی صاحب کے پاس آئی، تو انھیں مسجد میں پایا ۔ان لوگوں نے سلام وآداب کے بعد امیر کا پیغام سنانا شروع کیا۔ جیسے ہی ان کا کلام ختم ہوا۔ فرمایا :'' کیا بات ہے کہ میں تمہیں ایک ایسے شخص کی طرف داری میں کلام کرتے"
"ہوئے دیکھ رہا ہوں جو حق پر نہیں ۔ پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بآواز بلند فرمایا : کیا یہاں قبیلے کے جوان موجود ہیں؟اگر ہوں تو جلدی سے آجائیں ، تھوڑی ہی دیر میں چند نوجوان آگئے ۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا : ایک ایک کاہاتھ پکڑو اورجیل پہنچا دو۔ خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم !آج کی رات یہ لوگ جیل میں گزاریں گے ۔'' کہا:'' کیاآپ سچ مچ ہمیں جیل بھجوا رہے ہیں؟'' فرمایا : ''ہاں ! واقعی میں تمہیں جیل بھجوا رہا ہوں تاکہ آئندہ تم کسی ظالم کی طرف داری کرتے ہوئے اس کا پیغام نہ لاؤ ۔''
امیر موسیٰ بن عیسیٰ کو ان کی گرفتاری کی اطلاع ملی تو بہت غضب ناک ہوا اور خود جاکرجیل کا دروازہ کھولا اور سب کو رہا کر دیا۔ صبح جب انصاف پسند ،جرأ ت مند قاضی کمرۂ عدالت میں جلوہ گرہواتو داروغۂ جیل نے گذشتہ رات کاتمام واقعہ کہہ سنایا۔ قاضی صاحب نے رجسٹر منگوا کر مہر لگائی اور تمام ریکارڈ گھر بھجواکر غلام کو سواری لانے کا حکم دیا اور کہا:'' اب ہم کو فہ میں نہیں رہیں گے ، خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم !ہم نے امیر المؤمنین سے یہ عہدہ طلب نہیں کیا تھابلکہ ہمیں تو مجبور کیا گیا تھا،اورہماری حفاظت وسرپرستی کی ذمہ داری لی گئی تھی۔اب کوفہ میں انصاف قائم کرنا مشکل ہوگیا ہے لہٰذا مجھے یہ عہدہ نہیں چاہے۔یہ کہہ کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کوفہ کے اس پل کی طرف چل دیئے جو بغداد جاتاتھا۔جب موسیٰ بن عیسیٰ کو قاضی صاحب کے جانے کی اطلاع ملی تو وہ فوراً آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی طرف دوڑا اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کا واسطہ دیتے ہوئے کہا :'' اے ابو عبداللہ !رک جائیں ۔ خدارا!آپ بغداد نہ جائیں، دیکھیں
تو سہی کہ آپ نے اپنے ہی بھائیوں کو قید کردیا تھا۔'' فرمایا :'' ہاں! جب انہوں نے ایک ایسے معاملے میں دخل اندازی کی جس کی انہیں اجازت نہ تھی تو میں نے انہیں قید کردیالیکن تم نے انہیں آزاد کردیا ہے، جب تک وہ سب کے سب واپس جیل میں نہ بھیج دیئے جائیں میں ہرگز واپس نہ جاؤں گا اوربغداد جاکر امیر المؤمنین کی طرف سے دی جانے والی اس ذمہ داری سے استعفیٰ دے دوں گا ۔''
امیر موسیٰ بن عیسیٰ نے قاضی صاحب کا یہ پُر عزم فیصلہ سنا تو سپاہیوں کوحکم دیا کہ جن جن کو میں نے رِہا کیاتھا ان سب کو واپس جیل بھیج دیا جائے۔ حکم پاتے ہی سپاہی شہر کی طرف چلے گئے لیکن قاضی صاحب اسی جگہ کھڑے رہے۔ جب داروغۂ جیل نے آکر اطلاع دی کہ ان تمام کوجیل میں بھیج دیا گیا ہے تب آپ وہاں سے واپس پلٹے۔
امیر موسیٰ بن عیسیٰ نے اپنے ایک غلام سے کہا:'' قاضی صاحب کی سواری کی لگام پکڑ کر آگے آگے چلو۔ چنانچہ، وہاں موجود تمام لوگ اور امیر موسیٰ بن عیسیٰ قاضی صاحب کے پیچھے پیچھے چل دیئے۔مسجد میں پہنچ کر قاضی صاحب نے مجلسِ قضا قائم کی امیر موسیٰ بن عیسیٰ کو مظلوم عورت کے برابر کھڑا کیا اور عورت سے فرمایا :'' جس پر تم نے دعویٰ کیا تھا وہ تمہارے سامنے موجود ہے۔ امیر موسیٰ بن عیسیٰ نے کہا:'' اے انصاف پسندقاضی! اب میں خود حاضر ہوں لہٰذا میری وجہ سے قید کئے جانے والوں کو آزاد کیا جائے۔'' فرمایا:'' ہاں! اب انہیں آزاد کیا جا تاہے۔'' یہ کہہ کر ان کی رِہائی کا پروانہ جاری کر دیا اورفرمایا:'' اے موسیٰ بن عیسیٰ!اس"
"عورت نے تم پر جو دعویٰ کیا ہے اس بارے میں کیا کہتے ہو؟'' کہا:'' یہ سچ کہتی ہے۔'' فرمایا:'' وہ تمام چیزیں جو اس سے لی گئی تھیں اسے واپس کی جائیں اورجو دیوار گرائی گئی تھی اسے فوراً تعمیر کروایاجائے ۔'' امیر نے کہا :'' ٹھیک ہے میں ابھی یہ کام کروا دیتاہوں کیااس کے علاوہ بھی کوئی دعویٰ ہے ؟'' قاضی صاحب نے اس عورت سے پوچھا:'' کیا تمہار اکوئی اوردعویٰ ہے؟'' کہا: ''ہاں! میرے فارسی خادم کا گھر بھی گرادیا گیا تھا اوراس کا سامان بھی ٹوٹ پھوٹ گیا تھا۔ امیر نے کہا:'' میں اس نقصان کا بھی ازالہ کئے دیتاہوں۔'' قاضی صاحب نے پھر پوچھا :''کیا کوئی اوردعویٰ باقی ہے؟''عورت نے کہا :'' اب میرا کوئی دعویٰ باقی نہیں۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کو اچھی جزا عطافرمائے ۔ پھر وہ عورت دعائیں دیتی ہوئی چلی گئی ۔
اب حق ظاہر ہوگیا تھااور مظلوم کو اس کا حق مل چکا تھا۔ چنانچہ، قاضی صاحب فوراََ اُٹھ کھڑے ہوئے اورامیر موسیٰ بن عیسیٰ کا ہاتھ تھام کر اپنی نشست پر بٹھا یا ، خود اس کے سامنے کھڑے ہو گئے اورکہا:'' اے امیر! اے موسیٰ بن عیسیٰ!السلام علیکم،شرعی فیصلہ ہوگیا ہے ،اب آپ امیر ہیں، میرے لائق کوئی حکم ہوتو ارشاد فرمائیں ۔'' امیر موسیٰ بن عیسیٰ نے ہنستے ہوئے کہا:'' اب آپ کو کیا حکم دوں ؟ پھر اسلام کے اس عظیم قاضی کی عدالت سے چلا گیا ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)"
" حضرتِ سیِّدُناحارِث اَوْلَاسِی علیہ رحمۃ اللہ الکافی فرماتے ہیں :''ایک مرتبہ میں مکۂ مکرمہ زَادَہَا اللہُ شَرَفًا وَّتَکْرِیْمًاسے شام کی طرف روانہ ہوا ، دورانِ سفر ایک قافلہ نظر آیا میں قریب گیا تو سب لوگ کسی بات پر گفتگو کر رہے تھے میں نے سلام کیااور کہا:'' میں بھی آپ کے ہمراہ سفر کرنا چاہتاہوں ،کیا آپ مجھے اپنے ساتھ رکھنے کو تیار ہیں؟'' کہا :'' جیسے تمہاری مرضی ۔ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔'' چنانچہ، میں بھی اس قافلے میں شامل ہو گیا ۔ مسافر اپنی اپنی مطلوبہ منزل پر ٹھہرتے رہے ۔ آخر میں میرے ساتھ صرف ایک شخص بچا۔ اس نے مجھ سے پوچھا:'' اے جوان!کہاں کا ارادہ ہے ؟'' میں نے کہا:'' ملک شام میں''کو ہِ لُکَام'' میری منزل ہے ، وہاں حضرت سیِّدُنا ابراہیم بن سعدعَلْوِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کی زیارت کے لئے جارہا ہوں۔''
میرا وہ رفیق چند دن میرے ساتھ رہا پھر مجھ سے جدا ہوگیا۔میں اکیلا ہی سفر کرتا ہوا''اَوْلَاس''پہنچا اور سمندر کی جانب چلا گیا، وہاں کا منظر ہی عجیب تھا۔ ایک شخص سمندر کی لہروں پر اتنے سکون سے نماز پڑھ رہا تھا گویا زمین پر ہے۔ یہ عجیب وغریب"
"منظر دیکھ کر مجھ پر ہَیْبَتْ طاری ہونے لگی ۔ جب اس نے محسوس کیا کہ کوئی مجھے دیکھ رہا ہے تو نماز کو مختصرکرکے میری طرف متوجہ ہوا۔میں نے دیکھا تو فوراً انہیں پہچان لیا وہ حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم بن سعد عَلْوِی علیہ رحمۃ اللہ القوی تھے ۔انہوں نے مجھ سے فرمایا: ''ابھی تم یہاں سے چلے جاؤ تین دن بعدآنا۔'' میں فوراً واپس چلا آیا اور حسب ِ ارشاد( حکم کے مطابق) تین دن بعد دوبارہ ساحلِ سمندر پر پہنچا تو دیکھا کہ وہ نماز پڑھ رہے ہیں۔ میرے قدموں کی آہٹ سن کر انہوں نے نماز مختصر کی اورفراغت کے بعد میرا ہاتھ پکڑ کر سمندر کے پانی کے بالکل قریب کھڑا کردیا۔ پھر ان کے ہونٹوں نے جُنبش(یعنی حرکت) کی اور وہ آہستہ آہستہ کچھ پڑھنے لگے ، میں نے دل میں کہا:'' اگر آج یہ سمندر کے پانی پرچلے تو مجھے بھی ان کے ساتھ سمندر کے پانی پرچلنے کا موقع مل جائے گا۔''میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک سمندر کے پانی میں دو اژدھے ظاہر ہوئے ۔ وہ سراٹھائے منہ کھولے ہماری طرف بڑھنے لگے ، میں نے اپنے دل میں کہا:'' کاش !یہاں کوئی شکاری ہوتا جو انہیں پکڑلیتا۔ جیسے ہی میرے دل میں یہ خیال آیا ، فوراً وہ دونوں اژدھے پانی میں غائب ہوگئے ۔ حضرت سیِّدُنا ابراہیم بن سعد عَلْوِی علیہ رحمۃ اللہ القوی میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: یہاں سے چلے جاؤ، ابھی تم اپنی طلب کو نہیں پہنچ سکتے۔ جاؤ، ابھی پہاڑوں میں گوشہ نشینی اختیارکرو، دنیوی زندگی کو بہت کم سمجھو اورجو کچھ مل جائے اسی پر صبر کرو یہاں تک کہ تمہیں پیغام اَجل آجائے۔ اتنا کہہ کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مجھے وہیں چھوڑ کر ایک سمت تشریف لے گئے ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)"
حضرتِ سیِّدُنا علی بن محمدسِیْرَوَانِی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: میں نے حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم خوَّاص علیہ رحمۃ اللہ الرزَّاق کو یہ فرماتے ہوئے سنا :''ایک مرتبہ ایک وادی میں مجھے بہت زیادہ پیاس لگی ، شدتِ پیاس سے میں نیم بے ہوش ہوکر گرپڑا ،اچانک میرے چہرے پر پانی کے قطرے گرے جن کی ٹھنڈک میں نے اپنے دل پر محسوس کی ۔ آنکھیں کھولیں تو خوبصورت سفید گھوڑے پر سوارسبز کپڑے زیبِ تن کئے، زردعمامے کا تاج سر پر سجائے ایک شکیل وجمیل نوجوان نظر آیا۔جس کے ہاتھ میں ایک پیالہ تھا ایسا خوبصورت نوجوان میں نے آج تک نہ دیکھا تھا۔ اس نے مجھے پیالے میں سے شربت پلایا اورکہا :'' میرے پیچھے سوار ہو جاؤ۔'' میں گھوڑے پر اس کے پیچھے سوار ہوگیا۔ ابھی وہ گھوڑا اپنی جگہ سے چلا ہی تھاکہ اس نوجوان نے مجھ سے پوچھا: ''تم سامنے کیا دیکھ رہے ہو۔''میں نے کہا:'' میرے سامنے اس وقت مدینۂ منورہ زَادَہَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًاکا پُرکَیْف نظارہ ہے،سُبْحَانَ
"اللہ عَزَّوَجَلَّ!میں تو اپنے آقاومولیٰ محمدِ مصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے شہر میں پہنچ چکاہوں۔''
نوجوان نے کہا:'' اب اُتر جاؤ، اور جب روضۂ رسول عَلٰی صَاحِبِھَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَم پر حاضری ہوتو میرا بھی باادب سلام عرض کر دینا اورکہنا:'' کہ رضوانِ جنَّت آقائے نامدار، مدینے کے تاجدار، باذن پروردگاردوعالم کے مالک ومختار عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہِ بے کس پناہ میں خوب خوب سلام عرض کرتاہے ۔'' اتنا کہہ کر وہ نظروں سے اوجھل ہو گیا ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)"
" حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم بن اَشْتَر علیہ رحمۃ اللہ الاکبر اپنے والدِ محترم کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ''حضرتِ سیِّدُنا ابوذَرّرضی ا للہ تعالیٰ عنہ کی زوجۂ محترمہ حضرتِ سیِّدَتُنا اُمِّ ذَرّ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: جب حضرتِ سیِّدُنا ابوذَرّ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ صحرائی سفر پر تھے، میں بھی ان کے ساتھ تھی ، میں رونے لگی۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: کیوں روتی ہو؟میں نے کہا: '' آپ اس بے آب وگیاہ ویران صحراء میں انتقال کر رہے ہیں اور اس وقت نہ تو میرے پاس کوئی ایسی چیز ہے جس سے آپ کے کفن و دفن کا انتظام ہوسکے اورنہ ہی آپ کے پاس، پھر میں کیوں نہ روؤں؟'' فرمایا:'' رونا چھوڑ، تیرے لئے خوشخبری ہے۔'' ہمارے پیارے آقا، مدینے والے مصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ''کوئی بھی دو مسلمان جن کے دو یا تین بچے فوت ہو جائیں اور وہ اس پر صبر کریں اور اجر کی امید رکھیں تو وہ کبھی بھی جہنم میں داخل نہ ہوں گے۔'' اورسرکار نامدار، مدینے کے تاجدار، باذن پروردْگار غیبوں پر خبردار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ہم چند لوگوں کو مخاطب کر کے(غیب کی خبر دیتے ہوئے) ارشاد فرمایا: ''تم میں سے ایک شخص صحراء میں مرے گااورا س کی وفات کے وقت مؤمنین کا ایک گروہ اس کے پاس پہنچے گا۔ '' (مسند احمد،حدیث ابی ذر الغفاری،الحدیث۲۱۴۳۱،ج۸،ص۶ ۸۔ الطبقات الکبرٰی لابن سعد،ابوذرجندب بن جنادۃ، الرقم۴۳۲، ج۴، ص۱۷۶)
اب ان تمام صحابۂ کرام علیہم الرضوان میں سے کوئی زندہ نہیں رہا۔ صرف میں اکیلا باقی ہوں اور ان سب کی وفات یا تو شہر میں ہوئی یا آبادی میں ۔ اور میں صحراء میں فوت ہو رہا ہوں ۔یقیناوہ شخص میں ہی ہوں ، اوراللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم!نہ میں نے جھوٹ کہااور نہ ہی مجھے جھوٹی خبر ملی ، تُو جااور دیکھ ، ضرورکوئی نہ کوئی ہماری مدد کو آئے گا۔''
میں نے کہا:'' اب توحُجّاجِ کرام بھی جاچکے اورراستہ بند ہوگیا۔''فرمایا:'' تو جاکر دیکھ تو سہی۔'' چنانچہ، میں ریت کے ٹیلے"
"پر چڑھی اورراستے کی طرف دیکھنے لگی، تھوڑی دیر بعد واپس ان کے پاس آگئی اورتیمارداری کرنے لگی پھر دوبارہ ٹیلے پر چڑھ کر راہ تکنے لگی ۔ اچانک کچھ دور مجھے چند سوار نظر آئے، میں نے کپڑا ہِلا کر انہیں اس طرف متوجہ کیا تو وہ بڑی تیزی سے میری طرف آئے اور پوچھا:'' اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بندی! کیا بات ہے ؟''میں نے کہا :'' مسلمانوں میں سے ایک مرد، داعئ اَجَل کو لَبَّیْک کہنے والا ہے، کیا تم اسے کفن دے سکتے ہو؟''انہوں نے کہا : ''وہ کون ہے ؟''میں نے کہا: ''ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔'' کہا: ''وہی ابوذر جو پیارے آقاصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے صحابی ہیں؟''میں نے کہا:'' ہاں! وہی ابو ذرجو صحابئ رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ورضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں ۔'' یہ سنتے ہی وہ کہنے لگے : ''ہمارے ماں باپ ان پر قربان! وہ عظیم ہستی کہاں ہے؟''میں نے انہیں بتایا تو وہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف تیزی سے لپکے اورحاضرِ خدمت ہو کر سلام عرض کیا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیتے ہوئے انہیں ''مرحبا''کہا اور فرمایا : ''تمہیں خوشخبری ہو!میں نے مدینے کے تاجدار، غیبوں پر خبردار،دوعالم کے مالک ومختار باِذن پروردگارعَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کویہ فرماتے ہوئے سنا:''کوئی بھی دو مسلمان جن کے دو یا تین بچے فوت ہوجائیں اور وہ اس پر صبر کریں اور اجر کی امید رکھیں تو وہ کبھی بھی جہنم میں داخل نہ ہوں گے۔'' اورآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ایک گروہِ مسلمین سے مخاطب ہوکر فرمارہے تھے جس میں میں بھی موجود تھا کہ ''تم میں سے ایک شخص صحراء میں وفات پائے گااور مؤمنین کا ایک قافلہ اس کے پاس پہنچ جائے گا۔'' (المرجع السابق)
اب میرے علاوہ ان میں سے کوئی زندہ نہیں ان میں سے ہر ایک یا تو آبادی میں فوت ہوا یا پھر کسی بستی میں ،اب میں ہی وہ اکیلا شخص ہوں جو صحراء میں انتقال کر رہا ہوں ۔اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم !نہ میں نے جھوٹ بولا اورنہ ہی مجھے جھوٹ بتایا گیا۔ جب میں مرجاؤں اور میرے پاس یا میری زوجہ کے پاس کفن کا کپڑ ا ہو تو مجھے اسی میں کفنادینا اگر ہمارے پاس کفن کا کپڑا نہ ملے تو میں تمہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم دیتا ہوں کہ تم میں سے جو شخص حکومتی عہدے دار ہو یا کسی امیر کادربان ہویا کسی بھی حکومتی عہدے پر ہو تو وہ مجھے ہرگز ہرگز کفن نہ دے ۔اتفاق کی بات تھی کہ ان میں سے ہر ایک کسی نہ کسی حکومتی عہدے پر رہ چکا تھا یا ابھی عہدے پر قائم تھا ۔ صرف ایک انصاری نوجوان بچا جو کسی طرح بھی حکومت کا نمائندہ نہ تھا۔ وہ نوجوان آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا: ''میرے پاس ایک چادر اوردو کپڑے ہیں جنہیں میری والدہ نے کاٹ کر بنایا ہے، میں اِنہیں کپڑوں میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کفن دوں گا ۔'' آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:'' ہاں! تم ہی مجھے کفن دینا۔'' پھرآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتقال ہوگیا تو اسی انصاری نوجوان نے کفن دیااور نمازِ جنازہ کے بعد آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو وہیں دفنا دیا گیا۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)"
" حضرتِ سیِّدُنا کَعْب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ''ایک مرتبہ حضرت سیِّدُنا موسیٰ کلیم اللہ علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃوالسلام کے زمانہ میں بنی اسرائیل قحط سالی میں مبتلا ہوگئے ۔ اس سال بارش بالکل نہ ہوئی ۔ لوگ پریشانی کے عالَم میں حضرت سیِّدُنا موسیٰ کلیم اللہ علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃوالسلام کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اورعرض کی '' آپ علیہ السلام ہمارے لئے بارش کی دعا فرمائیں ۔''
حضرت سیِّدُنا موسیٰ کلیم اللہ علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃوالسلام نے فرمایا: ''تم لوگ میرے ساتھ فلاں پہاڑ کی طرف چلو ، چنانچہ، لوگ آپ علیہ السلام کے ساتھ چل دیئے ۔ آپ علیہ السلام نے پہاڑپر چڑھ کرارشاد فرمایا:تم میں سے کوئی بھی ایسا شخص میرے ساتھ نہ رہے جس نے کبھی کوئی گناہ کیا ہو۔ یہ سن کر آدھے سے زیادہ لوگ واپس پلٹ گئے ۔ آپ علیہ السلام نے دوبارہ ارشادفرمایا:جس سے کبھی بھی کوئی گناہ سرزد ہوا ہو وہ واپس پلٹ جائے، سب واپس چلے گئے ۔صرف ''بَرْخ'' نامی شخص باقی بچا۔ جس کی ایک آنکھ ضائع ہوچکی تھی ۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا : ''کیا تم نے میری بات نہیں سنی؟'' عرض کی:'' حضور! میں آپ علیہ السلام کی بات سن چکا ہوں ۔''فرمایا :''کیا تم سے کبھی کوئی گناہ سرزد نہیں ہوا؟'' کہا:'' حضور! مجھ سے ایک فعل سرزد ہوا ہے ۔ میں آپ علیہ السلام کے سامنے عرض کئے دیتاہوں ، اگر وہ گناہ ہے تو میں واپس چلاجاؤں گا ۔ ''آپ علیہ السلام نے فرمایا:'' بتاؤ، تم سے کون سا فعل سرزد ہواہے ؟'' کہا:'' ایک مرتبہ میں ایک ایسے گھرکے قریب سے گزراجس کادروازہ کھلا ہوا تھا۔ اچانک میری نظر گھر میں موجود ایک شخص پر پڑی، میں نہیں جانتا کہ وہ مرد تھا یا عورت ۔ مجھے احساس ہواتومیں نے اپنی آنکھ سے کہا : ''تو نے ایک غلط کام میں جلدی کی، اب تو میرے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ چنانچہ، میں نے اپنی وہ آنکھ نکال ڈالی۔ اگر میرا دیکھنا گناہ تھا تو میں واپس چلا جاتاہوں ؟'' حضرت سیِّدُنا موسیٰ کلیم اللہ علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃوالسلام نے فرمایا:'' تمہارا یہ فعل گناہ نہیں، اب تم ہی اللہ عَزَّوَجَلَّ سے بارش طلب کرو۔ یہ سن کر اس'' برخ'' نامی عابد نے دعا کے لئے ہاتھ بلند کر دیئے اور بارگاہِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ میں اس طرح عرض گزار ہوا:
''یاقُدُّوْس عَزَّوَجَلَّ !یاقُدُّوْس عَزَّوَجَلَّ ! اے میرے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ ! تیرے خزانوں میں کوئی کمی نہیں ، اگر تو کوئی چیز عطا فرما دے تو تیرے خزانوں میں کمی نہ ہوگی ۔میرے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ ! تو بُخل سے پاک ہے ، کوئی ایسی چیز نہیں جسے تو نہ جانتاہو۔ میرے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ ! ہمیں بارانِ رحمت سے سیراب کر دے۔'' ابھی دعا ختم بھی نہ ہونے پائی تھی کہ چھما چھم رحمت کی برسات ہونے لگی۔ ہر طرف جَل تھَل ہوگیا ، اور یہ دونوں حضرات بارش میں بھیگتے ہوئے واپس پلٹے ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)"
" حضرتِ سیِّدُنا عمر بن وَاصِل علیہ رحمۃ اللہ القادر سے منقول ہے، ایک مرتبہ حضرت سیِّدُنا سَہل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے پوچھا گیا: ''اے ابو محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ !لوگ کہتے ہیں کہ دنیا میں ایسے عظیم بزرگ بھی ہیں جن کی صبح ''بصرہ'' ہوتی ہے اورشام مکۂ مکرمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَتَعْظِیْمًامیں۔ کیا واقعی ایساہے ؟'' فرمایا :'' ہاں !اللہ عَزَّوَجَلَّ کے کچھ ایسے بندے بھی ہیں، جوپہلو کے بل لیٹے ہوتے ہیں اورکروٹ بدلتے ہیں تو جہاں چاہتے ہیں پہنچ جاتے ہیں ۔'' پھرکچھ دیر خاموش رہے اور فرمایا : ''کیا ہم دیکھتے نہیں کہ بادشاہ اپنے وزیروں اور مُشیروں میں سے جسے زیادہ فرمانبردار ، بہادر اور اچھی نیت والا دیکھتے ہیں اسے اپنے خزانوں کی چابیاں دے دیتے ہیں اوراجازت دے دیتے ہیں کہ امورِ مملکت میں جو چاہے کرو، تم بااختیار ہو۔ ''اسی طرح بندہ جب اپنے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت وفرمانبرداری کرتارہتاہے ،جن کاموں کا حکم دیا گیاانہیں بجا لاتا ہے ۔ جن سے منع کیا گیا ان سے باز رہتاہے اورہر اس کام کو بخوشی کرتاہے جس میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا ہو تواللہ عَزَّوَجَلَّ اسے اپنا مُقَرَّبْ بنالیتا ہے ۔
اے لوگو!بے شک تم غفلت کا شکار ہو ۔ ارے! یہ دنیا تم سے رخصت ہونے والی اورتم اس سے کُوچ کرنے والے ہو۔ جلدی کرو، غفلت کی نیند سے بیدارہوجاؤ ۔ بے شک معاملہ (آخرت )بہت قریب ہے جو کچھ کرنا ہے جلدی جلدی کرلو۔
؎ کوچ، ہاں! اے بے خبر ہونے کو ہے کب تَلَک غفلت سحر ہونے کو ہے
کچھ نیکیاں کما لے جلد آخرت بنا لے کوئی نہیں بھروسہ اے بھائی زندگی کا"
حضرت سیِّدُناابوبَکْر کَتَّانِی اورمشائخ کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے ایک گروہ سے منقول ہے: ''حضرت سیِّدُنا جَعْفَر دِیْنَوَرِی علیہ رحمۃاللہ القوی کا ایک بھائی ملکِ'' شام'' میں رہتاتھا۔ وہ کسی بھی بستی یا شہر میں ایک دن یا ایک رات سے زیادہ نہ ٹھہرتا ۔ ایک مرتبہ وہ ایک گاؤں میں گیاتوبیمارہوگیا۔ سات دن بیمار رہا، نہ تو گاؤں والوں میں سے کوئی اس کی بیمارپُرسی کے لئے آیانہ ہی کھانے پینے کا پوچھا ۔ آٹھویں رات بھوک وپیاس کی شدت میں اس کا انتقال ہو گیا۔ صبح گاؤں والوں نے اسے مردہ پایا تو غسل دے کر خوشبولگائی، کفن پہنایا اور نمازِجنازہ ادا کرنے چل پڑے، اتنے میں آس پاس کی بستیوں کے لوگ جو ق درجوق وہاں پہنچ گئے اور کہنے لگے:'' ہم نے آج ایک غیبی آواز سنی، کوئی کہنے والا کہہ رہا تھا: ''تم میں سے جو کوئی اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ولی کے جنازہ
"میں حاضر ہونا چاہے وہ فلاں بستی میں چلا جائے۔ ''بس وہی آواز سن کر ہم یہاں آئے ہیں۔''پھر سب نے نمازِ جنازہ ادا کی اوراس ولی کودفنا کراپنے اپنے گھروں کو لوٹ آئے ۔
صبح کی نماز کے بعد لوگوں نے مسجد کی محراب میں ایک کفن دیکھااورساتھ ہی ایک پرچہ تھاجس پر یہ لکھا ہواتھا: '' تمہارے درمیان اللہ عَزَّوَجَلَّ کاایک ولی سات دن تک بھوکا پیاسا اور بیمار پڑا رہا، مگرتم نے اس کا حال تک نہ پوچھا نہ اس کی بیمار پُرسی کی، نہ ہی کھانا وغیرہ کھلایا۔ ہمیں تمہارے کفن کی کوئی حاجت نہیں، تمہارا کفن تمہیں واپس کیا جارہا ہے۔''
لوگوں نے یہ رقعہ پڑھا تو بہت شرمندہ ہوئے ۔ پھراپنے علاقے میں ایک عمدہ مکان بناکر مہمانوں اورمسافروں کے لئے خاص کردیا۔اور مہمانوں اورمسافروں کی خوب خاطر مَدارات کرنے لگے۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)"
" حضرتِ سیِّدُنا احمد بن محمد بن زِیاد علیہ رحمۃاللہ الجواد سے منقول ہے :میں نے حضرت سیِّدُنا ابوبَکْر عطَّار علیہ رحمۃ اللہ الغفار کو یہ فرماتے ہوئے سنا:''جب حضرت سیِّدُنا جنید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا انتقال ہواتو میں اورمیرے کچھ رفقاء وہاں موجود تھے ، ہم نے دیکھا کہ انتقال سے کچھ دیر قبل ضُعْف(یعنی کمزوری) کی وجہ سے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بیٹھ کر نماز پڑھ رہے تھے ۔آپ کے دونوں پاؤں مُتَوَرَّمْ(یعنی سوجھے ہوئے) تھے۔ جب رکوع وسجود کرتے تو ایک پاؤں موڑلیتے جس کی وجہ سے بہت تکلیف اور پریشانی ہوتی۔ دوستوں نے یہ حالت دیکھی تو کہا:'' اے ابو قاسم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم !یہ کیا ہے؟آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاؤں مُتَوَرَّم کیوں ہیں؟'' فرمایا: ''اَللہُ اَکْبَر،یہ تو نعمت ہے۔''
حضرت سیِّدُنا ابو محمدحَرِیرِی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کہا:'' اے ابو قاسم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم! اگر آپ لیٹ جائیں تو کیا حرج ہے؟'' فرمایا: ''ابھی وقت ہے جس میں کچھ نیکیاں کر لی جائیں، اس کے بعد کہاں موقع ملے گا۔'' پھر اللہ اکبر کہا اور آپ کی روح اس دارِفانی سے عالَمِ بالا کی طرف پرواز کرگئی ۔ '' یہ بھی منقول ہے کہ ''جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے کہا گیا : حضور !اپنی جان پر کچھ نرمی کیجئے ، تو فرمایا : اب میرا نامۂ اعمال بند کیا جارہا ہے ، اس وقت نیک اعمال کا مجھ سے زیادہ کون حاجت مندہوگا۔ ''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)"
" حضرتِ سیِّدُناحُذَیْفَہ مَرْعَشِی علیہ رحمۃ اللہ القوی سے مروی ہے کہ ''جب حضرتِ سیِّدُنا شَقِیْق بَلْخِی علیہ رحمۃ اللہ القوی مکۂ مکرمہ زَادَہَا اللہُ شَرَفًا وَتَعْظِیْمًا آئے تو حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم بن اَدْہم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم بھی وہاں موجود تھے ، دونوں عظیم بزرگ مسجدِ حرام میں جمع ہوئے ۔ حضرت سیِّدُنا ابراہیم بن اَدْہَم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم نے حضرتِ سیِّدُنا شَقِیْق بَلْخِی علیہ رحمہ اللہ القوی سے پوچھا: ''رزق کے معاملے میں تمہارا کیا حال ہے؟''فرمایا: ''جب کھانے کو مل جاتاہے تو کھالیتے ہیں، اگر نہ ملے تو صبر کرتے ہیں۔ '' حضرت سیِّدُنا ابراہیم بن اَدْہم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم نے فرمایا:'' یہ حال توہمارے بَلْخ کے کتوں کا ہے کہ جب کھانے کو مل جائے تو کھا لیتے ہیں اور نہ ملے تو صبر کرتے ہیں۔''پھر حضرتِ سیِّدُناشَقِیْق بَلْخِی علیہ رحمہ اللہ القوی نے پوچھا ، ''اچھا، آپ کی اس معاملے میں عادت کیا ہے ؟''فرمایا : ''ہمارا توحال یہ ہے کہ کوئی چیز کھانے کو ملے تو صدقہ کردیتے ہیں اور جب بھوکے رہتے ہیں تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی تعریف بجالاتے اورشکر اداکرتے ہیں۔'' جب حضرتِ سیِّدُنا شَقِیْق بَلْخِی علیہ رحمہ اللہ القوی نے یہ سنا توآپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے سامنے بیٹھ گئے اورکہا: ''اے ابواِسحاق علیہ رحمۃ اللہ الرزّاق !آج سے آپ ہمارے اُستاذ ہیں۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)"
" حضرتِ سیِّدُنااحمدبن محمد صوفی علیہ رحمۃاللہ القوی سے مروی ہے کہ میں نے اپنے استاذ حضرتِ سیِّدُنا ابو عبداللہ بن ابوشَیْبَہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو فرماتے ہوئے سنا :'' ایک مرتبہ میں بیْتُ الْمُقَدَّسْ میں تھا۔ میری خواہش تھی کہ آج رات مسجد میں ہی قیام کروں اور تنہا عبادتِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں مصروف رہوں۔ لیکن مجھے وہاں رات گزارنے کی اجازت نہ ملی۔ کچھ دنوں بعد دوبارہ مسجد میں گیا تو بر آمدے میں کچھ چٹائیاں رکھی دیکھیں ، میں عشاء کی نمازِ باجماعت ادا کرکے چٹائیوں کے پیچھے چھپ گیا ۔ نمازیوں کے چلے جانے کے بعددروازے بند کردئیے گئے۔ جب مجھے اطمینان ہوگیا کہ اب کوئی نہیں تو میں صحن میں آگیا۔ اچانک محراب کی دیوار شق ہوئی اور ایک شخص اندر داخل ہوا پھر دوسرا اور تیسرا اسی طر ح سات آدمی وہاں جمع ہوکر نماز پڑھنے لگے۔ انہیں دیکھ مجھ پر ہیبت طاری ہورہی تھی۔ میں سکتہ کے عالم میں اپنی جگہ کھڑا اِنہیں دیکھتا رہا۔ پھرصبح صادق سے کچھ دیر قبل وہ جس راستے سے آئے تھے اسی سے باہر چلے گئے پھر دیوار برابر ہوگئی۔ ''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)"
" حضرتِ سیِّدُنا شَقِیْق بن ابراہیم علیہ رحمۃ اللہ الکریم فرماتے ہیں :'' ایک مرتبہ رات کے پچھلے پہر مکۂ مکرمہ زَادَہَا اللہُ شَرَفًا وَّتَکْرِیْمًا میں موْلِدِرَسُوْل(یعنی حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی پیدائش کی جگہ ) کے قریب میری ملاقات حضرت سیِّدُناا براہیم بن اَدْہَم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم سے ہوئی۔ وہ ایک جگہ بیٹھے رو رہے تھے، میں ان کے قریب جاکر بیٹھ گیا اور کہا: '' اے ابواِسحاق علیہ رحمۃ اللہ الرزّاق! خیر یت تو ہے، آپ کیوں رورہے ہیں؟''میں نے دوتین مرتبہ پوچھا تو فرمایا: ''اے شَقِیْق علیہ رحمۃ اللہ الرفیق ! اگر میں بتا دوں تو میرے معاملے کو چھپائے رکھو گے یا لوگوں سے بیان کر دو گے؟'' میں نے کہا:''آپ بے فکر ہو کر بتائیں۔'' فرمایا:'' میرا نفس تیس سال سے مسلسل سِکْبَاج(یعنی گوشت اور سرکہ ملا کر پکایا ہوا سالن) کھانے کی خواہش کر رہا تھا۔ میں نے اسے تیس سال تک رو کے رکھا، آج رات بیٹھے بیٹھے مجھے اُو نگھ آئی تو دیکھا کہ ایک نوجوان ہاتھوں میں سبز پیالہ لئے کھڑا ہے جس سے گرم گرم سِکْبَاج کی خوشبو آرہی ہے، نوجوان نے وہ پیالہ میرے قریب کرتے ہوئے کہا : ''اے ابراہیم علیہ رحمۃ اللہ الکریم ! یہ سکباج کھا لو۔'' میں نے کہا: ''جس چیز کو میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا کے لئے ترک کر چکا ہوں اسے ہر گز نہیں کھاؤں گا۔''
وہ کہنے لگا:'' اگر یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عطا سے نہیں ملا توبے شک نہ کھا ؤ، ارے! یہ بھی تواللہ عَزَّوَجَلَّ کا عطاکر دہ ہے پھر تم کیوں نہیں کھا رہے۔'' اب میرے پاس رونے کے سوا کوئی جواب نہ تھا۔ میں زارو قطار رو نے لگا تو ا س نے کہا: ''اللہ عَزَّوَجَلَّ تم پر رحم کرے، یہ کھالو۔''میں نے کہا:'' ہمیں یہ تاکید کی گئی ہے کہ جب تک معلوم نہ ہو کہ کھانا کن ذرائع سے حاصل کیا گیا ہے تب تک اس کی طرف ہاتھ نہ بڑھاؤ۔'' کہا : اے ابراہیم علیہ رحمۃ اللہ الرحیم! مجھے یہ کھانا دے کر کہا گیا: '' اے خضرعلیہ السلام! یہ کھانا ابراہیم بن اَدْہَم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم کے پاس لے جاکر اسے کھلاؤ۔اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ان کی جان پر رحم کیا کیونکہ انہوں نے عرصۂ دراز تک اپنے نفس کو سکباج نہ کھلایا او رصبر سے کام لیا۔'' اے ابراہیم علیہ رحمۃ اللہ الرحیم! میں نے ملائکہ کو یہ کہتے ہوئے سنا:'' ایسا کون ہوگا کہ رزق دیاجائے اور وہ قبول نہ کرے اور ایسا کون ہے جو طلب کرے اور اسے عطا نہ کیاجائے؟'' میں نے نوجوان سے کہا :'' اگر واقعی یہ کھانا اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے آیا ہے اور معاملہ اسی طرح ہے جس طرح آپ نے بتایا تو پھر میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نعمت سے انکار نہیں کرسکتا ۔ پھر میں کھانے کی طرف متوجہ ہوا تو اچانک ایک اور نوجوان نمودار ہوا۔ اس نے پہلے نوجوان (حضرت سیِّدُناخضر علیہ السلام) سے کہا:'' اے خضرعلیہ السلام! آپ اپنے مُبَارَک ہاتھوں سے انہیں یہ کھانا کھلائیں ۔''
چنانچہ، حضرت سیِّدُناخضرعلٰی نبینا وعلیہ الصلٰوۃوالسلام نے اپنے مُبَارَک ہاتھوں سے مجھے کھلانا شروع کیا یہاں تک کہ میں خوب سیر ہوگیا۔پھر میری آنکھ کھل گئی لیکن اس کھانے کی مٹھاس اب تک میں اپنے منہ میں محسوس کر رہا ہوں۔''حضرتِ سیِّدُنا"
"شَقِیق بن ابراہیم علیہ رحمۃ اللہ الکریم فرماتے ہیں :''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہ ایمان افر و ز خواب سن کر میں نے ان کی ہتھیلی چوم لی اور بارگاہِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ میں اس ولئ کامل کو وسیلہ بناتے ہوئے اس طرح عرض گزار ہوا: ''اے بھوکوں کو ان کی پسندیدہ اشیاء کھلانے والے! اے مُحِبِّیْن کو اپنی محبت کے جام بھر بھر کر پلانے والے! کیا تیرے ہاں شَقِیق کا کوئی مرتبہ ہے؟ اے میرے پاک پروردگارعَزَّوَجَلَّ ! تجھے اپنے اس ولی اور اس کے ہاتھ کا واسطہ! اور تجھے تیرے اس کرم کا واسطہ جو تو نے اپنے اس ولی پر فرمایا اپنے اس بندے پر بھی ایک نگاہِ کرم فرمادے جو تیرے فضل اور احسان کا محتاج ہے، اگر چہ وہ اس قابل نہیں کہ اس کو یہ نعمتیں عطا کی جائیں تُو محض اپنی رحمت سے فضل فرمادے ۔'' جب میں دعا سے فارغ ہو ا تو حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم بن اَدْہَم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم اُٹھ کر مسجدِ حرام کی طر ف چل دیئے اور میں بھی ان کے ساتھ ساتھ چلنے لگا ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)"
" حضرتِ سیِّدُنا عبدالعزیز اَہْوَازِی علیہ رحمۃ اللہ القوی سے منقول ہے کہ حضرتِ سیِّدُنا سَہْل بن عبداللہ علیہ رحمۃاللہ نے مجھ سے فرمایا : ''بے شک کسی ولی کا لوگوں سے میل جول رکھنا اس کے لئے ذلت کا باعث ہے اور لوگوں سے علیحدگی باعث ِ عزت۔ اولیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین میں سے بہت کم ایسے ہوں گے جنہوں نے گو شہ نشینی اختیار نہ کی ہو ۔حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن صالح رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے مقبول ولی تھے، ان پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بہت عطائیں تھیں ، وہ لوگوں سے دور رہنا پسند کرتے اسی لئے کبھی کسی شہر میں تو کبھی کسی شہر میں ہوتے۔ بالآخر وہ مکۂ معظمہ زَادَہَا اللہُ شَرَفًا وَّتَکْرِیْمًا میں آئے اور وہیں مقیم ہوگئے ۔ میں ان کی عادت سے واقف تھا کہ یہ کسی شہر میں زیادہ دن نہیں ٹھہرتے لیکن مکہ شریف میں قیام کئے ہوئے انہیں کافی دن گزر چکے تھے ، میں نے پوچھا: '' آپ تو کسی شہر میں اتنا زیادہ رکتے ہی نہیں پھر مکۂ معظمہ زَادَہَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا میں اتنے دن کیوں رک گئے؟ ''
فرمایا :'' بھلامیں اس عظمتوں والے شہر میں کیوں نہ رکوں؟ میں نے کوئی ایسا شہرنہیں دیکھا جس میں مکۂ معظمہ زَادَہَا اللہُ شَرَفًا وَّ تَعْظِیْمًاسے زیادہ رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا ہو۔ لہٰذا مجھے یہ بات محبوب ہے کہ میں ایسے بابرکت شہر میں ٹھہروں جہاں دن رات ملائکہ کی آمد ورفت رہتی ہے، بے شک یہاں بہت سے عجائبات ہیں۔ملائکہ مختلف صورتوں میں خانۂ کعبہ کا طواف کرتے رہتے ہیں۔ اگر میں وہ تمام باتیں بتا دوں جو میں نے دیکھی ہیں تو لوگ ان پر یقین نہ کریں ۔'' میں نے کہا:'' خدارا! ان"
"باتوں میں سے مجھے بھی کچھ بتایئے ۔
فرمایا : ''اللہ عَزَّوَجَلَّ کا ہر وہ بندہ جو ولایتِ کاملہ کے درجے پر فائز ہو وہ ہر جمعرات کو اس بابرکت شہر میں آتا ہے اور کبھی بھی ناغہ نہیں کرتا ۔میں اسی لئے یہاں رکا ہواہوں تا کہ ان اولیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ میں سے کسی ولئ کامل کی زیارت سے فیضیاب ہو سکوں ۔ میں نے مالک بن قاسم جَبَلِی علیہ رحمۃ اللہ الولی نامی ایک شخص کو دیکھا ان کے ہاتھ میں کچھ کھجوریں تھیں ،میں نے ان سے کہا: ''کیاآپ کھانا کھا کر آرہے ہیں ؟'' انہوں نے کہا''اَسْتَغْفِرُاللہ''میں نے تو کئی ہفتوں سے کچھ بھی نہیں کھایا ، ہاں! میں نے اپنی والدہ کو کھجوریں کھلائی ہیں اور اب فجر کی نماز پڑھنے کے لئے حرم شریف آیا ہوں۔'' حضرتِ سیِّدُناعبداللہ بن صالح رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کہتے ہیں کہ''حرم شریف اور اس کے گھر کا درمیانی فاصلہ سات سو (700) فرسخ (یعنی2100میل) تھا ، وہ وہاں سے فجر کی نماز پڑھنے مسجد ِ حرام میں آیا تھا، کیا تم اس بات پر یقین کرلو گے؟ میں نے کہا: ''کیوں نہیں، فرمایا:'' تمام تعریفیں اسی پاک پر وردگارعَزَّوَجَلَّ کے لئے ہیں جس نے مجھے ایسے مسلمان شخص سے ملوایا جو اولیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کی کرامات کا ماننے والا اور انہیں حق جاننے والا ہے ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)"
" حضرتِ سیِّدُناابو مسلم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے مروی ہے کہ''میں نے حضرتِ سیِّدُنااَسْوَد بن سَالِم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا :'' ایک مرتبہ میں اپنے ایک دوست کے ساتھ''طَرَسُوْس'' کی طرف روانہ ہوا ، جب وہاں پہنچے تو جہاد کے لئے صدائیں بلند ہو رہی تھیں، کفار سے لڑنے کے لئے طَرَسُوْس کے مجاہد روم کی طرف جارہے تھے۔ ہم بھی مجاہدین کے ساتھ دشمن کی سر کوبی کے لئے روانہ ہوگئے ، روم کے کسی علاقے میں میرا رفیق بیمار ہوگیا میں نے اس سے پوچھا :'' کیا تمہیں کسی چیز کی خواہش ہے؟''
کہا :'' ہاں! میں بھُنی ہوئی بکری اور اخروٹ کھانا چاہتا ہوں ۔''میں نے کہا :'' بیماری کی وجہ سے تمہارا دماغ چل گیا ہے، اس لئے ایسی باتیں کررہے ہو؟ ذرا سو چو تو سہی ، ہم اس وقت دشمنوں کے علاقے میں ہیں اور تم بھنی ہوئی بکری کی خواہش کر رہے ہو،یہ بہت مشکل ہے کہ تمہاری خواہش پوری ہو جائے۔'' کہا :''آپ نے میری خواہش پوچھی تو میں نے اظہار کردیا ۔''
حضرت سیِّدُنا اَسْوَد بن سَالِم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:'' ایک جگہ مجاہدین کے لشکر نے قیام کیا ،میں اپنے گھوڑے کو پانی پلانے قریبی نہر پرلے گیا۔ میں نے نہر کے پانی پر ایک ہنڈیا تیرتی دیکھی جس کے اوپر چھ( 6)اخروٹ تھے۔ میں دوڑتا ہو اپنے"
"دوست کے پاس گیاسارا واقعہ سنایا اوراسے اپنے ساتھ لے کر واپس نہر پر آیا ۔اس نے ہنڈیا دیکھی تو اس میں بکری کا بھنا ہوا گوشت تھا اور اخروٹ ہنڈیا کے اوپر رکھے ہوئے تھے۔ اس نے اخروٹوں کو اُلٹ پَلٹ کر تے ہوئے کہا: ''اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! میری طلب پوری ہوگئی جو چیز میں نے چاہی مجھے مل گئی ۔''
پھر اپنے نفس کو مخاطب کر کے کہا :'' اے نفس ! تو نے جس چیز کی خواہش کی وہ تیرے سامنے موجود ہے ، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! میں تجھے اس میں سے کچھ بھی نہ چکھاؤں گا۔''یہ کہہ کروہ واپس پلٹ آیا اور اس میں سے کچھ بھی نہ کھایا ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)"
" حضرت سیِّدُنا محمدبن علی بن حسن رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کو یہ فرماتے ہوئے سنا:''حضرت سیِّدُنا ابن مُبَارَک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جب حج کا ارادہ کیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے رفقاء ''اَہْلِ مَرْوْ''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس آئے اور کہنے لگے :''اے ابو عبدالرحمن علیہ رحمۃ اللہ المنان !ہم حرمین شریفین کا سفر آپ کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں ،آپ ہمیں اپنی رَفاقت کی اجازت عطا فرما دیجئے۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا :'' اپنا تمام زادِراہ میرے پاس لے آؤ ۔'' وہ اپنا زادِ راہ لے آئے ، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے تمام زادِ راہ لیا اور ایک صندوق میں بند کر کے تالا لگا کر ایک محفوظ جگہ رکھ دیا۔ پھر ان کے لئے سواریاں کرائے پر لیں اور یہ قافلہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی اَمارَت (یعنی نگرانی )میں سوئے حرم چل دیا ۔
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ان کے کھانے پینے کا انتظام اپنی طر ف سے کرتے رہتے ،انہیں عمدہ سے عمدہ کھانا کھلاتے، بہترین پانی فراہم کرتے۔جب یہ قافلہ بغداد پہنچا توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے تمام قافلے والوں کے لئے بہترین لباس خریدا۔ اور کھانے پینے کاوافر سامان ساتھ لے کریہ قافلہ دوبارہ جانبِ منزل چل دیا۔ بالآخر یہ قافلہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ایک ولئ کامل کی رہنمائی میں نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر، دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَر صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے مُبَارَک شہر مدینہ منورہ زَادَہَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًاپہنچا، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے ہر ہر رفیق سے پوچھا : '' تمہارے گھر والوں نے تمہیں مدینہ منورہ زَادَہَااللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا سے کون سا تحفہ لانے کو کہا؟'' ہر ایک نے اپنی اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہر ایک کو اس کی مطلوبہ شئے خرید کر دیتے رہے ۔
پھر مکۂ معظمہ زَادَہَا اللہُ شَرَفًا وَّتَکْرِیْمًا کی پُر نور فضاؤں میں پہنچ کر مناسک ِ حج ادا کئے ،حج مکمل ہوجانے کے بعد آپ رحمۃ"
"اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے رفقاء سے فرمایا:'' بتا ؤ، تمہارے گھر والوں نے مکۂ معظمہ زَادَہَا اللہُ شَرَفًا وَّتَکْرِیْمًا سے کیا چیز خرید کر لانے کو کہا تھا، اسی طرح آپ نے ہر ایک سے پوچھا : جس نے جو چیزبتائی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے خرید کردی ۔ واپسی پر بھی دل کھول کر خرچ کیا۔جب یہ قافلہ اپنے علاقے میں پہنچ گیا توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ان کے گھرو ں پر پلستر کروا کر چونا کروایا ، تین دن بعد اپنے تمام رفقائے سفر کی دعوت کی اور انہیں بہترین کپڑے پہنائے۔ جب وہ کھانا کھاچکے توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے صندوق منگواکر کھولا اور ہر ایک کازادِراہ واپس کردیا ۔
راوی کہتے ہیں، میرے والد نے مجھے بتایا: حضرت سیِّدُنا ابن مُبَارَک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ایک خادم نے مجھے بتایا کہ ''آخری سفر کے بعد آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے رفقاء کی دعوت کی اور اس میں 25دستر خوانوں پر فالودہ رکھا گیا ۔(راوی مزید فرماتے ہیں کہ) حضرت سیِّدُنا ابن مُبَارَک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت سیِّدُنا فُضَیْل بن عِیَاض علیہ رحمۃ اللہ الرزّاق سے فرمایا :'' اگر آپ اور آپ کے رفقاء نہ ہوتے تو میں تجارت نہ کرتا۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہر سال فقراء پر ایک لاکھ درہم خرچ کیا کرتے ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)"
" حضرت سیِّدُنا محمد بن عیسیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں : حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن مُبَارَک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اکثر ''طَرَسُوْس'' کی طرف جاتے اور وہاں ایک مسافر خانے میں ٹھہرتے ، ایک نوجوان آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں حاضر ہو کر حدیث سنا کرتا ، جب بھی آپ ''رِقَّہ'' (نامی شہر میں ) تشریف لاتے وہ نوجوان حاضرِ خدمت ہوجاتا ۔ ایک مرتبہ جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ''رِقَّہ' ' پہنچے تو اس نوجوان کو نہ پایا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس وقت جلدی میں تھے کیونکہ مسلمانوں کا ایک لشکر جہاد کے لئے گیا ہوا تھا آپ بھی اس میں شرکت کے لئے آئے تھے ۔ چنانچہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لشکر میں شامل ہوگئے ۔اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ ! مسلمانوں کو فتح ہوئی اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ غازی بن کر واپس طَرَسُوْس آئے اور ''رِقَّہ'' پہنچ کراپنے اس نوجوان شاگرد کے بارے میں پوچھاتو پتا چلا کہ نوجوان مقروض تھااور ا س کے پاس اتنی رقم نہ تھی کہ وہ قرض ادا کرتا لہٰذا قرض ادانہ کرنے کی وجہ سے اسے گرفتار کر لیا گیا ہے ۔''
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے پوچھا:'' میرے اس نوجوان شاگرد پر کتنا قرض تھا ؟''کہا :'' دس ہزار درہم۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پوچھتے پوچھتے قرض خواہ کے گھر پہنچے ، اسے دس ہزار درہم دے کراپنے شاگر د کی رہائی کا مطالبہ کیا اور کہا:'' جب تک میں زندہ رہوں اس وقت تک"
"کسی کو بھی اس واقعہ کی خبر نہ دینا ۔'' پھر راتوں رات آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وہاں سے رخصت ہوگئے ۔قرض خواہ نے صبح ہوتے ہی مقروض نوجوان کو رہا کر دیا۔ نوجوان جب باہر آیاتو لوگو ں نے کہا: '' حضر ت سیِّدُنا عبداللہ بن مُبَارَک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ آپ کے متعلق پوچھ رہے تھے ، اب وہ واپس جاچکے ہیں ، یہ سن کر نوجوان آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی تلاش میں نکل پڑا اور تین دن کی مسافت طے کرکے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس پہنچا ،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اسے دیکھا تو پوچھا:'' اے نوجوان ! تم کہاں تھے ؟میں نے تمہیں مسافرخانے میں نہیں پایا۔'' نوجوان نے کہا: ''اے ابو عبد الرحمن علیہ رحمۃ اللہ المنّان !مجھے قرض کے عوض قید کرلیا گیا تھا۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے پوچھا: ''پھر تمہاری رہائی کا کیا سبب بنا؟'' کہا:''اللہ عَزَّوَجَلَّ کے کسی نیک بندے نے میرا قرض ادا کردیا، اس طرح مجھے رہائی مل گئی۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا : ''اے نوجوان ! اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شکر ادا کرو کہ اس نے کسی کو تیرا قرض ادا کرنے کی توفیق دی اورتجھے رہائی عطافرمائی ۔''
راوی کہتے ہیں: جب تک حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ بن مُبَارَک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ زندہ رہے تب تک اس قرض خواہ نے کسی کو بھی خبر نہ دی کہ نوجوان کاقرض کس نے ادا کیا ، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے وصال کے بعداس نے ساراواقعہ لوگو ں کو بتا دیا۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)"
" حضرتِ سیِّدُنا یوسف بن حسین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے مروی ہے کہ میں نے حضرتِ سیِّدُنا ذُوالنُّوْن مِصْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کو یہ فرماتے ہوئے سنا:'' میں ملکِ شام کے پہاڑی علاقوں میں تھا۔ وہاں چندایسے لوگو ں کو دیکھاجنہوں نے اُونی چوغے پہنے ہوئے تھے، ہر ایک کے ہاتھ میں پانی پینے کا ڈول اور لاٹھی تھی۔انہوں نے مجھے دیکھا توکہنے لگے: آؤ، ابو فیض ذُوالنُّوْن مِصْرِی کی طرف چلتے ہیں ۔ وہ میرے پاس آئے اور سلام کیا: میں نے جواب دیا اور پوچھا:'' تم کہا ں سے آئے ہو؟''ایک نے جواب دیا:''ہم الفت ومحبت کے باغات سے آئے ہیں۔'' میں نے پوچھا: ''کس کی مدد سے تم یہاں پہنچے؟'' کہا :''اس پروردگار عَزَّوَجَلَّ کی مدد سے جو بہت زیادہ عطا فرمانے والا ہے ۔''
میں نے پوچھا :''تم وہاں کیا کرتے ہو؟ '' دوسرے شخص نے کہا:'' ہم وہاں وجْدکے پیالوں سے اُلفت ومحبت کے جام پیتے ہیں۔ ''میں نے کہا:'' آخر وہ کون ہے جو اس معاملے میں تمہاری مدد کرتا ہے ؟''کہا:'' دلوں کو بزرگی بخشنے والی، محبوب کی ہمدردی پیدا کرنے والی ،خالص کوشش اور انتہائی اشکباری اس معاملے میں ہماری مد دگار ہے۔ جب ہم محبت کا جام پی لیتے ہیں تو اس کے"
"سبب غفلت کے اندھیرے ہم سے دور ہوجاتے اور ابرِ رحمت ہم پرچھما چھم بر ستے ہیں ۔''پھروہ آپس میں کہنے لگے : ''یہ ذُوالنُّوْن مِصْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی ہیں جو اُلفت ومحبت کے بارے میں بہترین کلام کرنے والے ہیں۔'' وہ لوگ یہ بات کرہی رہے تھے کہ بہت تیز ہوا چلی ، میں نے دیکھا کہ ہوا اپنے ساتھ ایک بڑا دستر خوان لے کر آئی جس پر انواع و اقسام کے کھانے بہت سلیقے سے رکھے ہوئے تھے۔ وہ دستر خوان ہمارے سامنے آکر بِچھ گیا ۔ میں نے کہا :'' پاک ہے وہ پروردگارعَزَّوَجَلَّ جو اپنے اولیاء کی ضیافت کرنے والااوران پر کرم فرمانے والاہے۔'' پھر وہ لوگ مجھ سے کہنے لگے: '' اے ذُوالنُّوْن! تم تواللہ عَزَّوَجَلَّ کے ولی ہو ۔''
میں نے کہا:'' میں اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ درجۂ وِلایت مجھے مل جائے۔'' یہ سن کر انہوں نے مجھے بڑی گہری نظروں سے دیکھا ۔میں نے کہا:'' مجھے نصیحت کرو اور میرے لئے خصوصی دعا کرو۔ابھی ہم یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ پہاڑ سے کچھ نوجوان ہماری طرف آئے، سلام کیااور کہا :
'' اے ہمارے بھائیو! ناکارہ ذُوالنُّوْن کا کیا حال ہے؟ اس کی خواہشیں پوری ہی نہیں ہوتیں اور نہ وہ اپنی خواہشات سے بازآتاہے۔''اتناکہہ کر وہ سب دستر خوان کے گرد بیٹھ گئے اور کھانا شرو ع کردیا۔ دوسرے لوگ بھی ان نوجوانوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے لگے ، لیکن مجھے کسی نے بھی نہ بلایا ، پھر ان نوجوانوں نے مجھ سے کہا: ''اے ذُوالنُّوْن مِصْرِی! اگرتم کمزور یقین والے ہو تَو حق کی محافل میں حاضر کیوں نہیں ہوتے ؟ اور اولیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کی صحبت میں کیوں نہیں بیٹھتے۔'' کھانا کھاکر وہ سب تو چلے گئے لیکن میں حیران ومتعجب وہیں کھڑا رہا۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)"
حضرتِ سیِّدُنا علی بن محمدحَلْوَانِی قُدِّسَ سِرُّہُ الرَّبَّانِی سے منقول ہے کہ ایک مرتبہ حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم خَوَّاص علیہ رحمۃ اللہ الرزّاق ''رَے''کی جامع مسجد میں اپنے رفقاء کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے ، اتنے میں ایک ہمسائے کے گھر سے گانے باجے کی آواز سنائی دی، اس آواز سے مسجد میں موجود تمام لوگ پریشان ہوگئے۔ کسی نے کہا :'' اے ابو اِسحاق علیہ رحمۃ اللہ الرزّاق !اب کیا کیا جائے ؟ ''یہ سن کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مسجد سے نکلے اور اس گھر کی طرف چل دیئے جہاں سے گانے کی آواز آرہی تھی ،آپ گلی کا موڑ مڑنے لگے تو سامنے ایک بیمار وکمزورسا کتا بیٹھا ہوا نظر آیا۔ جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس کے قریب سے گزرے تو وہ کھڑا ہو کر آپ رحمۃ اللہ
"تعالیٰ علیہ کو بھونکنے لگا ، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ واپس مسجد میں آگئے اور کچھ سوچنے لگے۔ تھوڑی دیر بعد دوبارہ اسی مکان کی طرف چل دیئے۔ جب اسی کمزور وضعیف کتے کے قریب سے گزرے تو وہ دُم ہلانے لگا اور بالکل نہ بھونکا۔ جب اس گھر کے پاس پہنچے جہاں سے گا نے کی آواز آرہی تھی تو ایک خوبصورت نوجوان باہر آیا اور کہا:'' اے محتر م بزرگ! آپ پر یشان کیوں ہیں؟ مجھے جب آپ کے ایک ساتھی نے بتایا کہ میری وجہ سے آپ لوگو ں کو پریشانی ہو رہی ہے تو اسی وقت میں نے اپنے گناہوں سے تو بہ کرلی، اب آپ جو چاہیں گے میں وہی کرو ں گا ۔ میں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ سے عہد کرلیا ہے کہ اب کبھی بھی شراب نہ پیؤں گا۔ اس کے بعد اس نوجوان نے تمام آلاتِ لہو ولعب اور شراب کے برتن توڑدیئے اور نیک لوگو ں کی صحبت اختیار کر کے اعمالِ صالحہ کی طرف راغب ہونے کی نیت کرلی ۔''
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ واپس مسجد آئے تو لوگوں نے پوچھا :'' حضور ! پہلی مرتبہ وہ کمزور کتا آپ پر بھونکااور دوسری مرتبہ چاپلوسی کرتے ہوئے دم ہلانے لگا، اس کی کیا وجہ ہے ؟ ''فرمایا:''جب میں پہلی مرتبہ باہر گیا تواللہ عَزَّوَجَلَّ سے کئے ہوئے وعدے میں کوتاہی ہوئی اور میں ذکر اللہ سے غافل ہوگیا ،اسی لئے وہ کمزور سا کتا بھی مجھ پر دلیر ہوکر بھونکنے لگا۔ جب کو تاہی کا احساس ہوا تو میں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ سے اپنی اس غلطی کی معافی مانگی، پھر دو بارہ گیا تو وہی کتا میری چاپلوسی کرنے لگا اور تم یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہو۔یا د رکھو! ہر وہ شخص جو کسی بُری چیز کے خاتمے کے لئے جائے اور اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے کئے ہوئے کسی وعدے میں اس سے کوتاہی ہو جائے تو تمام چیزیں اس پر دلیرہوجاتی ہیں ۔ لیکن جب وہ اس غلطی وکوتاہی کا ازالہ کر لے تو کوئی چیز اسے نقصان نہیں پہنچا سکتی اور یہ دونوں باتیں تم اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہو۔''
سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ !کتنے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو ہر گھڑی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت میں رہتے ہیں۔ ان عظیم لوگوں کے لئے خوشخبری ہے جو ہر گھڑی حکمِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ کی بجا آوری کے لئے کوشاں رہتے ہیں ا ور انہیں راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی ۔ ''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)"
علا مہ وَاقِدِی علیہ رحمۃ اللہ القوی سے منقول ہے، ایک مرتبہ حضرت سیِّدُنا امیر مُعَاوِیَہ بن ا بو سُفْیَان رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے قبیلہ ''جُرْہُمِی''کے ایک شخص سے فرمایا :'' اگر تم نے اپنی زندگی میں کوئی عجیب وغریب بات دیکھی ہو تو اس کے متعلق کچھ بتاؤ۔''
" اس نے اپنا عجیب وغریب واقعہ کچھ اس طر ح بیان کیا کہ '' ایک مرتبہ میں ایک وادی میں گیا تو دیکھا کہ لوگ''بَنِی عُذْرَہ''کے''حَرْب''نامی ایک شخص کا جنازہ لئے جارہے تھے ، میں بھی ان کے ساتھ چل دیا جب اسے قبر میں اتا ر دیا گیا تو میں لوگوں سے ایک طرف ہوگیا۔مجھے اس شخص کی موت پر خو د بخود نہ جانے کیوں رونا آرہا تھا ، میری آنکھوں سے سَیلِ اَشک رواں تھا، مجھے کسی شاعر کے چند اشعار عرصۂ دراز سے یاد تھے لیکن شاعر کے متعلق معلوم نہ تھا اس شخص کی موت سے مجھ پر غم طاری تھا۔ چنانچہ، میں یہ اشعار پڑھنے لگا جن کا مفہوم یہ ہے :
(۱)۔۔۔۔۔۔ میں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ سے اچھے نصیب کی بھیک مانگی ، اور میں اس کی عطا پر راضی ہو ں ، جب بار بار آسانیاں ملتی ہیں تو تنگی بھی قریب ہے ۔
(۲)۔۔۔۔۔۔ انسان جب دنیا میں ہوتا ہے توخوش حال اور قابلِ رشک ہوتا ہے ، جب قبر میں پہنچ جاتا ہے تو زمانے کی تُندوتیزہوائیں اسے زمین میں چھپا دیتی ہیں ۔
(۳)۔۔۔۔۔۔(موت کے بعد) اس کی قبر پر ایک مسافر تو آنسو بہاتا ہے حالانکہ وہ اسے جانتا بھی نہیں ۔ لیکن مرنے والے کے عزیز واقارب اس کی موت پر خوش نظر آتے ہیں۔
راوی کہتے ہیں:'' میں انہیں اشعار کا تکرار کر رہا تھاجب میرے قریب کھڑے ایک شخص نے یہ اشعار سنے تو کہا: ''اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بندے! کیا تجھے معلوم ہے کہ یہ کس کے اشعار ہیں ؟'' میں نے کہا:''خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم !یہ اشعار مجھے عرصۂ دراز سے یا دہیں لیکن یہ نہیں جانتا کہ یہ کس شاعر کے ہیں؟'' یہ سن کر اس شخص نے ایک عجیب وغریب انکشاف کرتے ہوئے کہا: ''اے مسافر ! اس ذات کی قسم جس کی تو نے قسم کھائی ہے! بے شک یہ اشعار ہمارے اسی رفیق نے کہے تھے جسے ہم نے تمہارے سامنے ابھی ابھی قبر میں اتارا ہے، پھر اس نے چند لوگو ں کی طر ف اشارہ کرتے ہوئے کہا:'' وہ اس کے قر یبی رشتہ دار ہیں جو اس کی موت پر مسرور ہیں ، اور تم ایک مسافر ہو لیکن پھر بھی آنسو بہا رہے ہو ۔ آج بالکل ایسا ہی ہوگیا جیسا اس نے اشعار کی صورت میں بیان کیا ۔'' مجھے اس عجیب وغریب بات سے بڑا تعجب ہوا ، ایسا لگتا ہے جیسے شاعر کو اپنی موت کے بعد کا علم ہوگیا تھا کہ میرے ساتھ یہ سلوک کیا جائے گا ۔ (پھر اس شخص نے کہا:)''اے امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ! یہ واقعہ میری زندگی کا سب سے عجیب وغریب واقعہ ہے۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)"
" حضرت عبداللہ بن محمود فرماتے ہیں: میں نے قاضی یحیی بن اَکْثَمْ کو یہ کہتے ہوئے سنا : ''میں نے مامون الرشید سے زیادہ فہیم و تجربہ کار شخص کوئی نہیں دیکھا ۔ ایک رات میں مامون الرشید کے ساتھ احادیث اور دیگر مسائل کاتکرار کر رہا تھا۔ اس پر نیند کا غلبہ ہوا اور وہ سوگیا۔ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ گھبراکر اُٹھ بیٹھا اور مجھ سے کہا: اے یحیی! دیکھو میرے پاؤں کے پاس کوئی چیز ہے ؟ میں نے دیکھا تومجھے کوئی چیز نظر نہ آئی، میں نے کہا: یہاں کوئی چیز نہیں، شاید! آپ کا وَہم ہے۔ میرے ا س جواب سے وہ مطمئن نہ ہوا اور خادموں کو بلا کر کہا:'' میرے بستر کو اچھی طر ح دیکھو کہ اس میں کوئی موذی شئے تو نہیں ؟'' خادموں نے جب بستر اُٹھایا تو اس کے نیچے ایک سانپ نکلا جسے خادموں نے مار ڈالا ۔
میں نے مامون الرشید سے کہا :'' ویسے ہی آپ ہر فن میں ماہر اور جامعِ کمالات ہیں، اب توآپ کی طرف غیب جاننے کی نسبت بھی کی جاسکتی ہے ۔ مامون الرشید نے کہا:'' معاذاللہ عَزَّوَجَلَّ !مجھ میں ایسی کوئی بات نہیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ جب میں سویا توہاتفِ غیبی سے میں نے یہ آواز سنی:"
"؎ یَا رَا قِدَ الْلَیْلِ اِنْتَبِہْ اِنَّ الْخَطُوْبَ لَھَا سُرَی
ثِقَۃُ الْفَتٰی بِزَمَانِہٖ ثِقَۃُ مُحَلِّلَۃُ الْعُرَی"
" ترجمہ: اے سونے والے! بیدارہوجا! بے شک مصیبتیں رات ہی میں آتی ہیں۔نوجوان کا اپنے زمانے پر اعتماد کرنا آفت و مصیبت پر اعتماد کرنا ہے۔
یہ اشعار سن کر میری آنکھ کھل گئی اور میں سمجھ گیا کہ ابھی یاکچھ دیر بعد کوئی بڑا معاملہ پیش ہونے والا ہے، لہٰذا میں نے اپنے ارد گر د کا جائز ہ لیا تو جو کچھ ہوا وہ سب تو نے دیکھ لیا۔''"
بصرہ کے قاضی عبید اللہ بن حسن رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے منقول ہے کہ '' میرے پاس ایک حسین وجمیل عجمی لونڈی تھی ، اس کے حُسن وجمال نے مجھے حیرت میں ڈال رکھا تھا۔ ایک رات وہ سورہی تھی۔ جب رات گئے میری آنکھ کھلی تو اسے بستر پر نہ پاکر میں نے کہا: ''یہ تو بہت بُرا ہوا ۔''پھر میں اسے ڈھونڈنے کے لئے جانے لگا تو دیکھا کہ وہ اپنے پاک پروردگارعَزَّوَجَلَّ کی عبادت
" میں مشغول ہے۔ اس کی نورانی پیشانی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں سجدہ ریز تھی۔ وہ اپنی پُر سوز آواز سے بارگاہِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ میں اس طر ح عرض گزار تھی: ''اے میرے خالق! تجھے مجھ سے جو محبت ہے میں اسی کا واسطہ دے کر التجا کرتی ہوں کہ تو میری مغفرت فرما دے ۔'' جب میں نے یہ سنا تو کہا :'' اس طر ح نہ کہہ ،بلکہ یوں کہہ '' اے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ ! تجھے اس محبت کا واسطہ جو مجھے تجھ سے ہے، تو میری مغفرت فرما دے۔''یہ سن کروہ عابدہ وزاہدہ لونڈی جو حقیقت میں ملکہ بننے کے لائق تھی کہنی لگی:'' اے غافل شخص! اللہ عَزَّوَجَلَّ کو مجھ سے محبت ہے اسی لئے تو اس کریم پروردگار عَزَّوَجَلَّ نے مجھے شرک کی اندھیری وادیوں سے نکال کر اسلام کے نور بار شہر میں داخل کیا ، اس کی محبت ہی تو ہے کہ اس نے اپنی یاد میں میری آنکھوں کو جگایا اور تجھے سلائے رکھا۔ اگر اسے مجھ سے محبت نہ ہوتی تو وہ مجھے اپنی بارگاہ میں حاضری کی ہر گز اجازت نہ دیتا ۔''قاضی عبیداللہ بن حسن رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کہتے ہیں:'' میں اس کے حسن وجمال اور چہرے کی نورانیت سے پہلے ہی بہت متاثر تھا۔ اب جب اس کی یہ عارفانہ گفتگو سنی تو میری حیرانگی میں مزید اضافہ ہوا اور میں سمجھ گیا کہ یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ولیہ ہے ۔
میں نے کہا :''اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نیک بندی! جاتواللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا کے لئے آزاد ہے۔ جب لونڈی نے یہ سنا تو کہا: ''میرے آقا ! یہ آپ نے اچھا نہیں کیاکہ مجھے آزاد کردیا۔ اب تک مجھے دوہرا اَجر مل رہا تھا ( یعنی ایک آ پ کی اطاعت کا اور دوسرا اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اطا عت کا) لیکن اب آزاد ی کے بعد مجھے صرف ایک اجر ملے گا ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)
(اے ہمارے پیارے اللہ عَزَّوَجَلَّ ! اپنے نیک اورمحبِّین بندوں کے صدقے ہمیں بھی اپنی محبت کی دولتِ عُظمٰی سے مالا مال فرماکردن رات عبادت کرنے کی سعادت عطا فرما۔'')
؎ تو اپنی ولایت کی خیرات دے دے میرے غوث کا واسطہ یا الٰہی عَزَّوَجَلَّ!"
حضرتِ سیِّدُنا احمد بن حَوَارِی علیہ رحمۃ اللہ الباری فرماتے ہیں: میں نے حضرتِ سیِّدُنا ابو سلمان علیہ رحمۃ الرحمن کو یہ فرماتے ہوئے سنا :'' ایک مرتبہ میں ''لُکَام'' کے پہاڑوں میں گیا،وہاں ایک نوجوان اپنے پروردگارعَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں اس طرح مناجات کر رہا تھا :'' اے میرے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ ! اے امیدوں کو پورا کرنے والے! اے امید دلانے والے! اے وہ ذات جس کی
"عطا سے میرے اعمال مکمل ہوتے ہیں! میرے پاک پروردگارعَزَّوَجَلَّ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس دعا سے جو تیری بارگاہ تک نہ پہنچے ۔ میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس بد ن سے جو تیری عبادت کے لئے کھڑا نہ ہو۔الٰہی عَزَّوَجَلَّ ! میں پناہ چاہتا ہوں ایسے دل سے جو تیرا مشتاق نہ ہو ، میں پناہ چاہتا ہوں ایسی آنکھ سے جو تیری یاد میں نہ روئے ۔''
حضرتِ سیِّدُنا ابوسلمان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں :''جب میں نے اس کا یہ جملہ سنا '' میں پناہ چاہتا ہوں ایسی آنکھ سے جو تیری یاد میں نہ روئے '' تو میں سمجھ گیا کہ اس شخص کو مقامِ معرفت حاصل ہے۔ میں نے کہا :'' اے نوجوان! بے شک عارفین کے لئے مقامات ومراتب اورمشتاقوں کے لئے نشانیاں ہیں۔'' نوجوان نے پوچھا: وہ علامتیں اور مراتب کیا ہیں ؟ میں نے کہا :''مصائب کو چھپانا، کرامات دکھانے سے بچنا ۔''کہا :'' مجھے کچھ اور نصیحت کیجئے۔'' میں نے کہا :'' ابھی تشریف لے جائیے اور اُس (پاک پروردگارعَزَّوَجَلَّ ) کے علاوہ کسی کی طر ف نہ جاؤ اور اُس کے علاوہ کسی سے اُمید نہ رکھو۔ اس راستے میں فقر غِناء ہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے آنے والی آزمائش درحقیقت شفاء ہے۔ اور تو کُّل زندگی کا بہترین سرمایہ ہے ، بے شک ہر مصیبت کا ایک مقررہ وقت ہے۔نہ اس کی طرف سے ملنے والی خیر کو ٹھکرا، نہ ہی اس کی عطا کردہ اشیاء میں بخل کر ۔ دنیوی خواہشات کی طرف ہر گز نہ جا۔ میری یہ باتیں سن کر اس نے ایک زور دار چیخ ماری اور آہ وزاری کرنے لگا ۔ میں اسے اسی حالت میں چھوڑ کر آگے بڑھ گیا۔ کچھ دور مجھے ایک اور نوجوان سویاہوا نظر آیا ، میں نے اسے جگاکر کہا:'' اے نوجوان! اب بیدار ہوجا ، بے شک مرنے کے بعد دوبارہ دنیا میں نہیں آنا ، مرنے کے بعد آرام کرلینا۔''
؎ جاگنا ہے جاگ لے افلاک کے سائے تلے حشر تک سوتا رہے گا خاک کے سائے تلے
نوجوان نے میری آواز سن کر اپنا سر اٹھایا اور کہا:'' اے ابوسلمان علیہ رحمۃ ا لرحمن ! مرنے کے بعد موت سے بھی زیادہ سختیاں ہیں۔''میں نے کہا :'' اے نوجوان ! جو موت پریقین رکھتا ہے وہ اعمالِ صالحہ کے لئے ہر دم کوشاں رہتا اور اپنے آپ کو تیار رکھتا ہے اور پھر اسے دُنیوی نعمتوں کی خواہش نہیں ہوتی ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)
( میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!یقینا خوش نصیب وخوش بخت ہیں وہ لوگ جو آنے والے وقت سے قبل اس کی تیاری کرلیتے ہیں۔ جسے ہر وقت موت کا ڈر ہو اس کے لئے اعمالِ صالحہ کی کوشش آسان ہوجاتی ہے۔جسے اس بات کی فکر ہو کہ موت تمام آسائشوں کو ختم کر دے گی اس کا دل دنیوی چیزوں کی طرف مائل نہیں ہوتا۔ جسے فکرِ آخر ت ہو اسے دنیوی افکار سے نجات مل جاتی ہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں دنیاوی فکروں سے نجات عطا فرما کر فکرِ آخرت عطا فرمائے ۔ نفسانی خواہشات کے شر سے ہر دم ہماری حفاظت فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)"
" حضرتِ سیِّدُنا ابو عَمْرو بن عَلَاء اور حضرتِ سیِّدُنا سُفْیَان بن عَلَاء رحمہما اللہ تعالیٰ سے منقول ہے کہ ایک مرتبہ حضرتِ سیِّدُنا اَحْنَف بن قَیْس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے پوچھا گیا:'' آپ نے حِلم وبرد باری کہاں سے سیکھی ''؟ فرمایا :'' حضرتِ سیِّدُنا قَیْس بن عاصم مِنْقَری علیہ رحمۃ اللہ القوی سے۔ وہ حلم وبر دباری میں یگا نۂ روز گا ر تھے ۔''ہم حلم و برد باری کے حصول کی خاطر ان کی بارگاہ میں اس طرح حاضر رہتے جیسا کہ ایک فقہ کا طالب کسی فقیہ کے پاس حاضر رہتا ہے۔ایک مرتبہ ہم حضرتِ سیِّدُنا قَیْس بن عاصم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے، وہ اپنی چادر سے اِحْتِبَاء کئے (یعنی گھٹنے کھڑے کر کے چادر سے باندھ کر سرین پر ) بیٹھے ہوئے تھے۔ اچانک کچھ لوگ آئے، انہوں نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے کہا:'' حضور! آ پ کے بیٹے کو آپ کے چچا زاد بھائی نے قتل کردیا ہے ، یہ دیکھیں آپ کے بیٹے کی لاش اور یہ آپ کا چچا زاد بھائی ہے ،ہم اسے رسیوں سے باندھ کر آپ کے پاس لے آئے ہیں۔''
راوی قسم کھاکرکہتے ہیں کہ''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ غم ناک خبر سن کربالکل چیخ وپکار نہ کی بلکہ لوگو ں کی پوری بات توجہ سے سنی پھر گھٹنوں پربندھی ہوئی چادر کھولی اور مسجد کی طرف چل دیئے۔وہاں پہنچ کر اپنے بڑے بیٹے سے کہا :'' جاؤ،میرے چچا زاد بھائی کو آزاد کردو اور اپنے بھائی کی تجہیز وتکفین کرو۔ اور میرے چچا زاد بھائی کی والدہ کے لئے سو اونٹ ہدیۃًلے جاؤ، وہ بیچاری انتہائی غریب وتنگ دست ہے۔ پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے درج ذیل اشعار پڑھے:
ترجمہ:(۱)۔۔۔۔۔۔میں ایسا مرد ہوں کہ جس کی خاندانی شرافت کو کسی بھی گندگی وعیب نے داغ دا ر نہیں کیا۔
(۲)۔۔۔۔۔۔ میں منقر قبیلے کے انتہائی معزَّز گھرانے کا معزز فرد ہوں اور ٹہنیوں کے گرد ٹہنیاں ہی نکلتی ہیں۔
(۳)۔۔۔۔۔۔ اور میں ان فصحاء میں سے ہوں کہ جب ان میں سے کوئی کلام کرتا ہے تو بہترین چہرے والا اور فصیح زبان والا ہوتا ہے۔
(۴)۔۔۔۔۔۔وہ پڑوسیوں کے عیبوں کو نظر انداز کردیتے ہیں اور ان کے ساتھ حُسنِ سلوک کرنا جانتے ہیں۔
جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا انتقال ہوا تو کسی شاعر نے آپ کی شان میں یہ اشعار کہے:
ترجمہ:(۱)۔۔۔۔۔۔ اے قیس بن عاصم! تجھ پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے سلامتی ہو اور اس کی رحمت ہو جب تک وہ رحم کرنا چاہے۔
(۲)۔۔۔۔۔۔مبارک ہو اُسے جس نے غضب وناراضی اورشدید غصہ دِلانے والا کام کیا لیکن پھر بھی تجھ سے نعمتیں پائیں اور امن وسکون میں رہا۔
(۳)۔۔۔۔۔۔ قیس کی وفات صرف اس اکیلے کی وفات نہیں بلکہ وہ تو پوری قوم کی عمارت تھا جواس کی وفات سے منہدم ہو گئی۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)
سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ ! کیا حلم ہے میرے آقا، مدینے والے مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے غلاموں کا کہ اپنے بیٹے کے قاتل کو نہ صرف معاف کیا بلکہ اس کی والدہ کو سوا ونٹ تحفۃً بھجوائے حالانکہ انہیں اختیار تھا کہ اپنے بیٹے کے قتل کے بدلے قاتل"
"سے قصاص لیتے(یعنی قتل کے بدلے قتل کرتے) یا پھر دیت (یعنی سو اونٹوں) پر صلح کرلیتے لیکن یہ دونوں کام نہ کئے بلکہ سو اونٹ ان کے گھر والوں کے لئے بھجوائے۔ یہ بزرگ واقعی حلم وبر دباری کے اعلیٰ درجے پر فائز تھے۔یہ بزرگ اس کریم آقاصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے غلام ہیں جو دشمنوں کے لئے بھی چادر بچھا دیتے ، ظلم کرنے والوں کو دعائیں دیتے ، جن کی طرف سے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پر مصائب کے پہاڑ ٹو ٹے انہیں پیار ومحبت سے نوازا ، جس نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے قطع تعلق کیا آپ نے ان سے تعلق جوڑا ۔جنہوں نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے کچھ چھینا انہیں بہت کچھ عطا فرمایا۔
(الغرض سرکارِ مدینہ ،قرارِ قلب سینہ ،با عثِ نُزولِ سکینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سراپا حلم تھے اسی لئے ان کے غلاموں نے بھی حلم اپنا کر ایسی مثالیں قائم کیں جن کی نظیر بہت کم ملتی ہے ۔اللہ عَزَّوَجَلَّ ان بزرگ ہستیوں کے صدقے ہمیں بھی اُس پیارے آقاصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی پیاری پیاری سنتوں پر عمل پیرا ہونے کی تو فیق عطا فرمائے، جن کے خُلق کو خود خالقِ کائنات نے عظیم کہااورجن کی خِلْق کوخالقِ حقیقی نے جمیل کیا اور ہمیں بھی اخلاقِ صالحہ اور حلم وبُر دباری کی تو فیق عطا فرمائے ۔
( آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)"
حضرتِ سیِّدُنا عبید اللہ بن عمرقَوَارِیْرِی علیہ رحمۃ اللہ الغنی فرماتے ہیں:'' میں نے ہمیشہ عشاء کی نماز با جماعت اداکی، مگر افسوس! ایک مرتبہ میری عشاء کی جماعت فوت ہوگئی۔ اس کاسبب یہ ہواکہ میرے ہاں ایک مہمان آیا،میں اس کی خاطر مُدَارَات (مہمان نوازی) میں لگا رہا ۔ فراغت کے بعد جب مسجد پہنچا توجماعت ہو چکی تھی۔ اب میں سوچنے لگا کہ ایسا کون سا عمل کیا جائے جس سے اس نقصان کی تلافی ہو۔ یکایک مجھے اللہ کے پیارے حبیب ،حبیب لبیب عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا یہ فرمانِ عالیشان یاد آیا کہ ''باجماعت نماز، منفرد کی نماز پر اکیس درجے فضیلت رکھتی ہے۔اسی طر ح پچیس اور ستائیس درجے فضیلت کی حدیث بھی مروی ہے ۔''
(صحیح البخاری،کِتَابُ الاذان،باب فضل صلاۃ الجماعۃ،الحدیث۶۴۵۔۶۴۶،ص۵۲،''لم اجد''باحدی وعشرین'')
میں نے سوچا، اگر میں ستا ئیس مرتبہ نماز پڑ ھ لوں تو شاید جماعت فوت ہوجانے سے جوکمی ہوئی وہ پوری ہوجائے ۔ چنانچہ، میں نے ستائیس مرتبہ عشاء کی نمازپڑھی ، پھر مجھے نیند نے آلیا۔ میں نے اپنے آپ کو چند گُھڑ سواروں کے ساتھ دیکھا، ہم سب کہیں جارہے تھے۔اتنے میں ایک گھڑ سوار نے مجھ سے کہا:'' تم اپنے گھوڑے کو مشقت میں نہ ڈالو ،بے شک تم ہم سے نہیں
"مل سکتے۔'' میں نے کہا:'' میں آپ کے ساتھ کیوں نہیں مل سکتا؟'' کہا : ''اس لئے کہ ہم نے عشاء کی نماز باجماعت ادا کی ہے۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! باجماعت نماز کی سعادت بہت بڑی دولت ہے ۔نیکیوں کے حریص کے لئے جماعت سے محروم ہوناایسانقصان ہے جس کی تلافی بہت مشکل ہے۔ اس بزرگ کا جذبہ دیکھیں کہ ایک مجبوری کی بناء پر ان کی جماعت نکل گئی تو انہوں نے اپنی نماز ستائیس مرتبہ اس اُمید پر دہرائی کہ شاید! مجھے جماعت کی فضیلت مل جائے۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔ جماعت کی اپنی ہی برکتیں ہیں اور جو وقت ہاتھ سے نکل جائے پھر حاصل نہیں ہوتا۔) بقولِ شاعر:
؎ سدا عیش دوراں دِکھاتا نہیں گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں"
" حضرتِ سیِّدُنا حُذَیْفَہ بن قَتَادَہ مَرْعَشِی علیہ رحمۃ اللہ القوی سے منقول ہے: '' ہمارا بحری جہاز جھومتا ہوا سوئے منزل چلا جا رہا تھا۔ مسافروں کی نظریں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بنائی ہوئی اشیاء کو دیکھ رہی تھیں، سمندر کا سُکوت ماحول کو سوگوار بنا رہا تھا ۔ اچانک تندوتیز ہواؤں نے جہاز کو تباہ کردیا۔ مسافروں میں سے ایک عورت اور میں جیسے تیسے ایک ٹوٹے ہوئے تختے تک پہنچے کر اس پر بیٹھ گئے۔ ہم سات دن بھوکے پیاسے آسمان کی چھت تلے سمندر کے سینے پر تختے کے سہارے اِدھر اُدھر گھومتے رہے۔ پیاس کی ماری عورت نے مجبور ہو کر کہا:'' میں بہت پیاسی ہوں اگر کچھ کرسکتے ہو تو کرو۔'' مجھے اس پر بڑا تر س آیا ، میں نے بارگاہِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ میں عرض کی: '' الٰہی عَزَّوَجَلَّ اس بے کس ومجبور عورت کی پیاس بجھا دے '' ابھی میں دعا سے فارغ بھی نہ ہو ا تھا کہ آسمان سے ایک زنجیر آئی جس کے ساتھ عمدہ پانی سے بھرا ایک ڈول لٹک رہا تھا۔ عورت نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شکر ادا کرتے ہوئے وہ پانی پی لیا۔ میں اس زنجیر کو دیکھنے لگا مجھے فضا میں ایک شخص بیٹھا ہوا دکھائی دیا۔ میں نے اس سے پوچھا :'' تم کون ہو ؟'' کہا:'' میں ایک انسان ہوں۔''میں نے کہا: '' تمہیں یہ مرتبہ کس عمل کے سبب ملا۔'' کہا: ''میں نے ہمیشہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے اَحکامات کو اپنی خواہشات پر ترجیح دی تواُس پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ نے مجھے وہ مقام عطا فرمایا جو تم دیکھ رہے ہو۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)"
(سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ ! جو شخص اپنے مالک ومولیٰ عَزَّوَجَلَّ کے فرامین کو ا پنی خواہشات پر ترجیح دے تو اسے ایسے ایسے انعامات ملتے ہیں جنہیں دیکھ کر عقلیں دَنگ رہ جاتی ہیں ۔ اگر اس پا ک پروردگارعَزَّوَجَلَّ کے احکام کی پیروی کی جائے تو انسا ن کے لیے ہوائیں ، دریا ، پہاڑ ، بَر گ وبار سب مُسَخَّر کرد یئے جاتے ہیں ۔مگر نیک اعمال پر استقامت بے حد ضروری ہے ، جس کی طلب سچی ہو وہ اپنا مطلوب پالیتا ہے۔ )
" حضرتِ سیِّدُناعباس بن دِہْقَان علیہ رحمۃ اللہ الحنَّان کہتے ہیں کہ ''مجھے حضرتِ سیِّدُنا احمد بن زَیَّات رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بتایا : ''ایک مرتبہ میں حضرتِ سیِّدُنا بِشْر بن حارِث حافی علیہ رحمۃ اللہ الکافی کی بارگاہ میں حاضر تھا ۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ صبر و رضا کا درس دے رہے تھے ۔ اچانک ایک صوفی نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو مخاطب کر کے کہا: '' اے ابو نَصْر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ! کہیں تم حُبِّ جاہ کی خاطر تو لوگوں کے سامنے نیک اعمال نہیں کرتے ؟ اگر تم زُہد میں کامل ہوگئے ہو تودُنیا سے کنارہ کشی اختیار کر لو اور لوگو ں کے عطیات وغیرہ قبول کرو،تاکہ ان کے نزدیک تمہارا جو مقام ہے اس میں کمی واقع ہو۔ ان کی طرف سے جو چیزیں تمہیں بطور نذرانہ ملیں انہیں فقراء پر خرچ کردو ۔ اور تو کل کی رسی مضبوطی سے تھام لو اگر ایسا کرو گے توغیب سے رزق دیا جائے گا ۔'' اس صوفی کا یہ اندازِ گفتگو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے معتقدین پربہت گراں گزرا۔لیکن وہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ادب کی وجہ سے خاموش رہے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس کی طر ف متوجہ ہوئے اور فرمایا:'' اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بندے!بے شک فقراء تین طرح کے ہوتے ہیں:
(۱)۔۔۔۔۔۔ایک فقیر تووہ ہے جوسوال نہیں کرتا ،اگربغیرسوال کئے کچھ مل جائے تواسے بھی قبول نہیں کرتا۔ ایسا شخص پاکیزہ خصلت وَلی ہے ۔ جب وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے کسی چیز کا سوال کرتا ہے تو رحمن ورحیم پروردگارعَزَّوَجَلَّ اس کی طلب پوری فرمادیتاہے ۔ اگروہ کسی بات کی قسم کھالے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کی قسم کو پورا فرمادیتا ہے ۔
(۲) ۔۔۔۔۔۔دوسرا فقیروہ ہے جو سوال تو نہیں کرتالیکن بغیر سوال کئے کچھ مل جائے توقبول کرلیتا ہے۔ ایسا شخص اللہ عَزَّوَجَلَّ پر توکل کرنے والوں میں درمیانی درجہ پر ہے۔یہ ان لوگو ں میں سے ہے جنہیں حضوریئ دربارِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ کی عظیم نعمت حاصل ہے۔
(۳)۔۔۔۔۔۔ تیسرا فقیر وہ ہے جو صبر پر یقین رکھتا ہے اوربسا اوقات حالات سے بھی موافقت کرلیتا ہے۔ جب اسے کوئی شدید حاجت درپیش ہوتی ہے تو لوگو ں سے بقدرِ حاجت لے لیتا ہے ،لیکن اس کا دل اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی سے مانگ رہا ہوتا ہے۔ لہٰذا اللہ عَزَّوَجَلَّ"
"سے کئے جانے والے سوال کی سچائی ،مخلوق سے کئے ہوئے سوال کا کَفّارہ ہوجاتی ہے۔ اورفقراء کے یہ تینوں طبقے کا میاب ہیں۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)"
" حضرتِ سیِّدُنا مَعْرُوْف کَرْخِی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:'' ایک مرتبہ دورانِ سفر ایک وادی میں میری ملاقات ایک ایسے اجنبی سے ہوئی جو بالکل تنہاتھا۔پہنے ہوئے لباس کے علاوہ اس کے پاس کوئی چیز نہ تھی۔ میں نے اسے سلام کیا ، اس نے سلام کا جواب دیا، میں نے کہا :''اللہ عَزَّوَجَلَّ تجھ پر رحم کرے! کہا ں کا ارادہ ہے ؟'' کہا:'' میں نہیں جانتا ۔ '' میں نے کہا:'' کیا تو نے کبھی کسی ایسے شخص کو دیکھا ہے جو کسی نا معلوم جگہ جا رہاہو؟'' کہا:''جی ہاں! میں انہیں میں سے ایک ہوں۔'' میں نے کہا: ''پھر بھی تمہارا کہاں کا ارادہ ہے ؟''کہا :'' مکۂ مکرمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا۔'' میں نے کہا:'' تُو مکہ شریف کی نیت کئے ہوئے ہے لیکن تُو جانتا نہیں کہ کس طرف جانا ہے ؟'' اس نے کہا:'' ہاں !واقعی ایسا معاملہ ہے کیونکہ بارہا ایسا ہوا کہ میں مکہ شریف کے قصد سے چلا لیکن''طَرَسُوْس'' پہنچ گیا۔ اور کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ میں طَرَسُوْس کی طرف چلا لیکن'' مکہ مکرمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّ تَعْظِیْمًا'' پہنچ گیا۔ اور ایسابھی ہوا کہ میں بصرہ کی طرف چلا لیکن کسی اور مقام پر جا پہنچا ۔ایسے معاملات میرے ساتھ ہوتے رہتے ہیں ، اس مرتبہ بھی مکہ شریف کے قصد سے چلا ہوں، دیکھو! اب کہاں پہنچتا ہوں ۔''
میں نے کہا:'' تمہارے کھانے کا انتظام کیسے ہوتا ہے ؟'' کہا:'' یہ معاملہ ایک کریم کے ذمۂ کرم پر ہے۔ جب وہ مجھے بھوکا رکھنا چاہتا ہے تو کھانا موجود ہونے کے باوجود میں بھوکا ہی رہتا ہوں۔ جب کھلانا چاہتا ہے تو بغیر کھانے کے بھی میں سیر ہو جاتا ہوں۔ کبھی وہ میری عزت افزائی فرماتا ہے تو کبھی آزمائش میں مبتلا کرتا ہے۔ کبھی کبھی مجھے یہ غیبی آوازسنواتا ہے: '' اے چور ! زمین پر تجھ سے بڑا شریر کوئی نہیں۔ '' اور کبھی یہ آواز سنائی دیتی ہے: '' زمین پر تیری مثل کوئی نہیں اور نہ ہی تجھ سے بڑھ کر کوئی زاہد ہے ۔'' میرا مالک کبھی تو مجھے بہترین بستر پر سُلاتا ہے، کبھی اس سے دور پھینک کر و یران جگہوں میں سلاتا ہے۔'' میں نے کہا: ''اللہ عَزَّوَجَلَّ تجھ پر رحم فرمائے! وہ کون ہے جس کے متعلق تو گفتگو کر رہا ہے؟'' کہا: ''وہ تمام جہانوں کا پالنے والا ،خدائے بزرگ وبَرتَر ہے، اس نے مجھے ایسے سمندر میں ڈال دیا ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں۔'' اتنا کہہ کر وہ شخص زار وقطاررونے لگا، مجھے اس پر بڑا ترس آیایہاں تک کہ اس کے رونے نے مجھے بھی رُلادیا ۔ پھر میں نے آس پاس کی تمام وادیوں سے رونے کی آواز سنی"
"حالانکہ بظاہر وہاں کو ئی شخص موجود نہ تھا۔ میں نے حیران ہوکر اس سے کہا: ''اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بندے! اللہ عَزَّوَجَلَّ تجھ پر رحم فرمائے، میں تیرے علاوہ دیگر رونے والوں کی آوازیں بھی سن رہا ہوں ، یہ آوازیں کہا ں سے آرہی ہیں ؟'' کہا:''کچھ جِنّات میرے گہرے دوست ہیں، جب بھی میں روتا ہوں وہ بھی میرے ساتھ رونے لگ جاتے ہیں ۔''
حضرتِ سیِّدُنامَعْرُوف کَرْخِی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں :''اتنا کہنے کے بعد وہ شخص وہاں سے غائب ہوگیااورمیں اکیلا حیران وپریشان کھڑا رہا۔ اس وقت میں اپنے آپ کو بہت کمتر محسوس کر رہا تھا ۔ تھوڑی دیر بعد وہ دوبارہ نمودار ہوا تو میں نے کہا:''مجھے ذرا تفصیل سے بتا ؤ کہ تمہارے ساتھ یہ معاملات کیوں اور کیسے ہوتے ہیں ؟'' یہ سن وہ بہت گھبرایا اور چونک کر بڑے سخت لہجے میں کہا : '' اے چور !کیا تومیرے اور میرے مالک ومولیٰ عَزَّوَجَلَّ کے درمیان رکاوٹ بننا چاہتا ہے، خدائے بُزُرْگ و بر تر عَزَّوَجَلَّ اور اس کی عزت کی قسم! میں اپنا رازہرگز اس کے علاوہ کسی اور کو بتا نا پسند نہیں کرتا ۔ اتنا کہہ کر وہ بندۂ خدا دوبارہ غائب ہوگیا ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اللہ رَبُّ العزَّت اپنے بندو ں کو طر ح طر ح کی صفات سے مُتَّصِف فرماتااور طر ح طر ح سے ان پر اپنی رحمتیں نچھاور فرماتاہے۔ کسی کو رُلاتا ہے تو کسی کو ہنساتا ہے۔ کبھی خوشیوں سے دامن بھر دیتا ہے تو کبھی رنج وغم میں مبتلا فرمادیتاہے۔ کبھی بھوک وپیاس کے ذریعے اپنے اولیاء کے درجات بلند فرماتا ہے توکبھی ایسی ایسی جگہ سے رزق کے خزانے عطا فرماتا ہے جہاں سے وہم وگمان بھی نہیں ہوتا۔ بہترین انسان وہی ہے جو اس کی رضا پر راضی رہے اور اس کے حکم پر اپنی تمام خواہشات قربان کر دے۔ جو خوش نصیب ایسا کرتے ہیں وہ دنیا و آخرت میں سُرخرو ہوجاتے ہیں اور ہر قدم پر کامیابی ان کے قدم چوم لیتی ہے ۔اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں اپنی دائمی رضا سے مالا مال فرمائے اور ناشکر ی سے بچائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)"
حضرتِ سیِّدُناحَبِیب زَارِع رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے مروی ہے کہ ہم عہد ِ شباب میں قاضی ابوحَازِم عبدالحمیدبن عبدالعزیز علیہ رحمۃ اللہ القدیر کے ساتھ رہا کرتے تھے۔ عہدۂ قضاء سے پہلے بھی ہم انہیں قاضی گمان کیا کرتے اس لئے لڑائی جھگڑوں کے فیصلے انہیں سے کرو اتے ۔ پھر کچھ ہی عرصہ بعد آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مسندِقضاء پر متمکِّن ہوگئے۔عبدالواحد بن محمدخَصِیْبِی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:قاضی ابو حَازِم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم انصاف کے معاملہ میں بہت سخت تھے۔ آپ ہمیشہ حق بات کہتے اوردرست فیصلے
"فرماتے۔ ایک مرتبہ خلیفۂ وقت''مُعْتَضِد باللہ'' نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی طرف پیغام بھیجا: ''فلاں تاجر نے ہم سے بیع کی اور نقد رقم نہ دی۔وہ میرے علاوہ دوسروں کا بھی مقروض ہے، مجھے خبر پہنچی ہے کہ دوسرے قرض خواہوں نے آپ کے پاس گواہ پیش کئے تو آپ نے اس تاجر کا مال ان میں تقسیم کر دیا ہے ۔ مجھے اس مال سے کچھ بھی نہیں ملا حالانکہ جس طر ح وہ دوسروں کا مقروض تھا اسی طرح میرا بھی تھا ، لہٰذامیرا حصہ بھی دیا جائے ۔''
پیغام پاکر قاضی ابو حَازِم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم نے قاصد سے کہا:'' خلیفہ سے کہنا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کی عمر دراز فرمائے، وہ وقت یاد کرو جب آپ نے مجھ سے کہا تھا کہ میں نے فیصلوں کی ذمہ داری کا بوجھ اپنی گردن سے اُتار کر تمہارے گلے میں ڈال دیا ہے ۔ اے خلیفہ! اب میں فیصلہ کرنے کا مختار ہوں اور میرے لئے جائز نہیں کہ گواہوں کے بغیر کسی مُدَّعِی کے حق میں فیصلہ کروں۔'' قاصد نے قاضی صاحب کاپیغام سنایا توخلیفہ نے کہا:'' جاؤ ! قاضی صاحب سے کہوکہ میرے پاس بہت معتبر اور معزز گواہ موجود ہیں۔ جب قاضی صاحب کو یہ پیغام ملا تو فرمایا:'' گواہ میرے سامنے آکر گواہی دیں ،میں ان سے پُوچھ گَچھ کرو ں گا شہادت کے تقاضوں پر پورے اُتر ے تو ان کی گواہی قبول کرلوں گا ورنہ وہی فیصلہ قابل عمل رہے گا جو میں کر چکا ہوں ۔''
جب گواہوں کو قاضی صاحب کا یہ پیغام پہنچا تو انہوں نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے خوف کھاتے ہوئے عدالت آنے سے انکار کردیا۔ لہٰذا قاضی صاحب نے خلیفہ مُعْتَضِد باللہ کا دعویٰ رَد ّکرتے ہوئے اسے کچھ بھی نہ بھجوایا ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)"
قاضی وَکِیْع علیہ رحمۃاللہ القوی سے منقول ہے کہ''مُعْتَضِد باللہ کے زمانۂ خلافت میں قاضی ابوحَازِم عبدالحمید بن عبد العزیز علیہ رحمۃ اللہ المجید نے حسن بن سَہْل کی وقف کردہ زرعی زمین کی دیکھ بھال اور دیگر معاملات پر مجھے نگہبان مقر ر کردیا۔اس سے جو آمدنی ہوتی میں اسے شرعی احکام کے مطابق بیت المال او ر غرباء وغیرہ میں تقسیم کردیتا۔جب خلیفہ مُعْتَضِد باللہ نے اپنے لئے محل تعمیر کروایا تو حسن بن سَہْل کی کچھ َموْقوفہ (یعنی وقف کی ہوئی) زمین بھی عمارت میں شامل کرلی۔ سال ختم ہونے پر میں نے تمام زمین کا حساب کر کے مال وصول کرلیا، صرف شاہی محل میں شامل کی گئی زمین کا حساب باقی تھا ۔ خلیفہ سے اس زمین کی آمدنی کا مطالبہ کرنے کی مجھے جرأ ت نہ ہوئی۔ میں تمام جمع شدہ مال وغلّہ لے کرقاضی ابوحَازِم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کے پاس آیا اور کہا: ''میں نے
"اوقاف کی تمام زمین سے غلّہ وغیرہ وصول کر لیا ہے اور تمام آمدنی میرے پاس موجود ہے ،آپ مجھے اسے تقسیم کرنے کی اجازت دیں تا کہ جتنا غلہ بیج کے لئے درکار ہے اتنا علیحدہ کر کے باقی مستحقین میں تقسیم کردو ں۔''
قاضی صاحب نے کہا :'' کیا جو زمین خلیفہ مُعْتَضِد باللہ نے اپنے محل کے اِحاطہ میں شامل کی ہے ، اس کی آمدنی بھی وصول کرلی گئی ہے ؟''میں نے کہا:''حضور!خلیفہ سے کون مطالبہ کر سکتا ہے ؟'' فرما یا:'' خدا ئے بزرگ وبر تر کی قسم! میں اس وقت تک کچہری ختم نہ کرو ں گا جب تک وہ تمام رقم وصول نہ کرلوں جو خلیفۂ وقت کے ذمہ ہے ، بخدا اگر خلیفہ نے غلہ یا اس کی قیمت ادا نہ کی تو میں کبھی بھی عہدۂ قضاء قبول نہ کروں گا۔ اے وَکِیْع! تم فوراً خلیفہ کے پاس جاؤ اور رقم کا مطالبہ کرو! میں نے کہا: ''مجھے دربارِ شاہی تک کون پہنچا ئے گا ؟'' فرمایا: فلاں سرکاری نمائندے کے پاس جاؤ اور کہو کہ'' میں قاضی صاحب کا قاصد ہوں، ایک بہت ہی اہم کام کے سلسلے میں اِسی وقت خلیفہ کے پاس حاضر ہو نا چاہتا ہوں تم مجھے دربار شاہی تک لے چلو ۔'' وَکِیْع کہتے ہیں کہ میں اس سرکاری نمائندے کے پاس پہنچا تووہ مجھے لے کر خلیفہ کے محل پہنچا۔ رات کا آخری پہر تھا ، ہر طرف سناٹا چھایا ہواتھا ۔ پورا شہر خواب خرگوش کے مزے لے رہا تھا ۔جب خلیفہ کو بتایا گیا کہ ایک بہت ضروری کام کے سلسلے میں قاضی ابو حَازِم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کا قاصد آیا ہے تو خلیفہ نے فورا مجھے اپنے پاس بلا لیا اور کہا: ایسا کون سا ضروری کام ہے جس کی خاطر اتنی رات گئے آنا پڑا۔ میں نے کہا :'' حضور ! آج میں نے تمام موقوفہ زمینوں کا حساب کیا اور ان کی آمدنی قاضی ابو حَازِم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم تک پہنچا کر مستحقین میں تقسیم کرنے کی اجازت طلب کی،قاضی صاحب نے تفتیش کی تو اس زمین کی آمدنی اس مال میں شامل نہ تھی جو آپ کے محل کے احاطہ میں داخل کر دی گئی ہے ، قاضی صاحب نے فرمایا:اس وقت تک یہ آمدنی کہیں بھی صرف نہ ہوگی جب تک خلیفہ کے محل میں شامل کردہ زمین کی آمدنی وصول نہ ہوجائے۔بس اسی سلسلے میں حاضر ہواہوں ۔''
خلیفہ مُعْتَضِدباللہ کچھ دیر خاموش رہا ، پھر کہا:''بے شک قاضی صاحب نے صحیح کیا ، اور وہ حق کو پہنچ گیا۔''یہ کہہ کر اس نے خادمین سے کہا ، جاؤ اور فلاں صندوق اٹھا لاؤ،حکم کی تعمیل ہوئی دراہم ودنانیر سے بھرا صندوق لایا گیا ، خلیفہ نے کہا:'' بتا ؤ، ہمارے ذمہ کتنا مال ہے ؟'' میں نے کہا :'' جب سے وہ زمین محل میں شامل کی گئی ہے اس وقت سے اب تک اس ز مین سے تقریباً چار سو دینار آمدنی ہو سکتی تھی ، آپ اتنی ہی رقم ادا کردیں۔'' خلیفہ نے کہا:''بتا ؤ گِن کر اداکروں یا وزن کرو اکر ؟'' میں نے کہا:جو طریقہ زیادہ بہتر ہووہی اختیار فرمائیے ۔''خلیفہ نے ترازومنگوایاا اور چار سو دینارتول کر میرے حوالے کردیئے گئے۔ میں تمام رقم لے کر قاضی ابو حَازِم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کے پاس پہنچا اور سارا واقعہ کہہ سنایا۔'' فرمایا:'' یہ رقم فوراً وقف کی آمدنی میں شامل کر دو اور صبح ہوتے ہی بیج کے لئے غلہ نکال کر بقیہ مال مستحقین میں تقسیم کردینا۔ خبردار ! اس معاملے میں ذرا سی بھی تا خیرنہ کرنا ۔''
قاضی وَکِیْع رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کہتے ہیں: ''جب لوگو ں کو قاضی ابو حَازِم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کی جرا ء َت مندی، عدل وانصاف اور"
"خلیفۂ وقت سے حق داروں کاحق لینے کے متعلق معلوم ہو اتو انہوں نے قاضی صاحب کو خوب داد دی اور پورے شہر میں قاضی صاحب کی جراء َت مندی اور خلیفہ مُعْتَضِد باللہ کے عدل وانصاف کا شُہْرَہ ہوگیا ۔اور لوگ قاضی ابو حَازِم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کے لئے بارگاہِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ میں دستِ دُعا دراز کرتے ہوئے نظر آنے لگے ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)
( سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ ! کیسے جُرأت مند وحق گوہوا کرتے تھے ہمارے اسلاف۔انہیں حق گوئی اور انصاف پسندی سے کوئی نہ روک سکتا تھا ۔ بڑی سے بڑی طاقت بھی انہیں اَمْرٌبِالْمَعْرُوْف اور نَہْیٌ عَنِ الْمُنْکَر سے نہ روک سکتی۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسلام کے ایسے سَپوت بھی اس مادَرِ گیتی پر جلوہ افروز ہوئے جو بظاہر عام سے عہدے پرفائز تھے لیکن بادشاۂ وقت سے بھی حق کے معاملہ میں نہ گھبراتے، کسی بھی رعایت کے بغیر ان کے بارے میں بھی وہی فیصلہ کرتے جو ایک عام غریب کے ساتھ کیا جاتا۔پھر ان لوگو ں کی بے لوث خدمت اور بے غرض کوششیں رنگ بھی لائیں۔ ایسے بڑے بڑے اُمَراء کہ جن کے ایک اشارے پر گردنیں اڑادی جاتیں، جن کے غیض و غضب کے سامنے بڑے بڑے دلیر لرزتے تھے، لیکن ان مردان ِحق کے سامنے ان کا رعب ودبدبہ دَب جاتا اور حق بات پر انہیں صلح کرنا ہی پڑتی ،حق دار کو ان کا حق دینا ہی پڑتا، بلکہ یہ امراء وخلفاء ان مردانِ حق سے خائف رہتے، بلاتَاَمُّل ان کے فیصلوں پر سرِ تسلیم خم کر دیتے۔ )"
قاضی ابو طاہر محمدبن احمد بن عبداللہ بن نَصْر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کہتے ہیں:'' مجھے یہ خبر پہنچی کہ''جس علاقے میں حضرت ابوحَازِم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم قاضی تھے ، وہاں کے دو شخص آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس اپنے جھگڑے کا فیصلہ کروانے آئے ، ان کا جھگڑا انتہا کو پہنچ چکا تھا ، وہ کمرۂ عدالت میں بھی ایک دوسرے پر جَھپَٹ رہے تھے۔ قاضی صاحب کے ہوتے ہو ئے کمرہ ئعدالت میں ایک دوسرے پر چھپٹنا ایک مذموم حرکت تھی ۔ ان کی یہ حرکتیں بڑھتی گئیں بالآخر ان میں سے ایک شخص نے کوئی ایسی نازیبا حرکت کی جو سخت تادیبی کاروائی کے لائق تھی ۔ چنانچہ، قاضی صاحب نے حکم دیاکہ اسے توہینِ عدالت کی سزادی جائے تا کہ اسے معلوم ہو کہ اَدَب کتنا ضروری ہے۔ سپاہوں نے اسے سزادی تو اتفاقاً اس کی موت واقع ہوگئی اور موت کا سبب تادیبی کا روائی بنی۔ قاضی صاحب نے جب یہ صورتحال دیکھی تو خلیفہ مُعْتَضِد باللہ کو یہ خط بھیجا:
" '' اللہ تبارک وتعالیٰ خلیفہ کی عمر دراز فرمائے! میرے پاس دو شخص اپنا مقدمہ لے کرآئے۔ ان میں سے ایک نے ایسی غلطی کی جس پر اسے ادب سکھانے کے لئے سزا ضروری تھی۔ میں نے اسے سزا دلوائی تو اتفاقاً وہ ہلاک ہوگیا۔جب مسلمانوں کی فلاح وبہبود اور ادب سکھانے کے لئے کسی کو سزادی جائے اور اس کی موت واقع ہوجائے تو اس کی دِیَت ،بیت المال سے ادا کی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔لہٰذا بیت ُ المال سے رقم بھجوا دیں تا کہ میں اسے بطورِ دیت مقتول کے وُرَثاء کو دے دوں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو عمرِ داز عطا فرمائے ۔'' والسّلام
جب خلیفہ مُعْتَضِد باللہ کے پاس قاضی ابو حَازِم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کایہ خط پہنچاتو اس نے جواباََ یہ پیغام بھجوایا:
'' اے قاضی ابوحَازِم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم ! ہمیں تمہارا خط ملا جس میں دیت بھجوانے کا کہا گیا ۔لہٰذا میں تمہاری طرف دیت کا مال بھجوارہا ہو۔'' والسّلام
خلیفہ نے دس ہزار درہم قاضی صاحب کے پاس بھجوائے۔ قاضی صاحب نے مقتول کے ورثاء کو بلوایا اور ساری رقم بطورِ دیت انہیں دے دی ۔''
(اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قاضی ابو حَازِم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم پررحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو ۔)"
" حضرتِ سیِّدُنابِشْربن حارِث علیہ رحمۃ اللہ الوارث سے منقول ہے کہ حضرتِ سیِّدُناابو جَعْفَررَازِی علیہ رحمۃ اللہ الہادی اور حضرتِ سیِّدُناسُفْیَان ثَوْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کی آپس میں بہت گہری دوستی تھی اور دونوں مشترکہ کاروبارکرتے اور ایک دوسرے کا بہت ادب واحترام کرتے ۔حضرتِ سیِّدُناابو جَعْفَر رَازِی علیہ رحمۃ اللہ الہادی ہر سال حرمینِ شریفین جایا کرتے ۔ جب وہ کوفہ سے گزرتے تو حضرتِ سیِّدُنا سُفْیَان ثَوْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کافی دور تک ان کے ساتھ جاتے۔اور ایک مرتبہ انہیں الوداع کہنے نجف شریف تک گئے ۔
کچھ عرصہ بعد جب دوبارہ سفرِ حج کا ارادہ کیا تو کسی علاقے کے لوگوں نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے شکایت کی کہ ''خلیفہ نے ہم پر جو عامل مقرَّر کیا ہے وہ انصاف سے کام نہیں لیتا۔ بے جا ہمارے کاروبار میں دَخیل ہو کرہمیں پریشان کررکھا ہے ۔ اگر آپ خلیفہ تک ہمارا مسئلہ پہنچا دیں تو کرم نوازی ہوگی۔ لوگوں کی بات سن کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کوئی جواب نہ دیا اور جانبِ منزل چل دئیے۔اس واقعہ کی خبر جب حضرت سیِّدُنا سُفْیَان ثَوْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کو ہوئی تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ان سے ملنے کوفہ کے"
"پُل پر گئے۔ خوب انکساری سے پیش آئے اور نجف شریف تک ان کے ساتھ گئے۔اگلے سال جب حضرت سیِّدُنا ابو جَعْفَر رَازِی علیہ رحمۃ اللہ الہادی دوبارہ حج کے ارادے سے گزرے تو لوگوں نے پھر عرض کی: '' حضور! ہمیں اس عامل سے نجات دلوادیں اورخلیفہ کے پاس ہماری سفارش کریں۔'' اس مرتبہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ان کی درخواست قبول کرلی اوران کا معاملہ حل کرنے کے لئے خلیفہ کے دربان سے کہا: '' خلیفہ کو پیغام دو کہ ابو جَعْفَر آپ سے ملنا چاہتاہے۔'' خلیفہ کو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے آنے کی خبر ملی تو دربان سے کہا:''انہیں نہایت ادب واحترام سے ہمارے پاس لے آؤ ۔'' چنانچہ، خُدَّام فوراًآپ کو خلیفہ کے پاس لے گئے ۔ خلیفہ منصور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے بڑی عاجزی وانکساری سے پیش آیا، خوب تعظیم وتوقیر کی ۔ پھرآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے حال دریافت کرتے ہوئے پوچھا: ''حضور! اگرمیرے لائق کوئی خدمت ہو تو ارشاد فرمائیے؟''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' ہاں! مجھے تم سے ایک ضروری گفتگوکرنی ہے ۔ یہ کہہ کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے سارا قصہ بیان کیا۔''خلیفہ نے فوراََ کہا: '' ہم نے اسے معزول کیا، اب اس علاقے والے جسے چاہیں اپنی خوشی سے عامل مقرر کرلیں مجھے ان کا مقرَّر کردہ عامل قبول ہوگا۔''
خلیفہ نے یہ حکم نامہ جاری کیا اورخادموں سے کہا: '' حضرت کو ہماری طرف سے دس ہزار درہم بطور ہدیۃًپیش کرو۔ ہم ان کے احسان مند ہیں کہ انہوں نے ہم سے کسی کام کے متعلق سوال کیا۔''حضرت سیِّدُنا ابو جَعْفَر رَازِی علیہ رحمۃ اللہ الہادی کو رقم دی گئی تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ہاتھ سے کچھ دِرہم گر گئے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فوراً سمجھ گئے کہ یہ درہم قبول کر کے میں نے بہت بڑی خطا کی ہے۔ لگتا ہے یہ دولت میرے حق میں نقصان دہ ثابت ہوگی۔ اسی سوچ کے پیشِ نظر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ محل کی دیوار کے قریب بیٹھ گئے اورکچھ کپڑے منگواکر تھیلیاں بنائیں،انہیں دراھم سے بھرااور تمام رقم لوگوں میں تقسیم کردی۔ جب آپ واپس کوفہ آئے تو ان دراہم میں سے کچھ بھی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس موجود نہ تھا۔ حضرتِ سیِّدُنا سُفْیَان ثَوْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کو یہ اطلاع ملی کہ حضرتِ سیِّدُنا ابو جَعْفَر رَازِی علیہ رحمۃ اللہ الہادی نے شاہی خزانے سے ہدیہ قبول کیاہے تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ان سے ملنے کا ارادہ ترک کردیا اورلوگوں کو بتائے بغیر ایک مکان میں علیحدگی اختیارکرلی۔
جب حضرتِ سیِّدُنا ابو جَعْفَر رَازِی علیہ رحمۃ اللہ الہادی کوفہ آئے تو حضرتِ سیِّدُنا سُفْیَان ثَوْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کو نہ پاکر لوگوں سے ان کے متعلق پوچھا توسب نے لاعلمی کااظہار کیا۔ انہیں بہت تشویش ہوئی ۔بالآخر کافی تگ ودو کے بعد حضرتِ سیِّدُنا سُفْیَان ثَوْرِی علیہ رحمہ اللہ القوی کے ایک بہت قریبی دوست نے ان سے پوچھا :'' کیا آپ کو حضرتِ سیِّدُنا سُفْیَان ثَوْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی سے کوئی بہت ضروری کام ہے؟''فرمایا:'' ہاں ۔'' کہا:'' آپ ان کے نام ایک رقعہ لکھ دیں، میں وہ رقعہ ان تک پہنچا دوں گا۔ میں آپ کے ساتھ اس سے زیادہ تعاون نہیں کرسکتا۔'' آپ نے ایک رقعہ لکھ کر اسے دے دیا۔
وہ شخص کہتا ہے: '' میں رقعہ لے کرحضرتِ سیِّدُنا سُفْیَان ثَوْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ"
دیوار سے ٹیک لگائے قبلہ رُخ بیٹھے تھے۔ میں نے سلام کیا اوررقعہ نکا ل کر دکھایا۔ فرمایا: '' یہ کیا ہے ؟''میں نے کہا: '' ابو جَعْفَر رَازِی علیہ رحمۃ اللہ الہادی کا خط۔'' فرمایا:'' سناؤ! اس میں کیا لکھا ہے ؟''میں نے پڑھ کر سنایا تو فرمایا:'' اس کی دوسری جانب جواب لکھو ۔'' میں نے دوسری جانب'' بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم'' لکھی اورعرض کی: حضور!کیالکھوں ؟''فرمایا:'' پہلے یہ آیت لکھو:
لُعِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡۢ بَنِیۡۤ اِسْرَآءِیۡلَ عَلٰی لِسَانِ دَاوٗدَ
"ترجمۂ کنزالایمان:لعنت کئے گئے وہ جنہوں نے کفر کیا بنی اسرائیل میں داؤد کی زبان پر۔(پ6،المائدۃ:78)
پھر لکھو: ''ہمیں ہمارا مالِ تجارت واپس کردو۔ ہمیں اب اس کے نفع کی کوئی حاجت نہیں ۔''
پھر مجھ سے فرمایا:''جاؤ، یہ خط انہیں دے آؤ۔'' میں خط لے کران کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ بہت سے لوگ جمع ہیں ۔ سب نے خط پڑھالیکن اس کا مفہوم کوئی بھی نہ سمجھ سکا۔بالآخر یہ طے ہواکہ دونوں خط حضرت سیِّدُنا ابن ابی لیلیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس لے چلتے ہیں تاکہ ان کی رائے معلوم ہوسکے ۔لیکن انہیں بتایا نہ جائے کہ یہ خط کس کا ہے ۔ جب ان کے پاس خط پہنچا تو دیکھتے ہی فرمایا: '' جس نے پہلے خط لکھا وہ ایسا شخص ہے جس کے قول وفعل میں تضاد ہے اور جواب دینے والاایسا شخص ہے جو اپنے عمل کے ذریعے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا کا طالب ہے ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)"
" حضرتِ سیِّدُنا احمد بن محمدبَزَّاز علیہ رحمۃ اللہ الغفّار فرماتے ہیں:''ایک مرتبہ عاشورہ کی رات میں ایک مسافر خانے میں داخل ہوا تو وہاں ایک درویش جَو کی روٹی نمک کے ساتھ کھا رہا تھا۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر میں تڑپ اٹھا۔ میرے پاس اس وقت ایک ہزار دینار تھے جو میں نے عبادت گزاروں کو نذرانہ دینے کی غرض سے جمع کر رکھے تھے ۔ میں نے لوگوں سے ا س درویش کے متعلق پوچھا تو پتا چلاکہ وہ علم تَصَوُّف کا بہت بڑا عالم اور یہاں کے تمام زاہدوں پر فوقیت رکھتا ہے۔ میں نے سوچا کہ یہ تمام دینار اسے دے دینے چاہیں کیونکہ اس سے بہتر کوئی نہیں جس پر مال خرچ کیا جائے ۔
چنانچہ، صبح ہوتے ہی میں چندرفقاء کے ساتھ اس درویش کے پاس گیا۔ وہ بڑی خندہ پیشانی سے ملا، میں بھی خوش رُوئی سے پیش آیا۔ میں نے کہا:'' کل میں نے آپ کو نمک کے ساتھ جَو کی روٹی کھاتے دیکھا۔ میرا خیال ہے کہ تم دن کو روزہ رکھتے ہو اور"
" افطاری میں صرف نمک کے ساتھ جَو کی روٹی کھاتے ہو۔ میں چاہتاہوں کہ تمہیں کچھ ہدیہ پیش کروں۔'' یہ کہہ کر میں نے دیناروں کی تھیلی اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا: ''یہ ایک ہزار دینار ہیں انہیں قبول فرماکر مجھ پر احسان فرمائیں ۔'' یہ سن کر اس درویش نے میری طرف بڑی غضب ناک نظروں سے دیکھا اورکہا:'' اپنے دینار واپس لے جاؤ! بے شک یہ تواس کی جزاء ہے جس نے اپنا راز لوگوں پر ظاہر کردیاہو، جاؤ! ہمیں تمہارا یہ مال نہیں چاہے۔'' میں نے بہت اصرار کیالیکن اس نے ایک دینار بھی قبول نہ کیا۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)
(سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ !ہمارے بزرگانِ دین میں کیسی خودداری ہواکرتی تھی کہ نمک کے ساتھ جَو کی روٹی کھا نا تو منظور کر لیتے لیکن کسی کے سامنے دستِ سوال دراز نہ کرتے۔ اگر کوئی بن مانگے دیتاتب بھی اس سے گریز کرتے ، ذرا سابھی خیال آجاتا کہ یہ ہدیہ ہمیں اس لئے دیا جارہا ہے کہ لوگوں پر ہماری عبادت کا حال ظاہر ہوگیا ہے اورہماری عبادت وریاضت سے متاثر ہوکر ہدیہ دیا جا رہا ہے تو ہرگز قبول نہ کرتے ۔ بس اپنے پاس جورزقِ حلال ہوتا اسی پراکتفاء کر کے صابر وشاکر رہتے ۔اللہ عَزَّوَجَلَّ ان کے صدقے ہمیں بھی قَناعت کی دولت سے مالا مال فرمائے اورہر حال میں اپنا شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)"
" حضرتِ سیِّدُنا ایوب حَمَّال علیہ رحمۃ اللہ الغفّار سے منقول ہے کہ ہمارے علاقے میں ایک مُتَوَکِّل( مُ .تَ. وَکْ. کِ. لْ) نوجوان رہتا تھا۔وہ عبادت وریاضت اور تَوَکُّل ( تَ. وَ کْ.کُ. لْ ) کے معاملے میں بہت مشہور تھا ۔ لوگو ں سے کوئی چیز نہ لیتا۔ جب بھی کھانے کی حاجت ہوتی اپنے سامنے سِکّوں سے بھری ایک تھیلی پاتا۔ اسی طر ح وہ اپنے شب وروز عبادتِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں گزارتا اور اسے غیب سے رزق دیا جاتا۔ ایک دفعہ لوگو ں نے اس سے کہا :'' اے نوجوان! تو سِکّوں کی وہ تھیلی لینے سے ڈر! ہو سکتا ہے شیطان تجھے دھوکا دے رہا ہو او روہ تھیلی اسی کی طرف سے ہو۔''
نوجوان نے کہا:'' میری نظر تو اپنے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ کی رحمت کی طرف ہوتی ہے، میں اس کے علاوہ کسی سے کوئی چیز نہیں مانگتا ، جب میرا مولیٰ عَزَّوَجَلَّ مجھے رزق عطا فرماتا ہے تو میں قبول کرلیتا ہوں ۔ بالفر ض اگر وہ سکوں کی تھیلی میرے دشمن شیطان کی طرف سے ہو تو اس میں میرا کیا نقصان بلکہ مجھے فائدہ ہی ہے کہ میرا دشمن میرے لئے مُسَخَّر کردیاگیا ہے ۔ اگر واقعی ایسا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اُسے میرا خادم بنائے رکھے۔ اس سے زیادہ اچھی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ میرا سب سے بڑا دشمن خادم"
"بن کر میری خدمت کرے اور میں اس کی طرف نظر نہ رکھو ں بلکہ یہ سمجھوں کہ میرا پروردگار عَزَّوَجَلَّ مجھے دشمن کے ذریعے رزق عطا فرما رہا ہے ۔ اور واقعی تمام جہانوں کو وہی خالقِ کائنات رزق عطا فرماتا ہے جو میرا معبودہے۔'' متوکل نوجوان کی یہ بات سن کر لوگ خاموش ہوگئے اور سمجھ گئے کہ اس کو واقعی غیب سے رزق دیا جاتا ہے۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! یہ ایک مُسَلَّمَہ حقیقت ہے کہ جو شخص اپنے پاک پروردگارعَزَّوَجَلَّ کی عبادت کے لئے اپنے آپ کو فارغ کرلیتا ہے اللہ عَزَّوَجَلَّ اسے دنیوی پریشانیوں سے نجات عطا فرمادیتا ہے۔ جو اُس خالقِ لَمْ یَزَلْ عَزَّوَجَلَّ کے کاموں میں لگ جاتاہے تو وہ مُسَبِّبُ الاسباب اسے ایسے ایسے اسباب مہیا فرماتا ہے کہ جن کے بارے میں وہم وگمان بھی نہیں ہوتا۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں بھی ایسا یقینِ کامل عطا فرمائے کہ ہماری نظر اسباب پر نہ ہوبلکہ خالقِ اسباب کی طرف ہو۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں توکل کی دولت سے مالا مال فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)"
" حضرتِ سیِّدُنا جَعْفَرخُلْدی علیہ رحمۃ اللہ القوی سے منقول ہے کہ میں نے حضرت سیِّدُنا جنید بغدادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی کو یہ فرماتے ہوئے سنا :'' ایک مرتبہ میں اکیلا ہی سفرِ حج پر روانہ ہوا ، منزلوں پر منزلیں طے کر تا حرم شریف کی مشکبار فضاؤں میں جا پہنچا۔ جب شام ہوئی اور رات نے اپنے پر پھیلا دیئے تو دن بھر کے تھکے ماندے لوگ بسترِ آرام پر خواب خرگوش کے مزے لینے لگے ، محبتِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ سے سر شار دل والے عبادت گزاروں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں آہ وزاری کرنا شروع کردی ۔ میں بھی اپنے پاک پرودرگارعَزَّوَجَلَّ کے پیارے گھر'' خانۂ کعبہ'' کاطواف کرنے لگا ۔ ایک کنیز بھی طواف کر رہی تھی اوراس کی زبان پر چند عربی اشعار جاری تھے، جن کا مفہوم کچھ اس طرح ہے:
''محبت نے پوشیدہ رہنے سے انکار کیا اور کتنی ہی مرتبہ میں نے اسے چھپایا مگر وہ ظاہر ہوگئی پھر اس نے میرے ہی پاس ڈیرہ ڈال لیا اور مجھے اپنا مسکن بنا لیا۔ جب میرا شوق بڑھتا ہے تو میرا دل اسے یاد کرنے کی خو ب خواہش کرتا ہے اور جب میں اپنے حبیب کا قرب چاہتی ہوں تو وہ میرے قریب ہو جاتا ہے۔ اور وہ سامنے آتا ہے تو میں فنا ہو جاتی ہوں پھر اس کی وجہ سے اسی کے لئے زندہ ہو جاتی ہو ں اور وہ میری مدد کرتا ہے یہاں تک کہ میں خوب لطف محسوس کرتی ہوں اور کیف وسرور سے جھومنے لگتی ہوں ۔''"
" حضرت سیِّدُنا جنید بغدادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی فرماتے ہیں:میں نے کہا :'' اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بندی ! تجھے خوف نہیں آتا کہ ایسے بابر کت مکان میں اس طر ح کا کلام کر رہی ہے؟'' وہ میری طرف متوجہ ہوئی اوراس مفہوم کے چند اشعارپڑھے:
''اگر اس سے ملاقات کا معاملہ نہ ہوتا تو تُو مجھے پُرسکون نیند سے دور نہ دیکھتا ،جب وہ مل گیا تو اس نے مجھے وطن سے بہت دورکر دیا جیسا کہ تو دیکھ رہا ہے، میں اسے پانے سے ڈرتی ہوں لیکن اس کی محبت مجھے شوق دلاتی ہے۔''
پھرپوچھا:''اے جنید!تُو کعبہ کا طواف کر رہا ہے یاپھر ربِّ کعبہ کا ؟'' میں نے کہا :'' خانۂ کعبہ کا طواف کر رہا ہوں ۔'' کنیز نے اپنا سر آسمان کی طرف اُٹھایا اور کہا : ''اے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ ! تیرے لئے پاکی ہے ، تو پاک ہے تو نے جیسا چاہا اپنی مخلوق کو پیدا فرمایا، تیری حکمتیں بہت عظیم ہیں ، یہ لوگ تو پتھروں جیسے ہیں جن کی نظر صرف مخلوق تک محدود ہے۔پھر کچھ اشعار پڑھے، جن کا مفہوم یہ ہے:
''لوگ قرب الٰہی عَزَّوَجَلَّ پانے کے لئے طواف کرتے ہیں اور حال یہ ہے کہ ان کے دل چٹان سے بھی زیادہ سخت ہوتے ہیں، وہ چَٹْیَل میدانوں میں راستہ بھٹک کر اپنی پہچان بھی کھو بیٹھے اور یہ گمان کر لیا کہ ہم تو بہت مقرب ہو گئے ہیں، اگر وہ محبت میں خالص ہو جاتے تو ان کی اپنی صفا ت غائب ہو جاتیں اور ذِکر الٰہی عَزَّوَجَلَّ کی بدولت حق سے محبت کی صفات ان میں ظاہر ہو جاتیں۔''
حضرت سیِّدُنا جنید بغدادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی فرماتے ہیں: ''اس کا عارفانہ کلام سن کرمجھ پر غشی طاری ہوگئی، جب افاقہ ہوا تو میں نے اسے بہت تلاشا مگر کہیں نہ پایا۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)"
حضرتِ سیِّدُنا ابو حاتم سَہْل بن محمد سِجِسْتَانِی قُدِّ سَ سِرُّہُ الرَّبَّانِی فرماتے ہیں:'' ایک مرتبہ کو فہ کی ایک ایسی شخصیت کو ہم پر عامل(یعنی گورنر) مقررکیا گیا کہ بصرہ کے سرکاری عہدے داروں میں اس سے زیادہ ذہین اور قابل شخص میں نے کبھی نہ دیکھا تھا۔ میں ملاقات کے لئے گیا تو اس نے مجھ سے پوچھا : ''اےسِجِسْتَانِی قُدِّ سَ سِرُّہُ الرَّبَّانِی! بصرہ کے مایہ ناز علماء کرام کون ہیں ؟ میں نے کہا : ''حضرتِ سیِّدُنازِیَادِی علیہ رحمۃ اللہ الہادی حاضر دِماغی، معاملہ فہمی اور َتکَلُّم میں سب پر فوقیت رکھتے ہیں۔ علمِ نَحْو میں سب سے زیادہ مہارت حضرت سیِّدُنا ابوعثمان مَازِنِی علیہ رحمۃ اللہ الغنی کو حاصل ہے۔ حضرت سیِّدُنا ہِلَال رَائی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فقہ میں سب
"سے زیادہ مہارت رکھتے ہیں۔ علمِ حدیث کے سب سے بڑے عالِم حضرت سیِّدُناشَاذَکُوْنِی علیہ رحمۃ اللہ الولی ہیں۔ اور اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ پر رحم فرمائے، قرآن کا بڑا عالم مجھے سمجھا جاتا ہے۔'' ابنِ کَلْبِی کاتب تمام باتیں لکھ رہاتھا ۔ عامل نے کاتب(یعنی لکھنے والے) سے کہا: ''کل ان تمام کو میرے ہاں آنے کی دعوت دو ، میں ان علماء کرام رحمہم اللہ السلام کی زیارت کرنا چاہتا ہوں ۔''
دوسرے دن جب تمام حضرات تشریف لائے تو عامل نے کہا: '' آپ میں سے مَازِنِی کون ہے؟ حضرتِ سیِّدُنا ابوعثمان علیہ رحمۃ اللہ المنّان نے کہا:''اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ پر رحم فرمائے، میں یہاں ہوں۔'' کہا:'' یہ بتائیے کہ کَفَّارۂ ظِہار(۱) میں اگر کانا غلام آزاد کر دیا جائے تو کیا یہ کفایت کریگا ؟ '' حضرتِ سیِّدُنا مَازِنِی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے فرمایا : ''اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ پر رحم فرمائے! میں فقہ میں مہارت نہیں رکھتا بلکہ میں تو عربی لغت کا ماہر ہوں۔'' عامل نے حضرتِ سیِّدُنازِیَادِی علیہ رحمۃ اللہ الہادی سے پوچھا: '' اگر کوئی عورت اپنے شوہر سے مہر کے تہائی حصے کے عوض خُلَع لے تو اس مسئلہ میں آپ کا کیافیصلہ ہے ؟'' حضرتِ سیِّدُنا زِیَادِی علیہ رحمۃ اللہ الہادی نے فرمایا:'' یہ مسئلہ میرے علم سے متعلق نہیں، اس کا صحیح حل تو ہِلَال رَائی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہی بتا ئیں گے۔'' عامل نے حضرتِ سیِّدُناہِلَال رَائی رحمۃ اللہ علیہ سے کہا :'' اے ہلا ل! یہ بتائیے کہ ابن عَوف نے حضرتِ سیِّدُناحسن رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے کتنی روایات لی ہیں۔'' حضرتِ سیِّدُنا ہِلَال رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا :'' اس کا صحیح جواب تو حضرتِ سیِّدُنا شَاذَکُوْنِی علیہ رحمۃ اللہ الولی ہی دے سکتے ہیں کیونکہ انہیں اس علم میں مہارت حاصل ہے ۔''پھر حضرتِ سیِّدُنا شَاذَکُوْنِی علیہ رحمۃ اللہ الولی سے کہا: ''اے شَاذَکُوْنِی علیہ رحمۃ اللہ الولی! یہ کس کی قرا ء ت ہے :"
یَثْنُوۡنَ صُدُوۡرَہُمْ
"ترجمۂ کنزالایمان:اپنے سینے دوہرے کرتے(منہ چھپاتے) ہیں۔(پ11،ھود: 5)
فرمایا:'' مجھے قراء َت کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں، علمِ قراء َت کے بہترین عالم تو ابوحاتم ہیں۔'' پھر عامل نے مجھ سے کہا :'' اے ابو حاتم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم! اہلِ بصرہ کی محتاجی، مفلسی ، ان کی فصلوں پر آنے والی موسمی بیماری کی اطلاع اور اہلیانِ بصرہ کی مالی معَاوَنَت کے سلسلے میں آپ امیر المؤمنین کو کس طر ح پیغام لکھیں گے۔'' میں نے کہا:'' اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ پر رحم فرمائے، میں کاتب و صاحب ِ بلاغت نہیں کہ امیر المؤمنین کو فصاحت بھرا خط لکھ سکو میں تو قرآنِ کریم کا عالم ہوں، اس کے متعلق کوئی سوال کرنا ہے تو کیجئے ۔''"
"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔1۔۔۔۔۔۔ ظہار کے یہ معنی ہیں کہ اپنی زوجہ یا اُس کے کسی جزُو ِشائع یا ایسے جز وکو جو کُل سے تعبیر کیا جاتا ہو ایسی عورت سے تشبیہ دینا جو اس پر ہمیشہ کے لئے حرام ہو یا اس کے کسی ایسے عضو سے تشبیہ دینا جس کی طرف دیکھنا حرام ہو مثلاً کہا تو مجھ پر میری ماں کی مثل ہے یا تیرا سر یا تیری گردن یا تیرا نصف میری ماں کی پیٹھ کی مثل ہے ۔ یہ ظہار کہلاتاہے ،اس کا کفارہ یہ ہے کہ ایک سالم غلام آزاد کرنا یا مسلسل دو ماہ کے روزے رکھنا یا ساٹھ مسکینوں کوپیٹ بھر کردو وقت کا کھانا کھلاناہے۔''
(بہارِشریعت، حصہ۸، ص۵۲، ملخصاً)"
"یہ سن کر وہ عامل کچھ اس طر ح گویا ہوا، اس سے زیادہ ناپسند یدہ شخص کو ن ہوگا کہ پچاس سال تک حصولِ علم میں مشغول رہا ، پھربھی صرف ایک فن میں مہارت حاصل کی اگر اس فن کے علاوہ کسی اور علم کے متعلق اس سے سوال کیا جائے تو وہ اس کا جواب نہ دے سکے۔ ایسا شخص لائق افسوس ہے ، ہاں! ہمارے کوفہ کے عالم '' امام کسائی '' ایسے ماہر عالم ہیں کہ ان سے کسی بھی علم کے متعلق کوئی بھی سوال کیا جاتا تو وہ اس کا تسلِّی بخش جواب دیتے ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! علم دین اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بہت بڑی نعمت ہے، پاک پروردگارعَزَّوَجَلَّ علیم وخبیر ہے جسے چا ہے علم دین کی دولت سے بیش بہا خزانہ عطا فرمائے ۔ عرصۂ دراز تک انسان کسی قابل وماہراستاذکے سامنے زَانُوئے تَلَمُّذ ( تَ.لَم ْ. مُذ) طے کرتا (یعنی شاگردی اختیار کرتا)ہے تب جاکر اسے کسی فن میں مہارت حاصل ہوتی ہے، جب تک کسی ماہر تیرا ک کی خدمت میں رہ کر مسلسل تیرا کی کی مشق نہ کی جائے تب تک سمندر کی تہہ میں چھپے ہوئے جو اہر(یعنی موتیوں) تک رسائی نہیں ہوسکتی۔ کسی بھی فن میں مہارتِ تامہ کے لئے اَنتھک محنت بہت ضروری ہے۔ اور ہر فن میں مہارت حاصل ہوجانا عطیۂ خداوندی ہے۔
ہر دور میں ایسے عظیم لوگ پیدا ہوئے جن کی رہنمائی میں کتنے بھٹکے ہوؤں کو منزلِ مقصود مل گئی۔ کتنے تشنگانِ علم حصولِ علم کی طرف متوجہ ہوئے۔ انہیں رہبروں میں ایک عظیم رہبر اعلیٰ حضرت، عظیم البرکت، عظیم المرتبت شاہ امام احمد رضاؔ خان علیہ رحمۃ اللہ المنَّان بھی ہیں کہ جن کے علم کا ڈنکا چار دانگ عالم میں بج رہا ہے۔ آپ ایسے عظیم بزرگ تھے کہ جس علم کی طرف بڑھتے اس کے حصول میں کامیاب ہوجاتے آپ کو بیسیوں علوم میں مہارتِ تامہ حاصل تھی ۔ تاریخ گواہ ہے کہ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جہاں فقہ کی دنیا کے شہنشاہ ہیں، وہیں علمِ قرآن ، علم ِحدیث ، علمِ ہندسہ ، علمِ فلا سفہ اور مُرَوَّجہ تمام علوم وفنون میں مہارت تامہ حاصل تھی ، آپ اکیلے ہی اپنی ذات میں ایک انجمن تھے ، جس نے بھی آپ کی سیرت کا مطالعہ کیا وہ آپ کی خداداد علمی صلاحیت کوتسلیم کرنے پر مجبور ہو گیا۔)"
حضرتِ سیِّدُناابو بَکْر شِیْرَازِی علیہ رحمۃ اللہ الہادی سے منقول ہے کہ مکۂ مکرمہ زَادَ ھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًاسے واپسی پر میں کئی دن عراق کے غیر آباد ویران جنگلوں میں پھرتا رہا۔ مجھے کوئی شخص نظر نہ آیا جس کی رَفاقت اختیار کرتا۔ کافی دنوں بعدمجھے ایک خیمہ نظر آیا، ایسا لگتا تھا جیسے جانوروں کے بالوں سے بنایا گیا ہو۔ میں خیمہ کے قریب گیا تو دیکھا کہ وہ ایک خستہ حال پرانا مکان تھا
"جسے کپڑے سے ڈھانپ دیا گیا تھا۔ میں نے سلام کیا تو اندر سے ایک بوڑھی عورت کی آواز سنائی دی ، اس نے پوچھا:'' اے ابنِ آدم! تم کہاں سے آرہے ہو ؟'' میں نے کہا:'' میں مکہ معظمہ زَادَہَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًاسے آرہا ہوں۔'' پوچھا : '' کہا ں کا ارادہ ہے؟'' میں نے کہا:'' شام جا رہا ہوں۔''
کہا :'' میں تیرے جیسے انسان کو جھوٹا اور غلط دعویٰ کرنے والا دیکھ رہی ہوں ۔ کیا تو ایسا نہ کر سکتا تھا کہ ایک کونہ سنبھال لیتا اور اسی میں بیٹھ کر عبادت وریاضت کر تا یہاں تک کہ تجھے پیغامِ اجل آپہنچتا ؟ اے شخص! تویہی سوچ رہا ہے نا کہ یہ بڑھیا اس بیابان جنگل میں ایک ٹوٹے پھوٹے مکان میں رہتی ہے، یہ کھاتی کہاں سے ہوگی ؟'' میں خاموش رہا ۔ اس نے پوچھا: '' کیا تمہیں قرآن یاد ہے۔'' میں نے کہا :'' اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ !مجھے قرآن یاد ہے۔'' کہا :'' سورۂ فرقان کی آخری آیات پڑھو۔'' میں نے جیسے ہی تلاوت شرو ع کی وہ چیخنے لگی اور غش کھاکر گر پڑی۔ کافی دیر بعد رات گئے افا قہ ہوا تو وہی آیات پڑھتی رہی اور شدید آہ وزاری کرتی رہی۔ دوبارہ مجھے وہی آیات پڑھنے کو کہا۔ میں نے تلاوت کی تو پہلے کی طرح پھر بے ہوش ہو کر گر پڑی ۔
جب کافی دیر تک ہوش نہ آیا تو میں بہت پریشان ہو گیا اور سوچنے لگا کہ کیسے معلوم کیا جائے کہ یہ بے ہوش ہے یاانتقال کر گئی ہے ؟ اسے وہیں چھوڑ کر میں ایک سمت چل دیا۔ تقریباً نصف میل چلنے کے بعد مجھے اعرابیوں کی ایک وادی نظر آئی۔ جب وہاں پہنچا تو ایک لونڈی اور دو نوجوان میرے پاس آئے۔ ان میں سے ایک نے مجھ سے پوچھا :'' اے مسافر! کیا تو جنگل میں موجود گھر کی طر ف سے آرہاہے ؟''میں نے کہا:'' ہاں۔'' پوچھا :'' کیا تو نے وہاں قرآن کی تلاوت کی۔'' میں نے کہا:'' ہاں۔'' نوجوان نے کہا :'' ربِّ کعبہ کی قسم ! تو نے اس بڑھیا کو قتل کردیا'' پھر ہم اس گھر کی طر ف آئے، لونڈی نے بڑھیا کو دیکھا تو وہ اس دارِ فانی سے کوچ کر چکی تھی ۔ مجھے نوجوان کے اندازے نے تعجب میں ڈال دیا،میں حیران تھاکہ اس نے کیسے جانا کہ قرآن سن کر بڑھیا کا انتقال ہو جائے گا ۔''میں نے لونڈی سے پوچھا:'' یہ نوجوان کون ہے اور بڑھیا سے اس کا کیا رشتہ تھا۔'' کہا :'' یہ خدارسیدہ بڑھیا ان کی بہن تھی ، تیس سال سے اس نے کسی انسان سے گفتگو نہ کی، بھوکی پیاسی اسی جنگل میں عبادتِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں مشغول رہتی۔ تین دن بعد تھوڑا ساپانی پی کر اور تھوڑ ا سا کھانا کھاکر گزارہ کرتی یہاں تک کہ آج اپنے خالقِ حقیقی سے جاملی۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)
(سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ ! پہلے کی اسلامی بہنوں میں بھی عبادتِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ کا کیسا جذبہ ہوا کر تا تھا۔ انہیں قرآن کی محبت وتلاوت ، عبادت کا ذوق، خلوَت سے اُلفت، مجاہدات کی طر ف رغبت اور اعمالِ صالحہ پر استقامت جیسی بیش بہا نعمتیں حاصل تھیں ۔ ان تمام امور کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ نیکوں کی صحبت اختیارکی جائے اور ایسا ماحول اپنا یا جائے جس میں ہر دم قرآن وسنت کی باتیں سیکھی اور سکھائی جاتی ہوں۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ !آج کے پُر فِتَن دَور میں تبلیغِ قرآن وسنت کی عالمگیر غیر"
"سیاسی تحریک ''دعوتِ اسلامی'' اسلا می بھائیوں کے ساتھ ساتھ اسلامی بہنوں کی اصلاح کے لئے بھی سنتوں بھرا پاکیزہ ماحول مہیا کر رہی ہے۔ اس ماحول میں آکر نہ جانے کتنے گناہ گاروں کو توبہ کی توفیق ملی اور اب وہ صلوٰۃ وسنت کے پابند ہو کر ایک باعمل باکردار مسلمان کی حیثیت سے زندگی گزار رہے ہیں۔اللہ عَزَّوَجَلَّ دعوت اسلامی کو دن دُگنی رات چگنی ترقی عطافرمائے ۔ اورتمام علماء اہلسنت اور بالخصوص امیرِ دعوت اسلامی حضرت علامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطا رؔ قادری رضوی دامت بر کاتہم العالیہ کا سایۂ شفقت قائم ودائم رکھے کہ گلشنِ دعوتِ اسلامی کی بہاریں انہیں کی انتھک محنت وکوشش کا ثمر ہیں۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں دعوتِ اسلامی کے مشکبار مدنی ماحول میں استقامت عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)
؎ اللہ کرم ایسا کرے تجھ پہ جہاں میں اے دعوتِ اسلامی تیری دھوم مچی ہو !"
" حضرت مُحَمَّد بن سُوَیْد طَحَّان سے منقول ہے کہ''جس دن علم وعمل کے پیکر، مردِ قلندر، امامِ جلیل امام احمد بن حَنْبَل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خَلقِ قرآن کے مسئلہ پر نہایت بے دردی سے کوڑے مارے جارہے تھے اور آپ کوہِ استقامت بن کر ظلم وستم کی خطرناک آندھیوں کا سامنا کر رہے تھے۔ اس دن ہم حضرتِ سیِّدُناعاصم بن علی علیہ رحمۃ اللہ القوی کے پاس تھے ۔ ابن عبید قاسم بن سلام ، ابراہیم بن ابولَیْث کے علاوہ اور بھی بہت سے لوگ وہا ں موجود تھے، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے لوگو ں سے فرمایا: '' کیا تم میں کوئی ایسا مردِ مجاہد ہے جو میرے ساتھ ظالم حاکم کے پاس چلے، تا کہ ہم اس سے پوچھیں کہ وہ امامِ جلیل علیہ رحمۃ اللہ الوکیل پر ظلم وستم کیوں کر رہا ہے؟'' حضرتِ سیِّدُناعاصم بن علی علیہ رحمۃ اللہ القوی کے ساتھ چلنے کے لئے کوئی بھی تیار نہ ہوا۔ ظالم حاکم کے پاس جانے سے سب گریز کر رہے تھے ۔ ابراہیم بن ابو لَیْث رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کھڑے ہوئے اور کہا:'' اے ابو الحسن! میں آپ کے ساتھ چلنے کو تیار ہوں ۔''
ان کایہ جذبہ دیکھ کر حضرتِ سیِّدُناعاصم بن علی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے حیران ہوتے ہوئے کہا: اے نوجوان! کیا تم میرے ساتھ چلوگے ، اچھی طرح سوچ لو کہ ہم کس کے پاس جارہے ہیں؟'' کہا ـ:'' اے ابو الحسن! میں نے خوب سوچ لیا ہے، میں ضرور بالضرور آپ کے ساتھ اس ظالم حاکم کے پاس جاؤں گا ۔ مجھے تھوڑی سے مہلت دیجئے تا کہ گھر جاکر اپنی بیٹیوں کو وصیت اور انہیں دین پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کر آؤ ں۔''یہ کہہ کر وہ اپنے گھر کی طر ف چلے گئے ، ہم سمجھ رہے تھے کہ یہ اپنے لئے کفن وغیرہ کا"
"انتظام کرنے گئے ہیں ،کیونکہ ظالم حاکم کے پاس جانا موت کو دعوت دینا تھا ۔بہر حال کچھ دیر بعد واپس آئے تو حضرتِ سیِّدُنا عاصم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے پوچھا:'' کیا تم تیار ہو؟'' کہا:'' ہاں! میں بالکل تیار ہوں ، بچیوں کو نصیحت کر آیا ہوں جب میں نے انہیں بتایا کہ میں حاکم کے پاس جارہا ہوں تو وہ رونے لگیں ، میں انہیں روتا چھوڑ آیا ہوں ، ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ قاصد حضرت سیِّدُنا عاصم بن علی علیہ رحمۃ اللہ القوی کی صاحبزادیوں کا خط لے کرآیا ،خط میں لکھاتھا:
''اے ہمارے محترم والد! ہمیں خبر پہنچی ہے کہ ایک ظالم شخص ، امام احمد بن حَنْبَل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قید کرکے کو ڑے لگوارہا ہے تاکہ وہ یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں کہ کَلَامُ اللہ(یعنی قرآنِ پاک) مخلوق ہے،اے اباجان !اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرنا، ہمت واستقامت سے کام لینا ، باطل کے سامنے ہرگز ہرگز سر نہ جھکا نا، امامِ جلیل علیہ رحمۃ اللہ الوکیل کے حوصلہ وثابت قدمی کو پیشِ نظر رکھنا ، اگر حاکمِ بد آپ کو ناحق بات کہلوانا چاہے تو ہر گز غلط بات نہ کرنا، خدائے بزرگ و بر تر کی قسم! آپ کی موت کی خبر آنا ہمیں اس بات سے زیادہ پسند ہے کہ آپ موت کے خوف سے ناحق بات تسلیم کر لیں۔ جان جاتی ہے تو جائے مگر ایمان نہ جائے۔''
وَالسَّلَام: عظیم باپ کی بیٹیاں
(سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ! کیسی عظیم اولادتھی اس عظیم ولی کی، یہ سب اچھی تر بیت کا نتیجہ تھا۔ حضرت سیِّدُنا عاصم بن علی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے اسلامی نَہَجْ(یعنی طریقہ) پر اپنی عظیم بیٹیوں کی تربیت کی۔ انہیں دین کی حفاظت کا ذہن دیا، ظلم وجبر کے سامنے نہ جھکنے کی ترغیب دی ، یہی وجہ تھی کہ وہی بیٹیاں اپنے باپ کا حوصلہ بڑھارہی تھیں، ظالم کے سامنے ڈٹ جانے کی تلقین کر رہی تھیں، انہیں باپ کی شہادت اس زندگی سے عزیزتھی جو ظالم کے سامنے جھک کر گزرتی۔وہ واقعی عظیم باپ کی عظیم بیٹیاں تھیں۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہر مسلمان کو توفیق عطا فرمائے کہ وہ اپنے گھر میں سنتیں اپنانے کا ذہن دے۔ اپنے بچو ں کو صلوٰۃ وسنت کا پابندبنانے کے لئے خوب تگ ودَو (یعنی کوشش)کر ے ، اللہ عَزَّوَجَلَّ ہماری آنے والی نسلوں کو ایسا جذبہ عطا فرمائے کہ ہر دم دینِ متین کی خدمت کریں اور دینِ اسلام کی سر بلندی کے لئے ہر دم کوشاں رہیں۔ )
؎ میری آنے والی نسلیں تیرے عشق ہی میں مچلیں انہیں نیک تم بنانا مدنی مدینے والے!
(آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)"
حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم بن حسین بن دِیْزِیل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے منقول ہے کہ جن دنوں خلقِ قرآن کا مسئلہ زوروں پر تھا۔ علماء کرام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم کو سخت اذیتوں کا سامنا تھا، ظالم خلیفہ ہر اس شخص کو سخت سزا دے رہا تھا جو خلقِ قرآن کے عقیدے میں اس کا مخالف تھا، حضرتِ سیِّدُنا عفَّان علیہ رحمۃ اللہ المنّان کو بھی شاہی دربار میں بلایاگیا۔ وہ خچر پر سوار ہوئے، میں نے خچر کی لگام تھامی اور ہم دونوں شاہی دربار پہنچے ۔ بھرے دربارمیں جب ان سے پوچھاگیا: ''کیاتم اس بات کے قائل ہوکہ کَلَامُ اللہ مخلوق ہے؟'' انہوں نے جواب دینے سے انکار کردیا اور خاموش رہے۔ انہیں باربار مجبور کیا گیا کہ '' کَلَامُ اللہ کو مخلوق کہو۔'' لیکن انہوں نے یہ غلط بات تسلیم نہ کی اوراس عقیدے پر ڈٹے رہے کہ قرآن پاک، اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور کلام اس کی صفت ہے نہ کہ مخلوق ۔ ان سے کہا گیا : اگر تم نے قرآن پاک کو مخلوق نہ مانا تو ایک ہزار درہم جو ہر ماہ تمہیں بطورِ وظیفہ دیئے جاتے ہیں وہ بند کر دیئے جائیں گے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ آیتِ مبارکہ پڑھی :
وَ فِی السَّمَآءِ رِزْقُکُمْ وَ مَا تُوۡعَدُوۡنَ ﴿22﴾
"ترجمۂ کنزالایمان :اور آسمان میں تمہارا رزق ہے اورجوتمہیں وعدہ دیا جاتا ہے۔(پ26،الذٰریٰت:22)
پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ گھر تشریف لائے تو گھر کے تمام افرادجوکم وبیش چالیس تھے سب نے آپ سے دوری اختیار کر لی۔ آپ اکیلے رہ گئے ۔پھر دروازہ کھٹکھٹا کر ایک اجنبی شخص اندر آیا جو گھی فروش لگ رہا تھا۔ اس کے پاس ہزار درہم کی ایک تھیلی تھی اس نے وہ تھیلی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے سامنے رکھی اور کہا : ''اے ابو عثمان علیہ رحمۃ اللہ المنّان! جس طر ح آپ نے دین کو قائم رکھا اسی طرح اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کو بھی قائم رکھے، یہ ہزار درہم آپ کی بارگاہ میں تحفۃ ًپیش کر رہا ہوں قبول فرمالیں اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ اسی طرح ہر ماہ آپ کی خدمت میں ہزار درہم پیش کیا کروں گا۔ یہ کہہ کر وہ شخص وہاں سے چلا گیا ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)"
حضر تِ سیِّدُنا احمد بن عطاء رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کہتے ہیں: ''مجھے حضرت ابو صالح عبداللہ بن صالح رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بتایا کہ ابومحفوظ حضرتِ سیِّدُنا مَعْرُوف کَرْخِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کو بچپن سے اولیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ میں چن لیا گیا تھا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے والدین نصرانی تھے اس لئے انہوں نے آپ کو اور آپ کے بھائی عیسیٰ کو ایک نصرانی عالم کے پاس بھیجنا شرو ع کردیا ۔وہ نصرانی
"معلِّم بچو ں کو شرک کی تعلیم دیتا اور کہتا: '' خدا صرف ایک نہیں بلکہ تین ہیں(مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ)۔'' جب مَعْرُوف کَرْخِی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے سنا تو پکار کر کہا: ''خدا صرف ایک ہے باقی سب اس کی مخلوق ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں۔ معلِّم نے یہ بات سن کر آپ کو بہت مارا۔ دو سرے دن پھر اس نے شرک کی تعلیم دی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے پھرعلی الاعلان اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کیا۔ نصرانی معلِّم کو بہت غصہ آیا اور بڑی بے دردی سے آپ کو مارنے لگا آپ مارکھاتے رہے لیکن کفر یہ کلمات نہ کہے بلکہ آپ کی زبان پر اَحَد، اَحَد کا وِرد جاری رہا ۔ پھر آپ وہاں سے بھاگ گئے ۔
آپ کی والدہ جو ابھی ایمان نہ لائی تھی آپ کی محبت میں روتی رہتی۔ وہ کہتی اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ مجھے میرا بیٹا لوٹا دے تو میں بھی اس کا دین اختیار کر لوں گی ۔ یااللہ عَزَّوَجَلَّ ! میرا بیٹا میر ی آنکھوں کی ٹھنڈک مجھے واپس کردے۔ کافی سال بعد آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے گھر تشریف لائے تو ماں نے پوچھا: '' بیٹا! تمہاراکون سا دین ہے ؟'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' میرا دین اسلام ہے اور یہی دین سچاہے۔'' یہ سن کر ان کی والدہ نے کہا:'' میرے بیٹے! گواہ رہنا کہ میں بھی نصرانیت سے توبہ کرتی ہوں اورکلمۂ شہادت"
''اَشْھَدُ اَنْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہ''
"پڑھ کراسلام قبول کرتی ہوں۔
پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی برکت سے آپ کے تمام خاندان والے دائرہ اسلام میں داخل ہوکر صلوٰۃ وسنت کے پابند بن گئے ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)
اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے اس ولئ کامل کے صدقے ہمیں اپنی دائمی رضا سے شاد کام فرما دے۔
؎ بہرِ معروف وسَری معروف دے بیخود سَری جُندِ حق میں گِن جنیدِ باصفا کے واسطے"
ابوالعباس ولید بن مسلم سے منقول ہے، کسی خلیفہ نے لوگوں کو اس طر ح نصیحت کی: '' اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بندو! بقدرِ اِسْتِطَاعَت(یعنی جتنا تم سے ہو سکے) اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو! ان لوگوں کی طر ح ہوجاؤ جو سستی وغفلت کا شکار تھے پھر بیدار ہوگئے اور انہوں نے یہ بات اچھی طر ح سمجھ لی کہ یہ دنیا ہمارا دائمی ٹھکانہ نہیں ۔ ہمیں اس سے پلٹ جانا ہے۔ اس لئے انہوں نے آخرت کی تیاری شرو ع کردی۔ اے بند گانِ خدا عَزَّوَجَلَّ! موت کے لئے تیار ہو جاؤ، بے شک وہ تم پر چھائی ہوئی ہے۔ زادِ راہ تیاررکھو ، کجاوے کَس لو ، بے شک تمہیں کُوچ کاحکم مِل چکاہے ۔ بے شک منزل لمحہ بہ لمحہ قریب ہوتی جارہی ہے۔ ہر ہر منٹ طویل مدت میں کمی کر
"رہا ہے ۔ زندگی کی مدت کم ہوتی جا رہی ہے ، زندگی کے قلعہ کو وقت کی ضربیں کمزور کر رہی ہیں ، جانے والے جارہے ہیں، نئے لوگ آرہے ہیں ۔بے شک دن اور رات بڑی تیزی سے واپسی کے لئے پَر تول رہے ہیں ۔ جو پیش قدمی کا مظاہر ہ کریگا وہ زندگی کی دوڑ میں کامیاب ہوجائے گا اور جو زندگی کے دنوں کو گننے میں لگا رہا اوربیٹھے بیٹھے سوچتا رہاوہ یقینا ناکام ہو جائے گا۔
سمجھ دار انسان اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے ڈرتا، اپنے آپ کو نصیحت کرتا اوراپنی توبہ پر ثابت قدم رہتا ہے۔ اپنی خواہشات کے دھارے میں نہیں بہتا بلکہ ان پر غالب رہتا ہے۔بے شک انسان کی موت اس سے پوشیدہ ہے ، لمبی لمبی امیدیں اسے دھوکے میں رکھے ہوئے ہیں ۔ شیطان ہر دم انسان کے ساتھ رہتاہے،اسے توبہ کی اُمید دِلا کر معصیت میں مبتلا کردیتا ہے۔ پھر اسے توبہ بھی نہیں کرنے دیتااوراس طرح ٹال مٹَول کرواتا رہتا ہے کہ کل توبہ کرلینا، فلاں وقت کرلینا اس طر ح کی کھوکھلی امیدوں میں اسے جکڑے رکھتاہے ۔ گناہ کو آراستہ کرکے پیش کرتا ہے تا کہ انسا ن گناہوں پر دلیر ہوجائے حالانکہ موت اس پر اچانک چھا جائے گی۔ پھر سوائے حسرت کے کچھ نہ ہوگا۔ انسان کو موت کی طر ف سے بے خبری نے غافل کررکھاہے۔
اے لوگو ! تمہارے اور جنت یا دوزخ کے درمیان صرف موت کی دیوار آڑ ہے۔ جیسے ہی یہ دیوار گری غافل انسان کف ِ افسوس ملتا رہ جائے گا ۔ پھر تمنا کریگا کہ کاش! کچھ وقت مہلت مل جائے ، لیکن پھر یہ خواہش کبھی پوری نہ ہوگی۔ اب انسان سمجھ جائے گا کہ وقت کے ضیاع نے اسے ناکامی کی طر ف دھکیل دیا۔
( اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں ان لوگو ں میں سے نہ بنائے جو دنیوی نعمتوں کے بل بوتے پر اکڑ جاتے اور مغرور سرکش ہوجاتے ہیں ، بلکہ ان لوگوں میں سے بنائے جو نعمتوں پر مغرور نہیں ہوتے، اپنے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی نہیں کر تے، جنہیں موت کے بعد حسر ت وافسوس نہیں ہوتا ۔ اے ہمارے خالق عَزَّوَجَلَّ! ہماری دعاؤں کو قبول فرما، بے شک تو دعا ؤں کو قبول فرمانے والا، بہت مہربان ہے ! اے ہمارے رب عَزَّوَجَلَّ! ہماری خالی جھولیاں گوہرِ مرادسے بھردے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)"
قَحْطَبَہ بن حمید بن حسین کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ میں خلیفہ مامون الرشید کے دربار میں تھا ۔ خلیفہ مظلوموں کی فریاد سن کر انہیں ظالموں سے بدلہ دلوارہا تھا۔ لوگ اپنے اپنے مسائل حل کرو ا رہے تھے۔ دو پہر ڈھلنے تک یہی سلسلہ رہا ، خلیفہ بڑے عدل وانصاف سے فیصلے کر رہا تھا۔ مجلسِ قضاء ختم ہونے والی تھی، اچانک پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ایک عورت دربار میں آئی
"اور بآوازِ بلند خلیفہ کو سلام کیا: ''خلیفہ نے یحیی بن اَکْثَم کی طر ف دیکھا: یحیی نے عورت سے کہا:'' بتا ؤ، تمہارامسئلہ کیا ہے؟'' عورت نے کہا: ''اے خلیفہ! مجھ سے میری زمین ظلماً چھین لی گئی ہے، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا میرا کوئی حامی وناصر نہیں۔'' یہ سن کر یحیی بن اَکْثَم نے کہا: '' ابھی تَو دربار کا وقت ختم ہوچکا ہے ، جمعرات کو آجانا۔''
عورت واپس چلی گئی، مجلسِ قضاء برخاست کر دی گئی، جمعرات کو خلیفۂ و قت فیصلہ کرنے تخت پر بیٹھا اور کہا: ''آج سب سے پہلے اس عورت کی فریاد سنی جائے گی، وہ عورت کہاں ہے؟'' عورت کو لایا گیا تو خلیفہ نے کہا: ''بتاؤ، تمہارا کیا معاملہ ہے؟ تم پر کس نے ظلم کیا؟ ا پنے مدِّمقابل کو سامنے لاؤ۔'' عورت نے خلیفہ کے بیٹے عباس کی طر ف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ''میرا دعویٰ اسی پر ہے اور یہی میرا مدمقابل ہے۔'' خلیفہ نے احمد بن ابوخالد کو حکم دِیا کہ عباس کا ہاتھ پکڑ کر اس عورت کے ساتھ کھڑا کر دو۔'' حکم کی تعمیل ہوئی اور خلیفہ ئوقت کے شہزادے کو مجرموں کی طر ح اس عورت کے ساتھ کھڑا کر دیا گیا۔ عباس کے خلاف بیان دیتے ہوئے عورت کی آواز بلند ہونے لگی۔ جبکہ عباس دبی دبی آواز میں بات کر رہا تھا۔ جب عورت کی آواز مزید بلند ہوئی تو احمد بن ابو خالد نے کہا :'' محترمہ اپنی آواز پست کرو تمہیں معلوم نہیں کہ اس وقت تم خلیفۂ وقت کے سامنے موجود ہو، دربارِ شاہی میں اتنی بلند آواز سے بات کرنا بہت ناز یبا ہے۔''
خلیفہ مامون الرشید نے کہا :'' اسے بولنے دو! بے شک اِس کی سچائی نے اِس کی آواز بلند کردی ہے اور عباس کے جرم نے اُس کو گو نگا کردیا ہے۔ کافی دیر تک عباس اور اس عورت کا مُکَالَمَہ ہوتا رہا۔ بالآخر خلیفہ نے حکم دیا کہ اس عورت کی زمین اسے واپس لوٹا دی جائے اور اس عورت کو دس ہزار درہم دیئے جائیں۔ یہ فیصلہ سن کر وہ مظلومہ خوشی خوشی اپنے گھر چلی گئی۔"
حضرتِ سیِّدُناعمر بَزَّار علیہ رحمۃ اللہ الغفار سے منقول ہے کہ'' میں نے منصور ماہی گیر کو یہ کہتے ہوئے سنا :'' ایک مرتبہ عید کے دن جب میں مچھلیا ں پکڑنے جارہا تھا توراستے میں حضرتِ سیِّدُنا بِشْر بن حَارِث حافی علیہ رحمۃ اللہ الکافی سے ملاقات ہوئی وہ عید کی نماز پڑھ کر آرہے تھے ۔ مجھے دیکھ کرپوچھا: آج عید کے دن بھی تم مچھلیا ں پکڑنے جارہے ہو؟ میں نے کہا : ''حضور! کیا کرو ں ہمارے گھر مُٹھِّی بھر آٹا بھی نہیں اور نہ ہی کوئی اور ایسی چیز ہے جسے پکا کر بھوک مٹائی جاسکے۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ''گھبراؤ مت! بے شک ہمارا پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ مدد فرمانے والا ہے ، چلو اپنا جال اٹھاؤ ، میں بھی تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔'' میں جال اُٹھا کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ساتھ چل دیا۔ دریا پر پہنچ کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا :'' اے منصور علیہ رحمۃ اللہ الغفور ! وضو
"کر کے دو رکعت نماز پڑھو۔''
جب میں نماز پڑھ چکا توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:اب بِسْمِ اللہ شریف پڑھ کر جال پھینکو!میں نے بِسْمِ اللہ شریف پڑھ کر جال پھینکا ۔ کچھ ہی دیر بعد محسوس ہوا کہ جال میں کوئی بھاری چیز پھنس گئی ہے، میں سمجھا کہ شاید کو ئی وزنی پتھر ہے۔ جب جال کھینچا تو بہت بھاری تھا میں نے پکار کر کہا:'' اے ابو نصر! میری مدد کیجئے، جال میں کوئی بھاری چیز پھنس گئی ہے، مجھے اندیشہ ہے کہ جال ہی نہ ٹوٹ جائے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فوراً میری طر ف آئے ہم نے مل کر جال کھینچنا شرو ع کر دیا۔ جب باہر آیا تو اس میں ایک بہت بڑی مچھلی تھی ۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا : اے منصور علیہ رحمۃ اللہ الغفور! اسے بیچ کر اپنے اہل وعیال کے لئے ضرورت کی اشیاء خریدو۔
حضرتِ منصور علیہ رحمۃ اللہ الغفور فرماتے ہیں :میں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شکر ادا کیا اور مچھلی لے کربازارکی طرف چل دیا۔ راستہ میں ایک خَچّرسوار ملااس نے پوچھا:''یہ مچھلی کتنے میں بیچو گے ؟ میں نے کہا :دس درہم میں۔ اس نے فوراََ دس درہم ادا کئے اور مچھلی لے کر چلا گیا۔میں کھانے کا سامان خریدکرگھر چلا آیا ، کھانا تیار ہوا اور سب گھر والوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شکر ادا کیا ۔ کھانے سے فارغ ہوکر میں نے گھر والوں سے کہا: دو چپاتیاں اور حلوہ لے کر آؤ تا کہ حضرت سیِّدُنا بِشْر حافی علیہ رحمۃ اللہ الکافی کی خدمت میں پیش کروں ، مطلوبہ اشیاء تیار کی گئیں۔ میں انہیں لے کر حضرت سیِّدُنا بِشْر حافی علیہ رحمۃ اللہ الکافی کے دروازے پر پہنچا اور دستک دی ، پوچھا: کون ؟ میں نے کہا: منصور: فرمایا: اے منصور !جو چیزیں تم اپنے ساتھ لائے ہو انہیں دروازے کے باہر ہی رکھ دو اور خود اندرآجاؤ ، میں نے کہا :'' حضور!میں اور تمام گھر والے کھانا کھا چکے ہیں۔میں آپ کی بارگاہ میں چپاتیاں اور حلوہ لے کر حاضر ہوا ہوں ، یہ قبول فرمالیں '' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ''اے منصور علیہ رحمۃ اللہ الغفور ! اگر ہم اپنے آپ کو کھلاتے تویہ مچھلی ہر گز نہ نکلتی، جاؤ! یہ چیزیں تمہیں اور تمہارے بچو ں کو مُبَارَک ہوں، ہمیں ان کی حاجت نہیں۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)"
حضرتِ سیِّدُناعمیر بن عبد الباقی علیہ رحمۃ اللہ الکافی بہت بڑے زمیندار تھے۔ حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم بن اَ دْہَم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم اپنی سلطنت چھوڑ کر د رویشی زندگی اختیار کر چکے تھے اور رزقِ حلال کے حصول کے لئے اُجرت پر لوگو ں کی کھیتی وغیرہ کاٹا کرتے
"تھے۔حضرتِ سیِّدُنا عمیر بن عبدالباقی علیہ رحمۃ اللہ الکافی کے ہاں آپ اورآپ کے ایک دوست نے مزدوری کی اور بیس دینار کمائے۔ حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم بن اَ دْہَم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم نے اپنے رفیق سے کہا: '' آؤ، ہم حلق کروا لیں(یعنی سر منڈوا لیں)۔'' چنانچہ، دونوں حجام کے پاس آئے، حجام نے انہیں کوئی وقعت نہ دی اور بڑے تحقیر آمیز لہجے میں کہا: '' تم لوگوں سے زیادہ ناپسندیدہ میرے نزدیک دُنیا بھر میں کوئی نہیں، کیا میرے علاوہ کوئی اور شخص تمہیں نہ ملا جو تمہاری خدمت کرتا ۔''یہ کہہ کر وہ دوسرے گاہکوں میں مصروف ہوگیا۔ آپ کے رفیق کو حجام کا ذِلت آمیز لہجہ بہت برا لگا تھا اس لئے اس نے حلق کروانے سے انکار کردیا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ خاموشی سے بیٹھے رہے۔ جب سب لوگ چلے گئے توحجام نے نفرت بھرے لہجے میں کہا: '' تم کیا چاہتے ہو؟'' فرمایا: ''میں اپنا حلق کروانا چاہتا ہوں۔''
حجام نے بڑی حقارت سے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا حلق کیا۔خدا عَزَّوَجَلَّ کی شان کہ دو ٹَکے کا حجام بھی آج اس مرد ِقلندر کو دُرویشانہ لباس میں دیکھ کر حقارت بھری نظر وں سے دیکھ رہا تھا جس نے اپنے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ کی رضا کی خاطر سلطنت، شان وشوکت ، شاہی محلات اور زَر وزمین سب کچھ ٹھکرادیا تھا ۔ کسی نے درست کہاہے کہ موتی کی قدر جوہری ہی جانتا ہے ۔ وہ نادان حجام اس گوہرِبے بَہا کی قدر نہ جان سکا۔ بہر حال جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حلق کروالیا تو اپنے رفیق سے کہا :'' جو بیس دینار تمہارے پاس ہیں وہ سب اس حجام کو دے دو۔'' اس نے کہا:'' حضور !یہ آپ کیا فرما رہے ہیں ؟ اتنی شدید گرمی میں خون پسینہ ایک کر کے آ پ نے مزدوری کی پھر یہ رقم ملی ، اب اس حجام کو اتنی بڑی رقم دے رہے ہیں۔'' فرمایا:''یہ رقم اس حجام کو دے دو تا کہ پھر کبھی یہ کسی درویش کو حقیر نہ جانے۔'' آپ کے رفیق نے ساری رقم حجام کو دے دی۔پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ'' طَرَسُوْس '' کی طرف لوٹ آئے ۔ صبح ہوئی تو اپنے دوست سے فرمایا :'' یہ چند کتابیں کسی کے پاس رہن رکھ کر قرض لو اور کھانے کے لئے کچھ خرید لاؤ۔'' آپ کا دوست حسبِ ارشادکتابیں لے کربازار کی جانب چل دیا۔ راستے میں ایک شخص کو دیکھا جو بڑی شان وشوکت سے خیمہ لگائے بیٹھاتھا ۔ اس کے سامنے غلے کا ڈھیر ، قیمتی گھوڑے ، خچر اور ایسے بڑے بڑے صندوق تھے ، جن میں ساٹھ ہزار سے زیادہ دینارہوں گے۔وہ شخص اس طرح صدائیں بلندکر رہا تھا، ''ان تمام چیزوں کا مالک سفیدی مائل سرخ رنگت والا شخص ہے جو ابراہیم بن اَدْہَم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم کے نام سے مشہور ہے۔ کوئی ہے جو مجھے اس کے متعلق بتائے۔'' یہ اعلان سن کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا دوست اس شخص کے پاس گیا اور کہا: '' جسے تم ڈھونڈ رہے ہو وہ ایسی شہرت وثروت کو پسند نہیں کرتا ، آؤ، میں تمہیں اس کے پاس لے چلتا ہوں۔''
وہ دونوں حضرت سیِّدُنا ابراہیم بن اَ دْہَم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کے پاس آئے۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو مزدوروں کے لباس میں دیکھ کر وہ شخص ہکاّ بکاّرہ گیا ،ہا تھ جوڑکر عرض کی: میرے آقا! میرے سردار! خُرَاسَان کی سلطنت چھوڑ کر آپ اس حالت کو پہنچ گئے ہیں؟'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا :'' ان باتوں کو چھوڑ و اور یہ بتاؤ، تمہارا معاملہ کیا ہے ؟'' کہا :'' حضور! آپ کے بعد جو شخص"
"تخت نشین ہوا اس کا انتقال ہوگیا۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا :''اللہ عَزَّوَجَلَّ اس پر رحم فرمائے ، جس طر ح اسے موت آئی اسی طرح ہر ذی روح کو موت آئے گی۔جس نے خوشیوں کا گنج پایا وہ موت کے رنج سے بھی دو چار ہوگا۔ اب یہ بتاؤ تم کیا چاہتے ہو اور یہاں کیوں آئے ہو؟'' کہا :'' میرے آقا! آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے بعد جب تخت نشین شیخ کا انتقال ہوگیا توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے سارے غلاموں نے جو چاہا وہ کیا، تمام شاہی چیزیں لوگو ں نے آپس میں تقسیم کرلیں۔میں نے بھی بہت سی چیزیں لے لیں،یہ تمام چیزیں جو میرے پاس ہیں سب آپ کی ہیں او رمیں بھی آپ کا بھاگا ہوا غلام ہوں ۔ اب معافی طلب کرنے آیا ہوں ، میں نے علماء کرام علیہم رحمۃاللہ المنان سے اپنے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا:'' جب تک تم اپنے آقا کے پاس واپس نہ جاؤگے اس وقت تک تمہارے اعمال قبول نہ ہوں گے تم مال و متا ع لے کر اپنے آقا کے پاس جاؤ وہ جس طرح چاہے تمہارے ساتھ معاملہ کرے۔'' میرے آقا! اب میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے سامنے حاضر ہوں، میرے بارے میں جو چاہیں فیصلہ فرمائیں ۔''
حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم بن اَ دْہَم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم نے فرمایا :'' اگر تم اپنی بات میں سچے ہو تو میں نے تمہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا کی خاطر آزاد کیا۔اور جو کچھ مال ومتاع تمہارے پاس ہے وہ سب تمہیں دیا ، اب جہاں چاہو یہ مال خرچ کرو ۔جاؤ! یہ سارامال تمہیں مُبَارَک ہو۔'' پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے دوست کی طر ف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ''جاؤ ! کسی کے پاس یہ کتابیں رہن رکھ کر قرض لو اور کھانے کے لئے کچھ خرید لاؤ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)
( سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ! صد ہزار آفریں ان مُبَارَک ہستیوں پر جنہوں نے خدائے بزرگ وبَر تر کی رضا کے لئے شاہی شان وشوکت، محلات وباغات، غِلمان وخُدّام اور دنیوی زیب وزینت کو ٹھکرا کر سادگی وعاجزی اختیار کی۔ بھوک وپیاس کی مصیبتیں ہنس کر برداشت کیں ، کبھی بھی حرفِ شکایت لب پر نہ لائے اورر زقِ حلال کی خاطر محنت مزدوری کی۔یقینا یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے آخرت کی قدر جان لی۔ ان پر دنیا کی حقیقت آشْکار ہوچکی تھی کہ دنیا بے وفاہے اس کی نعمتیں زوال پذیر ہیں۔ان عارضی لذتوں کی خاطر دائمی خوشیوں کو نظر انداز کر دینا عقل مندوں کا کام نہیں۔ سمجھدار وہی ہیں جو باقی رہنے والی خوشیوں کو فانی خوشیوں پر تر جیح دیتے ہیں اور دُنیوی مصائب و تکالیف کو صبر و شکر کے ساتھ برداشت کرتے ہیں۔اللہ عَزَّوَجَلَّ ان پاکیزہ ہستیوں کے صَدْقے ہمیں بھی ا عمالِ صالحہ پر استقامت عطا فرمائے۔ ہر حال میں اپنی رضا پر راضی رہنے کی تو فیق عطا فرمائے ۔ بے صبری وناشکر ی سے بچا کر صبر وشکر کی دولت سے مالا مال فرمائے۔
ہر شخص کو چاہے کہ ہر آنے والی مصیبت پر صبر کر کے اجر کا مستحق ہو۔ مصائب وآلام کے ذریعے ہمیں آزمایا جاتا ہے اور مردانگی یہی ہے کہ امتحان وآزمائش آ جائے تو منہ نہ پھیرا جائے بلکہ خوش دِلی سے آزمائشوں سے نمٹا جائے ۔ مصیبت خود نہ مانگی"
"جائے بلکہ عفو و کرم کی بھیک طلب کی جائے ۔اگر مصیبت آجائے تو اس پر صبر کیا جائے۔ اللہ کریم ہمیں اپنے حفظ وامان میں رکھے اور ہمارا خاتمہ بالخیر فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)
؎ میری مشکلیں گر تیرا امتحاں ہیں تو ہر غم قسَم سے خوشی کا سماں ہے
گناہوں کی میرے اگر یہ سزا ہے تو سب مشکلوں کو مٹا میرے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ!"
" حضرتِ سیِّدُنا اسماعیل بن اِسحاق علیہ رحمۃاللہ الرزاق سے منقول ہے کہ'' حضرت سیِّدُناعَافیہ قاضی علیہ رحمۃاللہ الہادی بہت بڑے عابدوزاہدتھے۔خلیفہ مَہْدِی نے انہیں ایک علاقے کاقاضی مقررکردیا۔ایک مرتبہ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ دوپہرکے وقت خلیفہ کے پاس گئے ۔خلیفہ نے اپنے پاس بلا کرحال دریافت کیا۔آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے سرکاری کاغذات سے بھراہوا تھیلا خلیفہ کے سامنے رکھتے ہوئے کہا: ''اے خلیفہ!میں عہدۂ قضاء سے اِسْتِعْفٰی دیتاہوں،آپ میری جگہ جسے چاہیں قاضی مقررکردیں،اب میں یہ ذمہ داری نہیں سنبھال سکتا۔''خلیفہ نے سُناتو سمجھاکہ شاید کسی سرکاری نمائندے یا صاحب ِ اَثرشخص نے آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کو تنگ کیا ہو گا۔ خلیفہ نے پوچھا: ''آپ(رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ)کوکس نے تنگ کیا؟کون ہے !جوآپ(رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ)کے معاملات میں دخیل ہوکرآپ(رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ)کوتنگ کررہاہے کہ آپ(رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ)استعفیٰ دینے کوتیارہوگئے ہیں؟''
قاضی عافیہ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:''اے خلیفہ!ایسی کوئی بات نہیں۔اصل بات کچھ اورہے۔ہوایوں کہ دوشخصوں کا مقدمہ تقریباًدوماہ سے میرے پاس تھا۔وہ مقدمہ ایسامشکل وحیران کُن تھاکہ ابھی تک حل نہیں ہوا۔ان میں سے ہرایک ثبوت وگواہ پیش کرچکاہے۔دونوں کے پاس اپنے اپنے دعویٰ پردلائل وگواہ موجود ہیں۔مجھے سمجھ نہیں ارہاتھاکہ ان کافیصلہ کس طرح کروں۔دوماہ تک یہی سلسلہ جاری رہا۔بالآخرمیں نے ان سے کہا،تم دونوں اپنے اپنے دعویٰ پردلائل وگواہ پیش کرچکے ہو، تمہارا فیصلہ کچھ دن بعدفلاں تاریخ کو ہو گا،میں تمہارے معاملے میں غوروفکرکروں گا۔جاؤ،فلاں دن آجانا۔وہ دونوں چلے گئے اورمیں غوروفکرکرنے لگا۔میں نے یہ مقدمہ اس لئے مؤخرکیاتھاکہ شایدیہ دونوں آپس میں صلح کرلیں گے ورنہ کم ازکم مجھے ان کے مقدمے میں غوروفکرکاموقع مل جائے گا۔مجھے تازہ اور عمدہ کجھوریں بہت پسندتھیں ان دونوں میں سے ایک شخص کومیری اس پسندکے بارے میں معلوم ہوگیا۔ابھی کھجوریں پکناشروع ہی ہوئی تھیں اورتازہ کھجوریں ان دنوں بڑے بڑے روساء وامراء کوبھی بڑی مشکل سے میسرآتی تھیں۔ وہ شخص نہ جانے کہاں سے اعلیٰ قسم کی تازہ کھجوروں سے بھراتھال لے آیا۔اس نے میرے خادم کو"
"چند درہم رشوت دے کر اس بات پر راضی کر لیا کہ کھجوروں کا وہ تھال مجھ تک پہنچا دے۔ اس نے اس بات کی پرواہ نہ کی کہ میں یہ کھجوریں واپس کر دوں گا۔ اس نے کھجوروں کا تھال مجھے بھجوا دیا ،میں نے ان میں سے ایک کھجور بھی نہ لی اور خادم سے کہا کہ جہاں سے لائے ہو وہیں واپس لے جاؤ ۔میں ہر گز قبول نہ کروں گا ۔
چنانچہ، وہ شخص اپنی کھجوریں لے کر واپس چلا گیا ۔دوسرے دن وہ اپنے مخالف فریق کے ساتھ میرے پاس آیا۔ آج ان کا فیصلہ ہونا تھا جب وہ دونوں میرے سامنے آئے ، میری نظر اور میرے دل میں وہ دونوں برابر کی حیثیت سے نہ آئے ۔مجھے ایسا لگا کہ میری توجہ اس شخص کی طرف زیادہ ہور ہی ہے جو کھجوریں لے کر آیا تھا۔ا ے خلیفہ! مجھے اپنی یہ کیفیت ہر گز ہر گز قبول نہیں۔ میں نے وہ کھجوریں قبول نہ کیں تب میری یہ حالت ہے۔اگر خدا نخواستہ قبول کر لیتا تو میرا کیا بنتا؟ میں نہیں چاہتا کہ کسی وجہ سے میں دینی معاملات میں رکاوٹ وفسادکاباعث بنوں اورہلاکت میرامقدَّربن جائے۔مجھے یہ بات باکل پسند نہیں کہ میری وجہ سے لوگوں میں فساد وبدامنی پھیلے۔ خدارا! مجھے معاف فرمائیں اور میری جگہ کسی اور کو قاضی مقرر کر دیں ،آپ کا مجھ پر احسان ہو گا۔'' خلیفہ نے جب ان کی اخلاص بھری باتیں سنیں تو اِستِعْفٰی قبول کر کے ان کی جگہ کسی اور کو قاضی بنا دیا۔اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وہاں سے اس طرح واپس ہوئے جیسے بہت بڑا بوجھ آپ کے سر سے اُتر گیا ہو ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)
؎ اللہ اس سے پہلے ایمان پہ موت دے دے نقصاں میرے سبب سے ہو سنتِ نبی کاصلي اللہ عليہ وسلم"
حضرت سیِّدُنا یوسف بن حسین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے منقول ہے، میں نے حضرت سیِّدُنا ابو تُراب نَخْشَبِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے کبھی نفسانی خواہشات کو اپنے اوپر غالب نہ ہونے دیا اور ہمیشہ اپنی خواہشات کی مخالفت کرتا۔ ایک مرتبہ دورانِ سفر میرے نفس نے بڑی شدت سے روٹی اور انڈا کھانے کا مطالبہ کیا، باوجود کوشش کے میں اس خواہش پر قابونہ پاسکا ۔نفس بار با ر انڈا اور روٹی کھانے کی خواہش کر رہا تھا۔ چنانچہ، میں ایک قریبی بستی کی طر ف گیا جیسے ہی میں بستی میں داخل ہوا ایک شخص مجھ پر جھپٹا اور شور مچانے لگا: '' پکڑو! پکڑو! یہ بھی چوروں کاساتھی ہے'' ۔ لوگ مجھ پر ٹوٹ پڑے اور کوڑے مارنے لگے۔ جب ستر کوڑے مار چکے تو ایک جاننے والے شخص نے مجھے پہچان لیا اور کہا:'' اے لوگو ! یہ تم کسے مار رہے ہو؟ ارے! یہ تو زمانے کے مشہور ولی حضرت سیِّدُنا ابو تراب
"نَخْشَبِی علیہ رحمۃ اللہ القوی ہیں۔ '' جب لوگو ں نے یہ سنا تو مجھے چھوڑ دیا اور معافی مانگنے لگے۔پھر ایک شخص مجھے اپنے گھر لے گیا اور میرے سامنے گرم گرم روٹیاں اور انڈے لاکر رکھ دیئے ۔ یہ دیکھ کر میں نے اپنے نفس سے کہا :
'' اے نفس! ستر(70) کوڑے کھانے کے بعد تیری خواہش پوری ہوگئی ہے،لے !اب انڈے اور روٹی کھالے ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)
( میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے! ہمارے اَسلاف کس طر ح نفسانی خواہشات کی مخالفت کرتے ، حرام تو دَر کنار مشتبہ بلکہ مباح اشیاء بھی ترک کر کے نفس کی مخالفت کرتے ہوئے پیٹ کا قفل مدینہ لگایا کرتے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ! دعوتِ اسلامی کے مشکبار مدنی ماحول میں بھی یہ تر غیب دلائی جاتی ہے کہ حرام و مشتبہ چیزوں سے بچا جائے اور جائز ومباح کھانے بھی بھوک سے کم کھائے جائیں تا کہ بھوک کی بدولت عبادت میں دل لگ جائے اور برے کاموں کی طرف ذہن نہ جائے۔ جب پیٹ بھر ا ہوتا ہے توعبادت میں سُستی ہوجاتی ہے۔ اس کے بر عکس بھوک کی حالت میں سوز وگداز مزید بڑھ جاتا ہے۔آپ سے گذارش ہے مکتبۃ المدینہ سے شائع کردہ کتاب ''آداب ِطعام اور پیٹ کا قفل مدینہ''کاضرور مطالعہ فرمائیں اس کی برکت سے ان شاء اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کوکھانے کے آداب اور بھوک سے کم کھانے سے کیافوائد حاصل ہوتے ہیں سیکھنے کو ملیں گے ۔)"
حضرت سیِّدُناسعید اَدَم علیہ رحمۃ اللہ الا کرم سے منقول ہے کہ ایک مرتبہ میرا گز ر حضرت سیِّدُنا لَیْث بن سعد علیہ رحمۃ اللہ الاحد کے قریب سے ہوا تو انہوں نے مجھے اپنے پاس بلا کرفرمایا : ''اے سعید علیہ رحمۃ اللہ المجید! یہ رجسٹر لو اور اس میں ان لوگوں کے نام لکھ کر لاؤ جو ہر وقت مسجدمیں عبادتِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں مشغول رہتے ہیں۔ عبادت وریاضت کی وجہ سے انہیں کارو بار وتجارت کا وقت نہیں ملتا اور نہ ہی ان کے پاس کوئی زرعی زمین ہے جس سے غلہ حاصل کر سکیں ۔ایسے تمام عبادت گزاروں کے نام لکھو (تاکہ ان کا کچھ وظیفہ وغیرہ مقرر کیا جاسکے) میں نے یہ سنا تو ان کا شکر یہ ادا کیا ، اس فعلِ حَسَن پر انہیں دعائیں دیں اور رجسٹر لے کر گھر چلا آیا۔ عشاء کی نماز کے بعد میں نے چراغ کی روشنی میں رجسٹرکھولا اور ایسے لوگو ں کے نام یاد کرنے لگا جن کے بارے میں مجھے بتایا گیا تھا۔ ایک ایک کر کے ان عبادت گزاروں کے نام میرے ذہن میں آنا شرو ع ہوگئے، میں نے (رجسٹر پر)
'' بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم''
لکھی ، ابھی میں پہلا نام لکھنے ہی لگاتھا کہ ایک غیبی آواز سنائی دی: ''اے سعید ! خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! تم ایسے لوگوں کا راز
"منکشف کرنا چاہتے ہو جو چھپ کر اپنے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کرتے ہیں اور یہ سب کچھ تم ایک آدمی کے لئے کر رہے ہو ، شُعَیْب بن لَیْث مر گیا ہے اور کیا یہ تمام لوگ اپنے معبودِ برحق کی طرف لوٹ کرنہیں جائیں گے۔ ''
یہ غیبی آواز سن کر میں نے رجسٹر بند کر دیا اور کسی کا نام نہ لکھا۔ صبح جب میں حضرت سیِّدُنا لَیْث بن سعد علیہ رحمۃ اللہ الاحد کے پاس گیا تو مجھے دیکھ کر ان کے چہرے پر خوشی کے آ ثار نمایاں ہو گئے ، انہوں نے بڑے شوق سے رجسٹرلیا اور ورق گردانی شروع کردی۔"
''بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم''
کے علاوہ انہیں کوئی اور چیز نظر نہ آئی۔میں نے کہا :'' حضور ! آپ کو اس میں بِسْمِ اللہ شریف کے علاوہ کچھ نظر نہ آئے گا کیونکہ میں نے صرف
''بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم''
" ہی لکھی ہے ۔''یہ سن کر انہوں نے کہا: ''اے سعید! کیا وجہ ہے ؟'' تومیں نے سارا واقعہ کہہ سنایا: میری بات سنتے ہی انہوں نے ایک زوردار چیخ ماری اور تڑپنے لگے ، یہ دیکھ کر لوگو ں کا ہجوم ہوگیا ، انہوں نے مجھ سے پوچھا:'' اے ابو حَارِث علیہ رحمۃ اللہ الوارث! انہیں کیا ہوا ، خیر تو ہے ؟ ' ' میں نے کہا:'' ہاں! سب ٹھیک ہے ۔'' پھر آپ میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا :'' اے سعید !بہت اچھا ہوا کہ تجھے مُتَنَبِّہ(یعنی خبردار) کردیا گیا اور ہم اس معاملے میں نہ پڑے۔ پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ روتے رہے اور اس طر ح کہتے رہے: '' لَیْث مرگیا تو وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی کی طرف پلٹ کر جائے گا اورہم سب بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی کی طرف لوٹ کر جائیں گے ۔'' حضرتِ سیِّدُنا سعید اَدَم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کے بارے میں مشہورہے کہ یہ اَبدال تھے۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)"
حضرت سیِّدُنا ابو عبداللہ محمد بن احمد بن موسیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے منقول ہے کہ''ایک مرتبہ میں ''رَے'' (ایران کے دارالخلافہ، موجودہ نام تہران) کے قاضی موسیٰ بن اِسحاق علیہ رحمۃ اللہ الرزاق کی محفل میں تھا ۔ قاضی صاحب لوگو ں کے مسائل حل کر رہے تھے۔ اتنے میں ایک عورت ان کے پاس لائی گئی، اس کے سرپرستوں کا دعویٰ تھا کہ اس عورت کے شوہر نے اس کا پانچ سو دینار مہرادا نہیں کیا۔ جب اس کے شوہرسے پوچھا گیاتو اس نے انکارکردیااورکہا: ''مجھ پرمہرکادعویٰ بے بنیادہے۔''شوہر کے انکار پر قاضی صاحب نے عورت سے گواہ طلب کئے ، گواہ حاضر کئے گئے تو ان میں سے ایک نے کہا :''میں اس عورت کو دیکھنا چاہتا ہوں تا کہ اسے پہچان کر گواہی دوں۔'' چنانچہ، وہ عورت کی طرف بڑھا اور کہا:'' تم اپنا نقاب ہٹاؤ تاکہ تمہاری پہچان ہوسکے۔'' یہ دیکھ کر اس کے شوہر نے کہا: '' یہ شخص میری زوجہ کے پاس کیوں آیا ہے؟'' وکیل نے کہا:'' یہ گواہ تمہاری زوجہ کا چہر ہ دیکھنا چاہتا ہے تا کہ پہچان ہو جائے۔''
" یہ سن کر غیرت مند شوہر پکار اُٹھا :'' اس شخص کو روک دو ، میں قاضی صاحب کے سامنے اقرار کرتا ہوں کہ جودعویٰ میری زوجہ نے مجھ پر کیا ہے وہ مجھ پر لازم ہے، میں پانچ سو دینار ادا کرنے کو تیار ہوں ، خدارا !میری زوجہ کا چہرہ کسی غیر مرد پر ظاہر نہ کیا جائے۔'' چنانچہ، گواہ کو روک دیا گیا۔ جب عورت نے اپنے غیرت مند شوہر کا یہ جذبہ دیکھا تو کہا :'' سب گواہ ہو جاؤ! میں نے اپنا مہرمعاف کر دیا، میں دنیا و آخرت میں اس کا مطالبہ نہ کرو ں گی، یہ مہر میرے غیرت مند شوہر کو مُبَارَک ہو۔'' محفل میں موجو د تمام لوگ میاں بیوی کے اس فیصلے پرعَش عَش کر اُٹھے ۔قاضی صاحب نے فرمایا:'' ان دونوں کا یہ معاملہ بہترین اوصاف اور اعلیٰ اخلاق پر دلالت کرتا ہے ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اس واقعہ میں ہمارے لئے بہترین سبق ہے۔کیسا غیرت مند تھا وہ شخص! کہ اپنے اوپر لازم پانچ سو (500) دینار کا اقرار تو کر لیا لیکن اس کی غیرت نے یہ گوارا نہ کیا کہ میری زوجہ کا چہر ہ کسی غیر مرد کے سامنے ظاہر ہو۔ یہ حیاء کا اعلیٰ درجہ ہے ۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ ! دعوت اسلامی کے مدنی ماحول میں یہ ترغیب دلائی جاتی ہے کہ غیرمَحْرَم سے پردہ کیا جائے اور بے پردگی کی نحوست سے خود بھی بچا جائے اور اپنے گھر والوں کو بھی بچا یاجائے ۔اسی عنوان یعنی پردے کے بارے میں احکام سے متعلق امیرِاہلسنت حضرت علامہ مولیٰناابوبلال محمد الیاس عطارؔ قادری دامت بر کاتہم العالیہ کی کتاب''پردے کے بارے میں سوال جواب '' دعوت اسلامی کے اِشاعتی ادارے'' مکتبۃالمدینہ'' سے حاصل فرمائیں خود بھی پڑھیں اور مسلمانوں کی خیرخواہی کی نیت سے تحفۃًپیش کریں ۔)"
حضرتِ ابو بَکْر صَیْدَلَانِی قُدِّسَ سِرُّہُ الرَّبَانِی سے منقول ہے، میں نے سُلَیْم بن مَنْصُوربن عَمَّار علیہم رحمۃ اللہ الغفار کو یہ کہتے ہوئے سنا:میں نے اپنے والد منصور علیہ رحمۃ اللہ الغفور کوبعد ِوصال خواب میں دیکھ کرپوچھا :
''مَا فَعَلَ اللہُ بِکَ
یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟'' انہوں نے جوا ب دیا:''اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مجھے اپنی بارگاہ میں بلایا اور فرمایا:''اے بد عمل بُڈھے! تو جانتا ہے ہم نے تجھے کیوں بخشا ؟'' میں نے کہا:'' اے میرے رحیم وکریم پروردگار عَزَّوَجَلَّ !میں نہیں جانتا ۔'' فرمایا :'' ایک دن تو نے اجتماع میں بیان کیا اور اہل اجتماع کو رُلادیا ، اس اجتماع میں ہمارا ایک ایسا بندہ بھی موجود تھا جو ہمارے خوف سے کبھی نہ رویا تھا ، تمہارا بیان سن کر وہ بھی میرے خوف سے رونے لگا۔ پس میں نے اس کی، تمہاری اور تمام شرکاءِ اجتماع کی مغفر ت فرمادی۔''
" ایک روایت میں اس طر ح منقول ہے کہ کسی نے انتقال کے بعد حضرت سیِّدُنا منصور بن عمّار علیہما رحمۃ اللہ الغفار کو خواب میں دیکھ کر پوچھا :''مَا فَعَلَ اللہُ بِکَ یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟'' کہا:'' میرے پروردگار عَزَّوَجَلَّ نے مجھ سے ان تین سو ساٹھ (360)اجتماعات کے متعلق پوچھا جن میں،میں نے اللہ عَزَّوَجَلََّ کی پاکی بیان کی تھی ، پھر ارشاد فرمایا:'' اے منصور! ہم نے تمہاری تمام خطائیں اور گناہ معاف کردیئے۔ کھڑے ہوجاؤ! جس طر ح زمین میں تم ہماری پاکی بیان کرتے تھے اسی طرح آسمان والوں کے سامنے ہماری پاکی بیان کرو۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)
؎ رحمت دا دریا الٰہی ہر دم وگدا تیرا جے اک قطرہ بخشیں مینوں کم بن جاوے میرا
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اس حکایت سے معلوم ہوا کہ نیک اجتماعات میں شرکت کرنا کتنی سعادت کی بات ہے۔ نہیں معلوم کس لمحے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت بر سے اور مغفرت کا ذریعہ بن جائے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ! جگہ بہ جگہ دعوتِ اسلامی کے سنتوں بھرے اجتماعات ہوتے ہیں ۔ ہر جمعرات مغرب کی نماز کے بعد اپنے اپنے شہرو ں میں ہونے والے دعوت اسلامی کے سنتوں بھرے اجتماع میں شرکت فرمائیں۔ اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ دین ودنیا کی ڈھیروں بھلائیاں ہاتھ آئیں گی ۔)"
" حضرت سیِّدُنا ابوعباس مُؤَدِّبْ(مُ. ءَ. دِ ّ. بْ) رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے منقول ہے، ''میرے ایک ہاشمی پڑوسی کے معاشی حالات ٹھیک نہ تھے انہوں نے اپنا ایک واقعہ کچھ اس طر ح سنایا: '' ہمارے ہاں بچے کی ولادت ہوئی توگھر میں کوئی ایسی چیز نہ تھی جو اپنی زوجہ کو کھلاتا۔ اس دُکھیاری نے مجھ سے کہا : میرے سرتاج! آپ میری حالت وکیفیت سے خوب واقف ہیں، اس وقت مجھے غذا کی اشد ضرورت ہے تاکہ میری کمزوری دور ہو ، اب میں مزید صبر کرنے کی طاقت نہیں رکھتی ۔خدا را! کچھ کیجئے۔ اپنی زوجہ کی یہ حالت دیکھ کر میں بے تا ب ہوگیا اور عشاء کی نماز کے بعد ایک دُکان دار کے پاس گیا۔ میں غلہ وغیرہ اسی سے خریدتا تھا ، مجھ پر اس کا کچھ قرض بھی تھا۔ میں نے اسے اپنے گھر کی حالت بتائی اور کچھ سامانِ خورد ونوش (یعنی کھانے پینے کا سامان )طلب کیا او رکہا کہ میں جلد ہی اس کی قیمت ادا کردو ں گا۔
لیکن اس نے صاف انکار کر دیا۔ میں ایک دوسرے دکاندار کے پاس گیا اور اپنی حالت سے آگا ہ کر کے کچھ چیزیں"
"طلب کیں۔ اس نے بھی انکار کردیا ۔ الغر ض! جس جس سے بھی امید تھی میں اس کے پاس گیا لیکن کسی نے میری مدد نہ کی۔ میں بہت رنجید ہ ہوا اور سوچنے لگا کہ اب کس کے پاس جاؤں ، کس سے اپنی حاجت طلب کرو ں۔ پھر میں دریائے دجلہ کی طرف چلا گیا ، میں نے ایک ملاح کو دیکھا جو اپنی کشتی میں بیٹھاہوا مسافروں کا انتظار کر رہا تھا۔ مجھے دیکھ کر اس نے آواز لگائی: ''میں فلاں فلاں علاقے کی سواریاں بٹھاتا ہوں اگر کوئی مسافر ہے تو آ جائے۔''
میں اس کی طر ف گیا تو وہ کشتی کنارے پر لے آیا، میں کشتی میں سوار ہوا اور ہماری کشتی دریائے دجلہ کا سینہ چیر تی ہوئی آگے بڑھنے لگی ۔ ملاح نے مجھ سے پوچھا :'' تم کہاں جانا چاہتے ہو ؟'' میں نے کہا: ''کچھ معلوم نہیں ۔'' ملاح نے متعجب ہو کر کہا: ''تجھ جیسا عجیب شخص میں نے نہیں دیکھا تم اتنی رات گئے میرے ساتھ کشتی میں بیٹھے ہو اور تمہیں معلوم ہی نہیں کہ کہا ں جانا ہے؟'' ملاح کی یہ با ت سن کر میں نے اسے اپنی حالت سے آگا ہ کیا تو وہ ہمدرد انہ لہجے میں بولا: میرے بھائی! غم نہ کرو، میں فلاں علاقے میں رہتا ہوں، جہاں تک ہو سکامیں تمہاری پریشانی حل کرنے کی کوشش کروں گا ۔ پھر اس نے ایک جگہ کشتی روکی اور مجھے دریائے دجلہ کے کنارے واقع ایک مسجد میں لے گیا اور کہا: '' میرے بھائی! اس مسجد میں حضرت سیِّدُنا مَعْرُوف کَرْخِی علیہ رحمۃ اللہ القوی دن رات عبادت میں مشغول رہتے ہیں ، تم وضو کر کے مسجد میں چلے جاؤاوراللہ عَزَّوَجَلَّ کے اس نیک بندے سے دعا کراؤ، اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ ضرور کوئی راہ نکل آئے گی۔''
میں وضو کر کے مسجد میں داخل ہو ا تو دیکھا کہ حضرت سیِّدُنا مَعْرُوف کَرْخِی علیہ رحمۃ اللہ القوی محراب میں نماز ادا فرما رہے ہیں ۔ میں نے بھی دورکعت ادا کیں اور سلام کرکے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے قریب بیٹھ گیا ۔ فراغت کے بعد آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے سلام کا جواب دیا اور کہا :''اللہ عَزَّوَجَلَّ تم پررحم فرمائے! تم کون ہو ؟'' میں نے اپنا واقعہ کہہ سنایا ، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بڑی توجہ سے میری بات سنی پھر نماز کے لئے کھڑے ہوگئے۔ باہر موسم خراب ہونے لگا، بارش زورپکڑتی جارہی تھی۔ میں بہت گھبرایا اور سوچنے لگا کہ میں اپنے گھر سے کتنا دور آ گیا ہوں، بارش بڑھتی ہی جارہی ہے، نہ جانے گھر والے کس حال میں ہوں گے۔ میں اس شدید بارش میں اپنے گھر کیسے پہنچو ں گا ۔ میں انہیں خیالات میں گم تھا کہ اچانک مسجد سے باہر کسی جانور کی آواز سنائی دی ، ایک سوار اپنی سواری سے اُترکر مسجد میں داخل ہوا اور حضرت سیِّدُنا مَعْرُوف کَرْخِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کے قریب آکر بیٹھ گیا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے نماز سے فراغت کے بعد اس سے پوچھا:"
''مَنْ اَنْتَ رَحِمَکَ اللہُ ؟
" یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ تم پر رحم کرے ،تم کون ہو؟''
اس نے کہا :'' حضور! میں فلاں شخص کا قاصد ہوں، انہوں نے آپ کو سلام بھیجا ہے اور کہا ہے کہ'' میں چادراوڑھ کر سو رہا تھا ، میں نے اپنے آپ کو اچھی حالت میں دیکھا او راپنے اوپر ایسی رحمت کی بر سات دیکھی ہے کہ اس پراللہ عَزَّوَجَلَّ کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے ، میں اپ کی بارگاہ میں کچھ نذرانہ پیش کر رہا ہوں، اسے قبول فرماکر مجھ پر احسان فرمائیں، آپ جسے مستحق"
"پائیں اسے یہ رقم عطا فرما دیں ۔''
قاصد کا پیغام سن کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا : '' یہ ساری رقم اس ہاشمی شہزادے کی خدمت میں پیش کر دو ۔'' قاصد نے کہا: '' حضور! یہ پانچ سو (500) دینار ہیں۔'' فرمایا: ''ہاں! یہ سب اسے دے دو۔'' قاصد نے ساری رقم مجھے دے دی۔ میں نے تمام رقم اپنی چادرمیں رکھی، حضرت سیِّدُنا مَعْرُوف کَرْخِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کا شکر یہ ادا کیا اور اسی وقت گھر کی طرف چل دیا، بارش میں بِھیگتا گرتا پڑتا اپنے علاقے میں پہنچا ،سیدھا دُکان دار کے پاس گیااور کہا:'' یہ دیکھو !یہ پانچ سو(500)دینار ہیں، اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنے رزق کے خزانوں میں سے مجھے عطا فرمائے ہیں۔ تمہارا جتنا مجھ پر قرض ہے وہ لے لو اور مجھے کھانے کا سامان دے دو۔ دکاندار نے کہا:''کل تک یہ رقم اپنے پاس ہی رکھو ،جو چیزیں تمہیں چاہیں وہ لے جا ؤ ۔ پھر اس نے شہد ، شکر ، تِلوں کا تیل، چاول چربی اور بہت سی کھانے کی اشیاء مجھے دیتے ہوئے کہا: ''آپ یہ تمام چیزیں اپنے گھر لے جائیں۔''میں نے کہا: '' اتنا سارا سامان میں کیسے اٹھاؤں گا۔'' کہا:'' میں آپ کی مدد کروں گا۔''کچھ سامان اس نے اُٹھایا کچھ میں نے پھر ہم دونوں گھر کی طرف چل دیئے۔ گھر پہنچے تو دیکھا کہ دروازہ کھلا ہوا تھاکیونکہ میری زوجہ اتنی کمزور ہوگئی تھی کہ دروازہ بند کرنے کی طاقت بھی نہ تھی۔ مجھے دیکھ کر شکوہ کرتے ہوئے بولی:'' اس نازک حالت میں مجھے چھوڑ کر کہا ں چلے گئے تھے؟ بھوک اورکمزوری سے میری حالت خراب ہو گئی ہے۔
میں نے کہا:'' اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل وکرم سے ہماری پریشانی دور ہوگئی، یہ دیکھو! گھی ، چربی ، شکر ، تیل اور بہت سی کھانے کی اشیاء کثیر مقدار میں ہمارے گھر میں موجود ہیں۔ یہ سن کر وہ بہت خوش ہوئی ،اس کی تکلیف جاتی رہی ۔ میں نے اسے دیناروں کے بارے میں نہ بتایا اس خوف سے کہ کہیں خوشی سے ہلاک نہ ہوجائے۔ پھر کھانا تیار ہوا سب نے کھا نا کھاکر خدائے بزرگ وبَر تر کا شکر ادا کیا۔صبح میں نے اپنی زوجہ کو وہ دینار دکھائے او رسارا قصہ سنایا۔ وہ بہت خوش ہوئی اور اس غیبی امداد پراللہ عَزَّوَجَلَّ کی پاکی بیان کی۔ پھر ہم نے کاشت کے لئے کچھ زمین خرید لی تاکہ اس سے حاصل شدہ آمدنی کے ذریعے ہمارے اخراجات پورے ہوتے رہیں۔ اس طر ح کچھ ہی عرصہ بعد حضرت سیِّدُنا مَعْرُوف کَرْخِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کی برکت سے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ہماری تنگدستی ومفلسی دور فرمادی اور اب ہم بفضلہ تعالیٰ خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ حضرت سیِّدُنا مَعْرُوف کَرْخِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کو ہماری طرف سے اچھی جزا عطا فرمائے ۔''(آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)"
" حضرت سیِّدُنا ابو بَکْر بن زَیَّات رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے منقول ہے کہ''ایک شخص حضرت سیِّدُنا مَعْرُوف کَرْخِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کی خدمت میں حاضر ہوا اورکہا: ''حضور!آج صبح ہمارے ہاں بچے کی ولادت ہوئی ، میں سب سے پہلے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس یہ خبر لے کر آیا ہوں تاکہ آپ کی برکت سے ہمارے گھرمیں خیر نازل ہو ۔'' حضرت سیِّدُنا مَعْرُوف کَرْخِی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے فرمایا: ''اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہیں اپنے حفظ وامان میں رکھے ۔یہاں بیٹھ جاؤ اورسو مرتبہ یہ الفاظ کہو:''مَا شَاءَ اللہُ کَانَ یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ نے جو چاہا وہی ہوا۔ ''اس نے سو مرتبہ یہ الفاظ دہرائے ۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' دوبارہ یہی الفاظ کہو ۔'' اس نے سو مرتبہ پھر وہی الفاظ دہرائے ۔آپ نے فرمایا:''پھر وہی الفاظ دہراؤ۔'' اس طرح پانچ مرتبہ اس کو حکم دیا ۔ چنانچہ، اس نے پانچ سو مرتبہ وہ الفاظ دہرائے۔ اتنے میں وزیر کی والدہ اُمِّ جَعْفَر کا خادم ایک خط اورتھیلی لے کر حاضر ہوا اورکہا: ''اے مَعْرُوف کَرْخِی علیہ رحمۃ اللہ القوی! اُمِّ جَعْفَر آپ کو سلام کہتی ہے ، اس نے یہ تھیلی آپ کی خدمت میں بھجوائی ہے اورکہا ہے کہ غرباء و مساکین میں یہ رقم تقسیم فرما دیں۔''
یہ سن کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے قاصد سے فرمایا:'' رقم کی تھیلی اس شخص کو دے دو، اس کے ہاں بچے کی ولادت ہوئی ہے۔ ' ' قاصد نے کہا :'' یہ پانچ سو (500)درہم ہیں،کیا سب اسے دے دوں ؟'' فرمایا:''ہاں !ساری رقم اسے دے دو۔اس نے پانچ سو مرتبہ ''مَا شَاءَ اللہُ کَانَ'' کہا تھا۔''پھراس شخص کی طرف متوجہ ہوئے اورفرمایا'': یہ پانچ سو درہم تمہیں مُبَارَک ہوں، اگر اس سے زیادہ مرتبہ کہتے تو ہم بھی اتنی ہی مقدار مزید بڑھا دیتے ۔جاؤ !یہ رقم اپنے اہل وعیال پر خرچ کرو۔''
( میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اولیائے کرام کے بتائے ہوئے اوراد ووظائف اوراللہ عَزَّوَجَلَّ کے صفاتی اسماء کی بھی بہت زیادہ برکات ہیں۔ان کا ورد کرنے سے جہاں نیکیوں کا بیش بَہا خزانہ ملتا ہے وہیں دنیوی مسائل بھی حل ہوتے ہیں۔ بانئدعوت اسلامی،امیرِاہلسنت ابو بلال حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطارؔ قادری دامت بر کاتہم العالیہ نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی خوشنودی کے لئے مسلمانوں کی خیر خواہی کے عظیم جذبے کے تحت اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بعض صفاتی ناموں کی برکتوں پرمشتمل ''چالیس (40)روحانی علاج'' نامی رسالہ مرَتَّب فرمایا ہے۔ جسے دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃالمدینہ نے شائع کیا ہے۔ اس رسالے میں ہمارے مسائل کا روحانی علاج بتایا گیا ہے۔ چند روحانی علاج درج ذیل ہیں: ''(1)۔۔۔۔۔۔یَا حَکِیْمُ: جو کو ئی روزانہ پانچوں نمازوں کے بعد اسّی (80) بار پڑھے کسی کا محتاج نہ ہو۔(2)۔۔۔۔۔۔یَا قَابِضُ:جو کوئی ہر روز تیس(30) بار پڑھے وہ دشمن پر فتح پائے۔ (3)۔۔۔۔۔۔یَا مُحْیِی: سات بار پڑھ کر اپنے اوپر دم کر لیجئے، گیس ہو یا پیٹ یا کسی بھی جگہ درد ہو یا کسی عُضو کے ضائع ہو"
جانے کا خوف ہو اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ فائدہ ہو گا اور (4)۔۔۔۔۔۔ یَا مُمِیْتُ: سات با رپڑھ کر اپنے اوپر دم کر لیا کیجئے اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ جادو اثر نہیں کریگا۔)
" حضرت سیِّدُنا اِبنِ شِیرَوَیْہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے منقول ہے کہ''ایک دن میں حضرت سیِّدُنا مَعْرُوف کَرْخِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کی خدمتِ بابرکت میں حاضر تھا، اتنے میں ایک پریشان حال، تنگدست ،غریب شخص آیا اور اپنی مفلسی کی شکایت کی۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:''اللہ عَزَّوَجَلَّ تجھے اپنی حفظ وامان میں رکھے ، اپنے اہل وعیال کی طرف لوٹ جا اوریہ الفاظ بار بار پڑھ: ''مَا شَاءَ اللہُ کَانَ،(اللہ عَزَّوَجَلَّ نے جو چاہا وہی ہوا) مَا شَاءَ اللہُ کَانَ، مَا شَاءَ اللہُ کَانَ۔''
حضرت سیِّدُنا ابن شِیرَوَیْہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ پھر وہ شخص چلا گیا۔ جب ایک پُل کے قریب پہنچا توایک سوار بہت تیز رفتاری سے آتا دکھائی دیا۔ اس نے قریب آ کر کہا :'' اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بندے! ٹھہر جاؤ۔'' تو وہ محتاج وعیال دار شخص ٹھہر گیا ، سوار نے اسے ایک تھیلی دی اورچلاگیا۔'' غریب شخص نے اپنے رفیق سے کہا: ''دیکھو! اس تھیلی میں کیا ہے ؟'' جب تھیلی کھولی تو دیناروں سے بھر ی ہوئی تھی۔ وہ بہت خوش ہوا اور اپنے رفیق سے کہا : ''آؤ، حضرت سیِّدُنا مَعْرُوف کَرْخِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کی خدمت میں حاضر ہوکر ساراواقعہ سناتے ہیں۔''چنانچہ، وہ دونوں حضرت سیِّدُنا مَعْرُوف کَرْخِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کی بارگاہ میں پہنچے ،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس شخص کو دیکھتے ہی فرمایا:'' اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بندے! جب تیری حاجت پوری ہوگئی تو واپس آنے کی کیا ضرور ت تھی؟اللہ عَزَّوَجَلَّ تجھے اپنے حفظ وامان میں رکھے ، اہل وعیال کی طرف یہ کہتے ہوئے لوٹ جاؤ: ''مَاشَاءَ اللہُ کَانَ،مَاشَاءَ اللہُ کَانَ،مَاشَاءَ اللہُ کَانَ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اس حکایت سے ہمیں درس ملاکہ جب کبھی کوئی دینی یا دنیوی پریشانی آئے تو بزرگوں کی بارگاہ میں حاضر ہوکر دعا کروانی چاہے ، اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ ان نیک ہستیوں کے صدقے ہماری مصیبتیں دورہوں گی ، خوشحالی اور سکون کی دولت میسر ہو گی ۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ پریشان حالوں کی مدد کرنا اور ان کی پریشانیاں دور کرنا نیک لوگوں کا ہمیشہ سے وطیرہ رہا ہے۔ ہر مسلمان کو چاہے کہ جتنا ہوسکے اپنے مسلمان بھائیوں ، پڑوسیوں اور رشتہ داروں کی خیر خواہی کرے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ !دعوت اسلامی کے مشکبار مدنی ماحول میں یہ سوچ دی جاتی ہے کہ جہاں تک ہوسکے اپنے مسلمان"
"بھائیوں کی پریشانیاں دورکرنی چاہیں۔'' اپنی اورساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح ''کے مقدس جذبے کے تحت دعوت اسلامی کے مدنی قافلے سفر کرتے رہتے ہیں۔ آپ بھی اس مشکبار مدنی ماحول سے وابستہ ہوکر دارین کی سعادتیں حاصل کریں۔اللہ عَزَّوَجَلَّ ہر مسلمان کو دین ودنیا کی بھلائیاں عطا فرمائے ۔ ہم سب کو ایک دوسرے کی خیر خواہی کی توفیق عطافرمائے ۔)
( آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُنا ابو سلیمان رُوْمِی علیہ رحمۃاللہ القوی سے منقول ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے خلیل صیّاد علیہ رحمۃ اللہ الجواد کو یہ کہتے ہوئے سنا: ''ایک مرتبہ میرا بیٹا شہر سے باہر کھیتوں کی طرف گیا اورگم ہوگیا ، خوب ڈھونڈالیکن کہیں نہ ملا،بیٹے کی جدائی پر اس کی والدہ غم سے نڈھال ہوگئی ۔ میں حضرت سیِّدُنا مَعْرُوف کَرْخِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کی: اے ابو محفوظ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ! میرابیٹا لاپتہ ہوگیا ہے ۔اس کی والدہ بیٹے کی جدائی میں غم سے ہَلکان ہوئی جارہی ہے۔''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ''اب تم کیا چاہتے ہو؟''میں نے کہا : ''حضور! دعا فرمائیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمارے بیٹے کو ہم سے ملوادے ۔ یہ سن کر ولئ کامل، مقبولِ بارگاہِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ، حضرت سیِّدُنا مَعْرُوف کَرْخِی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اوراس طرح التجا کی :
''اے میرے پروردگارعَزَّوَجَلَّ!بے شک تمام آسمان تیرے ہیں، زمین تیری ہے اورجو کچھ بھی ان کے درمیان ہے سب کا مالک وخالق توہی ہے ۔ میرے مالک! ان کا بچہ انہیں لوٹا دے۔''
حضرت سیِّدُنا خلیل صیّاد علیہ رحمۃ اللہ الجواد کہتے ہیں: پھر میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی اجازت سے شہر کے دروازے پر آیا تو اپنے بیٹے کو وہاں موجود پایا اس کا سانس پھول رہا تھا ۔ میں نے جب اپنے بیٹے کو دیکھاتو فرطِ محبت سے پکار ا: ''اے محمد!اے میرے بیٹے!''میری آواز سن کر وہ میری طرف لپکا۔ میں نے اسے سینے سے لگا کرپوچھا:''میرے لختِ جگرتم کہاں تھے؟'' کہا: ''ابا جان میں گندم کے کھیتوں میں مارا مارا پھر رہا تھاکہ اچانک یہاں پہنچ گیا۔'' میں اپنے بچے کو لے کر خوشی خوشی گھرکی طرف چل دیا۔یہ سب حضرت سیِّدُنا مَعْرُوف کَرْخِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کی دعا کی برکت تھی کہ مجھے میرا بیٹا مل گیا۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!دیکھا آپ نے کہ نیک لوگوں کی دعاؤں سے مصیبتیں کیسے ٹلتی اور غم دور ہوتے ہیں ۔اللہ کریم اپنے بندوں پر ہر آن کرم کی بارش برسارہا ہے جو چاہے اس بارانِ رحمت میں نہا لے ۔اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں اپنے اولیاء کرام"
"کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطافرمائے۔اور ان کی برکت سے ہمارے مصائب وآلام دُور فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)
؎ دعائے ولی میں یہ تاثیر دیکھی بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی"
" کروڑوں حنفیوں کے عظیم پیشوا،سراج الاُمّہ ،کاشف الغُمَّہ حضرتِ سیِّدُناامامِ اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے شاگردِ رشید حضرت سیِّدُنا امام ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم بن حبیب علیہ رحمۃا اللہ الحسیب اپنے بچپن کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ''ابھی میں چھوٹاساتھاکہ میرے سرسے باپ کاسایہ اُٹھ گیا۔ گھریلو حالات سازگار نہ تھے۔ میری والدہ نے مجھے ایک دھوبی کے پاس بھیج دیا تاکہ وہاں کام کروں اورجو اجرت ملے اس سے گھر کا خرچہ چلتا رہے ۔ میں وہاں جاتا اورکام کرتا ۔ میں ایک مرتبہ علم وعمل کے روشن چراغ حضرتِ سیِّدُنا امامِ اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے حلقہ درس میں بیٹھ گیا۔ مجھے ان کی باتیں بہت پسند آئیں۔ چنانچہ، میں نے دھوبی کے پاس جانا چھوڑ دیا اوراس حلقۂ درس میں شریک ہونے لگا۔ میری والدہ کو معلوم ہوا تو مجھے وہاں سے لے گئی اوردھوبی کے پاس چھوڑدیا۔ میں چھُپ چھُپ کر امام صاحب کی بارگاہ میں حاضر ہوتا جیسے ہی میری والدہ کو معلوم ہوتا مجھے وہاں سے اٹھا کر دھوبی کے پاس لے جاتی۔ حضرتِ سیِّدُناامامِ اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم میرا شوقِ علمی دیکھ کر میری طرف خاص توجہ فرماتے۔
جب معاملہ بڑھا تو ایک دن میری والدہ استاذِ محترم حضرت سیِّدُناامامِ اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کے پاس آئی اور کہا: ''میرے اس بچے کو آپ نے بگاڑ دیا ہے ۔ یہ بچہ یتیم ہے۔کوئی ایسا نہیں جو اس کی پرورش کرے ۔ میں سارا دن سُوت کاتتی ہوں جو اُجرت ملتی ہے اس سے اس کی پرورش کرتی ہوں ۔ اس امید پر کہ یہ بڑا ہوجائے اورکچھ کما کر لائے ۔ اسی لئے میں نے اسے دھوبی کے پاس بھیجا تھا کہ اس طرح کچھ نہ کچھ رقم مل جایا کرے گی اورہمارا گزارہ ہوتارہے گا۔اب یہ سب کچھ چھوڑ کر آپ کے پاس آبیٹھتا ہے ۔ ''
میری والدہ کی یہ باتیں سن کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا'' اے خوش بخت!اپنے اس بچے کو علم کی دولت حاصل کرنے دے ، وہ دن دور نہیں کہ یہ باداموں اوردیسی گھی کا حلوہ اورعمدہ فالودہ کھائے گا۔'' یہ سن کر میری والدہ بہت ناراض ہوئی اور کہا: ''لگتاہے بڑھاپے کی وجہ سے آپ کا دماغ چل گیاہے، ہم جیسے غریب لوگ باداموں اوردیسی گھی کا حلوہ کیسے کھاسکتے ہیں؟'' یہ کہہ کر میری والدہ گھر چلی آئی ۔ میں حضرتِ سیِّدُنا امام اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کی بارگاہ میں حاضر رہ کر علمِ دین سیکھتا رہا۔ آپ رحمۃ اللہ"
"تعالیٰ علیہ مجھ پر بھر پور توجہ فرماتے ۔اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ !آپ کی برکت سے مجھے علم و عمل کی بے انتہاء دولت نصیب ہوئی ، اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مجھے رِفعت وبلندی عطا فرمائی۔ میرے محسن ومُرَبِّی استاذِ محترم دنیا سے پردہ فرما چکے تھے ۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب خلیفہ ہارون الرشید نے عہدۂ قضاء میرے سپرد کردیا۔
خلیفہ ہارون الرشیدعلیہ رحمۃ اللہ المجید اکثر میری دعوت کرتے اور اپنے ساتھ کھانا کھلاتے۔ ایک مرتبہ خلیفہ نے پُر تکلُّف دعوت کا اہتمام کیا ،انواع واقسام کے کھانے چُنے گئے ۔ خلیفہ نے با داموں اور دیسی گھی کا حلوہ اور عمدہ فالودہ میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا :'' اے امام ابویو سف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ !یہ حلوہ کھائیے ، روز روز ایسا حلوہ تیارکروانا ہمارے لئے آسان نہیں ۔'' یہ سن کر میں ہنسنے لگا۔ پوچھا:'' آپ ہنس کیوں رہے ہیں ؟'' میں نے کہا :'' اللہ عَزَّوَجَلَّ خلیفہ کو سلامت رکھے ، میرے استاذِ محترم حضرتِ سیِّدُنا امام اَعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے برسوں پہلے میری والدہ سے فرمایا تھا کہ تمہارا یہ بیٹا باداموں اور دیسی گھی کا حلوہ اور فالودہ کھائے گا'' آج میرے استاذِ محترم کا فرمان پورا ہوگیا۔ پھر میں نے اپنے بچپن کا سارا واقعہ خلیفہ کو سنایا تو وہ بہت متعجب ہوئے اور فرمایا: ''بے شک علم ضرور فائدہ دیتا اور دین ودنیا میں بلندی دِلواتا ہے ، اللہ عَزَّوَجَلَّ حضرتِ سیِّدُنا امامِ اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پر اپنی کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے، جس چیز کو ان کے سر کی آنکھ نہ دیکھ سکتی اسے اپنی عقل کی آنکھ سے دیکھ لیا کرتے تھے۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)
( میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اس حکایت میں ہمارے لئے بے شمار مدنی پھول ہیں۔ علمِ دین، دنیا و آخرت میں رفعت وسُرخروئی کا باعث ہے۔ بڑے بڑے دنیا داروں کو وہ مقام و مرتبہ نہیں ملتا جو دین کے شیدائیوں کو بآسانی حاصل ہوجاتا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اولیاء کرام نگاہِ فراست سے آنے والے واقعات کو دیکھ لیتے ہیں۔ استاذ ِکامل کی تو جۂ خاص انسان کو کیا سے کیا بنادیتی ہے ۔ ہمیں چاہے کہ علمِ دین خود بھی سیکھیں اور اپنی اولاد کو بھی سکھائیں۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ !تبلیغِ قرآن و سنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے زیرِ انتظام علم وعمل کی دولت لوگو ں کو منتقل کرنے کے لئے کئی جامعات و مدارس بنام جامعۃالمدینہ اور مدرسۃ المدینہ قائم ہیں۔ یہاں نہ صرف علم کی لازوال دولت تقسیم ہوتی ہے بلکہ عمل کا جذبہ بھی دیا جاتا ہے۔اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ ! ہزارہا طلباء وطالبات علمِ دین کی دولت سے منور ہو رہے ہیں اور سینکڑوں طلباء زیورِ علم وعمل سے آراستہ ہو کر اپنی اور ساری دنیا کے لوگو ں کی اصلاح کی کو شش کے لئے مصروفِ عمل ہیں۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ دعوتِ اسلامی کو دن دُگنی رات چُگنی ترقی عطا فرمائے ۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)
؎ دعوتِ اسلامی کی قیُّوم دونوں جہاں میں مچ جائے دھوم اس پہ فدا ہو بچہ بچہ یا اللہ! میری جھولی بھر دے۔(آمین)"
" حضرتِ سیِّدُنا عبدُ الصَّمَد علیہ رحمۃ اللہ الاحد فرماتے ہیں:'' ایک رات حضرت سیِّدُنا فُضَیْل بن عِیَاض علیہ رحمۃ اللہ الوھاب اللہ ربُّ العزَّت کی بارگاہ میں اس طر ح عرض گزار ہوئے:'' اے میرے رحیم وکریم پروردگار عَزَّوَجَلَّ ! تو نے مجھے اور میرے اہل وعیال کو بھوکا رکھا ، میرے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ! تو نے مجھے اور میرے اہل وعیال کو کپڑوں کے بغیر رکھا ، تین دن ہمیں اسی حالت میں گزر گئے، میں نے اور میرے گھروالوں نے تین دن سے کچھ نہیں کھایا،مسلسل تین راتیں ہمارے گھر چراغ نہ جلا ، آخرمیرا کون سا عمل تیری بارگاہ میں مقبول ہوا ہے جس کی وجہ سے ہمارے ساتھ ایسا مبارک معاملہ ہو رہا ہے جو تیرے اولیاء کے ساتھ ہوتا ہے ؟ایسی سعادت تو تیرے پسندیدہ و برگزیدہ بندوں کو نصیب ہوتی ہے ، میرے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ! اگر چوتھا دن بھی اسی حالت میں گزرا تو میں سمجھوں گا کہ تیری بارگاہ میں میرا بھی کچھ مقام و مرتبہ ہے ۔''
راوی کہتے ہیں: '' جب صبح ہوئی اور چوتھا دن شروع ہوا تو کسی نے دروازے پر دستک دی ، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے پوچھا: ''کون ہے ؟'' جواب ملا :''میں حضرت سیِّدُنا عبداللہ ابن مُبَارَک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا قاصد ہوں، انہوں نے آپ کو دیناروں کی یہ تھیلی اور ایک رقعہ بھجوایاہے۔'' جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے خط پڑھا تو اس میں لکھا تھا ۔'' اس سال میں حج کے لئے نہیں آسکا، میں آپ کو اتنے اتنے دینار بھجوا رہا ہوں قبول فرمالیں۔ '' وَالسَّلَام !عبد اللہ بن مُبَارَک ۔
خط پڑھ کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ زار وقطار رونے لگے اور کہا :'' میں تو پہلے ہی جانتا تھا کہ میں اتنا خوش قسمت نہیں کہ مجھے بھی وہی نعمت ملے جو اولیاء کرام کو ملاکرتی ہے۔ ہم اس قابل کہا ں کہ ہمیں فقر کی لا زوال دولت حاصل ہو ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! مصائب وتکالیف کاڈَٹ کر مقابلہ کرنا چاہے اور راضی برضائے الٰہی عَزَّوَجَلَّ رہنا چاہے۔ اور یہ سعادت اہلِ حق کا حصہ ہے ۔انہیں چاہے کیسی ہی مصیبت پہنچتی، کیسی ہی پریشانی لاحق ہوتی وہ ہر گز ہرگز ناشکری اور بے صبری کا مظاہرہ نہ کرتے بلکہ اس حالت کو بہت بڑی سعادت سمجھتے۔اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ ! دعوتِ اسلامی کے مشکبار مدنی ماحول میں ہر طرح کی آزمائش پر صبر کرنے کی ترغیب دلائی جاتی ہے۔ آپ بھی دعوت اسلامی کے مشکبار مدنی ماحول سے ہر دم وابستہ رہے، اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ دنیا وآخرت سنور جائے گی ۔)"
" محمد بن جَعْفَر بن یحیی بن خالد بن بَرْمَک سے منقول ہے کہ'' جب میرا دادا یحیی بن خالد بن برمک قید میں تھا تو میرے والد نے اس سے پوچھا :'' ابا جان! ہمیں حکومت وشان وشوکت ملی، ہمارے احکامات پر عمل کیا جاتا رہا، ہماری بڑی ٹھاٹھ باٹھ تھی، اب زمانے نے ہمیں قید کر دیا اور اُونی کپڑے پہننے تک نوبت آگئی، اس کی کیا وجہ ہے ؟''میرے دادا نے کہا: ''اے میرے بیٹے! مظلوم کی پکار رات کے اندھیرے میں بلند ہوتی رہی اور ہم اس سے غافل رہے ، لیکن علیم وخبیر پروردگار عَزَّوَجَلَّ اس سے غافل نہیں، پھر چند اشعار پڑھے۔ جن کا مفہوم کچھ اس طرح ہے:'' کتنی ہی ایسی قومیں ہیں کہ ان کے صبح وشام نعمتوں اور آسائشوں میں گزرے اور زمانہ ان پر عیش وعشرت کی خوب بارش برساتا رہا، زمانہ ان سے خاموش رہا پھر جب بولا تو انہیں خون کے آنسو رُلانے لگا ۔''
اللہ عَزَّوَجَلَّ ہم سب کوا پنے حفظ وامان میں رکھے، ظالموں سے ہماری حفاظت فرمائے اور مظلوموں کا ساتھ دینے کی توفیق عطا فرمائے۔( آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! انسان کو ہر دم اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بے نیازی سے ڈرتے رہنا چاہے۔ گناہوں میں ہر وقت مستغرق رہنے کے باوجود اگر ہمیں ڈھیل دی جاتی رہے تو اس ڈھیل سے خوش نہیں ہونا چاہے، بلکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی پکڑ سے ہردم لرزاں وترساں رہنا چاہے۔ بے شک اس کی پکڑ بڑی سخت ہے۔طاقت ودولت کے نشے میں آکر کسی غریب ومظلوم کی بد دعا نہیں لینی چاہے ، کسی بے گناہ پر ظلم وستم کے تیر چلانے والا ظالم وسخت دل شخص جب عذابِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں گرفتار ہوتا ہے تو اس کی سب اَکڑ نکل جاتی ہے اور مظلوم کی دعا بہت جلد مقبول ہوتی ہے۔ ہر مسلمان کو چاہے کہ ظلم وستم اور تمام برے افعال سے اجتناب کر ے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بے نیازی سے ہردم ڈرتا رہے کہ نہ جانے ہمارے بارے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی خفیہ تدبیرکیا ہے ؟ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں اپنی دائمی رضا عطا فرمائے اور ہمارا خاتمہ بالخیر فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)"
حضرت محمد بن سلم خوَّاص علیہ رحمۃ اللہ الرزاق سے منقول ہے کہ''میں نے قاضی یحیی بن اَکْثَم کو خواب میں دیکھ کر پوچھا:'' مَا فَعَلَ اللہُ بِکَ ؟ یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا ؟'' کہا :'' اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مجھے اپنی بارگاہ میں کھڑا کیا او رفرمایا : اے
"بد عمل بڈھے !'' اگرتیرے بال سفید نہ ہوتے تو میں تجھے ضرور آگ میں جلاتا۔ ''یہ فرمان سن کر میری کیفیت وہ ہوگئی جو ایک مجرم کی اپنے آقا کے سامنے ہوتی ہے، میں بری طر ح کانپنے لگا۔ جب افاقہ ہوا تو دوبارہ ارشاد ہوا:'' اے بد عمل بڈھے! تو سفید ریش نہ ہوتا تو میں ضرورتجھے آ گ میں جلاتا۔''مجھ پرپھرہیبت طاری ہوگئی اور میں بری طر ح کانپنے لگا۔ جب حالت کچھ سنبھلی تو تیسری مرتبہ پھر اسی طر ح فرمایا ۔ میں نے بارگاہ ِخدواندی عَزَّوَجَلَّ میں عرض کی:'' اے میرے خالق ومالک ! اے رحیم و کریم ! اے عفو ودرگزر فرمانے والے !میں نے عبدالرزاق بن ہمام سے، انہوں نے مَعْمَربن راشدسے، انہوں نے ابنِ شِہَاب زُہْرِی سے، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور انہوں نے تیرے نبئ مُکرَّم ،نورِمُُجسّم، رسولِ محتشم ،شافعِ اُمم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے اور انہوں نے جبرائیلِ امین علیہ السلام سے تیرایہ فرمان سنا :'' میراوہ بندہ جسے اسلام میں پڑھاپاآئے ،اسے جہنم کا عذاب دینے سے مجھے حیا آتی ہے ۔'' تو میرے پروردگار عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا: '' عبدالرزاق ، مَعْمَر ، زُہْرِی اور اَنس سب نے سچ کہا،میرے نبی نے سچ کہا، جبریل نے سچ کہا اور میرا قول سچا ہے، اے فرشتو ! اسے جنت میں لے جاؤ ۔''
(اللآلئُ المصنوعۃ فی الأحادیث الموضوعۃ،کتاب المبتداء،ج۱،ص۱۲۵)
ایک روایت میں اس طر ح ہے، قاضی یحیی بن اَکْثَم سے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا: ''اے بوڑھے! تیرے لئے برائی ہے۔'' عرض کی: '' اے میرے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ! تیرے نبئ بر حق صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے فرمایا: ''تو اس بات سے حیاء کرتا ہے کہ اَسّی (80) سال والے بوڑھوں کو عذاب دے۔ (الجامع الصغیر، الحدیث۱۸۹۱،ص۱۱۶،مفہومًا)اے میرے خالق! میں بھی اَسّی سال دنیا میں گزار کرآیا ہوں، مجھ پر بھی کرم فرمادے۔'' اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا: ''میرے نبئ آخر الزماں نے سچ فرمایا ہے، جا! ہم نے تجھے بخش دیا۔''
؎ ہر خطا تُو درگزر کر بیکس ومجبور کی یا الٰہی مغفر ت کر بیکس ومجبور کی
( آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)"
قاضی ابو عمر محمد بن یوسف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے منقول ہے، ایک مرتبہ میرے والد ِ محترم لوگو ں کے فیصلے کر رہے تھے۔ اتنے میں خلیفہ مُعْتَضِدْ بِاللہ کا خاص غلام فیصلہ کروانے کے لئے فریقِ مخالف کے ساتھ کمرۂ عدالت میں داخل ہوا اس کاکسی معاملہ میں ایک شخص کے ساتھ جھگڑاہوگیاتھا وہ اپنے مخالف فریق کے ساتھ کھڑا ہونے کے بجائے خاص لوگو ں کی نشست پر جا بیٹھا۔
" حاجب(یعنی دربان) نے اس سے کہا :'' عدالت کے اصولوں میں سے ہے کہ فریقین ایک ساتھ کھڑے ہوں لہٰذا آپ بھی اپنے مدِّمقابل کے پاس اسی جگہ چلے جائیں جہاں وہ کھڑا ہے ۔''
حاجب کی بات کا اس نے کوئی جواب نہ دیا اور وہیں بیٹھا رہا ، خلیفہ کا خاص غلام ہو کرفیصلے کے لئے ایک عام آدمی کے ساتھ کھڑا ہونا اس کے نفس نے گوارا نہ کیا۔ اس کی اس حرکت پر میرے والد کو بہت غصہ آیا ، انہوں نے پکار کر کہا:'' تیری یہ جرأت کیسے ہوئی، تجھے تیرے فریقِ مخالف کے ساتھ کھڑے ہونے کو کہا جارہا ہے اور تو انکار کر رہا ہے؟ اے خادم! کا غذ لاؤ تا کہ میں اس شخص کو عمرو بن ابوعمر کے ہاتھوں بیچ دو ں اور اسے لکھ دو ں کہ اس کی قیمت خلیفہ کو بھجوا دو ۔پھرحاجب کوحکم دیاکہ اس کا ہاتھ پکڑکر اٹھاؤ اور دونوں فریقوں کو برابرکھڑاکردو۔''حاجب نے اسے زبردستی اٹھایااورفریقِ ثانی کے ساتھ کھڑا کر دیا۔جب مجلس قضاء برخاست ہوئی تو وہ غلام خلیفہ کے پاس جاکر رونے لگا ۔ خلیفہ نے وجہ پوچھی تو کہا: ''حضور! قاضی صاحب نے آج میری بہت بے عزتی کی اور مجھے ایک گھٹیا شخص کے ساتھ کھڑا کر دیاحا لانکہ میں آپ کا خاص خادم ہوں، میری ایک عام آدمی سے کیا برابری؟
خلیفہ نے غضب ناک ہو کر کہا :'' اگر قاضی صاحب تجھے بیچ دیتے تو میں اس بیع کونافذ رکھتا اور کبھی بھی تجھے اپنے پاس نہ بلاتا۔ میرے ہاں تیرا خاص مقام ہونا عدل وانصاف کے لئے آڑنہیں بن سکتا ۔بے شک عدل وانصاف سلطانوں کے لئے مضبوط ستون اور دین کے لئے بہترین سہارا ہے، قاضی صاحب نے جو کیا دُرست کیا ۔''
اللہ عَزَّوَجَلَّ ہر مسلمان کو حق گوئی اور حق کا ساتھ دینے کی توفیق عطا فرمائے ۔( آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُنا یوسف بن حسن رازی علیہ رحمۃ اللہ الہادی فرماتے ہیں:''مجھے بتایا گیا کہ حضرت سیِّدُنا ذُوالنُّوْن مِصْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی '' اسمِ اعظم'' جانتے ہیں۔ چنانچہ، میں مصر کی طر ف روانہ ہوا۔ سفر کی صعوبتیں بر داشت کرتا ہوا بالآخر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بارگاہ میں حاضر ہوا۔ میری داڑھی کا فی بڑھی ہوئی تھی۔ ایک بڑا ساپیالہ میرے پاس تھا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک نظر میری طرف دیکھا پھردوسری طرف متوجہ ہوگئے پھر میری طرف بالکل التفات نہ فرمایا ۔ میں بھی آس لگائے بیٹھا رہا کہ کبھی نہ کبھی تو نظرِ کرم ضرور فرمائیں گے ، اسی آس میں کافی دن گزر گئے۔
ایک دن ایک تیز طراز چرب زبان شخص جو علمِ کلام میں ماہر تھا آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس آیا اور مناظرہ کر نے لگا۔ آپ"
"رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے دلائل سے گفتگو کی لیکن وہ اپنی چرب زبانی کی وجہ سے قابو نہ آیا۔ جب میں نے یہ صورت حال دیکھی تو اس سے مناظرہ کیا اور اسے لاجواب کردیا، وہ شکست کھاکر وہاں سے چلاگیا ۔ اب حضرت سیِّدُنا ذُوالنُّوْن مِصْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی میرا مقام جان چکے تھے، آپ میرے پاس آئے مجھے گلے سے لگایا اور میرے سامنے بیٹھ گئے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ضعیفُ العمر جبکہ میں عالَمِ شباب میں تھا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کمالِ انکساری کا مظاہر ہ کیااور معذرت کرتے ہوئے فرمایا :''اے نوجوان! میں تجھے پہچان نہ سکا میں اپنے رویّے پر معذرت خواہ ہوں۔'' میں نے کہا :'' حضور! کوئی بات نہیں، میں آپ کی خدمت کرنا چاہتا ہوں۔''
چنانچہ، ایک سال تک میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت کرتا رہا، ایک دن موقع پا کر میں نے عرض کی:'' حضور ! میں ایک سال مسلسل آپ کی خدمت کرتارہا ہوں ، اب میرا حق آپ پر لازم ہوگیا ہے ، مجھے بتایاگیا ہے کہ آپ ''اسمِ اعظم'' جانتے ہیں۔ ایک سال کے عرصہ میں آپ مجھے اچھی طر ح جان چکے ہوں گے، حضور ! مجھے یقین ہے کہ میری مثل آپ کسی ایسے کو نہ پائیں گے جسے اسمِ اعظم سکھایاجائے، میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے'' اسمِ اعظم'' کی تعلیم دے دیں ۔''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ خاموش رہے اور کوئی جواب نہ دیالیکن مجھے ایسامَحسوس ہواکہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مجھے'' اسمِ اعظم'' سکھانے کے لئے راضی ہوگئے ہیں۔
میں چھ ماہ تک مزید آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت کرتا رہا، ایک دن آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک تھا ل اور رومال میں بندھی ہوئی کوئی چیز دے کر فرمایا: ''اے نوجوان! شہرِ فُسْطَاط میں رہنے والے ہمارے فلاں دوست کو تم جانتے ہو ؟'' میں نے کہا: ''جی ہاں۔'' فرمایا:'' ہماری خواہش ہے کہ تم یہ تھال اس تک پہنچا دو ،میں نے وہ تھال اُٹھایا اور فُسْطَاط کی طرف چل پڑا ، میں سوچ رہا تھا کہ ذُوالنُّوْن مِصْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی جیسا شخص فلاں شخص کو ہدیہ بھیج رہا ہے ، اس تھال میں ضرور کوئی خاص چیز ہوگی ، دیکھوں تو سہی کہ آخر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے دوست کو کیا تحفہ بھجوایا ہے۔ میں بے صبر ا ہو گیا، ایک پُل کے قریب پہنچ کر تھال نیچے رکھا اس میں نہ جانے کیا چیز تھی جسے رومال سے باندھ دیا گیا تھا، میں نے رومال کھول کر اوپر اٹھایا تو ایک چوہا نکل کر بھاگا یہ دیکھ کر مجھے بہت غصہ آیا اور دل میں کہنے لگا :'' حضرت ذُوالنُّوْن مِصْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی جیسے بندے نے مجھ جیسے شخص کے ہاتھوں اپنے دوست کو تحفہ میں چوہا بھجوا کر میرے ساتھ مذاق کیا ہے۔'' چنانچہ، اسی غصہ کی حالت میں ،مَیں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس پہنچا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے میری حالت دیکھ کر فرمایا: ''اے نادان! ہم نے تجھے آزمایا اور ایک چوہا تیرے پاس امانت رکھوا یا لیکن تو چوہے کے معاملے میں بھی خیانت کر بیٹھا، اگر میں نے'' اسمِ ا عظم'' امانتاً تیرے پاس رکھ دیا تو تیرا کیا حال ہو گا، جامجھ سے دور ہوجا۔ تو اس قابل نہیں کہ تجھے یہ دولت دی جائے ۔''"
" حضرت سیِّدُنا محمد بن مُنْذِر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مشہور محدث حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن اِدْرِیس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پڑوس میں رہا کر تے تھے۔ ان کا بیان ہے کہ'' ایک مرتبہ خلیفہ ہارون الرشید علیہ رحمۃ اللہ المجید اپنے دونوں بیٹوں امین اور مامون کو ساتھ لے کر حج کے لئے روانہ ہوئے، جب''کوفہ ''پہنچے توحضرتِ سیِّدُنا امام ابویوسف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے کہا :'' کوفہ کے تمام مُحَدِّثِیْن (مُحَدْ۔دِ۔ثِیْن) کو پیغام بھجوائیں کہ وہ ہمارے پا س آکر حدیث سنائیں۔خلیفہ کاپیغام سن کر سوائے حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن اِدْرِیس اور حضرت سیِّدُنا ابن یونُس کے تمام محدثین خلیفہ کے پاس پہنچ گئے اور حدیثیں بیان کیں۔ امین اور مامون کو جب معلوم ہوا کہ دو محدث خلیفہ کے پاس نہیں آئے تو انہوں نے خود ان کی بارگاہ میں حاضر ہونے کا ارادہ کیا۔ پہلے حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن اِدْرِیس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس پہنچ کر حدیث ِ رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سننے کی خواہش ظاہر کی ، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے انہیں 100 حدیثیں سنائیں۔ حدیث سننے کے بعد مامون نے کہا:'' چچا جان! اگر آپ اجازت عطا فرمائیں تو یہ سو حدیثیں آپ کو سنائیں۔''
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اجازت دی تو مامون نے جیسے سنی تھیں حرف بحرف اسی طر ح سنادیں ۔ حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن اِدْرِیس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جو خود بہت زیادہ مضبوط حافظہ کے مالک تھے۔ مامون الرشید کی ذہانت و فطانت دیکھ کر بہت متعجب ہوئے۔ مامون نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے کہا : ''چچا جان! آپ کی مسجد کے برابر میں دو گھر ہیں اگر آپ اجازت عطا فرمائیں تو انہیں خرید کر آپ کی مسجد کو وسیع کردیا جائے ۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' جس نے مجھ سے پہلے والوں کی کفایت کی وہ میری بھی کفایت کریگا ، مجھے ان گھر وں کی خریداری کی رغبت نہیں ۔'' مامون الرشید نے دیکھا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے جسم پرپھنسی نکلی ہوئی ہے تو کہا:'' چچاجان! ہمارے ساتھ ماہر طبیب اور بہترین دوائیں ہیں، اگرآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اجازت دیں تو ہم کسی ماہر طبیب کو بلا لائیں جو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا علاج کرے ؟'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے انکارکرتے ہوئے فرمایا :'' پہلے بھی اس کی مثل زخم ہواتھا ،جو خود بخود ٹھیک ہوگیا، اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ یہ بھی ٹھیک ہوجائے گا۔''مامون نے بہت سا مال آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو دینا چاہا لیکن آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے لینے سے انکارکردیا اور ایک درہم بھی قبول نہ کیا ۔
پھر امین ومامون حضرت سیِّدُنا ابنِ یونُس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور احادیث سنیں۔ جب واپس ہونے لگے تو خدام کو حکم دیا کہ'' حضرت سیِّدُناا بن یونُس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو دس ہزار درہم پیش کئے جائیں۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے انکار کر دیا، مامون نے سمجھا کہ شاید دس ہزار درہم کم ہیں اس لئے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ انکار فرمارہے ہیں ۔چنانچہ، اس نے بیس ہزار درہم پیش کئے ، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے لینے سے انکارکردیااور کہا :''اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! مَیں حدیثِ نبوی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ"
"وسلَّم سنانے کے عوض پانی کے چند گھونٹ اور روٹی کا ٹکڑابھی قبول نہیں کر و ں گا، خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! اگر تم اس مسجد کو چھت تک سونے سے بھر دو تب بھی میں حدیث کے عوض یہ دولت قبول نہیں کرو ں گا ۔'' یہ سن کر امین ومامون اس عظیم مُحَدِّث کے پاس سے واپس چلے آئے ،اس مردِ قلند ر نے ان سے ایک درہم بھی نہیں لیا۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)
(سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ!ہمارے بزرگانِ دین کیسے خودد ارا ورمُتَوَکِّل ہوا کرتے تھے۔ ان کی نظروں میں دنیوی دولت وشہرت کی کچھ بھی اہمیت نہ تھی ۔وہ کسی بھی دنیادار کی دنیوی آسائشوں او رنعمتوں کو دیکھ کر مرعوب نہ ہوتے بلکہ بڑے بڑے امراء ووزراء پر ان بزرگ ہستیوں کا رُعب ودبدبہ ہوتا۔ سچ ہے کہ جواللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرتا ہے ہر چیزاس سے ڈرتی ہے ، جواللہ عَزَّوَجَلَّ پر توکل کرتا ہے اسے کسی کی محتاجی نہیں ہوتی ۔ہمارے اسلاف اپنے دینی منصب کو کبھی بھی ا پنے دنیوی فائدے کے لئے استعمال نہ کرتے۔انہیں اپنے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ پر یقینِ کا مل تھا۔)"
" حضرتِ سیِّدُناسَدِی علیہ رحمۃ اللہ الولی سے منقول ہے کہ'' ایک بادشاہ بڑی عیش وعشرت سے شاہانہ زندگی گزار رہا تھا۔ اس کا ایک ہی بیٹا تھا جس کا نام ''خِضَر'' تھا۔ وہ بہت مُتّقِی وپرہیز گار تھا۔ ایک دن بادشاہ کے پاس اس کابھائی الیاس گیا اور کہا: ''بھائی جان! اب آپ کی عمر بہت ہوگئی ہے ، آپ کا بیٹا خضر حکومت میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا ، آپ خضر کی شادی کرادیں تاکہ اس کی اولاد میں سے کوئی آپ کا جانشین بن کر تختِ شاہی سنبھال لے اور اس طر ح حکومت ہمارے ہی خاندان میں رہے۔'' بھائی کی بات بادشاہ کو پسند آئی اس نے اپنے بیٹے کو بلا کر کہا: '' بیٹا ! تم شادی کرلو۔'' شہزادے نے انکار کیا تو بادشاہ نے کہا:'' تمہیں شادی ضرور کرنا پڑے گی۔ سعادت مند بیٹے نے جب باپ کا اصرار دیکھا تو شادی کے لئے تیار ہوگیا ۔ بادشاہ نے ایک دوشیزہ سے اس کی شادی کردی۔ شہزادہ اپنی رفیقۂ حیات کے پاس گیااور کہا:''مجھے عورتوں میں کچھ رغبت نہیں، اگر تو چاہے تو میرے ساتھ رہ اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کر، تیرا نان ونفقہ شاہی خزانے سے ادا کیا جائے گا۔لیکن ہمارے درمیان ازدواجی تعلق قائم نہ ہوسکے گا ، اگر اس بات پر راضی ہے تو میرے ساتھ رہ اور اگر چاہے تو میں تجھے طلاق دے دیتاہوں ؟''
سعادت مند بیوی نے کہا:'' میرے سرتاج! آپ سے دوری مجھے گوارا نہیں ،میں آپ کے ساتھ رہ کراللہ عَزَّوَجَلَّ کی"
"عبادت کرو ں گی۔'' شہزادے نے کہا:''اگر یہی بات ہے تو میرا راز کسی پر ظاہر نہ کرنا ،اگر تو میرا راز چھپائے گی تو اللہ عَزَّوَجَلَّ تجھے اپنے حفظ وامان میں رکھے گا۔ اگر میرا راز فاش کرے گی تواللہ عَزَّوَجَلَّ تجھے ہلاکت میں مبتلا کردے گا ۔'' اس نے یقین دہانی کرائی کہ میں یہ راز پوشیدہ رکھوں گی۔ چنانچہ، دونوں میاں بیوی دن رات اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت میں مشغول رہنے لگے۔ ایک سال گزرنے کے باوجود ان کے ہاں اولاد نہ ہوئی تو بادشاہ نے اپنی بہو کو بلایا اور کہا :'' میرا بیٹا بالکل نوجوان ہے تم بھی جوان ہو ، پھر بھی تمہارے ہاں اولاد کیوں نہ ہوئی؟'' سعادت مند و وفاشِعار بیوی نے کہا:'' اولاداللہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم سے ہوتی ہے، جب وہ چاہے گا اولاد عطا فرمائے گا۔'' پھر بادشاہ نے اپنے بیٹے خضر کو بلایا اور کہا:'' ایک سال گزرنے کے باوجود تمہارے ہاں اولاد کیوں نہ ہوئی ؟'' کہا :'' اولاد حکمِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ سے ہوتی ہے ، جب وہ چاہے گا عطا فرمادے گا۔''
پھر بادشاہ سے کہا گیا: شاید! یہ عورت بانجھ ہے اسی لئے اولاد نہ ہوئی ، آپ شہزادے کی شادی کسی ایسی عورت سے کرائیں جو بانجھ نہ ہو اور اس کے ہاں اولاد ہوچکی ہو۔ بادشاہ نے شہزادے کو بلایا اور حکم دیا کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دو ، شہزادے نے کہا: ''ابا جان ! اسے مجھ سے جدا نہ کریں، وہ بڑی بابر کت اور قابلِ رشک عورت ہے ۔'' بادشاہ نے کہا:'' تجھے میری بات ماننا پڑے گی، بالآخر شہزادے نے سرِتسلیم خم کرتے ہوئے مجبوراً طلاق دے دی ۔'' بادشاہ نے شہزادے کی شادی ایک بیوہ سے کرادی جس کے ہاں پہلے بھی اولاد ہوچکی تھی ۔ شہزادہ جب اپنی اس نئی دلہن کے پاس پہنچا تو اس سے بھی وہ بات کہی جو پہلی بیوی سے کہی تھی۔ اس نے بھی شہزادے کے ساتھ رہ کر عبادت کرنا منظور کرلی ، دن رات دونوں عبادتِ الٰہی میں مصروف رہتے ، ان کے درمیان ایک مرتبہ بھی ازدواجی تعلق قائم نہ ہو ا۔ سال گزرنے کے باوجود جب اولاد کے آثا ر نظر نہ آئے تو بادشاہ نے اس عورت کو اپنے پاس بلایا اور کہا: ''اپنے پہلے خاوند سے تیرے ہاں اولاد ہوئی ، اب میرے بیٹے کی اولاد تجھ سے کیوں نہ ہوئی ، حالانکہ میرا بیٹا خوبر و نوجوان ہے اور تو بانجھ بھی نہیں۔'' اس نے کہا:'' اولا د جبھی ہوتی ہے جب میاں بیوی کے درمیان ازدواجی تعلق قائم ہو آپ کا بیٹا تو ہر وقت عبادت وریاضت میں مشغول رہتا ہے ، اس نے ایک مرتبہ بھی وظیفۂ زوجیت ادا نہیں کیا۔''
بادشاہ یہ سن کر بہت غصہ ہوا ، اس نے خادم بھیج کر شہزادے کو بلوایا ، لیکن شہزادہ وہاں سے بھاگ گیا ۔ تین سپاہی اس کے پیچھے گئے تو شہزادہ مل گیا ۔ سپاہیوں نے بادشاہ کے پاس لے جانا چاہا تو اس نے جانے سے انکار کردیا ۔ دو سپاہی لے جانے پر بضد رہے توتیسرے نے کہا:'' شہزادے پر سختی نہ کرو، اگر ہم اس وقت اسے بادشاہ کے پاس لے گئے تو ہوسکتا ہے کہ بادشاہ غصہ میں آ کر اپنے اس نیک بیٹے کو قتل کروا دے۔ بہتری اسی میں ہے کہ شہزادے کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ دونوں سپاہی تیسرے کی بات سے متفق ہوگئے اور شہزادے کو وہیں چھوڑ کر بادشاہ کے پاس پہنچے۔بادشاہ نے شہزادے کے متعلق پوچھا: تودو سپاہی کہنے لگے: عالی جاہ! ہم نے تو اسے پکڑا لیا تھا لیکن ہمارے رفیق نے اسے چھڑوا دیا۔ بادشاہ نے غصہ میں آکر تیسرے سپاہی کو قید میں"
"ڈال دیا ۔ پھر بادشاہ شہزادے کے متعلق سوچنے لگا ، اچانک اس نے دونوں سپاہیوں کو بلوایا جب وہ سامنے آئے تو کہا:'' تم دونوں نے میرے بیٹے کو خوفزدہ کیا اسی لئے وہ مجھ سے دور چلاگیا ،اے جَلَّاد! انہیں پکڑ کر لے جا اور ان کے سر قلم کردے۔'' پھر شہزادے کی دوسری بیوی کو بلوایا اور کہا:'' تونے میرے بیٹے کا راز فاش کیا تیری وجہ سے وہ مجھ سے دور چلا گیا اگر تو اس کے راز کو چھپاتی تو آج وہ میری آنکھوں کے سامنے ہوتا، اے جلاد! اسے بھی قتل کردے۔'' پھر بادشاہ نے تیسرے سپاہی اور شہزادے کی مُطَلَّقَہ کو بلایا اور کہا: '' تم دونوں جہاں چاہو جاؤ، میری طر ف سے تم آزاد ہو۔''
وہ نیک سیرت عورت اپنے شہر کے دروازے کے پاس ایک چھوٹی سی جھونپڑی میں رہنے لگی۔ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر بیچتی اور اپنا گزارہ کرتی۔ایک دن ایک غریب شخص اس طر ف آنکلا اس نے جھونپڑی دیکھی توقریب آیا اور''بسم اللہ'' شریف پڑھنے لگا ، عورت اس کی آواز سن کر باہر آئی اورکہا:'' اے مسافر !کیا تواللہ عَزَّوَجَلَّ کے متعلق جانتا ہے ؟ کیا تو اس ''وَحدَہٗ لاَشریک'' ذات پر ایمان رکھتا ہے ؟'' اس نے کہا:'' ہاں ! میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کو مانتا ہوں، میں شہزادہ خضر کا دوست ہوں۔'' عورت نے یہ سنا توکہا:'' میں خضر کی مُطَلَّقَہ ہوں ۔''پھران دونوں نے شادی کرلی ، اللہ ربُّ العزَّت نے انہیں اولاد کی دولت سے نوازا اس طر ح ان کی زندگی کے شب وروز خیریت سے گزرتے رہے ۔
اس عورت کو فرعون کی بیٹی نے اپنی خادمہ رکھ لیا ایک دن اس کے سر میں کنگھی کرتے ہوئے کنگھی ہاتھ سے گر گئی ، تو اس نیک سیر ت عورت کی زبان سے بے اختیار ''سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ'' کی صدابلند ہوئی ،فرعون کی کافرہ بیٹی نے جب یہ آوازسنی تو کہا: ''کیا تُونے میرے باپ فرعون کی تعریف کی ہے ؟'' اس مؤمنہ نے جواباً کہا: '' نہیں ! میں نے تیرے باپ کی تعریف نہیں کی بلکہ میں نے تو اس پاک پرودرگار عَزَّوَجَلَّ کی پاکی بیان کی ہے جو میرا، تیرے باپ فرعون کا اور تمام کائنات کا خالق ہے ، عبادت کے لائق صرف وہی ''وَحدَہٗ لا شریک ''ذات ہے۔'' اس مؤمنہ کی ایمان بھری گفتگو سن کر فرعون کی بیٹی نے کہا: ''میں تمہارے بارے میں اپنے والد کو بتاؤں گی کہ تم اسے خدا نہیں مانتی۔'' عورت نے کہا:''بے شک بتادو۔'' فرعون کی بیٹی نے اپنے باپ کو بتایا تو اس نے نیک سیرت مؤمنہ کو اپنے پاس بلایا اور کہا:'' ہم نے سنا ہے کہ تُو ہمارے علاوہ کسی اور کو خدامانتی ہے ، تیری سلامتی اسی میں ہے کہ تُو اس نئے مذہب کو چھوڑ کر ہماری عبادت کر اور ہمیں خدا مان ورنہ تجھے دردناک سزادی جائے گی۔'' عورت نے کہا: ''جو چاہے کر، میں کبھی بھی شرک کی طرف نہ آؤں گی۔'' فرعون نے جب ایک ایمان دار اورنیک سیرت عورت کی ایمان افروز گفتگو سنی تو بہت غضب ناک ہواا ور تانبے کی دیگ میں تیل گرم کرنے کا حکم دیا۔ جب تیل خوب کھولنے لگا تو اس کے بچے کو اُبلتے ہوئے تیل میں ڈال دیا ، کچھ ہی دیر میں بچے کی ہڈیاں تیل پر تیر نے لگیں۔ظالم فرعون نے عور ت سے کہا:''کیا تو مجھے خدا مانتی ہے ؟'' اس نے کہا:'' ہرگز نہیں، میرا خدا وہی ہے جو تمام جہانوں کا خالق ومالک ہے ۔''"
" فرعون نے اس کا دوسرا لڑکا منگوایا اور اُبلتی ہوئی دیگ میں ڈال دیا ۔ پھر اس عورت کو شرک کی دعوت دی اس نے صاف انکار کر دیا۔ فرعون نے اس کے ایک اور بچے کو تیل میں ڈال دیا ۔ اسی طر ح اس باہمت صابرہ وشاکرہ عورت کے تمام بچو ں کو ابلتے ہوئے تیل میں ڈال دیا لیکن اس نے اپنا ایمان نہ چھوڑا ۔ ظالم فرعون نے حکم دیا کہ اسے بھی اس کے بچوں کی طر ح تیل میں ڈال دو! سپاہی جب اسے لے جانے لگے تو فرعون نے کہا:'' اگر تمہاری کوئی آرزو ہو تو بتاؤ۔''کہا:'' ہاں! میری ایک خواہش ہے اگر ہو سکے تو یہ کرنا کہ جب مجھے تیل کی ابلتی ہوئی دیگ میں ڈال دیا جائے اور میرا سارا گو شت جل جائے تو اس دیگ کو شہر کے دروازے پر بھجوادینا وہاں میری ایک جھونپڑی ہے دیگ اس میں رکھوا کر جھونپڑی گرا دینا تاکہ ہمارا گھر ہی ہمارے لئے قبرستان بن جائے ۔'' فرعون نے کہا:'' ٹھیک ہے، تمہاری اس خواہش کو پورا کرناہمارے ذِمَّہ ہے ۔'' پھر اس جرأ ت مند ، مؤمنہ کو اُبلتے ہوئے تیل میں ڈال دیا گیا کچھ ہی دیر بعد اس کی ہڈیاں بھی تیل کی سطح پر تیرنے لگیں۔
حضرت سیِّدُنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ'' نبئ مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم، رسولِ اَکرم، شہنشاہ ِبنی آدم، شافعِ اُمَم رسولِ مُحتَشَم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشادفرمایا:''شب ِ معراج، میں نے ایک بہترین خوشبو سونگھی تو کہا : اے جبریل (علیہ السلام)! یہ خوشبو کیسی ؟ کہا : فرعون کی بیٹی کی خادمہ اور اس کے بچو ں کی خوشبو ہے ۔''"
(کنزالعمال، کتاب الفضائل،باب فی فضائل من لیسوا من الصحابۃ وذکرہم ،الحدیث ۳۷۸۳۴،ج۱۴،ص۹)
"(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)
(سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ! کیسا پختہ ایمان تھا اس مؤمنہ،صابرہ و شاکرہ عورت کا کہ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو ایک ایک کر کے شہید ہوتا دیکھا لیکن پھر بھی اس کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی۔ خود اپنی جان دے دی لیکن ایمان کی دولت ہاتھ سے نہ جانے دی۔ خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! جنہیں ایمان کی قدر معلوم ہوتی ہے وہ کسی بھی قیمت پر لمحہ بھر کے لئے ایمان نہیں چھوڑ تے، انہیں دین وایمان کی خاطر سرکٹا نے میں لذتِ ایمانی ملتی ہے۔اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں جان دینا انہیں محبوب ہوتا ہے ، دنیا کی تمام مصیبتیں اور غم اس وقت کا فور ہوجائیں گے جب جنت کی نعمتوں میں غوطہ دیا جائے گا ۔
خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! اگر دنیا میں انسان کے پاس دنیوی نعمتوں کی بہت زیادہ کمی ہو لیکن ایمان کی دولت اس کے سینے میں ہو اور ایمان سلامت لے کر دنیا سے چلا جائے تو وہ کامیاب ہے۔ ہر مسلمان کو اپنے ایمان کی حفاظت کرنا بہت ضروری ہے۔ گناہوں کی نحوست سے ایمان خطرے میں پڑجاتاہے۔ جب بھی کوئی گناہ سرزد ہوفوراً سچے دل سے تو بہ کرلینی چاہے ۔ہوسکے توسونے سے پہلے'' صلوٰۃُ التوبہ'' پڑھ لی جائے۔"
اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمارا ایمان سلامت رکھے اور اپنی دائمی رضا سے مالامال فرمائے اورسرکارِ مدینہ ،قرارِ قلب سینہ ،با عثِ نُزولِ سکینہ، فیض گنجینہ ،صاحبِ مُعَطَّر پسینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کاسچا عشق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)
" حضرتِ سیِّدُنا اِبنِ حُبَیْق رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ''حضرتِ سیِّدُنا یوسف بن اَسْبَاط علیہ رحمۃ اللہ الجواد ایک ایسے نوجوان سے ملاقات کے لئے جاتے جو تنِ تنہا ایک جزیرے میں رہا کرتا تھا۔ دس سال تک اس نے حضرتِ سیِّدُنا یوسف بن اَسْبَاط علیہ رحمۃ اللہ الجواد سے گفتگو نہ کی ۔جب کبھی دن یا رات میں آپ اس سے ملنے جاتے اسے روتا گڑ گڑاتا ہوا پاتے۔ ایک دن آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس سے پوچھا :''اے نوجوان! کیا بات ہے؟ میں ہر وقت تجھے روتا اور گڑگڑاتا ہوا دیکھتا ہوں، آخر تم اتنا کیوں روتے ہو ؟''نوجوان نے اپنا حالِ دل بیان کر تے ہوئے کہا:'' تو بہ سے قبل میں لوگوں کے کفن چُرایا کرتاتھا۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے پوچھا :'' جب تُو قبر کھود تا تَو مردے کو کس حالت میں پاتا ؟'' کہا:'' میں نے جب بھی قبر کھودی سوائے چند کے اکثر کے منہ قبلہ سے پھر ے ہوئے دیکھے ۔''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ سنا تو بہت غمگین ہوئے اور آپ کے منہ سے بے اختیا ر نکلا: '' سوائے چند کے اکثر کے منہ پھرے ہوئے تھے!''
اس خبر سے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے دماغ پر بہت اثر ہوا حتیٰ کہ صدمے کی وجہ سے آپ کی عقل زائل ہوگئی۔ اب ضرورت تھی کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا علاج کروایا جائے۔ چنانچہ، ہم نے مشہور طبیب سلیمان کو بلایا۔ طبیب نے دیکھا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو جب بھی افاقہ ہوتا یہی کہتے : '' سوائے چند کے اکثر کے منہ قبلہ سے پھر ے ہوئے تھے۔ '' طبیب نے آپ کا علاج شروع کیا: اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ! آپ کو شفاء مل گئی۔ صحتیابی کے بعد آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ہم سے پوچھا:'' میرا علاج کرنے پر طبیب کو کیا دو گے ؟'' ہم نے کہا: ''حضور! وہ طبیب آپ کے علاج پر کچھ بھی اُجرت نہیں چاہتا۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ''سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ ! تم میرے علاج کے لئے شاہی طبیب لے کر آئے ، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں اسے کچھ بھی نہ دوں۔'' ہم نے کہا:'' اگر دینا ہی چاہتے ہیں تو سونے کی ایک اشرفی دے دیں۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک تھیلی ہماری طرف بڑھاتے ہوئے کہا:'' یہ اس طبیب کو دے دینا اور کہنا کہ اس وقت میرے پاس صرف اتناہی مال ہے یہ نہ سمجھنا کہ ہم مُرُوَّت میں بادشاہوں سے کم ہیں، اگر میرے پاس اس وقت مزید مال ہوتا تو تیری اجرت میں اضافہ کردیتا۔'' جب ہم نے تھیلی کھول کر دیکھی تو اس میں پندرہ (15)اشرفیاں تھیں، ہم نے وہ رقم طبیب کو دے دی۔"
" راوی کہتے ہیں:''حضرتِ سیِّدُنا یوسف بن اَسْبَاط علیہ رحمۃ اللہ الرزّاق اپنے ہاتھوں سے کھجور کے پتوں کی ٹوکریاں بنا کر رزقِ حلال کمایا کرتے اور مرتے دم تک یہی کام کرتے رہے۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُنا خَلَف بن تَمِیم علیہ رحمۃ اللہ الرحیم سے منقول ہے، ایک مرتبہ دو عظیم بزرگ حضرت سیِّدُنا ابراہیم بن اَ دْہَم اور حضرتِ سیِّدُناشَقِیق بَلْخِی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہما مکہ مکرمہ زَادَ ھَا اللہُ شَرَفاً وَّتَعْظِیْماً پہنچے۔ جب دونوں کی ملاقات ہوئی تو حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم بن اَدْہَم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم نے حضرتِ سیِّدُناشَقِیق علیہ رحمۃاللہ الرفیق سے پوچھا :'' وہ کون سا پہلا واقعہ ہے جس کی وجہ سے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو یہ عظمت و بزرگی نصیب ہوئی ؟''
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ایک مرتبہ میں جنگل میں تھا اچانک مجھے ایک پرندہ نظر آیا جس کے پر ٹوٹے ہوئے تھے،میں نے اپنے دل میں کہا: یہ پرندہ اپنی غذا کیسے حاصل کرتا ہوگا؟ بس اس خیال کے آتے ہی میں وہیں کھڑا ہوگیا اور ارادہ کیا کہ آج یہ دیکھ کرجاؤں گا کہ اس پرندے کو غذا کہا ں سے ملتی ہے ؟ میں وہیں کھڑا سوچتا رہا۔ کچھ دیر بعد ایک پرندہ اپنی چونچ میں ایک ٹِڈی پکڑے ہوئے وہاں آیا اوراس ٹُو ٹے پروں والے پرندے کے منہ میں وہ ٹڈی ڈال کر واپس اڑگیا۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اس شانِ رزّاقی پر میں عَش عَش کراٹھا اور اپنے نفس سے کہا :'' اے نفس! جس خدائے بزرگ وبَر تر ،خالق ومالک نے صحیح وسالم پرندے کے ذریعے جنگل وبیابان میں اس پر ٹوٹے ہوئے پر ندے کو رزق عطا فرمایا وہ پر وردگار عَزَّوَجَلَّ مجھے رزق عطافرمانے پر قادر ہے، چاہے میں کہیں بھی ہوں۔'' بس اس دن سے میں نے تمام دنیوی مشاغل ترک کردیئے اور عبادتِ الٰہی میں مصروف ہوگیا اور آج آپ کے سامنے ہوں۔''
یہ سن کر حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم بن اَ دْہَم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم نے فرمایا:'' اے شَقِیق علیہ رحمۃ اللہ اللطیف ! تم اس پر ندے کی طر ح کیوں نہ ہوگئے جوتندرست تھا اور بیمار پرندے تک اس کا رزق پہنچا رہا تھا۔ اگر تم اس جیسے ہوتے تو تمہارے لئے بہت اچھا تھا، کیا تم نے شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ، صاحبِ معطر پسینہ، باعثِ نُزولِ سکینہ، فیض گنجینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا یہ فرمانِ تقرب نشان نہیں سنا :''اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہترہے۔ ''"
(صحیح البخاری،کِتَابُ الزَّکَاۃِ،بَاب لَا صَدَقَۃَ إِلَّا عَنْ ظَہْرِ غِنًی،الحدیث۱۴۲۷،ص۱۱۲)
" اے شَقِیق علیہ رحمۃ اللہ اللطیف!مومن کی ایک نشانی یہ ہے کہ وہ اپنے تمام اُمور میں اُس مرتبے ومقام کو پسند کرتا ہے جو اعلیٰ ونفیس ہو یہاں تک کہ وہ نیکوکاروں کے مرتبہ تک پہنچ جاتا ہے ۔''حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم بن اَ دْہَم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم کی حکمت بھری باتیں سن کر حضرتِ سیِّدُنا شَقِیق بَلْخِی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا ہاتھ پکڑا اور بڑی محبت سے بوسہ دیتے ہوئے کہا: ''حضور! آج سے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ استاذاور میں شاگرد ہوں ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)
( میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! خدائے بزرگ وبَر تر تمام جہانوں کا پالنے والااپنی تمام مخلوق کو رزق عطا فرماتا ہے۔ جسے جیسے چاہتاہے رزق دیتا ہے ۔ انسان کو اس معاملے میں توکُّل کرنا چاہے کیونکہ جس کے مُقدَّر میں جو ہے وہ اسے ضرور مل کر رہے گا ۔ بس انسان اپنی سی کو شش کرتا رہے، رزقِ حلال کے لئے تگ ودو کرتا رہے لیکن یہ خیال ضرور رکھے کہ فرائض وواجبات کو ہر گز ہرگز ترک نہ کرے ورنہ خسارہ ہی خسارہ ہے۔ رزق وہی اچھا جس کی وجہ سے اعمالِ صالحہ میں تقویت ملے، اگرمعاملہ برعکس ہویعنی مال و کاروبارکی وجہ سے اعمالِ دینیہ میں کمی ہو رہی ہو تو ایسا مال وکا روبار کچھ کام نہ آئے گا۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے دعاہے کہ وہ ہمیں رزق حلال عطا فرمائے ،دنیوی اور اُخروی زندگی میں سلامتی عطا فرمائے اور ہمارا خاتمہ بالخیر فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُنا عبدُ الصَّمَد بن مَعْقِل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے منقول ہے کہ'' میں نے حضرتِ سیِّدُنا وہب بن مُنَبِّہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو فرماتے ہوئے سنا: '' بنی اسرائیل کا ایک نوجوان تختِ شاہی پر متمکِّن ہوا۔ ایک دن اس نے سوچا:'' مجھے تواپنی حکومت ومملکت میں بہت کیف وسرور محسوس ہوتا ہے ۔ کیا میری رعایا بھی میری حکومت اور تخت نشینی سے اسی طرح خوش ہے ؟ جب تک مجھے معلوم نہ ہوجائے کہ لوگ میری حکومت سے خوش ہیں اور میں ان کے درمیان فیصلوں میں عدل وانصاف سے کام لیتا ہوں اس وقت تک مجھے سکون میسَّر نہ آئے گا۔'' لوگوں نے کہا:'' عوامُ الناس بھی ملک کی بہتری چاہتے ہیں ،بس آپ عدل وانصاف سے کام لیجئے۔''
بادشاہ نے کہا:'' وہ کون سی چیز ہے جسے میں اختیار کروں تو میرے تمام معاملات درست ہوجائیں ؟'' کہا گیا:''اللہ عَزَّوَجَلَّ کی فرمانبرداری کرنا اور اس کی نافرمانی سے ہر دم بچنا ، یہ عمل آپ کو فلاح و کامرانی کی طرف لے جائے گا۔'' با دشاہ نے شہر کے نیک لوگوں کو بلایا اور کہا:'' آپ لوگ میرے شاہی دربار میں بیٹھا کر یں ، جب آپ کوئی نیک عمل دیکھیں تو مجھے اسے اختیار"
"کرنے کا حکم دیں ، اگر میں کوئی برا کام کرو ں تو مجھے زجر وتو بیخ کریں، میں آپ کی باتوں پر دل وجان سے عمل کروں گا۔''
چنانچہ، یہ نیک لوگ بادشاہ کے پاس رہتے جب بھی وہ کوئی کام کرتا تو ان بزرگوں سے مشورہ کرتا اگر اجازت دیتے تو کرتا ورنہ ترک کردیتا ۔ اس طر ح اس کے ملک میں امن وامان قائم ہوگیا ۔ وہ ملک ہر طر ح سے مضبوط و مستحکم ہوگیا۔ چار سوسال تک یہ بادشاہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت میں رہ کر حکومت کرتا رہا ، لوگ اسے بہت پسند کرتے ۔ پھر شیطان لعین اس کی طرف متوجہ ہوا اور کہا: ' ' میں نے ایک بادشاہ کو چھوڑے رکھایہاں تک کہ وہ چار سو سال سے اللہکی عبادت کررہا ہے ، اب میں اسے ضرور بہکاؤں گا۔'' چنانچہ، شیطان اس بادشاہ کے پاس انسانی صورت میں آیا، با دشاہ اسے دیکھ کر خوفزدہ سا ہوگیا پھر ڈرتے ہوئے پوچھا : '' توکون ہے ؟'' کہا: ''میں ابلیس ہوں، اگر خیریت چاہتے ہو تو بتا ؤ کہ تم کون ہو ؟'' بادشاہ نے کہا:'' میں آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہوں۔'' شیطان نے اپنا خطرناک وار کرتے ہوئے کہا:'' اگر تو آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہوتا تَو کب کا مر چکا ہوتا جیسے دوسرے انسان مرگئے۔ تو خود دیکھ لے کہ تیرے سامنے کتنے لوگ اس دنیا سے جاچکے ہیں اگر تو بھی ان کی طر ح ہوتا تو کب کا مرچکا ہوتا، تُو انسان نہیں بلکہ خدا ہے (مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ)تُو لوگو ں کو اپنی عبادت کی طرف بلا۔''
شیطان لعین کی یہ کفر یہ باتیں بیوقوف وبدبخت بادشاہ کے د ل میں اُتر گئیں اور وہ اپنے آپ کو خدا سمجھنے لگا ،پھرمنبر پر کھڑے ہوکر اس نے لوگو ں سے کہا:'' اے لوگو ں ! ایک بہت بڑا راز میں نے تم سے چھپائے رکھا ، آج تک میں نے تمہارے سامنے اس کا اظہار نہ کیا،میں چار سوسال سے تم پر حکومت کر رہا ہوں اگر میں انسان ہوتا تو جس طرح دوسرے انسان مرگئے اسی طر ح میں بھی مرچکا ہوتا ، میں انسان نہیں بلکہ خدا ہوں (مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ)آج سے تم سب میر ی عبادت کیا کرو۔'' جب بدبخت بادشاہ نے یہ کفر یہ کلمات زبان سے نکالے تو اس کو ایک جھٹکا لگا اور اچا نک اس پر لزرہ طاری ہوگیا۔اس کے دربار میں موجود کسی شخص کو حکم الٰہی پہنچا کہ'' اس سے کہہ دے کہ تو نے ایسی چیز کا دعویٰ کیا ہے جو صرف ہمارے لائق ہے تُو میری اطا عت چھوڑ کر میری نافرمانی کی طرف چل پڑا ہے ، مجھے اپنی عزت وجلال کی قسم! میں اس پر (انتہائی ظالم بادشاہ) '' بُخْتْ نَصَّرْ '' کو مسلَّط کروں گا جو اس کو واصلِ جہنم کرکے اس کا تمام خزانہ لے لے گا۔''
اس دور میں اللہ عَزَّوَجَلَّ جس سے ناراض ہوتا اس پر'' بُخْتْ نَصَّر ''کو مسلط کر دیتا ، بادشاہ کفر یہ کلمات بک کرابھی منبر سے اُتر نے بھی نہ پایا تھا کہ اس پر'' بُخْتْ نَصَّر'' کو مسلط کردیا گیا۔اس نے بدبخت ونامراد بادشاہ کوقتل کرکے اس کے خزانوں پر قبضہ کرلیا ، حاصل شدہ خزانے میں اتنا سونا تھا کہ اس سے ستر کشتیاں بھرگئیں ۔
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اس حکایت میں ہمارے لئے عبرت ہی عبرت ہے ۔ چار سو سال تک عبادتِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں مصرو ف رہنے والے بادشاہ پر جب اللہ عَزَّوَجَلَّ کی خفیہ تدبیر غالب آئی تو ایمان جیسی عظیم دولت سے محروم ہو کر دائمی عذابِ نار"
"کا مستحق ہوگیا۔ شیطان لعین جوانسان کا عدوِّ مبین(یعنی کھلا دشمن ) ہے اس کی سب سے بڑی خواہش یہی ہوتی ہے کہ مرتے وقت کسی طر ح اس کا ایمان بر باد ہوجائے۔ وہ ہر طر ح سے انسان کو راہِ ایمان سے ہٹا کر کفرکے تنگ وتاریک گڑھوں میں دھکیلنے کی کوشش کرتا ہے۔اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں شیطانی حملوں سے محفوظ رکھے ،ہمارا خاتمہ بالخیر فرمائے ، وقت نزع ہمارے پاس شیطان نہ آئے بلکہ سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگار، شفیعِ روزِ شُمار، بِاذ ْنِ پروردگاردو عالَم کے مالک و مختار عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم تشریف لائیں۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ایمان کی سلامتی عطافرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)
؎ یا الٰہی ہر جگہ تیری عطا کا ساتھ ہو جب پڑے مشکل شہِ مشکل کُشا کا ساتھ ہو !
یاالہٰی بھول جاؤں نزع کی تکلیف کو شادیئ دیدارِحسنِ مصطفی کاساتھ ہو!"
" حضرتِ سیِّدُنا حسن رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے منقول ہے کہ حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن مُبَارَک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا :''ایک مرتبہ جب میں مکہ مکرمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَکْرِیْمًا گیا تو معلوم ہوا کہ اس سال وہاں بالکل بارش نہیں ہوئی۔ پورے شہر میں قحط کی سی کیفیت تھی، لوگ مسجد حرام میں جمع ہوکر بارش طلب کر رہے تھے ۔ میں ''بابِ بنی شَیبہ'' کے قریب کھڑا تھا اتنے میں ایک سیاہ فام غلام آیااس کے جسم پردوموٹی کھردری چادریں تھیں ایک کاتہبندباندھاہوا تھا اور دوسری کندھے پر اوڑھی ہوئی تھی وہ ایک جگہ چھپ گیا،مجھے اس کی آواز سنائی دی وہ بارگاۂ خدواندی عَزَّوَجَلَّ میں اس طر ح مناجات کر رہا تھا :
''الٰہی عَزَّوَجَلَّ ! تو نے ہر طر ح کے لوگ پیدا فرمائے ،کچھ تو ایسے ہیں کہ گناہوں کا انبار ان کے سروں پر ہے اور وہ بُرے اعمال کے مرتکب ہیں۔ میرے رحیم وکریم پر وَردْگار عَزَّوَجَلَّ ! تو نے ہم سے بارش کوروک لیا تا کہ لوگو ں کو ان کے اعمال کی سزا ملے اور وہ راہ ِراست پر گامزن ہوں ۔اے حلیم ولطیف ! اے میرے پروردگار عَزَّوَجَلَّ! تیری ذات ایسی ہے کہ لوگ تجھی سے کرم کی امید رکھتے ہیں، میرے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ ! اپنے بندوں کو بارانِ رحمت عطا فرما۔''
حضرتِ سیِّدُنا ابن مُبَارَک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:'' اس غلام کی دعا مکمل بھی نہ ہونے پائی تھی کہ ہر طرف گھنگور گھٹائیں چھا گئیں ، ٹھنڈی ہوائیں بارانِ رحمت کا مژدہ سنانے لگیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے رحمت کی بر سات چھما چھم ہونے لگی مرجھائی کلیاں کھِل اُٹھیں اور ہر طرف خوشی کا سماں ہوگیا ۔وہ سیاہ فام غلام جو حقیقتاً مقبولِ بارگاہِ خداوندی تھا، اپنی جگہ بیٹھا ذکر الٰہی میں مشغول رہا۔ میرا دل بھر آیااور آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔پھر وہ نیک غلام اپنی جگہ سے اٹھا اور ایک جانب چل دیا۔ میں"
"بھی اس کے پیچھے ہولیا بالآخر وہ ایک گھر میں داخل ہوگیا میں نے اس گھر کی پہچان کرلی اور حضرت سیِّدُنا فُضَیْل بن عِیَاض علیہ رحمۃ اللہ الوھّاب کے پاس چلاآیا۔''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مجھے دیکھا تو فرمایا:'' اے ابن مُبَارَک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ! کیا بات ہے میں تمہارے چہر ے پر غم کے آثار دیکھ رہا ہوں ؟'' میں نے کہا:'' ہم لوگ پیچھے رہ گئے اور ہمارے علاوہ کوئی اور ہم پر سبقت لے گیا اور اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اسے اپنی ولایت کی دولتِ عظمیٰ عطا فرمادی ۔''
حضرتِ سیِّدُنافُضَیْل بن عِیَاض علیہ رحمۃ اللہ الوھاب نے فرمایا: ''مجھے اصل بات بتاؤ کہ آخرمعاملہ کیا ہے ؟'' میں نے اس صالح غلام کا سارا واقعہ کہہ سنایا۔ جیسے ہی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے واقعہ سنا ایک زور دار چیخ ماری اور زمین پر گِر کر تڑ پنے لگے۔پھر فرمایا: ''اے ابنِ مُبَارَک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ! تمہارا بھلا ہو ، مجھے فوراََ اس صالح غلام کے پاس لے چلو۔'' میں نے کہا:'' اب تو وقت بہت کم ہے ، اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ کل کچھ کریں گے ۔'' اگلے دن صبح صبح میں اس گھر کی طر ف چل دیا جس میں نیک سیرت غلام داخل ہواتھا ۔ وہاں پہنچا تو ایک بوڑھے شخص کودروازے کے پاس بیٹھا پایا ، وہ مجھے دیکھتے ہی پہچان گیا اور خوش آمدید کہتے ہوئے بڑے پُرتباک انداز میں ملاقات کی اور کہا:'' حضور! کوئی حکم ہو تو ارشاد فرمائیے؟'' میں نے کہا:'' مجھے ایک سیاہ فام غلام در کار ہے۔'' اس نے کہا:'' میرے پاس بہت سے سیاہ فام غلام ہیں میں سب کو بلالیتا ہوں، آپ جسے چاہیں پسند فرمالیں ۔'' یہ کہہ کر اس نے ایک غلام کو آوازدی تو ایک طاقتور غلام باہر آیا، بوڑھے نے کہا:'' حضور !یہ غلام آپ کے لئے بہت مناسب رہے گا۔'' میں نے کہا:'' مجھے یہ نہیں چاہے۔'' پھر اس نے دوسرا غلام بلایا میں نے انکار کردیا ، اس طرح اس نے سب غلام بلائے لیکن میرا مطلوب کوئی اور تھا۔ سب سے آخر میں وہی نیک سیرت غلام آیا تو اسے دیکھتے ہی میری آنکھیں نَمناک ہوگئیں میں وہیں بیٹھ گیا بوڑھے نے مجھ سے پوچھا:''کیا آپ اسی غلام کے طالب تھے ؟''
میں نے کہا:'' ہاں! مجھے اسی ہیرے کی تلاش تھی۔'' بوڑھے نے کہا:'' حضور! میں اسے نہیں بیچ سکتا ، اس کے علاوہ آپ جس غلام کو چاہیں لے جائیں۔'' میں نے کہا:'' آخرآپ اس غلام کو کیوں نہیں بیچنا چاہتے ؟'' کہا:'' اس کا ہمارے گھر میں رہنا باعث بر کت ہے ، اس مردِ صالح سے ہم بر کت حاصل کرتے ہیں، اس نے مجھ سے کبھی بھی کوئی چیز نہیں مانگی۔'' میں نے کہا: ''پھر یہ کھانا وغیرہ کہا ں سے کھاتا ہے ؟'' کہا :''یہ روزانہ اتنی رسیاں بٹتا ہے کہ نصف درہم یا اس سے کچھ زیادہ کی فروخت ہو جائیں، انہیں بیچ کر یہ اپنا کھانا وغیرہ خریدتا ہے ،اگر اس دن فروخت ہوجائیں تو ٹھیک ورنہ دوسرے دن کے لئے انہیں لپیٹ رکھتا ہے ، مجھے میرے غلاموں نے بتایا کہ یہ ساری ساری رات عبادت میں گزار دیتا ہے ، نہ کسی سے میل جول رکھتااورنہ ہی فضول باتیں کرتاہے۔ اس کی اپنی ہی دنیاہے جس میں ہروقت مگن رہتا ہے۔جب سے میں نے اس کے ان پاکیزہ خصائل کے متعلق سنا اور اس کی یہ خوبیاں دیکھیں میں اسے دل کی گہرائیوں سے چاہنے لگا ہوں۔یہی وجہ ہے کہ میں اسے خود سے دور نہیں کرنا چاہتا۔''"
"مَیں نے کہا:'' مَیں حضرتِ سیِّدُنا سُفْیَان ثَوْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی اور حضرتِ سیِّدُنا فُضَیْل بن عِیَاض علیہ رحمۃ اللہ الوھاب کے حکم پر آیا تھا، کیا ان کا کام پورا کئے بغیر واپس چلا جاؤں ؟''
یہ سن کر بوڑھے نے کہا :''آپ کے مجھ پر بہت احسانات ہیں آپ اسے لے جائیں۔'' میں نے فوراً غلام کی قیمت ادا کی اور اسے لے کر حضر تِ سیِّدُنا فُضَیْل بن عِیَاض علیہ رحمۃ اللہ الوھاب کے گھر کی طرف چل دیا۔ ابھی ہم کچھ ہی دیر چلے تھے کہ اس نیک سیرت غلام نے مجھے پکارا: میرے آقا!''میں نے کہا:''لَبَّیْک(میں حاضر ہوں)''اس نے کہا:''حضور! یہ آپ کے شایانِ شان نہیں کہ مجھے لَبَّیْک کہیں، میں توآپ کا غلام ہوں اورغلام پر لازم ہے کہ وہ اپنے آقا کو لَبَّیْک کہے۔'' میں نے کہا:'' اے میرے دوست! بتاؤ،کیا چاہتے ہو ؟'' کہا:'' حضور! میں کمزور وضعیف ہوں ،مجھ میں اتنی طا قت نہیں کہ آپ کی خدمت کر سکوں، آپ میرے علاوہ کوئی اور غلام خریدلیتے، مجھ سے کہیں زیادہ طاقتور صحت مند غلام آپ کے سامنے لائے گئے، آپ نے ان میں سے کوئی غلام کیوں نہ خرید لیا تا کہ وہ آپ کی خوب خدمت کرتا ۔''میں نے کہا :''اللہ عَزَّوَجَلَّ جانتا ہے کہ میں نے تجھے اس لئے نہیں خریدا کہ تجھ سے خدمت کراؤں، میرے دوست میں تو تیرے لئے مکان خریدکرتیری شادی کراؤں گا اوردل وجان سے تیری خدمت کرو ں گا ۔''
یہ سن کر وہ نیک سیرت غلام زار وقطار رونے لگا میں نے سببِ گریہ (یعنی رونے کا سبب )دریافت کیا تو کہا:'' آپ نے مجھے اسی لئے خریدا ہے کہ آپ نے میرے اور میرے پر وَردْگارعَزَّوَجَلَّ کے درمیان جو پوشیدہ معاملات ہیں ان میں سے کسی معاملہ کو جان لیا اگر ایسا نہ ہو تا توبقیہ تمام غلاموں کو چھوڑ کر مجھے نہ خریدتے ۔ میں آپ کواللہ عَزَّوَجَلَّ کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں، مجھے بتائیے کہ آپ میرے کون سے راز پر مُطَّلِعْ ہوئے ہیں ؟ ''میں نے کہا:'' بارگاہِ خداوند ی میں تمہاری قبولیتِ دعا کو دیکھ کر۔'' اس نے کہا: ''میرا حسن ظن ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں آپ کا مرتبہ بہت بلند ہے اور آپ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نیک بندے ہیں ، بے شک اللہ عَزَّوَجَلَّ کے کچھ بندے ایسے بھی ہیں کہ وہ ان کی شان صرف انہیں پر ظاہر فرماتا ہے جواس کے پسندیدہ اورمقبول بندے ہوتے ہیں۔''پھرکہا:میرے آقا!اگرآپ اجازت عطافرمائیں تومیں اشراق کی نمازاداکرلوں ۔''میں نے کہا:''حضرتِ سیِّدُنا فُضَیْل بن عِیَاض علیہ رحمۃ اللہ الوھاب کاگھرقریب ہی ہے وہیں چل کراداکرلینا۔'' کہا : ''حضور!مجھے یہیں اداکرنے کی اجازت دے دیں ،میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کومؤخَّرنہیں کرناچاہتا۔''پھروہ قریب ہی ایک مسجد میں داخل ہو کر نماز پڑھنے لگا،کافی دیر نمازمیں مشغول رہا اچانک اس پرعجیب کیفیت طاری ہوگئی،اس نے مجھ سے کہا:''اے ابو عبدالرحمن!کیاآپ کی کوئی حاجت ہے؟''میں نے کہا:''تم یہ کیوں پوچھ رہے ہو؟''کہا:''میراکُوچ کاارادہ ہے ۔''میں نے کہا: ''کہاں جارہے ہو؟ '' کہا: ''آخرت کی طرف روانگی ہے۔''میں نے کہا:''میرے دوست ایسی باتیں نہ کرمیں تیرارازپوشیدہ رکھوں گا۔''"
" اس نے کہا:''اس وقت میری زندگی کتنی خوشگوارتھی جب معاملہ میرے اورمیرے پروردگارعَزَّوَجَلَّ کے درمیان تھا۔ اب جب آپ پرمیرامعاملہ ظاہرہوچکاعنقریب کسی اورپربھی میراحال ظاہرہوجائے گااورمیں اس حالت میں زندہ رہناپسند نہیں کرتا۔''اتناکہہ کروہ منہ کے بَل زمین پر تشریف لے آیااورتڑپتے ہوئے بڑے دردمندانہ اندازمیں یوں مناجات کرنے لگا: ''میرے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ! مجھے ابھی ہی اپنے پاس بلالے ''پھراچانک وہ ساکت ہوگیا،میں قریب گیاتواس کی بے قرارروح قَفَسِ عُنْصُرِی سے پرواز کرکے خالقِ حقیقی عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں سجدہ ریزی کے لئے روانہ ہوچکی تھی ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم!جب بھی اس نیک سیرت غلام کاخیال آتاہے میں بہت غمگین ہوجاتاہوں اور دنیامیری نظرمیں انتہائی حقیرہوجاتی ہے۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!کتنامخلص ومقبول تھاوہ نیک سیرت غلام!حقیقت میں وہ غلام نہیں بلکہ ہماراسردارتھا۔جوبھی اللہ عَزَّوَجَلَّ کامقبول بندہ ہے وہ واقعی سرداری کے لائق ہے۔اورجوسرداروبادشاہ ،خدائے اَحْکَمُ الْحَاکِمِیْن کی اطاعت نہیں کرتے وہ اس لائق کہاں کہ انہیں عزت کی نظرسے دیکھاجائے ،ایسے بدبخت توقابلِ نفرت ومستحقِ عذاب ہیں۔اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں اخلاص عطافرمائے اوراس مقبول،مخلص وبے ریاکے صدقے ریاکاری کی تباہ کاری سے محفوظ فرمائے، ہرگھڑی عبادت کی توفیق عطافرمائے،نیکوکار اور مخلص وفرمانبرداربنائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)"
" حضرت سیِّدُنا احمدبن خَصِیب علیہ رحمۃ اللہ الحسیب وزیربننے سے قبل کاایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:''میں خلیفہ مُتَوَکِّل کی والدہ کاکاتب تھا، ایک دن میں کچہری میں بیٹھاہواتھاکہ خادم ایک تھیلالئے ہوئے میرے پاس آیااورکہا:''اے احمد!خلیفہ کی والدہ آپ کوسلام کہتی ہے ،اس نے یہ ہزار دیناربھجوائے ہیں اورکہاہے کہ'' یہ دینارمیرے حلال وطیب مال میں سے ہیں ، انہیں مُسْتَحِقِّیْن میں تقسیم کرکے ان کے نام ونسب اورمکمل پتہ لکھ کرہمیں بھجوادو تاکہ جب کبھی ان علاقوں سے کوئی ہمارے پاس آئے توہم ان کی طرف ہدیہ بھجوادیں ۔''
میں نے وہ دینار لئے اوراپنے گھرچلا آیا۔ اب میں اس فکرمیں تھاکہ ایساکون ہے جومجھے ان لوگوں کے نام بتائے جو تنگدستی وغربت کے باوجود سفیدپوش ہیں اورکسی کے سامنے دستِ سوال درازنہیں کرتے ،کیونکہ ایسے لوگ ہی مالی امداد کے زیادہ مستحق ہیں۔بالآخرشام تک میرے پاس غریب و تنگدست اور سفیدپوش وخودارلوگوں کی ایک فہرست تیارہوگئی۔میں نے تین سو (300) دینار ان میں تقسیم کردیئے،اب کوئی اورایسانہ تھاجسے رقم دی جاتی ،رات نے آہستہ آہستہ اپنے پر پھیلا دیئے ۔ میرے پاس سات سو(700)دینارموجود تھے لیکن اب کوئی بھی ایساشخص معلوم نہ تھاجس کی مدد کی جاتی۔رات کاایک حصہ گزرچکا تھا۔ میرے سامنے کچھ سرکاری غلام موجود تھے ،باہرپہرے دارپھررہے تھے،برآمدے کے دروازے بند کردیئے گئے تھے۔ میں بقیہ دیناروں کے بارے میں فکرمند تھاکہ دروازے پرکسی نے دستک دی ،پھرچوکیدار کی آوازسنائی دی وہ آنے والے سے پوچھ گَچھ کر رہاتھا۔میں نے خادم بھیجاتواس نے بتایاکہ دروازے پرایک سیدزادہ ہے جوآپ کے پاس آنے کی اجازت چاہتاہے ۔ میں نے کہا:'' اسے اندربلالاؤ پھراپنے پاس موجود تمام لوگوں سے کہا:''اس وقت یہ ضرورکسی حاجت کے پیشِ نظر آرہا ہوگا ، ہو سکتا ہے تمہارے سامنے حاجت بیان کرنے میں اسے جھجک محسوس ہوتم ایک طرف ہوجاؤ۔''جب وہ سب چلے گئے توسیدزادہ میرے پاس آیااورسلام کرے بیٹھ گیا،پھرکہنے لگا:''اس وقت آپ کے سامنے ایساشخص موجودہے جسے حضورنبئ پاک، صاحبِ لَوْلاک، سیّاحِ اَفلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے خاص قربت ہے۔اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم !ہمارے پاس ایسی کوئی چیز نہیں جس سے ہماراگزارہ ہو سکے اورنہ ہی ہمارے پاس دیگر لوگوں کی طرح درہم ودینار ہیں کہ ہم اپنے لئے کھانے کی کوئی چیز خرید سکیں۔ہمارے پڑوس میں آپ کے علاوہ ایساکوئی شخص نہیں جواس کڑے وقت میں ہماری مدد کرسکے ۔''
میں نے اس کی گفتگو سن کرایک دینار اسے دے دیا اس نے میراشکریہ اداکیااوردعائیں دیتاہوا رخصت ہوگیا۔ پھر میری زوجہ میرے پاس آئی اورکہنے لگی:'' اے بندۂ خداعَزَّوَجَلَّ ! تجھے کیاہوگیا؟خلیفہ کی والدہ نے تجھے یہ دینارمستحقین میں تقسیم"
"کرنے کودیئے تھے ،ایک سیدزادے نے تجھ سے عیال داری اورتنگدستی کی شکایت کی توتُونے صرف اسے ایک دیناردیا،افسوس ہے تجھ پر!آلِ رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ورضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے ساتھ اس طرح کابرتاؤ ہرگزمناسب نہیں ۔''اہل بیت رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی محبت سے سرشارنیک سیرت بیوی کی گفتگونے میرے دل پر بہت گہرا اثرکیا۔میں نے بے قرار ہو کر پوچھا: ''اب کیاہوسکتاہے اس غلطی کا اِزالہ کس طرح کیا جائے۔''اس نے کہا:''یہ سارے دیناراس سیدزادے کی خدمت میں پیش کر دے۔'' میں نے غلام سے کہا:''جاؤاورفوراًاس سیدزادے کوبلا لاؤ،وہ گیااوراسے لے آیا۔میں نے اس سے معذرت کی اور سات سودیناروں سے بھراتھیلا اس کے حضورپیش کردیا۔وہ دعائیں دیتااورشکریہ ادا کرتا ہوا رخصت ہوگیا۔''پھرمجھے شیطانی وسوسہ آیاکہ خلیفہ مُتَوِکِّل ساداتِ کرام سے زیادہ خوش نہیں، اس کی والدہ'' شجاع'' نے غریبوں ، مسکینوں میں تقسیم کرنے کے لئے جورقم دی تھی اس کابڑاحصہ توایک سیدزادے کی خدمت میں پیش کردیاگیا کہیں ایسانہ ہوکہ خلیفہ مجھ پرغضب ناک ہو اورمجھے سزا کاسامنا کرناپڑے۔میں نے اس پریشانی کااظہاراپنی بیوی پرکیاتواس مُتَوَکِّلَہ وصابرہ خاتون نے کہا:''آپ ان ساداتِ کرام کے نانا جان پربھروسہ رکھیں اورسارامعاملہ ان پرچھوڑ دیں ۔''
میں نے کہا:''اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بندی! تواچھی طرح جانتی ہے کہ خلیفہ متوکل ساداتِ کرام سے کیسابرتاؤ کرتاہے۔جب وہ مجھ سے اس رقم کے متعلق پوچھے گاتومیں کیاجواب دوں گا؟''اس نے کہا:''میرے سرتاج! آپ سارامعاملہ حضورنبئ مُکَرَّم، نُورِ مُجسَّم، رسولِ اَکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے سپرد کردیں ۔جس سیدزادے کی آپ نے مددکی اس کے ناناجان ہی آپ کابدلہ چکائیں گے ،آپ ان پربھروسہ رکھیں ۔''وہ اس طرح میری ڈھارس بندھاتی رہی پھرمیں اپنے بستر پرجا لیٹا۔ابھی میں سونے کی کوشش کررہاتھاکہ دروازے پر دستک ہوئی،میں نے خادم سے کہا:''جاؤ! دیکھو! اس وقت کون آیاہے؟''وہ گیا اور واپس آکرکہا:''خلیفہ کی والدہ شجاع نے پیغام بھجوایاہے کہ فوراًمیرے پاس پہنچو۔''میں صحن میں آیاتودیکھاکہ آسمان پرستارے جگمگا رہے تھے۔ رات کافی بِیت (یعنی گزر)چکی تھی ابھی میں صحن میں ہی تھاکہ دوسراقاصد آیاپھرتیسرا۔میں نے تینوں کواپنے پاس بلایا اور کہا: ''کیااتنی رات گئے جاناضروری ہے ؟ '' انہوں نے کہا:''ہاں!آپ فوراً!خلیفہ کی والدہ کے پاس چلیں ۔''
چنانچہ، میں سواری پرسوار ہو کر محل کی طرف چل دیاابھی تھوڑی ہی دورچلاتھاکہ بہت سارے قاصد ملے جومجھے بلانے آ رہے تھے۔میں محل میں پہنچا توخادم مجھے ایک سمت لے کر گیا۔ایک جگہ جاکروہ ٹھہر گیا،پھرخادمِ خاص آیااورمیرا ہاتھ پکڑ کر بولا: ''اے احمد!خلیفہ کی والدہ آپ سے گفتگو کرناچاہتی ہے جہاں آپ کوٹھہرایاجائے وہیں ٹھہرنااورجب تک سوال نہ کیا جائے اس وقت تک کچھ نہ بولنا۔''پھروہ مجھے ایک خوبصورت کمرے میں لے گیاجس میں بہترین پردے لٹک رہے تھے اورکمرے کے وسط میں شمع دان رکھاہواتھا،مجھے ایک دروازے کے پاس کھڑا کر دیاگیا۔میں چپ چاپ وہاں کھڑا رہا،پھرکسی نے بلند آواز سے"
"پکارا: اے احمد!میں نے آوازپہچان کرکہا:''اے خلیفہ کی والدہ! میں حاضرہوں ۔''پھرآوازآئی: ''ہزاردیناروں کاحساب ،بلکہ سات سو دیناروں کاحساب دو ،اتنا کہہ کرخلیفہ کی والدہ کے رونے کی آواز آنے لگی ،میں نے اپنے دل میں کہا:''اس سیدزادے نے کسی دکان سے کھانے کا سامان اورغلہ وغیرہ خریدا ہوگااورکسی مخبرنے خلیفہ کوخبردی ہوگی کہ مَیں نے اس سیدزادے کی مدد کی ہے،توخلیفہ نے مجھے قتل کرنے کاحکم دیاہوگا،جس کی وجہ سے اس کی والدہ مجھ پرترس کھاتے ہوئے رورہی ہے ،میں انہیں سوچوں میں گُم تھاکہ دوبارہ آوازآئی:اے احمد!ہزاردیناروں کاحساب دو،بلکہ سات سودیناروں کے متعلق مجھے بتاؤ۔
اتناکہہ کروہ پھرزاروقطاررونے لگی ۔اس طرح اس نے کئی مرتبہ کیااوردیناروں کے متعلق باربارپوچھا۔میں نے سارا واقعہ کہہ سنایا۔جب سید زادے کاذکرآیاتووہ رونے لگی اور کہا:''اے احمد! اللہ عَزَّوَجَلَّ تجھے اور جو تیرے گھر میں نیک خاتون ہے اسے بہترین جزاء عطا فرمائے ،کیا تو جانتا ہے کہ آج رات میرے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا ہے ؟ میں نے لا علمی کا اظہار کیا تو کہا: ''آج رات جب میں سوئی تو میری سوئی ہوئی قسمت جاگ اٹھی میں نے خواب میں حضورنبئ پاک، صاحبِ لَوْلاک، سیّاحِ اَفلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی زیارت کی، لب ہائے مبارکہ کو جُنبش ہوئی،رحمت کے پھول جھڑنے لگے اور الفاظ کچھ یوں ترتیب پائے: ''اللہ عَزَّوَجَلَّ احمد بن خَصِیب اور اس کے گھر میں موجود نیک خاتون کو بہترین جزاء عطا فرمائے ،آج رات تم لوگوں نے میری اولاد میں سے تین ایسے شخصوں کی تنگدستی دور کی جن کے پاس کچھ بھی نہ تھا، اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہیں جزائے خیر عطا فرمائے۔''
خواب سنا نے کے بعد کہا:'' اے احمد بن خَصِیب!یہ زیورات ،کپڑے اور دیناروں کی تھیلیاں اس سید زادے کو دے دینا جس کی برکت سے مجھے نبئ مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم، رسولِ اَکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کادیدار نصیب ہوا۔اس سے کہہ دینا کہ جب کبھی ہمارے پاس مال آئے گا ہم تمہارے لئے بھجوادیا کریں گے۔ پھر خلیفہ کی والدہ شجاع نے کچھ اور سامان دیتے ہوئے کہا:'' یہ زیورات، کپڑے اور دینار اپنی زوجہ کودینا اور کہنا: ''اے نیک ومُبَارَک خاتون! اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہیں اچھی جزاء عطافرمائے۔ تمہارے ہی مشورے پر اس سید زادے کو رقم دی گئی اور اس طرح مجھے دیدارِ نبی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نصیب ہوا، یہ نذرانہ قبول کر لیجئے۔ اور اے احمد! یہ کپڑے اور رقم تم اپنے پاس رکھو یہ تمہارے لئے ہیں ۔''میں تمام سامان لے کر اپنے گھر کی طرف روانہ ہوا راستے میں ہی اس سید زادے کا گھر تھا میں نے دل میں کہا:'' جس کی برکت سے مجھے اتنا انعام ملا اسی سے خیر کی ابتداء کرنی چاہے ۔''
چنانچہ، میں اس کے گھر گیا اور دروازہ کھٹکھٹایا ،اندر سے پوچھاگیا: ''کون؟ '' میں نے اپنا نام بتایا تو وہی سیدزادہ باہر آیا اور کہا: ''اے احمد! ہمارے لئے جو مال لے کر آئے ہو وہ ہمیں دے دو۔'' میں نے حیران ہو کر پوچھا:'' تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ میں تمہارے لئے ہدیہ لایا ہوں ؟''کہا : ''بات دراصل یہ ہے کہ جب میں تمہارے پاس سے رقم لایا اس وقت ہمارے پاس کچھ نہ"
"تھا میں نے تمہاری دی ہوئی رقم اپنی زوجہ کو دی تو وہ بہت خوش ہوئی اور کہا :''آؤ! ہم اس شخص کے لئے دعا کریں جس نے ہماری مدد کی ،تم نماز پڑھو اور دعا کرو میں آمین کہوں گی۔'' پس میں نے نماز پڑھ کر دعا کی اور اس نے''آمین'' کہی۔ پھر مجھ پر غنودگی طاری ہوگئی میری آنکھیں تو کیا بند ہوئیں دل کی آنکھیں کھل گئیں میں خواب میں اپنے نانا جان،رحمتِ عالَمِیان صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی زیارت سے مشرف ہوا آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے مجھ سے فرمایا :''جنہوں نے تمہارے ساتھ بھلائی کی ہم نے ان کا شکریہ ادا کردیا ہے اب وہ دوبارہ تمہیں کچھ چیزیں بطورِخیر خواہی دیں گے تم قبول کرلینا۔''
حضرت سیِّدُنااحمد بن خَصِیب علیہ رحمۃ اللہ الحسیب فرماتے ہیں: ''اس وقت میرے پاس جو کچھ بھی مال واسباب تھا سب اس سید زادے کے حضور پیش کرکے خوشی خوشی گھر چلا آیا۔ میں نے اپنی زوجہ کو مشغولِ دعا ومناجات پایا وہ کافی بے چین ومضطرب نظر آ رہی تھی ۔جب اسے میرے گھر آنے کا علم ہوا تو میرے پاس آئی اور خیریت معلوم کی میں نے جانے سے لے کر واپسی تک کا تمام واقعہ کہہ سنایا۔'' اس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شکریہ ادا کیا اور کہا:'' میں نہ کہتی تھی کہ آپ ان کے ناناجان ،رحمتِ عالمیان ،سرورِ ذیشان، سرکارِ کون ومکان صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پر بھروسہ رکھیں اور معاملہ ان کے سپرد کردیں ، دیکھیں! انہوں نے کیسا لطف وکرم فرمایا اور کیسے ہماری دستگیری فرمائی، پھر میں نے اپنی زوجہ سے کہا:اچھا! حضورصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے صدقے مجھے جو انعام ملا ہے اس کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟''حالانکہ میں نے اس کا حصہ اس کے حوالے کردیا جو اس نے بخوشی قبول کرلیا ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم)
سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ ! کیا شان ہے ساداتِ کرام اور ان کے نانا جان صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی! اس سخی گھرانے کے ساتھ جو بھی حسنِ سلوک کرتا ہے وہ محروم ومایوس نہیں ہوتا بلکہ اس پر انعام واکرام کی ایسی بارش ہوتی ہے کہ محتاجوں اور غمگینو ں کے دلوں کی مُرجھائی کَلیاں کھِل اٹھتی ہیں ،گردشِ ایام کی زد میں آکر سنسان وویران ہوجانے والے باغات میں بہار آجاتی ہے۔جس نے بھی ان مُبَارَک ہستیوں سے حُسنِ سلوک کیا وہ بے شمار پریشانیوں سے نجات پاکر شاداں وفرحاں ہوگیا۔ اور کیوں نہ ہو کہ کریموں سے تعلق رکھنے والے پر بھی ضرور کرم کیا جاتاہے ۔ساداتِ کرام چمنستانِ کرم کے مہکتے پھول ہیں ان کی خوشبو سے عالَمِ اسلام مہک رہا ہے، انہیں درخشاں ستاروں کی روشنی سے نہ جانے کتنے بھولے بھٹکے مسافروں کو نشانِ منزل ملا۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت ،عظیم المرتبت،عظیم البرکت، پروانۂ شمعِ رسالت شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن، اہل بیتِ اطہار کی شان بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
؎ کیا بات رضا ؔاس چمنستانِ کرم کی زہراء ہے کلی جس میں حسین اور حسن پھول"
" اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ہمیں اِن نُفُوسِ قُدْسِیَّہ کے صدقے دین ودنیا کی بھلائیاں عطا فرمائے ،ان ساداتِ کرام کا باادب بنائے ،بے ادبوں سے ہم سب کو محفوظ فرمائے ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں ان کی غلامی میں استقامت عطا فرمائے اور ہمارا خاتمہ بالخیر فرمائے ۔(آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم)
؎ صحابہ کا گدا ہوں اور اہلِ بیت کا خادم یہ سب ہے آپ کی نظرِ عنایت یارسول اللہ عَزَّوَجَلَّ و صلی اللہ علیہ وسلم"
" حضرتِ سیِّدُنا عبدُالصَّمَد بن مَعْقَل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے منقول ہے کہ'' میں نے حضرتِ سیِّدُنا وَہْب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا :'' گذشتہ اُمتوں میں ایک شخص تھا ، اس کی بیٹی مرگی کے مرض میں مبتلا ہوگئی۔ بہت علاج کرایا مگر کچھ افاقہ نہ ہوا۔ و ہ جس معالج کے متعلق بھی سنتا، اپنی بیٹی کو لے کر اس کے پاس پہنچ جاتا۔ لیکن اس کے علاج سے سب عاجز رہے۔بالآخر اُسے بتایا گیا کہ فلاں شخص اس وقت سب سے زیادہ متقی وپرہیزگار ہے، اگر اس کے پاس جاؤ تو تمہار ی مشکل حل ہو جائے گی۔ چنانچہ، وہ اپنی بیٹی کو لے کر اس کے پاس گیا اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کا واسطہ دے کر علاج کا سوال کیا اور بتایا کہ میں زمانے بھر کے طبیبوں اور عا ملوں سے ملا، لیکن کوئی بھی اس بیچاری کا علاج نہ کرسکا۔
اس نیک شخص نے دکھیارے باپ کی فریاد سنی تو کہا:'' مجھے اس بات کا خدشہ ہے کہ اگر میں نے تمہاری بیٹی کا علاج کردیا تو تم لوگو ں کو بتاؤگے، اس طر ح میری شہرت ہوجائے گی اور لوگ مجھے مصیبت میں مبتلا کر دیں گے۔'' لڑکی کے باپ نے عہد کیا کہ میں ہر گز کسی کو نہیں بتاؤں گا۔ چنانچہ، وہ نیک شخص علاج کرنے پر آمادہ ہوگیا۔ در اصل ایک شریر جن نے لڑکی کے جسم میں داخل ہوکر اسے اذیَّت میں مبتلا کر رکھا تھا، نیک شخص نے عمل کیا اور شریر جن کو مخاطب کر کے کہا :'' اس لڑکی کے جسم سے باہر نکل آ۔'' جن نے کہا : '' ہر گز نہیں ! یہ صرف اس صورت میں ہوسکتا ہے کہ اس کے جسم سے نکل کر تیرے جسم میں آجاؤ ں۔'' نیک شخص نے کہا : ''ٹھیک ہے ! تو اسے چھوڑدے اور میرے جسم میں داخل ہوجا۔'' چنانچہ جن لڑکی کوچھوڑ کر نیک شخص کے جسم میں داخل ہو گیا، اس نے دَم کر کے اپنے جسم کا حصار کیا اور تمام مَسام بند کر کے اسے اپنے جسم میں قید کرلیا ، پھر لڑکی کے والد سے کہا:'' اپنی بیٹی کو لے جاؤ! اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل وکرم سے اب یہ ٹھیک ہوگئی ہے۔'' اس نے کہا:''مجھے ڈر ہے کہ یہ شریر جن دو بارہ میری بیٹی کو تنگ کرنے نہ آجائے۔'' تو نیک آدمی نے کہا:'' جاؤ ! اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ! اب کبھی بھی یہ اس کی طر ف نہ آئے گا۔''"
" دُکھیارا باپ دعائیں دیتا ہوا وہاں سے رخصت ہوگیا ۔شریر جن اس مردِ صالح کے جسم میں قید تھا ، اس نے پورے ہفتے مسلسل روزے رکھے اور راتیں عبادت وریاضت میں گزاریں ،ساتویں دن شریر جن نے اس سے کہا :'' توکھاناوغیرہ کیوں نہیں کھاتاکہ تقویت حاصل ہو؟'' کہا:''جلدی نہ کر!ابھی مجھے کھانے کی حاجت نہیں ۔''جن نے کہا:''پھرمجھے چھوڑدے تاکہ تیرے جسم سے نکل جاؤں۔'' کہا:''ہرگزنہیں !اب تونہیں نکل سکتا۔''پھر نیک بندے نے مزیدایک ہفتہ روزے رکھے اورراتیں عبادت میں گزاریں اور نہ کچھ کھایانہ پیا۔جن نے کہا:توکوئی چیز کھاتا کیوں نہیں؟ کیا تو ا پنے آپ کو ہلاک کرنا چاہتا ہے ؟'' کہا: '' مجھے ابھی کھانے پینے کی حاجت نہیں ۔''
جن نے کہا:'' مجھے چھوڑدو تاکہ تمہارے جسم سے نکل جاؤ ں۔''کہا:'' ہر گز نہیں۔'' جن نے عاجز ہوکر کہا:''خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! اگر تو نے مجھے اپنے جسم سے نہ نکلنے دیا تو بھوک وپیاس کی وجہ سے میں تمہارے جسم میں مرجاؤں گا اور تو بھی ہلاک ہوجائے گا ، خدا را! مجھے چھوڑ دے ۔''نیک شخص نے کہا:'' مجھے خدشہ ہے کہ اگر میں نے تجھے چھوڑ دیا تو تُودوبارہ اس لڑکی کے پاس جاکر اسے تنگ کریگا۔'' جن نے کہا: ''خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! اب میں کبھی بھی نہ اس لڑکی کے پاس جاؤں گا اور نہ ہی کسی اور انسان کی طر ف ، تو نے میرا جو حشر کیا ہے، اس کی وجہ سے انسان میرے نزدیک سب سے زیادہ خطرناک ہوچکا ہے، اب مجھے انسانوں سے ڈرلگنے لگا ہے ۔''
جب نیک شخص نے جِنّ کی یہ باتیں سنیں تو اسے اپنے جسم سے نکلنے کا راستہ دے دیا ، جن فوراً بھاگ کھڑا ہوا اور پھر کسی انسان کو تنگ نہیں کیا بلکہ جب بھی کسی انسان کو دیکھتاتو ڈر کر بھاگ جاتا ۔
(جنات کے بارے میں مزید معلومات کے لئے دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے ''مکتبۃ المدینۃ''سے کتاب ''قوم جنات اور امیراہلسنّت''خرید فرماکر مطالعہ فرمائیں ۔ان شاء اللہ عَزَّوَجَلَّ معلومات کا ڈھیروں خزانہ ہاتھ میں آئے گا۔)"
حضرتِ سیِّدُناکَعْبُ الْا َ حْبَار علیہ رحمۃ اللہ الغفار سے منقول ہے کہ'' بنی اسرائیل کا ایک شخص تو بہ کر نے کے بعد پھر ایک بد کار عورت سے منہ کا لا کر کے غسل کر نے کے لئے نہر میں داخل ہوا تو نہرسے صدائیں آنے لگیں ،'' اے فلاں ! تجھے شرم نہیں آتی ؟ کیا تو نے توبہ کر کے یہ عہد نہ کیا تھا کہ اب کبھی یہ گناہ نہ کروں گا؟'' نہر کی صدائیں سن کر خوفزدہ ہوکر پانی سے باہر نکل آیا اور یہ کہتا ہوا وہاں سے بھاگا :'' اب کبھی بھی اپنے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی نہیں کروں گا۔ '' روتا ہوا ایک پہاڑ پر پہنچا جہاں بارہ افراد
"اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت میں مشغول تھے یہ بھی ان کے ساتھ عبادتِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں مشغول ہوگیا ، کچھ عرصہ بعد وہاں قحط پڑا توتیرہ(13) افراد پر مشتمل نیک لوگوں کا وہ قافلہ غذا کی تلاش میں پہاڑ سے نیچے اترا اور آبادی کی طرف چل دیا اتفاق سے ان کا گزر اسی نہر کی طرف سے ہوا ، وہ شخص خوف سے تھرّا اٹھا اور کہنے لگا:'' میں اس نہر کی طرف نہیں جاؤں گا کیونکہ وہاں میرے گناہوں کو جاننے والا موجود ہے ، مجھے اس کے سامنے جاتے ہوئے شرم آتی ہے ۔'' یہ کہہ کر وہ وہیں رک گیا ۔
باقی بارہ افراد جب نہر پر پہنچے تو نہر سے صدائیں آناشرو ع ہوگئیں:'' اے نیک بندو! تمہارا رفیق کہا ں ہے ؟ '' انہوں نے جواب دیا:''وہ کہتا ہے کہ اس نہر پر میرے گناہوں کو جاننے والا موجود ہے، مجھے اس کے سامنے جاتے ہوئے شرم آتی ہے۔ '' نہر سے آواز آئی: '' سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ ! اگر تمہارا کوئی عزیز تمہیں تکلیف پہنچائے پھر نادِم ہوکر تم سے معافی مانگ لے اور اپنی غلط عادت ترک کردے تو تم اس سے صلح نہ کر لوگے؟تمہارا رفیق بھی اپنے گناہ سے تائب ہوکر عبادت میں مشغول ہوگیا ہے لہٰذا اب اس کی اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے صلح ہوچکی ہے۔ اب میں اس سے راضی ہوں۔'' جاؤ! اسے یہاں لے آؤ اور تم سب میرے کنارے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کرو ۔'' انہوں نے اپنے رفیق کو خوشخبری دی اور پھر یہ سب مل کر وہاں مشغولِ عبادت ہوگئے ۔ وہیں ا س نیک شخص کا انتقال ہوا، نہر سے آوازیں آنے لگیں،'' اے نیک بندو ! اسے میرے پانی سے غسل دو اور میرے ہی کنارے دفن کرو تا کہ بر وزِ قیامت بھی وہ یہیں سے اٹھایا جائے۔ ''
چنانچہ، انہوں نے ایسا ہی کیا اورساری رات اس کے مزار کے قریب عبادت کرتے اور روتے ہوئے گزاری ، وقتِ سحر انہیں نیند نے آ لیا، جب جاگے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اس نیک شخص کے مزار کے اطراف میں سَرْو(۱) کے بارہ درخت کھڑے تھے ، زمین پر سب سے پہلے سرو (یعنی صنوبر ) کے درخت یہیں اُگے، یہ سب سمجھ گئے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے یہ درخت ہمارے لئے ہی پیدا فرمائے ہیں، تاکہ ہم کہیں اور جانے کی بجائے ان کے سائے میں ہی رہیں اور یہیں رہ کر اپنے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کریں۔ چنانچہ وہ لوگ وہیں عبادت میں مشغول ہوگئے۔ جب ان میں سے کسی کا انتقال ہوتا تو اسی شخص کے پہلو میں دفن کردیا جاتا حتیٰ کہ سب وفات پاگئے۔ اس حکایت کو نقل کرنے کے بعد حضرت سیِّدُنا کَعْبُ الْا َ حْبَار رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:'' نبی اسرائیل ان کے مزارات کی زیارت کے لئے آیا کرتے تھے ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم)
( میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کتنا مہربان اوررحمن ورحیم ہے، جب کوئی بندہ سچے دل"
"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔۔۔۔۔۔ایک خوبصورت مخروطی (گاجرکی) شکل کا قدآوردرخت جواکثرباغات میں لگایاجاتاہے(جسے صنوبرکادرخت کہاجاتاہے)۔"
سے تائب ہوتا ہے تو اس سے خوش ہوجاتا ہے ۔ یہ درس بھی ملاکہ گناہ کر نے والااگرچہ لاکھ پردوں میں چھپ کرگناہ کرے اللہ عَزَّوَجَلَّ تو دیکھ ہی رہا ہے ۔ لہٰذا انسان کو ہر وقت رب عَزَّوَجَلَّ سے ڈرتے رہنا چاہے اور گناہوں سے کنارہ کَشی اختیار کرتے ہوئے اعمالِ صالحہ کو اپنا وَطِیرہ بنانا چاہے ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں گناہوں سے بچاکر اعمالِ صالحہ کی تو فیق عطا فرمائے۔(آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم))
" حضرتِ سیِّدُنا ابو الحسین دَرَّاج علیہ رحمۃ اللہ الوہاب سے منقول ہے کہ'' ایک مرتبہ مَیں حاجیوں کے ایک قافلے کے ساتھ سوئے حرم روانہ ہوا۔جہاں قافلہ ٹھہرتامجھے بھی ٹھہرنا پڑتا اور دیگر معاملات میں بھی ان کے ساتھ کام وغیرہ کرنا پڑتا۔اس طر ح اس سال میرا تمام سفر ان قافلے والوں کے ساتھ رہا اور حج سے واپسی بھی انہیں کے ساتھ ہوئی۔ پھر ایک سال میں اکیلا ہی سفرِ حج پر روانہ ہو گیا اور منزلوں پر منزلیں طے کرتا ہوا ''قادسیہ'' پہنچا ۔میں ایک مسجد میں گیا تو محراب میں ایک ایسے شخص کو دیکھا جس کے جسم کو کوڑھ کے مرض نے بہت زیادہ متاثر کر رکھا تھا ۔
اس نے مجھے دیکھ کر سلام کیا اور کہا:'' اے ابوالحسین! کیا تمہارا حج کا ارادہ ہے ؟'' مجھے اسے دیکھ کر بہت زیادہ کراہت محسوس ہو رہی تھی ،اس بات پر غصہ بھی آیا کہ اس نے مجھے مخاطب کیوں کیا؟ میں نے بڑی بے رُخی سے کہا:'' ہاں! میرا حج کا ارادہ ہے۔'' کہا:'' پھر مجھے بھی اپنا رفیق بنالیں۔'' میں نے دل میں کہا:''یہ کیسی مصیبت آگئی میں تو تندرست لوگو ں کی رفاقت پسند نہیں کرتا، وہاں سے بھاگا ہوں تو اس کوڑھی وبیمار شخص سے واسطہ پڑگیا ، میں نے کہا:'' میں تمہیں اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتا ۔ '' اس نے کہا: ''مہربانی کرو، مجھے اپنے ساتھ رکھ لو۔'' میں نے کہا: '' خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! میں ہر گز تجھے اپنا رفیق نہ بناؤں گا۔'' اس نے کہا:''اے ابو الحسین! اللہ عَزَّوَجَلَّ ناتوانوں اور کمزوروں کو ایسا نواز تا ہے کہ طاقتور بھی تعجب کرنے لگتے ہیں۔''
میں نے کہا:'' تمہاری بات ٹھیک ہے ،لیکن میں تمہیں اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتا۔'' عصر کی نماز پڑھ کر میں سفر پر روانہ ہوا ، صبح ایک بستی میں پہنچا تو اسی شخص سے ملاقات ہوئی اس نے مجھے سلام کیا اور وہی الفاظ کہے ، '' اللہ عَزَّوَجَلَّ ضعیف وناتواں بندوں کو ایسا نواز تا ہے کہ طاقتور بھی تعجب کرنے لگتے ہیں ۔'' اس کی یہ بات سن کر میں بڑا حیران ہو ا مجھے اس کو ڑھی شخص کے بارے میں عجیب وغریب خیال آنے لگے ، میں وہاں سے اگلی منزل کی طرف روانہ ہوا۔ جب مقامِ ''قَرْعَاء'' پہنچ کر نماز پڑھنے مسجد میں داخل ہواتو اسے وہاں بیٹھا دیکھا ،اس نے کہا:'' اے ابو الحسین ! اللہ عَزَّوَجَلَّ ضعیف ناتو اں بندوں کو ایسا نواز تاہے کہ"
"طاقتو ر وں کی عقلیں دنگ رہ جاتی ہیں۔ '' میں فوراً اس کے پاس گیا اور قدموں میں گر کر عرض کی: '' حضور !میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے معافی کا طلبگارہوں اور آپ سے بھی معافی کی درخواست کرتا ہوں مجھے معاف فرمادیں ۔''
اس نے کہا : ''تجھے کیاہوا؟ '' میں نے کہا:'' مجھ سے غلطی ہوگئی کہ آپ کو اپنے ساتھ نہ رکھا ،اب کرم فرمائیں مجھے معاف فرمادیں آپ بخوشی میرے ساتھ سفر کریں ۔'' اس نے کہا:'' کیا تو نے مجھے اپنے ساتھ نہ رکھنے کی قسم نہ کھائی تھی؟'' میں تمہاری قسم نہیں تڑوانا چاہتا۔''میں نے کہا:''اچھا پھر اتناکرم فرمائیں کہ ہر منزل پراپنا دیدار کرا دیاکریں۔''اس نے کہا:''ہاں! یہ ہوسکتا ہے ، اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہاری یہ خواہش پوری ہوجائے گی۔'' پھر وہ مجھ سے جدا ہوگیا ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے اس نیک بندے کی برکت سے میرا بھوک وپیاس اور تھکاوٹ کا احساس جاتا رہا۔ جب بھی میں کسی منزل پر ٹھہرتا تو اس نیک بندے کی زیارت کا شوق بڑھ جاتا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ !مجھے ہر منزل پر اس بزرگ کی زیارت ہوتی رہی یہاں تک کہ میں مدینۂ منورہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا میں داخل ہوگیا ۔ اس کے بعد مجھے وہ نظر نہ آیا ۔
جب مکۂ معظمہ زَادَہَا اللہُ شَرَفًا وَّتَکْرِیْمًا میں حضرتِ سیِّدُنا ابو بَکْر کَتَّانی اور حضر تِ سیِّدُنا ابو الحسن مُزَیِّن رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہما سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا اور انہیں اپنے سفر کا سارا واقعہ سنایا تو انہوں نے فرمایا:'' ارے نادان ! جانتے ہو، وہ کون تھے ؟ وہ زمانے کے مشہور ولی حضرت سیِّدُنا ابوجَعْفَر مجذوم علیہ رحمۃ اللہ القَیُّوْم تھے۔''ہم اللہ عَزَّوَجَلَّ سے دعا گو ہیں کہ اپنے اس ولی کا ہمیں دیدار کرادے۔ سنو! اب جب بھی تمہاری ان سے ملاقات ہو تو ہمیں ضرور بتا نا ، شاید ہمیں بھی ان کے دیدار کی دولت نصیب ہو جائے ۔ میں نے کہا:'' ٹھیک ہے۔'' پھر ہم '' مِنٰی وعرفات '' کی طرف گئے لیکن میں ان کا دیدار نہ کر سکا ، دسویں ذُوالْحِجَّۃُ الْحَرَام کو جب میں رمئ جمارکرنے (یعنی شیطان کو کنکریاں مارنے) لگا تو کچھ دیر بعد کسی شخص نے مجھے اپنی طرف کھینچا اور کہا:'' اے ابوالحسن! السلام علیکم۔'' جیسے ہی میں نے پیچھے مڑکر دیکھا تو میرے سامنے وہی بزرگ حضرت سیِّدُنا ابو جَعْفَر مجذوم علیہ رحمۃ اللہ القَیُّوْم موجود تھے۔ انہیں دیکھتے ہی مجھ پر رِقَّت طاری ہوگئی میں بے ہوش ہوکر گر پڑا۔ جب میرے حواس بحال ہوئے تو وہ وہاں سے جا چکے تھے ۔ میں مسجد ''خیف'' آیا اور اپنے رفقاء کو سارا واقعہ بتایا ۔''یومِ وَدَاع کو مقامِ ابراہیم پر دو رکعت نماز پڑھنے کے بعد میں نے جیسے ہی دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اچانک کسی نے مجھے اپنی طرف کھینچا ، دیکھا تو وہی بزرگ حضرت سیِّدُنا ابوجَعْفَر مجذوم علیہ رحمۃ اللہ القَیُّوْم موجود تھے اور فرمارہے تھے،'' اے ابو الحسن! بالکل نہ گھبرانا اور نہ ہی شور مچانا۔'' میں نے کہا:'' ٹھیک ہے، میں شور نہیں کرو ں گا ، آپ میرے لئے دعا فرمادیں ۔'' انہوں نے فرمایا:'' جومانگنا چاہتے ہو، مانگو۔'' چنانچہ، میں نے بارگاہِ خدا وندی عَزَّوَجَلَّ میں تین مرتبہ دعا کی او رانہوں نے میری دعا پر آمین کہا ۔ پھر وہ میری نظروں سے اوجھل ہوگئے اور دوبارہ نظر نہ آئے ۔
جب مجھ سے کسی نے میری تین دعاؤں کے متعلق پوچھا تو میں نے بتایا:''میری پہلی دعا یہ تھی کہ اے میرے پاک"
"پروردگار عَزَّوَجَلَّ!میرے نزدیک فقر کو ایسا محبوب بنادے کہ دنیا میں مجھے اس سے زیادہ محبوب کوئی شئے نہ ہو۔ اور دوسری یہ تھی کہ مجھے ایسا نہ بنانا کہ میری کوئی رات اس حالت میں گزرے کہ صبح کے لئے کوئی چیز ذخیرہ کر رکھی ہو۔'' اور پھر ایسا ہی ہوا کئی سال گزر گئے لیکن میں نے کوئی چیز اپنے پاس ذخیر ہ کر کے نہ رکھی ۔ اور تیسری دعا یہ تھی: ''اے میرے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ ! جب تو اپنے اولیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کو اپنے دیدار کی دولتِ عظمیٰ سے مشرف فرمائے تو مجھے بھی ان اولیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ میں شامل فرمالینا ۔''
مجھے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ سے اُمید ہے کہ میری ان دعاؤں کو ضرور پورا فرمائے گا کیونکہ ان پر ایک ولئ کا مل نے آمین کہا تھا۔ (اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم)
( میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اللہ عَزَّوَجَلَّ بے نیاز ہے وہ اپنے اولیاء کرام کو جس حال میں چاہے رکھے ، چاہے تو ایسا مشہور فرمائے کہ چہار دانگ ِ عالَم میں ان کی ولایت کے ڈَنکے بجنے لگیں اور چاہے تو ایسا پوشیدہ رکھے کہ بالکل قریب رہنے والے بھی نہ پہچان سکیں،بلکہ عام لوگ ان کو حقارت بھری نظر وں سے دیکھیں اور اپنے ساتھ رکھنا بھی پسند نہ کریں ۔ وہ خالقِ کائنات عَزَّوَجَلَّ اپنے نیک بندوں کو جس حال میں بھی رکھے وہ اس سے خوش رہتے ہیں ،کبھی بھی حرفِ شکایت لب پر نہیں لاتے ۔ہمیں چاہے کہ ہم کسی بھی مسلمان کو حقیر نہ سمجھیں، نہیں معلوم، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں کس کا کیا مقام ہو ، بعض پر اگندہ حال ، بکھرے بالوں والے بظاہر کچھ بھی نظر نہ آنے والے اس مقام پر فائز ہوتے ہیں کہ اللہ ربُّ العزَّت اُن کے منہ سے نکلی ہوئی بات کو رد نہیں فرماتا۔
؎ بکھرے بال، آزُرْدَہ صورت، ہوتے ہیں کچھ اہلِ محبت بدرؔ مگر یہ شان ہے اُن کی، بات نہ ٹالے ربُّ العزَّت
ان کے خالی ہاتھوں میں دین ودنیا کی دولت ہوتی ہے اور جو اُن سے عقیدت رکھتا ہے اسے بہت کچھ مل جاتا ہے۔ بلاشبہ وہ گڈری کے لعل ہوتے ہیں۔)
؎ نہ پوچھ! اِن خرقہ پوشوں کی ارادت ہو تو دیکھ ان کو یدِ بیضا لئے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں"
حضرتِ سیِّدُنا ابوحَازِم علیہ رحمۃ اللہ الدائم فرماتے ہیں: ''مجھے کسی شخص نے ایک عبرت ناک واقعہ کچھ یوں سنایا: ''ایک مرتبہ جنگل بیابان میں مجھے رات ہوگئی، ہر طر ف سناٹا طاری تھا، دُور دُور تک آبادی کا نام ونشان نہ تھا، کچھ دور دوجھو نپڑیاں نظر آئیں۔ میں نے وہاں پہنچ کر بلند آواز سے سلام کیا ۔ جھونپڑی سے ایک نوجوان عورت اور ایک بڑھیا باہر آئی۔ میں نے کہا:'' میں مسافر
"ہوں ، کیا رات کے کھانے کو کچھ مل سکتا ہے؟'' نوجوان عورت نے کہا:'' اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! اس ویران جنگل میں ہمارے پاس ایسی کوئی چیز نہیں جس سے ضیافت کی جاسکے اور نہ ہی ہمارے پاس کوئی حلال جانور ہے جسے ذبح کر کے تمہاری مہمانی کی جا سکے۔''
میں نے کہا: '' پھر تم دونوں اس ویران جنگل میں کس طر ح گزر بسر کرتی ہو ؟''اس نے کہا:'' اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عطا ،اس کے نیک بندوں اور مسافروں کے سہارے ہماری زندگی کے دن گزر رہے ہیں۔'' یہ سن کرمیں وہاں سے کچھ دُور ایک جگہ ٹھہر گیا۔ جب آدھی رات گزرگئی تو اچانک ایک سمت سے گدھے کے چیخنے کی آواز آنے لگی۔ خداعَزَّوَجَلَّ کی قسم ! صبح تک وہ آواز مجھے سنائی دیتی رہی، نیند مجھ سے کوسوں دورتھی ۔ میں نے وہ رات جاگ کر گزاری۔ صبح ہوتے ہی میں اس سمت چل دیا جہاں سے آواز آرہی تھی ، وہاں پہنچا تو ایک عجیب وغریب منظر دیکھ کر میں حیران رہ گیا، وہاں ایک قبر تھی جس میں ایک گدھا گردن تک دفن تھا۔ اس کے سر اور پیٹھ سے مِٹی ہٹ چکی تھی، اس بھیانک منظر کو دیکھ کر مجھ پر کپکپی طاری ہوئی گئی۔ میں وہاں سے واپس آگیا اور ان دونوں عورتوں کے پاس پہنچ کر گدھے اور قبر کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے کہا:'' اگر تم اس کے متعلق نہ پوچھو تو کیا حرج ہے ؟'' میں نے کہا: ''میں اس بھیانک منظر کے متعلق ضرور دریافت کرو ں گا، برائے کرم! مجھے صورتحال سے آگاہ کرو۔''
عورت نے کہا:'' اچھا! اگر تم سننا ہی چاہتے ہوتو سنو! خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم! وہ گدھا جو تم نے قبر میں دفن دیکھا ،وہ میرا شوہر اور اس بڑھیا کا بیٹا تھا ۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے گذشتہ رات تمہیں یہ منظر دکھایا! میرا یہ شوہر اپنی ماں کا بہت زیادہ نافرمان تھا۔ مَیں نے اس سے زیادہ ماں کا نافرمان دنیا میں کوئی نہ دیکھا۔ جب بھی اس کی ماں اسے کسی بری بات سے منع کرتی تو وہ اسے اس طر ح بد کلامی کرتا، اور کہتا:''دفع ہوجا! کیا گدھی کی طر ح چیخ وپکار کر رہی ہے،جا! مجھے تیری با ت نہیں سننی۔ ' ' آخر کار دکھیاری ماں نے تنگ آکرکہا، '' اللہ تعالیٰ تجھے گدھے کی طر ح بنادے۔'' جب یہ نافرمان مرگیا تو ہم نے اسے دفنا دیا ۔ اس پاک پرودگار عَزَّوَجَلَّ کی قسم جس نے ہمیں اس ویران جنگل کا مکین بنایا! جس دن ہم نے اسے دفنایا اسی دن سے یہ گدھے کی شکل اختیار گیا ۔ ماں کا نافرمان اور اپنی ماں کو گدھی کہنے والا اب روزانہ اپنی قبرمیں گدھے کی طر ح چیختا ہے اور ہر رات اس کی قبر سے یہ آواز سنائی دیتی ہے۔''(الامان و الحفیظ)
اللہ عَزَّوَجَلَّ ہم سب کو والدین کی نافرمانی سے محفوظ رکھے ۔(آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم)
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! کتنا بد نصیب ہے وہ شخص جو اپنی ماں کو بُرا بھلا کہے اوروہ بھی اس بات پر کہ اسے برے کام سے کیوں منع کیا جا رہا ہے۔ ایسے نافرمانوں کا انجام بھی پھر ایسا بھیانک ہوتا ہے کہ زمانے کے لئے عبرت کی علامت بن جاتا ہے۔ بعض اوقات انسان کی عبرت کے لئے بر زخ کے مناظر ظاہر کر دیئے جاتے ہیں تا کہ گناہوں پر مُصِر رہنے والے اِن ہولناک مناظر سے عبرت حاصل کریں اور تو بہ کی طرف مائل ہوں۔ والدین کا مقام ومرتبہ دینِ اسلام نے بہت زیادہ معظَّم بنایا ، اللہو رسول عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ہمیں والدین کی اطا عت کا حکم دیا، بد بخت ونامراد ہے وہ شخص جس سے اس کے والدین"
"ناراض ہوں۔ والدین کی ناراضگی میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ناراضگی ہے۔ والدین سے حسنِ سلوک کی بارہاتا کید کی گئی ہے بلکہ اُن کو ''اُف'' تک کہنے سے منع کیا گیا ہے۔ جو لوگ والدین کی نافرمانی کرتے ہیں وہ آخرت میں تو سزا کے مستحق ہیں ہی ،لیکن دنیا میں بھی انہیں نشانِ عبرت بنادیا جاتا ہے، اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں والدین کی نافرمانی سے محفوظ رکھے اور ان کا مطیع وفرمانبر دار بنائے ۔ )
( آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم)"
" حضرتِ سیِّدُنا بَکْر بن عبد اللہ مُزَنِی علیہ رحمۃ اللہ القوی سے منقول ہے کہ'' بنی اسرائیل کے ایک بادشاہ کو کثرتِ مال واولاد اور بہت لمبی عمر عطا کی گئی۔ اس کی اولاد میں یہ عادتِ حسنہ تھی کہ جب بھی ان میں سے کوئی جوان ہوتا اُون کا لباس پہن کر پہاڑوں میں چلا جاتا،دنیوی رونقوں کو خیرباد کہہ کر دُرویشانہ زندگی اختیار کرلیتا، درختوں کے پتے اور جھاڑیاں کھا کر اپنا گزارہ کرتا اور اسی حالت میں اس دارِ فانی سے دارِ بقا کی طرف کو چ کر جاتا۔ سب شہزادوں نے یہی طریقہ اختیار کیا۔ جب بادشاہ کی عمر بہت زیادہ ہوگئی اور اس کے ہاں بچے کی ولادت ہوئی تو اس نے اپنی قوم کو بُلا کر کہا:'' اے میری قوم ! دیکھو میری عمر اب بہت ہو گئی ہے ، اس عمر میں مجھے بیٹے جیسی نعمت نصیب ہوئی، میں تم لوگو ں سے جتنی محبت کرتا ہوں تم خوب جانتے ہو،مجھے ڈر ہے کہ میرا یہ بیٹا بھی اپنے دوسرے بھائیوں کا راستہ اختیار نہ کرلے ، اگر ایسا ہوا تو ہمارے خاندان میں سے میرے بعد تمہارا کوئی حاکم نہ رہے گا اور پھر تم ہلاکت میں پڑجاؤ گے۔ اگر بہتری چاہتے ہو تو اس شہزادے کو چھوٹی عمر ہی میں سنبھال لو ،اسے دنیوی نعمتوں اور آسائشوں کی طر ف مائل کرو ، اگر ایسا کرو گے تو شاید میرے بعد یہ تمہارا حاکم بن جائے، جتنا ہوسکے اس کا دل دنیا میں لگادو۔''
یہ سن کر لوگوں نے کئی میل لمبا چوڑا ایک خوبصورت قلعہ بنایا اس میں دنیوی آسائش کا تمام سامان شہزادے کو مہیا کیا۔ شہزادے نے کئی سال اس وسیع وعریض قلعے کی چار دیواری میں گزار دیئے یہاں اسے ہر طرح کی سہولت میسر تھی۔ اس کے سامنے کوئی غم وپریشانی کی بات نہ کی جاتی۔ لوگوں کو اس سے دور رکھا جاتا، ہر وقت خُدَّام اس کی خدمت پر مامور رہتے ۔ایک مرتبہ وہ گھوڑے پر سوار ہوکر ایک سمت چل دیا جب آگے دیوار دیکھی توخادموں سے کہا:''میرا گمان ہے کہ اس دیوار کے پیچھے ضرور ایک نیا جہاں ہو گا وہاں ضرور آبادی ہوگی مجھے یہاں سے باہر نکالو تا کہ میری معلومات میں اضافہ ہوسکے اور میں لوگو ں سے ملاقات کرو ں۔'' جب شہزادے کی یہ خواہش بادشاہ کو بتائی گئی تو بادشاہ ڈرگیا کہ باہر جاکر کہیں یہ بھی اپنے بھائیوں کی طر ح دَرویشانہ زندگی اختیار نہ کرلے ۔ا سی خوف کے سب اس نے حکم دیا کہ شہزادے کو ہر دنیوی کھیل کود کا سامان مہیا کر و جس طرح"
"بھی ہو اسے دنیوی مشاغل میں مصروف رکھو تاکہ اسے باہر جانے کا خیال ہی نہ آئے۔
حکم کی تعمیل ہوئی اور شہزادے کو دوبارہ دنیوی عیش وعشرت میں اُلجھا دیا گیا ۔ اسی طر ح ایک سال کا عرصہ گزرگیا۔ایک دن وہ پھر دیوار کی طر ف گیا اور کہا:'' اب تو میں ضرور باہر جاکر دیکھوں گا ، مجھے جلدی سے اس دیوارکے پار لے چلو ۔ جب بادشاہ کو شہزادے کی ضد کا بتایا گیا تو اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی اجازت دے دی۔ لوگ شہزادے کو ایک بہترین سواری پر بٹھا کر باہر لے گئے ۔ سواری کو سونے چاندی سے خوب مُزَیَّن کیا گیا،لوگ اس کے ارد گر د ننگے پاؤں چلنے لگے ۔ شہزادہ گرد و پیش کے مناظر دیکھتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا یکایک اسے ایک بہت ہی بیمار شخص نظر آیا، بیماری کی وجہ سے وہ انتہائی لاغر و کمزور ہوچکا تھا ،پوچھا:'' اس کو کیا ہوا ؟'' لوگوں نے بتایا کہ یہ بیماری میں مبتلا کر دیا گیا ہے۔ شہزادے نے پھر پوچھا :'' کیا اس کی طرح دوسرے لوگ بھی بیمار ہوتے ہیں؟ کیا تمہیں بھی بیماری لاحق ہونے کا خوف لگا رہتاہے ؟'' لوگو ں نے کہا:'' ہاں ۔'' شہزادے نے پوچھا:'' کیا میں جس سلطنت میں ہوں وہاں بھی یہ بیماری آسکتی ہے؟''کہا:''ہاں! بالکل آسکتی ہے۔''عقل مند شہزادے نے کہا:'' اے لوگو! تمہاری یہ دنیوی عیش وعشرت بد مزہ ہے ۔'' یہ کہہ کر شہزادہ غم والم میں واپس لوٹ آیا۔ جب اس کی یہ حالت بادشاہ کو بتائی گئی تو اس نے کہا:'' شہزادے کو ہر طر ح کا سامانِ لہو ولعب مہیا کرو ، اسے دنیوی آسائشوں میں ایسا مگن کردو کہ اس کے دل سے سب رنج وملال جاتا رہے ۔''
لوگ شہزادے کو دنیوی مشاغل میں اُلجھانے کی انتھک کوشش کرتے رہے۔ اسی طرح ایک سال کاعرصہ گزر گیا۔ شہزادے نے پھر باہر جانے کی خواہش ظاہر کی۔ پہلے کی طرح اس مرتبہ بھی ہیرے جواہرات اورسونے چاندی سے مُرَصَّع سواری پر سوار کرکے اسے قلعے سے باہر لے جایا گیا۔ شہزادہ مختلف مناظر دیکھتا ہوا آگے بڑھتا جارہا تھا ۔آگے پیچھے خادموں اور سپاہیوں کا ہجوم تھا ، یکایک ایک بوڑھے پر نظر پڑی ،بڑھا پے نے اس کا برا حال کررکھا تھا، منہ سے رال ٹپک رہی تھی، جسم کا نپ رہاتھا۔ شہزادے نے جب اس کی یہ حالت دیکھی تو پوچھا:'' اسے کیا ہوا ؟'' لوگو ں نے کہا:'' حضور! ایامِ جوانی گزار کر اب یہ پڑھاپے کی زَد میں آچکا ہے۔'' شہزادے نے کہا:'' کیا دیگر لوگ بھی اس مصیبت میں گرفتار ہوئے ہیں؟ کیا ہر شخص بڑھاپے سے ڈرتا ہے ؟'' لوگو ں نے کہا :'' ہم میں سے ہر شخص بڑھاپے سے ڈرتا ہے۔'' شہزادے نے کہا : تمہاری یہ عیش وعشرت کتنی بد مزہ اور کیسی بھیانک ہے کہ کسی ایک کوبھی اس کے فساد سے چھٹکارانہیں۔''
یہ کہہ کرشہزادہ مغموم وپریشان واپس اپنے قلعے کی طر ف آگیا ۔ بادشاہ کو جب شہزادے کی یہ کیفیت بتائی گئی تو اس نے نے پھر وہی حکم دیا کہ اسے دنیوی آسائشوں میں الجھا دو تاکہ غم وملال اس کے دل سے جاتا رہے۔ ایک سال پھر شہزادے نے قلعے میں گزار دیا،اس کے بے قرار دل میں پھر باہر جانے کی خواہش ابھری ۔چنانچہ، خادموں اور سپاہیوں کے ہجوم میں اسے باہر لے جایا گیا۔ راستے میں کچھ لوگ ایک جنازہ اپنے کندھوں پر اٹھا کر لے جارہے تھے، شہزادے نے لوگوں سے پوچھا :''یہ شخص"
"چار پائی پر اس طر ح کیوں لیٹاہوا ہے ؟۔'' لوگو ں نے کہا :'' یہ شخص موت کا شکار ہو چکا ہے۔'' شہزادے نے پوچھا:'' موت کیا چیز ہے ؟ مجھے اس شخص کے پاس لے چلو۔'' شہزادے کو مردے کے پاس لے جایا گیا توکہا:'' لوگو ! اس سے کہو کہ یہ بیٹھ جائے۔'' لوگو ں نے کہا: ''حضور! اس میں بیٹھنے کی طاقت نہیں۔''شہزادے نے کہا :''اس سے کہو کہ بات کرے۔'' لوگوں نے کہا:'' موت نے اس کی زبان بند کردی ہے، اب یہ ایک لفظ بھی نہیں بول سکتا۔'' شہزادے نے پھر پوچھا:'' اب تم اسے کہاں لے جارہے ہو ؟'' لوگوں نےکہا:'' قبر میں دفنانے کے لئے لے جار ہے ہیں۔''شہزادے نے پوچھا:'' اس کے بعد پھر کیا ہوگا؟'' لوگوں نےکہا:'' موت کے بعد''حشر ''ہوگا۔''شہزادے نے پوچھا:'' یہ حشر کیا ہے؟'' لوگوں نے کہا: '' حشر وہ دن ہے کہ اس دن سب لوگ ، خالقِ کائنات عز وجل کے حضور کھڑے ہوں گے ، وہ خالِقِ لَمْ یَزِلْ ہر ایک کو اس کے اچھے برے اعمال کا بدلہ دے گا اور اس دن ہر شخص سے ذرّے ذرّے کا حساب لیا جائے گا۔'' شہزادے نے کہا :'' کیا اس دنیا کے علاوہ بھی کوئی ایسا جہان ہے جہاں تم دنیا کو چھوڑ کر چلے جاؤ گے ؟'' لوگوں نےکہا :'' ہاں! دنیا میں جو بھی آیا اسے آخر ت کی طر ف ضرور کوچ کرنا ہے۔''
یہ سن کر شہزادہ گھوڑے سے نیچے گر کر تڑ پنے لگا ، وہ روتا جاتا اور اپنے چہرے کو مِٹی سے رگڑتا جاتا ، پھر اس نے روتے ہوئے کہا:''اے لوگو ! مجھے یہ خوف لاحق ہوگیا ہے کہ جس طر ح یہ شخص موت کا شکار ہوا ، اسی طرح مجھے بھی اچانک موت آجائے گی اور میں دیکھتا ہی رہ جاؤ ں گا۔ اس خدائے بزرگ وبَر تر کی قسم جو بر وزِ قیامت تمام لوگو ں کو جمع فرماکر جزا وسزا دے گا! میرے اور تمہارے درمیان یہ آخری عہد ہے، آج کے بعد تم مجھ سے کبھی نہ مل سکو گے۔'' لوگو ں نے کہا:'' ہم آپ کو واپس آپ کے والد کے پاس لے جائیں گے ، ان کی اجازت کے بغیرآپ کہیں بھی نہیں جاسکتے ۔''پھر شہزادے کو بادشاہ کے پاس اس حالت میں لے جایا گیا کہ اس کے منہ سے خون بہہ رہا تھا،بادشاہ نے شہزادے سے کہا:'' میرے لال! تم اتنے خوف زدہ کیوں ہو اور یہ رونا کس لئے ؟'' شہزادے نے کہا:'' ابا حضور ! میں اس دن کے خوف سے رو رہا ہوں جس دن ہر ایک کو اس کے اچھے، برے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔'' پھر شہزادے نے اُون کا لباس منگواکر پہنا اور کہا:'' آج رات میں اس محل کو چھوڑ کر چلا جاؤں گا۔'' پھر واقعی آدھی رات کو وہ سمجھ دار شہزادہ تا ج وتخت ٹُھکرا کر دَرْویشانہ لباس پہنے آخرت کی تیاری کے لئے جنگل کی طرف جا رہا تھا،جب قصرِ شاہی سے نکلنے لگا تو بارگاہِ خدا وندی عَزَّوَجَلَّ میں اس طر ح التجا کی:
'' اے میرے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ ! میں تجھ سے ایسی زندگی مانگتا ہو ں جس میں میری سابقہ زندگی کی آسائشوں میں سے کچھ نہ ہو اور میں پسند کرتا ہوں کہ چاہے دُنیا اِدھر سے اُدھر ہوجائے مگر میں لمحہ بھر کے لئے بھی دنیوی آسائشوں کی طر ف نظر نہ کروں۔'' پھر وہ شہزادہ تمام دنیوی آسائشوں اور نعمتوں کو خیر باد کہہ کر اُخروی نعمتوں کے حصول کے لئے جنگل کی طرف روانہ ہو گیا۔''
حضرت سیِّدُنا بَکْر بن عبداللہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس حکایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں :'' یہ شہزادہ گناہوں کے خوف"
"سے دنیوی نعمتوں کو چھوڑ کر چلا گیا حالانکہ اسے معلوم بھی نہ تھا کہ کس گناہ کی کتنی سزا ہے؟ اس شخص کا کیا حال ہوگاجو درد ناک سزائیں جانتے ہوئے بھی گناہوں سے کنارہ کشی نہیں کرتا،نہ گناہوں پر شرمندہ ہوتا ہے اور نہ ہی توبہ کی طرف مائل ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں گناہوں سے نفرت عطا فرماکر اپنا ڈر اور خوف عطا فرمائے ۔''(آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم)
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! جو آخرت کے معاملے میں غورو فکر کرتا ہے اسے کامیابی کی راہیں نظر آہی جاتی ہیں ۔سچے دل سے جو بھی کام کیا جائے اس کے اثرات بہت جلد مرتَّب ہوتے ہیں ۔ عقل مند شہزادے نے لوگو ں کے مختلف احوال میں غور و فکر کیا تو اسے فلاح کا راستہ مل گیا۔ ہمیں بھی چاہے کہ اپنے ارد گرد کے ماحول سے عبرت حاصل کریں ۔اس نیرنگئ دنیا سے دل نہ لگائیں یہ بظاہر تو بڑی مُنَقَّش لیکن حقیقت میں بڑی خار دار وبے کار ہے۔اکھیا روں کے لئے اس دنیا میں ہر طر ف عبرت ہی عبرت ہے مگر کیا کریں دنیا کی رنگینیوں نے آنکھوں پر غفلت کا پردہ ڈال رکھا ہے ۔"
ابراہیم بن عیسیٰ بن ابو جَعْفَر منصور سے منقول ہے کہ میں نے اپنے چچا سلمان بن ابو جَعْفَر منصور کو یہ کہتے ہوئے سنا : ایک مرتبہ خلیفہ منصور کے دربار میں اسماعیل بن علی بن صالح بن علی ، سلمان بن علی اور عیسیٰ بن علی موجود تھے۔ میں بھی وہیں تھا کہ بنواُمَیہّ کی حکومت کے زوال کا تذکرہ چِھڑ گیا۔ عبداللہ نے بنوامیہ کے ساتھ جو سلوک کیا اس کا بھی ذکر ہوا، خلیفہ نے بنواُمَیَّہ کے متعلق کہا :'' اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ان پر احسان فرمایا یہاں تک کہ انہوں نے ہماری حکومت کی طر ف نظر اٹھائی جیسا کہ ہماری نظر ان کی حکومت کی طر ف اٹھی، جیسے ہم ان کی طر ف راغب ہوئے ایسے ہی وہ بھی ہماری طرف راغب ہوئے ،قسم ہے مجھے اپنی جان کی! انہوں نے خوش بختی کی زندگی گزاری لیکن فقیروں کی حالت میں مرے۔'' اسماعیل بن علی جو دربار میں ہی موجود تھا اس نے کہا: ''اے خلیفہ ! بے شک عبید اللہ بن مَرْوَان بن محمد آپ کی قید میں ہے اس کے پاس مُلک ِ ''نوبہ'' کے بادشاہ کا عجیب وغریب
"قصہ ہے ، اسے بلا کر وہ واقعہ سنیں۔'' خلیفہ نے مسیب کو حکم دیا کہ عبید اللہ بن مَرْوَان کو ہمارے سامنے حاضر کیا جائے ۔
حکم کی تعمیل ہوئی ،مضبوط وبھاری زنجیروں میں جکڑے ایک نوجوان کو خلیفہ کے سامنے لایا گیا۔ نوجوان کی گردن میں بہت وزنی طوق تھا اس نے آتے ہی بآ واز بلند'' السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ ''کہا۔خلیفہ منصور نے کہا:''اے عبید اللہ ! سلام کا جواب دینا امن وسلامتی دینا ہے اور میرا نفس اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ تجھے امن وسلامتی دی جائے۔ تو زنجیروں میں جکڑا ہوا میرے سامنے کھڑا رہ۔ پھر خُدَّام خلیفہ کے لئے تکیہ لائے خلیفہ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور کہا:'' اے عبیداللہ! مجھے پتا چلا ہے کہ تیرے پاس '' نوبہ'' کے بادشاہ کاکوئی عجیب وغریب قصہ ہے ،بتا! وہ کیا ہے ؟'' عبید اللہ بن مَرْوَان نے کہا:'' اے خلیفہ! اس پر ور دگار عَزَّوَجَلَّ کی قسم جس نے آپ کو مسندِ خلافت پر فائز کیا! لو ہے کی یہ مضبوط وبھاری زنجیریں وضو وطہارت کا پانی لگنے کی وجہ سے زنگ آلود ہو کر بہت زیادہ تکلیف دہ ہوگئی ہیں،ان کے ہوتے ہوئے میں کس طر ح کلام کر سکوں گا ۔'' خلیفہ نے اسے بیڑیوں اور طوق سے آزاد کرادیا۔
عبیداللہ نے کہا:'' ہاں! اے خلیفہ! اب میں آپ کو ''نوبہ '' کے بادشاہ کا واقعہ سناتا ہوں ، سنئے! جب عبداللہ بن علی نے ہم پر حملہ کیا تو اس کا مطلوبِ اوّل میں ہی تھا کیونکہ اپنے والد مَرْوَان بن محمد کے بعد میں ہی ان کا ولئ عہد تھا ۔چنانچہ، میں نے خزانے سے دس ہزار دینار لئے، دس خادموں کو اپنے ساتھ لیا ہر ایک کو ہزار ہزار دینار دے کر علیحدہ علیحدہ سواریوں پر بٹھا یا۔ مزید پانچ خچروں پر قیمتی سامان رکھا پھر ان سب کو لے کر میں سلطنتِ ''نوبہ'' کی طرف بھاگ گیا ۔ تین دن مسلسل سفر جاری رہا بالآخر ''نوبہ '' کے قریب ایک ویران قلعے میں پہنچ کر میں نے خُدَّام کو حکم دیا کہ اسے اچھی طر ح صاف کرو پھر بہترین قالین بچھا دو ۔ کچھ ہی دیر میں بہترین قالین بچھادیئے گئے ۔
میں نے اپنے سب سے زیادہ بااعتماد وعقل مند خادم کو بلاکر کہا : ''تم ''نوبہ'' کے بادشاہ کے پاس جاؤ ، اسے میرا سلام کہنا اور میرے لئے امان طلب کرنا ، پھر کچھ اناج وغیرہ شہر سے خرید لانا۔ '' خادم میرا پیغام لے کر بادشاہ کے پاس چلاگیا ، کافی دیر گزر گئی لیکن وہ واپس نہ آیا ۔ مجھے اس کے بارے میں بد گمانی ہونے لگی ،پھرکچھ دیر بعد وہ آیا تو اس کے ساتھ ایک اور شخص بھی تھا ۔ اس نے نہایت ادب وتعظیم سے پیش آتے ہوئے ملاقات کی ، پھر میرے سامنے بیٹھ گیا اور کہا:'' ہمارے بادشاہ نے آپ کو سلام کہا ہے ، وہ پوچھتے ہیں کہ تمہیں ہمارے ملک آنے کے لئے کس چیز نے مجبور کیا۔ کیا ہم سے جنگ کا ارادہ رکھتے ہو یا ہمارے مذہب کی محبت تمہیں یہاں کھینچ لائی یاتم پناہ چاہتے ہو؟'' میں نے اس قاصد سے کہا:'' اپنے بادشاہ کے پاس جاؤ اور اس سے کہو: میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی پناہ چاہتا ہوں کہ میں تم سے جنگ کروں، باقی رہا دین و مذہب تبدیل کرنے کا معاملہ تو میں کبھی بھی اپنا دین چھوڑ کر تمہارا دین قبول نہ کروں گا ،ہاں میں پناہ کا طلب گارہوں، اگر مجھے پناہ مل جائے تو احسان ہوگا۔''
قاصد یہ پیغام لے کر بادشاہ کے پا س گیا پھر واپس آکر کہا:''ہمارے بادشاہ نے آپ کو سلام کہا ہے ا ور کہا ہے کہ ''کل میں"
"خود تمہارے پاس آؤں گا ، تم اپنے دل میں کسی قسم کا خدشہ پیدا نہ ہونے دینا اور نہ ہی غلہ وغیرہ خریدنا جس چیز کی تمہیں ضرورت ہے وہ تمہارے پاس پہنچا دی جائے گی۔'' بادشاہ کا یہ پیغام سن کر میں نے اپنے خادموں کو حکم دیاکہ بہترین قسم کے قالین بچھاؤدو اور ان قالینوں پر بادشاہ اور میرے لئے ایک جیسی نشست گاہ بناؤ ، کل میں خود بادشاہ کے استقبال کے لئے جاؤ ں گا۔'' خادموں نے جتنا ہو سکا خوب سجاوٹ کی دوسرے دن میں بادشاہ کا انتظار کررہا تھا کہ خادموں نے اس کے آنے کی اطلاع دی۔میں ایک اونچی جگہ کھڑا ہو کر بادشاہ کو دیکھنے لگا۔ میں نے دیکھا کہ ایک شخص دو موٹی چادروں میں ملبوس ننگے پاؤں پیدل ہی ہماری طر ف آرہا تھا اس کے ساتھ دس سپاہی تھے تین اس کے آگے اور ساتھ پیچھے پیچھے چل رہے تھے۔ میں نے جب بادشاہ کو اس حالت میں دیکھا تو وہ مجھے بہت معمولی سا آدمی لگا، میرے دل میں آیا کہ اس کو قتل کر دو ں اور خود اس کی جگہ لے لوں۔ جب وہ قریب آیا تو میں نے ایک بہت بڑا لشکر دیکھا، میں نے پوچھا :''یہ کیا ہے۔'' کہا :'' گھوڑوں کالشکرِ جرار ہے ۔''
اے خلیفہ ! میں نے دیکھا کہ کچھ ہی دیر بعد دس ہزار گھڑ سوار اسلحے سے لیس ہمارے قلعے کی طرف آئے اور اسے چاروں طرف سے گھیر لیا ، پھر فقیر انہ لباس میں ملبوس وہ بادشاہ اندر آیا اور پوچھا:'' وہ شخص کہا ں ہے؟'' ترجمان نے میری طرف اشارہ کیا۔ بادشاہ نے میری طر ف دیکھا تو میں ادب بجالانے کے لئے اس کی طرف دوڑا۔ بادشاہ نے میرا ہاتھ چوم کر اپنے سینے پر رکھ لیا، پھر اپنے پاؤں سے قالین لپیٹا اور خالی زمین پر بیٹھ گیا۔ میں نے ترجمان سے کہا:''سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ! ہم نے یہ تمام چیزیں بادشاہ کے لئے بچھوائیں ہیں، پھر یہ قالین پر کیوں نہیں بیٹھ رہا؟ جب ترجمان نے بادشا ہ سے پوچھا تو اس نے جواب دیا:'' میں بادشاہ ہوں اور ہر بادشاہ پر حق ہے کہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عظمت وبزرگی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اس کے سامنے تواضع اختیار کر ے ۔''
بادشاہ کا فی دیر تک زمین کو اپنی اُنگلی سے کُرَیدتا رہا اور کچھ سو چتا رہا ۔ پھر سر اوپر اٹھایا اور کہا:'' تم سے یہ ملک کیوں چِھن گیا؟ تم سے اقتدار کیوں جاتا رہا؟ حالانکہ دوسرے لوگوں کی نسبت تم اپنے نبی سے زیادہ قربت رکھتے ہو۔'' میں نے کہا:'' اے بادشاہ! ایک ایسا شخص آیا جو ہماری نسبت ہمارے نبی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا زیادہ قریبی تھا اس نے ہم پر حملہ کیاتو ہمارا اقتدار جاتا رہا اور ہم لا وارث ہوگئے۔ اب میں بھاگ کر تمہارے پاس پناہ لینے آیا ہوں، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بعد مجھے تمہارا ہی سہارا ہے۔'' بادشاہ نے کہا:'' تم لوگ شراب کیوں پیتے ہو؟ حالانکہ تمہاری کتاب (یعنی قرآنِ کریم )میں اس کو حرام ٹھہرایا گیا ہے۔'' میں نے کہا: '' یہ کام ہمارے غلاموں ، عجمیوں اور دوسرے لوگوں کا ہے جو ہماری سلطنت میں ہماری رضا مندی کے بغیر گُھس آئے ہیں۔'' بادشاہ نے کہا: ''تم لوگ سونے چاندی اور ریشم سے مزَیَّن سواریوں پر کیوں سوار ہوتے ہو؟ حالانکہ تمہارے مذہب میں یہ چیزیں جائز نہیں۔'' میں نے کہا :'' یہ بھی ہمارے غلاموں اور عجمی لوگو ں کا کیا دَھرا ہے، وہ ہی ایسے ناجائز امور میں مبتلا ہیں۔''
با دشاہ نے پھر کہا : '' تم لوگ کہیں سفر پر یا شکار کے لئے جاتے وقت جب کسی وادی سے گزرتے ہو تواس کے رہائشیوں کو کیوں"
"پریشان کرتے ہو اور ان پر بے جاٹیکس کیوں لگاتے ہو؟جب تک ان کی فصلوں کو اپنی سواریوں سے روند نہ ڈالوتمہیں سکون نہیں ملتا، نصف درہم کے لئے بھی خوب نقصان کرتے اور فساد بر پا کرتے ہو ، آخر ایسا کیوں ؟ حالانکہ تمہارے دِین میں ایسا فساد حرام کیا گیا ہے۔'' میں نے وہی جواب دیا کہ یہ سب کام ہمارے خُدَّام اور غلام وغیرہ کرتے ہیں۔''
بادشاہ نے کہا:'' نہیں ، بلکہ تم لوگوں نے اُن چیزوں کو حلال سمجھ لیا ہے جنہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حرام فرمایاتھا ، جن باتوں سے اس نے روکا تم نے وہی اختیار کرلیں تواللہ عَزَّوَجَلَّ نے تم سے عزت چھین کر ذلت کالباس پہنادیا۔خدائے بزرگ وبَر تر کا انتقام ابھی تمہارے متعلق پورا نہیں ہوا ۔مجھے ڈر ہے کہ اگر تم میرے ملک میں رہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کا عذاب آیا توکہیں وہ تمہارے ساتھ مجھے بھی اپنی لپیٹ میں نہ لے لے ۔ بے شک عذاب کہہ کر نہیں آتا ، جب وہ آئے گا تو سب کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا ، سنو! مہمان نوازی کا حق تین دن ہی ہوتا ہے تین دن بعد تم یہاں سے چلے جانا تمہیں جو ضرورت ہے وہ لے لو۔ اگر تین دن کے بعد یہاں رُکو گے تو تمہارا سارا سامان چھین لوں گا ۔''اتنا کہہ کر بادشاہ وہاں سے چلا گیا۔ میں تین دن وہاں ٹھہر کر واپس آیا تو مجھے قید کر کے آپ کے پاس بھیج دیا گیا۔ اب میں آپ کے سامنے موجود ہوں ، زندگی سے زیادہ اب مجھے موت پیاری ہے، کاش! مجھے موت آجائے ۔عبید اللہ بن مَرْوَان کی یہ عبرت ناک روداد سن کرخلیفہ منصور کو اس پر ترس آنے لگاجب اسے آزاد کرنا چاہا تو اسماعیل بن علی نے منع کرتے ہوئے کہا:''اس کی گردن میں بنوامیہ کی بیعت ہے ۔''خلیفہ نے کہا:''پھر تمہاری کیا رائے ہے ؟'' اسماعیل بن علی کہا:'' اسے ہمارے قید خانوں میں ہی رہنے دیں اور جس سزا کا یہ مستحق ہے وہ اس پر جاری کر دیں۔''
راوی کا بیان ہے،'' پھر عبید اللہ بن مَرْوَا ن کو واپس قید خانے میں بھیج دیاگیا،اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم!مجھے معلوم نہیں کہ وہ منصور کی خلافت میں ہی مر گیا یا مہدی نے اسے آزاد کردیا ۔''اللہ عَزَّوَجَلَّ ہم سب کو ظالموں سے محفوظ رکھے اور دنیا و آخرت میں ہمارے ساتھ عَفْو وکرم والا معاملہ فرمائے۔ ( آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم)"
حضرتِ سیِّدُنا عبد اللہ بن احمد بن حَنْبَل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہما سے منقول ہے کہ ایک دن میں اپنے والد ِ محترم حضرتِ سیِّدُنا احمد بن حَنْبَل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ساتھ اپنے گھرمیں تھا کہ کسی نے دروازے پر دستک دی۔ میرے والد نے فرمایا: ''بیٹے، جاؤ! دیکھو! کون ہے؟'' میں باہر گیا تو ایک باپردہ خاتون کھڑی تھی اس نے مجھ سے کہا:'' اے عبد اللہ! احمد بن حَنْبَل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے میرے اندر
"آنے کی اجازت طلب کرو۔''میں والد صاحب کے پاس آیا اور اس خاتو ن کے متعلق بتایا تو انہوں نے اجازت عطا فرمادی ۔ وہ آئی اورسلام کر کے بیٹھ گئی پھر پوچھا :''اے ابو عبداللہ!میں رات کو چراغ کی روشنی میں سوت کا تتی ہوں ، جب کبھی چراغ بجھ جائے تو چاند کی روشنی میں بھی سوت کا ت لیتی ہوں ، کیا سوت فروخت کرتے وقت خرید ار کے سامنے یہ ظاہر کردنیا مجھ پر لازم ہے کہ یہ سوت چاند کی روشنی میں تیار کیا گیا ہے اور یہ چراغ کی روشنی میں؟''
میرے والد ِ محترم حضرتِ سیِّدُنا احمد بن حَنْبَل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا :'' اگر آپ ان دونوں اونوں میں فرق کرسکتی ہیں تو ضروری ہے کہ دو نوں کو علیحدہ علیحدہ فروخت کریں ۔ '' خاتون نے پھر سوال کیا:'' اے ابو عبد اللہ! کیا شدتِ مرض کی وجہ سے مریض کا کراہنا یا آہیں بھرنا شکوہ کہلائے گا ؟'' فرمایا:'' میں امید کرتا ہوں کہ یہ شکوہ نہیں ، لیکن تمام غموں اور مصیبتوں کی فریاد اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں کی جاتی ہے ۔'' متقی خاتون رخصت ہوگئی ۔ میرے والد نے مجھ سے فرمایا:'' میرے بیٹے! میں نے آج تک ایسا شخص نہیں دیکھا جس نے اس خاتون کی مثل سوال کیا ہو۔ جاؤ !دیکھو! یہ خاتون کون ہے اور کہاں رہتی ہے ؟'' میں اس کے پیچھے پیچھے گیا تو دیکھاکہ وہ حضرت سیِّدُنا بِشْر حافی علیہ رحمۃ اللہ الکافی کے گھر میں داخل ہوگئی وہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ہمشیرہ تھی ۔ میں نے واپس آکر والدصاحب کو بتایا تو انہوں نے فرمایا:''بِشْر حافی علیہ رحمۃ اللہ الکافی کی ہمشیرہ کے علاوہ کوئی اور عورت اتنی متقی وپرہیز گار نہیں ہوسکتی ۔''
حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ بن احمد بن حَنْبَل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:'' ہمیں نہیں معلوم کہ حضرتِ سیِّدُنا بِشْر حافی علیہ رحمۃ اللہ الکافی کی تین بہنوں ''زُبدہ،مُضغہ،مُخَّہ''میں سے یہ کون سی تھی ۔ زبدہ کو اُمِّ علی کہا جاتا تھا ، مضغہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے عمر میں بڑی تھی اور آپ کی زندگی ہی میں اس کا انتقال ہوگیا تھا ۔ اس کے وصال پر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بہت روئے اور بہت غمگین ہوئے۔ جب اتنے زیادہ رنج وملال کا سبب دریافت کیا گیا تو فرمایا:'' میں نے بعض کتابوں میں پڑھاہے کہ جب بندہ اپنے پروردگار عَزَّوَجَلَّ کی عبادت میں سستی کرتا ہے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ اسے اس کی سب سے زیادہ محبوب شئے سے محروم کردیتا ہے ۔ میری یہ ہمشیرہ مجھے دنیا میں سب سے زیادہ پیاری تھی، اب وہ مجھ سے جدا ہوگئی ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم)"
حضرتِ سیِّدُنا ابوبَکْراَحْنَف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے مروی ہے کہ'' میں نے عبداللہ بن احمد بن حَنْبَل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہما کو یہ فرماتے ہوئے سنا:'' ایک مرتبہ حضرتِ سیِّدُنا بِشْر حافی علیہ رحمۃ اللہ الکافی کی ہمشیرہ حضرت سیِّدَتُنا ''مُخَّہ'' رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا میرے والد کے پاس
"آئیں او رپوچھا: میرے پاس دو دانق(یعنی درہم کاچھٹا حصہ) تھے میں نے ان کا اون خرید کر کا تا اور نصف درہم کا بیچ دیا۔ میرا کھانے پینے کا پورے ہفتے کا خرچ ایک دانق ہے۔ ہوا یوں کہ حاکم شہر ابن طاہر ہمارے گھر کے قریب سے گزرا اس کے ساتھ مشعلیں بھی تھیں۔ ہمارے گھر کے قریب کھڑا ہو کر وہ چند کا رندوں سے گفتگو کرنے لگا ۔ میں نے ان مشعلوں کی روشنی میں کچھ اون کا ت لیا تھا۔ جب حاکم وہاں سے چلا گیا تومیرے دل میں یہ خیال آیا کہ ''حاکمِ شہر کی مشعلوں کی روشنی میں کاتی ہوئی اُون کا حساب دینا ہو گا۔'' بس اس خیال کے آتے ہی میں پریشان ہوگئی، اب آپ کے پاس اپنا مسئلہ لے کر آئی ہوں مجھے اس پریشانی سے نجات دلائیں، اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کی پریشانی دور فرمائے۔ مجھے بتائیں کہ اب میں اس اون کی قیمت کا کیا کرو ں ۔'' میرے والد ِ محترم نے فرمایا: ''تم دودانق رکھ لو اور نفع چھوڑ دو اللہ عَزَّوَجَلَّ اس نفع کے بدلے تمہیں اچھا بدلہ عطا فرمائے گا۔ یہ سن کر وہ چلی گئی۔''
میں نے اپنے والد ِ محترم سے کہا:'' حضور! اگر آپ اسے یہ کہہ دیتے کہ اس روشنی میں جتنا اون کاتا وہ علیحدہ کرلو، باقی اُون تمہارے لئے جائز ہے تو کیا حرج تھا۔'' فرمایا:'' بیٹے! اس خاتون کا سوال اس تاویل کا احتمال نہیں رکھتا تھا۔ پھر فرمایا: ''تم جانتے ہو، وہ کون تھی؟'' میں نے کہا: ''ہاں! وہ زمانے کے مشہور ولی حضرتِ سیِّدُنا بِشْرِ حافی علیہ رحمۃ اللہ الکافی کی ہمشیرہ '' مُخَّہ'' تھی۔'' فرمایا:'' جبھی تو وہ یہ مسئلہ پوچھنے آئی تھی ۔ واقعی ایسی عظمت وشان والی عورت بِشْر جیسے ولی کی بہن ہی ہو سکتی ہے ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم)"
حضرت سیِّدُنا عَمَّار بن رَاہِب علیہ رحمۃ اللہ الغالب سے منقول ہے کہ'' حضرت سیِّدَتُنا مِسکینہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا اجتماعِ ذکر میں پابندی سے شرکت کیا کرتی تھیں ۔ان کے انتقال کے بعد میں نے انہیں خواب میں دیکھا تو کہا : ''اے مسکینہ! مرحبا۔'' مسکینہ نے کہا :''اے عمّار! تمہارا بھلا ہو، میں مسکین نہیں اب تو بہت زیادہ غِنٰی مل چکا ہے، محتاجی ختم ہو گئی اور کشادگی آ چکی ہے۔'' میں نے کہا : '' اچھا! ان باتوں کو چھوڑو اپنا حال بیان کرو ، تمہیں کیا کیا نعمتیں عطا کی گئیں ؟''مسکینہ نے کہا: ''تم اُس سے سوال کررہے ہو جسے جنت اپنی کثیر نعمتوں کے ساتھ عطا کردی گئی ہے۔ اب وہ جہاں چاہے جنت کے درختوں کے سائے میں رہے۔'' حضرت سیِّدُنا عَمَّار علیہ رحمۃ اللہ الغفار کا بیان ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی یہ نیک بندی ہمارے ساتھ حضرتِ سیِّدُناعیسیٰ بن زَاذَان علیہ رحمہ اللہ المنّان کی محفلِ ذکر میں حاضرہوا کرتی تھی۔ میں نے پوچھا:'' اے مسکینہ! حضرت سیِّدُنا عیسیٰ بن زَاذَانعلیہ رحمۃ اللہ المنّان کے ساتھ کیا معاملہ کیا گیا ؟'' یہ سن کر وہ ہنسنے لگی اوردو عربی اشعار پڑھے جن کا مفہوم یہ ہے:
" '' انہیں خوبصورت و بیش بہا جنتی لباس پہنایا گیا ۔ جنَّتی خدَّام ہاتھوں میں آبخورے لئے ہر وقت ان کے ارد گر د موجود رہتے ہیں ۔پھر انہیں جنتی زیور سے آراستہ کیا گیا اور کہا گیا :'' اے قاری!تلاوت کر، بخدا تجھے تیرے روزوں نے چھٹکارا دلا دیا۔''
راوی کہتے ہیں کہ'' حضرتِ سیِّدُنا عیسیٰ بن زَا ذَان علیہ رحمۃ اللہ المنّان آخری عمر تک اس کثرت سے روزے رکھتے رہے کہ آپ کی کمر بالکل جھک گئی اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی آواز بند ہوگئی ۔ ان کی یہ عبادت وریاضت اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں ایسی مقبول ہوئی کہ مغفرت وبخشش کا سبب بن گئی۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم)
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ہمارے اسلاف رحمہم اللہ تعالیٰ فرائض کی ادا ئیگی کے ساتھ ساتھ نفلی عبادت کابھی خوب اہتمام کرتے تھے۔ جیسا کہ ہم نے ابھی حضرتِ سیِّدُنا عیسیٰ بن زَاذَان علیہ رحمۃ اللہ المنّان کے بارے میں پڑھا کہ وہ کثرت سے نفلی روزے رکھا کرتے تھے ۔ ہمیں بھی چاہے کہ وقتاََ فوقتاََ نفلی روزے رکھ کر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا طلب کریں۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں اعمالِ صالحہ کی توفیق عطا فرمائے، اپنی رضا والے کاموں پر گامزن فرمائے اورہمارا خاتمہ بالخیر فرمائے۔ اگر ہم چند روزہ زندگی میں تھوڑی سے مشقت برداشت کر کے فرض عبادت کے ساتھ ساتھ نفلی عبادت پر بھی مواظبت (''مُوَا۔ظَ۔بَت''یعنی ہمیشگی ) اختیارکرتے رہے تو اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ جنت میں خدا ئے بزرگ وبَر تر کی طرف سے ہماری مہمانی کی جائے گی۔ جن خوش نصیبوں کے لئے'' نُزُلًامِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْم''(پ۲۴،حٰمۤ السجدۃ۳۲)ترجمۂ کنز الایمان :مہمانی بخشنے والے مہربان کی طرف سے۔کا مژدۂ جانفزا
سنایا گیا اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں بھی ان میں شامل فرمائے ۔ ہم بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے امید لگائے اس یومِ عید کے منتظر ہیں ۔
یااللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں جنت الفردو س میں اپنے پیارے محبوب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا پڑوس عطا فرما۔( آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم))
؎ گدا بھی منتظر ہے خُلْد میں نیکوں کی دعوت کا خدا دن خیر سے لائے سخی کے گھر ضیافت کا"
حضرتِ سیِّدُنا ہِشَام بن مُحَمَّد بن سَائِبِ کَلْبِی علیہ رحمۃ اللہ القوی اپنے والد سے نقل کرتے ہیں: ''ایک مرتبہ شاہِ فارس (یعنی ایران کا بادشاہ )اپنے چند ہمراہیوں کے ساتھ شکار کے لئے نکلا۔گھنے جنگل میں اچانک ایک شکار نظر آیا ، بادشاہ نے گھوڑا شکار کے پیچھے لگادیا کافی دور تک پیچھا کرنے کے باوجو دبادشاہ اس جانورکا شکار کرنے میں ناکام رہا۔ وہ جانور کے پیچھے اتنی تیز ی سے آیا کہ
"اسے معلوم ہی نہ ہو سکا کہ میں اپنے ہمراہیوں سے بہت دور ویران جنگل میں ایک انجانی جگہ پہنچ چکا ہوں۔آہستہ آہستہ شام اپنے سائے گہرے کر رہی تھی پھر یکایک آسمان پرسیاہ بادل چھاگئے او رکچھ ہی دیر بعد موسلا دھار بارش بر سنے لگی۔ بادشاہ کسی محفوظ جگہ کی تلاش میں ایک سمت چل دیا۔ کچھ دور ایک جھونپڑی نظر آئی جلدی سے وہاں پہنچا تو ایک بوڑھی عورت دروازے پر بیٹھی تھی۔ بادشاہ نے کہا: '' میں مسافر ہوں ،کیا اس اندھیری و طوفانی رات میں مجھے تمہاری جھونپڑی میں پناہ مل سکتی ہے؟'' بڑھیا نے کہا:'' آج رات آپ ہمارے مہمان ہیں، آئیے! اندر تشریف لے آئیے ۔''
بادشاہ اپنا گھوڑا لے کر بڑھیا کے ساتھ اس کی جھونپڑی میں داخل ہوگیا ۔ کچھ ہی دیر بعد بڑھیا کی بیٹی چند گائیں لے کر چھونپڑی میں داخل ہو ئی۔ وہ دن بھراپنے جانوروں کو چراگاہ میں چراتی اورشام کو واپس آجاتی، ساری ہی گائیں بہت فربہ اور دودھ والی تھیں۔ بادشاہ نے جب ایسی موٹی تازی دودھ والی گائیں دیکھیں تو دل میں کہا:'' ان گایوں پر ضرور کچھ ٹیکس لگایا جانا چاہے، یہ بہت دودھ والی ہیں، ان کا دودھ دربارِ شاہی میں ضرور پہنچنا چاہے ۔ بادشاہ ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ بڑھیا نے اپنی بیٹی سے کہا :'' بیٹی! فلاں گائے کا دودھ نکالو۔'' جب اس کی بیٹی گائے کے پاس پہنچی تو اسے دودھ سے بالکل خالی پایا ، اس نے پکار کر کہا: ''اے میری ماں ! خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! آج ہمارے بادشاہ نے ہمارے بارے میں کوئی برا فیصلہ کیا ہے۔ '' بڑھیا نے کہا: ''بیٹی کیا ہوا؟'' کہا :'' امی جان !ابھی کچھ دیر قبل جس گائے کے تھن دودھ سے بھرے ہوئے تھے اب دودھ کا ایک قطرہ بھی نہیں۔'' بڑھیا نے کہا : '' صبر کرو ، صبح تک اس معاملے کو چھوڑ دو ۔'' بادشاہ جو ماں بیٹی کی گفتگو سن رہا تھا اس نے دل میں کہا:'' اس لڑکی کو کیسے معلوم ہو گیا کہ میں نے ان کے بارے میں ظالمانہ فیصلہ کرنے کا ارادہ کیا ہے؟ میں اپنے اس ارادے سے باز آیااب میں انہیں تنگ نہیں کروں گا ،لیکن ان کے بارے میں تحقیق ضرور کرو ں گا ۔''
جب صبح ہوئی تو بڑھیانے کہا :'' بیٹی ! جاؤ دودھ نکا لو ۔'' جب لڑکی، گائے کے پاس گئی تو اسے دودھ والی پایا ، اس نے پکار کر کہا: ''امی جان! بادشاہ نے ہمارے بارے میں جوناانصافی والی بات سوچی تھی اب اس کے دل سے وہ نکل چکی ہے ، ہماری گائے کے تھن اب دودھ سے بھر چکے ہیں ۔ ''پھر اس نے دودھ نکالااور رکھ دیا۔ اتنی ہی دیر میں بادشاہ کے ساتھی اسے ڈھونڈتے ہوئے وہاں پہنچ گئے ۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ ان دنوں ماں بیٹی کو ہمارے دربار میں لے چلو ۔ سپاہی انہیں دربار میں لے گئے ۔ بادشاہ نے ان کی خوب خاطر مدارات کی ، پھر پوچھا:'' تم نے کیسے جان لیا کہ بادشاہ نے کسی بری بات کا ارادہ کیا اور پھر اس کے دل سے وہ ارادہ جاتا رہا ؟'' بڑھیا نے کہا:'' ہم اس جنگل میں عرصۂ دراز سے سکونت پذیر ہیں ، جب بھی دربارِ شاہی سے کوئی عدل وانصاف والا حکم جاری ہوتا ہے تو ہمارے شہروں، دیہاتوں اور چراگاہوں میں خوشحالی آجاتی اور ہماری زندگی خوشگوار ہوجاتی ہے۔لیکن جب کوئی ظالمانہ حکم جاری ہو تا ہے تو تنگدستی اورمفلسی آجاتی ہے اور ہماری اشیاء سے ہمارا نفع منقطع(یعنی ختم ) ہوجاتا ہے ۔ اس لئے ہم جان لیتے ہیں کہ کس وقت کس طرح کا"
"حکم جاری ہوا ہے۔'' یہ سن کر بادشاہ بڑا حیران ہوا پھرماں بیٹی کو انعام واکرام کے ساتھ واپس بھیج دیا ۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں نیک اعمال کی توفیق عطا فرمائے اور اچھوں کے دامن سے وابستہ فرمائے۔( آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم)"
" حضرتِ سیِّدُنا عُکْلِی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں: ''مجھے بصرہ کے رہنے والے ایک شخص نے بتایا کہ میں نے ایک پرکشش وبارُعب شخص کو اون کا لباس پہنے دیکھا۔اس کانام پوچھا تو علی بن محمد بتایا۔ میں اس کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرنے لگا، اس نے بتایا کہ میں ایک مرتبہ '' مصیصہ'' کی طرف جہاد کے لئے گیا ، وہاں مسجد میں ایک حسین وجمیل بزرگ کو دیکھا لوگ اس کے گر د بیٹھے تھے اور وہ انہیں حدیث سنا رہا تھا ۔میں بھی حلقۂ درس میں شامل ہوگیا ، اس نے مجھ سے میرا حال دریافت کیا تو میں نے کہا: ''میں عراق کا رہنے والا ہوں، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا اور آخرت کی طلب میں یہاں آیا ہوں۔'' یہ سن کر بزرگ نے مجھے دعائیں دیتے ہوئے کہا:'' اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہیں پاکیزہ زندگی اور آخرت میں عزت والا گھر عطا فرمائے، اے بندۂ خدا! مجھے تم سے ایک حاجت ہے، میر ی اس حاجت کو رد نہ کرنا ۔ ''میں نے کہا:'' جی بتائیے! کیا حاجت ہے؟'' کہا:'' ہمارے ہاں قیام کرو اور ضیافت کا موقع دو۔''
میں اس کے پاس رک گیا میں نے دیکھا کہ میرے میزبان کو اللہ ربُّ العزَّت نے صِیَّامُ النَّہَاروَقِیَامُ اللَّیْل(یعنی دن کو روزہ رکھنے اور رات کو عبادت کرنے) اور اعمالِ صالحہ کی دولت سے مالا مال کیا ہواہے۔ میں اس کے پاس ہی ٹھہرا رہا۔ ہمارا لشکر جہاد کے لئے روانہ ہونے لگا تو میرے اس بزرگ میزبان نے مجاہدین کے لئے کثیر سامانِ خوردونوش فراہم کیا۔اورخود بھی لشکر میں شامل ہو گیا اس کے ساتھ دس ہزار مجاہدین بھی لشکر میں شامل ہوئے۔ اس کاجوان بیٹا جو اس کے گھر کے انتظامات سنبھالتا تھا، وہ بھی مجاہدین میں شامل ہو گیا۔ ہمارا یہ لشکر دشمن کی سرحدوں کی طرف آندھی وطوفان کی طر ح بڑھنے لگا ۔جب دونوں لشکروں کا آمنا سامنا ہو اتو ہم نے دشمنوں کی تعداد بہت زیادہ محسوس کی ، کفار کو انجامِ بد تک پہنچا نے کے لئے مجاہدینِ اسلام، کفار کے ٹِڈِّی دَل لشکر کے سامنے سیسہ پلائی
ہوئی دیوار کی طرح جم گئے۔ اس بزرگ کے جوان بیٹے نے مجاہدین کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے انہیں جہاد پر خوب اُبھارا۔ پھر اس کے بوڑھے باپ نے مجاہدین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا :'' اے نوجوانانِ اسلام! جنت کے دروازے تمہارے سامنے ہیں، اپنی شمشیروں کے ذریعے انہیں کھولواوردشمن پرٹوٹ پڑو ۔'' یہ سنتے ہی اس کانوجوان بیٹاکمال دلیری سے تن تنہا دشمن کی صفوں میں گھس گیا اور بہادری وجوانمردی کے وہ جو ہر دکھائے کہ دشمنوں کی عقلیں دنگ رہ گئیں۔ بالآخر یہ مردِ مجاہد شجرِاسلام کی آبیاری کے لئے مرتبہ شہادت پر فائز ہوا۔ پھر ا س کا بوڑھا باپ دشمنوں پر غضب ناک شیر کی طرح حملہ آور ہوا اور داد شجاعت دیتے ہوئے یہ"
"بھی جامِ شہادت نوش کر گیا اور اس کی روح بھی جنت کے باغات کی طر ف پرواز کر گئی ۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ہمیں فتح عطا فرمائی، دشمن پیٹھ پھیر کر خائب وخاسر لوٹا ۔ہم نے بہت سوں کو واصلِ جہنم کیا۔ بہت سے دشمن قید ہو گئے۔ پھر ہم نے مجاہدین کی مُبَارَک لاشیں سپر دِخاک کیں۔ بوڑھے مجاہد کے لئے بھی ایک قبر کھودی گئی جب اسے دفنا کر ہم واپس ہونے لگے تو زمین ہلنے لگی اور اس بزرگ مجاہد کی لاش زمین سے باہر آگئی ۔ ہم یہ سمجھے کہ شاید زلزلے کی وجہ سے ایسا ہوا ہے ۔ لہٰذا ہم نے ایک اور قبر کھودی اور اسے دفن کردیا۔ ابھی مٹی برابر ہی کی تھی کہ دوبارہ زمین ہلنے لگی اور ایک پُر ہول آواز سنائی دی۔ز مین نے پہلے کی طر ح اسے پھر باہر نکال دیا۔ ہم نے تیسری قبر کھود کر اسے دفنا یا تو یہ دیکھ کر ہماری عقلیں حیران ہو گئیں کہ اس مرتبہ بھی زمین نے اسے باہر نکال دیا ۔ پھر ہم نے ہاتفِ غیبی کی آواز سنی: '' اے لوگو! یہ نیک بندہ اپنی زندگی میں ہمیشہ یہ دعا کرتا رہا کہ اے اللہ عَزَّوَجَلَّ ! میرا حشر درندوں اور پرندوں کے پیٹوں میں کرنا اس کی دعا بارگاہِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ میں قبول ہوگئی ہے ، لہٰذا اب یہ قبر میں دفن نہیں ہوگا ۔ بلکہ اس کی خواہش کے مطابق اس کے جسمِ نازنین کو جنگلی درندے او ر پرندے کھائیں گے ۔ یہ غیبی آواز سن کر ہم اسے وہیں چھوڑکر واپس لوٹ آگئے ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم)"
" حضرتِ سیِّدُنا عبدالجبَّار بن عبدالعزیز بن ابوحَازِم علیہم الرحمۃ ا پنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ'' ایک مرتبہ خلیفہ سلیمان بن عبد المَلِک مدینۂ منورہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّتَعْظِیْماً میں تین دن ٹھہرا اور لوگو ں سے کہا:'' کیا یہاں کوئی ایسا شخص ہے جس نے صحابۂ کرام علیہم الرضوان کی زیارت کی ہو ، ہم اس سے حدیث سننا چاہتے ہیں ؟''اسے بتایا گیا کہ یہاں ایک جلیل القدر تابعی بزرگ حضرت سیِّدُنا ابوحَازِم علیہ رحمۃ اللہ الناصر رہتے ہیں۔ چنانچہ، انہیں بلایا گیا ،جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تشریف لائے تو خلیفہ نے کہا: ''اے ابو حَازِم علیہ رحمۃ اللہ الناصر! آخر اتنی بے وفائی کیوں ؟'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ''آپ نے مجھ میں کون سی بے وفائی دیکھی ہے ؟''
خلیفہ نے کہا: ''مدینۂ منورہ کے تمامِ علماء ومُعَزَّز ین میرے پاس آئے لیکن آپ نہیں آئے؟'' فرمایا: '' میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی پناہ چاہتا ہوں کہ آپ ایسی بات کہیں جو سرے سے ہی نہ ہو، میرے اور آپ کے درمیان پہلے واقفیت ہی نہ تھی کہ جس کی وجہ سے میں یہاں آتا ، پھر بے وفائی کا الزام کیوں ؟''خلیفہ نے کہا:'' بے شک آپ نے سچ وحق بات کہی: اچھا یہ بتایئے کہ ہم موت کو"
"کیوں ناپسند کرتے ہیں؟'' فرمایا :'' اس لئے کہ تم لوگو ں نے اپنی آخرت برباد کرڈالی ہے اور دنیا میں خوب عیش وعشرت کی زندگی گزار رہے ہو ، اب تم اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ عیش وعشرت کے گھر کو چھوڑ کر عذاب والی جگہ جائیں۔''خلیفہ نے کہا :'' آپ نے حق فرمایا۔'' اچھا یہ بتائیے کہ'' اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں حاضری کی کیا کیفیت ہوگی ؟'' فرمایا : ''نیک لوگ تو اس پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں ایسے جائیں گے جیسے بر سوں کا بچھڑا ہوا اپنے اہل وعیال کی طرف خوشی خوشی جاتا ہے۔ جبکہ گناہ گارو نافرمان اس طر ح ہوں گے جیسے بھاگے ہوئے غلام کو واپس اس کے مالک کے پاس لایا جارہا ہو۔''
یہ سن کر خلیفہ سلیمان نے روتے ہوئے کہا :'' اے کاش! مجھے معلوم ہوجاتا کہ ہمارے لئے ہمارے رب عَزَّوَجَلَّ کے ہاں کیا کچھ ہے؟'' فرمایا:'' اپنے آپ کو کتاب اللہ پر پیش کرو، تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ تمہارے لئے کیا کچھ ہے۔ ''خلیفہ نے کہا: ''اللہ عَزَّوَجَلَّ کی پاکیزہ کتاب میں کس مقام پر یہ باتیں تلاش کروں ؟ ' ' فرمایا:'' دیکھو! اللہ عَزَّوَجَلَّ نیکوں اور بدوں کے اُخروی مقامات کا واضح بیان فرمارہا ہے:"
اِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِیۡ نَعِیۡمٍ ﴿ۚ13﴾ وَ اِنَّ الْفُجَّارَ لَفِیۡ جَحِیۡمٍ ﴿ۚ14﴾
"ترجمۂ کنزالایمان :بے شک نِکوکارضرورچین میں ہیں اوربے شک بدکارضروردوزخ میں ہیں۔ (پ30،الانفطار:13۔14)
خلیفہ نے پوچھا :'' اے ابو حَازِم ! اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت کہاں ہے ؟'' فرمایا: اس کی رحمت محسنین کے قریب ہے ۔ ''خلیفہ نے کہا:'' لوگو ں میں سب سے زیادہ سمجھ دار کون ہے ؟''فرمایا:''جس نے علم وحکمت کی باتیں سیکھیں اوردوسروں کوسکھائیں۔'' خلیفہ نے پوچھا :'' لوگوں میں بے وقوف ترین شخص کو ن ہے ؟ ''فرمایا:'' جو ظالم کی پیروی میں لگا ،ظالم کی ہاں میں ہاں ملائی او راس کی دنیا کی خاطر اپنی آخرت داؤ پر لگادی۔'' خلیفہ نے کہا:اچھا یہ بتائیے کہ مقبول ترین دعا کون سی ہے ؟'' فرمایا:'' مُتَوَاضِعِیْن(یعنی عاجز ی کرنے والوں) کی دعا۔'' خلیفہ نے کہا:'' اے ابو حَازِم! سب سے بہترین صدقہ کیا ہے ؟ ''فرمایا:'' تنگدست ومحتاج کی مدد کرنا۔'' خلیفہ نے کہا: '' حضور !یہ بتائیے کہ جس حالت میں ہم ہیں اس کے بار ے میں آپ کیا کہتے ہیں ؟'' فرمایا:'' اس معاملے میں مجھے معافی دو۔''
سلیمان نے کہا:'' اچھا! مجھے کچھ نصیحت فرمائیے ۔''فرمایا :'' بے شک حکمرانوں نے ظلم وزیادتی کر کے مسلمانوں کی رائے کے بغیر من مانی کرتے ہوئے خلافت حاصل کی ، بے وفادنیا کے حصول کے لئے بے گناہوں کا بے دریغ خون بہایا پھر کفِ افسوس ملتے ہوئے حکومت ومملکت کو چھوڑ کر آخرت کی طرف کوچ کر گئے ۔اے کاش! مجھے معلوم ہوتا کہ ان سے وہاں کیا کیا پوچھا گیا اور انہوں نے کیا جواب دیا؟ اب وہ اپنی کرنی کا پھل بھگت رہے ہوں گے ۔'' یہ سن کر کسی خوشامدی درباری نے کہا :'' اے شیخ! یہ آپ نے بہت بری بات کی۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' تو نے جھوٹ کہا، میں نے وہی کیا جو مجھ پر لازم تھا ، بے شک اللہ عَزَّوَجَلَّ نے علماء کرام سے عہد لیا ہے کہ وہ لوگو ں کے سامنے دین ظاہر کریں گے اور کچھ بھی نہیں چھپائیں گے۔'' خلیفہ سلیمان نے کہا:'' اے"
"ابو حَازِم! کیا ہماری اصلاح کی کوئی صورت ہے ؟'' فرمایا :'' ہاں ! تم لوگ تکلُّفات اور ریا کاری کو چھوڑ کر مروت واخلاص کو اپنالو۔'' خلیفہ نے کہا: '' اس کی کیا صورت ہے ؟'' فرمایا: '' جن سے لینے کا حق ہے ان سے لو او رمستحقین کو ان کا حق دو۔''
خلیفہ نے کہا:''اے محترم !آپ ہمارے ہاں قیام فرمائیں تاکہ ہم آپ سے مستفیض ہوں۔'' آپ نے فرمایا:'' میں اس بات سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی پناہ چاہتا ہوں ۔'' خلیفہ نے کہا:'' آپ ہم سے دور کیوں رہنا چاہتے ہیں؟'' فر مایا:'' اگر میں تمہارے ساتھ رہوں تو اندیشہ ہے کہ کسی معاملے میں تمہاری طر ف مائل ہوجاؤں، شاہی عیش وعشرت سے کچھ فائدہ اٹھا لوں اور اس طرح اپنی دنیا وآخرت بر باد کر بیٹھوں لہٰذا دُوری ہی میں عافیت ہے۔'' خلیفہ نے کہا: ''مجھے کچھ نصیحت کیجئے۔'' فرمایا: ''اللہ عَزَّوَجَلَّ سے خوف کر اورجس جگہ جانے سے اس نے روکاہے وہاں ہر گز نہ جا۔ اورایسی جگہ سے ہر گز غیر حاضر نہ رہ جہاں حاضر رہنے کا اس پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ نے تجھے حکم دیا ہے۔'' خلیفہ نے کہا:'' اے ابو حَازِم! ہمارے لئے دعا کیجئے۔'' فرمایا: ''ہاں! میں دعا کرتا ہوں، ''اے اللہ عَزَّوَجَلَّ ! اگر سلیمان تیرا پسندیدہ بندہ ہے تو اس کے لئے خیر کی راہ آسان فرمادے اور اگر یہ تیرے دشمنوں میں سے ہے تو اسے پیشانی سے پکڑکر خیر کی راہ پر ڈال دے۔''
جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ دعا سے فارغ ہوئے تو خلیفہ نے ایک ہزار دینار آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی طرف بڑھاتے ہوئے عرض کی: '' حضور! یہ حقیر سا نذرانہ قبول فرمائیں۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا :'' مجھے ان کی کوئی حاجت نہیں ، میرے علاوہ اس مال کے اور بھی بہت سے حق دارہوں گے۔ میں ڈرتا ہوں کہ یہ مال میری اس نیکی کی دعوت کا بدلہ نہ ہوجائے جو میں نے تجھے دی۔ میں نے یہ تمام باتیں رضائے الٰہی عَزَّوَجَلَّ کے لئے کیں اور اسی سے اجر کا طلبگار ہوں، دنیا والوں سے ہر گز بدلہ نہیں چاہتا۔ جیساکہ حضرت سیِّدُنا موسیٰ کلیم اللہ علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃوالسلام جب فرعون کے ملک سے مدین کی طر ف تشریف لے گئے تو ایک کنوئیں کے قریب بیٹھ گئے وہاں دو لڑکیاں اپنے جانوروں کو پانی پلانے کے لئے کھڑی تھیں ، آپ علیہ السلام نے ان سے فرمایا:'' کیا کوئی مرد نہیں ہے کہ تم پانی پلا رہی ہو ؟'' کہا:'' نہیں۔'' یہ سن کر آپ علیہ السلام نے انہیں پانی بھر کر دیا اور پھر ایک درخت کے سائے تلے بیٹھ کر بارگاہِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ میں اس طر ح عرض گزار ہو ئے : ''"
رَبِّ اِنِّی لِمَاۤ اَنۡزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیۡرٍ فَقِیۡرٌ ﴿24﴾
"ترجمۂ کنزالایمان:اے میرے رب میں اس کھانے کاجوتومیرے لئے اتارے محتاج ہوں۔(پ20،القصص:24)
حضرتِ سیِّدُناشُعَیْب علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃو السلام نے فرمایا:'' وہ نوجوان ضرور بھوکا ہوگا ، تم میں سے کوئی ایک جائے اور اس نوجوان سے جاکر کہے:'' بے شک میرا والد آپ کو بلاتا ہے تا کہ جو بھلائی آپ نے ہمارے ساتھ کی اور ہمارے جانوروں کو پانی پلایا آپ کو اس کا بدلہ عطا فرمائے ۔'' جب صاحبزادی نے حضرت سیِّدُنا موسیٰ کلیم اللہ علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃو السلام کو اپنے والد کا پیغام دیا تو آپ علیہ السلام زار وقطار رونے لگے ، آپ علیہ السلام اس صحرائی علاقے میں اجنبی ومسافر تھے ، کئی دنوں سے کھانا نہ کھایا تھا ، آپ علیہ السلام ان کے پیچھے پیچھے ان کے گھر کی جانب چل دئیے ۔ تیز ہواکی وجہ سے ان کے کپڑے اڑنے لگے توآپ علیہ السلام نے فرمایا: '' اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بندی! تو میرے پیچھے چل ۔'' جب آپ علیہ السلام حضرتِ سیِّدُنا شُعَیْب علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃو السلام کے پاس پہنچے توانہوں نے کھانا پیش کرتے ہوئے فرمایا:'' اے نوجوان ! کھانا کھالیجئے۔'' حضرتِ سیِّدُنا موسیٰ علٰی نبینا وعلیہ الصلٰوۃو السلام نے فرمایا:'' میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی پناہ چاہتاہوں۔'' پوچھا:'' آپ کھانے سے کیوں انکار کررہے ہیں ؟'' فرمایا: '' ہمارا تعلق ایسے خاندان سے ہے اگر ہماری لئے ساری زمین کو سونے سے بھر دیا جائے تو پھر بھی ہم اپنا دِین نہیں بیچیں گے۔'' حضرتِ سیِّدُنا شُعَیْب علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃوالسلام نے فرمایا:'' خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! ایسا ہر گز نہیں کہ ہم آپ کی نیکی خرید رہے ہیں، بلکہ ہم نے تو بطور ضیافت یہ کھانا پیش کیا ہے اور مہمانوں کو کھانا کھلانا ہمارے آباء واجداد کا طریقہ رہا ہے ، آپ بلا جھجک کھاناتناول فرمائیں۔'' پھر آپ علیہ السلام نے کھانا تناول فرمایا۔
اے خلیفہ سلیمان بن عبد المَلِک! اگر آپ کی یہ دنیا میر ی نیکی کی دعوت کا بدلہ ہے تو حالتِ اضطرار میں مردارکا گوشت کھا لینا مجھے ان دیناروں کے لینے سے زیادہ پسند ہے ۔'' خلیفہ اس بزرگ کی شانِ بے نیازی دیکھ کر بہت متعجب ہوا ۔زُہْرِی نے کہا :'' ابو حَازِم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم میرے پڑوسی ہیں تیس سال کا طویل عرصہ گزرگیا لیکن میں ان سے کلام کرنے کاشرف حاصل نہ کر سکا۔'' حضرتِ سیِّدُنا ابو حَازِم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم نے فرمایا :'' تو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو بھول گیا تو نے مجھے بھی بھلادیا ۔اگر تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی محبت میں کامل ہوتا تو مجھ سے ضرور محبت کرتا۔'' زُہْرِی نے کہا :'' کیا آپ مجھے برا بھلا کہہ رہے ہیں؟''خلیفہ سلیمان نے کہا:''اے زُہْرِی !انہوں نے تجھے برا بھلا نہیں کہا بلکہ تو نے خود اپنے آپ کو برا بھلا کہاہے ۔ کیا تو پڑوسی کے حقوق سے آگاہ نہ تھا؟'' پھر حضرتِ سیِّدُنا ابو حَازِم علیہ رحمۃ اللہ الناصر نے فرمایا:'' بنی اسرائیل اس وقت تک سیدھی راہ پرگامزن رہے جب تک امراء وسلاطین، علماء کی بارگاہ میں حاضری دیتے رہے ۔ وہ علماءِ رَبَّا نِیِّیْن اپنے دِین کی وجہ سے دربارِ سلاطین سے دور بھاگتے تھے۔ پھر بھی حکمران وامراء علماء کی بارگاہ میں حاضر ہوتے۔ جب ذلیل لوگوں نے علماء کرام کی عزت وتوقیر دیکھی تو انہوں نے بھی علم"
"حاصل کیا پھر دین کو لے کر بادشاہوں کے درباروں میں جانے لگے اس طرح ان امراء وسلاطین نے علماء رَبَّا نِیِّیْن کو چھوڑ دیاپھر وہ قوم گناہوں پر جمع ہوگئی تو ان کی عزت جاتی رہی اور تنگدستی ومفلسی ان کا مقدر بن گئی ۔اگر علماء اپنے دین کی حفاظت کرتے اور لالچ کرتے ہوئے اسے بادشاہوں کے دربار میں نہ لے جاتے تو سلاطین وامراء سر کش وباغی نہ ہوتے ۔''
زُہْرِی نے کہا :'' اے ابو حَازِم! ایسا لگتا ہے کہ تم یہ ساری باتیں مجھے سنانے کے لئے کہہ رہے ہو اور مجھے طعنہ دے رہے ہو۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:''میں ہرگز تمہاری بے عزتی نہیں کررہا لیکن حقیقت وہی ہے جو تم نے سنی۔'' اتنا کہہ کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ دربار سے واپس چلے آئے۔
راوی کا بیان ہے کہ جب ہِشَام بن عبد المَلِک مدینۂ منورہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّتَعْظِیْماً آیا تو اس نے حضرتِ سیِّدُنا ابو حَازِم علیہ رحمۃ اللہ الناصر کو اپنے پاس بلایا اور کہا:'' مجھے کچھ نصیحت کیجئے ۔'' فرمایا:'' اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈر ، دنیا سے بے رغبتی اختیار کر، بے شک اس کی حلال اشیاء کا حساب اور حرام پر عذاب ہوگا۔''ہِشَام نے کہا:'' اے ابو حَازِم علیہ رحمۃ اللہ الناصر! آپ نے مختصر مگر بہت جامع نصیحت کی۔'' اچھا یہ بتائیے کہ آپ کا سر مایہ کیا ہے؟'' فرمایا:'' اللہ عَزَّوَجَلَّ پر پختہ یقین رکھنا اور اس چیز سے ناامید رہنا جو لوگوں کے پاس ہے ۔''کہا :'' آپ اپنی کوئی حاجت خلیفہ سے کہنا چاہیں تو کہیں۔'' فرمایا:'' افسوس صد افسوس ! سنو! میں اپنی حاجتیں اسی پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں پیش کرتا ہوں جس کے علاوہ کو ئی اور حاجتیں پوری نہیں کرتا۔ پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ سے مجھے جو عطا ہوتا ہے اسی پر قناعت کرتا ہو۔ اور جو چیز مجھ سے روک لی جاتی ہے اس پر صبر و شکر کرتا ہوں ۔میں نے کسب اورمال و دولت کے معاملے میں غور کیا تو میرے سامنے دو باتیں واضح ہوئیں ۔
پہلی یہ کہ جو چیز میرے مقدر میں ہے وہ ضرور بالضرور مجھے مل کر رہے گی اور اپنے وقت پر ہی ملے گی وقت سے قبل ہر گز نہیں مل سکتی چاہے میں ایڑی چوٹی کازور لگا لوں۔ اور جو چیز میرے علاوہ کسی اور کے مقدر میں ہے ، وہ مجھے کبھی بھی نہیں مل سکتی ۔ جس طرح مجھے کسی اور کا رزق نہیں مل سکتا اسی طرح کسی اور کو بھی میرے حصے کا رزق ہر گز ہرگز نہیں مل سکتا ، میں خواہ مخواہ اپنے آپ کو ہلاکت وپریشانی میں کیوں ڈالوں۔ وہ خالقِ کائنات عَزَّوَجَلَّ سب کو رزق دینے والا ہے ،مجھے اسی کی ذات کافی ہے۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم)
( میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! عظیم وکامیاب لوگ کبھی بھی اپنے اصولوں کی خلاف ورزی نہیں کرتے۔ دنیوی مال ودولت کی خاطر ہرگز اپنا سر مایۂ ایمان وعلم داؤ پر نہیں لگاتے۔ بھوک پیاس، تنگدستی اورلوگو ں کی طرف سے کی جانے والی ظلم وزیادتی سب برداشت کرلیتے ہیں لیکن کبھی بھی حالات سے مجبور ہوکر دنیا کی حقیر دولت کے بدلے اپنے علم وعمل کا سودا نہیں کرتے۔ ایسے باہمت بامُرَوَّت اور خوددار لوگ ہی در حقیقت لوگوں کے سالار و رہنما ہوئے ہیں۔)
؎ شاہین کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا پُردم ہے اگر تُو تو نہیں خطرۂ اُفتاد"
" حضرتِ سیِّدُنااَصْمَعِی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں: '' ایک مرتبہ میں اپنے ایک دوست کے ساتھ سفر پر تھا ، جنگل سے گزرتے ہوئے ہم راستہ بھول گئے ،کچھ دورایک خیمہ نظر آیا تواس طر ف گئے وہا ں پہنچ کر بلند آواز سے سلام کیا ، تو ایک عورت خیمے سے باہرآئی اور ہمارے سلام کا جواب دیتے ہوئے پوچھا: '' تم کون ہو ؟'' ہم نے کہا:'' ہم راستہ بھول گئے ہیں خیمہ دیکھا تو اس طر ف چلے آئے۔'' عور ت نے کہا:'' تم لوگ تھوڑی دیر یہیں ٹھہرویہاں تک کہ میں تمہاراحق پورا کروں جس کے تم حق دار ہو۔'' ہم وہیں کھڑے رہے۔ وہ پردے کے پیچھے چلی گئی اورکہا:''تم اپنامنہ دوسری طرف کرویہاں تک کہ تمہیں تمہارا حق دیا جائے۔'' ہم دوسری طرف دیکھنے لگے ، اس نے اپنی چادر اُتار کربچھائی اور خود پردے کی اَوٹ میں ہی رہی اورکہنے لگی:''اس چادر پر بیٹھ جاؤ، میرا بیٹا ابھی آتا ہی ہوگاپھرتمہاری ضیافت کا اہتمام کردیا جائے گا ۔'' ہم چادر پر بیٹھ گئے کچھ دور ایک سوار آتا دکھائی دیا تو بولی:'' یہ اونٹ تو میرے بیٹے کا ہے لیکن اس پر سوار ہونے والا میرے بیٹے کے علاوہ کوئی اور ہے ۔''کچھ ہی دیر بعدسوار خیمے کے پاس پہنچ گیا اس نے عورت سے کہا:'' اے اُمِّ عقیل! اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہارے بیٹے کے معاملے میں تمہیں عظیم اجر عطا فرمائے ۔'' یہ سن کر اس عورت نے کہا: ''تمہارا بھلا ہو، کیا میرا بیٹا مرگیا ؟'' کہا :'' ہاں۔'' پوچھا:'' اس کی موت کا سبب کیا بنا؟'' کہا:'' وہ اوٹنوں کے درمیان پھنس گیاتھا، اونٹوں نے اسے کنوئیں میں دھکیل دیاجس کی وجہ سے اس کی موت واقع ہوگئی۔'' بیٹے کی موت کی خبر سن کر و ہ صابرہ خاتون نہ روئی اور نہ ہی کسی قسم کا واویلا کیا بلکہ اس اونٹ والے سے کہا: ''نیچے اُترو ہمارے ہاں کچھ مہمان آئیں ہیں ان کی ضیافت کا اہتمام کرو ، وہ سامنے مینڈھا بندھا ہوا ہے اسے ذبح کر کے مہمانوں کو پیش کرو۔''
چنانچہ، مینڈھا ذبح کیاگیا اور اس کے گو شت سے ہماری دعوت کی گئی۔ ہم کھانا کھاتے ہوئے سوچ رہے تھے کہ یہ عورت کتنی صبر والی ہے کہ جوان بیٹے کی موت پر کسی طر ح کا غیر شرعی کام نہ کیا او ر نہ ہی کسی قسم کا شور شرابہ کیا ۔جب ہم کھانا چکے تو صابرہ خاتون نے کہا:'' تم میں سے کوئی شخص مجھے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی کتاب میں سے کچھ آیات سنا کر مجھ پر احسان کریگا ؟'' میں نے کہا:'' ہاں! میں تمہیں قرآنی آیات سنا تا ہوں۔'' صابرہ خاتون نے کہا:'' مجھے کچھ ایسی آیات سناؤ جن سے صبر و شکر کی دولت نصیب ہو ۔ میں نے سورۂ بقرہ کی درج ذیل آیات بینات کی تلاوت کی :"
وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیۡنَ ﴿155﴾ۙالَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَصَابَتْہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ ﴿156﴾
"ترجمۂ کنزالایمان:اورخوشخبری سناان صبروالوں کوکہ جب ان پرکوئی مصیبت پڑے توکہیں ہم اللہ کے مال ہیں اورہم کواسی کی طرف پھرنا۔ (پ2،البقرۃ:155۔156)
خاتو ن نے یہ آیاتِ قرآنیہ سنیں تو کہا: '' جو تم نے پڑھا کیا قرآن میں بالکل اسی طرح ہے ؟'' میں نے کہا :'' ہاں! خدا"
"عَزَّوَجَلَّ کی قسم! قرآن میں اسی طر ح ہے ۔'' صابرہ خاتون نے کہا:'' تم پر سلامتی ہو، اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہیں خوش رکھے۔'' پھر اس نے نماز پڑھی اور کہا: ''اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْن ''بے شک میرا بیٹا عقیل اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں پہنچ گیا ہوگا، تین مرتبہ اس نے یہی کلمات کہے پھر اس طرح مُلْتَجِی ہوئی: ''اے میرے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ ! جیسا تو نے حکم دیا میں نے ویسا ہی کیا اب تو بھی اپنے اس وعدے کو پورا فرما دے جو تو نے کیا ہے ، بے شک تو وعدہ خلافی نہیں کرتا ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم)
(سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ ! صبر ہو تو ایسا اور یقین ہو تو ایسا ۔اس خوش بخت ماں نے اپنے جگر کے ٹکڑے، اپنے جوان بیٹے کی موت پر بے وقوف اور جاہل عورتوں کی طرح نوحہ ، چیخ وپکار اور کوئی بھی غیر شرعی کام نہ کیا۔ بلکہ حکمِ خداوندی سن کر نماز ادا کی اور وہی کیا جو حکمِ خداوندی تھا۔وہ خوش نصیب ماں اپنے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ کی کتنی فرمانبردار تھی۔اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں بھی مصائب وآلام پر صبر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔جو نیک بندے مصیبت میں حرفِ شکایت زبان پر نہیں لاتے اور نہ ہی مصائب سے گھبراتے ہیں ان عاشقان ِرسول کا صدْقہ! اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں بھی دولتِ صبر و شکر سے مالا مال فرما دے۔( آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم))
؎ زباں پر شکوۂ رنج والم لایا نہیں کرتے نبی کے نام لیوا غم سے گھبرایا نہیں کرتے"
" حضرتِ سیِّدُنا عبدالرحمن علیہ رحمۃ اللہ المنّان اپنے چچا کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ'' ایک بوڑھی عورت جو جنگل میں چراگاہ کے قریب رہتی تھی اس کے متعلق مجھے ایک شخص نے بتایا کہ وہ بڑھیا بہت عقل مند اور صابرہ وشاکرہ تھی ۔ لوگ اس کے صبر وشکر اور دانائی کی مثالیں دیا کرتے تھے۔ اس کا ایک بیٹا تھا جو انتہائی وجیہہ و خوبصورت تھاکافی عرصہ بیمار رہا، بوڑھی ماں نے بہت اچھے طریقے سے اس کی تیمارداری کی۔عرصۂ دارز تک بسترِ َعلالت پر اپنے زندگی کے ایام گزارنے کے بعد بالآخر اس کانوجوان جمیل وشکیل اکلوتا بیٹا اس دارِ فنا سے دارِ بقا کی طرف کوچ کر گیا۔ اس کی موت کے بعد بڑھیا اپنے گھر کے صحن میں بیٹھی ہوئی تھی ۔ لوگ تعزیت کے لئے آئے تو بڑھیا نے ایک ضعیف العمر شخص سے کہا:'' کتنا اچھا ہے وہ خوش بخت جس نے عافیت کا لباس پہن لیا، جس پر نعمتوں کا رنگ چڑھ گیا، جسے ایسی فطرت عطا کی گئی کہ جب تک وہ اپنے مسائل حل نہ کرلے اسے تو فیق وہمت دی جاتی رہے۔ پھر بڑھیا نے دوعربی اشعار پڑھے جن کا مفہوم یہ ہے:
'' وہ میرا بیٹا تھا مجھے معلوم نہیں کہ اس کی وجہ سے مجھے کتنا اجر ملا، میری مدد اس کے لئے یہ تھی کہ میں نے اس کی پرورش کی"
"اورمیں اس کی دیکھ بھال کر نے والی تھی ، اگر میں اس کی موت پر صبر کروں تو اجردی جاؤں گی اور اگر گریہ وزاری اور چیخ وپکار کروں تو اس رونے والی کی طرح ہوجاؤں گی جسے اس کے رونے دھونے نے کچھ فائدہ نہ دیا۔''
بڑھیا کی یہ حکمت بھری باتیں سن کر ضعیف العمر شخص نے کہا:'' اب تک تو ہم یہی سنتے آئے ہیں کہ رونا دھونا ، واویلا کرنا عورتوں کی عادت ہے ، لیکن تم تو مردوں سے بھی زیادہ صبر والی ہو، تمہارا صبر عظیم ہے اور عورتوں میں تمہاری نظیر ملنا مشکل ہے۔'' یہ سن کر بڑھیا نے کہا :'' جب بھی کوئی شخص دو چیزوں یعنی صبر وشکر اور جزع فزعْ (یعنی بے صبری) کے درمیان ہو تو اس کے سامنے دو راستے ہوتے ہیں۔ بہر حال صبر تو ہرحال میں اچھا ہے، وہ ظاہراً حسین اور اس کا انجام محمود ہے۔ جب کہ بے صبری ،اس پر تو کوئی ثواب ہی نہیں ہے ۔اگر صبر و بے صبری انسانی شکل میں ہوتے تو صبر ، حسن و عادات اور دین کے معاملے میں بے صبری سے بدرجہا افضل ہوتا۔ صبر دینی معاملات اور نیکی کے کاموں میں جلدی کرنے والا ہے۔ جسے اللہ عَزَّوَجَلَّ دولتِ صبر عطا فرمائے اسے اللہ عَزَّوَجَلَّ کا وعدہ کافی ہے۔ صبر میں بھلا ہی بھلا اور بے صبری میں نقصان ہی نقصان ہے ۔''
(اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں صبر کی دولت سے مالا مال فرمائے، بے صبری وبے شکری کی نحوست سے محفوظ رکھے۔ راضی برضائے الٰہی عَزَّوَجَلَّ رہنے والااور حرفِ شکایت لب پرنہ لانے والا خوش نصیب ہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں صابر وشاکر بنائے ۔)
( آ مین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم)"
" حضرتِ سیِّدُنا عبیداللہ بن محمدمَدِینِی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں :'' ہمارے ایک دوست نے بتایا کہ ایک مرتبہ میں اپنی زرعی زمین کی طرف گیا ، مغرب کا وقت ہو ا تو نمازِ مغرب ادا کی۔ قریب ہی ایک طرف ایک قبر تھی ابھی میں نماز سے فارغ ہو اہی تھا کہ اچانک رونے کی آواز آنے لگی میں نے غور سے سناتو قبر سے یہ درد بھری آواز آئی : ''ہائے! میں تونماز بھی پڑھتا تھا ، میں تو روزے بھی رکھتا تھا۔'' یہ آواز سن کر مجھ پر لرزہ طاری ہوگیا میں نے ایک شخص کو بلایا تو اس نے بھی وہی آواز سنی جو میں سن رہا تھا ۔ پھر میں خوفزدہ ومتعجب ہوا ۔دوسرے دن میں نے پھر اسی مقام پر نمازِ عصر ادا کی، غروبِ آفتاب تک وہیں بیٹھا رہااور نمازِ مغرب ادا کی، قبر سے پھر یہ درد ناک آواز سنائی دی:'' ہائے ! میں تو نماز بھی پڑھتا تھا، میں تو روزے بھی رکھتا تھا۔ '' مسلسل اسی طر ح آوازآتی رہی۔ میں غمگین وپریشان اپنے گھر کی طر ف چلا آیا ، مجھے بخار چڑھ گیا اور دو مہینوں تک اسی میں مبتلا رہا ۔''
( اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں تمام گناہوں سے محفوظ رکھے ، نماز روزے کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ گناہوں سے بچنے کی بھی"
"توفیق عطا فرمائے۔ مذکورہ حکایت میں جس مردے کا ذکر ہوا وہ نماز روزے کا پا بند تھا لیکن اس کا کوئی گناہ ایسا ہوگا جس کی اسے سزا مل رہی تھی ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں عذابِ قبر سے محفوظ رکھے اور ہمارے گناہوں کو معاف فرماکر سچی توبہ کی تو فیق عطا فرمائے ۔)
؎ کب گناہو ں سے کنارہ میں کروں گا یا رب عَزَّوَجَلَّ! نیک کب اے میرے اللہ! بنوں گایا رب عَزَّوَجَلَّ!
کب گنا ہوں کے مرض سے میں شفا پاؤں گا کب میں بیمار مدینے کا بنوں گا یا رب عَزَّوَجَلَّ!
( آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم)"
" حضرتِ سیِّدُنا اُبی بن کَعْب حَارِثِی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:'' ایک مرتبہ میں اپنے گمشدہ اونٹوں کو تلاش کرنے کے لئے نکلا تو اپنے بر تنوں کو دودھ سے بھر لیا پھر میں نے دل میں کہا :'' یہ میں نے اچھا نہیں کیا ، سارے برتن دودھ سے بھر لئے لیکن وضو کے لئے پانی وغیرہ بھرا ہی نہیں، میرا یہ عمل غیر منصفانہ ہے (یعنی اس میں انصاف نہیں) اس خیال کے آتے ہی میں نے برتنوں کو دودھ سے خالی کیا اور پانی بھر لیا۔ پھر اونٹوں کی تلاش میں چل دیا۔ میرے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ نے ایسا کرم فرمایاکہ جو برتن وضو کے لئے بھر ے تھے ان میں تو پانی ہی رہا لیکن جو پینے کے لئے بھرے تھے وہ بھی سب دودھ سے بھرگئے ۔میں تین دن اونٹوں کی تلاش میں رہا اور تینوں دن مجھ پر اسی طرح رحمتِ خداوندی کی بر سات ہوتی رہی ۔ پھر میں دریا کی طرف گیا تو ایک آواز سنائی دی:
'' اے ابوکَعْب! بھنا ہوا گوشت چاہے یا دودھ ہی بہتر ہے؟ بے شک وہی پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ بھوک و پیاس سے نجات دینے والا ہے۔'' پھر میں اپنی قوم کی طرف آیا اور انہیں یہ واقعہ بتایا تو قبیلہ بنوقَنان کے سردار علی بن حَارِث نے کہا: ''میرا خیال ہے کہ جو کچھ توکہہ رہا ہے یہ بس کہنے کی حدتک ہے ۔'' میں نے کہا:'' اللہ عَزَّوَجَلَّ حقیقتِ حال کو بہتر جانتا ہے۔'' پھر میں اپنے گھر آیا اور سوگیا۔نمازِ فجر کے وقت کسی نے میرے دروازے پر دستک دی میں باہر آیا تو سامنے قبیلہ بنو قنان کے سردار علی بن حَارِث کو پایا۔میں نے کہا:'' اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ پر رحم فرمائے ، مجھے حکم فرمایا ہوتا تومیں خود حاضر ہوجاتا ،آپ نے کیوں تکلیف کی ؟''کہا:'' میں اس بات کا زیادہ حق دار ہوں کہ تمہارے پاس چل کر آؤں ، سنو! آج رات جب میں سویا تو کسی نے میرے خواب میں آکر کہا: ''تو وہی ہے نا جس نے اس شخص کی تکذیب کی جو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نعمتوں او ر عطاؤں کا تذکرہ کرتا ہے۔''میری توبہ ! میں آئندہ کبھی بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عطا ؤں اور نعمتوں کا ذکر کرنے والے کی باتو ں میں شک نہیں کروں گا ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم)"
" حضرتِ سیِّدُنا عبدالرحمن بن عبدا للہ خُزَاعِی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے منقول ہے: ایک مرتبہ عظیم سلطنت کے عظیم بادشاہ حضرتِ سیِّدُناذُو الْقَرْنَیْن علیہ رحمۃُ ربِّ الکَوْنَیْن ایک ایسی قوم کے پاس پہنچے جن کے پاس دنیوی سازو سامان وغیرہ کچھ بھی نہ تھا۔ انہوں نے ایک جگہ بہت سی قبر یں کھودی ہوئی تھیں، صبح سویرے ان قبروں کے پاس جاتے، انہیں صاف کرتے اور ان کے قریب ہی نماز پڑھتے۔ یہ ان کا روز کا معمول تھا۔ان کی غذ ا درختوں کے پتے اور گھاس تھی۔ جنگل میں ان کے لئے گھاس اور سبزہ وافر مقدار میں موجود تھا وہ اسے کھا کر اور تالابوں کا پانی پی کر گزارہ کرتے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شکر ادا کرتے۔حضرتِ سیِّدُنا ذُوالْقَرْنَیْن علیہ رحمۃ ربِّ الکَوْنَیْن نے ان کے سردار کو پیغام بھیجا کہ ہم سے آکر ملو۔قاصد نے بادشاہ کا پیغام دیا تو سردار نے کہا: ''ہمیں ان سے ملنے کی کوئی حاجت نہیں۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کویہ جواب ملا توخود سردار کے پا س گئے اور کہا:'' میں نے تمہاری طر ف پیغام بھیجا کہ ہم سے آکر ملو لیکن تم نے انکار کردیا تو میں خود ہی تمہارے پاس چلا آیا۔''
سردار نے کہا:'' اگر مجھے آپ سے کوئی حاجت ہوتی تو میں ضرور آپ کے پاس آتا، نہ مجھے آپ سے کوئی حاجت تھی نہ میں آیا ۔'' حضرتِ سیِّدُناذُو الْقَرْنَیْن علیہ رحمۃ ربِّ الکَوْنَیْن نے کہا:'' کیا وجہ ہے کہ میں تمہیں ایسی خستہ حالت میں دیکھ رہاہوں کہ کسی
قوم کو ایسی حالت میں نہیں دیکھا؟'' سردار نے کہا :'' آپ نے ہمیں کس حالت میں دیکھا۔'' کہا :'' تمہارے پاس دنیوی ساز وسامان میں سے کچھ بھی نہیں، تم لوگ سونا وچاندی حاصل کر کے اس سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتے ؟'' سردار نے کہا: ''ہمیں دنیوی مال ودولت سے نفرت ہے کیونکہ جب بھی کسی شخص کو یہ چیزیں ملیں اس کے نفس نے لالچ کیا اور ان سے بھی اچھی چیزوں کا مطالبہ شروع کردیا ۔''حضرتِ سیِّدُناذُو الْقَرْنَیْن علیہ رحمۃ ربِّ الکَوْنَیْن نے کہا:'' میں نے دیکھا کہ تم لوگو ں نے قبریں بنا رکھی ہیں، روزانہ وہاں جھاڑو دے کر نماز پڑھتے ہو ، تمہارے اس عمل کی کیا وجہ ہے؟'' کہا:'' ان قبروں کودیکھ کرہم عبرت حاصل کرتے ہیں ، انہیں دیکھ کر ہماری لمبی لمبی امید یں ختم ہوجاتی ہیں اور یہ ہمیں سامانِ عبرت مہیا کرتی ہیں ۔''
حضرتِ سیِّدُنا ذُو الْقَرْنَیْن علیہ رحمۃ ربِّ الکَوْنَیْن نے کہا:'' کیا وجہ ہے کہ تم لوگ گھاس اورپَتّے بطورِ غذا استعمال کرتے ہو؟تم جانور کیوں نہیں پالتے کہ ان کا گو شت کھاؤ، دودھ پیؤاور دیگر فوائد حاصل کرو ؟'' سردارنے کہا:''ہم وہ نہیں کہ ہمارے پیٹ ان کی قبر بنیں، ہم نے زمین پر گھاس اور سبزہ دیکھا تو اسی کو اپنی غذا بنالیا ۔ ابن آدم کو جینے کے لئے اس قدر غذا کافی ہے ، لذیذ وعمدہ کھانوں کا مزہ صرف زبان کی حد تک ہوتا ہے جیسے ہی غذا حلق سے نیچے جاتی ہے تمام مزہ ختم ہوجاتا ہے ۔''پھر سردار نے قبر سے ایک بوسیدہ کھوپڑی نکالی اور کہا :'' اے عظیم بادشاہ! کیاآپ جانتے ہیں کہ یہ کون ہے ؟''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' نہیں۔''"
سردار بولا:'' یہ دنیا کے بڑے بڑے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ تھا، اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اسے حکومت وطا قت عطا فرمائی ، لوگوں پر اسے حاکم بنایا لیکن اس نے مخلوقِ خدا پر ظلم کیا اور بلاوجہ انہیں تنگ کیا۔ جب اس کی سرکشی بڑھی تو موت کے ذریعے اس کی گرفت ہوئی پھر یہ پھینکے ہوئے بے جان پتھر کی طر ح بے بس ہوگیا ۔اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کے تمام کاموں سے واقف ہے، اب اس کے ہر عمل کا بدلہ قیامت کے دن دیا جائے گا ۔''
"ہیں۔'' سردار نے کہا : ''اے عظیم بادشاہ! دنیوی مال ومتاع ، حکومت وسلطنت کی وجہ سے ،اوراسی دنیوی دولت کے حصول کی خاطر وہ آپ کے دشمن ہو گئے ہیں ۔ اور میرے پاس ایسی کو ئی چیزنہیں جس کی وجہ سے لوگ مجھ سے دشمنی کریں ۔ نہ لوگو ں سے مجھے واسطہ پڑتاہے اور نہ ہی وہ میرے دشمن بنتے ہیں۔ مجھے میری یہی زندگی پسند ہے۔''
سمجھ دار ومخلص سردارکی یہ باتیں سن کر عظیم بادشاہ حضرتِ سیِّدُنا ذُو الْقَرْنَیْن علیہ رحمۃُ ربِّ الکَوْنَیْن وہاں سے واپس تشریف لے آئے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں اعمالِ صالحہ کی تو فیق عطا فرمائے ،دنیوی غموں اور پریشانیوں سے نجات اور فکرِ آخرت عطا فرمائے۔
( میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اس حکایت میں ہمارے لئے عبرت کے بے شمار مدنی پھول ہیں ، انسان کو گر دو پیش کے ماحول سے عبرت حاصل کرتے رہنا چاہے، سمجھدار وہی ہے جو موت سے پہلے اُس کی تیاری کرلے ، دنیوی زندگی بے حد مختصر ہے۔ ہر سانس موت کو ہم سے قریب کرتا جارہا ہے ، جیسے ہی سانس کی مالا ٹوٹی ہمارا سلسلۂ عمل منقطع ہوجائے گا ،پھر حسرت وافسوس کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا ، اتنی بھی مہلت نہ دی جائے گی کہ ایک مرتبہ''سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ '' کہہ کر اپنی نیکیوں میں اضافہ کرلیں۔ بس پھر ہم ہوں گے اور ہمارے اعمال ۔ ہر ذی شعور پر یہ بات روزِ روشن کی طر ف عیاں ہے کہ وقت کا ضیاع باعث ِ ندامت ہے، سمجھ دار لوگ کبھی بھی اپنا وقت ضائع نہیں کرتے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں موت کی تیاری کی توفیق عطا فرمائے۔ ( آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم)
؎ کچھ نیکیاں کما لے جلد آخرت بنا لے کوئی نہیں بھر وسہ اے بھائی زندگی کا
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! فکرِ آخرت کے حصول کا ایک بہترین ذریعہ تبلیغِ قرآن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک ''دعوتِ اسلامی'' کے مدنی ماحول سے وابستگی بھی ہے۔ اپنے اپنے شہروں میں ہونے والے دعوتِ اسلامی کے ہفتہ وارسنتو ں بھرے اجتماع میں پابندیئ وقت کے ساتھ شرکت فرما کر خوب خوب سنتوں کی بہاریں لُوٹئے۔ سنتوں کی تربیت کے بے شمار مدنی قافلے شہر بہ شہر،گاؤں بہ گاؤں سفر کرتے رہتے ہیں،آپ بھی سنتوں بھرا سفر اختیار فرما کراپنی آخرت کے لئے نیکیوں کا ذخیرہ اکٹھا کریں۔ اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ اپنی زندگی میں حیرت انگیز طور پر مدنی انقلاب برپا ہوتا دیکھیں گے۔ )
؎ اللہ کرم ایسا کرے تجھ پہ جہاں میں اے دعوتِ اسلامی تیری دھوم مچی ہو !
( آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم)"
حضرت سیِّدُنا بِشربن عبداللہ بن بَشَّارعلیہ رحمۃاللہ الغفار سے منقول ہے: بنی اسرائیل کے ایک شخص پر نزع کی کیفت طاری ہوئی تو اس کی بیوی غمِ فرقت میں رونے لگی۔ اس نے بیوی سے کہا:'' کیا تجھے یہ بات پسند ہے کہ موت کے بعد بھی میں تجھ سے
"دور نہ جاؤں۔'' اس نے ہاں میں سر ہلایا تو اس کے شوہر نے کہا :'' جب میں مرجاؤں تو میری لاش ایک تابوت میں رکھ دینا اور تابوت کو اپنے مکان ہی میں رکھنا، میرا جسم گلنے سڑنے سے محفوظ رہے گا۔'' موت کے بعد اس کی بیوی نے ایسا ہی کیا اور تابوت کو اپنے کمرے میں محفوظ کرلیا۔ کچھ عرصہ بعد جب تا بوت کھول کر دیکھا تو اس کے شوہر کا ایک کان گَل کر ختم ہوچکا تھا۔عورت نے کہا: '' اس شخص نے اپنی زندگی میں کبھی بھی مجھ سے غلط بیانی نہیں کی ، اس نے تو کہا تھا کہ میرا جسم مرنے کے بعد سلامت رہے گا لیکن اس کا تو ایک کان گَل کر ختم ہوگیا ہے اس کی کیا وجہ ہے؟'' ابھی یہ انہی خیالات میں گم تھی کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مردے کے جسم میں روح لوٹا دی، اس نے اپنا کان گل جانے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا:'' ایک مرتبہ کسی مصیبت زدہ شخص نے مجھے مدد کے لئے پکارا میں نے اس کی آواز سنی لیکن مدد نہ کی، بس اسی وجہ سے میراوہ کا ن گل گیا جس سے میں نے مصیبت زدہ کی آواز سنی اور باوجودِ قدرت اس کی مدد نہ کی ۔''
اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں اپنے غضب سے محفوظ رکھ کر رحم وکرم والا معاملہ فرمائے۔ اور جب کوئی مصیبت زدہ ہم سے مدد چاہے تو ہمیں اس کی مدد کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ جو شخص مصیبت میں کسی کی مدد کرتا ہے تو مشکل وقت میں اس کی بھی مدد کی جاتی ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے:
؎ دُنیا نہ سمجھ اس کو میاں! دریا کی یہ منجدھار ہے اَوروں کا بیڑا پار کر تیرا بھی بَیٹرا پار ہے"
" حضرتِ سیِّدُنا عبید اللہ اَحلافی علیہ رحمۃ اللہ الکافی سے منقول ہے: بنی اسرائیل میں جب کوئی قاضی (یعنی جج)مرجاتا تو وہ اُسے بڑے کمرے میں چالیس سال تک رکھتے ۔ اس دوران اگر اس کا جسم گل سڑ جا تاتو وہ سمجھتے کہ اس نے ضرور کسی فیصلے میں ناانصافی اور ظلم وستم سے کام لیا ہے اسی لئے اس کا جسم خراب ہوگیا ۔ جب ایک عادل قاضی کا انتقال ہو ا توحسب ِطریقہ انہوں نے میت کو ایک کمرے میں رکھ دیا۔ کچھ عرصہ بعد اس کمرے کی دیکھ بھال پر مامور نگران جب کمرے میں آیا تو خادم کمرے کی صفائی کر رہا تھا کہ اچانک اس کے جھاڑو کا ایک تنکا میت کے کان میں لگا ، کان سے پیپ اور خون بہنے لگا ۔جب لوگوں کو یہ بات بتائی گئی تو وہ بڑے پریشان ہوئے کیونکہ وہ قاضی بظاہر بہت عادل وصالح تھا ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اس دور کے نبی علیہ السلام پر وحی نازل فرمائی کہ'' میرا یہ بندہ واقعی عدل وانصاف پسند تھا ، لیکن ایک مرتبہ اس کے پاس دو شخص اپنا فیصلہ کروانے آئے تو ایک شخص کی بات اس نے زیادہ توجہ سے سنی اور دوسرے کی طر ف کچھ کم تو جہ دی اسی لئے ہم نے اسے یہ سزا دی ہے۔''
اے ہمارے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ ! ہم پر رحم وکرم فرما، تیرا عذاب سہنے کی ہم میں طاقت نہیں ۔ ہمارے بدن جہنم کی"
بھڑکتی ہوئی آگ کیسے برداشت کریں گے۔اے ہمارے مالک و مولیٰ عَزَّوَجَلَّ ! ہماری خطاؤں سے در گزر فرما، ہمیں متقی و پرہیز گار، والدین کا فرمانبردار اور سچا پکا عاشقِ رسول بنا ، دنیا و آخرت میں اپنی ناراضگی سے بچا ۔ ہم سے سدا کے لئے راضی ہوجا۔اے ہمارے مالک! تیری قسم! اگر تو ہم سے ناراض ہوگیا تو ہم تباہ وبر باد ہوجائیں گے پھر جہنم کی وہ بھڑکتی ہوئی آگ جس کے بارے میں قرآنِ پاک میں فرمایاجارہا ہے :
الَّتِیۡ تَطَّلِعُ عَلَی الْاَفْـِٕدَۃِ ؕ﴿7﴾
"ترجمۂ کنزالایمان:وہ جودلوں پرچڑھ جائے گی۔(پ30،الہمزہ:7)
(اے ہمارے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ ! کرم والامعاملہ فرما۔نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر، دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَر صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا صدقہ! ہم سے سدا کے لئے راضی ہوجا ۔)
؎ گر تو ناراض ہوا میری ہلاکت ہو گی ہائے میں نارِ جہنم میں جلوں گا یا رب عَزَّوَجَلَّ
عفو کر اور سدا کے لئے راضی ہو جا یہ کرم کر دے تو جنت میں رہوں گا یا رب عَزَّوَجَلَّ
( آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم)"
" حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے: ایک مرتبہ میں سفر پر روانہ ہوا تو میرا گزر زمانۂ جاہلیت کے قبرستان سے ہوا ۔اچانک ایک مردہ قبر سے باہر نکلا اس کی گردن میں آگ کی رنجیربندھی ہوئی تھی میرے پاس پانی کا ایک برتن تھا۔ جب اس نے مجھے دیکھا تو کہنے لگا :'' اے عبداللہ ! مجھے تھوڑا سا پانی پلا دو ۔''میں نے دل میں کہا:'' اس نے میرا نا م لے کر مجھے پکارا ہے یا تو یہ مجھے جانتا ہے یا عربوں کے طریقے کے مطابق عبداللہ کہہ کر پکار رہا ہے ۔'' پھر اچانک اسی قبر سے ایک اور شخص نکلا اس نے مجھ سے کہا:''اے عبداللہ! اس نافرمان کو ہر گز پانی نہ پلانا ، یہ کافر ہے۔'' دوسرا شخص پہلے کو گھسیٹ کر واپس قبر میں لے گیا۔ میں نے وہ رات ایک بڑھیا کے گھر گزاری، اس کے گھر کے قریب ایک قبر تھی میں نے قبر سے یہ آواز سنی:'' پیشاب! پیشاب کیا ہے ؟ مشکیزہ! مشکیزہ کیا ہے ؟''
جب اس آوا زکے متعلق بڑھیا سے پوچھا تو اس نے کہا : ''یہ میرے شوہر کی قبر ہے۔ اسے دو خطا ؤ ں کی سز امل رہی ہے۔ پیشاب کرتے وقت یہ پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا ، میں اس سے کہتی کہ تجھ پر افسوس! جب اونٹ پیشاب کرتا ہے تو وہ بھی اپنے پاؤ ں کشادہ کر کے پیشاب کے چھینٹوں سے بچتا ہے ،لیکن تو اس معاملے میں بالکل بھی احتیاط نہیں کرتا ، میرا"
"شوہر میری ان باتوں پر کوئی تو جہ نہ دیتا، پھر یہ مرگیا تو مرنے کے بعد سے آج تک اس کی قبر سے روزانہ اسی طرح کی آوازیں آتی ہیں۔'' میں نے پوچھا: ''مشکیزہ کیا ہے ؟'' بڑھیانے کہا:'' ایک مرتبہ اس کے پاس ایک پیاسا شخص آیا اس نے پانی مانگا تو کہا : ''جاؤ، اس مشکیزے سے پانی پی لو ، وہ پیاسا بے تا با نہ مشکیزے کی طرف دوڑا جب اٹھایا تو وہ خالی تھا پیاس کی شدت سے وہ بے ہوش ہو کر گِر گیا اور اس کی موت واقع ہوگئی ۔ پھر میرا شوہر بھی مرگیا اس کی وفات سے آج تک روزانہ اس کی قبر سے آواز آتی ہے ، مشکیزہ! مشکیزہ کیا ہے؟'' حضرت سیِّدُنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں:''میں نے حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہِ بے کس پناہ میں حاضر ہو کر سارا واقعہ عرض کیا تو سرکارِ عالی وقار، مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے تنہا سفر کر نے سے منع فرمادیا۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم)"
" حضرتِ سیِّدُنا وُہَیْب بن وَرْد علیہ رحمۃاللہ الرَّب فرماتے ہیں:'' ہمیں یہ خبر پہنچی کہ عالَمِ اسلام کے عظیم خلیفہ امیر المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عمر بن عبد العزیز علیہ رحمۃ اللہ القدیر نے مسافروں ، مسکینوں او رفقراء کے لئے ایک مہمان خانہ بنا رکھا تھا، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے گھر والوں کو تنبیہ کی ہوئی تھی کہ اس مہمان خانے سے تم کوئی چیز بھی نہ کھانا، اس کا کھانا صر ف مسافروں اور غرباء وفقراء کے لئے ہے۔ ایک مرتبہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھر آئے تو ایک کنیز کے ہاتھ میں پیالہ دیکھا جس میں صرف دو گھونٹ دودھ تھا ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا : ''یہ کیا ہے؟'' کنیز نے عرض کی :'' اے امیر المؤمنین! آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجہ حاملہ ہے، اسے چند گھونٹ دودھ پینے کی خواہش ہو رہی تھی اور جب حاملہ عورت کو وہ چیز نہ دی جائے جس کی اسے خواہش ہو توڈرہوتا ہے کہ اس کا حمل ضائع ہو جائے لہٰذا اسی خوف سے میں یہ دو گھونٹ دودھ مہمان خانے سے لے آئی ہوں ۔''
حضرتِ سیِّدُنا عمر بن عبد العزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کنیز کا ہاتھ پکڑا اور اپنی زوجۂ محترمہ کے پاس لے کرچلے، جاتے ہوئے بآوازِبلند فرمایا: '' اگر اس کا حمل فقیروں، محتاجوں اور مسافروں کا حق کھائے بغیر نہیں رُک سکتا تواللہ تبارک وتعالیٰ اسے نہ روکے۔'' پھراپنی زوجہ کے پاس پہنچے تو انہوں نے عرض کی:'' میرے سرتاج! کیا بات ہے ؟'' آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:'' اس کنیز کا یہ خیال ہے کہ جو تیرے بطن میں حمل ہے وہ مسکینوں ، محتاجوں او رمسافروں کا حق کھائے بغیر نہیں رُک سکتا ، اگر یہی بات"
"ہے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ تیرے حمل کونہ روکے۔'' سعادت مندزوجہ نے جب یہ سنا تو کنیز سے کہا:'' جا!یہ دودھ واپس لے جا، خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم! میں اسے ہر گز نہ چکھوں گی ۔'' چنانچہ، کنیز دودھ کا پیالہ واپس لے گئی ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم)
(سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ ! خلیفۂ اسلام کیسی عظیم صفات کے مالک تھے جن کی حکومت کے ڈَنکے عرب وعجم میں بج رہے تھے، ان کے گھر والو ں کی کیفیت کیا تھی؟ اسلام کے وہ پاسبان کیسے انصاف پسند تھے کہ بھوکا پیاسا رہنا منظور تھا لیکن کسی کے حق میں سے ایک گھونٹ لینے کو بھی تیار نہ تھے۔اللہ عَزَّوَجَلَّ ایسے خلفاء کے صدقے ہمیں بھی امانت کی پاسدار ی ، دیا نت ، اخلاص اور اپنا خوف عطا فرمائے ۔( آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم))"
" حضرتِ سیِّدُناابوحَمْزَہ اَنصاری علیہ رحمۃ اللہ الباری، حضرتِ سیِّدُنا ابومُصْرِخِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کے حوالے سے بیان کرتے ہیں: ایک مرتبہ میں جہاد کے لئے گیا تو میرا گز ر ملک ِ شام کے ایک قلعے کے قریب سے ہوا جس کا دروازہ بند تھا۔ دروازے کے ساتھ ہی ایک قبر تھی۔رات ہوچکی تھی لہٰذامیں نے یہیں رات گزارنے کافیصلہ کیااورقبرکے قریب لیٹ گیا۔میں سویاہواتھا کہ ایک غیبی آواز سن کر میری آنکھ کھل گئی ۔کوئی کہنے والاکہہ رہاتھا:''اے اُمیمہ!تُوہمارے پاس آ،اللہ عَزَّوَجَلَّ تجھ سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی کرے۔'' آواز سن کر میں خوفزدہ ہوگیا اور نماز پڑھنے لگا۔ پھر جب صبح کا اُجا لا پھیلنے لگا تو میں دوبارہ سوگیا، میں نے پھر وہی آواز سنی: '' اے اُمیمہ! ہمارے پا س آ، اللہ عَزَّوَجَلَّ دونوں حالتوں میں تجھ سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی کرے، ہماری قبروں کے اندھیرے سے تعجب نہ کر تو مِٹی کے نیچے ہمارے پاس آجا۔ ''
میں پھر گھبرا کر اٹھ بیٹھا،قلعے کے دروازے کی طرف دیکھا وہ کھل چکا تھا اور لوگ ایک جنازہ لئے آرہے تھے ۔ ان کے آگے ایک بوڑھا شخص تھا، میں نے اس سے کہا :'' یہ جنازہ کس کا ہے؟ '' کہا :'' یہ میری بیٹی کا جنازہ ہے۔'' میں نے کہا:'' اس کا نام کیا ہے ؟'' کہا:'' اُمیمہ۔'' میں نے قبر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: '' یہ قبر کس کی ہے ؟'' کہا : '' میرے بھتیجے کی،یہ میری بیٹی کا شوہرتھا فوت ہوگیا تو ہم نے اسے دفنا دیا، اب میری بیٹی بھی انتقال کر گئی ہے ہم اسے دفن کر نے آئے ہیں۔'' میں نے جب یہ سنا تو وہاں موجود لوگو ں کو اس آواز کے بارے میں بتایاجو میں نے رات کو دو مرتبہ سنی تھی ، لوگ یہ سن کر حیران رہ گئے ۔
حضرتِ سیِّدُنا عبد الرحمن ابن جَوْزِی علیہ رحمۃ ا للہ القوی ا س حکایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: '' اس سے ثابت ہو ا"
"کہ مردے زندوں کے احوال جانتے ہیں ۔''
چنانچہ،حضرتِ سیِّدُنا محمد بن عباس وَرَّاق علیہ رحمۃ اللہ الرزّاق سے مروی ہے کہ'' ایک شخص اپنے والد کے ساتھ سفر پر روانہ ہوا ، راستے میں دَوْم(یعنی سیب کی طر ح سرخ رنگ کے پھلوں والے خاص درخت ) کے پاس اس کے والد کا انتقال ہوگیا۔ بیٹا اسے درخت کے قریب ہی دفنا کر سفر پر روانہ ہوگیا۔ کچھ عرصہ بعد جب اس نوجوان کاگزر اس درخت کے قریب سے ہوا تو اپنے والد کی قبر پر نہ ٹھہرا، یکا یک ہاتف ِ غیبی کی آواز نے اسے چونکا دیا، فضا میں آواز گو نجنے لگی:
''میں نے تجھے رات کے وقت دَوْم کے درخت کے قریب سے گزرتا ہوا پایا تجھ پر لازم ہے کہ دوم والے سے گفتگو کر ، دوم کے درخت کے قریب ایک شخص رہتا ہے، کاش! تو اس کی جگہ ہوتا، کچھ دیر دوم والے کے پاس ٹھہر اور اسے سلام کر۔''
اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں آخرت میں اچھی جزا عطا فرمائے اور اپنے عفو وکرم کے سائے میں رکھے۔ ( آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم)"
حضرتِ سیِّدُنا صالح مُرِّی علیہ رحمۃ اللہ القوی ایک مرتبہ ایک محل کے قریب سے گزرے تو ایک نوجوان کنیز ہاتھوں میں دَف اٹھائے یہ نغمہ گارہی تھی:'' ہم لوگ ایسی نعمتوں اور خوشیوں میں ہیں جو کبھی زائل (یعنی ختم) نہ ہوں گی ۔'' یہ سن کر حضرتِ سیِّدُنا صالح مُرِّیّ علیہ رحمۃ اللہ القوی نے اس کنیز سے کہا :'' اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! تو جھوٹ بول رہی ہے ، پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وہا ں سے روانہ ہو گئے۔'' کچھ عرصہ بعد جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا گزر دوبارہ اس محل کے قریب سے ہوا تو دیکھا کہ اس محل پر بوسیدگی وشکستگی کے آثار نمایاں تھے نوکرچاکرسب غائب تھے ،محل کی تمام زیب وزینت خاک میں مل چکی تھی، گر دشِ ایام کی زد میں آکر وہ زیب وزینت کا شاہکار خراب وبیکار ہوچکاتھا گویا وہ ویران محل پکار پکار کر زبانِ حال سے یوں کہہ رہا تھا:
"سنائی دی:'' اے صالح رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ! جب مخلوق کا مخلوق پر اتنا غضب ہے تو مخلوق پر خالق کے غضب کا عالَم کیا ہوگا؟'' پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لوگو ں کی طر ف متوجہ ہوئے اور زارو قطار روتے ہوئے یوں گویا ہوئے: اے لوگو! مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ جہنمی اس طرح پکاریں گے: ''اے ہمارے پرور دگار عَزَّوَجَلَّ ! تو جو چاہے ہمیں عذاب دے ، لیکن ہم پر غضب نہ فرما ، بے شک تیرا قہر و غضب ہم پر آگ سے زیادہ شدید ہے۔ اے ہمارے رب عَزَّوَجَلَّ ! جب تو ہم پر غضب فرماتا ہے تو عذاب کی زنجیر یں، بیڑیاں اور جہنمی طوق ہم پر تنگ ہوجاتے ہیں ۔''
؎ عفو کر اور سدا کے لئے راضی ہو جا گر کرم کر دے تو جنت میں رہوں گایا رب عَزَّوَجَلَّ!
(پیارے اسلامی بھائیو! یہ حکایت اپنے اندر عبرت کے بے شمار مدنی پھول لئے ہوئے ہے ۔ انسان کو دنیا کی ظاہری زیب وزینت کے دھوکے میں پڑ کراپنے پروردگارعَزَّوَجَلَّ کی یاد سے غافل نہیں ہوناچاہے۔افسوس ہے اس پر جو دنیا کی نیرَنْگیاں دیکھنے کے باوجود بھی اس کے دھوکے میں پڑ کر اپنی موت اور قبر و حشر کو بھول جائے اور اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے اعمالِ صالحہ کی طرف راغب نہ ہو، ایسا شخص واقعی قابلِ مذمت ہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں دنیا کے دھوکے سے بچنے کی ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمارہا ہے:"
یاۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّ وَعْدَ اللہِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّکُمُ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا ٝ وَلَا یَغُرَّنَّکُمۡ بِاللہِ الْغَرُوۡرُ ﴿5﴾
"ترجمۂ کنزالایمان: اے لوگو ! بے شک اللہ کا وعدہ سچ ہے تو ہر گز تمہیں دھوکہ نہ دے دنیا کی زندگی اور ہر گز تمہیں اللہ کے حکم پر فریب نہ دے وہ بڑا فریبی۔ (پ22، الفاطر:5)
خوش نصیب ہے وہ شخص جو دنیا کے دھوکے سے بچے اور آخرت کی تیاری کے لئے ہر دم کوشاں رہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں دنیا کے دھوکے سے بچا کر آخرت کی تیاری کے لئے اعمالِ صالحہ کی تو فیق عطا فرمائے ، اپنی ناراضگی سے بچا کر رضائے دائمی کی لازوال دولت سے مالا مال فرمائے۔ ( آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم))"
حضرتِ سیِّدُنا ابو الحسن فارسی علیہ رحمۃ اللہ القوی سے منقول ہے: حضرتِ سیِّدُنا ذُوالنُّوْن مِصْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کے معتقدین میں سے ایک شخص کی عقل جاتی رہی اور وہ مجنون ہوکر گلی کوچوں میں اس طر ح صدائیں لگاتا پھرتا:'' ہائے ! میرا دل کہاں ہے؟ ہائے! میرا دل کہا ں ہے؟ کیا کسی کو میرا دل ملا ہے؟ کیا کسی کو میرا دل ملا ہے ؟ میرا دل کہا ں ہے ؟'' بچے اس کا مذاق اُڑاتے اور پتھر مارتے۔ ایک دن وہ بچوں سے تنگ آکر ایک گلی میں داخل ہوکر ایک جگہ بیٹھ گیا ، کچھ دیر بعد ایک بچے کے رونے
"کی آواز سنائی دی ، نظر اٹھا کر دیکھا تو ایک چھوٹا سا بچہ زارو قطار رورہا تھا، اس کی والدہ نے کسی غلطی پر اسے مارا اور ناراض ہوکر گھر سے باہر نکال کر دروازہ بند کر دیا تھا۔ اب وہ چھوٹا سا مُنَّا کبھی دروازے کی دائیں جانب جارہاتھا کبھی بائیں جانب لیکن اسے اندر جانے کا کوئی راستہ نظر نہ آرہاتھا۔ بچہ بڑے درد مندانہ انداز میں رورہا تھااور اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے ؟کہا ں جائے؟ بالآخر تھک ہار کر اپنے گھر کے دروازے کی چوکھٹ پر گردن رکھ کر لیٹ گیا ،لیٹے لیٹے اسے نیند آگئی۔ جب بیدار ہوا تو رونے لگا اور بڑی آہ وزاری کرتے ہوئے یوں التجائیں کرنے لگا:
'' اے میری پیاری ماں! اگر تو ہی میرے لئے دروازہ بند کردے گی تو پھر کون میرے لئے ا پنا دروازہ کھولے گا؟ جب توہی مجھے ٹھکرادے گی تو کون مجھے اپنے قریب کریگا؟ میر ی پیاری ماں! جب تو ہی مجھ سے ناراض ہوگئی تو کون مجھے پیار دے گا ؟ میری پیاری ماں !مجھے اپنی آغو شِ رحمت میں لے لے۔''
بچے کی آنکھوں سے سَیلِ اشک رواں تھا اور بڑے ہی درد مندانہ انداز میں آہ وزاری کر رہا تھا۔ اپنے جگر کے ٹکڑے کی یہ درد بھری آواز سن کر ماں کا دل بَھر آیا ، وہ دوڑتی ہوئی اپنے جگر پارے کے پاس آئی تو دیکھا کہ بچے کی آنکھیں آنسوؤں سے تربَتر تھیں ،چہرے پر مٹی لگی ہوئی تھی اور وہ زمین پر سررکھ کر زار وقطار رورہاتھا۔ ماں نے فوراً اپنی آغوش میں لے لیا ، پیار سے چومنے لگی اور مامتا بھری آوازمیں کہا: '' میرے لال! میری آنکھوں کی ٹھنڈک! تُو تو مجھے جان سے بھی زیادہ محبوب ہے تو نے ایسی غلطی کی جس کی وجہ سے مجھے تجھ پر غصہ آیا اور تجھے سختی برداشت کرنی پڑی، میرے لال! اگر تو میری اطا عت وفرمانبرداری کرتا تو ہر گز میری طر ف سے تجھے ناپسند یدہ بات نہ پہنچتی۔''
وہ مجنون ،ماں بیٹے کی باتیں سن رہا تھا، جب اس نے ماں کی بیٹے پر شفقت دیکھی تو اسے وجد آگیا وہ کھڑا ہو گیا اور زور زور سے چیخنے لگا۔چیخ وپکار سن کر لوگ اس کے گرد جمع ہوگئے اور وجہ پوچھی تومجنون نے کہا :''مجھے میرا دل مل گیاہے۔ مجھے میرا دل مل گیا ہے۔'' جب اس نے حضرتِ سیِّدُنا ذُوالنُّوْن مِصْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کو دیکھا تو کہا :'' حضور! مجھے میرا کھویا ہوا دل مل گیا ہے ، فلاں گلی فلاں مکان کے پاس مجھے میرا دل مل گیا۔'' پھر اس نے ماں بیٹے والا واقعہ سنایا ۔'' جب بھی وہ مجنون یہ واقعہ سناتا اس پر وجد طاری ہوجاتا ، گویا ماں بیٹے کی محبت دیکھ کر اسے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی مخلوق پر رحمتیں وعنایتیں یاد آجاتیں۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم)
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اس رِقّت انگیز حکایت میں ہماری اصلاح کے لئے بے شمار مدنی پھول ہیں ، بچے کی کسی غلطی پر ماں نے ناراض ہوکر اسے گھر سے باہر نکال دیا تو وہ چھوٹاسا مُنّا ماں کی ناراضگی ودوری لمحہ بھر کے لئے بھی برداشت نہیں کرسکا۔ گھر کے دروازے پرسر رکھ کر روتا رہا اسے اپنی ماں کی رحمت و شفقت سے امید تھی کہ وہ ضرور بلالے گی میری غلطی کومعاف کر کے"
"مجھے اپنے دامن میں چھپالے گی ، بالآخر بچے کی گریہ وزاری دیکھ کر ماں نے اسے اپنی مامتا بھری گود میں اٹھالیا اور اس کی خطا کو معاف کردیا۔ ہمارا پروردگار جو ہم پر ستر ماؤں سے بھی زیادہ مہربان ورحیم ہے وہ ہم سے کتنی محبت کرتا ہوگا ۔
ہمیں بھی چاہے کہ کوئی بھی ایسا کام نہ کریں جس میں ہمارے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی ہو پھر بھی بتقضائے بَشرِیَّت جب بھی کوئی خطا سرزد ہو فوراً اس رحیم و کریم پروردگار عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں سجدہ رَیز ہو کر رو روکر اپنے پروردگار عَزَّوَجَلَّ کو راضی کرلینا چاہے۔ خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم! اگر خدا نخواستہ وہ مالک ِ حقیقی عَزَّوَجَلَّ ہم سے ناراض ہوگیا تو ہم کہیں کے بھی نہ رہیں گے، دُنیا وآخرت تباہ وبرباد ہوجائے گی ۔ہمیں اپنے پیارے ، رحیم وکریم،ستار وغفار رب عَزَّوَجَلَّ سے اُمید ِ واثق ہے کہ وہ مولیٰ عَزَّوَجَلَّ ہماری خطاؤں کو ضرور معاف فرمائے گا اور اپنے رحمت کے سائے میں ضرور جگہ عطا فرمائے گا۔ جو اس پر بھروسہ کرتا ہے وہ کبھی مایوس نہیں ہوتا ، وہ اتنا عطا فرماتا ہے کہ عقلیں اس کی عطاؤں کا اِدراک نہیں کرسکتیں۔
ہم اپنے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں ہمیشہ اپنی ناراضگی سے بچائے رکھے اور اپنی رضا والے اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ( آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم))
؎ عفو کر اور سدا کے لئے راضی ہو جا یہ کرم کردے تو جنت میں رہوں گا یا رب عَزَّوَجَلَّ !"
" حضرتِ سیِّدُنا ابو یوسف غَسُّوْلِی علیہ رحمۃ اللہ الولی فرماتے ہیں:'' میں ملک ِ شام میں حضرت سیِّدُنا ابراہیم بن اَ دْہَم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کے ساتھ رہتا تھا ، ایک دن وہ میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا: '' اے غَسُّوْلِی !آج میں نے ایک بہت عجیب وغریب بات دیکھی ۔'' میں نے کہا : ''اے ابو اِسحاق(علیہ رحمۃ اللہ الرزَّاق) !آپ نے کون سی عجیب بات دیکھی ہے ؟'' فرمایا : ''آج میں قبرستان میں کھڑا تھا کہ ایک قبر اچانک کھل گئی اور ایک سفید ریش شخص نمودار ہوااس کے سفید بالوں میں سرخ مہندی لگی ہوئی تھی ، اس نے مجھ سے کہا : اے ابراہیم بن اَ دْہَم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم!اللہ ربُّ العزَّت نے مجھے آپ کی خاطر زندہ کیا ہے ،آپ مجھ سے کچھ پوچھنا چاہتے ہیں تو پوچھئے۔''
میں نے کہا : ''مَا فَعَلَ اللہُ بِکَ یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تیرے ساتھ کیا معاملہ فرمایا۔'' اس سفید ریش بزرگ نے کہا: ''میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے اس حال میں ملا کہ میرے اعمالِ سیِّئہ(یعنی بُرے اعمال) میرے ساتھ تھے، اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مجھ سے فرمایا :"
" ''میں نے تین باتوں کی وجہ سے تجھے بخش دیا: (۱)۔۔۔۔۔۔ تو مجھ سے اس حال میں ملا کہ جس سے میں محبت کرتا تھا تو نے بھی اسے محبوب رکھا(۲)۔۔۔۔۔۔ تو مجھ سے اس حال میں ملا کہ تیرے پیٹ میں شراب کا ایک قطرہ بھی نہ تھا اور(۳)۔۔۔۔۔۔ تو مجھ سے اس حال میں ملا کہ تیرے سفید بالوں میں سرخ خضاب لگا ہوا تھا اور مجھے حیا آتی ہے کہ اس شخص کو آگ کا عذاب دوں جس کے سفید بالوں میں سرخ خضاب لگا ہوا ہو۔'' اتنا کہہ کر وہ بزرگ واپس قبر میں چلا گیا اور قبر بند ہوگئی ۔'' حضرتِ سیِّدُنا غَسُّوْلِی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے کہا :'' اے ابو اِسحاق علیہ رحمۃ اللہ الرزّاق! کیا آپ مجھے اس قبر پر نہیں لے چلیں گے؟'' فرمایا:'' اے غَسُّوْلِی علیہ رحمۃ اللہ القوی! تیرا بھلا ہو! تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ اپنے معاملات درست کرلے تو وہ تجھے بھی عجیب و غریب چیز یں دکھائے گا ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم)"
" حج کا پُر بہار موسم تھا، خوش نصیب حُجَّاج اپنی دیرینہ آرزو کی تکمیل کے لئے قافلوں کی صورت میں سوئے حرم رواں دواں تھے۔جو پہلی مرتبہ جارہے تھے ان کی کیفیت کچھ اور تھی جو بار بار زیارتِ حرمینِ شریفین سے مشرَّ ف ہوچکے تھے ان کی کیفیت کچھ اور تھی۔بار بار حاضری دینے کے باوجود دل بھرتا ہی نہیں۔ یہ مُبَارَک سفر ہر سال ہی بہت پیارا ہوتا ہے چا ہے کوئی پہلی بار جائے یا بار بار جائے کسی کی بھی محبت و دیوانگی میں کمی نہیں آتی۔ حُجَّاج کرام کا ایک قافلہ جب عُرُوْ سُ الْبِلاد بغداد شریف پہنچا تو حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ بن مُبَارَک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا دل مچلنے لگا ، تمنائے زیارت نے دل کوبے چین کردیا۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حُجَّاج کے قافلے کے ہمراہ جانے کا عزمِ مُصَمّم (یعنی پختہ ارادہ )کر لیا اور سفر کا ضروری سامان خرید نے کے لئے پانچ سو دینار لے کر بازار کی جانب روانہ ہو گئے ، راستے میں ایک خاتون ملی جس کی حالت بتا رہی تھی کہ یہ غربت وافلاس کا شکار ہے۔ اس خاتون نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے کہا: '' اے بندۂ خدا! اللہ عَزَّوَجَلَّ تجھ پر رحم فرمائے، میں سید زادی ہوں، حوادثاتِ زمانہ کے ہاتھوں مجبور ہوکر دستِ سوال دراز کر رہی ہوں۔ میری چند بیٹیاں ہیں ان بیچاریوں کے پاس تن ڈھانپنے کے لئے کوئی کپڑا نہیں ، آج چوتھا دن ہے ہم ماں بیٹیوں میں سے کسی نے ایک لقمہ بھی نہیں کھایا۔''
سیدزادی کی درد بھری داستان سن کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا دل بھر آیا۔ آپ نے پانچ سو دینار اس کی چادر میں ڈال دیئے اور کہا :'' اپنے گھر جلدی سے جاؤ اور یہ رقم اپنے استعمال میں لاؤ! اللہ ربُّ العزَّت تمہارا حامی وناصر ہو۔'' وہ غریب سید زادی حمد ِ خداوندی بجالائی اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو دعائیں دیتی ہوئی اپنے گھرروانہ ہوگئی۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:'' اس سال"
"میں حج کو نہ جاسکا، حُجَّاج کا قافلہ روانہ ہوگیا اور میں رہ گیا ۔ لیکن مجھے اس سید زادی کی مدد کر نے پر ایسا دِلی سکون ملا کہ اس سے قبل کبھی ایسا سکون نہ ملا تھا ۔حج کی سعادت حاصل کرکے حُجَّاجِ کرام کے قافلے واپس آرہے تھے۔ جب ہمارا قافلہ آیا تو میں نے دل میں کہا: ''مجھے اپنے دوستوں سے مل کر انہیں حج کی مبارک باد دینی چاہے ۔''
چنانچہ، میں اپنے دوستوں کے پاس گیا، میں اپنے جس بھی حاجی دوست سے مل کر حج کی قبولیت کی دعا اور مُبَارَک باد دیتا تو وہ کہتا: '' اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کا حج بھی قبول فرمائے اور آپ کی سعی قبول فرمائے ۔''میں جتنے دوستوں سے ملا سب نے مجھے حج کی مبارکباد اور قبولیتِ حج کی دعا دی۔ میں بڑا حیران ہواا ور سوچنے لگا کہ جب میں نے اس سال حج کیا ہی نہیں تو یہ لوگ مجھے کس بات کی مُبَارَک دے رہے ہیں؟ بہر حال میں حیران و متعجب اپنے گھر لوٹ آیا، رات کو سویا تو میری سوئی ہوئی قسمت انگڑائی لے کر جاگ اٹھی۔ ہم غریبوں کے آقا ،مدینے والے مصطفی، رسولِ خدا، احمد ِمجتبیٰ عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اپنا نورانی چہرہ چمکاتے ہوئے تشریف لائے، لبہائے مبارَکہ کو جنبش ہوئی، رحمت کے پھول جھڑنے لگے اور الفاظ کچھ یوں ترتیب پائے :
''لوگ جو تجھے حج کی مبارکباد دے رہے ہیں اس پر تعجب نہ کر ، تو نے ایک حاجت مند کی مدد کی ، مسکین کو غنی کردیا ، میں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ سے دعا کی ،اللہ تبارک وتعالیٰ نے تیری صورت کا ایک فرشتہ پیدا فرمادیا اب وہ ہر سال تیری طر ف سے حج کرتا رہے گا ، اب اگر تو چاہے تو (نفلی) حج کر چاہے نہ کر۔''
؎ جسے چاہا در پہ بلا لیا جسے چاہا اپنا بنا لیا یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے یہ بڑے نصیب کی بات ہے
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم)
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اللہ ربُّ العزَّت نے اس جہاں میں ہر طر ح کے لوگ پیدا فرمائے، کسی کو غریب بنایا تو کسی کو امیر ی عطا کی ، کسی کو طاقتور بنایا تو کسی کو کمزور،وہ مالکِ لَمْ یَزَل بے نیاز ہے جو چاہے کرے ، ہمیں اس کی رضا پر راضی رہنا چاہے۔ اس نے ہمیں غرباء وفقراء کی مدد کا حکم دیا ہمیں اپنے خالق عَزَّوَجَلَّ کے فرمان پر دل وجان سے عمل کرنا چاہے ، اگر ہم مستحقین کی امداد کرتے رہیں گے تو اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہماری دنیا وآخرت سنور جائے گی۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں دوسروں کامعاون ومدد گار بنائے اور ہمیشہ اپنا محتاج رکھے اپنے علاوہ کسی اور کا محتاج نہ کرے۔)
؎ نہ محتاج کر تو جہاں میں کسی کا مجھے مفلسی سے بچا میرے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ!
( آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم)"
" حضرت سیِّدُنا وَہْب بن مُنَبِّہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے منقول ہے: دو عبادت گزار پچاس سال تک اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کرتے رہے پچا سویں سال کے آخر میں ان میں سے ایک کے جسم میں ایک خطرناک بیماری لگ گئی ،اس نے آہ وزاری کی اور بارگاۂ خداوند ی عَزَّوَجَلَّ میں اس طرح مُلْتَجِی ہوا(یعنی التجاکرنے لگا):'' اے میرے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ ! میں نے اتنے سال مسلسل تیرا حکم مانا، تیری عبادت بجا لایا پھر بھی مجھے اتنی خطرنا ک بیماری میں مبتلا کردیا گیا، اس میں کیا حکمت ہے ؟ میرے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ ! میں توآزمائش میں ڈال دیا گیا ہوں ۔''
اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرشتوں کو حکم فرمایا:اس سے کہو،'' تو نے جو عبادت و ریاضت کی وہ ہماری ہی عطا کردہ تو فیق ہے، وہ میرے احسان اور میری مدد کا نتیجہ ہے۔ باقی رہی بیماری تو اس میں میں نے تجھے اس لئے مبتلا کیا تاکہ تجھے اَبراروں کے مرتبہ پر فائز کر دوں ۔ تجھ سے پہلے کے لوگ تو بیماری ومصائب کے خواہش مندہوا کرتے تھے ۔ اور تجھے تو میں نے بِن مانگے عطا کردی ۔''
(اے ہمارے پیارے اللہ عَزَّوَجَلَّ ! ہمیں عافیت عطا فرما اور جب بیماری وغیرہ آئے تو اس پر صبر کرنے کی توفیق عطا فرما۔)
؎ میری مشکلیں گر تِرا امتحان ہیں تو ہر غم قَسَم سے خوشی کا سماں ہے
گناہوں کی میرے اگر یہ سزا ہے تو پھر مشکلوں کو مٹا میرے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ!
( آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم)"
حضرتِ سیِّدُنا عُبَّاد خوَّاص علیہ رحمۃ اللہ الرزّاق سے منقول ہے: ایک مرتبہ حضرت سیِّدُنا موسیٰ کلیم اللہ علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام کسی مقام سے گزرے تودیکھاکہ ایک شخص ہاتھ اٹھائے رو رو کر بڑے رِقَّت انگیز انداز میں مصروفِ دعا تھا۔ حضرت سیِّدُنا موسیٰ کلیم اللہ علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃوالسلاماسے دیکھتے رہے پھربارگاہِ خداعَزَّوَجَلَّ میں عرض گزار ہوئے: ''اے میرے رحیم وکریم پروردْگار عَزَّوَجَلَّ! تو اپنے اس بندے کی دعا کیوں نہیں قبول کررہا ؟''اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپعلیہ السلام کی طرف وحی نازل فرمائی: ''اے موسیٰ !اگر یہ شخص اتنا روئے، اتنا روئے کہ اس کا دم نکل جائے اور اپنے ہاتھ اتنے بلند کرلے کہ آسمان کو چھولیں تب بھی میں اس کی دُعا قبول نہ کرو ں گا۔'' حضرتِ سیِّدُنا موسیٰ کلیم اللہ علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃوالسلام نے عرض کی :'' میرے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ! اس کی کیا وجہ ہے ؟'' ارشاد ہوا: '' یہ حرام کھاتا اور حرام پہنتا ہے اور اس کے گھر میں حرام مال ہے۔ ''
( اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں حرام مال ، حرام کام اور تمام گناہوں سے محفوظ رکھے۔ برائیوں ، برے اور گمراہ لوگو ں سے ہماری حفاظت فرمائے۔ رزقِ حلال کمانے اور حلال کھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ )( آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم)
" حضرتِ سیِّدُنا سالم ابو جَعَد علیہ رحمۃ اللہ الا حد سے منقول ہے: حضرت سیِّدُنا صالح علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃوالسلام کی قوم کا ایک جھگڑالو شخص لوگو ں کو بہت تنگ کیا کرتا تھا۔جب لوگ اس کی اِیذارَ سانیوں سے بہت زیادہ تنگ ہوئے تو حضرت سیِّدُنا صالح علٰی نبینا وعلیہ الصلٰوۃوالسلام سے عرض کی:'' حضور! اس شخص کے لئے بد دعا کیجئے، ہم اس سے بہت تنگ آچکے ہیں ۔'' آپ علیہ السلام نے فرمایا: '' جاؤ! اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ ! تمہیں اس کے شَر سے خلاصی مل جائے گی ۔'' لوگ واپس چلے گئے۔ وہ شخص روز انہ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لاتا اور انہیں بیچ کر اس کا اور اس کے اہل وعیال کا گزر بسر ہوتا۔ حسب ِمعمول اُس دن بھی وہ جنگل گیا ،اس کے پاس دو روٹیاں تھیں ایک خود کھالی اور دوسری صدقہ کردی۔ پھر لکڑیاں کاٹ کر صحیح وسالم واپس گھر چلا آیا ۔ لوگو ں نے جب اسے صحیح وسالم آتا دیکھا تو حضرتِ سیِّدُنا صالح علیہ الصلٰوۃوالسلام کی خدمت میں عرض کی: '' حضور! وہ شخص صحیح وسالم ہے، ابھی تک اس پر کسی قسم کی کوئی مصیبت نازل نہیں ہوئی ۔''
آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے اس شخص کوبلا کر فرمایا:'' اے نوجوان! آج تو نے کون سا نیک کام کیا ہے ؟'' کہا:'' آج حسبِ معمول جب میں جنگل گیا تو میرے پاس دو روٹیاں تھیں ایک میں نے کھالی اور دوسری صدقہ کردی، اس کے علاوہ تو کوئی اور نیک کام مجھے یاد نہیں۔'' آپ علیہ السلام نے فرمایا:'' لکڑیوں کا گٹھا کھولو! جب گٹھَّا کھولا تو اس میں کھجور کے تنے جتنا موٹا بہت ہی زہریلا سیاہ اژدہا موجودتھا ۔حضرتِ سیِّدُنا صالح علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃوالسلام نے ارشادفرمایا: اے شخص ! تجھے اس خطرناک زہریلے اژدھے سے تیری صدقہ کی ہوئی ایک روٹی نے بچالیا ۔''
اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں کثرت سے صدقہ وخیرات کی توفیق عطا فرمائے۔ ( آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم)
(اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ!دعوتِ اسلامی کا اشاعتی ادارہ ''مکتبۃالمدینہ'' مسلمانوں کی خیر خواہی کے مقدس جذبے کے تحت عقائد وشرعی مسائل اور مختلف اعمالِ صالحہ کے فضائل پر مبنی بہترین کتب شائع کرتا ہے۔صدَ قات کے فضائل پر مبنی ایک بہترین کتاب ''ضیائے صدَ قات' 'اور دیگر دینی کتب ''مکتبۃالمدینہ ''سے ہدیۃََ حاصل کر کے مطالعہ فرمائیں۔ اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ"
"آپ اپنی زندگی میں ایک خوشگوار تبدیلی محسوس کریں گے اورآپ کی زندگی میں مدنی انقلاب برپا ہو گا۔)
؎ اللہ کرم ایسا کرے تجھ پہ جہاں میں اے دعوتِ اسلامی تیری دھوم مچی ہو!
( آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم)"
" حضرتِ سیِّدُنا ابو عبدالرحمن سُلَمِی علیہ رحمۃ اللہ القوی سے منقول ہے، حضرتِ سیِّدُنا منصور بن عبداللہ اَصْبَہَانیِ قُدِّسَ سِرُّہ، الرَّبَّانِی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرتِ ابو الخیر اَقطع رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا :'' ایک مرتبہ جب میں مدینۂ منورہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّتَعْظِیْماًگیا تو مسلسل پانچ دن کا فاقہ تھا ،پانچ دن سے ایک لقمہ بھی نہ کھایا تھا اب جان لَبوں پرآچکی تھی۔چنانچہ، میں حضور سیِّدُ الْمُبَلِّغِیْن،جنابِ رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہِ بے کس پناہ میں حاضر ہو ا۔ آپ کے روضۂ مبارکہ کے سامنے کھڑے ہو کرسلام عرض کیا، پھرامیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا صدیقِ اکبر اورامیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہماکو سلام عرض کیا پھر پیارے آقا ،مدینے والے مصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہِ بے کس پناہ میں فریاد کی: ''میرے آقا! میرے سردارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! آج رات میں آپ کا مہمان ہوں۔ ''
اتنا کہہ کر میں آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کے منبرشریف کے پیچھے جاکر سوگیا۔ سر کی آنکھیں تو کیا بند ہوئیں، دل کی آنکھیں کھل گئیں ،میرا سویاہوا نصیب جاگ اُٹھا، میرے مشکل کُشاآقا اپنے غلام کی حالتِ زار دیکھ کر مشکل کُشائی کے لئے تشریف لے آئے۔خواب میں پیارے آقا صلی ا للہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت ہوئی ،آپ کے دائیں جانب امیر المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا ابو بکر صدیق ،بائیں طرف امیر المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور آپ کے سامنے امیر المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا علی المرتضیٰ شیرِ خداکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم حاضر تھے۔
امیر المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا علی المرتضیٰ شیرِ خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے مجھے بیدار کیا اور فرمایا:'' اٹھو! دیکھو! حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم تشریف لائے ہیں ۔'' اتنا سنتے ہی میں اپنے رحیم وکریم آقا صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی طرف دوڑ پڑا اور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی مُبَارَک پیشانی کا بوسہ لیا۔پیارے آقا،مدینے والے مصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے مجھے ایک روٹی عطا فرمائی اور تشریف لے گئے ۔ میں نے ابھی آدھی روٹی ہی کھائی تھی کہ آنکھ کھل گئی، حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی عطا کردہ بقیہ آدھی روٹی میرے ہاتھ میں موجود تھی ۔''"
"؎ مرادیں مانگنے سے پہلے ملتی ہیں مدینہ میں ہجومِ جُود نے روکا ہے، بڑھنا دستِ حاجت کا
غنی ہے دل، بھرا ہے نعمتِ کونین سے دامن گدا ہوں میں فقیر، آستانِ خود بدولت کا
حسنؔ سرکارِ طیبہ کا عجب دربار عالی ہے درِ دولت پہ اک میلا لگا ہے اہلِ حاجت کا
(سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ ! ہمارے پیارے آقا، مدینے والے مصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے خو د آکر روٹی عنایت فرمائی اور اپنے دیوانے کی کس طر ح مشکل کشائی فرمائی ۔ہمارے پیارے آقا، مدینے والے مصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو اللہ ربُّ العزَّت نے بے شمار اختیارات عطا فرمائے ، جس طر ح آپ وصالِ ظاہری سے قبل لوگو ں کی رہنمائی ومشکل کشائی فرماتے تھے بعد از وصال بھی ربِّ قدیر کی عطا سے اپنے غلاموں کی مشکلیں حل کرتے ہیں۔"
" حضرتِ سیِّدُنا صالح بن احمد بن حَنْبَل علیہ رحمۃاللہ الاکرم سے منقول ہے کہ ایک دن ہماری کنیز آئی اور کہنے لگی:'' میرے آقا ! ایک شخص کھجور کے پتوں سے بنی ہوئی یہ ٹوکری لایا ہے اس میں خشک میوے اور ایک خط ہے۔ '' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میں کھڑا ہوا اور خط پڑھنے لگا ، اس میں کچھ اس طر ح کا مضمون لکھا تھا :
'' اے ابو عبداللہ (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)! میں نے آپ کے لئے کچھ رقم جمع کر رکھی تھی، میں نے اسے سمر قند بھیج دیا تاکہ ا س کے ذریعے سرمایہ کاری کروں اور کچھ کا روبار کروں، کا رو بار میں کچھ خسارہ ہوگیا،جورقم آپ کے لئے جمع کر رکھی تھی دوبارہ بھیج کر سر مایہ کاری کی ، اس میں پھر کچھ نقصان ہوگیا،اب میں آپ کی طر ف چار ہزار درہم اور کچھ پھل بھیج رہا ہوں یہ پھل میں نے اپنے باغ سے چنے ہیں اور یہ مال اورباغ مجھے اپنے والد کی طرف سے ورثہ میں ملا اور میرے والد کو دادا کی طر ف سے بطورِ ورثہ ملا، حضور یہ حقیرسا نذرانہ قبول فرمالیں ۔'' وَالسَّلَام
میں خط پڑھ کر اپنے والدِ محترم حضرتِ سیِّدُنا امام احمد بن حَنْبَل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا انتظار کرنے لگا ۔ پھلوں کی ٹوکری دیکھ کر"
"بہت سے بچے جمع ہوگئے تھے ۔ جب میرے والد صاحب گھر تشریف لائے تو ہم سب آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے، میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہہ پڑے ، روتے ہوئے عرض کی:''ابا جان! کیا آپ میری وجہ سے زکوۃ کامال لینے پر مجبور ہو گئے؟'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' بیٹا !تم سے کس نے کہا کہ یہ پھل اوردرہم جو ہمیں بطورِ نذرانہ بھیجے گئے ہیں، زکوۃ کے ہیں؟ اچھا! ابھی اس ٹوکری کو نہ کھولنا، آج رات میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں اِستِخارہ کروں گا۔'' دوسرے دن میرے والد صاحب نے مجھے بلایاا ور کہا:'' میں نے رات استخارہ کیا تو یہی حکم ہو اکہ مَیں اس میں سے کوئی چیز بھی نہ لوں۔'' پھر آ پ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ٹوکری کھولی اور سارے پھل بچو ں میں تقسیم کردیئے اور اپنے لئے ایک دانہ بھی نہ رکھا، ٹوکری میں موجود چار ہزار درہم سارے کے سارے واپس لوٹا دیئے اور اپنی ایک چادر بھی اس شخص کو بھجوائی جس نے یہ نذرانہ بھجوایا تھا۔ بعد میں مجھے پتا چلا کہ اس شخص نے میرے والد کی بھجوائی ہوئی وہ چادر اپنے پاس محفوظ رکھی اور وصیت کی کہ مجھے اسی چادر کا کفن دینا ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم)"
" حضرت سیِّدُنازُہَیْربن صالح بن احمد بن حَنْبَل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم فرماتے ہیں: میں نے ا پنے والد کو یہ کہتے ہوئے سنا : ''ایک مرتبہ جب میں گھر آیا تو معلوم ہوا کہ میرے والدِ محترم حضرت سیِّدُنا امام احمد بن حَنْبَل رحمۃ ا للہ تعالیٰ علیہ بڑی شدت سے میرا انتظار کر رہے تھے، میں فوراً حاضرِ خدمت ہوا اور عرض کی: '' اے میرے والد ِ محترم ! کیا آپ میرا انتظار کر رہے ہیں؟ ''فرمایا :'' ہاں! تمہاری غیر موجودگی میں ایک شخص مجھ سے ملنے آیا تھا، میری خواہش تھی کہ تم بھی اسے دیکھ لیتے لیکن اب تو جا چکا۔ چلو! میں تمہیں اس کے متعلق کچھ بتا دیتا ہوں۔ آج دو پہر کے وقت میں گھر میں تھا کہ دروازے پر کسی کے سلام کرنے کی آواز سنائی دی، میں نے دروازہ کھولا تو سامنے ایک مسافر تھا جس نے پیوند لگا جُبَّہ پہنا ہو اتھا۔ جُبّے کے نیچے قمیص پہنی ہو ئی تھی ، نہ تواس کے پاس زادِ راہ رکھنے کا تھیلا تھا، نہ پانی پینے کے لئے کوئی برتن۔ سورج کی تیز دھوپ نے اس کا چہرہ جھُلسا دیا تھا۔ میں نے فوراً اسے اندر بلایا اور پوچھا: '' تم کہا ں سے اور کس حاجت کے تحت آئے ہو ۔''
کہنے لگا: '' حضور! میں مشرقی وادیوں سے آیا ہوں ، میری دِلی خواہش تھی کہ اس علاقے میں حاضری دوں، اگر یہاں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مکان نہ ہوتا تو ہرگز یہاں نہ آتا۔ میں صرف آپ کی زیارت کے لئے حاضر ہوا ہوں ۔'' میں نے کہا :'' تم اتنی شدید گرمی میں"
"تنِ تنہا بے سرو سامانی کے عالَم میں سفر کی صعوبتیں برداشت کرکے صرف مجھ سے ملاقات کے لئے آئے ہو؟'' کہا: ''جی حضور! مجھے آپ کی زیارت کا شوق یہاں تک لے آیا ہے ، اس کے علاوہ میرا یہاں آنے کا کوئی اور مقصد نہیں ۔''مسافر کی باتیں سن کر میں بہت حیران ہوا۔ اور دل میں کہا:'' میرے پاس نہ تو درہم ہیں نہ ہی دینار کہ میں اس غریب مسافر کی مدد کرتا۔ '' اس وقت میرے پاس صرف چار روٹیاں تھیں میں نے اسے دیتے ہوئے کہا :'' اے بندۂ خدا! میرے پاس درہم ودینار نہیں ورنہ ضرور تمہیں دیتا ،صرف یہ چار روٹیاں میں نے کھانے کے لئے رکھی تھیں، تم یہ قبول کرلو۔''مسافر نے کہا :'' حضور! آپ کی دِید کا شربت پی لیا اب مجھے درہم و دینار کی فکر نہیں ، باقی رہاروٹیوں کا معاملہ تو اگر میرا ان روٹیوں کو لے لینا آپ کی خوشی کا باعث ہے تو تَبَرُّکاًلے لیتا ہوں۔''
میں نے کہا:'' اگر تم یہ روٹیاں قبول کر لو گے تو مجھے دلی خوشی ہوگی۔'' مسافر نے وہ روٹیاں لیں اور کہا :'' حضور! مجھے امید ہے کہ آپ کی دی ہوئی روٹیاں مجھے اپنے شہر تک کافی ہیں ۔اللہ تبارک وتعالیٰ آپ کی حفاظت فرمائے ۔'' پھر میرے ہاتھوں کو چوم کر واپسی کی اجازت طلب کرنے لگا ۔ میں نے اسے روانہ کیا اور کہا: ''جاؤ! میں نے تمہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سپرد کیا ۔'' پھر وہ رخصت ہوگیا میں باہر کھڑا اسے دیکھتا رہا یہاں تک کہ وہ میری نظروں سے اوجھل ہوگیا ۔ حضرتِ سیِّدُنا صالح بن احمد بن حَنْبَل فرماتے ہیں: '' میرے والد اکثر اس مسافر کا تذکرہ کیا کرتے ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم)
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ہمیں اس حکایت سے یہ درس ملا کہ بزرگانِ دین کی زیارت کرنے سے ا ن مقدس ہستیوں کی خصوصی توجہ ہوتی ہے اور جس کو اولیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ اپنی نظروں میں رکھیں وہ کبھی ذلیل ورسوا نہیں ہوتا۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں ہمیشہ اولیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کا ادب کرنے اور ان سے خوب خوب برکتیں لینے کی توفیق عطا فرمائے۔( آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم))
؎ ہم کو تو ہر اک ولی سے پیار ہے اِنْ شَاءَ اللہ اپنا بیڑا پار ہے عَزَّوَجَلّ
مصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم کا جو غلام ہے ہمارا وہ امام ہے"
حضرت سیِّدُنا رَجَاء بِنْ مَیْسُوْر مُجَاشِعِی علیہ رحمۃ اللہ الولی سے منقول ہے: ایک دن ہم حضرت سیِّدُنا صالح مُرِّی علیہ رحمۃ اللہ القوی کی محفل میں موجود تھے، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وعظ و نصیحت سے ہمارے دِلوں کو منور فرما ر ہے تھے، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے
ایک نوجوان سے فرمایا:'' اے بندۂ خدا! قرآنِ پاک کی کچھ آیات تلاوت کرو ۔ نوجوان نے پڑھنا شر وع کیا :
وَ اَنۡذِرْہُمْ یَوْمَ الْاٰزِفَۃِ اِذِ الْقُلُوۡبُ لَدَی الْحَنَاجِرِ کٰظِمِیۡنَ ۬ؕ مَا لِلظّٰلِمِیۡنَ مِنْ حَمِیۡمٍ وَّ لَا شَفِیۡعٍ یُّطَاعُ ﴿ؕ18﴾
"ترجمۂ کنزالایمان:اور انہیں ڈراؤ اس نزدیک آنے والی آفت کے دن سے جب دل گلوں کے پاس آجائیں گے غم میں بھرے اور ظالموں کانہ کوئی دوست نہ کوئی سفارشی جس کاکہامانا جائے۔(پ24،المؤمن:18)
جیسے ہی نوجوان نے یہ آیت مکمل کی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' بھلا ظالم کا شفیع ودوست کو ن ہوگا ، کیسے کوئی اس کی شفاعت کریگا جبکہ خود ربُّ الْعٰلَمِین اسے سزا دینا چاہے ۔ خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم! بروزِ قیامت ظالموں اور گناہ گاروں کا بہت براحال ہوگا ۔ تُو دیکھے گا کہ انہیں بیڑیوں اور زنجیروں میں جکڑ کر جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ کی طرف کھینچاجائے گا ، وہ ننگے پاؤں ، ننگے بد ن ہونگے ، ان کے چہرے کا لے سیاہ اور آنکھیں نیلی ہوجائیں گی ، وہ پکارتے ہوں گے:'' ہائے ہماری بربادی! ہائے ہماری مصیبت! نہ جانے ہمارے ساتھ کیا ہوگا؟ ہمیں کہا ں لے جایاجارہا ہے؟ ہائے بربادی! ہائے ہلاکت !'' فرشتے انہیں آگ کے گُرزوں سے مارتے ہوئے ہانکیں گے ، ان کے آنسو ان کے چہروں پر بہیں گے اور اتنے بہیں گے کہ ختم ہوجائیں گے۔ پھر وہ خون کے آنسو روئیں گے اور ان کی حالت اُن خوفزدہ پر ندوں کی طر ح ہوگی جنہیں بہت بڑے خوف نے دہشت میں مبتلا کردیا ہو۔ خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! اگر تو ان کی اس حالت کو دیکھ لے تو اس ہولناک منظر سے تیری آنکھیں سلامت نہ رہیں تیرا دل پھٹ جائے ، اس منظر کی ہولناکی سے تیرے قدم ایسے لرزیں گے کہ انہیں قرار نہ آئے گا۔''اتنا کہہ کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے پھر ایک زور دار چیخ ماری اور کہا:'' ہائے! کتنا برا ہے وہ منظر ہائے !کتنا برا ہے ان کا ٹھکانا!''پھر روتے روتے آپ کی ہچکیاں بندھ گئیں اور وہاں موجود تمام لوگ بھی زاروقطار رو نے لگے ۔''
پھر ایک نوجوان کھڑا ہوا اور کہا :'' اے صالح مُرِّی علیہ رحمۃ اللہ القوی! کیا یہ تمام معاملات قیامت کے دن ہوں گے؟'' فرمایا:''ہاں، میرے بھتیجے !واقعی یہ تمام واقعات بر وزِ قیامت ہوں گے بلکہ وہاں کے حالات کی جو خبر مجھے پہنچی ہے وہ اس سے کہیں زیادہ ہے جو میں نے بیان کی۔ مجھے خبر پہنچی ہے کہ جہنمی نارِ جہنم میں چیختے رہیں گے یہاں تک کہ ان کی آواز ختم ہوجائے گی پھر ان میں سے کوئی بھی ایسا نہ ہوگا جو اس مریض کی طر ح آہیں اور سسکیاں نہ بھرے جسے بر سوں سے شدید بیماری لاحق ہو ۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی زبانی جہنم کی ہولناک کہانی سن کر وہ نوجوان اس طر ح گڑ گڑ انے لگا:'' ہائے افسوس ! ہائے میری غفلت! میں نے اپنی زندگی کے قیمتی لمحات ضائع کردیئے۔ اے میرے مالک! میں تیری اطاعت سے غافل رہا مجھے ان کوتاہیوں پر افسوس ہے۔ ہائے !میں نے اپنی زندگی غفلت میں گزار دی۔'' پھر اس نے اپنا منہ جانب ِ قبلہ کیااور روتے ہوئے بارگاہِ خدا وندی عَزَّوَجَلَّ میں اس طر ح مناجات کرنے لگا :"
" ''اے میرے پاک پروردْگار عَزَّوَجَلَّ ! آج کے دن میں تیری بارگاہ میں سچی تو بہ کرتاہوں، میری یہ تو بہ اخلاص پر مبنی ہے، میں تیرے علاوہ کسی اور کی طرف متوجہ نہیں۔ اے میرے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ ! مجھ سے آج تک جو عبادت ہوسکی اسے قبول فرمالے ، میری سابقہ خطاؤں کو معاف فرمادے، مجھ سے گناہوں کی گندگی دور فرمادے۔ میرے رحیم وکریم پروردگار عَزَّوَجَلَّ ! مجھ پر رحم فرما۔ میرے مالک ومولیٰ عَزَّوَجَلّ! اب میں تیری فرمانبرداری اور اطاعت کا پَٹا اپنی گردن میں ڈالتا ہوں ، میرے جسم کا رُواں رُواں تیری بارگاہ میں معافی کا طلب گار ہے۔ میرے مالک عَزَّوَجَلَّ ! اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا تو میں بر باد ہوجاؤں گا۔'' اتنا کہہ کر وہ نوجوان منہ کے بل زمین پر گر پڑا ، لوگوں نے اسے اٹھایا تو بے ہوش ہوچکاتھا ، پھر وہ ایسا بیمار ہو اکہ سنبھل نہ سکا۔ حضرت سیِّدُنا صالح مُرِّی علیہ رحمۃ اللہ القوی اور آپ کے دیگر رفقاء اس نوجوان کی عیادت کو جاتے رہے۔ بالآ خر وہ نوجوان اس دنیائے فانی سے رخصت ہوکر دارِ بقا کی طرف کُوچ کر گیا۔ اس کے جنازہ میں کثیر لوگوں نے شرکت کی ۔حضرتِ سیِّدُنا صالح مُرِّی علیہ رحمۃ اللہ القوی اکثر اپنی محفل میں اس کا ذکرکیا کرتے اور فرماتے: ''قرآن کی آیات اور فکر ِ آخرت سے معمور بیان سن کر وہ نوجوان موت کی آغوش میں پہنچ گیا ۔''
مرنے کے کچھ دن بعد کسی نے اسے خواب میں دیکھ کر پوچھا:'' تمہارے ساتھ کیا معاملہ ہوا ؟'' کہا :'' حضرتِ سیِّدُنا صالح مُرِّی علیہ رحمۃ اللہ القوی کے بابرکت اجتماع کے صدقے میری مغفرت ہوگئی اور میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُس رحمت کے سائے میں پہنچ گیا جوہر چیز کو گھیر ے ہوئے ہے ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم)
؎ رحمت دا دریا الٰہی ہر دم وَگْدا تیرا جے اک قطرہ بخشیں مینوں کم بن جاوے میرا
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! نیکوں کی صحبت دنیا وآخرت میں کامیاب وکامران کر دیتی ہے۔ جہاں نیکوں کا تذکرہ ہو وہاں رحمت کی چھما چھم بارش ہوتی ہے ۔ تو جہاں نیک لوگ خود جلوہ افروز ہوں وہاں رحمتِ خداوندی کا کیا عالَم ہو گا۔الحمدللہ عَزَّوَجَلَّ! قرآن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع میں ہزاروں مسلمان شرکت کرتے ہیں اور جہاں 40) ( مسلمان جمع ہوں وہاں اللہ عَزَّوَجَلَّ کا ایک ولی ضرورہوتا ہے۔ اولیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ علیہ کے فیض سے مستفیض ہونے کے لئے اپنے اپنے شہروں میں ہونے والے دعوت اسلامی کے ہفتہ وارسنتو ں بھرے اجتماع میں پابندیئ وقت کے ساتھ شرکت فرما کر خوب خوب سنتوں کی بہاریں لُوٹئے۔)"
" حضرتِ سیِّدُنا ابو محمدخُرَاسَانِی قُدِّسَ سِرُّہ، النُّورَانِی کا بیان ہے کہ'' ایک خُرَاسَانی تاجر کا غلام بہت نیک وپارسا تھا۔ موسِمِ حج میں جب حاجیوں کے قافلے سوئے حرمین جانے لگے تو اس نیک غلام کے دل میں بھی حاضری کی خواہش جوش مارنے لگی ۔ اس نے مالک کے پاس جاکر حالِ دل سنایا اور حاضری کی اجازت طلب کی۔ بد بخت وگستاخ تاجر نے انکار کردیا۔ غلام نے کہا: ''میں اللہ ورسول عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی فرمانبرداری کی اجازت مانگ رہا ہوں، تم اجازت کیوں نہیں دیتے۔'' تاجر نے کہا: ''اگر تم میرا ایک کام کرو تو میں اجازت دے دوں گا ورنہ ہر گز اجازت نہ دوں گا ،پکاوعدہ کرو کہ تم وہ کام کروگے۔'' غلام نے کہا: ''بتاؤ! کیا کام ہے ؟ '' بدبخت تاجر بولا:''میں تمہارے ساتھ بہترین سواریاں ،خدام ، اچھے رفقاء اور دیگر بہت سی اشیاء بھیجوں گا۔ جب روضۂ رسول عَلٰی صَاحِبِہَاالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر جاؤ تو وہاں جاکر یہ کہنا :''اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! میرے آقا نے یہ پیغام بھجوایا ہے کہ میں آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے دونوں دوستوں ابوبَکْر صدیق و عمرِ فاروق(رضی اللہ تعالیٰ عنہما) سے بیزار ہوں۔ '' اگرمیرا یہ پیغام پہنچانے کی حامی بھر لو تومَیں تمہیں بخوشی اجازت دیتاہوں ۔غلام کا بیان ہے کہ اپنے بدبخت مالک کی یہ گستاخانہ باتیں سن کر میرا دل بہت جَلا، میں بہت غمگین ہو گیا۔ بظاہر تو میں نے کہہ دیا کہ میں فرمانبردار وطاعت گزار ہوں لیکن جو میر ے دل میں تھا اللہ عَزَّوَجَلَّ اسے بہتر جانتاہے ۔ بہر حال میں قافلے کے ہمراہ مدینۂ منورہ زَادَہَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا پہنچا، دھڑکتے دل ،لزرتے قدموں ، پرنم آنکھوں کے ساتھ روضۂ رسول عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی جانب بڑھنے لگا:
؎ ہوئیں اُمیدیں بار آور مدینہ آنے والا ہے جھکا لو اب ادب سے سر مدینہ آنے والا ہے
قبرِ انورپر پہنچ کر جانِ عالم، سرکارِ مدینہ ،قرارِ قلب وسینہ ،با عث ِ نُزولِ سکینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہ میں سلام عرض کیا۔ پھرامیرالمؤمنین حضرتِ سیِّدُنا ابوبَکْر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورامیر المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں سلام عرض کیا۔ مجھے اپنے بد بخت وگستاخ مالک کا قبیح الفاظ پر مشتمل پیغامِ بد، حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہِ بے کس پناہ میں پہنچانے سے بہت شرم آرہی تھی لہٰذا میں باز رہا۔ اور مسجد ِنبوی میں حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے قدمینِ شریفین میں سو گیا۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ قبرِ انور کی دیوار شق ہوئی اور حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نور بار چہرہ چمکاتے ہوئے باہر تشریف لے آئے۔ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے سبز لباس زیبِ تن کیا ہواتھا اور جسمِ اطہر سے مشک کی خوشبو آرہی تھی۔ سارا ماحول مشکبار ہو گیا۔ مسجد نبوی کا ذرہ ذرہ گواہی دے رہا تھا کہ حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم تشریف لاچکے ہیں۔"
" حضور نبئ کریم، رء ُوف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی دائیں جانب امیرالمؤمنین حضرتِ سیِّدُنا صدیقِ اکبر اور بائیں جانب امیرالمؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہما تھے۔حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی اتباع میں انہوں نے بھی سبز لباس پہنا ہوا تھا۔ سرکارِ مدینہ ،قرارِ قلب و سینہ ،با عثِ نُزولِ سکینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے میری طر ف متوجہ ہوکرارشاد فرمایا: ''اے عقل مند شخص !تو نے اپنے مالک کا پیغام ہم تک کیوں نہیں پہنچایا ؟'' حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی ہیبت اوررُعب ودبدبہ اتنا تھا کہ میں نے سر جھکائے دست بستہ عرض کی:'' میرے آقا صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! مجھے شرم آتی تھی کہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو آپ کے پہلو میں آرام فرما دوستوں کے متعلق اپنے بد بخت مالک کا گستاخانہ پیغام سناؤں۔''
سرکار عالی وقار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : ''اے خوش بخت! اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ تو حج کرنے کے بعد بخیر وعافیت '' خُرَاسَان '' واپس جائے گا۔ جب تو اپنے مالک کے پاس پہنچے تو کہنا: اللہ عَزَّوَجَلَّ کے رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے فرمایا: ''بے شک اللہ عَزَّوَجَلَّ اوراس کا رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اُس سے بیزار ہیں جو صدیق وفاروق (رضی اللہ تعالیٰ عنہما )سے بیزار ہے ۔'' کیا تو سمجھ گیا ہے ؟'' میں نے کہا : '' جی ہاں، میرے آقاصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم !میں سمجھ گیا۔'' پھر فرمایا:'' جان لے! جب تو وہاں پہنچے گا تو چوتھے دن وہ مرجائے گا، کیا تو سمجھ گیا؟'' میں نے عرض کی:'' جی ہاں، میرے آقاصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! میں سمجھ گیا ۔'' فرمایا: ''توجہ سے سن! مرنے سے پہلے اس کے منہ سے پیپ وخون نکلے گا،کیا تو سمجھ گیا ؟'' میں نے عرض کی :''میرے آقا! میں خوب سمجھ گیا۔''
پھر آقائے نامدار، ہم غریبوں کے مالک ومختار، باذن پرورد گار غیبو ں پر خبردار، مکی مدنی سر کار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم واپس تشریف لے گئے اورمیں بیدار ہوگیا۔ حضور نبئ پاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اورامیرالمؤمنین حضرت سیِّدنا صدیقِ اکبروفاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی زیارت ہونے پر میں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کا خوب شکر ادا کیا۔ پھر میں نے حج کیا اور مخبرِ صادق صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے فرمان کے مطابق اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ بخیر و عافیت واپس '' خُرَاسَان '' آگیا۔ میں اپنے ساتھ بہت سے موسمی پھل وغیرہ بھی لایا۔میرے بدبخت مالک نے دو دن تک مجھ سے کوئی بات نہ کی، تیسرے دن پوچھنے لگا: '' میرا پیغام پہنچا یا یا نہیں ؟'' میں نے کہا:'' میں نے تمہارا کام پورا کردیا۔''کہا:''وہاں سے کیاجواب ملا؟'' میں نے کہا:''اگروہاں سے ملاہواپیغام نہ سنو تو تمہارے لئے بہتر ہے ۔ '' کہنے لگا : '' نہیں ، مجھے بتاؤ!تمہارے ساتھ کیاواقعہ پیش آیا؟''میں نے واقعہ سناناشروع کیا۔ جب میں نے یہ بتایاکہ رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے فرمایا:''اپنے مالک سے کہہ دینا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اور رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اس سے بیزار ہیں جو میرے دونوں دوستوں صدیق وفاروق (رضی اللہ تعالیٰ عنہما) سے بیزار ہے۔ '' میرا یہ قول سن کر وہ بد بخت ونامراد قہقہے مار کر ہنسنے لگا۔ پھر اس طر ح بکواس کی:''ہم ان سے بیزار ہیں اوروہ ہم سے بیزار ہوگئے ، اب ہم سکون سے رہیں گے۔'' اس بدبخت کی یہ بات سن کر میں نے دل میں کہا:'' اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دشمن! جلد ہی تو اپنے انجام کو پہنچنے والا ہے ۔'' حضور"
"صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے فرمانِ عبرت نشان کے عین مطابق چوتھے دن اس بد بخت کے چہرے پر گندے پھوڑے نکل آئے اوراس کے منہ سے پیپ اور خون بہنے لگا۔بالآخر ظہر کی نماز سے قبل وہ گستا خ و نامراد بڑی ذلت آمیز اور عبرتناک موت مر گیا۔
؎ نہ اُٹھ سکے گا قیامت تَلَک خدا کی قسم! جسے مصطفی(ا)نے نظر سے گرا کر چھوڑ دیا
(اللہ عَزَّوَجَلَّ ہم سب کو اپنی حفظ وامان میں رکھے ،بے اَدبوں اور گستاخوں سے ہمیشہ محفوظ فرمائے۔ ہم سے کبھی کوئی ادنیٰ سی گستاخی بھی سر زد نہ ہو۔ خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم! گستاخوں کا انجام بڑا دردناک وعبرتناک ہوتا ہے۔ ایسے نامراد ،زمانے بھر کے لئے عبرت کا سامان بن جاتے ہیں۔ جو نامرادو بد بخت اللہ عَزَّوَجَلَّ اوراس کے رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی شان میں ناز یبا کلمات بکتا یا صحابۂ کرام اوراولیاءِ عُظام رحمہم اللہ تعالیٰ کی بے ادبی کرتا ہے آخرت میں تو تباہی و بر بادی اس کا مقدر ضرورہوگی لیکن وہ دنیا میں بھی ذلیل ورُسوا ہو کر زمانے بھر کے لئے نشانِ عبرت بن جاتا ہے اور عقلمند لوگ کبھی بھی اس کے عقائد و اعمال کی پیروی نہیں کرتے۔ اللہ ربُّ العزَّت ہمیں ہمیشہ با ادب لوگو ں کی صحبت میں بیٹھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ بڑوں کاادب اور چھوٹوں پر شفقت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)
ہم اپنے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ سے سچی محبت کرتے ہیں۔ ہمیں تمام انبیاء کرام ، صحابۂ کرام اور اولیاءِ عُظام علیہم الصلٰوۃ والسلام سے سچی محبت ہے۔ ہمیں یقینِ کا مل ہے کہ اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ اسی محبت کے صدقے ہماری مغفرت ہو گی۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں ہر گھڑی بے ادبوں سے محفوظ رکھے ، امیرِ اہلسنت حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہِ بے کس پناہ میں استغاثہ کرتے ہیں:
؎ محفوظ سدا رکھنا شہا صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم!بے ادبوں سے اور مجھ سے بھی سر زد نہ کبھی بے ادبی ہو !
(آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)"
حضرتِ سیِّدُنا کَعْبُ ا لْا َ حْبَار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ بنی اسرائیل کے تین عبادت گزار جمع ہوئے اور کہنے لگے: ''آؤ !ہم میں سے ہر ایک اپناسب سے بڑا گناہ یاد کرے۔ چنانچہ، پہلاشخص اپنی زندگی کا سب سے بڑا گناہ بتاتے ہوئے کہنے لگا: '' ایک مرتبہ میں اور میرا ایک دوست کہیں جارہے تھے۔ ہمارا آپس میں کسی بات پر اختلاف ہوگیا ۔راستے میں ہمارے درمیان ایک درخت حائل ہوا،میں اچانک درخت کی اوٹ سے نکل کر اس کے سامنے آیاتو وہ مجھ سے خوفزدہ ہوگیا اور کہنے لگا: ''میں تجھ سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی پناہ چاہتاہوں۔ '' بس یہی مجھے اپنی زندگی کی سب سے بڑی خطا معلوم ہوئی،اللہ عَزَّوَجَلَّ مجھے معاف فرمائے۔ ''
" دوسرے نے کہا :'' میں اسرائیلی ہوں، ہماری شریعت میں حکم ہے کہ'' اگر کسی کے جسم پر نجاست لگ جائے تو جسم کا وہ حصہ کاٹنا ضروری ہے''۔ ایک مرتبہ میرے جسم پر پیشاب لگ گیا تومیں نے آلودہ حصہ کاٹ دیا لیکن کاٹنے میں زیادہ مبالغہ نہیں کیا۔ بس یہی گناہ میری زندگی کا سب سے بڑا گناہ ہے۔ اللہ ربُّ العزَّت میرے اس گناہ کو معاف فرمائے ۔''
تیسرے نے کہا:''ایک مرتبہ میری والدہ نے مجھے پکارا تومیں نے فوراً ''لَبَّیْک''کہا،لیکن تیز ہَواکی وجہ سے آوازوالدہ تک نہ پہنچ سکی تووہ غصے میں آکر مجھے پتھر مارنے لگی۔ میں لاٹھی لے کراس کی طرف گیاتاکہ وہ اس کے ذریعے مجھے مارے اوراس کاغُصَّہ ٹھنڈاہوجائے ، لاٹھی دیکھ کر وہ خوف زدہ ہوکربھاگی اوراس کاسردرخت سے ٹکرا کر زخمی ہو گیا ۔بس یہی میری زندگی کاسب سے بڑاگناہ ہے۔اللہ عَزَّوَجَلَّ میرے اس گناہ کومعاف فرمائے۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اپنے اعمال کا محاسبہ کر کے گناہوں پر شرمندہ ہو کرمعافی مانگنا مغفرت کا باعث ہے۔ ہو سکے تو روزانہ رات کو سونے سے قبل دو رکعت''صَلٰوۃُ التَّوبَہ'' پڑھ کر دن بھر کے بلکہ سابقہ تما م گناہوں سے توبہ کرلینی چاہے۔ )"
" یزید بن محمد بن مَسْلَمَہ بن عبدالمَلِک سے منقول ہے کہ ہمیں ہمارے ایک غلام نے بتایا: حضرتِ سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز علیہ رحمۃ اللہ القدیر کے انتقال کے بعد ان کی زوجۂ محترمہ حضرتِ سیِّدَتُنا فاطمہ بنتِ عبدالمَلِک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا بہت زیادہ روتیں یہاں تک کہ اُن کی بینائی جاتی رہی ۔ ایک مرتبہ ان کے بھائی مَسْلَمَہ اورہِشَام آئے اور کہا:'' پیاری بہن! آخر آپ اتنا کیوں روتی ہیں ؟ اگر آپ اپنے شوہر کی جدائی پر روتی ہیں تو وہ واقعی ایسے مردِ مجاہد تھے کہ ان کے لئے رویا جائے۔ اگر دنیوی مال ودولت کی کمی رُلا رہی ہے تو ہم اور ہمارے اموال سب آپ کے سامنے حاضر ہیں ؟'' حضرتِ سیِّدَتُنا فاطمہ بنتِ عبدالمَلِک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا نے فرمایا: ''میں ان دونوں باتوں میں سے کسی پر بھی نہیں رو رہی۔ خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم! مجھے تو وہ عجیب وغریب اوردرد بھرا منظر رُلا رہا ہے جو میں نے حضرتِ سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز علیہ رحمۃ اللہ القدیر کے ساتھ ایک رات دیکھا ۔اس رات میں یہ سمجھی کہ کوئی انتہائی ہولناک منظر دیکھ کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی یہ حالت ہوگئی ہے اور آج رات آپ کا انتقال ہوجائے گا۔''
بھائیوں نے پوچھا:''پیار ی بہن! ہمیں بتایئے کہ آپ نے حضرتِ سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز علیہ رحمۃ اللہ القدیر کو اُس رات کس"
حالت میں دیکھا۔'' فرمایا :'' میں نے دیکھا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نماز پڑھ رہے تھے، جب قرا ء َت کرتے ہوئے اس آیت پر پہنچے:
یَوْمَ یَکُوۡنُ النَّاسُ کَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوۡثِ ۙ﴿4﴾ وَ تَکُوۡنُ الْجِبَالُ کَالْعِہۡنِ الْمَنۡفُوۡشِ ؕ﴿5﴾
"ترجمۂ کنزالایمان :جس دن آدمی ہوں گے جیسے پھیلے پتنگے اورپہاڑ ہوں گے جیسے دُھنکی اُون۔(پ30،القارعۃ:4۔5)
تویہ آیت پڑھتے ہی ایک زور دار چیخ مار کر فرمایا:'' ہائے! اس دن میرا کیا حال ہوگا۔ ہائے ! وہ دن کتنا کٹھن ودشوار ہو گا۔'' پھر منہ کے بَل گر پڑے اورمنہ سے عجیب وغریب آوازیں آنے لگیں پھر آپ ساکت ہوگئے۔ میں سمجھی کہ شاید آپ کا دم نکل گیا ہے۔کچھ دیر بعد آپ کو ہوش آیا تو فرمانے لگے: ''ہائے! اس دن کیسا سخت معاملہ ہوگا ۔''اور چیختے چلاَّتے صحن میں چکر لگاتے ہوئے فرمایا:'' ہائے ! اس دن میری ہلاکت ہوگی جس دن آدمی پھیلے ہوئے پتنگوں کی طرح اورپہاڑ دھنکی ہوئی اُون کی طرح ہو جائیں گے۔'' ساری رات آپ کی یہی کیفیت رہی۔ جب صبح کی اذانیں شرو ع ہوئیں تو آپ گر پڑے ،میں سمجھی کہ شاید آپ کی روح پرواز کر گئی ہے۔ اے میر ے بھائیو! خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم! جب بھی مجھے وہ رات یاد آتی ہے تو میری آنکھیں بے اختیار آنسو بہانے لگتی ہیں باوجودکوشش میں اپنے آنسونہیں روک پاتی ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ہمارے اسلاف رحمہم اللہ تعالیٰ خوفِ خدا عَزَّوَجَلَّ سے کس طر ح لرزاں وترساں رہا کر تے تھے۔ ہر گھڑی قیامت کا ہولناک منظر ان کے سامنے ہوتا۔بہت زیادہ عبادت وریاضت اور گناہوں سے حد درجہ دوری کے باوجود وہ پاکیز ہ خصلت لوگ اپنے آپ کو گناہ گار وعصیاں شعار تصور کرتے، حالانکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں ان کا مرتبہ ومقام بہت اعلیٰ وارفع ہوتا۔وہ لوگ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں سچی عاجزی کیا کرتے، صغیرہ گناہوں بلکہ خلافِ اولیٰ باتوں سے بھی کوسوں دور بھاگتے ، جہنم کا ہولناک گڑھا ہر لمحہ ان کے پیشِ نظر ہوتا ، وہ کبھی بھی کوئی ایسا کام نہ کرتے جو باعث ِہلاکت ہوتا۔ اور ایک ہم ہیں کہ اپنی آخرت اور حساب و کتاب کو بھول بیٹھے ہیں، شیطان کے بہکاوے میں آکر ہم اپنے آپ کو گناہوں کے عمیق گڑھے میں گراتے چلے جارہے ہیں۔ نہ گناہوں پر ندامت، نہ کسی قسم کی شرمندگی ۔ اگرخطاؤں کو یاد کر کے چند آنسو بہالیتے تو گناہوں کا مَیل کچھ تو دُھل جاتا مگر آہ،
؎ ندامت سے گناہوں کا ازالہ کچھ تو ہوجاتا ہمیں رونا بھی تو آتا نہیں ہائے ندامت سے
اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمارے حالِ زار پر رحم فرمائے ۔ گناہوں سے سچی توبہ پھر اس پر اِستقامت کی توفیق عطا فرمائے ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمارے بزرگوں کے صدقے ہماری کامل مغفرت فرمائے اور ہمارا خاتمہ بالخیر فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُنا احمد بن فَیْض رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے مروی ہے کہ'' حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم بن اَ دْہَم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم بیت ُ المقدس جانا چاہتے تھے۔ آپ کی رفاقت کے خواہش مند ایک نوجوان نے عرض کی: ''حضور! میں چاہتا ہوں کہ آپ کے ہمراہ بیتُ المقدس جاؤں۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس کی درخواست منظور کرتے ہوئے فرمایا:''آؤ! پہلے ہم حجامت کروالیں پھر سفر پر روانہ ہوں گے۔ '' چنانچہ، دونوں حجام کے پاس گئے حجامت کے بعد آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے نوجوان سے فرمایا:'' اے نوجوان ! تیرے پاس کتنا زادِ راہ ہے ؟'' عرض کی:'' حضور !اٹھارہ(18)درہم ہیں۔'' فرمایا:'' یہ سب حجام کو دے دو۔'' نوجوان نے حکم کی تعمیل کی پھر دونوں اپنی منزل کی طرف چل دیئے ۔ راستے میں نوجوان نے کہا:'' حضور !اگر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حجام کو کم رقم دلوا دیتے اور کچھ ہم اپنے پاس رکھ لیتے تو ا س میں کیا حرج تھا ؟'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کوئی جواب نہ دیا اور خاموشی سے جانبِ منزل چلتے رہے۔ بیت المقدس پہنچ کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مسجد کے خادم سے کہا : ''کیا یہاں کوئی ایسا شخص ہے جو اپنی کھیتی کٹوانا چاہتا ہو؟ ہم دونوں اجرت پر فصل کاٹنے کے لئے تیار ہیں ؟'' خادم نے کہا:'' حضور!ایک نصرانی جاگیردار کے علاوہ میں کسی اور زمیندار کو نہیں جانتا، اگر کہیں تو اس کے پاس لے چلتا ہوں ؟ '' فرمایا:'' ٹھیک ہے، ہمیں اس کے پاس لے چلو ۔''
تینوں اس نصرانی جاگیر دار کے پاس پہنچے اور آنے کا مقصد بیان کیا۔نصرانی جاگیردار نے اپنے کھیت دکھائے تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' اس کی کٹائی پر ہمیں کتنی اجرت ملے گی؟'' کہا:'' ایک دینار۔'' فرمایا:'' ٹھیک ہے، ہم فصل کاٹنے کے لئے تیار ہیں ، تُو ایک دینار مسجد کے خادم کے حوالے کر دے، کام مکمل ہونے پر یہ ہمیں دے دے گا ۔ '' نصرانی نے ایک دینار مسجد کے خادم کے حوالے کر دیا۔ رات نے اپنے پر پھیلا دیئے تھے لیکن چو دھویں رات کے چاندکی اُجلی اُجلی روشنی نے ہر طرف اُجالا بکھیر رکھا تھا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے رفیق سے فرمایا:'' ا ے جوان! میں نماز پڑھوں اور تم فصل کاٹو یا تم نماز پڑھو اور میں فصل کاٹو ں، بتاؤ !تمہیں کون سی بات پسندہے؟'' نوجوان نے نماز کی حامی بھرلی اور نماز پڑھنے لگا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کا نام لے کر فصل کاٹنا شروع کی اور صبح تک کاٹتے رہے جبکہ نوجوان نماز میں مشغول رہا۔ فراغت کے بعد جاگیر دار کے پاس پہنچ کر کہا:'' ہم نے اپنا کام ختم کر دیا ہے۔''
جاگیر دار بڑا حیران ہو اکہ اتنی جلدی اتنی ساری فصل کس طر ح کاٹ لی ۔ اس نے متعجب ہوکر کہا :'' تم نے ضرور کھیتی خراب کردی ہوگی ورنہ اتنی جلدی تم کام سے کیسے فارغ ہوسکتے ہو؟''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' تو جاکر اپنی فصل دیکھ لے تاکہ تجھے اطمینان ہو جائے۔'' وہ گیا تو دیکھا کہ بہت اَحسن طریقے سے فصل کاٹی گئی ہے، جب وہ مطمئن ہوگیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ"
"علیہ نے فرمایا:'' مسجد کے خادم سے کہو کہ ہماری اُجرت ہمیں دے دے ۔'' جاگیردار نے مسجد کے خادم سے کہا:'' ان کی اُجرت ان کے حوالے کردو۔'' جب خادم دینار دینے لگا توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا :'' یہ دینار(یعنی سونے کی اشرفی)میرے رفیق کو دے دو کہ اس نے حجام کو اٹھارہ(18)درہم(یعنی چاندی کے سکے)دیئے تھے۔''چنانچہ، خادم نے وہ دینا رنوجوان کو دے دیا ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)
(سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ ! کیسے خوددار اورباکرامت ہوا کرتے تھے ہمارے اسلاف رحمہم اللہ تعالیٰ ۔ اس نوجوان کے دل میں جب یہ بات آئی کہ حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم بن اَ دْہَم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم نے حجام کو اتنی رقم کیوں دلوائی؟توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس کوچاندی کے اٹھارہ سکّوں کے بدلے سونے کی اشرفی عطا فرمادی تا کہ اسے اپنے مال کامَلال نہ ہو۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہمیشہ حلال رزق کماتے، خود کم کھاتے لیکن دوسروں کی بہت امداد فرماتے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ان کے صدقے ہمیں بھی اتنارزقِ حلال عطا فرمائے کہ حرام کی طرف ہماری نظر ہی نہ اُٹھے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)"
حضرتِ سیِّدُناشَقِیق بن اِبراہیم علیہ رحمۃ اللہ الکریم سے منقول ہے کہ'' ایک مرتبہ ہم حضرتِ سیِّدُنا اِبراہیم بن اَ دْہَم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کی محفل میں حاضر تھے، اتنے میں آپ کے معتقدین میں سے ایک شخص آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو سلام کئے بغیر ہمارے قریب سے گزر گیا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حاضر ین سے پوچھا :''کیا یہ فلاں شخص نہیں؟'' عرض کی گئی:''جی ہاں۔'' فرمایا:'' جاؤ! اس سے پوچھو: ''آج تم نے ہمیں سلام کیوں نہیں کیا؟ کیا تم ناراض ہو ؟'' جب اسے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہ پیغام ملا توکہا :'' خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم !ابھی ہمارے ہاں بچے کی ولادت ہوئی ہے اور ہمارے پاس پھوٹی کَوڑی بھی نہیں (یعنی کچھ بھی نہیں)، اب میں کھانے کی تلاش میں نکلا ہوں، میں اتنا پریشان ہوں کہ مجھے کچھ ہوش ہی نہیں۔ ''جب حضرت سیِّدُنا ابراہیم بن اَ دْہَم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کو اس کی یہ حالت بتائی گئی تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تڑپ اٹھے اور''اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْن''پڑھ کر کہا :'' ہائے افسوس! ہم اپنے رفیق کے حال سے غافل رہے اور بات اتنی بڑھ گئی۔ ہائے! اسے اتنی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔'' پھر آ پ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک شخص سے فرمایا:'' جاؤ! فلاں باغ کے مالک کے پاس جاکر دو دینار قرض حاصل کر واور بازار جاکر ایک دینار کی اشیاءِ خورد ونوش (یعنی کھانے پینے کا سامان) خرید کر سارا سامان اور بقیہ ایک دنیار ہمارے اس پریشان حال رفیق کے گھر دے آؤ ۔''
" وہ شخص فوراً تعمیل حکم کے لئے چل دیا اسی کا بیان ہے :'' میں نے دو دینار قرض لئے، کھانے پینے کا سامان خرید ا پھر اس کے گھر پہنچ کر دروازے پر دستک دی ۔ اس کی زوجہ نے پوچھا :'' کون ہے؟'' میں نے اپنا تعارف کرایا اور اس کے شوہر کے متعلق پوچھا ۔ اس نے کہا :'' وہ تو گھر پر موجود نہیں۔'' میں نے کہا:'' اچھا! آپ دروازہ کھول کر ایک طرف ہوجائیں ، میں کچھ سامان دینے آیا ہوں ۔'' وہ دروازہ کھول کرایک طرف ہوگئی ،میں نے سامان صحن میں رکھااور دینار اس عورت کو دے دیا ۔ اس نے پوچھا : ''اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے !یہ سامان کس کی طرف سے ہے؟'' میں نے کہا :'' اپنے شوہر کو سلام کہنا اور کہنا کہ یہ سارا سامان ابراہیم بن اَ دْہَم کی طر ف سے ہے ۔''
یہ سن کر اس غریب خاتون کی زبان پر یہ دعائیہ کلمات جاری ہوئے:'' اے ہمارے پروردگار عَزَّوَجَلَّ ! آج اس مشکل وقت میں حضرت سیِّدُنا ابراہیم بن اَ دْہَم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم نے ہماری مدد کی، اے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ ! اِس کی اُسے اچھی جزاء عطا فرما، اسے کبھی اپنی نظرِ رحمت سے دور نہ کرنا۔ '' وہ اسی طر ح دعا ئیں کرتی رہی اور میں واپس چلا آیا۔ جب حضرت سیِّدُنا ابراہیم بن اَ دْہَم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کو اس کی دعا کے متعلق بتایا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اتنا خوش ہوئے کہ اس سے قبل ہم نے کبھی آپ کواتنا خوش ہوتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔جب رات کے آخری پہر اس بیچاری غریب خاتو ن کا شوہر گھر آیا تو اس کے پاس کچھ بھی نہ تھا، باوجودِ کوشش کے اسے کوئی چیز نہ مل سکی۔ جیسے ہی وہ گھر میں داخل ہوا تو دیکھا کہ صحن میں بہت سارا سامان رکھا ہوا ہے۔ خاتون نے آگے بڑھ کر اپنے شوہر کو ایک دینار دیا تو اس نے پوچھا :''یہ سب چیزیں کس نے بھجوائی ہیں ؟'' کہا:'' حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم بن اَدْہَم علیہ رحمۃ اللہ الا کرم نے۔'' یہ سنتے ہی اس غریب کے منہ سے بھی یہ دعائیہ کلمات نکلے : ''اے ہمارے پرودگار عَزَّوَجَلَّ ! حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم بن اَ دْہَم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کو آج کے دن کی اچھی جزا ء عطا فرما! اسے کبھی اپنی نظرِ رحمت سے دور نہ کرنا، اسے کبھی اپنی نظر رحمت سے دور نہ کرنا ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)
( میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم !وہ مؤمن بڑا خوش بخت ہے جو محتاجوں کی مدد کرے، روتوں کو ہنسائے او ر پریشان حال لوگو ں کی پریشانی دور کرے۔ مخلوقِ خدا پرشفقت کرنا رضائے الٰہی عَزَّوَجَلَّ پانے کا بہت اچھا راستہ ہے ۔جو مخلوق پر رحم کریگا خالقِ لَمْ یَزَل اس پر رحم وکرم کی ایسی بارش فرمائے گا کہ اس کی زندگی میں ہر طرف بہاریں ہی بہاریں آجائیں گی ۔ اور یہ تجربہ شدہ بات ہے کہ جب کسی غریب انسان کی مدد کی جائے تو انسان کو ایسی اَنجانی سی خوشی ہوتی ہے جسے الفاظ کا جامہ پہنانا مشکل ہے۔اسے وہی سمجھ سکتا ہے جسے یہ دولت نصیب ہوئی ہو۔ جسے یقین نہ آئے وہ کسی دُکھیارے کا دُکھ دور کر کے دیکھ لے۔ )"
" حضرتِ سیِّدُنا عبد اللہ بن ابونُوح رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بہت عبادت گزار تھے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کابیان ہے :ایک مرتبہ مکۂ مکرمہ زَادَہَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًاجاتے ہوئے مجھے ایک بزرگ نظر آئے ، ان کی بارُعب وباوقار شخصیت نے مجھے تعجب میں ڈال دیا۔ میں نے ان سے کہا:'' میں آپ کی رفاقت کا طالب ہو۔'' فرمایا:'' جیسے تمہاری مرضی ، مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ چنانچہ، میں اُن کے ساتھ ہو لیا، وہ سارا سارا دن چلتے اور جہاں چاہتے ٹھہرجاتے۔بہت زیادہ گرمی کے باوجود، دن کو روزہ رکھتے، افطار کے وقت اپنے تھیلے سے کوئی چیز نکال کر اپنے منہ میں ڈال لیتے۔ روزانہ افطار کے وقت نہ جانے کون سی چیز تھیلے سے نکال کر صرف دو تین مرتبہ اپنے منہ میں ڈالتے پھر مجھے بلاتے اور کہتے:'' آؤ! تم بھی اس میں سے کچھ کھالو ۔'' میں اپنے دل میں کہتا :'' اے بندۂ خدا! یہ تو تمہیں بھی کفایت نہ کریگا پھر بھی تمہارے ایثار کا یہ عالَم ہے کہ مجھے بھی کھانے کی دعوت دے رہے ہو،تمہارے جذبے کو سلام۔ '' وہ باصرارمجھے کچھ نہ کچھ کھلا دیتے۔ ان کے صبر اور عبادت وریاضت کو دیکھ کر ان کارعب و دبدبہ میرے دل میں گَھر کر چکا تھا۔
ہم منزلوں پر منزلیں طے کرتے سوئے حرم رواں دواں تھے۔ ایک دن راستے میں ایک شخص ملا جس کے پاس ایک گدھا تھا،بزرگ نے مجھ سے فرمایا:'' جاؤ اور وہ گدھا خرید لاؤ۔'' اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! بزرگ کی یہ بات سن کر ان کے جلال کی وجہ سے مجھ سے انکار نہ ہوسکا۔ میں نے گدھے والے سے قیمت معلوم کی تو اس نے کہا: ''میں تیس (30)دینار سے ایک درہم بھی کم نہ لوں گا ۔''میں نے بزرگ کو بتایا تو فرمایا:'' جاؤ! اتنے ہی میں خرید لو اور اللہ عَزَّوَجَلَّ سے بھلائی طلب کرو ۔'' میں نے کہا: ''اس کی قیمت کہاں سے ادا کروں ۔'' فرمایا:''بِسْمِ اللہ شریف پڑھ کر اپنا ہاتھ میرے تھیلے میں ڈالو اور اپنی مطلوبہ رقم حاصل کرلو۔'' میں نے جیسے ہی بِسْمِ اللہ شریف پڑھ کر تھیلے میں ہاتھ ڈالا میرے ہاتھ میں ایک تھیلی آئی جس میں پورے تیس دینار تھے نہ کم نہ زیادہ ۔ میں دینار دے کر گدھالے آیا تو فرمایا:'' تم اس پر سوار ہوجاؤ۔'' میں نے کہا: ''حضور! آپ مجھ سے زیادہ عمر رسیدہ و کمزور ہیں، اس لئے آپ سوار ہوجائیں اور میں پیدل چلتا ہوں ۔'' بہر حال میرے اصرار پر وہ سوار ہوگئے اور میں ان کے ساتھ چلنے لگا ،ہم سارا دن سفر اور رات کو قیام کرتے، وہ بزرگ پوری رات نماز پڑھتے ہوئے گزار دیتے ۔
جب ہم''عُسْفَان'' پہنچے تو ایک شخص اس بزرگ سے ملا ، سلام کیا اور دونوں نے ایک طرف ہوکر کچھ گفتگو کی پھر دونوں نے رونا شروع کردیا ، کافی دیر روتے رہے ۔جب جد ا ہونے لگے تو بزرگ نے اس شخص سے کہا : ''مجھے کچھ نصیحت کیجئے۔'' فرمایا: ''ہاں! دل کے تقویٰ کو لازم کرلو۔ ہرگھڑی قیامت کا ہولناک منظر تمہارے پیش نظر ہونا چاہے۔'' عرض کی:'' مزید کچھ نصیحت فرمایئے۔'' فرمایا :'' ہاں! جب آخرت کی طرف جاؤ تو اچھے اعمال لے کر جانا ۔ اپنے دل کو دنیوی مال ودولت کی محبت سے پاک"
"کر لو۔سنو! سمجھ دار لوگ وہ ہیں جو اُس وقت دنیا کے عیب اور دھوکے کو پہچان لیتے ہیں جب وہ اپنے چاہنے والوں کو ہرطرف سے گھیر لیتی ہے ۔اللہ عَزَّوَجَلَّ کی تم پررحمت ،سلامتی اوربرکت ہو۔''( آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)
پھر دونوں جدا ہوگئے ۔ میں نے اپنے رفیق بزرگ سے پوچھا:'' اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ پر رحم فرمائے! یہ شخص کون تھا؟'' میں نے آ ج تک اس سے بہتر کلام کرنے والا کسی کو نہیں پایا ؟'' فرمایا:'' یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بندوں میں سے ایک خاص بندہ تھا۔'' پھر ہم ''عُسْفَانَ'' سے مکۂ مکرمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا پہنچے ،مقامِ''اَ بْطَح''کے قریب وہ سواری سے اُترے اور کہا : ''تم یہیں ٹھہرنا میں بیت ُ اللہ شریف پر ایک محبت بھری نظر ڈال کر اِنْ شاء اللہ عَزَّوَجَلَّ جلد ہی واپس آجاؤں گا۔'' اتنا کہہ کر وہ چلے گئے میں وہیں کھڑا رہا۔کچھ دیربعد میرے پاس ایک شخص آیا اور کہا: '' کیا یہ گدھا فروخت کر و گے؟'' میں نے کہا : '' ہاں! یہ تیس دینار کا ہے۔'' اس نے کہا :'' مجھے منظور ہے۔'' میں نے کہا :'' یہ گدھا میرا نہیں، میرے رفیق کا ہے، وہ مسجد حرام کی طرف گئے ہیں ابھی آتے ہی ہوں گے ۔'' ابھی میں یہ بات کرہی رہا تھا کہ وہ آتے ہوئے دکھائی دیئے۔ میں ان کی طرف بڑھا اور کہا:'' میں نے یہ گدھا تیس (30)دینار میں فروخت کردیا ہے۔'' فرمایا: ''اگر تم چاہتے تو اس سے زیادہ میں بھی بیچ سکتے تھے ۔ لیکن اب بیچ دیاتو کوئی بات نہیں، اپنا قول پورا کرو۔''
چنانچہ، میں نے تیس دینار لے کر گدھا اس شخص کے حوالے کردیا۔ پھربزرگ سے پوچھا:'' ان دیناروں کا کیا کروں؟'' فرمایا:'' یہ تمہارے لئے ہیں،انہیں اپنے استعمال میں لاؤ۔'' میں نے کہا:'' مجھے ان کی حاجت نہیں ۔'' فرمایا:'' اچھاتو پھر انہیں میرے تھیلے میں ڈال دو۔'' میں نے وہ دینار تھیلے میں ڈال دیئے ۔ مقامِ ''اَ بْطَح'' کے قریب ایک جگہ قیام کیا تو فرمایا: ''قلم، دوات اور ورق لے کر آؤ ۔'' میں نے یہ اشیاء حاضرِ خدمت کیں توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے دو خط لکھے ، پھر ایک خط مجھے دیتے ہوئے کہا: ''جاؤ! فلاں جگہ حضرتِ سیِّدُناعَبَّاد بن عَبَّادعلیہ رحمۃ اللہ الجواد ہوں گے، یہ خط دے کرانہیں اور وہاں موجود تمام لوگوں کو میرا سلام کہنا۔ پھر دوسرا خط دیتے ہوئے فرمایا: ''اس کو اپنے پاس رکھنا اور یومِ نحر (یعنی قربانی کے دن )پڑھنا ۔ جاؤ، اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہارا حامی وناصرہو ۔''
میں خط لے کر حضرتِ سیِّدُناعَبَّاد بن عَبَّادعلیہ رحمۃ اللہ الجواد کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ وہ لوگو ں کو حدیث سنا رہے ہیں ، بہت سے مسلمان ان کے اردگرد بیٹھے حدیث ِ نبوی سن رہے تھے۔ میں نے سلام کیا اور کہا:'' اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ پر رحم فرمائے۔ آپ کے ایک بھائی نے یہ خط بھیجا ہے۔'' انہوں نے خط پڑھاتو اس میں کچھ اس طر ح کا مضمون لکھا تھا:"
'' بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم''
اَمَّابَعْد! اے عَبَّاد! میں تجھے اس دن کی مفلسی ومحتاجی سے ڈراتا ہوں جس دن لوگ (جمع شدہ نیکیوں کے) ذخیرے کے
"محتاج ہوں گے ۔بے شک آخرت کی محتاجی ومفلسی کو دنیا کا غنا نہیں روک سکتا ۔اگر آخرت میں اعمالِ صالحہ کم ہوئے تو مصیبت کا اِزالہ بہت مشکل ہے ۔ میں تیرا مسلمان بھائی ہوں ۔ جب تم میرے پاس پہنچو ں گے تو میں مرنے والا ہوں گا پس تم میرے پا س آؤ ، میری تجہیز وتکفین کرو اور نماز جنازہ پڑھ کر مجھے میری قبر میں اُتار دو ۔میں تمہیں اور تمام مسلمانوں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی حفاظت میں چھوڑتا ہوں۔ دو جہاں کے تاجور ، حبیب ِ ربِّ اکبر، محبوبِ داوَرعَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہِ بے کس پناہ میں میرا سلام ہو ۔ سب کو میر ی طرف سے سلام اورتم سب پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت ہو۔ والسَّلام:'' آپ کا بھائی''
خط پڑھ کر حضرتِ سیِّدُنا عَبَّاد بن عَبَّاد علیہ رحمۃ اللہ الجواد نے مجھ سے فرمایا:'' جس نے یہ خط بھجوایا ہے، وہ کہا ں ہے؟ ''میں نے کہا :'' مقامِ ''اَ بْطَح'' کے قریب ۔''فرمایا :'' کیاوہ بیمار ہے؟'' میں نے کہا:'' میں توبالکل تندرست چھوڑ کر آیا ہوں ۔'' یہ سن کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کھڑے ہوگئے۔ آپ کے ساتھ تمام حاضرین بھی کھڑے ہوئے اور ہم سب مقامِ''اَ بْطَح''میں اس بزرگ کے پاس پہنچے ، دیکھا تو ان کی رُوح قفسِ عنصری سے پرواز کرچکی تھی۔ ان کی میت ایک چادر میں لپٹی قبلہ رخ رکھی ہوئی تھی ۔ حضرتِ سیِّدُنا عَبَّاد بن عَبَّاد علیہ رحمۃ اللہ الجواد نے مجھ سے فرمایا :'' کیا یہ تمہارا رفیق ہے ؟'' میں نے کہا:''جی ہاں۔'' فرمایا:'' کیا تم اسے تندرست چھوڑ کر گئے تھے ؟'' میں نے کہا :'' جی ہاں ''۔یہ سن کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بزرگ کی میت کے سرہانے کھڑے ہو کر کافی دیر روتے رہے پھر نمازِجنازہ پڑھا کر دفن کردیا۔ لوگو ں نے دور دور سے آکر جنازہ میں شرکت کی ۔جب یو مِ نحر ( یعنی قربانی کا دن) آیا تو میں نے کہا:'' واللہ! اپنے رفیق کے حکم کے مطابق ان کا دیا ہوا دوسرا خط میں آج ضرور پڑھوں گا۔'' چنانچہ، میں نے خط کھولا تو اس میں لکھا تھا:"
''بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم''
اَمَّابَعْد!اے میرے بھائی ! اللہ ربُّ العالمین اس دن تجھے تیری نیکی کابہترین صلہ عطا فرمائے جس دن لوگوں کو اپنے اعمالِ صالحہ کی شدید ضرورت ہوگی ۔ اللہ جَلَّ شَانُہ، تجھے ہماری رفاقت کا بہترین اجر عطا فرمائے۔ بے شک نیک شخص اپنی نیکی کو اپنے بالکل قریب پائے گا۔ میرے بھائی !مجھے تجھ سے ایک حاجت ہے ۔ جب اللہ تبارک وتعالیٰ تیرا حج مکمل فرمادے تو بیت ُ المقدس جاکر میری میراث میرے وارث کے حوالے کردینا ۔
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہ،
خط پڑھ کرمیں نے اپنے دل میں کہا:'' اے میرے رفیق! اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ پر رحم فرمائے۔ آپ کا ہر کام عجیب ہے ، اور یہ وصیت نامہ تو بہت ہی زیادہ تعجب خیز ہے ۔میں بیتُ المقدس کس کے پاس جاؤں گا ؟ نہ تو مجھے وارث کانام بتایا گیا نہ کسی خاص علاقے کی نشاند ہی کی گئی۔ میں آپ کا سامان کسے دو ں گا؟مجھے کیا معلوم کہ آپ کا وارث کون ہے؟ کافی دیر اسی طر ح سوچتا رہا ۔ بالآخر میں نے ان کا سامان اپنی چادر میں لپیٹا ، سامان کیا تھا ایک پیالہ ، ایک تھیلا اور ایک لاٹھی جس سے وہ ٹیک لگایا
"کرتے تھے ۔ یہ سامان محفوظ مقام پر رکھ کر مناسک ِ حج ادا کئے اور پختہ ارادہ کرلیا کہ اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ میں بیتُ المقدس ضرور جاؤں گا۔ ہوسکتا ہے میری ملاقات ان کے وارث سے ہوجائے ۔ ''
چنانچہ، بیتُ المقدس پہنچ کر میں مسجد میں داخل ہوا تو بہت سے فقراء ومساکین کا ہجوم دیکھا ۔ میں ان لوگو ں کے درمیان گھومتا رہا سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کس سے پوچھوں۔ اچانک ایک شخص نے مجھے میرانام لے کرپکارا،میں نے اس کی طرف دیکھا تو وہ بالکل میرے رفیق کی طر ح تھا۔ اس نے مجھ سے کہا:'' فلاں کی میراث مجھے دے دو۔'' میں عصا ،پیالہ اور تھیلا اس شخص کو دے کر واپس آنے لگا ۔ خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم! ابھی میں مسجد سے باہر بھی نہ نکلا تھا کہ میرے دل میں خیال آیا میں نے اپنے بزرگ رفیق کے عجیب وغریب معاملات دیکھے۔ پھر میں مکۂ مکرمہ سے بیتُ المقدس آیا یہاں بھی بہت عجیب بات دیکھی کہ ایک انجان شخص نے میرا نام لے کر پکارا،یہ سارے معاملات بہت حیران کُن ہیں اور میرا یہ حال ہے کہ میں نے نہ تو ان دونوں سے پوچھا کہ آپ کون ہیں اور نہ ہی لوگوں سے ان کے متعلق معلومات کیں کہ یہ کون ہستیاں ہیں۔ مجھے چاہے کہ جس کی طرف مجھے بھیجا گیا ہے تادمِ آخر اس کے ساتھ رہوں۔ بس اسی خیال کے تحت میں واپس پلٹا او راس شخص کو ڈھونڈنے لگا لیکن وہ کہیں نظر نہ آیا ہر جگہ تلاش کیا مگر ناکامی ہوئی لوگو ں سے پوچھا تو انہوں نے بھی لاعلمی کا اظہار کیا۔ میں کافی دن بیتُ المقدس ٹھہرا رہا لیکن مجھے کوئی ایسا نہ ملا جو اس شخص کے متعلق میری رہنمائی کرتا ۔بالآخر اس کے دیدار کی حسرت دل ہی میں لئے، مَیں واپس عراق آگیا ۔''
؎ جس کی خاطر دل تھا بے چین ہر جگہ ڈھونڈا مگر کہیں نہ ملا
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)"
حضرتِ سیِّدُنا علی بن زید علیہ رحمۃ اللہ الاحد سے منقول ہے، حضرت سیِّدُنا طاء ُوس علیہ رحمۃاللہ القُدُّوس نے فرمایا :''ایک مرتبہ موسِمِ حج میں حَجَّاج بن یوسف مکۂ مکرمہ (زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا) آیاتومجھے اپنے پاس بلوایا۔ میں گیا تو مجھے اپنے برابر بٹھایا اور ٹیک لگانے کے لئے تکیہ دیا ، ہم ابھی بیٹھے باتیں کررہے تھے کہ کسی طواف کرنے والے کی صدا فضا میں بلند ہوئی:
''لَبَّیْک اَللّٰھُمَّ لَبَّیْک لَاشَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْک اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْک لَاشَرِیْکَ لَک
ترجمہ : میں حاضر ہوں، اے اللہ عَزَّوَجَلَّ! میں حاضر ہوں (ہاں) میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، بے شک تمام خوبیاں اور نعمتیں تیرے لئے ہیں اور تیرا ہی مُلک ہے، (میرے مولیٰ) تیرا کوئی شریک نہیں۔''
" حَجَّاج بن یوسف نے جب یہ آواز سنی تو خادم کو حکم دیا کہ اس حاجی کو ہمارے پاس بلا لاؤ۔ خادم ایک باوقار شخص کو ساتھ لے آیا۔حَجَّاج نے اس سے پوچھا:'' تو کن لوگو ں میں سے ہے ؟'' کہا:'' اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ! میں مسلمان ہوں۔'' حَجَّاج نے کہا:'' میں تجھ سے اِسلام کے متعلق نہیں پوچھ رہا۔'' کہا:'' پھر کس کے متعلق پوچھ رہا ہے ؟'' کہا : میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ تیرا تعلق کس ملک سے ہے ۔''کہا:'' میں یمن کا رہنے والا ہوں۔''حجاج نے کہا:'' میرا بھائی محمد بن یوسف کیسا ہے ؟'' کہا:''بہت اچھے لباس والا، بہت اچھے جسم کا مالک اور خوب گھومنے پھرنے والا سوار ہے ۔'' حَجَّاج نے کہا : '' میں ان چیزوں کے متعلق نہیں پوچھ رہا۔'' کہا:'' تو پھر کس چیز کے متعلق پوچھ رہا ہے؟''کہا:'' میں تو اس کی سیرت وکردار کے متعلق پوچھ رہا ہوں ۔'' یہ سن کر اس مردِ قلندر، جرأت مندحاجی نے بڑی بے خوفی سے کہا:'' وہ انتہائی ظالم وسرکش ہے، مخلوق کا پیر وکار اور'' خَالِقِ لَمْ یَزَل'' کا نافرمان ہے ۔'' حَجَّاج نے اپنے بھائی کے خلاف یہ باتیں سنیں تو غصے سے تڑپ کر بولا: ''تجھے اس طر ح کا کلام کرنے پر کس چیز نے اُبھارا؟ کیا تو جانتا نہیں کہ وہ میرا بھائی ہے اور اس کا مرتبہ میرے نزدیک کتنا بلندہے ؟'' جرأت مند حاجی نے بڑی دلیری سے کہا :'' تیرا کیا خیال ہے کہ اگر تیرابھائی تیری نظر میں مقام و مرتبے والا ہے توکیا اس وجہ سے میں اسے اللہ عَزَّوَجَلَّ کا مقرب جان لوں گا؟ ہرگز نہیں،بلکہ عظیم وبلند تو وہی ہے جو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں مقرب ہے اور میں تیرے ظالم و سرکش بھائی کو مُعَظَّم ومُکَرَّم کیو ں سمجھوں؟ حالانکہ میں تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے گھر کا قصد کر کے آیاہوں، میں تو اس کے دِین کو سمجھنے والا،اس کے رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پر ایمان لانے والا اور ان کی تصدیق کرنے والاہوں ۔''
دلیر وجرأت مندحاجی کی باتیں سن کرحَجَّاج بن یوسف خاموش رہا، اس سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔ پھر بلند ہمت، جرأت مند حاجی کھڑا ہوا اور اجازت لئے بغیر وہاں سے چلا گیا۔ حضرتِ سیِّدُنا طاء ُوس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں :''میں بھی اس مردِ قلندر کے پیچھے ہولیا ،میں نے کہا :''یہ شخص بہت حکیم ودانا ہے۔'' پھر میں نے دیکھا کہ وہ خانۂ کعبہ کا غلاف پکڑے بارگاہِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ میں اس طرح التجائیں کر رہا ہے : '' اے میرے پروردگار عَزَّوَجَلَّ ! مجھے اپنے فضل وکرم سے پریشانی اور مصیبت سے نجات عطا فرما، ہر معاملے میں بخیلوں کے شر سے محفوظ رکھ اور حق بات کہنے کی توفیق عطا فرما۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ظالم وجابر حاکم کے سامنے حق بات کہنا عظیم جہاد ہے۔ اس مردِ قلندر نے ایک انتہائی سفَّاک وظالم حکمران کے سامنے اس کے بھائی کی حقیقت کا علی الاعلان اظہار کیا۔حَجَّاج بن یوسف کا رُعب ودبدبہ اس مردِ مجاہد کے لئے کسی قسم کی رکاوٹ نہ بن سکا۔ اسے خوف تھا تو بس خدائے بزرگ وبر تر کا اور یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ جو اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرتاہے وہ مخلوق سے نہیں ڈرتابلکہ مخلوق اس سے ڈرتی ہے۔ ہر معاملہ میں اِخلاص شرط ہے ،جو مخلص ہے وہ کامیاب و کامران"
"ہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں بھی حق بات کہنے،سننے کی توفیق عطا فرمائے۔ حق پر عمل کرنے اور حق کا ساتھ دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ )
(آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)"
" حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے،امیرالمؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت میں بَحْرَیْن سے واپسی پر میں نے عشاء کی نماز آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیچھے ادا کی، نمازسے فراغت کے بعد میں نے سلام عرض کیا۔ آپ نے جواب دے کر پوچھا:'' اے ابو ہریرہ(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) !بحرین سے کیا لے کرآئے ہو ؟'' میں نے کہا : ''پانچ لاکھ درہم۔'' فرمایا:'' جانتے ہو،تم کتنی رقم کہہ رہے ہو ؟ ''میں نے کہا:''جی ہاں! ایک سو ہزار، ایک سو ہزار ، ایک سو ہزار۔ اس طرح میں نے پانچ مرتبہ گِنا۔'' آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:'' اے ابو ہریرہ(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ! شاید تمہیں نیند آرہی ہے، جاؤ! ابھی گھر جاکر آرام کر لو کل صبح میرے پا س آنا۔'' چنانچہ، میں گھر چلا آیا ۔ صبح جب دربارِ خلافت میں پہنچا توآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پھر پوچھا :'' اے ابو ہریرہ(رضی اللہ تعالیٰ عنہ)! بحرین سے کیالائے ہو ؟'' میں نے کہا :'' پانچ لاکھ درہم۔'' آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے متعجب ہو کر پوچھا: '' کیا واقعی تم ٹھیک کہہ رہے ہو؟''میں نے کہا :'' حضور ! میں بالکل سچ کہہ رہا ہوں، میں واقعی پانچ لاکھ درہم لایا ہوں۔'' آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگو ں سے فرمایا :'' اے لوگو ! بے شک میرے پاس کثیر مال آیا ہے،بتاؤگِن کر تمہارے درمیان تقسیم کروں یا تول کر ۔ ''
ایک شخص نے کہا :'' اے امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ !میں نے عجمیوں کو دیکھا ہے کہ وہ رجسٹر وغیرہ میں لوگو ں کے نام لکھ لیتے ہیں اور پھر اس رجسٹر کو دیکھ کر حق داروں میں غلہ وغیرہ تقسیم کیا جاتا ہے ۔''آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مہاجرین صحابۂ کرام علیہم الرضوان کے لئے پانچ ہزار، انصار صحابۂ کرام علیم الرضوان کے لئے چار ہزار اور ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے لئے بارہ ہزار درہم مقرر کئے۔ حضرتِ سیِّدَتُنا بَرْزَہ بنت رَافِع رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں: جب امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جِزیہ وغیرہ کامال آیا توآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا زَیْنَب بنت جَحْش رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے لئے بہت سا مال بھجوایا۔ انہوں نے مالِ کثیر دیکھ کر فرمایا: '' اللہ تبارک وتعالیٰ حضرتِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مغفرت فرمائے۔ میرے علاوہ میرے اور مسلمان بھائی بھی ہیں جو اس مال کے مجھ سے زیادہ محتاج ہوں گے۔'' لوگو ں نے کہا:'' یہ سب کا سب آپ کے لئے ہے (دیگر حق داروں کو اپنا حصہ مل چکا ہے)۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ! کہہ کر زمین پر ایک کپڑا بِچھاتے ہوئے"
"کہا: '' سارا مال یہاں ڈال کراس پر ایک کپڑا ڈال دو۔'' لوگو ں نے تمام درہم وہاں ڈال دیئے ۔
حضرتِ سیِّدَتُنا بَرْزَہ بنت رَافِع رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں: پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مجھ سے فرمایا:'' اس کپڑے کے نیچے اپنا ہاتھ ڈال کر ایک مُٹھی درہموں کی بھر و اور فلاں یتیم کو دے آؤ،ایک مٹھی فلاں غریب کو دے آؤ، ایک مٹھی فلاں رشتہ دار کو دے آؤ۔'' آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حکم فرماتی جاتیں اور میں لوگوں میں تقسیم کرتی جاتی ۔ یہاں تک کہ چند درہموں کے علاوہ باقی تمام درہم تقسیم فرمادیئے۔ پھر میں نے عرض کی:''اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کی مغفرت فرمائے۔ کیا اس میں ہمارا کچھ حصہ نہیں ؟'' فرمایا: ''ہاں ! جو باقی بچا ہے وہ تمہارے لئے ہے۔''میں نے کپڑا اٹھایا تو اس کے نیچے صرف پچاسی(85)درہم باقی تھے ۔'' پھر اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا زَیْنَب بنت جَحْش رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ہاتھ اٹھا کر اس طرح دعا کی: '' اے اللہ عَزَّوَجَلَّ! حضرت عمر( رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی جانب سے مجھے اس کے بعد کوئی ہدیہ نصیب نہ ہو ۔'' پھر اسی سال آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا انتقال ہوگیا ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)
( اللہ عَزَّوَجَلَّ کی کروڑوں رحمتیں ہوں مؤمنین کی ان ماؤں پر جنہوں نے ہر حال میں ربِ کریم کا شکر ادا کیا۔ خود بھوک و پیاس برداشت کر کے امت کے غرباء وفقراء کی پریشانیاں دورفرمائیں ۔ انہیں مال ودولت اور دنیوی سازو سامان سے محبت نہ تھی بلکہ وہ تو خالقِ حقیقی عَزَّوَجَلَّ کی محبت میں سرشارتھیں ۔ دنیوی مال ودولت کی آمد انہیں خوش نہ کرتی بلکہ اس کی فراوانی ان کے لئے پر یشانی کا باعث بنتی ۔ ان کے پاس جومال آتا اسے فوراََ صدقہ کر دیتیں ۔ یہ سب ہمارے مکی مدنی آقا، مدینے والے مصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی تربیت وصحبت کا اثر تھا۔ جس طرح آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے کسی امتی کی پریشانی نہیں دیکھی جاتی اسی طرح آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے گھر والے بھی اُمتِ مُسْلِمَہ کو پریشانی میں مبتلا دیکھ کربے قرارہوجاتے۔اِنہیں پاکیزہ ہستیوں کے رحم وکرم سے ہم جیسے گناہ گاروں کا گزارہ ہو رہا ہے۔ ہمارے مکی مدنی آقا، مدینے والے مصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ہی ہماری ثروث و عزت ہیں ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں ان کے دامنِ کرم سے ہمیشہ ہمیشہ وابستہ رکھے ۔)
؎ ہم غریبوں کے آقا پہ بے حد درود ہم فقیروں کی ثروث پہ لاکھوں سلام
( آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُنا امامشَعْبِی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:'' ایک مرتبہ مجاہدینِ اسلام کا لشکر ، دشمنانِ اسلام سے جہاد کے لئے نعر ۂ تکبیر ونعر ۂ رسالت بلند کرتا ہوا جانب ِمنزل رواں دواں تھا ۔ ایک جگہ پڑاؤ کیا تو ایک مجاہد کا خچر مرگیا دوسرے مجاہدوں نے اسے اپنی سواریاں پیش کیں اور اپنے ساتھ چلنے کو کہا ۔لیکن اس نے انکار کردیا۔ جب بے حد اصرار کے باوجود بھی وہ تیار نہ ہوا تو اسے وہیں چھوڑ کر سارا لشکر آگے روانہ ہوگیا۔ کچھ دیر بعداس مجاہدنے وضو کر کے خوب خشوع وخضوع سے دو رکعت نماز ادا کی اورپھر بارگاہِ خدا وندی عَزَّوَجَلَّ میں اس طر ح التجا کی: '' اے میرے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ ! میں تیری خوشنودی کے لئے تیری راہ کا مجاہد بناہوں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ تو ہی مُردوں کو زندہ کرنے والا ہے ۔ تو ہی انہیں قبروں سے زندہ کر کے اٹھائے گا ۔اے میرے مالک عَزَّوَجَلَّ ! میرے اس خچر کو میرے لئے زندہ کر دے۔''
دعا کے بعد اس نے اپنے خچرّکو ٹھوکر ماری تو خچر فوراًکان جھاڑتے ہوئے کھڑا ہوگیا۔ مجاہد نے خچر پر زین ڈالی اور سوار ہو گیا۔ خچر ہوا سے باتیں کرتا ہوا سر پٹ دوڑ نے لگا، چند ہی گھڑیوں میں وہ مجاہد اپنے دوستوں سے جا ملا ۔ انہوں نے اپنے رفیق کو اسی خچر پر دیکھا تو حیران ہو کر ماجرا دریافت کیا ۔مجاہدنے سارا واقعہ بتایا اور کہا:'' میرے رب عَزَّوَجَلَّ نے میرے لئے اس خچر کو زندہ فرما دیا۔'' (یہ سن کرتمام شرکاء ِقافلہ گویازبانِ حال سے یوں کہہ رہے تھے :)
؎ دعاءِ ولی میں وہ تاثیر دیکھی بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)"
حضرتِ سیِّدُناعَمرورحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کہتے ہیں: ایک مرتبہ میں تجارت کی غرض سے ملک ِ شام کی طرف روانہ ہوا۔ ایک شہر میں پہنچ کر آرام کی غرض سے ایک درخت کے سائے تلے لیٹ گیا ۔ تھکاوٹ بہت زیادہ تھی کچھ دیر میں نیند نے آ لیا۔ اچانک کسی نے میرے پاؤں کو زور سے ہلایا ،میں گھبرا کر کھڑا ہوا تو سامنے ایک عجمی رومی موجود تھا ،اس نے مجھ سے کہا :'' اے عربی ! تجھے تین باتوں میں سے ایک کا اختیار ہے۔ مجھ سے نیزہ زنی کر یا تلوار زنی کر یا پھر مجھ سے کُشتی لڑ۔ جلدی بتا تو کون سی بات پسند کرتا ہے ؟'' اس ناگہانی مصیبت سے میں بہت پریشان ہوا اور سمجھ گیا کہ اس کی بات مانے بغیر چھٹکارا نہیں ۔ بالآ خر میں نے اس سے کہا:
"''اے عجمی! تلوار زنی اور نیزہ زنی کے نتیجے میں موت واقع ہو سکتی ہے۔ بہتر یہی ہے کہ ہم کشتی کر لیں ۔'' اتنا سنتے ہی وہ میری طرف بڑھا اور دیکھتے ہی دیکھتے مجھے پچھاڑکر میرے سینے پر سوار ہوگیا اور بڑے سخت لہجے میں کہا:'' بتا! تجھے کس طر ح قتل کروں ؟'' وہ مجھے ذبح کرنے ہی والا تھا کہ میں نے آسمان کی طرف دیکھا اور بارگاہِ خدا وندی عَزَّوَجَلَّ میں اس طر ح عرض گزار ہوا :
'' اے میرے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ !میں گواہی دیتا ہوں کہ (تیرے سوا)عرش سے لے کر زمین کے نچلے حصے تک سب معبودباطل ہیں ،صرف تو اکیلا ہی اسی لائق ہے کہ تیری عبادت کی جائے ۔ بے شک تو جانتا ہے کہ اس وقت میں کس مصیبت میں گرفتار ہوں۔ میرے کریم عَزَّوَجَلَّ ! مجھ سے اس مصیبت کو دور فرما۔ '' بس یہ دعا کرنی تھی کہ مجھ پر غشی طا ری ہوگئی۔ جب ہوش آیا تو دیکھا کہ وہ خونخوار رومی میرے قریب مردہ حالت میں پڑا ہوا ہے ۔ میں نے اس مصیبت سے چھٹکارے پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شکر ادا کیا اور جانب منزل روانہ ہوگیا۔"
" جب صَفْوَان بن مُحْرِز کے بھتیجے کو زمانے کے ظالم وجابر حاکم ابنِ زیاد نے قید کرلیا تو آپ بہت پریشان ہوئے او ر اپنے بھتیجے کی رہائی کے لئے بصرہ کے امراء اور بااثر لوگوں سے سفارش کروائی لیکن کامیابی نہ ہوسکی۔ ابنِ زیاد نے سب کی سفارشوں کو رد کر دیا۔ صَفْوَان بن مُحْرِز نے بڑی تکلیف دِہ حالت میں رات گزاری ۔ رات کے پچھلے پہر انہیں اچانک اونگھ آ گئی تو خواب میں کسی کہنے والے نے کہا :'' اے صَفْوَان بن مُحْرِز! اٹھ اور اپنی حاجت طلب کر۔ ''
یہ خواب دیکھ کر ان کی آنکھ کھل گئی۔ ایک انجانے سے خوف نے ان کے جسم پر لزرہ طاری کردیا تھا۔ انہوں نے وضو کر کے دو رکعت نماز ادا کی اور پھر رو رو کربارگاہِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ میں دعا کرنے لگے۔ یہ اپنے گھر میں مصروف دعا تھے اور وہاں ابنِ زیاد بے چینی اورکَرب میں مبتلا تھا ۔ اس نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ'' مجھے صَفْوَان بن مُحْرِزکے بھتیجے کے پاس لے چلو ۔'' سپاہی فوراً مشعلیں لے کر ابن زیاد کے پاس آئے ، ظالم حکمران اپنے سپاہیوں کے ساتھ جیل کی جانب چل دیا ، وہاں پہنچ کر اس نے جیل کے دروازے کھلوائے اور بلند آواز سے کہا: ''صَفْوَان بن مُحْرِزکے بھتیجے کو فوراً رہا کردو، اس کی وجہ سے میں نے ساری رات بے چینی کے عالم میں گزاری ہے۔'' حاکم کی آواز سن کر سپاہیوں نے فوراً صَفْوَان بن مُحْرِزکے بھتیجے کو جیل سے نکالا اور ابنِ زیاد کے سامنے لا کھڑا کیا۔ ابنِ زیاد نے بڑی نرمی سے گفتگو کی اور کہا :''جاؤ! خوشی خوشی اپنے گھر چلے جاؤ، تم پر کسی قسم کا کوئی جرمانہ وغیرہ نہیں ۔'' اتنا کہہ کرابنِ زیاد نے اسے رہا کردیا ۔"
وہ سیدھا اپنے چچا صَفْوَان بن مُحْرِزکے پاس پہنچا اور دروازے پر دستک دی، اندر سے آواز آئی: ''کون ؟'' کہا: ''آپ کا بھتیجا۔ '' اپنے بھتیجے کی اس طرح اچانک آمد پر آپ بہت حیران ہوئے اور دروازہ کھول کر اندر لے گئے ۔ پھر حقیقتِ حال دریافت کی تو اس نے رات والا سارا واقعہ سنا دیا۔صَفْوَان بن مُحْرِز نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شکر ادا کیا او راپنے بھتیجے سے گفتگو کرنے لگے۔
" مُنِیفَہ بنتِ رومی کا بیان ہے، مَیں مکۂ معظمہ زَادَہَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا میں مقیم تھی۔ ایک دن میں نے ایک بارونق مقام پر لوگو ں کا ہجوم دیکھا۔ قریب جانے پر معلوم ہوا کہ ایک عورت کا سیدھا ہاتھ مفلوج ہوچکاہے اور لوگ اس سے مختلف قسم کے سوالات پوچھ رہے ہیں ۔ جب اس عورت سے پوچھا: ''تمہارا ہاتھ کیسے مفلوج ہوا؟'' تو اس عورت نے اپنی داستانِ عبرت نشان کچھ اس طر ح سنائی:'' آج سے کچھ عرصہ قبل میں اپنے والدین کے ساتھ رہتی تھی۔ میرے والد بہت نیک وپار ساتھے ۔کثرت سے صدقہ و خیرات کرتے اور غرباء کی حتی الوَسع امداد کیا کرتے ۔جبکہ میری والدہ انتہائی کنجوس تھی۔ پوری زندگی میں صرف ایک پرانا سا کپڑا اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں دیا اورایک مرتبہ جب میرے والد نے گائے ذبح کی تو اس کی کچھ چربی کسی غریب کو دی اس کے علاوہ کبھی بھی کوئی چیز راہِ خداعَزَّوَجَلَّ میں خرچ نہ کی۔
اپنے والدین کے انتقال کے کچھ دن بعد میں نے خواب میں دیکھا کہ میرا والد ایک حوض (یعنی تالاب) کے کنارے کھڑا ہے اور لوگوں کو پیالے بھر بھر کر پانی پلا رہا ہے ۔ میں وہاں کھڑی سارا منظر دیکھ رہی تھی۔ اچانک میری نظر اپنی والدہ پر پڑی جو زمین پر پڑی ہوئی تھی اس کے ہاتھوں میں وہی چر بی تھی جو اس نے صدقہ کی تھی اور اسی پرانے کپڑے سے اس کا ستر ڈھانپا ہوا تھا جو اس نے صدقہ کیا تھا۔ وہ شدتِ پیاس سے '' ہائے پیاس !ہائے پیاس !''کی صدائیں بلند کر رہی تھی ۔یہ درد ناک منظر دیکھ کر میں تڑپ اٹھی۔ میں نے کہا: ''ہائے ! یہ تو میری والدہ ہے اور جو دیگر لوگوں کو پانی پلا رہا ہے وہ میرا والد ہے۔میں حوض سے ایک پیالہ بھر کر اپنی والدہ کو پلا ؤں گی ۔پھر جیسے ہی پیالہ بھرکر اپنی والدہ کے پاس آئی تو آسمان سے منادی کی یہ ند اسنائی دی: '' خبردار! جو اس کنجوس عورت کو پانی پلائے گا اس کا ہاتھ مفلوج ہوجائے گا۔''پھر میر ی آنکھ کھل گئی اور اس وقت سے میرا ہاتھ ایسا ہے جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو۔ الامان والحفیظ۔
؎ دولتِ دُنیا کے پیچھے تو نہ جا آخرت میں مال کا ہے کام کیا
مالِ دُنیا دو جہاں میں ہے وبال کام آئے گا نہ پیشِ ذوالجلال"
( یااللہ عَزَّوَجَلَّ! ہمیں مال کے وبال سے محفوظ رکھ اور اپنی رضا کی خاطر نیک امور میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی توفیق عطا فر ما ۔ حلال مال کمانے اور خوب صدقہ وخیرات کرنے کی سعادت عطا فرما ۔مدنی آقا صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے رُخِ روشن کے صدقے قبروحشر کی سختیاں آسان فرما اور ہمیں جنت الفردوس میں حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا پڑوس عطا فرما۔بروزِ محشرساقئ کوثر، تمام نبیوں کے سرورصلَّی للہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے مبارک ہاتھوں سے جامِ کوثر پینے کی سعادت عطا فرما۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)
" حضرتِ سیِّدُناعثمان بن عبداللہ علیہ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں: ''ایک شخص حضرتِ سیِّدُنا موسیٰ کلیم اللہ علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام کی خدمتِ اقدس میں رہ کر علمِ دین سیکھا کر تا تھا۔ ایک مرتبہ اس نے آپ علیہ الصلٰوۃوالسلام سے اپنے علاقے میں واپس جانے کی اجازت چاہی اور کہا:'' میں جلد ہی دوبارہ حاضر ہو جاؤں گا۔'' آپ علیہ السلام نے اسے اجازت عطا فر مادی۔
وہ چلا گیا اور اپنے علاقے میں لوگو ں سے کہتا پھرتا:''حضرتِ سیِّدُنا موسیٰ علیہ السلام نے یہ فرمایا،آپ علیہ السلام نے مجھے یہ بات بتائی ۔'' اس طر ح کی باتیں کر کے وہ لوگو ں سے مال جمع کرتا ۔ لوگ حضرتِ سیِّدُنا موسیٰ علٰی نبینا وعلیہ الصلٰوۃ والسلام کا مقر ب سمجھ کر اس کی تعظیم کر تے اور اسے مال ودولت دیتے۔ وہ بڑا خوش ہوتا اور جگہ جگہ جاکر کہتا، '' میں نے حضرت سیِّدُنا موسیٰ علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃو السلام کو یہ فرماتے ہوئے سنا ۔'' الغرض! اس طر ح اس نے بہت سا مال جمع کر لیا ۔ کافی دن گزر جانے کے باوجود جب وہ حاضرِ خدمت نہ ہوا توآپ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے لوگوں سے اس کے متعلق پوچھا لیکن کسی کو اس کی خبر نہ تھی کہ اب وہ کہاں ہے؟ ایک دن آپ علیہ السلام ایک جگہ تشریف فرما تھے کہ ایک دیہاتی گزرا جس نے رسّی سے بندھا ہوا خرگوش اپنی گردن میں لٹکا رکھا تھا ۔ آپ علیہ السلام نے اس سے پوچھا : ''اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بندے! تو کہا ں سے آرہا ہے؟'' عرض کی: ''فلاں گاؤں سے ۔'' فرمایا: '' کیا تو فلاں شخص کو جانتا ہے جس نے مجھ سے علمِ دین سیکھا؟''
دیہاتی نے اپنی گردن میں لٹکے ہوئے خر گو ش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ''یہی وہ شخص ہے جس کے متعلق آپ علیہ السلام پوچھ رہے ہیں۔ اللہ ربُّ العزَّت نے اسے خر گوش بنادیا ہے ۔'' یہ سن کر آپ علیہ اسلام نے بارگاہِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ میں عرض کی :''اے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ ! اسے اس کی اصلی حالت پرلوٹادے تا کہ میں اس سے پوچھوں کہ کس جرم کی وجہ سے اسے جانوربنادیا گیا؟''بارگاہِ خد اوندی عَزَّوَجَلَّ سے وحی نازل ہوئی :'' اے موسیٰ( علیہ السلام)! جو سوال تم نے کیا ہے ،اگر یہی سوال"
" مقرَّب رسولوں میں سے کوئی اور بھی کرے تب بھی میں اسے اس کی اصلی حالت پر نہیں لوٹاؤں گا۔ اسے میں نے جانور اس لئے بنایاہے کہ'' یہ دین کے ذریعے دنیا کی حقیر دولت طلب کیا کرتا تھا۔(نَعَوْذُ بِاللہِ مِنْ ذَالِکَ)
(یااللہ عَزَّوَجَلَّ! ہمیں اپنی ناراضگی سے محفوظ رکھ ، ہمارے گناہوں سے در گزر فرما ۔ سچی توبہ اور اس پر استقامت کی توفیق عطا فرما ۔ صرف اپنی ہی رضا کی خاطر علمِ دین سیکھنے اور دوسروں کو سکھانے کی توفیق عطا فرما ۔ ریا کاری ، حبِ مال، طلب جاہ ، اور دیگربڑے بڑے گناہوں سے ہمیں محفو ظ فرما۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُناقاسم بن محمد علیہ رحمۃ اللہ الصمد فرماتے ہیں: ایک مرتبہ حضرتِ سیِّدُنا سُفْیَان ثَوْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے میرا ہاتھ پکڑکر کہا: '' آؤ!ابوہَمَّام نامی شخص کے پاس چلیں جو حضرتِ سیِّدُناعمر بن عبدالعزیزعلیہ رحمۃ اللہ القدیر کے متعلق ایک واقعہ بیان کرتا ہے۔'' ہم دونوں اس کے پاس پہنچے تو میں نے حضرت سیِّدُنا عمر بن عبد العزیزعلیہ رحمۃ اللہ القدیر کے متعلق دریافت کیا۔ اس نے کہا: ''مجھے فلاں پرہیز گارشخص کہ جس کی سچائی لوگوں میں مشہور ہے، نے کچھ اس طرح بتایا: ''میں مسلسل تین سال سے حج کی دعا کر رہا تھا لیکن میری یہ حسرت دل ہی میں رہی۔''
؎ کر رہے ہیں جانے والے، حج کی اب تَیَّاریاں رہ نہ جاؤں میں کہیں، کردو کرم پھر یا نبی صلَّی اللہ علیہ وسلَّم!
مجھ پہ کیا گزرے گی آقا! اس برس گر رہ گیا میرا حال دل تو ہے، سب تم پہ ظاہر یا نبی صلَّی اللہ علیہ وسلَّم!
چوتھے سال حج کا موسِم قریب تھا۔ میرے دل میں زیارتِ حرمینِ شریفین کی خواہش مچل رہی تھی ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کرم ہوا میری دعا کی قبولیت کچھ اس انداز میں ہوئی کہ ایک رات جب میں سویا تو میری دل کی آنکھیں کھل گئیں، سوئی ہوئی قسمت انگڑائی لے کر جا گ اٹھی، مجھے رحمتِ عالم ، نورِ مجسّم ، رسولِ محتشم،شاہِ بنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی زیارت نصیب ہوئی ۔ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: '' تم اس سال حج کے لئے چلے جانا۔ ''
میری آنکھ کھُلی تو دل خوشی سے جھوم رہا تھا۔ بارگاہِ نبوت سے حج کی اجازت مل چکی تھی۔ سرکارِ مدینہ، راحتِ قلب وسینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی میٹھی میٹھی آواز اب تک کا نوں میں رَس گھول رہی تھی، میں بہت شاداں وفرحاں تھا ۔ اچانک مجھے یاد آیا کہ میرے پاس زادِ راہ تو ہے نہیں، میں تو بالکل بے سرو سامان ہوں ۔ بس اس خیال کے آتے ہی میں غمگین ہوگیا ۔ دوسری رات پھر خواب میں حضور نبئ پاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا دیدار ہوا لیکن میں اپنی بے سرو سامانی کا ذکر نہ کر سکا۔ اسی طرح تیسری رات"
"بھی بارگاہِ نبوت سے حکم ہوا کہ '' تم اس سال حج کو چلے جانا ۔''میں نے سوچا اگر دوبارہ خواب میں میرے آقا ومولیٰ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم تشریف لائے تو میں اپنی بے سر و سامانی کے متعلق عرض کروں گا ۔بقولِ شاعر:
؎ پاس مال وزَر نہیں، اُڑنے کو بھی پَر نہیں کر دو کوئی انتظام، تم پر کروڑوں سلام
چوتھی رات پھر مدینے کے تا جْوَر ،سلطانِ بحر وبر، محبوبِ ربِّ اکبر عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے میرے گھر میں جلوہ گَری فرمائی، آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم مجھ سے یہی ارشاد فرمارہے تھے: '' تم اس سال حج کو چلے جانا۔''میں نے دست بستہ عرض کی: '' میر ے آقا صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم !میرے پاس تو زادِ راہ بھی نہیں۔'' ارشاد فرمایا :'' کیوں نہیں! تم اپنے مکان کی فلاں جگہ کھودو وہاں تمہارے دادا کی زِرہ موجود ہوگی ۔'' اتنا فرماکرنور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر، دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَر صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم تشریف لے گئے ۔ صبح جب میری آنکھ کھلی تو میں بہت خوش تھا ۔ نمازِ فجر ادا کرنے کے بعدآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بتائی ہوئی جگہ کھودی تو وہاں واقعی ایک قیمتی زِرہ موجود تھی۔ وہ ایسی نئی تھی گویا اسے کسی نے استعمال ہی نہ کیا ہو۔ میں نے اسے چا ر ہزار دینار میں بیچا اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شکر ادا کیا ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ! حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی نظرِ عنایت سے اسبابِ حج کا خود ہی انتظام ہوگیا: ؎جب بلایا آقا انے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خود ہی انتظام ہوگئے
میں زادِراہ خرید کر حجاج کے قافلے میں شامل ہو گیا۔ اب ہمارا قافلہ سوئے حرم رواں دواں تھا ۔ حرم شریف پہنچ کر مناسکِ حج ادا کئے۔ اب واپسی کا ارادہ تھا میں وہاں کے مناظرپر الوداعی نظر ڈال رہا تھا۔ جدائی کا وقت قریب آتا جارہا تھا ۔ میں نوافل ادا کرنے ''اَبْطَحْ'' کی جانب گیا ۔ وہاں کچھ دیر آرام کے لئے بیٹھاتو اونگھ آگئی ،سر کی آنکھیں بند ہورہی تھیں اور دل کی آنکھیں کھل رہی تھیں۔ نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر، دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَر صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اپنا نورانی چہرہ چمکاتے مسکراتے ہوئے تشریف لائے اور ارشاد فرمایا : '' اے خوش بخت ! اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تیری سعی کو قبول فرمالیا ہے ۔ تو عمر بن عبد العزیز کے پاس جا اور اسے کہنا: ''ہمارے ہاں تمہارے تین نام ہیں:عمر بن عبد العزیز ، امیر المؤمنین ، اَبُو الیَتَامٰی(یعنی یتیموں کا والی)، اے عمر بن عبد العزیز! قوم کے سرداروں اور ٹیکس وصول کرنے والوں پر اپنا ہاتھ سخت رکھنا۔ '' اتنا فرما کر سیِّدُالْمُبَلِّغِیْن،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم واپس تشریف لے گئے ۔ میں بیدار ہواا ور اپنے رفقاء کے پاس پہنچ کر کہا: '' جاؤ! اللہ تبارک وتعالیٰ کی برکت کے ساتھ اپنے و طن لوٹ جاؤ! میں کسی وجہ سے تمہارے ساتھ نہیں جاسکتا ۔ ''
پھرمیں''شام ''جانے والے قافلے میں شامل ہو گیا۔ دمشق پہنچ کر امیر المؤمنین کا گھر معلوم کیا اور زوال سے کچھ دیر قبل وہاں پہنچ گیا۔باہری دروازے کے پاس ایک شخص بیٹھا ہوا تھا میں نے اس سے کہا : '' امیرالمؤ منین سے میرے لئے حاضر ی کی اجازت طلب کرو ۔''وہ بولا:'' امیر المؤمنین کے پاس جانے سے تمہیں کوئی نہیں روکے گا، لیکن ابھی وہ لوگوں کے مسائل حل فر ما"
"رہے ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ تم کچھ دیر انتظار کرلوجیسے ہی وہ فارغ ہوں گے میں تمہیں بتا دوں گا اور اگر ابھی حاضر ہونا چا ہو تو تمہاری مرضی۔'' میں انتظار کرنے لگا ،کچھ دیر بعد بتایا گیا: ''امیر المؤمنین لوگو ں کے مسائل سے فارغ ہوچکے ہیں۔'' چنانچہ، میں نے حاضرِ خدمت ہو کر سلام پیش کیا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے پوچھا:'' تم کون ہو ؟'' میں نے عرض کی:'' میں رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا قاصد ہوں اور آپ کی طرف پیغام لے کر آیا ہوں ۔'' یہ سنتے ہی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے میری طرف دیکھا اس وقت آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پانی پی رہے تھے۔ فوراً پیالہ ایک طرف رکھا ، مجھے سلامتی کی دعا دی پھر اپنے پاس بٹھایا اور پوچھا:'' تم کہاں سے آئے ہو ؟ ''میں نے کہا :'' بصرہ کا رہنے والا ہوں ۔'' پوچھا:'' کس قبیلے سے تعلق رکھتے ہو ۔''میں نے کہا: '' فلاں قبیلے سے۔'' فرمایا:'' وہاں اس سال گندم کیسی ہوئی ہے ؟ تمہارے جَوْ کی فصلیں کیسی ہوئی ہیں ؟وہاں کے انگور کیسے ہیں ؟ وہا ں کی کھجوریں کیسی ہیں ؟ گھی کیسا ہے؟ وہاں کے ہتھیار اور بیج کی کیا حالت ہے ؟ ''الغرض! آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے خرید وفروخت سے متعلقہ تمام چیزوں کے بارے میں سوال کیا۔ جب ان تمام چیزوں کے متعلق پوچھ چکے تو پہلی بات کی طرف آئے اور کہا: ''تیرا بھلا ہو تُو تو بہت عظیم معاملہ لے کر آیا ہے۔'' میں نے عرض کی:'' حضور! مجھے خواب میں جو پیغام ملامیں وہی لے کر حاضر ہو ا ہوں۔''پھر میں نے حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی زیارت سے یہاں پہنچنے تک تمام واقعات آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو کہہ سنائے ، مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے انہیں مجھ پر اعتماد ہوگیا ہے اور ان کے نزدیک میری تمام باتیں ثابت ہوچکی ہیں۔'' فرمایا:'' تم ہمارے پاس ٹھہرو، ہم تمہاری خیر خواہی کریں گے ۔'' میں نے کہا :'' حضور! میں پیغام لے کر حاضر ہوا تھا ، اب میں اپنے فرض سے سبکدوش ہو چکا ہوں، مجھے اجازت عطا فرمائیے۔'' آپ رحمۃ اللہ تعا لیٰ علیہ مجھے وہیں چھوڑ کر اندر تشریف لے گئے۔ واپسی پر چالیس دیناروں سے بھر ی ایک تھیلی میری طرف بڑھاتے ہوئے فرمایا:'' اس وقت میرے پاس ان دیناروں کے علاوہ کو ئی اور چیزنہیں تم بطورِ تحفہ یہ قبول کرلو ۔''
میں نے کہا :'' خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم! میں کبھی بھی حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا پیغام پہنچا نے کے عوض کوئی چیز نہیں لوں گا ۔ بے حد اصرار کے باوجود میں نے ان دیناروں کو ہاتھ تک نہ لگا یا ۔ میں نے واپسی کی اجازت چاہی اورجب میں الوداع کہہ کراٹھا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مجھے سینے سے لگالیا اور دروازے تک چھوڑ نے آئے اور اَشک بار آنکھوں سے مجھے رخصت کیا۔میں اس ولئ کامل سے ملاقات کے بعد اپنے شہر کی جانب آرہا تھااور دل میں ان کی محبت وتعظیم مزید بڑھ گئی تھی۔ بصرہ پہنچنے کے کچھ ہی دن بعد مجھے یہ جان لیو ا خبر ملی: ''ولئ کامل، امیر المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عمر بن عبد العزیز علیہ رحمۃ اللہ القدیر ہزاروں آنکھوں کو سوگوار چھوڑ کر اس دنیاسے پردہ فرما گئے اور دارِ عقبیٰ کی طرف روانہ ہو گئے۔'' اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔آپ کی جدائی پرہر آنکھ اشک بار تھی اورہر زبان گویایوں کہہ رہی تھی:
؎ عرش پر دھومیں مچیں، وہ مومنِ صالح ملا فرش سے ماتم اٹھے، وہ طیب و طاہر گیا"
" پھر میں مجاہد ین کے ہمراہ جہاد کے لئے روم چلا گیا ۔ وہاں مجھے وہی شخص ملا جو حضرت سیِّدُنا عمر بن عبد العزیز علیہ رحمۃ اللہ القدیر کے دروازے پر بیٹھا ہو اتھااورجس کے ذریعے میں نے اجازت طلب کی تھی۔ میں اسے پہچان نہ سکا لیکن اس نے مجھے پہچان لیا میرے قریب آکر سلام کیا اور کہا:'' اے بندۂ خدا! اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ کا خواب سچا کردیا ہے ۔ امیر المؤمنین کے بیٹے عبد المَلِک بیمار ہوگئے تھے ۔ میں رات کے وقت ان کی خدمت پر مامور تھا ۔ جب میں ان کے پاس ہوتا تو امیر المؤمنین چلے جاتے اور نماز پڑھتے رہتے ۔ جب وہ اپنے بیٹے کے پاس آجاتے تو میں جاکر سوجاتا۔ میرے جاتے ہی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ دروازہ بند کر لیتے اور نماز میں مشغول ہوجاتے۔ خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم! ایک رات میں نے اچانک امیر المؤمنین کے رونے کی آواز سنی، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بڑے درد بھرے انداز میں بلند آواز سے رو رہے تھے ۔ میں گھبرا کر دروازے کی طرف لپکا دروازہ اندر سے بند تھا۔ میں نے کہا:'' اے امیر المؤمنین! کیا عبدالمَلِک کو کوئی حادثہ پیش آگیا ہے ؟'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مسلسل روتے رہے اور میری بات کی طرف بالکل تو جہ نہ دی ۔ جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو کچھ افاقہ ہوا تو دروازہ کھول کر فرمایا:'' اے بندۂ خدا! جان لے! بے شک اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اس بصری کا خواب سچا کر دکھا یا۔ابھی ابھی مجھے خواب میں حُسنِ اَخلاق کے پیکر،نبیوں کے تاجور، مَحبوبِ رَبِّ اَکبر عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی زیارت نصیب ہوئی ۔آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے مجھ سے وہی ارشاد فرمایا جو اس بصری نے پیغام دیا تھا ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)"
حضرتِ سیِّدُناثَابِت بُنَانیِ قُدَّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی فرماتے ہیں کہ : '' ایک دن میں حضرت سیِّدُنا اَنَس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں حاضر تھا ۔ اتنے میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے جو ابوبَکْر کے نام سے مشہور تھے جہادسے واپس آئے ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے جہاد کے متعلق پوچھاتو انہوں نے جہاد میں پیش آنے والے بہت سے واقعات بتائے اور کہا:'' ابا جان !کیا میں آپ کو اپنے ایک مجاہد ساتھی کی عجیب وغریب و ایمان افرو ز حالت کے بارے میں نہ بتاؤں؟'' حضرتِ سیِّدُنا اَنَس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا:'' ضرور بتاؤ ۔''کہا :'' ہمارے لشکر میں ایک خوبر و نوجوان بھی تھا ۔ جب ہم دشمن کے بالکل سامنے پہنچ گئے تو حملے کی تیاری میں مصروف ہوگئے ۔ اتنے میں اس نوجوان کے یہ الفاظ فضاء میں گو نجے:'' واہ! میری زوجہ''عَیْنَاء ''کیسی خوبصورت ہے ، واہ میری زوجہ''عَیْنَاء '' کیسی
"خوبصورت ہے''۔ یہ آواز سن کرہم فوراً اس کی طرف دوڑے ،ہم سمجھے کہ شاید اسے کوئی عارضہ لاحق ہوگیا ہے ۔ ہم نے پوچھا:''اے نوجوان ! کیا ہوا؟'' کہا :'' اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے شہسوار و ! سنو!میں ہمیشہ اپنے آپ سے یہ کہتا تھاکہ میں ہر گز شادی نہ کروں گا یہاں تک کہ میں کسی غزوہ میں شہید ہو جاؤں گا اور اللہ ربُّ العزَّت جنت کی سب سے خوبصورت حور سے میری شادی کر دے گا۔ میں ہر مرتبہ شہادت کی آرزو لئے جہاد میں شریک ہوتا ،کئی جہادو ں میں شرکت کے باوجود مجھے شہادت کی دولت نہ مل سکی ۔اب اس لشکر کے ساتھ جہاد میں آگیا۔ راستے میں میرے نفس نے مجھے اس ارادے پر ابھارا،'' اگر اس مرتبہ بھی مجھے شہادت نہ ملی تو واپسی پر میں شادی کرلوں گا۔''
ابھی کچھ دیر قبل مجھے اونگھ آئی میرے خواب میں کوئی آنے والا آیا اور کہا :'' تم ہی ہو جو یہ کہہ رہے ہو کہ اگر اس مرتبہ میں شہید نہ ہوا تو واپسی پر شادی کرلوں گا؟'' سنو ! اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ''حو رِعینا ء'' کے ساتھ تمہاری شادی کردی ہے ۔ اٹھو! میرے ساتھ چلو۔'' وہ مجھے لے کر ایک انتہائی سر سبز وشاداب وسیع باغ میں پہنچا ،وہاں کا منظر بڑا ہی دِلرُباتھا اس میں دس(۱۰) ایسی حسین وجمیل لڑکیاں موجود تھیں کہ اس سے قبل میری آنکھوں نے ایسا حسن نہ دیکھا تھا ۔ میں نے کہا:'' شاید ان میں سے کوئی ایک ''حورِ عَیْنَاء '' ہوگی ۔'' یہ سن کر ان دوشیزاؤں نے کہا :'' ہم تو اس کی کنیز یں ہیں'' حورِعَیْنَاء '' تمہارے سامنے کی جانب ہے ۔''
میں آگے بڑھا تو ایک بہت ہی خوبصورت اور سر سبز باغ نظر آیا یہ پہلے باغ کی نسبت زیادہ خوبصورت و وسیع تھا ۔ اس میں بیس(20) حسین وجمیل دو شیزائیں تھیں ان کے حسن وجمال کے سامنے پہلی دس لڑکیوں کے حسن کی کوئی اہمیت نہ تھی ۔ میں نے کہا: '' ان میں سے کوئی ایک''حورِ عَیْنَاء'' ہے ۔ ''جواب ملا:'' آگے چلے جاؤ ''حورِ عَیْنَاء'' تمہارے سامنے ہے۔ ہم تو اس کی کنیزیں ہیں۔'' میں آگے بڑھا تو سامنے ایک ایسا وسیع وعریض اور خوبصورت باغ تھا جو پہلے دو باغوں کی نسبت بہت زیادہ پُر بہار تھا ۔ اس میں چالیس(40) ایسی خوبصورت لڑکیاں تھیں کہ ان کے سامنے پہلی دوشیزاؤں کی خوبصورتی کچھ بھی نہ تھی۔ میں نے کہا :''ان میں کوئی ایک ضرور ''حورِ عَیْنَاء '' ہوگی۔''
یہ سن کر انہوں نے اپنی پُرتَرَنُّم آواز میں کہا :'' ہم تو اس کی کنیز یں ہیں ''حورِ عَیْنَاء '' تمہارے سامنے ہے، آگے چلے جاؤ ۔ ' ' میں آگے بڑھا تو اپنے آپ کو یا قوت کے بنے ہوئے ایک خوبصورت کمرے میں پایا جس میں ایک تخت پر سابقہ تمام لڑکیوں سے زیادہ حسین وجمیل نوجوان لڑکی موجود تھی اس کا حسن آنکھوں کو خیرہ کر رہا تھا ۔وہ بڑی شان وشوکت سے تخت پر بیٹھی میری جانب دیکھ رہی تھی ۔ میں نے بے تاب ہو کر پوچھا :''کیا تم ہی ''حورِ عَیْنَاء '' ہو؟'' اس نے اپنی مسحورکُن آواز میں کہا :'' خوش آمدید !میں ہی ''حورِ عَیْنَاء '' ہوں۔'' یہ سن کر میں نے اسے چھونے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو اس کی مترنم آواز گونجی: ''ٹھہرجائیے ! ابھی آپ کے اندر روح موجود ہے ۔ کچھ دیر انتظار کیجئے! اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ آج آپ افطاری ہمارے ساتھ کریں گے ۔'' میں ابھی اس ہو شرُ با منظر میں"
"ہی گم تھا کہ میری آنکھ کھل گی ۔ بس اب میں بہت جلد وہاں پہنچنے والا ہوں ۔
نوجوان نے اپنی بات ختم ہی کی تھی کہ منادی نے پکار کر کہا :'' اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے شہسوارو ! دشمن پر حملہ کرنے کا وقت آگیا ۔اللہ عَزَّوَجَلَّ کا نام لے کر اسلام کے دشمنوں پر ٹو ٹ پڑو! ۔''یہ سن کر ہم دشمن کے مقابلے میں صفیں بنا کر سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے ہوگئے ۔وہ نوجوان بڑی بے جگری سے دشمنوں سے نبرد آزماتھا۔ مجھے اس کی بات یاد تھی، میں کبھی سورج کی طرف دیکھتا کبھی اس کی طرف۔ جیسے ہی سورج غروب ہوا اس کی گردن تن سے جدا کردی گئی ۔وہ راہِ خدا میں اپنا سر قربان کرا چکا تھا۔ میں نہیں جانتا کہ سور ج پہلے غروب ہوا یا وہ نوجوان پہلے شہید ہو ا۔یقینا اس نے افطاری ''حورِ عَیْنَاء '' کے ساتھ کی ہوگی۔ حضرتِ سیِّدُنااَنَس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ علیہ نے جب اپنے بیٹے کی زبانی اس نوجوان کی ایمان افروز کہانی سنی تو بے ساختہ دعا گو ہوئے: ''اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اس مجاہدپر رحمت ہو ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُنا حَکَم بن عبدالسَّلام بن نعمان بن بشیر اَنصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے مروی ہے: (جنگِ موتہ) میں جب حضرتِ سیِّدُنا جَعْفَر بن ابو طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہید کر دیئے گئے تو لوگو ں نے بآواز بلند حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ بن رَوَاحَہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پکارا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت لشکر کی ایک طرف موجود تھے ۔ تین دن سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کچھ بھی نہ کھایا تھا ۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں ایک ہڈی تھی جسے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھوک کی وجہ سے چو س رہے تھے ۔ جب حضرتِ سیِّدُنا جَعْفَربن ابوطالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کی خبر سنی تو بے تاب ہو کر ہڈی پھینک دی اور یہ کہتے ہوئے آگے بڑھے: ''اے عبداللہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) !ابھی تک تیرے پاس دنیاوی شئے موجود ہے ۔'' پھر بڑی بے جگری سے دشمن پر ٹو ٹ پڑے تلوار کے وار سے آپ کی انگلی کٹ گئی تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ اشعار پڑھے:
تو نے صرف یہ انگلی کٹوائی ہے اور راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں یہ کوئی بڑا کارنامہ نہیں۔ اے نفس! شہید ہوجا ورنہ موت کا فیصلہ تجھے قتل کرڈالے گا اور تجھے ضرور موت دی جائے گی۔ تو نے جس چیز کی تمنا کی تجھے وہ چیز دی گئی ۔ اب اگر تو بھی ان دونوں (زید بن حَارِث اور جَعْفَر بن ابوطالب رضی اللہ تعالیٰ عنہما )کی طرح شہید ہو گیا تو کامیاب ہے اور اگر تو نے تاخیر کی تو تحقیق بد بختی تیرا مقدر ہوگی ۔''"
" پھر اپنے نفس کو مخاطب کر کے فرمانے لگے:''اے نفس !تجھے کس چیز کی تمنا ہے؟ کیا فلاں کی ؟ تو سن! اسے تین طلاق۔'' کیا تجھے فلاں فلاں لونڈی وغلام اور فلاں باغ سے محبت ہے؟ تو سن ! اپنی یہ سب چیزیں اللہ اوراس کے رسول عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے لئے چھوڑ دے ۔ اے نفس! تجھے کیا ہوگیا کہ تو جنت کو ناپسند کررہاہے ؟ میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم کھاتا ہوں کہ تجھے اس میں ضرور جانا پڑے گا ، اب تیری مرضی چاہے خوش ہوکر جایا مجبور ہو کر ،جا! خوش ہو کر جا! بے شک تو وہاں مطمئن رہے گا،تو نہیں ہے مگر پانی کا قطرہ۔ بے شک لوگ جمع ہوگئے اور ان کی چیخ وپکار شدید ہوگئی ۔'' پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دشمن کی صفوں میں گھس گئے ۔بالآخر لڑتے لڑتے جامِ شہادت نوش فرماگئے ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُنا حُمَیْد بن ہِلَال رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے منقول ہے :حضرتِ سیِّدُنااَسْوَدبن کُلْثُوْم علیہ رحمۃاللہ القیّو م بہت ہی باحیا اور صالح نوجوان تھے ۔ چلتے وقت آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی نگاہیں ہمیشہ اس طرح جھکی رہتیں کہ پاس سے گزرنے والوں کی بھی خبر نہ ہوتی۔ اس وقت گھروں کی دیواریں اتنی بلند نہ ہوتی تھیں۔ایک مرتبہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ گھروں کے قریب سے گزررہے تھے کہ کسی عورت نے دوسری عورتوں سے کہا:'' جلدی سے گھرو ں کے اندر چلی جاؤ، ایک نوجوان آرہا ہے۔'' یہ سن کر دوسری عورتوں نے کہا:'' ارے! یہ تو حضرتِ سیِّدُنا اَسْوَدبن کُلْثُوْم علیہ رحمۃاللہ القیّو م ہیں،ان کی نظریں تو زمین سے اٹھتی ہی نہیں پھر یہ کسی غیر عورت پرنظر کیونکر ڈالیں گے ۔''
ایک مرتبہ حضرتِ سیِّدُنااَسْوَدبن کُلْثُوْم علیہ رحمۃاللہ القیّو م مجاہدینِ اسلام کے ساتھ جہاد کے لئے روانہ ہوئے ،چلتے وقت آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس طرح دعا کی: ''اے میر ے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ !میرا نفس گمان کرتا ہے کہ اسے تیری ملاقات بہت عزیز ہے ۔ اگر یہ اپنے دعوے میں سچا ہے تو اس کی اس خواہش کو پورا فرمادے۔ اور اگر یہ جھوٹا ہے تو اسے اپنے دعویٰ میں سچا ہونے کی تو فیق عطا فرما۔ اگرچہ یہ اس بات کونا پسند کرے ۔ اے میرے پاک پر وردگار عَزَّوَجَلَّ ! اسے اپنی راہ میں شہادت کی تو فیق عطا فرما۔اے اللہ عَزَّوَجَلَّ ! شہادت کے بعد میرے گوشت کو پرندوں اور درندوں کی خوراک بنادے ۔''
یہ دعا کرنے کے بعد آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لشکر کے ساتھ دشمن کی جانب روانہ ہوگئے لشکر ایک ایسے باغ کے قریب جاکررکا"
"جس کے چاروں طرف دیوار تھی اور دیوار میں ایک بڑاسا سوراخ تھا ۔ سارا لشکر اس سوراخ کے ذریعے اندر داخل ہوگیا ۔ اتنے میں دشمنوں کا لشکر بھی اس سوراخ کے قریب آکر کھڑا ہوگیا ۔حضرتِ سیِّدُنااَسْوَدبن کُلْثُوْم علیہ رحمۃاللہ القیّو م اپنے گھوڑے سے اس حالت میں اتر ے کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا چہرہ گرد آلود تھا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ دوڑتے ہوئے باغ میں موجود ایک تالاب کے پاس آئے، وضو کیا اور نماز پڑھی۔ پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ دشمنوں کی صفوں پر ٹو ٹ پڑے اور لڑتے لڑتے شہید ہوگئے ۔ دونوں لشکروں میں گھمسان کی جنگ ہوئی، مسلمانوں کو کامیابی نصیب ہوئی ۔اس لشکرمیں حضرتِ سیِّدُنا اَسْوَدبن کُلْثُوْم علیہ رحمۃاللہ القیّو م کے بھائی بھی موجود تھے ۔جب لشکرِ اسلام واپسی کے لئے کوچ کرنے لگا توکچھ افراد نے دیوار پر چڑ ھ کر پکارا:'' اے اَسْوَدبن کُلْثُوْم علیہ رحمۃاللہ القیّوم کے بھائیو!یہاں آ کر دیکھو! تمہارے بھائی کے گوشت اور ہڈیوں کے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہے۔'' یہ سن کر ان کے بھائی غمگین ہوگئے اور مغموم لہجے میں کہا:''ہمارے بھائی نے جو دعا کی تھی وہ قبول ہوگئی، ہم میں ایسی دعا کرنے کی ہمت نہیں ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)"
" اپنے زمانے کے بہت ہی متقی وصالح بزرگ حضرتِ سیِّدُناسَالِم بن زُرْعَہ بن حَمَّاد ابومرضِی علیہ ر حمۃ اللہ القوی سے منقول ہے کہ'' ہم جس علاقے میں رہتے تھے وہاں کا پانی تقریباً ساٹھ سال سے نمکین تھا۔ وہاں سے گزرنے والی نہر کا پانی بھی انتہائی کڑوا تھا۔ نہر کے قریب ہی ایک عبادت گزار نوجوان رہتا تھا ۔ اس کے گھر میں نہ تو کوئی پانی کی ٹینکی وغیرہ تھی اور نہ ہی کوئی ایسا بڑا بر تن جس میں پانی رکھا جا سکے۔ ایک مرتبہ سخت گرمی کے دن رمضان کے مہینے میں افطار کے وقت میں نے اس نوجوان کو نہر کی جانب بڑھتے ہوئے دیکھا ۔ میں بھی اس نوجوان کے ساتھ ہولیا۔ اس نے نماز کے لئے وضو کیا پھر اس طر ح التجا کی: '' اے میرے پاک پر وردگار عَزَّوَجَلَّ ! کیا تُو میرے اعمال سے خوش ہے کہ میں تجھ سے سوال کروں؟ اے میرے پروردگار عَزَّوَجَلَّ ! گرم اور کھولتا ہوا پانی اس کے لئے ہوگا جس نے تیری نافرمانی کی ہوگی ۔اگرمجھے تیرے غضب کا خوف نہ ہوتا تو میں کبھی بھی افطار نہ کرتا ، بے شک پیاس کی شدت نے مجھے مشقت میں ڈال دیا ہے۔''
یہ دعا کرنے کے بعد اس نو جوان نے اپنا ہاتھ بڑھا کر نہر سے خوب سیر ہو کر پانی پیا۔ میں حیران تھا کہ یہ اس کڑوے پانی پر کس طر ح صبر کر رہا ہے؟ جب وہ وہاں سے چلا گیا تو میں نے بھی اسی جگہ سے پانی پیا، میری حیرت کی انتہاء نہ رہی کیونکہ"
"وہاں کا پانی انتہائی لذیذ اور شکر کی طرح میٹھا تھا ۔ میں نے خوب پیا یہاں تک کہ سیر ہوگیا ۔
حضرتِ سیِّدُنا ابومرضِی علیہ ر حمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں: اس نوجوان نے مجھ سے کہا:'' آج رات میں نے ایک خواب دیکھا، کوئی کہہ رہا تھا،'' ہم تیرے گھر کی تعمیر سے فارغ ہوچکے ہیں وہ گھر ایسا خوبصورت ہے کہ اسے دیکھ کر تیری آنکھیں ٹھنڈی ہو جائیں گی ،اب ہم نے اس کی آرائش کا حکم دے دیا ہے، ایک ہفتے بعد مکمل تیار ہوجائے گا ، اس کا نام '' سرور ''ہے، تجھے اچھائی وبھلائی کی خوشخبری ہو۔'' پھر میری آنکھ کھل گئی۔'' حضر تِ سیِّدُناابو مرضِی علیہ ر حمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں: اس نوجوان کا یہ خواب سن کر میں واپس آگیا۔ ساتویں دن جمعہ تھا ،نوجوان نمازِ فجر کے لئے وضو کرنے نہر پر گیا ۔ اس کا پاؤں پھسلا تو نہر میں ڈوب گیا ۔ ہم نے اسے نکا لا تو اس کی روح قفسِ عُنصری سے پرواز کر چکی تھی۔ فجر کی نماز کے بعد ہم نے اسے دفنادیا ۔ تین دن بعد میں نے اسے خواب میں ایک پل کی جانب آتے ہوئے دیکھا۔ اس نے بہترین سبز لباس زیبِ تن کر رکھا تھا ۔ او ر بلند آواز سے ''اللہ اکبر، اللہ اکبر''کہہ رہا تھا۔ اس نے مجھ سے کہا:'' اے ابو مرضِی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ !میرے رحیم و کریم پر وردگار عَزَّوَجَلَّ نے ''دََارُالسُّرُوْر''میں میری مہمان نوازی فرمائی اورمجھے وہ بہترین گھر عطا فرما دیا ہے ۔ تم جانتے ہو اس میں میرے لئے کیا کیا نعمتیں تیار کی گئی ہيں؟'' میں نے کہا:'' وہاں کی نعمتوں کی صفات بیان کر و۔''
کہا:'' تمہارا بھلا ہو ! تعریف کرنے والوں کی زبانیں اس سے عاجز ہیں کہ وہاں کی نعمتوں کی صفات بیان کریں۔ اگر تجھے وہاں کی نعمتیں چاہیں توتُو بھی میری طرح عبادت وریاضت کر ۔ اے کاش ! میرے گھرو الے جانتے کہ ان کے لئے میرے ساتھ کیا کیا نعمتیں تیا ر کی گئی ہیں ؟ یہاں پر ایسے خوبصورت ومُزَیَّن گھر ہیں کہ ان کے دل جن چیز وں کی خواہش کریں گے وہ تمام اشیاء وہاں موجود ہوں گی اور اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ تم بھی ان کے ساتھ ہو گے ۔'' پھر میری آنکھ کھل گئی ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)"
حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ بن مُسْلِم بن قُتَیْبَہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں : میں نے ''سِیَرُالعَجَم'' میں پڑھا کہ'' جب ''اَرْدَشِیْر''نامی بادشاہ نے اپنی حکومت کو مستحکم کرلیا تو چھوٹے چھوٹے بادشاہوں نے اس کے تابع رہنے کا اقرار کرلیا ۔ اب اس کی نظر سلطنتِ ''سُرْیَانِیّہ'' کی طرف تھی ۔ یہ بڑا ملک تھا ۔ چنانچہ''اَرْدََ شِیْر''نے اس ملک پر چڑھائی کردی۔ وہاں کا بادشاہ
"ایک بڑے شہر میں قلعہ بند تھا ۔اَرْدَ شِیْر نے شہر کا محاصرہ کرلیا ۔ کافی عرصہ گزر نے کے باوجود وہ اس شہر کو فتح نہ کرسکا ۔ ایک دن بادشاہ کی بیٹی قلعہ کی دیوار پر چڑھی تو اچانک اس کی نظر اَرْدََ شِیْرپر پڑی۔اس کی مردانی وجاہت وخوبصورتی دیکھ شہزادی اس کی محبت میں گر فتار ہوگئی اور عشق کی آگ میں جلنے لگی بالآخر نفس کے ہاتھوں مجبور ہوکر اس نے ایک تیر پر یہ عبارت لکھی:
''اے حسین وجمیل بادشاہ! اگر تم مجھ سے شادی کرنے کا وعدہ کرو تومیں تمہیں ایسا خفیہ راستہ بتاؤں گی جس کے ذریعے تم تھوڑی سی مشقت کے بعد بآسانی اس شہر کو فتح کرلوگے ۔'' پھرشہزادی نے وہ تیراَرْدََ شِیْر بادشاہ کی جانب پھینک دیا۔ اس نے تیر پر لکھی عبارت پڑھی اور ایک تیر پر یہ جواب لکھا: ''اگرتم نے ایساراستہ بتادیاتوتمہاری خواہش ضرور پوری کی جائے گی یہ ہماراوعدہ ہے۔ ''اورتیر شہزادی کی جانب پھینک دیا ۔
شہزادی نے یہ عبارت پڑھی توفورا ًخفیہ راستے کا پتہ لکھ کر تیر بادشاہ کی طرف پھینک دیا۔ شہوت کے ہاتھوں مجبور ہونے والی اس بے مُرُوَّت شہزادی کے بتائے ہوئے راستے سے اَرْدََ شِیْر بادشاہ نے بہت جلد اس شہر کو فتح کرلیا ۔ غفلت و بے خبری کے عالم میں بہت سارے سپاہی ہلاک ہو گئے اور شہر کا بادشاہ بھی قتل کردیا گیا ۔ حسب ِ وعدہ اَرْدََ شِیْر نے شہزادی سے شادی کر لی۔ شہزادی کو نہ تو اپنے باپ کی ہلاکت کا غم تھااور نہ ہی اپنے ملک کی بربادی کی کوئی پرواہ۔ بس اپنی نفسانی خواہش کے مطابق ہونے والی شادی پر وہ بے حد خوش تھی۔ دن گزرتے رہے۔ اس کی خوشیوں میں اضافہ ہوتا رہا ۔ ایک رات جب شہزادی بستر پر لیٹی تو کافی دیر تک اسے نیند نہ آئی وہ بے چینی سے بار بار کروٹیں بدلتی رہی ۔ اَرْدََ شِیْر نے اس کی یہ حالت دیکھی تو کہا:'' کیا بات ہے، تمہیں نیند کیوں نہیں آرہی ؟'' شہزادی نے کہا:'' میرے بستر پر کوئی چیز ہے جس کی وجہ سے مجھے نیندنہیں آرہی ۔'' اَرْدََ شِیْرنے جب بستر دیکھا تو چند دھاگے ایک جگہ جمع تھے ان کی وجہ سے شہزادی کا انتہائی نرم ونازک جسم بے چین ہورہاتھا ۔اَرْدََ شِیْر کواس کے جسم کی نرمی ونزاکت پر بڑا تعجب ہوا ۔ اس نے پوچھا:'' تمہارا باپ تمہیں کون سی غذا کھلاتا تھا جس کی وجہ سے تمہارا جسم اتنا نرم ونازک ہے ؟'' شہزادی نے کہا : '' میری غذا مکھن ، ہڈیوں کا گودا، شہد اور مغز ہوا کرتی تھی۔'' اَرْدََ شِیْرنے کہا: ''تیرے باپ کی طرح آسائش وآرام تجھے کسی نے نہ دیا ہوگا ۔ تو نے اس کے احسان اور قرابت کا اتنا برا بدلہ دیا کہ اسے قتل کرواڈالا ۔ جب تو اپنے شفیق باپ کے ساتھ بھلائی نہ کر سکی تو میں بھی اپنے آپ کو تجھ سے محفوظ نہیں سمجھتا ۔''پھراَرْدََ شِیْر نے حکم دیا : '' اس کے سر کے بالوں کو طاقتور گھوڑے کی دُم سے باندھ کر گھوڑ ے کو تیزی سے دوڑایا جائے ۔'' حکم کی تعمیل ہوئی اور چند ہی لمحوں میں اس نفس پرست شہزادی کا جسم ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا ۔اللہ عَزَّوَجَلَّ ہم سب کو نفسانی خواہشوں کی تباہ کاریوں سے محفوظ فرمائے ۔
( آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)
( میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اگر انسان اپنی قبر وآخرت کو بھول جائے تو پھر اسی طر ح کی ذلت ورسوائی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔"
"ایسا شخص نہ تو دنیا میں کامیاب ہوتا ہے اور نہ ہی آخرت میں۔ اگر بالفرض دنیا میں چند روزہ عیش وعشرت مل بھی جائے تب بھی اسے قلبی سکون اور اطمینان نصیب نہیں ہوتا ۔ جس نے اپنے نفس کی پیروی کی نفس نے اسے ہمیشہ تباہی وبربادی کے عمیق گڑھے میں ڈال دیا۔ عزت و دولت اورشان وشوکت سب کی سب خاک میں مل گئی ۔ اور یہ تو حقیقت ہے کہ'' جیسی کرنی ویسی بھرنی۔'' آج جو کسی کے ساتھ دھوکا دہی وبد عہدی کریگا تو اس کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا جائے گا۔ انسان چاہے کچھ بھی کرے بالآ خر اُسے موت سے ہمکنار ہونا پڑے گا۔ ؎کر لے جو کرنا ہے آخر موت ہے
وہی انسا ن سمجھدار ہے جو اپنے انجام کوپیشِ نظر رکھے۔ اپنے گناہوں پر شرمندگی وندامت کے چند آنسو بہا کر رضائے الٰہی عَزَّوَجَلَّ والے کاموں میں لگ جائے ۔اپنے لئے کوئی ایسا وقت متعین کرلے جس میں قبر وآخرت اور حشر کے ہولناک منظر کو یاد کر ے اور اپنے اعمال کی اصلاح کی تدابیر پر غور کرے ۔ چند ہی روز ایسا کرنے سے آخرت کی تیاری اور گناہوں سے نفرت کا جذبہ ملے گا۔)"
" حضرتِ سیِّدُنا محمد بن علی سَمَّان علیہ رحمۃ اللہ المنّان فرماتے ہیں: ''میں نے رضوان سَمَّان علیہ رحمۃ الرحمن کو یہ کہتے ہوئے سنا: ''میر ا ایک پڑوسی تھا۔ ہم اکٹھا کاروبار کرتے اوردیگر معاملات مِل جُل کر حل کیا کرتے تھے۔کچھ عرصہ بعد پتاچلا کہ میرا وہ بدبخت پڑوسی امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا صدیق اکبر اور امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو گالیاں بکتا ہے۔ یہ سنتے ہی میرے دل میں اس کے خلاف شدید نفرت پیدا ہوگئی۔ اب وہ مجھے ایک آنکھ نہ بھاتا اور ہمارے درمیان اکثر جھگڑا رہتا۔ ایک دن میری موجودگی میں جب اس بد زبان نے شیخینِ کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو گالی دی تو میرے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ میں نے اسے پکڑکر مارنا چاہا تو اس نے بھی جو ابی کاروائی کی ۔ ہم ایک دوسرے سے گُتھَّم گُتھَّا ہوگئے لیکن لوگوں نے بیچ میں آکر ہمیں چھڑا دیا۔اسی غیظ وغضب کی حالت میں، میں گھر آگیا۔جب مجھ پرغنودگی طاری ہوئی تو خواب میں اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہ، ُ عَنِ الْعُیوب عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی زیارت ہوئی ۔ میں اپنے پیارے پیارے آقا صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے نورانی اورمبارک جلووں میں گم ہوگیا:
؎ کرے چارہ سازی زیارت کسی کی بھرے زخم دل کے ملاحت کسی کی
چمک کر یہ کہتی ہے طَلْعَت کسی کی کہ دیدارِ حق ہے زیارت کسی کی"
"نہ رہتی جو پردوں میں صورت کسی کی نہ ہوتی کسی کو زیارت کسی کی
عجب پیاری پیاری ہے صورت کسی کی ہمیں کیا خدا کو ہے الفت کسی کی
پھر بارگاہِ رسالت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم میں اس طرح عرض گزار ہوا:'' یا رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! میرا فلاں پڑوسی آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے اصحاب کو گالیاں دیتا ہے ۔'' یہ سن کر حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے پوچھا:'' وہ میرے کس صحابی کو گالی دیتا ہے ؟'' میں نے عرض کی :''امیر المؤمنین حضرتِ سیِّدنا صدیقِ اکبر اور حضرتِ سیِّدنافاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو۔'' آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے مجھے ایک چُھری دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ''جاؤ! اور اس چُھری سے اسے ذَبح کر ڈالو۔ '' میں نے چُھری لی اور اپنے اس بدبخت پڑوسی کو زمین پر لٹاکر گردن تن سے جدا کردی۔ اس کا ناپاک خون میرے ہاتھ سے لگ گیا میں نے چُھری وہیں پھینکی اور اپنا ہاتھ زمین پر رگڑنے لگا،پھر میری آنکھ کھل گئی ۔میں نے باہر چیخ وپکار کی آواز سنی توگھر والوں سے کہا :''جاؤ! دیکھو! یہ چیخ وپکار کیسی ہے ؟''وہ باہرگئے اور واپسی پر بتایا کہ میرے بد بخت پڑوسی کوکسی نے اچانک ذبح کر ڈالا ہے ۔قاتل کا بالکل بھی پتا نہ چل سکا کہ کون تھا اور کب قتل کیا۔'' صبح جب میں وہاں گیا اور اس کو دیکھا تو وہ اسی انداز میں ذبح کیا گیا تھا جس طر ح میں نے خواب میں اسے ذبح کیا تھا اور اس کی حالت بعینہٖ وہی تھی جو خواب میں میں نے دیکھی ۔ اس طرح وہ بد بخت اپنے انجامِ بَد کو پہنچااور لوگوں کو معلوم بھی نہ ہوا کہ اسے کس نے قتل کیاہے۔''
(اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں انبیاءِ کرام علٰی نبیناوعلیہم الصلٰوۃوالسلام،صحابۂ کرام اور اولیاءِ عظام علیہم الرضوان کے گستاخوں کے شر سے محفوظ رکھے اور ہمیں باادب وباعمل بنائے ۔ہم نبئ کریم، رء ُ وف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہ میں بھی استغاثہ کرتے ہیں کہ وہ ہمیں بے ادبوں سے محفوظ رکھیں۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم )
؎ محفوظ سدا رکھنا شہا بے ادبوں سے اور مجھ سے بھی سر ز د نہ کبھی بے ادبی ہو!(آمین)"
" حضرتِ سیِّدُناجنید بغدادی، ابو العبَّاس بن مَسْرُوْق، ابوا حمد مَغَازِلِی اورحَرِیرِی علیہم رحمۃ اللہ الجلی فرماتے ہیں :ہم نے حضرتِ سیِّدُناحسن مسُوْحِی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو فرماتے ہوئے سنا:'' میں اکثر مسجد کے قریب ایک دیوار کے سائے تلے آرام کیا کرتا۔ دوپہر تک نوافل وغیرہ پڑھتا اور گرمی سے بچا ؤ کے لئے اسی دیوار کو آڑ بنا لیتا،یہی دیوارموسِمِ سرمامیں مجھے سر د ہواؤں سے بچاتی ۔
ایک دن میں گرمی کی شدت سے بے تاب ہو رہا تھا، مسجد کی صفائی اور نوافل وغیرہ سے فارغ ہو کر میں دیوار کے سائے کی"
"جانب بڑھا گرمی نے میرا برا حال کر رکھا تھا لیکن میں نے نہ تو اپنے نوافل ترک کئے اور نہ ہی مسجد کی صفائی کرنے میں کوتا ہی کی ۔ جیسے ہی میں سائے میں پہنچا مجھے نیند نے آ لیا ۔میں نے خواب میں دیکھا کہ مسجد کی چھت شق ہوئی اوراس میں سے ایک حسین وجمیل دوشیزہ ظاہر ہوئی۔ اس کے خوبصورت جسم پر باریک ونرم چاندی کی قمیص تھی۔ اس کے خوبصورت لمبے سیاہ بال دو حصوں میں تقسیم ہو کر سینے پر لٹک رہے تھے وہ میرے پاؤں کے قریب آکر بیٹھ گئی۔ میں نے جلد ی سے اپنے پاؤں سمیٹ لئے۔ اس نے اپنے نرم ونازک ہاتھوں سے میرے پاؤں دبانا شروع کردیئے ۔ میں نے اس سے کہا:'' اے لڑکی! تو کس کے لئے ہے ؟'' اس نے اپنی مسحورکُن آواز میں جواب دیا:'' اس کے لئے جو آپ کی طرح نیکیوں پر ہمیشگی اختیارکر ے ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! ''مسجد کی صفائی کرنا بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں کا حق مہر ہے۔''(المعجم الکبیر، الحدیث۲۵۲۱، ج۳، ص۱۹) جو شخص اللہ عَزَّوَجَلَّ کے گھر کی صفائی کرتا ہے اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کے دل کو تمام گندگیوں سے پاک کرکے آئینہ کی مثل صاف و شفاف کردیتاہے پھر اسے ہر جگہ قدرتِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ کے جلوے نظر آتے ہیں۔ سخت گرمیوں میں روزے رکھنا اور رات کو قیام کرنا اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک بہت پسند یدہ عمل ہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں فرائض کی پابندی کے ساتھ ساتھ کثرت سے نوافل پڑھنے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔ آ مین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)"
حضرتِ سیِّدُنا بِشْر بن حَارِث حافی علیہ رحمۃ اللہ الکافی فرماتے ہیں: میں نے ملک ِ ''شام ''کی پہاڑیوں میں''اَقْرَعْ''نامی پہاڑ پر ایک نوجوان کودیکھا جس کا جسم سو کھ کرکا نٹا ہوچکا تھا۔ اس نے اُون کا لباس پہن رکھا تھا۔ اگرچہ جسم انتہائی کمزور تھا لیکن چہرہ عبادت کے نور سے جگمگا رہا تھا۔ دِل خودبخود اس کی تعظیم کی طرف مائل ہو رہا تھا۔ میں نے قریب جاکرسلام کیا، اس نے جواب دیا۔ میں نے دل میں کہا: ''میں اس نوجوان سے کہوں گا کہ مجھے وعظ ونصیحت کرے۔'' میں اپنی اس خواہش کا اظہار کرنے ہی والا تھا کہ اس نوجوان نے میری دلی کیفیت جانتے ہو ئے کہا:'' اے نصیحت کے طالب! اپنے نفس کو خود ہی نصیحت کر ۔ اپنا نفس قابو میں رکھ، غیروں کو نصیحت کر نے کی بجائے اپنی اصلاح میں لگ جا۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا ذکر تنہائیوں میں کر وہ تجھے برائیوں سے محفوظ رکھے گا۔ تجھ پر جُہدِ مسلسل(یعنی لگاتار کوشش کرنا) لازم ہے ۔''
پھر روتے ہوئے کہا:''دل فانی ہوجانے والی قلیل اشیاء میں مشغول ہوگئے۔ جسموں کو لمبی لمبی امیدوں اور سہل پسند ی (یعنی آرام طلبی) نے بڑھا کر موٹا کر دیا۔'' پھرنوجوان نے مجھے میرا نام لے کر مخاطب کیا حالانکہ آج سے قبل نہ تو اس نے مجھے دیکھا تھا نہ ہی وہ مجھے جانتا تھا ۔اس نے مجھ سے کہا:''بِشْر! بے شک اللہ عَزَّوَجَلَّ کے کچھ ایسے بندے بھی ہیں جن کے دل غموں سے چُور چُور ہیں، غم نے ان کی راتوں کو بے چین اور دنوں کو پیاسا رکھا (یعنی وہ لوگ سونے کی بجائے ساری ساری رات عبادت میں مشغول رہے اور دن بھر روزے سے رہے ) ۔ان کی آنکھیں یا دِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں ہر وقت آنسو بہاتی رہیں ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ان کی صفات بیان کرتے ہوئے اپنی لاریب کتاب میں یوں ارشادفرماتا ہے:
کَانُوۡا قَلِیۡلًا مِّنَ الَّیۡلِ مَا یَہۡجَعُوۡنَ ﴿17﴾ وَ بِالْاَسْحَارِ ہُمْ یَسْتَغْفِرُوۡنَ ﴿18﴾
"ترجمۂ کنزالایمان:وہ رات میں کم سویاکرتے اورپچھلی رات استغفار کرتے۔ (پ26، الذٰریٰت:17۔18)
یہ آیتِ کریمہ پڑھ کر وہ نوجوان پھر زارو قطار رونے لگا۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُناابو عبداللہ حسین بن محمدفقیہ کَشْفُلِی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:مُقْتَدِر بِاللہ کے وزیر علی بن عیسیٰ نے گورنرکو حکم دیا: '' مشہور شافعی فقیہہ بزرگ حضرتِ سیِّدُنا شیخ ابو علی بن خَیْرَان علیہ رحمۃ اللہ الرحمن کو اپنے پاس بلا کر قاضی کا عہدہ قبول کرنے کی دعوت دو ۔'' جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تک یہ خبر پہنچی توآپ نے گھر سے باہر نکلنا بالکل ترک کردیا۔ سپاہیوں نے گھر کا محاصرہ کرلیا، د س سے زیادہ دن گزرجانے کے باوجود آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ باہر تشریف نہ لائے۔ جب گھر میں ایک بوند بھی پانی نہ بچا اور شدتِ پیاس سے گھر والے بے چین ہونے لگے تو سوائے پڑوسیوں سے پانی لینے کے اورکوئی چارہ نہ تھا۔
وزیرکوجب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی اس حالت کی خبر پہنچی تو اس نے سپاہیوں کو محاصرہ ختم کر نے کا حکم دیا ۔ پھربھرے دربار میں کہا :'' ہم شیخ ابو علی بن خَیْرَان علیہ رحمۃ الرحمن کے متعلق صرف خیر کا ارادہ رکھتے تھے، ہم نے محاصرہ اس لئے کیاتھا تاکہ ہم جان جائیں کہ ہمارے ملک میں کوئی ایسا مردِ قلندر بھی ہے جس کے سامنے تخت وتاج پیش ہوں اور وہ انہیں ٹھکرا دے یہ جان کر ہمیں بڑی خوشی ہوئی کہ اب بھی ہمارے ملک میں شیخ ابو علی بن خَیْرَان علیہ رحمۃ اللہ الرحمن کی صورت میں ایسی عظیم ہستی موجود ہے۔"
"؎ موت وحیات میری دونوں ترے لئے ہیں مرنا تیری گلی میں جِینا تری گلی میں
تختِ سکندری پر وہ تھوکتے نہیں ہیں بستر لگا ہوا ہے جن کا تری گلی میں
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُناعبداللہ بن جَعْفَر علیہ رحمۃاللہ الرَّب کے غلام بُدَیْح رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا بیان ہے کہ'' ایک سفر میں، مَیں حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ بن جَعْفَر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ساتھ تھا ۔ ہم نے بالوں سے بنے ایک خیمے کے قریب قیام کیا جو قبیلہ بنی عُذْرَہ کے ایک شخص کا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک شخص عمدہ اونٹنی لے کر ہمارے پاس آیا اور کہا:'' اے قافلے والو! اگر تمہارے پاس چُھری ہو تو مجھے دو۔'' ہم نے اسے چُھری دی ،اس نے فوراً اپنی اونٹنی کو'' نَحْر(یعنی ذَبح )'' کیا اور کہا :'' میرے بھائیو! یہ گوشت تمہارے لئے ہے۔'' اتنا کہہ کر وہ چلا گیا ۔ ہم سب نے سیر ہو کرگوشت کھایا لیکن پھر بھی بہت سابچ گیا۔ دو سرے دن وہی شخص ایک اور بہترین اونٹنی لے کر آیا اور کہا :'' اے لوگو ! مجھے چُھری دو ۔''ہم نے کہا:'' ہمارے پاس کل کا گو شت کافی مقدار میں موجود ہے، تم یہ اونٹنی ذبح نہ کرو۔''اس نے کہا:''تم میرے مہمان ہوکر باسی گوشت کھاؤ، یہ نہیں ہوسکتا، لاؤ!مجھے چُھری دو۔'' ہم نے چُھری دے دی۔ اس نے اونٹنی نحر کی اور کہا:'' کھاؤ !یہ سب تمہارے لئے ہے ۔''تیسرے دن پھرایک اونٹنی لے کر آیا اور کہا:'' اے اہلِ قافلہ! مجھے چُھری دو۔'' ہم نے کہا :''اے بھائی! ابھی ہمارے پاس بہت گوشت ہے، تم یہ اونٹنی ذبح نہ کرو ۔''اس نے کہا:'' یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تم میرے مہمان ہو کر باسی گوشت کھاؤ، یہ مُرُوَّت کے خلاف ہے ، لاؤ! چُھری دو ۔'' ہم نے چُھری دی تو اس نے فوراً اونٹنی نحر کی اور کہا: '' کھاؤ! یہ سب تمہارے لئے ہے ۔ ' ' یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔
سب قافلے والے اس عُذْرِی کی مہمان نوازی دیکھ کر بہت حیران ہو رہے تھے کہ اس نے تین دن متواتر ہماری ضیافت کے لئے عمدہ تر ین اونٹنیاں ذبح کیں ۔یہ واقعی تعجب خیز بات تھی ۔ بہر حال اب کوچ کا وقت ہوچکا تھا۔ہم نے تیاری شرو ع کر دی۔ حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن جَعْفَر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے خادم سے کہا :'' تمہارے پاس کیا کچھ ہے؟'' اس نے کہا:'' حضور! کپڑوں کی ایک گٹھڑی اور چار سو دینار ۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا :'' جاؤ! یہ سب چیزیں ہمارے اس عُذْرِی میزبان کو تحفتاً دے آؤ ۔'' خادم کپڑوں کی گٹھڑی اور چار سودینار لے کر خیمے کی جانب گیا۔ وہا ں ایک کنیز ملی، خادم نے سامان اس کی طرف بڑھاتے ہوئے"
"کہا: ''یہ ہمارے آقا عبداللہ بن جَعْفَررحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی جانب سے آپ لوگوں کے لئے ہدیہ ہے ۔''
کنیزنے کہا:''یہ سامان واپس لے جاؤ، ہم لوگ مہمان نوازی پر قیمت نہیں لیتے ۔'' خادم واپس آگیا اور حضرتِ سیِّدُناعبداللہ بن جَعْفَر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو صورتحال سے آگاہ کیا ۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' دوبارہ جاؤ !اگر وہ یہ مال قبول کرلیں تو ٹھیک ہے ورنہ خیمے کے پاس رکھ کرواپس چلے آنا ۔'' خادم دوبارہ آیا تو لونڈی نے سامان لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا:''واپس لے جاؤ! اللہ تعالیٰ تمہارے لئے اس میں برکت دے۔ ہم مہمان نوازی کی قیمت نہیں لیتے ۔خدا را! جلدی سے چلے جاؤ، اگر ہمارے شیخ نے تمہیں یہاں دیکھ لیاتو بہت ناراض ہوں گے ۔''خادم کپڑوں کی گٹھڑی اور دیناروں کی تھیلیاں خیمے کے قریب رکھ کر واپس آگیا ۔ ہم نے سفر شروع کردیاا بھی تھوڑی ہی دور چلے تھے کہ اپنے پیچھے خاک اڑتی دیکھی ۔ کوئی سوار بڑی تیزی سے ہماری جانب چلا آرہا تھا ۔ جب قریب آیاتووہ ہمارا عُذْرِی میزبان تھا ۔اس نے دینار اور کپڑے ہماری جانب پھینکے اور فوراً واپس پلٹ گیا۔ ہم اسے جاتا دیکھتے رہے لیکن اس عظیم میزبان نے ایک مرتبہ بھی پیچھے مڑکر نہ دیکھا ۔ اس عُذْرِی میزبان کی مہمان نوازی کا انوکھا طر زِ عمل دیکھ کر حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ بن جَعْفَر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بے اختیار پکار اُٹھے:'' ہم پر آج تک کوئی غالب نہ آسکاسوائے اس عُذْرِی میزبان کے ، کہ آج یہ ہم پر سبقت لے گیا۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُناابو عاصم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے والد بیان کرتے ہیں: ایک بار حضرتِ سیِّدُنا قَیْس بن سَعْدعلیہ رحمۃ اللہ الاحد نے فرمایا: ''کاش! میں اس شخص کی طرح ہوجاؤں جسے میں نے دیکھا تھا ۔'' پھر اپنا واقعہ کچھ اس طرح بیان کیا:
'' ایک مرتبہ ہم چند رفقاء شام سے واپس آرہے تھے۔ جب ہمارا گزر ایک خیمے کے قریب سے ہوا تو ہم نے کہا :'' اگر اجازت مل گئی تو ہم یہاں قیام کرلیں گے۔ ہم خیمے کے پاس پہنچے تو اندر سے ایک عورت آئی ہم نے کہا :'' ہم مسافر ہیں، اگر آپ اجازت دیں تو ہم یہاں قیام کرلیں ۔ '' ہم یہ گفتگوکر ہی رہے تھے کہ ایک شخص عمدہ اونٹنی لے کر ہمارے پاس آیا۔ اس نے آتے ہی اس عورت سے پوچھا:'' یہ کون ہیں ؟'' عورت نے کہا :''مسافر ہیں، آپ کے مہمان بننا چاہتے ہیں ۔'' یہ سنتے ہی اس نے فوراً اپنی اونٹنی کو گِراکر کہا: ''اسے نَحْر کرو اور کھالو، یہ سب تمہارے لئے ہے۔'' ہم نے اونٹنی نحر کی اور سارے قافلے والوں نے مل کر"
"اس کا گوشت کھایا۔ دوسرے دن پھر وہ ایک بہترین اونٹنی لے کر آیا اسے گر ایا اور کہا :'' اے اہلِ قافلہ! آؤ، اسے نحر کرو۔'' ہم نے کہا: '' ابھی ہمارے پاس کل کا بچا ہوا بہت سا گو شت موجود ہے ۔ ''
اس نے کہا: '' ہم اپنے مہمانوں کو باسی گوشت نہیں کھلاتے، جلدی سے اُسے ذبح کرو اور تازہ گوشت کھاؤ۔'' ہم نے اُسے ذبح کیا اور عمدہ گوشت کھایا۔ پھر میں نے اپنے رفقاء سے کہا: ''اگر ہم اس شخص کے ہاں ٹھہرے رہے تو ایک ایک کر کے یہ اپنے تمام جانور ذبح کر دے گا۔ بہتریہی ہے کہ ہم یہاں سے آگے چل پڑیں۔ ''چنانچہ، ہم نے سامان سمیٹا، کجاوے کَسے اور چلنے کی تیاری کرنے لگے ۔ میں نے اپنے خادم سے کہا:'' جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ جمع کرو ۔'' اس نے کہا:''حضور! چا ر سو درہموں کے علاوہ کچھ بھی نہیں ۔'' میں نے وہ درہم اورجوکچھ رقم میرے پاس تھی سب جمع کر کے اپنے اس میزبان کے ہاں بھجوادی ۔''اس وقت خیمے میں صرف عورت تھی ۔ میزبان کہیں گیا ہو اتھا ۔ ہم نے ساری رقم اس عور ت کو دی اور اپنی منزل کی طرف چل دیئے۔
ابھی ہم کچھ دور چلے تھے کہ تیزی سے کسی سوار کواپنی جانب آتے دیکھا ۔ میں نے رفقاء سے کہا:'' یہ کون ہے ؟'' انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔قریب آنے پر معلوم ہواکہ یہ تو ہمارا میزبان ہے۔وہ ہاتھ میں نیزہ لئے بڑی تیزی سے ہمارے قریب آرہاتھا۔ میں نے اپنے دوستوں سے کہا:'' ہم نے جو رقم دی تھی وہ بہت تھوڑی تھی۔ شاید قلیل رقم کی وجہ سے ہمارا میزبان ناراض ہوگیا اس لئے نیزہ لئے آرہا ہے ۔'' اتنے میں وہ بالکل قریب پہنچ گیا اور ہماری رقم واپس کرتے ہوئے کہا:'' اپنی رقم واپس لے لو، ہم یہ ہر گز نہیں لیں گے۔'' میں نے کہا :'' بخدا! ہمارے پاس اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں جو کچھ تھا سب جمع کر کے تمہیں پیش کر دیا۔'' یہ سن کر اس میزبان نے کہا :'' خداعَزَّوَجَلَّ کی قسم!میں اس وقت تک نہیں جاؤں گا جب تک تم یہ رقم واپس نہ لے لو۔''ہم نے کہا: '' ہم اپنی دی ہوئی رقم واپس نہیں لیں گے ہم نے بخوشی یہ رقم تمہیں دی ہے ۔'' عظیم میزبان نے کہا:'' خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم! تُم یہ رقم واپس لے لو ورنہ اس نیزے سے تمہاری خبر لوں گا یہاں تک کہ تم میں سے کوئی بھی باقی نہ بچے گا۔'' ہم نے اس کا اصرار وغصہ دیکھ کر رقم لینے میں ہی عافیت سمجھی۔ رقم دے کر وہ فوراًواپس چلاگیا۔جاتے وقت اس کی زبان پر یہ الفاظ جاری تھے: ''ہم مہمان نوازی کی قیمت نہیں لیتے۔ ہم مہمان نوازی کی قیمت نہیں لیتے ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُنا حسن بن محمدعلیہ رحمۃاللہ الاحد کہتے ہیں، میں نے حضرتِ سیِّدُنا ابوبَکْر بن عَیَّاش علیہ رحمۃ ا للہ الرزاق کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ایک شخص نے حاتم طائی سے کہا: '' کیا عربوں میں تجھ سے زیادہ بھی کوئی سخاوت کرنے والا ہے ؟'' اس نے کہا:'' ہر عربی مجھ سے زیادہ سخی ہے۔'' پھر اس نے اپنا ایک واقعہ کچھ اس طر ح بیان کیا: ''ایک رات میں ایک عربی غلام کے ہاں مہمان بنا ۔ اس کے پاس عمدہ قسم کی سو بکریاں تھیں ۔ اس نے ایک بکری میرے لئے ذبح کی اور گوشت پکا کر میری ضیافت کی ۔جب اس نے بکری کامغزمیری طرف بڑھایا تو وہ بہت لذیذتھا۔میں نے کہا :'' کتنا لذیذہے!'' پھر وہ چلا گیا اور بکریاں ذبح کرکے ان کامغزپکا پکا کرمجھے کھلاتا رہا یہاں تک کہ میں خوب سیر ہوگیا۔ جب صبح ہوئی تو میں نے دیکھا کہ وہ اپنی سو کی سو بکریاں ذبح کر کے ان کامغزمجھے کھلاچکا تھا۔ اب اس کے پاس ایک بکری بھی نہ بچی تھی ۔ یہ تو ایک عربی غلام کی میزبانی کا حال ہے، اب تم خود ہی سوچو کہ عرب کتنے مہمان نواز ہوں گے۔
سائل نے حاتم طائی سے کہا:''اس کی میزبانی کا تم نے کیا صلہ دیا؟'' اس نے کہا :''اگر میں اپنی تمام چیزیں بھی اسے دے دیتا تو اس کے احسان کا بدلہ نہ چکا سکتاتھا۔'' سائل نے کہا :'' وہ تو ٹھیک ہے لیکن تم نے اسے کیا دیاتھا؟'' حاتم طائی نے کہا: ''میں نے اپنی پسندیدہ اونٹنیوں میں سے سو اونٹنیاں اسے دے دیں۔''"
حضرتِ سیِّدُنامِلْحَان طائی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے منقول ہے،'' حاتم طائی کی زوجہ''نَوَار'' سے کہا گیا:''ہمیں حاتم طائی کے متعلق کچھ بتاؤ۔'' اس نے کہا :'' حاتم طائی کا ہر کام عجیب تھا۔ ایک مرتبہ قحط سالی نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، زمین نے بالکل سبزہ نہ اُگایا۔ آسمان سے پوراسال با رش نہ ہوئی۔ بھوک اور کمزوری نے دودھ پلانے والیوں کو دودھ پلانے سے روک دیا ۔ اونٹ سارا سارا دن پانی کی تلاش میں پھر تے لیکن انہیں ایک قطر ہ پانی نہ ملتا ۔ ہر ذی روح بھوک وپیاس سے بے تاب تھا ۔ ایک رات سردی نے اپنا پورا زور دکھا رکھا تھااور ہمارے گھر میں کھانے کے لئے ایک لقمہ بھی نہ تھا ۔ ہمارے بچے، عبداللہ ، عَدِی ، اورسَفَّانَہ بھوک سے بِلْبِلا رہے تھے۔ وَاللہ(یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم)! ہمارے پاس انہیں دینے کے لئے کچھ بھی نہ تھا ۔ بچو ں کی آہ وبکا سن کر ایک کو حاتم طائی اور دوسرے کو میں نے گود میں اٹھالیا، ہم انہیں کافی دیر تک بہلاتے رہے ۔ لیکن بھوک نے ان کا برا حال کر رکھا تھا۔
" بالآخر رات کافی دیر بعد تھک ہا ر کر دونوں بچے سوگئے ۔ ہم نے انہیں ایک چٹائی پر لٹادیا پھر تیسرے کو بہلانے لگے بالآخر وہ بھی سوگیا۔ ''
حاتم طائی نے کہا:'' آج نہ جانے مجھے نیند کیوں نہیں آرہی ؟''پھر وہ ادھر ادھر ٹہلنے لگا۔ رات کی سیاہی کو آسمان پر چمکنے والے ستارے دور کر رہے تھے، جنگلی جانوروں کے چیخنے کی آواز یں فضا میں بلند ہورہی تھیں ۔ ہر چلنے والا مسافر ٹھہر چکا تھا ، رات کا پُر ہول منظر بڑھتا ہی جارہا تھا ۔ اچانک ہمارے گھر کے باہر کسی کی آہٹ سنائی دی، حاتم طائی نے بلند آواز سے کہا:'' کون ہے؟'' لیکن کسی نے کوئی جواب نہ دیا۔ میں نے کہا :'' ہمارے ساتھ یاتوکسی نے مذاق کیا ہے یاکوئی دھوکہ ہونے والا ہے۔'' میں باہر گئی اور حالات کا جائزہ لے کر واپس آئی تو حاتم طائی نے پوچھا:'' کون ہے ؟ ''میں نے کہا :'' آپ کی فلاں پڑوسن ہے، اس کَڑے وقت میں آپ کے علاوہ کوئی اور اسے نظر نہ آیا جس کے پاس جاکر پناہ لیتی ۔ اپنے بھوکے بچوں کو آپ کے پاس لائی ہے۔ وہ بھوک سے اس طرح بلبلا رہے ہیں جیسے کسی جانور کے بچے چیختے ہیں۔'' یہ سن کر حاتم طائی نے کہا :'' اسے جلدی سے میرے پاس لاؤ۔'' میں نے کہا:'' ہمارے اپنے بچے بھوک سے مرے جارہے ہیں، انہیں دینے کے لئے ہمارے پاس کچھ نہیں تو پھر بیچاری پڑوسن اور اس کے بچو ں کی ہم کیا مدد کریں گے؟'' حاتم طائی نے کہا:'' خاموش رہو، اللہ تعالیٰ ضرور تمہارا اور ان سب کا پیٹ بھرے گا ۔ جاؤ! جلدی سے اس دُکھیاری ماں کو اندر بلا لاؤ ۔'' میں اسے بلا لائی۔ اس غریب نے دو بچے اپنی گود میں اٹھائے ہوئے تھے اور چار بچے اس سے لپٹے اس کے پیچھے اس طر ح آرہے تھے جیسے مرغی کے بچے مرغی کے گرد جمع ہو کر چلتے ہیں۔
حاتم طائی نے انہیں کمرے میں بٹھایا اور گھوڑے کی طرف بڑھا ، بر چھی سے گھوڑا ذبح کرکے آگ جلائی گئی۔ جب شعلے بلند ہونے لگے توچُھری لے کر گھوڑے کی کھال اتا ری پھر اس عورت کی طرف چُھری بڑھاتے ہوئے کہا : ''کھا ؤ! اور اپنے بچوں کو بھی کھلاؤ پھر مجھ سے کہا :'' تم بھی کھا ؤ اور بچو ں کو بھی جگادو تاکہ وہ بھی اپنی بھوک مٹا سکیں۔''ہماری پڑوسن تھوڑا تھوڑا گو شت کھارہی تھی اس کی جھجک کو محسوس کرتے ہوئے حاتم طائی نے کہا :'' کتنی بری بات ہے کہ تم ہماری مہمان ہوکر تھوڑا تھوڑا کھا رہی ہو۔'' یہ کہہ کر وہ ہمارے قریب ہی ٹہلنے لگا ۔ ہم سب کھانے میں مصروف تھے اورحاتم طائی ہماری جانب دیکھ رہا تھا۔ ہم نے خوب سیر ہو کر کھایا لیکن بخدا! حاتم طائی نے ایک بوٹی بھی نہ کھائی حالانکہ وہ ہم سب سے زیادہ بھوکا تھا۔ صبح زمین پرہڈیوں اور کُھرُوں کے سوا کچھ نہ بچا تھا۔"
" حضرتِ سیِّدُنا محمد بن حسّان علیہ رحمۃ اللہ المنّان فرماتے ہیں کہ مجھے میرے چچانے بتایا :جب محمد بن قَحْطَبَہ ''کو فہ'' آیا تو اس نے کہا :'' ہمیں ایک ایسے عالم وفاضل استاذ کی ضرورت ہے جو احادیث ِ مبارکہ اور فرامینِ صحابۂ کرام علیہم الرضوان سے باخبر، حافظِ قرآن،زبردست نحوی و فقیہہ اور شعر وادب و تا ریخ کاماہر ہو، اگران صفات کا حامل کوئی عالم مل جائے تو ہم اسے اپنے بچوں کا استاذ بنائیں گے۔'' لوگو ں نے کہا :'' جناب !ایسا مُتَبَحِّر عالم حضرتِ سیِّدُنا داؤد طائی کے علاوہ کوئی اور نہیں ہوسکتا۔''
حضرتِ سیِّدُنا داؤد طائی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ محمد بن قَحْطَبَہ کے چچا زاد بھائی تھے ۔ چنانچہ، اس نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس قاصد بھیجا اور اپنی خواہش کا اظہارکرتے ہوئے پیغام دیا:''اگر آپ میرے بچو ں کو پڑھانے آجائیں تو میں آپ کواچھاخاصہ وظیفہ دوں گا۔'' حضرتِ سیِّدُنا داؤدطائی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے انکارکردیا ۔ پھر اس نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس دس ہزار درہم بھجوائے اور کہا : ''ان کے ذریعے اپنی حاجات پوری کرتے رہنا، یہ زندگی بھر کام دیں گے ۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے تمام رقم واپس بھجوادی۔ پھر محمد بن قَحْطَبَہ نے اپنے دو غلاموں کو بیس ہزار درہم دے کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں بھیجااورغلاموں سے کہا:'' اگر حضرتِ سیِّدُنا داؤد طائی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ درہم قبول کرلیں تو تم آزاد ہو ۔'' دونوں غلام بیس ہزار درہم لے کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں حاضر ہو ئے اور کہا :'' حضور!اگر آپ یہ رقم قبول فرمالیں تو ہماری گر دنیں آزاد ہوجائیں گی ۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:''مجھے ڈرہے کہ اگر میں نے یہ رقم قبول کرلی تو کہیں میری گردن جہنم کی آگ کی لپٹ میں نہ آ جائے ۔ جاؤ! یہ رقم اپنے سرد ار کو واپس کردو اور کہو: '' اگریہ درہم تم اُن لوگوں کو لوٹا دیتے جن سے تم نے لئے ہیں تو یہ میرے پاس بھیجنے سے بہتر تھا ۔'' یہ کہہ کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے تمام رقم واپس بھجوادی اور ایک درہم بھی قبول نہ کیا۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)"
حضرتِ عبدالرحمن بن عبداللہ اپنے چچاعبدُالمَلِک بن قُرَیْب اَصْمَعِی کے حوالے سے بیان کرتے ہیں:'' خلیفہ ہارون الرشید علیہ رحمۃ اللہ المجیدکے دربار میں کئی روز سے ایک قاضی صاحب کی شکایت کی جارہی تھی( کہ وہ فیصلہ کر نے میں رعایت کرتا اور لوگو ں کا منہ دیکھ کر فیصلہ کرتا ہے)۔ایک دن خلیفہ کے دربارمیں بہت سے لوگ جمع تھے۔ میں بھی وہاں موجودتھا۔خلیفہ نے قاضی صاحب
"کوبلایا اور پُوچھ گَچھ کرنے لگا ۔ اسی دوران خلیفہ ہارو ن الرشیدعلیہ رحمۃ اللہ المجید کو چھینک آئی تو قاضی صاحب کے علاوہ تمام لوگوں نے چھینک کا جواب دیتے ہوئے ''یَرْحَمُکَ اللہ''کہا ۔ خلیفہ نے قاضی سے کہا :'' کیا بات ہے ،تم نے میری چھینک کا جواب نہیں دیا حالانکہ تمہارے سامنے تمام لوگو ں نے جواب دیاہے؟'' قاضی صاحب نے کہا : '' اے امیر المؤمنین! آپ نے ''اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ'' نہیں کہا تو میں نے بھی ''یَرْحَمُکَ اللہ'' نہیں کہا۔ سنئے !اس کے متعلق آپ کو ایک حدیث ِ پاک سناتا ہوں:
''دوشخص حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ بے کس پناہ میں حاضر تھے ۔ دونوں کو چھینک آئی ایک نے''اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ''کہا لیکن دوسرے نے نہ کہا ۔حُسنِ اَخلاق کے پیکر،نبیوں کے تاجْوَر، مَحبوبِ رَبِّ اَکبر عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ایک کی چھینک کا جواب دیکھتے ہوئے ''یَرْحَمُکَ اللہ'' کہاجبکہ دوسرے کو جواب نہ دیا۔اس نے عرض کی: ''یا رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ! آپ نے اس کی چھینک کا جواب دیالیکن میری چھینک پر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ''یَرْحَمُکَ اللہ'' نہ فرمایا، اس کی کیا وجہ ہے؟'' حضور نبئ پاک ،صاحب ِلولاک ،سیّاح اَفلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:'' اس نے ''اَلْحَمْدُ لِلّٰہ '' کہا تومیں نے جواب دے دیا جبکہ تم نے نہ کہا لہٰذ اتمہاری چھینک کا جوا ب نہیں دیا گیا۔''"
(صحیح البخاری،کتاب الادب،باب لا یشمت العاطس إذا لم یحمد اللہ،الحدیث۶۲۲۵،ص۵۲۴)
" جب قاضی صاحب یہ حدیث ِ پاک سنا چکے تو خلیفہ نے کہا :'' جاؤ! تم اپنے عہدے پر قائم رہو۔ جب تم خلیفہ سے مرعوب نہیں ہوئے تو کسی اور سے مرعوب ہوکر غلط فیصلہ کیونکر کر سکتے ہو۔'' یہ کہہ کر خلیفہ نے اس با ہمت قاضی کو بڑے ادب واحترام سے واپس بھیج دیا۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)"
قاضی تَنُوْخِی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا بیان ہے: ایک مرتبہ جمعہ کے دن نمازِ جمعہ سے کچھ دیر قبل میں ''جامع منصور'' میں موجود تھا، میری سیدھی طرف حضر تِ سیِّدُنا علی بن طلحہ بن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی تھے، میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو میرے بہت ہی قریبی دوست عبدُ الصَّمَد بھی کچھ فا صلے پر بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے ان کی طرف جانے کا ارادہ کیا،چونکہ نماز کا وقت بالکل قریب تھا لہٰذا میں ان کے پاس نہ جاسکا لیکن وہ اٹھے اور میری طرف بڑھنے لگے تو میں کھڑا ہوگیا۔ یہ دیکھ کر انہوں نے کہا:'' قاضی صاحب! آپ
"تشریف رکھیں، میں نے آپ کی طرف آنے کا ارادہ نہیں کیا اور نہ ہی میں آپ کے لئے آیا ہوں بلکہ میں توحضرتِ سیِّدُناعلی بن طلحہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خاطر اٹھ کر آیا ہوں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میرے نفس نے مجھے ان کے متعلق حسد میں مبتلا کر نے کی کوشش کی اور انہیں دیکھ کر میرے نفس کو ناگواری محسوس ہوئی تومیں نے ارادہ کیا کہ میں اپنے نفس کو ذلیل ورُسوا کروں اور اس کی بات ہر گز نہ مانوں، بس اسی لئے میں حضرتِ سیِّدُناعلی بن طلحہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس آیا ہوں ۔'' یہ سن کر حضرت سیِّدُناعلی بن طلحہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کھڑے ہوئے اور اُن کے سرکا بوسہ لے لیا۔
قاضی تَنُوْخِی کا بیان ہے کہ مجھے ایک شخص نے بتایا: ''جب حضرتِ سیِّدُنا عبدُ الصَّمَد علیہ رحمۃ اللہ الاحد کا آخری وقت قریب آیا توقاضی ابومحمد اَکْفَانِی کی بیٹی ''اُمِّ حسن'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پا س آئی اور کہنے لگی:'' میں آپ کو قسم دے کرکہتی ہوں کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مجھ سے اپنی کوئی حاجت طلب کریں اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ میں اسے ضرور پورا کروں گی۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: '' ہاں! آج میں تم سے ایک سوال کرتا ہوں کہ جس طر ح میری زندگی میں تم میر ی بیٹی کی دیکھ بھال کر تی تھی اسی طرح میرے مرنے کے بعد بھی اس کا خیال رکھنا، بس مجھے تم سے یہی حاجت ہے۔''اُمِّ حسن نے کہا:'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بے فکر رہیں، اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بیٹی کی بہت اچھی طر ح دیکھ بھال کر وں گی ۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کچھ دیر خاموش رہے پھر بے قرار ہو کر باربار اِسْتِغْفَار پڑھنے لگے اور کہنے لگے: '' اے اُمِّ حسن! اللہ تعالیٰ میر ی خطا سے در گزر فرمائے۔ وہ پروردگار عَزَّوَجَلَّ میری بیٹی کا تجھ سے بہتر کارساز اور حفاظت کرنے والا ہے۔ ''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُنا ابواُمَیَّہ عبداللہ بن قَیْس غِفَارِی علیہ رحمۃ اللہ الباری فرماتے ہیں: '' ایک مرتبہ ہم لشکر ِ اسلام کے ساتھ جہاد کے لئے گئے ۔ جب دشمن سامنے آیا تو لوگوں میں شور بر پا ہوگیا ۔ اس دن ہوا بہت تیز تھی۔ تمام مجاہدین دشمن کے سامنے صف بہ صف سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہوگئے ۔ اچانک میرے سامنے ایک نوجوان آیا جس کا گھوڑا اُچھل کود رہا تھا اور وہ اسے دشمن کی طرف دوڑا رہا تھا اور اپنے آپ سے یوں مخاطب تھا :
''اے نفس ! کیا تو فلاں حاضر ہونے کی جگہ حاضر نہ ہوگا؟ کیاتو مرتبۂ شہادت کا طلب گار نہیں کہ توکہہ رہا ہے : '' تیرے"
"بچوں اور اہل وعیال کا کیا بنے گا؟'' کیا ایسی چیز وں کی طر ف تو جہ دِلا کر تو مجھے واپس لے جانا چاہتا ہے ؟ ایسا ہر گز نہیں ہو گا۔ اے نفس! کیا تومرتبہ شہادت سے منہ موڑتا ہے؟ تیرا کیا خیال ہے کہ میں تیرے بہکاوے میں آکر اہل وعیال کی فکر میں جہاد سے پیٹھ پھیر لوں گا؟ ہر گز نہیں ! تیری یہ خواہش کبھی پوری نہ ہوگی ۔ خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم! آج تو میں ضرور تجھے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں پیش کروں گا اب چاہے وہ تجھے قبول کرکے مرتبۂ شہادت سے نوازدے، چاہے چھوڑدے ۔''
وہ نوجوان یہ کہتا ہوا دشمن کی طرف بڑھنے لگا ۔ میں نے کہا: ''آج میں اس کی نگرانی کرو ں گا اور دیکھو ں گاکہ یہ کیا کرتا ہے؟ اب میری تو جہ اسی نوجوان کی طرف تھی۔ اسلام کے شیروں نے دشمن پر بڑھ چڑھ کر حملہ کیا تو وہ نوجوان صف ِ اوّل میں بڑے دلیرانہ انداز میں حملہ کر رہا تھا، اُدھر سے دشمن بھی شدید حملے کر رہے تھے۔ میدانِ کار زارمیں ہرطرف چیخ وپکار اور تلواروں کے ٹکرانے کا شور برپا تھا۔ میں نے اس نوجوان پر اپنی نظریں جما رکھی تھیں ۔وہ بڑی بے جگری اور ہمت سے لڑرہا تھا، دشمن کی تلواریں اس کے جسم کو زخمی کررہی تھیں، اس کا گھوڑا بھی زخموں سے نڈھال ہوچکا تھا لیکن وہ مردانہ وار بڑھ بڑھ کر دشمن پر حملہ کر رہا تھا۔ بالآخر لڑتے لڑتے زخموں سے چُورچُورہوکرزمین پر گِر پڑا اور اس کی روح قفسِ عنصری سے عالَمِ بالا کی طرف پرواز کر گئی۔جب میں نے دیکھا تو اس کے جسم پر تلواروں اور نیزوں کے ساٹھ(60) سے بھی زائد گہرے زخم تھے۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)"
حضرتِ سیِّدُنا شَہْربن حَوْشَب علیہ رحمۃاللہ الرَّب فرماتے ہیں:'' ایک مرتبہ میں نے جہاد پر جانے کا ارادہ کیا میرا بھتیجا ابھی کم عمر تھا میں نے اسے اکیلا چھوڑنا مناسب نہ سمجھااور اپنے ساتھ لے کر مجاہدین کے لشکر میں شامل ہوگیا۔اسلام کے شیروں کا لشکر دشمنانِ اسلام کی سر کو بی کے لئے دشمن کی سر حد کی جانب آندھی وطوفان کی طرح بڑھتاجارہا تھا۔ دورانِ سفرمیرے بھتیجے کی حالت خراب ہوگئی شدتِ مرض سے وہ جاں بَلَبْ تھا ۔ جب لشکرِ اسلام نے ایک جگہ قیام کیا تو میں اپنے بھتیجے کو لے کرقریب ہی موجود ایک کھنڈر نما عمارت میں گیا اور نماز ادا کرنے لگا۔ اچانک عمارت کی چھت شَق ہوئی اور چار فرشتے عمارت کے اندر داخل ہوئے، دو انتہائی خوبصورت جبکہ دو انتہائی سیاہ تھے۔ خوبصورت فرشتے میرے بھتیجے کی دائیں جانب اور کالے فرشتے بائیں جانب بیٹھ گئے ۔ سفید فرشتوں نے اپنے ہا تھوں سے میرے بھتیجے کے بد ن کو چھوا توسیاہ فرشتوں نے کہا:''ہم اس کے زیادہ حق دار ہیں۔''
" خوبصورت فرشتو ں نے کہا: '' ہر گز نہیں! تم اس کے حق دارنہیں۔'' پھر ان میں سے ایک فرشتے نے اپنی دو انگلیاں میرے بھتیجے کے منہ میں ڈال کر اس کی زبان پلٹی تو اس نے فوراً ''اللہُ اَکْبَر'' کہا۔ تکبیر کی صداسن کر سفید رنگ کے خوبصورت فرشتوں نے کہا: ''اس نے راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں''اللہُ اَکْبَر'' کہا ہے لہٰذا ہم اس کے زیادہ حق دارہیں، تم یہاں سے چلے جاؤ۔' ' جب میں نے اپنے بھتیجے کی طرف نظر کی تو اس کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر چکی تھی ۔میں نے باہر آکربلندآواز سے کہا: ''اے لوگو ! تم میں سے جو یہ چاہے کہ جنتی شخص کا جنازہ پڑھے تووہ میرے بھتیجے کے جنازے میں حاضر ہوجائے۔'' لوگو ں نے جب یہ سنا توکہنے لگے: ''شاید! شَہْربن حَوْشَب پر جنون طاری ہوگیا ہے۔کل بھی نہ جانے کیا کہہ رہے تھے اور آج بھی عجیب وغریب بات کہہ رہے ہیں کہ '' جنتی شخص کے جنازے میں شریک ہوجاؤ۔'' لوگوں میں اس طرح کی چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ امیرِ قافلہ کو خبر ہوئی تو اس نے مجھے اپنے پاس بلایا اور صورتحال دریافت کی۔ میں نے تمام واقعہ کہہ سنا یا حقیقتِ حال جان کر امیرِ قافلہ اورتمام لشکر والوں نے اس کی نمازِ جنازہ پڑھی۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
حضرتِ سیِّدُنادَاؤد بن رَشِید علیہ رحمۃ اللہ المجید فرماتے ہیں: ملکِ شام میں دو حسین وجمیل عبادت گزار نوجوان رہتے تھے۔ کثرتِ عبادت اور تقویٰ و پر ہیز گاری کی وجہ سے انہیں''صَبِیْحاورمَلِیْح'' کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ انہوں نے اپنا ایک واقعہ کچھ یوں بیان کیا :'' ایک مرتبہ ہمیں بھوک نے بہت زیادہ تنگ کیا ۔ میں نے اپنے رفیق سے کہا: ''آؤ! فلاں صحرامیں چل کر کسی شخص کو دینِ متین کے کچھ احکام سکھا کر اپنی آخرت کی بہتری کے لئے کچھ اقدام کریں ۔'' چنانچہ، ہم دونوں صحراء کی جانب چل پڑے، وہاں ہمیں ایک سیاہ فام شخص ملا جس کے سر پر لکڑیوں کا گٹھا تھا۔ ہم نے اس سے کہا: ''بتاؤ! تمہارا رَبّ کون ہے ؟'' یہ سن کر اس نے لکڑیوں کا گٹھّا زمین پرپھینکا اور اس پر بیٹھ کر کہا:'' مجھ سے یہ نہ پوچھو کہ تیرا رب کون ہے ؟ بلکہ یہ پوچھو: ایمان تیرے دل کے کس گوشے میں ہے ؟'' اس دیہاتی کا عارفانہ کلام سن کر ہم دونوں حیرت سے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ وہ پھر مخاطب ہوا: ''تم خاموش کیوں ہوگئے، مجھ سے پوچھو، سوال کرو، بے شک طالب ِ علم سوال کرنے سے باز نہیں رہتا۔'' ہم اس کی باتوں کا کچھ جواب نہ دے سکے اور خاموش رہے۔ جب اس نے ہماری خاموشی دیکھی تو بارگاہِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ میں اس طرح عرض گزار ہوا:
" ''اے میرے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ ! تو خوب جانتا ہے کہ تیرے کچھ ایسے بندے بھی ہیں کہ جب وہ تجھ سے سوال کرتے ہیں تو تو انہیں ضرور عطا فرماتا ہے۔ میرے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ ! میری ان لکڑیوں کوسونا بنادے۔'' ابھی اس نے یہ الفاظ ادا ہی کئے تھے کہ لکڑیاں چمک دار سونا بن گئیں۔ اس نے پھر دعا کی: ''اے میرے پروردگار عَزَّوَجَلَّ! بے شک تو اپنے اُن بندو ں کوزیادہ پسند فرماتا ہے جو شہرت کے طالب نہیں ہوتے۔ میرے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ ! اس سونے کو دوبارہ لکڑیاں بنا دے۔''اس کا کلام ختم ہوتے ہی وہ سارا سونا دوبارہ لکڑیوں میں تبدیل ہوگیا ۔ اس نے لکڑیوں کا گٹھا اپنے سر پر رکھا اور ایک جانب روانہ ہوگیا۔
؎ بِکھرے بال آزردہ صورت، ہوتے ہیں کچھ اہلِ محبت
بدرؔ مگر یہ شان ہے اُن کی، بات نہ ٹالے ربُّ العزَّت
ہم اپنی جگہ ساکت کھڑے رہے اور کسی کو اس کے پیچھے جانے کی جرأت نہ ہوئی ۔اللہ عَزَّوَجَلَّ کے اس نیک بندے کا ظاہری رنگ اگرچہ سیاہ تھا لیکن اس کا باطن نورِ معرفت وایمان سے منور وروشن تھا ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
حضرتِ سیِّدُنا محمد بن عبداللہ سَائِح رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:میں نے حضرتِ سیِّدُنا طلحہ بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی کو یہ فرماتے ہوئے سنا: مُفْلِح اَسْوَدکا بیان ہے کہ ایک مرتبہ خلیفۂ مامون نے قاضی یحیی بن اَکْثَم سے کہا:'' میری خواہش ہے کہ میں حضرتِ سیِّدُنا بِشْر بن حَارِث علیہ رحمۃ اللہ الوارث سے ملاقات کروں ۔'' قاضی نے کہا:'' حضور!جیسا آپ چاہیں ۔ ''کہا:'' آج رات ہی ملاقات کا متمنِّی ہوں اور چاہتا ہوں کہ ہماری ملاقات کے دوران ان کے پاس ہمارے علاوہ کوئی نہ ہو ۔'' قاضی نے کہا: ''ٹھیک ہے ،ہم آج رات ان کے پاس چلیں گے۔ ''جب رات ہوئی تو دونوں اپنے اپنے گھوڑوں پر سوار ہو کر حضرتِ سیِّدُنا بِشْر بن حَارِث علیہ رحمۃ اللہ الوارث کے آستانۂ عالیہ کی جانب روانہ ہوگئے۔ وہاں پہنچ کر قاضی یحیی بن اَکْثَم نے دروازے پر دستک دی ۔ اندر سے حضرتِ سیِّدُنا بِشْر بن حَارِث علیہ رحمۃ اللہ الوارث نے پوچھا : کون ہے ؟قاضی نے کہا:'' آپ کے دروازے پر وہ آیا ہے جس کی اطا عت آپ پر واجب ہے ۔'' فرمایا: ''وہ کیا چاہتا ہے؟'' کہا:'' آپ سے ملاقات کا خواہش مند ہے ۔'' فرمایا :'' اس معاملے میں میری خوشی کا لحاظ رکھا جائے گا یا مجھے مجبور کیا جائے گا؟'' خلیفہ نے جب یہ سنا تو سمجھ گیا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ملاقات نہیں کرنا چاہتے۔ لہٰذا اس نے یحیی کو واپس چلنے کا حکم دیا۔
" چنانچہ، دونوں واپس چل دیئے۔ راستے میں ان کا گزر ایک مسجد کے قریب سے ہواتو وہاں ایک شخص عشاء کی نماز پڑھا رہا تھا یہ دونوں بھی نماز پڑھنے مسجد میں داخل ہوئے اور باجماعت نماز ادا کی امام صاحب کی قراءَ ت بہت اچھی تھی ۔ اس نے بڑے احْسَن انداز میں قرآنِ پاک پڑھا۔ نماز پڑھ کر خلیفہ اور قاضی اپنے محل میں آگئے۔ صبح ہوتے ہی خلیفۂ مامون نے اس امام کو اپنے دربار میں بلا کر مسائلِ فقہ میں اس سے مناظرہ شرو ع کردیا ۔ اس باہمت امام نے جہاں محسوس کیا کہ خلیفہ غلطی کر رہاہے فوراً ٹوک دیا اور اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا :''اصل مسئلہ اس طر ح ہے، آپ نے غلط بیان کیا۔''خلیفہ مسائل بیان کرتا رہا، امام اس کی غلطیاں بتا تا رہا۔ جب معاملہ طول پکڑ گیا تو خلیفہ غضب ناک ہوکر کھڑا ہو گیا اور کہا:
'' آج تم نے میری بہت مخالفت کی ہے، اب تم اپنے دوستوں کے پاس جاکر کہوگے کہ میں نے امیر المؤمنین کو لاجواب کردیا اور مسائل میں اس کی بہت ساری غلطیاں نکالی ہیں۔ کیا خیال ہے تم ایسا ہی کرو گے نا؟'' اس امام نے کہا : ''اے خلیفہ ! اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم !میں اس بات سے حیاکرتا ہو ں کہ میرے دوست یہ بات جانیں کہ میں نے تم سے ملاقات کی ہے۔'' یہ سن کر خلیفۂ مامون الرشید نے کہا:'' اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شکر ہے جس نے میر ی رعایا میں ایسے لوگ پیدا فرمائے جو میرے پاس آنے سے حیا کرتے ہیں۔'' یہ کہہ خلیفہ سجدہ میں گر گیا ۔ امام صاحب دربار سے واپس آگئے۔ وہ امام کوئی عام شخص نہیں بلکہ مشہور ومعروف ولی حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم بن اِسحاق حَرْبِی علیہ رحمۃ اللہ القوی تھے۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
حضرتِ سیِّدُنا ابو علی رُوذَبَارِی علیہ رحمۃ اللہ الباری کی بہن فاطمہ بنتِ احمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا کا بیان ہے: بغداد میں دس نوجوان ایک ساتھ رہتے تھے ۔ ان کی آنکھوں پر غفلت کا پردہ پڑا ہو ا تھا دن رات دنیوی مشاغل میں مصروف رہتے ۔ایک دن انہوں نے اپنے ایک دوست کو کسی کام سے بازار بھیجا۔ اس نے آنے میں کافی دیر کردی سب اس پر بہت ناراض ہو رہے تھے ۔پھر وہ ہاتھوں میں ایک تر بو ز لئے ہنستا ہوا اپنے دوستوں کے پا س آیا ۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر دوستوں نے کہا:'' ایک تو تم آئے بہت دیر سے ہو اور ہنس بھی رہے ہو ؟'' نوجوان نے کہا :'' میں آپ کے پاس ایک بہت ہی عجیب چیز لے کر آیا ہوں۔ یہ دیکھو! اس تربور پر زمانے کے مشہور ولی حضرتِ سیِّدُنا بِشْر بن حَارِث حافی علیہ رحمۃ اللہ الکافی نے اپنا مُبَارَک ہاتھ رکھا تھا، میں نے اسے بیس دینار میں خرید لیا۔''
" یہ سن کرسب باری باری تر بوز کو بڑی عقیدت ومحبت سے چوم کر اپنی آنکھوں پرمَلنے لگے ۔ پھران میں سے کسی نے کہا: ''کیا تم میں سے کسی کو معلوم ہے کہ حضرتِ سیِّدُنا بِشْر حافی علیہ رحمۃ اللہ الکافی کو اس عظیم مقام و مرتبے تک کس چیزنے پہنچایا؟'' سب نے کہا: '' تقویٰ وپر ہیز گاری نے۔'' یہ سن کر اس نوجوان نے بآ واز ِبلند اپنے دوستوں سے کہا:'' تم سب گواہ رہنا کہ میں اپنے تمام گناہوں سے تائب ہوکراللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف رجوع کر رہا ہوں ۔''یہ سن کر بقیہ دوستوں نے بھی بیک زبان کہا:'' ہم سب بھی اپنے گناہوں سے تائب ہو کر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہماری خطا ؤں سے در گزر فرمائے۔'' پھر دس کے دس نوجوان شب وروز عبادتِ الٰہی میں مشغول رہنے لگے۔ ایک قول کے مطابق انہوں نے ''طَرَسُوْس'' کی طرف جہاد میں شرکت کی اور لڑتے لڑتے راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں جان دے دی۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرت ابو الوَفَا ابن عَقِیْل وَاعِظ کا بیان ہے کہ میں اپنی جوانی میں حضرتِ سیِّدُنا اِبنِ بَشْرَان وَاعِظ کی محفل میں اکثر حاضر ہوجایا کرتا تھا۔ ان دنوں میری آنکھ میں بہت زیادہ تکلیف رہتی اور اکثر سر خ رہا کرتی تھی،میں اس بیماری کی وجہ سے بہت زیادہ پریشان تھا۔ ایک دن حسب ِ معمول جب میں محفل میں شریک ہوا تو ''بَکَّار'' نامی ایک شخص جو اِبنِ بَشْرَان وَاعِظ کے منبر پر قالین بچھایا کرتا تھا۔ مجھے بڑے غور سے دیکھتا رہا پھر میرے قریب آیا اور کہا: ''کیا وجہ ہے کہ میں تمہیں اس محفل میں باقاعدگی سے آتا ہوا دیکھتا ہوں؟'' میں نے کہا :''میں اس غرض سے آتا ہوں کہ کوئی ایسی بات سیکھوں جو مجھے میرے دین میں فائدہ دے۔''
اس نے کہا:'' تم محفل کے اختتام پر مجھ سے ملنا۔جب محفل ختم ہوئی تو اس نے میرا ہاتھ پکڑ ااور مجھے ایک دروازے کے پاس لے گیا ،دستک دی تو اندر سے پوچھا گیا : ''کون ہے ؟'' کہا :'' بَکَّار ۔'' پھر آواز آئی: اے بَکَّار ! تم آج ایک مرتبہ یہاں آ تو گئے ہو، اب دوبارہ کیوں آئے ہو؟'' بَکَّار نے کہا :'' میں ایک خاص حاجت سے آیا ہوں ۔''کسی نے"
" میں بزرگ کے قریب گیا تو اس نے اپنے منہ میں اُنگلی ڈال کر باہر نکالی اور میری آنکھوں پر مَل دی ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ ! اُن کے لُعَابِ دَہن (یعنی تھوک )کی برکت سے مجھے ایسی شفا ملی کہ ساٹھ (60)سال کا طویل عرصہ گز ر جانے کے باوجود آج تک میری آنکھ میں دوبارہ تکلیف نہ ہوئی۔ جب میں نے ان کے بارے میں لوگوں سے پوچھا تو بتایاگیا: ''یہ زمانے کے مشہور ولی حضرتِ سیِّدُنا ابوبَکْر دِیْنَوَرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی ہیں۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُنا شَیْبَان بن حسن رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا بیان ہے: میرے والد ِ محترم اورعبدُ الوَاحِد بن زَیْد جہاد کے ارادے سے ایک لشکر کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ہم نے ایک ایسے کنوئیں کے قریب قیام کیا جوبہت چوڑا اور گہر ا تھا۔ لوگو ں نے پانی نکالنے کے لئے کنوئیں میں ڈول ڈالا تو رسی کھل گئی اور ڈول کنوئیں میں ہی رہ گیا ۔ لوگوں نے رسیاں باندھ کر ایک آدمی کو ڈول نکالنے کے لئے کنوئیں میں اُتارا۔ جب وہ کنوئیں میں اُتراتو کسی کی درد بھری آوازیں آنے لگیں۔ ایسا لگتا تھا جیسے کوئی شدید مرض کی حالت میں کراہ رہا ہے۔ آواز سن کر وہ شخص واپس آگیا اور لوگوں سے کہا :'' کیا تم نے بھی وہ آواز سنی ہے جو میں نے سنی ؟''لوگوں نے کہا:''ہاں! ہم نے بھی وہ آواز سنی ہے ۔'' پھروہ لوہے کی ایک سلاخ لے کر واپس کنوئیں کی طرف گیا تا کہ اس کی مدد سے اندر پھنسے ہوئے مصیبت زدہ کو نکال سکے۔ جب پانی کی سطح کے قریب پہنچا توایک شخص تختے پر بیٹھاتھا، اس نے پکار کر کہا :'' توجِنّ ہے یا انسان ؟ ' ' تختے پر بیٹھے ہوئے شخص نے کہا :''میں انسان ہوں۔'' پوچھا:'' کہا ں کا رہنے والا ہے۔'' کہا :'' میں''اَنْطَاکِیَہ'' کا رہائشی تھا۔ قرض ادا نہ کرنے کے جرم میں انتقال کے بعدمجھے اس کنوئیں میں قید کردیاگیا ۔ اَنْطَاکِیَہ میں میری اولاد ہے جو نہ تو مجھے یاد کرتی اور نہ ہی میرا قرض ادا کرتی ہے ۔ بس اب میں اس کنوئیں میں قید ہو کر اپنے جرم کی سزا پارہاہوں ۔''
یہ سن کر وہ شخص باہر نکل آیا اور اپنے دوستوں سے کہا:''ایک بہت اہم مسئلہ درپیش ہے ۔ پہلے اسے حل کرتے ہیں پھر جہاد کے لئے چلیں گے۔ چنانچہ، لشکر کے کچھ افراد اَنْطَاکِیَہ گئے اور کنوئیں میں قید شخص کا نام لے کر اس کے بیٹوں کا پتہ معلوم کر کے ان کے پاس پہنچے اور صورتحال سے آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا:''بخدا!وہ واقعی ہماراوالدہے۔آؤ! ہم اپنی زمین بیچ کر ابھی اپنے والد کا قرض ادا کر دیتے ہیں۔ یہ کہہ کر انہوں نے زمین بیچی اور سارا قرض ادا کردیا۔'' لشکر سے گئے ہوئے افراد جب اَنْطَاکِیَہ"
"سے واپس اسی مقام پر پہنچے جہاں لشکر نے کنوئیں کے قریب قیام کیا تھا تو یہ دیکھ کر ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ وہاں دور دور تک کسی کنوئیں کا نام ونشان نہ تھا ۔ وہ بڑے حیران ہوئے اور سفر پر روانہ ہونے لگے لیکن سورج غروب ہونے کوتھا لہٰذا انہوں نے وہ رات وہیں گزاری رات کو ان کے خواب میں وہی شخص آیا اور بہت شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا:
''اے راہِ خدا کے مسافرو! اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہیں اچھی جزا عطا فرمائے۔ تمہاری کوشش اور خیر خواہی کی وجہ سے جب میرے بیٹوں نے میرا قرض ادا کیا تو میرے پاک پر وردگار عَزَّوَجَلَّ نے مجھے کنوئیں کی قید سے نجات عطا فرماکر جنت کے اعلی درجات میں جگہ عطا فرمادی ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ آپ لوگو ں کو اچھا ٹھکانہ عطا فرما ئے ۔( آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرت سیِّدُناعبدُالْوَاحِد بن بَکْررحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کہتے ہیں: ایک مرتبہ میں حضرت رَقِی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس موجود تھا۔ دورانِ گفتگو انہوں نے بتایا کہ میں نے محمدبن صَلْت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو یہ کہتے ہوئے سنا:'' ایک مرتبہ میں حضرتِ سیِّدُنا بِشْر بن حَارِث حافی علیہ رحمۃ اللہ الکافی کی خدمتِ بابرکت میں حاضر تھا ۔ اتنے میں ایک شخص نے آکر سلام کیا ۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اسے دیکھ کر کھڑے ہوگئے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو دیکھ کر میں بھی کھڑا ہونے لگا توآپ نے منع فرمادیا ۔جب وہ شخص بیٹھ گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مجھے ایک درہم دیتے ہوئے کہا :''جاؤ! روٹی،مکھن اور برنی کھجوریں خرید لاؤ ۔''میں نے مطلوبہ چیزیں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بارگاہ میں حاضر کردیں۔ آپ نے آنے والے کے سامنے رکھیں، اس نے کچھ کھائیں اور باقی چیز یں اپنے پاس رکھ لیں۔ کچھ دیربعد وہ واپس چلا گیا ۔ حضرتِ سیِّدُنا بِشْر بن حَارِث حافی علیہ رحمۃ اللہ الکافی نے مجھ سے فرمایا:'' اے بیٹے !کیا تم جانتے ہو کہ میں نے تمہیں کھڑا ہونے سے کیوں منع کیا ؟'' میں نے کہا : ''نہیں۔'' فرمایا:'' تمہارے اور اس شخص کے درمیان کوئی معرفت نہیں تھی میں نے چاہا کہ تمہارا کھڑا ہونا صرف رضائے الٰہی عَزَّوَجَلَّ کے لئے ہونا چاہے تم چونکہ مجھے دیکھ کر کھڑے ہو رہے تھے اس لئے میں نے تمہیں منع کردیا ۔''
پھر پوچھا:''تمہیں معلوم ہے کہ میں نے تمہیں درہم دیتے ہوئے یہ کیوں کہا کہ فلاں فلاں چیز لے آؤ ۔'' میں نے کہا: ''نہیں ۔'' فرمایا:'' بے شک اچھا کھانا اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شکر ادا کرنے کا سبب ہے۔''پھرکہا:'' اچھا یہ بتاؤ کہ وہ شخص بقیہ کھانا اپنے ساتھ کیوں لے گیا ؟'' میں نے کہا :'' حضور !مجھے نہیں معلوم۔'' فرمایا: ''اِن لوگو ں کے نزدیک جب تَوَ کُّل درست ہو جائے تو پھر"
"کسی چیز کو اپنے پاس جمع کرنا کوئی ضر ر نہیں دیتا۔''پھر فرمانے لگے : جانتے ہو وہ آنے والا کون تھا ؟ وہ حضرتِ سیِّدُنافَتْح مَوْصِلِی علیہ رحمۃ اللہ القوی تھے جو ہم سے ملاقات کے لئے آئے تھے ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حافظ مُطَہَّرسَعْدِی علیہ رحمۃ اللہ الہادی بہت متقی وپرہیز گا ر شخص تھے۔ مسلسل ساٹھ (60)سال تک اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ملاقات کے شوق میں آنسو بہاتے رہے۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:'' ایک رات میں نے اپنے آپ کو خواب میں ایک ایسی نہر کے کنارے پایا جس میں عمدہ مشک بہہ رہا تھا ۔اس کے دونوں کناروں پرانتہائی قیمتی موتی بکھرے ہوئے تھے۔ پھرمیں نے سونے کی اینٹوں سے بنا ہوا محل دیکھا ۔ جس میں خوبصورت لڑکیاں بہترین لباس وزیورات سے آراستہ بلند آواز میں اس طرح اللہ ربُّ العزَّت کی پاکی بیان کررہی تھیں:'' پاک ہے وہ پروردگار جس کی ہر زبان میں پاکی بیان کی جاتی ہے ، وہ پاک ہے۔ پاکی ہے اس کے لئے جس کے جلوے ہر جگہ ہیں ، وہ پاک ہے،اس کے لئے پاکی ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ پاک ہے وہ پروردگار عَزَّوَجَلَّ۔''
میں نے جب ان کی تسبیح سنی تو پوچھا :'' تم کون ہو ؟'' انہوں نے اپنی دِلرُ با مسحورکُن آواز میں کہا:'' ہم رحمن عَزَّوَجَلَّ کی مخلوق میں سے ایک مخلوق ہیں ۔'' میں نے کہا:'' تم یہاں کیا کرتی ہو؟'' انہوں نے بیک زبان کہا:'' حضرت سیِّدُنامحمد صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے رب ، لوگوں کے معبود، خدا عَزَّوَجَلَّ نے ہمیں ان لوگوں کے لئے پیدا فرمایا ہے جو رات کو قیام کرتے ہیں اور اپنے پروردگار عَزَّوَجَلَّ سے مناجات کرتے ہیں جبکہ لوگ سو رہے ہوتے ہیں۔''میں نے کہا:'' آفرین ہے ان لوگوں پر! وہ خوش نصیب لوگ کون ہیں ؟ جن کی آنکھیں اللہ تبارک وتعالیٰ تم سے ٹھنڈی کریگا ۔'' انہوں نے کہا :'' کیا تم ان لوگوں کو نہیں جانتے ؟'' میں نے کہا : ''نہیں، میں انہیں نہیں جانتا ۔'' کہا : کیوں نہیں! بے شک یہ وہ لوگ ہیں جو قرآن کی تلاوت کرتے، تہجد پڑھتے اور دن کو روزہ رکھتے ہیں۔ ایسے ہی خوش نصیب عبادت گزاروں کے لئے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہمیں پیدا فرمایا ہے۔''
جب حافظ مُطَہَّرسَعْدِی علیہ رحمۃ اللہ الہادی نے اپنا یہ خواب لوگوں کو سنایا تو کسی کہنے والے نے کہا:''تعجب ہے ان لوگوں پر جن کی آنکھیں اس مختصر نیند کے جھونکے سے لذت پاتی ہیں کہ جس کے بعد موت تیار کھڑی ہے ۔ بے شک رات کو طویل قیام پر صبر کرنا جہنم کی بھڑ کتی ہوئی آگ میں جانے سے بد ر جہا بہتر و آسان ہے ۔''"
" حضرتِ سیِّدُنا اَبُوالْاَشْہَب ابراہیم بن مُہَلَّب علیہ رحمۃ اللہ الرب فرماتے ہیں: ''ایک مرتبہ دورانِ طواف میں نے ایک عورت کو دیکھا جو خانۂ کعبہ کا غلاف تھامے بڑے دردبھرے انداز میں یہ صدائیں بلند کر رہی تھی: '' اے اُنسیت کے بعد آنے والی وحشت! ہائے، عزت کے بعد ذلت! اے غناء کے بعد آنے والی تنگدستی ومحتاجی!'' اس کی دردبھری آواز سن کر میں نے پوچھا: ''تمہیں کیا غم ہے؟ کیا تمہارا مال واسباب گم ہوگیا ہے یا تمہیں کوئی بڑی مصیبت آپہنچی ہے؟''
وہ میری جانب متوجہ ہوئی اور کہا: ''مال واسباب نہیں بلکہ میرا دل گم ہوگیا ہے۔'' میں نے کہا:'' صرف اس مصیبت کی وجہ سے تم پریشان ہو؟'' اس نے کہا :''دل گم ہوجانے اور محبوب سے جدا ہوجانے سے بڑی اور کیا مصیبت ہوگی؟'' میں نے کہا: ''تیری بلند آوازی وخوش آوازی نے سامعین کو طواف سے روک دیاہے، اپنی آواز پست رکھ ۔' ' اس نے کہا : ''اے شیخ! یہ تیرا گھر ہے یا اس (پروردگار عَزَّوَجَلَّ ) کا؟''میں نے کہا: ''یہ گھر اسی کا ہے۔'' کہا : ''یہ تیرا حرم ہے یا اس کا ؟'' میں نے کہا: ''یہ حرم بھی اسی خدا ئے بزرگ وبَر تَر کاہے ۔'' کہا:'' اے شیخ! ہمیں چھوڑ دے ! ہمیں اپنے محبوب سے جتنی اُلفت ومحبت اور ملاقات کا شوق ہے اسی قدر ہم اس کی بارگاہ میں عرض و ناز کرتے ہیں۔'' پھر کہا : '' اے میرے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ تجھے مجھ سے محبت کا واسطہ! مجھے میرا گمشدہ دل عطا فرما دے۔'' میں نے کہا :'' اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بندی! تجھے کیسے معلوم ہوا کہ وہ تجھ سے محبت کرتا ہے۔'' کہا : مجھ پراس کی عظیم عنایتیں اس بات کا ثبوت ہيں کہ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔ دیکھو! اس نے میرے لئے لشکر تیار کئے ، جنہوں نے مال واسباب خرچ کیا پھر یہاں اس کے گھر تک پہنچے ۔ میرے رحیم وکریم پر وردگار عَزَّوَجَلَّ نے مجھے کفر و شرک کی تنگ وتاریک وادیوں سے نجات عطا فرما کر توحید کے مضبوط ومنور قلعہ میں داخل فرمایا ، میں اس سے جاہل تھی اس نے مجھے اپنی بارگاہ سے مغفرت عطا فرمائی ۔ یہ تمام انعامات دے کر اس نے مجھ پر بے شمار بخششیں فرمائیں، کیا یہ اس کا عظیم کرم نہیں؟''
میں نے کہا:'' تجھے اس پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ سے کتنی محبت ہے ؟'' کہا:'' مجھے تمام اشیاء سے زیادہ اس سے محبت ہے ۔'' میں نے کہا:'' کیا تو محبت سے واقف ہے ؟'' کہا :'' اے شیخ! اگر میں محبت ہی کو نہ پہچانوں گی تو پھر کس چیز کو پہچانوں گی۔'' میں نے کہا:'' محبت کیسی ہوتی ہے ۔'' بولی :'' شراب سے بھی زیادہ رقیق(یعنی پتلی)۔'' میں نے پوچھا:'' محبت کیا ہے؟'' جواب دیا: ''وہ ایسی شئے ہے جسے حلاوت ومٹھاس سے گوندھا گیا، عظمت وجلال کے برتنوں میں اس کا خمیر تیا ر ہوا، اس کی مٹھاس نہ ختم ہونے والی ہے ۔ جب محبت کی زیادتی ہوتی ہے تو وہ ایسا سر کہ بن جاتی ہے جو ہلاک اور جسم کوبے کار کردیتا ہے۔ محبت ایسا شجر ہے کہ جس کا اُگانا نہایت دشوار لیکن اس سے حاصل ہونے والے پھل نہایت لذیذ ہوتے ہیں۔'' پھر وہ عورت ایک جانب روانہ"
"ہوگئی اور اس کی زبان پر چند اشعار جاری تھے، جن کا مفہوم یہ ہے:
'' پریشان حال شخص جو مصیبت اور اس پر صبر کرنا نہ جانے تو اس کے لئے آنکھوں میں ایسے آنسو بھر آتے ہیں جن کے ساتھ رونا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے ، اور جس کا جسم غم وحزن کی وجہ سے نحیف ولا غر ہوگیا اور محبت کی آگ نے اسے جلا ڈالاہو تو وہ اپنے زخموں کا علاج غم اور مصیبتوں کو برداشت کرنے کے ذریعے کرے ۔ خاص طورپر وہ محبت جس کا ارادہ بھی مشکل ہوتا ہے تو جب محبت و کرم کی زیادتی کی امید، فنا ہوجانے پر موقوف ہوتو زندگی دو بھر ودشوار ہوجاتی ہے ۔''
وہ اشعار پڑھتی ہوئی جارہی تھی او رمیں حیرت سے اسے جاتا ہوا دیکھ رہا تھا کہ اس عورت نے کیسا عارفانہ کلام کیاہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ جسے چاہے نواز ے، جس پر چاہے اپنی خاص عنایت فرما دے۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)
( اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں بھی اپنی سچی محبت عطا فرمائے ہم پر ایسا خاص لطف وکرم فرمائے کہ ہم ہر آن ہر گھڑی اس کی یاد میں مگن رہیں، بس ہر وقت ہماری آنکھو ں کے سامنے اسی کے جلوے اور دل میں اسی کی یادموجزن رہے ۔ ہر ہر لمحہ اس کی عبادت واطاعت میں گزرے ۔ اے کاش ! ہمیں ایسی محبت ملے کہ ہمیں اپنا ہوش نہ رہے بس اسی کی محبت میں گم رہیں۔ )
؎ محبت میں اپنی گما یا الٰہی عَزَّوَجَلَّ نہ پاؤں میں اپنا پتا یا الٰہی عَزَّوَجَلَّ
( آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُنا ذُوالنُّوْن مِصْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:'' ایک مرتبہ میں ایک جنگل سے گزر رہا تھا کہ ایک عورت کو دیکھا جس کے چہرے سے عبادت وریاضت کا نور ٹپک رہا تھا ۔ اس نے قریب آکر سلام کیا اور میں نے جواب دیا۔ اس نے مجھ سے کہا: ''تم کہا ں سے آرہے ہو ؟ ''میں نے کہا:''میں ایسے حکیم کے پاس سے آرہا ہوں جس جیسا کوئی اور نہیں۔'' یہ سن کر عورت نے ایک زور دار چیخ ماری اور کہا:'' افسوس ہے ! ایسے حکیم کے ساتھ رہتے ہوئے تمہیں کیا سوجھی کہ تم نے اس سے دوری اختیار کرلی اور سفر پر چلے آئے۔ حالانکہ وہ تو غرباء کاانیس، کمزوروں کا مدد گار اور غلاموں کا مولیٰ ہے ۔ پھر تیرے نفس نے اس سے جدائی کی جرأت کیسے کی ۔''
ا س عورت کے عارفانہ کلام سے میراد ل بھرآیااور میں زور زور سے رونے لگا ۔مجھے روتا دیکھ کر اس نے پوچھا :'' تجھے"
"کس چیز نے رُلایا ؟'' میں نے کہا : '' مرض کو دوا مل گئی اب جلد ہی شفاء مل جانے کی امید ہے ۔'' کہا:'' اے مسافر! اگر تو اپنی بات میں سچا ہے تو پھر رویا کیوں ؟ ''میں نے کہا:'' کیا سچے لوگ روتے نہیں ۔'' کہا: ''نہیں، کیونکہ روناتو دل کی راحت ہے اور اہلِ عقل کے ہاں تویہ نقص (یعنی خامی) شمار ہوتاہے ۔''میں نے کہا:'' اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نیک بندی!مجھے کوئی ایسی چیز سکھا جس سے اللہ ربُّ العزَّت مجھے نفع عطا فرمائے۔''کہا:'' ہائے افسوس! جس حکیم کے پاس تو رہتا ہے اس کی قربت مل جانا ہی بہت بڑا فائدہ ہے۔ کیا اس عظیم دولت کے مل جانے کے باوجود تو مزید کسی اور شئے کا طالب بنتاہے ؟ ''میں نے کہا : ''اللہ تبارک وتعالیٰ جو چاہتا ہے کرتاہے ۔ اگر تو مناسب سمجھے تو مجھے کوئی نفع بخش چیز سکھادے۔'' اس نے کہا:'' اپنے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ کی ملاقات کا شوق رکھتے ہوئے اس کی خوب عبادت کر ، بے شک وہ اپنے اولیاء کے لئے تجلِّی فرمائے گا۔ یہ اس لئے ہے کہ اس نے اپنے اولیاء کو دُنیا میں اُلفت کا ایسا جام پلایا ہے کہ اس کے بعد انہیں کبھی پیاس نہیں لگتی۔'' یہ کہہ کہ وہ زار وقطار روتے ہوئے اس طرح التجائیں کرنے لگی:
'' اے میرے مالک !اے میرے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ ! تو کب تک مجھے اس ناپائیدار دُنیا میں رکھے گا جہاں میں کسی کو بھی ایسا نہیں پاتی جو میری مصیبت میں میرا مدد گار ثابت ہو ۔'' پھر وہ اس حال میں رخصت ہوئی کہ اس کی آنکھیں آنسو بہا رہی تھیں اور زبان پرایک شعر جاری تھا جس کا مفہوم یہ ہے :'' بندہ جب اپنے مالکِ حقیقی عَزَّوَجَلَّ کی محبت میں گم ہوجائے تو پھر اسے کسی ایسے طبیب کی امید نہیں رہتی جس سے وہ علاج کروائے ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُنا علی بن عبداللہ بن سَہْل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: میں نے محمد بن اَخْرَم کو یہ فرماتے سنا:'' ایک مرتبہ میں ساحلِ سمندر پر چلا جارہا تھاکہ راستے میں میری ملاقات ایک عورت سے ہوئی جو قریبی علاقے سے آرہی تھی ۔ میں نے پوچھا : ''اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بندی ! کہاں جارہی ہو۔'' کہا:'' سامنے کھنڈرات میں موجود ایک عمارت میں میرا بیٹا رہتا ہے میں اسی کے پاس جارہی ہوں ۔'' یہ کہہ کر وہ کھنڈرات کی جانب روانہ ہوگئی، میں بھی اس کے پیچھے پیچھے چل دیا ۔کھنڈرات میں موجود ایک بوسیدہ عمارت کے پاس پہنچ کر میں نے کسی کو یہ کہتے سنا:
'' مشتا ق(یعنی شوقِ دیداررکھنے والے) کے لئے سکون وقرار نہیں ہوتا وہ گھومتا رہتا ہے اور خوشیاں اس کی مِلک نہیں"
"ہوتیں۔ اس کے دل کی مونس وغم خوار طویل رات ہوتی ہے جواسے لذت و سکون فراہم کرتی ہیں اوردن کی روشنی اسے وحشت میں مبتلا کر دیتی ہے اسی طویل رات سے وہ اپنا مقصدومدّعا پورا کرتاہے اور معرفت حاصل کرتا رہتا ہے۔ عبادت وریاضت اور صحراؤں میں گھومنے پھرنے کو وہ اپنا شیوابنالیتا ہے اور یہ اس کا ہر وقت کا مشغلہ بن جاتا ہے ۔''
یہ اس عورت کا بیٹا تھاجو اس طر ح کلام کررہا تھا ۔ میں نے عور ت سے پوچھا:'' تمہارا بیٹا یہاں کتنے عرصے سے رہ رہا ہے ۔'' اس نے کہا:'' جب سے میں نے اسے اپنے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ کے لئے وقف کیا اور اس نے اسے اپنی عبادت کے لئے قبول فرما یا ہے اس وقت سے یہ اس ویرانے میں مصروفِ عبادت ہے ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُنامحمد بن حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی کہتے ہیں: میں نے حضرتِ سیِّدُنا ذُوالنُّوْن مِصْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کو یہ فرماتے سنا :'' ایک مرتبہ میں بنی اسرائیل کے ''تِیہ'' نامی جنگل میں گھوم رہا تھا کہ میری ملاقات ایک سیاہ فام لونڈی سے ہوئی ۔ وہ یادِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں ایسی مگن تھی کہ آس پاس کی خبر ہی نہ تھی۔ وہ مسلسل آسمان کی جانب دیکھے جارہی تھی۔ میں نے قریب جاکر کہا: ''اے میری بہن !اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ ۔'' اس نے کہا:''وَعَلَیْکُمُ السَّلَام، اے ذُوالنُّوْن مِصْرِی!'' جب میں نے اس کی زبان سے اپنا نام سنا تو حیران ہو کر پو چھا: ''اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بندی! تو نے میرا نام کیسے جانا؟ حالانکہ آج سے قبل ہماری کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ '' اس نے کہا:'' بے شک اللہ عَزَّوَجَلَّ نے جسموں کی تخلیق سے دوہزار سال قبل روحوں کو پیدا فرمایا،پھر وہ روحیں عرشِ معلی کے گرد گھومتی رہیں۔ ان میں سے جن روحوں نے ایک دوسرے کو وہاں پہچانا وہ دنیا میں بھی ایک دوسرے سے اُنس رکھتی ہیں اور جنہوں نے وہاں نہ پہنچا نا ان میں آپس میں اختلاف ہے ۔ میری روح نے تیری روح کو عرشِ معلی کے گرد پہچان لیا تھا اسی لئے آج بھی وہ تجھ سے واقف ہے۔''
حضرتِ سیِّدُنا ذُوالنُّوْن مِصْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں: '' میں اس سیاہ فام لونڈی کی یہ حکیمانہ گفتگوسن کر حیران ہو گیا۔'' میں نے اس سے کہا:'' اے نیک بی بی! میں تجھے دانا وعقلمندسمجھتا ہوں۔اللہ ربُّ العزَّت نے جو چیز تجھے سکھائی ہے اس میں سے مجھے بھی کچھ سکھادے ۔'' اس نے کہا:'' اے ابو فیض ! اپنے اعضاء پر میزان کا خوف طاری کرلے یہاں تک کہ تیرے جسم کی ہر وہ چیز پگھل جائے جو غیر اللہ کے لئے ہو ۔ بس تیر ا دل باقی رہے اور اس کی بھی یہ حالت ہو کہ اس میں اللہ ربُّ العزَّت کے علاوہ کسی کا"
"خیال نہ ہو ۔ اگر تو ایسا کریگا تو وہ تجھے ایک عظیم ُ الشان دروازے تک لے جائے گااور تجھے ولایت کے اعلیٰ مقام پر فائز فرمائے گا اور تیرے پڑوسیوں کو تیری اطاعت کا حکم دے گا ۔'' میں نے کہا:'' اے میری بہن!مجھے مزید کچھ نصیحتیں کر ۔'' کہا:'' اے ابو فیض!اپنے نفس کو اپنے لئے نصیحت کرنے والا بنا لے ۔جب تو خلوت میں ہو تو اپنے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت کر، وہ تیری ہر پکار پر تجھے جو اب دے گا ۔'' یہ کہہ کر وہ ایک طرف روانہ ہوگئی ۔ میں کافی دیرتک وہیں کھڑا اس کی حکمت بھری باتوں میں غور وفکر کرتا رہا ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُنا ابو علی رُوذَبَارِی علیہ رحمۃ اللہ الہادی فرماتے ہیں: میں حضرتِ سیِّدُنامَرْعَشِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کے پاس اَنْطَاکِیَہ گیا ،ان کا ایک شاگرد گو ر کن( یعنی قبر کھودنے والا) تھا ۔ اب اس نے اس پیشے کو بالکل تر ک کردیا تھا ۔ جب میں نے وجہ پوچھی تو اس نے اپنا ایک واقعہ کچھ یوں بیان کیا: ''میں اُجرت پر لوگوں کی قبریں کھودا کرتا تھا ۔ ایک مرتبہ قبر کھودتے ہوئے میں ایک کافی پرانی قبر میں جاگِرا اور میرا پھاؤڑا قبر پر رکھی ہوئی اینٹ پر لگا تو قبر کا اندرونی منظر ظاہر ہو گیا ۔ میں نے ایک نوجوان کو قبر میں لیٹے ہوئے دیکھا اس کا جسم بالکل تر وتازہ تھا، بہترین خوشبودار ہوا نے اس کی نورانی داڑھی کے سیاہ بالوں کو ایک سمت کر رکھا تھا۔ اس کا کفن بالکل صحیح وسالم تھا گو یا آج ہی پہنایا گیا ہو۔ اچانک اس نے آنکھیں کھول دیں اور میری طرف متوجہ ہو کر کہا: ''اے میرے بھائی! کیا قیامت قائم ہوگئی ؟'' میں نے ڈرتے ہوئے کہا: '' نہیں، ابھی قیامت قائم نہیں ہوئی۔''
یہ سن کر اس نے بڑی ہی پیاری آواز میں کہا: ''میرے بھائی! میری قبر کو بند کردو۔'' میں نے فورا ًاس کے چہرے پر کفن ڈالا اور قبر بند کر کے واپس چلاآیا اور پھر قسم کھالی کہ آئندہ کبھی بھی کسی کی قبر نہیں کھودوں گا ۔''
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اللہ ربُّ العِزَّت نے انسان کو دنیا میں ایک مقررہ مدت کے لئے بھیجا ہے جب اس کی موت کا وقت آجاتا ہے تو وہ اپنے اعمال کے ذخیرہ کے ساتھ قبر میں منتقل ہوجاتا ہے ۔ پھر اس کے مطابق اس کا حشر ہوتا ہے۔ اگر نیک ہو تو اس کے لئے قبر میں جنت کی کھڑکیاں کھول دی جاتی ہیں اور وہ پُر سکون نیند سوجاتا ہے۔ موت سے لے کر قیامت تک کی ہزار ہا سال کی مدت اس کے لئے بہت قلیل کردی جاتی ہے۔جبکہ گناہ گاروں کی قبر میں طرح طرح کے عذابات تیار ہوتے ہیں او راس پر یہ مدت بہت طویل کردی جاتی ہے ۔ اللہ ربُّ العزَّت اعمالِ صالحہ کو ہماری اندھیر ی قبر کا چراغ بنائے اور ہمیں عذاب قبر سے محفوظ فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُنا عبد الرحمن بن زِ یَادبن اَنْعُم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم فرماتے ہیں:''اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے انبیاء کرام علیہم السلام میں سے ایک نبی حضر ت سیِّدُنا اَرْمِیَا علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃوالسلام کی طرف وحی فرمائی: '' اے اَرْمِیَا ! اپنی قوم کو میرے عذاب سے ڈراؤ ! بے شک ان کے پاس ایسے دل ہیں جو سمجھتے نہیں، ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ حق کو نہیں دیکھتے، نہ ہی اپنے کانوں سے حق بات سنتے ہیں ۔ ان سے پوچھو کہ انہوں نے میری اطاعت کا کیا صلہ پایا اور میری نافرمانی کا انہیں کیسا عذاب ملا ؟ ان سے پوچھو کیا کسی نے میری نافرمانی کر کے خوش بختی حاصل کی ہے ؟ کیا کبھی کوئی میری اطاعت و فرمانبرداری کے باوجو د بدبخت ہوا ہے؟ بے شک جانوروں میں بھی اتنی سمجھ ہوتی ہے کہ وہ اپنے باڑوں کو پہچان لیتے اور شام کو واپس اپنے مقامات پر آ جاتے ہیں۔ بے شک اس قوم نے میرے ان احکامات کو پسِ پشت ڈال دیا جن پر عمل پیرا ہو کر ان کے آباؤاجداد نے کرامت وبزرگی حاصل کی ۔ لیکن یہ لوگ بغیر کسی اچھائی اور نیک اعمال کے بزرگی وعظمت کے خواہاں ہیں حالانکہ ان کے سردار وبادشاہ میری نعمتوں کاانکار کرتے ہیں۔ ان کے علماء نے باوجودِ علم میرے حکمت بھرے احکام سے فائدہ نہ اٹھایا ، انہوں نے اپنے دلوں میں بیکار باتوں کو جمع کیا اور اپنی زبانوں کو جھوٹ کا عادی بنالیا ہے۔
مجھے اپنی عزَّت وجلال کی قسم!میں ان پر ایسے شدیدلشکرمسلَّط کرو ں گا جو انہیں نہ پہچانیں گے۔ ان کی کچھ رعایت نہ کریں گے ۔نہ یہ اُن کی زبان سمجھیں گے نہ وہ اِن کی ۔ وہ اِن کی آہ و بُکا سن کر ان پر رحم نہیں کھائیں گے ۔ میں ان پرایسا سخت غضب ناک وسنگ دل بادشاہ مسلط کروں گاکہ جس کے پاس بادلوں کی طرح لشکر ہوں گے ۔ ان کا حملہ عقاب کے حملوں کی طرح تیز ہوگا ۔ ان کے گھوڑوں کی پیٹھیں بڑے بڑے پر ندوں کے پروں کی طرح ہوں گی۔ وہ ان کی آبادی کو تباہ وبر باد کر ڈالیں گے ۔ ان کی بستیوں کو ویران کردیں گے۔ بربادی ہے ''ایلیاء'' اور اس کے مکینوں کے لئے! میں نے ان پر ''سبایہ'' کو کس طرح مسلط کیا ۔ انہیں کس طرح قتل وغارت کے ذریعے ذلیل کیا۔ ان کے خوشی وحسرت کے شور وغل کو پر ندو ں اور جانوروں کی آوازوں سے بدل دیا یعنی ان کے مرنے کے بعد اب وہاں ایسی ویرانی ہے کہ اُلُّو بول رہے ہیں ۔ ان کی عورتوں کو عزَّت کے بعد کیسی ذِلَّت کا سامنا کرنا پڑا ۔شِکم سیری کے بعد جان لیو ابھوک ان پر مسلَّط ہوگئی ۔میں ضرور ان کے گوشت کو زمین کے لئے کھا د بنا دوں گا پھر ان کی ہڈیاں سورج کی روشنی میں بغیر گوشت کے چمکتی ہوں گی۔ ''
حضرتِ سیِّدُنا اَرْمِیَا علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃوالسلام نے بارگاہِ خداوند ی عَزَّوَجَلَّ میں عرض کی:'' اے خالق کائنات ! اے میرے پاک پروردگار عَزَّوَجَل َّّ! کیا تو اس قوم کو ہلاک اور اس شہر کو تباہ وبر باد کر دے گا ؟ حالانکہ اس کے مکین توتیرے خلیل حضرتِ"
"ابراہیم علیہ الصلٰوۃو السلام کی اولاد، تیرے نبی حضرتِ موسیٰ وداؤدعلیہما الصلٰوۃوالسلام کی امت اور قوم میں سے ہیں۔میرے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ ! جب تو ایسی امت کو بھی ہلاک کر دے گا تو پھر تیری خفیہ تدبیر سے کون محفوظ رہے گا ۔پھر کون ہوگا جو تیری نافرمانی کی جرأت کریگا؟''
اللہ ربُّ العزَّت نے وحی نازل فرمائی: ''اے اَرْمِیَا ! میں نے ابراہیم ،موسیٰ اور داؤد کو اپنی اطاعت وفرمانبر داری کی وجہ سے عظمت و بزرگی سے نواز ا۔ انہوں نے یہ بلند مرتبہ میری اطاعت کے ذریعے ہی حاصل کیا ۔بے شک پہلے لوگوں میں بھی ایسے لوگ تھے جو میری نافرمانی پر جری ہوئے۔ اب تیرے زمانے میں بھی نافرمان لوگ موجود ہیں ۔ انہوں نے پہاڑوں کی چوٹیوں، درختوں کے سایوں اور وادیوں کے دامن میں میری نافرمانی کی تو میں نے آسمان کو حکم دیا تو وہ ان پر لوہے کی طرح ہو گیا اور زمین کو حکم دیا تو وہ تابنے کی مانند ہو گئی ۔ پھر نہ ان پر آسمان نے پانی بر سایا، نہ زمین نے کھیتی اگائی ۔ اگر بارش ہوتی تھی تو فقط اس وجہ سے کہ میں نے جانوروں پر رحم و کرم کیا ۔ اور جب کبھی زمین نے فصل اگائی تو میں نے فصلوں پر گرد وغبار،تیز ہوائیں اور ٹڈیاں مسلط کر دیں جن سے ان کی فصلیں تباہ وبرباد ہوگئیں اور جو تھوڑی بہت فصل انہوں نے کاٹ کر گھروں میں رکھی تو میں نے اس سے برکت اٹھالی ، انہوں نے میری راہ کو چھوڑدیا تو میں بھی نہ تو ان کی پکار سنوں گااورنہ ہی ان کی مدد کروں گا۔ ''(الامان والحفیظ )
(اللہ ربُّ العزَّت ہم سب کو اپنے قہر و غضب سے محفوظ رکھے۔ اپنی دائمی رضا عطا فرمائے اوراپنے رحم وکرم کے سائے میں ہمیشہ امن وامان سے رکھے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُنااسماعیل بن نَصِیْبِی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں: میں نے سخت گرمیوں کی آگ برساتی دوپہر میں حضرتِ سیِّدُنا سلیمان تَمِیْمِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کو دیکھاکہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی پیشانی سے پسینہ صاف کرتے ہوئے فرمارہے تھے: ''جب محبت سچی و مستحکم ہو تو گرمی کو دور کردیتی ہے۔ بے شک اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے مُحِبِّیْن کے دلوں کو گرمی و سردی برداشت کرنے کی قوت عطا فرماکر ان کی شدت سے محفوظ رکھتا ہے۔ ان کے دلوں میں محبت کی جوٹھنڈک اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ڈالی ہے وہ اس سے سرور پاتے ہیں۔ہر وقت اس کی محبت میں گُم رہنااورگڑگڑا کر رونا ان کا معمول ہوتا ہے۔''
یہ کہہ کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک آہِ سرد دلِ پُر درد سے کھینچی اور فرمایا :'' اللہ عَزَّوَجَلَّ کی محبت میں گُم رہنے والے"
"خوش بخت لوگ ہمیشہ محبتِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ کی لذَّت سے مسرور رہتے اور اسی حالت میں اس دارِ فانی سے دار عقبیٰ کی طرف کُوچ کر جاتے ہیں۔ ہائے! کتنا عمدہ ہے وہ مرض جس کی دوا معلوم نہ ہو۔'' پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک زور دار چیخ مارکر فرمایا : ''اُن پاکیزہ صفات لوگوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ سے اخلا ص والا معاملہ رکھا تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے بھی ان پر محبت و کرم کی خوب برسات فرمائی۔ آہ! اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے محبّین پر جود وکرم کی جو بارش برساتا ہے لو گ اگر اس کی انتہائی قلیل مقدار کو بھی جان لیتے تو حسرت سے مر جاتے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے محبین کو جو سعادتیں عطا فرماتا ہے کوئی اس کا اندازہ نہیں کرسکتا۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُنا ابواِسحاق فَزَاری علیہ رحمۃ اللہ الباری فرماتے ہیں: ''ایک شخص اکثر ہماری محفل میں آیا کرتاتھامگراس کا آدھا چہرہ ہمیشہ چُھپارہتا۔ایک مرتبہ میں نے اس سے پوچھا:'' تم اپنا آدھا چہرہ چھپائے رکھتے ہو، اس کی کیا وجہ ہے ؟ مجھے اس راز سے آگاہ کرو۔''
اس نے کہا:'' اگر آپ امان عطا فرمائیں تومیں اپنا معاملہ بتاتا ہوں۔ '' میں نے کہا: ''بتاؤ! اصل معاملہ کیاہے؟'' اجازت ملنے پراس نے اپنی داستانِ عبرت نشان کچھ اس طرح سنائی :'' میں کفن چور تھا، میں نے کئی قبروں سے کفن چُرائے۔ جب بھی کسی نئی قبر کے متعلق معلوم ہوتافوراً وہاں پہنچ کرکفن چُرا لاتا۔ ایک مرتبہ ایک عورت کا انتقال ہوا جب اسے دفنا دیا گیا تو میں رات کو قبرستان پہنچا اورقبر کھودنا شروع کی۔ جب اینٹیں ہٹا کر کفن کی ایک چادر نکالی اور دوسری چادر کھینچنے لگاتو اچانک اس عورت کے بے جان جسم نے حرکت کی اور چادر کو تھام لیا۔ میں نے کہا :''تمہارا کیا خیال ہے کہ تم مجھ پر غالب آجاؤ گی؟ ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا۔'' یہ کہہ کر میں گھٹنوں کے بل بیٹھ گیااور پوری قوت سے کفن کھینچنے لگا۔ یکایک عورت نے ایک زور دار تھپڑ میرے چہرے پر مارا۔ درد کی شدت سے میں بے قرار ہوگیااور میرے چہرے پر بہت زیادہ جلن ہونے لگی۔'' یہ کہہ کر اس کفن چور نے اپنے چہرے سے کپڑا ہٹایاتو اس کے گال پر انگلیوں کے نشان بالکل واضح تھے۔ میں نے کہا: ''اچھا،پھر کیا ہوا ؟'' کہا: '' پھر میں نے چادر واپس اس عورت پر ڈال دی اور جلدی جلدی قبر پر مٹی ڈال کر برابرکردیا اور پختہ ارادہ کیا کہ جب تک زندہ رہوں گا کبھی بھی کفن نہیں چراؤں گا۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ میرے سابقہ گناہوں کو معاف فرمائے اور مجھے توبہ پر استقامت عطا فرمائے۔''
حضرتِ سیِّدُنا ابواِسحاق فَزَارِی علیہ رحمۃ اللہ الباری فرماتے ہیں: ''اس کفن چور کا سارا واقعہ لکھ کر میں نے حضرتِ سیِّدُنا امام اَوْزَاعِی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی طرف روانہ کیا۔ انہوں نے یہ جواب لکھ کر بھیجا :''تیرا بھلا ہو اس سے پوچھ! جو مسلمان قبلہ رُودفنائے"
گئے کیا سب کے چہرے قبلہ سمت ہی تھے یا قبلہ سے پِھر چکے تھے۔'' میں نے کفن چور سے جب یہ سوال کیا تو اس نے کہا: '' میں نے جن لوگوں کے کفن چرائے ان میں سے اکثر کے چہرے قبلہ سے پھر چکے تھے۔''حضرتِ سیِّدُناابو اِسحاق علیہ رحمۃ اللہ الرزاق فرماتے ہیں: ''میں نے یہ بات لکھ کر امام اَوْزَاعِی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں بھیجی تو انہوں نے جواباَ یہ تحریر بھجوائی:
''اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ،اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ،اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ''
"اے اِسحاق علیہ رحمۃ اللہ الرزاق! جن لوگوں کے چہرے قبلہ سے پھر چکے تھے ان کا خاتمہ سنت پر نہیں ہوا۔''اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں اپنی حفظ و امان میں رکھے، ہمارا خاتمہ حضورصلَّی اللہ تعاکی علیہ وآلہ وسلَّم کی سنت پر فرمائے۔( آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اس داستانِ عبرت نشان میں ہمارے لئے عبرت کے بے شمار مدنی پھول ہیں۔ کتنا تشویش ناک معاملہ ہے کہ جو لوگ سنتوں سے منہ موڑلیتے ہیں، احکامِ شریعت پر عمل پیرا نہیں ہوتے اور دُنیا کو دین پر ترجیح دیتے ہیں ان کے ساتھ قبر میں انتہائی وحشت ناک معاملہ ہوتا ہے۔قبر وآخرت میں لمحہ بھر کا عذاب بھی برداشت سے باہر ہے۔ ہمارے نازک جسم جہنم کی بھڑکتی ہوئی دِلوں تک پہنچنے والی سخت آگ کا سامنا نہیں کرسکتے۔ اگر اسی طرح غفلت و معصیت بھری زندگی گزارتے رہے اور اسی حالتِ بد میں پیغامِ اَجل آ پہنچا تو بہت ذلت ورسوائی اور دردناک عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جھٹ پٹ اپنے گناہوں سے سچی توبہ کر لیجئے اور رو رو کر خالقِ کائنات عَزَّوَجَلَّ سے معافی مانگ لیجئے۔ مؤمنوں پر رحم وکرم فرمانے والے نبئ کریم ، رء وف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی سنَّتوں کو اپنا کران کے دامنِ کرم سے وابستہ ہوجائیے ۔ درود و سلام کی کثرت کیجئے اور عبادت و ریاضت کی طرف راغب ہو جایئے۔)
؎ عاصیو ! تھام لو دامن اُن کا وہ نہیں ہاتھ جھٹکنے والے"
حضرتِ سیِّدُنا ذُوالنُّوْن مِصْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں: '' ایک مرتبہ دورانِ طواف اچانک ایک نور ظاہر ہوا جو آسمان تک بلند تھا۔ میں اس منظر کو دیکھ کر بہت متعجب ہوا۔ طواف مکمل کرکے اس نور کے متعلق غوروفکر کرنے لگا یکایک ایک دردناک وغمگین آواز سنائی دی، میں نے اس سمت رُخ کیا تو ایک کنیز خانۂ کعبہ کا غلاف تھامے چند اَشعارپڑھ رہی تھی جن کامفہوم یہ ہے: ''اے میرے پاک پروردْگار عَزَّوَجَلَّ !تو جانتا ہے کہ تو ہی میرا محبوب ہے۔ ایک سال اور گزر گیا، میرا جسم اور آنسو میرے راز پر نوحہ کرتے ہیں۔ اے میرے محبوب! میں نے اب تک محبت کو چھپائے رکھا۔ اب میں عاجز آگئی ہوں۔''
" آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرما تے ہیں: ''اس کی درد بھری فریاد نے میرا دل غمگین کردیا میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگے ۔ وہ پھر بارگاہِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ میں ملتجی ہوئی: ''اے میرے پروردگار عَزَّوَجَلَّ ! تجھے اس محبت کا واسطہ جو تو مجھ سے کرتا ہے مجھے بخش دے۔ میری مغفرت فرمادے۔''
وہ مسلسل اسی جملے کا تکرار کررہی تھی۔ مجھے یہ بات بہت بڑی معلوم ہوئی میں نے اس سے کہا:''تو جو اتنی بڑی بات کہہ رہی ہے کہ'' اس محبت کا واسطہ جو اللہ عَزَّوَجَلَّ مجھ سے کرتا ہے'' کیا تجھے یہ کافی نہیں تھا کہ تو اس طرح کہتی، ''اے اللہ عَزَّوَجَلَّ! مجھے تجھ سے جو محبت ہے اس کا واسطہ۔ '' کہا :'' اے ذُوالنُّوْن رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ! مجھ سے دُور ہوجا، کیا تو نہیں جانتا کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ان کے محبت کرنے سے پہلے ہی ان سے محبت کرتا ہے؟ کیا تو نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کا یہ فرمان نہیں سُنا؟'"
'فَسَوْفَ یَاۡتِی اللہُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّہُمْ وَیُحِبُّوۡنَہٗۤ
"ترجمۂ کنزالایمان :توعنقریب اللہ ایسے لوگ لائے گاکہ وہ اللہ کے پیارے اوراللہ ان کاپیارا۔(پ۶،المآئدۃ:۵۴)'' دیکھو !اس آیتِ مبارکہ میں پہلے ،اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ان سے محبت کا ذکرہوابعد میں ان کی اللہ عَزَّوَجَلَّ سے محبت کا ذکر ہوا۔'' حضرتِ سیِّدُنا ذُوالنُّوْن مِصْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:'' کنیزکاعلمی مقام دیکھ کر میں نے پوچھا:'' تجھے کیسے معلوم ہوا کہ میں ذُوالنُّوْن مِصْرِی ہوں؟''
کہا: '' اے ذُوالنُّوْن ! دِل، رموزو اَسرار کے میدان میں گھومتے رہتے ہیں۔ میں نے خدائے رحمن عَزَّوَجَلَّ کی معرفت کی بدولت تجھے پہچانا ۔ اب ذرا پیچھے کی جانب دیکھو۔'' میں نے پیچھے دیکھا تو کچھ بھی نہ تھا۔ جب دوبارہ اس کی طرف نظر کی تو وہ وہاں موجود نہ تھی۔ نہ جانے اسے زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔ میں نے اُسے خوب تلاش کیا مگر وہ کہیں نظر نہ آئی۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُنا احمد بن ابوحَوَارِی علیہ رحمۃ اللہ الباری فرماتے ہیں: ایک مرتبہ مَیں مُوسِمِ سرمامیں حضرتِ سیِّدُناابو سلیمان دَارَانِی قُدِّ سَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی کے ہمراہ سفرِ حج پر تھا ۔ سردی سے جسم اَکڑا جارہا تھا بہت موٹا لباس پہننے کے باوجود سردی کی شدت سے جسم کپکپا رہا تھا۔ جب کھانے کے لئے ایک جگہ قیام کیا تو معلوم ہوا کہ سامان کا تھیلا راستے میں کہیں گر گیا ہے۔ میں نے حضرتِ سیِّدُنا ابوسلیمان دَارَانِی قُدِّ سَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی کو بتایا تو انہوں نے بارگاہِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ میں اس طرح التجا کی:
''اَللّٰھُمَّ سَلِّمْ وَصَلِ عَلٰی مُحَمدٍ''اے گمشدہ چیز وں کو لوٹانے والے!اے گمراہیوں سے بچا کر ہدایت دینے والے!"
"ہمارا گمشدہ سامان ہمیں لوٹا دے۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ابھی اپنی مناجات ختم بھی نہ کر پائے تھے کہ یکایک کسی منادی کی ندا سنائی دی: '' کیا کسی کا تھیلا گم ہوا ہے ؟''میں نے سناتواپنا تھیلا لے لیا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:''ہمارا رحیم وکریم پروردگار عَزَّوَجَلَّ ہمیں ایسی حالت میں نہیں چھوڑے گاکہ ہم پانی سے محروم رہيں،وہ ہمیں پیاسانہیں رکھے گا۔''ہم کھاناوغیرہ کھاکراپنی منزل کی طرف چل دیئے۔راستے میں ایک ایساشخص ملاکہ جس نے عام سا باریک لباس پہناہواتھا۔انتہائی گرم لباس میں بھی ہم پر کپکپاہٹ طاری تھی مگراس کے جسم پرپسینہ نمودارہورہاتھا۔ہم بڑے حیران ہوئے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس سے کہا: ''اگر تم قبول کرو تو ہم تمہیں گرم لباس اور چادریں پیش کریں؟''
اس نے کہا: ''اے دَارَانِی! سردی اور گرمی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی مخلوق ہیں ۔ اگر وہ خالقِ کائنات عَزَّوَجَلَّ انہیں حکم دے گا کہ وہ مجھ پر چھا جائیں تو وہ ضرور مجھ تک پہنچ کر رہیں گی اور اگر حکم فرمائے گا کہ وہ مجھے چھوڑ دیں تو ضرور مجھ سے دور رہیں گی۔''اے ابو سلیمان دَارَانِی ! تم توزاہد مشہور ہو،پھربھی سردی سے خوفزدہ ہو؟ میں اس جنگل میں تقریباً تیس (30)سال سے رہ رہا ہوں، اَلْحَمْدُ ِللہ عَزَّوَجَلَّ ! نہ تو مجھ پر کبھی لرزہ طاری ہوا اورنہ ہی میں کبھی سردی کی شدت سے کانپا۔ میرا پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ سردیوں میں مجھے اپنی محبت کا گرم اور گرمیوں میں اپنی محبت کی ٹھنڈک کا سردلباس پہناتا ہے۔'' پھر وہ یہ کہتے ہوئے واپس پلٹ گیا:'' اے ابوسلیمان دَارَانِی! تم روتے اور چیختے بھی ہو اور آرام دہ چیزوں سے سکون بھی حاصل کرتے ہو!،تمہارا بھی بڑا عجیب معاملہ ہے۔''
اس اجنبی عارف کی یہ بات سُن کر حضرت سیِّدُنا ابوسلیمان دَارَانِی قُدِّ سَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی نے فرمایا:'' اس شخص کے علاوہ مجھے کسی نے نہیں پہچانا۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
حضرتِ سیِّدُنا ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ بن عَمْرَوَیْہ صَفَّار علیہ رحمۃ اللہ الغفار جو کہ اِبْنِ عَلَم کے نام سے جانے جاتے ہیں، کا بیان ہے کہ میں نے حضرت محمد بن نَصْرصَایِغ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو یہ فرماتے سنا: '' میرے والد ِ محترم نمازِ جنازہ پڑھنے کے بہت دِلدادہ (یعنی شوقین) تھے۔ جاننے والے ہوں یا انجان سب کے جنازوں میں شریک ہوتے۔ انہوں نے مجھ سے فرمایا:'' اے میرے لختِ جگر! ایک مرتبہ میں کچھ ضروری سامان خریدنے بازار گیا تو ایک جنازہ دیکھا جس کے ساتھ بہت ہجوم تھا ۔ میں بھی لوگوں کے ساتھ شامل ہوگیا ، ان میں سے کوئی بھی میرا جاننے والا نہ تھا، سب اجنبی معلوم ہورہے تھے ۔ نمازِ جنازہ ادا کرنے کے
"بعدہم قبرستان گئے ۔ جب میت کو قبر میں اتارا جارہا تھا تو میں نے دوآدمیوں کو قبر میں اُترتے دیکھا ایک تو باہر نکل آیا مگر دوسرا قبر ہی میں رہ گیا۔ لوگ جب واپس جانے لگے تو میں نے پکار کر کہا: '' اے میرے بھائیو! میت کے ساتھ ایک زندہ شخص بھی دفنادیا گیا ہے۔'' لوگوں نے کہا: ''یہ تمہارا وَہم ہے ورنہ ایسی کوئی بات نہیں ۔'' میں نے بھی اسے اپنا وہم سمجھا اور واپس پلٹ آیا۔ پھر سوچا کہ میں نے اپنی جیتی جاگتی آنکھوں سے خود دو آدمی قبر میں اترتے دیکھے جن میں سے ایک تو نکل آیا مگر دوسرا قبر ہی میں موجود ہے۔اب میں قبر کے پاس ہی موجود رہوں گا یہاں تک کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ یہ راز منکشف فرمادے۔ چنانچہ، میں دوبارہ قبر کے پاس آیا۔ دس، دس مرتبہ سورۂ یٰسین اور سورۂ مُلک کی تلاوت کی ، پھربارگاہِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ میں دعا کے لئے ہاتھ بلند کئے اور روتے ہوئے یوں التجا کی:
'' اے میرے پروردگار عَزَّوَجَلَّ ! جو کچھ میں نے دیکھا اس کا راز مجھ پر منکشف فرما۔ بے شک! میں اپنے دِین اور عقل کے زائل ہونے سے خوفزدہ ہوں،اے پروردْگار ِ عالَم عَزَّوَجَلَّ! مجھ پر یہ راز منکشف فرمادے ۔''ابھی میں مصروف ِ اِلتجا ہی تھا کہ اچانک قبر شق ہوئی ا ور اس میں سے ایک شخص نکل کر ایک جانب چل دیا۔ میں اس کے پیچھے دوڑااور کہا:'' اے شخص! تجھے تیرے معبود کا واسطہ! رُک جا اور میرے سوال کا جواب دے۔'' لیکن اس نے میری طرف توجہ نہ دی اور مسلسل چلتا ہی رہا، دوسری اور تیسری مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا میں نے پھر پکار کر کہا: '' اے شخص! میں تیری رفتار کا مقابلہ نہیں کرسکتا ، تجھے تیرے معبود کی قسم!رُک کر میرے سوال کا جواب دے۔'' اس مرتبہ وہ میری طرف متوجہ ہوا اور کہا:''کیا تم ہی نَصْرصَایِغ ہو ؟'' میں نے کہا:''جی ہاں! میں ہی نَصْرصَایِغ ہوں۔'' کہا :''کیا تم مجھے نہیں پہچانتے ؟'' میں نے کہا :'' نہیں۔'' کہا: ''ہم رحمت کے فرشتے ہیں۔ہمارے ذمے یہ کام ہے کہ اہلِ سنّت میں سے جب بھی کوئی فوت ہوتا ہے اور اسے قبر میں رکھا جاتا ہے تو ہم اس کی قبر میں اُترکر اسے حجت (یعنی دلیل) کی تلقین کرتے ہیں۔'' اتنا کہہ کر وہ شخص غائب ہوگیا۔
؎ جو سینے کو مدینہ اُن کی یادوں سے بناتے ہیں وہی تو زندگانی کا حقیقی لُطف اُٹھاتے ہیں
جو اپنی زندگی میں سنتیں اُن کی سجاتے ہیں انہیں محبوب میٹھے مصطفی صلي اللہ عليہ وسلم اپنا بناتے ہیں
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
محمدبن عَمرو بن خالد کوان کے والد نے بتایا : ''ایک مرتبہ خلیفہ ہارون الرشید علیہ رحمۃ اللہ المجید نےشَعْبَانُ الْمُعَظَّم کے آخر میں حضرتِ سیِّدُنا محمد بن سَمَّاک علیہ رحمۃ اللہ الرزاق کو اپنے پاس بلوایا،جب آ پ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ شاہی دربار میں پہنچے تو یحیی بن
"خالد نے کہا:''کیا آپ جانتے ہیں کہ امیر المؤمنین نے آپ کو کیوں بلوایاہے؟'' فرمایا: '' مجھے نہیں معلوم ۔''یحیی نے کہا :'' امیر المؤمنین تک آپ کے متعلق یہ خبر پہنچی ہے کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہر عام و خاص کے لئے بہت اچھی دعا فرماتے ہیں۔اسی لئے آپ کو بلایاگیا ہے۔''
فرمایا:'' امیر المؤمنین کو میرے متعلق جو بات پہنچی ہے وہ صرف اس لئے ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے میری پردہ پوشی فرمائی ۔ اگر میرا ستّار و غفار پروردگار عَزَّوَجَلَّ میری پردہ پوشی نہ فرماتا تو مجھے عزت و عظمت کالباس نہ ملتا۔ اے امیر المؤمنین !اللہ عَزَّوَجَلَّ نے میرے عیوب پر پردہ ڈال رکھا ہے۔ اسی پر دہ پوشی نے مجھے تمہارے سامنے لا بٹھایا ہے۔ اے امیر المؤمنین ! بخدا !میں نے تم سے بڑھ کر کوئی حسین نہیں دیکھا۔ خدارا! تم اپنے چہرے کو جہنم کی آگ میں ہرگز نہ جلانا۔'' حضرتِ سیِّدُنا ابن سَمَّاک علیہ رحمۃ اللہ الرزاق جیسے مخلص اورخوفِ خدا رکھنے والے مبلِّغ کی زبانی یہ حکمت بھری باتیں سُن کر خلیفہ ہارون الرشیدعلیہ رحمۃ اللہ المجید نے زور زور سے رونا شروع کردیا اور کافی دیر تک روتے رہے۔ ان کے پاس پانی کا پیالہ لایا گیا۔ جب انہوں نے پینا چاہا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' اے امیر المؤمنین! پانی پینے سے پہلے میری ایک بات سُن لیجئے ۔'' خلیفہ رُک گیا اور کہا:'' فرمایئے ! آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔'' فرمایا: '' اگر یہ پانی کا پیالہ آپ سے روک دیا جائے اور اس قیمت پر دیا جائے کہ آپ دنیا اور جو کچھ اس میں ہے سب کچھ دے دیں، توآپ کیا کریں گے ؟ امیر المؤمنین نے کہا:'' میں سب کچھ دے کر پانی حاصل کروں گا۔'' فرمایا:'' اچھا اب پانی پی لو ، اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہیں برکتیں عطا فرمائے۔'' جب امیر المؤمنین پانی پی چکے تو آ پ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' اگر یہ پانی آپ کے جسم سے باہر نہ نکلے اور پیشاب بند ہوجائے تو کیا اس مرض سے نجات پانے کے لئے آپ ساری دنیا مع سازوسامان فدیہ دینے کو تیار ہوجائیں گے؟'' کہا:''ہاں! میں ساری سلطنت دے کر بھی اپنا علاج کراؤں گا۔'' فرمایا: ''اے امیر المؤمنین! اس چیز پر کیا اِترانا جس سے پانی کا ایک پیالہ بھی بہتر ہے۔''
خلیفہ ہارون الرشیدعلیہ رحمۃ اللہ المجید نے جب فکر ِ آخرت دلانے والا یہ جملہ سُنا تو رونے لگے پھر یہ رونا بڑھتا ہی گیا۔یحیی بن خالد نے کہا:'' اے ابن سَمَّاک علیہ رحمۃ اللہ الرزاق ! آپ نے امیر المؤمنین کو تکلیف میں مبتلا کردیا ہے ۔'' فرمایا:'' اے یحیٰی! خبردار! اپنے آپ کو بچانا! کہیں دنیا کا عیش و آرام تمہیں دھوکے میں نہ ڈال دے۔ ''یہ کہہ کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ واپس چلے آئے۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!دنیا کی چند روزہ فانی زندگی پر کیا اِترانا،اس کی رنگینیاں اور بہاریں بہت جلد ختم ہونے والی ہیں۔ دنیابڑی بے وفاہے یہ کسی کے ساتھ وفانہیں کرتی۔جس نے بھی دنیا کی حقیر دولت سے دل لگایا وہ حقیقی سکون و آرام کی دولت سے محروم ہی رہا۔عقل مند و سمجھ دار وہی ہے جو دنیا میں رہتے ہوئے اس کی تباہ کاریوں سے اپنے آپ کو بچائے اور ہمہ"
"وقت آخرت کی تیاری میں مشغول رہے اور ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کرے جن کے دلوں میں خوفِ خدا اور عشقِ مصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی شمع فروزاں ہے۔ اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ چند ہی دنوں میں سکونِ قلبی کی دولت نصیب جائے گی۔ )
؎ باغِ جنت میں محمد صلي اللہ عليہ وسلم مسکراتے جائیں گے پھول رحمت کے جَھڑیں گے ہم اُٹھاتے جائیں گے
خُلد میں ہو گا ہمارا داخلہ اس شان سے یا رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کا نعرہ لگاتے جائیں گے"
" حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم بن اِسحاق نَیْشَاپُورِی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:'' میں نے حضرت سیِّدُنامُسَیَّب بن وَاضِح علیہ رحمۃ اللہ الخالق کویہ فرماتے سُنا: ''میں حضرت سیِّدُنا عبدالرحمن بن مُبَارَک صُورِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کے ساتھ ''ملکِ رُوم'' کی طرف جا رہا تھا ، راستے میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:''اے مُسَیَّب ! عام لوگ فساد میں مبتلا نہیں ہوتے مگر خواص کی وجہ سے ۔'' میں نے کہا :'' حضور! اللہ عَزَّوَجَلَّ! آپ پر رحم فرمائے، اس قول کی وضاحت فرمادیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟'' فرمایا:'' اس کی وجہ یہ ہے کہ اُمتِ محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام پانچ طبقوں پر مشتمل ہے۔ پہلا طبقہ علماء کرام کا، دوسرا عابدوں اور زاہدوں کا ، تیسرا غازیوں کا،چوتھا تاجروں کاجبکہ پانچویں طبقے میں حاکم و قاضی شامل ہیں۔ علماء کرام توانبیاء کرام علیہم السلام کے وارث ہیں۔ عابد وزاہد، اُمتِ محمدیہ علٰی صاحبہا الصلٰوۃ والسلام کے بادشاہ ہیں۔ غازی، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سپاہی و لشکر ہیں۔ تاجر، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے خزانچی ہیں۔ رہے والی وحکمران تووہ محافظ ونگران ہیں ۔اورجب عالِم ہی لالچی اورمال جمع کرنے والاہوجائے توجاہل کس کی پیروی کریں؟عابدوزاہد دنیاکی طرف راغب ہو جائے توتائب کس کی اقتداء کريں؟جب غازی ومجاہدہی رُو رعایت اور نرمی سے کام لیں گے تودشمن پرغلبہ کیسے پاسکیں گے ؟ تاجرجواللہ عَزَّوَجَلَّ کے خزانچی ہیں وہ خود ہی خائن ہوجائیں تو پھر کون ہے جو خائن پر اعتماد کریگا؟اگررعایا کی حفاظت کرنے والے حاکم و نگران اور محافظ، بھیڑیئے بن جائیں تو رعایا کی دیکھ بھال اوران کی حفاظت کون کریگا؟''
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں اپنی حفظ و امان میں رکھے اور دینِ متین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ خداکرے کہ ہماری وجہ سے کسی مسلمان کو تکلیف نہ پہنچے، ہمارے ہاتھ و زبان سے تمام مسلمان محفوظ رہیں۔ ہم لوگوں کے بد خواہ نہ ہوں بلکہ خیر خواہ ہوں ۔ خوش بخت ہیں وہ لوگ جو اپنے مسلمان بھائیوں کی خدمت کرکے اللہ و رسول عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی رضا کے طالب ہوتے ہیں۔ا یسوں کو قلبی سکون اورحقیقی سرور نصیب ہوتا ہے کسی کے ساتھ خیر خواہی کرکے انسان کو ایک عجیب سی خوشی اور اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ جو دوسروں کے ساتھ بھلائی کرتے ہیں،ان کے ساتھ بھی بھلائی ہی کا معاملہ ہوتاہے۔)
؎ اوروں کے لئے رکھتے ہیں جو پیار کا جذبہ وہ لوگ کبھی ٹوٹ کے بکھرا نہیں کرتے"
" حضرت سیِّدُنا ابراہیم بن اَ دْہَم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم فرماتے ہیں: ایک روز مجھے اتنا اطمینان وسکون نصیب ہواکہ کیف و سرور کی اس کیفیت نے مجھے شاداں وفرحاں کردیا۔ اللہ ربُّ العزَّت کی اس عظم عطا پر میرا دل باغ باغ ہوگیا۔ میں نے بارگاہِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ میں عرض کی:'' اے میرے پروردگار عَزَّوَجَلَّ ! اگر تو نے اپنے محبّین میں سے کسی کو بھی کوئی ایسی شئے عطا فرمائی ہے جو تیری ملاقات سے قبل اسے آرام وسکون پہنچائے تو مجھے بھی اس خوشی میں سے کچھ عطا فرمادے ۔ میرا دل اس کا بہت مشتاق ہے۔ اس خوشی نے مجھے بے تاب کردیا ہے۔''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:''جیسے ہی میں دعا سے فارغ ہوا، مجھے نیند آگئی۔ میں خواب میں اپنے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ کے جلووں سے مشرف ہوا۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مجھے اپنے دربار میں بلاکر فرمایا:'' اے ابراہیم! کیا تجھے مجھ سے حیاء نہیں آتی کہ میری ملاقات سے قبل ہی کسی ایسی شئے کا طالب ہے جو تیرے دل کو اطمینان وسکون دے؟ اے ابراہیم ! کیا کسی عاشق کا دل اپنے محبوب کے علاوہ بھی کسی چیز کو چاہتا ہے ؟ کیا کوئی مُحِبّ اپنے محبوب کے علاوہ کسی اور شئے سے چین وسکون پاتا ہے؟ '' میں نے عرض کی:'' اے میرے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ !میں صرف تیرا ہی مشتا ق ہوں اور تیری ہی محبت میں مستغرق ہوں لیکن مانگنے کا انداز نہیں جانتا، میرے مالک عَزَّوَجَلَّ !میری اس خطا کو معاف فرما کر مانگنے کا سلیقہ سکھا دے۔''
ارشاد ہوا :'' اے ابراہیم ! اس طرح کہہ!''اے میرے پاک پروردگارعَزَّوَجَلَّ !مجھے اپنے فیصلے پر راضی رکھ۔ تیری طرف سے جو آزمائشیں آئیں ان پر صبر کی توفیق عطا فرما، نعمتوں پر شکر کرنے والابنا۔ اے میرے مالک عَزَّوَجَلَّ ! میں تجھ سے تیری دائمی نعمت اور ابدی عافیت کا طلب گار ہوں۔ میرے کریم پروردگارعَزَّوَجَل!مجھے اپنی محبت پر ثابت قدمی عطا فرمااور اس محبت کو ہمیشہ باقی رکھ۔''
؎ مانندِ شمع تیری طرف لَو لگی رہے دے لطف میری جان کو سوزوگدازکا
کیوں کر نہ میرے کام بنیں غیب سے حسنؔ بندہ بھی ہوں تو کیسے بڑے کارساز کا
(اے ہمارے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ !ہمیں اپنی محبت کی لازوال دولت سے سرفراز فرما اور ہر گھڑی اپنی یاد میں گم رہنے کی تو فیق عطا فرما۔ آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
حضرتِ سیِّدُنا حسین بن محمدسَرَّاج علیہ رحمۃ اللہ الوھاب سے منقول ہے: '' میں نے حضرتِ سیِّدُنا جنیدبغدادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی کو یہ فرماتے سُنا: '' ایک مرتبہ میں نے خواب میں ابلیسِ لعین کو بالکل برہنہ دیکھاتو اس بے شرم سے کہا :'' کیا تجھے لوگوں سے
"حیاء نہیں آتی؟'' شیطان نے کہا:''بخدا! یہ جو آپ کے نزدیک انسان موجود ہیں یہ انسان کہا ں؟ اگر یہ انسان ہوتے تو میں ان سے اس طرح نہ کھیلتا جس طرح بچے گیند سے کھیلتے ہیں۔ انسان ایسے نہیں ہوتے ۔'' میں نے کہا :''توکن لوگوں کو انسان سمجھتا ہے؟'' بولا:'' وہ جو مسجدِ شُونِیْزِی میں ہیں، انہوں نے میرے دل کو غم میں مبتلا کررکھا ہے اور میرے جسم کو انتہائی کمزور کر دیا ہے۔ میں جب بھی انہیں بہکانے کا ارادہ کرتا ہوں وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے مدد طلب کرتے ہیں اور میں جلنے لگتا ہوں۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ جب میری آنکھ کھلی توابھی کافی رات باقی تھی۔ میں فوراً لباس تبدیل کرکےمسجدِ شُونِیْزِی پہنچا تو وہاں تین آدمیوں کو سر پر چادر ڈالے مسجد کے صحن میں بیٹھے دیکھا۔جب انہوں نے محسوس کیا کہ میں مسجد میں داخل ہوا ہوں تو ایک نے اپنا سر چادر سے باہر نکالا اور فرمایا:'' اے ابوالقاسم! توو ہی ہے کہ جب بھی تجھ سے کوئی بات کہی جائے تواسے قبول کرلیتا ہے۔''
حضرتِ ابنِ جَہْضَم فرماتے ہیں :مجھے ابو عبداللہ بن جبَّار علیہ رحمۃ اللہ الغفار نے بتایا کہ تین شخص جو ''مسجدِ شُونِیْزِی'' میں تھے، وہ ابو حمزہ ، ابوالحسین ثَوْرِی اور ابوبَکْردَقَّاق علیہم رحمۃاللہ الرزّاق تھے۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُنایوسف بن حسین علیہ رحمۃُربِّ الکونین سے منقول ہے: میں نے حضرتِ سیِّدُنا ذُوالنُّوْن مِصْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کو یہ فرماتے سُنا:''مجھے ایک مغربی کے متعلق بتایا گیا کہ وہ بہت حکمت و دانائی کی باتیں کرنے والا مردِ صادق ہے''۔ اس خبر نے مجھے اس کی ملاقات پر اُبھارا۔ میں نے رختِ سفر باندھا اور مطلوبہ منزل کی جانب چل پڑا، وہاں پہنچ کر ان کے دروازے پر تقریباً چالیس(40)دن تک ٹھہرا رہا۔ وہ نماز کے وقت گھر سے نکلتے نماز پڑھ کر واپس چلے آتے۔ کسی کی طرف متوجہ نہ ہوتے ۔ ایک دن میں نے ان سے کہا :''اے بندۂ خدا!میں چالیس دن سے آپ کے دروازے پر ٹھہرا ہوا ہوں لیکن آپ نے ایک مرتبہ بھی مجھ سے گفتگو نہیں کی۔
اس نے کہا:''اے میرے بھائی ! میری زبان خونخوار درندہ ہے۔ اگر میں اسے چھوڑ دوں گا تو یہ مجھے کھا جائے گی۔'' میں نے کہا :''اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ پر رحم فرمائے !مجھے کچھ نصیحت کرو تاکہ میں اسے یادکرلوں۔''کہا:'' کیاتم ایسا کرسکو گے ؟'' میں نے کہا : ''اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ۔'' فرمایا:''سنو! دنیا سے محبت نہ کرو۔ فقر کو غنا ء سمجھو۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے آنے والی آزمائش کو"
" نعمت جانو،اگراس کی طرف سے کچھ نہ ملے تو اس نہ ملنے کو عطا سمجھو۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا ساتھ ہوتے ہوئے تنہائی بھی اُنس ہے۔ اے بھائی ! ذلت کو عزَّت جانو۔ زندگی کو موت سمجھو۔ اطاعت و فرمانبرداری کو پیشہ اور توکل کو معاش سمجھو۔ بخدا! ہر شدت کے لئے ایک وقت مقررہے۔'' اتنا کہہ کر وہ شخص چلا گیا۔پھر ایک ماہ تک اس نے مجھ سے کلام نہ کیا۔ میں نے کہا:'' اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بندے! اب میں اپنے وطن واپس جانا چاہتا ہوں اگر مناسب سمجھو تومزید کچھ نصیحت کرو۔ '' کہا:'' جان لو ! بے شک زاہد (یعنی دنیا کو چھوڑنے والا) وہ ہے کہ اسے جو ملے اسی پر گزارہ کرے۔ جہاں چاہے رہے۔ اس کا لباس اتنا ہی ہو جو ستر پوشی کا کام دے سکے۔ تنہائی اس کی مجلس اورتلاوتِ قرآن اس کامشغلہ ہو۔اللہ ربُّ العزَّت اس کا محبوب ، ذکر ِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ اس کی غذا ، خاموشی اس کی جنت، خوف اس کی عادت و فطرت، شوق اس کا مطلوب، نصیحت اس کی ہمت اور اس کا غور و فکر عبرت ،صبر اس کا تکیہ اور صدیقین اس کے بھائی ہوں۔ اس کا کلام حکمت، عقل اس کی دلیل، حلم اس کا دوست ،بھوک اس کا سالن اور آہ و زاری اس کی عادت ہوتی ہے اور اس کا مطلوب و مقصود صرف اورصرف اللہ ر بُّ العزَّت کی ذات ہوتی ہے۔ ''
حضرتِ سیِّدُنا ذُوالنُّوْن مِصْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں: ''اس کی یہ حکمت بھری عارفانہ باتیں سن کر میں نے اس سے پوچھا:''انسان اپنی غلطیوں اور نقصان پرکب مطلع ہوتا ہے؟'' فرمایا:'' جب وہ اپنے نفسں کا محاسبہ کرنے والے لوگوں کے پاس بیٹھے گا تو اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں سے خوب واقف ہوجائے گا۔'' اتنا کہہ کر وہ حکیم و دانا شخص اپنے گھر میں داخل ہوگیا۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
حضرتِ سیِّدُنابِشربن حَارِث حافی علیہ رحمۃ اللہ الکافی کے بھانجے حضرتِ سیِّدُنا ابوحَفْص رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا بیان ہے، مجھے میری والدہ نے بتایا:''ایک مرتبہ کسی نے ہمارا دروازہ کھٹکھٹایا تو حضرتِ سیِّدُنا بِشْرِ حافی علیہ رحمۃ اللہ الکافی نے پوچھا:'' کون ہے ؟ '' اس نے جواب دیا: ''میں بِشْر علیہ الرحمۃ سے ملنا چاہتا ہوں۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس کے پاس گئے اور کہا:''اللہ تبارک و تعالیٰ تجھے اپنی حفظ وامان میں رکھے۔ کیا تمہیں کوئی حاجت ہے ؟'' اس نے کہا: '' کیا آپ ہی بِشْر ہیں ؟'' فرمایا:'' ہاں! میں ہی بِشْر ہوں، بتاؤ! کیا کام ہے ؟'' کہا:''آج رات میں نے خواب میں اللہ ربُّ العزَّت کا دیدار کیا،میرے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ نے مجھ سے فرمایا: ''بِشْر کے پاس جاؤ اور اس سے کہو،'' اگر تم اَنگاروں پر بھی سجدہ کرو تب بھی جوعزت وشہرت اورمقام ومرتبہ لوگوں کے
"درمیان تمہیں عطاکیاگیااورجو نعمتیں تمہارے لئے تیارکی گئی ہیں ان کاشکرادانہیں کرسکتے۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' کیا واقعی تم نے یہ خواب دیکھا ہے؟'' کہا:'' جی ہاں! میں مسلسل دو راتوں سے یہی خواب دیکھ رہا ہوں۔ ''فرمایا :'' اے شخص! کسی اور کو اس خواب کے متعلق ہرگز کچھ نہ بتانا۔'' یہ کہہ کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اسے رخصت کردیا اور واپس آکر اپنا منہ قبلہ کی جانب کرتے ہوئے زور زور سے رونا شروع کردیااور بڑی بے چینی کے عالم میں یہ دعا کرنے لگے:
'' اے میرے رحیم و کریم پروردگار عَزَّوَجَلَّ ! تو نے دنیا میں مجھے جو عزَّت عطا فرمائی ہے ، میرا نام لوگوں میں بلند کیا ہے، اور میرے مرتبے کورفعت عطا فرمائی ہے اگر یہ دنیوی آسائشیں اس لئے ہیں کہ بروزِ قیامت تومجھے رسوا کریگا، تو میرے مالک عَزَّوَجَلَّ !مجھے ابھی موت دے دے اور مجھ سے میرے اعضاء کی قدرت و طاقت چھین لے۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُنا وَاحدی علیہ رحمۃ اللہ القوی سے منقول ہے کہ''ایک مرتبہ بعد نمازِ عصر میں اپنے چچا حضرتِ سیِّدُناابنِ ریّان علیہ رحمۃ اللہ الحنَّان کے پاس ان کی مسجد میں حاضر تھا۔ اتنے میں ایک معمار آیا۔ اسے دیکھ کر حضرتِ سیِّدُنا ابن رَیَّان علیہ رحمۃاللہ الحنان نے فرمایا: '' اے ابوالحسن! اس وقت آنے کا کوئی خاص مقصد؟'' عرض کی : '' حضور! میں چاہتا ہوں کہ آج رات آپ کے ہاں قیام کروں۔'' مجھے چچا نے فرمایا: '' جاؤ! گھر میں کچھ گندم موجود ہے، کنیز سے کہو اسے پیس کر آٹا بنالے۔'' میں نے عرض کی: '' چچا جان! اس کو کب گوندھا اور پکایا جائے گا؟'' فرمایا: '' جاؤ! اللہ ربُّ العزَّت آسانی فرمائے گا۔ ''
میں نے کنیز کو آپ علیہ الرحمۃ کا حکم سنایا تو اس نے گندم پیس کر آٹا گوندھا اور مغرب سے پہلے ہی دو روٹیاں تیار کردیں۔ ہم نے نماز ادا کی اور گھرآگئے۔ ایک روٹی چچا جان نے لی اور دوسری اس مہمان کو دے دی۔ جب دونوں کھانا کھا چکے تو رات گئے تک آپس میں گفتگو کرتے رہے۔ پھر عشاء کی نماز پڑھی اور مزید نوافل پڑھنے کے لئے کھڑے ہو گئے تو مہمان نے کہا:''حضور! میں جس مقصد کے لئے آپ کے پاس حاضر ہوا ہوں، وہ سُن لیں تاکہ میں چلا جاؤں اور آپ کی عبادت میں رکاوٹ نہ بنوں۔ سنئے! میں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی کہنے والا مجھ سے کہہ رہا تھا:''تم ابنِ ریّان کے پاس جاؤ اور اس سے کہو'' تمہارے سامنے امارت و حکومت پیش کی گئی لیکن تم نے اُسے ٹھکرا دیا، مجھے میری عزَّت کی قسم! میں تجھے جنتِ عَدْن کی بادشاہت و حکمرانی عطا فرماؤں گا۔ ''یہ سُن کر"
"حضرتِ سیِّدُنا ابن ریّان علیہ رحمۃ اللہ الحنان نے زارو قطار رونا شروع کردیا۔ اور فرمایا:'' اللہ عَزَّوَجَلَّ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔''
؎ سچ ہے انسان کو کچھ کھو کے مِلا کرتا ہے آپ کو کھو کے تجھے پائے گا جویا تیرا
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُنا ابوحَسَّان زِیَادِی علیہ رحمۃ اللہ الہادی کا بیان ہے: ایک دن میں مسجد میں تھاکہ بہت تیز بارش ہوئی اچانک مجھے وہاں ایک شخص نظر آیا جو بہت پریشان لگ رہا تھا۔جب میں نیچے دیکھتا تو وہ میری جانب دیکھنے لگ جاتا پھرجب میں اسے دیکھتا تو وہ گردن جھکا لیتا۔ ایسا کئی مرتبہ ہوا۔ بالآخر میں نے اسے اپنے پاس بلایا اور پوچھا:'' بھائی ! تم کون ہو ؟ '' اس نے کہا:'' میں ایک مصیبت زدہ، مجبور شخص ہوں۔ شدید بارش نے میرا مکان گرا دیا ہے اب میں اسے دوبارہ بنانے کی قدرت نہیں رکھتا۔'' مجبور مسافر کی درد بھری داستان سن کر میں اس کے بارے میں متفکر ہوگیا اور سوچنے لگا کہ ایسا کون ہے جو اس کی مدد کرسکے۔ اچانک میرے دل میں امیر غَسَّان بن عَبَّاد کا خيال آیا۔
چنانچہ، میں اس مجبور مسافر کو لے کر غَسَّان بن عَبَّاد کے پاس پہنچااور ساراماجرا کہہ سنایا۔ اس نے کہا: ''اس مسافر کے لئے میرے دل میں ہمدردی پیداہوگئی ہے۔ میرے پاس دس ہزار درہم ہیں، میں چاہتا ہوں کہ یہ رقم اسے دے دوں۔'' غَسَّان بن عَبَّاد کی یہ بات سن کر میں باہر آگیا اور اس غریب و مجبورمسافر کو دس ہزار درہم ملنے کی خوشخبری سنائی تووہ سنتے ہی خوشی کے مارے بے ہوش ہوگیا۔ لوگوں نے جب اس کی یہ حالت دیکھی تو مجھے ملامت کرتے ہوئے کہنے لگے: ''تم نے اسے ایسی کون سی تکلیف دہ خبر سنائی ہے کہ جس کی تاب نہ لا کر یہ مسافر بے ہوش ہوگیا ہے؟'' میں جواب دیئے بغیر واپس غَسَّان بن عَبَّاد کے پاس آیا اور مسافر کی بے ہوشی کے متعلق خبر دی۔ اس نے مسافر کو اپنے پاس بلوایا اس کے منہ پر عرقِ گلاب کے چھینٹے مارے تواسے ہوش آگیا۔ میں نے کہا :'' تیرا بھلا ہو، تو بے ہوش کیوں ہوگیا تھا۔'' کہا: '' خوشی کی وجہ سے۔'' پھر ہم کچھ دیر باتیں کرتے رہے۔ غَسَّان نے مجھے اپنے پاس بلایا اور کہا: ''اس مسافر کے متعلق میرے دل میں بہت ہمدردی پیدا ہوگئی ہے ۔''میں نے کہا:'' آپ کا کیا ارادہ ہے ؟'' کہا: '' جاؤ اور ہماری طرف سے اسے سواری پیش کرو۔''
میں مسافر کے پاس آیا اور کہا: '' اے میرے بھائی! بے شک امیر غَسَّان بن عَبَّادنے تمہارے متعلق کچھ حکم صادر کیا ہے۔ اگر میں تمہیں وہ خوشخبری سناؤں تو تم مر تو نہیں جاؤ گے؟'' کہا:'' نہیں۔'' میں نے کہا: '' تو سنو ! امیرنے تمہارے لئے ایک"
"گھوڑا دیا ہے ۔'' مسافر نے کہا:'' اللہ ربُّ العزَّت امیر کو اچھی جزا عطا فرمائے۔ ''میں پھر امیر غَسَّان بن عَبَّاد کے پاس آیا تو اس نے کہا: '' تُم نے اس مسافر کو میرے پاس لا کر میرے دل میں اس کے متعلق ہمدردی ڈال دی ہے، اب میں اس کے ساتھ مزید تعاون کرنا چاہتا ہوں ۔ ''میں نے کہا :'' اب کیا ارادہ ہے ؟ '' کہا:'' میں اس کے لئے ایک سال کے غلّے کا کفیل ہوں۔ اور عنقریب اسے سرکاری ملازمت بھی دلواؤں گا۔'' میں نے امیر کی یہ بات سُنی تو اس غریب مسافر سے کہا:'' امیر نے تمہارے لئے مزید کچھ اشیاء کا حکم دیا ہے۔ یہ خبر سن کر کہیں تم مر تو نہیں جاؤ گے ؟'' کہا:'' نہیں۔'' میں نے کہا :'' امیر نے عَزم کیا ہے کہ وہ تمہیں سال بھر کا غلہ دے گا اور ملازمت بھی دلوائے گا ۔''
مسافر نے کہا:'' اللہ تبارک و تعالیٰ امیر کو اچھی جزا عطا فرمائے۔'' پھر ہم دونوں سوار ہوئے،رقم کی تھیلیاں غلام کے حوالے کیں اور واپس آنے لگے۔ کچھ دور پہنچ کر اس مسافر نے کہا: ''یہ تھیلیاں مجھے دے دو۔'' میں نے کہا :'' غلام اکیلا ہی انہیں اٹھا کر چل سکتا ہے اسی کے پاس رہنے دو۔'' کہا: ''اگر یہ میرے کندھے پر ہوں تو کیا حرج ہے ؟'' یہ کہہ کر اس نے رقم کی تھیلیاں اپنے کندھے پر اُٹھا لیں اور شکریہ ادا کرتا ہوا اپنے گھر چلا گیا۔ دوسری صبح میں اس مسافر کو لے کر دوبارہ امیر غَسَّان بن عَبَّاد کے پاس گیا تو اس نے اسے بہت اچھی ملازمت دلوائی اور اپنے خاص ملازمین میں شامل کرلیا ۔ اس مسافر نے محنت و لگن سے کام کیا اور بہت ہی جلد امیر کا منظورِ نظر بن گیا۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
حضرتِ سیِّدُنا ابوسَہْل رَازِی علیہ رحمۃ اللہ الہادی کا بیان ہے : مجھے حضرتِ سیِّدُنا ابوحَسَّان زِیَادِی علیہ رحمۃ اللہ الہادی نے بتایا: ''ایک مرتبہ مجھے شدید فقر و فاقہ اور مفلسی نے آلیا اور میری تنگدستی انتہاء کو پہنچ گئی ۔ قصاب، سبزی فروش اور دیگر دکان دار بار بار اپنے قرض کا مطالبہ کرتے لیکن میرے پاس کچھ بھی نہ تھا۔ ایک دن میں اسی پریشانی کے عالم میں اپنے گھر بیٹھا ہواتھاکہ غلام نے کہا:'' ایک حاجی صاحب دروازے پر موجود ہیں اور ملاقات کی اجازت چاہتے ہیں۔'' میں نے اسے بلوایا تووہ خُرَاسَانیِ شخص تھا،اس نے سلام کیا اور کہا: '' کیا آپ ہی ابوحَسَّان ہیں؟ ''میں نے کہا: '' جی ہاں! میں ہی ابوحَسَّان ہوں۔ آپ کو مجھ سے کیا کام ہے ؟'' کہا:'' میں حج کے ارادے سے آیا ہوں میرے پاس دس ہزار درہم ہیں آپ یہ رقم بطورِ امانت اپنے پاس رکھ لیں میں حج سے واپسی پر لے لوں گا۔''
" میں نے کہا:'' لاؤ، اپنی رقم میرے سامنے رکھو۔'' اس نے رقم کی تھیلیاں میرے سامنے رکھیں ان کا وزن کیا اور مہر لگا کر میرے حوالے کردیں پھر سلام کرکے واپس چلا گیا۔ میں نے سوچا کہ میں بہت تنگدست اور مجبور ہوں ،قرض خواہوں کے تقاضوں نے میرا سکون برباد کردیا ہے، اگر اس مجبوری کی حالت میں اس خُرَاسَانیِ حاجی کی رقم میں اپنے استعمال میں لاؤں تو میرا سارا معاملہ درست ہوجائے گا۔ پھر اس حاجی کے آنے تک اللہ ربُّ العزَّت نے کشادگی فرمادی تو میں بآسانی اس مال کا ضمان ادا کردوں گا۔ پس میں نے تھیلیاں کھولیں، قرض خواہوں کا سارا قرض ادا کیا، پھرکچھ اشیائے خورد ونوش اور دیگر ضروری سامان خریدلیا۔آج ہمارے ہاں کافی دنوں بعد خوشی آئی تھی۔ مجھے یقین تھا کہ وہ خُرَاسَانیِ حاجی جانبِ حرم اپنی منزل پر روانہ ہوگیاہوگا۔ اوراس کے آنے تک میں رقم کا انتظام کرکے پوری رقم واپس کردوں گا۔ ہماراوہ دن بڑی فرحت ومسرت میں گزرا۔
دوسرے دن صبح صبح غلام نے کہا: ''وہی خُرَاسَانیِ حاجی دروازے پر موجود ہے اور اندر آنے کی اجازت چاہتا ہے۔'' میں نے کہا:'' اسے اندر بلالاؤ۔ ' ' وہ آیا اور کہا:'' میں حج کے ارادے سے آیاتھا لیکن یہاں سے جانے کے بعدمجھے اپنے بیٹے کی وفات کی خبرملی ہے ۔ اب میں اپنے شہر جانا چاہتا ہوں، جو رقم بطورِ امانت آپ کے پاس رکھوائی تھی وہ واپس کردیجئے ۔'' خُرَاسَانی کی اس بات نے مجھے ایسی پریشانی میں مبتلا کیا کہ اس سے قبل مجھے کبھی ایسی پریشانی کاسامنانہ ہواتھا۔ میں سوچ رہاتھاکہ اسے کیا جواب دوں؟ بالآخر میں نے کہا :'' اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کو عافیت عطا فرمائے۔ میرا گھر غیر محفوظ تھا میں نے آپ کی رقم کسی کودے دی ہے۔ آپ کل آکر اپنی رقم لے لینا۔'' یہ سن کر خُرَاسَانیِ تو چلا گیا ، لیکن میں پریشانی میں مبتلا ہو گیا، مجھے کچھ سُجھائی نہ دیتا تھا کہ میں کیا کروں؟ کہاں جاؤں؟ اگر انکار کرتا ہوں تو یہ میرے لئے د نیا و آخرت کی ذلت ہے، اگر کہتا ہوں کہ تمہاری رقم خرچ ہوگئی تووہ شور مچائے گا اور سختی کریگا۔ اوریہ بات میرے لئے انتہائی اذیت ناک ہے۔ اسی سوچ و فکر اور پریشانی میں شام ہوگئی۔ رات نے آہستہ آہستہ اپنے پَر پھیلانے شروع کردیئے۔ مجھے یہ فکر کھائے جارہی تھی کہ کل صبح میں اسے کیا جواب دوں گا؟ نیند کوسوں دور تھی، میرے لئے آنکھیں بند کرنا بھی مشکل ہورہا تھا۔ میں نے غلا م کوسواری تیار کرنے کا حکم دیا تو اس نے حیران ہو کر کہا:'' حضور!رات بہت ہوچکی ہے اس وقت آپ کہاں جانا چاہتے ہیں؟ مناسب یہی ہے کہ آپ ابھی باہر نہ جائیں۔''
چنانچہ، میں واپس بستر پر آگیا۔ لیکن نیند تھی کہ آنے کا نام ہی نہ لے رہی تھی میں بے چینی کے عالم میں کروٹیں بدلتا رہا۔ بار ہاباہر جانے کی کوشش کی لیکن ہر مرتبہ غلام باہر جانے سے روک دیتا۔ اسی بے چینی کے عالم میں پوری رات گزر گئی، طلوعِ فجر کے فوراً بعد میں اپنے خچر پر سوار ہوا اور نامعلوم منزل کی جانب چل دیا۔میں کوئی فیصلہ نہ کرپارہاتھا کہ کس طرف جاؤں؟ بالآخر میں نے سواری کی لگام چھوڑ دی ۔کچھ ہی دیر بعد میں نہر کے پُل پر آپہنچا۔ خچر پل کی جانب بڑھنے لگا تو میں نے اسے نہ روکا یہاں تک کہ پل پار کرلیا۔ اب میں سوچنے لگا کہ کہاں جاؤں؟ اگر گھر جاتا ہوں تو خُرَاسَانی میرے دروازے پر موجود ہوگا۔ میں اسے کیا جواب"
"دوں گا؟ اسی پریشانی کے عالم میں، مَیں نے خچر کو اس کے حال پر چھوڑ دیا کہ اب جہاں چاہے یہ مجھے لے جائے۔ میرا خچر خلیفہ مامون کے محل کی جانب بڑھنے لگا۔ محل کے دروازے کے قریب پہنچ کر میں سواری سے نیچے اُتر آیا۔ اتنے میں ایک شہسوار میرے قریب سے گزرا مجھے بغور دیکھا اور آگے بڑھ گیا۔ کچھ دیر بعد دوبارہ وہی شہسوار آیا اور کہنے لگا:''کیا تم ابوحَسَّان زِیَادِی ہو؟'' میں نے کہا: ''جی ہاں!میں ہی ابوحَسَّا ن زِیَادِی ہوں۔'' کہا:'' آؤ، تمہیں امیر حسن بن سَہْل بلارہے ہیں۔'' میں نے دل میں کہا:''امیر حسن بن سَہْل کو مجھ سے کیا کام۔'' بہرحال میں اس کے ساتھ حسن بن سَہْل کے پاس پہنچا تواس نے مجھ سے کہا :'' اے ابوحَسَّان! تمہیں کیاہواکہ ہم سے ملنے نہیں آتے؟ میں نے مصروفیات کی وجہ سے نہ آنے کا کہا تو اس نے کہا:'' تم اصل بات چھپا رہے ہو، سچ سچ بتاؤ! کیا معاملہ ہے ؟یا تو تم کسی بہت بڑی مصیبت میں پھنس گئے ہو یا تمہیں کوئی اور پریشانی لاحق ہے، جلدی بتاؤ ! اصل معاملہ کیا ہے؟ کس چیز نے تمہیں پریشان کررکھا ہے، میں نے آج رات تمہیں خواب میں بہت پریشان دیکھا ہے۔'' امیر کی یہ بات سن کر میں نے شروع سے آخر تک سب قصہ کہہ سُنایا۔ میری غم ناک آپ بیتی سُن کراس نے کہا: ''اے ابو حَسَّان! اللہ عَزَّوَجَلَّ تجھے غم میں مبتلا نہ کرے ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تیری مصیبت دور کردی ہے۔ یہ لو یہ دس ہزار درہم اس خُرَاسَانیِ کو دے دینا۔ اور یہ مزید دس ہزار درہم اپنے خرچ میں لانا۔ جب ختم ہوجائیں تو مجھے ضرور اطلاع دینا۔'' یہ کہہ کر اس نے مجھے بڑی عزت و احترام کے ساتھ واپس کر دیا۔ میں اپنے گھر آیا تو خُرَاسَانی میرے دروازے پر موجودتھا میں نے دس ہزار درہم اس کے حوالے کردئیے ۔ اس طرح اللہ ربُّ العزَّت نے مجھے غم وحزن سے نجات دے کر وسعت و فراخی عطا فرمادی بے شک وہی تمام تعریفوں کے لائق ہے۔
٭۔۔۔۔۔۔اس حکایت کو علامہ تَنُوْخِی نے کچھ اس طرح بیان کیاہے کہ ''جب حضرتِ سیِّدُنا ابوحَسَّان زِیَادِی علیہ رحمۃ اللہ الہادی پریشانی کے عالم میں اپنے گھر سے باہر نکلے تو راستے میں کچھ لوگ ملے، انہوں نے آپ سے پوچھا:'' کیا آپ ابوحَسَّان زِیَادِی نامی شخص کو جانتے ہیں؟'' میں نے کہا:'' میں ہی ابوحَسَّان زِیَادِی ہوں۔ بتائیے !آپ کو مجھ سے کیا کام ہے ؟'' انہوں نے کہا: ''خلیفہ مامون الرشیدنے آپ کو بلوایا ہے۔'' چنانچہ، وہ مجھے لے کر خلیفہ مامون الرشید کے پاس پہنچے۔ خلیفہ نے مجھ سے پوچھا: ''تم کون ہو ؟'' میں نے کہا: ''میں قاضی ابویوسف مدظلہ، العالی کے دوستوں میں سے ہوں۔'' خلیفہ نے پھر پوچھا:''تمہاری کنیت کیا ہے؟'' میں نے کہا:'' ابوحسان۔'' کہا:'' کس نام سے مشہور ہو؟'' میں نے کہا:'' زیادی کے نام سے۔'' کہا:'' بتاؤ! تمہارا کیا معاملہ ہے؟'' میں نے اوّل سے آخر تک سارا واقعہ خلیفہ کوسنادیا۔ میری درد بھری داستان سُن کر خلیفہ نے زارو قطار روتے ہوئے کہا: '' تیرا بھلا ہو! آج رات تیری وجہ سے مجھے کئی مرتبہ سرکارِ نامدار، بے کسوں کے مدد گار، شفیعِ روزِ شمار، بِاِ ذن ِ پروردْگار دوعالم کے مالک و مختار عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا دیدار نصیب ہوا ہے ۔ ہو ا یوں کہ جب میں سویا تو خواب میں مکّی مدنی مشکل کشا نبی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلمَ کی زیارت نصیب ہوئی، آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: '' ابوحَسَّان زِیَادِی کی مدد کرو۔''"
"میں اس حال میں بیدار ہواکہ تم سے واقف نہ تھا لیکن تمہارا نام اچھی طرح یاد کرلیا تھا تاکہ صبح تمہارے متعلق معلومات کرواسکوں،میں دوبارہ سو گیا۔ خواب میں پھر حضورِ انورصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم تشریف لائے اور حکم فرمایا: '' ابوحَسَّان زِیَادِی کی مدد کرو۔'' میں گھبرا کر بیدار ہواکچھ دیربعد دوبارہ آنکھ لگ گئی۔ اس مرتبہ پھر شفیعِ روزِ شمار،بِاذنِ پروردگار دوعالم کے مالک و مختار عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم خواب میں تشریف لائے اور فرمایا:'' جاؤ اور ابوحَسَّان زِیَادِی کی مدد کرو۔'' اس کے بعد میں دوبارہ نہیں سویا اور ابھی تک جاگ رہا ہوں۔ میں نے رات ہی سے تمہاری تلاش میں خدَّام بھیج رکھے ہیں۔ پھر خلیفہ مامون الرشید نے دس ہزار(10,000) درہم دیتے ہوئے کہا :''یہ رقم اس خُرَاسَانیِ کو دے دینا۔ مزید دس ہزار درہم دیتے ہوئے کہا: ''ان کے ذریعے اپنی ضروریات پوری کرلینا۔مزید تیس ہزار(30,000) درہم دیتے ہوئے کہا: ''اس رقم سے اپنے بچوں کی شادی وغیرہ کے لئے سامان خریدکران کی شادی کردینا۔'' پھر بڑی عزت و تکریم کے ساتھ مجھے روانہ کردیا۔میں نے صبح کی نماز پڑھ کر خُرَاسَانی کو دس ہزار دراہم کی تھیلیاں واپس کیں تو اس نے کہا :''یہ وہ تھیلیاں نہیں ہیں جو میں نے دی تھیں۔''
میں نے اسے ساری صورتحال سے آگاہ کیاتو اس نے زار و قطار روتے ہوئے کہا: '' خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم! اگر آپ مجھے پہلے ہی اپنا واقعہ بتادیتے تو میں کبھی بھی آپ سے رقم کا مطالبہ نہ کرتا، خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم!اب تومیں ایک درہم بھی آپ سے نہ لوں گا۔یہ رقم آپ کو مُبَارَک ہو! میرا آپ پر اب کوئی مطالبہ نہیں ۔ یہ کہہ کر وہ اپنے وطن چلا گیا۔میں جب ایک شاہی تقریب کے موقع پر مامون کے دربارگیا تواس نے سرکاری کاغذات تھماتے ہوئے کہا: ''جاؤ، آج سے تم فلاں فلاں علاقے کے قاضی ہو۔ ہمیشہ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرتے رہنا ۔اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ تجھ پر ہمیشہ عنایتِ مصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے بادل سایہ فگن رہیں گے۔'' راوی کہتے ہیں: ''حضرتِ سیِّدُنا ابوحَسَّان زِیَادِی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تادمِ آخر عہدۂ قضاء پر فائز رہے۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)
(برادرِ اعلیٰ حضرت حسن رضا خان علیہ رحمۃ الحنان بارگاہِ مصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم میں یوں عرض کرتے ہیں:
؎ تمہارے در کے ٹکڑوں سے پڑا پَلتا ہے اِک عالَم گزارا سب کا ہوتا ہے اسی محتاج خانے سے
مزید فرماتے ہیں:
؎ فقیرو بے نواؤ ! اپنی اپنی جھولیاں بھر لو کہ باڑا بٹ رہا ہے فیض پر سرکارِ عالی ہے
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! خدا ئے حنّان و منّان کا ہم پر بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں نبئ آخر الزماں، سلطانِ کون ومکان ،رحمتِ عالَمْیَان ،سرور ِ ذیشان صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے دامن سے وابستگی عطا فرمائی۔ یہ تو وہ نبی ہیں جنہیں ہماری تکلیفوں اور پریشانیوں سے رَنج ہوتاہے ۔ہمارا مصیبت میں پڑنا ان پر گراں گزرتا ہے۔ ہماری خوشی سے ان کے دلِ دلبہارکو خوشی نصیب"
"ہوتی ہے۔ جب بھی ان کا کوئی امتی پریشان ومصیبت زدہ ہوتا ہے تو مشکل کشائی فرما کر اپنے اس غلام کا دل خوش کر دیتے ہیں۔
جس طرح حیاتِ ظاہری میں وہ نورِ مُجَسَّم اپنے نور سے عاصیوں کے سیاہ دلوں کو نور بار کیا کرتے تھے ، اسی طرح وصال ظاہری کے بعد بھی ان کے لطف و کرم کا بادل سوکھے اورمرجھائے ہوئے غمگین دلوں کوپُربہار کررہا ہے۔ ان کا جودو کرم ہم پر جاری وساری ہے۔ جو امتی اس دربارِ گُہربار میں اپنا حالِ دل سناتاہے اس کی پریشانیاں حل ہو جاتی ہیں اور اس پر نعمتوں کی خوب برسات ہوتی ہے۔ بلکہ و ہ نبی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم تو ایسے رحیم وکریم ہیں کہ منگتوں کو مانگنے سے قبل ہی عطا فرما دیتے ہیں۔
؎ کبھی ایسا نہ ہوا ان کے کرم کے صدقے ہاتھ کے پھیلنے سے پہلے نہ بھیک آئی ہو !
اللہ عَزَّوَجَلَّ سے دعا ہے کہ وہ ہمیشہ ہماری نسبت سلامت رکھے ۔اپنی دائمی رضا عطا فرمائے اور جنت الفردوس میں حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا پڑوس عطا فرمائے ۔)( آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُنا محمد بن عبداللہ زَرَّادعلیہ رحمۃ اللہ الجواد کا بیان ہے: میں نے حضرت سیِّدُنا ذُوالنُّوْن مِصْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کو یہ فرماتے سُنا:''بے شک اللہ ربُّ العزَّت کے کچھ بندے ایسے ہیں کہ جنہوں نے پہلے خطا کے درخت لگائے جن کی جڑیں دلوں میں قائم ہوگئیں پھر توبہ کے آنسوؤں سے انہیں سیراب کیا تو ان کوندامت و پریشانی اور غم کے پھل حاصل ہوئے ۔ وہ لوگ بغیر جنون کے دیوانے ہوگئے۔ نیکی کے معاملے میں ایک دوسرے سے مقابلہ کیا۔ نہ کسی کو دھوکہ دیا نہ ہی انہیں گمراہی و دھوکے کا سامان کرنا پڑا۔ بے شک ان میں ایسے فُصَحاء، بُلَغاء اور خوش بخت لوگ بھی ہیں جو اللہ ورسول عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی معرفت و محبت رکھتے اور احکامِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ کو پہچانتے ہیں۔ انہوں نے اخلاص کے خالص جام پئے ، بلاؤں اور مصیبتوں پر صبر کیا یہاں تک کہ اپنے خدائے قدو س کی عظمت و بزرگی کے بحرِناپیدا کنار کی گہرائیوں میں غوطہ زن ہوکر جبروت کے پردوں کے گرد گھومنے لگے۔ انہوں نے ندامت و خجالت(یعنی شرمندگی) کے سائبان تلے اپنی خطاؤں کے صحيفے پڑھے اور اپنے اوپر خوف اورگریہ وزاری کو لازم کر لیا۔
جب وَرَعْ (یعنی تقویٰ) کی سیڑھی کے ذریعے مقامِ زہد تک پہنچ گئے توپھر دُنیا کو ترک کردینے کی کڑواہٹ بھی انہیں شیریں محسوس ہونے لگی۔ کُھردرے لباس اور بستروں کو انہوں نے نرم محسو س کیا یہاں تک کہ وہ سلامتی اور نجات کی رسی کو تھام کر کامیاب ہوگئے۔ ان کی روحیں عالَم بالا کی سیر کرنے لگیں تو وہاں انہوں نے نعمتوں والے باغات کو اپنا مقام پایا۔ وہاں انہوں نے"
"نسیم کے پھل چُنے۔جب زندگی کے سمندر میں گھسے تو جزع و فزع اور شکایتوں کی خندقوں کو بندکیااور شہوات کے پل کو عبورکیا۔جب علم کے میدان میں ٹھہرے تو وہاں سے حکمت کے موتی حاصل کئے ۔پھر عقلمندی و ہوشیاری کے سفینے میں سوار ہو کر سلامتی کے سمندر میں اترے تو فلاح وکامرانی کی ہواؤں نے انہیں راحت و سکون کے باغات اور عزت و کرامت کے خزانوں میں پہنچادیا۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرت عبداللہ بن ابراہیم کا بیان ہے: ''میں نے حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم خَوَّاص علیہ رحمۃ اللہ الرزاق کے رفیق حضرتِ سیِّدُنا ابوحسین بَحْرَانِی قُدِّ سَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی کو یہ فرماتے سُنا: '' ایک عابدہ و زاہدہ خاتون نے حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم خَوَّاص علیہ رحمۃ اللہ الرزاق سے اپنے دل اور احوال میں پیدا ہونے والے تغیُّر و تبدُّل کے متعلق سوال کرتے ہوئے دریافت کیا: '' ایسا کیوں ہو رہا ہے ؟'' تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' کیاتمہاری کوئی چیز گُم ہوئی ہے یا تمہار ے کسی عمل میں کمی آئی ہے ؟'' خاتون نے کہا: '' میں نے خوب غور و فکر کیا مگرکسی چیز میں کمی نہیں پائی۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کچھ دیر کے لئے سرجھکایا پھر فرمایا:''کیا تجھے مشعل والی رات یاد نہیں؟'' عرض کی:'' کیوں نہیں! مجھے وہ رات اچھی طرح یاد ہے ۔'' فرمایا:'' بس اسی مشعل کی وجہ سے تم بے چین ہو اور لذتِ عبادت میں کمی محسوس کررہی ہو۔''
یہ سن کر اس نے روتے ہوئے کہا:'' جی ہاں! ایک رات میں اپنے گھر کی چھت پرسُوت کات رہی تھی کہ ایک دھاگہ ٹوٹ گیا اندھیرے کی وجہ سے میں اسے نہ جوڑ سکی، اتنے میں بادشاہ کی سواری گزری تو سرکاری مشعلوں کی روشنی سے کافی اُجالا ہو گیا میں نے اسی روشنی میں ٹوٹا ہوا دھاگہ جوڑکر اُ ون میں شامل کرلیا۔ پھراُس اُون کی قمیص بناکر پہن لی ،یہی وجہ ہے کہ میں اس ایک دھاگے کی و جہ سے عبادت میں لذت کی کمی محسوس کرنے لگی اور اپنی حالت کو متغیر پارہی ہوں۔ یہ کہہ کر وہ خاتون پردے کے پیچھے گئی ،وہ قمیص اتار کر دوسری پہنی اور عرض کی:'' اے ابراہیم خَوَّاص علیہ رحمۃ اللہ الرزاق !اگر میں اس قمیص کو بیچ کر اس کی ساری رقم صدقہ کردوں تو کیا میرا دل اپنی پہلی حالت پر آجائے گا؟ کیا پھر سے مجھے عبادتِ الٰہی میں خشوع و خضوع نصیب ہوجائے گا؟'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا:'' ا گر ایسا کرو گی تو اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنی پہلی حالت پر لوٹ آؤ گی۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُنا محمد بن عبید بن یونُس بن محمد بن صالح رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:''ایک مرتبہ دورانِ طواف میری نظر ایک بَدَوِی(دیہاتی) پر پڑی جو غلاف ِکعبہ تھامے آسمان کی جانب نظر اُٹھاکر اس طرح التجائیں کررہا تھا:
''اے وہ بہتر ذات جس کی طرف لوگ وَفد دَر وَفد ( یعنی گروہ در گروہ) آتے ہیں! میری زندگی کے دن گزر گئے، مجھ پر کمزوری نے غلبہ پالیا۔ اے میرے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ ! میں تیرے معظَّم ومکرَّم گھرکی طرف اتنے گناہوں کے ساتھ آیاہوں کہ وسعت اَرض (یعنی زمین کی چوڑائی) بھی ان کے لئے تنگ پڑ گئی ہے۔سمندر بھی میرے گناہوں کی گندگی کونہیں دھوسکے۔ میرے کریم پروردگار عَزَّوَجَلَّ !میں تیرے عفو و کرم کے بھروسے پر تیری پناہ میں آیا ہوں۔ میں نے اپنی سواری تیرے حرم میں لا کر روک دی ہے۔ اپنامال تیری رضا کی خاطرخرچ کر دیا ہے۔ میرے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ ! یہ سب تیری عطاؤں کے خزانے سے ہے ۔''
پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر بآواز ِبلند کہا: ''اے لوگو! اس کے لئے دعا کرو جسے اس کی خطاؤں نے گھیرا ہوا ہے، جس پر مصیبتوں اور پریشانیوں نے غلبہ پا لیا ہے ۔ میرے بھائیو! غریب و مفلس بیچ ارے پر رحم کرو، میں تمہیں اسی شوق و رغبت کا واسطہ دیتا ہوں جو تمہیں دربارِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ تک کھینچ لایاہے۔میرے لئے دعا کرو کہ میرا پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ میرے جرموں کو معاف فرماکر میرے گناہوں سے در گزر فرمائے۔'' یہ کہہ کر وہ دوبارہ خانۂ کعبہ کا غلاف پکڑ کر مصروف التجا ہوگیا اور عرض گزار ہوا: ''اے میرے مالک عَزَّوَجَلَّ ! تیرا بندہ بڑے بڑے گناہوں کی وجہ سے کرب و غم میں مبتلا ہوگیا ہے، کچھ بھی نیکیاں پَلَّے نہیں ۔ اے میرے کریم پروردگار عَزَّوَجَلَّ ! مجھ غریب و نادار کو اپنی رحمتِ خاصہ کے سائے میں جگہ عطا فرما۔''
؎ یا خدا ! رحمت تیری حاوی ہے تیرے غضب پر تیری رحمت کے سہارے جی رہا بدکار ہے
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:'' میں نے میدانِ عرفات میں پھر اسی بدوی کو دیکھا، وہ اپنا بایاں ہاتھ سر پر رکھے ہچکیاں لے لے کر رو رہا تھا اور اس کی زبان پر یہ الفاظ جاری تھے:
'' میرے خالق ومالک عَزَّوَجَلَّ ! باغات کلیوں کے ساتھ مسکراتے ہیں۔ آسمان رحمت کی بارش برساتا ہے ۔ اس انعام واِکرام کاواسطہ جو تو اپنے محبین کو عطا فرماتا ہے ۔ میرااس بات پر پختہ یقین ہے کہ تو اپنے چاہنے والوں کو اپنی رضا عطا فرماتا ہے ۔ اور کیوں نہ ہو تُو تو ہر اس شخص سے محبت کرتا ہے جو تجھ سے محبت کرتا ہے۔جو تیری طرف لَو لگاتا ہے تو اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک بن جاتا ہے۔ میرے مالک عَزَّوَجَلَّ !ہر ہر شے تیری مشتاق ہے۔ میرے پروردگار عَزَّوَجَلَّ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ میرے دل کو بھی اپنا مشتاق بنالے ۔مجھے بھی اپنی رحمت کی دولت عطا فرمادے۔ میری گردن کو جہنم کی آگ سے آزادی عطا فرمادے۔''"
" حضرتِ سیِّدُنا سعید بن فضل بن مَعْبَدعلیہ رحمۃ اللہ الاحد کہتے ہیں: میں نے اپنے والد کویہ ارشاد فرماتے سنا: میں نے بعض کتابوں میں پڑھا ہے کہ ایک مرتبہ شیطان لعین ایک اسرائیلی عابد کے پاس بہت سے جال لے کرآیا۔ اسرائیلی عابد نے پوچھا: ''اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بندے! یہ جال کیسے ہیں ؟'' شیطان ملعون بولا:'' اے شخص! میں مفلس ہوں، نہ تو میرے پاس کھانا وغیرہ ہے اور نہ ہی کوئی ذریعۂ معاش۔میں گھوم پھر کر معاش تلاش کرتا ہوں۔ جب بھوک لگتی ہے تو ان جالوں میں سے ایک جال نصب کر دیتا ہوں اور پرندے شکار کرکے کھالیتا ہوں۔اسی طرح گزر بسر ہورہی ہے۔''
عابد نے کہا:'' اگر واقعی ایسا ہے تومجھے بھی ایک جال بنادے میں اس کا زیادہ محتاج ہوں۔'' شیطان نے کہا:'' ٹھیک ہے میں تمہارے لئے ایک عمدہ جال بناؤں گا۔'' یہ کہہ کر شیطان لعین چلا گیا ۔ راستے میں عابدکوایک گھر کے قریب حسین و جمیل عورت نظر آئی۔ اس نے عابد سے کہا:'' مجھ پر احسان کرو، مجھے میرے شوہر کا یہ خط پڑھ کر سُنا دو ۔'' عابد نے کہا:'' لاؤ، خط مجھے دو۔'' عورت نے کہا:''اس طرح دروازے پر کھڑا ہونامناسب نہیں، اندر آ کر سکون سے بیٹھو پھر خط سناؤ۔'' عابد جیسے ہی گھر میں داخل ہوا عورت نے دروازہ بند کردیا اور اسے گناہ کی دعوت دی۔ اس نے خوب منت سماجت کی اور قسم وغیرہ دے کر عورت کو گناہ سے باز رکھنا چاہا لیکن اس پر شہوت غالب تھی۔ وہ اسے مسلسل گناہ کی دعوت دیتی رہی۔ بالآخر عابد کو اس گناہ سے بچنے کی تدبیر سوجھی اس نے اپنے آپ کو پاگل ظاہر کیا اور عجیب وغریب حرکتیں کرنے لگا۔ عورت نے پاگل سمجھ کرفوراً دروازہ کھول دیا۔اور سمجھ دار عابد فوراً وہاں سے بھاگ نکلا۔
راستے میں شیطان لعین نظر آیاتوعابد نے کہا:''اس جال کا کیا ہوا جس کا تم نے مجھ سے وعدہ کیا تھا۔ ''کہا:'' میں نے تو تیرے لئے بہت مضبوط جال تیار کیا تھا مگر تیرے جنون اور اندازِ دیوانگی نے تجھے اس میں پھنسنے نہ دیا۔'' جب عابد نے یہ سُنا تو گناہ سے بچنے پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شکرادا کرتا ہوا اپنے گھر کی جانب چل دیا۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُنا عبید اللہ بن عبداللہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: ''ایک مرتبہ میں حضرتِ سیِّدُنا جنیدبغدادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی کی خدمتِ بابرکت میں حاضر تھا۔ اتنے میں حضرتِ سیِّدُناابوحَفْص نَیْشَاپُورِی علیہ رحمۃ اللہ القوی تشریف لائے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بڑے پُرتَپاک طریقے سے استقبال کرتے ہوئے گلے ملے۔ حضرتِ سیِّدُنا ابوحَفْص رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' اے جنیدرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ! بتاؤ! کیا تمہارے پاس کوئی ایسی چیزہے جو مجھے کھلا سکو ؟'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: '' آپ جو حکم فرمائیں گے وہی چیز پکا دی جائے گی۔'' یہ کہہ کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' اے ابن زِیْرِی ! تم نے شیخ کی بات سُنی ہے، اب جلدی سے کھانے کا انتظام کرو۔حکم پاتے ہی ابن زِیْرِی چلے گئے اور کچھ دیر بعد مطلوبہ اشیاء خوردو نوش لے کر حاضر ہوئے تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرتِ سیِّدُنا ابوحَفْص رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے کہا:'' جو چیز یں آپ نے طلب کی تھیں وہ حاضرِ خدمت ہیں۔'' فرمایا:'' اے میرے بھائی! میں چاہتا ہوں کہ یہ سارا کھانا ایثار کردوں تم اس معاملے میں میری مدد کرو۔''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:''جو آپ کی پسند وہی میر ی پسند ۔''اے ابن زِیْرِی! تم نے شیخ کا کلام تو سن ہی لیا ہے۔ جاؤ! یہ کھانا کسی مستحق فقیر کو دے آؤ۔''
ابن زِیْرِی نے مزدور سے سامان اٹھوایا اور کہا:'' میرے ساتھ ساتھ چلو، جہاں تھک جاؤ وہیں رُک جانا، مزدور سامان اٹھا کرچل دیا اورکچھ دور دو گھروں کے قریب رُک گیا۔ ابن زِیْرِی نے قریبی مکان پر دستک دی۔ اندر سے آوازآئی:'' اگر تمہارے پاس کھانے کی فلاں فلاں چیز یں موجود ہیں تو اندر آجاؤ۔'' یہ کہہ کر اس نے ان تمام اشیاء کا نام گِنوادیا جو ہم لے کر آئے تھے۔ جب بتایا گیا کہ تمہاری بتائی ہوئی ہر ہر شئے ہمارے پاس موجود ہے تو دروازہ کھل گیا۔دروازے پر بوری سے بنا ہوا پردہ تھا اور سامنے ایک بوڑھا موجود تھا۔ ابن زِیْرِی کہتے ہیں کہ ''میں نے آگے بڑھ کرسامان اتروایا اورمزدور کو اجرت دے کر روانہ کردیا ۔بوڑھے نے مجھ سے کہا :''ا س پردے کے پیچھے چھوٹے چھوٹے بچے اور بچیاں ہیں ، جنہیں اسی کھانے کی حاجت ہے جو تم لے کرآئے ہو۔'' میں نے کہا :'' اے بزرگ! میں اُس وقت تک یہاں سے نہیں جاؤں گا جب تک آپ حقیقت سے آگاہ نہ کردیں۔''کہا:''میرے یہ بچے عرصۂ دراز سے کھانے کی چیزیں مانگ رہے ہیں لیکن میرا ضمیر اس معاملے میں دعا کرنے کے لئے میری موافقت نہ کرتا تھا۔ لہٰذا میں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ان اشیاء کا سوال نہیں کیا۔ آج رات میرا دل اس کھانے کی دعا کرنے پر راضی ہوگیا، میں نے جان لیا کہ میرے دل کی موافقت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اگر میں دعا کروں تو ضرور قبول ہوگی۔لہٰذا امیدِ واثق کے ساتھ میں نے بارگاہِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ میں دعا کردی۔ جب دروازہ کھٹکھٹایا گیا تو میں سمجھ گیاکہ میری دعا"
"قبول ہوگئی ہے اور ہمیں وہی چیزیں ملیں گی جن کی خواہش میرے بچے کررہے تھے ۔ اسی لئے دروازہ کھولنے سے پہلے میں نے ان چیزوں کا نام گنوایا تھاجو تم لے کر آئے ہو ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُنا ابوالعباس شَرْقِی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:'' سفرِ حج میں ہم حضرتِ سیِّدُنا ابوتراب نَخْشَبِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کے ہمراہ تھے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بیمار ہوئے تو راستہ چھوڑ کر ایک وادی کی طرف تشریف لے گئے ۔ ہمراہیوں میں سے کسی نے کہا:'' مجھے پیاس نے شدید پریشان کررکھا ہے ۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنا پاؤں زمین پر مارا تو ٹھنڈے اور شیریں پانی کا چشمہ اُبل پڑا۔ پیاسے مرید نے عرض کی:'' حضور! میں پیالے سے پانی پیناچاہتا ہوں۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنا ہاتھ زمین پر مارا تو سفید شیشے کا خوبصورت پیالہ آپ کے ہاتھ میں آگیا۔ میں نے اس سے قبل ایسا پیالہ کبھی نہ دیکھاتھا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے خود بھی پانی پیا اور ہمیں بھی سیراب کیا۔ وہ غیبی پیالہ مکۂ مکرمہ زَادَہَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًاتک ہمارے پاس رہا۔ایک مرتبہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مجھ سے فرمایا:''اللہ ربُّ العزَّت اپنے بندوں کی عزت و تکریم بڑھانے کے لئے انہیں جو کرامات عطا فرماتا ہے اس کے متعلق تمہارے دوست کیا کہتے ہیں؟''
میں نے کہا: ''ہمارے سب دوست صحیح العقیدہ ہیں، وہ اولیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کی کرامات پر کامل یقین رکھتے ہیں۔'' فرمایا: ''اگر ایسا نہ کریں گے تو انکار کرنے والوں میں شمار کئے جائیں گے ۔ میں تو تم سے اولیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کی کیفیت و احوال کے بارے میں لوگوں کی رائے معلوم کررہا ہوں۔'' میں نے کہا:'' حضور !میں اس بارے میں ان کے کسی قول سے واقف نہیں۔'' فرمایا: '' اے میرے بچے! تمہارے دوست گمان کرتے ہیں کہ یہ جِنّوں کی طرف سے دھوکے بازی و چالبازی ہوتی ہے۔ حالانکہ معاملہ اس کے برعکس ہے کیونکہ جنوں کی طر ف سے نظر بندی یا دوسری کیفیات اس وقت ہوتی ہیں جب حالتِ سکون ہو۔ جبکہ نیک لوگ اس کیفیت و حالت کے وقت بے خودی اور جذب کے عالم میں ہوتے ہیں۔ اور یہ مقام اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے خاص بندوں کو عطافرماتاہے ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُنا ذُوالنُّوْن مِصْری علیہ رحمۃ اللہ القوی کے بھائی حضرتِ سیِّدُنا ذُوالْکِفْل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بیان کرتے ہیں: ''میں نے حضرتِ سیِّدُنا ذُوالنُّوْن مِصْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کو یہ فرماتے سنا : ''مغربی پہاڑ یوں میں ایک پہاڑ کی چوٹی پر میری ملاقات ایک عابد سے ہوئی جو سرجھکائے بیٹھا تھا میں نے سلام کیا، اس نے جوا ب دیا۔ میں نے پوچھا: ''تم اس ویران جگہ میں کیوں رہتے ہو؟'' کہا :'' میرے پاس نہایت قیمتی سرمایہ ہے جسے بچانے کے لئے میں آبادی سے دُور آگیا ہوں میں چاہتا ہوں کہ اپنا یہ خزانہ اس ویران جگہ میں دفنا دوں۔'' میں نے کہا: '' آخر تمہارے پاس ایسا کون سا قیمتی خزانہ ہے جس کی تمہیں اتنی فکر ہے؟''
اس نے کہا: '' توحید کا قیمتی ہار اور اخلاص کا گوہرِ نایاب میرا قیمتی خزانہ ہے۔'' میں نے کہا :'' اگر تم لوگوں سے اُنْس ومحبت رکھتے تو کیاحرج تھا؟'' کہا:'' میں لوگوں سے بھاگ کر اس کی طرف آگیا ہوں جس کی طرف تمام امید وار آتے ہیں۔ میں نے اپنے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ کو بہت محبت و کرم کرنے والا پایا لہٰذا میں اسی کی طرف امید لگائے بیٹھا ہوں۔'' پھر اس نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی اور''اَنْتَ اَنْتَ یعنی تو ہی تو ہے ۔'' کی صدائیں بلند کرنے لگا۔ اس کی دیکھا دیکھی میں بھی آسمان کی طرف دیکھنے لگا۔جب دوبارہ میں نے اسے دیکھنا چاہا تو وہ موجود نہ تھا ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُنارِیَاشی علیہ رحمۃ اللہ الکافی کا بیان ہے،میں نے حضرتِ سیِّدُنا اَصْمَعِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کو یہ فرماتے سُنا: خلیفہ عبدالمَلِک بن مَرْوَان حج کے دنوں میں اپنے وزیروں، مشیروں اور اُمراء کے ساتھ مکۂ مکرمہ زَادَہَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا میں بڑی شان و شوکت سے تخت پر بیٹھا ہوا تھا۔ اچانک حضرتِ سیِّدُنا عَطا ء بن رَبَاح رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تشریف لائے، خلیفہ انہیں دیکھتے ہی استقبال کے لئے کھڑا ہو گیا، بڑے ادب و احترام سے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو اپنے ساتھ تخت پر بٹھایا اور خود سامنے بیٹھ گیا۔ پھر عرض گزار ہوا: '' حضور! اگر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی کوئی حاجت ہے تو ارشاد فرمائیے۔''
خوفِ خدا و عشقِ مصطفی عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی دولت سے مالا مال مبلغ حضرتِ سیِّدُنا عَطا ء بن رَبَاح رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے نیکی کی دعوت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: '' اے خلیفہ ! اللہ و رسول عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے حرم میں مہاجرین وانصار"
"کی اولاد کے متعلق اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈر! بے شک تو انہی کی وجہ سے اس مجلس میں بیٹھا ہے۔ اے خلیفہ ! سرحدوالوں کے بارے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈر! بے شک یہ مسلمانوں کے قلعے ہیں۔ان کے معاملات حل کیا کر! بے شک تجھ اکیلے سے ان سب کے متعلق پوچھ گَچھ ہوگی۔ جو سائل تیرے دروازے پر آئیں ان سے غفلت نہ بَرْتنا، ان کے معاملے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے خوب ڈر اور اپنے دروازے سائلین کے لئے بند مت کر۔'' نیکی کی دعوت سُن کر خلیفہ نے کہا:'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جو حکم فرمایا میں اس پر ضرور عمل کروں گا۔'' جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ واپس جانے لگے تو خلیفہ نے آپ کا دامن تھام کر کہا:'' اے ابو محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ! آپ نے دوسروں کی حاجات کے متعلق سوال کیا ہے ہم انہیں پورا کریں گے۔ آپ اپنی بھی کسی حاجت کے متعلق ارشاد فرمائیں۔''یہ سن کرآ پ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ یہ فرماتے ہوئے دربارِ شاہی سے واپس تشریف لے گئے :'' اے خلیفہ! مجھے مخلوق سے کوئی حاجت نہیں۔'' خلیفہ نے درباریوں سے مخاطب ہو کر کہا:'' خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم! یہ ہے حقیقی عزت ،یہ ہے حقیقی بادشاہت ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)
؎ آفریں اہلِ محبت کے دلوں کو اے دوست! ایک کوزے میں لیے بیٹھے ہیں دریا تیرا
اتنی نسبت بھی مجھے دونوں جہاں میں بس ہے تو مرا مالک و مولیٰ ہے میں بندہ تیرا"
حضرت عمر بن ہَیَّاج بن سعید سے منقول ہے: میں حضرتِ سیِّدُناقاضی شَرِیک علیہ رحمۃ اللہ الرفیق کے قریبی دوستوں میں سے تھا۔ ا یک دن صبح سویرے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ میرے پاس اس حالت میں تشریف لائے کہ چادر اوڑھی ہوئی تھی اور چمڑے کا لباس پہنا ہوا تھا جس کے نیچے قمیص نہ تھی۔ میں نے کہا:''کیا وجہ ہے کہ آج آپ نے مجلس قضاء منعقد نہیں فرمائی؟''فرمایا: ''کل میں نے اپنے کپڑے دھوئے تھے جو ابھی تک سوکھے نہیں، میں ان کے خشک ہونے کا انتظار کررہا ہوں۔ تم یہاں بیٹھو، ہم کچھ دینی مسائل پر گفتگو کرتے ہیں۔'' حکم پا کر میں بیٹھ گیا تو ہمارے درمیان غلام کے نکاح سے متعلق گفتگو ہونے لگی۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' جو غلام اپنے آقا کی اجازت کے بغیر نکاح کرلے اس کا کیا حکم ہے ؟ کیا اس بارے میں تمہیں کچھ معلومات ہیں۔'' ابھی سلسلۂ کلام جاری تھا کہ''خَیْزُرَان''کی طرف سے مقرر ایک نصرانی ( شاہی ملازم کوفہ میں جس کا ہر حکم مانا جاتا تھا اور موسیٰ بن عیسیٰ کو بھی اس کی ہر بات ماننے کا حکم دیا گیا تھا) ہمارے پاس آیا اس کے ساتھ شاہی سپاہی اور دوسرے بہت سے لوگ تھے۔ وہ چراگاہ کی طرف
"جانے کا ارادہ رکھتا تھا ،انتہائی قیمتی جُبّہ پہنے، ایک طاقتور عجمی گھوڑے پر بڑے شاہانہ انداز سے بیٹھا ہواتھا۔ قاضی نے دیکھا کہ ایک پریشان حال شخص ہاتھ جوڑے بڑے درد مندانہ انداز میں پکاررہا ہے: ''ہائے! کوئی میری مدد کرے ، میں اولاً اللہ عَزَّوَجَلَّ اور پھر قاضی سے انصاف طلب کرتا ہوں۔'' اس سائل کا جسم کوڑوں کی مارسے چھلنی تھا۔ نصرانی( شاہی ملازم) نے قاضی کو سلام کیا قاضی صاحب نے اسے اپنے پاس بٹھالیا۔
زخمی سائل نے عرض کی:''میں پہلے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی پھر قاضی صاحب کی پناہ چاہتاہوں۔قاضی صاحب ! میں کپڑے بُنتا ہوں اور میرے جیسے مزدور ماہانہ سو درہم اجرت لیتے ہیں۔ اس نصرانی نے مجھے تقریباً چار ماہ سے قید کررکھا ہے میں سارا دن کام کرتا ہوں لیکن اجرت میں اتنی کم رقم ملتی ہے کہ بمشکل کھانے کی اشیاء خرید سکتا ہوں۔ میرے گھر والے فقرو فاقہ اور تنگدستی میں مبتلا ہیں، آج موقع پا کر میں قید سے بھاگ آیا تو راستے میں اس نصرانی نے مجھے پکڑ لیا اور اتنا مارا کہ میری ساری پیٹھ لہولہان کردی۔ خدارا !مجھ پر رحم کیجئے۔''مظلوم سائل کی یہ درد بھری فریاد سُن کر قاضی شَرِیک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے نصرانی کو ڈانٹتے ہوئے کہا: '' اے نصرانی!اُٹھ اوراپنے مقابل کے سامنے کھڑا ہوجا۔''
نصرانی نے کہا:'' قاضی صاحب ! اللہ تعالیٰ آپ کا بھلا کرے، یہ''خَیْزُرَان''کے خادموں میں سے ہے اور بھاگ آیا ہے، اسے قید کرلیجئے ۔'' قاضی شَرِیک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' تیرا ناس ہو! جو تجھ سے کہا گیا ہے اس پر عمل کراور سائل کے برابر کھڑا ہو جا۔'' نصرانی ملازم بادِلِ ناخواستہ سائل کے برابر جا کھڑا ہوا۔ قاضی صاحب نے فرمایا:'' اس فریادی کی پیٹھ پر یہ زخم کے نشانات کیسے ہیں ؟'' کہا: '' قاضی صاحب!اللہ تعالیٰ آپ کو سلامت رکھے میں نے اپنے ہاتھوں سے اسے کوڑے مارے ہیں،ابھی تو اس کو کم سزا ملی ہے یہ تو اس سے بھی زیادہ کا حق دار ہے، آپ جلدی سے اسے جیل بھجوادیجئے۔''
یہ سُن کر قاضی شَرِیک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کمرے میں داخل ہوئے، واپسی میں ان کے ہاتھ میں ایک زبردست قسم کا سخَت کوڑا تھا۔آپ نے نصرانی کی پیٹھ سے کپڑا ہٹاکر خوب کوڑے لگائے۔ پھر اس مظلوم فریادی سے کہا :''تم بے خوف و خطر اپنے اہل و عیال کے پاس چلے جاؤ۔'' وہ دعائیں دیتا ہو ا وہاں سے چلاگیا۔ قاضی صاحب نے پھر کوڑا بلند کیا اور پے درپے کئی کوڑے نصرانی کی پیٹھ پر لگاتے ہوئے کہا :'' آئندہ تجھے کسی پر ظلم کرنے کی جرأت نہ ہوگی۔ خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم! توآئندہ کبھی بھی کسی مسلمان پر ظلم نہیں کریگا۔ تیری پیٹھ کے زخم تجھے اس بُری حرکت سے باز رکھیں گے۔'' اس کے رفقاء نے جب اس کی دُرْگَتْ بنتی دیکھی تو اسے چھڑانے کے لئے آگے بڑھے۔ قاضی صاحب نے بآوازِ بلند فرمایا:'' اگر قبیلے کے نوجوان یہاں موجود ہوں تو جلدی سے آئیں اور اس کے دوستوں کو جیل میں ڈال دیں۔'' یہ سُن کر سارے حمایتی بھاگ گئے اور نصرانی اکیلا رہ گیا۔ قاضی صاحب نے اسے خوب سزا دی ۔وہ روتا ہواکہہ رہا تھا، عنقریب تم اپنا انجام دیکھ لو گے۔ قاضی صاحب نے اس کی دھمکی کی طرف"
"کوئی توجہ نہ دی ، کوڑا دہلیز پر پھینک کر میرے پاس آئے اور فرمایا:'' اے ابو حَفْص! ہاں، تو میں تم سے یہ پوچھ رہا تھا کہ اس غلام کے بارے میں تم کیا کہتے ہو جو اپنے مالک کی اجازت کے بغیر شادی کرلے۔ قاضی صاحب اس طرح گفتگو کررہے تھے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔نصرانی مار کھا کر عجمی گھوڑے پر سوار ہونے لگا تو گھوڑا بدکنے لگا اب وہاں اس کا کوئی رفیق بھی نہ تھا جو اسے سوار کراتا۔ نصرانی غصے میں آکر گھوڑے کو مارنے لگا توقاضی صاحب نے فرمایا:'' اے نصرانی! اس بے زبان جانور پر نرمی کر ! تیری خرابی ہو،یہ اپنے رب اللہ عَزَّوَجَلَّ کا تجھ سے زیادہ مطیع و فرمانبردار ہے۔ ''
نصرانی چلا گیا تو قاضی صاحب نے فرمایا:'' آؤ! ہم اپنے مسئلے پر گفتگو کرتے ہیں۔بتاؤ! ایسے غلام کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟''میں نے کہا:''مجھے اس بارے میں معلوم نہیں ۔ خداعَزَّوَجَلَّ کی قسم! آج آپ نے بہت بڑی جرأت کی ہے۔ شاید! عنقریب آپ کو اس کی بہت کَڑی سزا ملے ۔'' فرمایا:'' اے ابوحَفْص! تُو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم کی تعظم کر اللہ عَزَّوَجَلَّ تجھے عزت و بلندی عطا فرمائے گا۔ آؤ ہم اپنے مسئلے پر گفتگو کرتے ہیں۔'' پھر قاضی صاحب مجھے اس غلام والے مسئلے کے متعلق بتانے لگے۔ نصرانی (شاہی ملازم )مار کھا کر سیدھا امیر موسیٰ بن عیسیٰ کے پاس گیا۔ امیر نے جب اسے زخمی حالت میں دیکھا تو پوچھا:''یہ تجھے کیا ہوا؟'' نصرانی نے کہا: ''قاضی شَرِیک نے مار مار کر میری یہ حالت کی ہے۔'' پھر اس نے سارا واقعہ بیان کر دیا۔ امیر موسیٰ بن عیسیٰ نے کہا:'' خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! میں قاضی شَرِیک کے معاملے میں ہر گز دخل اندازی نہیں کرسکتا۔ یہ سُن کر نصرانی اپنا سامنہ لے کر بغداد چلا گیا اور پھر واپس نہ آيا۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
حضرت ابو عبداللہ بن خَفِیف علیہ رحمۃاللہ الرفیق کہتے ہیں:میں نے حضرتِ سیِّدُنا ابوحسین مُزَیِّن رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو مکۂ مکرمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّ تَعْظِيْمًا میں یہ فرماتے سُنا:''ایک مرتبہ میں'' تبوک'' کے ویرانوں کی طر ف گیا، راستے میں ایک کنواں نظر آیا، پانی پینے کی غرض سے کنوئیں کے قریب گیاتو میرا پاؤں پِھسل گیا اور میں کنوئیں میں گرگیا۔ وہاں ایک وسیع ابھری ہوئی جگہ دیکھی تو اس پربیٹھ گیاتاکہ اگر میرے جسم یا کپڑوں وغیرہ پر کوئی نجس شئے لگی ہوئی ہو تو پانی اس سے محفوظ اور لوگوں کے لئے قابلِ استعمال رہے۔ کنوئیں کی گہرائی اور وحشت کے باوجود میرا دل بالکل مطمئن تھا، مجھے کسی قسم کا کوئی خوف محسوس نہ ہورہا تھا۔ وہاں بیٹھے
"ہوئے ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ کسی شئے کی آہٹ سنائی دی۔ میں سوچنے لگا کہ یہ آواز کیسی ہے؟ جب اوپر دیکھا تو ایک بہت بڑا اژدھا میری جانب آرہا تھا۔
لیکن اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ! اس خطرنا ک اژدھے کو دیکھ کر بھی میرا دل مطمئن تھا۔ خوف و وحشت کا نام تک نہ تھا۔ اژدھا قریب آیا اور میرے گرد دائرہ بنا کر بیٹھ گیا۔ میں سوچ ہی رہا تھا کہ کنوئیں سے باہر کیسے نکلا جائے؟ اژدھے نے اپنی دم میرے گرد لپیٹی اور مجھے کنویں سے باہر نکال دیاپھر میرے جسم سے علیحدہ ہو کر لمحہ بھر میں میری آنکھوں سے اوجھل ہوگیا خوب اِدھر اُدھر دیکھامگروہ کہیں نظر نہ آیا۔ نہ جانے اس مددگار اژدھے کو زمین کھاگئی یا آسمان نگل گیا؟پھر میں اٹھ کھڑا ہوا اور اس غیبی امدادپر اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شکر ادا کرتا ہوا اپنی منزل کی جانب چل دیا۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرت سیدناعُبَیْدُاللہ بن شُمَیْط بن عَجْلَان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں،میں نے اپنے والد ِ محترم کو یہ ارشاد فرماتے سنا: مؤمن اپنے نفس کو اس طرح سمجھا تا ہے:
''اے نفس! یہ دنیوی فانی زندگی صرف تین دن ہی تو ہے۔ ایک تو گزر گیا ۔ ایک وہ ہے جس میں تو ہے، سمجھ لے کہ بس یہ بھی گزر گیا۔ کل کا دن تو ایک ایسی کھوکھلی اُمید ہے جسے شاید تو نہ پاسکے ،اگر تو کل تک زندہ رہا تو کل کا دن تیرارزق ساتھ لے کر آئے گا اور کل نہ جانے کتنے لوگوں کو موت کا پیغام مل جائے گا، ہوسکتا ہے تو بھی انہی میں شامل ہو جنہیں پیغامِ اَجل( یعنی موت کاپیغام) ملنے والا ہے۔ اے نفس! ہر دن کے لئے اس دن کا غم ہی بہت ہے۔ پھر اگر مزید زندگی ملی تو تیرے کمزور و ناتواں دل پر قحط سالی اور گردشِ ایام کا غم مسلَّط رہے گا۔ کبھی اشیاء کا ارزاں و قیمتی مزہ تجھے پریشان کریگا تو کبھی گرمیوں میں ہی تو سخت سردی آنے کے غم میں مبتلا ہوجائے گا۔ اسی طرح سردیوں میں گرمی آنے سے قبل ہی تجھے اس کا غم نڈھال کردے گا۔ جب تجھے اتنے سارے غم ہوں گے تو تیرا دل آخرت کے غم کی طرف کیسے متوجہ ہوگا؟ یاد رکھ! ہر ہر دن تیری مدّتِ عمر کو کم کررہا ہے، لیکن تجھے کوئی پرواہ نہیں ۔ تیرا رزق ہر روز پورا ہوتا جارہا ہے، لیکن تجھے کوئی غم نہیں! تجھے بقدرِ کفایت روزی مل جاتی ہے، لیکن پھربھی تو دھوکہ دینے والی اشیاء کی طلب میں سرگرداں ہے۔"
قلیل پر قناعت نہیں ملتی، کثیر سے تیرا پیٹ نہیں بھرتا، آخر یہ غفلت کب تک ؟ تو ان باتوں سے خوب واقف ہے،پھر بھی اپنی جہالت سے آگاہ کیوں نہیں ہوتا؟ حالانکہ توبخوبی جانتا ہے کہ جن نعمتوں کی خوشگوار برسات میں تونہارہا ہے ان کا شکر ادا کرنے سے تو عاجز ہے۔ ان نعمتوں کا شکر ادا نہیں ہوسکتا، لیکن پھر بھی تجھے زیادہ کی طلب نے دھوکے میں مبتلا کررکھا ہے۔ وہ شخص اپنی آخرت کے لئے کیا تیاری کریگا؟ جس کی دنیوی خواہشات ہی پوری نہیں ہوتیں، جس کے دنیوی مطالبات ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے۔ انتہائی تعجب ہے اس پر جو ہمیشہ کے گھر(یعنی جنت) کی تصدیق کرنے کے باوجود دھوکے کی زندگی کے لئے سرگرداں ہے! صد ہزار افسوس ایسے شخص پر!''
حضرتِ سیِّدُنا سَوَّار علیہ رحمۃ اللہ الغفّار فرماتے ہیں:''ایک دن جب میں''خلیفہ مہدی'' کے دربار سے واپس آیا تونہ جانے کیوں بے قراری و بے چینی سی محسوس ہونے لگی، نیند میری آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ میں اٹھا سواری تیار کی اور باہرآگیاراستے میں اپنے کاروباری وکیل سے ملاقات ہوئی ،اس کے پاس دراہم کی تھیلیاں تھیں میں نے پوچھا :''یہ رقم کہاں سے آئی؟'' کہا: ''یہ کاروباری نفع کے دو ہزار (2000) درہم ہیں۔'' میں نے کہا:''انہیں اپنے پاس رکھو اور میرے پیچھے پیچھے چلے آؤ۔''اتنا کہہ کر میں نہر کی جانب چل پڑا ، پُل عبور کرکے شارع ''دارِ رفیق'' کی طرف صحراء کے قریب پہنچ کرکچھ دیر ''بابِ ِانبار '' کے گردگھومتا رہا،پھر بابِ انبار کی سڑک پر چلتا ہوا ایسے صاف ستھرے مکان کے قریب رُکا جو سرسبز و شاداب اور درختوں سے بھرا ہوا تھا۔
"دروازے پر خادم موجود تھا۔ میں نے پانی مانگا تو وہ خوشبودار میٹھے پانی سے بھراایک بہترین گھڑا لے آیا۔ میں نے پانی پی کر اس کا شکریہ اداکیااورنمازِ عصر کے لئے قریب ہی ایک مسجد میں چلا گیا۔
نمازِ عصرکے بعد ایک نابیناشخص نظر آیا جو کسی کو ڈھونڈ رہا تھا۔ میں نے کہا:'' اے بندۂ خدا!تجھے کس کی تلاش ہے؟'' کہا: ''میں آپ ہی کو ڈھونڈ رہا ہوں۔'' میں نے کہا:'' کہو! کیا کام ہے؟''اس نے بیٹھتے ہوئے کہا: '' میں نے آپ سے بہت عمدہ خوشبو سونگھ کر یہ گمان کیا ہے کہ آپ مالدار لوگوں میں سے ہیں۔ میں آپ سے کچھ کہناچاہتا ہوں، اگر اجازت ہو توعرض کروں؟'' میں نے کہا: '' بتاؤ! کیا بات ہے؟'' اس نے قریب ہی موجود ایک عمدہ محل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:'' آپ اس محل کو دیکھ رہے ہیں ؟'' میں نے کہا :'' ہاں۔'' کہا:'' یہ عظیم الشان محل میرے والد کا تھا اسے بیچ کر ہم خراسان چلے گئے۔ گردشِ ایام کی زَد میں آکر ہم اپنی نعمتوں سے محروم ہوتے چلے گئے، تنگدستی و مفلسی نے ہمارے آنگن میں ڈیرے ڈال لئے، بالآخر میں مجبور ہو کر یہاں آیاتاکہ اس نئے مالک سے کچھ امداد کا مطالبہ کروں اور اپنے والد کے بہترین دوست سَوَّار کے پاس پہنچ کر اپنی حالت سے آگاہ کروں۔''
نابینے نوجوان کی گفتگو سُن کر میں نے پوچھا:''تمہارے والد کا نام کیا ہے؟'' جب اس نے اپنے والد کا نام بتایا تووہ واقعی میرا بہترین اور سچا دوست تھا۔ میں نے اس نوجوان سے کہا:'' اے نوجوان! اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تجھے تیرے مطلوب تک پہنچا دیا، اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس سے نیند اور کھانے پینے کو روکے رکھا یہاں تک کہ اسے تیرے پاس لے آیا۔ سنو! میں ہی تمہارے والد کا دو ست ''سَوَّار'' ہوں۔ آؤ! میرے قریب آکر بیٹھو۔'' نوجوان یہ سن کر حیرانی و خوشی کے عالَم میں میرے قریب آبیٹھا۔ میں نے اپنے کاروباری وکیل سے دو ہزار درہم لئے اور اس نوجوان کو دیتے ہوئے کہا:'' ابھی یہ رقم اپنے پاس رکھ لو اور کل میرے گھر چلے آنا۔ یہ کہہ کر میں وہاں سے چلا آیا۔ میں نے سوچا کیوں نہ اس واقعہ کی اطلاع خلیفہ مہدی کو دی جائے۔ چنانچہ، میں خلیفہ کے پاس پہنچا اور اوّل سے آخر تک سب واقعہ کہہ سُنایا۔ خلیفہ یہ سن کر بہت متعجب ہوا اور میرے لئے دو ہزار درہم دینے کا حکم دیا۔میں واپس آنے لگا تو کہا: '' بیٹھو اور یہ بتاؤ کہ کیا تم پر کسی کا قرض وغیرہ ہے ؟'' میں نے کہا :'' ہاں! میں پچاس ہزار (50,000) دینار کا مقروض ہوں۔'' خلیفہ چند لمحے خاموش رہا پھر تھوڑی دیر گفتگو کرنے کے بعد کہا : '' اب تم اپنے گھر چلے جاؤ۔'' میں واپس آنے لگا تو میرے ساتھ ایک غلام تھاجس کے پاس پچاس ہزار دینار تھے۔ اس نے مجھ سے کہا:'' خلیفہ نے حکم دیا ہے کہ اس رقم کے ذریعے اپنا قرض ادا کیجئے۔''میں نے وہ رقم لے لی۔
آج دوسرا دن تھالیکن وہ نابینا نوجوان ابھی تک نہ آیا تھا۔ میں اسی کے انتظار میں تھا کہ خلیفہ کی طرف سے بلاوا آگیا۔ میں وہاں پہنچا تو خلیفہ نے کہا:'' ہم نے تمہارے معاملے میں غور کیا تو اس نتیجے پر پہنچے کہ تمہارا قرض تو ادا ہوجائے گا لیکن اس کے بعد دیگر ضروریات کے لئے تمہیں پھر کسی سے قرض لینا پڑے گا یا اورکسی اور امر کی طرف محتاجی ہوگی، لہٰذا میں تمہیں مزید پچاس ہزار"
"دینار دے رہا ہوں ،جاؤ! یہ تمہیں مُبَارَک ہوں۔'' میں پچاس ہزار دینار لے کر دربار سے چلا آیا۔ ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ وہ نابینانوجوان آگیا۔ میں نے کہا:''اللہ عَزَّوَجَلَّ بڑا جَوَادوکریم ہے اس نے اپنے فضل و کرم کی خوب بارش برسائی ہے۔ یہ لو!یہ دوہزار دینارلے جاؤ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ بہت رحیم و کریم ہے۔'' نوجوان نے وہ رقم لی اور مجھے دعائیں دیتا ہوارخصت ہوگیا۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُناجَعْفَر بن محمد صادِق علیہ رحمۃ اللہ الرازق سے منقول ہے،بنی اسرائیل کا ایک شخص سفر پر جانے لگا تو اپنے بھائی سے عہد لیا کہ ''تم میری بیوی کی خدمت اور دیکھ بھال کرو گے۔'' اس نے اقرارکر لیا اور یقین دہانی کراتے ہوئے کہا :''بھائی جان! آپ بے فکر ہو کر سفر پر جائیں، آپ کو کسی قسم کی کوئی شکایت نہ ہوگی ،میں ہر طرح سے آپ کی زوجہ کا خیال رکھوں گا۔'' چنانچہ، وہ مطمئن ہو کرسفر پر روانہ ہوگیا۔ اس نے اپنی بھابھی کے ساتھ رہنا شروع کردیا۔ عورت کے حسن و جمال نے اس کی آنکھوں پر غفلت کا پردہ ڈال دیا،وہ اپنی بھابھی پر عاشق ہوگیا اور ا پنے بھائی سے کئے ہوئے عہد کو توڑ کر اس کی بیوی کو اپنے ارادے سے آگاہ کرتے ہوئے گناہ کی دعوت دی ۔ عورت پاکدامن و باحیا تھی، اس نے انکار کردیا۔جب بدبخت و خائن دیْوَر اپنی کوشش میں ناکام ہونے لگا تو دھمکی دیتے ہوئے کہا: ''اگر تم نے میری بات نہ مانی تو میں تمہیں ہلاک کردوں گا۔'' عور ت نے کہا: ''خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم! میں تمہاری گناہ بھری دعوت ہر گز ہر گز قبول نہ کروں گی، تم جو چاہے کرلو۔''پاکباز عورت کے ایمان افروزاور جراءَ ت مندانہ انداز کو دیکھ کروہ خاموش ہوگیا۔ جب اس کا بھائی سفر سے واپس آیا توکہا:'' میرے بھائی! جانتے ہو! تمہاری بیوی نے تمہارے جانے کے بعد کیا گُل کھلایا ؟سنو!وہ مجھے بدکاری کی دعوت دیاکرتی تھی، توبہ توبہ، و ہ تو بڑی بد چلن ہے ۔اس نے تمہارے جانے کے بعدنہ جانے کیا کیا برے کام کئے ہیں۔ ''
بھائی کی یہ باتیں سن کر اسے بہت غصہ آیا اس نے کہا:'' جانتے ہو! تم کیا کہہ رہے ہو؟'' کہا:'' بھائی جان ! اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم !میں بالکل سچ کہہ رہاہوں۔ میں نے حقیقت واضح کردی ہے، ا ب تمہاری مرضی۔'' بھائی کی باتیں سُن کر اس کے دل میں یہ بات جم گئی کہ'' واقعی میری بیوی نے خيانت کی ہے۔ ''غم و غصے کی وجہ سے اس نے اپنی بیوی سے بات چیت بالکل بند کردی ۔ بالآخر ایک رات موقع پا کر اپنی پاکباز بیوی کو تلوار کے پے درپے وار کرکے شدید زخمی کردیا۔ جب یقین ہوگیا کہ یہ مرچکی ہے تو"
"وہاں سے چلا گیا۔ خداعَزَّوَجَلَّ کی قدرت کہ شدید زخمی ہوجانے کے باوجودنیک خاتون ابھی زندہ تھی ،وہ گرتی پڑتی ایک راہب کے عبادت خانے کے قریب پہنچی، اس کی درد بھری آہیں سن کر راہب نے اپنے غلام کو بلایا،دونوں اسے اُٹھاکر عبادت خانے میں لے آئے۔ نیک نیت راہب بڑی توجہ سے اس کا علاج کرتا رہا، جس کی وجہ سے وہ بہت جلد صحت یاب ہوگئی۔ راہب کی زوجہ فوت ہوگئی تھی اس کا ایک چھوٹا سا بچہ تھا۔ راہب نے عورت سے کہا:'' اب تم ٹھیک ہوگئی ہو اگر جانا چاہو تو بخوشی چلی جاؤ، اگر یہاں رہنا چاہو تو تمہاری مرضی ۔''
عورت نے کہا:'' میں یہیں رہ کرآپ کی خدمت میں زندگی گزارناچاہتی ہوں۔'' راہب نے اپنا بچہ اس کے حوالے کر دیا۔ نیک و پارساخاتون بڑی دل جمعی سے اس کی پرورش کرنے لگی۔ راہب کا سیاہ فام غلام عورت کے حسن کو دیکھ کر بدنیت ہوگیا اور موقع کی تلاش میں رہنے لگا۔ا یک دن اس نے اپنی نیتِ بد کا اظہار کرتے ہوئے اس پاکبازو باحیا عورت کو بدکاری کی طرف بلایا اور کہا: '' بخدا! یا تو میری بات مان لے اور میری خواہش پوری کر دے ورنہ میں تجھے ہلاک کردوں گا۔'' خوفِ خدا رکھنے والی نیک عورت نے کہا :' میں ہر گز ہر گز تیری بات نہیں مانوں گی تجھے جو کرنا ہے کرلے۔'' بدکار سیاہ فام اپنی ناکامی پر ماتم کرتا ہوا دل میں بغض لئے وہاں سے چلا گیا۔ رات کی سیاہی نے جب ہر شے کو ڈھانپ لیا توسیاہ فام غلام عورت کے پاس آیا ، بچہ اس کی گود میں رو رہا تھا اور وہ اسے بہلا رہی تھی ۔ ظالم و شہوت پرست سیاہ فام غلام نے تیز چھری سے بچے کا گلا کاٹ دیا،چند ہی لمحوں میں اس نے تڑپ تڑپ کر جان دے دی ۔ غلام دوڑکرراہب کے پاس گیا اور کہا: '' حضور! کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کی اس مہمان خبیث عورت نے کیا کارنامہ کیا ہے ؟ کیا آپ کو معلوم ہے اس نے آپ کے ننھے منے بچے کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے ؟آپ نے اس کے ساتھ احسان کیا لیکن اس نے آپ کے بچے کے ساتھ بہت برا سلوک کیا ہے۔ ہائے !ہائے! کیسی ظالم عورت ہے۔'' راہب غلام کی باتیں سن کر بہت متعجب ہوا اور پریشان ہو کر کہا:'' تیرا ناس ہو! بتا تو سہی اس نے میرے بچے کے ساتھ کیا کیا ہے؟'' کہا: '' حضور! اس نے آپ کے لاڈلے بچے کو ذبح کر ڈالا ہے، اگر یقین نہیں آتا تو چل کر خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔'' راہب دوڑتاہوا وہاں پہنچا تو دیکھا کہ واقعی بچے کا گلا کٹا ہواہے اوراس کا جسم خون میں لَت پَت ہے ۔ راہب نے عورت سے پوچھا: '' میرے بچے کو کیا ہوا ؟'' کہا:'' میں نے اس کے ساتھ کچھ نہیں کیا بلکہ آپ کے غلام نے مجھے گناہ کی دعوت دی جب میں نے انکار کیا توا س نے بچے کوقتل کردیا۔میں اس معاملے میں بالکل بے قصور ہوں۔ ''
راہب نے کہا:'' اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بندی! تو نے اپنے معاملے میں مجھے شک میں مبتلا کردیا ہے، اب میں نہیں چاہتا کہ تو میرے ساتھ رہے۔ یہ پچاس(50) دینار لے جا اور جہاں تیرا جی چاہے چلی جا ،یہ دینار تیری ضروریات میں کا م آئیں گے۔'' عورت نے پچاس دینار لئے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے امید لگائے غیرمتعین منزل کی طرف چل دی۔ایک بستی کے"
"قریب سے گزری تو دیکھا کہ مجمع لگاہواہے اور ایک شخص کو پھانسی دینے کے لئے لایا جارہا ہے،بستی کا سردار بھی وہیں موجود تھا ۔ عورت سردار کے پاس گئی اور کہا:'' کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ تم مجھ سے پچاس دینار لے لو اور اس شخص کو آزاد کردو۔''سردار نے کہا: ''لاؤ! رقم میرے حوالے کرو۔'' عورت نے پچاس دینار دیئے توسردار نے قیدی کورِہا کردیا۔وہ قیدی اس پاکباز صابرہ خاتون کے پاس آیا اور کہا:''میری جان بچاکر تو نے جو احسان کیا ہے آج تک کسی نے مجھ پرایسا احسان نہیں کیا۔ اب میں تیری خدمت کروں گا یہاں تک کہ موت ہمارے درمیان جدائی کردے۔''
چنانچہ، وہ شخص اس عورت کو لے کر ساحلِ سمندر پر پہنچا، کشتی چلنے ہی کو تھی دونوں کشتی میں سوار ہوگئے۔ عورت کا حسن وجمال دیکھ کر سارے مسافر حیران رہ گئے ۔ وہ عورتوں والے حصے میں بیٹھ گئی۔ لوگوں نے قیدی سے کہا:'' یہ حسین و جمیل عورت کون ہے ؟ '' اس بدبخت نے کہا: ''یہ میری زر خرید لونڈی ہے۔''کشتی میں موجود ایک شخص جو اس عورت کے حسن میں گرفتار ہوچکا تھا، اس نے کہا:'' کیا تم اپنی لونڈی فروخت کرو گے؟'' کہا : ''میں اسے بیچنا نہیں چاہتا کیونکہ وہ مجھ سے بہت زیادہ محبت کرتی ہے، جب اسے معلوم ہوگا کہ میں نے اسے بیچ دیا ہے تو اسے میری طرف سے بہت تکلیف پہنچے گی، اس نے مجھ سے عہد لیا ہے کہ میں اسے کبھی نہ بیچوں گا۔'' مسافر نے کہا:'' تو مجھ سے منہ مانگی قیمت لے لے اور خاموشی سے چلا جا! تجھے کیا ضرورت ہے کہ تو اسے بتائے ۔'' لالچی واحسان فراموش، دھوکے بازقیدی نے مال کے وبال میں پھنس کر مسافر سے بہت سارا مال ليا اور کشتی سے اُتر گیا۔ مسافر نے اس خرید وفروخت پر تمام مسافروں کو گواہ بنالیا۔ عورت چونکہ مستورات والے حصے میں تھی اس لئے اس معاملے سے بے خبر رہی۔ جب مسافر کو یقین ہوگیا کہ اس کامالک جاچکا ہے اب واپس نہیں آسکتا تو وہ عورت کے پاس آیا اور کہا:'' آج سے تم میری ملکیت میں ہو، میں نے تمہیں خرید لیا ہے۔''
عورت نے کہا: '' خدا عَزَّوَجَلَّ کا خوف کر! تو نے مجھے کیسے خرید لیا؟ جبکہ میں آزاد ہوں اورکسی کی ملکیت میں نہیں۔'' مسافر نے کہا:'' ان باتوں کو چھوڑ،تیرا مالک تجھے بیچ کر یہاں سے جاچکا ہے۔ اب نہ تو اپنے مالک کے پا س جا سکتی ہے نہ ہی وہ رقم واپس کرسکتی ہے جو تیرے مالک نے مجھ سے لی ہے ،میں نے مالِ کثیر دے کر تجھے خریدا ہے اورتمام مسافر اس پرگواہ ہیں۔ اگر یقین نہیں آتا تو ان سے پوچھ لے۔ سب مسافروں نے کہا:''اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی دشمن!اس نے واقعی تجھے خریداہے ،ہم سب اس پرگواہ ہیں۔''نیک وپاکباز،جرأت مندعورت نے کہا:''تمہاراناس ہو! اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو۔خداعَزَّوَجَلَّ کی قسم!میں آزاد ہوں، آج تک کبھی کوئی میرامالک نہیں بنا۔میں کسی کی لونڈی نہیں کہ مجھے کوئی بیچے۔تم اس معاملہ میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو۔لوگوں نے اس مسافر سے کہا: ''یہ اس طرح باز نہیں آئے گی، اس کے ساتھ جوسلوک کرناہے کرڈال، خودہی مان جائے گی۔''یہ سن کرمسافراس کی طرف بڑھا۔ جب اس مظلومہ کو اپنی عزت کاخطرہ محسوس ہواتواس نے کشتی والوں کے لئے بددعا کی ۔فوراً کشتی ان سب کولے کرڈوب"
"گئی۔سب کے سب غرق ہوگئے اورکشتی کے تختے پرعورت کے علاوہ کوئی باقی نہ بچا۔
وہ عیدکادن تھا،بادشاہ اپنی رعایاکے ساتھ ساحلِ سمندرپرآیاہواتھا،تمام لوگ خوشیاں منارہے تھے ،جب بادشاہ نے کشتی کوڈوبتے دیکھاتوفوراًتیراک سپاہیوں کوحکم دیا: '' جلدی سے کشتی والوں کی مددکو پہنچو۔''سپاہی گئے توانہیں اس نیک عورت کے علاوہ کوئی اورزندہ نہ ملا۔وہ اسے لے کربادشاہ کے پاس آئے ،بادشاہ نے حقیقتِ حال دریافت کرتے ہوئے نکاح کاپیغام دیا۔لیکن اس نے یہ کہہ کرانکارکردیا:'' میراقصّہ بڑاعجیب وغریب ہے ، میرے لئے نکاح کرناجائزنہیں ۔''بادشاہ نے جب یہ سناتواس کے لئے علیحدہ مکان بنوادیااوروہ اس میں رہنے لگی۔لیل و نہار(یعنی رات دن) گزرتے رہے،وقت کی گاڑی تیزی سے چلتی رہی۔ بادشاہ کوجب بھی کوئی اہم معاملہ پیش آتاتو وہ اس پاکبازعورت سے مشورہ کرتا۔اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اس کے مشوروں میں ایسی برکت دی کہ ان پرعمل کرکے بادشاہ کو ہمیشہ کامیابی ہوتی ۔اب بادشاہ کے نزدیک یہ پاکبازعورت بہت معظم ہوگئی تھی وہ اسے بہت بابرکت سمجھنے لگا۔ جب بادشاہ کی موت کا وقت قریب آیاتواس نے اپنے وزیروں،مشیروں اوررعایاکوجمع کرکے کہا:''اے لوگو!تم نے مجھے کیساپایا؟''سب نے بیک زبان جواب دیاـ:''اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کواچھی جزا عطافرمائے ،آپ ہمارے لئے رحیم باپ کی طرح ہیں ۔''بادشاہ نے کہا:''اے لوگو!توجہ سے میری بات سنو!تم نے محسوس کیاہوگاکہ ہماری نیک سیرت مہمان خاتون کے قابلِ قدرمشوروں کی بدولت ہمارے ملک کانظام بہت بہترہوگیاہے ۔میں نے اسے اپنے ہر معاملے میں بابرکت پایا۔میں تمہارے لئے ایک بہت اچھی تدبیرکرناچاہتاہوں۔''لوگوں نے تجسُّس بھرے اندازمیں کہا:''عالی جاہ!حکم فرمائیں آپ کیاچاہتے ہیں؟'' کہا: ''میں چاہتاہوں کہ اپنے بعداس نیک سیرت خاتون کوتم پرملکہ مقررکردوں ۔'' شفیق ورحیم بادشاہ کے حکم پر''لَبَّیْک '' کہتے ہوئے سب نے عرض کی :''عالی جاہ!جیساآپ چاہتے ہیں ،اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ ویساہی ہوگا ۔'' چنانچہ، بادشاہ نے اس باحیا،نیک سیرت وصابرہ خاتون کوپورے ملک کی سلطنت عطاکردی اورخود دارِ فانی سے کوچ کرکے دارِ بقاکاراہی بن گیا۔
اس نے ملکہ بنتے ہی اعلان کردیاکہ پورے ملک کے لوگ بیعت کے لئے جمع ہوجائیں۔ حکمِ شاہی ملتے ہی ملک کے گوشے گوشے سے لوگ نئے بادشاہ کی بیعت کے لئے جمع ہوگئے۔ بیعت کاسلسلہ شروع ہوا۔جب اس کاشوہراوردیورآئے توحکم دیاکہ ان دونوں کو علیحدہ کھڑا کردو۔ پھروہ شخص آیاجسے پھانسی دی جارہی تھی (اورجس احسان فراموش نے اپنی اس محسنہ کوبیچ دیاتھا)ملکہ نے حکم دیاکہ اسے بھی ان دونوں کے ساتھ کھڑا کردو۔پھرنیک سیرت راہب اوراس کابدکردارسیاہ فام غلام آیاتوانہیں بھی لوگوں سے علیحدہ کر دیاگیا۔جب تمام لوگ بیعت کرچکے توملکہ نے ان پانچوں کواپنے پاس بلوایااوراپنے شوہرسے کہا:''کیاتم مجھے پہچانتے ہو؟'' اس نے کہا:'' خداعَزَّوَجَلَّ کی قسم ! آپ ہماری ملکہ ہیں ۔'' کہا:''میں تمہاری بیوی ہوں ۔ سنو!تمہارے بدکرداروخائن بھائی نے میرے ساتھ کیسابراسلوک کیاتھا۔''یہ کہہ کرساراواقعہ اسے بتایااورکہا:''اللہ عَزَّوَجَلَّ خوب جانتاہے کہ تم سے جداہونے سے لے کر"
"آج تک مجھے کسی مردنے نہیں چھوا۔میں آج بھی پاک دامن ومحفوظ ہوں۔''پھراس نے اپنے دیورکوبلاکرپھانسی کاحکم دے دیا۔ پھر راہب سے کہا:''اگرآپ کی کوئی حاجت ہوتوبتاؤ،میں وہی عورت ہوں جوتمہارے پاس زخمی حالت میں آئی تھی۔'' تمہارے بیٹے کو تمہارے اس ظالم وشہوت پرست سیاہ فام غلام نے ذبح کیاتھا۔''پھر غلام کوبلواکراسے بھی قتل کروادیا۔اب اس شخص کی باری تھی جسے پھانسی دی جارہی تھی اورملکہ نے اسے بچایاتھا۔ جب وہ آیاتواسے بھی قتل کردیا گیا اور اس کی لاش چوراہے پرلٹکادی گئی اوریوں وہ اپنے انجامِ بد کو پہنچ گیا۔ باحیا و پاک دامن خاتون نے ہرآن اپنی عزت کی حفاظت کی، احکامِ خدا وندی عزوجل کو پیشِ نظر رکھااور صبرواستقامت سے کام لیا۔آج اسے تاج وتخت اورعزت وعظمت کی دولت میسرتھی۔جب تک خالقِ کائنات عَزَّوَجَلَّ نے چاہاوہ بحسن وخوبی امورِ سلطنت انجام دیتی رہی پھر اس دارِفانی سے دارِبقاکی طرف کوچ کرگئی۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اس سبق آموزحکایت کے اندر عبرت کے بے شمارمدنی پھول ہیں۔ مثلاً:(۱)۔۔۔۔۔۔بغیرتحقیق کے کبھی کسی کے بارے میں بدگمانی نہیں کرنی چاہے۔(۲)۔۔۔۔۔۔کبھی بھی غیرمحرم کے ساتھ تنہائی اختیار نہیں کرنی چاہے اور دَیور تو موت ہے۔(۳)۔۔۔۔۔۔نیک لوگ مال و دولت دے کربھی دوسروں کومصیبتوں اورآفتوں سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ (۴)۔۔۔۔۔۔دولت کاحریص اپنے محسنوں کوبھول جاتاہے اور اُن کے ساتھ ایساسلوک کر گزر تا ہے جوکسی طرح بھی روا وجائز نہیں۔ (۵)۔۔۔۔۔۔بلاتحقیق کسی پرکوئی حکم نہیں لگاناچاہے۔(۶)۔۔۔۔۔۔شہوت پرستی گناہوں کے سمندرمیں غرق کردیتی ہے اور اس میں ڈوب کرانسان جہنم کی تہہ تک پہنچ جاتا ہے۔ (۷)۔۔۔۔۔۔انسان کیسی ہی حالت سے دوچارہوپھر بھی احکامِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ کی پابندی کرے اور اپنی عزت و ایمان کوکسی قیمت پرنہ چھوڑے۔(۸)۔۔۔۔۔۔بندہ مصیبتوں،ظلم وستم کی آندھیوں اورغم وحزن کی دشوار گزار گھاٹیوں سے گزرکرایک نہ ایک دن خوشیوں اورعزتوں کے گلشن میں ضرورپہنچتاہے۔(۹)۔۔۔۔۔۔انسان کواس کے برے اعمال کا برا اوراچھے اعمال کااچھاصلہ ضرورملتاہے۔جوہرحال میں اللہ ورسول عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے احکام کی پابندی کرتا ہے وہ کبھی ناکام نہیں ہوتا،نصرتِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ ہروقت اس کے ساتھ ہوتی ہے ۔اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں نیک امور پر استقامت عطافرمائے۔(۱۰)۔۔۔۔۔۔اپنی عزت وعصمت کی ہمیشہ حفاظت کرنی چاہے۔ کسی بھی حالت میں دولتِ عزت کی چادر داغ دارنہیں ہونی چاہے کیونکہ ایمان کے بعد عز ت ہی سب سے بڑی دولت ہے۔سب کچھ چھوٹے توچھوٹ جائے لیکن ایمان وعزت ہاتھ سے نہ جانے پائے ورنہ دونوں جہاں کی بربادی ہے ۔اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں ایسی مدنی سوچ عطافرمائے کہ ہم بھی ہرحال میں حکمِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ اورسنتِ نبوی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی پیروی کریں اورگناہوں سے نفرت کرتے رہیں۔)
(آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرت جَعْفَربن ابو مُغِیْرَہ کابیان ہے: کوفہ میں'' حُطَیْط'' نامی عابد رہاکرتاتھا۔اس کی عبادت کایہ عالَم تھاکہ روزانہ دو قرآنِ پاک ختم کیاکرتا۔ہرسال کوفہ سے برہنہ پا(یعنی ننگے پاؤں)ننگے سرمکۂ مکرمہ زَادَہَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا جاتا۔ ظالم حاکم''حَجَّاج'' کو اس کے بارے میں پتاچلاتواس نے سپاہیوں کواس کی تلاش میں بھیجا۔جب اس نوجوان کولایاگیاتواس نے حَجَّاج سے کہا:''مجھے یہاں کیوں بلایاگیاہے؟'' حَجَّاج نے کہا:''میں تم سے کچھ پوچھناچاہتاہوں ،سچ سچ بتانا۔''کہا:''میں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ سے عہدکیاہے کہ جب بھی مجھ سے کوئی بات پوچھی جائے گی میں سچ سچ جواب دوں گا،مصیبت میں مبتلاکردیاگیاتو صبرکروں گا،معاف کردیاگیاتو حمدوشکر بجا لاؤں گا۔'' حَجَّاج نے کہاـ:''تم میرے بارے میں کیاکہتے ہو؟'' کہا:''اے حَجَّاج!تواللہ عَزَّوَجَلَّ کادشمن ہے تجھے توقتل کر دینا چاہے۔'' حَجَّاج نے پوچھا:''اچھاخلیفہ کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟''کہا:''تواس کے شرکے انگاروں میں سے ایک انگارہ ہے وہ تیری نسبت زیادہ مجرم وقابلِ سزاہے۔''
یہ سن کرحَجَّاج غیظ وغضب کی آگ میں جل اٹھااورچِلاَّکربولا:''اسے پکڑلواورطرح طرح کی دردناک سزاؤں کامزا چکھاؤ۔''خوشامدی سپاہیوں نے فوراََاس دلیرومجاہدمُبَلِّغ کوپکڑکراذیت ناک سزائیں دینی شروع کر دیں مگر اس صبرورضا کے پیکرنے بالکل چیخ وپکارتک نہ کی ۔جب حَجَّاج کوخبردی گئی تواس نے کہا:''کچھ بانس چیرکراس کے برہنہ جسم پرسختی سے باندھ دو پھر زخموں پرنمک وسِرکہ چھڑک کربانسوں کی تیزدھاروں سے اس کی کھال نوچ ڈالو۔''حکم ملتے ہی جَلَّادوں نے اس ولئ کامل کے جسمِ نازنین پرمصیبتوں کے پہاڑتوڑڈالے،جب ساراجسم زخموں سے چُورچُورہوگیاتوزخموں پرنمک اورسرکہ ڈالاگیا۔لیکن اس کوہِ استقامت کے پائے استقلال میں ذرہ برابربھی تزلزل نہ آیا۔حَجَّاج کوجب یہ خبرپہنچی تو کہا:'' اسے بازارلے جاکرچوراہے پر اس کا سرقلم کردو۔''چنانچہ، اس حق گومبلغ کوبازارلایاگیا،راوی کابیان ہے کہ میں اس وقت وہاں پرموجود تھا۔ جب اس کی آخری خواہش پوچھی گئی تواس نے کہا:''مجھے پانی پلادو۔''اسے پانی دیاگیاتوپانی پیتے ہی اس کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔ انتقال کے وقت اس عابد وزاہد نوجوان کی عمراٹھارہ برس تھی۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُناوَہْب بن مُنَبِّہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے،''حضرتِ سیِّدُناعبداللہ بن قِلَابَہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے گمشدہ اونٹوں کی تلاش میں نکلے۔جب عدن کے صحرا میں پہنچے توایک عظیم الشان شہر ظاہرہواجس کے گردقلعہ بناہواتھااورقلعے کے اردگرد بہت سے خوبصورت محل تھے۔ وہ یہ سوچ کراس طرف گئے کہ کسی سے اپنے اونٹوں کے متعلق پوچھ لیں گے،لیکن وہاں کوئی نظر نہ آیا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سواری سے اتر کر گلے میں تلوار لٹکائے قلعے میں داخل ہوئے تودوبڑے بڑے دروازے دیکھے جن پر سفید وسرخ قیمتی موتی جَڑے ہوئے تھے، ایسے مضبوط اور خوب صورت دروازے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پہلے کبھی نہ دیکھے تھے۔ ویران صحرا میں عظیم ُ الشَّان خوب صورت شہر دیکھ کر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت گھبر ا ئے۔ جب ایک دروازہ کھول کراندر داخل ہوئے تو اپنے آپ کوایک ایسے شہرمیں پایا جس میں بہت سے محلات تھے۔ ہر محل کے اوپرکمرے تھے جن کے اوپرسونے سے بنے ہوئے بہت سے کمرے تھے۔ان کی تعمیر میں سونا، چا ندی اورقیمتی جواہرات استعمال کئے گئے تھے۔ان مکانوں کی بلندی، شہرمیں تعمیر شدہ کمروں جتنی تھی۔ صحن میں جابجا قیمتی پتھر اور مشک و زعفران کی ڈَلیاں بکھری ہوئی تھیں۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہاں سے کچھ قیمتی موتی اورمشک وزعفران کی ڈلیاں اُٹھائیں ،لیکن دروازوں اورصحن میں نصب موتیوں اورجواہرات کوجدانہ کر سکے۔ پھر اپنی اونٹنی پرسوار ہوکر اس کے قدموں کے نشانات پرچلتے ہوئے واپس یمن پہنچے اور لوگوں کواس عجیب وغریب شہرکے متعلق بتاتے ہوئے وہاں سے لائی ہوئی چیزیں دکھائیں۔ طویل عرصہ گزرنے کی وجہ سے ان موتیوں کارنگ پیلا ہو چکا تھا ۔
جب یہ واقعہ پورے ملک میں مشہورہوگیاتوامیرالمؤمنین حضرتِ سیِّدُناامیر مُعَاوِیَہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کواپنے پاس بُلاکرواقعہ دریافت کیا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس عجیب وغریب شہراوروہاں کی اشیاء کے متعلق سب کچھ بتا دیا۔ امیر المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا امیر مُعَاوِیَہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ باتیں بڑی عجیب معلوم ہوئیں،آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مُتعجب ہو کر پوچھا: '' تم نے جوباتیں بیان کیں ان کے سچ ہونے کے بارے میں،مَیں کیسے یقین کر لوں؟''عرض کی :''حضور! میں وہاں کے موتی جواہرات اپنے ساتھ لے آیا تھا، کچھ چیزیں اب بھی میرے پاس موجود ہیں، یہ کہہ کر آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کچھ یاقوت پیش کئے جوعام یاقوتوں کی نسبت قدرے پیلے ہوچکے تھے ۔کچھ مشک کی ڈَلیاں پیش کیں جن میں خوشبونہ تھی ، لیکن جب انہیں توڑا گیا تو ان میں سے تیزخوشبونکلی جسے امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سونگھااسی طرح زعفران کی خوشبوبھی سونگھی۔ اب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کواس واقعہ کایقین ہوگیاتھا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں سے پوچھا: ''ایسا کون ہے؟ جومجھے اس عجیب وغریب شہراوراس کے"
"بانی کانام بتائے اوریہ بتائے کہ یہ کس قوم کا واقعہ ہے؟'' خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! حضرتِ سیِّدُناسلیما ن بن داؤد علٰی نبینا وعلیہما الصلٰوۃ والسلام کی مثل کسی کو سلطنت عطانہیں کی گئی،اس طرح کاشہرتوان کے ملک میں بھی نہ تھا۔ '' بعض لو گو ں نے عرض کی:''اے امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ! اس زمانے میں پوری دُنیا میں اس واقعہ کے متعلق صحیح معلومات صرف حضرتِ سیِّدُناکَعْبُ الْا َ حْبَار رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی فراہم کر سکتے ہیں۔ اگر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مناسب سمجھیں توانہیں بلوائیں اورحضرتِ سیِّدُناعبداللہ بن قِلَابَہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو چھپادیں، اگر واقعی یہ اس شہرمیں داخل ہوئے ہوں گے توحضرتِ سیِّدُنا کَعْبُ الْا َ حْبَار رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہراوراس میں داخل ہونے والے کے بارے میں ضرور بتائیں گے کیونکہ یہ ایساعظیم معاملہ ہے کہ اس شہرمیں داخل ہو کر اس کے اَسرار (یعنی رازوں) سے واقف ہونے والے کا ذِکر سابقہ کتب میں ضرورہوگا۔اے امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ! اللہ عَزَّوَجَلَّ نے جواشیاء زمین پر پیدا فرمائیں ،جوواقعات وحادثات رونماہوئے اورمستقبل میں جوبھی عظیم واقعات ہوں گے وہ تمام کے تمام تورات میں مفصل بیان کر دئیے گئے۔ اور اس وقت حضرتِ سیِّدُنا کَعْبُ الْاَ حْبَار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سابقہ کتب کے سب سے بڑے عالِم ہیں ۔ اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ وہ آپ کواس واقعہ کی خبرضروردیں گے۔''
امیرالمؤمنین حضرتِ سیِّدُناامیرِمُعَاوِیَہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرتِ سیِّدُنا کَعْبُ الْاَ حْبَار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوبلوا کر فر ما یا : ''اے ابواِسحاق رضی اللہ تعالیٰ عنہ !میں نے تمہیں ایک بڑے کام کے لئے بلایاہے ، اُمید ہے کہ تمہارے پاس اس کاعلم ضرور ہوگا۔'' آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : ''اللہ عَزَّوَجَلَّ علیم وخبیر ہے،اس کے سامنے سب عاجزہیں۔ میراسارا علم اسی کی عطاسے ہے ،فرمائیے! آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیاپوچھناچاہتے ہیں ؟'' فرمایا:''اے ابواِسحاق رضی اللہ تعالیٰ عنہ !مجھے بتاؤکہ کیادنیامیں کسی ایسے شہر کے متعلق تمہیں کوئی خبرپہنچی ہے جوسونے چاندی کی اینٹوں سے بنایاگیاہو۔جس کے ستون زبرجداوریاقوت کے ہوں ۔ جس کے محلات اوربالاخانوں کوموتیوں سے مزین کیاگیاہو،جس میں باغات اورنہریں جاری ہوں اورجس کے راستے کشادہ ہوں ۔''
حضرتِ سیِّدُناکَعْبُ الْاَ حْبَار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:''اے امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ!قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے!مجھے ظنِ غالب تھاکہ اس شہراوراس کے بنانے والے کے متعلق مجھ سے ضرورسوال کیا جائے گا۔ اس شہر کی جوصفات آپ نے بیان کیں اورجوکچھ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوبتایا گیاوہ حق ہے۔اس کو''شَدَّاد بن عَاد'' نے بنایا اور اس کانام ''اِرم'' ہے ۔ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآنِ مجید میں اس طرح ارشادفرمایا:"
اِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ ۪ۙ﴿7﴾ الَّتِیۡ لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُہَا فِی الْبِلَادِ ۪ۙ﴿8﴾
ترجمۂ کنزالایمان:وہ اِرَم حدسے زیادہ طول والے کہ ان جیساشہروں میں پیدانہ ہوا۔(پ30،الفجر:7۔8)
" امیرالمؤمنین حضرتِ سیِّدُناامیرِمُعَاوِیَہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:''اے کَعْب رضی اللہ تعالیٰ عنہ !اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پررحم فرمائے، اس کے متعلق ذرا تفصیل سے بتائیے۔''
فرمایا:''اے امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ !عادکے دوبیٹے تھے، شدیداورشَدَّاد۔جب عاد کا انتقال ہواتودونوں بیٹوں نے سرکشی کی اورقہروغضب سے تمام شہروں پرزبردستی مسلط ہوگئے۔کچھ حکمران توڈرکران کی اطاعت پر مجبور ہوئے اوربقیہ سے جنگ وجدال کرکے اپنی سلطنت میں شامل کرلیا۔یہاں تک کہ تمام لوگ ان کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پرمجبو ر ہوگئے ۔ ان کے زمانے میں مشرق ومغرب میں کوئی ایسانہ تھاجس نے طَوعاًیاکَرھاََ(یعنی خوشدلی یامجبوری سے ) اُن کی حکمرانی قبول نہ کی ہو۔جب دونوں کی سلطنت خوب مضبوط ہو گئی اور ہرجگہ ان کی بادشاہت کے سِکّے بیٹھ گئے تو ''شدید ''مرگیا۔اب ''شَدَّاد''ا کیلا ہی پوری سلطنت کا بادشاہ تھا۔کسی کواس سے جنگ وجدل کرنے کی ہمت نہ تھی۔ شَدَّادکو سا بقہ کتب پڑھنے کابہت شوق تھا۔ان کتابوں میں جب بھی جنت اوراس میں موجود محلات، یاقوت، جواہرات اورباغات کاتذکرہ پڑ ھتا یا سنتا تو اس کاشریر نفس اسے اس بات پرابھارتا کہ تُوبھی ایسی جنت بنا سکتا ہے۔
جب اس بدبخت ونامراد کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی توسو خز ا نچیوں کو بلایااورہرخزانچی کوایک ایک ہزار مد د گا ر دے کر کہا: ''جا ؤ! اورروئے زمین کاسب سے بڑااورعمدہ جنگل تلاش کرو۔پھراس میں ایک ایسا شہر بناؤ جو سونے،چاندی، یاقو ت، زبرجد اور موتیوں سے مزین ہو۔اس کے نیچے زبرجدکے ستون اوپرمحلات اوربالاخانے ہوں،پھران کے اوپرمزیدبہترین وعمدہ کمرے ہوں ان کمروں کے اوپربھی بالاخانے ہوں ۔ محلات کے نیچے گلی کوچوں میں ہرقسم کے ایسے میوہ دار درخت ہوں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں ۔ کیونکہ میں نے سابقہ کتب میں جس جنت کے بارے میں پڑھااورسنا وہ ایسی ہی ہے۔اورمیں ایسی جنت دنیاہی میں بنانا چاہتا ہوں۔''شَدَّادملعون کی یہ بات سن کر خزانچیوں نے کہا:''آپ نے اس شہر کی جو صفات بیان کی ہیں اس کی تعمیرکے لئے اتنے سارے یاقوت،زبرجد،ہیرے جواہرات اورسوناچاندی کہاں سے لائیں گے ۔ ' ' کہا:''کیاتمہیں معلوم نہیں کہ اس وقت ساری دنیاپرمیری حکومت ہے ؟''انہوں نے کہا: ''کیوں نہیں! بے شک ایساہی ہے۔''کہا:''توپھرپوری دنیامیں پھیل جاؤ!زمین پر،سمندرمیں جہاں جہاں زبرجد،یاقوت اور ہیرے جواہرات کا خز ا نہ ہوسب لے لواورہرقوم پرایک ایسا فرد مقررکروجواپنی قوم کے تمام خزانے جمع کرلے۔ جتنا ہمیں مطلوب ہے اس سے کہیں زیادہ خزانہ دنیا میں موجود ہے ۔''یہ کہہ کر شَدَّادنے پوری دنیاکے بادشاہوں کوپیغام بھجوایاکہ وہ اپنے اپنے ملک کا خزانہ میرے شہرمیں بھجوادیں۔حکم پاتے ہی ساری دنیاکے بادشاہ دس سال تک شَدَّادکے شہرمیں اپنے اپنے ملک کا خزانہ جمع کراتے ر ہے ۔ جس میں سونا،چاندی ،یاقوت، زبرجد، ہیرے جواہرات ،الغرض ہرقسم کی زیب وزینت کاسامان تھا۔
حضرتِ سیِّدُناامیرِ مُعَاوِیَہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا:''اے کَعْب رضی اللہ تعالیٰ عنہ !ان بادشاہوں کی تعد ا دکتنی تھی؟' ' فرمایا:"
"''اے امیرالمومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ! وہ دو سو ساٹھ(260) تھے،جب سب سامان جمع ہوگیا توکام کرنے والے نکلے تاکہ ایسی جگہ تلاش کریں جہاں شَدَّادکی جنت بنائی جاسکے کافی تلاش کے بعدوہ ایسے صحراء میں پہنچے جوٹیلوں اورپہاڑوں وغیرہ سے خالی تھا وہ کہنے لگے کہ یہی وہ جگہ ہے جس کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔ بس پھرکیاتھا! کاریگراورمزدورجوق د ر جوق وہاں پہنچنے لگے جتنی جگہ درکارتھی اس کی حدمقررکی،چشمے کھودے ،گلی کُوچے بنائے ،نہروں کے لئے گڑھے کھود ے ان کی جڑوں میں خوشبودار سفید پتھر رکھے۔پھر عمارتوں اورستونوں کے لئے بنیادیں کھودی گئیں اوران میں بھی بہت قیمتی او ر مضبو ط پتھرلگائے گئے ۔اب زبرجد، یاقوت، سوناچاندی اورہیرے جوہرات منگوائے گئے۔کاریگر ستون بنانے لگے ، معمار سونے چاندی کی اینٹوں سے محلات تعمیر کرنے لگے ،دودھ اورخوشبودارپانی کی نہریں جاری کی گئیں۔اور اس طرح اس شہرکی تعمیرمکمل ہوئی۔
حضرتِ سیِّدُنا امیرِ مُعَاوِیَہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا: ''اے کَعْب! خداعَزَّوَجَلَّ کی قسم!میراخیال ہے کہ ا نہیں اس شہرکی تعمیرمیں بہت عرصہ لگاہوگا؟''کہا:''جی ہاں!میں نے ''تورات'' میں پڑھاکہ یہ ساراکام تین سو(300)سال میں مکمل ہوا۔'' آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا: ''شَدَّادبدبخت کی عمرکتنی تھی؟' ' فرمایا: '' نوسو(900)سال ۔'' فرمایا : ''اے ابواِسحاق رضی اللہ تعالیٰ عنہ! آپ نے ہمیں عجیب وغریب خبردی ہے، اس بارے میں مزیدکچھ بتائیے ۔''فرمایا:''اے امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ! اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اس کانام ''اِرَمَ ذَاتِ الْعِمَاد''رکھااس کے ستون زبرجدویاقوت کے تھے،اس شہرکے علاوہ پوری دنیامیں کوئی اور شہر ایسانہیں جویاقوت وزبرجد سے بنایا گیا ہو ۔ چنانچہ ،فرمانِ خداوندی ہے :"
اِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ ۪ۙ﴿۷﴾ الَّتِیۡ لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُہَا فِی الْبِلَادِ ۪ۙ﴿۸﴾
"ترجمۂ کنزالایمان:وہ اِرَم حدسے زیادہ طول والے کہ ان جیساشہروں میں پیدانہ ہوا۔ (پ۳۰،الفجر:۷۔۸)
اے امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ!اس جیساکوئی اورشہرنہیں ،جب شد ا د کو اس کی تکمیل کی خبردی تو اس نے کہا:''جاؤ!اس کے گردمضبوط قلعہ بناؤ اور قلعہ کے گرد ایک ہزارمحل بناؤ،ہرمحل میں ایک ہز ار جھنڈے گاڑو اورہرہرجھنڈے پرایک مخصوص نشان بناؤ،یہ محلات میرے وزراء کے لئے ہوں گے۔''حکم پاتے ہی کاریگرمصروفِ عمل ہوگئے ۔ فراغت کے بعدجب کاریگروں نے شداد کو خبر دی تو اس نے اپنے خاص وزیروں میں سے ایک ہزاروزراء کوحکم دیاکہ میری اس بنائی ہوئی جنت کی طرف چلنے کی تیاری کرو۔'' ہرخاص وعام ''اِرَم'' کی طرف جانے کی تیاری میں لگ گیا۔لوگوں نے جھنڈے اورنشانات اٹھالئے ، حکم جا ری ہوا کہ میرے وزراء اورخاص عہدے داران ،اپنی عورتوں ،خادموں اورکنیزوں کولے جانے کی تیاری کریں ۔پھرشَدَّادنے وزراء اور دوسرے لوگوں کوبہت ساری دولت وخوردونوش کاسامان دینے کاحکم جاری کیا۔تمام لوگ دس سال تک اس جنت میں جانے کی تیاری کرتے رہے۔شَدَّادنے دوآدمیوں کواپنے شہرکا نگران مقررکیااوراجازتِ عام دے دی کہ جوآناچاہے میرے ساتھ آ"
"جائے۔ اب شدّادبڑے جاہ وجلال اور متکبر ا نہ وفاتحانہ اندازمیں بڑی شان وشوکت سے سپاہیوں کے جھر مٹ میں روانہ ہوا۔ جب وہ اس جنت سے صرف ایک دن اورایک رات کے فاصلے پررہ گیاتوخالقِ کائنا ت،مالکِ لَم یَزَلْ،قادرِمطلق خدائے بزگ وبرترعَزَّوَجَلَّ نے ان پرعذاب بھیجا،آسمان سے ایک چیخ سنائی دی شَدَّاد نامراداپنی بنائی ہوئی جنت کی ایک جھلک دیکھے بغیرہی اپنے تمام ہمراہیوں کے ساتھ ہلاک ہوگیا،سب لشکری تباہ وبربادہوگئے اور کوئی بھی اس شہرمیں داخل نہ ہوسکا۔اوراب قیامت تک بھی کوئی اس میں داخل نہیں ہو سکتا۔اے امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ !یہ تھا''اِرَم''کاساراواقعہ۔ہاں !آپ کے زمانے میں ایک شخص اس میں داخل ہوگا،وہ اس کی تمام چیزیں دیکھے گا اورواپس آکربیان کریگا۔لیکن اس کی تصدیق نہیں کی جائے گی، کوئی اس کی بات ماننے کوتیارنہ ہوگا۔''
یہ سن کرامیرالمؤمنین حضرتِ سیِّدُناامیرِمُعَاوِیَہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:''اے ابواِسحاق رضی اللہ تعالیٰ عنہ !کیاآپ اس میں داخل ہونے والے شخص کی کچھ صفات بتاسکتے ہیں؟''فرمایا:''ہاں!وہ شخص سرخ وبھورا اورپست قدہوگااس کی آنکھیں نیلی ہوں گی اور اس کے ابرو پر ایک تِل ہوگا ۔وہ اپنے گمشدہ اونٹ کی تلاش میں اس صحرا میں جائے گاتواس پروہ شہرظاہرہوگا۔وہ اس میں داخل ہوکرکچھ چیزیں وہاں سے اُٹھا لائے گا۔''اس وقت حضرتِ سیِّدُناعبداللہ بن قِلَابَہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرتِ سیِّدُنا امیرِمُعَاوِیَہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے ۔حضرتِ سیِّدُناکَعْبُ الْاَ حْبَار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی طرف دیکھا تو فرمایا: ''اے امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ !یہی وہ شخص ہے جواس میں داخل ہواہے ، آپ اس سے وہ چیزیں پوچھ لیجئے جومیں نے آپ کو بتائیں۔'' حضرتِ سیِّدُنا امیرِمُعَاوِیَہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:''اے ابو ا ِسحا ق رضی اللہ تعالیٰ عنہ !یہ تومیرے خادموں میں سے ہے اورمیرے پاس ہی ہے۔''فرمایا: ''یاتویہ اس شہرمیں داخل ہوچکاہے یاعنقریب داخل ہوگا،بس یہی وہ شخص ہے ۔'' یہ سن کر حضرتِ سیِّدُنا امیرِ مُعَاوِیَہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:''اے ابواِسحاق رضی اللہ تعالیٰ عنہ !اللہ تبارک وتعالیٰ نے تمہیں دوسرے علماء پر فضیلت دی ہے ،بے شک ! تمہیں اولین وآخرین کاعلم دیاگیاہے ۔''حضرتِ سیِّدُناکَعْبُ الْاَ حْبَار رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے فرمایا:''قسم ہے اس پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ کی جس کے قبضۂ قدرت میں کَعْب کی جان ہے!اللہ عَزَّوَجَلَّ نے کوئی چیزپیدانہیں فرمائی مگرا س کی تفسیراپنے برگزیدہ رسول حضرتِ سیِّدُنا موسیٰ کلیم اللہ علٰی نبینا وعلیہ الصلٰوۃ والسلام کوبتادی۔''بے شک قرآنِ کریم بہت بلند و عظیم اور وعید سنانے والاہے۔''"
" حضرت عُتْبِی علیہ رحمۃ اللہ القوی اپنے والد کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ ''رومیوں نے مسلمان عورتوں کو قید کر لیا۔ جب یہ خبر خلیفہ ہارون الرشید علیہ رحمۃ اللہ المجیدکوپہنچی توانہوں نے مسلمانوں کوجہاد کی ترغیب دلائی ،منصوربن عمَّارعلیہ رحمۃاللہ الغفار بھی لوگوں کو جہادفی سبیل اللہ کے لئے ابھارنے لگے۔ جذبۂ جہاد سے سرشارمسلمان ملک کے گوشہ گوشہ سے ''رِقَّہ ''میں جمع ہونے لگے،ہرکوئی حسبِ حیثیت جہادمیں شرکت کے لئے تیار تھا ۔ جب مجاہدین کا لشکردشمنانِ اسلام کی سرکوبی کے لئے روانہ ہو ا تو منصوربن عمَّارعلیہ رحمۃ اللہ الغفارکی طرف ایک تھیلی پھینکی گئی جو اچھی طرح بند کی گئی تھی اس کے ساتھ ایک رقعہ بھی تھا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے تھیلی اٹھائی اوراس میں موجود رقعہ پڑھاتواس پر یہ عبارت درج تھی :
''میں عربی عورتوں میں سے ایک عورت ہوں، مجھے خبرملی ہے کہ رومیوں نے میری مسلمان بہنوں کو قید کرلیاہے اوراب دشمنوں کی سرکوبی کے لئے مجاہدین کالشکراپنی جانوں اورمالوں کے ساتھ جہاد پرروانہ ہورہاہے۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مسلمانوں کوجہادکی خوب ترغیب دلائی ہے ۔ہرایک نے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق جہادمیں حصہ لیا ۔میں بھی اپنے جسم کی عظیم شئے راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں پیش کررہی ہوں اس تھیلی میں میرے سرکے بال ہیں جنہیں میں نے کاٹ کررسیاں بنادی ہیں ۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کا واسطہ! مجاہدین کے گھوڑوں کو ان رسیوں سے باندھنا،شاید!میرا یہی عمل اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں مقبول ہو جائے کچھ بعید نہیں کہ میرا پاک پروردگارعَزَّوَجَلَّ میری اس حالت اورمیرے بالوں کومجاہدین کی رسیوں میں دیکھ کر مجھ پررحم فرمائے اورمیری مغفرت فرما دے۔'' والسَّلام:ایک مسلمان عورت
منصوربن عمَّارعلیہ رحمۃ اللہ الغفار نے یہ خط اور تھیلی خلیفہ ہارون الرشیدعلیہ رحمۃ اللہ المجید کو دی تووہ اس عورت کاجذبۂ ایمانی دیکھ کرزارو قطار رونے لگے اور پورے لشکرکواس عورت کے عظیم کارنامے سے آگاہ کیااورپھرلشکرکوکوچ کاحکم دیا۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
حضرتِ سیِّدُناعَوْن بن عبداللہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: میں نے امیرالمؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عمربن عبدالعزیزعلیہ رحمۃ اللہ المجید سے ایک واقعہ بیان کیاتواس کا ان کے دل پر بڑا گہرا اثرہوا۔میں حضرتِ سیِّدُنامسلم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس گیا اور انہیں امیر المؤمنین علیہ رحمۃ اللہ المبین کی حالت سے آگاہ کیا۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے پوچھا : ''تم نے ایساکون ساواقعہ بیان کیاجس کی وجہ سے
"امیر المؤمنین علیہ رحمۃاللہ المبین کی یہ حالت ہوئی؟'' میں نے کہا:''میں نے انہیں یہ واقعہ سنایاتھا کہ سابقہ بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ نے بڑاہی خوبصورت شہر تعمیر کیاجس میں تمام سہولیات مہیا کیں ۔اس کی تعمیروترقی کے لئے خوب کوشش کی اورحتَّی الامکان اس میں کوئی عیب والی چیزنہ چھوڑی ۔اس کی کوشش تھی کہ میں ایساشہربناؤں جس میں کوئی خرابی وخامی نہ ہو۔ جب اسے اطلاع دی گئی کہ شہرکی تعمیرمکمل ہوچکی ہے تواس نے شہرمیں ایک پُرتکلف دعوت کااہتمام کیااورلوگوں کوباری باری شہرمیں بھیجتا رہا، درو ا ز ے پر سپاہی کھڑے کردئیے تاکہ دعوت کھاکرآنے والے ہرشخص سے پوچھا جائے کہ ہمارے اس شہرمیں کوئی نقص یا خرابی تو نہیں ؟''
جس سے بھی پوچھا جاتا و ہ یہی کہتا: ''اس شہرمیں کوئی عیب نہیں یہ ہر لحاظ سے مکمل ہے ۔''دعوت کاسلسلہ چلتارہاسب سے آخرمیں چندایسے لوگ شہرمیں داخل ہوئے جن کے کندھوں پر تھیلے تھے ۔جب ان سے پوچھاگیا:''کیاتم نے بادشاہ کے اس عظیم الشان شہرمیں کوئی عیب دیکھاہے ؟''توانہوں نے کہا:''ہاں! ہم نے اس میں دوبڑ ے بڑے عیب دیکھے ہیں۔''یہ سن کر سپاہیوں نے ان خرقہ پوش بزرگوں کوپکڑ لیا اوربادشاہ کواطلاع دی۔بادشاہ نے کہا:''میں تو اس شہرمیں ایک ہلکے سے عیب پربھی راضی نہیں ،انہیں اس میں دوبڑے بڑے کون سے عیب نظرآگئے ،جاؤ!جلدی سے انہیں میرے پا س لاؤ۔''جب بزرگوں کاقافلہ آیا توبادشاہ نے پوچھا: '' کیا تم نے شہرمیں کوئی عیب دیکھاہے؟''فرمایا:''ہاں! اس میں دوعیب ہیں ۔'' بادشاہ نے پریشان ہو کر پوچھا: ''جلدی بتاؤ! وہ کون سے عیب ہیں؟''کہا:''تیرا یہ شہر خراب اور فنا ہوجائے گااور اس میں رہنے والا بھی مرجائے گا۔''
سمجھ داربادشاہ نے کہا:''کیاتم کسی ایسے گھرکے بارے میں جانتے ہوجوکبھی فنانہ ہواوراس کامالک کبھی موت کاشکارنہ ہو؟'' بزرگوں نے کہا:''اگراس گھرکے خواہش مند ہو توتخت وتاج چھوڑکرہمارے ساتھ چلے آؤ۔''بادشاہ نے کہا : ''ٹھیک ہے میں تیار ہوں ،لیکن میں علانیہ تمہارے ساتھ گیاتومیرے وزراء نہیں جانے دیں گے۔ہاں! فلاں وقت مَیں تمہارے پاس پہنچ جاؤں گا۔'' چنانچہ، وہ بزرگ وہاں سے چلے آئے اور مقررہ وقت پرانتظار کرنے لگے ۔بادشاہ نے تخت وتاج چھوڑ ا،فقیرانہ لباس زیبِ تن کیااوربزرگوں کے ساتھ شامل ہوگیا۔کافی عرصہ وہ اس قافلہ کے ساتھ رہا۔ایک دن انہیں متوجہ کر کے کہا:''اب مجھے اجازت دو میں کہیں اورجاناچاہتاہوں ۔''بزرگوں نے کہا:''کیاتمہیں ہمارے درمیان کوئی ناگواربات پیش آئی ہے ؟'' کہا:''ایسی کوئی بات نہیں ۔ '' پوچھا:''پھرکیوں جانا چاہتے ہو؟''کہا:''بات دراصل یہ ہے کہ تم مجھے جانتے ہواس لئے عزت واحترام کرتے ہو۔اب میں ایسی جگہ جانا چاہتا ہوں ، جہاں مجھے کوئی جاننے والانہ ہو۔''یہ کہہ کربادشاہ ایک نامعلوم منزل کی جانب چلاگیا۔
حضرتِ سیِّدُنا عَوْن بن عبداللہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: اس کے بعد میں نے حضرتِ سیِّدُنا مسلم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے کہا: ''یہ تھاوہ واقعہ جومیں نے امیر المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیزعلیہ رحمۃ اللہ المجیدکوسنایاتھا۔''پھرحضرتِ سیِّدُنامسلم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے اجازت لے کرمَیں واپس آ گیا۔ ایک دن حضرتِ سیِّدُناعمربن عبد العزیز علیہ رحمۃ اللہ المجیدمجھ سے یہی واقعہ سن رہے تھے کہ حضرتِ سیِّدُنا"
"مسلم رحمۃ اللہ تعا لیٰ علیہ حاضر ہوئے تو امیر المؤمنین علیہ رحمۃ اللہ المبین نے فرمایا:''اے مسلم!تمہارا بھلا ہو،اس شخص کے بارے میں تمہاری کیارائے ہے جس پراس کی برداشت سے زیادہ بوجھ ڈال دیاگیاہو۔ اگرایساشخص اس بوجھ (یعنی حکومت کی ذمہ داری )کوچھوڑ کر رضائے الٰہی عَزَّوَجَلَّ کے لئے خلوت نشین ہو جائے تو کیا اس پرکچھ حرج ہے؟''حضرتِ سیِّدُنامسلم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کہا:''اے امیر المؤمنین علیہ رحمۃ اللہ المبین ! امتِ محمدیہ عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرئیے۔خداعَزَّوَجَلَّ کی قسم! اگر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ان کوچھوڑ کرچلے گئے تویہ اپنی ہی تلواروں سے ایک دوسرے کوقتل کرڈالیں گے ۔''امیرالمؤمنین حضرتِ سیِّدُناعمربن عبدالعزیزعلیہ رحمۃ اللہ المجیدنے فرمایا : ''اے مسلم ! میں کیا کروں؟یہ خلافت کا بھاری بوجھ میری برداشت سے باہر ہے۔''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بار بار یہی کہتے رہے اور حضرتِ سیِّدُنا مسلم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ آپ کوتسلی دیتے رہے۔ یہاں تک کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی طبیعت سنبھل گئی۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُناابوابراہیم اِسحاق بن ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہماسے منقول ہے، میں نے اپنے داداحضرتِ سیِّدُنا ابوبَکْربن سالِم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کویہ فرماتے سنا: ''جب خلیفۂ اول امیرالمؤمنین حضرتِ سیِّدُنا ابوبَکْرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاوقتِ وصال قریب آیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس طرح وصیت لکھوائی :
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
یہ وہ عہدہے جوابوبکرصدیق نے اپنے آخری وقت میں کیا،یہ اس کا دنیاسے نکلنے کاآخری اورآخرت میں داخل ہونے کا پہلا وقت ہے ۔یہ ایسی حالت ہوتی ہے کہ کافربھی ایمان لے آتا،فاسق وفاجرمتقی بن جاتااورجھوٹاتصدیق کرنے لگتا ہے۔ میں اپنے بعد عمربن خطّاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوخلیفہ مقرر کر کے جارہاہوں ۔اگروہ عدل وانصاف سے کام ليں تومیرا ان کے بارے میں یہی گمان ہے وہ میرے معیارکے مطابق ہوں گے۔ اوراگرظلم وزیادتی کریں تو ان کاعمل انہیں کے ساتھ ہے ، میں نے تو خیر ہی کاارادہ کیاہے اوراللہ عَلَّامُ الغیوب ( یعنی غیبوں کاجاننے والا)ہے ،مجھے غیب کاعلم نہیں۔اللہ تعالیٰ ارشادفرماتاہے:"
وَ سَیَعْلَمُ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡۤا اَیَّ مُنۡقَلَبٍ یَّنۡقَلِبُوۡنَ ﴿227﴾٪
"ترجمۂ کنزالایمان:اوراب جاناچاہتے ہیں ظالم کہ کس کروٹ پر پلٹا کھائیں گے ۔(پ19، الشعراء: 227)
پھرآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرتِ سیِّدُناعمربن خطّاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوبلاکرارشادفرمایا:''اے عمر(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) !بے"
"شک اللہ عَزَّوَجَلَّ کے کچھ حقوق ایسے ہیں جورات میں اداکئے جاتے ہیں دن میں کرنے سے وہ انہیں قبول نہیں فرماتا۔اسی طرح کچھ عمل دن کے ہیں جو رات میں کرنے سے قبول نہیں ہوتے۔ اے عمر(رضی اللہ تعالیٰ عنہ)! بھاری پلڑے والے وہی لوگ ہیں جن کا پلڑ ا بروزِ قیامت بھاری ہوگا ۔اس روزجن کاپلڑاہلکارہا وہی لوگ ہلکے اعمال ومیزان والے ہیں ۔اورایسے لوگوں کی اتباع بالکل باطل ہے جن کے اعمال کاوزن کم ہے۔اورہلکا پلڑا وہی ہو گا جس میں باطل اشیاء ہوں گی۔ اے عمر(رضی اللہ تعالیٰ عنہ)! سب سے پہلے میں تجھے تیرے بارے میں اور پھرلوگوں کے متعلق ڈراتاہوں۔بے شک وہ نظریں جما کر دیکھ رہے ہیں،ان کے سینے پھول چکے ہیں اور وہ پھسلنے والے ہیں۔تم ان لوگوں میں شامل ہونے سے بچنا،جب تک تم اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرتے رہوگے لوگ تم سے ڈرتے رہیں گے۔ اے عمر(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) !اللہ عَزَّوَجَلَّ نے جہنمیوں کاذکرفرمایاتوان کے برے اعمال کے ساتھ فرمایا اور ان کے اچھے عمل رد کردیئے گئے۔میں نے جب بھی ان لوگوں کویادکیاتوڈراکہ کہیں میں بھی ان میں سے نہ ہو جاؤں۔ اور جب اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اہلِ جنت کاذکرفرمایاتوان کے اچھے اعمال کے ساتھ فرمایااوران کی برائیوں سے درگزرفرمایا۔ میں نے جب بھی ان لوگوں کو یاد کیا تو خوف زدہ ہواکہ کہیں ان میں شامل ہونے سے رہ نہ جاؤں۔اللہ تعالیٰ نے جہاں آیتِ رحمت بیان فرمائی وہاں آیتِ عدل بھی بیان فرمائی تاکہ مؤمن امیدوخوف کے درمیان رہے۔اے عمر(رضی اللہ تعالیٰ عنہ )!یہ میری تمہیں وصیت ہے اگراسے یاد رکھو گے تو موت سے زیادہ تمہیں کوئی چیزمحبوب نہ ہوگی اوروہ عنقریب آنے ہی والی ہے ۔اوراگرتم نے میری وصیت کو ضائع کردیا تو موت سے زیادہ نا پسندیدہ چیزتمہارے نزدیک کوئی نہ ہوگی اوراس سے چھٹکاراکسی صورت ممکن نہیں۔''
وَعَلَیْکَ السَّلَام
یہ امیر المؤمنین حضرتِ سیِّدُناابوبَکْرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آخری وصیت تھی ۔
؎ سایۂ مصطفی مایۂ اصطفٰی عزّونازِ خلافت پہ لاکھوں سلام
یعنی اس افضل الخلق بعدالرسل ثانی اثنینِ ہجرت پہ لاکھوں سلام
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
حضرتِ سیِّدُناسعیدبن ابوہِلَال علیہ رحمۃ اللہ الجلال سے مروی ہے کہ''ایک مرتبہ پوری دُنیا کے بادشاہ حضرتِ سیِّدُنا ذُوالْقَرْنَیْن علیہ رحمۃربّ ِالکونین دورانِ سفر ایک شہرمیں داخل ہوئے توتمام شہر والے زیارت کے لئے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی طرف بڑھنے لگے۔ عو ر تیں، بچے،بوڑھے،جوان الغرض ہرشخص اپنے بادشاہ کے دیدارکے لئے کھِچا چلا آ رہا تھا۔لیکن ایک بوڑھاشخص اپنے کام میں مصروف تھا۔جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس کے قریب سے گزرے اوراس نے آپ کی طرف توجہ نہ دی توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے متعجب ہوکرکہا: ''کیابات ہے سب لوگ مجھے دیکھنے کے لئے جمع ہوئے لیکن تم اپنے کام میں مگن رہے، تم نے ایسا کیوں کیا؟'' اس نے جواب دیا: ''اے ہمارے بادشاہ! جوحکومت آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کوحاصل ہے، وہ مجھے تعجب میں نہیں ڈالتی۔ کیونکہ میں نے دیکھاکہ ایک بادشاہ اور مسکین کاایک ساتھ انتقال ہواہم نے انہیں دفنادیا۔چنددن بعد ان کے کفن پھٹ گئے، پھر کچھ دِن بعد ان کاگوشت گل سڑگیا، مزید کچھ دن گزرنے پران کی ہڈیا ں جوڑوں سے علیحدہ ہو کر آپس میں مل گئیں۔اب بادشاہ اور مسکین میں پہچان نہیں ہوسکتی تھی کہ کون سی ہڈیاں بادشاہ کی ہیں اور کون سی مسکین کی۔لہٰذا اے ذُو الْقَرْنَیْن علیہ رحمۃربّ ِالکونین!مجھے آپ کی حکومت اور شان و شوکت تعجب میں نہیں ڈالتی ،اسی لئے میں نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی طرف توجہ نہیں کی۔حضرتِ سیِّدُنا ذُوالْقَرْنَیْن رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس بزرگ کی یہ باتیں سن کربہت حیران ہوئے اورجاتے ہوئے یہ حکم صادر فرمایاکہ آئندہ یہ حکیم و دانا شخص اس شہر پر حاکم ہو گا۔
حضرتِ سیِّدُناحَارِث بن محمدتَمِیْمِی علیہ رحمۃ اللہ القوی ایک قریشی بزرگ کے حوالے سے بیان فرماتے ہیں: ''ایک مرتبہ شاہ سکندر ذوالْقَرْنَیْن علیہ رحمۃربّ ِالکونین ایک ایسے شہرسے گزرے جس پرسات بادشاہوں نے حکومت کی تھی اور اب سب انتقال کر چکے تھے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے لوگوں سے پوچھا:''کیااس شہرپرحکومت کرنے والے بادشاہوں کی نسل میں سے کوئی ایک شخص بھی باقی ہے ؟''لوگوں نے کہا: '' ہا ں!ایک شخص باقی ہے ،لیکن اب وہ قبرستان میں رہتاہے۔''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اسے بلوایااورپوچھا:''کس چیزنے تجھے قبرستان میں ر ہنے پرمجبورکیا؟'' کہا:''عالی جاہ!میں نے ارادہ کیاکہ قبرستان جاؤں اور ہلاک ہونے والے بڑے بڑے بادشاہوں اوران کے فوت شدہ غلاموں کی ہڈیوں کوعلیحدہ علیحدہ کردوں تاکہ بادشاہوں کا غلاموں سے امتیاز ہوجائے۔ لیکن میں اپنی اس کوشش میں کامیاب نہ ہوسکاکیونکہ بادشاہوں اور غلاموں کی ہڈیاں ایک جیسی ہی ہیں۔''
" آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے پوچھا:''کیاتم میرے عہدے داران میں شامل ہونا چاہتے ہو؟ اس طرح تمہارے آباء و اجداد کا وقاربحال ہوجائے گا، اگرتم میں طاقت ہے تومیری پیشکش قبول کرلو۔''کہا : ''اگر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ میری ایک خواہش پوری کر دیں تومیں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی پیش کش قبول کرلوں گا۔ ''آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:''بتاؤ! تمہاری کیاخواہش ہے؟''اس نے کہا:''ایسی زندگی جس میں موت نہ ہو،ایسی جوانی جسے بڑھاپا لاحق نہ ہو ، ایسی خوشحالی جس کے بعد تنگد ستی نہ ہواورایسی خوشی جس کے ساتھ غم نہ ہوں۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ''ان میں سے کوئی بات بھی میں پوری نہیں کرسکتا۔''اس نے کہا: ''پھرآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جایئے اورمجھے ان چیزوں کو اسی کے پاس ڈھونڈنے دیجئے جوان تمام چیزوں کامالک اور انہیں دینے پر قادر ہے۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس کی یہ حکمت بھری باتیں سن کرکہا:''میں نے اسے تمام لوگوں سے زیادہ عقل مند پایا۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
حضرتِ سیِّدُنامحمدبن یوسف فِرْیَابِی علیہ رحمۃ اللہ الہادی سے منقول ہے، ''قَیْسارِیَہ''میں ایک عورت فوت ہوگئی اور اس کی بیٹی نے اسے خواب میں یوں کہتے سنا : ''تم لوگوں نے مجھے بہت تنگ کفن پہنایا تھاجس کی وجہ سے میں اپنے ہمسایوں میں شرم محسوس کرتی ہوں۔سنو!فلاں عورت فلاں دن ہمارے پاس آنے والی ہے۔میں نے فلاں مقام پر چالیس دینار چھپا رکھے ہیں تم کفن خریدکراسے دے دو،وہ ہم تک پہنچا د ے گی۔''اس کی بیٹی کہتی ہے کہ جس جگہ کے متعلق میری والدہ نے خواب میں بتایا تھا وہاں واقعی چالیس (40)د ینار موجود تھے ۔ لیکن جس عورت کے بارے میں بتایاتھاوہ بالکل تندرست تھی ۔پھرچنددن بعد وہ بیمار ہو گئی۔راوی کہتے ہیں کہ اس کی بیٹی کچھ لوگوں کے ساتھ میرے پاس آئی اوراپناخواب بیان کرتے ہوئے کہا:'' آپ اس بارے میں کیافرماتے ہیں؟''ان کی باتیں سن کرمجھے اُمّ المؤ منین حضرتِ سیِّدَتُناعائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی یہ حدیثِ پاک یاد آگئی: ''بے شک مُردے اپنے کفنوں میں ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں۔''
(مصنف ابن ابی شیبۃ،کتاب الجنائز،ما قالوا فی تحسین الکفن۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث۳،ج۳،ص۱۵۳،باختلاف الراوی)
میں نے ان سے کہا:''تم بزازین جاؤ، وہاں دومشہورمحدِّث '' ابنِ نَیْشَاپُورِی'' اور ''ابوتوبہ'' کے نام سے مشہور ہیں وہ تمہارا مسئلہ حل کر دیں گے۔لوگوں نے اس عورت کی لڑکی کووہاں بھیجاتوان محدِّثوں نے اسے ایک کفن خرید کردے دیا ۔پھرجس عورت
"کے متعلق اس کی والدہ نے بتایاتھاوہ اس کے پاس پہنچی اور کہا :''محترمہ!میں آپ کو ایک چیزدوں گی اگرآپ کاانتقال ہوجائے تووہ چیز میری والدہ کودے دینا۔''اس نے کہا:''ٹھیک ہے!میں تمہاری امانت پہنچادوں گی ۔''پھرجووقت اوردن مرحومہ نے خواب میں بتایا تھا ٹھیک اسی وقت اس عورت کاا نتقا ل ہو گیا۔لوگوں نے لڑکی کاخریداہواکفن عورت کے کفن میں رکھ د یا۔ چنددن بعداس نے اپنی والدہ کوخواب میں یہ کہتے سنا :''اے میری بیٹی!فلاں عورت ہمارے پاس پہنچ گئی ہے اورکفن بھی مجھے مل چکاہے جو بہت اچھا ہے ۔اللہ تبارَک وتعالیٰ تجھے اس کی بہترین جزا عطا فرمائے۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُناعبدالواحد بن زید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:جب حضرتِ سیِّدُناابومحمدحَبِیْب علیہ رحمۃ اللہ ا لمُجیب کا آخری وقت آیا توبہت زیادہ آہ وزاری کی اور مسلسل ان کلمات کاتکرارکرنے لگے:
''ہائے !اب میں ایسے سفرپرجانے والاہوں جہاں پہلے کبھی نہیں گیا،میں ایسے راستے پرچلنے والاہوں جس پر کبھی نہیں چلا۔اب میں اپنے مالک ومولیٰ عَزَّوَجَلَّ کی زیارت کے لئے جارہاہوں جسے میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ہائے!اب میں ایسے پُرہُول مقام کی طرف جانے والاہوں جہاں کبھی نہیں گیا۔ہائے !اب میں مٹی کے نیچے چلاجاؤں گااورقیامت تک وہیں رہوں گا ۔ پھرمجھے میرے پروردگارعَزَّوَجَلَّ کے سامنے کھڑ ا کر د یا جا ئے گا۔ ہائے!مجھے یہ خوف کھائے جارہاہے کہ اگرمجھ سے یہ کہہ دیا گیا: ''اے حبیب!ساٹھ 60) (سالہ زندگی میں اگرتُونے کبھی کوئی ایک تسبیح بھی ایسی کی ہوجس میں شیطا ن تجھ پرکامیاب نہ ہوا ہوتووہ تسبیح لے آؤ۔اگر کوئی خالص عبادت تمہارے پاس ہے تولے آؤ۔''ہائے !اس وقت میں کیاجواب دوں گا وہاں کوئی میرے پاس نہ ہوگا ۔ پس میں بصد عاجزی بارگاہِ خداوندی میں عرض کروں گا:میرے ما لک ومولیٰ عَزَّوَجَلَّ !واقعی میرے پاس ایساکوئی عمل نہیں،اے میرے رحیم وکریم پروردگارعَزَّوَجَلَّ !تیراگنہگاربندہ تیری بارگاہ میں حا ضرہے ،اس کے دونوں ہاتھ اس کی گردن سے بندھے ہوئے ہیں ۔ اے کریم!تُوکرم کر! تیراکرم ہی میراکام بنائے گا۔''
راوی کہتے ہیں کہ :''یہ تواس شخص کی آہ وبُکاہے جس نے مسلسل ساٹھ سال اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اس طرح عبادت کی کہ دنیاکی کسی چیز کی طرف متوجہ نہ ہوئے ۔جی ہاں!یہ حضرتِ سیِّدُناابوعبداللہ حَبِیْب علیہ رحمۃ اللہ المجیب اپنے زمانے کے مشہوراولیاء میں"
"سے تھے ۔ جب وہ اس طرح آہ وزاری کررہے ہیں توہم جیسے گنہگاروں کاکیاحال ہوگا،ہماراکیابنے گا۔
ہم اللہ عَزَّوَجَلَّ سے مددونصرت طلب کرتے ہیں۔وہی ہماراحافظ وناصر ہے۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُناابوہِلَال اَسْوَدعلیہ رحمۃ اللہ الاحد فرماتے ہیں :''ایک مرتبہ سفرِ حج میں میری ملاقات ایک ایسی عورت سے ہوئی جو حج کے لئے جارہی تھی لیکن اس کے پاس زادِراہ بالکل نہ تھاحتیٰ کہ پانی پینے کے لئے بھی کوئی برتن نہ تھا۔ میں نے اس سے پوچھا: ''اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بندی!توکہاں سے آرہی ہے ؟'' کہا : ''بَلْخ''سے ۔''میں نے کہا:''کیابات ہے کہ تیرے پاس نہ تو کوئی سواری ہے اور نہ ہی کھانے پینے کی کوئی چیز۔''اس نے کہا:'' بَلْخ سے چلتے وقت میں نے دس درہم اپنے ساتھ لئے تھے، کچھ خرچ ہوگئے کچھ باقی ہیں ۔''میں نے کہا:'' جب یہ ختم ہوجائیں گے توپھرکیاکروگی ؟''کہا:''میرے جسم پریہ جُبَّہ اضافی ہے اسے بیچ کرگزا رہ کروں گی ۔ ' ' میں نے کہا: ''جب اس کی رقم بھی ختم ہوجائے گی توکیاکروگی؟''کہا:''میں اپنی چادربیچ کرگزارہ کرلوں گی۔''میں نے کہا:''ان اشیاء کے بد لے ملنے والی رقم توبہت جلدختم ہوجائے گی پھرتم کیا کروگی ؟''کہا:''پھرمیں اپنے پاک پروردْ گارعَزَّوَجَلَّ سے سوال کروں گی تووہ مجھے عطا فرما دے گا۔''میں نے کہا:''ان تمام مراحل سے گزر نے کے بعدہی کیوں سوال کر و گی پہلے کیوں نہیں مانگ ليتی؟''کہا:''تیرابھلاہو!مجھے اپنے پاک پروردگارعَزَّوَجَلَّ سے حیا آتی ہے کہ دنیاکی کوئی بھی اضافی چیز میرے پاس ہو اورمیں پھربھی اس سے کچھ مانگوں۔''
عورت کی یہ حکمت بھری باتیں میرے دل میں اُترتی چلی گئیں۔میں نے اس سے کہا: ''اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بندی!تم میرے اس گدھے کاخیال رکھو،تھوڑی دوراسے لے چلو،میں حاجت سے فارغ ہوکرابھی آتاہوں۔''کہا:''ٹھیک ہے!بے فکر ہو کر چھوڑ جاؤ ۔ '' چنانچہ، میں قضائے حاجت کے لئے چلاگیا۔جب واپس آیاتومیراگدھاموجود تھااورانواع و اقسام کے تازہ کھانوں سے بھراتھیلا اس پر رکھا ہوا تھا، مَیں نے کبھی ایسے عمدہ کھانے دیکھے تک نہ تھے ۔جب متعجب ہوکرآس پاس دیکھا تو دوردورتک اس عورت کا نام و نشان نہ تھا،نہ جانے اتنی جلدی وہ کہاں غائب ہوگئی ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُنافُضَیْل بن عِیَاض علیہ رحمۃ اللہ الجوّادفرماتے ہیں:''کل بروزِقیامت اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بار گا ہ میں ایک ایسے شخص کو پیش کیاجائے گاجس کے پاس صرف ایک نیکی ہوگی ،اللہ ربُّ العِزَّت اس سے فرمائے گا:''میرے اولیاء کے پا س چلا جا،اگر توان میں سے کسی کوجانتاہے توان کوپہچاننے کی وجہ سے میں تجھے بخش دوں گا۔''وہ شخص تیس(30)سال گھومتارہے گالیکن ایسے کسی بھی ولی کونہ پائے گاجسے وہ جانتاہو۔پس بارگاہِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ میں عرض کریگا: ''اے میرے پروردگارعَزَّوَجَلَّ !میری کسی ولی سے ملاقات نہ ہوسکی۔''
اللہ ربُّ العزَّت فرشتوں کوحکم دے گاکہ اسے آگ میں ڈال دو۔ فرشتے اسے جہنم کی طرف گھسیٹیں گے، تورحمن ورحیم عَزَّوَجَلَّ کی رحمت اس بندے کی طرف متوجہ ہوگی اور رحمتِ خداوندی سے اس کے دل میں ایک بات آئے گی ،وہ عرض کریگا:''اے میرے خالق ومالک عَزَّوَجَلَّ !اگرتیری مخلوق میں میراکوئی جاننے والاہوتاتوتُو میری مغفر ت فرما دیتا۔ اے میر ے مالک عَزَّوَجَلَّ !جب میں تیری وحدہ، لاشریک ذات کوجانتا ہوں تو تیری رحمت کے زیادہ لائق ہے کہ تُو اپنی معرفت کی وجہ سے مجھے بخش دے۔''دریائے رحمت جوش میں آئے گااورحکم ہوگا: ''اے فرشتو! میرے عارف کوواپس لے آؤ ۔ بے شک! یہ تومجھے جاننے والاہے ،یہ میراعارف اورمیں اس کامعروف ہوں ۔ اسے جنتی لباس پہنا کر جنت میں لے جاؤ۔''
؎ اس بے کسی میں دل کو مِرے ٹیک لگ گئی شُہرہ سنا جو رحمت بے کس نواز کا
کیوں کرنہ میرے کام بنیں غیب سے حسنؔ بندہ بھی تو ہوں کیسے بڑے کارساز کا"
حضرتِ سیِّدُنامحمدبن حَرْب ہِلَالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی فرماتے ہیں:ایک مرتبہ میں روضۂ رسول پرحاضر ہوکر نذرانۂ دروووسلام پیش کررہاتھاکہ ایک اَعرا بی نے مزار پُر انوارپر حاضر ہو کر صلوۃ وسلام پیش کیااور حضور انور، شافعِ محشر، محبوب ربِّ اکبرعَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہِ بے کس پناہ میں اس طرح عرض گزارہوا: ''یارسول اللہ عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! جوآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے فرمایا ہم نے سنااورجوآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پرنازل ہوااس میں یہ آیت بھی ہے :
وَلَوْ اَنَّہُمْ اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمْ جَآءُوۡکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُوۡلُ لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّابًا رَّحِیۡمًا ﴿64﴾
"ترجمۂ کنزالایمان:اوراگرجب وہ اپنی جانوں پرظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضورحاضرہوں اورپھراللہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرمائے توضروراللہ کوبہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔ (پ5،النسآء:64)
میرے آقاومولیٰ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم !میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتے ہوئے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضرہوں اورآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کواللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں اپناشفیع بناتاہوں۔''
یہ کہہ کروہ عاشقِ رسول رونے لگااوراس کی زبان پریہ اشعارجاری تھے:"
"؎ یَا خَیْرَ مَنْ دُفِنَتْ بِالْقَاعِ اَعْظُمُہ، فَطَابَ مِنْ طِیْبِہِنَّ الْقَاعُ وَالْاَکَمّْ
رُوْحِی الْفِدَاءُ لِقَبْرٍ اَنْتَ سَاکِنُہ، فِیْہِ الْعِفَافُ وَفِیْہِ الْجُوْدُ وَالْکَرَمْ"
"ترجمہ:(۱)۔۔۔۔۔۔اے وہ بہترین ذات جس کی مُبَارَک ہڈیاں زمین میں دفن کی گئیں! توان کی عمدگی اورپاکیزگی سے میدان اورٹیلے پاکیز ہ ہو گئے۔
(۲)۔۔۔۔۔۔میری جان فداہو اس قبرِ انورپرجس میں آپ(صلَّی اللہ علیہ وسلَّم) آرام فرماہیں! جس میں پاک دامنی،سخاوت اورعفووکرم کابیش بہاخزانہ ہے۔
وہ عاشقِ رسول ان اشعارکاتکرار کرتا رہا۔پھراستغفارکیا، گناہوں کی معافی مانگی اور روتاہوا واپس چلاگیا ۔ محمد بن حرب ہِلَالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی فرماتے ہیں:''اس کے جاتے ہی میری آنکھ لگ گئی ،میں نے خواب میں سرکارِ دوعالَم ، نورِ مُجَسَّم ،شاہِ بنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی زیارت کی، آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ''اُس اَعرابی سے مِلو اور اسے خوشخبری سناؤ کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے میری شفارش کی وجہ سے اس کی مغفرت فرمادی ہے۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
حضرتِ سیِّدُناصالح مُرِّی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں :حضرتِ سیِّدُنا عَطَا سُلَمِی علیہ رحمۃ اللہ الولی بہت زیادہ مجاہدہ کرنے والے بزرگ تھے،کثرتِ عبادت وروزہ اورمجاہدات کی وجہ سے ان کاجسم کافی کمزورہوگیاتھا۔میں نے ان سے کہا: ''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے نفس کوبہت زیادہ تکلیف میں ڈال رکھاہے، میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے لئے کچھ چیزیں بھجواؤں گااگر آپ رحمۃ
"اللہ تعالیٰ علیہ کی نظروں میں میری کچھ قدرو منزلت ہے توانہیں واپس نہ کرنا۔'' فرمایا: ''ٹھیک ہے۔''چنانچہ، میں نے گھی اور سَتُّو کا بنا ہوا تھوڑاسا شربت اپنے بیٹے کو دیتے ہوئے کہا:''یہ حضرتِ سیِّدُناعَطَا سُلَمِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کے پاس لے جاؤ، جب تک وہ یہ شربت پی نہ لیں واپس نہ آنا۔ ' ' میرابیٹاشربت لے کرگیااورواپس آکربتایاکہ''حضرتِ سیِّدُناعَطَا سُلَمِی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے شربت پی لیا ہے۔ دوسرے دن میں نے پھر شربت بھجوایاتوانہوں نے نہ پیا۔''
میں نے ان سے کہا:''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے شربت کیوں نہیں پیا؟اس کے استعمال سے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے جسم کوتقویت ملتی ،نمازوروزہ اور دیگرعبادات پرقدرت حاصل ہوتی۔'' فرمایا:''اے ابوبِشر! اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہارا بھلاکرے، جب پہلے دن تم نے شربت بھجوایاتومیں نے پی لیا،دوسرے دن بھی وہی عمدہ و خوشگوار شربت آیاتومیرے نفس نے اس کی طرف رغبت کی ،جب میں اسے پینے لگاتومجھے یہ آیتِ کریمہ یادآگئی:"
یَّتَجَرَّعُہٗ وَ لَا یَکَادُ یُسِیۡغُہٗ وَیَاۡتِیۡہِ الْمَوْتُ مِنۡ کُلِّ مَکَانٍ وَّمَا ہُوَ بِمَیِّتٍ ؕ وَمِنۡ وَّرَآئِہٖ عَذَابٌ غَلِیۡظٌ ﴿17﴾
"ترجمۂ کنزالایمان:بمشکل اس کاتھوڑا تھوڑا گھونٹ لے گااورگلے سے نیچے اتارنے کی امیدنہ ہوگی اوراسے ہرطرف سے موت آئے گی اور مرے گانہیں اوراس کے پیچھے ایک گاڑھاعذاب۔(پ13،ابرٰہیم:17)
اس آیت کے یاد آتے ہی مجھ سے وہ شربت نہ پیاگیا۔''حضرتِ سیِّدُناصالح مُرِّی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں: حضرتِ سیِّدُناعَطَا سُلَمِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کی یہ بات سن کرمیں نے روتے ہوئے کہا:''اے عَطَا سُلَمِی علیہ رحمۃ اللہ القوی!تم کسی اور وادی میں ہواورمیں کسی اوروادی میں۔''
(پیارے اسلامی بھائیو!دیکھا آپ نے کہ ہمارے بزرگان دین رحمہم اللہ المبین کس قدر اپنے نفس کی مخالفت کیا کرتے تھے۔اورایک ہم ہیں کہ اپنے نفس کی ہر خواہش کو پور کرنے کے در پے رہتے ہیں ۔جبکہ ہمارے بزرگان دین رحمہم اللہ المبین بھوک سے کم کھاتے ہوئے ''پیٹ کا قفل مدینہ'' لگائے رکھتے اور خواہشاتِ نفس کی بھر پورمخالفت فرماتے تھے۔ اس طرح کے کئی واقعات بزرگان دین رحمہم اللہ المبین سے منقول ہیں۔بھوک کے فضائل اور بھوک سے کم کھاتے ہوئے ''پیٹ کا قفل مدینہ ''سے متعلق مفید معلومات کے لیے امیر اہلسنّت حضرت علامہ مولیٰنامحمد الیاس عطارؔقادری رضوی دامت برکاتہم العالیہ کی تصنیف لطیف فیضان سنّت کے باب ''پیٹ کا قفل مدینہ ''کا مطالعہ کیجئے ۔ان شاء اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ اس کی برکتیں خود اپنی آنکھوں سے ملاحظہ فرمائیں گے ۔)
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُنازیدبن اَسلم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم سے منقول ہے:بنی اسرائیل کا ایک عابد لوگوں سے الگ تھلگ پہاڑکی چوٹی پر اپنے خالق ومالک عَزَّوَجَلَّ کی عبادت میں مشغول رہتاتھا۔لوگ قحط سالی میں پریشان ہوکراس سے مددطلب کرتے ،وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے دعاکرتاتو رحمتِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ کی برسات ہونے لگتی اورلوگ خوب سیراب ہوجاتے۔
ایک مرتبہ کچھ لوگ انتہائی اہم کام کے سلسلے میں اس عابد کے پاس آئے ،وہ ایک چھڑی سے مُردوں کی کھوپڑیوں اور ہڈیوں کواُلٹ پلٹ کررہاتھا۔لوگوں نے اس کے عمل میں دخل اندازی مناسب نہ سمجھی اورادب سے ایک جانب بیٹھ کراس کے فارغ ہونے کاانتظارکرنے لگے۔اچانک اس نے ایک زوردارچیخ ماری اور زمین پرگرکرتڑپنے لگا،پھرکچھ دیربعدساقط ہو گیا۔ لوگوں نے دیکھا تواس کی روح قفسِ عُنصُری سے پروازکرچکی تھی۔ سب کوبہت دکھ ہوا،جب اس کے انتقال کی خبرمشہورہوئی تو لوگ جوق درجوق جمع ہوکراس کی تجہیزوتکفین کاانتظام کرنے لگے۔جب اسے کفن پہنادیاگیاتوآسمان کے کنارے سے ایک تخت اڑتا ہوا آیا اور عابد کی میت کے پاس آکررُک گیا۔یہ دیکھ کرایک شخص کھڑا ہوااورلوگوں کومخاطب کرکے کہنے لگا:''اے لوگو ! تمام تعریفیں اس خالقِ کائنات عَزَّوَجَلَّ کے لئے ہیں جس نے اپنے نیک بندے کواپنے اس کرم کے لئے خاص کیا جوتم دیکھ رہے ہو۔''
یہ کہہ کراس نے عابد کی میت اس تخت پررکھ دی ۔تخت فوراًبلند ہوااوراڑتاہواآسمان کی طرف بڑھتاچلاگیا،لوگ اسے دیکھتے رہے یہاں تک کہ نظروں سے اوجھل ہوگیا۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
ولئ کامل حضرتِ سیِّدُناصَلْتبن زِیادحَلَبِی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:رمضانُ المُبَارَک کی ایک رات میں نے خواب میں دیکھاکہ میں ''عَبَّادَان''کے چندنیک لوگوں کے ہمراہ ہوں اورہماراقافلہ ایک جانب بڑھاچلاجارہاہے ،چلتے چلتے ہم ایک عظیم الشان محل کے دروازے کے قریب پہنچے۔ محل میں ایک ایساخوبصورت باغ تھاکہ اتنا حسین وجمیل باغ میری آنکھوں نے اس سے پہلے کبھی نہ دیکھاتھا ۔دروازے کے قریب لوگوں کاہجوم تھا۔ہم بھی محل کے قریب چلے گئے اتنے میں کسی کہنے والے نے کہا:''اس میں وہی داخل ہو گا جس نے اس میں رہنا ہے ،بقیہ سب لوگ دورہٹ جائیں۔''پھر وہاں رہنے والے ایک شخص سے کہاگیا :''جاؤ ! دارِ
"فضال، سِبْطَیْن اورفلاں فلاں علاقے کے لوگوں کوبُلالاؤ،ان میں سے کوئی ایک بھی پیچھے نہ رہنے پائے۔''
وہ شخص لوگوں کوبلالایا جب سب جمع ہوگئے توانہیں اس عظیم الشان محل میں داخلے کی اجازت مل گئی۔میں بھی ان کے ساتھ محل میں داخل ہوگیااس کی خوبصورتی اوراس میں موجود اشیاء کو دیکھ کرمیری آنکھیں چندھیانے لگیں،ایسالگتاتھاکہ میری عقل زائل ہو جائے گی۔میں نے وہاں عمدہ درخت دیکھے جن پر سونے چاندی کے برتن تھے۔ اُن میں طرح طرح کے شربت بھرے ہوئے تھے۔پھرمیں نے چندنوجوان لڑکیاں دیکھیں جنہوں نے چاندی کاباریک وخوبصورت لباس پہناہواتھا۔ان کا حسن دیکھ کرمجھے اپنی بینائی ضائع ہونے کاخوف ہونے لگا۔ جن لوگوں کواس محل میں داخل ہونے سے روک دیاگیاتھا،انہوں نے کہا: ''ہماراکیاقصورہے جوہمیں ان نعمتوں سے روک دیا گیا ہے؟ ہمیں ان چیزوں کے دیکھنے سے کیوں منع کیاگیاہے؟''وہ اسی طرح آوازیں بلندکر رہے تھے کہ یکایک ایک بہت بڑاتخت نمودارہوا۔تمام دوشیزائیں اس پربیٹھ گئیں، ان کے جسم خوشبوؤں سے مہک رہے تھے ،ان کے ہاتھوں میں خوشبو کی انگیٹھیاں تھیں۔جب وہ تخت فضامیں بلند ہواتوباہرکھڑے لوگوں کی چیخ وپکار مزید بلندہوگئی ۔ ان دوشیزاؤں میں ایک ایسی حسین وجمیل لڑکی بھی تھی جس کا حُسن باقی سب پرغالب تھا۔اچانک اس کے ہونٹوں کو حرکت ہوئی اوراس کی مسحورکُن آوازگونجنے لگی:
''اے لوگو!یہ تمام نعمتیں ان کے لئے ہیں جنہوں نے راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں جہادکی وجہ سے اپنی بیویوں سے دوری اختیار کی، اپناوطن چھوڑا، اپنے پہلوؤں کوبستروں سے دوررکھا، راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں اپناخون بہاکرسخاوت کی ،مسلسل سفرکی وجہ سے یہ لوگ نہ تواپنی اولاد سے پیارکرسکے اورنہ ہی اپنی بیویوں سے لُطف اندوزہوسکے،انہوں نے فانی زندگی پرباقی کو ترجیح دی ۔ اے نمازیو!اے مجاہدو! تمہیں مُبَارَک ہو۔تمہارارب عَزَّوَجَلَّ تمہیں ایسی جگہ بٹھائے گاجہاں تمہاری آنکھیں ٹھندی ہوں گی، تمہارا خوف جاتارہے گا،وہاں امن ہی امن ہوگا۔''
پھراس نے دوسری کوکہا:''اے قرۃُ العین !اب تُوبول۔''اچانک ایک مسحورکُن اوردلکش آوازفضامیں بلندہوئی :"
وَ حُوۡرٌ عِیۡنٌ ﴿ۙ22﴾ کَاَمْثَالِ اللُّؤْلُؤَ الْمَکْنُوۡنِ ﴿ۚ23﴾ جَزَآءًۢ بِمَا کَانُوۡا یَعْمَلُوۡنَ ﴿24﴾ لَا یَسْمَعُوۡنَ فِیۡہَا لَغْوًا وَّلَا تَاۡثِیۡمًا ﴿ۙ25﴾ اِلَّا قِیۡلًا سَلٰمًا سَلٰمًا ﴿26﴾ وَ اَصْحٰبُ الْیَمِیۡنِ ۬ۙ مَاۤ اَصْحٰبُ الْیَمِیۡنِ ﴿ؕ27﴾ فِیۡ سِدْرٍ مَّخْضُوۡدٍ ﴿ۙ28﴾
"ترجمۂ کنزالایمان:اوربڑی آنکھ والیاں حوریں جیسے چھپے رکھے ہوئے موتی۔صلہ ان کے اعمال کااس میں نہ سنیں گے نہ کوئی بیکاربات نہ گنہگاری ہاں یہ کہناہوگاسلام سلام اوردا ہنی طرف والے کیسے د ا ہنی طرف والے بے کانٹوں کی بیریوں میں۔ (پ27،الواقعۃ:22تا28 )
پھرایک منادی نے کہا:''خوش آمدید!عرشِ عظیم کے مالک خدائے بزرگ وبرترکی طرف سے ملنے والی نعمتیں تمہیں مُبَارَک ہوں۔اب ان نعمتوں میں ہمیشہ ہمیشہ رہو۔وہ جوادوعظیم اوربزرگ وبرترہے ،اس کی پاکی بیان کرواورتکبیرکہو۔''وہاں"
"موجودسب لوگوں نے تکبیر کہی، میں نے بھی بآوازِ بلندتکبیرکہی ۔پھرمیری آنکھ کھل گئی۔ میری زبان پر ابھی تک اللہُ اَکْبَر،اللہُ اَکْبَرکی صدائیں جاری تھیں،کافی اُجالاہوچکاتھا۔میں نے جلدی سے وضوکر کے نمازِفجرادا کی،کچھ لوگ مسجدمیں بیٹھے بالکل اسی طرح باتیں کررہے تھے جیسامیں نے خواب میں دیکھا تھا،وہ ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے: ''میں نے تجھے فلاں جگہ دیکھا،میں نے تجھے فلاں جگہ دیکھا۔''پھر مجھ سے بھی کہنے لگے: ہم نے تمہیں بھی فلاں جگہ دیکھا ہے۔ ایسالگتاتھاجیسے وہاں کی تمام اشیاء ہم نے سر کی آنکھوں سے دیکھی ہوں۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُنا بَکْربن احمدعلیہ رحمۃ اللہ الاحدفرماتے ہیں: میں نے حضرتِ سیِّدُنا یوسف بن احمدعلیہ رحمۃ اللہ الاحد کویہ فرماتے سنا: ''ایک مرتبہ میں نے حضرتِ سیِّدُنا حَارِث مُحَاسِبِی علیہ رحمۃ اللہ القوی سے غیبت کے متعلق پوچھا توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا: ''غیبت سے بچ!بے شک وہ ایسا شرہے جسے انسان خودحاصل کرتاہے ۔تیرا اس چیزکے بارے میں کیاخیال ہے جوتجھے اِحسان بھولنے پراُبھارے،تجھ سے تیری نیکیاں چھین کرتیرے اُن مخالفین کو دے دے جن کی تُونے غیبت کی ہے۔یہاں تک کہ وہ تیری نیکیوں سے راضی ہو جائیں کیونکہ بروزِ قیامت درہم ودینارکام نہیں آئیں گے۔بے شک! جتناتُومسلمانوں کی عزت سے لے گااتنی مقدارمیں تیرادین تجھ سے لے لیاجائے گا،لہٰذاغیبت سے بچ،غیبت کے منبع(یعنی نکلنے کی جگہ)اورسبب کوپہچان کہ تجھ پر غیبت کن جگہوں سے آتی ہے ۔
توجہ سے سن !بے شک بے وقوف اورجاہل لوگ غیبت میں ایسے پڑتے ہیں کہ گنہگاروں پرخواہ مخواہ غصَّہ کرتے اوران سے حسد اوربدگمانی کرتے ہیں اور اس غصے کودینی غیرت کانام دیتے ہیں۔یہ ایسی برائیاں ہیں جوبالکل ظاہرہیں پوشیدہ نہیں۔ اہلِ علم غیبت میں اس طرح مبتلا ہوتے ہیں کہ شیطان ان کواپنے مکرمیں پھنسا لیتاہے ،وہ کسی کی برائی بیان کرتے ہیں توکہتے ہیں: ''ہم تواس کی نصیحت کے لئے ایساکررہے ہیں۔ہم تواس کے خیر خواہ ہیں ۔''حالانکہ ایسانہیں کیونکہ اگر واقعی وہ خیرکے طالب ہوتے توکبھی غیبت جیسی برائی میں نہ پڑتے اوران کی نصیحت غیبت پرمعاون نہ ہوتی ۔ علماء میں سے جب کوئی عالم کسی کی برائی بیان کرتاہے توکہتاہے : کیارسول اللہ عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے یہ حدیث مروی نہیں:''کیاتم برے شخص کا تذکرہ"
کرنے سے بچتے ہو؟اس کی برائی بیان کرو تاکہ لوگ اس سے اجتناب کریں( یعنی بچیں)۔''
(الموسوعۃ لابن أبی الدنیا،کتاب الغیبۃ والنمیمۃ،باب الغیبۃ التی یحل ۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث۸۴،ج۴،ص۳۷۴)
" اس حدیث کودلیل بناکر لوگوں کی غیبت کی جاتی ہے۔حالانکہ اس سے یہ ثابت نہیں ہوتاکہ نفس کی خاطرکسی مسلمان کی برائی بیان کی جائے نہ ہی یہ ثابت ہوتاہے کہ تو مسلمان کی اس برائی کو خواہ مخواہ لوگوں پرظاہرکرے جس کا تجھ سے سوال ہی نہیں کیا گیا ، ہاں! اگرکوئی تیرے پاس آئے اورکہے: '' میں فلاں شخص سے اپنی بیٹی کی شادی کر نا چاہتاہوں، آپ اس بارے میں کیا مشورہ دیتے ہیں ؟'' تو اب اگر تُواس شخص کی بری اورنامناسب باتیں جانتاہے یا یہ جانتا ہے کہ یہ مسلمانوں کی حرمت کاخیال نہیں رکھتا تو اب تجھے جائزنہیں کہ اپنے مسلمان بھائی کومشورہ دینے میں خیانت سے کام لے ۔بلکہ اسے احسن طریقے سے اس جگہ شادی کرنے سے روک دے۔
اسی طرح اگرکوئی شخص تیرے پاس آکرکہے: ''میں فلاں کے پاس کچھ رقم امانت رکھناچاہتاہوں ۔آپ کااس بارے میں کیا مشورہ ہے ؟'' اگرتُواس شخص کے بارے میں جانتاہے کہ وہ امانت رکھنے کے قابل نہیں تو تیرے لئے جائزنہیں کہ ا پنے مسلمان بھائی کے مال کوضائع کروائے بلکہ اسے احسن طریقے سے اس کے پاس امانت رکھنے سے روک دے۔اسی طرح ا گر کو ئی پوچھے کہ ''فلاں کے پیچھے نمازپڑھناچاہتاہوں یافلاں کواستاد بناناچاہتاہوں،آپ کی اس بارے میں کیارائے ہے ؟'' تواگر تُواس کو امام یا استاد بننے کے قابل نہیں سمجھتاتوضروری ہے کہ سائل کواَحسن طریقے سے منع کرد ے۔ لیکن ان تمام باتوں میں دل کی بھڑاس نکالنا مقصود نہ ہو بلکہ احسن طریقہ اختیار کیا جا ئے۔
توجہ سے سن!قاریوں ،عابدوں اورزاہدوں کے غیبت میں پڑنے کاسبب'' تعجب ''ہے ۔وہ تعجب کااظہارکرتے ہوئے اپنے مسلمان بھائی کی غیبت کربیٹھتے ہیں۔ پھرکہتے ہیں کہ ہم توتعجب کررہے ہیں ۔حالانکہ اس تعجب ہی میں وہ مسلمان کی برائی بیان کر جاتے ہیں اوراس کی غیرموجودگی میں ایسی بات کرتے ہیں جوایذاء کاسبب ہوتی ہے ۔پس یہ لوگ اس طرح اپنے مسلمان بھائیوں کاگوشت کھانے لگتے ہیں ۔رہے استاد ،سرداراورحاکم وہ شفقت ورحمدلی کے طریقے سے غیبت کی گہری کھائیوں میں جا گرتے ہیں۔مثلاََکوئی استاذیاسرداراپنے شاگرد یا ماتحت کے بارے میں کہتاہے: ''افسوس!بے چارہ مسکین فلاں فلاں کام میں پڑ گیا، ہائے ہائے! بے چارہ فلاں برائی کامرتکب ہوگیا۔'' اس طرح کی باتیں کرکے وہ سمجھتاہے کہ میں اس سے محبت اورشفقت کی وجہ سے ایساکہہ رہا ہوں حالانکہ وہ غیبت جیسی برائی میں پڑچکاہوتاہے۔پھریہ استاداپنے شاگردکی برائی کودوسروں کے سامنے ظاہر کرتا اورکہتا ہے:''میں نے تمہارے سامنے اس کی برائی اس لئے بیان کی تاکہ تم اپنے بھائی کے لئے کثرت سے دعا کرو۔'' اپنے گمان میں یہ اسے شفقت ومحبت سمجھتاہے لیکن حقیقت میں یہ غیبت کررہاہوتاہے۔"
" اللہ عَزَّوَجَلَّ میں شیطان کے خفیہ واروں سے بچائے۔ہم اللہ ربُّ العِزّت کی بارگاہ میں دعاکرتے ہیں کہ وہ ہمیں مسلمانوں کی غیبت کرنے سے محفوظ رکھے۔ ( آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)
اے میرے بیٹے! غیبت سے کوسوں دوربھاگ!ہمیشہ اس سے بچتارہ،بے شک قرآن مجیدمیں غیبت کومُردارکاگو شت کھانے کی طرح کہاگیاہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:"
اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحْمَ اَخِیۡہِ مَیۡتًا
"ترجمۂ کنزالایمان: کیاتم میں کوئی پسندرکھے گاکہ اپنے مرے بھائی کا گوشت کھائے۔(پ26،الحجرات: 12)
اسی طرح غیبت کی مذمت پر حضورصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بہت سی احادیث ِمبارکہ مروی ہیں۔اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں غیبت کی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھے ۔( آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!غیبت ہمارے معاشرے کاایک ایسا ناسُورہے جس نے مسلمانوں کی محبت کے بندھن کو توڑنے میں بہت گھناؤنا کرداراداکیاہے۔اسی برائی کے سبب مسلمان اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے درمیان ذلیل و رُسوا ہو رہا ہے۔اس خصلتِ بدنے ایک دوسرے کی عزت وتکریم کے جذبے کوملیامیٹ کرکے رکھ دیاہے ۔نہ توغیبت کرنے والااس برائی سے بچنے کی کوشش کرتاہے اورنہ ہی سننے والے اس کوروکتے بلکہ خودبھی ہاں میں ہاں ملاکراپنے آپ کو گندگی کے عمیق گڑھے میں گرالیتے ہیں۔ غیبت صراحۃً بھی ہوتی ہے اوراشارۃً بھی ،الفاظ سے بھی اورانداز سے بھی ۔غیبت کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لئے امیرِاہلسنت، بانئ دعوتِ اسلامی حضرتِ علامہ مولاناابوبلال محمدالیاس عطارؔ قادری دامت برکاتہم العالیہ کے انتہائی پُراَثررسالے ''غیبت کی تباہ کاریاں ''کامطالعہ کیجئے۔اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ غیبت جیسی خصلتِ بدسے توبہ کرنے اوردوسروں کو اس برائی سے بچانے کاذہن بنے گا۔اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں غیبت اوردیگرتمام گناہوں سے بچنے کی توفیق عطافرمائے۔)( آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
حضرت سیِّدُنا عبدالرحمن بن زید بن اَسلم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم فرماتے ہیں: حضرت سیِّدُناعَطَا بن یَسَار اورحضرت سیِّدُنا سلیمان بن یَسَارعلیہمارحمۃ اللہ الغفار اپنے چند رفقاء کے ہمراہ حج کے لئے حرمین شریفین زَادَ ھُمَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًاکی جانب روانہ ہوئے۔ مقامِ''اَبْوَاء'پر قافلے نے ایک جگہ قیام کیا۔ حضرت سیِّدُناسلیمان علیہ رحمۃ الرحمن اور شرکائے قافلہ کسی کام سے چلے گئے اور
"حضرت سیِّدُناعطا بن یَسَار علیہ رحمۃ اللہ الغفار اکیلے ہی سامان کے قریب نماز پڑھنے لگے۔ کچھ دیر بعد قریبی بستی سے ایک حسین وجمیل عورت وہاں آئی اور قریب آکر بیٹھ گئی ۔آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے سمجھا کہ کوئی مجبور عورت ہے اور کسی حاجت سے آئی ہے۔ اس لئے نماز کو مختصر کیا اور سلام پھیرنے کے بعد پوچھا:''کیا تمہیں کوئی حاجت ہے ؟''اس نے کہا :''جی ہاں ۔'' پوچھا: ''کیا چاہتی ہو؟'' کہا: '' وہی چاہتی ہوں جوعورتیں مردوں سے چاہتی ہیں، تم میری خواہش پوری کردو۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا : ''جا!یہاں سے چلی جا! مجھے اور خود کو جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ کا ایندھن نہ بنا۔ عورت پر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی اس بات کا کچھ اثر نہ ہوا وہ مِنَّت سماجت کرتے ہوئے مسلسل دعوتِ گناہ دیتی رہی۔ لیکن آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ہر بار اس کی بات کو رَد کیا۔ جب وہ بہت زیادہ اصرار کرنے لگی توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ خوفِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ کے باعث رونے لگے اور فرمانے لگے: ''تجھے خداعَزَّوَجَلَّ کا واسطہ! مجھ سے دُور چلی جا، جا! مجھ سے دور چلی جا۔'' جب عورت نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی گریہ و زاری دیکھی تو وہ بھی رونے لگی ۔ اتنے میں حضرتِ سیِّدُناسلیمان بن یَسَار علیہ رحمۃ اللہ الغفار آپہنچے۔ جب انہوں نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور ایک عورت کو روتے دیکھا توخود بھی رونے لگے حالانکہ وہ جانتے نہ تھے کہ یہ دونوں کیوں رورہے ہیں۔ پھر شرکائے قافلہ میں سے جو بھی وہاں آتا انہیں روتا دیکھ کر رونا شروع کردیتا کسی نے بھی رونے کا سبب نہ پوچھا۔ بس ایک دوسرے کو دیکھ کر ہر ایک روئے جا رہا تھا۔ پھروہ عورت اُٹھی اور روتی ہوئی اپنی بستی کی طرف چلی گئی ۔ دوسرے لوگ آہستہ آہستہ کھڑے ہوئے اور اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوگئے۔کسی نے بھی حضرتِ سیِّدُنا عَطَاء رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے رعب وجلال کی وجہ سے ان سے اس عورت اور رونے کے متعلق نہ پوچھا ۔
حضرتِ سیِّدُنا سلیمان بن یَسَار علیہ رحمۃ اللہ الغفار فرماتے ہیں :بالآخرایک دن میں نے ہمت کرکے پوچھا:'' اے میرے بھائی! اس عورت کا کیا قصہ تھا؟'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:''میں تمہیں سارا واقعہ بتاتا ہوں لیکن خبردار جب تک میں اس دنیا میں زندہ رہوں یہ واقعہ کسی کو نہ بتانا۔'' میں نے کہا:''ٹھیک ہے! میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے حکم کی تعمیل کروں گا ۔''پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے پو را واقعہ بتایا اور کہا: '' اس رات میں نے خواب میں حضرتِ سیِّدُنا یوسف علٰی نبینا وعلیہ الصلٰوۃ والسلام کی زیارت کی ، میں شوق سے ان کی زیارت کرتا رہا پھر ان کا حسن وجمال اور نورانیت دیکھ کر مجھ پر رقت طاری ہوگئی میں زاروقطار رونے لگا ،یہ دیکھ کراللہ عَزَّوَجَلَّ کے برگُزیدہ نبی حضرتِ سیِّدُنا یوسف علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃوالسلام نے میری جانب نظرِکرم فرمائی، لبہائے مبارکہ کو جُنبش ہوئی ارشاد فرمایا :''اے شخص !تمہیں کس چیز نے رُلایا ہے ؟'' میں نے دست بستہ عرض کی:
''اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نبی! میرے ماں باپ آپ علیہ السلام پر قربان !مجھے آپ علیہ السلام کے عزیزِ مصرکی بیوی کے معاملے میں آزمائش میں مبتلا ہونے، قید میں جانے ، حضرتِ سیِّدُنایعقوب علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام سے آپ کی جدائی ، آپ کی پاکدامنی اور صبر وشکر پر تعجب ہو رہا ہے۔'' یہ سن کر حسن وجمال کے پیکر حضرتِ سیِّدُنا یوسف بن یعقوب علٰی نبیناوعلیہما الصلٰوۃ"
"والسلام نے ارشاد فرمایا:''کیا تجھے اس شخص پر تعجب نہیں ہو رہاجسے مقام'' ابواء'' پر ایک دیہاتی عورت کا واقعہ پیش آیا ۔آپ علیہ السلام کی یہ بات سن کر میں سمجھ گیا کہ آپ علیہ السلام نے کس واقعہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ میں پھر رونے لگا جب بیدار ہواتو میری آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور میں بلند آواز سے رورہا تھا۔ اے سلمان! خبردار! میرے جیتے جی یہ واقعہ کسی کو نہ بتانا ۔
راوی کہتے ہیں کہ حضرتِ سیِّدُناسلیمان بن یَسَار علیہ رحمۃ اللہ الغفار نے حضرتِ سیِّدُنا عَطَاء بن یَسَار علیہ رحمۃ اللہ الغفار کی زندگی میں یہ واقعہ کسی کو نہ سنایا۔ جب ان کا انتقال ہوگیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے گھر والوں کو یہ واقعہ بتایا۔ پھر حضرتِ سیِّدُنا سلیمان بن یَسَار علیہ رحمۃ اللہ الغفار کی وفات کے بعد یہ واقعہ پورے شہر میں مشہورہو گیا ۔
حضرتِ سیِّدُنا مُصْعَب بن عثمان علیہ رحمۃ الرحمن سے منقول ہے کہ یہ واقعہ حضرتِ سیِّدُناسلیمان بن یَسَار علیہ رحمۃ اللہ الغفار کے ساتھ پیش آیا ۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لوگوں میں سب سے زیادہ خوبصورت تھے۔ ایک مرتبہ ایک حسین وجمیل نوجوان عورت نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے گھر میں داخل ہوکر گناہ کی دعوت دی، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے انکار کردیا۔ وہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی طرف بڑھی اور کہا:'' میرے قریب آ۔''تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اسے وہیں چھوڑکر گھر سے بھاگ گئے ۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: ''پھرایک دن خواب میں مجھے حضرتِ سیِّدُنا یوسف علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام کی زیارت ہوئی تو میں نے عرض کی:''حضور! کیا آپ ہی اللہ عَزَّوَجَل کے برگزیدہ نبی حضرتِ سیِّدُنا یوسف علٰی نبینا وعلیہ الصلٰوۃ والسلام ہیں؟'' ارشاد فرمایا :'' ہاں! میں ہی یوسف (علیہ السلام )ہوں۔''پھرفرمایا:''اور تووہی ہے کہ جسے گناہ کی دعوت دی گئی لیکن اس نے گناہ کا ارادہ بھی نہ کیا۔''
حضرتِ سیِّدُنا عَطَاء اور حضرتِ سیِّدُناسلیمان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہما دونوں بھائی تھے۔ حضرتِ سیِّدُنا عَطَاء بڑے اور حضرتِ سیِّدُنا سلیمان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہماچھوٹے تھے۔ یہ دونوں اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا مِیْمُوْنَہ بنت حَارِث رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے آزاد کردہ غلام تھے۔ حضرتِ سیِّدُنا عَطَاء رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرتِ سیِّدُنا اُبی بن کَعْب، حضرتِ سیِّدُنا ابن مسعود، حضرتِ سیِّدُنا ابوایوب، حضرتِ سیِّدُنا ابوہریرہ، حضرتِ سیِّدُنا ابو سعید ،حضرتِ سیِّدُناابن عبّاس، حضرتِ سیِّدَتُناعائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے احادیثِ مبارکہ سنیں۔مَیں نے اور ان دونوں نے حضرتِ سیِّدَتُنامَیْمُوْنَہ بنت حَارِث رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے احادیثِ مبارکہ روایت کی ہیں۔ ممکن ہے ان دونوں بھائیوں میں سے ہر ایک کے ساتھ عورت والا واقعہ علیحدہ علیحدہ پیش آیا ہو۔"
وَاللہ تَعَالٰی اَعْلَمُ وَرَسُوْلُہٗ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَصلَّی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلَّم۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)
" حضرتِ سیِّدُنا عبدالرحمن بن مَہْدِی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں: وصال سے قبل حضرتِ سیِّدُنا سُفْیَان ثَوْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کو پیٹ کا مرض لاحق ہو گیا ۔ میں آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت کیا کرتا تھا۔ ایک دن میں نے عرض کی :''حضور! میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی تیمارداری میں مشغول رہتا ہوں جس کی وجہ سے با جماعت نمازادا نہیں کر سکتا، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس بارے میں کیا ارشاد فرماتے ہیں ؟'' فرمایا:''کسی مسلمان کی لمحہ بھر کے لئے خدمت کرنا ساٹھ(60) سال کی باجماعت نمازوں سے افضل ہے۔ میں نے عرض کی:'' حضور! یہ بات آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کس سے سنی؟'' ارشاد فرمایا :'' میں نے حضرتِ سیِّدُنا عاصم بن عُبیداللہ بن عبد اللہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا، انہوں نے حضرتِ سیِّدُناعامررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ'' کسی بیمار مسلمان بھائی کی ایک دن خدمت کرنا مجھے ان ساٹھ (60)سال کی باجماعت نمازوں سے زیادہ پسند ہے جن میں کبھی تکبیرِ اولیٰ بھی فوت نہ ہوئی ہو۔''
جب مرض طول پکڑ گیا توآپ کو گُھٹن سی محسوس ہوئی اور'' اے موت!اے موت !'' کہنے لگے۔ پھر فرمایا :'' میں نہ تو موت کی تمنا کررہا ہوں نہ ہی مو ت کی دعا مانگ رہا ہوں۔ بلکہ میں تو''لفظ ِموت'' کہہ رہا ہوں۔''جب وصال کا وقت قریب آیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ زار وقطار رونے لگے ۔میں نے عرض کی:'' اے ابو عبداللہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ!یہ رونا کیسا ؟'' فرمایا :'' موت کے وقت کی شدید تکلیف کی وجہ سے رو رہا ہوں، اے عبدالرحمن!اللہ عَزَّوَجَلَّ، زبردست طاقت والا ہے ۔''میں نے دیکھا کہ کثرت بکاء (یعنی بہت زیادہ رونے)کی وجہ سے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی آنکھیں ڈھلک گئی تھیں اور پیشانی پر پسینہ آرہا تھا ۔فرمایا :''میری پیشانی سے پسینہ صاف کردو۔'' میں نے پسینہ صاف کیا تو دوبارہ آگیاتو آپ نے کہا : ''اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ۔'' (پھر فرمایا)میں نے حضرتِ سیِّدُنامنصور سے، انہوں نے حضرتِ سیِّدُنا ہِلَال بن یَسَا ف سے، انہوں نے حضرتِ سیِّدُنابُرَیْدَہ اَسْلَمِی رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے روایت کی:آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ '' میں نے سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگار، شفیعِ روزِ شُمار، بِاذ ْنِ پروردْگاردو عالَم کے مالک و مختارعَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو یہ فرماتے سنا:'' بے شک مؤمن کی روح پسینے کے ساتھ نکلتی ہے۔''"
(جامع الترمذی،ابواب الجنائز،باب ما جاء فی التشدید عند الموت،الحدیث۹۸۰،ص۱۷۴۵''روح''بدلہ ''نفس'')
(پھر فرمایا)اے ابن مَہْدِی!میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے امید رکھتا ہوں کہ اس دنیا سے ایمان کے ساتھ جاؤں گا۔ اے ابنِ مَہْدِی!تیرا بھلا ہو! کیا تجھے معلوم ہے کہ عنقریب میری ملاقات کس سے ہوگی ؟سن!میں اپنے پروردگار عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں جارہا ہوں جو اپنے بندوں پر رحم دل اورشفیق ماں سے زیادہ رحم فرمانے والا، سب سے زیادہ کریم وجواد ہے۔ اے عبدالرحمن !جب مجھے اپنے کریم پرورد گارعَزَّوَجَلَّ سے ملاقات کا بہت زیادہ شوق ہے تو پھر میں موت کو کیوں مکروہ جانوں گا؟'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی یہ
"ایمان افروز باتیں سن کر مجھ پر رقت طاری ہوگئی ،روتے روتے میری ہچکیاں بندھ گئیں۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پر غشی طاری ہو نے لگی تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی زبان سے یہ الفاظ نکلے ۔ہائے موت کا درد !ہائے موت کا درد !لیکن یہ آواز اس وقت آئی جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہوش میں نہ تھے ورنہ بحالت ہوش آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک مرتبہ بھی دردو اَلَم کی شکایت نہ کی۔ جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو ہوش آیا تو فرمایا :''
میرے پروردگار عَزَّوَجَلَّ کے قاصدوں (یعنی فرشتوں)کی آمد مرحبا! طَیِّبِین کو خوش آمدید!''یہ کہہ کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پھر بے ہوش ہوگئے۔میں سمجھا کہ شاید آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا انتقال ہوگیاہے ، میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی پیشانی سے پسینہ صاف کرنے لگا کچھ دیر بعد آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے آنکھیں کھولیں اور فرمایا:''اے عبدالرحمن !پڑھو ۔''میں نے عرض کی:''کیا پڑھوں؟'' فرمایا: ''رحمت کے فرشتوں کو لانے والی اور شیطانوں کودور کرنے والی سورت ( یٰسین شریف )کی تلاوت کرو۔''
میں نے سورۂ یٰسین شریف کی تلاوت شروع کی،دوران تلاوت مجھ پر رقت طاری ہوگئی، رونے کی وجہ سے مجھ سے بعض حروف کی صحیح ادائیگی نہ ہو سکی تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:''جن الفاظ میں غلطی ہوئی ہے انہیں دوبارہ پڑھو ۔''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے وہ غلطی درست کرائی اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پرپھر غشی طاری ہوگئی ۔کچھ دیر بعد آنکھیں کھو ل کر اُوپر کی جانب دیکھنے لگے ۔ گھروالے اور بچے رونے لگے، ان کی ہلکی ہلکی چیخیں بلند ہوئیں لیکن یہ آواز گھر تک ہی محدود تھی باہر سنائی نہ دیتی تھی۔ جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو کچھ ہوش آیا توفرمایا :''یہ چیخ وپکا ر اور رونا کیسا ؟''میں نے عرض کی:'' گھر کی عورتوں پر رقت طاری ہوگئی ہے۔'' فرمایا :' ' اللہ تبارک وتعالیٰ تم پر رحم فرمائے، خاموش ہو جاؤ! چیخ وپکار اور رونا بند کرو! اپنے کپڑے ہر گز نہ پھا ڑنا کیونکہ نوحہ کرنا اور کپڑے پھاڑنا زمانہ جاہلیت کے کام ہیں، ان چیزوں کو ترک کرو اور اس طرح کہو:''اے سُفْیَان ثَوْرِی!اللہ تبارک وتعالیٰ قولِ ثابت کے ساتھ تجھے ثابت قدم رکھے ۔تیری حجتیں تجھے پہنچ جائیں ۔اللہ عَزَّوَجَلَّ تجھ پر رحمت کے فرشتے نازل فرمائے۔'' میرے انتقال کے بعد کثرت سے یہ دعا ئیں کرنا ۔ابھی اس طرح دعا کرو: ''اے ہمارے پرورد گار عَزَّوَجَلَّ!جو ہم دیکھ رہے ہیں ہمیں اس سے نصیحت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرما اور اس پر یقینِ کامل عطا فرما ۔''(آمین)
حضرتِ سیِّدُنا عبدالرحمن علیہ رحمۃ المنّان فرماتے ہیں: پھرآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مجھ سے فرمایا:'' حَمَّادبن سَلَمَہ (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) کو میرے پاس بلا لاؤ، میں پسند کرتا ہوں کہ وقتِ رخصت وہ میرے پاس موجود ہوں۔'' میں حضرتِ سیِّدُنا حَمَّاد بن سَلَمَہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس گیا اور عرض کی: ''حضرتِ سیِّدُنا سُفْیَان ثَوْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی حالتِ نزع میں ہیں۔ یہ سنتے ہی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فوراً ننگے پاؤں صرف ایک چادر پہنے جلدی جلدی وہاں پہنچے۔ اس وقت حضرتِ سیِّدُنا سُفْیَان ثَوْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی پر غشی طاری تھی۔ حضرتِ سیِّدُنا حَمَّادعلیہ رحمۃ اللہ الجواد نے فرطِ محبت میں ان کی پیشانی پر بوسہ دیا اور روتے ہوئے کہنے لگے:''اے ابوعبداللہ!"
"اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو برکت عطا فرمائے۔ ہم آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے بہت زیادہ مشتاق تھے۔ حضرتِ سیِّدُناسُفْیَان ثَوْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کو ہوش آیا تو کہا:''تمام تعریفیں اس پاک پرورد گارعَزَّوَجَلَّ کے لئے ہیں جس نے اپنی مخلوق کے فنا ہونے کا فیصلہ فرمایا۔'' میں نے عرض کی :''حضور! دیکھئے! حضرتِ سیِّدُناحَمَّاد بن سَلَمَہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس موجود ہیں۔'' فرمایا:'' اے میرے بھائی! مرحبا، مرحبا !میرے قریب آجاؤ! اے حَمَّاد!اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرتے رہنا اور حالتِ نزع کی تکالیف کو دیکھ لو عنقریب تم پربھی یہ کیفیت طاری ہونے والی ہے۔ تم نہیں جانتے کہ پیغامِ اَجَل تمہیں اپنے گھر میں آئے گایا کہیں اور، صبح آئے گا یا شا م کو ۔
یہ سن کر میں اور حضرتِ سیِّدُنا حَمَّاد علیہ رحمۃ اللہ الجواد فکرمیں مبتلا ہوگئے اورآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پر غشی طاری ہو گئی ۔جب اِفاقہ ہوا تو فرمایا: '' اے حَمَّاد !ذرا سوچ اور اس بارے میں غوروفکر کر، جب تواللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں حاضرہوگا ۔ اے حَمَّاد!اگر تو رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے صحابۂ کرام علیہم الرضوان کو دیکھ لیتا تو کبھی بھی دنیاوی زندگی کو پسند نہ کرتا، وہ لوگ وصال کے اتنے شوقین تھے کہ موت بھی ان کی اتنی خواہش مند نہ ہوگی ۔وہ گمان کرتے تھے کہ گویا ہم جہنم میں داخل ہوں گے بس یہی سوچ کر وہ تڑپتے اور روتے رہتے اور ان کی آنکھوں سے سَیْلِ اَشک رَواں ہوجاتا حالانکہ جنت ان کے سامنے ہوا کرتی تھی، وہ ساری ساری رات قیام وسجود میں گزار دیتے تھے ۔اللہ ربُّ العزّت نے اپنی پاکیزہ کتاب قرآنِ پاک میں ان کی عمدہ صفات اور بہترین اوصاف کا ذکر فرمایا۔اے حَمَّاد!غرو رو تکبر ،ریاکاری اور خود پسندی سے بچتے رہنا،ان صفاتِ مذمومہ (یعنی بری صفات) کے ہوتے ہوئے دِین سلامت نہیں رہتا ۔اے حَمَّاد !چھوٹوں کے لئے سراپا شفقت اور بڑوں کے لئے سراپاعاجزی و محبت بن جاؤ۔ لوگوں کے لئے وہی بات پسند کرـ جب تمہیں تنہائی میسر آئے توسفرِ آخرت کے بارے میں غوروفکرکرکے اپنے آپ پر خوب رویا کرو اور سوچا کرو کہ تمہاری ابتداء و انتہاء کیا ہے۔ غور وفکر کر کہ تجھے ایک امرِعظیم درپیش ہے، وہ امر ایسا سخت ہے کہ اس کی سختی لوہاوپتھر بھی برداشت نہیں کرسکتے۔ اگر تو اس دُشوار گزار گھاٹی سے نجات پاگیا تو سمجھ لے کہ تو کامیاب ہوگیا اور اگر خدانخواستہ اس گہری کھائی میں گرگیا تو بد بختوں میں سے ہوگا اور تجھے ایسا غم ملے گاجو کبھی ختم نہ ہوگا اورآگ میں جلنے والے کو سکون نہیں ملتا ۔اے حَمَّاد ! اغنیاء کی مجالس سے بچتے رہنا !بے شک وہ تیری زندگی تیرے لئے ناپسندیدہ بنا دیں گے ۔مغروروں کی مجالس میں ہرگزنہ بیٹھنا، ان کی صحبت سے بچتے رہنا۔ اگر ان کے ساتھ بیٹھے گا تو وہ تجھے اپنی بری عادتیں سکھائیں گے۔ ہاں!علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضری لازم کر۔ان کے سامنے نرمی سے گفتگو کر، انہیں گھُور گھُور کر ہرگز نہ دیکھنا ،نہایت عاجزی و اِنکساری کے ساتھ ان سے ملنا، اگر تو ایسا کریگا توان کی بھلائیوں سے تجھے بھی حصہ ملے گا اورتو ان کی برکتوں سے فیض یاب ہوگا ۔"
" ہائے !اب ایسے علماء کہاں ہیں جو انبیاء کرام علیہم السلام کے جانے کے بعد ان کے وارث بنتے ہیں ۔ہائے! وہ اس فانی دنیا کو اس کے چاہنے والوں کے لیے چھوڑ کردارِبقاء کی طرف چلے گئے ،انہیں عالِم اس لئے کہا گیا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا جو حق ان پر ہے اسے پہچانتے ہیں اور ان کا اپنے اوپر جو حق ہے اسے بھی جانتے ہیں۔پس یہ لوگ آگ سے دور بھاگتے اور جنت کی امید رکھتے ہیں ۔جو چیزیں اللہ رَبُّ العِزَّت عَزَّوَجَلَّ کو ناپسند ہیں یہ بھی انہیں ناپسند کرتے ہیں اورجسےاللہ عَزَّوَجَلَّ پسند فرماتا ہے یہ اس سے محبت کرتے ہیں ۔اے حَمَّاد!دنیا کی رنگینیوں میں کھوئے ہوئے علماء سے بچنا !بے شک جو بھی ان کے قریب جائے گا یہ اسے فتنے میں ڈال دیں گے۔ اگر کوئی جاہل ان کے پاس بیٹھے گا تو اس کی جہالت میں مزید اضافہ ہوگا،کوئی جاننے والا ان کے پاس جائے گا تو یہ اس کی فکرِآخرت میں کمی کا سبب بنیں گے۔ ایسے ہی لوگوں کے کاموں سے رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ڈرایا اور ان کے ساتھ بیٹھنے سے منع فرمایاہے۔
اے حَمَّاد !تو جہاں بھی رہے ہر حال میں ہر جگہ صدق کو اپنے اوپر لازم رکھنا کیونکہ سچائی کی بدولت اللہ تبارک وتعالیٰ تجھے عزت عطا فرمائے گا۔ صبر کو اپنے اوپر لازم کرلینا! بے شک یہ دین کا بادشاہ ہے، یقین کو مضبوطی سے تھام لیناکیونکہ یہ ا سلام کی بلندی کا سر چشمہ ہے۔اے حَمَّاد !علمِ دین کو مخلوق میں سے کسی کے ہاتھ نہ بیچنا بلکہ اس کے ذریعے اس رحیم وکریم پروردگار عَزَّوَجَلَّ کی طرف متوجہ ہونا جو چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو بھی قبول کرتا اور بڑے سے بڑے گناہ کو بھی معاف فرمادیتا ہے۔ یہ میری وصیت ہے، اسے مضبوطی سے تھام لینا ۔اتنا کہہ کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پر غشی طاری ہوگئی ہم نے دیکھا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے جسم سے پسینہ نکل رہا تھا اور قدم ٹھنڈ ے ہوچکے تھے ۔ پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو ہوش آیا تو فرمایا :''اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ بے شک مؤمن ہر حال میں بھلائی کو پہنچتاہے۔مؤمن کی روح اس کے پہلوؤں سے نکلتی ہے اور وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی حمد کرتا ہے، تمام تعریفیں اسی خدائے بزرگ وبرتر کے لئے ہیں جو اکیلا ہی ہرحمدِ حقیقی کے لائق ہے ۔ حضرتِ سیِّدُنا حَمَّادعلیہ رحمۃ اللہ الجواد نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے کہا : ''لَا اِلٰہَ اِلَّااللہ پڑھئے ۔''تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کلمہ طیبہ پڑھ کر یہ آیتِ کریمہ تلاوت کی :"
رَبَّنَاۤ اَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَیۡرَ الَّذِیۡ کُنَّا نَعْمَلُ ؕ
"ترجمہ کنزالایمان :اے ہمارے رب! ہمیں نکال کہ ہم اچھاکام کریں اس کے خلاف جوپہلے کرتے تھے۔(پ22،الفاطر:37)
پھریہ آیتِ مبارکہ پڑھی:"
وَلَوْ رُدُّوۡا لَعَادُوۡا لِمَا نُہُوۡا عَنْہُ وَ اِنَّہُمْ لَکٰذِبُوۡنَ ﴿28﴾
"ترجمہ کنزالایمان :اوراگرواپس بھیجے جائیں توپھروہی کریں جس سے منع کئے گئے تھے اوربے شک وہ ضرورجھوٹے ہیں۔(پ7، الانعام:28)
پھراُوپردیکھااور یہ آیتِ کریمہ پڑھی:"
وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَمَا بَیۡنَہُمَا لٰعِبِیۡنَ ﴿38﴾ مَا خَلَقْنٰہُمَاۤ اِلَّا بِالْحَقِّ
"ترجمہ کنزالایمان:اورہم نے نہ بنائے آسمان اورزمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کھیل کے طورپر۔ہم نے انہیں نہ بنا یا مگرحق کے ساتھ۔(پ25،الدخان:38۔39)
پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی آوازبند ہوگئی ۔ حضرتِ سیِّدُنا عبد الرحمن بن مَہْدِی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:''میں نے حضرتِ سیِّدُنا حَمَّادبن سَلَمَہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو یہ فرماتے سنا :''خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم!اس عظیم ولی کے بعدمشرق ومغرب میں اس کی مثل کوئی نہیں۔یہ بزرگ انبیاء کرام علیہم السلام کی سنتوں کے آئینہ دار تھے۔'' یہ کہہ کر حضرت سیِّدُنا حَمَّاد علیہ رحمۃ اللہ الجواد رونے لگے، یہاں تک کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی آواز بلندہوگئی ۔میں نے کہا:''اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ پر رحم فرمائے۔ اطمینان رکھئے اور رونا موقوف کر دیجئے۔''
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے'' اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْن'' پڑھ کر کہا:'' اے عبدالرحمن بن مَہْدِی علیہ رحمۃ اللہ القوی !تیرا بھلا ہو! ان کے بعدایسا کون ہے جس پر رویا جائے ۔''کچھ دیر بعد حضرتِ سیِّدُنا سُفْیَان ثَوْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کلام کرنے لگے اور مجھے پکارا۔ میں نے کہا:'' میں حاضر ہوں۔'' فرمایا:''دینار کا چوتھا حصہ دے کرمیری قبر کھدوانا، دینا ر کے چوتھے حصے کی خوشبو وغیرہ خریدنا اور نصف دینار کا کفن خرید لینا مجھے میری اسی چادر میں غسل دینا پھر اسے ہی میرے کفن کی چادر بنا دینااور جو قمیص میں نے پہنی ہوئی ہے اسے پھاڑ کر دھوکر میرے کفن کی قمیص بنا دینا مجھ پر اس سے زائد بوجھ نہ ڈالنا اور یہ تمام کام اس وقت کرنا جب مجھے اس مکان سے دور لے جاؤ ورنہ اژدہام(یعنی لوگوں کاہجوم) ہوجائے گا اور تجھے میری وجہ سے مشقت ہوگی اور میں نہیں چاہتا کہ تجھے مشقت ہو۔ پھر میری نمازِ جنازہ پڑھنا ، خبردار چیخ وپکار ہرگز نہ کرنا۔'' اتنا کہہ کر ولی ئکامل حضرتِ سیِّدُناسُفْیَان ثَوْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی داعی اَجل کو لَبَّیْک کہتے ہوئے اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔"
(اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْن)
" (اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)
میں نے حضرتِ سیِّدُنا حَمَّاد علیہ رحمۃ اللہ الجواد کودیکھاکہ روتے روتے ان کی ہچکیاں بند ھ گئیں۔ میں نے کہا:''اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کواَجرِعظیم عطا فرمائے ۔ صبر کیجئے ۔''فرمایا : ''اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہیں بھی اجر عطا فرمائے ۔'' پھر میں نے حضرتِ سیِّدُنا سُفْیَان ثَوْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی پر کپڑا ڈال دیا، گھرکی عورتیں شدتِ غم سے رو رہی تھیں لیکن ان کی آواز پست تھی۔ میں نے حضرتِ سیِّدُنا حَمَّاد علیہ رحمۃ اللہ الجواد سے کہا: ''ان کے غسل وغیرہ کے متعلق آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی کیا رائے ہے۔'' فرمایا:''اس وقت تک انہیں بالکل حرکت نہ دینا جب تک ہم انہیں اس مکان سے دور نہ لے جائیں۔'' چنانچہ، ہم آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے جسم مُبَارَک کو لے چلے، راستے میں کچھ لوگوں نے دیکھا تو جمع ہوگئے اور کہا:'' یہ تو میِّت ہے۔'' جب انہوں نے چادر ہٹاکر دیکھا تو کہا: '' ہم اسی کوفی کی تلاش میں تھے۔'' کچھ دیر بعد حاکمِ وقت بھی آگیا۔ لوگوں نے سمجھا کہ شاید یہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی میِّت کی"
"بے حرمتی کریگا اور سر کاٹ کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے بدن کولٹکا دے گا۔ اسی خطرے کے پیشِ نظرلوگوں نے اپنے اپنے ہتھیار نکال لئے اور پختہ ارادہ کر لیا کہ اگر حاکم نے ہلکی سی گستاخی بھی کی تو ہم اس سے جنگ کریں گے۔ حاکم مجمع کے قریب آیا، لوگوں کو دور کرتے ہوئے جنازے کے قریب پہنچا اور حضرتِ سیِّدُنا سُفْیَان ثَوْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کی دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دے کر بلند آواز سے رونے لگا۔ لوگ تو پہلے ہی غمزدہ تھے اب سارا مجمع رونے لگا۔بچے، بوڑھے، جوان، مردو عورت الغرض ہر شخص رورہا تھا ہر آنکھ پُرنم تھی۔ حاکم نے فقہاء کرا م علیہم الرحمۃ کو بلواکر کہا:'' مجھے اس ولئ کامل کی تدفین کے بارے میں مشورہ دو۔''
حضرتِ سیِّدُنا حَمَّاد بن سَلَمَہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وہاں موجود تھے، انہوں نے فرمایا :'' اے امیر!میری رائے یہ ہے کہ انہیں ان کی چادر اور قمیص کا کفن دیا جائے اور ہم خود اپنے ہاتھوں سے انہیں غسل دیں، بے شک انہیں یہی بات پسندتھی ۔حاکم نے کہا: ''ٹھیک ہے، تم لوگ انہیں غسل دے کر انہی کپڑوں کا کفن پہناؤ،لیکن اس کے بعد میں اپنی طرف سے کفن پہناؤں گا ۔''پھر حضرتِ سیِّدُنا حَمَّاد بن سَلَمَہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فقہاء کرام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی جماعت کے ساتھ مل کر غسل دیا، قمیص کوکفنی اور آپ کی چادر کو ازار (یعنی کفن کی چادر)بنایااورخوشبو وغیرہ لگائی۔ پھر حاکم نے سفید قیمتی کپڑا منگوا کراپنی طرف سے کفن پہنایا۔جب حاکم کی طرف سے دیئے جانے والے کفن کی قیمت معلوم کی گئی تووہ دو سو(200) دینار تھی۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کاجنازہ قبرستان لایا گیا اور بعد نمازِ مغرب اس ولئ کامل کو دفنا دیا گیا ۔
حضرتِ سیِّدُناعبدالرحمن کہتے ہیں: مجھ سے حضرتِ سیِّدُنا فُضَیْل بن عِیَاض علیہ رحمۃ اللہ الوہاب نے فرمایا:'' مجھے حضرتِ سیِّدُنا سُفْیَان ثَوْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کے متعلق کچھ بتاؤ۔''جب میں نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو ان کے اَخلاق وعبادات کے متعلق بتایا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ روتے ہوئے فرمانے لگے: ''کیاتم جانتے ہوکہ حضرتِ سیِّدُنا سُفْیَان ثَوْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کون تھے؟ سنو! ان کے بعد ان جیسا کوئی اور نہیں ملے گا، وہ امام تھے ،فاضل تھے ،اَدب سکھانے والے، نصیحت کرنے والے اور بہترین اُستاذ تھے۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
حضرتِ سیِّدُنا اسماعیل بن ابوحَکِیم علیہ رحمۃ اللہ الحکیم کہتے ہیں: '' جب حضرتِ سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز علیہ رحمۃ اللہ القدیر خلیفہ بنے تو انہوں نے مجھے فدیہ دے کر مسلمان جنگی قیدیوں کوچھُڑانے کے لئے بھیجا ۔جب میں ''قُسْطَنْطِینِیَّہ'' پہنچا تو ایک شخص کے گانے کی آواز سنی، میں نے پوچھا:'' تو کون ہے ؟'' کہا:'' میں ابو وَابِصِی ہوں، عیسائیوں نے مجھ پربہت ظلم وستم کیا طرح
"طرح کی سزائیں دیں بالآخر ان تکالیف سے تنگ آکر میں نے عیسائی مذہب قبول کر لیا ہے۔''میں نے کہا: ''امیرالمؤمنین حضرتِ سیِّدُناعمر بن عبدالعزیز علیہ رحمۃ اللہ القدیر نے مجھے فدیہ دے کرمسلمان قیدیوں کو چھڑانے کے لئے بھیجا ہے، اگر تو نے مجبور ہو کر صرف زبان سے کلمۂ کفربَکّا ہے اور تیرا دل ایمان سے بھرا ہوا ہے تو مجھے سب قیدیوں سے زیادہ تیری رہائی پسند ہے۔ جلدی بتا!کیا تو نے دل سے توعیسائی مذہب قبول نہیں کیا ؟''ابووَابِصِی نے کہا:'' اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! کفر میرے دل میں داخل ہوچکا ہے، میں دل سے عیسائیت قبول کر چکا ہوں ۔''(معاذاللہ عَزَّوَجَلَّ)
میں نے کہا:''اللہ عَزَّوَجَلَّ تجھے ہدایت دے، اسلام قبول کرلے۔'' کہا:'' میرے دو بیٹے ہیں اور اب میں نے ایک عورت سے شادی کی ہے اس سے بھی دوبیٹے ہوئے ہیں۔ اگر میں اسلام لے بھی آیا تب بھی مجھے نصرانی ہی کہا جائے گا۔ اسی طرح میرے بچوں اور ان کی ماں کو بھی نصرا نی کہا جائے گا، مجھے یہ بات گوارا نہیں لہٰذا میں نصرانی رہنا ہی پسند کرتا ہوں۔ خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم !اب میں ہرگز مسلمان نہیں ہوں گا ۔''(معاذاللہ عَزَّوَجَلَّ )میں نے کہا :''کیا تجھے حالتِ ایمان میں کچھ قرآن یاد تھا؟'' اس نے کہا:'' بخدا!میں حالتِ اسلام میں بہترین قاری تھا۔'' میں نے کہا:'' کیااب بھی تجھے کچھ یا دہے ؟ '' اس نے کہا:'' نہیں میں سارا قرآن بھول چکاہوں، صرف یہ ایک آیت یاد ہے :"
رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَوْ کَانُوۡا مُسْلِمِیۡنَ ﴿2﴾
"ترجمۂ کنزالایمان:بہت آرزوئیں کریں گے کافر کاش!مسلمان ہوتے۔(پ14،الحجر:2)
ہم خدائے بزرگ وبرتر سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارا ایمان سلامت رکھے۔ہمارے گناہوں کی وجہ سے ہمیں دولتِ ایمان سے محروم نہ کرے بلکہ ہماری خطاؤں کو اپنے پیارے حَبِیْب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے صدقے اپنی رحمت سے معاف فرمائے۔
؎ مسلماں ہيں ہم سب تیری عطا سے ہو ایمان پر خاتمہ یا الٰہی
( آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
حضرت سیِّدُنا مُصْعَب بن ثابِت بن عبداللہ بن زُبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہم بہت زیادہ متقی وعبادت گزار تھے۔ روزانہ ایک ہزار نوافل پڑھاکرتے اور ہمیشہ روزہ رکھتے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:''ایک رات میں مسجدنبوی علی صاحبھا الصلوٰۃ والسلام میں تھا۔ جب سب نمازی چلے گئے تواچانک حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے حجرۂ مبارکہ کی طرف سے ایک شخص ظاہر ہوا اور مسجد کی دیوار
"سے ٹیک لگا کر اس طرح مناجات کرنے لگا : ''اے میرے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ ! تو خوب جانتا ہے کہ آج میرا روزہ تھااورابھی تک میں نے کوئی چیز نہیں کھائی۔ میرے خالق جَلَّ جَلَالُہٗ ! اب ثَرِید کھانے کو بہت جی چاہ رہا ہے، مولیٰ! کرم فرمادے ۔''
ابھی اس نے دعا مکمل بھی نہ کی تھی کہ مِنارہ کی جانب سے ایک عجیب وغریب شخص آیا جس میں انسانوں کی کوئی نشانی نہ تھی وہ کوئی اور ہی مخلوق تھی اس نے ایک بڑا سا پیالہ دعا مانگنے والے کے سامنے رکھ دیا اور خود ایک جانب کھڑا ہوگیا۔وہ پیالے سے کھانے لگا اورمجھے بھی بلایا۔میں سمجھا کہ شاید! یہ جنت کا بابرکت کھانا ہے ،اسی لئے تھوڑاسا کھایا تووہ ایسا عمدہ ولذید تھاکہ اہلِ دنیاکے کھانے اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ میں نے صرف چند لقمے کھائے پھر شرم کی وجہ سے واپس اپنی جگہ آگیا۔ جب وہ شخص کھانا کھا چکا تو پاس کھڑے ہوئے عجیب وغریب شخص نے پیالہ اٹھایا اورجِدھر سے آیا تھا اسی سمت چلاگیا۔ جب دُعا مانگنے والا جانے لگاتومیں بھی اس کے پیچھے چل دیا تاکہ اس کے بارے میں معلومات کر سکوں۔ لیکن اچانک نہ جانے وہ کہاں غائب ہو گیا۔ میرا گمان ہے کہ شاید! وہ حضر تِ سیِّدُناخضر علیہ السلام تھے ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
حضرتِ سیِّدُنا علی بن محمدمَدَائِنِی علیہ رحمۃ اللہ الغنی کا بیان ہے:ایک دن حضرت سیِّدُنا عمر بن عبد العزیز علیہ رحمۃ اللہ القدیر نے خلیفہ سلمان بن عبدالمَلِک سے کہا:'' باہر ایک اعرابی آیا ہوا ہے جو بڑا فصیح کلام کرتا ہے۔'' خلیفہ سلمان بن عبدالمَلِک نے کہا: ''اسے میرے پاس لے آؤ۔'' اعرابی آیا توخلیفہ نے کہا: ''تم کس قبیلے سے تعلق رکھتے ہو؟'' کہا:'' اے امیر المؤمنین !میرا تعلق قبیلہ ''عبدُ القَیْس بن اَقْصٰی'' سے ہے، میری باتیں بظاہر تلخ ہوں گی مگر ضبط سے کام لیا جائے توآپ کے لئے بہت مفید ہوں گی اگر اجازت ہو توکچھ عرض کروں ''؟ خلیفہ نے کہا:'' اے اَعرابی! جو کہنا چاہتے ہوکہو۔'' اعرابی کچھ اس طرح گویا ہوا : '' اے امیرالمؤمنین! بے شک آپ کے پاس ایسے لوگ بیٹھتے ہیں جنہوں نے اپنے دین کو دنیا کے بدلے بیچ ڈالا اور اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّ کی ناراضگی مول لے کر آپ کو راضی رکھنا چاہتے ہیں۔ و ہ آپ سے تو ڈرتے ہیں لیکن آپ کے بارے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کاخوف ان کے پیشِ نظر نہیں ہوتا۔ انہوں نے اپنی آخرت برباد کرکے دنیا کی عیش وعشرت حاصل کر لی ہے ،وہ دنیا سے اپنے آپ کوبچاتے ہیں لیکن آخرت سے جنگ کرتے ہیں۔ آپ اُس معاملے میں ان پر ہرگز اعتماد نہ کریں جس پراللہ ربُّ العِزَّت نے آپ کو ذمہ
"دار بنایا ہے ۔اگر اِن کو اِقتدار مل گیا تویہ امانتوں کوہَڑ َپ کریں گے اور امت پر ظلم وجبر کریں گے۔ پھروہ جو بھی جُرم وظلم کریں گے اس کے بارے میں آ پ سے سوال ہوگا۔ اور اگرآپ ظلم وستم کریں گے تو اُن سے آپ کے متعلق نہیں پوچھا جائے گا۔ اپنی آخرت کو برباد کرکے ان کی دنیا کی اصلاح نہ کیجئے، بے شک! لوگوں میں سب سے زیادہ خسارہ پانے والاوہ ہے جو کسی کی دنیا کے لئے اپنی آخرت برباد کرے۔''
خلیفہ نے کہا:''اے اَعرابی! بے شک تیری زبان کے وار تیری تلوار کے واروں سے کہیں زیادہ تیز ہیں ۔''اَعرابی نے کہا:'' جی ہاں! امیرالمؤمنین! معاملہ ایسا ہی ہے لیکن اس میں آپ کا فائدہ ہے نقصان نہیں ۔''خلیفہ نے کہا :''کیا تیری کوئی حاجت ہے؟'' کہا: ''مجھے عام لوگوں سے کوئی حاجت نہیں ،میں تو خدائے بزرگ وبرتر جَلَّ جَلَالُہٗ ہی کا محتاج ہوں۔'' یہ کہہ کر وہ اَعرابی واپس چلا گیا۔ خلیفہ نے کہا :''تمام خوبیاں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے ہیں۔ یہ بندہ بہترین نَسَبْ والا، مضبوط دل، زبان کا صحیح استعمال کرنے والا، نیت کا سچا اور متقی وپرہیز گار ہے ۔ایسے ہی سمجھ دار لوگ شرف وبزرگی پاتے ہیں ۔
(۲)۔۔۔۔۔۔ اسی طرح حضرت سیِّدُنا عامر بن عبداللہ بن زُبیررحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے منقول ہے : ایک اَعرابی کو خلیفہ سلمان بن عبدالمَلِک نے بلایا اور کہا:''کچھ کلام کرو۔'' اعرابی نے کہا:'' میں کلام کروں گامگر اسے برداشت کیجئے گا،اس میں آپ ہی کا فائدہ ہے ۔ ''خلیفہ نے کہا :''جب ہم ایسے شخص کی باتیں برداشت کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں جس سے خیرخواہی کی امید نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کے فریب سے اَمن ہوتا ہے توتمہاری باتیں بھی برداشت کر لیں گے تم بے فکرہو کر جو کہنا چاہوکہو۔'' کہا:'' اے امیرالمؤمنین! جب آپ کے غضب سے امان مل گئی تو اب میں اس بارے میں اپنی زبان کھولوں گا جس کے متعلق لوگوں کی زبانیں آپ کواللہ عَزَّوَجَلَّ کے حقوق اور آپ کے اپنے حقوق کے متعلق نصیحت کرنے سے گونگی ہیں ۔''اس کے بعد اعرابی نے وہی کلام کیا جو سابقہ روایت میں گزرا۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
حضرتِ سیِّدُناعبد اللہ بن ابوعبیدہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے والد ِ محترم کے حوالے سے بیان فرماتے ہیں: ''جب حضرتِ سیِّدُنا مَکْحُوْل شامی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی بہت زیادہ بیمار ہوئے تو لوگوں میں یہ افواہ پھیل گئی کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کاانتقال ہوگیاہے۔ لیکن
"جلد ہی اطلاع ملی کہ یہ خبر غلط تھی۔ چنانچہ، حضرتِ سیِّدُناحسن بن ابوحسن رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کویہ خط لکھا:
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
اَمَّابَعْد!ہمیں پہلے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے انتقال کی افسوس ناک خبر پہنچی جس نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے بھائیوں کو غم میں مبتلا کر دیا ۔پھر جب معلوم ہو اکہ وہ خبر غیر یقینی اور غلط تھی توہم مسرورہوگئے، اگر چہ یہ خوشی وسُرُور بھی بہت جلد رخصت ہو جائے گا اور کچھ عرصہ بعد پہلی خبر سچ ہوجائے گی۔توکیا اب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس شخص کی طرح زندگی گزار رہے ہیں جو موت کا ذائقہ چکھ کر اس کے بعد کی ہولناکیوں کا مشاہدہ کر چکا ہے ،منکر نکیر اس سے سوال کر چکے ہیں اوراب وہ ایسی جگہ ہے جہاں جو بھیجتا رہا وہی کام آئے گا ۔اب وہ اپنے سامنے صرف اُنہیں اعمال کو دیکھ رہا ہے جو اس نے آگے بھیجے تھے ۔میرے بھائی !بے شک اس دنیا میں سب سے زیادہ نقصان اُٹھانے والے وہ لوگ ہیں جن کے پاس دنیوی ما ل تو ہے لیکن آخرت کے لئے کوئی زادِ راہ نہیں۔ ذرا تَوجُّہ کیجئے ! جس دن آپ دنیا میں آئے تھے اس دن سے کہیں زیادہ آج آپ موت کے قریب ہیں ۔دن اور رات کامسلسل سفر، مدتِ حیات کی منزلوں کو کم کرتا جارہا ہے یہاں تک کہ جس پرلَیْل ونَہَار (یعنی دن رات ) گزررہے ہیں وہ فنا ہو جائے گا۔ اسے موت آپہنچے گی ۔ دن اور رات کا سفر جاری رہے گا، عَاد وثَمُوْد، کنوئیں والے اور ان کے درمیان بہت سے بستیوں والے سب فنا ہوگئے، اب ان کے اَعمال ان کے سامنے ہیں اوروہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں حاضر ہیں ۔وہ سب چلے گئے لیکن دن اوررات کا سفر جاری ہے، یہ نہ جانے کِتْنوں کو فنا کے گھاٹ اتار چکے مگر پھر بھی نہیں تھکے،یہ جس کے پاس سے بھی گزرے کبھی ٹھہرے نہیں۔ یہ ہر ایک کے ساتھ وہی کرنے کو تیار ہیں جو پہلوں کے ساتھ کر چکے ، جس جس پر یہ گزرے وہ دنیا سے بالآخر کوچ کر گیا اسی طرح اب بھی جس جس پر گزر رہے ہیں اسے بھی اس دارِ فانی سے کوچ کرنا پڑے گا۔ نیک ہو یا بد سب یہاں سے چلے جائیں گے ۔
میرے بھائی !آپ بھی دوسرے لوگوں کی مثل ہیں۔ جس طرح وہ چلے گئے آپ بھی چلے جائیں گے اور اب توآپ لوگوں کے درمیان اس شخص کی طرح ہیں جس کے تمام اعضاء کاٹ دیئے گئے ہوں اور باقی ماندہ جسم میں صرف روح باقی ہو، آخری سانسیں چل رہی ہوں اور موت اسے صبح وشام پکار رہی ہو ۔میرے بھائی!میں ایسی نصیحت سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی پناہ چاہتا ہوں جو میں دوسروں کو کروں لیکن خود اس پر عمل نہ کروں۔ وَالسَّلَام
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" ابوبِشْر تَمِیْمِی کا بیان ہے، جب ہِشَام بن عبد المَلِک خلیفہ بنا تو اس نے اپنے ماموں ابراہیم بن ہِشَام کو کئی شہروں پر امیر مقرر کردیا۔ ایک مرتبہ ابراہیم بن ہِشَام دورے پر تھا۔ جب مدینۂ منورہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَکْرِیْمًا کے قریب پہنچا تو وہاں کے لوگ استقبال اور مُبَارَک باد کے لئے آئے ۔ امیر نے پوچھا: ''کیا تمام نیک لوگ اور علماء وفقہاء آگئے ہیں۔'' لوگوں نے کہا: ''عالی جاہ! حضرتِ سیِّدُنا ابو حَازِم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے سوا سب آگئے ہیں۔'' امیر ابراہیم بن ہِشَام نے قاصد بھیج کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو اپنے پاس بلایا اور کہا: '' اے ابو حَازِم! اللہ تبارک وتعالیٰ آپ کو مزید عزت ورِفعت عطافرمائے ،آپ جانتے ہیں کہ میرا تعلق قبیلۂ قریش سے ہے، میں امیرالمؤمنین کا ماموں ہوں اور مجھے حرمین شریفین پر والی مقرر کیا گیا ہے۔ اب میں یہاں آیا تو سب لوگ مبارک باداوراستقبال کے لئے آئے مگر آپ تشریف نہ لائے، کیا وجہ ہے ؟''
فرمایا:'' اے امیر !مجھے ایسی کوئی حاجت نہیں کہ جس کی وجہ سے مجھے آپ کی طرف محتاجی ہوتی، اسی طرح آپ کو بھی میری محتاجی نہیں۔ اے امیر ! میرے اپنے کچھ معاملات ایسے ہیں جن میں مشغولیت کی وجہ سے مجھے کسی اورکی طرف دھیان دینے کی فرصت ہی نہیں ملتی ۔''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی یہ بات سن کراور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے کمزور ونحیف جسم کو دیکھ کر امیر نے کہا: ''اے ابوحَازِم!آپ کے پاس کتنا مال ہے؟''فرمایا: ''میرے پاس دوقسم کا خزانہ ہے جس کے ہوتے ہوئے مجھے تنگدستی ومفلسی کا خوف نہیں۔''پوچھا:'' وہ دو خزانے کون سے ہیں ؟''فرمایا : ''(۱)۔۔۔۔۔۔ہر حال میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا اور(۲)۔۔۔۔۔۔لوگوں سے بے نیازی۔'' پوچھا:'' آپ کیا کھاتے ہیں ؟'' فرمایا: ''روٹی اور زیتون کا تیل ۔''پوچھا:''کیا مسلسل ایک ہی کھانا کھا کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اُکتاتے نہیں؟''فرمایا :'' جب اُکتا جاتا ہوں تو کھانا ترک کردیتا ہوں، جب دوبارہ خواہش ہوتی ہے تو کھالیتا ہوں۔''امیر نے پوچھا: '' ہماری نجات کن اُمور میں ہے ؟''فرمایا:'' خالق عَزَّوَجَلَّ کی رضا کے بغیر کسی سے کوئی چیز نہ لو اور کسی بھی حق دار کا حق نہ روکو۔'' امیر نے کہا:'' اس کی طاقت کون رکھتا ہے ؟''فرمایا:'' جو آگ سے نجات اور جنت کا طالب ہے اس پر یہ کام آسان ہے۔'' اس وقت مجمع میں حضرت سیِّدُناابن شِہَاب زُہْرِی علیہ رحمۃاللہ القوی بھی موجود تھے انہوں نے کہا:''اے امیر !یہ تقریباً چالیس سال سے میرے پڑوسی ہیں ،جیسی باتیں آج انہوں نے کی ہیں آج تک کبھی میں نے ان سے ایسی باتیں نہیں سنیں۔ ان کی یہ شان آج سے پہلے مجھ پر کبھی ظاہر نہ ہوئی۔''حضرتِ سیِّدُنا ابوحَازِم مکی علیہ رحمۃ اللہ القوی اپنے گھر آئے اور ابن شِہَاب زُہْرِی علیہ رحمۃاللہ القوی کویہ خط لکھا:"
تلے دبے ہوئے ہو۔اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تمہیں درازی عمر سے نوازا،اپنے دین کی سمجھ اور اپنی کتاب کے علم سے مالا مال کیا ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ان نعمتوں کے ذریعے تمہیں آزمائے گا، تم پر اپنی نعمتوں کی برسات فرمائے گا، پھر ان نعمتوں پر تمہارے شکر کو آزمائے گا، اللہ ربُّ العِزَّت جَلَّ جَلَالُہٗ ارشادفرماتاہے:
لَئِنۡ شَکَرْتُمْ لَاَزِیۡدَنَّکُمْ وَلَئِنۡ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیۡ لَشَدِیۡدٌ ﴿7﴾
"ترجمۂ کنزالایمان :اگراحسان مانوگے تومیں تمہیں اوردوں گا اور اگر ناشکری کروتومیراعذاب سخت ہے۔ (پ13،ابرٰہیم:7)
ذرا سوچو توسہی! جب بروزِ قیامت تم اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگا ہ میں حاضرہوگے اوروہ قادرِ مطلق عَزَّوَجَلَّ تم سے اپنی نعمتوں کے متعلق پوچھے گا کہ تم نے انہیں کیسے استعمال کیا ؟جو دلیل اس نے عطافرمائی اس کے متعلق پوچھے گا کہ ا س میں کس کس طرح فیصلہ کیا ؟ہرگز اس گمان میں نہ رہنا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اس دن تمہارا عذر قبول کریگا اور غفلتوں اور کوتاہیوں کے باوجود تم سے راضی ہو جائے گا ۔تمہارا یہ کہنا کافی نہیں کہ میں عالِم ہوں، تم نے لوگوں سے علمی جھگڑا کیا تو اپنے زورِ بیان سے غالب رہے، تمہیں جو سمجھ بوجھ عطا کی گئی، جو فہم وفراست ملی اسے استعمال کرتے ہوئے بتاؤ کہ کیااللہ عَزَّوَجَلّّ کا یہ فرمان علماء کے متعلق نہیں؟"
وَ اِذْ اَخَذَ اللہُ مِیۡثَاقَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الْکِتٰبَ لَتُبَیِّنُنَّہٗ لِلنَّاسِ وَلَا تَکْتُمُوۡنَہٗ ۫ فَنَبَذُوۡہُ وَرَآءَ ظُہُوۡرِہِمْ وَاشْتَرَوْا بِہٖ ثَمَنًا قَلِیۡلًا ؕ فَبِئْسَ مَا یَشْتَرُوۡنَ ﴿۱۸۷﴾
"ترجمۂ کنزالایمان: اور یاد کرو جب اللہ نے عہد لیا ان سے جنہیں کتاب عطا ہوئی کہ تم ضروراسے لوگوں سے بیان کر دینا اور نہ چھپانا تو انہوں نے اسے اپنی پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا اور اس کے بدلے ذلیل دام حاصل کئے توکتنی بُری خریداری ہے۔ (پ۴،اٰل عمران:۱۸۷)
اے ابن شِہَاب زُہْرِی!اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہارا بھلا کرے ۔یہ بہت بڑا گناہ ہے کہ تم ظالموں کے ساتھ بیٹھتے ہو ،جب وہ تمہیں بلاتے ہیں توان کے پاس چلے جاتے ہو، وہ تحائف دیتے ہیں تو قبول کرلیتے ہو،حالانکہ وہ تحفے کسی صورت میں قبول کرنے کے قابل نہیں ہوتے ۔ ظالموں نے تمہیں ایسی چکی بنالیا ہے جس کے گرد اُن کی باطل خواہشات گھومتی ہیں ۔تمہیں ایسی سیڑھی اورپُل بنالیا ہے جس کے ذریعے وہ ظلم وگمراہی کی منزلوں کی طرف بڑھتے ہیں۔ وہ تمہارے ذریعے علماء کے خلاف شکوک وشبہات کا شکار ہوتے اور جاہلوں کے دِلوں کو ہانکتے ہیں۔ تم اب تک نہ تو ان کے خاص وزراء کی صف میں شامل ہوسکے نہ ہی خاص ہم نشین بن سکے۔بس تم نے توان کی دنیاکوسنوارااورعوام وخواص کو ان ظالموں کے گرد جمع کر دیا ہے، انہوں نے تمہارے لئے جو کچھ تیار کیا وہ اس سے کتنا کم ہے جو انہوں نے بربادکر دیا۔ تم سے کتنا زیادہ چھین کر کتنا کم دیا ہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ تم پر رحم فرمائے، اپنی فکر کرو۔ تمہیں تو اس ذات کا شکر ادا کرنا چاہے جس نے تمہیں علمِ دین کی دولت سے نوازا ، اپنی کتاب کا علم دیا اور ان لوگوں میں سے نہیں بنایا جن کے بارے میں ارشادفرمایا:"
فَخَلَفَ مِنۡۢ بَعْدِہِمْ خَلْفٌ وَّرِثُوا الْکِتٰبَ یَاۡخُذُوۡنَ عَرَضَ ہٰذَا الۡاَدْنٰی وَیَقُوۡلُوۡنَ سَیُغْفَرُ لَنَا ۚ وَ اِنۡ یَّاۡتِہِمْ عَرَضٌ مِّثْلُہٗ یَاۡخُذُوۡہُ ؕ اَلَمْ یُؤْخَذْ عَلَیۡہِمۡ مِّیۡثَاقُ الْکِتٰبِ اَنۡ لَّا یَقُوۡلُوۡا عَلَی اللہِ اِلَّا الْحَقَّ وَدَرَسُوۡا مَا فِیۡہِ ؕ وَالدَّارُ الۡاٰخِرَۃُ خَیۡرٌ لِّلَّذِیۡنَ یَتَّقُوۡنَ ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوۡنَ ﴿169﴾
"ترجمۂ کنزالایمان:پھران کی جگہ ان کے بعدوہ ناخلف آئے کہ کتاب کے وارث ہوئے اس دنیاکامال لیتے ہیں اور کہتے اب ہماری بخشش ہو گی اوراگرویساہی مال ان کے پاس اورآئے تولے لیں۔ کیاان پر کتاب میں عہد نہ لیاگیاکہ اللہ کی طرف نسبت نہ کریں مگر حق اور انہوں نے اسے پڑھا اور بے شک پچھلا گھر بہتر ہے پرہیزگاروں کو تو کیا تمہیں عقل نہیں۔(پ9،الا عراف:169)
اللہ عَزَّوَجَلَّ تم پر رحم کرے! ابھی جو عمر باقی ہے اس میں بیدار ہو جاؤ۔ تم بُری طرح پھنس چکے ہو ۔خدارا! اپنے آپ کو بچاؤ، اپنے دین کی دوا کرو۔ بے شک اس میں کمزوری آگئی ہے ۔ زادِراہ تیار کرلو، عنقریب تمہیں بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔ تمہارا معاملہ اس کے ساتھ ہے جوحافظ و نگہبان ہے، وہ تم سے غافل نہیں۔ تم اپنی فکر کرو، تمہارے علاوہ کو ن تمہاری فکر کریگا۔ تمام تعریفیں اُس مالکِ حقیقی کے لئے ہیں جس سے زمین وآسمان کی کوئی شئے پوشیدہ نہیں، وہ غالب و حکمت والا ہے۔ وَالسَّلَام"
" حضرتِ سیِّدُناذُوالنُّوْن مِصْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں :''مجھے بتایا گیا کہ یمن میں ایک عبادت گزار شخص ہے جو خائفین میں اعلیٰ مرتبہ اور مجاہدہ کرنے والوں میں بلند مقام رکھتا ہے۔ اس کی یہ صفات سن کر مجھے زیارت وملاقات کا شوق ہو ا، چنانچہ، حج سے فراغت کے بعد میں'' یَمن'' گیاااور پوچھتا پوچھتا اس عابد کے گھر پہنچا۔وہاں دروازے کے پاس بہت سے لوگ جمع تھے وہ سب بھی زیارت وملاقات کرنے آئے تھے۔ ہمارے درمیان انتہائی کمزور ونحیف بدن اور زرد چہرے والاایک متقی وپرہیز گار جوان بھی تھا ،ایسا لگتا تھا جیسے کسی بہت بڑ ی مصیبت نے اسے موت کے قریب پہنچادیا ہے۔
کچھ دیر بعد دروازے سے ایک بزرگ آیا اور نمازِجمعہ کے لئے مسجد کی طرف چل دیا۔سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ! یہی وہ پرہیز گار وعبادت گزار شخص تھا جس کی ولایت کے ڈنکے دنیا بھر میں بج رہے تھے۔ ہم بھی اس کے پیچھے چل دیئے اورایک جگہ اس کے گرد جمع ہوگئے تاکہ اس سے گفتگو کریں ۔اتنے میں وہ کمزور نوجوان آیااور سلام کیا۔ بزرگ نے اسے خوش آمدید کہا اور بڑی گرم جوشی سے ملاقات کی۔ نوجوان نے کہا :''اے شیخ! اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ جیسے لوگوں کو دلوں کی بیماری کا طبیب اور گناہوں کے درد کا مُعالِج بنایا ہے۔ مجھے بھی ایک بہت گہرا زخم ہے جوبہت پھیل چکا ہے، اب میری بیماری عُروج کو پہنچ چکی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ"
" آپ پر رحم فرمائے! اگر مناسب سمجھیں تو اپنے مرہم سے میرے زخموں کا علاج فرما دیجئے اور مجھ پر احسان فرمایئے۔'' یہ سن کر بزرگ نے اپنے عصا سے ٹیک لگائی اور کہا:'' پوچھو! کیا پوچھنا چاہتے ہو؟ بتاؤ! اصل مسئلہ کیا ہے؟'' کہا: ''حضور!یہ ارشاد فرمائیے کہ خوف کی علامت کیا ہے؟'' فرمایا : ''اس کی علامت یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا خوف تجھے ہر خوف سے نجات دے دے، اس کے علاوہ تجھے کسی کا خوف نہ رہے ۔''یہ سن کر نوجوان درد بھری آہیں بھرنے لگا ،پھر بے ہوش ہو کر گرپڑا۔ جب افاقہ ہو ا توا پنے ہاتھ سے چہرہ صاف کیااور کہا :'' اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ پر رحم فرمائے! یہ بتایئے کہ بند ہ خوفِ خداعَزَّوَجَلَّ میں کب پختہ ہوتا ہے؟ اسے خوفِ خداعَزَّوَجَلَّ میں درجۂ کمال کب نصیب ہوتا ہے ؟''فرمایا:'' جب وہ دنیا میں اپنے آپ کومریض کی طرح رکھے اور بیماری کے خوف سے ہر قسم کے کھانے سے اپنے آپ کو بچائے، مرض کے طویل ہوجانے کے خوف سے دوا کی کڑواہٹ برداشت کرے ۔'' نوجوان نے پھر ایک درد بھری چیخ ماری اور منہ کے بَل گر کر بے ہوش ہوگیا۔ جب ہوش آیا تو کہا:''حضور! مجھ پر نرمی فرمایئے۔ بزرگ نے کہا: '' پوچھو! جو پوچھنا ہے۔''عرض کی:''اللہ رَبُّ العِزَّت سے محبت کی علامت کیا ہے ؟''
یہ سن کر اس بزرگ پرکپکپی طاری ہوگئی پھر روتے ہوئے کہا:''میرے دوست ! بے شک درجۂ محبت بہت اعلیٰ درجہ ہے۔'' نوجوان نے کہا: ''حضور!میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے اس کے متعلق کچھ بتائیں ۔'' فرمایا :'' بے شک اللہ عَزَّوَجَلَّ سے محبت کرنے والوں کے دل محبت کی وجہ سے چاک ہوتے ہیں۔ وہ اپنے دلوں کے نورسے خالقِ کائنات جَلَّ جَلَالُہٗ کی عظمت وجلال کی طرف نظر کرتے ہیں۔ ان کے اجسام تو دنیا میں ہوتے ہیں لیکن روحیں پردوں میں ہوتی ہیں۔ وہ امور کا مشاہدہ علم ُ الیقین کے ساتھ کرتے ہیں۔اللہ عَزَّوَجَلَّ سے شدید محبت کی وجہ سے جتنا ہوسکے ہر لمحے اس کی عبادت کرتے ہیں۔ وہ جنت کے حصول یا دوزخ سے بچنے کے لئے نہیں بلکہ خالص رضائے الٰہی عَزَّوَجَلَّ کے لئے اعمال کرتے ہیں۔'' بس یہ سننا تھا کہ وہ نوجوان تڑپ کر زمین پر گرا اور روتے روتے اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کردی ۔ بزرگ نے اس کی پیشانی اورہاتھوں کو چومتے ہوئے کہا:''یہی حالت خائفین کا میدان ،مجاہدہ کرنے والوں کی راحت ہے اورانہیں اسی حالت میں سکون ملتا ہے۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
حضرتِ سیِّدُنا عبید اللہ بن محمدتَمِیْمِی علیہ رحمۃ اللہ الغنی سے منقول ہے: '' ایک غریب و نادار شخص کسی کریم ونیک شخص کے پاس گیاتواس نے پریشانیاں دور کر کے اسے خوشحال و غنی کردیا۔ لیکن وہ ناشُکرا کریم کی کثیر عطاؤں کے باوجود ناشکری کرتا۔پھر ایک دن شہرکے امیر کے پاس جاکر شکایت کی:''میں جس کے پاس رہتا ہوں اس میں یہ یہ برائی ہے ،وہ تو بہت ہی بُرا ہے الغرض
"اس نے بہت سی ایسی ایسی باتیں اس شخص کے بارے میں کہیں جو اس میں بالکل نہ تھیں بلکہ وہ تو ان تمام برائیوں سے بہت زیادہ دور رہتا تھا۔ شکایت کرنے کے بعد جب وہ بے مُرَوَّت چلا گیا تو حاکمِ شہر نے اس کریم کو بلاکرکہا:'' فلاں شخص نے تمہارے خلاف یہ یہ شکایتیں کی ہیں۔'' یہ سن کروہ بہت حیران و پریشان ہو گیا۔حاکم نے کہا:''کیا ہوا، تم اتنا پریشان کیوں ہو گئے؟'' اس نے کہا:''مجھے خوف ہے کہ میں نے اس کے ساتھ اچھائی و بھلائی میں کمی کی ہے جبھی تو وہ میری برائی پر آمادہ ہوگیا۔ افسوس! میں اس کی صحیح خدمت نہ کرسکا ۔''حاکم نے جب یہ سنا تو کہا: ''سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ !تم دونوں کی طبیعتوں اور عادتوں میں کتنا تعجب خیز فرق ہے۔تم تو اس پر احسان و شفقت کئے جا رہے ہوجبکہ وہ احسان فراموش ولئیم (یعنی کمینہ)ہے ۔''
پھر نیک وکریم شخص نے حاکم سے واپسی کی اجازت چاہی جب واپس جانے لگا تو حاکم نے کہا:''اللہ تبارک وتعالیٰ آپ جیسے نیک سیرت لوگوں کو لمبی عمر عطا فرمائے اور آپ کا فیض تا دیر جاری وساری رہے ۔( احسان فراموش کی مذمت میں شاعرنے کیا خوب کہا ہے:)"
" حضرت سیِّدُنامَعْدِی علیہ رحمۃ اللہ الہادی کا بیان ہے:ابوبُغَیْل نامی ایک شخص نے اپنا واقعہ بیان کرتے ہوئے بتایا: ''ایک مرتبہ طاعون کے مرض نے لاشوں کے انبار لگادیئے ،ہم مختلف قبیلوں میں جاکر مُردوں کو دفن کرتے۔ جب پور ے پورے گاؤں ہلاک ہونے لگے اور لاشوں کی تعداد بہت بڑھ گئی تو ہم انہیں دفنانے سے عاجز آگئے۔چنانچہ، اب ہم جس گھر میں داخل ہوتے اور دیکھتے کہ اس کے رہائشی فوت ہوگئے ہیں اور ان کی لاشیں گھر کے اندر ہی ہیں تو تمام لاشیں ایک کمرے میں جمع کرکے دروازہ اورکھڑکیاں وغیرہ بند کردیتے۔ اسی طرح گھرگھر جاکر ہم لاشیں جمع کرتے رہے پھرایک گھر میں گئے تودیکھاکہ گھرمیں موجود سب لوگ مر چکے ہیں ،ان میں کوئی ایک بھی زندہ نہ تھا۔ ہم نے گھر کے تمام دروازے بند کئے اور واپس آگئے۔
جب طاعون کا مرض چلا گیا تو ہم نے بندگھروں کو کھولنا شروع کیا، پھر ہم ایک گھرمیں گئے جس کے تمام رہائشی مرچکے تھے اور ہم نے اس کے دروازے اچھی طرح بند کئے تھے۔جب دروازہ کھولا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ صحن میں ایک تر وتازہ، فربہ"
اور صاف ستھرابچہ موجود تھا۔ایسالگتا تھا جیسے ماں کی گود سے ابھی ابھی لیا گیا ہو۔ہم بڑی حیرانگی کے عالم میں قدرت خداوندی عَزَّوَجَلَّ کا نظارہ کررہےتھے اور متعجب تھے کہ یہ بچہ کہاں سے آیا اور اب تک بغیر خوراک کے کیسے زندہ ہے؟ ہم حیرت کی وادیوں میں گم تھے کہ اچانک ایک مادہ درندہ دیوار کے ٹوٹے ہوئے حصے سے اندر داخل ہوا اور بچے کے قریب آکر بیٹھ گیا،بچہ محبت سے اس کی طرف لپکا اور اس مادہ کا دودھ پینے لگا۔ خالقِ کائنات ورزّاقِ مخلوقات جَلَّ جَلَالُہٗ کی اس شانِ رزاقی کو دیکھ کرہم بہت حیران ہوئے کہ وہ جس طرح چاہتا ہے اپنے بندوں کو رزق کے اسباب مہیا کرتاہے ۔ اس نے ایک بچے کی خوراک کاانتظام کس طرح کیا۔ طاعون کی بیماری سے اس گھر کے تمام افراد عورتیں اور مرد موت کے گھاٹ اتر چکے تھے، انہیں افراد میں ایک حاملہ عورت بھی تھی جس کا انتقال ہوگیا پھر اس بچے کی ولادت ہوئی اور اس کے رزق کا انتظام ایک درندے کے ذریعے کیا گیا۔ حضرتِ سیِّدُنا مَعْدِی علیہ رحمۃ اللہ الہادی کہتے ہیں: '' اس بچے نے خوب پرورش پائی اورجو ان ہو گیا او ر میں نے وہ دن بھی دیکھا کہ وہ بصرہ کی مسجد میں اپنی داڑھی کو اپنے ہاتھوں سے سنواررہا تھا ۔خالق کائنات جلَّ مَجْدُہ سب کچھ کر سکتا ہے۔ وہ اپنے بندوں پر جس طرح چاہتا ہے احسان فرماتا ہے۔''
" حضرتِ سیِّدُنا عبدالرحمن بن ابی لَیْلٰی علیہ رحمۃ اللہ الا علیٰ کا بیان ہے، حضرتِ سیِّدُنا مُعَاذبن عَفْرَاء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جو بھی دنیوی مال آتاسب صدقہ کردیتے۔ جب ان کے ہاں بچے کی ولادت ہوئی تو ان کی اہلیہ محترمہ نے اپنے خاندان والوں سے کہا: ''اِن حضرت سے کہیں کہ گھر والوں کے لئے بھی کچھ مال جمع کر لیں۔'' چنانچہ، عزیز واقارب نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا: ''اب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ صاحب ِاولاد ہوگئے ہیں، اگر اپنی اولاد کے لئے کچھ مال جمع کر رکھیں تو اس میں کیا حرج ہے؟'' فرمایا: ''میں تو یہی چاہتا ہوں کہ آگ سے بچنے کے لئے اپنی ہرشئے خرچ کردوں،لہٰذا میں صدقہ وخیرات کرنے سے رُک نہیں سکتا۔''
راوی کہتے ہیں: '' جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتقال ہوا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک شخص کے پڑوس میں زمین کا چھوٹا سا ٹکڑا میراث میں چھوڑا ،وہ ایسی زمین تھی کہ میں اپنی تین درہم کی چادر کے عوض بھی خریدنے پر راضی نہ تھا ۔پھر چند دن بعد پڑوسی نے وہی زمین تیس ہزار(30,000)درہم میں خرید لی۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُنا سَلام بن مِسکِین علیہ رحمۃ اللہ المبین فرماتے ہیں: ایک شخص ہرسال کبوتری کے گھونسلے سے اس کے بچے اُتار لیا کرتا تھا۔ کبوتر اور کبوتری نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں اس شخص کے خلاف شکایت کی۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا: ''میں اسے ہلاک کرنے والا ہوں۔'' اس سال جب کبوتری نے انڈے دیئے اور بچے نکلے تو وہ شخص گھر سے دوروٹیاں لے کر نکلا۔ راستے میں ایک مسکین ملاتودونوں روٹیاں اسے دے دیں، پھر درخت پر چڑھا کبوتری کے بچے اُتارے اور واپس چلا آیا۔ کبوتراور کبوتری نے بارگاہِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ میں شکایت کی تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا:کیا تم نہیں جانتے کہ میں نے عہد کر رکھا ہے کہ ''جو شخص کسی دن کوئی صدقہ کریگا میں اسے اس دن ہلاک نہ کروں گا۔''
یہ حکایت حضرتِ سیِّدُنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس طرح مروی ہے، رسولِ کریم رء ُوف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:''تم سے پہلے لوگوں میں ایک شخص تھا جوہر مرتبہ پرندے کے گھونسلے سے بچے نکال لیتا۔پرندے نے اس کے خلاف اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں شکایت کی تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا:'' اگروہ اسی حال پرباقی رہا تو ہلا ک ہوجائے گا ۔'' جب اس سا ل وہ شخص گھر سے سیڑھی لے کر پرندے کے بچوں کو پکڑنے کے لئے چلا تو راستے میں اسے ایک فقیر ملا اس نے اپنے زادِ راہ میں سے ایک روٹی اسے دے دی، پھر درخت کے اوپرچڑھا اوربچوں کو پکڑلیا۔ پرندہ یہ منظر دیکھ رہا تھا اس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں عرض کی: ''یااللہ عَزَّوَجَلَّ! تو نے ہم سے وعدہ فرمایاتھا کہ اس مرتبہ وہ ہلا ک ہوجائے گا لیکن وہ تو صحیح وسالم جا رہا ہے ؟'' اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا:''کیا تم نہیں جانتے کہ جو شخص کسی دن کوئی صدقہ کرے میں اسے اس دن ہلاک نہيں کرتااور نہ ہی اسے اس دن کوئی برائی پہنچتی ہے ۔''"
(کنزالعمال،کتاب الزکاۃ،قسم الاقوال، الحدیث۱۶۱۱۲، ج۶، ص۱۵۹)
" یہی حکایت اس طرح بھی مروی ہے:'' حضرتِ سیِّدُنا سلیمان بن داؤدعلٰی نبیناوعلیہما الصلٰوۃ والسلام کے ایک امتی کے گھر میں درخت تھا۔ایک کبوتری نے اس پر گھونسلا بنالیا،پھراس کے اَنڈوں سے بچے نکلے تو اس شخص کی زوجہ نے کہا:'' اس درخت پر چڑھ کر پرندے کے بچوں کو پکڑ لوا ور پکا کر اپنے بچوں کو کھلادو ۔''چنانچہ، اس نے ایسا ہی کیا۔پرندے نے حضرتِ سیِّدُنا سلیمان بن داؤد علٰی نبیناوعلیہما الصلٰوۃ والسلام کی بارگاہ میں شکایت کردی۔ آپ علیہ السلام نے اسے بلایا اور سزا کی دھمکی دی، اس نے عرض کی:'' یا نبی اللہ علیہ السلام !آئندہ ایسا ہرگز نہ کروں گا۔'' آپ علیہ السلام نے اسے چھوڑدیا اور وہ گھر چلا آیا ۔
کبوتری نے جب دوبارہ انڈے دے کر بچے نکالے تو اس شخص کی زوجہ نے کہا:''درخت پر چڑھو اور پرندے کے بچے پکڑ لاؤ۔''اس نے کہا :''مجھے حضرتِ سیِّدُنا سلیمان علیہ الصلٰوۃ والسلام نے منع فرمایا ہے۔''عورت نے کہا:''تم کیا سمجھتے ہو کہ حضرتِ"
سیِّدُنا سلیمان علیہ الصلٰوۃ والسلام تمہارے اور اس کبوتری کے لئے فارغ بیٹھے ہوں گے، پوری دنیا پر ان کی حکومت ہے، وہ اپنی مملکت کے معاملات میں مصروف ہوں گے،جلدی کرواور کبوتری کے بچوں کو پکڑ لاؤ ۔'' بیوی کا جواب سن کر وہ بے چارہ درخت پرچڑھا اور کبوتری کے بچوں کو پکڑ لایا۔ کبوتری نے دوبارہ حضرتِ سیِّدُنا سلیمان علٰی نبینا وعلیہ الصلٰوۃ والسلام کی بارگاہ میں شکایت کر دی۔ آپ علیہ السلام کو بڑا جلال آیا اور مشرق ومغرب کے کناروں سے دو جِنّوں کو بُلا کر فرمایا: ''تم دونوں فلاں درخت کے پاس ٹھہرے رہو۔ جب وہ شخص درخت پر چڑھے تواس کا ایک پاؤں مشرق کی طرف اور دوسرا مغرب کی طرف کھینچنا ،اس طرح اس نافرمان کے دو ٹکڑے کر دینا۔'' حکم پا تے ہی دونوں جنّ مطلوبہ درخت کے پاس پہنچ گئے۔ وہ شخص درخت پر چڑھنے کے لئے تیار ہواہی تھاکہ کسی فقیر نے روٹی مانگی ،اس نے اپنی بیوی سے کہا :''اگر گھر میں کچھ ہے تو اس فقیر کو دے دو۔''عورت نے کہا: ''میرے پاس اس فقیر کو دینے کے لئے کچھ بھی نہیں ۔'' تووہ خود کمرے میں گیا اوراسے وہاں سے روٹی کا ایک لقمہ ملا، وہی لقمہ فقیر کودیااور درخت پر چڑھ کر بغیر کسی تکلیف کے بآسانی کبوتری کے بچوں کو پکڑلایا۔ کبوتری نے پھر شکایت کی، تو آپ علیہ السلام نے دونوں جنّوں کو بلاکر ارشاد فرمایا:'' کیاتم دونوں نے میرے حکم کی خلاف ورزی کی ہے؟'' انہوں نے عرض کی:'' یانَبِیَّ ا للہ علیہ السلام ! ہم نے ہرگز آپ علیہ السلام کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کی، بات دراصل یہ ہے کہ ہم توآپ علیہ السلام کا حکم پاتے ہی اس درخت کے پاس پہنچ گئے مگر جب وہ شخص درخت پر چڑھنے لگا تو کسی سائل نے روٹی مانگی، اس نے اسے روٹی کا ایک لقمہ دیا اور درخت پر چڑھنے لگا، ہم اسے پکڑنے کے لئے بڑھے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے دو فرشتے ہماری طرف بھیجے۔ انہوں نے ہمیں گردن سے پکڑا اور مغرب ومشرق کی طرف پھینک دیا۔ اس طرح ایک لقمہ صدقہ کرنے کی برکت سے وہ ہلاکت سے محفوظ رہا ۔''
حضرتِ سیِّدُنا سَلام بن مِسکِین علیہ رحمۃ اللہ المتین حضرتِ سیِّدُنا ثابِت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں: ''ایک مرتبہ چند لڑکے لکڑیاں کاٹنے کے لئے جنگل کی طرف جا رہے تھے۔ جب وہ حضرتِ سیِّدُنا عیسیٰ علٰی نبینا وعلیہ الصلٰوۃ والسلام کے قریب سے گزرے تو آپ علیہ السلام نے اپنے حواریوں سے فرمایا: '' واپسی پر ان میں سے ایک لڑکا ہلاک ہوجائے گا۔'' جب ان کی واپسی ہوئی تو سب کے سب سلامت تھے اور کوئی بھی ہلاک نہ ہواتھا۔ حواریوں نے عرض کی:''یا نبی اللہ علیہ السلام ! آپ علیہ السلام تو ارشادفرمارہے تھے کہ ان میں سے ایک لڑکا ہلاک ہوجائے گا لیکن یہ سب بالکل سلامت ہیں ؟'' فرمایا:'' ان لڑکوں کو میرے پاس بلاؤ۔''جب وہ حاضرِ خدمت ہوئے تو آپ علیہ السلام نے فرمایا :'' اپنے سروں سے لکڑیوں کے گٹھے اُتار دو۔'' سب نے
"لکڑیاں نیچے اُتار دیں، فرمایا: ''اب انہیں کھولو۔'' جب گٹھے کھولے گئے تو اس میں سے ایک گٹّھے میں ایک بہت خوفناک مُردہ اژدھا ایک کانٹے کے ساتھ اُلجھا ہوا تھا۔ آپ علیہ السلام نے اس لڑکے سے پوچھا: ''تم نے کون سی بڑی نیکی کی ہے ؟''اس نے عرض کی: '' میں نے آج کوئی بڑی نیکی تونہیں کی، ہاں! اتنا ضرور ہے کہ آج ہمارے دوستوں میں سے ایک دوست اپنے ساتھ کھانا نہیں لایا تھا تو میں نے اسے اپنے ساتھ کھانے میں شریک کرلیا۔'' لڑکے کی یہ بات سن کرآپ علیہ السلام زبان حال سے فرمارہے تھے : '' بس اسی نیکی کی وجہ سے آ ج تو ہلاکت سے محفوظ رہا ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
خلیفۃالمسلمین، امیر المؤمنین، خلیفۂ ثانی حضرتِ سیِّدُناعمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ بننے کے بعد انتہائی سادہ غذا استعمال فرمانے لگے جس کی وجہ سے بظاہر کمزور نظر آنے لگے۔ حضرتِ سیِّدُنا محمد بن قَیْس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: '' ایک مرتبہ کچھ لوگ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا حَفْصَہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے پاس آئے اورعرض کی:''کمزوری کی وجہ سے امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گردن نظر آنے لگی ہے، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جسم کافی کمزور ہوگیا ہے اور کپڑے بھی ایسے پہنتے ہیں کہ جن پر کئی کئی پیوند لگے ہوتے ہیں ۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ان سے عرض کریں کہ کچھ اچھا کھانا کھا لیا کریں اور عمدہ ونرم لباس پہن لیا کریں، اس طرح انہیں لوگوں کے معاملات پر تقویت ملے گی ۔''جب اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا حَفْصَہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے لوگوں کی باتیں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے بیان کیں تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا :''کیا میرے آقا ومولیٰ حضرت سیِّدُنا محمد ِ مصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے بھی اپنی زندگی میں کبھی عمدہ و نرم بستر استعمال فرمایا ؟ تم تو بہتر جانتی ہو،بتاؤ !حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کیسا بستر استعمال فرماتے تھے ؟'' عرض کی:'' آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا بستر ایک کمبل تھا جسے دوہرا کر دیاجاتا، جب وہ سخت ہو جاتا تو میں اسے چار تہہ کرکے بچھادیا کرتی اور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا بستر یہی چادر تھی ۔'' فرمایا:''اچھا مجھے بتاؤ! حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے سب سے قیمتی وعمدہ لباس میں کیا چیز شامل تھی ؟''عرض کی :''ایک دھاری دار چادر تھی جسے ہم نے ہی بنایا تھا، حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّمجب اسے زیب ِتن کرکے باہر تشریف لے گئے تو کسی نے وہ چادر مانگ لی ،آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے وہ چادر اسے عنایت فرمادی ۔''
"؎ ہے چٹائی کا بچھونا کبھی خاک ہی پہ سونا کبھی ہاتھ کا سرہانہ مدنی مدینے والے!
تیری سادگی پہ لاکھوں تیری عاجزی پہ لاکھوں ہوں سلامِ عاجزانہ مدنی مدینے والے!
امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ''تمہارا کیا خیال ہے کہ مجھے عمدہ کھاناکھانے کی خواہش نہیں ہوتی، اگرمیں گھی کھانا چاہتا تو زیتون کے تیل کی جگہ گھی استعمال کرتا، میرے پاس زیتون کا تیل ہوتا ہے لیکن میں پھر بھی نمک استعمال کرتا ہوں الغرض! مجھے ان چیزوں کی خواہش ہوتی ہے لیکن میرے دونوں رہنما (حضورنبئکریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اور صدیق اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ )ایک راستے پر چلے،میں نہیں چاہتا کہ میں ان کے راستے کی مخالفت کروں ،میں ان کی مخالفت سے ڈرتا ہوں ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُنا خالدرَبَعِی علیہ رحمۃ اللہ القوی سے منقول ہے ، بنی اسرائیل کے ایک شخص نے شریعت کا علم حاصل کیا اور پھر اس دینی علم کی وجہ سے دنیوی دولت اور شہرت طلب کرتا رہا ،اس کی ساری زندگی اسی کام میں گزر گئی۔ جب بڑھاپاآیا،موت کے سائے گہرے ہوئے اور سفرِدنیا ختم ہونے لگا تو اسے اپنی غلطی کا خوب احساس ہوا۔ اس نے اپنے آپ کو مخاطَب کرکے کہا: ''تو نے دین میں جو بِگاڑ پیدا کیا لو گ تو اس سے ناواقف ہیں۔ لیکن تیرا کیا خیال ہے، کیا اللہ عَزَّوَجَلَّ بھی تیرے اس بگاڑ سے بے خبر ہے؟وہ وحدہ، لاشریک جَلَّ جَلَالُہٗ ذات تو ہرہر شئے سے واقف ہے۔ اب تیری موت قریب آگئی ہے۔ تیرے لئے بہتر ہے کہ جلدازجلد اپنی بد اعمالیوں سے توبہ کر لے۔'' چنانچہ، اس اسرائیلی عالم نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں توبہ کی، اوراس نے اپنی ہنسلی کی ہڈی میں زنجیر ڈال کراپنے آپ کومسجد کے ستون سے باندھ دیا اور کہا : ''میں اس وقت تک اپنے آپ کوآزاد نہیں کروں گا جب تک مجھے یہ معلوم نہ ہوجائے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے میری توبہ قبول فرمالی ہے۔اور اگر میری توبہ قبول نہ ہوئی تو اسی حالت میں اپنی جان دے دوں گا۔ جب اس نے اس طرح التجا کی تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اس وقت کے نبی علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی:'' اس اسرائیلی عالم سے کہہ دو کہ اگر تیرا گناہ ایسا ہوتا جو صرف میرے اور تیرے درمیان تک محدود ہوتا تومیں تیری توبہ قبول کرلیتا لیکن جن لوگوں کو تو نے گمراہ کیا ہے ان کا کیاحال ہوگا ؟تو نے انہیں گمراہ کرکے جہنم میں داخل کروادیا اب میں تیری توبہ ہرگز قبول نہیں کروں گا(۱)۔ (الامان والحفیظ)
(اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کروڑہا کروڑاحسان کہ اس حنَّان ومنَّان پروردگار عَزَّوَجَلَّ نے ہمیں نبئ آخرالزماں کے دامن سے وابستہ فرمایا۔اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے خاص کرم سے ہماری تمام خطاؤں کو معاف فرمائے اور ہماراخاتمہ بالخیر فرمائے ۔)( آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔۔۔۔۔۔یہ حکایت بنی اسرائیل کے ایک شخص کی ہے اوراُن کے احکام ہم سے مختلف تھے۔ جبکہ امتِ محمدیہ عَلٰی صَاحِبِھَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کا خاص احسان ہے کہ ہمارے لئے توبہ کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔"
" حضرت سیِّدُنا سَلَامَہ بن شَیْخ تَیْمِی علیہ رحمۃ اللہ الغنی سے مروی ہے کہ حضرتِ سیِّدُنا اَحْنَف بن قَیْس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا :'' امیرالمؤمنین حضرتِ سیِّدُنافاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت میں ہمارا لشکر ایک عظیم الشان کامیابی کے بعد مدینۂ منورہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًاکی طرف آرہاتھا۔جب مدینۂ پاک کے قریب پہنچا تو ہمارے بعض دوستوں نے مشورہ دیا: ''اگر ہم اپنے سفر کے کپڑے اتار کر عمدہ کپڑے پہنیں اور اچھی حالت میں شان وشوکت کے ساتھ امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور مسلمانوں کے سامنے جائیں تو اس سے لشکرِ اسلام کی شان وشوکت ظاہر ہوگی۔''چنانچہ، ہم نے اچھے لباس پہنے اور سفرکے کپڑوں کو تھیلوں میں رکھ لیا۔ جب ہم مدینۂ منورہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا میں داخل ہوئے توایک شخص نے ہمارے لشکر کو دیکھ کر کہا: ''ربِّ کعبہ کی قسم!یہ لوگ غلطی پر ہیں ۔'' حضرتِ سیِّدُنا اَحْنَف بِنْ قَیْس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :'' اس شخص کی بات نے مجھے نفع دیا اور میں سمجھ گیا کہ اس حالت میں امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہونامناسب نہیں، اس خیال کے آتے ہی میں نے ایک منزل پر اپنی سواری روکی، عمدہ لباس اُتار کر تھیلے میں ڈالا مگر بے توجہی سے چادر کا کچھ حصہ تھیلے سے باہر رہ گیا تھا جس کی مجھے خبر نہ ہوئی ،پھر میں سفر کا لباس پہن کر شرکائے قافلہ سے جاملا۔ جب لشکر امیرالمؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اُن سے نظریں پھیرلیں اور مجھ سے فرمایا:''تم لوگوں نے اپنی سواریوں کو کہاں کھڑا کیا ہے؟''میں نے بتایا:'' فلاں جگہ پر۔''آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرا ہاتھ پکڑ کر سواریوں کے پاس پہنچے دوسرے تمام لوگ بھی ہمراہ تھے، جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سواریوں کے جانوروں کو دیکھاتو لشکرکو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:''کیا تم ان جانوروں کے بارے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے نہيں ڈرتے؟کیا تمہیں خبر نہیں کہ ان کا تم پر کتنا حق ہے؟ تم انہیں سفر میں استعمال کرنے کے بعد کھول کیوں نہیں دیتے تاکہ یہ گھاس وغیرہ چَر لیں۔کیا تمہیں ان کااحساس نہیں جو ابھی تک باندھ رکھا ہے؟''ہم نے عرض کی: ''اے امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ! ہم ایک بہت بڑی فتح کی خوشخبری لے کر آئے ہیں ،ہمیں اس بات کی جلدی تھی کہ مسلمانوں اور امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فوراًاطلاع دی جائے بس اسی جلدی میں ہم فوراً آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس حاضر ہوگئے۔''
پھر امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جلال کچھ کم ہوا تو ان کی نظر میرے تھیلے پر پڑی جس میں سے چادر کا کچھ حصہ باہرنکلا ہوا تھا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا:''یہ تھیلا کس کا ہے ؟''میں نے عرض کی:''میرا ہے۔''فرمایا:'' یہ کپڑاکیسا ؟'' عرض کی:''یہ میری چادر ہے۔'' فرمایا :''کتنے کی ہے؟''میں نے اصل قیمت سے دوحصے کم بتائی توپھر بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:''چادر تو بہت اچھی ہے اگر اس کی قیمت زیادہ نہ ہوتی۔''پھر ہم سب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ واپس آنے لگے تو راستے میں ایک شخص"
"ملا ، اس نے پکار کر کہا:''اے امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ !میرے ساتھ چلئے اور فلاں شخص سے میراحق دلوایئے۔ بے شک اس نے مجھ پر ظلم کیا ہے۔''امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ چونکہ لشکر کی کارکردگی لینے میں مصروف تھے اس لئے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کی مداخلت سے بہت کوفت ہوئی ۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے سر پر ہلکی سی ضرب لگائی اور فرمایا:''میں مسلمانوں کے کاموں میں مصروف ہوتا ہوں اور تم میں سے کوئی شخص آکر کہتا ہے کہ میری بات سنئے !میری مدد کیجئے !حالانکہ میں اس وقت تمہارے ہی کاموں میں مصروف ہوتاہوں،تم مجھے موقع بے موقع پکارتے ہو۔''
یہ سن کر وہ شخص ناراض ہو کر وہاں سے چلا گیا۔ ابھی کچھ دیر ہی گزری تھی کہ امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بے قرارہوکر فرمایا: ''اس شخص کو فوراً بلا کرمیرے پاس لاؤ۔'' جب وہ آیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی طرف کَوڑا پھینکتے ہوئے ارشاد فرمایا: ''آؤ اور مجھ سے بدلہ لے لو۔''اس نے عرض کی :''یاامیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ !میں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا حق معاف کیا،میں بدلہ نہیں لوں گا ۔''آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا :'' تم شاید میرے ڈر کی وجہ سے بدلہ نہیں لے رہے ہو، آؤ! بلا خوف وخطر بدلہ لے لو۔''اس نے کہا :''حضور! میں نے رضائے الٰہی عَزَّوَجَلَّ کے لئے اپنا حق معاف کیا۔'' یہ کہہ کر وہ شخص چلا گیا ۔امیر المؤمنین حضرتِ سیِّدُناعمرفاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اپنے گھر کی طرف تشریف لے گئے ۔ہم بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دورکعت نماز اداکی پھر بیٹھ گئے اور اپنے آپ کو مخاطب کرکے فرمایا:''اے خطاب کے بیٹے !تُو پَست تھا اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تجھے بلندی عطا فرمائی، توبھَٹْکا ہوا تھااللہ ربُّ العِزَّت نے تجھے سیدھی راہ پر چلایا ،تو ذلیل تھا اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تجھے عزت کا تاج پہنایااورپھر تجھے مسلمانوں پر امیر مقرر فرمایا،اب اگر کوئی شخص تیرے پاس مدد لینے آتا ہے تو تُو اُسے مارتا ہے ۔اے خطاب کے بیٹے !کل بروزِقیامت جب خداعَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں جائے گا توکیاجواب دے گا؟ ''نماز کے بعد کافی دیر تک آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے آپ کو ڈانٹتے رہے یہاں تک کہ ہم نے گمان کیاکہ ا س وقت تمام اہلِ زمین میں سب سے بہتر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی ہیں۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
حضرتِ سیِّدُنا مَسْرُوق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے: ''ایک راہب نے ستر(70) سال تک اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کی، ایک مرتبہ مَوسِمِ برسات میں خوب بارشیں ہوئیں۔ زمین پر ہر طرف ہریالی ہی ہریالی ہوگئی۔ وہ عابد اپنے عبادت خانے سے اتر کر بستی کی طرف گیا، راستے میں ایک عورت سے زنا کا مرتکب ہوگیا۔پھر ایک سائل کے قریب سے گزرا تو ایک یادو روٹی اسے صدقہ
"کر دیں۔ (اس کے مرنے کے بعد ) جب اس کی ستر سالہ عبادت اور زناکا موازنہ کیا گیا تو زنا کا گناہ بڑھ گیا ۔پھر اس کی صدقہ کی ہوئی روٹیاں اس کی نیکیوں میں شامل کی گئیں تو نیکیوں کا وزن زیادہ ہوگیا۔ گویا وہ صدقہ اس کی مغفرت کا سامان ہو گیا۔''
یہی حکایت اس طرح بھی مروی ہے:''ایک اسرائیلی عابد ساٹھ(60) سال تک عبادتِ الٰہی میں مصروف رہا۔ ایک مرتبہ جب برسات کی وجہ سے زمین پر ہر طرف سبزہ ہی سبزہ چھا گیا تو اس منظر نے اسے بہت متعجب کیا، اس نے سوچا کہ اگر میں زمین پر جاؤں اور وہاں جاکر کچھ عبادت وغیرہ کروں تو یہ میرے لئے بہتر ہوگا۔ چنانچہ وہ اپنی عبادت گاہ سے سے نیچے اتر آیا۔ راستے میں ایک عورت کے فتنے میں مبتلا ہوگیااور اس سے منہ کالا کر بیٹھا۔ پھر ایک سائل ملا تو ا پنی روٹی اس نے سائل کو صدقہ کر دی پھر اس کا انتقال ہوگیا۔ جب اس کی ساٹھ سالہ عبادت کا زنا کے گناہ سے موازنہ کیا گیاتو اس کا گناہ بڑھ گیا پھر صدقہ کی ہوئی روٹی اس کے نیک اعمال میں شامل کی گئی تو نیکیوں کا پلڑا بھاری ہوگیاجس کی وجہ سے اسے بخش دیا گیا۔''
رَحْمَتِ حَقْ ''بَہَا'' نَہ مِیْ جَوْیَدْ رَحْمَتِ حَقْ ''بَہَانَہ'' مِیْ جَوْیَد
ترجمہ: اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت ''بھاؤ''یعنی قیمت طلب نہیں کرتی بلکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت تو''بہانہ'' ڈھونڈتی ہے۔"
" حضرتِ سیِّدُناوَہْب بن مُنَبِّہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے منقول ہے،''بنی اسرائیل کا ایک عابد اپنے عبادت خانے میں عرصۂ دراز سے مصروف ِ عبادت تھا،وہ مجاہدات کرتا اور ہمیشہ گناہوں سے بچتا۔ اس کی عبادت وپارسائی کو دیکھ کر شیطان کے چیلے ابلیس کے پاس آئے اور کہا:''فلاں شخص نے ہمیں عاجز کردیا ہے اس سے ہمیں کچھ حصہ نہیں ملا۔'' اپنے کمینے چیلوں کی یہ بکواس سن کر ابلیس لعین نے اس عابد کو بہکانے کی ٹھانی اور اس کے عبادت خانے پر پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹایا ۔ عابد نے پوچھا :''کون ہے؟'' ابلیس بولا: ''میں مسافر ہوں، آج رات مجھے اپنے پاس پناہ دے دو۔'' کہا:''یہاں بہت ہی قریب ایک بستی ہے تو وہاں چلا جا۔'' ابلیس نے کہا:'' خدا کا خوف کر و، میں مسافر ہوں مجھے درندوں اور چوروں کا خطرہ ہے، اتنی رات گئے میں کہاں مارا مارا پھروں گا۔'' عابد نے کہا :''میں ہرگز دروازہ نہیں کھولوں گا۔''یہ سن کر ابلیس خاموش ہوگیا ۔کچھ دیر بعد پھر دستک دی اور کہا:''جلدی سے میرے لئے دروازہ کھولو۔''عابد نے پوچھا:''کون ہے؟''کہا:'' میں مسیح (یعنی عیسیٰ علیہ السلام ) ہوں ۔''(معاذ اللہ عَزَّوَجَلَّ)
عابد نے کہا:'' اگر تُو مسیح ہے تو پھر تجھے میری حاجت ہی کیا ہے ،تُو تواپنے رب کی رسالت اور آخرت کے وعدے کو پہنچ چکا ہے۔''ابلیسِ لعین پھر خاموش ہوگیا۔کچھ دیر بعد پھر شیطانی طبیعت مچلی تو دروازہ کھٹکھٹایا ۔عابد نے پوچھا: '' کون ہے؟'' کہا:''میں ابلیس ہوں۔''عابد نے کہا :'' میں ہرگز تیرے لئے دروازہ نہیں کھولوں گا۔'' ا بلیس لعین نے کہا:'' تجھےاللہ عَزَّوَجَلَّ کا واسطہ! تجھے تیرے ربّ کا واسطہ! دروازہ کھو ل دے۔''ابلیسِ لعین کافی دیر تک منت سماجت کرتا رہا اور پختہ وعدہ کیا کہ میں تجھے کبھی بھی کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔''بالآخرعابد نے دروازہ کھول دیا۔ ابلیس اس کے سامنے بیٹھ گیااور کہا:'' مجھ سے جو پوچھنا چاہتے ہو پوچھو، میں تمہیں ہر سوال کا جواب دوں گا۔''عابد نے کہا:'' مجھے تجھ سے کوئی سَرَوکار نہیں۔'' یہ سن کر ابلیسِ لعین واپس جانے لگا تو عابد نے اسے پکارکر کہا:'' میں تجھ سے کچھ پوچھنا چاہتاہوں؟''ابلیسِ لعین واپس آیا اور کہا:''پوچھو!کیاپوچھنا چاہتے ہو؟'' کہا:'' بنی آدم کی ہلاکت میں تمہار ے لئے سب سے زیادہ مددگار شئے کیاہے ؟'' ابلیس نے کہا:''نشہ ہمارا سب سے کامیاب وار ہے، کیونکہ جب کوئی شخص نشے میں آجاتا ہے تو ہم جو چاہتے ہیں اس سے کرواتے ہیں پھروہ ہم سے بچ نہیں سکتا، ہم اس سے اس طرح کھیلتے ہیں جیسے بچے گیند سے کھیلتے ہیں۔''عابد نے کہا:'' دوسری ہلاکت خیز شئے کیاہے ؟'' کہا:''غصّہ وغضب بھی ہمارے مہلک ترین ہتھیار ہیں۔ اگر انسان عبادت کرکے اس مقام ومرتبہ کو پہنچ جائے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم سے مردوں کو زندہ کرنے لگے تب بھی ہم اس سے مایوس نہیں ہوتے ،ہمیں امید ہوتی ہے کہ اس کے غیظ وغضب کی وجہ سے ہمیں اس سے ضرور کچھ حصہ ملے گا۔''عابد نے کہا :''ان کے علاوہ تمہارے پاس اور کون سا مہلک ہتھیار ہے؟''کہا:''بُخل بھی ہمارا"
"بہترین ہتھیا ر ہے۔ انسان پرجو نعمتیں ہیں ہم انہیں تھوڑی کرکے دِکھاتے ہیں اور لوگوں کے پاس جومال ودولت ہے اسے اس کی نظروں میں زیادہ کر دیتے ہیں ۔ اس طرح وہ اپنے مال میں حقوقُ اللہ کی ادائیگی کے معاملے میں کنجوسی سے کام لیتا اور ہلاکت کی وادیوں میں جاگرتا ہے ۔''(الامان والحفیظ)
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! شیطان لعین انسان کا کھلا دشمن ہے وہ ہرآن انسانوں کو بہکانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔اس کے مکرو فریب سے بچنے کے لئے ایسے لوگوں کی صحبت ضروری ہے جواس کے واروں سے بچنے کے طریقے جا نتے ہوں اور ان کے سینے، خوف خدا و محبت مصطفی عزوجل وصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور سے منوّر ہوں ،ان کے ساتھ رہ کر سنتوں پر عمل پیرا ہونے کا جذبہ ملے اور نیکیا ں کرنا آسان ہو جائے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں اچھے لوگوں کی صحبت عطا فرمائے اورنفس وشیطان کی شرارتوں سے محفوظ فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُنابَکَّاربن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ ''میں نے حضرتِ سیِّدُنا وَہْب بن مُنَبِّہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ فرماتے سنا: ''ایک کافروظالم بادشاہ لوگوں کو خنزیر کا گوشت کھانے پر مجبو ر کرتا، جو انکارکرتا اسے سخت سزائیں دے کرہلاک کر وا دیتا۔ پھر اس زمانے کے سب سے بڑے عابد کو بادشاہ کے پاس لایا گیا، لوگ اس عابد کے مرتبے وفضیلت سے آگاہ تھے وہ نہیں چاہتے تھے کہ اس عبادت گزار بزرگ کو بادشاہ کی طرف سے کوئی تکلیف پہنچے۔چنانچہ، ایک سپاہی نے عابد سے کہا:'' آپ مجھے ایک بکری کا بچہ ذبح کرکے دے دیں۔ جب بادشاہ کہے گا کہ اس عابد کے سامنے خنزیر کا گوشت رکھو تو میں وہ بکری کا گوشت آپ کے سامنے لے آؤں گا۔ بادشاہ یہ سمجھے گا کہ آپ نے اس کی خواہش کے مطابق خنزیر کا گوشت کھا لیا ہے۔ اس طرح آپ ہلاکت سے محفوظ رہیں گے۔'' عابد نے بکری کا بچہ ذبح کرکے اس کا گوشت سپاہی کو دے دیا۔ جب اسے بادشاہ کے سامنے لے جایا گیا تو بادشاہ نے حکم دیا کہ خنزیر کا گوشت لایا جائے ۔منصوبے کے مطابق وہ سپاہی بکری کا گوشت لے کرآگیا۔بادشاہ نے کہا:''میرے سامنے خنزیر کا گوشت کھاؤ۔''عابدنے کہا:''میں ہرگزہرگز نہیں کھاؤں گا۔''یہ سن کرسپاہی نے اشاروں سے بتایا کہ'' یہ وہی گوشت ہے جو آپ نے دیا تھا،آپ بلاجھجک کھالیں۔''لیکن عابد نے بادشاہ کے سامنے وہ گوشت کھانے سے صاف انکار کردیا۔ ظالم بادشاہ نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ'' اسے قتل کردو۔''
جب اسے قتل کے لئے لے جانے لگے تو وہی سپاہی قریب آیا اور کہا:'' آپ نے گوشت کیوں نہیں کھایا؟ بخدا! یہ وہی"
"گوشت تھا جو آپ نے دیا تھا ،کیا آپ کو مجھ پر اعتماد نہ تھا ؟''عابد نے کہا:''ایسی کوئی بات نہیں بلکہ میں اس بات سے ڈرگیا تھا کہ لوگ میری وجہ سے فتنے میں مبتلا ہوجائیں گے، کیونکہ جب بھی کسی کو خنزیر کا گوشت کھانے پر مجبور کیا جائے گا تووہ کہے گا: '' فلاں عابد نے بھی تو مجبورہو کر حرام گوشت کھالیا تھا لہٰذا ہم بھی کھالیتے ہیں۔'' اس طرح لوگ میری وجہ سے بہت بڑے فتنے میں پڑ جائیں اور میں لوگوں کے لئے فتنہ ہرگز نہیں بننا چاہتا۔'' یہ کہہ کر وہ عظیم عابد خاموش ہوگیااور اس کا سر تن سے جدا کردیا گیا۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)
؎ تیری سنتوں پہ چل کر میری روح جب نکل کر چلے تم گلے لگانا مدنی مدینے والے صلي اللہ عليہ وسلم !"
" حضرتِ سیِّدُناصَدَقَہ بن سُلَیْمَان جَعْفَرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں :''میرا عنفوانِ شباب تھا اورمیں بُری عادتوں اور دنیا کی رنگینیوں میں مگن تھا۔ مگر جب میرے والد صاحب کا انتقال ہوا تو میرا دل چوٹ کھاگیا۔ میں نے اپنی سابقہ خطاؤں پر شرمندہ ہوتے ہوئے بارگاہِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ میں توبہ کرلی اور اعمالِ صالحہ کی طرف راغب ہوگیا۔ پھر بد قسمتی سے ایک دن میں کسی برے کام کا مرتکب ہوا تو اسی رات والد ِمحترم خواب میں آئے اور فرمایا:''اے میرے بیٹے !تیرے اعمال میرے سامنے پیش کئے جاتے ہیں تو مجھے بہت زیادہ خوشی ہوتی ہے کیونکہ وہ نیک لوگوں کے اعمال جیسے ہوتے ہیں۔ لیکن اس مرتبہ جب تیرے اعمال پیش کئے گئے تومجھے بہت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔خدارا!مجھے میرے فوت شدہ دوستوں کے سامنے رسوا نہ کیا کرو ۔''بس اس خواب کے بعد میری زندگی میں انقلاب آگیا۔میں ڈر گیا اورتوبہ پر استقامت اختیار کر لی ۔
راوی کہتے ہیں: تہجد کی نماز میں ہم آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو اس طرح التجائیں کرتے ہوئے سنتے تھے : ''اے صالحین کی اصلاح کرنے والے!اے بھٹکے ہوؤں کو سیدھی راہ چلانے والے!اے گناہگاروں پررحم فرمانے والے !میں تجھ سے ایسی توبہ کا سوال کرتا ہوں جس کے بعد کبھی گناہ کی طرف نہ جاؤں ۔کبھی برائی وظلم کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھوں ۔اے خالق ومالک عَزَّوَجَلَّ !مجھے سچی توبہ کی توفیق عطا فرما۔''"
" حضرتِ سیِّدُنا زِیادبن ابی زِیادمَدِیْنِی علیہ رحمۃ اللہ الغنی فرماتے ہیں :''مجھے میرے آقا ابن عیاش بن ابی ربیعہ نے امیرالمؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عمر بن عبد العزیز علیہ رحمۃ اللہ القدیر کے پاس اپنے کسی کام سے بھیجا۔ جب میں ان کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو اس وقت ایک کاتب ان کے پاس بیٹھا لکھ رہا تھا ۔میں نے ''اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ'' کہا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ''وَعَلَیْکُمُ السَّلَام''کہااور کاتب کو احکامات لکھوانے میں مصروف رہے۔ میں نے پھر کہا :اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا اَمِیْرَ المُؤْمِنِیْنَ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہ،۔ اس وقت ایک خادم بصرہ سے آنے والی شکایت سنا رہا تھا ۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے میرا دوسرا سلام سن کرارشاد فرمایا: ''اے ابنِ ابی زیاد !ہم تیرے پہلے سلام سے غافل نہیں ۔''پھر مجھ سے بیٹھنے کو کہا تو میں دروازے کی چوکھٹ کے پاس بیٹھ گیا ۔ کاتب بصرہ سے آنے والی شکایات سنا رہا تھا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرد آہیں بھر رہے تھے۔ جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کام سے فارغ ہوئے توکمرے میں موجود تمام لوگوں کو باہر جانے کاحکم دیا، سوائے میرے وہاں کوئی بھی باقی نہ رہا۔ سردیوں کا موسم تھا میں نے اُونی جبہ پہنا ہوا تھا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرے سامنے بیٹھ گئے اور میرے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر ارشاد فرمایا:''واہ بھئی !تم سردیوں میں گرم جبہ پہن کر کتنے پُرسکون ہو۔''پھر مجھ سے اہلِ مدینہ کے صالحین، بچوں ،عورتوں اورمردوں کے متعلق حال دریافت کیا یہاں تک کہ ہر ہر شخص کے بارے میں پوچھا۔ پھر مدینۂ منورہ زَادَھَا اللہُ شَرْفًاوَّتَعْظِیْمًاکے حکومتی نظام کے متعلق پوچھا۔
میں نے تفصیل بتائی تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑے غور سے ہر ہر بات سنتے رہے پھر فرمایا:''اے ابن زیاد! تم دیکھ رہے ہوکہ میں کس مصیبت میں پھنس گیا ہوں ۔''میں نے کہا:''امیر المؤمنین! آپ کو خوشخبری ہو، میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں خیر ہی کی امید رکھتا ہوں۔''پھر عاجز ی کرتے ہوئے فرمانے لگے: ''افسوس! ہائے افسوس !کیسی خیر،کیا بھلائی! میں لوگوں کو ڈانٹتا ہوں لیکن مجھے کوئی نہیں ڈانٹتا،میں لوگوں کو زَدْوکوب کرتا ہوں لیکن مجھے کوئی نہیں مارتا،میں لوگوں کو تکلیف پہنچاتا ہوں لیکن مجھے کوئی تکلیف نہیں پہنچاتا''آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ کلمات دہراتے جاتے اور روتے جاتے یہاں تک کہ مجھے آپ پر ترس آنے لگا۔ پھرآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے میری حاجات پوری فرمائیں اور میرے آقا کی طرف لکھ کر بھیجا: ''یہ غلام ہمارے ہاتھوں فروخت کر دو۔''پھر اپنے بستر کے نیچے سے بیس (20)دینار نکالے اور مجھے دیتے ہوئے فرمایا: ''یہ لو، انہیں اپنے استعمال میں لانا ،اگر تمہارا غنیمت میں حصہ بنتا تو وہ بھی ضرور تمہیں دیتا لیکن کیا کروں تم غلام ہو اس لئے مالِ غنیمت میں تمہاراکچھ حصہ نہیں۔'' میں نے دینار لینے سے انکار کیا تو فرمایا: ''یہ میں اپنی ذاتی رقم میں سے تمہیں دے رہا ہوں۔''میں نے پھر انکا ر کیا مگر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیہم(یعنی مسلسل) اصرار سے مجبور ہو کر مجھے وہ دینار لینے ہی پڑے ۔پھر میں واپس آگیاپھرآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے میرے آقا کو"
"پیغام بھیجا : ''یہ غلام ہمارے ہاتھوں فروخت کر دو۔'' لیکن انہوں نے مجھے بیچانہیں بلکہ آزاد کردیا۔اس طرح امیر المؤمنین حضرتِ سیِّدُناعمربن عبدالعزیز علیہ رحمۃ اللہ المجید کی برکت سے ایک غلام کو آزادی نصیب ہوگئی ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُناابو موسیٰ اَشْعَرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں: ''ایک مرتبہ ہم لوگ سمندری راستے سے جہاد کے لئے جا رہے تھے ، ہماری کشتی سمندر کا سینہ چیرتی ہوئی جانب ِ منزل بڑھی جارہی تھی۔ اتنے میں ایک غیبی آواز نے سب کو حیران کردیا، کوئی کہنے والا کہہ رہا تھا:''اے کشتی والو!رکو!میں تمہیں ایک اہم بات بتاتا ہوں ۔''یہی آواز چھ، سات بار سنائی دی تو میں کشتی کے چبوترے پر کھڑا ہو گیا اور کہا: ''تُوکون ہے اورکہاں ہے؟ کیاتُو جانتا ہے کہ ہم اس وقت کہاں ہیں ؟ہم بیچ سمندر میں کس طرح ٹھہر سکتے ہیں؟ ''ابھی میں نے اپنی بات مکمل کی ہی تھی کہ انوکھے مبلغ کی غیبی آواز گونجی :''کیا میں تمہیں ایک ایسی بات کی خبر نہ دوں جسے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنے ذمۂ کرم پر لازم کرلیا ہے؟''میں نے کہا:''کیوں نہیں !ہمیں ضرور ایسی شئے کے متعلق بتائیے۔'' آوازآئی:''سنو!اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنے ذمۂ کرم پر یہ بات لازم کرلی ہے کہ جو کوئی گرمیوں کے دنوں میں رضائے الٰہی عَزَّوَجَلَّ کے لئے اپنے آپ کو پیاسا رکھے گا اللہ عَزَّوَجَلَّ قیامت کی ہلاکت خیز گرمی میں اسے سیراب فرمائے گا۔'' پھرحضرتِ سیِّدُنا ابو موسیٰ اَشْعَرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے ایسا معمول بنایا کہ ایسے شدید گرم دنوں میں بھی روزہ رکھتے جن میں انسان گرمی کی شدت میں بُھن جاتا تھا۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)
؎ یا الٰہی!گرمئ محشرسے جب بھڑکيں بدن دامنِ محبوب کی ٹھنڈی ہوا کا ساتھ ہو !
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! روزِمحشر کی جان لَیْوا گرمی سے بچنے کے لئے فرض روزوں کے ساتھ ساتھ نفل روزوں کا اہتمام بھی کرتے رہنا چاہے،ہر ہفتے کم از کم ایک دن کا نفلی روزہ تو رکھ ہی لینا چاہے ۔ہمارے اسلاف رحمہم اللہ تعالیٰ اس کا خوب اہتمام فرماتے اور اپنے متعلقین کو بھی اس کی ترغیب دلاتے رہتے ۔ہو سکے تو پیرشریف کو روزہ رکھیں کیونکہ پیر شریف کو روزہ رکھنا سنت بھی ہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں بھی نفلی روزے رکھنے کی سعادت عطا فرمائے ۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُنااِدرِیس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: '' ہمارا لشکر دشمنانِ اسلام کی سرکوبی کے لئے ''روم ''کی جانب رواں دواں تھا۔ راستے میں مدینۂ منورہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًاسے ایک نوجوان آیا اورمجاہدین میں شامل ہوگیا ۔ دشمن کے علاقے میں پہنچ کر ہم نے ایک شہر کا محاصر ہ کرلیا۔ ہم تین مجاہد ایک ساتھ تھے، ایک میں اور دوسرا ''زِیاد'' نامی مدنی نوجوان تھا اور تیسرادوست بھی مدینۂ منورہ شریف کا رہنے والا تھا۔ ایک دن ہم پہرا دے رہے تھے کہ صبح کے وقت ہم میں سے ایک شخص کھانا لینے چلاگیا۔ اب میں اور زیاد نامی مدنی نوجوان ایک ساتھ تھے اتنے میں منجنیق سے پتھر پھینکا گیا جو زیاد کے قریب آ گرا ،پتھر کا ایک ٹکڑا زیاد کے گھٹنے پر لگا۔ جس سے اتنی شدید چوٹ لگی کہ وہ فوراً بے ہوش گیا۔ہم کافی دیر اس کے قریب کھڑے رہے لیکن اس نے حرکت نہ کی پھر بے ہوشی کی حالت میں یکایک اس کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی، وہ اتنا ہنساکہ داڑھیں ظاہر ہونے لگیں ،پھر اللہ تبارک وتعالیٰ کی حمد کرتے ہوئے دوبارہ ہنسا۔ اس کے بعد رونے لگا پھر خاموش ہوگیا۔کچھ دیر بعد اسے ہوش آیا تو اُٹھ بیٹھا اور کہنے لگا: ''یہ مجھے کیا ہوا ؟ میں کہاں ہوں ؟'' ہم نے کہا:'' کیا تجھے یاد نہیں کہ منجنیق کا ایک پتھر تجھے لگا تھا۔'' اس نے کہا:''کیوں نہیں! مجھے یاد ہے۔'' ہم نے کہا:'' اس کے بعد تجھ پر بے ہوشی طاری ہوگئی اور ہم نے بے ہوشی کے عالَم میں تجھے اس اس طرح دیکھا ہے۔ ہمیں بتاؤ! آخر معاملہ کیا ہے ؟'' مدنی نوجوان نے کہا:'' ہاں! میں تمہیں ساری بات بتاتا ہوں، سنو!جب راہِ خداعَزَّوَجَلَّ میں مجھے پتھر لگا اور میں بے ہوش ہوگیا تو میں نے دیکھا کہ مجھے ایک ایسے وسیع وعالیشان کمرے میں لے جایاگیا جو زَبر جَد اور یاقوت سے بنا ہوا تھا ۔پھر ایک ایسے بستر پر لے جایا گیا جس میں ہیرے جواہرات سے مزین بہترین چادریں بچھی ہوئی تھیں ۔وہاں عمدہ قسم کے قیمتی تکیے رکھے ہوئے تھے ۔ابھی میں اس بستر پر بیٹھا ہی تھا کہ میں نے زیورات کی جھنکار (یعنی آواز) سنی، مڑ کر دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا۔ ایک انتہائی حسین وجمیل لڑکی بہترین لباس میں ملبوس اور عمدہ زیورات سے مزین میرے سامنے موجود تھی، میں نہیں جانتا کہ وہ زیادہ خوبصورت تھی یااس کے لباس وزیورات۔ وہ میرے سامنے آکر بیٹھی، '' خوش آمدید'' کہااور بڑے پیار بھرے انداز میں میری جانب دیکھتے ہوئے یوں گویا ہوئی: ''اے میری راحت وسکون! اے میرے سرتاج! مرحبا! میں تمہاری دُنیوی بیوی کی طرح نہیں ہوں، پھر اس نے میرے بیوی کا اس انداز میں ذکر کیا کہ میں ہنسنے لگا۔ پھر وہ میری دائیں طرف میرے پہلومیں آکر بیٹھ گئی۔'' میں نے پوچھا: '' تُو کون ہے؟'' کہا :'' میں تیری جنتی بیویوں میں ایک ناز والی بیوی ہوں۔''
میں نے اس کی طرف اپناہاتھ بڑھانا چاہا توبولی:'' کچھ دیر رُک جاؤ! اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ آج ظہر کی نماز کے وقت تم ہمارے پا س آجاؤ گے۔'' اس کی یہ بات سن کرمیں رونے لگا، ابھی میں روہی رہا تھا کہ اپنی بائیں جانب زیورات کی جھنکار سنی، مڑ"
"کر دیکھا تو اسی کی طرح ایک اور خوبصورت دوشیزہ موجود تھی۔ اس نے بھی و ہی کہا جو پہلی نے کہا تھا۔ جب میں نے ہاتھ بڑھانا چاہا تو بولی: ''تھوڑی دیر رُک جاؤ! اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ ظہر کے وقت تم ہمارے پاس پہنچ جاؤ گے۔'' میں پھر رونے لگا۔ بس اس کے بعد مجھے ہوش آگیا اور اب میں تمہارے سامنے موجود ہوں۔ ہم اس کی بات سن کر بہت حیران ہوئے اور وقت کا انتظارکرنے لگے جیسے ہی ظہر کا وقت ہوا اور مؤذن نے اذان کہی، وہ مدنی نوجوان زمین پر لیٹا اور اس کی روح عالَمِ بالا کی طرف پرواز کر گئی ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُنا شَہْربن حَوْشَب علیہ رحمۃاللہ الرَّب سے منقول ہے :حضرتِ سیِّدُنا صَعْب بن جَثَّامَہ اور حضرتِ سیِّدُنا عَوْف بن مالک علیہما رحمۃ اللہ الخالق میں دینی تعلق کی وجہ سے بہت گہری دوستی تھی۔ ایک دن حضرتِ سیِّدُنا صَعْب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرتِ سیِّدُنا عَوْف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے کہا: ''اے میرے بھائی !ہم میں سے جو پہلے مر جائے اسے چاہے کہ اپنے حال سے دوسرے کو آگاہ کرے کہ مرنے کے بعد اس پر کیا گزری؟''حضرتِ سیِّدُناعَوْف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کہا:'' کیا ایسا ہوسکتا ہے ؟''کہا:'' ہاں! ایسا بالکل ہوسکتا ہے۔'' پھر کچھ دنوں بعد حضرتِ صعب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا انتقال ہوگیا۔ حضرتِ سیِّدُنا عَوْف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے انہیں خواب میں دیکھ کر پوچھا: ''ما فُعِلَ بِکَ یعنی آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا گیا؟''فرمایا:'' میری بہت سی خطائیں بخش دی گئیں۔'' حضرتِ سیِّدُنا عَوْف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:میں نے ان کی گردن میں ایک سیاہ نشان دیکھ کر پوچھا :''یہ سیاہ نشان کیا ہے؟'' فرمایا:''میں نے فلاں یہودی سے دس دینار قرض لے کراپنے تَرْکَش (یعنی تیر رکھنے کے تھیلے) میں رکھ دیئے تھے، تم وہ دینار اس یہودی کو واپس لوٹا دینا، یہ نشان اسی قرض کی وجہ سے ہے۔اے میرے بھائی !خوب توجہ سے سن! میرے مرنے کے بعد ہمارے اہل وعیال میں چھوٹا یا بڑا کوئی واقعہ ایسا رونمانہیں ہو ا جس کی مجھے خبر نہ ہوئی ہو، مجھے اُن کی ہر ہر بات پہنچ جاتی ہے حتیٰ کہ ابھی چند روز قبل ہماری بِلّی مَری تھی مجھے اس کا بھی پتہ چل گیاہے ۔اور سنو !میری سب سے چھوٹی بیٹی بھی چھ دن بعد انتقال کر جائے گی، تم اس سے اچھا برتاؤ کرنا۔'' حضرتِ سیِّدُنا عَوْف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ جب میں بیدار ہوا تو کہا:'' یہ ضرور ایک اَہَم امر ہے، میں اس کی تحقیق کروں گا۔''
پھر میں ان کے گھر پہنچا تو گھر والوں نے خوش آمدید کہتے ہوئے کہا: ''اے عَوْف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ! کیا بات ہے ؟صَعْب"
"رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی وفات کے بعد آپ ایک مرتبہ بھی ہمارے پاس نہیں آئے۔' 'میں نے اپنی مصروفیات کا عذر بیان کرکے گھر والوں کو مطمئن کیا۔ پھر ترکش منگوایا تو اس میں دیناروں کی تھیلی موجود تھی، میں نے کہا:''فلاں یہودی کو بلا لاؤ۔'' جب وہ آیا تو میں نے کہا: ''کیاحضرتِ سیِّدُنا صَعْب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے اوپرتمہارا کوئی مال تھا؟'' یہودی نے کہا:''اللہ عَزَّوَجَلَّ صَعْب پر رحم فرمائے وہ تو امتِ محمدیہ(عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام) کے بہترین افراد میں سے تھے،میرا ان سے کوئی مطالبہ نہیں۔'' میں نے کہا: ''سچ سچ بتا!کیا انہوں نے تجھ سے کچھ قرض لیا تھا؟'' یہودی بولا:'' ہاں! انہوں نے مجھ سے دس (10)دینار قرض لئے تھے۔'' میں نے دیناروں کی تھیلی اس کی طرف بڑھائی تو کہنے لگا:'' خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم! یہ وہی دینار ہیں جو انہوں نے مجھ سے لئے تھے۔'' میں نے دل میں کہا: ''حضرتِ سیِّدُناصَعْب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بتائی ہوئی ایک بات تو بالکل سچ ثابت ہوچکی ہے۔پھر میں نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے گھر والوں سے پوچھا:''کیاحضرتِ سیِّدُنا صَعْب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے وصال کے بعد تمہارے ہاں کوئی نئی بات ہوئی ہے ؟''کہا:''جی ہاں۔'' میں نے پوچھا:'' وہ کیا ہے ؟'' توانہوں نے کچھ باتیں بتائیں اور کہا کہ ہماری ایک بلی تھی جو ابھی چند روز قبل مری ہے۔'' میں نے دل میں کہا:'' دوسری بات بھی بالکل حق ثابت ہوگئی۔'' پھر میں نے پوچھا:'' میرے بھائی صَعْب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی چھوٹی بچی کہاں ہے؟'' انہوں نے کہا: '' وہ باہر کھیل رہی ہے ۔''میں نے اسے بلوایا اور شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا تو اس کا جسم بخار کی وجہ سے کافی گرم ہورہا تھا۔میں نے گھروالوں سے کہا:'' اس بچی کے ساتھ اچھا برتاؤکرنا اور اسے خوب پیار سے رکھنا۔'' پھر میں واپس چلا آیا،چھ(6) دن بعداس بچی کا انتقال ہوگیا ۔اور یوں حضرتِ سیِّدُنا صَعْب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بتائی ہوئی تینوں باتیں بالکل سچ ثابت ہوئیں۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
حضرتِ سیِّدُنا ابو بَکرْقُرَشِی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں: میں نے حضرتِ سیِّدُناعَبَّادبن عَبَّاد مُہَلَّبِی کو ارشاد فرماتے سنا: ''بصرہ کے بادشاہوں میں سے کسی بادشاہ نے امورِ سلطنت کو خیر باد کہہ کر زُہدوتقویٰ کی راہ اختیار کرلی مگر پھر دوبارہ سلطنت وحکومت کی طرف مائل ہوا اور دنیا کا عیش وعشرت طلب کرنے کی ٹھان لی۔ چنانچہ، اس نے ایک شاندار محل بنوایا اس میں اعلیٰ قسم کے قالین بچھوائے اور ہر طرح کے سازوسامان سے اس عظیم ُالشان محل کو آراستہ کرایا،اور ایک کمرہ مہمانوں کے لئے خاص کر دیا،
" وہاں عمدہ بستر بچھائے جاتے، انواع واقسام کے کھانے چُنے جاتے۔ بادشاہ لوگوں کو بلاتاتووہ عظیم ُ الشان محل اور بادشاہ کی ٹھاٹ باٹ(یعنی شان وشوکت) دیکھ کر تعریف وخوشامد کرتے ہوئے واپس چلے جاتے ۔ یہ سلسلہ کافی عرصہ تک چلتا رہا، بادشاہ مکمل طور پر دنیا کی رنگینیوں میں گم ہو چکا تھااس کے اس عظیم الشان محل میں ہر طرح کے آلاتِ موسیقی اور لہوو لعب کا سامان تھا۔وہ ہروقت دنیوی مشاغل میں مگن رہتا۔ ایک دن اس نے اپنے خاص وزیروں ،مشیروں اور عزیزوں کو بلاکر کہا: ''تم اس عظیم الشان محل میں میری خوشیوں کو دیکھ رہے ہو، دیکھو! میں یہاں کتنا پُر سکون ہوں،میں چاہتا ہوں کہ اپنے تمام بیٹوں کے لئے بھی ایسے ہی عظیم الشان محلات بنواؤں، تم لوگ چند دن میرے پاس رُکو، خوب عیش کرو اور مزید محلات بنانے کے سلسلے میں مجھے مفید مشورے دو، تاکہ میں اپنے بیٹوں کے لئے بہترین محلات بنانے میں کامیاب ہوجاؤں ۔''
چنانچہ، وہ لوگ اس کے پاس رہنے لگے۔ دن رات لہو ولعب میں مشغول رہتے اور بادشاہ کو مشورہ دیتے کہ اس طرح محل بنواؤ، فلاں چیز اس کی آرائش کے لئے منگواؤ، فلاں معمار سے بنواؤ، الغرض روزانہ اسی طرح مشورے ہوتے اور عظیم ُالشان محلات بنانے کی ترکیبیں سوچی جاتیں۔ ایک رات وہ تمام لوگ لہوولعب میں مشغول تھے کہ محل کی کسی جانب سے ایک غیبی آواز نے سب کو چونکا دیا۔ کوئی کہنے والا کہہ رہاتھا :"
"یَا اَیُّہَا الْبَانِیُّ النَّاسِیُّ مَنِیَّتَہ، لَا تَاْمُلَنْ فَاِنَّ الْمَوْتَ مَکْتُوْبُ
عَلَی الْخَلَائِقِ اِنْ سَرُّوْا وَاِنْ فَرِحُوْا فَالْمَوْتُ حَتْفٌ لِذِی الْآمَالِ مَنْصُوْبُ
لَا تَبْنِیَنْ دِیَارًا لَسْتَ تَسْکُنُہَا وَرَاجِعِ النُّسْکَ کَیْمَا یُغْفَرُ الْحُوْبُ"
"ترجمہ:(۱)۔۔۔۔۔۔اے اپنی موت کو بھول کر عمارت بنانے والے! لمبی لمبی امیدیں چھوڑ دے کیونکہ موت لکھی جاچکی ہے ۔
(۲)۔۔۔۔۔۔ لوگ خواہ خود ہنسیں یا دوسروں کو ہنسائیں، بہرحال موت ان کے لئے لکھی جاچکی ہے اور بہت زیادہ امید رکھنے والے کے سامنے تیار کھڑی ہے۔
(۳)۔۔۔۔۔۔ایسے مکانات ہرگز نہ بنا جن میں تجھے رہنا ہی نہیں تو عبادت وریاضت اختیار کر، تا کہ تیرے گناہ معاف ہوجائیں۔"
"کر رہا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ میری موت کا پیغام ہے۔'' لوگوں نے کہا:'' ایسی کوئی بات نہیں، آپ کی عمردرازاور اقبال بلند ہو! آپ پریشان نہ ہوں۔'' پھر بادشاہ نے لوگوں کی طرف توجہ نہ دی، اس کا دل چوٹ کھا چکا تھا۔ غیبی آواز نے اس کا ساراعیش ختم کر دیا تھا، وہ روتے ہوئے کہنے لگا:'' تم میرے بہترین دوست اور بھائی ہو، تم میرے لئے کیا کچھ کر سکتے ہو ؟'' لوگوں نے کہا: ''عالی جاہ! آپ جو چاہیں حکم فرمائیں، آپ کا ہر حکم مانا جائے گا۔'' بادشاہ نے شراب کے تمام برتن توڑ ڈالے ۔اس کے بعد بارگاہِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ میں اس طرح عرض گزار ہوا:
'' اے میرے پاک پروردگارعَزَّوَجَلَّ ! میں تجھے اور یہاں موجودتیرے بندوں کو گواہ بناکر تیری طرف رجوع کرتا اور اپنے تمام گناہوں اور زیادتیوں پر نادم ہو کر توبہ کرتا ہوں ۔اے میرے خالق عَزَّوَجَلَّ !اگر تُومجھے دنیامیں کچھ مدت اور باقی رکھنا چاہتا ہے تو مجھے دائمی اطاعت وفرمانبرداری کی راہ پر چلا دے ۔اور اگر مجھے موت دے کر اپنی طر ف بلانا چاہتا ہے تو مجھ پر کرم کر دے اور اپنے کرم سے میرے گناہوں کو بخش دے۔''
بادشاہ اسی طرح مصروفِ التجا رہا اور اس کا درد بڑھتا گیا۔ پھر اس نے ان کلمات کا تکرار شروع کر دی: ''اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! ''موت'' اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم !''موت''۔ بس یہی کلمات اس کی زبان پر جاری تھے کہ اس کا طائر ِ روح قفسِ عُنْصُرِی سے پرواز کر گیا۔ اس دور کے فقہاء کرام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین فرمایا کرتے تھے: ''اس بادشاہ کا خاتمہ توبہ پر ہوا ہے۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
حضرتِ حسین بن خالد علیہ رحمۃ اللہ الخالق کہتے ہیں :''ایک مرتبہ عُبَیْدبن اَبْرَص اپنے رفقاء کے ہمراہ کسی کام سے جارہے تھے۔ راستے میں ریتلی زمین پرایک سانپ لوٹ پوٹ ہورہاتھادوستوں نے پکارکرکہا:''اے عبید!تیرے قریب خوفناک اژدہا ہے اس سے بچ اور اسے مارڈال ۔''عبیدنے کہا:''شدتِ پیاس کی وجہ سے اس کی یہ حالت ہوگئی ہے، یہ تواس لائق ہے کہ اسے پانی پلایاجائے۔'' دوستوں نے کہا:''اے عبید!یہ بہت خطرناک ہے یاتوتُواسے قتل کردے ورنہ ہم اسے مارڈالیں گے ۔''عبید نے کہا:''میں تمہاری طرف سے اسے کافی ہوں، تم بے فکررہو۔''یہ کہہ کراس نے سانپ کو پانی پلایا اور کچھ پانی اس کے سر پر ڈال دیا۔ پھرسانپ ایک جانب روانہ ہوگیا۔ دورانِ سفرعبیدراستہ بھول گیااوراس کا اونٹ بھی گم ہوگیا۔یہ بہت پریشان ہوا کیونکہ اس
"ویران جگہ میں کوئی ایسانہ تھاجواسے راہ بتاتا۔اچانک اسے ایک غیبی آوازسنائی دی:
''اے رستہ بھٹکے ہوئے وہ مسافرجس کااونٹ گم ہوچکا ہے اورکوئی بھی ایسا نہیں جوتیرارفیقِ سفربنے!یہ لے !ہماری طرف سے اونٹ لے جا اوراس پرسوارہوکرچلتا رہ۔ جب رات ختم ہوجائے اور صبح کااُجالاپھیلنے لگے تواس اونٹ سے اُتر جانا۔'' جیسے ہی یہ آواز ختم ہوئی اچانک عبید کے پاس ایک اونٹ نمودارہو گیا،وہ اس پرسوارہوااور ساری رات سفرکرتارہا۔جب صبح ہوئی تو اس راستہ تک پہنچ چکاتھاجس سے اچھی طرح واقف تھا۔وہ اونٹ سے اُترا اورپکارکرکہنے لگا:''اے اونٹ والے!تُونے مجھے بہت بڑی تکلیف اورایسے بیابان جنگل سے نجات دی جس میں اچھے اچھے واقف کاربھی رستہ بھول جاتے ہیں۔کیاتُوہمارے پاس صبح نہیں کریگا؟ تاکہ ہم جان جائیں کہ اس وادی میں کس نے ہم پر نعمتوں کے ساتھ سخاوت کی ۔ہمارے پاس آ اور تعریف پا کرامن سے واپس چلا جا۔''اچانک ایک غیبی آواز سنائی دی:
''میں ایک جنّ ہوں،میں تیرے سامنے اژدھے کی صورت میں تپتی ہوئی ریت پرشدتِ پیاس سے تڑپ رہاتھا،میری حالت یہ تھی کہ مجھ پر حملہ کرنابالکل آسان تھاایسے کَڑے وقت میں جبکہ پانی پینے والابھی بخل کرتاہے۔ لیکن تم نے پانی سے مجھے سیراب کیا اور کنجوسی نہ کی ۔نیکی باقی رہتی ہے اگرچہ طویل عرصہ گزرجائے اوربرائی خبیث شئے ہے اسے کوئی اپنازادِراہ نہیں بناتا۔''
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! یہ ایک جِنّ تھاجو اژدھے کی شکل میں شدتِ پیاس سے تڑپ رہاتھا۔عبیدنے ترس کھا کر اسے پانی پلایااوراس پراحسان کیا توجِنّ نے بھی احسان فراموشی نہ کی اورجب عبید راستہ بھول گیاتواس کی مددکی اوراسے منزلِ مقصود تک پہنچا دیا۔ حقیقت ہے کہ جوکسی کے ساتھ احسان کرتاہے اس پربھی احسان کیاجاتاہے ۔جوکسی کابھلاسوچتاہے اس کے ساتھ بھی بھلائی والا معاملہ کیاجاتاہے ۔اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں لوگوں کے لئے نقصان دہ نہ بنائے بلکہ فائدہ دینے والے عظیم لوگوں میں شامل فرمائے۔ اور ہمیں ایسا جذبہ عطافرمائے کہ ہماری وجہ سے کسی اسلامی بھائی کوکوئی نقصان نہ پہنچے اورہم اپنے مسلمان بھائیوں کی خیرخواہی کے لئے ہردم کوشاں رہیں اورپوری دنیامیں دینِ اسلام کاڈَنکابجادیں۔)
؎ عطارؔسے محبوب کی سنت کی لے خدمت ڈنکا یہ تیرے دین کا دنیا میں بجا دے(آمین)!
( آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
منقول ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں مالک بن حَرِیْم ہَمْدَانِیاپنی قوم کے چند افراد کے ہمراہ(مکہ شریف کے بازار) عُکَاظ کی طرف روانہ ہوا۔ راستہ میں لوگوں کوشدیدپیاس لگی ،لیکن آس پاس کہیں پانی موجود نہ تھابالآخرانہوں نے مجبورہوکرہرن شکار کیا اور اس کا خون پی کر گزارہ کیا۔جب ساراخون ختم ہوگیاتواسے ذَبح کیا اور لکڑیاں ڈھونڈنے چلے گئے ۔ مالک اپنے خیمے میں
"سو گیا اس کے ساتھیوں نے راستہ میں ایک سانپ دیکھا تواسے مارنے کے لئے دوڑے، سانپ خیمے میں داخل ہوگیا۔لوگوں نے پکارکر کہا:''اے مالک! تیرے قریب خطرناک سانپ ہے، جلدی سے اسے مارڈال ۔''لوگوں کی چیخ وپکارسن کرمالک جاگ گیا۔اس نے دیکھاکہ ایک بہت بڑا اژدھا اس کے خیمے میں پناہ لئے ہوئے ہے اورلوگ اسے مارناچاہتے ہیں ۔اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا:''میں تمہیں قسم دیتاہوں کہ تم میں سے کوئی بھی اسے نقصان نہ پہنچائے،میں تمہاری طرف سے اسے کافی ہوں۔'' چنانچہ، لوگ اسے مارنے سے رُک گئے اوراژدھاصحیح وسالم ایک جانب چلاگیاپھرمالک نے اس طرح کہا:
''مجھے میرے قابلِ تعظیم ساتھی نے پڑوسی کی تکریم کی وصیت کی، لہٰذامیں نے اپنے پڑوسی کی اس وقت حفاظت کی جب کوئی اس کامحافظ نہ تھا۔اے لوگو!میں تم پرفدا ہوجاؤں کہ تم نے میرے پڑوسی کوچھوڑدیااگرچہ وہ سانپ ہے اورتم اس کا خون ہرگز نہیں بہا سکتے جوپناہ لے چکا،کیونکہ اس کوپناہ دینے والااس کاضامن ہے اورہرطرف سے اس کی حفاظت کرنے والا ہے ۔''
اس کے بعدمالک اوراس کے ساتھیوں نے جانبِ منزل کوچ کیا،راستہ میں انہیں ایسی شدید پیاس لگی کہ زبانیں خشک ہوگئیں۔ پھر اچانک ایک آوازسنائی دی :
''اے مسافرو! اگرتم سارادن اپنے جانوروں کوچلاتے رہو تب بھی آج پانی تک نہیں پہنچ سکتے۔ ہاں! ایسا کرو کہ تم دن بھرچلو پھر ''شامہ'' چلے جاؤ! وہاں تمہیں ایک ریت کے ٹیلے کے پاس بہت ساپانی مل جائے گااورتمہاری کمزوری دورہوجائے گی۔یہاں تک کہ تم خوب پانی پینااوراپنی سواریوں کوپلانااورمشکیزے بھی بھرلینا۔''یہ غیبی آوازسن کر سب لوگ ''شامہ'' پہنچے، وہاں ایک پہاڑ کی جڑسے چشمہ بہہ رہا تھا۔ سب نے خوب سیر ہوکرپانی پیا،سواریوں کوپلایا، اپنے مشکیزے اوربرتن بھی بھر لئے۔ اور ''عُکَاظ''کی جانب چل دئیے۔ واپسی پراسی مقام پرپہنچے جہاں پانی کاچشمہ تھاتویہ دیکھ کرحیران رہ گئے کہ اب وہاں چشمے کانام ونشان بھی نہ تھا۔وہ ابھی حیرت کی وادیوں میں گم تھے کہ ایک غیبی آوازسنائی دی، کوئی کہنے والاکہہ رہاتھا:
''اے مالک!میری طرف سے اللہ عَزَّوَجَلَّ تجھے اچھی جزا عطافرمائے۔یہ میری طرف سے تمہیں الوداع اورسلام ہے ۔ ہرگزکسی کے ساتھ نیکی کرنانہ چھوڑنا،بے شک! جوکسی کوبھلائی سے محروم کرتاہے وہ خودبھی ضرور محروم کیاجاتا ہے اور خیر خواہی وبھلائی کرنے والااپنی موت تک قابلِ رشک رہتا ہے ۔فائدہ اٹھاکرناشکری کرنابہت بری عادت ہے۔ سنو!میں وہی سانپ ہوں جس کوتم نے موت سے نجات دی تھی،میں نے اس احسان کا شکریہ اداکردیا،کیونکہ شکریہ اداکرناقابلِ رشک شئے اور بہت ضروری امر ہے۔'' پھر وہ غیبی آوازبندہوگئی اورسارے مسافرحیرت سے منہ کھولے رہ گئے۔"
" حضرتِ سیِّدُنامِسْعَررحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے منقول ہے کہ''ایک عابد پہاڑ پر رہ کر عبادت کیاکرتاتھا۔اسے رزق اس طرح ملتا کہ ایک سفیدپرندہ روزانہ اسے دوروٹیاں دے جاتا۔عابدروٹیاں کھاکراللہ عَزَّوَجَلَّ کاشکراداکرتااوردن رات عبادتِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں مشغول رہتا ۔ ایک مرتبہ جب اسے دو روٹیاں دی گئیں تو ایک سائل آگیا اس نے ایک روٹی اسے دے دی، پھرایک اورسائل آیا تو آدھی روٹی اسے دے دی اورآدھی اپنے لئے رکھ لی،پھر اپنے آپ سے کہا:''بخدا! آدھی روٹی نہ تومجھے کفایت کرے گی اور نہ ہی سائل کاگزارہ ہوگا،بہتریہی ہے کہ ایک بھوکا رہے تاکہ دوسرے کاگزارہ ہوجائے۔ پس ا س نے سائل کوترجیح دیتے ہوئے روٹی اسے دے دی، سائل دعائیں دیتاہواچلاگیا۔ عابد نے وہ رات بھوک میں کاٹی۔ پھرخواب دیکھا،کوئی کہنے والا کہہ رہاتھا: ''جومانگناہے مانگ لو۔ ''عابدنے کہا:''میں تومغفرت کا طالب ہوں۔'' آوازآئی :''یہ چیز تو تمہیں دی جاچکی ہے اس کے علاوہ کچھ چاہے تو بتاؤ۔''ان دنوں لوگ قحط سالی میں مبتلاتھے اوربارش بالکل نہ ہوئی تھی ۔ عابد نے کہا:''میں چاہتاہوں کہ لوگ بارش سے سیراب ہو جائیں۔'' عابدکی دعاقبول ہوئی اورموسلاد ھا ر بارش ہونے لگی۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
حضرت سیِّدُنارَجَاء بن سُفْیَان علیہ رحمۃ الحنَّان فرماتے ہیں: خلیفہ عبدالمَلِک بن مَرْوَان نے ایک شخص کے بار ے میں اعلان کروا رکھاتھاکہ کوئی بھی اسے پناہ نہ دے،سب اس سے دُور رہيں۔سب لوگ اس سے دور بھا گتے ،وہ بےچارہ دَر بدَر ٹھوکریں کھاتا پھرتا اور جنگل وصحرا میں رہ کراپنا وقت پورا کرتا۔ ایک دن وہ جنگل میں گھوم رہاتھاکہ کچھ دُور ایک بزرگ چادراوڑھے نماز پڑھتے دکھائی دیئے،وہ قریب جاکربیٹھ گیا۔ بزرگ نے نمازمکمل کرنے کے بعدپوچھا:''تم کون ہو؟اوراتنے پریشان کیوں ہو؟'' اس نے کہا : ''میں دنیا کا دُھتکارا ہوا شخص ہوں ۔خلیفۂ وقت عبدالمَلِک بن مَرْوَان نے میرے بارے میں لوگوں کو دھمکی دی ہوئی ہے کہ کوئی مجھے پناہ نہ دے ۔ خلیفہ کومجھ سے اتنی نفرت ہے کہ وہ میری شکل دیکھنابھی گوارانہیں کرتا۔لوگ بھی مجھے منہ نہیں لگاتے، بس ایسے ہی ویرانوں میں مارا مارا پھرتا ہوں۔'' یہ سن کر بزرگ نے کہا: ''تم سات کلمات سے غافل کیوں ہو؟'' عرض کی :''کون سے سات کلمات؟'' فرمایا:''وہ سات کلما ت یہ ہیں:
''سُبْحَانَ الْوَاحِدِ الَّذِیْ لَیْسَ غَیْرَہُ اِ لٰہ ٌ۔ سُبْحَانَ الدَّائِمِ الَّذِیْ لَا نَفَادَ لَہٗ۔
سُبْحَانَ الْقَدِیْمِ الَّذِیْ لَا نِدَّ لَہٗ۔ سُبْحَانَ الَّذِیْ یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ۔ سُبْحَانَ الَّذِیْ ہُوَ کُلَّ یَوْمٍ فِیْ شَاْنٍ۔سُبْحَانَ الَّذِیْ خَلَقَ مَا یُرٰی وَمَا لَا یُرٰی۔ سُبْحَانَ الَّذِیْ عَلَّمَ کُلَّ شَیْءٍ مِنْ غَیْرِ تَعْلِیْمٍ
"یعنی پاک ہے وہ اکیلاجس کے سواکوئی معبودنہیں ۔پاک ہے وہ ہمیشہ رہنے والا جسے کبھی فنا نہیں۔ پاک ہے وہ قدیم ذات جس کاکوئی ہمسَر نہیں۔پاک ہے وہ جومارتااور زندہ کرتاہے۔پاک ہے وہ جسے ہرد ن ایک کام ہے۔ پاک ہے وہ جس نے نظر آنے والی اورنہ نظر آنے والی اشیاء کوپیدافرمایا۔پاک ہے وہ جس نے ہرشے کوبغیرتعلیم کے سکھایا۔''
پھر اس بزرگ نے فرمایا: ان کلمات کوپڑھ کراس طرح دعاکر:''اے میرے پاک پروردگارعَزَّوَجَلَّ !میں تجھ سے ان کلمات کے وسیلے اور ان کی حرمت کے ساتھ سوال کرتاہوں کہ میرافلاں فلاں کام بنادے۔''اس طرح تم جوبھی دعامانگو گے قبول ہوگی۔''یہ کہہ کربزرگ نے کئی مرتبہ یہ کلمات دہرائے، یہاں تک کہ اس شخص کویاد ہوگئے ۔پھراچانک وہ بزرگ غائب ہوگیا۔یہ شخص ان کلمات کو سیکھ کر اپنے آپ کوپُرامن وپُرسکون محسوس کرتے ہوئے فوراًخلیفہ عبدالمَلِک بن مَرْوَان کے پاس پہنچا،کسی نے اس کو روکا اور نہ ہی خلیفہ کو اس پرغصّہ آیا ۔خلیفہ نے جب اپنی یہ کیفیت دیکھی توکہا:''کیاتُونے مجھ پرجادوکروا دیاہے؟''اس نے کہا: ''نہیں عالی جاہ! میں نے کوئی جادووغیرہ نہیں کروایا۔''خلیفہ نے کہا:''پھرکیاوجہ ہے کہ مجھے تجھ پربالکل غصّہ نہیں آرہا؟''
اس نے بزرگ والی ساری بات بتائی اوروہ کلمات بھی سنادیئے۔خلیفہ بڑاحیران ہوا اوراسے معاف کرکے اپنے خاص عہدے داروں میں شامل کرلیا۔"
حضرتِ سیِّدُناعبدالصَّمَدبن مَعْقِل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کہتے ہیں،میں نے حضرتِ سیِّدُناوَہْب بن مُنَبِّہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو فرماتے سنا: ''بنی اسرائیل کاایک راہب اپنے عبادت خانے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کیاکرتاتھا۔عبادت خانے کے نیچے ایک نہرتھی جہاں ایک دھوبی کپڑے دھویاکرتاتھا۔ایک دن ایک گُھڑسوارنے نہرکے قریب گھوڑا روکا، کپڑے اوررقم کی تھیلی ایک جانب رکھی اور غسل کرنے کے لئے نہر میں اُترگیا۔غسل کرنے کے بعد باہرآکرکپڑے پہنے اور رقم کی تھیلی وہیں بھول کر آگے بڑھ گیا۔ راہب سارامعاملہ دیکھ رہا تھا۔ اتنے میں ایک شکاری ہاتھ میں جال لئے نہرکے قریب آیا،اس نے رقم کی تھیلی دیکھی تو اٹھاکرچلتا بنا۔ کچھ دیربعد گُھڑ سوارواپس آیا اورتھیلی ڈھونڈنے لگا لیکن اسے تھیلی نہ ملی۔ اس نے دھوبی سے کہا: ''میں یہاں اپنی رقم کی تھیلی بھول گیاتھا، بتاؤ !وہ کہاں گئی؟'' دھوبی نے کہا:''مجھے نہیں معلوم، میں نے کوئی تھیلی نہیں دیکھی ۔''یہ سن کرگھڑ سوار نے تلوارنکالی اور دھوبی کاسرقلم کردیا ۔ راہب سارا منظر دیکھ رہاتھا،اسے وسوسے آنے لگے توعرض گزار ہوا:
''یاالٰہی عَزَّوَجَلَّ !اے میرے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ !بڑا عجیب معاملہ ہے کہ تھیلی توشکاری لے جائے اوردھوبی ماراجائے۔'' راہب کواس طرح کے خیالات آتے رہے۔جب سویاتوخواب میں کہاگیا:''اے نیک بندے! وسوسوں کا شکار ہو کرپریشان نہ ہو، اور اپنے رَبّ عَزَّوَجَلَّ کے علم میں دخل اندازی مت کر،بے شک تیرارب عَزَّوَجَلَّ جوچاہتاہے کرتاہے اورجیسے چاہتاہے حکم فرماتا ہے۔ سن! اس گھڑسوارنے شکاری کے باپ کوقتل کرکے اس کامال لے لیاتھااوردھوبی کانامۂ اعمال نیکیوں سے پُرتھاصرف اس کی ایک خطاتھی جبکہ اس گھڑ سوار کے نامۂ اعمال میں ایک ہی نیکی تھی ۔جب اس نے بے گناہ دھوبی کوقتل کیاتواس کی وہ نیکی مٹا دی گئی اوردھوبی کے نامۂ اعمال میں موجودخطابھی مٹادی گئی۔ رہامال تووہ اسی کے پاس پہنچ گیاجسے میراث میں ملناتھا۔''
''سُبْحَانَ الَّذِیْ یَحْکُمُ مَا یُرِیْدُ وَیَفْعَلُ مَا یَشَآءُ وَلَمْ یَکُنْ لَّہ، کُفُوًا اَحَدٌ
یعنی وہ پاک ہے، جوچاہتاہے حکم فرماتاہے اور جو چاہتا ہے کرتا ہے اور نہ ہی اس کے جوڑکاکوئی۔''
" حضرتِ سیِّدُناعثمان بن سَوْدَہ طُفَاوِی علیہ رحمۃ اللہ الوالی کی والدۂ محترمہ بہت زیادہ عابدہ وزاہدہ تھیں،کثرتِ مجاہدات کی وجہ سے ''راہبہ''مشہورتھیں۔جب موت کاوقت قریب آیاتوبارگاہِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ میں اس طرح عرض گزارہوئیں:
''اے میرے اعمال کے مالک عَزَّوَجَلَّ! اے میری اُمیدگاہ !اے وہ ذات جس پرقبل ازموت وبعداَزموت میرا اعتماد وبھروسہ ہے! اے میرے خالق ومالک عَزَّوَجَلَّ ! موت کے وقت مجھے رُسوانہ کرنا، قبرمیں مجھے بے یارومددگارنہ چھوڑنا۔''انہی الفاظ پر اس کاانتقال ہوگیا۔ان کے بیٹے حضرتِ سیِّدُناعثمان بن سَوْدَہ طُفَاوِی علیہ رحمۃ اللہ الکافی فرماتے ہیں:'' اپنی والدہ کے وصال کے بعد میں ہرجمعہ اُن کی قبرپرجاتا،ان کے لئے اورتمام اہلِ قبورکے لئے دعائے مغفرت کرتا۔ایک مرتبہ خواب میں والدہ کو دیکھاتوعرض کی: ''اے میری پیاری امی جان!آپ کاکیاحال ہے؟''کہا:''میرے بچے!بے شک موت بڑی دردناک ہے، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل و کرم سے میراانجام اچھاہوا،میرے لئے خوشبوئیں،باغات اوربہترین نرم وملائم بسترہیں جن پر سُنْدُس اوراِسْتَبرَق(۱) کے تکیے ہیں،ان میں روزِ محشرتک انہی آرام دہ نعمتوں میں رہوں گی۔''میں نے کہا:''پیاری امی جان! کیا آپ کو کوئی حاجت ہے؟'' کہا: ''جی ہاں۔ '' میں نے پوچھا:''بتائیے کیاحاجت ہے؟''کہا:''میری قبر پر حاضری اورہمارے"
"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔۔۔۔۔۔یہ دونوں لفظ ریشمی لباس کے لئے بولے جاتے ہیں۔ سندس باریک ریشمی کپڑے کو اور استبرق موٹے ریشمی کپڑے کو کہتے ہیں۔"
لئے دعائے مغفرت کرنا ہرگز تر ک نہ کرنا۔ کیونکہ جب تُوجمعہ کے دن میری قبر پر آتاہے تو مجھے خوشی ہوتی ہے اورمجھ سے کہا جاتا ہے:''اے راہبہ!دیکھ تیرابیٹاتیری قبر پر آیا ہے۔'' یہ سن کرمیں بھی خوش ہوتی ہوں اور میرے پڑوسی مُردے بھی خوش ہوتے ہیں۔لہٰذا میری قبر کی زیارت ہرگزترک نہ کرنا۔''
" عبدالرحمن بن یزیدکابیان ہے، ایک مرتبہ ہماراقافلہ ''روم''کی جانب جہادکے لئے جارہاتھا، قافلے میں ایک عجیب وغریب واقعہ پیش آیا ۔ہوایوں کہ جب ہماراگُزر انگوروں کے ایک باغ کے قریب سے ہواتوہم نے ایک نوجوان کوٹوکری دیتے ہوئے کہا: ''جاؤ!اس باغ سے ہمارے لئے انگورلے آؤ، ہم چلتے ہیں، تم انگورلے کرہمارے ساتھ مل جانا۔''وہ نوجوان انگوروں کے باغ میں چلاگیا۔ وہاں پہنچاتو انگورکی بیل کے نیچے سونے کے تخت پرایک حسین وجمیل خوبصورت لڑکی بیٹھی ہوئی دیکھی، نوجوان نے فوراً نگاہیں جھکا لیں اور دوسری طرف چلا گیا۔وہاں بھی ویسی ہی خوبصورت دوشیزہ سو نے کے تخت پربیٹھی ہوئی پائی۔ اس نے پھر نگاہیں جھکا لیں۔یہ دیکھ کروہ حسین وجمیل دوشیزہ مسکراتے ہوئے یوں گویا ہوئی:''ہماری طرف دیکھئے! آپ کوہماری طرف دیکھناجائز ہے کیونکہ ہم ''حورِعین'' میں سے آپ کی جنتی بیویاں ہیں اورآج آپ ہمارے ہاں پہنچ جائیں گے۔''
اس کے بعدوہ انگورلئے بغیراپنے رفقاء کی طرف واپس آگیا۔ وہ خالی ہاتھ تھا اور اس کے چہرے سے نورکی کرنیں پھوٹ رہی تھیں،ہم نے حیران ہوکرماجرادریافت کیا مگر اس نے ٹال مٹول سے کام لیا۔ جب دوستوں نے بہت اصرار کیا تواس نے ساراواقعہ کہہ سنایا۔ سب لوگ اس واقعہ سے بہت حیران ہوئے ۔پھرجیسے ہی ہمارا لشکردشمن کے سامنے پہنچاوہ نوجوان بِپھرے ہوئے شیرکی طرح دشمنوں پرٹوٹ پڑا اورلڑتے لڑتے جامِ شہادت نوش کرگیا۔اس دن مسلمانوں کے لشکرمیں سب سے پہلے شہیدہونے والاوہی نوجوان تھا۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
حضرتِ سیِّدُناعبیداللہ بن صَدَقَہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے والدکے حوالے سے بیان فرماتے ہیں:''ایک دفعہ میں اَنْطَابُلُسْ میں تھا وہاں میں نے تین قبریں دیکھیں جوکافی اونچی جگہ پربنی ہوئی تھیں۔قریب گیاتوایک قبرپریہ اشعارلکھے ہوئے تھے:
"؎ وَکَیْفَ یَلُذُّ الْعَیْشَ مَنْ ہُوَعَالِمٌ بِاَنَّ اِلٰہَ الْخَلْقِ لَا بُدَّ سَائِلُہُ
فَیَاْخُذُ مِنْہُ ظُلْمَہُ وَیَجْزِیْہِ بِالْخَیْرِ الَّذِیْ ہُوَ فَاعِلُہُ"
"ترجمہ:وہ زندگی کامزاکیسے پاسکتاہے جوجانتاہے کہ خالقِ کائنات عَزَّوَجَلَّ اس سے پوچھ گَچھ کرنے والااوراس کے اچھے بر ے اعمال کا بدلہ دینے والا ہے۔
دوسری قبرپریہ اشعاردرج تھے:"
"؎ وَکَیْفَ یَلُذُّ الْعَیْشَ مَنْ کَانَ مُوْقِنًا بِاَنَّ الْمَنَایَا بَغْتَۃً سَتُعَاجِلُہُ
فَتَسْلُبُہُ مُلْکًا عَظِیْمًا وَنَخْوَۃً وَتُسْکِنُہُ الْبَیْتَ الَّذِیْ ہُوَ آہِلُہُ"
"ترجمہ:وہ شخص زندگی کامزاکیسے پاسکتاہے جسے پختہ یقین ہوکہ موت اس کو جلدہی آدبوچے گی، اس کی سلطنت وتکبرچھین لے گی اوراس کو اندھیری کوٹھڑی میں ڈال دے گی۔
تیسری پریہ اشعاردرج تھے:"
"؎ وَکَیْفَ یَلُذُّ الْعَیْشَ مَنْ کَانَ صَائِرًا اِلٰی جَدَثٍ تُبْلِی الشَّبَابَ مَنَاہلُہُ
وَیَذْہَبُ رَسْمُ الْوَجْہِ مِنْ بَعْدِ صَوْ تِہٖ سَرِیْعًا وَّیُبْلِیْ جسْمَہُ وَمُفَاصِلَہُ"
"ترجمہ:وہ شخص زندگی کامزاکیسے پاسکتاہے جوایسی قبرکامکین بننے والاہوجواس کے حسن وشباب کوخاک میں ملادے گی،اس کے چہرے کی چمک دمک ختم کردے گی اوراس کاجوڑجوڑعلیحدہ کردے گی ۔
یہ قبریں دیکھ کرمیں بستی کی طرف آیاتو ایک ضعیف ُ العمر شخص سے ملاقات ہوئی۔میں نے اسے کہا:''مَیں نے تمہاری بستی میں ایک عجیب بات د یکھی ہے۔''اس نے پوچھا:''کون سی بات؟''میں نے اسے قبروں کامعاملہ بتایاتواس نے کہا:''ان کاواقعہ انتہائی عجیب وغریب ہے۔''میں نے کہا:''اگرواقعی ایسی بات ہے تومجھے بتاؤ کہ یہ تین قبریں کن کی ہیں اوران پریہ اشعارلکھنے کی کیا وجہ ہے؟''یہ سن کر بوڑھے نے کہا: ''اس علاقے میں تین بھائی رہتے تھے، ایک بھا ئی کوبادشاہ نے شہروں اور فوجی لشکروں پر امیر مقرر کر رکھاتھا اوروہ بڑاظالم وسفّاک تھا۔دوسرا نیک دل تاجرتھا، جب بھی کوئی پریشان حال غریب اس سے مدد طلب کرتا تووہ اس کی مددکرتا۔جبکہ تیسرابھائی عابدوزاہدتھااس نے دنیوی مشاغل چھوڑ کرعبادت وریاضت اختیارکرلی تھی۔ جب عابد کی وفات کاوقت قریب آیاتودونوں بھائیوں نے کہا:''پیارے بھائی !آپ ہمیں کوئی وصیت کیوں نہیں کرتے؟'' عابد"
"نے کہا:''خداعَزَّوَجَلَّ کی قسم! میرے پاس نہ تو مال ہے ،نہ ہی میراکسی پرقرض ہے، نہ ہی کوئی دنیوی مال چھوڑ کر جا رہاہوں جس کے ضائع ہونے کامجھے اندیشہ ہو، اب تم ہی بتاؤکہ میں کس چیزکی وصیت کروں؟''
یہ سن کر اس کے حاکم بھائی نے کہا:''اے میرے بھائی !میرا مال آپ کے سامنے موجودہے ،آپ جوبھی حکم فرمائیں گے میں اسے پو راکروں گا۔'' پھر اس کے تاجربھائی نے کہا:''اے میرے بھائی !آپ میری تجارت اورمالِ تجارت سے خوب واقف ہیں، میرے پاس مال کی فراوانی ہے ،اگرکوئی ایساعمل رہ گیاہوجوصرف مال ودولت خرچ کرکے ہی پوراکیاجاسکتاہے اور آپ وہ نیک عمل نہیں پاتے تو میرا تمام مال آپ کی خدمت میں حاضرہے، آپ جوحکم فرمائیں گے میں پورا کر و ں گا۔''
عابد نے کہا:''اے میرے بھائیو!مجھے تمہارے مال کی کوئی ضرورت نہیں ۔ہا ں! میں تم سے ایک عہد لیناچاہتاہوں، اگر ہو سکے تواسے پوراکر دینا، اس میں کوتاہی نہ کرنا۔''دونوں نے کہا: '' آ پ جوچاہیں عہدلیں ہم آپ کی ہرخواہش پوری کریں گے۔'' عابد نے کہا:''جب میں مرجاؤں توغسل وکفن کے بعدمجھے کسی او نچی جگہ دفنانا اور میری قبرپریہ اشعارلکھ دینا:"
"؎ وَکَیْفَ یَلُذُّ الْعَیْشَ مَنْ ہُوَعَالِمٌ بِاَنَّ اِلٰہَ الْخَلْقِ لَا بُدَّ سَائِلُہُ
فَیَاْخُذُ مِنْہُ ظُلْمَہُ وَیَجْزِیْہِ بِالْخَیْرِ الَّذِیْ ہُوَ فَاعِلُہُ"
یہ اشعارلکھ کرتم دونوں میری قبرکی زیارت کے لئے روزانہ آتے رہنا،شاید! تمہیں نصیحت حاصل ہو۔''جب عابد کا انتقال ہوگیا توحسبِ وصیت اس کی قبرپرمندرجہ بالااشعارلکھ دیئے گئے۔اس کاحاکم بھائی اپنے لشکرکے ساتھ دودن تک اس کی قبر پر آیا اور اشعار پڑھ کرروتارہا۔ تیسرے دن بھی کافی دیرتک روتارہا،جب واپس جانے لگاتواس نے قبرکے اندرسے ایک خوفناک دھماکے کی آواز سنی، قریب تھاکہ اس کادل پھٹ جاتا۔خوف کے مارے وہ سرپرپاؤں رکھ کر بھاگا اور گھر پہنچ کردَم لیا۔وہ بہت زیادہ غمگین وخوف زدہ تھا۔رات کوخواب میں اپنے بھائی کودیکھ کرپوچھا:''اے میرے بھا ئی !تمہاری قبرسے جو آوازمیں نے سنی وہ کس چیزکی تھی''؟کہا:''یہ جہنمی ہتھوڑے کی آوازتھی جومیری قبرمیں ماراگیااورمجھ سے کہاگیا: ''تونے ایک مظلوم کو دیکھا اور باوجودِ قدرت اس کی مددنہ کی،یہ اس کی سزاہے۔''یہ خواب دیکھ کراس نے وہ رات بڑی بے چینی میں گزاری۔ صبح اپنے تاجر بھائی اوردوسرے عزیزوں کو بلا کر کہا: ''اے میرے بھائی!ہمارے عابدبھائی نے اپنی قبر پر عبرت آموزاشعار لکھواکرہمیں بہت اچھی نصیحت کی، میں تم سب کوگواہ بنا کر کہتا ہوں کہ اب میں تمہارے درمیان نہیں رہوں گا۔ '' پھر اس نے اَمارت وحکومت چھوڑی اور پہاڑوں اورجنگلوں میں جاکرعبادت وریاضت میں مشغول ہوگیا۔جب خلیفہ عبدالمَلِک بن مَرْوَان کو اطلاع ملی تو اس نے کہا: ''اسے اس کی حالت پرچھوڑدو۔'' جب اس کی موت کاوقت قریب آیا تو چندچرواہوں کے ذریعے اس نے اپنے تاجر بھائی کو بلوا بھیجا۔ اس نے آکر کہا: ''اے میرے بھائی !آپ مجھے کوئی وصیت کیوں نہیں کرتے۔''اس نے کہا:''میرے پاس مال
ودولت نہیں جس کی وصیت کروں ، بس میں تو تم سے ایک عہد لینا چاہتا ہوں ۔ سنو!جب میں مرجاؤں تومجھے میرے عابد بھائی کے پہلو میں دفناکرمیری قبرپریہ اشعارلکھ دینا:
"؎ وَکَیْفَ یَلُذُّ الْعَیْشَ مَنْ کَانَ مُوْقِنًا بِاَنَّ الْمَنَایَا بَغْتَۃً سَتُعَاجِلُہُ
فَتَسْلُبُہُ مُلْکًا عَظِیْمًا وَنَخْوَۃً وَتُسْکِنُہُ الْبَیْتَ الَّذِیْ ہُوَ آہِلُہُ"
" یہ اشعارلکھنے کے بعدمسلسل تین دن تک میری قبر پرآنااورمیرے لئے دعاکرناشایداللہ عَزَّوَجَلَّ مجھ پررحم فرمائے اورمجھے بخش دے۔''یہ کہہ کراس کاانتقال ہوگیا۔تاجرحسبِ وصیت مسلسل دودن تک آیا۔جب تیسرے دن آیاتواس کی قبر کے پاس بیٹھ کر دعا کرتا رہا اور مسلسل روتا رہا۔جب واپس جانے کاارادہ کیاتواس نے قبرمیں دیوارکے گرنے کی آوازسنی ۔آوازاتنی خطر ناک تھی کہ عقل ضائع ہونے کاخطرہ تھا۔وہ خوف زدہ اورغمگین ہوکرگھرآگیا۔جب سویاتوخواب میں اپنے بھائی کودیکھ کر پوچھا: ''اے میرے بھائی! آپ ہمارے گھرکیوں نہیں آتے؟''اس نے کہا:''ہم ایسے مقامات پرہیں کہ کہیں جانے کوجی نہیں چا ہتا۔''تاجرنے کہا:''بھائی آپ کا کیا حال ہے؟''کہا:''توبہ کی برکت سے ہرخیروبھلائی نصیب ہوئی ہے ۔''میں نے کہا:''میر ے عابدبھائی کا کیا حال ہے؟'' کہا: ''وہ ابراروں (یعنی نیک لوگوں)کے ساتھ ہے۔''پوچھا:''آپ کی طرف سے ہمیں کیانصیحت وحکم ہے؟'' کہا: ''جوکوئی دنیامیں رہ کر آخرت کے لئے کچھ بھیجے گااسے وہاں ضرورپائے گا۔پس تُواپنے لئے آخرت کاذخیرہ اکٹھا کر اور موت سے پہلے کچھ اعمالِ صالحہ جمع کر لے۔''
تاجرنے صبح ہوتے ہی دنیاکوخیربادکہہ کرتمام مال تقسیم کردیااوراللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کے لئے کمر بستہ ہوگیا۔اس کاایک بیٹا تھا جو انتہائی حسین وجمیل اورسمجھ دارتھا۔اب اس نے تجارت شروع کر دی اورخوب مال دارہوگیا۔جب اس کے باپ کی وفات کا وقت قریب آیاتواس نے اپنے باپ سے کہا: ''اباجان! کیاوجہ ہے کہ آپ مجھے کوئی وصیت نہیں کررہے ؟ ' ' ا س نے کہا:''میرے بیٹے! خداعَزَّوَجَلَّ کی قسم!تیرے باپ کے پاس مال نہیں ہے جس کے متعلق تجھے وصیت کرے۔ہاں! میں تجھ سے ایک عہد لیتاہوں کہ جب میں مرجاؤں تومجھے اپنے دونوں چچاؤں کے ساتھ دفنانااورمیری قبرپریہ اشعارلکھ دینا:"
"؎ وَکَیْفَ یَلُذُّ الْعَیْشَ مَنْ کَانَ صَائِرًا اِلٰی جَدَثٍ تُبْلِی الشَّبَابَ مَنَاہلُہُ
وَیَذْہَبُ رَسْمُ الْوَجْہِ مِنْ بَعْدِ صَوْ تِہٖ سَرِیْعًا وَّیُبْلِیْ جسْمَہُ وَمُفَاصِلَہُ"
اورجب توتدفین سے فارغ ہوجائے توکم ازکم تین دن تک میری قبرپرآنااورمیرے لئے دعاکرنا۔ '' بیٹے نے حسبِ وصیت باپ کودونوں چچاؤں کے ساتھ دفن کیااورروزانہ زیارت کے لئے آنے لگا۔ تیسرے دن قبر سے ایک خطرناک آوازسنی توخوف زدہ وغمگین ہوکر گھر لو ٹ آیا۔ جب سویاتوخواب میں اس کا والدکہہ رہاتھا:''اے میرے بیٹے!تم ہمارے پاس بہت کم وقت
"کے لئے آئے۔ سنو! موت بہت قریب ہے اورآخرت کاسفربہت کٹھن ہے ،جلدی سے سفرِ آخرت کی تیاری کر لو اورزادِراہ تیارکر لو۔بس آخرت کی منزل کی طرف تمہارا کوچ ہونے والاہے ۔جلدہی تُم اس فانی دنیاکوچھوڑنے والے ہو،اس دھوکے بازدنیاسے اس طرح دھوکہ نہ کھانا جیسے تجھ سے پہلے لوگ بڑی بڑی اُمیدیں دل میں لئے یہاں سے چل بسے۔انہوں نے حشرکے معاملے کومعمولی جانا تو موت کے وقت شدید نادم ہوئے اورگزری ہوئی زندگی پرانہیں بہت افسوس ہوا۔جب موت منہ کو آ جا ئے تواس وقت کی ندامت کوئی فائدہ نہیں دیتی اوراس وقت کاافسوس قیامت کے نقصان سے ہرگزنہ بچائے گا۔اے میر ے بیٹے!جلدی کر،جلدی کر، جلدی کر! (موت کی تیاری کرلے)۔
راوی کہتے ہیں:''جوبوڑھا مجھے یہ واقعہ بیان کررہاتھااس نے سلسلۂ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا:اس نوجوان نے ہمیں اپنا خواب سنایااور کہا:''معاملہ بالکل ویساہی ہے جیسامیرے والدنے بیان کیا،میراغالب گمان ہے کہ موت نے مجھ پر اپنے پَر پھیلانا شروع کردیئے ہیں ۔ ' ' پھر اس نے اپناقرض اداکیا، کاروباری شریکوں سے معاملہ صا ف کیا،اپنے دوستوں اوراہلِ قرابت سے معافی مانگی، انہیں سلامتی کی دعادی ،ان سے اپنی سلامتی کی دعاکاوعدہ لیا،پھرسب کویوں''اَلْوَدَاع'' کہنے لگاجیسے کسی بہت بڑے حادثے سے دوچار ہونے والا ہو۔پھرکہا:''میرے و ا لدنے مجھ سے تین مرتبہ کہاتھا:''جلدی کر،جلدی کر،جلدی کر۔'' اگر اس سے مرادتین گھنٹے تھے تو وہ گزرگئے، اگرتین دن مرادہیں تومیں تین دن بعد ہرگزتمہارے پاس نہ رہ سکوں گا،اگر تین مہینے مرادہیں تو وہ بہت جلد گزر جائیں گے، اگر تین سال مراد ہیں تواگرچہ یہ ایک بڑی مدت لگتی ہے لیکن یہ بھی جلدگزرجائے گی ، خواہ مجھے پسندہویانہ ہو موت بالآخر ضرور آکر رہے گی۔وہ نو جو ا ن یہ کہتاجاتااوراپنامال و دولت تقسیم کرتاجاتا۔ جب تین دن مکمل ہوئے تو اس نے اپنے اہلِ خانہ کو اور انہوں نے اسے الوداع کہا۔پھر قبلہ رُخ لیٹ کر آنکھیں بندکیں،کلمۂ شہادت پڑ ھااور اس کی روح دارِ فانی سے دارِ عقبیٰ کی طرف پروازکرگئی۔ اس کی موت کی خبرسن کرکچھ ہی دیرمیں مختلف علاقوں سے لوگ جمع ہوگئے۔اورآج تک لو گو ں کایہ معمول ہے کہ وہ مختلف شہروں اورعلاقوں سے آآکراس کی قبرکی زیارت کرتے اوراسے سلام کرتے ہیں۔ ''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
حضرتِ سیِّدُنا عباس بن محمدبن عبدالرحمن اَشْہَلِی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں: مجھے میرے والدنے حضرتِ ابنِ نُمَیْر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے حوالے سے بتایا کہ ''میرے بھانجے نُمَیْر کا شمار کوفہ کے زاہدوں میں ہوتا تھا ، وہ نماز و طہارت کاخوب خیال رکھنے والا حسین وجمیل نوجوان تھا۔کچھ عرصہ بعد کسی عارضہ کی وجہ سے اس کی عقل جاتی رہی اور حالت یہ ہوگئی کہ سخت گرمیوں میں زوال کے وقت بھی سائے میں نہ بیٹھتابلکہ کھلے میدان اور صحراء میں سارا سارا د ن گزاردیتا۔سخت سردی ہو یاتیزوتندآندھی وہ ہر موسِم میں رات اپنے مکان کی چھت پر کھڑے کھڑے گزارتا،روزانہ اس کایہی معمول تھا۔ایک دن صبح صبح چھت سے اُترکرقبرستان کی طرف جانے لگا تومیں نے کہا: ''اے نُمَیْر! کیاتم رات کوسوتے نہیں ہو؟ ' ' کہا : ' 'جی ہاں۔''میں نے کہا:''کس چیزنے تمہیں سونے سے منع کر رکھا ہے؟'' کہا:''ایک بہت بڑی مصیبت نے میری نینداُڑا رکھی ہے ۔''میں نے کہا:''اے نُمَیْر!کیاتم اللہ عَزَّوَجَلَّ سے نہیں ڈرتے؟'' کہا: ''کیوں نہیں!میں اپنے خالق ومالک عَزَّوَجَلَّ سے ڈرتاہوں اورمصیبتیں توانسان پرآتی ہی ہیں ۔کیا حضور نبئ پاک، صاحب ِ لولاک، سیَّاحِ افلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد نہیں فرمایا کہ ''سب سے زیادہ آزمائشیں انبیاء کرام علیہم السلام پر آتی ہیں پھر ترتیب وار صاحب مرتبہ لوگوں پر آتی ہیں۔''
(السنن الکبرٰی للنسائی، کتاب الطب،أی الناس أشد بلاء، الحدیث۷۴۸۲،ج۴،ص۳۵۲)
" یہ سن کرمیں نے کہا:''کیاتم مجھ سے زیادہ جانتے ہو؟'' اس نے نفی میں جواب دیااور آگے بڑھ گیا۔پھرایک سخت سرد رات جب میں چھت پرگیاتودیکھاکہ نُمَیْروہاں کھڑاہے اورمیری بہن( یعنی اس کی ماں ) اس کے پیچھے بیٹھی رورہی ہے۔میں نے پوچھا: ''اے نُمَیْر!کیااب بھی ایسی کوئی چیزباقی ہے جس کی تمہیں بہت زیادہ خواہش ہواورتم اس میں کامل نہ ہوئے ہو؟'' کہا: ''جی ہاں! میں اللہ ورسول عَزَّوَجَلَّ وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی کامل محبت کا بہت زیادہ طلب گارہو ں ۔''
ایک مرتبہ رمضان المُبَارَک کی سخت سردرات میں مَیں چھت پرگیاتو نُمَیْرسے کہا:''اے ابو نُمَیْر!کیاتم کھانانہیں کھاؤ گے۔''کہا:''کیوں ۔'' میں نے کہا: '' مجھے پسندہے کہ میری بہن تجھے میرے ساتھ کھاناکھاتے ہوئے دیکھے۔'' کہا: ''اچھا! اگر یہی چاہتے ہوتو کھانالے آؤ۔''میں نے کھانامنگوایااور ایک ساتھ کھایا۔ فراغت کے بعدجب میں واپس آنے لگاتویہ سوچ کر مجھے رونا آ گیا کہ میں توجارہاہوں اور میرابھانجاسردی اوراندھیرے میں ہے۔ مجھے روتادیکھ کراس نے کہا:''اللہ تعالیٰ تم پررحم کرے، کیوں رو رہے ہو؟''میں نے کہا:'' میں تومکان کی چھت تلے روشنی میں جا رہا ہوں اورتم یہاں اندھیرے اورسردی میں ہو،مجھے تم پربہت ترس آ رہا ہے۔''یہ سن کروہ غضب ناک ہوگیااورکہا:''میرارب عَزَّوَجَلَّ مجھ پر تجھ سے کہیں زیادہ مہربان ہے،وہ خوب جانتاہے کہ میرے لئے کون سی چیزفائدہ مند ہے۔جاؤ! مجھے اس کے ذمۂ کرم پرچھوڑدو، وہ جیسا چاہے میرے بارے میں فیصلہ فرمائے، مجھے"
"اس کے فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں۔ ' ' میں نے اسے سمجھانے کے لئے کہا: ''تم قبرکے اندھیرے میں کیا کرو گے ۔''
کہا:''اللہ ربُّ العِزَّت نیک لوگوں کی روحوں کوبرے لوگوں کی روحوں کے ساتھ نہ ملائے گا۔ میری بات سنو! آج رات میرے والداورتمہارے والدعبداللہ بن نُمَیْرمیرے خواب میں آئے اور کہا:'' اے نُمَیْر! جمعہ کے دن تم شہیدہوکرہمارے پاس پہنچ جاؤ گے۔''نُمَیْرکی یہ بات میں نے اپنی بہن کو بتا ئی تواس نے کہا:''اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم!بارہا میرا تجربہ ہے کہ اس کی بات کبھی جھوٹی نہیں ہوئی،یہ جوبات کہتاہے وہ ضرورہوکررہتی ہے۔'' یہ سن کرمیں خاموش ہوگیا۔وہ بدھ کادن تھااورہم متعجب وحیران ہوکرکہہ رہے تھے کہ کل جمعرات ہے اورپَرسوں جمعہ ہے با لفر ض یہ کل بیمارہوبھی گیا اورپرسوں مرگیاتو شہیدکیسے ہو گا؟ اسی شش وپنج (یعنی سوچ بچار)میں جمعہ کی رات آگئی۔ تقریباًآدھی رات کے وقت اچا نک ہم نے ایک دھماکے کی آوازسنی ،ہم دوڑکرگئے تودیکھاکہ نُمَیْرفرش پرمردہ حالت میں پڑا ہوا ہے۔ ہوایوں کہ جب وہ چھت پر جانے کے لئے سیڑھیاں چڑھنے لگاتواس کاپاؤں پھسل گیااورگردن ٹوٹ گئی (اوراس طر ح اسے شہادت کی موت نصیب ہو گئی ) میں اسے اپنے والدکے پہلومیں دفنا کر والد صاحب کی قبرکے پاس آیااورکہا:''ابا جان!نُمَیْرآپ کے پاس آ گیاہے اوریہ آج سے آپ کا پڑوسی ہے ۔''
یہ کہہ کرمیں غمزدہ وافسردہ گھرآگیا۔رات کوخواب دیکھاکہ والدِ محترم گھرکے دروازے سے تشریف لائے اور فرمایا: ''اے میرے بیٹے !تم نے نُمَیْرکے ذریعے مجھے اُنس فراہم کیا۔اللہ تعالیٰ تمہیں اس کی اچھی جزا عطا فر ما ئے ۔ سنو!جب تم نُمَیْرکوہمارے پاس چھوڑآئے تواس کانکاح'' حورِ عین'' سے کردیاگیا۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
حضرتِ سیِّدُناحسن بن عبداللہ قُرَشِی علیہ رحمۃ اللہ القوی ایک انصاری سے روایت کرتے ہیں: ''ایک مرتبہ حضرتِ سیِّدُناداؤد علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃوالسلام عابدوں کی تلاش میں نکلے،پہاڑکی چوٹی پرایک راہب کے پاس پہنچ کربآوازِبلنداسے مخاطب کیا،لیکن اس کی طرف سے کوئی جواب نہ ملا۔جب کئی مرتبہ آپ علیہ السلام نے بآوازِ بلندپکاراتوآوازآئی :'' کون ہے جومجھے پکار رہا ہے ؟ '' فرمایا: ''میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کانبی داؤدہوں۔''آوازآئی :''اچھاآپ علیہ السلام ہی وہ ہیں جن کے بلند وبالاقلعے اور نشان زدہ گھوڑے ہیں۔'' آپ علیہ السلام نے فرمایا:''تم کون ہو؟'' کہا:''میں دنیاکو ترک کرنے والاہوں۔'' فرمایا:
"'' یہاں پرتمہارا انیس ورفیق کون ہے؟'' کہا:''حضور!آپ علیہ السلام خود ملاحظہ فرمالیں۔'' آپ علیہ السلام اس کے پاس گئے تودیکھاکہ وہ ایک کفن دیئے ہوئے مردے کے پاس موجود ہے۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا:''کیایہ تمہارا مونِس ہے ؟''کہا: ''ہاں!یہی میرا مونِس ومددگار ہے۔'' فرمایا: ''یہ کون ہے؟''کہا: '' اس کے سرہانے ایک تانبے کی تختی ہے جس پراس کے بارے میں تفصیل لکھی ہوئی ہے۔'' آپ علیہ السلام نے تختی اٹھا کردیکھی تواس پریہ عبارت درج تھی:
''میں فلاں بن فلاں بادشاہ ہوں،میں نے ہزارسال عمرپائی،ہزارشہرآبادکئے ،ایک ہزارلشکروں کوشکست دی، ہزا ر عورتوں سے شادی کی،میرے پاس ہزارکنواری لونڈیاں تھیں، میں اپنی سلطنت اور زندگی کی عیش وعشرت میں مشغول تھاکہ ملک الموت علیہ السلام تشریف لے آئے اورمجھے نعمتوں سے نکال کریہاں پہنچادیاگیا۔ اب خاک میرابستراورکیڑے مکو ڑے میرے پڑوسی ہيں۔''
یہ تختی پڑھ کر آپ علیہ السلام بے ہوش ہوکرزمین پرتشریف لے آ ئے۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
حضرتِ سیِّدُنااَزْہَربن عبداللہ بَلْخِی علیہ رحمۃ اللہ القوی سے منقول ہے:ایک مرتبہ جب حضرتِ سیِّدُناحاتمِ اَصَم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم حضرتِ سیِّدُناعِصَام بن یوسف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس تشریف لے گئے۔ انہوں نے پوچھا:''اے حاتمِ اَصَم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم! کیا آپ اچھی طرح نماز پڑھتے ہیں؟''فرمایا: ''جی ہاں۔'' پوچھا: ''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے یوں نماز پڑھنا کس سے سیکھا؟'' فرمایا: ''حضرتِ سیِّدُناشَقِیْق بن ابراہیم علیہ رحمۃ اللہ القدیم سے۔'' انہوں نے عرض کی : ''اپنی نماز کا انداز تو بتا دیجئے۔ '' فرمایا:''جب نماز کاوقت قریب آتاہے تونہایت عمدگی سے وضوکرتاہوں، پھر نماز پڑھنے کی جگہ پر پہنچ جاتاہوں اورمیرے جسم کا ہرعضو نماز کے لئے تیار ہو جاتا ہے ،پھرمیں خیال کرتا ہوں کہ'' کَعْبَۃُ اللہ شریف'' میرے بالکل سامنے ہے ، میں میدانِ محشرمیں خالقِ کائنات عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں حاضرہونے والاہوں۔میرے قدم پل صراط پرہیں۔جنت میری دا ئیں طرف اوردوزخ بائیں جانب ہے۔ ملک الموت علیہ السلام میرے پیچھے ہیں۔اورمیں گمان کرتاہوں کہ بس یہ میری زندگی کی آخری نماز ہے۔پھر تکبیرکہہ کربڑے غور وفکر کے ساتھ قراء َت کرتا ہوں۔ نہایت تواضع سے رکوع کرتا اوربڑے خشوع و خضوع کے ساتھ گڑ گڑاتے
"ہوئے سجدہ ریز ہوتا ہوں، بڑی امیدکے ساتھ تشہد پڑھتا ہوا اخلاص کے ساتھ سنت کے مطابق سلام پھیر دیتا ہوں ۔ اور میں یہ نمازاس حالت میں اداکرتاہوں کہ میراکھانا اورلباس بالکل حلال مال سے ہوتاہے ۔ میں خوف وامیدکے درمیان ہوتاہوں،میں نہیں جانتاکہ میری یہ نمازقبول کرلی جائے گی یا ردکردی جائے گی۔''
یہ سن کرحضرتِ سیِّدُنا عِصَام بن یوسف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کہا: ''اے حاتمِ اَصَم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم! آپ کب سے اس طرح نماز پڑھ رہے ہیں؟''فرمایا:''تقریباًتیس(30) سال سے ایسی ہی نمازپڑھ رہاہوں۔'' یہ سن کرحضرتِ سیِّدُنا عِصَام بن یوسف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کوگلے لگا لیااوراتناروئے کہ چادر مُبَارَک آ نسو ؤ ں سے بِھیگ گئی۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" احمد بن صَبَّاح طَبَرِی کابیان ہے کہ مجھے میرے والدنے بتایا: ''خلیفہ ہارُون الرشیدعلیہ رحمۃاللہ المجیدجب خُرَاسَان کی طرف جانے لگے تومیں انہیں الوداع کہنے گیا۔ خلیفہ نے مجھ سے کہا: ''اے صباح! میرا گمان ہے کہ اس کے بعدتم مجھے کبھی نہ دیکھ سکوگے ۔'' میں نے کہا:''اے امیرالمؤمنین!اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کواپنی پناہ میں رکھے!یہ آپ کیاکہہ رہے ہیں؟''بخدا!مجھے اُمیدہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کوامتِ محمدیہ عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی خیرخواہی کے لئے لمبی عمرعطافرمائے گا۔''خلیفہ نے مسکراتے ہوئے کہا: ''اے صباح! بخدا!میں مرنے کے بہت قریب ہوں۔''میں نے کہا:''اے امیرالمؤمنین!اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر فدا کردے ، ابھی تو آپ کاجسم طاقتور ومضبوط اور چہرہ صحیح و سالم ہے۔اللہ تعالیٰ آپ کوان بادشاہوں سے بھی لمبی عمرعطافرمائے جوزمانۂ درازتک دنیاپرحکومت کرگئے اورآپ کوایسی کامیابی وکامرانی عطا فرمائے جیسی حضرتِ سیِّدُنا ذُوالْقَرنَیْن علیہ رحمۃرَبِّ الکونین کوعطافرمائی تھی۔ اللہ کرے آپ کبھی اپنی رعایامیں کوئی بہت بڑی خرابی نہ دیکھیں۔''
یہ سن کرخلیفہ نے اپنے پیچھے آنے والے امراء ووزراء کوایک طرف جانے کاحکم دیا،پھرراستے سے ہٹ کرایک در خت کے پاس آئے اور فرمایا:''آج میں ایک رازتجھ پرظاہرکرناچاہتاہوں،یہ رازتمہارے پاس امانت ہے، اسے چھپا ئے رکھنا۔''میں نے کہا: ''اے میرے سردار!آپ اپنے بھائی سے مخاطب ہیں، جوچاہیں ارشادفرمائیں۔''خلیفہ نے اپنے شِکَم (یعنی پیٹ) سے کپڑا ہٹایا تواس پر زخموں کے نشانات تھے، جن پرپٹی بندھی ہوئی تھی،پھر مجھے کہا: ''کیاتم جانتے ہوکہ مجھے یہ مرض کب سے ہے ؟''میں نے کہا: ''نہیں۔''"
" کہا: ''مجھے یہ بیماری کافی عرصہ سے ہے، جسے میں نے تمام لوگوں سے چھپائے رکھاسوائے بَخْتَیَشُوْع، مسرور اور رَجَاء کے ۔ بہرحال بَخْتَیَشُوْع میرے بیٹے مامون کا مخبرہے، اس سے رازکا چھپنا ممکن نہیں۔ اسی طرح مسرورنے میری بیماری کی خبر میرے بیٹے امین کو دے دی ہے اوران میں سے کوئی ایسانہیں جس کامخبروجاسوس مجھ پرمتعین نہ ہو۔ میرے عزیزبیٹوں کی یہ حالت ہے کہ وہ میرے سانسوں کوشمارکررہے ہیں کہ دیکھو یہ کب انتقال کرتاہے۔ان لوگوں کی خواہش ہے کہ میری بیماری میں اضافہ ہو،مجھے اس بات کا اندازہ اس طرح ہواہے کہ جب بھی میں نے ان سے تواناوقوی ہیکل اورمضبوط عجمی گھوڑاطلب کیاتوانہوں نے مجھے ضعیف وناتواں گھوڑا دیاتاکہ بیماری مزید بڑ ھے ۔مجھے سب کچھ معلوم ہے لیکن میں اپنارازان کے سامنے ظاہرنہیں کرناچاہتاکیونکہ اس طرح وہ مجھ سے وحشت محسوس کر نے لگیں گے۔اورجب وحشت ہوگی توان کے سینوں میں چُھپی عداوت ظاہرہوجائے گی۔خاص لوگ ان کی طرف مائل ہوجائیں گے ا ورعام لوگ ان سے امید لگا لیں گے ۔اورمیں ان کے درمیان ایساہی ہوں گاجیسے کوئی شخص دشمنوں کے درمیان خوفزدہ ہوتا ہے۔ میری صبح اس حال میں ہوتی ہے کہ مجھے شام تک زندہ رہنے کی امیدنہیں رہتی اورشام کو صبح کی اُمید نہیں ہوتی۔''
خلیفہ کی حسرت بھری پُر درد کیفیت وحقیقت جان کرمیں نے کہا:''حضور!ان کی اس حرکت کابہترین جواب دیاجا سکتا ہے لیکن میں تویہی کہتاہوں کہ جوشخص آپ کے ساتھ مکروفریب کریگااللہ تعالیٰ اسے اسی کے مکروفریب میں پھنسادے گا۔'' خلیفہ نے کہا: ''تیری یہ پکاراللہ عَزَّوَجَلَّ سن رہا ہے۔اب تُوواپس پلٹ جا،تیرے ذمہ بغداد میں اور بھی بہت سے کام ہیں ۔'' پس میں نے خلیفہ کوالوداع کہا اور واپس لوٹ آیا۔یہ واقعہ ان کی وفات کے قریب کاہے۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
حضرتِ سیِّدُنا ابوجَعْفَررحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کابیان ہے: حضرتِ سیِّدُنالُقْمَان حکیم علیہ رحمۃ اللہ الکریم ایک شخص کے غلام تھے۔وہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو بیچنے کے لئے بازارلایا۔ جب بھی کوئی شخص آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کوخریدنے کے لئے آتاتوآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس سے پوچھتے: '' تم مجھے کس کام کے لئے خریدناچاہتے ہو۔''ہرکوئی اپنامقصد بیان کرتا،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہرایک سے کہتے، ''تم مجھے نہ خریدوتوبہترہے۔'' یہ سن کرلوگ واپس چلے جاتے، اسی طرح ایک شخص آپ کو خریدنے کے لئے آیا تو آپ نے پوچھا: ''مجھ سے کیا کام لوگے؟''اس نے کہا:''میں تمہیں اپنے گھرکاچوکیداربناؤں گا۔''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کہا:''ٹھیک ہے، مجھے
"خرید لو ۔ '' چنانچہ، وہ آپ کوخرید کرگھرلے گیا۔بستی سے کچھ دور جب وہ اپنی زرعی زمین کی طرف جاتاتواس کی جوان بیٹیاں حرام کاری کے لئے چلی جاتیں۔ان کی نگہبانی کے لئے ہی حضرتِ سیِّدُنالقمان حکیم علیہ رحمۃ اللہ الکریم کوخریداگیا تھا۔آج جاتے وقت اس نے دروازہ بندکیا،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کوباہربٹھایااورکہا:''گھرمیں میری بیٹیاں موجودہیں، مَیں نے ضرورت کی تمام اشیاء انہیں مہیاکردی ہیں،اگروہ دروازہ کھولنے کوکہیں توہرگز نہ کھولنا۔''
یہ کہہ کروہ چلاگیااورآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نگہبا نی کرنے لگے۔ کچھ دیربعد لڑکیوں نے دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے کہا:''جلدی سے دروازہ کھولو۔''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے انکارکردیا۔انہوں نے بہت اصرارکیالیکن آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے دروازہ نہ کھولا۔ بالآخر لڑکیوں نے پتھرمارکرآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کوزخمی کردیا،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے سرسے خون بہنے لگا۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے جسم اور فرش سے خون دھوکرصاف کردیااورشام تک دروازے پربیٹھے رہے ۔ جب مالک آیاتوآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اسے کچھ نہ بتایا۔ دوسرے دن لڑکیوں نے پھردروازہ کھلواناچاہالیکن آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے انکارکردیا۔انہوں نے دوبارہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کوزخمی کر دیا، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جسم اورفرش سے خون دھوڈالااورشام تک دروازے پربیٹھے رہے۔جب مالک آیاتواسے کوئی بات نہ بتائی۔
تیسرے دن سب سے بڑی لڑکی نے کہا: ''خداعَزَّوَجَلَّ کی قسم !اس حبشی غلام کی کیاشان ہے کہ یہ مجھ سے بہت زیادہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا اطاعت گزارہے۔اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم !اب میں ضرورتوبہ کروں گی ۔''یہ کہہ کر اس نے اپنے تمام گناہوں سے توبہ کر لی۔ پھرسب سے چھوٹی نے کہا:''میری بہن اوراس حبشی غلام کی کیاشان ہے کہ یہ دونوں مجھ سے بہت زیادہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت کرنے والے ہیں،پھر میں توبہ کیوں نہ کروں؟''یہ کہہ کراس نے بھی اپنے تمام گناہوں سے توبہ کرلی۔یہ دیکھ کر تیسری نے کہا: ''میری دونوں بہنوں اوراس حبشی غلام کی کیاشان ہے کہ وہ مجھ سے بہت زیادہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے اطاعت گزار ہیں۔ بس آج سے میں اپنے گناہوں سے سچی توبہ کرتی ہوں۔''یہ کہہ کروہ بھی تمام گناہوں سے تائب ہوگئی ۔جب یہ خبربستی کی دوسری فاحشہ عورتوں تک پہنچی تو انہوں نے کہا:''فلاں بن فلاں کی تینوں بیٹیوں اوران کے حبشی غلام کی کیاشان ہے کہ وہ ہماری نسبت اللہ عَزَّوَجَلَّ کے زیادہ اطاعت گزارہیں،پھرہم بھی توبہ کیوں نہ کریں؟''یہ کہہ کران سب نے بھی اپنے سابقہ تمام گناہوں سے توبہ کرلی اور عبادت وریاضت میں اعلیٰ مقام حاصل کیا۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اس حکایت سے ثابت ہواکہ نیک لوگوں کی صحبت اوران کاقرب انسان کونیک بنانے میں معاون ثابت ہوتاہے۔اچھوں کے اعمالِ صالحہ کانوربُروں کی برائی کی ظلمت کودورکردیتاہے۔ ہمیں چاہے کہ نیک لوگوں کی"
"صحبت اختیار کریں ،نیک لوگوں کے اجتماع میں جائیں تاکہ ہماری خالی جھولیاں خوفِ خداوعشقِ مصطفی عَزَّوَجَلَّ وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی دولتِ عُظمٰی سے بھر جائیں۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ! آج کے اِ س پُر فتن دور میں تبلیغِ قرآن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی ہمیں ایسا پاکیزہ ماحول فراہم کرتی ہے کہ جس میں رہ کر نیکیاں کرنا آسان ہوجا تاہے، گناہوں سے نفرت اور نیکیوں سے محبت ہونے لگتی ہے، آپ بھی اپنے اپنے شہروں میں ہونے والے دعوت اسلامی کے ہفتہ وارسنتو ں بھرے اجتماع میں پابندیئ وقت کے ساتھ شرکت فرما کر خوب خوب سنتوں کی بہاریں لُوٹئے۔ دعوت اسلامی کے سنتوں کی تربیت کے بے شمار مدنی قافلے شہر بہ شہر،گاؤں بہ گاؤں سفر کرتے رہتے ہیں،آپ بھی سنتوں بھرا سفر اختیار فرما کراپنی آخرت کے لئے نیکیوں کا ذخیرہ اکٹھا کریں۔ دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے ''مکتبۃ المدینہ'' سے مدنی انعامات نامی رسالہ حاصل کر کے اس کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کیجئے۔اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ اپنی زندگی میں حیرت انگیزانقلاب برپا ہوتا دیکھیں گے۔ )
؎ اللہ کرم ایسا کرے تجھ پہ جہاں میں اے دعوتِ اسلامی تیری دھوم مچی ہو (آمین)!
( آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُنا جُمَیْع بن عُمَیْرتَیْمِی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:میں نے حضرتِ سیِّدُناعبداللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہما کو ارشاد فرماتے سنا:''ایک مرتبہ مالِ غنیمت سے چالیس (40)ہزاردرہم میرے حصے میں آئے، میں نے سامان خریدا اور مدینۂ منورہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًامیں اپنے والد ِ محترم ،خلیفۂ ثانی، امیرالمؤمنین حضرتِ سیِّدُناعمربن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خد مت میں حاضرہوا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سامان دیکھ کرپوچھا: ''یہ کیاہے؟''میں نے عرض کی:''مجھے مالِ غنیمت سے چالیس ہزار درہم ملے یہ سامان اسی رقم سے خریدا ہے ۔'' فرمایا: ''اے میرے بیٹے! اگرمجھے آگ کی طرف لے جایاجائے توکیاتم یہ سامان فدیہ میں دے کرمجھے بچا لو گے؟'' میں نے کہا:''کیوں نہیں!بلکہ میں اپنا سب کچھ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر قربان کر دوں گا۔''آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:''میرے بیٹے !بے شک میں جھگڑے میں پھنساہواہوں، لوگوں نے یہ سمجھ کرکہ یہ رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی اورامیرالمؤمنین کے لاڈلے بیٹے ہیں، تمہیں سستے داموں سامان بیچ دیاہواورہوسکتاہے ایک درہم نفع لینابھی پسند نہ کیاہو۔میرے بیٹے سنو! عنقریب میں تمہیں ایسانفع دوں گاکہ کسی قریشی مرد سے ایسانفع نہ ملا ہوگا۔''
یہ کہہ کرآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرتِ سیِّدَتُناصَفِیَّہ بنتِ عبیدرضی اللہ تعالیٰ عنہاکے پاس آئے اورکہا:''اے ابوعبیدکی بیٹی !میں"
"تجھے قسم دیتا ہوں کہ تم اپنے گھرسے کوئی چیزنہ نکالوگی۔''انہوں نے عرض کی :''اے امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ !آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بالکل بے فکر رہیں، میں وہی کروں گی جوآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمائیں گے۔''حضرتِ سیِّدُناعبداللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہما فرما تے ہیں: ''چنددن آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس معاملہ کوچھوڑے رکھا۔پھرتاجروں کوبلایاتوانہوں نے چارلاکھ4,00,000))درہم میں وہ سامان خرید لیا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اَسّی ہزار(80,000) درہم مجھے دیئے اوربقیہ تین لاکھ بیس ہزار ( 3,20,000 ) درہم حضرتِ سیِّدُناسَعْدرضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف بھجوائے اورپیغام دیاکہ یہ مال ان لوگوں میں تقسیم کردیا جائے جوجہادمیں شریک ہوئے ، اگر ا ن میں سے کوئی فوت ہوگیا ہو تو اس کے وُرَثاء میں تقسیم کردیاجائے ۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
حضرتِ سیِّدُناابوعبیدہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے منقول ہے: ''بصرہ کاایک شخص اپنے انتہائی گہرے دوست اورسگے بھائی کے ساتھ کہیں سفرپرجانے لگاتواس کاپالتوکتابھی پیچھے پیچھے چل پڑا۔اس نے کتے کوبھگایالیکن وہ ساتھ ساتھ چلتارہا،اس نے غُصّے میں آکر پتھر مارا، کتا زخمی ہو گیا مگر ساتھ نہ چھوڑا ۔ پھرجب وہ شخص ایک بستی کے قریب سے گزرا تو دُشمنوں نے اسے پکڑلیا۔ یہ دیکھ کراس کا دوست اور بھائی اسے دشمنوں کے پاس ہی چھوڑکر بھاگ گئے۔ انہوں نے اسے خوب مارااور زخمی کر کے ایک کنوئیں میں ڈال کر اوپر سے مِٹی برابر کردی۔کتاان پرمسلسل بھونکتارہا،انہوں نے کتے کوبھی زخمی کیا اور واپس چلے گئے ۔ کتے نے کنوئیں کے پاس آ کر اپنے پنجوں سے مٹی ہٹاناشروع کر دی ۔بالآخرمسلسل جدوجہد کے بعداس شخص کاسرظاہرہوا،اس میں ابھی زندگی کے آثارباقی تھے۔ کتا اس کے منہ تک مٹی صاف کرچکاتھا اتنے میں وہاں سے ایک قافلہ گزراجب انہوں نے کتے کو دیکھا تو سمجھے کہ شایدیہ قبر کھود رہا ہے۔ مگر جب قریب آئے توحقیقتِ حال جان کربہت حیران ہوئے۔ اس شخص کودیکھا توزندگی کے آثار باقی تھے۔انہوں نے اسے فوراًنکال کراس کے گھرپہنچا دیا۔جس کنوئیں میں اسے ڈالاگیاتھا اب وہ کنواں ''بِئْرُ الْکَلْب''کے نام سے مشہورہے۔ کسی شاعرنے اس واقعہ کواپنے شعرمیں اس طرح بیان کیا:
"؎ یُعَرِّجُ عَنْہُ جَارُہُ وَشَقِیْقُہ، وَیَنْبُشُ عَنْہُ کَلْبُہ، وَہُوَ ضَارِبُہ،"
ترجمہ:اس کاسگابھائی اورپڑوسی اسے چھوڑجاتے ہیں جبکہ اس کاکتااسے زمین کھودکرنکالتاہے حالانکہ وہ (کتے کو )مارنے والا ہے۔
" حضرتِ سیِّدُنامحمد بن خَلَّادعلیہ رحمۃ اللہ الجواد سے منقول ہے:ایک شخص کسی بادشاہ سے ملنے جارہا تھا کہ راستے میں اسے ایک قبر نظر آئی جس پر قُبَّہ بنا ہوا تھا۔ وہ قریب گیاتوایک تختی پر یہ عبارت لکھی ہوئی تھی: '' یہ ایک کتے کی قبر ہے جسے یہ پسند ہو کہ اس قبر کے متعلق جانے تو اسے چاہے کہ فلاں بستی میں چلاجائے وہاں اسے خبر دینے والا کوئی نہ کوئی مل جائے گا۔''
یہ تحریر پڑھ کر وہ مطلوبہ بستی میں گیا تولوگوں نے اسے ایک گھر کا پتا بتایا۔جب وہ بتائے ہوئے مکان پر پہنچا تو وہاں سو سال سے بھی زائد عمر کا ایک بوڑھاملا۔ آنے کا مقصد بتایا تو بوڑھے نے کہا:''ہاں! میں تجھے اس قبر کے متعلق بتاتا ہوں غور سے سن! ہمارے اس علاقے میں ایک عظیم الشان بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ اسے سیر وسیاحت اور شکار کا بہت شوق تھا،ا س کا پالتو کتا ہروقت ا س کے ساتھ رہتا۔ بادشاہ صبح وشام اپنے کھانے میں سے اسے کھانا کھلاتا۔ایک مرتبہ بادشاہ نے اپنے غلام سے کہا : ''باورچی سے کہو کہ ہم شکار کے لئے جارہے ہیں ہمارے لئے دودھ میں روٹیاں ڈال کر بہترین ثَرِید تیار کر رکھے ہم واپسی پر وہی ثرید کھائیں گے۔'' یہ کہہ کر وہ شکار کے لئے چلا گیا۔ باورچی نے ثرید تیار کیا اوراس کو کسی چیز سے ڈھانپے بغیر دوسرے کاموں میں مصروف ہوگیا۔ اچانک کہیں سے ایک خطرناک اژدھا آیا، اس نے برتن میں منہ ڈال کر دودھ پیا اور اپنے منہ کا زہر اس میں اُگل دیا ۔کتے اور گونگی کنیز نے یہ منظر دیکھ لیا۔اورباقی کسی کو اس واقعہ کا علم نہ ہوا۔ بادشاہ نے واپسی پر کھانا طلب کیا تو باورچی نے وہی زہر ملا ثرید سامنے رکھ دیا۔ گونگی کنیز نے اشاروں سے سمجھانے کی کوشش کی کہ ا س کھانے میں خطرناک اژدھے کا زہر شامل ہے، لیکن کوئی بھی اس کی بات نہ سمجھ سکا ۔کتا بھونک بھونک کر سمجھا نے کی کوشش کر رہا تھا لیکن کوئی نہ سمجھا۔ بادشاہ نے کتے کے سامنے روٹی ڈالی لیکن اس نے روٹی کو منہ تک نہ لگایا بلکہ مسلسل بھونکتا ہی رہا۔یہ دیکھ کربادشاہ نے کہا:''نہ جانے اسے کیا مسئلہ ہے، اسے اپنے حال پر چھوڑ دو ۔''پھرجیسے ہی بادشاہ نے کھانے کی طرف ہا تھ بڑھایا، کتے نے ایک لمبی چھلانگ لگائی اور وہی زہر مِلا کھانا کھانے لگا، کچھ ہی دیر میں اس نے تڑپ تڑپ جان دے دی ۔ اب گونگی کنیز نے اشاروں سے بتایا تو سب لوگ سمجھ گئے کہ اس دودھ میں اژدھے کا زہر شامل ہوگیاتھا اگر بادشاہ اسے کھا لیتا تو فوراً مر جاتا۔ کتے نے اپنے مالک کو بچانے کے لئے اپنی جان دے دی تھی ۔ با دشاہ اور وہاں پر موجود تمام لوگ کتے کی وفادار ی پر بہت حیران ہوئے۔ بادشاہ نے اپنے وزیروں، مُشِیروں کو مخاطب کرکے کہا:''دیکھو! اس بے زبان جانورنے مجھ پر اپنی جان قربان کردی ۔اب یہ ہماری طرف سے اچھی جزاء کا مستحق ہے، اسے کوئی بھی ہاتھ نہ لگائے، میں خود اسے اٹھاؤں گا اور اپنے ہاتھوں سے دفن کروں گا۔'' چنانچہ، بادشاہ"
نے اس وفادار کتے کے لئے ایک قبر کھدوائی اور اپنے ہاتھوں سے دفن کرکے اس کی قبر پر قُبَّہ بنادیا جسے تم دیکھ کر آرہے ہو۔ بوڑھے کی زبانی وفادار کتے کی کہانی سن کر وہ شخص بہت حیران ہو ا۔
حضرتِ سیِّدُنا محمد بن حسین بن رَاشد علیہ رحمۃاللہ الواحد سے منقول ہے: '' ایک شخص اپنے کتے کی بہت زیادہ دیکھ بھال کیا کرتا، سردیوں میں اسے عمدہ چادر میں چھپاتا اور بہترین اشیاء کھلاتا ۔میں نے اس سے پوچھا:'' تم اس کتے کی اتنی دیکھ بھال کیوں کرتے ہو؟'' کہا:'' میرے اس کتے نے مجھے بہت بڑی مصیبت سے نجات دلوائی ہے۔ سنو! میرا ایک انتہائی گہرادوست تھا، ہم نے کافی عرصہ تک ایک ساتھ تجارت کی۔ ایک مرتبہ جہادسے واپسی پر میرے پاس بہت زیادہ مالِ غنیمت اور بہت ہی قیمتی سامان تھا۔راستے میں اس بے وفا دوست نے مجھے رسیوں سے باندھ کر ایک وادی میں پھینک دیا اور میرا سار امال لے کر فرار ہو گیا۔ میرا یہ کتا بھی میرے ساتھ تھا یہ اس وادی میں میرے ساتھ ہی بیٹھا رہا۔ پھر کہیں چلاگیاجب واپس آیا تو اس کے پاس ایک روٹی تھی، اس نے وہ روٹی میر ے سامنے رکھ دی ۔میں روٹی کھاکر اور گڑھے سے پانی پی کروہیں پڑارہا ۔ کتا بھی ساری رات میرے قریب ہی بیٹھا رہا۔ صبح بیدار ہو ا تو کتانظر نہ آیا، ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ وہ میرے لئے روٹی لے آیا۔ تیسرے دن بھی وہ اسی طرح روٹی لایااورمیری طرف پھینک دی، جیسے ہی میں نے روٹی کھانے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو میرے پیچھے میرا بیٹا موجود تھا۔ وہ مجھے اس حالت میں دیکھ کر رُو رہا تھا، اس نے روتے ہوئے میر ی رسیاں کھولیں اور حقیقتِ حال دریافت کی۔ میں نے سارا واقعہ بتایا اور پوچھا: '' تجھے کیسے معلوم ہوا کہ میں یہاں ہوں۔'' میرے بیٹے نے کہا:''یہ کتا ہمارے پاس آتا تو ہم حسبِ عادت اسے روٹی ڈال دیتے۔ اب کی بار جب یہ ہمارے پاس آیا تو آپ اس کے ساتھ نہ تھے، ہمیں بڑی تشویش ہوئی۔ جب ہم نے اسے روٹی ڈالی تو اس نے اسے کھایا نہیں بلکہ اٹھا کر ایک طرف چل د یا۔ دوسرے دن بھی اسی طرح ہوا ہم بہت حیران ہوئے۔ آج جب یہ روٹی لے کر آنے لگا تو میں اس کے پیچھے پیچھے چلا آیا اور اس طرح مجھے آپ تک پہنچنے کی راہ ملی ۔''پھر ہم سب اپنے گھر آگئے۔ اب مجھے یہ کتا اپنے عزیزوں اور دوستوں سے بھی زیادہ پیارا ہے کیونکہ اس کی وجہ سے میں موت کے منہ سے نکل آیا ہوں۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ جس طرح چاہتا ہے اپنے بندوں کی حفاظت فرماتا ہے۔ وہ حکیم و مہربان ہے ۔
" حضرتِ سیِّدُناابوبَکْرہُذَلِی علیہ رحمۃ اللہ الولی کا بیان ہے: '' ایک مرتبہ ہم حضرتِ سیِّدُنا حسن بَصَری علیہ رحمۃ اللہ القوی کے پاس حاضر تھے اتنے میں ایک شخص آیا اور کہنے لگا: اے ابو سعید علیہ رحمۃ اللہ المجید ! ابھی کچھ دیر قبل ہم عبد اللہ بن اَہْتَم کے پاس گئے، اس کا آخری وقت تھا۔ ہم نے پوچھا:''اے اَبُومَعْمَر ! اپنے آپ کو کیسا محسوس کر رہے ہو؟''کہا :''بخدا میں اپنے آپ کو بہت مصیبت زدہ محسوس کر رہا ہوں اور میرا گمان ہے کہ شاید! اب زندہ نہ بچ سکوں، اچھا! یہ بتاؤ کہ ان ایک لاکھ دراہم کے بارے میں تم کیا کہتے ہو جو میں نے جمع کر رکھے ہیں؟نہ تو ان کی زکوۃ ادا کی گئی اور نہ ہی کسی قریبی رشتہ دار پر خرچ کئے گئے ۔''ہم نے کہا: ''اے ابو مَعْمَر! تم نے یہ درہم کیوں جمع کئے تھے؟'' کہا:''گردشِ ایام ، اہل وعیال کی کثرت اور بادشاہ کی طرف سے جفا کشی کے خوف سے جمع کر رکھے تھے۔'' اس شخص کی یہ بات سن کر حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی نے فرمایا:''اس غمزدہ پریشان شخص کو دیکھو جس کے پاس سے یہ آرہا ہے۔ دراصل اس مرنے والے کے پاس شیطان آیا اور اسے بادشاہ کی طرف سے جفاکشی، اہل وعیال کی کثرت اور گردشِ ایام کا خوف دلایا اور خوف بھی اس چیز کے بارے میں کہ جو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کے لئے مقرر فرمادی ہے اور اس دنیا میں اُس کی مدتِ حیات بھی مقرر فرمادی ہے۔ بخدا! وہ شخص اس دنیاسے اس حال میں جائے گا کہ غمگین ،مصیبت زدہ، ملامت کیا ہوا اور پریشان حال ہوگا ۔
توجہ سے سن! تو ا س دنیا سے ہر گز دھوکا نہ کھانا جس طرح کہ تیرا مرنے والا دوست دھوکا کھا چکا۔ تیرے پاس حلال مال پہنچاہے ،مال کے فتنے سے بچتے رہنا ایسا نہ ہو کہ یہ تیرے لئے وبالِ جان بن جائے۔ یا د رکھ! جو شخص مال جمع کرنے میں لگا رہے اور کنجوسی سے کام لے، دن رات مال جمع کرنے کی تدبیر میں مصیبت بھرے سفراورہر طرح کا دکھ برداشت کرے پھر مال کو سنبھال کر گِن گِن کر رکھے، نہ اس کی زکوٰۃ ادا کرے، نہ کسی رشتہ دار پر خرچ کرے تو وہ شخص حسرت زدوں میں ہوگا۔ اور سب سے بڑی حسرت یہ ہے کہ کل بروزِ قیامت جب اعمال کا وزن کیا جارہا ہو تو وہ اپنے مال کو دوسرے کے ترازو میں دیکھے۔ کیا تم جانتے ہو کہ ایسا معاملہ کب ہوتا ہے؟ سنو! یہ سب وبال اس طرح ہوتا ہے کہ انسان کو اللہ ربُّ العزَّت جَلَّ جَلَالُہٗ نے اپنے خزانوں میں سے مال دیتا اور اپنی راہ میں خرچ کرنے کا حکم دیتا ہے لیکن انسان کنجوسی و بخل سے کام لیتا اور مال جمع کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اسے موت اُچک لیتی ہے اور اس کا سارا مال وارث لے جاتے ہيں ،اس طرح وہ اپنے مال کو غیر کے ترازو میں دیکھتا ہے یا اسے ایسی ٹھو کرلگتی ہے کہ سنبھلنابہت مشکل ہو جاتا ہے اور توبہ کی دولت بھی اس کے ہاتھ سے جاتی رہتی ہے اور وہ حسرت زدہ توبہ جیسی دولت سے بھی محروم رہتا ہے۔''"
( ہم اللہ عَزَّوَجَلَّ سے عافیت طلب کرتے ہیں ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں مال کے وبال سے بچائے ۔نیکی کے کاموں میں دل کھو ل کر خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ بخل جیسی خطرناک بیماری سے ہم سب کی حفاظت فرمائے اور ہمارا خاتمہ بالخیر فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)
" حضرتِ سیِّدُنا اَنَس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ'' ایک مرتبہ ہم امیرالمؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمتِ بابرکت میں حاضر تھے کہ اتنے میں ایک مصری شخص آیا اور کہا:'' مَیں امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:'' کیاہوا ؟بلاخوف و جھجک بیان کرو ۔'' کہا:''ہمارے گورنرحضرتِ سیِّدُنا عَمر وبن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے نے مجھے کوڑے مارے ہیں اور کہا ہے کہ تم میرا مقابلہ کرتے ہو؟ حالانکہ میں دوکریموں کا بیٹا ہوں۔'' خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم! ابھی اس مصری نے اپنی بات مکمل بھی نہ کی تھی کہ امیرالمؤمنین نے فوراً حضرتِ سیِّدُناعَمر وبن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کویہ خط لکھا : ''اے عَمر و بن عاص جیسے ہی میرا یہ خط تمہارے پاس پہنچے فوراً اپنے بیٹے کو لے کر میرے پاس پہنچو، اس کام میں تاخیر ہر گز نہیں ہونی چاہے۔ جب حضرتِ سیِّدُنا عَمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خط ملا تو انہوں نے اپنے بیٹے کو بلا کر پوچھا : ''کیا تم کسی غیر قانونی کام یاکسی جرم کے مرتکب ہوئے ہو ؟'' بیٹے نے کہا:''ایسی کوئی بات نہیں۔'' فرمایا :'' پھر امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تجھے کیوں بلایا ہے؟''
بہر حال یہ دونوں بارگاہِ خلافت میں پہنچے۔ جب امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرتِ سیِّدُناعَمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے کودیکھا تو فرمایا:'' وہ مصری شخص کہاں ہے ؟اسے ہمارے پاس بلاؤ۔'' حکم پاتے ہی وہ شخص آگیا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے کوڑا پکڑاتے ہوئے فرمایا:'' دو کریموں کے بیٹے کو مارو!دوکریموں کے بیٹے کو مارو۔'' مصری نے اسے اتنے کوڑے مارے کہ وہ شدید زخمی ہوگیا ۔پھر حضرتِ سیِّدُنا عَمر و بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلاکرفرمایا:''تم نے کب سے انسانوں کو غلام بنانا شروع کردیا ہے حالانکہ ان کی ماؤں نے تو انہیں آزادجَنا ہے۔'' پھر مصری شخص کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا :'' جب بھی تمہیں کوئی تنگ کرے تم مجھے خط لکھ دینا۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُنا قاسم بن محمد بن ابو بَکْر علیہ رحمۃ اللہ الاکبر سے منقول ہے کہ ''جنگِ قادسیہ کے بعد حضرتِ سیِّدُنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے امیر المؤمنین، خلیفۃالمسلمین حضرتِ سیِّدُناعمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف کسریٰ(یعنی ایران کے بادشاہ) کی تلوار، قمیص، تاج، پٹکا اور دیگر اشیاء بھیجیں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کی طرف دیکھا تو ان میں حضرتِ سیِّدُناسُرَاقَہ بن مالِک بن جُعْشُم مُدْلِجِیرضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی موجود تھے، وہ بہت طاقتوراور طویل القامت تھے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ''اے سُرَاقَہ! اٹھو اور یہ لباس پہن کر دکھاؤ ۔''حضرتِ سیِّدُنا سُرَاقَہ رضی ا للہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:''میرے دل میں پہلے ہی خواہش تھی۔ چنانچہ، میں کھڑا ہوا اور شاہِ ایران کا لباس پہن لیا۔'' امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے دیکھاتو فرمایا:'' اب دوسری جانب منہ کرو۔'' میں نے ایسا ہی کیا۔ فرمایا:'' اب میری طرف منہ کرو۔'' میں آپ کی طرف مُڑگیاتوفرمایا:''واہ بھئی واہ ! قبیلہ مُدْلِج کے اس جوان کی کیا شان ہے! دیکھو تو سہی، شاہِ ایران کا لباس پہن کر، اس کی تلوارگلے میں لٹکا کر کیسالگ رہا ہے! اےسُرَاقَہ! اب جس دن تونے شاہِ ایران کا لباس پہنا وہ دن تیرے لئے اور تیری قوم کے لئے شرف والا تصور کیا جائے گا، اچھا! اب یہ لباس اُتار دو۔'' پھر امیرالمؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بارگاہ خدا وندی جَلَّ جَلَالُہٗ میں اس طرح عرض گزار ہوئے:
''اے میرے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ !تُونے اپنے نبی ورسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس (دُنیوی مال) سے منع فرمایا ،حالانکہ وہ تیری بارگاہ میں مجھ سے کہیں زیادہ محبوب ہيں اور مجھ سے بہت زیادہ بلند وبالا ہیں۔ پھر تُونے امیر المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا ابو بَکْر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی اس (مال) سے منع فرمایا، حالانکہ وہ تیری بارگاہ میں مجھ سے زیادہ بلند مرتبے والے ہيں ۔پھر تُونے مجھے مال عطا فرما دیا۔ اے ميرے پاک پر وردگار عَزَّوَجَلَّ ! اگر تیری طر ف سے یہ خفیہ تدبیر ہے تومیں اس سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔''
یہ کہہ کر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرتِ سیِّدُنا عبدالرحمن بن عَوْف رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا: '' شام سے قبل اس تمام مال کو غرباء میں تقسیم کردو۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُنامحمد بن اِسحاق بن عبدالرحمن بَغَوِی علیہ رحمۃ اللہ القوی سے منقول ہے: ''میں نے سعید بن سلیمان کو یہ کہتے سنا: ''ایک مرتبہ مَیں حج کے پُربہار موسِم میں مکۂ مکرمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا میں تھا ۔ میری ملاقات حضرتِ سیِّدُنا عبد اللہ بن عبد العزیز عُمری علیہ رحمۃ اللہ القوی سے ہوئی۔ خلیفۂ وقت، خلیفہ ہارون الرشید علیہ رحمۃ اللہ المجید بھی اس سال حج کے لئے آئے ہوئے تھے۔ ایک شخص حضرتِ سیِّدُنا عبد اللہ بن عبد العزیز عُمری علیہ رحمۃ اللہ القوی کے پاس آیا اور کہنے لگا :''اے عبداللہ !امیرالمؤمنین کودیکھئے انہوں نے تمام لوگوں کو صفاو مروہ سے دور کردیا ہے تاکہ پہلے خود سعی کریں بعد میں دیگر لوگ۔'' فرمایا:''اللہ عَزَّوَجَلَّ میری طرف سے تجھے اچھی جزاء نہ دے، تُو نے مجھے ایسے کام کا مکلَّف بنادیا جس سے میں بے نیاز تھا۔'' یہ کہہ کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ صفا کی طرف چل دیئے۔ خلیفہ ہارون الرشید علیہ رحمۃ اللہ المجید مروہ سے صفا کی طرف آرہے تھے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے پکا ر کر کہا:'' اے ہارون !اے ہارون!'' خلیفہ نے جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو دیکھا تو کہا:''اے چچا !میں حاضر ہوں۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' جاؤ! ذرا صفا پر چڑھو۔'' خلیفہ صفا پر چڑھ گیا تو فرمایا: '' ذرا خانہ کعبہ کی طرف دیکھو ۔''خلیفہ نے خانہ کعبہ کی طرف دیکھا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:''بتاؤ!کتنے لوگ موجود ہیں؟'' کہا:'' انہیں کون شمار کرسکتا ہے؟ '' فرمایا:''اچھا! یہ بتاؤ ان جیسے اور کتنے انسان ہوں گے؟' ' کہا:'' ان کی صحیح تعداد اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کوئی اور کیسے جان سکتا ہے؟''
فرمایا:''ان میں سے ہر ایک سے اس کی ذات کے متعلق سوال کیا جائے گا اور تجھ اکیلے سے ان تمام کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ذرا غور کر اس وقت تیراکیا بنے گا؟''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی یہ بات سن کر خلیفہ زار وقطار رونے لگا ۔ حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ بن عبد العزیز علیہ رحمۃ اللہ القدیر نے فرمایا:''اے خلیفہ!میں ایک اوربات کہناچاہتاہوں۔'' خلیفہ نے کہا:'' جو کہنا ہے کہہ دیجئے۔'' فرمایا: ''اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! بے شک جو شخص اپنے مال میں جلدی کرتاہے تووہ(مال) اس سے روک دیاجاتاہے ، توجومسلمانوں کے مال میں جلدی کرے تو اس کا کیا حال ہوگا ؟''یہ کہہ کرآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ واپس چلے آئے اور خلیفہ وہیں بیٹھا روتا رہا ۔حضرتِ سیِّدُنامحمد بن عبدالرحمن علیہ رحمۃ اللہ المنَّان کہتے ہیں، خلیفۂ ہارون الرشیدعلیہ رحمۃ اللہ المجید کہا کرتے تھے :''میں ہرسال حج کرنا چاہتاہوں اور مجھے کوئی نہیں روک سکتا، لیکن حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولادمیں سے ایک شخص ایسا ہے ،جس کی وجہ سے میں اپنی یہ خواہش پوری نہیں کرسکتا ،وہ مجھے ایسی ایسی باتیں کہتا ہے جو میرے نفس پر بہت گراں گزرتی ہیں۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُنا وَہْب بن مُنَبِّہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: ''ایک بہت بڑی سلطنت کے بادشا ہ نے ارادہ کیا کہ میں اپنے سارے ملک کاگشت کروں۔ چنانچہ، اس نے اپنا بہترین لباس منگوایا لیکن وہ پسند نہ آیا۔ پھر اس سے عمدہ لباس منگوایا، لیکن پسند نہ آیا۔ بالآخر سینکڑوں لباسوں میں سے اسے اپنی پسند کا جوڑا مل گیا۔ پھر گھوڑے لائے گئے تو ان میں سے کوئی گھوڑاپسند نہ آیا آخرکار ہزاروں گھوڑوں میں سے اسے اپنی پسند کا گھوڑا مل گیا۔اب بادشاہ بڑی شان وشوکت سے لشکر کے ہمراہ سفر پر روانہ ہوا، راستے میں ابلیسِ لعین نے بہکایاتو غرورو تکبر کی آفت میں مبتلا ہوگیااور گردن اَکڑائے بڑے شاہانہ انداز میں آگے بڑھنے لگا۔ غروروتکبر کی وجہ سے لوگوں کی طرف نظر اٹھاکر بھی نہ دیکھتاتھا۔ راستے میں ایک ضعیف وناتواں شخص بوسیدہ کپڑوں میں نظر آیا، اس نے سلام کیا لیکن بادشاہ نے نہ تو جواب دیا نہ ہی اس کی طرف دیکھا ۔اس نے کہا:'' اے بادشاہ! مجھے تجھ سے ضروری کام ہے۔'' بادشاہ نے اس کی بات سُنی اَن سُنی کر دی ۔ اس نے آگے بڑھ کر گھوڑے کی لگام پکڑلی۔ بادشاہ نے تِلمِلا کر کہا: ''لگام چھوڑ! تو نے ایسی حرکت کی ہے کہ تجھ سے پہلے کسی نے ایسی جراء َت نہیں کی۔'' کہا:'' مجھے تجھ سے بہت ضروری کام ہے۔''
بادشاہ نے کہا:''ابھی تو ہمارامہمان بن جا! واپسی پر تیری بات سن لوں گا۔'' کہا : ''ہرگز نہیں! خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم !مجھے ابھی تجھ سے کام ہے۔'' بادشاہ نے کہا:'' بتا !کیا کام ہے؟'' کہا: '' ایک راز کی بات ہے، میں چاہتا ہوں کہ صرف تجھے ہی معلوم ہو،لا، اپنا کان میرے قریب کر۔'' بادشاہ نے سر جھکایا تو اس نے کہا:'' میں مَلَکُ الْمَوْت(علیہ السلام)ہوں، تیری روح قبض کرنے آیا ہوں۔'' یہ سننا تھا کہ بادشاہ مارے دہشت کے تھر تھرکانپنے لگا ، رنگ متغیر ہوگیا ،اس نے خوف زدہ لہجے میں کہا:'' اس وقت مجھے کچھ مہلت دے دو ،تاکہ میں جس کام سے نکلا ہوں اسے پورا کرآؤں،پھر تم جو چاہے کرنا۔'' ملک المو ت علیہ السلام نے کہا: ''اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم !تو اپنی سلطنت کو اب کبھی نہ دیکھ سکے گا ۔''بادشاہ نے منت سماجت کرتے ہوئے کہا:'' اچھا! مجھے میرے گھر والوں کے پاس ہی جانے کی مہلت دے دو۔'' ملک الموت علیہ السلام نے فرمایا:''ہرگز نہیں، خداعَزَّوَجَلَّ کی قسم ! اب تو کبھی بھی اپنے اہل وعیال سے نہ مل سکے گا۔'' یہ کہہ کر اس کی روح قبض کرلی اور اس کابے جان جسم گھوڑے سے زمین پر آ پڑا ۔
؎ آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں سامان سو برس کا پَل کی خبر نہیں
کُوچ ہاں اے بے خبر ہونے کو ہے کب تَلَک غفلت سحر ہونے کو ہے
جلد آخرت بنا لے کچھ نیکیاں کما لے کوئی نہیں بھروسہ اے بھائی زندگی کا
حضرتِ سیِّدُناجَرِیْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں: '' پھر ملک الموت علیہ السلام ایک نیک شخص کے پاس گئے اور سلام کیا، اس مردِ صالح نے جواب دیا،ملک الموت علیہ السلام نے فرمایا:'' مجھے تم سے ضروری کام ہے۔'' پوچھا:'' بتایئے!کیاکام ہے؟'' کہا: ''"
" راز کی بات ہے۔'' مردِ صالح نے اپنا کان قریب کیا تو اس نے کہا:'' میں ملک الموت ہوں ،تیری روح قبض کرنے آیا ہوں۔'' نیک شخص نے کہا:'' خوش آمدید اس کے لئے جس کی جدائی بہت طویل ہوگئی تھی۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم !مجھ سے دور رہنے والا کوئی شخص نہیں جس کی ملاقات میرے نزدیک آپ علیہ السلام کی ملاقات سے افضل ہو ۔'' ملک الموت علیہ السلام نے کہا:'' اگر تمہارا کوئی کام ہے تو اسے پور ا کرلو۔'' کہا: '' آپ کے ہوتے ہوئے مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں اوراللہ تبارک وتعالیٰ کی ملاقات سے بڑھ کر کوئی شئے مجھے محبوب نہیں۔'' ملک الموت علیہ السلام نے کہا:'' جس حال میں اپنی موت کو پسند کرتے ہو مجھے بتا دومیں اسی حالت میں تمہاری روح قبض کروں گا۔'' نیک شخص نے کہا:''کیا آپ علیہ السلام کو اس بات کا اختیار دیا گیا ہے؟''کہا:''ہاں! مجھے اسی طرح حکم دیا گیا ہے ۔'' نیک شخص نے کہا:'' پھر مجھے وضوکر کے نماز پڑھنے دو جب میں سجدہ میں جاؤں تو میری روح قبض کرلینا۔'' ملک الموت علیہ السلام نے کہا:''ٹھیک ہے میں ایسا ہی کروں گا۔'' چنانچہ، اس نے وضوکرکے نماز شروع کردی۔ جب سجدہ کیا تو اس کی روح قبض کر لی گئی۔ (اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)
؎ جب تیر ی یاد میں دُنیا سے گیا ہے کوئی جان لینے کو دُلہن بن کے قضاآئی ہے
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!جس نے اعمالِ صالحہ کے ذریعے اپنے پاک پرورد گا ر عزوجل کی خوشنودی حاصل کر کے سفر آخرت کی تیاری کر رکھی ہو اس کے لئے موت کا فرشتہ نوید ِ مُسرَّت ہوتا ہے، اس کی بے قرار رو ح بارگاۂ خدا وندی عَزَّوَجَلَّ میں سجدہ ریز ہونے کے لئے مَچل رہی ہوتی ہے ۔اس کے برعکس جس نے موت کی تیاری نہ کی ہو، اسے موت کاپیغام بہت بڑا عذاب معلوم ہوتا ہے۔ سمجھ دار وہی ہے جو اعمالِ صالحہ کا ذخیرہ اکٹھا کر کے موت سے پہلے موت کی تیاری کر لے ۔اور یہ دولت اچھے ماحول میں رہ کر ہی حاصل ہو سکتی ہیں ۔ موت کی تیاری کا ایک بہترین ذریعہ تبلیغِ قرآن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک'' دعوتِ اسلامی'' کے مدنی ماحول سے وابستگی بھی ہے ۔ اپنے اپنے شہروں میں ہونے والے دعوت اسلامی کے ہفتہ وارسنتو ں بھرے اجتماع میں پابندیئ وقت کے ساتھ شرکت فرما کر خوب خوب سنتوں کی بہاریں لُوٹئے۔ دعوت اسلامی کے سنتوں کی تربیت کے بے شمار مدنی قافلے شہر بہ شہر،گاؤں بہ گاؤں سفر کرتے رہتے ہیں،آپ بھی سنتوں بھرا سفر اختیار فرما کراپنی آخرت کے لئے نیکیوں کا ذخیرہ اکٹھا کیجئے۔ دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے ''مکتبۃ المدینہ'' سے مدنی انعامات نامی رسالہ حاصل کر کے اس کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کیجئے۔اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ اپنی زندگی میں حیرت انگیز طور پر مدنی انقلاب برپا ہوتا دیکھیں گے۔ )
؎ اللہ کرم ایسا کرے تجھ پہ جہاں میں اے دعوتِ اسلامی تیری دھوم مچی ہو(آمین)!"
" حضرتِ سیِّدُنا اَسلم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم فرماتے ہیں: ''میں ایک رات امیر المؤمنین ،خلیفۃالمسلمین حضرتِ سیِّدُنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھا۔ آبادی سے باہرآگ کی روشنی نظر آئی، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ''اے اَسلم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم! شاید وہاں کوئی قافلہ ٹھہرا ہوا ہے، آؤ! وہاں چلتے ہیں، شاید! کسی کو کوئی حاجت ہو۔'' وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ایک عورت نے آگ روشن کرکے دیگچی چولہے پر رکھی ہوئی ہے اور اس کے قریب ہی چھوٹے چھوٹے بچے بلند آواز سے رورہے ہیں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:'' اے روشنی والو!(۱) اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم'' عورت نے کہا:''خیر وسلامتی کے ساتھ آ جاؤ ۔'' امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قریب جا کر پوچھا: ''تمہارا کیا معاملہ ہے؟ ''عورت نے کہا:'' رات اور سردی کی وجہ سے ہم نے آگ روشن کر لی۔'' پوچھا:'' یہ بچے کیوں رو رہے ہیں ؟''کہا:'' بھوک کی وجہ سے۔'' فرمایا: ''اس دیگچی میں کیا ہے ؟''عورت نے غمگین ہوکر کہا:'' ہمارے پاس کھانے کو کوئی چیز نہیں،مَیں نے دیگچی میں پانی ڈال کر چولہے پر رکھ دی ہے تاکہ اسے دیکھ کر بچوں کو کچھ سکون ملے اور وہ سو جائیں۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمارے اورامیر المؤمنین کے درمیان فیصلہ کرنے والا ہے۔ ہمارے خلیفہ حضرتِ عمر کو اللہ عَزَّوَجَلَّ پوچھے گا۔'' یہ سن کر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:'' اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بندی !عمرکوکیا معلوم! تمہارا کیا حال ہے؟'' کہا: ''وہ ہمارا خلیفہ ہو کر بھی ہم سے بے خبرہے؟''
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:''اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بندی! تم یہیں ٹھہرنا، اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ میں کچھ ہی دیر میں واپس آتا ہوں۔''چنانچہ، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ گودام میں آئے ،ایک بوری میں جَو کا آٹا، چربی اور گھی وغیرہ ڈال کر مجھ سے فرمایا: ''اے اسلم! یہ بوری میری پیٹھ پر رکھو۔'' میں نے کہا:'' حضور! غلام حاضر ہے، یہ بوری میں اٹھاؤں گا۔'' آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے میری طرف دیکھ کر فرمایا: ''جو کہا جارہا ہے اس پر عمل کرو اور بوری میری پیٹھ پر لاد دو۔'' میں نے کہا:'' حضور !میں اُٹھا لیتا ہوں۔'' فرمایا: ''کیا قیامت کے دن بھی تو میرا وزن اٹھا کر چلے گا؟ جلدی کر یہ بوری میری پیٹھ پر رکھ دے ۔'' میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی بوری آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیٹھ پر رکھ دی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ چلے اور عورت کےـ پاس پہنچ کر بوری اُتارکر زمین پر رکھ دی۔ پھر جو کا آٹا، چربی اور دیگر اشیاء ہانڈی میں ڈال کر خود ہی اسے ہلاتے رہے اور خود ہی چولہے میں پھونک مارتے رہے۔ میں نے دیکھا کہ امتِ مسلمہ کا عظیم خلیفہ، ایک غریب وبے سہار ا عورت اور اس کے بچوں کے لئے اپنے ہاتھوں سے کھانا تیار کر رہا ہے۔"
"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔۔۔۔۔۔یہ جملہ آپ کی کمالِ فصاحت پردلالت کرتا ہے، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کویَا اَصْحَابَ النَّاریعنی اے آگ والو!نہ کہابلکہ یَا اَصْحَابَ الضَّوء یعنی اے روشنی والو!کہا۔"
"اور دُھواں اس کی گَھنی داڑھی سے گزر رہا ہے۔ میں حیرت کی تصویر بنے یہ منظردیکھ رہا تھا۔ جب کھانا تیا ر ہوگیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ہاتھ سے برتن میں ڈالا اور اسے ٹھنڈا کرتے ہوئے کہا :''زیادہ گرم کھانا بچوں کو نقصان دے گا۔'' جب کھانا ٹھنڈا ہو گیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:''میں تمہیں کھانا ٹھنڈا کر کے دیتا ہوں،اب تم اپنے ننھے منے بچوں کو کھلاؤ اور خود بھی کھاؤ ۔'' امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے ہاتھوں سے انہیں کھانا دیتے رہے یہاں تک کہ وہ سب سیر ہو گئے ۔ پھر عورت نے کہا: ''اللہ عَزَّوَجَلَّ تجھے جزائے خیر عطا فرمائے ! تُوامیرالمومنین سے زیادہ خلافت کا حق دار ہے '' آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:''اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بند ی!امیر المؤمنین کے بارے میں اچھا کلام کر اور اچھا گمان رکھ۔تو جب بھی امیرالمؤمنین کے پاس آئے گی مجھے وہیں پائے گی میں ضرور تیر ی سفارش کروں گا۔'' عورت کومعلوم نہ تھا کہ امیرالمؤمنین اس کے سامنے موجود ہے ۔ اس نے پوچھا:'' اے نیک دل انسان !اللہ عَزَّوَجَلَّ تجھ پر رحم فرمائے، تو کون ہے؟''وہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دعائیں دیتی رہی اور پوچھتی رہی ، لیکن آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے اپنے متعلق کچھ نہ بتایا پھر کچھ دورجا کر چوپایوں کی طرح چار زانوں بیٹھ گئے اور ایسی آوازیں نکالنے لگے کہ بچے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کودیکھ کر خوش ہو گئے۔
حضرتِ سیِّدُنا اَسلم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم فرماتے ہیں کہ''میں نے امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ حالت دیکھی تو متعجب ہو کر کہا: ''اے مسلمانوں کے عظیم خلیفہ !آپ کی شان اس سے بہت زیادہ بلند ہے، یہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیسی حالت بنالی ہے؟'' فرمایا:''خاموش ہوجاؤ! میں نے ان ننھے مُنّے بچوں کو بھوک سے روتادیکھا تھا اب مجھے اس وقت تک سکون نہیں ملے گا جب تک انہیں ہنستا نہ دیکھ لوں۔'' بچے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قریب آکر کھیلنے اور ہنسنے لگے، ان کا دل خو ش ہو گیا ۔پھرجب وہ سوگئے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شکر ادا کیا ۔ پھر فرمایا:'' اے اَسلم !بھوک نے ان بچوں کو رُلادیا تھا ،ان کو روتا دیکھ کر میں نے تہیّہ کرلیا تھا کہ میں اس وقت تک نہ جاؤں گا جب تک انہیں ہنستا نہ دیکھ لوں۔ اب میرے دل کو سکون مل گیا ۔آؤ! واپس چلیں۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)
؎ نہیں خوش بخت محتاجانِ عالم میں کوئی ہم سا ملا تقدیر سے حاجت روا فاروقِ اعظم(رضي اللہ عنہ)سا
مراد آئی، مرادیں ملنے کی پیاری گھڑی آئی ملا حاجت روا ہم کو درِ سلطانِ عالم صلي اللہ عليہ وسلم سا
تیرے جودوکرم کا کوئی اندازہ کرے کیوں کر تیرا اِک اِک گدا فیض وسخاوت میں ہے حاتم سا
(پیارے اسلامی بھائیو! اسلام اور اس کے ماننے والے سب سے اعلیٰ ہیں ،روئے زمین پر خیر خواہی کی ایسی عظیم مثال اسلام کے علاوہ اور کسی مذہب میں ہرگز نہ ملے گی۔ مسلمانوں کے علاوہ کائنات میں ایسا تاریخی واقعہ کہیں نہ ملے گا کہ بادشاہ ہو کر خود ہی اپنی کمر پر بوری لادے اور پھر ایک غریب عورت اور اس کے بچوں کی دل جوئی کے لئے اپنے آپ کو ان کے"
لئے سواری بنائے ۔ یہ سب خوبیاں صرف اور صرف مسلمانوں کو حاصل ہیں۔ دین اسلام ہی ایسی عاجزی وتواضع اور عدل وانصاف کا حکم دیتا ہے۔یہ سب نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر، دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَر صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی تعلیم وتربیت کا نتیجہ ہے کہ گلشنِ اسلام میں خلفاء راشدین جیسے گلِ بے مثال کھِلے ،جنہوں نے اپنی خوشبو سے سارے عالم کو مہکا دیا ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ان پر کروڑہاکروڑ رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)
" حضرتِ سیِّدُنا حسن بن خضر علیہ رحمۃ اللہ الاکبر اپنے والد کے حوالے سے بیان کرتے ہیں: مجھے ایک ہاشمی نے بتایاکہ ایک مرتبہ میں خلیفہ ابوجَعْفَر منصور کے دربار میں تھا۔ وہ لوگوں کی فریادیں سُن کران کے لئے احکامات جاری کر رہا تھا۔ اتنے میں ایک شخص آیا اور کہا: ''اے امیر!یقینا مجھ پر ظلم کیاگیا ہے، میں چاہتا ہوں کہ اپنے اوپر کئے جانے والے ظلم کو بیان کرنے سے پہلے آپ کے سامنے ایک مثال پیش کروں۔'' امیر نے کہا:'' جو کہنا چاہتے ہو کہو ۔''
کہا:''اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی مخلوق کے کئی طبقے بنائے اور انہیں مختلف مراتب میں رکھا۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اپنی ماں کے علاوہ نہ تو کسی کوپہچانتاہے نہ ہی کسی اور سے کوئی چیز طلب کرتا ہے۔ اگر اسے خوف محسوس ہوتو ماں کی آغوش میں آجاتا ہے۔ جب کچھ بڑا ہوتا ہے تو باپ کو پہچانتا ہے، اگرکوئی اسے تنگ کرے یا ڈرائے تو اپنے باپ کی پناہ لیتا ہے۔پھر جب بالغ ومستحکم ہوجاتا ہے اور اسے کوئی چیز ڈراتی یا نقصان پہنچاتی ہے تو وہ اپنے بادشاہ کی طرف رجوع کرتا اور ظالم کے خلاف بادشاہ کی مدد چاہتا ہے۔ اگر بادشاہ خود اس پر ظلم کرے تو وہ تمام جہانوں کے خالق و مالک، اللہ عزوجل کی بارگاہ میں استغاثہ کرتا اور اس کی پناہ چاہتا ہے۔ اے امیر !بے شک میں بھی مخلوق کے انہیں طبقوں میں شامل ہو ں ۔ ابن نَہِیْک نے میری زمین کے معاملہ میں مجھ پر ظلم کیا ہے۔ اگر آپ میری مدد کریں گے تو بہت بہتر، ورنہ! میں اپنا مقدمہ، خالقِ کائنات جَلَّ جَلَالُہٗ کی بارگاہ میں پیش کر دوں گا۔ اب آپ کی مرضی چاہیں تو میری مدد فرمائیں یامجھے چھوڑ دیں ۔''اس شخص کی یہ حکمت بھری باتیں سن کر منصور نے کہا:''اپنا کلام دہراؤ ۔''اس شخص نے دوبارہ اسی طرح بیان کیا، تو ابو جَعْفَر نے کہا:''سنو! سب سے پہلے تو میں ابن نَہِیْک کومعزول کرتا ہوں اور اسے حکم دیتا ہوں کہ وہ جلد ازجلد تمہاری زمین تمہیں واپس کردے ۔''"
" ہِشَام بن کَلْبِی سے منقول ہے: '' ایک مرتبہ حضرتِ سیِّدُنا حاتم اور حضرت سیِّدُنا اَوْس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہما نعمان بن مُنْذِر کے پاس تشریف لے گئے۔ نعمان بن مُنْذِرنے دونوں کو علیحدہ علیحدہ مکانات میں ٹھہرایا۔ پھر حضرتِ سیِّدُنا حاتم اَصَم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کو بلاکر کہا: '' آپ دونوں میں سے افضل کون ہے ؟میں اُسے کچھ انعامات دیناچاہتاہوں۔' ' فرمایا:'' ایسی بات کرنا آپ کے لئے جائز نہیں، کیا آپ مجھے ''حضرتِ اَوْس'' کے برابر شمار کرتے ہیں؟ وہ تو بہت عظیم انسان ہیں، ان کاسب سے کم عمر بیٹا بھی مجھ سے زیادہ عزت والا ہے۔'' پھر نعمان بن مُنْذِرنے تحفے تحائف حضرتِ سیِّدُنا اَوس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس بھجوا دیئے۔پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو بلا کر پوچھا: ''بتائیے! آپ دونوں میں سے افضل کون ہے؟'' حضرتِ سیِّدُنا اَوس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے تڑپ کر کہا: ''کیاتم مجھے اورحضرتِ حاتم کو برابر شمار کرتے ہو؟ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم !میری اور میری اولاد کی ملکیت میں جومال ہے، اگر ہم سب کچھ خرچ کر ڈالیں تب بھی حضرتِ حاتم کے مرتبہ کو نہیں پہنچ سکتے ۔'' یہ سن کر نعمان بن مُنْذِر نے دونوں حضرات کو اپنے سامنے بُلاکر کہا: ''اللہ عَزَّوَجَلَّ خوب جانتا ہے کہ میں نے آپ دونوں کو معظَّم، کریم اور سردار جاناہے اور آپ دونوں ہی قابلِ تعظیم ہیں۔'' یہ کہہ کر اس نے دونوں کو انعام واکرام سے نوازا۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
حضرتِ سیِّدُناسالم علیہ رحمۃ اللہ الحاکم فرماتے ہیں:'' ایک مرتبہ مُلکِ روم سے کچھ قاصد حضرتِ سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز علیہ رحمۃ اللہ القدیر کے پاس آئے توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا :'' جب تم لوگ کسی کو اپنا بادشاہ بناتے ہو تو اس کاکیا حال ہوتا ہے؟'' کہا: ''جب ہم کسی کو اپنا بادشاہ بناتے ہیں تواس کے پاس ایک گَوْرکن (یعنی قبر کھودنے والا) آکر کہتا ہے:اے بادشاہ !اللہ عَزَّوَجَلَّ تیری اصلاح فرمائے !جب تجھ سے پہلا بادشاہ تخت نشین ہو ا تو اس نے مجھے حکم دیا: '' میری قبر اس اس طرح بنانا اورمجھے اس طرح دفن کرنا۔ چنانچہ، قبرتیا ر کر لی گئی ۔پھر اس کے پاس کفن فروش آکرکہتاہے : اے بادشاہ! اللہ عَزَّوَجَلَّ تیری اصلاح فرمائے !جب تجھ سے پہلا بادشاہ تخت نشین ہوا تواس نے مرنے سے قبل ہی ا پنا کفن ،خوشبو اورکافور وغیرہ خریدلیا پھر کفن کو ایسی جگہ لٹکا دیا گیا جہاں ہروقت نظر پڑتی رہے اور موت کی یاد آتی رہے۔ اے مسلمانوں کے امیر !ہمارے بادشاہ تو اس طرح موت کو یا د کرتے
"ہیں۔''رومی قاصد کی یہ بات سن کر حضرتِ سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز علیہ رحمۃ اللہ القدیر نے فرمایا:''دیکھو! جو شخص اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ملنے کی امید بھی نہیں رکھتاوہ موت کو کس طرح یاد کرتا ہے، اسے بھی موت کی کتنی فکر ہے؟'' اس واقعہ کے بعد آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بہت زیادہ بیمار ہوگئے اور اسی بیماری کی حالت میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا انتقال ہوگیا ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُنا ابوالعبَّاس بن عَطَاء رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے منقول ہے: ایک حسین وجمیل نوجوان میرے حلقۂ درس میں آکر بیٹھا کرتا، اس کا ایک ہاتھ ہمیشہ کپڑے سے ڈھکا رہتا۔ ایک دن خوب بارش ہوئی او ر ہمارے حلقۂ درس میں اس نوجوان کے علاوہ کوئی نہ آیا۔ میں نے دل میں کہاکہ آج اس کے ہاتھ کے بارے میں ضرور پوچھوں گا۔ پہلے تو میں اپنے اس خیال کو دفع کرتا رہا، لیکن مجھ سے رہا نہ گیا بالآخر میں نے پوچھ ہی لیا:''اے نوجوان !تمہارے ہاتھ کو کیا ہوا؟'' کہا :''میرا واقعہ بہت عجیب وغریب ہے۔'' میں نے کہا:'' تم بیان کرو ۔'' کہا:'' میں فلاں بن فلاں ہوں، میرے والد نے انتقال کے بعد میرے لئے تیس (30) ہزار دینا ر چھوڑے تھے، میں ان سے کاروبار کرتا رہا۔ پھر میں ایک کنیز کی محبت میں گرفتار ہواور اسے چھ ہزار دینار میں خرید لیا۔جب اسے گھر لایاتو اس نے کہا: ''مجھے روئے زمین پر تجھ سے زیادہ ناپسند کوئی نہیں، تُو مجھے میرے سابقہ مالک کی طرف لوٹا دے، جب میں تجھ سے انتہائی بغض رکھتی ہوں تو اس حالت میں تو مجھ سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔'' میں نے اسے سمجھانے کی خوب کوشش کی، ہر طرح کی راحت وعیش کا سامان اسے مہیا کیا، لیکن وہ میری طرف بالکل بھی متوجہ نہ ہوئی، میں جتنا اس سے پیار کرتا وہ اتنی ہی نفرت سے پیش آتی۔ اس کے اس رویّے سے میرا دل غمگین ہوگیا ، میں کسی بھی قیمت پر اسے دور نہیں کرنا چاہتا تھا۔میں دن رات اس کے خیالوں میں گم رہنے لگا۔ میری یہ حالت دیکھ کر میری ایک عمر رسیدہ خادمہ نے کہا :''تو اس کے غم میں اپنی جان کیوں دیتا ہے؟ اس کنیز کو ایک کمرے میں بند کر دے، کچھ ہی دنوں میں اس کے ہوش ٹھکانے آجائیں گے ۔''
چنانچہ، کنیز کو ایک علیحدہ کمرے میں بھجوادیاگیا۔ اب اس کی یہ حالت تھی کہ نہ کچھ کھاتی، نہ پیتی بس ہر وقت روتی ہی رہتی، اس کا جسم نہایت کمزور ہوگیا، ایسا لگتا تھا کہ اب یہ انتقال کر جائے گی۔ میں روزانہ اس کے پاس جا کراسے خوش کرنے کی کوشش کرتا، لیکن وہ میری کسی بات کا جواب نہ دیتی۔ چار د ن بعدمیں نے کہا:'' اگر کوئی چیز کھانے کو جی چاہ رہا ہے تو بتاؤ۔''"
" خلافِ توقع وہ میری جانب متوجہ ہوئی اور کہا:'' میں دلْیَہ کھانا چاہتی ہوں۔'' میں اس کے کلام سے خوش ہوا اور قسم کھا لی کہ میں اپنے ہاتھوں سے دلیہ تیار کروں گا۔ چنانچہ، میں نے آگ جلائی اور دیگچی میں آٹا وغیرہ ڈال کر اپنے ہاتھ سے پکانے لگا۔ وہ کنیز میرے قریب آ کر بیٹھ گئی اور اپنی بیماری اور غم کے متعلق مجھے بتانے لگی۔ میں اس کی باتوں میں ایسا مگن ہوا کہ آگ نے میرا سارا ہاتھ جلا ڈالا اور مجھے خبرتک نہ ہوئی۔ اتنے میں میری خادمہ آئی اورپکار کر کہا :''اپنا ہاتھ اٹھا کر دیکھو !آگ نے جلا کر اسے بیکار کردیا ہے۔''میں نے چونک کر ہاتھ اٹھایا توواقعی وہ جل کر کوئلہ ہوچکا تھا ۔''
حضرتِ سیِّدُنا ابو العبّاس بن عَطَاء رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:'' اس نوجوان کا حیرت انگیز واقعہ سن کر میں حیرت سے چیخ پڑا اور کہا: '' مخلوق کی محبت میں تیرا کیا حال ہوگیا ہے، اگر ایسی محبت خالقِ حقیقی جَلَّ جَلَالُہٗسے ہوتی تو کچھ اورہی رنگ ہوتا۔''"
" حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم بن شَبِیْب علیہ رحمۃ اللہ الحسیب کا بیان ہے: '' ہر جمعہ کو ہمارا علم کا مَدَنی مذاکرہ ہوا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک شخص نے ہماری محفل میں کوئی مسئلہ پوچھا۔ہم اس بارے میں بحث کرتے رہے لیکن جواب نہ دے سکے ۔ا گلے جمعہ وہ پھرآیاتوہم نے جواب بتایا اور اس کی رہائش گاہ کے بارے میں پوچھا۔اس نے کہا:''میں''حَرْبِیَّہ''میں رہتا ہوں۔'' ہم نے کہا:'' تمہاری کُنْیَت کیا ہے ؟'' کہا: '' ابو عبداللہ۔'' ہمیں اس کے ساتھ بیٹھنے سے خوشی ہوتی ۔وہ ہر جمعہ ہماری محفلِ فقہ میں شرکت کرتا ،اس کاآنا ہمیں بہت اچھا لگتا۔ پھر اچانک اس نے آنا چھوڑ دیا،اس طرح اچانک غیرحاضری کی وجہ سے ہم پریشان ہوگئے۔ہم نے مشورہ کیاکہ ہمارا ایک رفیق ہم سے جدا ہوگیا ہے اس کے بارے میں ضرور معلومات کرنی چاہے، کیا معلوم اسے کوئی بڑی پریشانی لاحق ہوگئی ہو؟ اگلی صبح ہم ''حَرْبِیَّہ''گئے اور بچوں سے پوچھا :''کیا تم ''ابو عبد اللہ ''کو جانتے ہو ؟'' بچوں نے کہا:'' شاید! آپ ابو عبداللہ شکاری کے متعلق پوچھ رہے ہو ؟'' ہم نے کہا:'' ہاں! ہم اسی کے متعلق پوچھ رہے ہیں۔'' کہا:'' بس وہ آنے والے ہیں، آپ یہیں انتظار فرمائیں۔''
ہم وہیں ٹھہر گئے،کچھ دیر بعدہم نے دیکھا کہ ایک موٹے کپڑے کاتہبندباندھے ایک چادر کندھوں پراوڑھے وہ ہماری جانب چلا آ رہا تھا۔اس کے پاس کچھ ذبح کئے ہوئے اورکچھ زندہ پرندے تھے۔وہ مسکراتا ہوا ہمارے پاس آیا اورپوچھا:''خیرت تو ہے آج اس طرف کیسے آنا ہوا ؟ '' ہم نے کہا : '' تم ہمارے دوست تھے کئی دنوں تک مسلسل ہمارے پاس علمِ دین سیکھنے آتے"
"رہے، اب کچھ دنوں سے تم نہیں آرہے، اس کی وجہ کیا ہے؟'' کہا :''میں آپ لوگوں کو سچ سچ بتاتاہوں، میں جو کپڑے پہن کر آپ کی محفل میں حاضر ہوتا تھا وہ میرے ایک دوست کے تھے، جو مسافر تھا۔جب وہ اپنے وطن واپس چلا گیا تو میرے پاس دوسرے کپڑے نہ تھے جنہیں پہن کر آپ کے پاس آتا،میرے نہ آنے کی وجہ یہی ہے ، اچھا! ان باتوں کو چھوڑ یں یہ بتائیے،آپ کیا پسند فرمائیں گے، میرے ساتھ گھر چلیں اور اس رزق سے کھائیں جو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ہمیں عطا فرمایاہے۔'' ہم نے کہا:'' ٹھیک ہے! ہم چلتے ہیں ۔''پس ہم اس کے ساتھ چل دیئے،اس نے ایک مکان کے قریب رک کر سلام کیا اور اندر داخل ہوگیا۔ کچھ دیر بعد ہمیں اندربلاکر بوریوں سے بَنی ہوئی ایک چٹائی پر بٹھایا۔ ذبح کئے ہوئے پرندے اپنی زوجہ کے حوالے کئے، زندہ پرندے بازار لے جاکر بیچے اوران سے ملنے والی رقم سے روٹیاں خرید لایا، اتنی دیر میں اس کی زوجہ سالن تیا ر کرچکی تھی۔ اس نے روٹی اور پرندوں کا گوشت ہمارے سامنے رکھتے ہوئے کہا: ''اللہ عَزَّوَجَلَّ کا نام لے کر کھائیے ۔''
ہم نے کھاناکھاتے ہوئے آپس میں کہا :''دیکھو! ہمارے اس دوست کی معاشی حالت کیسی ہے ! ہمارا شمار بصرہ کے معززین میں ہوتا ہے، افسوس ! ہمارے ہوتے ہوئے اس کی یہ حالت!'' یہ سن کر ہمارے ایک دوست نے کہا: ''پانچ سو (500) درہم میرے ذمہ ہیں ۔''دوسرے نے کہا:'' تین سو(300) درہم میں دوں گا۔'' اس طرح ہم سب نے حسبِ حیثیت درہم دینے اور دوسرے اہلِ ثروت سے دِلوانے کی نیتیں کیں۔ جب حساب کیا تو تقریباً پانچ ہزار(5000)درہم ہو چکے تھے ۔ہم نے کہا: ''ہم یہ ساری رقم اکٹھی کرکے اپنے اس دوست کی خدمت کریں گے۔''
چنانچہ، ہم اپنے میزبان کا شکریہ اداکر کے شہر کی جانب چل دیئے۔ جب ہم کھجور سُکھانے کے میدان کے قریب سے گزرے توبصرہ کے امیر محمد بن سلمان نے اپنا ایک غلام بھیج کرمجھے بلوایا۔مَیں اس کے پاس پہنچا تو اس نے ہمارا حال پوچھا۔ میں نے سارا واقعہ کہہ سنایا اور بتایاکہ ہم اس غریب دوست کی امداد کرنا چاہتے ہیں ۔ امیرِ بصرہ محمد بن سلمان نے کہا:'' میں تم سے زیادہ نیکی کرنے کا حق دار ہوں۔'' پھر اس نے دراہم سے بھری تھیلیاں منگوائیں اور ایک غلام سے کہا:'' یہ ساری تھیلیاں اٹھا لو اور جہاں رکھنے کا حکم دیا جائے، وہاں رکھ کرآجانا۔'' میں بہت خوش ہوا اپنے دوست ابو عبداللہ کے مکان پر پہنچ کر دستک دی ، دروازہ خود ابو عبداللہ نے کھولا۔ غلام اور رقم کی تھیلیاں دیکھ کراس نے میری طرف یوں دیکھا جیسے میں نے اس پر بہت بڑی مصیبت توڑ دی ہو۔ اس کا انداز ہی بدل چکا تھا۔ وہ مجھ سے کہنے لگا:''یہ سب کیا ہے ؟کیاتم مجھے مال کے فتنے میں ڈالنا چاہتے ہو؟''میں نے کہا : '' اے ابو عبداللہ !ذرا ٹھہرو! میں تمہیں سب بات بتاتا ہوں۔'' یہ کہہ کر میں نے اسے ساری بات بتائی اور یہ بھی بتایا کہ یہ مال بصرہ کے امیر محمد بن سلمان نے بھجوایا ہے۔ بس یہ سننا تھا کہ وہ مجھ پر بہت غضبناک ہوا اور گھر میں داخل ہو کر دروازہ بند کردیا، میں باہر بے چینی کے عالم میں ٹہلتا رہا، سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ امیرِ بصرہ کو کیا جواب دوں۔ بالآخر یہی فیصلہ کیا کہ سچ ہی میں نجات ہے"
"اور مجھے سب کچھ سچ سچ بیان کردینا چاہے۔ یہی سوچ کر میں امیرِ بصرہ کے پاس آیا اور سارا واقعہ کہہ سنایا۔ میری بات سن کر امیرِ بصرہ غصے سے کانپتا ہو ا بولا: '' میرے حکم کی نافرمانی کی گئی۔ اے غلام!جلدی سے تلوار لاؤ۔'' غلام تلوار لے کر حاضر ہوا تو امیر نے مجھ سے کہا: ''اس غلام کا ہاتھ پکڑ کر اس شخص کے پاس لے جاؤ، جب وہ باہر آئے تو اس کی گردن اُڑا دو اور سر ہمارے پاس لے آؤ۔'' میں یہ حکمِ شاہی سن کربڑاپریشان ہوا، لیکن مجبورتھا، انکار نہ کر سکا، میں بادِل نخواستہ (یعنی نہ چاہتے ہوئے) واپس آیا اور دروازے پر پہنچ کر سلام کیا۔ اس کی زوجہ نے روتے ہوئے دروازہ کھولا اور ایک جانب ہٹ کر مجھے اندر بلا لیا ۔ میں نے گھر میں داخل ہو کر پوچھا :''تمہار ا اور ابو عبداللہ کا کیا حال ہے ؟'' کہا:'' آپ سے ملاقات کے بعد اس نے کنوئیں سے پانی نکال کر وضو کیااور نماز پڑھی۔ پھر میں نے اس کی یہ آواز سنی :
''اے میرے پروردگار عَزَّوَجَلَّ !اب مجھے مہلت نہ دے اور اپنی بارگاہ میں بلالے ۔'' یہ کہتے ہوئے وہ زمین پر لیٹ گیا، میں قریب پہنچی تو اس کی روح عالَمِ بالا کی طرف پرواز کر چکی تھی، یہ دیکھیں اب گھر میں اس کا بے جان جسم پڑا ہوا ہے۔ میں نے دیکھا تو واقعی ایک جانب اس کی میت رکھی ہوئی تھی۔ میں نے اس کی زوجہ سے کہا:'' اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بندی!ہمارا قصہ بہت عجیب ہے ۔ یہ کہہ کر میں امیرِ بصرہ محمدبن سلمان کے پاس آیا اور ساری بات بتائی ۔'' اس نے کہا: '' میں اس کی نماز جنازہ ضرور پڑھوں گا۔'' کچھ دیر بعد اس کی موت کی خبر پورے بصرہ میں پھیل گئی ۔امیرِ بصرہ اور دوسرے بے شمار لوگوں نے اس کے جنازہ میں شرکت کی ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
حضرتِ سیِّدُنامحمد بن سلیمان قُرَشِی علیہ رحمۃاللہ القوی سے منقول ہے کہ ''ایک مرتبہ یمن جاتے ہوئے راستے میں مجھے ایک خوبصورت نوجوان نظر آیا اس کے کانوں میں بالیاں تھیں، جن کے عمدہ وخوشنما موتیوں کی چمک سے اس کا چہر ہ چمک رہا تھا۔وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی پاکی بیان کرتے ہوئے یوں کہہ رہاتھا :'' آسمانوں کے بادشاہ کی وجہ سے میری عزت ووقار ہے ۔وہ غالب وقدرت والا ہے ،اس میں کچھ نقص نہیں،اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔'' میں نے قریب جاکر سلا م کیا۔ اس نے کہا:''میں اس وقت تک سلام کا جواب نہیں دوں گا جب تک آپ میراحق ادا نہ کریں۔ ''میں نے کہا:'' تمہارا کون سا حق ہے ؟''کہا: ''میں حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم خلیل اللہ علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃوالسلام کے دین کا پیروکارہوں۔ میں اس وقت تک کھانا نہیں کھاتا جب تک
"ایک دو میل چل کر مہمان تلاش نہ کرلوں۔ آج آپ میرے مہمان ہیں ۔''نوجوان کی یہ بات سن کر میں اس کے ساتھ چل دیا۔ کچھ دور بالوں کا بنا ہوا ایک خیمہ نظرآیا، اس نے قریب پہنچ کر بلند آواز سے کہا :'' اے میری بہن! اے میری بہن ۔'' اندر سے کسی لڑکی کی آواز آئی: لَبَّیْک !( میں حاضر ہوں )میرے بھائی ! نوجوان نے کہا:'' مہمان کی تعظیم کرو۔''
لڑکی نے کہا:'' ٹھہرو! پہلے میں اس پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ کا شکر ادا کرلوں جس نے ہمارے ہاں مہمان بھیجا ہے ۔''یہ کہہ کر اس نے نماز پڑھی ۔ نوجوان مجھے خیمے میں بٹھاکر جانور ذبح کرنے چلا گیا ۔میری نظر اس لڑکی پر پڑی تو مجھے اس کا چہرہ سب سے زیادہ حسین نظر آیا۔ لڑکی نے کہا:'' میری طرف نہ دیکھئے! مدینۂ منورہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًاوَّتَعْظِیْمًاکے شہنشاہ محمد ِمصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا یہ فرمان ہم تک پہنچا ہے کہ ''آنکھوں کا زنا (غیر محرم کو ) دیکھنا ہے۔'"
'(سنن ابی داؤد،کتاب النکاح،باب مَا یُؤْمَرُ بِہِ مِنْ غَضِّ الْبَصَر، الحدیث۲۱۵۲، ص۱۳۸۱)
سنئے! میں آپ کی بے عز تی نہیں کر رہی اورنہ ہی آپ کو ڈانٹ رہی ہوں بلکہ میرا مقصد آپ کو اَدَب سکھانا ہے تاکہ آپ دوبارہ ایسی حرکت نہ کریں۔'' لڑکی کی یہ بات سن کر میں بہت شرمندہ ہوا ۔جب رات ہوئی تو میں اور نوجوان خیمے سے باہر آگئے اور لڑکی خیمے میں ہی رہی ۔میں ساری رات خیمے کے اند رسے قرآنِ پاک کی تلاوت سنتا رہا،آوازمیں سوز وگُداز تھا ۔ صبح میں نے نوجوان سے پوچھا:''قرآنِ پاک کی تلاوت کون کررہا تھا ؟'' کہا:'' میری بہن اسی طرح ساری ساری رات عبادت کرتی ہے۔ '' میں نے کہا :'' وہ عورت ہے اور تُو مرد، تجھے اس سے زیادہ عبادت کرنی چاہے؟''نوجوان نے مسکراتے ہوئے کہا:''اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بندے! کیا آپ نہیں جانتے کہ وہی پر وردگا ر عَزَّوَجَلَّ نیک اعمال کی توفیق دینے والا اور وہی عزت وذلت دینے والا ہے۔''
قاضی ابو الحسین محمد بن عبدالواحد ہاشمی علیہ رحمۃ اللہ القوی بیان کرتے ہیں کہ ''خلیفہ مُعْتَضِد باللہ کے دورِ خلافت میں ایک تاجرکا کسی سرکاری عہد یدار پر بہت سا مال قرض تھا۔ جب بھی مطالبہ کیا جاتا وہ حیلے بہانے کرکے تاجر کو واپس کردیتا۔ اس تاجر کا بیان ہے: '' جب میں نے دیکھا کہ میرا مال کسی طریقے سے نہیں مل رہا تو میں نے اہلِ ثروت اور اعلیٰ عہدیداروں سے بات کی، حتی کہ وزیر سے بھی سفارش کروائی، لیکن مجھے میرا مال نہ مل سکا۔ اب صرف خلیفہ تک شکایت پہنچانا باقی تھی، لیکن یہ آسان کام نہ تھا۔ ایک دن مجھے میرے ایک دوست نے کہا:'' آؤ! میرے ساتھ چلو،میں تمہیں ایک ایسے شخص کے پاس لے چلتاہوں
"جوتمہارامال واپس دلوادے گااورتمہیں خلیفہ کے پاس شکایت کرنے کی حاجت نہ ہوگی ۔ میں اس کے ساتھ چل دیا۔ وہ مجھے ایک درزی کے پاس لے گیا جو قریبی مسجد میں امام بھی تھے۔ میرے دوست نے میراحال بیان کیااورآنے کامقصدبتایاتوامام صاحب فوراًساتھ ہولئے،ہم اس افسرکے گھرکی طرف چل دیئے۔میں نے اپنے دوست سے کہا:''تم نے مجھے،اپنے آپ کو اوراس غریب درزی کومصیبت میں ڈال دیاہے۔ وہ ظالم افسر تو بڑے بڑے لوگوں کی باتوں پر کان نہیں دھرتا ،وزیر جیسے بااثر شخص کی سفارش اس کے سامنے کچھ کام نہ کر سکی ،پھر بھلا اس غریب درزی کی بات کو وہ کیا اہمیت دے گا ۔ میری بات سن کر میرے دوست نے مسکراتے ہوئے کہا :''تم خاموشی سے دیکھتے رہو ہوتا کیا ہے؟ '' میں خاموش ہوکر چلتا رہا، جیسے ہی ہم اس ظالم افسر کے گھر کے قریب پہنچے ،اس کے غلاموں نے بڑے باادب طریقے سے آگے بڑھ کر درزی کا ہاتھ چومتے ہوئے پوچھا:'' عالی جاہ! آپ کی تشریف آوری کا کیا مقصد ہے؟ ہمارا مالک ابھی ابھی سفر سے آیا ہے اگر آپ حکم دیں توہم فوراً اسے بلا لاتے ہیں اور اگر آپ چاہیں تو اندر تشریف لے چلیں اور خدمت کا موقع دیں، ہمارا مالک کچھ ہی دیر میں آجائے گا۔''درزی نے کہا:''چلو ہم اندر چل کر بیٹھ جاتے ہیں۔''
ہم ایک خوبصورت کمرے میں بیٹھ گئے۔ کچھ دیر بعدوہ افسر آیا اور درزی کو دیکھتے ہی بہت تعظیم وتوقیر کرتے ہوئے بڑے خوشامدانہ لہجے میں بولا:'' حضور! ابھی ابھی سفر سے واپسی ہوئی ہے میں اس وقت تک سفر کے کپڑے تبدیل نہیں کروں گا جب تک آپ کے آنے کا مقصدپورانہ کردوں،حکم فرمائیں میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟'' اما م صاحب نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:'' فوراََاس کا مال اسے دے دو۔'' افسر نے کہا :''عالیجاہ !اس وقت میرے پاس صرف پانچ ہزار(5000)درہم ہیں، آپ اس سے کہیں کہ فی الحال یہی رقم قبول کر لے اور بقیہ رقم کے بدلے میرا سامانِ تجارت رہن (گر و ی ) رکھ لے، میں ایک مہینے کے اندر اندر اس کی رقم واپس کردوں گا۔'' درز ی (امام صاحب )نے میری طرف دیکھا تو میں نے فوراً یہ شرط قبول کر لی۔ افسر نے پانچ ہزار (5000)درہم اور سامانِ تجارت میرے حوالے کیا ،میں نے امام صاحب اور اپنے دوست کو گواہ بنایا کہ'' اگر ایک ماہ کے اندر اندر اس نے میری رقم واپس نہ کی تو میں اپنی رقم کی مقدار کے مطابق اس کا سامانِ تجارت بیچنے کااختیا رکھتا ہوں۔'' پھر دستاویز پر دستخط ہوئے اور ہم واپس آگئے ۔میں اپنا حق ملنے پر بہت خوش تھا اور حیران بھی تھا کہ نہ جانے اس امام صاحب میں ایسی کون سی طاقت ہے جس کی وجہ سے ظالم افسراتنامہربان ہوگیا اور اس کی اتنی تعظیم وتوقیر کی۔ بہرحال ہم واپس درزی کی دکان پر آئے، تو میں نے سارا مال درزی کے سامنے رکھتے ہوئے کہا:''اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ کی بَرَکت سے مجھے میرا مال واپس دلوا دیاہے، میں اپنی خوشی سے کچھ مال آپ کی نذر کرنا چاہتا ہوں، آپ اس رقم میں سے تہائی مال یا نصف مال قبول فرمالیں۔''
امام صاحب نے کہا :''کیاتم ایک اچھے کام کا بدلہ بُری چیز سے دیناچاہتے ہو؟ مَیں اس میں سے کچھ بھی نہیں لوں گا۔"
"جاؤ! اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہیں بَرَکت دے ۔''میں نے کہا:'' عالی جاہ !مجھے آپ سے ایک اور کام بھی ہے۔'' کہا:''بتاؤ۔''میں نے کہا: ''اس ظالم افسر کے سامنے بڑے بڑے لوگ بے بس ہوگئے ،لیکن آپ کی بات اس نے فوراً مان لی،آخر وہ آپ کی اتنی تعظیم کیوں کرتا ہے ؟''امام صاحب نے کہا :''تمہارا مال تمہیں مل چکا ہے۔ جاؤ!اب اپنا کام کرو اور مجھے بھی کام کرنے دو ۔''میں نے جب بہت اصرار کیا تو امام صاحب نے اپنا واقعہ کچھ یوں بیان کیا:
''ہمارے گھر کے راستے میں ایک ترکی افسر کاگھر ہے۔ ایک مرتبہ جب میں اپنے گھرجارہاتھا تودیکھا کہ نشے میں بدمست ترکی افسر ایک عورت کوپکڑکر اپنے گھر کی جانب کھینچ رہاتھا،وہ بے چاری مدد کے لئے پکارتی رہی، لیکن کوئی بھی اس کی مدد کو نہ آیا۔ وہ رورو کر کہہ رہی تھی:اے لوگو!مجھے اس ظالم سے بچاؤ !میرے شوہر نے قسم کھائی ہے کہ اگر میں نے اُس کے گھر کے علاوہ کسی اور کے ہاں رات گزاری تو وہ مجھے طلاق دے دے گا۔ اگر یہ ظالم مجھے اپنے گھر لے گیا تو میرا گھر برباد ہوجائے گا اور میں رسواہوجاؤں گی، خداکے لئے مجھے اس ظالم سے نجات دلاؤ ۔وہ مظلومہ اسی طرح فریاد کرتی رہی، لیکن کوئی بھی اس کی مدد کو تیار نہ ہوا۔ میں جذبۂ ایمانی کی بدولت اس ظالم کی طرف بڑھا اور عورت کو چھوڑنے کے لئے کہا، اس نے ایک لوہے کا ڈنڈا میرے سر میں مارا اور خوب طمانچے مارے پھراس عورت کو زبردستی اپنے گھر لے گیا۔
میں زخمی حالت میں غمگین وپریشان اپنے گھر آیا زخم سے خون دھوکر پٹی باندھی اور کچھ دیر بستر پر لیٹ گیا۔ پھر عشاء کی نماز پڑھنے مسجد گیا اور نماز کے بعد تمام نمازیوں کو اس ظالم ترکی افسر کی حرکت سے آگاہ کرتے ہوئے کہا:'' تم سب میرے ساتھ چلو! یاتو وہ عورت کو چھوڑ دے گا ورنہ ہم اس کا مقابلہ کریں گے۔'' لوگوں نے میری تائید کی اور ہم اس کے گھر کی جانب چل دیئے۔ وہاں پہنچ کر ہم نے عورت کی رہائی کا مطالبہ کیا تو اس ظالم ترکی افسر کے کئی غلاموں نے مل کرہم پر ڈنڈوں سے حملہ کیا، سب مجھے اکیلا چھوڑ کر بھاگ گئے ،چند غلاموں نے مجھے پکڑ کر خوب مارا اور شدید زخمی کر دیا۔ میرا ایک پڑوسی مجھے اٹھاکر گھر لے آیا۔گھر والوں نے زخموں پر دوائی لگاکر پٹی باندھ دی ،مجھے کچھ دیر نیند آگئی، لیکن کچھ ہی دیر بعد درد کی شدت سے آنکھ کھل گئی۔ میں سوچ رہا تھا کہ اس بے چاری کو کس طرح بچایا جائے، اگر فجر طلوع ہونے تک وہ اسی ظالم کے قبضہ میں رہی تو اس کو طلاق ہوجائے گی اور اس کا گھر برباد ہوجائے گا۔ اے کاش !طلوعِ فجر سے قبل ہی وہ ظالم اسے چھوڑ دے۔ پھر اچانک مجھے خیال آیا کہ اس ظالم نے شراب پی رکھی ہے اسے اوقات کی معلومات بھی نہیں اگر میں ابھی اذان دے دوں تو وہ یہی سمجھے گا کہ فجر کا وقت ہوگیا ہے اور وہ اس عورت کو چھوڑ دے گا۔ اس طرح کم از کم اس بے چاری کا گھر تو بچ جائے گا ۔بس یہ خیال آتے ہی میں گرتا پڑتا مسجد پہنچا اور مینارے پر چڑھ کر بلندآواز سے اذان دی، اور اس ترکی افسر کے گھر کی طرف دیکھنے لگا ۔ ابھی کچھ دیرہی گزری تھی کہ باہر کی ساری سڑک گھوڑوں اور سپاہیوں سے بھر گئی ۔سپاہی بلند آواز سے کہہ رہے تھے :'' اس وقت اذان کس نے دی ہے؟'' پہلے"
"تومیں خاموش رہا پھر یہ سوچ کر کہ شاید اس عورت کی رہائی پر یہ سپاہی میری مدد کریں میں نے پکارکر کہا:'' میں یہاں موجود ہوں اور میں نے ہی اذان دی ہے۔'' سپاہیوں نے کہا:'' جلدی نیچے آؤ، تمہیں امیرالمؤمنین بلارہے ہیں۔'' میں ان سپاہیوں کے ساتھ خلیفہ مُعْتَضِد باللہ کے پاس آیا ۔اس نے بڑی شفقت سے مجھے اپنے قریب بٹھایا اور تسلی دینے لگا، میرا خوف جاتا رہا اور جب بالکل مطمئن ہوگیا تو کہا:'' تجھے کس نے مجبور کیا کہ تو وقت سے پہلے اذان دے کر مسلمانوں کو دھوکہ دے؟ذراسوچ تو سہی کہ مسافر تیری اذان سے دھوکہ کھا کر سفر شروع کر ديں گے، روزے دار کھانے پینے سے رک جائیں گے حالانکہ ابھی سحری کا وقت باقی ہے۔ بتا! کس چیز نے تجھے اس کام پر مجبور کیا؟'' میں نے ڈرتے ہوئے کہا:'' اگر امیرالمؤمنین مجھے جان کی امان عطا فرمائيں تو میں کچھ عرض کرتا ہوں۔'' خلیفہ نے کہا:'' تمہیں امان دی جاتی ہے، سچ سچ بتاؤ ۔''
میں نے اس ظالم ترکی افسر اور عورت کا سارا واقعہ کہہ سنایا اور اپنے زخم بھی خلیفہ کو دکھائے۔ خلیفہ نے غضبناک ہوکر سپاہیوں کو حکم دیا کہ'' ابھی ابھی اس ترکی افسر اورااس مظلومہ کو میرے سامنے حاضر کرو۔'' کچھ ہی دیر میں سپاہی اس ترکی افسر اور عورت کو خلیفہ کے پاس لے آئے ۔خلیفہ نے مجھے ایک کمرے میں بھیج کر عورت سے حقیقتِ حال دریافت کی تو اس نے بھی وہی کچھ بتایا جو میں نے بتایا تھا۔ خلیفہ نے چند قابلِ اعتماد عورتوں اور سپاہیوں کے ساتھ عورت کو اس کے گھر بھیج دیا اور اس کے شوہر کو پیغام بھجوایا کہ اس عورت کے ساتھ احسان اور بھلائی والا معاملہ کیاجائے کیونکہ یہ بے قصور ہے اگر اس پر سختی کی گئی تو سخت سزا دی جائے گی۔ پھر خلیفہ نے مجھے بلایا اور اس ترکی افسر کو مخاطب کر کے پوچھا :''بتا! تجھے کتنی تنخواہ ملتی ہے ؟بتا! تجھے کاروبار سے کتنا نفع ملتا ہے ؟ تیرے پاس کتنی کنیزیں اور لونڈیاں ہیں؟تیری سالانہ آمدنی کتنی ہے ؟''ترکی افسر نے اپنی کثیر آمدنی اور کنیزوں کے بارے میں بتایاتو خلیفہ نے کہا:'' اتنی نعمتیں ملنے کے باوجود تو نے اپنے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی کی ہے ۔ کیا تجھے حلال چیزیں کافی نہ تھیں؟ جو تونے حرام کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ اب تجھے دردناک سزا دی جائے گی۔ اے سپاہیو! جلدی چمڑے کا تھیلا اور چونا لے کر آؤ۔'' چمڑے کا مضبوط تھیلا اور چونا لایا گیا ،اس ترکی کو تھیلے میں بند کرکے اوپر سے چونا ڈال کر ہتھوڑوں سے ضربیں لگائی گئیں۔کچھ ہی دیر میں اس ظالم کے جسم کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں اوروہ موت کے گھاٹ اُتر گیا۔ خلیفہ نے حکم دیا کہ'' اس نامراد کی لاش دریائے دِجلہ میں پھینک دی جائے۔''
تمام فوجی افسر، وزراء و اعلیٰ عہدیداران یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ وہ افسر جس کے ذمے تیرا مال تھا وہ بھی وہاں موجود تھا۔ خلیفہ نے مجھے مخاطب کرکے کہا:''اے شیخ!ہمارے اس ملک میں آپ جہاں بھی کوئی برائی دیکھیں، جہاں کسی ظالم کو ظلم کرتا دیکھیں تو اسے روکیں، چاہے وہ کوئی بھی ہو۔'' پھر ایک بڑے افسر کی طرف اشارہ کرکے کہا:'' چاہے یہ اعلیٰ افسر ہی کیوں نہ ہو،تم اسے برائی سے روکنا اور اگر کوئی تمہارے خلاف جرأ ت کرے، تمہاری بات نہ مانے تو مجھے فوراً اطلاع کر دینا، ہمارے اور تمہارے"
"درمیان ''اذان '' نشانی ہو گی۔ تم وقت سے پہلے اذان دے دینا میں سمجھ جاؤں گا اور تیری آواز سنتے ہی تیری مدد کو پہنچوں گا۔ جو تجھے تکلیف پہنچائے گا اس ظالم ترکی افسر کی طرح میں اُسے عبرتناک سزادوں گا۔ اب جاؤ اور اپنے کام کی پابندی کرو۔'' خلیفہ کی یہ بات سن کر میں سے وہاں سے آگیا۔ صبح ہوتے ہی یہ خبر پورے شہر میں پھیل گئی ہر خاص وعام کو میرے اختیارات کے متعلق معلوم ہوگیا اس دن سے لے کر آج تک ایک مرتبہ بھی ایسانہ ہوا کہ میں نے کسی کو انصاف دلوایا ہو اور اسے انصاف نہ ملا ہو۔ خلیفہ کے ڈر سے ہر شخص میری ہربات فوراً مان لیتا ہے۔ ابھی تک دوبارہ وقت سے پہلے اذان دینے کی نوبت نہیں آئی۔ یہ ہے میرا واقعہ ۔''یہ کہہ کر درزی اپنے کام میں مصروف ہوگیا اور میں گھر چلاآیا۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
ابو محمد عبداللہ بن حمدون کا بیان ہے، ایک دفعہ خلیفہ مُعْتَضِد باللہ شکار کے لئے گیا سپاہی ابھی پیچھے تھے میں خلیفہ کے ساتھ تھا کہ اچانک قریبی کھیت کے مالک نے چیخ وپکارشروع کردی۔خلیفہ نے اسے بلاکرشورمچانے کاسبب دریافت کیاتواس نے کہا:'' آپ کے لشکر کے چند سپاہیوں نے میرے کھیت سے کھِیر ے چرائے ہیں۔'' خلیفہ نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ'' مجرموں کو ہمارے سامنے پیش کرو۔'' تین شخصوں کولایا گیا۔ خلیفہ نے کھیت والے سے پوچھا:'' کیایہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے تمہارے کھیرے چُرائے ہیں؟'' اس نے اثبات میں سر ہلادیا۔ خلیفہ نے حکم دیا کہ'' انہیں ہتھکڑیاں پہنا کر قید میں ڈال دو ۔'' دوسرے دن خلیفہ نے تین مجرموں کو بلایا اور حکم دیا کہ'' انہیں کھیرے کے کھیت میں لے جاکر قتل کردو۔'' لوگوں کو اس حکم سے بڑی کوفت ہوئی کہ صرف چند کھیروں کی خاطر تین جانوں کو قتل کروایا جارہا ہے، لیکن حکمِ شاہی کے سامنے کسی کو کچھ بولنے کی ہمت نہ ہوئی اورتین مجرموں کو قتل کردیا گیا۔ لوگوں نے خفیہ طورپراس واقعہ کی شدید مخالفت کی ،لیکن آہستہ آہستہ بات رفع دفع ہوگئی ۔کا فی عرصے کے بعد ایک رات میں خلیفہ مُعْتَضِد باللہ کے پاس بیٹھا ہوا تھاکہ اس نے مجھ سے کہا:'' اگر لوگ ہمارے متعلق کوئی بری بات کہتے ہیں تو بتاؤ تاکہ ہم اپنی برائی کا ازالہ کریں۔'' میں نے کہا: ''امیرالمؤمنین میں ایسی کوئی برائی نہیں۔''خلیفہ نے کہا:'' میں تجھے قسم دیتا ہوں سچ سچ بتاؤ ۔''میں نے کہا:'' کیا آپ مجھے امان دیتے ہیں؟'' کہا:'' ہاں! تمہیں امان ہے، بتاؤ! مجھ میں کیا برائی ہے ؟''میں نے کہا:''عالی جاہ !آپ خون بہانے میں بہت جلدی کرتے ہیں، یہ بہت بری بات ہے ۔''خلیفہ نے کہا:'' خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم !جب سے
"میں خلیفہ بنا ہوں کسی ایک کو بھی ناحق قتل نہیں کیا ۔''
یہ سن کر میں خاموش ہوگیاتو خلیفہ نے کہا:'' اور بتاؤ ۔''میں نے کہا:''لوگ کہتے ہیں کہ آپ نے اپنے خادمِ خاص احمد بن ابوطیب کو قتل کروا دیا حالانکہ اس کی کوئی خیانت ظاہرنہ ہوئی تھی۔'' خلیفہ نے کہا :''اس نے مجھے کفر واِلحاد کی دعوت دی تھی۔ اب تم بتاؤ کیا میں نے اسے قتل کرواکر برا کام کیا ہے ؟میں نے اسے اس کی باطل دعوت کی سزا دی تھی اس کے علاوہ کوئی اور برائی بتاؤ جو مجھ سے سرزد ہوئی ہو۔'' میں نے کہا:''لوگ اُن تین شخصوں کے قتل کی وجہ سے آپ سے بیزار ہے جنہیں آپ نے صرف چند کھیروں کے بدلے قتل کروا دیا تھا۔''خلیفہ نے کہا :''اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم !قتل ہونے والے تینوں شخص وہ نہیں تھے جنہوں نے کھیرے چرائے تھے بلکہ قتل ہونے والے توخطرناک ڈاکوتھے، انہوں نے فلاں جگہ چوری کی تھی، فلاں جگہ ڈاکہ ڈالا تھا، وہ تو بدترین مجرم تھے، یہ علیحدہ بات ہے کہ انہیں کھیت میں قتل کیا گیا ۔بات دراصل یہ ہے کہ '' جب کھیت کے مالک نے ان کی شکایت کی اور تین سپاہیوں کو پکڑوادیا تومیں نے انہیں قید میں ڈالوادیااور دوسرے دن تین ڈاکوؤں کو کھیت میں لے جاکر قتل کروا دیا اور ان کے چہروں کو ڈھانپنے کا حکم دیا تاکہ لوگ انہیں پہچان نہ سکیں اور تمام فوج یہ جان لے کہ جب کھیرے چوری کرنے کے جرم میں قتل کر دیا جاتا ہے تو بڑے جرموں کی کتنی دردناک سزا ملے گی، میں نے ظلم و زیادتی روکنے کے لئے یہ طریقہ اپنایا تھا ۔باقی وہ تینوں جنہوں نے کھیرے چرائے تھے وہ ابھی تک قید میں موجود ہیں۔'' یہ کہہ کر خلیفہ نے ان تینوں کو بلوایا قید میں رہنے کی وجہ سے ان کی حالت تبدیل ہوچکی تھی ۔ خلیفہ نے ان سے کہا : ''بتاؤ تمہیں قید میں کیوں ڈالا گیا؟''کہا ہمیں چند کھیروں کی چوری کے جرم میں قید کردیا گیا تھا۔'' خلیفہ نے کہا:''اگر میں تمہیں چھوڑ دوں تو کیا تم اپنی سابقہ غلطیوں سے تائب ہوجاؤ گے ؟''سب نے بیک زبان کہا:''جی ہاں۔'' یہ سن کرخلیفہ نے انہیں چھوڑدیااور بہت سے تحائف دیئے اور ان کی تنخواہوں میں بھی اضافہ کردیا ۔کچھ ہی دنوں میں خلیفہ کی یہ بات سارے شہر میں پھیل گئی اور خلیفہ پر ناحق قتل کرنے کی جو تہمت تھی وہ دور ہوگئی اور حقیقت واضح ہوگئی ۔
(اللہ عَزَّوَجَلَّ ہم سب کی مغفرت فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
حضرتِ سیِّدُنامحمدحاتم تِرْمِذِی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:''حضرتِ سیِّدُنااحمدبن خَضْرَوَیْہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کاانتقال پچانوے (95)سال کی عمرمیں ہوا۔جب ان پرنِزاع کی کیفیت طاری ہوئی تواس وقت میں ان کے پاس موجودتھا۔کسی نے
"آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے کوئی مسئلہ پوچھا،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی آنکھوں سے آنسوجاری ہوگئے اورروتے ہوئے فرمایا:''میرے بیٹے! پچانوے(95 )سال ہوگئے میں ایک دروازے کوکھٹکھٹارہاہوں ،اب وہ میرے لئے کھلنے والاہے۔مجھے نہیں معلوم کہ وہ میرے لئے سعادت مندی کے ساتھ کھلے گایابدبختی کے ساتھ بس اب میں جواب کامنتظرہوں۔''
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پر نوسو(900)دینارقرض تھا۔قرض خواہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس ہی موجودتھے ۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ان کی طرف دیکھا اور بارگاہِ خدوندی عَزَّوَجَلَّ میں اس طرح عرض گزارہوئے:''اے میرے پاک پروردگارعَزَّوَجَلَّ تونے رَہن کو مالداروں کے لئے دستا ویز بنایا۔میرے خالق ومالک عَزَّوَجَلَّ !تُومیرے قرض خواہوں کوان کاقرض ادافرمادے۔''
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ابھی دعاسے فارغ بھی نہ ہوئے تھے کہ کسی نے دروازے پردستک دیتے ہوئے کہا:''کیایہ احمدبن خَضْرَوَیْہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کاگھرہے؟''لوگوں نے کہا:''ہاں!یہ انہی کاگھرہے؟''کہا:''ان کے قرض خواہ کہاں ہیں؟''یہ سن کرقرض خواہ باہر گئے توآنے والے اجنبی نے سب کاقرض اداکیااورچلاگیا۔پھر حضرتِ سیِّدُنااحمدبن خَضْرَوَیْہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کاانتقال ہوگیا۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
حضرتِ سیِّدُناجنید ِ بغدادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی فرماتے ہیں کہ:''ایک رات میں نے حضرتِ سیِّدُناسَرِی سَقَطِیِ علیہ رحمۃ اللہ القوی کے ہاں قیام کیا۔جب رات کاکچھ حصہ گزر گیاتوآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:''اے جنید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ!کیاتم سوگئے ہو؟''میں نے عرض کیـ: ''حضور!میں جاگ رہاہوں۔''فرمایا:ابھی ابھی میں نے خواب میں دیکھاکہ میرے پاک پروردگارعَزَّوَجَلَّ نے مجھے اپنی بارگاہ میں بُلاکر ارشاد فرمایا: ''اے سَرِی !کیاتُوجانتاہے کہ میں نے مخلوق کوکیوں پیدافرمایا؟''میں نے عرض کی :''اے میرے خالق عَزَّوَجَلَّ مجھے معلوم نہیں۔''ارشادفرمایا:''میں نے مخلوق کوپیداکیاتوسب نے مجھ سے محبت کادعویٰ کیا۔پھرمیں نے دنیا کو پیدا کیا تو دس ہزار(10000) میں سے نوہزار(9000)میری محبت سے غافل ہوکردنیاکی محبت میں کھوگئے۔پھر میں نے جنت کو پیدا فرمایاتوہزارمیں سے نو سو (900) میری محبت سے غافل ہوکرجنت کی محبت میں کھوگئے ۔ میں نے ان پرکچھ آلام و مصائب نازل کیئے توان مصیبتوں کی وجہ سے سومیں سے نوے (90)میری یادسے غافل ہوگئے۔بقیہ دس (10) بچے۔میں نے ان سے کہا:''نہ تو تم نے دنیاکاارادہ کیا،نہ جنت کی رغبت کی اورنہ ہی مصیبتوں کی وجہ سے بھاگے،بتاؤ تم کیا چاہتے ہو؟''انہوں نے کہا:''اے ہمارے علیم
"وخبیرپروردگارعَزَّوَجَلَّ تُوہماری چاہت کوخوب جاننے والاہے۔''ارشادفرمایا:''میں تم پر ایسی ایسی آزمائشیں اور مصیبتیں ڈالوں گاکہ جنہیں بلندوبالاپہاڑبھی برداشت نہیں کرسکتے ، کیااس صورت میں بھی تم صبروشکرکے ساتھ استقامت پرقائم رہو گے؟'' عرض کی : ''اے ہمارے پروردگارعَزَّوَجَلَّ !تُو جانتاہے کہ اب تک تُونے ہم پرجتنی مصیبتں نازل کیں ہم ان سب پر راضی رہے اورآئندہ بھی ہرحال میں تجھ سے راضی رہیں گے۔''
اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشادفرمایا:''تم ہی میرے مخلص بندے ہو۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُناعبدالرحمن بن ابراہیم فِہْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی سے منقول ہے کہ:''ایک غریب شخص کسی امیرکے پاس اپنی حاجت طلب کرنے گیاتودیکھاکہ وہ سجدہ کی حالت میں ،اللہ عَزَّوَجَلَّ سے دعائیں مانگ رہاہے۔غریب شخص نے کہا:''یہ شخص توخود محتاج ہے پھرمیں اپنی حاجت اس سے کیوں بیان کروں؟مجھے کیاہوگیاکہ میں اُس کی بارگاہ میں اپنی حاجت بیان نہیں کرتا جوسب کی حاجتیں پوری کرنے والاہے۔امیرنے جب یہ آوازسنی تواس غریب کو دس ہزار(10000)درہم دیتے ہوئے کہا:'' یہ ساری رقم تجھے اس نے عطاکی ہے جس سے میں مانگ رہاتھا ۔جاؤ!یہ سارامال لے جاؤ!اللہ تعالیٰ اس میں بَرَکت دے۔''
سلمان بن ایوب کابیان ہے کہ''جب وہ غریب شخص واپس گیاتوراستہ میں ایک کنویں میں گرگیا۔وہاں کوئی ایساشخص نہ تھا جو اس کی مددکرتا۔جب اسے خلاصی کی کوئی راہ نظرنہ آئی تو بارگاہِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ میں اس طرح عرض گزا ر ہوا: ''اے وہ ذات کہ عرش کے کناروں سے زمین کی سب سے نچلی تہہ تک اس کے سوا کوئی ایسانہیں جو عباد ت کے لائق ہو۔ بے شک تُواکیلاہی عبادت کے لائق ہے۔میرے خالق عَزَّوَجَلَّ !تُوبہترجانتاہے کہ اس وقت مجھ پرکیامصیبت نازل ہوئی ہے؟ میرے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ !میری خلاصی کی راہ بنادے ۔''ابھی اس شخص کے دعائیہ کلمات مکمل بھی نہ ہونے پائے تھے کہ وہ کنوئیں سے نکل کر باہرزمین پر آگیا۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
" حضرتِ سیِّدُناعبیداللہ بن محمدقُرَشِی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:''سابقہ لوگوں میں سے چند نیک لوگوں نے ایک کتاب کے بارے میں بیان کیاکہ اس میں بے شمارعبرت آموزباتیں اورفکرِ آخرت دلانے والی متعددحکایات واَمثال(مثالیں) ہیں۔ عقلمند اس کے مطالعہ سے آخرت کی طرف راغب ہوتااورفانی دنیاسے بیزارہوجاتاہے۔وہ کتاب'' اُنطونس'' کی طرف منسوب ہے ۔ ''اُنطونس '' کے بارے میں منقول ہے کہ حضرتِ سیِّدُناعیسیٰ روح اللہ علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃوالسلام کے مُبَارَک زمانے کے بعدیہ ایک بادشاہ گزرا ہے ،جس نے تین سوبیس(320 )سال عمرپائی ۔جب وفات کاوقت آیاتواس نے اپنی سلطنت کے تین نیک وپارسااورصاحب علم سرداروں کوبلایا اورکہا:''تم جانتے ہوکہ میں اب کس حالت میں ہوں اورمجھے کیاواقعہ پیش آنے والاہے۔تم لوگ سلطنت کے عظیم و افضل لوگوں میں سے ہو۔میں نہیں جانتاکہ تم تینوں میں سے امورِسلطنت کے لئے کون زیادہ بہتررہے گا؟اس لئے میں نے قوم کے بہترین لوگوں میں سے چھ(6)افراد کومنتخب کیاہے، وہ تم میں سے جسے مناسب سمجھیں میرے بعداپنابادشاہ مقررکرلیں۔تم ان کے فیصلے کوبخوشی قبول کرلینا۔خبردار!اختلاف سے بچناورنہ تم خودبھی ہلاک ہوجاؤگے اوراپنی رعایاکوبھی ہلاکت میں مبتلاکردو گے ۔ '' تینوں نے کہا:'' اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کی عمردرازفرمائے ۔ ' ' باد شاہ نے کہا: '' موت ضرورآنی ہے اس سے بچانہیں جاسکتا۔تم میری باتوں پرضرورعمل کرنا۔'' پھراسی رات بادشاہ کاانتقال ہوگیا۔جن چھ سرداروں کو نئے بادشاہ کے انتخاب کااختیاردیاگیاتھاوہ سردارکسی ایک پرمتفق نہ ہوئے بلکہ دو،دو،سردارہرایک کے ساتھ ہو گئے ۔ جب ملک کے بزرگوں اورحکماء نے یہ اختلاف دیکھاتو کہا:'' تمہارے درمیان تو ابھی سے اختلاف شروع ہوگیا،سنو! ہمارے ملک میں ایک ایسا شخص ہے جو سب سے افضل ہے ،اس کی حکمت ودانائی میں کسی کوشک نہیں۔وہ جس کوبادشاہ مقرر کر دے گاوہ باعثِ برکت ہوگا ۔جاؤ! تم اس کے پاس چلے جاؤوہ فلاں پہاڑپرایک غارمیں رہتاہے ۔
چنانچہ، ان تینوں نے چھ سرداروں میں سے ایک کو عا ر ضی طورپرامورِ سلطنت کانگران بنایااورخود ''انطونس'' نامی راہب کے پاس چلے گئے اورحقیقتِ حال بیان کرتے ہوئے کہا:''آپ ہم میں سے جس پرراضی ہوجائیں گے وہی بادشاہ ہوگا۔''راہب نے کہا: ''لوگوں سے دورہوکرمجھے کچھ فائدہ نہ پہنچا۔میری اورلوگوں کی مثال تواس شخص کی طرح ہے جس کے جانوروں کے باڑے میں بھیڑیئے گُھس آئے ہوں وہ بھیڑیوں سے جان بچاکرایک اورگھرمیں پہنچے تو وہاں شیرموجودہوں۔''یہ سن کران تینوں نے کہا:''ہم جس کام کے سلسلے میں آئے ہیں اس کی طرف ہمارے ملک کے اہلِ علم حضرات نے راہنمائی کی ہے،ان کی رائے ہے کہ آپ کے مشورے میں برکت وبھلائی ہوگی ۔برائے کرم! آپ ہم میں سے جس کو بہتر گمان کرتے ہیں اس کی تعیین فرمادیں تاکہ وہ"
"ملک کے نظام کوسنبھال سکے۔''راہب نے کہا:''میں نہیں جانتاکہ تم میں سے افضل کون ہے؟تم سب ایک ہی چیز کے طالب ہو اور اس طلب میں تم سب برابر ہو۔'' تینوں میں سے ایک نے سوچاکہ اگرمیں اس عہدے سے بیزاری ظاہرکروں توشایدمجھے ہی بادشاہی سونپ دی جائے۔ چنانچہ، اس نے راہب سے کہا:''میں اس بادشاہی منصب کے بارے میں اپنے دونوں ساتھیوں سے ہرگز نہیں اُلجھوں گا۔'' راہب نے کہا: ''میراتویہ گمان ہے کہ تیرے دونوں ساتھیوں میں سے کوئی بھی تیرے علیحدہ ہوجانے کو ناپسند نہیں کرتا۔اب تم ہی ان دونوں میں سے جسے چاہوبادشاہت کے لئے چن لواورمیرے کان میں بتادو،میں اُسی کوبادشاہ بنا دوں گا۔''اس نے راہب کی یہ بات سنی توکہا:''عالیجاہ ! آ پ جسے چاہیں اختیارفرمالیں میں یہ کام نہیں کرسکتا۔''راہب نے کہا: ''اس سے تویہی ظاہرہورہاہے کہ تم نے اپنی دستبرداری کے قول سے ر جوع کرلیاہے اورتم اب بھی بادشاہت کےمُتَمَنِّی(یعنی خواہش مند) ہو،اب پھرتم تینوں میری نظرمیں برابر ہو گئے ہو۔ میری باتیں بڑی غو رسے سننا!میں تمہیں نصیحت کروں گا،دنیااوراس میں تمہاری موجودگی کی مثالیں پیش کروں گا۔تم سب سمجھ دار اور اہلِ علم ہو۔مجھے بتاؤ کہ تمہاری بادشاہت اورتمہاری عمریں کتنی طویل ہوں گیں؟تم کتناعرصہ زندہ وباقی رہوگے ؟''تینوں نے کہا: ''ہمیں نہیں معلو م کہ ہم کتنا عرصہ زندہ رہیں گے؟ہوسکتاہے پلک جھپکنے کی مقداربھی زندہ نہ رہ سکیں۔''راہب نے کہا:''پھرتم ایک غیریقینی چیز کے دھوکے میں کیوں پڑے ہو؟''کہا:''صرف اس امیدپرکہ شایدہماری عمریں طویل ہوں۔''راہب نے پوچھا: ''اچھایہ بتاؤتمہاری عمرکتنی ہے ؟ ''کہا:''ہم میں سے سب سے چھوٹاپینتیس(35)سال اورسب سے بڑا چالیس (40) سال کا ہے ۔''
راہب نے پوچھا:''اچھایہ بتاؤ ،زیادہ سے زیادہ تم کتناعرصہ زندہ رہناپسند کرتے ہو؟'' کہا:''چالیس سے زیادہ زندہ رہناہمیں پسند نہیں اورنہ ہی اتنی عمرکے بعدزندہ رہنافائدہ مندہے ۔''راہب نے کہا:''پھرتم اپنی بقیہ عمرمیں اس ملک کوحاصل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے جوکبھی بربادنہ ہوگا؟ایسی نعمتیں کیوں نہیں چاہتے جوکبھی ختم نہ ہوں گی ؟ ایسی لذت وزندگی کو محبوب کیوں نہیں رکھتے جسے مو ت بھی ختم نہیں کرے گی؟نہ وہ زندگی ختم ہوگی ،نہ وہاں غم وپریشانی ہوگی نہ بیماری ۔تم ایسی نعمتوں کے لئے کیوں کوشش نہیں کر تے ؟ '' کہا:''ہمیں امیدہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے ہمیں یہ چیزیں ضرورملیں گی ۔''راہب نے کہا :''تم سے پہلے بھی ایسے لوگ تھے جوایسی ہی امیدیں کرتے تھے جیسی تم کرتے ہو۔وہ بھی ایسی ہی خواہش کرتے تھے جیسی تم کرتے ہو ۔انہوں نے انہی امیدوں کی وجہ سے اعمالِ صالحہ ترک کردیئے یہاں تک کہ انہیں موت آپہنچی پھرسزاان کامُقَدَّر بنی اورتم تک ان کی خبریں پہنچ چکی ہیں ۔ جسے معلوم ہو کہ سابقہ لوگوں کاکیاانجام ہوااس کے لئے مناسب نہیں کہ وہ بغیر عمل کے امید کرے ۔ اوریہ بات بالکل واضح ہے کہ جوشخص لَق ودَق(ویران)صحراء میں پانی ساتھ لئے بغیرسفرکرے توقریب ہے کہ پیاس کی شدت سے مرجائے ۔میں دیکھ رہاہوں کہ تم اپنے جسموں کوہلاک کرنے کے بارے میں امیدوں پربھروسہ کرتے ہولیکن"
"زندگی سنوار نے کے لئے امیدوں پربھروسہ نہیں کرتے ،جس گھرکی بربادی کاتمہیں علم ہے تم اسی کے حصول کے لئے کوشاں ہواورہمیشہ رہنے والے گھرکوعارضی دنیاکی وجہ سے چھوڑرہے ہو ۔ اچھا یہ بتاؤکہ جس شہر میں تم نے مکانات ومحلات تعمیرکئے اگرتم سے کہاجائے کہ عنقر یب اس شہرپرایک زبردست بادشاہ بہت بڑا لشکرلے کر حملہ آور ہوگاوہ تمام عمارتیں گرادے گا اور شہریوں کو قتل کردے گا ''تو کیا تم ایسے شہرمیں رہنا پسند کرو گے؟ کیاایسی عمارتوں میں رہائش اختیارکروگے؟''تینوں نے کہا:''نہیں ،ہم لمحہ بھرکے لئے بھی ایسے شہر میں رہناپسندنہیں کریں گے۔'' راہب نے کہا: ''خداعَزَّوَجَلَّ کی قسم!تمام بنی آدم کامعاملہ کچھ ایساہی ہے ، عنقریب سب کوموت کا سا منا کرناپڑے گا، دُنیا کا ہر شہر بالآخرختم ہوجائے گا۔ہاں!میں تمہیں ایک ایسے شہرکے متعلق بتاتاہوں جوکبھی فنانہ ہوگا۔اس میں اَمن ہی اَمن ہوگا۔وہاں تمہیں کوئی ظالم اپنے ظلم کا نشانہ نہ بناسکے گااورنہ ہی کوئی جابر حاکم مُسَلَّط ہوگا،وہاں کے پھل وباغات کبھی ختم و کم نہ ہوں گے۔''
تینوں نے کہا:''آپ جوکہناچاہتے ہیں ہم سمجھ گئے ہیں،لیکن ہمارے نفس تودنیاکی محبت کاجام پی چکے ہیں، ا ب اس دائمی نعمتوں والے شہر(جنت)کا حصول اتنا آسان نہیں؟''راہب نے کہا:''بڑے سفروں کی وجہ سے بڑے بڑے منافع حا صل ہوتے ہیں۔ تعجب ہے کہ جاہل اورعالم اپنے آپ کوہلاک کرنے کے بارے میں برابرکیسے ہوگئے ۔مگرہاں!یہ بات ہے کہ جو چور چوری کی سزاسے ناواقف ہووہ اس چورسے زیادہ معذورہے جو سزاسے واقفیت کے باوجودچوری کرے ۔تعجب ہے اس شخص پر جواپنی آخرت کی بھلائی کے لئے مال خرچ نہیں کرتابلکہ دوسروں پرخرچ کرتاہے ۔میں اس دنیاکے لوگوں کودیکھ رہاہوں کہ یہ ا پنے لئے آخرت میں ذخیرہ تیارنہیں کرتے۔ایسالگتاہے جیسے انہیں اُن باتوں پریقین ہی نہیں جوانبیاء کرام علٰی نبیناوعلیہم الصلٰوۃ والسلام نے بتائیں اور جنہیں لے کروہ پاک ہستیاں اس دنیامیں مبعوث ہوئیں۔''تینوں نے کہا:''ہم اس قوم میں کسی ایسے شخص کو نہیں جانتے جو انبیاء کرام علٰی نبیناوعلیہم الصلٰوۃوالسلام کی لائی ہوئی باتوں میں سے کسی کی تکذیب کرتاہو۔''راہب نے کہا: ''مجھے بہت زیادہ تعجب ہے کہ لو گ کہتے تویہ ہیں کہ ہم تصدیق کرتے ہیں ،لیکن ان کاعمل ان کے قول کے خلاف ہے گویا وہ بغیراعمال کے ثواب کی امیدرکھتے ہیں۔'' تینوں نے راہب سے کہا:''ہمیں بتایئے کہ آپ کوامورکی معرفت کس طرح حاصل ہوئی ؟ آپ کس طرح دنیاکی حقیقت سے آگاہ ہوئے ؟ ' ' کہا:''جب میں نے اس دنیاکی ہلاکت کے بارے میں غوروفکرکیاتویہ بات واضح ہوئی کہ ہلاکت چارایسی چیز و ں کی وجہ سے ہوتی ہے جن میں لذت رکھی گئی ۔اوریہ چاردروازے ہیں جوجسم میں ترکیب دیئے گئے ہیں۔ان میں سے تین سرمیں اور ایک پیٹ میں ہے۔دوآنکھیں،دونتھنے اورگلایہ سرکے دروازے ہیں۔اور چوتھی راہ جوپیٹ میں ہے وہ شرمگاہ ہے ۔ انہی دروازوں سے انسان پربلائیں اورمصیبتیں آتی ہیں ۔پھر جب میں نے غور وفکر کیاکہ تکلیف کے اعتبارسے کون سادروازہ زیادہ خفیف ہے ؟تو سب سے زیادہ خفیف دروازہ نتھنے محسوس ہوئے کیونکہ یہ خوشبو"
"اوردیگرسوگھنے والی چیزوں کو چا ہتے ہیں ۔ بقیہ تین دروازوں کے بارے میں غورکیاتوگلاکی مشقت سب سے زیادہ ہلکی محسوس ہوئی کیونکہ یہ جسم کا ایسا راستہ ہے جس کے ذریعے سے غذاپیٹ تک پہنچتی ہے۔ اورجب پیٹ کابرتن بھرجاتاہے تویہ دروازہ برابرہوجاتاہے۔ لہٰذامیں نے نفسانی خواہشات والے کھانوں کوترک کردیااور صرف ایسی غذاپیٹ کے برتن میں ڈالی جس سے جسم سلامت رہ سکے ۔پھرمیں نے شرمگاہ کی مصیبت کے بارے میں غورکیاتویہ بات واضح ہوئی کہ شرمگاہ اورآنکھوں کاتعلق دل سے ہے اورآنکھوں کادروازہ شہوت کا ساقی ہے اوریہ دونوں جسم کی ہلاکت کابڑاسبب ہیں۔ لہٰذامیں نے پختہ ارادہ کرلیاکہ میں ان دونوں مصیبتوں کواپنے سے دورکردوں گا۔کیونکہ ان کوچھوڑدینامیرے نزدیک اپنے جسم کوہلاکت میں ڈالنے سے آسان ہے۔ خوب غوروخوض کے بعدیہی بات سامنے آئی کہ ان مصیبتوں سے چھٹکاراپانے کاسب سے بہترین حل لوگوں سے دوری اختیار کرنا ہے ۔ پھرمیں نے دنیاوالوں کوچھوڑااوراس مقام پرعبادتِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں مشغول ہوگیا،اس طرح مجھے گناہوں کی مصیبت سے نجات مل گئی۔پھرمیں نے اپنے اندرچارلذَّتیں محسوس کیں تو چار اچھی خصلتوں سے انہیں دفع کر دیا۔''
پوچھا:''وہ لذ تیں کون سی ہیں؟اور وہ خصلتیں کیاہیں؟''راہب نے کہا:''لذتیں تو یہ ہیں (۱)۔۔۔۔۔۔مال کی لذ ت، (۲)۔۔۔۔۔۔اولادکی لذت،(۳)۔۔۔۔۔۔بیویوں کی لذت اور(۴)۔۔۔۔۔۔سلطنت کی لذت۔ اور چارخصلتیں یہ ہیں(۱) ۔۔۔۔۔۔فکر (۲)۔۔۔۔۔۔غم (۳) ۔۔۔۔۔۔خو ف اور(۴)۔۔۔۔۔۔اس موت کا ذکرجولذتوں کو ختم کرنی والی ہے۔حقیقت تویہ ہے کہ کسی بھی لذت میں کوئی خیر نہیں اور موت ہرلذت کوختم کردے گی ا ورکون ساگھرایساہے جواس مصیبتوں کے گھرسے زیادہ بُرااورشرانگیزہوگا؟سنو!تم لوگ اس شخص کی طرح ہوجاؤ جو اپنے شہرسے رزق کی تلاش میں نکلا توپیچھے سے دشمنوں نے اس شہرپرحملہ کردیا،وہاں کے مکینو ں کوسخت اِیذائیں پہنچائیں اور تمام مال واسباب پرقبضہ کرلیا۔لیکن وہ شخص پہلے ہی اپنے شہرسے چلاگیااوراس طرح تکلیفوں اور مصیبتوں سے محفوظ رہا۔ سنو!مجھے اہلِ دنیا پربہت زیادہ تعجب ہوتاہے کہ وہ غم،پریشانی اورتکلیفوں کے ہوتے ہوئے لذات سے کیسے فائدہ اٹھاتے ہیں؟تعجب اورشدیدتعجب ہے ان عقل مندوں پرجواپنے جسموں کی سلامتی نہیں چاہتے ۔ایسالگتاہے کہ وہ اپنے آپ کو اس طرح ہلاک کرنا چاہتے ہیں جیسے '' سانپ والے''نے اپنے آپ کوہلاک کیا۔'' پوچھا:''وہ ''سانپ والا''کون تھا ؟ ذرا تفصیل سے بتائیے!"
راہب نے کہامنقول ہے کہ:'' ایک شخص کے گھرمیں ایک سانپ رہتاتھا،سب گھروالوں کواس کامسکن(رہنے کا مقا م ) بھی معلوم تھا۔ سانپ روزانہ سونے کاایک انڈہ دیتاجس کاوزن ایک مثقال ہوتا۔صاحب ِمکان روزانہ اس کے بِل سے سونے کا انڈہ لے آتا۔اس نے گھروالوں کوبتادیاکہ وہ اس معاملہ کو پوشیدہ رکھیں ۔ کئی ماہ یہ سلسلہ چلتا رہاحاصل کرتارہا۔ایک دن سانپ اپنے بِل سے نکلااوراس کی بکری کوڈَس لیا ۔سانپ کازہرایساجان لیواتھاکہ فوراًبکری کی موت واقع ہوگئی۔ سب گھر
"والے بہت غضبناک وپریشان ہوئے تو اس شخص نے کہا:''ہمیں سانپ سے جو نفع حاصل ہوتاہے وہ بکری کی قیمت سے کہیں زیادہ ہے، لہٰذاغم کی کوئی بات نہیں ۔''اس طرح معاملہ رفع دفع ہوگیا۔سال کے شروع میں سانپ پھر باہرآیا اوراس کے پا لتو گدھے کوڈس لیا گدھافوراًمرگیا۔ اس شخص نے گھبراتے ہوئے کہا:''میں دیکھ رہاہوں کہ یہ سانپ ہمیں مسلسل نقصا ن پہنچا رہا ہے۔ جب تک یہ نقصان جانوروں تک محدودرہے گامیں صبرکروں گااس کے بعدہرگزصبرنہیں کروں گا۔''پھردوسال تک سا نپ نے انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچائی، تمام گھروالے سانپ سے بہت خوش رہنے لگے اوراس کے معاملے کولوگوں پرپوشیدہ رکھا ۔ پھر ایک دن سانپ اپنے بل سے باہرنکلااوران کے سوتے ہوئے خادم کو ڈَس لیا۔اس بے چارے نے مددکے لئے اپنے مالک کوپکارامالک پہنچالیکن اتنے میں زہرکی وجہ سے غلام کاجسم پھٹ چکاتھا۔اس نے کہا:''میں دیکھ رہاہوں کہ اس سانپ کازہربہت خطرناک ہے ،یہ جسے ڈس لیتاہے اس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔اب میں اپنے گھروالوں کے بارے میں اس سے مطمئن نہیں ہوسکتاکہیں ایسانہ ہوکہ یہ ان میں سے کسی کوڈس لے۔اسی سوچ وپریشانی میں کئی دن گزرگئے ۔پھراس نے کہا:''اس سانپ کی وجہ سے مجھے مالی نقصان ہو ر ہا ہے لیکن جوفائدہ اس کے سونے کے انڈوں کی وجہ سے مجھے حاصل ہورہاہے وہ نقصان سے کہیں زیادہ ہے، لہٰذامجھے پریشان نہیں ہونا چاہیے۔''اس طرح اس لالچی شخص نے اپنے آپ کومطمئن کرلیا۔
کچھ دنوں بعدسانپ نے اس کے بیٹے کوڈس لیا۔اس نے فوراًطبیب کوبلایالیکن طبیب علاج نہ کرسکااوراس کے بیٹے کی موت واقع ہوگئی ۔اب توماں ،باپ کوبیٹے کی موت کاایساغم ہواکہ سانپ سے پہنچنے والا تمام نفع بھول گئے اورغضبناک ہوکر کہا:''اب اس سانپ میں کوئی بھلائی نہیں، بہتریہی ہے کہ اس موذی کوفوراًقتل کردیاجائے ۔''سانپ نے ان کی یہ باتیں سنیں توکچھ دنوں تک غائب رہااس طرح انہیں سونے کاانڈہ نہ مل سکا۔ جب زیادہ عرصہ ہوگیاتو انڈہ نہ ملنے کی وجہ سے ان کی لالچی طبیعت میں بے چینی ہونے لگی۔ چنانچہ وہ اوراس کی بیوی ،سانپ کے بل کے پاس آئے،وہاں دھو نی دی،خوشبومہکائی اوراس طرح پکارنے لگے:''اے سانپ تُودوبارہ ہمارے پاس آجا!ہم نہ توتجھے ماریں گے اورنہ ہی کسی قسم کا نقصا ن پہنچائیں گے ،جلدی سے ہمارے پاس آجا۔''سانپ نے یہ سناتوواپس آگیا اوران کی خو شیاں پھر لوٹ آئیں۔ وہ اپنے بیٹے اورغلام کی موت کوبھول گئے اورایسے رہنے لگے گویا اس موذی جانورسے کوئی نقصان پہنچاہی نہ ہو۔پھرایک دن سانپ نے سوتے ہوئے اس کی زوجہ کو ڈس لیاوہ شدتِ دردسے چیخنے لگی اور تڑپ تڑپ کرہلاک ہوگئی ۔اب وہ لالچی شخص اکیلارہ گیا،نہ اولادرہی اور نہ ہی بیوی ۔بالآخراس نے سانپ والامعاملہ اپنے بھا ئیوں اوردوستوں کے سامنے ظاہرکرہی دیا۔سب نے یہی مشورہ دیاکہ'' اس موذی سانپ کوجلدازجلدقتل کردے،تو نے اسے قتل کرنے کے معاملہ میں بڑی بے احتیاطی بَرتی اس کادھوکہ اوربرائی تیرے سامنے کب کی ظاہرہوچکی تھی ،تُونے خوداپنے آپ کوہلاکت میں ڈ ا لاہے ۔بہتریہی ہے کہ جتناجلدی ہوسکے اسے قتل کردے۔''"
" چنانچہ، وہ شخص اپنے گھرآیااورسانپ کی گھات میں بیٹھ گیا۔اچانک سانپ کے بل کے قریب اسے ایک نایاب موتی نظرآیاجس کاوزن ایک مثقال تھا۔موتی دیکھ کراس کی لالچی طبیعت خوش ہوگئی ۔وہ لالچ کے عمیق گڑھے میں گرتاہی چلا گیا، شیطان نے اسے بہکایاتودولت کی ہَوَس نے اس کی آنکھوں پرغفلت کاپردہ ڈال دیا۔وہ سب باتیں بھول کرکہنے لگا: ''زمانہ طبیعتوں کومختلف کردیتاہے، اس سانپ کی طبیعت بھی مختلف ہوگئی ہوگی جس طرح سونے کے انڈوں کے بجائے یہ موتی دینے لگاہے، اسی طرح اس کازہربھی ختم ہوگیاہوگا،لہٰذامجھے سانپ سے بے خوف ہوجاناچاہے ۔''یہ کہہ کراس نے سانپ کے بل کے قریب جھاڑو دی،خوشبومہکائی،پانی چھڑکاتوسانپ دوبارہ اس کے پاس آنے لگا۔اب یہ لالچی شخص قیمتی موتی پاکربہت خوش رہنے لگااورسانپ کی سابقہ دھوکہ بازی کوبھول گیا۔پھراس نے ساراسونااور موتی برتن میں ڈ ال کرایک گڑھا کھودکرزمین میں دبادیااوراس پرسررکھ کرسوگیا۔رات کوسانپ نے اسے بھی ڈس لیا ۔ شدتِ دردکی وجہ سے اس کی چیخیں بلندہونے لگیں توپڑوسی بھاگ کرآئے اوراسے ڈانٹتے ہوئے کہا:'' تم نے اسے قتل کرنے میں سستی کیوں کی ،اورلالچ میں آکراپنی جان کیوں دے دی ؟'' لالچی خاموش رہااورسونے سے بھراہوابرتن نکال کراپنے رشتے داروں اور دو ستو ں کے حوالے کرتے ہوئے اپنے فعل سے معذرت کی ۔ دوستوں اورعزیزوں نے کہا:''آج کے دن تیرے نزدیک اس مال کی کوئی وقعت نہیں کیونکہ اب یہ دوسروں کاہوجائے گاا و رتُوخالی ہاتھ چلاجائے گا۔''کچھ ہی دیربعد وہ لالچی شخص ہلاک ہو گیا اور سا ر ا مال دوسروں کے لئے چھوڑ گیا۔ لوگوں نے کہا:''اس محروم شخص نے خودہی اپنے آپ کوہلاکت میں ڈالا حا لانکہ ہم سب نے اسے کہاتھاکہ اس موذی سانپ کوفوراًہلاک کردینالیکن مال ودولت کے لالچ نے اسے اندھاکردیا ۔ ' '
یہ واقعہ سنانے کے بعدراہب نے کہا:''مجھے تعجب ہے ان لوگوں پرجو سانپ والی حکایت جاننے کے باوجودبھی عبرت حاصل نہیں کرتے !ایسالگتاہے کہ ان کایہ قول کہ ''ہمیں امیدہے کہ اعمال پرثواب ملے گا'' صرف ان کی زبانوں تک محدودہے کیونکہ ان کے اعمال اس قول کی مخالفت کرتے ہیں ۔ہلاکت ہے ان لوگو ں کے لئے جوجاننے کے باوجودغافل ہیں،اگران کوبھی وہ شی پہنچی جو''انگوروالے ''کوپہنچی تھی توان کے لئے ہلاکت وبربادی ہے ۔''پوچھا:''حضور!''انگوروالے'' کے ساتھ کیاواقعہ پیش آیا ہمیں تفصیلاًبتائیے ؟''"
راہب نے کہا:''مشہورہے کہ ایک مال دارشخص کے کھیت میں انگورکی بیلیں اور پھلوں کے درخت تھے ۔اس نے انگوروں کی دیکھ بھال کے لئے تین مزدوروں کوبلایااور سب کوکھیت کاایک ایک حصہ دیتے ہوئے کہا:''تم میرے کھیت کی
"حفاظت کرناانگوروں میں سے جتناکھاؤ کھالینا،لیکن بقیہ پھلوں سے ہرگزہرگز نہ کھانا،ورنہ! تم پر سزالازم ہوجائے گی۔میں چند دنوں بعد آکر کھیت کودیکھوں گا،خبردار!میری نافرمانی سے بچنااورانگوروں کے علاوہ کوئی بھی پھل ہرگزنہ کھانا۔ ''یہ کہہ کر مالک چلاگیا۔ایک مزدورنے تو اپناہروہ کام کیاجس کا حکم دیاگیاتھا،اس نے صرف انگورکھانے پرہی اکتفاء کیااوران درختوں کے قریب نہ گیاجن سے منع کیاگیاتھا۔دوسرے نے بھی کھیت کی خوب دیکھ بھال کی ،کچھ دن تووہ دوسرے پھل کھانے سے رُکا رہالیکن جلد ہی اس کے نفس نے پھل کھانے پراُکسایااور اس نے پھل کھاناشروع کردئیے۔تیسرے مزدورنے خوب پھل کھائے اورکھیت کی دیکھ بھال کی طرف بالکل متوجہ نہ ہوا،نَتِیْجَۃًاس کے حصے کی کھیتی تباہ ہوگئی ۔جب کھیت کامالک آیاتوپہلے مزدورکاعمل دیکھ کر بہت خو ش ہواکیونکہ نہ تواس نے ممنوعہ پھل کھائے تھے اورنہ ہی کام میں سستی کی تھی۔کھیت والے نے اس کی خوب تعریف کی اور مقر رہ اجرت سے زیادہ مال دیا۔پھر دوسرے مزدورکے پاس آیاتواس کے کام کودیکھ کربہت خوش ہوالیکن جب پھلوں میں کمی دیکھی توکہا:''پھلوں میں یہ کمی کیسی؟''مزدورنے کہا:''میں نے کچھ پھل کھائے ہیں۔''مالک نے کہا: ''کیامیں نے منع نہ کیاتھا؟ '' کہا:''منع توکیاتھالیکن مجھے آپ سے عَفْوودرگزرکی اُمید تھی ،بس اسی اُمیدنے مجھے اس کام پر اُکسا یا ۔ ' ' مالک نے کہا:'' عَفْوودَرْگزرکامعاملہ اس وقت ہوتاجب منع نہ کیاہوتا،سختی سے منع کرنے کے باوجو د تو نے میری نافرمانی کی ،لہٰذا تجھے سزاضرورملے گی،مگرتجھ پرظلم ہرگزنہ ہوگا،جتناجُرْم اتنی ہی سزا۔ ' 'پھر تیسرے مزدورکے پاس آیاتودیکھاکہ اس کے حصے کاکھیت بربادہوچکاہے اورانگوروں کی بیل بھی ضائع ہوچکی ہے۔مالک نے غضبناک ہو کر کہا : ''تیری خرابی ہویہ میں کیادیکھ رہاہوں؟''مزدورنے کہا:''سب کچھ آپ کے سامنے ہے۔''مالک نے کہا:''میں دیکھ رہاہوں کہ نہ تو،تُونے کھیت کی دیکھ بھال کی اورنہ ہی اس بات سے رُکے جس سے میں نے منع کیاتھا۔اس کانتیجہ یہ ہواکہ تیرے حصے کاکھیت اورپھل بربادہوگئے۔میں تجھے ایسی سزادوں گاجس کاتُوحق دارہے۔''
جب لوگوں کے سامنے ان تینوں کامعاملہ پیش ہواتو ا نہوں نے کہا:''پہلامزدورکتنااچھاتھا کہ دیانت سے کام لیالہٰذا ما لک کی طرف سے اچھی جزاکامستحق ہوا۔اوردوسرے نے احمقانہ حرکت کی اگروہ صبرکرتااورممنوعہ پھل نہ کھاتاتویہ بھی پہلے مزدورکی طرح انعا م واکرام کامستحق ہوتا۔اورتیسرا مزدورکتنابراتھا کہ نہ تو وہ کام کیاجواس پرلازم تھابلکہ نافرمانی کرتے ہوئے ممنوعہ پھل بھی خوب کھائے اس کاشربہت بڑاتھا۔
یہ حکایت سنانے کے بعدراہب نے کہا:'' دنیامیں تمہارے اعمال کی مثال بھی ان مزدوروں کی طرح ہے ،روزِجزاء ہرشخص کواس کے عمل کے مطابق جزاء دی جائے گی۔تعجب ہے ان لوگوں پرجولمبی لمبی عمروں کی خواہش کرتے ہوئے، لمبی لمبی امیدیں باندھتے ہیں۔میں نے لوگوں میں اولادکووالدین کے لئے سب سے بڑادشمن پایا۔والدین اپنی اولادکی خوشیوں کے"
لئے کیاکچھ نہیں کر تے ،یہ اپنے بَدنوں کودوسروں کی دنیاسنوارنے کے لئے تھکاڈالتے ہیں۔لذت وسرورمیں دوسروں کوشامل کرلیتے اورپھر ''کشتی والے ''کی طرح ہوجاتے ہیں۔''سرداروں نے کہا:''کشتی والاکون تھا''؟اوراس کاکیامعاملہ تھا؟''
راہب نے کہا:''مشہورہے کہ کسی شہرمیں ایک بڑھئی رہتاتھا۔وہ روزانہ ایک درہم کماتا،آدھادرہم ا پنے بوڑھے والد، بیوی اوردوبچوں پرخرچ کرتااورآدھاسنبھال کررکھ لیتا۔عرصہ درازتک اسی طرح محنت ومزدوری کرکے وہ اپنے گھرکانظام اَحسن طریقے سے چلاتارہا۔ایک دن اس نے اپنی جمع کردہ رقم شمارکی تووہ سو(100)دینارسے کچھ زائدتھی۔اس نے کہا: ''میں توبہت خسارے میں رہا،اگرمیں کشتی تیارکرکے تجارت کرتاتوآج خوب مال دارہوتا،اب مجھے کشتی بنانی چاہے۔'' لہٰذااس نے اپناارادہ اپنے والد پرظاہرکیاتواس نے کہا:''اے میرے بیٹے!ہرگزیہ کام نہ کرنا،مجھے ایک ستارہ شناس ( ستا ر و ں کاعلم رکھنے والے)نے بتایا تھاکہ تیرایہ بیٹاسمندرمیں غرق ہوکرمرے گااوریہ اس وقت کی بات ہے جب تُو پیدا ہوا تھا۔'' بڑھئی نے کہا :'' کیااس نے یہ بتایا تھاکہ مجھے مال ودولت ملے گا؟''باپ نے کہا:''ہاں!اسی لئے تومیں نے تجھے تجارت سے منع کرکے ایساکام تلاش کیاجس کے ذریعے روزانہ اجرت ملتی رہے۔''بڑھئی نے کہا:''ستارہ شناس کے قول کے مطابق اگرمجھے مال ملے گاتویہ اسی صو رت میں ممکن ہے کہ میں سمندری تجارت کروں۔'' باپ نے کہا:میرے بچے!تُواپنے اس ارادے سے بازآجامجھے خوف ہے کہ تُوہلاک ہو جائے گا۔'' بیٹے نے کہا:'' تجارت کے ذریعے مجھے مال توضرورحاصل ہوگااگرمیں زندہ رہاتوبقیہ عمرخیرسے گزرے گی ،ا گر مر گیا تواپنی اولادکے لئے بہت سی دولت چھوڑ جاؤں گا۔''باپ نے کہا:''میرے بیٹے!اولادکی وجہ سے اپنی جان ہلاکت میں نہ ڈال۔'' بیٹے نے کہا:''خداعَزَّوَجَلَّ کی قسم !میں ہرگزاپنی رائے تبدیل نہ کروں گا،میں تجارت ضرورکروں گا ۔ ' ' باپ مجبور ہو کر خاموش ہو گیا ۔بڑھئی نے کشتی تیارکرکے اسے خوب سجایاپھراس میں کئی قسم کاسامانِ تجارت رکھ کرسفرپرروانہ ہوگیا ۔ ایک سال بعدجب واپس آ یا تو اس کے پاس سو(100) قنطارسونے جتنی رقم موجودتھی۔بیٹے کوصحیح سلامت دیکھ کرباپ نے اللہ تعالیٰ کا شکراداکیااوراس کے لائے ہوئے مال کی تعریف کرتے ہوئے کہا:''میں نے نذرمانی تھی کہ اگرمیرابیٹااس سفرسے سلامتی کے ساتھ واپس آگیاتومیں اس کی بنائی ہوئی کشتی کوآگ لگادوں گا۔''بیٹے نے کہا:''اباجان!آپ نے میری ہلاکت اورمیرے گھر کی بربادی کاارادہ کرلیاہے۔''باپ نے کہا:میرے بیٹے !میں نے یہ ارادہ تمہاری زندگی اورتمہارے گھرکی تادیرسلامتی کے لئے کیاہے ۔ معاملات کومیں تجھ سے کہیں زیادہ جانتاہوں۔میں دیکھ رہاہوں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تجھے وسعت دی ہے اب تجھے چاہے کہ اس کی رضاوالے کام کراوراس کاشکربجالاکہ ا سنے نے تجھے مفلسی سے بچاکرامیرترین شخص بنادیاہے۔اب تُو اس کی
"خوب عبادت کرمیں تیرے بدن کی سلامتی چاہتاہوں او رمجھے کوئی غرض نہیں ۔تُومیری بات مان لے۔''
بیٹے نے کہا: ''میں چنددن کے لئے سفرپرجاؤں گااورجلدہی بہت زیادہ نفع لے کرآؤں گا۔''یہ کہہ کربڑھئی دوبارہ سفر پرروانہ ہوگیا۔ جب واپس آیاتواس کے پاس پہلے سے کئی گنازیادہ مال تھا۔بڑھئی نے اپنے باپ سے کہا:'' کیاخیال ہے اگر میں نے آپ کی بات مانی ہوتی توکیاآج مجھے اتنی دولت ملتی ؟''باپ نے کہا :'' میر ے بچے!میں دیکھ رہاہوں کہ تُواپنے غیرکے لئے محنت وکوشش کررہاہے ،اگرتُوجانتااورحقیقتِ حال سے واقف ہوتاتوخواہش کرتاکہ:'' ا ے کاش! میرے اورمیرے اس مال کے درمیان مشرق ومغرب جتنافاصلہ ہوتا۔''بیٹے نے کہا:''اباجان!آپ یہ ساری باتیں ایک ستارہ شناس کے قول کی وجہ سے کر رہے ہیں۔میرا گُمان ہے کہ اس کایہ قول کہ'' مجھے مال ملے گا'' درست ہے اوریہ قول درست نہیں کہ ''میں غرق ہو کر مروں گا'' ۔'' یہ کہہ کربڑھئی نے دوسری کشتی بنانے کاحکم دیا۔چالیس دن میں اس کاسامانِ تجارت با لکل تیار ہو گیاتواس کے باپ نے کہا: ''میرے بیٹے !اس مرتبہ بھی مِنَّت سماجت کرناتجھے نہ روک سکے گاکیونکہ میں نے ایسی نشانیاں دیکھ لی ہیں کہ جن کی وجہ سے میرے نزدیک ستارہ شناس کی بات سچ ہوگئی ہے ۔''اتناکہہ کربوڑھاباپ اپنے بیٹے کی جدائی پرزاروقطاررونے لگا توبیٹے نے کہا: ''اللہ عَزَّوَجَلَّ مجھے آپ پرفداکرے! صرف اس مرتبہ اورصبرکرلیں۔خداعَزَّوَجَلَّ کی قسم!اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مجھے صحیح و سالم واپس لوٹادیاتوزندگی بھرکبھی بھی بحری سفرنہ کروں گا۔''بوڑھے باپ نے کہا:''خداعَزَّوَجَلَّ کی قسم!مجھے یقین ہوچلا ہے کہ اب تُوضائع ہوجائے گا۔خداعَزَّوَجَلَّ کی قسم!اس مرتبہ توواپس نہیں آئے گا۔یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہو۔'' پھر بوڑ ھے باپ نے اس کی مِنَّت سماجت کی اورخوب روروکرسمجھایامگر اس نے اپنے بوڑھے باپ کی باتوں پرکوئی توجہ نہ دی اوردونوں کشتیوں کولے کر سفرپرروانہ ہوگیا۔جب کشتیاں بیچ سمندرمیں پہنچیں تواچانک طوفان آگیااوردونوں کشتیا ں آپس میں ٹکرا کر تباہ وبرباد ہوگئیں ۔ غرق ہوتے وقت تاجرکواپنے باپ کی باتیں یاد آرہی تھیں وہ سوچ رہاتھاکہ میں نے ا پنے باپ کی نافرمانی کیوں کی ؟لیکن اب معاملہ اس کے ہاتھ سے نکل چکاتھااس طرح وہ اوراس کے تمام ساتھی مع سازوسامان سمندرمیں غرق ہو کر موت کے گھاٹ اتر گئے۔
پھر اس کابوڑھا باپ بھی چندہی دنوں میں بیٹے کی جدائی کے غم میں اس دارِ فانی سے کوچ کر گیا۔بڑھئی کی ساری دولت اس کی زوجہ،بیٹی اوربیٹے میں تقسیم ہو گئی۔اس کی زوجہ نے دوسری شادی کرلی ، بیٹی اوربیٹے کی بھی شادی ہو گئی۔اوراب بڑھئی کے مال میں اس کی زوجہ(جوکہ بیوہ ہوچکی تھی) اس کانیاشوہر،اس کی بیٹی کاشوہر اور اس کے بیٹے کی بیوی بھی شریک ہوگئی ۔ہروہ مال جسے بدبخت لوگ جمع کرتے ہیں اس کا یہی انجام ہوتاہے۔''
راہب نے کہا:''مجھے ان لوگوں پرشدیدتعجب ہوتاہے جواپنے جسم سے بخل کرتے اوردوسروں پرخرچ کرتے ہیں ۔"
اے انسان!تُو کم مال پر ہی گزارہ کرلے، اس سے تھوڑ ی سی تکلیف توہوگی لیکن فائدہ بہت زیادہ ہے ۔اگرتُوزیادہ مال کے پیچھے نہ پڑے گا تو منزل تک پہنچ جائے گا۔ اگرکچھ جمع ہی کرناہے تواپنی جان کے لئے ذخیرہ کر،غیروں کے لئے اپنی جان کوہلاکت میں نہ ڈال ،ورنہ تجھے بھی وہی چیزلاحق ہوگی جو''مچھلیوں کے شکاری'' کولاحق ہوئی۔'' پوچھا:''مچھلی کے شکاری'' کوکیاچیزلاحق ہوئی؟''
" راہب نے کہا:''مشہورہے کہ ایک شکاری کے جال میں بہت بڑی مچھلی پھنسی تواس نے کہا:''اسے کھانے کامجھ سے زیادہ کوئی حق دارنہیں۔'' پھراسے خیال آیاکہ یہ مچھلی اپنے فلاں پڑوسی کوتحفہ دے دینی چاہے۔چنانچہ وہ مچھلی کواپنے صاحبِ حکمت پڑوسی کے پاس لے گیا۔اس نے اس کی قیمت دیناچاہی توشکاری نے انکار کر د یا ۔ پڑوسی نے کہا:''تم نے یہ سب کچھ کیوں کیا؟کیاتمہاری کوئی حاجت ہے جسے میں پوراکروں؟ ''اس نے کہا:''نہیں، میں کچھ نہیں چاہتا،میں نے توایثار کی نیت کی تھی ۔''پڑوسی نے کہا:''میں نے تمہاراتحفہ قبول کیا۔''پھراس نے خادم کوحکم دیا کہ یہ مچھلی اٹھا ؤ ا ورہمارے فلاں معذورومسکین پڑوسی کودے آؤ۔جب شکاری نے یہ معاملہ دیکھاتوسرپکڑکررہ گیااورکہا:'' افسوس ہے اس پر،جس نے اپنی مچھلی نہ کھائی اور وہ اس کے پاس پہنچ گئی جو اسے سب سے زیادہ ناپسند تھا''۔جب صاحبِ حکمت پڑوسی نے شکاری کی یہ بات سنی توکہا:''میں نے وہ مچھلی، مسکین پرصدقہ کرکے اپنی محتاجی کے دن کے لئے ذخیرہ کر لی ہے ۔''شکاری نے کہا:''وہ کون سادن ہے؟''حکیم پڑوسی نے کہا:''وہ قیامت کادن ہے لوگ اس دن اپنے اپنے ذخیر و ں کے محتاج ہوں گے۔''یہ سن کرشکاری بہت زیادہ متعجب ہوااورواپس اپنے گھرچلاآیا۔''
راہب نے کہا:''مجھے تعجب ہے اس امرپرجس نے سمجھداروں اورجاہلوں کودھوکے میں ڈال دیا۔یہاں تک کہ وہ لمبی لمبی امیدوں اورلالچ کی وجہ سے ہلاک ہوگئے ،جیساکہ '' یہودی ونصرانی ''ایک ساتھ ہلاک ہوئے۔'' پوچھا:''ہمیں بتائیے کہ ان دونوں کی ہلا کت کس طرح ہوئی؟''"
راہب نے کہا:''مشہورہے کہ ایک یہودی اورنصرانی سفرپرروانہ ہوئے ،راستے میں آبادی کے قریب کنواں تھا اور آگے ایک وسیع و عریض صحراء ،جس کی وسعت چاردن کی راہ تھی ۔دونوں کے پاس مشکیزے تھے ،یہودی نے اپنامشکیزہ پانی سے بھرلیا،جب نصرانی بھر نے لگاتو کہا:'' ایک مشکیزہ پانی ہمیں کافی ہے تم اپنامشکیزہ بھرکرخواہ مخواہ وزن میں اضافہ مت کرو ۔'' نصرانی نے کہا:''میں اس راستہ سے اچھی طرح واقف ہوں شاید یہ ایک مشکیزہ ہمیں کافی نہ ہو۔''یہودی نے کہا:''تم یہی چاہتے
"ہو کہ جب تمہیں پیاس لگے تومیں تمہیں پانی پلاؤں۔''اس نے کہا:''ہاں۔''یہودی نے کہا:''بس پھراپنامشکیزنہ بھرو،جب تمہیں پیاس لگے گی پانی مل جائے گا۔''یہ سن کرنصرانی نے ا پنامشکیزہ خالی ہی رکھاحالانکہ وہ جانتاتھاکہ عنقریب اسے پیاس کی شدت کا سامناکرناپڑے گا لیکن وہ یہودی کے مشکیزے کی امیدپر پانی کے بغیرہی صحراکی طرف چل دیا۔ سخت گرم ہواؤں کی وجہ سے بار بارپیاس لگی اور با لآ خر پانی ختم ہوگیاحالانکہ ابھی آدھاسفرباقی تھا۔ پیاس کی شدت نے انہیں نڈھال کردیا، انہیں اپنی موت کا یقین ہوچلاتھا۔نصرانی نے یہودی سے کہا:''ہم صرف تیرے بُرے مشورے کی وجہ سے ہلاک ہوئے ہیں اورتُونے یہ اس لئے کیا کہ تم لوگ ہمارے نبی حضرتِ سیِّدُنا عیسیٰ روح اللہ علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃوالسلام سے بُغض رکھتے ہو۔''یہودی نے کہا:''تیراناس ہو!کیاتُومجھے ایسا بُرا سمجھتاہے؟بھلامیں اپنے آپ کواورتجھے جان بوجھ کرہلاکت میں کیوں ڈالتا۔''نصرانی نے کہا:''تو، اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہو!تُو نے مجھ پررحم نہیں کیا۔''یہودی نے کہا:''تیراناس ہو!میں نے تجھے مشکیزہ بھرنے سے صرف اس لئے روکاتھاکہ تیراگدھابوجھ کی زیادتی سے بچا رہے اورتجھے پیدل نہ چلناپڑے ۔'' نصرانی نے کہا:''تُونے یہ سب کام ہم سے پرانی عداوت کی وجہ سے کئے ہیں،میرے نزدیک پیدل چلنے کی مشقت ،موت کی مشقت سے کہیں زیادہ آسان تھی۔اب ہماری موت یقینی ہے اوریہ بات مجھے غمگین کرے گی کہ ہم دونوں ایک ساتھ مَریں پھر کوئی نصرانی عالِم گزرے اوروہ ہم دونوں کی اکٹھی نمازِ جنازہ پڑھے۔''یہودی نے کہا:'' تیر ا بر ا ہو! تُواس بات کوکیوں ناپسند کرتاہے کہ ہم پرنمازِ جنازہ پڑھی جائے اورہمیں ایک ساتھ دفن کیاجائے؟''اس نے کہا:''اس لئے کہ تونے ا پنے آپ کواوراپنے ساتھی کوہلاک کرنے والاہے ،اب یہ جائز نہیں کہ تیری نمازِجنازہ پڑھی جائے ۔''
یہ سن کریہودی خاموش ہوگیا۔ لَق ودَق (یعنی چٹیل وویران)صحراء میں گرم ہوائیں چل رہی تھیں اورپانی کاایک قطرہ بھی نہ تھا۔پیاس کی شد ت سے موت ان کے سروں پرمَنڈلارہی تھی۔ اتنے میں انہیں ایک شخص نظر آیا جو اپنے گدھے پرپانی کے دومشکیزے ر کھے ہوئے جارہا تھے ۔یہ دونوں دوڑتے ہوئے اس کی طرف گئے اورکہا:''اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بندے !پانی پلاکرہم پراحسان کر! اللہ عَزَّوَجَلَّ تجھے عافیت عطافرمائے۔''اس نے کہا:''یہ ایساراستہ ہے جہاں پانی ملنے کی کوئی امید نہیں ۔'' دونوں نے کہا:''تیرا دین کیاہے ؟'' کہا:''میراوہی دین ہے جوتمہاراہے ۔''انہوں نے کہا:''ہم میں سے ایک تویہودی ہے اور دوسرا نصرانی پھرتیرادین ہماری طرح کیسے ہو سکتا ہے؟''گدھے والے نے کہا:''یہودی ،نصرانی یامسلمان جب اپنی کتاب ودین پر عمل نہ کریں اورلالچ وکھوکھلی امیدوں کے دھوکے میں پڑ جا ئیں توانہیں وہی چیزلاحق ہوتی ہے جوتم دونوں کولاحق ہوئی۔''یہ کہہ کروہ آگے بڑھ گیا اورپانی کا ایک قطرہ بھی انہیں نہ دیا ۔
راہب نے کہا:''راہِ آخرت کے مسافرکوچاہے کہ وہ سفرِآخرت کے لئے بھی ایسااہتمام کرے جیسا دنیوی سفرکے لئے کرتا"
ہے۔انسان کویہ بات زیب نہیں دیتی کہ نہ توگناہوں سے بچے اورنہ ہی کبھی نیک عمل کرے،اور پھر بھی رحمت و مغفرت کی آس پرسب نیک اعمال ترک کردے اورخوب گناہ کرے ۔سمجھدارشخص ایسی نارَواحرکت کبھی نہیں کرتا،مجھے سخت تعجب ہو تا ہے ان لوگوں پرجواپنی برائیاں مخلوق سے توچھپاتے ہیں لیکن خالقِ کائنات عَزَّوَجَلَّ سے حیا کرتے ہوئے کبھی کوئی گناہ ترک نہیں کرتے حالانکہ وہ پروردگارعَزَّوَجَلَّ رزق دینے والااوروہی جزاوسزادینے والا ہے۔ کیا تم اس بات سے بے خوف ہوگئے ہوکہ تمہیں وہ مصیبت پہنچے جو ''راہب''کوپہنچی تھی؟''سرداروں نے کہا:ہمیں بتائیے کہ '' راہب ' ' کو کیا مصیبت پہنچی تھی؟''
کہاجاتا ہے کہ'' ایک شخص شہد،گھی،تیل اورشراب بیچاکرتاتھا۔خریدتے وقت توصاف ستھری اور خالص چیزیں خریدتالیکن بیچتے وقت خوب ملاوٹ کرتااورمہنگے داموں بیچتا۔اس کی داڑھی بہت پیاری وحسین تھی جوبھی اسے دیکھتاتوکہتاکہ تجھے توبہت بڑاراہب ہوناچاہے تیری داڑھی بالکل راہبوں جیسی ہے ۔لوگوں کی بات سن کراس شخص کے دل میں یہ بات آئی کہ'' مجھے رہبانیت کاراستہ اختیارکرناچاہے تاکہ لوگوں میں میری قدرومنزلت بڑھ جائے۔''چنانچہ اس نے اپنی بیوی سےکہا:'' لوگ میری داڑھی کی خوب تعریف کرتے ہیں لیکن میرے عمل سے بے خبرہیں،اگرمیں رہبانیت کا راستہ اختیا کر لو ں توخوب مالامال ہوجاؤں گااورلوگوں میں میرامرتبہ بلندہوجائے گا۔''یہ سن کراس کی زوجہ نے روتے ہوئے کہا: ''کیا تُو مجھے بیواؤں اور اپنے بچوں کویتیموں کی طرح کردے گا۔''اس نے کہا:''تیراناس ہو!میں عبادت کی نیت سے کب رہبانیت اختیار کرر ہا ہوں ۔میں تو یہ چاہتاہوں کہ لوگوں میں میرامرتبہ بلندہواورمیں اپنی قوم کامُعَزَّزشخص بن جاؤں۔''عورت نے کہا:''کہیں ایسا نہ ہوکہ جب تُو راہبوں سے ملے اور تجھے عبادت کی حلاوت نصیب ملے تُوپھر توبھی ان راہبوں کی طرح اپنے سب گھروالوں کوچھوڑ دے۔''
اس نے قسم کھاکریقین دلایاکہ ایساہرگزنہیں ہوگا۔بالآخراس نے انبیاء کرام علیہم السلام پر نازل ہونے والی کُتُب اور انجیل وغیرہ کی تعلیم حاصل کی ،سرمنڈایااوربہت بڑے گرجاگھرمیں چلاگیاجہاں راہبوں کی ایک جماعت پہلے ہی سے موجودتھی ۔ جب راہبوں نے اس کی داڑھی کاحسن وجمال دیکھاتو اسے اپناامیربناکرگرجے کے تمام اُمو ر ا س کی نگرانی میں دے دیئے۔ گرجا گھرکے تمام اموال وخزانوں کی چابیاں پا کروہ اپنی مراد کو پہنچ چکا تھا۔اس نے قوم کے شر فاء وسرداروں کے ساتھ مہربانی ونرمی کا رویہ اختیارکیاتوسب لوگوں کے دلوں میں اس کی قدرومنزلت بڑھ گئی ۔اب اس رِیاکاروبناوٹی راہب نے دوسرے راہبوں کو حقیرسمجھناشروع کردیا۔ ان کی خوراک میں کمی کردی اوران کے مر تبوں کوبھی گھَٹادیا۔پھرایک عابدوشریف النفس شخص کوگرجا گھر کے لئے آنے والی آمدنی پرنگران مقررکیا اور خود عیش وعشرت میں مشغو ل ہوگیا۔اچھااورنرم وملائم لباس پہننااورشراب پی کر
"عورتوں سے لطف اندوزہونااس کامعمول بن گیا۔جب راہبوں نے اس بناوٹی راہب کی بداعمالیاں دیکھیں توان میں سے ایک راہب نے کہا:''یہ فاسق وکمینہ شخص تم کوذلیل کر رہاہے اورتمہاری وجہ سے یہ فسق پر ڈَٹا ہوا ہے ،تم اپنے اس معاملے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو!۔''راہبوں نے کہا:''ہم نے دنیوی مال واسباب چھو ڑکراپنے آپ کو عبا د ت کے لئے فارغ کرلیاہے، اب اس بناوٹی راہب کی وجہ سے ہم غم وپریشانی اورامورِدنیامیں پھنس چکے ہیں۔ ''بغیر داڑھی والے راہب نے کہا:''یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ تم لوگوں نے اس کی بڑی داڑھی دیکھ کراس کے بارے میں اچھی رائے قائم کرلی ،اب جس نے متقی وپرہیز گار لوگوں کوچھوڑکرایک ایسے شخص کی پیروی کرناشروع کردی ہے جومکار و فاسق ہے تواسے چاہے کہ وہ اپنے اوپرہونے وا لے ہرظلم وستم کوبرداشت کرے۔''
تمام راہب اس بات پرمتفق ہوئے کہ اس راہب کی اصلاح کرنی چا ہے۔پس ان سب کی طرف سے ایک راہب نمائندہ بن کرگیا اس نے بناوٹی راہب سے کہا:'' تُو نے اپنی جان پرظلم کیاہے، تیرے تمام کرتوت تیرے راہب ساتھیوں کومعلوم ہوچکے ہیں۔اللہ عَزَّوَجَلَّ کی سزاسے ڈر!بے شک کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جنہیں وہ آخرت سے قبل دنیاہی میں سزا دے دیتاہے ۔'' بناوٹی راہب نے کہا:''کیابڑے بڑے عظیم لوگوں سے غلطیاں نہیں ہوئیں ؟ میں بھی انسان ہوں مجھ سے غلطی ہوگئی توکیاہوا؟'' راہب نے کہا:'' تُوبڑے بڑے بزرگوں کی غلطیوں کوجانتاہے لیکن ان کی توبہ سے واقف نہیں۔ ریاکارراہب نے کہا:''امیدہے کہ میں بھی توبہ کرلوں گا۔''اس نے کہا:''کتنے لوگ ایسے تھے جوتوبہ کرنے میں سستی کرتے رہے اورانہیں موت نے آلیا۔''یہ کہہ کروہ چلاگیااور ریاکارراہب سرکشی ہی میں مشغول رہا۔پھراس کی ہلاکت اس طر ح ہوئی کہ ڈاکوؤں نے اس بستی پرحملہ کردیا۔ایک ڈاکونے راہب کواس حالت میں پایاکہ وہ ایک عورت کے ساتھ بستر پر مو جو د تھا ۔ وہ اسے پکڑکراپنے سردارکے پاس لے آیا۔ڈاکوؤں نے کہا:''اگریہ شخص راہب نہ ہوتاتوہم اسے معاف کردیتے لیکن اب اس کے معا ملہ میں ہم حکمِ خداوندی کوملحوظ رکھیں گے۔ کیونکہ اس نے ان عورتوں سے فائدہ اٹھایاجواس کے لئے حرام تھیں۔'' ڈاکوؤں نے علماء سے ا س بدکارشخص کاحکم پوچھا تو انہوں نے کہا:''اسے آگ میں جلادیاجائے ۔'' چنانچہ اسے جلتے ہوئے تنور میں ڈال دیاگیااس طرح اللہ تعا لیٰ نے راہبوں کواس بدکارکے شرسے نجات عطافرمائی اوردنیاہی میں اسے آگ کاعذاب دے دیا۔یہ اس کی اس عبادت کاصلہ تھاجس کے ذریعے دنیاکی رضاچاہی گئی تھی ۔(الامان والحفیظ)
یہ حکایت سنانے کے بعدراہب نے کہا:''مجھے تعجب ہے ان مصیبت زدہ انسانوں پرجوصبرکے ذریعے مددحاصل نہیں کرتے لیکن پھربھی ثواب کی امیدرکھتے ہیں ۔ عنقر یب مصیبت زدہ پرایساوقت آنے والاہے کہ وہ ایسی خواہش کریگاجیسی ''نابینا''نے کی تھی۔سرداروں نے کہا:''نابینا''نے کیا تمناکی تھی ؟''"
" راہب نے کہا:''مشہورہے کہ کسی تاجرنے ایک جگہ اپنے سو(100)دیناردبادئیے ۔ اس کے پڑوسی نے اسے دیکھ لیا اور موقعہ ملتے ہی ساری رقم نکال کراپنے گھرلے گیا۔تاجرنے جب اپنی رقم نہ پائی توخوب رویااورپریشان ہوا۔جب بڑھاپاآیا تواس کی بینائی چلی گئی اوروہ شدیدمحتاج ہوگیا۔جب پڑوسی کی موت قریب آئی تواسے حساب کاخوف لاحق ہوا،اس نے وقت کی نزاکت کوسمجھتے ہوئے سودیناراس نابیناکودے دیئے۔ نابیناکوساراواقعہ معلوم ہواتووہ مال ملنے پر ا تناخوش ہواکہ پہلے کبھی اتناخوش نہ ہواتھا۔اس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کاشکربجالاتے ہوئے کہا:''تمام تعریفیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے ہیں جس نے مجھے وہ چیزعطافرمائی جس کامیں شدید محتاج تھا۔اے کاش!اس دن مجھ سے سارامال لے لیاگیاہوتااورآج لوٹادیا جاتا کیونکہ آج کے دن میں اس کازیادہ محتاج ہوں۔''
راہب نے کہا:'' جوشخص یہ جانتاہے کہ اسے ایک ایسے دن کا سامناضرورکرناپڑے گاجس میں اچھے اعمال کی طرف بہت زیادہ محتاجی ہوگی تواسے چاہے کہ وہ اعمالِ صالحہ کاذخیرہ کرلے۔مجھے سخت تعجب ہے ان لوگوں پرجوان باتوں پرعمل نہیں کرتے جنہیں وہ جانتے ہیں ۔گویاکہ وہ اس طرح ہلاک ہوناچاہتے ہیں جیسے'' سیلاب والا''ہلاک ہوا۔''سرداروں نے پوچھا:''وہ کیسے ہلاک ہوا؟''"
" راہب نے کہا:''اس کاواقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک شخص نے سیلاب آنے کی جگہ اپنا گھر بنا رکھا تھا۔جب اس سے کہا گیا کہ ''یہ بہت خطرناک جگہ ہے یہاں سے ہٹ جا ۔''تواس نے کہا:''مجھے معلوم ہے کہ یہ جگہ خطرناک ہے لیکن اس کی خوبصورتی و شادابی نے مجھے تعجب میں ڈال دیاہے ۔''اس سے کہاگیاکہ'' تمام رونقیں اور خوبصورتیاں زندگی کے ساتھ ہیں ،لہٰذااپنی جان کی حفاظت کر،اپنے آپ کوخطرے میں نہ ڈال۔''اس نے کہا:''میں یہ جگہ ہرگزنہیں چھوڑوں گا۔''پھرایک رات حالتِ نیند میں اسے سیلاب نے آلیااوروہ غرق ہو کر مر گیا۔لوگوں نے اس کاانجام دیکھ کراس طرح کہاجس طرح زمانے والوں نے کہا:'' ہم پیداہوتے اورمرجاتے ہیں اورہم میں سے جومرجاتاہے وہ واپس لوٹ کرنہیں آتا۔
راہب نے کہا:''اگرہم سمجھداری سے کام لیں توہم بھی'' اَفرَوْلیہ'' والوں کی طرح ہوجائیں گے۔''سرداروں نے کہا: ''اصحابِ افر و لیہ '' کون تھے؟اوران کامعاملہ کیاتھا؟''"
" کہا:''اُسقولیہ'' کے بادشاہ نے ایک بہت بڑا لشکر''اَفرولیہ'' کی طرف بھیجا۔وہاں تک کا سمندری سفرساٹھ 60) ( دنوں کاتھااورراستے میں کوئی ایسامقام نہ تھاجہاں سے کھانے پینے کی کوئی چیزحاصل کی جاتی۔ اب جتناسامانِ خو ر د و نو ش یہ اپنے ساتھ لے جاتے اسی پرگزارہ کرناپڑتا۔اس لشکرمیں دوکاہن بھی تھے۔ایک نے کہا:''یہ لشکرسات دن تک ''افرولیہ'' کامحاصرہ کر کے ، منجنیق کے ذریعے سنگ باری کرتارہے گااورآٹھویں دن انہیں فتح نصیب ہوگی۔''دوسرے کاہن نے کہا:''ایسانہیں ہے بلکہ یہ و ہا ں پرسات دن محاصرہ کریں گے اورآٹھویں دن واپس آجائیں گے۔''لشکروالوں نے جب ان کی یہ باتیں سنیں تولشکرکے سردارآپس میں کہنے لگے: ''ہمیں واپسی کازادِراہ ساتھ لے چلناچاہے یافتح کی اُمیدپرواپسی کے زادِراہ کے بغیرچلناچاہے؟'' ایک قوم نے کہا کہ : ''ہمیں اس کاہن کی بات ماننی چاہے جوفتح کی خوش خبری دے رہاہے ،لہٰذازیادہ زادِراہ لے جاکرہمیں اپنے آپ کو تھکانا نہیں چاہے۔'' بقیہ لشکروالوں نے کہا:''ہم صرف امیدپراپنے آپ کوہلاکت میں نہیں ڈال سکتے بلکہ ہمیں واپسی کا زادِ راہ بھی احتیا طاً سا تھ لے چلناچاہے۔''چنانچہ ا نہوں نے توآنے جانے کا زادِ راہ ساتھ لے لیا۔ لیکن لشکرکے دوسرے گروہ نے صر ف جانے ہی کاسامان ساتھ لیا۔وہاں پہنچ کروہ مسلسل سات دن تک قلعے کامحاصرہ کئے سنگ باری کرتے( پتھر برساتے ) رہے۔ آٹھویں دن دیوا ر میں بہت بڑاشگاف ہواتولشکراندرداخل ہوگیا، آگے ایک ا ور بہت مضبوط دیوار موجود تھی ۔سات دن ہوچکے تھے آٹھواں دن شروع تھااتنے میں قاصد آیا اورپیغام دیاکہ'' بادشاہ فوت ہوگیاہے وا پس چلو۔''یہ خبرسن کرسب واپس ہولئے ۔جولوگ اپنے ساتھ واپسی کا سامان لائے تھے وہ توبخیریت اپنے ملک پہنچ گئے اورجنہوں نے سستی کرتے ہوئے زادِراہ ساتھ نہ لیاتھاوہ ہلاک ہو گئے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی تعدادستَّر ہزار(70,000) تھی۔ اس وقت سے اب تک ان کی حکایت بطورِ عبرت پیش کی جاتی ہے۔
یہ حکایت سنانے کے بعدراہب نے ان تینوں سرداروں کوسمجھاتے ہوئے کہا:''انہی لوگوں کی طرح وہ بھی ہلاک ہو جا تا ہے جوآخرت کے لئے زادِراہ تیارنہیں کرتا۔اورجوزادِراہ تیاررکھتاہے وہ نجات پاجاتاہے۔''سرداروں نے کہا:''آپ کا اندازِتبلیغ بہت اچھاہے ۔آپ کی انفرادی کوشش بہت خوب ہے ۔'' راہب نےکہا:''کہیں ایساتونہیں کہ میرے وعظ کی مٹھاس صرف تمہارے کانوں تک محدودہواور دلوں تک نہ پہنچی ہو۔سنو!کیاتم نہیں جانتے کہ جوکتابیں حضرتِ سیِّدُنا موسیٰ کلیم اللہ علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃوالسلام، حضرتِ سیِّدُناداؤد علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃوالسلام اورحضرتِ سیِّدُناعیسیٰ روح اللہ علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃوالسلام پرنازل ہوئیں اوردیگرانبیاء کرام علیہم السلام پرجوصحائف نازل ہوئے ان تمام میں یہ بات موجودتھی کہ''تمہیں اسی کی جزاملے گی جوتم نے عمل کئے''پس تم اپنے اعمال میں نظر کرو ۔اپنے بارے میں صحیح فیصلہ کرو!اورمیرے پاس سے ہدایت پانے"
"والے ہوکرواپس لوٹ جاؤ۔''راہب کی یہ حکیمانہ باتیں سن کروہ تینوں سردارواپس چلے آئے ۔پھرباہم مشورے سے ایک کوملک کاحاکم بنایااورسب اس پرراضی ہوگئے ۔
(اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے مقبول بندوں پررحمت کی خوب برسات فرمائے اورہم سب کی مغفرت فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اس عبرت آموزحکایت سے ہمیں یہ درس ملاکہ انسان کوہمیشہ اپنے انجام پرنظررکھنی چاہے ، آنے والے وقت سے پہلے تیاری کرلینی چاہے ۔سمجھ داروہی ہے جوموت سے پہلے موت کی تیاری کرلے اوراس فانی زندگی میں رہ کر ایسے اعمال کرے کہ جن کی بدولت دائمی زندگی میں خوب نعمتیں ملیں۔طویل اُمیدوں کے دھوکے میں آکراعمالِ صالحہ کومُؤَ خَّر (مُ۔أخ۔خَر) یاترک کردیناہرگزعقل مندوں کاشیوہ نہیں۔انسان کوچاہے کہ آج کاکام کل پرنہ چھوڑے ،نیکی کے کام میں ہرگز سستی نہ کرے اوراپنے آپ کوآخرت کی بہتری کے لئے مصروف رکھے ۔ان تمام باتوں پرعمل پیراہونے کے لئے انسان کوایسے ماحول کی ضرورت ہے جہاں فکرِ آخرت اوراعمالِ صالحہ کی خوب ترغیب دلائی جاتی ہو۔الحمدللہ عَزَّوَجَلَّ !آج کے اس پرفتن دورمیں تبلیغِ قرآن وسنت کی عالمگیرغیرسیاسی تحریک''دعوتِ اسلا می ' ' ہمیں ا یساپاکیزہ اورسنتوں بھراماحول فراہم کرتی ہے کہ اس میں آکردل خودبخوداعمالِ صالحہ کی طرف راغب ہوتااورگناہوں سے نفرت کرنے لگتاہے۔اس پاکیزہ ماحول میں خوفِ خدااورعشقِ مصطفی کی عظیم نعمتیں نصیب ہوتی ہیں۔عمل کاجذبہ بڑھتا اور بدعملی سے نفرت پیداہوجاتی ہے ۔ہمیں چاہے کہ ہم بھی اس مدنی ماحول کواپنالیں اور''دعوتِ اسلامی'' کے زیراہتمام سفرکرنے والے ''مدنی قافلوں'' میں خوب خوب سفر کریں،اجتماعات میں شریک ہوں اور''مدنی انعامات'' پرعمل پیراہوں۔اللہ عَزَّوَجَلَّ بانئ دعوتِ اسلامی ،امیرِ اہلسنت حضرتِ علامہ مولاناابوبلال محمدالیاس عطارؔقادری رضوی ضیائی دامت برکاتہم العالیہ کاسایہ ہمارے سروں پر تا دیرقائم رکھے اوردعوتِ اسلامی کودن دُگنی اوررات چُگنی ترقی عطافرمائے۔ )
؎ اللہ کرم ایساکرے تجھ پہ جہاں میں اے دعوتِ اسلامی تیری دھوم مچی ہو(آمین)!
(آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)
(اللہ عَزَّوَجَلَّ ہماری اس کوشش کوقبول ومنظورفرمائے ۔اوراس کتاب کوہمارے لئے ذر یعۂ نجات بنائے۔ اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے صدقے ہم سب مسلمانوں کاخاتمہ بالخیرفرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)"
"وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن،وَصَلَوَاتُہ، وَسَلَامُہ، عَلٰی
اَشْرَفِ الْمُرْسَلِیْن مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ اَجْمَعِیْن"