Pages
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ
" قدمائے محدثین وفقہاء ''مغازی وسیر''کے عنوان کے تحت میں فقط غزوات اوراس کے متعلقات کو بیان کرتے تھے مگر سیرت نبویہ کے مصنفین نے اس عنوان کو اس قدرو سعت دے دی کہ حضور رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت سے وفات اقدس تک کے تمام مراحل حیات ،آپ کی ذات وصفات، آپ کے دن رات اورتمام وہ چیزیں جن کو آپ کی ذات والا صفات سے تعلقات ہوں خواہ وہ انسانی زندگی کے معاملات ہوں یا نبو ت کے معجزات ہوں ان سب کو''کتاب سیرت '' ہی کے ابواب وفصول اورمسائل شمار کرنے لگے۔
چنانچہ اعلان نبوت سے پہلے اور بعد کے تمام واقعات کا شانہ نبوت سے جبل حراء کے غار تک اورجبل حراء کے غار سے جبل ثور کے غار تک اورحرم کعبہ سے طائف کے بازار تک اورمکہ کی چراگاہوں سے ملک شام کی تجارت گاہوں تک اور ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے حجروں کی خلوت گاہوں سے لیکر اسلامی غزوات کی رزم گاہوں تک آپ کی حیات مقدسہ کے ہر ہرلمحہ میں آپ کی مقدس سیرت کاآفتاب عالم تاب جلوہ گر ہے ۔
اسی طرح خلفاء راشدین ہوں یادوسرے صحابۂ کرام ، ازواج مطہرات ہوں یا آپ کی اولاد عظام ، ان سب کی کتاب زندگی کے اوراق پر سیرت نبوت کے نقش ونگار پھولوں کی طرح مہکتے ، موتیوں کی طرح چمکتے اورستاروں کی طرح جگمگاتے ہیں۔ اور"
"یہ تمام مضامین سیرت نبویہ کے ''شجرۃ الخلد ''ہی کی شاخیں ، پتیاں ، پھول اورپھل ہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم۔"
یہ براعظم ایشیاء کے جنوب مغرب میں واقع ہے چونکہ اس ملک کے تین طرف سمندر نے اورچوتھی طرف سے دریائے فرات نے جزیرہ کی طرح گھیر رکھا ہے اس لئے اس ملک کو ''جزیرۃ العرب''بھی کہتے ہیں۔ اس کے شمال میں شام وعراق ، مغرب میں بحر احمر(بحیرۂ قلزم)جو مکہ معظمہ سے بجانب مغرب تقریباًستتر(77) کیلومیٹر کے فاصلہ پر ہے اورجنوب میں بحر ہند اورمشرق میں خلیج عمان وخلیج فارس ہیں۔اس ملک میں قابل زراعت زمینیں کم ہیں اور اس کا کثیر حصہ پہاڑوں اورریگستانی صحراؤں پر مشتمل ہے ۔
(تاریخ دول العرب والاسلام جلد1ص3)
علماء جغرافیہ نے زمینوں کی طبعی ساخت کے لحاظ سے اس ملک کو آٹھ حصوں میں تقسیم کیاہے ۔
" (1)حجاز (2)یمن (3)حضرموت (4)مہرہ(5)عمان(6)بحرین(7)نجد(7)احقاف
(تاریخ دول العرب والاسلام ج1ص3)"
یہ ملک کے مغربی حصہ میں بحر احمر(بحیرۂ قلزم)کے ساحل کے قریب واقع ہے ۔ حجاز سے ملے ہوئے ساحل سمندر کو جو نشیب میں واقع ہے ''تہامہ''یا ''غور'' (پست زمین)کہتے اور حجاز سے مشرق کی جانب جو ملک کا حصہ ہے وہ ''نجد'' (بلند زمین)
کہلاتا ہے۔ ''حجاز''چونکہ ''تہامہ ''اور''نجد''کے درمیان حاجز اور حائل ہے ا سی لئے ملک کے اس حصہ کو ''حجاز ''کہنے لگے ۔
(دول العرب والاسلام ج1 ص4)
"حجاز کے مندرجہ ذیل مقاما ت تاریخ اسلام میں بہت زیادہ مشہور ہیں۔
مکہ مکرمہ ، مدینہ منورہ ، بدر ، احد ، خیبر، فدک، حنین، طائف ، تبوک ، غدیر خم، وغیرہ ۔
حضرت شعیب علیہ السلام کا شہر ''مدین ''تبوک کے محاذ میں بحراحمر کے ساحل پر واقع ہے۔ مقام ''حجر ''میں جووادی القریٰ ہے وہاں اب تک عذاب سے قوم ثمود کی الٹ پلٹ کردی جانے والی بستیوں کے آثار پائے جاتے ہیں۔ ''طائف '' حجاز میں سب سے زیادہ سرد اورسرسبز مقام ہے اوریہاں کے میوے بہت مشہور ہیں۔"
" حجاز کا یہ مشہور شہر مشرق میں ''جبل ابوقبیس''اورمغرب میں ''جبل قعیقعان'' دوبڑے بڑے پہاڑوں کے درمیان واقع ہے اوراس کے چاروں طرف چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں اورر یتلے میدانوں کا سلسلہ دور دور تک چلا گیاہے ۔ اسی شہر میں حضور شہنشاہ کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی ۔
اس شہر اور اس کے اطراف میں مندرجہ ذیل مشہور مقامات واقع ہیں ۔ کعبہ معظمہ، صفامروہ ، منیٰ ، مزدلفہ ، عرفات ، غارِحرا،غارثور،جبل تنعیم ، جعرانہ وغیرہ ۔
مکہ مکرمہ کی بندرگاہ اورہوائی اڈا ''جدہ ''ہے۔ جو تقریباً چون کیلومیٹر سے کچھ زائدکے فاصلہ پر بحیرۂ قلزم کے ساحل پر واقع ہے ۔
مکہ مکرمہ میں ہر سال ذوالحجہ کے مہینے میں تمام دنیا کے لاکھوں مسلمان بحری، ہوائی اورخشکی کے راستوں سے حج کے لیے آتے ہیں ۔"
" مکہ مکرمہ سے تقریباً تین سو بیس کیلومیٹر کے فاصلہ پر مدینہ منورہ ہے جہاں مکہ مکرمہ سے ہجرت فرما کر حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تشریف لائے اوردس برس تک مقیم رہ کر اسلام کی تبلیغ فرماتے رہے اور اسی شہر میں آپ کا مزار مقدس ہے جو مسجد نبوی کے اندر''گنبدخضرا''کے نام سے مشہورہے ۔
مدینہ منورہ سے تقریبا ساڑھے چارکیلومیٹر جانب شمال کو''احد ''کا پہاڑ ہے جہاں حق وباطل کی مشہورلڑائی ''جنگ احد''لڑی گئی اسی پہاڑ کے دامن میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چچا حضرت سید الشہداء حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مزار مبارک ہے جو جنگ احد میں شہید ہوئے۔
مدینہ منورہ سے تقریباپانچ کیلومیٹر کی دور ی پر ''مسجد قبا''ہے ۔ یہی وہ مقدس مقام ہے جہاں ہجرت کے بعد حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے قیام فرمایا اوراپنے دست مبارک سے اس مسجد کو تعمیر فرمایااس کے بعد مدینہ منورہ میں تشریف لائے اورمسجد نبوی کی تعمیر فرمائی۔ مدینہ منورہ کی بندرگاہ ''ینبع ''ہے جو مدینہ منورہ سے ایک سو سترہ کیلومیٹر کے فاصلہ پر بحیرہ قلزم کے ساحل پر واقع ہے ۔"
اگر ہم عرب کو کرۂ زمین کے نقشہ پر دیکھیں تو اس کے محل وقوع سے یہی معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے ملک عرب کو ایشیا، یورپ اورافریقہ تین براعظموں کے وسط میں جگہ دی ہے اس سے بخوبی یہ سمجھ میں آسکتاہے کہ اگر تمام دنیا کی ہدایت کے واسطے ایک واحد مرکز قائم کرنے کے لیے ہم کسی جگہ کا انتخاب کرنا چاہیں تو ملک عرب ہی اس کے
لیے سب سے زیادہ موزوں اورمناسب مقام ہے ۔ خصوصاً حضورخاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے زمانہ پر نظر کر کے ہم کہہ سکتے ہیں کہ جب افریقہ اوریورپ اور ایشیا کی تین بڑی بڑی سلطنتوں کا تعلق ملک عرب سے تھا توظاہر ہے کہ ملک عرب سے اٹھنے والی آواز کو ان براعظموں میں پہنچائے جانے کے ذرائع بخوبی موجود تھے ۔ غالباً یہی وہ حکمت الہٰیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو ملک عرب میں پیدا فرمایا اور ان کوا قوام عالم کی ہدایت کا کام سپرد فرمایا۔ (واللہ تعالیٰ اعلم)
حضور نبی آخر الزمان صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے وقت ملک عرب کی سیاسی حالت کا یہ حال تھا کہ جنوبی حصہ پر سلطنت حبشہ کا اورمشرقی حصہ پر سلطنت فارس کا قبضہ تھااورشمالی ٹکڑا سلطنت روم کی مشرقی شاخ سلطنت قسطنطنیہ کے زیر اثر تھا۔ اندرون ملک بزعم خود ملک عرب آزاد تھا لیکن اس پر قبضہ کرنے کے لئے ہر ایک سلطنت کوشش میں لگی ہوئی تھی اوردرحقیقت ان سلطنتوں کی باہمی رقابتوں ہی کے طفیل میں ملک عرب آزادی کی نعمت سے بہرہ ور تھا۔
عرب کی اخلاقی حالت نہایت ہی ابتر بلکہ بد سے بدتر تھی جہالت نے ان میں بت پرستی کو جنم دیااوربت پرستی کی لعنت نے ان کے انسانی دل ودماغ پر قابض ہو کر ان کو توہم پرست بنادیا تھا وہ مظاہر فطرت کی ہر چیز پتھر ، درخت ، چاند ، سورج ، پہاڑ، دریا وغیرہ کو اپنا معبود سمجھنے لگ گئے تھے اورخود ساختہ مٹی اورپتھر کی مورتوں کی عبادت کرتے تھے۔ عقائد کی خرابی کے ساتھ ساتھ ان کے اعمال وافعال بے حد بگڑے ہوئے
تھے ، قتل ، رہزنی ، جوا، شراب نوشی ، حرام کاری ، عورتوں کا اغواء ، لڑکیوں کو زندہ درگور کرنا ، عیاشی ، فحش گوئی ، غرض کون ساایسا گندہ اورگھناؤنا عمل تھا جو ان کی سرشت میں نہ رہا ہو۔ چھوٹے بڑے سب کے سب گناہوں کے پتلے اورپاپ کے پہاڑ بنے ہوئے تھے ۔
" بانئ کعبہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک فرزند کا نام نامی حضرت اسمٰعیل علیہ السلام ہے جو حضرت بی بی ہاجرہ کے شکم مبارک سے پیداہوئے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کو اوران کی والدہ حضرت بی بی ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو مکہ مکرمہ میں لاکر آباد کیا اور عرب کی زمین ان کو عطافرمائی ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوسرے فرزند کا نام نامی حضرت اسحاق علیہ السلام ہے جو حضر ت بی بی سارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مقدس شکم سے تولد ہوئے تھے ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کو ملک شام عطافرمایا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تیسری بیوی حضرت قطورہ کے پیٹ سے جو اولاد ''مدین ''وغیرہ ہوئے ان کو آپ نے یمن کا علاقہ عطافرمایا۔"
حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے بارہ بیٹے ہوئے اوران کی اولاد میں خدا وند قدوس نے اس قدر برکت عطافرمائی کہ وہ بہت جلد تمام عرب میں پھیل گئے یہاں تک کہ مغرب میں مصر کے قریب تک ان کی آبادیاں جاپہنچیں اورجنوب کی طرف ان کے خیمے یمن تک پہنچ گئے اورشمال کی طرف ان کی بستیاں ملک شام سے جاملیں۔ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے ایک فرزند جن کا نام ''قیدار''تھا بہت ہی نامور ہوئے اوران کی اولاد خاص مکہ میں آباد رہی اوریہ لوگ اپنے باپ کی طرح ہمیشہ کعبہ معظمہ کی خدمت کرتے
"رہے جس کو دنیا میں توحید کی سب سے پہلی درسگاہ ہونےکا شرف حاصل ہے۔
انہی قیدار کی اولاد میں ''عدنان''نامی نہایت اولوالعزم شخص پیداہوئے اور ''عدنان''کی اولاد میں چند پشتوں کے بعد ''قصی''بہت ہی جاہ وجلال والے شخص پیدا ہوئے جنہوں نے مکہ مکرمہ میں مشترکہ حکومت کی بنیاد پر 440 میں ایک سلطنت قائم کی اورایک قومی مجلس (پارلیمنٹ)بنائی جو ''دارالندوہ''کے نام سے مشہور ہے اور اپنا ایک قومی جھنڈا بنایا جسکو ''لواء ''کہتے تھے اور مندرج ذیل چار عہدے قائم کئے۔ جن کی ذمہ داری چار قبیلوں کو سونپ دی ۔
(1)رفادۃ (2)سقایۃ (3)حجابۃ (4)قیادۃ
''قصی '' کے بعد ان کے فرزند ''عبد مناف''اپنے باپ کے جانشین ہوئے پھر ان کے فرزند ''ہاشم ''پھر ان کے فرزند ''عبدالمطلب ''یکے بعد دیگرے ایک دوسرے کے جانشین ہوتے رہے ۔ انہی عبدالمطلب کے فرزند حضرت عبداللہ ہیں۔ جن کے فرزند ارجمند ہمارے حضور رحمۃللعالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہیں ۔ جن کی مقدس سیرت پاک لکھنے کا خداوند عالم نے اپنے فضل سے ہم کو شرف عطافرمایا ہے ۔"
اس کتاب کا مطالعہ آپ اس طرح نہ کریں جس طرح عام طور پر لوگ ناولوں یا قصہ کہانیوں ، یا تاریخی کتابوں کو نہایت ہی لاپروائی کے ساتھ پاکی ناپاکی ہر حالت میں پڑھتے رہتے ہیں اورنہایت ہی بے توجہی کے ساتھ پڑھ کر ادھر ادھر ڈال دیا کرتے ہیں بلکہ آپ اس جذبۂ عقیدت اوروالہانہ جوش محبت کے ساتھ اس کتاب کا مطالعہ کریں کہ یہ شہنشاہ دارین اورمحبوب رب المشرقین والمغربین کی حیات طیبہ اوران کی سیرت
"مقدسہ کا ذکر جمیل ہے جو ہماری ایمانی عقیدتوں کا مرکز اورہماری اسلامی زندگی کا محور ہے ۔ یہ محبوب خدا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ان قابل احترام اداؤں کا بیان ہے جن پر کائنات عالم کی تمام عظمتیں قربان ہیں ، لہذا اس کے مطالعہ کے وقت آپ کو ادب واحترام کا پیکر بن کر اورتعظیم وتوقیر کے جذبات صادقہ سے اپنے قلب ودماغ کو منور کر کے اس تصور کے ساتھ اس کی ایک ایک سطر کو پڑھنا چاہیے کہ اس کا ایک ایک لفظ میرے لئے حسنات وبرکات کا خزانہ ہے اورگویا میں حضور رحمۃ للعالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مقدس دربار میں حاضر ہوں اورآپ کی ان پیاری پیاری اداؤں کو دیکھ رہا ہوں اورآپ کے فیض صحبت سے انوار حاصل کر رہا ہوں ۔ حضرت ابو ابراہیم تجیبی علیہ الرحمۃ نے ارشاد فرمایا ہے کہ
''ہر مومن پر واجب ہے کہ جب وہ رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ذکر کرے یا اسکے سامنے آپ کا ذکر کیا جائے تو وہ پر سکون ہوکر نیاز مندی وعاجزی کا اظہار کرے، اوراپنے قلب میں آپ کی عظمت اورہیبت وجلال کاایسا ہی تاثر پیدا کرے جیسا کہ آپ کے روبرو حاضر ہونے کی صورت میں آپ کے جلال وہیبت سے متاثر ہوتا۔'' (شفا ء ج2ص32)
اورحضرت علامہ قاضی عیاض رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ حضور انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی وفات اقدس کے بعد بھی ہرامتی پر آپ کی اتنی ہی تعظیم وتوقیر لازم ہے جتنی کہ آپ کی ظاہری حیات میں تھی ۔ چنانچہ خلیفہ بغداد ابو جعفر منصور عباسی جب مسجد نبوی میں آکر زور زور سے بولنے لگاتو حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ا سکو یہ کہہ کر ڈانٹ دیا کہ اے امیر المومنین! یہاں بلند آواز سے گفتگونہ کیجئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اپنے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وال وسلم کے دربار کا یہ ادب سکھایا کہ"
لَا تَرْفَعُوۡۤا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ (1)
یعنی نبی کے دربار میں اپنی آواز وں کو بلند نہ کرو ۔
''وان حرمتہ میتا کحرمتہ حیا ''
اورآپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی وفات اقدس کے بعد بھی ہر امتی پر آپ کی اتنی ہی تعظیم واجب ہے جتنی کہ آپ کی ظاہری حیات میں تھی ۔ یہ سن کر خلیفہ لرزہ براندام ہوکر نرم پڑگیا۔
(شفاء شریف ج2ص32وص33)
بہرحال سیرت مقدسہ کی کتابوں کو پڑھتے وقت ادب واحترام لازم ہے اور بہتر یہ ہے کہ جب پڑھنا شروع کرے تو درود شریف پڑھ کر کتاب شروع کرے اور جب تک دلجمعی باقی رہے پڑھتا رہے اورجب ذرا بھی اکتاہٹ محسوس کرے تو پڑھنا بند کردے اور بے توجہی کے ساتھ ہرگز نہ پڑھے ۔
واللہ تعالیٰ ھوالموفق والمعین وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلیٰ اٰلہ وصحبہ اجمعین
2....پ ۲۶، الحجرات:۲
"محمد وہ کتاب کون کا غرائے پیشانی
محمد وہ حریم قدس کا شمع شبستانی
مبشر جس کی بعثت کا ظہورِ عیسیٰ مریم
مصدق جس کی عظمت کا لب موسٰی عمرانی
(علیہم الصلوٰۃ والسلام)"
"بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ سَرْمَدًا صَلِّ عَلٰی حَبِیْبِکَ الْمُصْطَفٰی وَاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ اَبَدًا"
"حَسْبِیْ رَبِّیْ جَلَّ اللہ نُوْرِ مُحَمَّدْ صَلَّی اللہ
لَا مَقْصُوْدَ اِلاَّ اللہ چل میرے خامہ! بِسْمِ اللہ"
" حضورِاقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا نسب شریف والد ماجد کی طرف سے یہ ہے:
(۱)حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم (۲) بن عبداللہ (۳) بن عبدالمطلب (۴) بن ہاشم (۵)بن عبد مناف(۶)بن قصی(۷)بن کلاب(۸)بن مرہ(۹)بن کعب (۱۰)بن لوی(۱۱)بن غالب(۱۲)بن فہر(۱۳)بن مالک(۱۴) بن نضر (۱۵) بن کنانہ(۱۶) بن خزیمہ(۱۷) بن مدرکہ(۱۸) بن الیاس (۱۹) بن مضر (۲۰) بن نزار(۲۱) بن معد(۲۲)بن عدنان ۔(1)"
(بخاری ج 1، باب مبعث النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)
"اور والدہ ماجدہ کی طرف سے حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا شجره نسب یہ ہے:
(1) حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم(2) بن آمنہ(3)بنت وہب(4) بن عبد مناف(5) بن زہرہ(6) بن کلاب(7) بن مرہ۔(2)"
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخا ری،کتاب مناقب الانصا ر،باب مبعث النبی صلی اللہ علیہ وسلم،ج2،ص573
2۔۔۔۔۔۔السیرۃ النبویۃ لابن ہشام،اولاد عبد المطلب،ص48"
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے والدین کا نسب نامہ ''کلاب بن مرہ '' پر مل جاتا ہے اور آگے چل کردونوں سلسلے ایک ہو جاتے ہیں۔ '' عدنان'' تک آپ کا نسب نامہ صحیح سندوں کے ساتھ باتفاق مؤرخین ثابت ہے اس کے بعد ناموں میں بہت کچھ اختلاف ہے اورحضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جب بھی اپنا نسب نامہ بیان فرماتے تھے تو ''عدنان'' ہی تک ذکر فرماتے تھے۔
(کرمانی بحوالہ حاشیہ بخاری ج 1، ص543)
مگر اس پر تمام مؤرخین کا اتفاق ہے کہ ''عدنان'' حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں، اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فرزند ارجمند ہیں۔
حضورِاکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا خاندان و نسب نجابت و شرافت میں تمام دنیا کے خاندانوں سے اشرف و اعلیٰ ہے اور یہ وہ حقیقت ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بدترین دشمن کفار مکہ بھی کبھی اس کا انکار نہ کر سکے۔ چنانچہ حضرت ابو سفیان نے جب وہ کفر کی حالت میں تھے بادشاہ روم ہر قل کے بھرے دربار میں اس حقیقت کا اقرار کیا کہ ''ھو فیناذونسب'' یعنی نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ''عالی خاندان'' ہیں۔(1)
(بخاری ج1 ص4)
حالانکہ اس وقت وہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بدترین دشمن تھے اور چاہتے تھے کہ اگر ذرا بھی کوئی گنجائش ملے تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ذات پاک پر کوئی عیب لگا کر بادشاہ روم کی نظروں سے آپ کا وقار گرا دیں۔
1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری ، کتاب بدء الوحی ، باب 6، ج1،ص10مفصلاً
"مسلم شریف کی روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ''کنانہ'' کو برگزیدہ بنایا اور ''کنانہ'' میں سے ''قریش'' کو چنا ،اور ''قریش'' میں سے ''بنی ہاشم'' کو منتخب فرمایا،اور ''بنی ہاشم'' میں سے مجھ کو چن لیا۔(1) (مشکوٰۃ فضائل سید المرسلین)
بہر حال یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ؎"
"لَہُ النَّسْبُ الْعَالِیْ فَلَیْسَ کَمِثْلِہٖ
حَسِیْبٌ نَسِیْبٌ مُنْعَمٌ مُتَکَرَّم،"
یعنی حضورِانور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا خاندان اس قدر بلند مرتبہ ہے کہ کوئی بھی حسب و نسب والا اور نعمت و بزرگی والا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مثل نہیں ہے۔
"حضورِاقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے خاندانِ نبوت میں سبھی حضرات اپنی گوناگوں خصوصیات کی وجہ سے بڑے نامی گرامی ہیں۔ مگر چند ہستیاں ایسی ہیں جو آسمان فضل و کمال پر چاند تارے بن کر چمکے۔ ان با کمالوں میں سے ''فہر بن مالک'' بھی ہیں ان کا لقب ''قریش'' ہے اور ان کی اولاد قریشی ''یا قریش'' کہلاتی ہے۔
''فہر بن مالک '' قریش اس لئے کہلاتے ہیں کہ ''قریش'' ایک سمندری جانور کا نام ہے جو بہت ہی طاقتور ہوتا ہے، اور سمندری جانوروں کو کھا ڈالتا ہے یہ تمام جانوروں پر ہمیشہ غالب ہی رہتا ہے کبھی مغلوب نہیں ہوتا چونکہ ''فہر بن مالک'' اپنی شجاعت اور خداداد طاقت کی بنا پر تمام قبائلِ عرب پر غالب تھے اس لئے تمام اہل"
1۔۔۔۔۔۔صحیح مسلم، کتاب الفضائل ، باب فضل نسب النبی صلی اللہ علیہ وسلم...الخ، الحدیث:2276، ص1249
عرب ان کو ''قریش'' کے لقب سے پکارنے لگے۔ چنانچہ اس بارے میں ''شمرخ بن عمرو حمیری'' کا شعر بہت مشہور ہے کہ ؎
"وَ قُرَیْشٌ ھِیَ الَّتِیْ تَسْکُنُ الْبَحْرَ بِھَا سُمِّیَتْ قُرَیْشٌ قُرَیْشًا"
یعنی ''قریش'' ایک جانور ہے جو سمندر میں رہتا ہے۔اسی کے نام پر قبیلۂ قریش کا نام ''قریش '' رکھ دیا گیا۔(1)
(زرقانی علی المواہب ج 1 ص76)
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ماں باپ دونوں کا سلسلۂ نسب ''فہر بن مالک'' سے ملتا ہے اس لئے حضوراکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ماں باپ دونوں کی طرف سے ''قریشی'' ہیں۔
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پردادا ''ہاشم'' بڑی شان و شوکت کے مالک تھے۔ ان کا اصلی نام ''عمرو'' تھا انتہائی بہادر ،بے حد سخی، اور اعلیٰ درجے کے مہمان نواز تھے۔ ایک سال عرب میں بہت سخت قحط پڑ گیااور لوگ دانے دانے کو محتاج ہو گئے تو یہ ملکِ شام سے خشک روٹیاں خرید کر حج کے دنوں میں مکہ پہنچے اور روٹیوں کا چورا کرکے اونٹ کے گوشت کے شوربے میں ثرید بنا کر تمام حاجیوں کو خوب پیٹ بھر کر کھلایا۔اس دن سے لوگ ان کو''ہاشم''(روٹیوں کاچورا کرنے والا)کہنے لگے۔(2)
( مدارج النبوۃ ج2 ص8)
چونکہ یہ ''عبدمناف'' کے سب لڑکوں میں بڑے اور با صلاحیت تھے اس لئے
"1۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب،المقصد الاول فی تشریف اللہ تعالٰی...الخ،ج1،ص144
2۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم اول ، باب اول ، ج2،ص8وشرح الزرقانی علی المواھب، المقصد الاو ل فی تشریف اللہ تعالٰی...الخ ،ج1،ص138"
عبد مناف کے بعد کعبہ کے متولی اور سجادہ نشین ہوئے بہت حسین و خوبصورت اور وجیہ تھے جب سن شعور کو پہنچے تو ان کی شادی مدینہ میں قبیلہ خزرج کے ایک سردار عمرو کی صاحبزادی سے ہوئی جن کا نام ''سلمیٰ'' تھا۔اور ان کے صاحبزادے ''عبد المطلب'' مدینہ ہی میں پیدا ہوئے چونکہ ہاشم پچیس سال کی عمر پاکر ملک شام کے راستہ میں بمقام ''غزہ'' انتقال کر گئے۔ اس لئے عبدالمطلب مدینہ ہی میں اپنے نانا کے گھر پلے بڑھے،اور جب سات یا آٹھ سال کے ہو گئے تو مکہ آکر اپنے خاندان والوں کے ساتھ رہنے لگے۔
حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دادا ''عبدالمطلب''کااصلی نام ''شیبہ'' ہے۔ یہ بڑے ہی نیک نفس اور عابد و زاہد تھے۔ ''غار حرا'' میں کھانا پانی ساتھ لے کر جاتے اور کئی کئی دنوں تک لگاتار خداعزوجل کی عبادت میں مصروف رہتے۔ رمضان شریف کے مہینے میں اکثر غارِ حرا میں اعتکاف کیا کرتے تھے، اور خداعزوجل کے دھیان میں گوشہ نشین رہا کرتے تھے۔ رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا نورِ نبوت ان کی پیشانی میں چمکتا تھااور ان کے بدن سے مشک کی خوشبو آتی تھی۔ اہل عرب خصوصاً قریش کو ان سے بڑی عقیدت تھی۔ مکہ والوں پر جب کوئی مصیبت آتی یا قحط پڑ جاتا تو لوگ عبدالمطلب کو ساتھ لے کر پہاڑ پر چڑھ جاتے اور بارگاہِ خداوندی میں ان کو وسیلہ بنا کر دعا مانگتے تھے تو دعا مقبول ہو جاتی تھی۔ یہ لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے سے لوگوں کو بڑی سختی کے ساتھ روکتے تھے اور چور کا ہاتھ کاٹ ڈالتے تھے۔ اپنے دسترخوان سے پرندوں کو بھی کھلایا کرتے تھے اس لئے ان کا لقب ''مطعم الطیر''(پرندوں کو کھلانے والا) ہے۔ شراب اور زنا کو حرام جانتے تھے اور عقیدہ کے لحاظ سے ''موحد'' تھے۔ ''زمزم
شریف'' کا کنواں جو بالکل پٹ گیا تھا آپ ہی نے اس کو نئے سرے سے کھدوا کر درست کیا، اور لوگوں کو آب زمزم سے سیراب کیا۔ آپ بھی کعبہ کے متولی اور سجادہ نشین ہوئے۔اصحاب فیل کا واقعہ آپ ہی کے وقت میں پیش آیا ۔ایک سو بیس برس کی عمر میں آپ کی وفات ہوئی۔(1)(زرقانی علی المواہب ج1 ص72)
حضوراکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی پیدائش سے صرف پچپن دن پہلے یمن کا بادشاہ ''ابرہہ'' ہاتھیوں کی فوج لے کر کعبہ ڈھانے کے لئے مکہ پر حملہ آور ہوا تھا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ ''ابرہہ'' نے یمن کے دارالسلطنت ''صنعاء'' میں ایک بہت ہی شاندار اور عالی شان ''گرجاگھر'' بنایا اور یہ کوشش کرنے لگا کہ عرب کے لوگ بجائے خانہ کعبہ کے یمن آ کر اس گرجا گھر کا حج کیا کریں۔ جب مکہ والوں کو یہ معلوم ہوا تو قبیلہ ''کنانہ'' کا ایک شخص غیظ و غضب میں جل بھن کر یمن گیا،اور وہاں کے گرجا گھر میں پاخانہ پھر کر اس کو نجاست سے لت پت کر دیا۔ جب ابرہہ نے یہ واقعہ سنا تو وہ طیش میں آپے سے باہر ہو گیا اور خانہ کعبہ کو ڈھانے کے لئے ہاتھیوں کی فوج لے کر مکہ پر حملہ کر دیا۔ اور اس کی فوج کے اگلے دستہ نے مکہ والوں کے تمام اونٹوں اور دوسرے مویشیوں کو چھین لیا اس میں دو سو یا چار سو اونٹ عبدالمطلب کے بھی تھے۔ (2)
(زرقانی ج1 ص85)
"1۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب، المقصد الاول فی تشریف اللہ تعالٰی...الخ، ج1، ص135۔138مختصراً والمواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،المقصد الاول فی تشریف اللہ تعالٰی...الخ ،ج1،ص155
2۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب،المقصد الاول،عام الفیل وقصۃ ابرھۃ،ج1،ص156۔158ملتقطاً"
"عبدالمطلب کو اس واقعہ سے بڑا رنج پہنچا۔ چنانچہ آپ اس معاملہ میں گفتگو کرنے کے لئے اس کے لشکر میں تشریف لے گئے۔ جب ابرہہ کو معلوم ہوا کہ قریش کا سردار اس سے ملاقات کرنے کے لئے آیا ہے تو اس نے آپ کو اپنے خیمہ میں بلا لیا اور جب عبدالمطلب کو دیکھا کہ ایک بلند قامت ،رعب دار اور نہایت ہی حسین و جمیل آدمی ہیں جن کی پیشانی پر نورِ نبوت کا جاہ و جلال چمک رہا ہے تو صورت دیکھتے ہی ابرہہ مرعوب ہو گیا۔ اور بے اختیار تخت شاہی سے اُتر کر آپ کی تعظیم و تکریم کے لئے کھڑا ہو گیا اور اپنے برابر بٹھا کر دریافت کیا کہ کہیے، سردار قریش!یہاں آپ کی تشریف آوری کا کیا مقصد ہے؟ عبدالمطلب نے جواب دیا کہ ہمارے اونٹ اور بکریاں وغیرہ جو آپ کے لشکر کے سپاہی ہانک لائے ہیں آپ ان سب مویشیوں کو ہمارے سپرد کر دیجیے۔ یہ سن کر ابرہہ نے کہا کہ اے سردارِ قریش! میں تو یہ سمجھتا تھا کہ آپ بہت ہی حوصلہ مند اور شاندار آدمی ہیں ۔مگر آپ نے مجھ سے اپنے اونٹوں کا سوال کرکے میری نظروں میں اپنا وقار کم کر دیا۔ اونٹ اور بکری کی حقیقت ہی کیا ہے؟ میں تو آپ کے کعبہ کو توڑ پھوڑ کر برباد کرنے کے لئے آیا ہوں، آپ نے اس کے بارے میں کوئی گفتگو نہیں کی۔ عبدالمطلب نے کہا کہ مجھے تو اپنے اونٹوں سے مطلب ہے کعبہ میراگھر نہیں ہے بلکہ وہ خدا کا گھر ہے۔ وہ خود اپنے گھر کو بچا لے گا۔ مجھے کعبہ کی ذرا بھی فکر نہیں ہے۔(1) یہ سن کر ابرہہ اپنے فرعونی لہجہ میں کہنے لگا کہ اے سردار مکہ!سن لیجیے! میں کعبہ کو ڈھا کر اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا،اور روئے زمین سے اس کا نام و نشان مٹا دوں گا کیونکہ
مکہ والوں نے میرے گرجا گھر کی بڑی بے حرمتی کی ہے اس لئے میں اس کا انتقام لینے"
1۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب،المقصد الاول،عام الفیل وقصۃ ابرھۃ،ج1،ص161ملخصاً
کے لئے کعبہ کو مسمار کردینا ضروری سمجھتا ہوں۔ عبدالمطلب نے فرمایا کہ پھر آپ جانیں اورخدا جانے۔ میں آپ سے سفارش کرنے والا کون؟ اس گفتگو کے بعد ابرہہ نے تمام جانوروں کو واپس کر دینے کا حکم دے دیا۔ اور عبدالمطلب تمام اونٹوں اور بکریوں کو ساتھ لے کر اپنے گھر چلے آئے اور مکہ والوں سے فرمایا کہ تم لوگ اپنے اپنے مال مویشیوں کو لے کر مکہ سے باہر نکل جاؤ ۔ اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھ کر اور دروں میں چھپ کر پناہ لو۔(1) مکہ والوں سے یہ کہہ کر پھر خود اپنے خاندان کے چند آدمیوں کو ساتھ لے کر خانہ کعبہ میں گئے اور دروازہ کا حلقہ پکڑ کر انتہائی بے قراری اور گریہ و زاری کے ساتھ دربار باری میں اس طرح دعا مانگنے لگے کہ ؎
"لَاھُمَّ اِنَّ الْمَرْءَ یَمْنعُ رَحْلَہٗ فَامْنَعْ رِحَالَکَ
وَانْصُرْ عَلٰی اٰلِ الصَّلِیْبِ وَعَابِدِیْہِ اَ لْیَوْمَ اٰلَکَ"
"اے اللہ !بے شک ہر شخص اپنے اپنے گھر کی حفاظت کرتا ہے۔ لہٰذا تو بھی اپنے گھر کی حفاظت فرما،اور صلیب والوں اور صلیب کے بچاریوں (عیسائیوں) کے مقابلہ میں اپنے اطاعت شعاروں کی مدد فرما۔ عبدالمطلب نے یہ دعا مانگی اور اپنے خاندان والوں کو ساتھ لے کر پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئے اور خدا کی قدرت کا جلوہ دیکھنے لگے۔(2) ابرہہ جب صبح کو کعبہ ڈھانے کے لئے اپنے لشکر جرار اور ہاتھیوں کی قطار کے ساتھ آگے بڑھا اور مقام ''مغمس'' میں پہنچا تو خود اس کا ہاتھی جس کا نام ''محمود'' تھا
ایک دم بیٹھ گیا۔ ہر چند مارا، اور بار بار للکارا مگر ہاتھی نہیں اٹھا۔(3) اسی حال میں قہر"
"1۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب،المقصد الاول،عام الفیل وقصۃ ابرھۃ،ج1،ص161ملخصاً
2۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب،المقصد الاول،عام الفیل وقصۃ ابرھۃ ،ج1،ص157
3۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب،المقصد الاول،عام الفیل وقصۃ ابرھۃ،ج1،ص162ملخصاً"
الٰہی ابابیلوں کی شکل میں نمودار ہوا اور ننھے ننھے پرندے جھنڈ کے جھنڈ جن کی چونچ اور پنجوں میں تین تین کنکریاں تھیں سمندر کی جانب سے حرم کعبہ کی طرف آنے لگے۔ ابابیلوں کے ان دل بادل لشکروں نے ابرہہ کی فوجوں پر اس زورشور سے سنگ باری شروع کر دی کہ آن کی آن میں ابرہہ کے لشکر، اور اس کے ہاتھیوں کے پرخچے اڑ گئے۔ ابابیلوں کی سنگ باری خداوند قہار و جبار کے قہر و غضب کی ایسی مار تھی کہ جب کوئی کنکری کسی فیل سوار کے سرپر پڑتی تھی تو وہ اس آدمی کے بدن کو چھیدتی ہوئی ہاتھی کے بدن سے پار ہو جاتی تھی۔ ابرہہ کی فوج کا ایک آدمی بھی زندہ نہیں بچا اور سب کے سب ابرہہ اور اس کے ہاتھیوں سمیت اس طرح ہلاک و برباد ہو گئے کہ ان کے جسموں کی بوٹیاں ٹکڑے ٹکڑے ہو کر زمین پر بکھر گئیں ۔چنانچہ قرآن مجید کی ''سورهٔ فیل'' میں خداوند قدوس نے اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:
اَلَمْ تَرَ کَیۡفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحٰبِ الْفِیۡلِ ؕ﴿۱﴾اَلَمْ یَجْعَلْ کَیۡدَہُمْ فِیۡ تَضْلِیۡلٍ ۙ﴿۲﴾وَّ اَرْسَلَ عَلَیۡہِمْ طَیۡرًا اَبَابِیۡلَ ۙ﴿۳﴾تَرْمِیۡہِمۡ بِحِجَارَۃٍ مِّنۡ سِجِّیۡلٍ ﴿۴﴾۪ۙفَجَعَلَہُمْ کَعَصْفٍ مَّاۡکُوۡلٍ ٪﴿۵﴾ (1)
"یعنی(اے محبوب)کیا آپنے نہ دیکھا کہ آپکے رب نے ان ہاتھی والوں کا کیا حال کر ڈالا کیا انکے داؤں کو تباہی میں نہ ڈالا اور ان پر پرندوں کی ٹکڑیاں بھیجیں تاکہ انہیں کنکر کے پتھروں سے ماریں تو انہیں چبائے ہوئے بھُس جیسا بنا ڈالا
جب ابرہہ اور اس کے لشکروں کا یہ انجام ہوا تو عبدالمطلب پہاڑ سے نیچے
اترے اور خدا کا شکر ادا کیا۔ ان کی اس کرامت کا دور دور تک چرچا ہو گیااور تمام اہل عرب ان کو ایک خدا رسیدہ بزرگ کی حیثیت سے قابل احترام سمجھنے لگے۔(2)"
"1۔۔۔۔۔۔پ30،الفیل:1۔5
2۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب،المقصد الاول،عام الفیل وقصۃ ابرھۃ ،ج1،ص164"
"یہ ہمارے حضور رحمتِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے والد ماجد ہیں ۔یہ عبد المطلب کے تمام بیٹوں میں سب سے زیادہ باپ کے لاڈلے اور پیارے تھے۔ چونکہ ان کی پیشانی میں نور محمدی اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ جلوہ گر تھا اس لئے حسن و خوبی کے پیکر، اور جمالِ صورت و کمال سیرت کے آئینہ دار، اور عفت و پارسائی میں یکتائے روزگار تھے۔ قبیلۂ قریش کی تمام حسین عورتیں ان کے حسن و جمال پر فریفتہ اور ان سے شادی کی خواست گار تھیں۔ مگر عبدالمطلب ان کے لئے ایک ایسی عورت کی تلاش میں تھے جو حسن و جمال کے ساتھ ساتھ حسب و نسب کی شرافت اور عفت و پارسائی میں بھی ممتاز ہو۔ عجیب اتفاق کہ ایک دن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ شکار کے لئے جنگل میں تشریف لے گئے تھے ملک شام کے یہودی چند علامتوں سے پہچان گئے تھے کہ نبی آخرالزماں کے والد ماجد یہی ہیں۔ چنانچہ ان یہودیوں نے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بارہا قتل کر ڈالنے کی کوشش کی۔ اس مرتبہ بھی یہودیوں کی ایک بہت بڑی جماعت مسلح ہو کر اس نیت سے جنگل میں گئی کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تنہائی میں دھوکہ سے قتل کر دیا جائے مگر اللہ تعالیٰ نے اس مرتبہ بھی اپنے فضل و کرم سے بچا لیا۔ عالم غیب سے چند ایسے سوار ناگہاں نمودار ہوئے جو اس دنیا کے لوگوں سے کوئی مشابہت ہی نہیں رکھتے تھے،ان سواروں نے آ کر یہودیوں کو مار بھگایا اور حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بحفاظت
ان کے مکان تک پہنچا دیا۔''وہب بن مناف'' بھی اس دن جنگل میں تھے اور انہوں نے اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھا، اس لئے ان کوحضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بے انتہا محبت و عقیدت پیدا ہو گئی، اور گھر آ کر یہ عزم کرلیا کہ میں اپنی نورِ نظر حضرت آمنہ"
رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شادی حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سے کروں گا۔ چنانچہ اپنی اس دلی تمنا کو اپنے چند دوستوں کے ذریعہ انہوں نے عبدالمطلب تک پہنچا دیا۔خدا کی شان کہ عبدالمطلب اپنے نورِ نظرحضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے جیسی دلہن کی تلاش میں تھے، وہ ساری خوبیاں حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہابنت وہب میں موجود تھیں۔ عبدالمطلب نے اس رشتہ کو خوشی خوشی منظور کر لیا۔چنانچہ چوبیس سال کی عمر میں حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے نکاح ہو گیااور نور محمدی حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منتقل ہو کر حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے شکم اطہر میں جلوہ گر ہو گیا اور جب حمل شریف کو دو مہینے پورے ہو گئے تو عبدالمطلب نے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کھجوریں لینے کے لئے مدینہ بھیجا،یا تجارت کے لئے ملک شام روانہ کیا، وہاں سے واپس لوٹتے ہوئے مدینہ میں اپنے والد کے ننہال ''بنو عدی بن نجار'' میں ایک ماہ بیمار رہ کر پچیس برس کی عمر میں وفات پا گئے اور وہیں ''دارِ نابغہ'' میں مدفون ہوئے۔(1)
(زرقانی علی المواہب ج 1 ص101 و مدارج جلد2 ص14)
قافلہ والوں نے جب مکہ واپس لوٹ کر عبدالمطلب کو حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیماری کا حال سنایا تو انہوں نے خبر گیری کے لئے اپنے سب سے بڑے لڑکے ''حارث'' کو مدینہ بھیجا۔ان کے مدینہ پہنچنے سے قبل ہی حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راہی ملک بقا ہو چکے تھے۔ حارث نے مکہ واپس آ کر جب وفات کی خبر سنائی تو سارا گھر ماتم کدہ بن گیااور بنو ہاشم کے ہر گھر میں ماتم برپا ہو گیا ۔خود حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے اپنے مرحوم شوہر کا ایسا پردرد مرثیہ کہا ہے کہ جس کو سن کر آج بھی دل درد
1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم دوم، باب اول ،ج2،ص12۔14ملتقطاً
"سے بھر جاتا ہے ۔روایت ہے کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات پر فرشتوں نے غمگین ہو کر بڑی حسرت کے ساتھ یہ کہا کہ الٰہی !عزوجل تیرا نبی یتیم ہو گیا ۔حضرت حق نے فرمایا: کیا ہوا؟ میں اس کا حامی و حافظ ہوں ۔ (1) (مدارج النبوۃ ج2 ص14)
حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ترکہ ایک لونڈی ''اُم ایمن'' جس کا نام ''برکہ'' تھاکچھ اونٹ کچھ بکریاں تھیں،یہ سب ترکہ حضور سرور عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو ملا۔ ''اُمِ ایمن'' بچپن میں حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی دیکھ بھال کرتی تھیں کھلاتیں، کپڑا پہناتیں، پرورش کی پوری ضروریات مہیا کرتیں، اس لئے حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تمام عمر''اُم ایمن'' کی دل جوئی فرماتے رہے اپنے محبوب و متبنٰی غلام حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کا نکاح کر دیا،اور ان کے شکم سے حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیدا ہوئے۔(2) (عامہ کتب سیر)"
"حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے والدین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے کہ وہ دونوں مؤمن ہیں یا نہیں؟بعض علماء ان دونوں کو مؤمن نہیں مانتے اور بعض علماء نے اس مسئلہ میں توقف کیا اور فرمایا کہ ان دونوں کو مؤمن یا
کافر کہنے سے زبان کو روکنا چاہیے اور اس کا علم خدا عزوجل کے سپرد کر دینا چاہیے،مگر اہل سنت کے علماء محققین مثلاً امام جلال الدین سیوطی و علامہ ابن حجرہیتمی و امام قرطبی و حافظ الشام ابن ناصر الدین و حافظ شمس الدین د مشقی و قاضی ابوبکر ابن العربی مالکی و شیخ"
"1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم دوم، باب اول ،ج2،ص14
2۔۔۔۔۔۔الاستیعاب، کتاب النساء وکناھن، باب الباء ،ج4،ص356ودلائل النبوۃ للبیہقی، باب ذکر رضاع النبی صلی اللہ علیہ وسلم مرضعتہ ...الخ،ج1،ص150"
"عبدالحق محدث دہلوی و صاحب الاکلیل مولانا عبدالحق مہاجر مدنی وغیرہ رحمہم اللہ تعالیٰ کا یہی عقیدہ اور قول ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ماں باپ دونوں یقینا بلا شبہ مؤمن ہیں۔ چنانچہ اس بار ے میں حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا ارشاد ہے کہ
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے والدین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو مؤمن نہ ماننا یہ علماء متقدمین کا مسلک ہے لیکن علماء متأخرین نے تحقیق کے ساتھ اس مسئلہ کو ثابت کیا ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے والدین رضی اللہ تعالیٰ عنہما بلکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے تمام آباء و اجداد حضرت آدم علیہ السلام تک سب کے سب ''مؤمن'' ہیں اور ان حضرات کے ایمان کو ثابت کرنے میں علماء متأخرین کے تین طریقے ہیں:
اول یہ کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے والدین رضی اللہ تعالیٰ عنہمااور آباء و اجداد سب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین پر تھے، لہٰذا ''مؤمن''ہوئے۔ دوم یہ کہ یہ تمام حضرات حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اعلان نبوت سے پہلے ہی ایسے زمانے میں وفات پا گئے جو زمانہ ''فترت'' کہلاتا ہے اوران لوگوں تک حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعوتِ ایمان پہنچی ہی نہیں لہٰذا ہر گز ہر گز ان حضرات کو کافر نہیں کہا جا سکتابلکہ ان لوگوں کو مؤمن ہی کہا جائے گا۔ سوم یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان حضرات کو زندہ فرما کر ان کی قبروں سے اٹھایا اور ان لوگوں نے کلمہ پڑھ کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصدیق کی اور حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام
کے والدین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو زندہ کرنے کی حدیث اگرچہ بذات خود ضعیف ہے مگر اس کی سندیں اس قدر کثیر ہیں کہ یہ حدیث ''صحیح'' اور ''حسن'' کے درجے کو پہنچ گئی ہے۔
اور یہ وہ علم ہے جو علماء متقدمین پر پوشیدہ رہ گیا جس کو حق تعالیٰ نے علماء متأخرین پر منکشف فرمایا اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے اپنے فضل سے اپنی رحمت کے ساتھ خاص"
"فرما لیتا ہے اور شیخ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اس مسئلہ میں چند رسائل تصنیف کیے ہیں اور اس مسئلہ کو دلیلوں سے ثابت کیا ہے اور مخالفین کے شبہات کا جواب دیا ہے۔(1) (اشعۃ اللمعات ج اول ص 718)
اسی طرح خاتمۃ المفسرین حضرت شیخ اسمٰعیل حقی رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ
امام قرطبی نے اپنی کتاب ''تذکرہ'' میں تحریر فرمایا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جب ''حجۃ الوداع'' میں ہم لوگوں کو ساتھ لے کر چلے اور'' حجون '' کی گھاٹی پر گزرے تو رنج و غم میں ڈوبے ہوئے رونے لگے اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو روتا دیکھ کر میں بھی رونے لگی۔ پھر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم اپنی اونٹنی سے اتر پڑے اور کچھ دیر کے بعد میرے پاس واپس تشریف لائے تو خوش خوش مسکراتے ہوئے تشریف لائے۔ میں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ !عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں، کیا بات ہے؟ کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم رنج و غم میں ڈوبے ہوئے اونٹنی سے اترے اور واپس لوٹے تو شاداں و فرحاں مسکراتے ہوئے
تشریف فرما ہوئے تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں اپنی والدہ حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر کی زیارت کے لئے گیا تھا اور میں نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا کہ وہ ان کو زندہ فرما دے تو خداوند تعالیٰ نے ان کو زندہ فرما دیا اور وہ ایمان لائیں۔(2)
اور ''الاشباہ والنظائر'' میں ہے کہ ہر وہ شخص جو کفر کی حالت میں مر گیا ہو اس پر لعنت کرنا جائز ہے بجز رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے والدین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے،"
"1۔۔۔۔۔۔اشعۃ اللمعات ،کتاب الجنائز، باب زیارۃ القبور،الفصل الاول،ج1،ص765
2۔۔۔۔۔۔روح البیان،سورۃ البقرۃ تحت الآیۃ:119،ج1،ص217"
"کیونکہ اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو زندہ فرمایااور یہ دونوں ایمان لائے۔(1)
یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے ماں باپ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی قبروں کے پاس روئے اور ایک خشک درخت زمین میں بو دیا،اور فرمایا کہ اگر یہ درخت ہرا ہو گیا تو یہ اس بات کی علامت ہو گی کہ ان دونوں کا ایمان لانا ممکن ہے ۔ چنانچہ وہ درخت ہرا ہو گیا پھر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعا کی برکت سے وہ دونوں اپنی اپنی قبروں سے نکل کر اسلام لائے اور پھر اپنی اپنی قبروں میں تشریف لے گئے۔
اور ان دونوں کا زندہ ہونا، اور ایمان لانا ،نہ عقلاً محال ہے نہ شرعاً کیونکہ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ بنی اسرائیل کے مقتول نے زندہ ہو کر اپنے قاتل کا نام بتایا اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دست مبارک سے بھی چند مردے زندہ ہوئے۔(2) جب یہ سب باتیں ثابت ہیں تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے والدین رضی اللہ
تعالیٰ عنہماکے زندہ ہو کر ایمان لانے میں بھلا کونسی چیز مانع ہو سکتی ہے؟ اور جس حدیث میں یہ آیا ہے کہ ''میں نے اپنی والدہ کے لئے دعائے مغفرت کی اجازت طلب کی تو مجھے اس کی اجازت نہیں دی گئی۔'' یہ حدیث حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے والدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زندہ ہو کر ایمان لانے سے بہت پہلے کی ہے۔ کیونکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے والدین رضی اللہ تعالیٰ عنہماکا زندہ ہو کر ایمان لانا یہ ''حجۃ الوداع'' کے موقع پر ہوا ہے ( جو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے وصال سے چند ہی ماہ پہلے کا واقعہ ہے)اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مراتب و درجات ہمیشہ بڑھتے ہی رہے تو ہو سکتا ہے کہ پہلے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ"
"1۔۔۔۔۔۔الاشباہ والنظائر ،کتاب الحظروالاباحۃ،ص248
2۔۔۔۔۔۔روح البیان،سورۃ البقرۃ تحت الآیۃ:119،ج1،ص217"
وسلم کو خداوند تعالیٰ نے یہ شرف نہیں عطا فرمایا تھا کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے والدین رضی اللہ تعالیٰ عنہمامسلمان ہوں مگر بعد میں اس فضل و شرف سے بھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو سرفراز فرمادیا کہ آپ کے والدین رضی اللہ تعالیٰ عنہماکو صاحب ایمان بنا دیا (1)اور قاضی امام ابوبکر ابن العربی مالکی سے یہ سوال کیا گیا کہ ایک شخص یہ کہتا ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے آباء و اجداد جہنم میں ہیں، تو آپ نے فرمایا کہ یہ شخص ملعون ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ
اِنَّ الَّذِیۡنَ یُؤْذُوۡنَ اللہَ وَ رَسُوۡلَہٗ لَعَنَہُمُ اللہُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ (2)
"یعنی جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذاء دیتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو دنیا و آخرت میں ملعون کر دے گا۔(احزاب)
حافظ شمس الدین د مشقی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے اس مسئلہ کو اپنے نعتیہ اشعار میں
اس طرح بیان فرمایا ہے : ؎"
"حَبَا اللہُ النَّبِیَّ مَزِیْدَ فَضْلٍ عَلٰی فَضْلٍ وَّکَانَ بِہٖ رَءُ وْفًا"
اللہ تعالیٰ نے نبی علیہ الصلوۃ والسلام کوفضل بالائے فضل سے بھی بڑھ کر فضیلت عطا فرمائی اور اللہ تعالیٰ ان پر بہت مہربان ہے۔
"فَاَحْیَا اُمَّہٗ وَکَذَا اَبَاہُ لِاِیْمَان بِہٖ فَضْلاً لَّطِیْفًا"
کیونکہ خدا وند تعالیٰ نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ماں باپ کو حضور پر ایمان لانے کے لئے اپنے فضل لطیف سے زندہ فرما دیا۔
"1۔۔۔۔۔۔روح البیان،سورۃ البقرۃ تحت الآیۃ:119،ج1،ص217
2۔۔۔۔۔۔پ22،الاحزاب:57"
"فَسَلِّمْ فَالْقَدِیْمُ بِہٖ قَدِیْرٌ وَاِنْ کَانَ الْحَدِیْثُ بِہٖ ضَعِیْفًا"
تو تم اس بات کو مان لو کیونکہ خداوند قدیم اس بات پر قادر ہے اگرچہ یہ حدیث ضعیف ہے۔
(1)(انتہی ملتقطاً،تفسیر روح البیان ج 1 ص217 تا218)
"صاحب الاکلیل حضرت علامہ شیخ عبدالحق مہاجر مدنی قدس سرہ الغنی نے تحریر فرمایا کہ علامہ ابن حجر ہیتمی نے مشکوٰۃ کی شرح میں فرمایا ہے کہ ''حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے والدین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو اللہ تعالیٰ نے زندہ فرمایا،یہاں تک کہ وہ دونوں ایمان لائے اور پھر وفات پا گئے۔ '' یہ حدیث صحیح ہے اور جن محدثین نے اس حدیث کو صحیح بتایا ہے ان میں سے امام قرطبی اور شام کے حافظ الحدیث ابن ناصر الدین بھی ہیں اور اس میں طعن کرنا بے محل اور بے جا ہے، کیونکہ کرامات اور خصوصیات کی شان ہی یہ ہے کہ وہ قواعد اور عادات کے خلاف ہوا کرتی ہیں۔
چنانچہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے والدین رضی اللہ تعالیٰ عنہماکا موت کے بعد اٹھ
کر ایمان لانا،یہ ایمان ان کے لئے نافع ہے حالانکہ دوسروں کے لئے یہ ایمان مفید نہیں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے والدین رضی اللہ تعالیٰ عنہماکو نسبت رسول کی وجہ سے جو کمال حاصل ہے وہ دوسروں کے لئے نہیں ہے اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی حدیث لیت شعری ما فعل ابوای (کاش! مجھے خبر ہوتی کہ میرے والدین کے ساتھ کیا معاملہ کیا گیا) کے بارے میں امام سیوطی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ''درمنثور'' میں فرمایا ہے کہ یہ حدیث مرسل اور ضعیف الاسناد ہے۔"
(اکلیل علیٰ مدارک التنزیل ج 2 ص10)
1۔۔۔۔۔۔روح البیان،سورۃ البقرۃ تحت الآیۃ:119،ج1،ص217
"بہرکیف مندرجہ بالا اقتباسات جو معتبر کتابوں سے لئے گئے ہیں ان کو پڑھ لینے کے بعد حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ والہانہ عقیدت اور ایمانی محبت کا یہی تقاضا ہے کہ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے والدین رضی اللہ تعالیٰ عنہمااور تمام آباء و اجداد بلکہ تمام رشتہ داروں کے ساتھ ادب و احترام کا التزام رکھا جائے۔ بجزان رشتہ داروں کے جن کا کافر اور جہنمی ہونا قرآن و حدیث سے یقینی طور پر ثابت ہے جیسے ''ابو لہب'' اور اس کی بیوی ''حمالۃ الحطب'' باقی تمام قرابت والوں کا ادب ملحوظ خاطر رکھنا لازم ہے کیونکہ جن لوگوں کو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے نسبت قرابت حاصل ہے ان کی بے ادبی و گستاخی یقینا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایذا رسانی کا باعث ہو گا اور آپ قرآن کا فرمان پڑھ چکے کہ جو لوگ اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو ایذاء دیتے ہیں،وہ دنیا و آخرت میں ملعون ہیں۔
اس مسئلہ میں اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خاں صاحب قبلہ بریلوی رحمۃ
اللہ علیہ کا ایک محققانہ رسالہ بھی ہے جس کا نام ''شمول الاسلام لاباء الکرام''ہے۔ جس میں آپ نے نہایت ہی مفصل و مدلل طور پر یہ تحریر فرمایا ہے کہ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے آباء و اجداد موحد و مسلم ہیں۔ (واللہ تعالیٰ اعلم)"
جس طرح سورج نکلنے سے پہلے ستاروں کی روپوشی،صبح صادق کی سفیدی، شفق کی سرخی سورج نکلنے کی خوشخبری دینے لگتی ہیں اسی طرح جب آفتاب رسالت کے طلوع کا زمانہ قریب آ گیا تواطراف عالم میں بہت سے ایسے عجیب عجیب واقعات اور خوارق عادات بطور علامات کے ظاہر ہونے لگے جو ساری کائنات کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر یہ
"بشارت دینے لگے کہ اب رسالت کا آفتاب اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ طلوع ہونے والا ہے۔
چنانچہ اصحابِ فیل کی ہلاکت کا واقعہ، ناگہاں بارانِ رحمت سے سرزمین عرب کا سر سبز و شاداب ہو جانا،اور برسوں کی خشک سالی دفع ہو کر پورے ملک میں خوشحالی کا دور دورہ ہو جانا، بتوں کا منہ کے بل گر پڑنا، فارس کے مجوسیوں کی ایک ہزار سال سے جلائی ہوئی آگ کا ایک لمحہ میں بجھ جانا، کسریٰ کے محل کا زلزلہ، اور اس کے چودہ کنگوروں کا منہدم ہو جانا،''ہمدان'' اور ''قم'' کے درمیان چھ میل لمبے چھ میل چوڑے ''بحرهٔ ساوہ'' کا یکایک بالکل خشک ہو جانا، شام اور کوفہ کے درمیان وادی ''سماوہ'' کی خشک ندی کا اچانک جاری ہو جانا،حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی والدہ کے بدن سے ایک ایسے نور کا نکلنا جس سے ''بصریٰ''کے محل روشن ہو گئے۔یہ سب
واقعات اسی سلسلہ کی کڑیاں ہیں جو حضور علیہ الصلوات والتسلیمات کی تشریف آوری سے پہلے ہی ''مبشرات'' بن کر عالم کائنات کو یہ خوشخبری دینے لگے کہ(1) ؎
مبارک ہو وہ شہ پردے سے باہرآنے والا ہے
گدائی کو زمانہ جس کے در پر آنے والا ہے
حضرات انبیاء کرام علیہم السلام سے قبل اعلان نبوت جو خلاف عادت اور عقل کو حیرت میں ڈالنے والے واقعات صادر ہوتے ہیں ان کو شریعت کی اصطلاح میں ''ارہاص'' کہتے ہیں اور اعلان نبوت کے بعد انہی کو ''معجزہ'' کہا جاتا ہے۔ اس لئے مذکورہ بالا تمام واقعات ''ارہاص'' ہیں جو حضوراکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اعلانِ نبوت"
1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃوشرح الزرقانی،ولادتہ...الخ، ج1،ص21831
"کرنے سے قبل ظاہر ہوئے جن کو ہم نے ''برکات نبوت'' کے عنوان سے بیان کیا ہے۔ اس قسم کے واقعات جو ''ارہاص'' کہلاتے ہیں ان کی تعداد بہت زیادہ ہے، ان میں سے چند کا ذکر ہو چکا ہے چند دوسرے واقعات بھی پڑھ لیجئے۔(1)
(1) محدث ابو نعیم نے اپنی کتاب '' دلائل النبوۃ'' میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی روایت سے یہ حدیث بیان کی ہے کہ جس رات حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا نورِ نبوت حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پشت اقدس سے حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے بطن مقدس میں منتقل ہوا ،روئے زمین کے تمام چوپایوں،خصوصاً قریش کے جانوروں کو اللہ تعالیٰ نے گویائی عطا فرمائی اور انہوں نے بزبانِ فصیح اعلان کیا کہ آج اللہ عزوجل کاوہ مقدس رسول شکم مادر میں جلوہ گر ہو گیا جس کے سر پر تمام دنیا کی امامت
کا تاج ہے اور جو سارے عالم کو روشن کرنے والا چراغ ہے۔ مشرق کے جانوروں نے مغرب کے جانوروں کو بشارت دی۔اسی طرح سمندروں اور دریاؤں کے جانوروں نے ایک دوسرے کو یہ خوشخبری سنائی کہ حضرت ابو القاسم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت کا وقت قریب آ گیا۔"
(2) (زرقانی علی المواہب ج 1 ص108)
(2) خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ یہ حدیث روایت کی ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ جب حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پیدا ہوئے تو میں نے دیکھا کہ ایک بہت بڑی بدلی آئی جس میں روشنی کے ساتھ گھوڑوں کے ہنہنانے اور پرندوں کے اُڑنے کی آواز تھی اور کچھ
"1۔۔۔۔۔۔النبراس شرح شرح العقائد،اقسام الخارق سبعۃ،ص272،ملتقطاً
2۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ، المقصدالاول، آیات حملہ،ج1،ص62"
"انسانوں کی بولیاں بھی سنائی دیتی تھیں۔ پھر ایک دم حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میرے سامنے سے غیب ہو گئے اور میں نے سنا کہ ایک اعلان کرنے والا اعلان کر رہا ہے کہ محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کو مشرق و مغرب میں گشت کراؤ اور ان کو سمندروں کی بھی سیر کراؤ تا کہ تمام کائنات کو ان کا نام، ان کاحلیہ، ان کی صفت معلوم ہو جائے اور ان کو تمام جاندار مخلوق یعنی جن و انس، ملائکہ اورچرندوں و پرندوں کے سامنے پیش کرواور انہیں حضرت آدم علیہ السلام کی صورت، حضرت شیث علیہ السلام کی معرفت،حضرت نوح علیہ السلام کی شجاعت، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خلت، حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی زبان، حضرت اسحق علیہ السلام کی رضا،حضرت صالح علیہ السلام کی فصاحت، حضرت لوط علیہ السلام کی حکمت،حضرت یعقوب علیہ السلام کی بشارت، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شدت، حضرت ایوب علیہ السلام کا صبر، حضرت یونس علیہ السلام کی طاعت، حضرت یوشع علیہ السلام کا
جہاد،حضرت داؤدعلیہ السلام کی آواز، حضرت دانیال علیہ السلام کی محبت،حضرت الیاس علیہ السلام کا وقار، حضرت یحیی علیہ السلام کی عصمت، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زہد عطا کرکے ان کو تمام پیغمبروں کے کمالات اور اخلاق حسنہ سے مزین کر دو۔(1) اس کے بعد وہ بادل چھٹ گیا۔ پھر میں نے دیکھا کہ آپ ریشم کے سبز کپڑے میں لپٹے ہوئے ہیں اور اس کپڑے سے پانی ٹپک رہا ہے اور کوئی منادی اعلان کر رہا ہے کہ واہ وا! کیا خوب محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کو تمام دنیا پر قبضہ دے دیا گیا اور کائناتِ عالم کی کوئی چیز باقی نہ رہی جو ان کے قبضۂ اقتدار و غلبۂ اطاعت میں نہ ہو۔ اب میں نے چہرهٔ انورکو دیکھا تو چودھویں کے چاند کی طرح چمک رہا تھا اور بدن سے پاکیزہ مشک کی خوشبو آ رہی تھی"
1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃمع شرح الزرقانی، ولادتہ...الخ،ج1،ص212
پھر تین شخص نظر آئے، ایک کے ہاتھ میں چاندی کا لوٹا، دوسرے کے ہاتھ میں سبز زمرد کا طشت، تیسرے کے ہاتھ میں ایک چمک دار انگوٹھی تھی۔ انگوٹھی کو سات مرتبہ دھو کر اس نے حضور(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت لگا دی، پھر حضور (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کو ریشمی کپڑے میں لپیٹ کر اٹھایااور ایک لمحہ کے بعد مجھے سپرد کر دیا۔(1)
(زرقانی علی المواہب ج1 ص113 تا ص115)
"حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تاریخ پیدائش میں اختلاف ہے۔ مگر قول مشہور یہی ہے کہ واقعہ ''اصحاب فیل''سے پچپن دن کے بعد 12ربیع الاول مطابق 20 ا پر یل 571 ولادت باسعادت کی تاریخ ہے۔ اہل مکہ کا بھی اسی پر عملدرآمد ہے کہ وہ لوگ بارہویں ربیع الاول ہی کو کاشانۂ نبوت کی زیارت کے لئے جاتے ہیں اور وہاں میلاد شریف کی محفلیں منعقد کرتے ہیں۔ (2) (مدارج النبوۃ ج2 ص14)
تاریخ عالم میں یہ وہ نرالااور عظمت والا دن ہے کہ اسی روز عالم ہستی کے ایجاد کا باعث، گردش لیل و نہار کا مطلوب، خلق آدم کارمز، کشتی نوح کی حفاظت کا راز، بانی کعبہ کی دعا،ابن مریم کی بشارت کا ظہور ہوا۔کائناتِ وجود کے الجھے ہوئے گیسوؤں کو سنوارنے والا، تمام جہان کے بگڑے نظاموں کو سدھارنے والا یعنی ؎"
"1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃمع شرح الزرقانی، ولادتہ...الخ،ج1،ص215
2۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم دوم ، باب اول، ج2،ص14ملخصاً"
"وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ماویٰ، ضعیفوں کا ملجا یتیموں کا والی، غلاموں کا مولیٰ"
"سند الاصفیاء، اشرف الانبیاء، احمد مجتبیٰ،محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم عالمِ وجود میں رونق افروز ہوئے اور پاکیزہ بدن، ناف بریدہ، ختنہ کئے ہوئے خوشبو میں بسے ہوئے بحالت سجدہ، مکہ مکرمہ کی مقدس سرزمین میں اپنے والد ماجد کے مکان کے اندر پیدا ہوئے باپ کہاں تھے جو بلائے جاتے اور اپنے نونہال کو دیکھ کر نہال ہوتے۔ وہ تو پہلے ہی وفات پا چکے تھے۔ دادا بلائے گئے جو اس وقت طوافِ کعبہ میں مشغول تھے۔ یہ خوشخبری سن کر
دادا ''عبدالمطلب'' خوش خوش حرم کعبہ سے اپنے گھر آئے اور والہانہ جوشِ محبت میں اپنے پوتے کو کلیجے سے لگا لیا۔ پھر کعبہ میں لے جا کر خیروبرکت کی دعا مانگی اور ''محمد'' نام رکھا۔(1) آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے چچا ابو لہب کی لونڈی''ثویبہ'' خوشی میں دوڑتی ہوئی گئی اور ''ابو لہب'' کو بھتیجا پیدا ہونے کی خوشخبری دی تو اس نے اس خوشی میں شہادت کی انگلی کے اشارہ سے ''ثویبہ'' کو آزاد کر دیا جس کا ثمرہ ابو لہب کو یہ ملاکہ اس کی موت کے بعد اس کے گھر والوں نے اس کو خواب میں دیکھااور حال پوچھا،تو اس نے اپنی انگلی اٹھا کر یہ کہا کہ تم لوگوں سے جدا ہونے کے بعد مجھے کچھ(کھانے پینے) کو نہیں ملا بجز اس کے کہ ''ثویبہ'' کو آزاد کرنے کے سبب سے اس انگلی کے ذریعہ کچھ پانی پلا دیا جاتاہوں۔(2) (بخاری ج2 باب و امہاتکم التی ارضعنکم)-"
"1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، ولادتہ...الخ،ج1،ص232
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب النکاح،باب وامہاتکم اللا تی ارضعنکم،الحدیث:5101، ج3، ص432والمواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،ذکر رضاعہ صلی اللہ علیہ وسلم...الخ،ج1،ص259"
"اس موقع پر حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے ایک بہت ہی فکر انگیز اور بصیرت افروز بات تحریر فرمائی ہے جو اہل محبت کے لئے نہایت ہی لذت بخش ہے،وہ لکھتے ہیں کہ
اس جگہ میلاد کرنے والوں کے لئے ایک سند ہے کہ یہ آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شب ولادت میں خوشی مناتے ہیں اور اپنا مال خرچ کرتے ہیں ۔مطلب یہ ہے کہ جب ابو لہب کو جو کافر تھااور اس کی مذمت میں قرآن نازل ہوا، آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت پر خوشی منانے،اور باندی کا دودھ خرچ کرنے پرجزا دی گئی تو اس مسلمان کا کیا حال ہو گا جو آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی محبت میں سرشار ہو کر خوشی مناتا ہے اور اپنا مال خرچ کرتا ہے۔(1) (مدارج النبوۃ ج2 ص19)"
جس مقدس مکان میں حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی،تاریخ اسلام میں اس مقام کا نام ''مولد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم '' (نبی کی پیدائش کی جگہ) ہے ،یہ بہت ہی متبرک مقام ہے۔ سلاطینِ اسلام نے اس مبارک یادگار پر بہت ہی شاندار عمارت بنا دی تھی،جہاں اہل حرمین شریفین اور تمام دنیا سے آنے والے مسلمان دن رات محفل میلاد شریف منعقد کرتے اور صلوٰۃ و سلام پڑھتے رہتے تھے۔ چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی کتاب ''فیوض الحرمین'' میں تحریر فرمایا ہے کہ میں ایک مرتبہ اس محفل میلاد شریف میں حاضر ہوا،جو مکہ مکرمہ میں بارہویں ربیع الاول کو ''مولد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم '' میں منعقد ہوئی تھی جس وقت ولادت
1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت، قسم دوم باب اول، ذکر نسب وحمل وولادت...الخ،ج2،ص19
"کا ذکر پڑھا جا رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ یکبارگی اس مجلس سے کچھ انوار بلند ہوئے، میں نے ان انوار پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ وہ رحمتِ الٰہی اور ان فرشتوں کے انوار تھے جو ایسی محفلوں میں حاضر ہوا کرتے ہیں۔ (فیوض الحرمین)
جب حجاز پر نجدی حکومت کا تسلط ہوا تو مقابر جنۃ المعلی وجنۃ البقیع کے گنبدوں کے ساتھ ساتھ نجدی حکومت نے اس مقدس یادگار کو بھی توڑ پھوڑ کر مسمار کر دیا اور برسوں یہ مبارک مقام ویران پڑا رہا، مگر میں جب جون 1959ء میں اس مرکز خیروبرکت کی زیارت کے لئے حاضر ہوا تو میں نے اس جگہ ایک چھوٹی سی بلڈنگ دیکھی جو مقفل تھی۔ بعض عربوں نے بتایا کہ اب اس بلڈنگ میں ایک مختصر سی لائبریری اور ایک چھوٹا سا مکتب ہے، اب اس جگہ نہ میلاد شریف ہو سکتا ہے نہ صلاۃ و سلام پڑھنے
کی اجازت ہے ۔میں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ بلڈنگ سے کچھ دور کھڑے ہو کر چپکے چپکے صلاۃ و سلام پڑھا، اور مجھ پر ایسی رقت طاری ہوئی کہ میں کچھ دیر تک روتا رہا۔"
سب سے پہلے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ابو لہب کی لونڈی ''حضرت ثویبہ'' کا دودھ نوش فرمایا پھر اپنی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے دودھ سے سیراب ہوتے رہے، پھر حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ کو اپنے ساتھ لے گئیں اور اپنے قبیلہ میں رکھ کر آپ کو دودھ پلاتی رہیں اور انہیں کے پاس آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دودھ پینے کا زمانہ گزرا۔(1) (مدارج النبوۃ ج2 ص18)
شرفاء عرب کی عادت تھی کہ وہ اپنے بچوں کو دودھ پلانے کے لئے گردو نواح
1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم دوم ،باب اول، ج2،ص18،19ملخصاً
"دیہاتوں میں بھیج دیتے تھے دیہات کی صاف ستھری آب وہوامیں بچوں کی تندرستی اور جسمانی صحت بھی اچھی ہو جاتی تھی اور وہ خالص اور فصیح عربی زبان بھی سیکھ جاتے تھے کیونکہ شہر کی زبان باہر کے آدمیوں کے میل جول سے خالص اور فصیح و بلیغ زبان نہیں رہا کرتی۔
حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ میں ''بنی سعد'' کی عورتوں کے ہمراہ دودھ پینے والے بچوں کی تلاش میں مکہ کو چلی۔ اس سال عرب میں بہت سخت کال پڑا ہوا تھا، میری گود میں ایک بچہ تھا، مگر فقر و فاقہ کی وجہ سے میری چھاتیوں میں اتنا دودھ نہ تھا جو اس کو کافی ہو سکے۔ رات بھر وہ بچہ بھوک سے تڑپتا اور روتا بلبلاتا رہتا تھا اور ہم اس کی دلجوئی اور دلداری کے لئے تمام رات بیٹھ کر گزارتے تھے۔ ایک اونٹنی بھی ہمارے پاس تھی۔ مگر اس کے بھی دودھ نہ تھا۔ مکہ مکرمہ کے سفر میں جس خچر پرمیں سوار تھی وہ بھی
اس قدر لاغر تھا کہ قافلہ والوں کے ساتھ نہ چل سکتا تھا میرے ہمراہی بھی اس سے تنگ آ چکے تھے۔ بڑی بڑی مشکلوں سے یہ سفر طے ہوا جب یہ قافلہ مکہ مکرمہ پہنچا تو جو عورت رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو دیکھتی اور یہ سنتی کہ یہ یتیم ہیں تو کوئی عورت آپ کو لینے کے لئے تیار نہیں ہوتی تھی،کیونکہ بچے کے یتیم ہونے کے سبب سے زیادہ انعام و اکرام ملنے کی امید نہیں تھی۔ ادھر حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی قسمت کا ستارہ ثریا سے زیادہ بلند اور چاند سے زیادہ روشن تھا،ان کے دودھ کی کمی ان کے لئے رحمت کی زیادتی کا باعث بن گئی، کیونکہ دودھ کم دیکھ کر کسی نے ان کو اپنا بچہ دینا گوارا نہ کیا۔
حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے اپنے شوہر ''حارث بن عبدالعزیٰ'' سے کہا کہ یہ تو اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ میں خالی ہاتھ واپس جاؤں اس سے تو بہتر یہی ہے کہ میں اس یتیم ہی کو لے چلوں، شوہر نے اس کو منظور کر لیا اور حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا"
"اس دریتیم کو لے کر آئیں جس سے صرف حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاہی کے گھر میں نہیں بلکہ کائناتِ عالم کے مشرق و مغرب میں اجالا ہونے والا تھا۔ یہ خداوند قدوس کا فضل عظیم ہی تھا کہ حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سوئی ہوئی قسمت بیدار ہو گئی اور سرور کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ان کی آغوش میں آ گئے۔ اپنے خیمہ میں لا کر جب دودھ پلانے بیٹھیں تو باران رحمت کی طرح برکاتِ نبوت کا ظہور شروع ہو گیا، خدا کی شان دیکھیے کہ حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مبارک پستان میں
اس قدر دودھ اترا کہ رحمتِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بھی اور ان کے رضاعی بھائی نے بھی خوب شکم سیر ہو کر دودھ پیا، اور دونوں آرام سے سو گئے، ادھر اونٹنی کو دیکھا تو اس کے تھن دودھ سے بھر گئے تھے۔ حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے شوہر نے اس کا دودھ دوہا۔ اور میاں بیوی دونوں نے خوب سیر ہو کر دودھ پیااور دونوں شکم سیر ہو کر رات بھر سکھ اور چین کی نیند سوئے۔
حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکا شوہر حضور رحمتِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی یہ برکتیں دیکھ کر حیران رہ گیا،اور کہنے لگا کہ حلیمہ! تم بڑا ہی مبارک بچہ لائی ہو۔ حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے کہا کہ واقعی مجھے بھی یہی امید ہے کہ یہ نہایت ہی بابرکت بچہ ہے اور خدا کی رحمت بن کر ہم کو ملا ہے اور مجھے یہی توقع ہے کہ اب ہمارا گھر خیروبرکت سے بھر جائے گا۔(1)
حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہافرماتی ہیں کہ اس کے بعد ہم رحمتِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنی گودمیں لے کر مکہ مکرمہ سے اپنے گاؤں کی طرف روانہ ہوئے تومیرا وہی"
1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت،قسم دوم،باب اول،ج2،ص19،20ملخصاً والمواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، ذکر رضاعہ صلی اللہ علیہ وسلم،ج1،ص79
"خچر اب اس قدر تیز چلنے لگا کہ کسی کی سواری اس کی گرد کو نہیں پہنچتی تھی،قافلہ کی عورتیں حیران ہو کر مجھ سے کہنے لگیں کہ اے حلیمہ! رضی اللہ تعالیٰ عنہا کیا یہ وہی خچر ہے ؟ جس پر تم سوار ہو کر آئی تھیں یا کوئی دوسرا تیز رفتار خچر تم نے خرید لیا ہے؟ الغرض ہم اپنے گھر پہنچے وہاں سخت قحط پڑا ہوا تھا تمام جانوروں کے تھن میں دودھ خشک ہو چکے تھے، لیکن میرے گھر میں قدم رکھتے ہی میری بکریوں کے تھن دودھ سے بھر گئے،اب روزانہ میری بکریاں
جب چراگاہ سے گھر واپس آتیں تو ان کے تھن دودھ سے بھرے ہوتے حالانکہ پوری بستی میں اور کسی کو اپنے جانوروں کا ایک قطرہ دودھ نہیں ملتا تھا میرے قبیلہ والوں نے اپنے چرواہوں سے کہا کہ تم لوگ بھی اپنے جانوروں کو اسی جگہ چراؤ جہاں حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے جانور چرتے ہیں۔ چنانچہ سب لوگ اسی چراگاہ میں اپنے مویشی چرانے لگے جہاں میری بکریاں چرتی تھیں،مگر یہاں تو چراگاہ اور جنگل کا کوئی عمل دخل ہی نہیں تھا یہ تو رحمتِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے برکات نبوت کا فیض تھاجس کو میں اور میرے شوہر کے سوا میری قوم کا کوئی شخص نہیں سمجھ سکتا تھا۔(1)
الغرض اسی طرح ہر دم ہر قدم پر ہم برابر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی برکتوں کا مشاہدہ کرتے رہے یہاں تک کہ دو سال پورے ہو گئے اور میں نے آپ کا دودھ چھڑا دیا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تندرستی اور نشوونما کا حال دوسرے بچوں سے اتنا اچھا تھا کہ دو سال میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم خوب اچھے بڑے معلوم ہونے لگے، اب ہم دستور کے مطابق رحمتِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو ان کی والدہ کے پاس لائے اور انہوں نے حسب توفیق ہم کو انعام و اکرام سے نوازا۔(2)"
"1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم دوم ،باب اول، ج2،ص20ملتقطاً
2۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب، من خصائصہ صلی اللہ علیہ وسلم ،ج1،ص279 والمواہب اللدنیۃ ، ذکر رضاعہ صلی اللہ علیہ وسلم،ج1،ص82"
"گو قاعدہ کے مطابق اب ہمیں رحمتِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنے پاس رکھنے کا کوئی حق نہیں تھا، مگر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی برکات نبوت کی وجہ سے ایک لمحہ کے لئے بھی ہم کو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی جدائی گوارا نہیں تھی۔ عجیب اتفاق کہ اس سال مکہ معظمہ میں وبائی بیماری پھیلی ہوئی تھی چنانچہ ہم نے اس وبائی بیماری کا بہانہ
کرکے حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو رضا مند کر لیااور پھر ہم رحمتِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو واپس اپنے گھر لائے اور پھر ہمارا مکان رحمتوں اور برکتوں کی کان بن گیا اور آپ ہمارے پاس نہایت خوش و خرم ہو کر رہنے لگے۔ جب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کچھ بڑے ہوئے تو گھر سے باہر نکلتے اور دوسرے لڑکوں کو کھیلتے ہوئے دیکھتے مگر خود ہمیشہ ہر قسم کے کھیل کود سے علیٰحدہ رہتے(1)۔ ایک روز مجھ سے کہنے لگے کہ اماں جان! میرے دوسرے بھائی بہن دن بھر نظر نہیں آتے یہ لوگ ہمیشہ صبح کو اٹھ کر روزانہ کہاں چلے جاتے ہیں؟ میں نے کہا کہ یہ لوگ بکریاں چرانے چلے جاتے ہیں، یہ سن کر آپ نے فرمایا: مادر مہربان! آپ مجھے بھی میرے بھائی بہنوں کے ساتھ بھیجا کیجیے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اصرار سے مجبور ہو کر آپ کو حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے اپنے بچوں کے ساتھ چراگاہ جانے کی اجازت دے دی ۔اور آپ روزانہ جہاں حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بکریاں چرتی تھیں تشریف لے جاتے رہے اور بکریاں چراگاہوں میں لے جا کر ان کی دیکھ بھال کرنا جو تمام انبیاء اور رسولوں علیہم الصلوۃو السلام کی سنت ہے آپ نے اپنے عمل سے بچپن ہی میں اپنی ایک خصلت نبوت کا اظہار فرما دیا۔(2)"
"1۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب،من خصائصہ صلی اللہ علیہ وسلم،ج1،ص278ماخوذاً
2۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ،قسم دوم ، باب اول ، ج2،ص21"
"ایک دن آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واالہ وسلم چراگاہ میں تھے کہ ایک دم حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ایک فرزند ''ضمرہ ''دوڑتے اور ہانپتے کانپتے ہوئے اپنے گھر پر آئے
اور اپنی ماں حضرت بی بی حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے کہا کہ اماں جان! بڑا غضب ہو گیا، محمد(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کو تین آدمیوں نے جو بہت ہی سفید لباس پہنے ہوئے تھے،چت لٹا کر ان کا شکم پھاڑ ڈالا ہے اور میں اسی حال میں ان کو چھوڑ کر بھاگا ہوا آیا ہوں۔ یہ سن کر حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہااور ان کے شوہر دونوں بدحواس ہو کر گھبرائے ہوئے دوڑ کر جنگل میں پہنچے تو یہ دیکھا کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم بیٹھے ہوئے ہیں۔ مگر خوف و ہراس سے چہرہ زرد اور اداس ہے،حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے شوہرنے انتہائی مشفقانہ لہجے میں پیار سے چمکار کر پوچھا کہ بیٹا! کیا بات ہے؟ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تین شخص جن کے کپڑے بہت ہی سفیداور صاف ستھرے تھے میرے پاس آئے اور مجھ کو چت لٹا کر میرا شکم چاک کرکے اس میں سے کوئی چیز نکال کر باہر پھینک دی اور پھر کوئی چیز میرے شکم میں ڈال کرشگاف کو سی دیالیکن مجھے ذرہ برابر بھی کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ (1)(مدارج النبوۃ ج2 ص21)
یہ واقعہ سن کر حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہااور ان کے شوہر دونوں بے حد گھبرائے اور شوہر نے کہا کہ حلیمہ!رضی اللہ تعالیٰ عنہا مجھے ڈر ہے کہ ان کے اوپر شاید کچھ آسیب کا اثر ہے لہٰذا بہت جلد تم ان کو ان کے گھر والوں کے پاس چھوڑ آؤ۔ اس کے"
1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت، قسم دوم، باب اول، ج۲،ص۲۱ملخصاً والمواہب اللدنیۃ ، ذکر رضاعہ صلی اللہ علیہ وسلم، ج۱،ص۸۲
"بعد حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ کو لے کر مکہ مکرمہ آئیں کیونکہ انہیں اس واقعہ سے یہ خوف پیدا ہو گیا تھا کہ شاید اب ہم کماحقہ ان کی حفاظت نہ کر سکیں گے۔ حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جب مکہ معظمہ پہنچ کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ ماجدہ رضی اللہ
تعالیٰ عنہا کے سپرد کیا تو انہوں نے دریافت فرمایا کہ حلیمہ! رضی اللہ تعالیٰ عنہا تم تو بڑی خواہش اور چاہ کے ساتھ میرے بچے کو اپنے گھر لے گئی تھیں پھر اس قدر جلد واپس لے آنے کی وجہ کیا ہے؟ جب حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے شکم چاک کرنے کا واقعہ بیان کیا اور آسیب کا شبہ ظاہر کیا تو حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ ہر گز نہیں،خدا کی قسم! میرے نور نظر پر ہر گز ہر گز کبھی بھی کسی جن یا شیطان کا عمل دخل نہیں ہو سکتا۔ میرے بیٹے کی بڑی شان ہے۔ پھر ایام حمل اور وقت ولادت کے حیرت انگیز واقعات سنا کر حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو مطمئن کر دیا اور حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو آپ کی والدہ ماجدہ کے سپرد کرکے اپنے گاؤں میں واپس چلی آئیں اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واالہ وسلم اپنی والدہ ماجدہ کی آغوشِ تربیت میں پرورش پانے لگے۔(1)"
"حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے سورۂ ''الم نشرح'' کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ چار مرتبہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا مقدس سینہ چاک کیا گیا اور اس میں نور و حکمت کا خزینہ بھرا گیا۔
پہلی مرتبہ جب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے"
1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ ، ذکر رضاعہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم، ج۱،ص۸۲ وشرح الزرقانی علی المواھب ، شق صدرہ صلی اللہ علیہ وسلم ،ج۱،ص۲۸۰،۲۸۱
"گھر تھے جس کا ذکر ہو چکا۔ اس کی حکمت یہ تھی کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ان وسوسوں اور خیالات سے محفوظ رہیں جن میں بچے مبتلا ہو کر کھیل کود اور شرارتوں کی طرف مائل ہو
جاتے ہیں۔ دوسری بار دس برس کی عمر میں ہوا تاکہ جوانی کی پر آشوب شہوتوں کے خطرات سے آپ بے خوف ہو جائیں۔ تیسری بار غارِ حرا میں شق صدر ہوا اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے قلب میں نور سکینہ بھر دیا گیا تا کہ آپ وحی الٰہی کے عظیم اور گراں بار بوجھ کوبرداشت کر سکیں ۔چوتھی مرتبہ شب معراج میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا مبارک سینہ چاک کرکے نور و حکمت کے خزانوں سے معمور کیا گیا، تا کہ آپ کے قلب مبارک میں اتنی وسعت اور صلاحیت پیدا ہو جائے کہ آپ دیدار الٰہی عزوجل کی تجلیوں، اور کلام ربانی کی ہیبتوں اور عظمتوں کے متحمل ہو سکیں۔"
جب حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے گھر سے مکہ مکرمہ پہنچ گئے اور اپنی والدہ محترمہ کے پاس رہنے لگے تو حضرت ''امِ ایمن'' جو آپکے والد ماجد کی باندی تھیں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی خاطر داری اور خدمت گزاری میں دن رات جی جان سے مصروف رہنے لگیں۔ امِ ایمن کا نام ''برکۃ'' ہے یہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو آپ کے والد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے میراث میں ملی تھیں۔ یہی آپ کو کھانا کھلاتی تھیں کپڑے پہناتی تھیں آپ کے کپڑے دھویا کرتی تھیں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کا نکاح کر دیا تھا جن سے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیدا ہوئے۔ (1) (رضی اللہ تعالیٰ عنہم)
1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت،قسم دوم،باب اول،ج۲،ص۲۳والمواھب اللدنیۃ،ذکرحضانتہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ج۱،ص۹۷
"حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا گہوارہ
یعنی جھولا فرشتوں کے ہلانے سے ہلتا تھا اور آپ بچپن میں چاند کی طرف انگلی اٹھا کر اشارہ فرماتے تھے توچاند آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی انگلی کے اشاروں پر حرکت کرتا تھا۔جب آپ کی زبان کھلی تو سب سے اول جو کلام آپ کی زبان مبارک سے نکلا وہ یہ تھا"
اللہ اکبر اللہ اکبرالحمد للہ رب العالمین وسبحان اللہ بکرۃ واصیلا
بچوں کی عادت کے مطابق کبھی بھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے کپڑوں میں بول و براز نہیں فرمایا۔ بلکہ ہمیشہ ایک معین وقت پر رفع حاجت فرماتے۔ اگر کبھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی شرم گاہ کھل جاتی تو آپ رو رو کر فریاد کرتے۔ اور جب تک شرم گاہ نہ چھپ جاتی آپ کو چین اور قرار نہیں آتا تھا اور اگر شرم گاہ چھپانے میں مجھ سے کچھ تاخیر ہو جاتی تو غیب سے کوئی آپ کی شرم گاہ چھپا دیتا۔ جب آپ اپنے پاؤں پر چلنے کے قابل ہوئے تو باہر نکل کر بچوں کو کھیلتے ہوئے دیکھتے مگر خود کھیل کود میں شریک نہیں ہوتے تھے لڑکے آپ کو کھیلنے کے لئے بلاتے تو آپ فرماتے کہ میں کھیلنے کے لئے نہیں پیدا کیا گیا ہوں۔ (1)(مدارج النبوۃ ج2 ص21)
حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی عمر شریف جب چھ برس کی ہو گئی تو آپ کی والدہ ماجدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاآپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو ساتھ لے کر مدینہ منورہ آپ کے دادا کے نانھیال بنو عدی بن نجار میں رشتہ داروں کی ملاقات یا اپنے شوہر کی قبر کی زیارت
1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم دوم ، باب اول، ج۲،ص۲۰
"کے لئے تشریف لے گئیں۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے والد ماجد کی باندی امِ ایمن
بھی اس سفرمیں آپ کے ساتھ تھیں وہاں سے واپسی پر ''ابواء'' نامی گاؤں میں حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی وفات ہو گئی اور وہ وہیں مدفون ہوئیں۔ والد ماجد کا سایہ تو ولادت سے پہلے ہی اٹھ چکا تھا اب والدہ ماجدہ کی آغوش شفقت کا خاتمہ بھی ہو گیا۔ لیکن حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکا یہ در یتیم جس آغوشِ رحمت میں پرورش پا کر پروان چڑھنے والاہے وہ ان سب ظاہری اسبابِ تربیت سے بے نیاز ہے۔(1)
حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وفات کے بعد حضرت امِ ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہاآپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو مکہ مکرمہ لائیں اور آپ کے دادا عبدالمطلب کے سپرد کیا اور دادا نے آپ کو اپنی آغوش تربیت میں انتہائی شفقت و محبت کے ساتھ پرورش کیااور حضرت امِ ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ کی خدمت کرتی رہیں۔ جب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی عمر شریف آٹھ برس کی ہو گئی تو آپ کے دادا عبدالمطلب کا بھی انتقال ہو گیا۔(2)"
عبدالمطلب کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے چچا ابوطالب نے آپ کو اپنی آغوشِ تربیت میں لے لیا اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی نیک خصلتوں اور دل لبھا دینے والی بچپن کی پیاری پیاری اداؤں نے ابو طالب کو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا ایسا گرویدہ بنا دیا کہ مکان کے اندر اور باہر ہر وقت آپ کو اپنے ساتھ ہی
"1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ ، ذکر رضاعہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم، ج۱،ص۸۸ملخصاً
2۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب،ذکر وفاۃ امہ...الخ،ج۱،ص۳۵۳"
"رکھتے۔اپنے ساتھ کھلاتے پلاتے،اپنے پاس ہی آپ کا بستر بچھاتے اور ایک لمحہ کے
لئے بھی کبھی اپنی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیتے تھے۔(1)
ابو طالب کا بیان ہے کہ میں نے کبھی بھی نہیں دیکھا کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کسی وقت بھی کوئی جھوٹ بولے ہوں یا کبھی کسی کو دھوکہ دیا ہو، یا کبھی کسی کو کوئی ایذا پہنچائی ہو، یا بیہودہ لڑکوں کے پاس کھیلنے کے لئے گئے ہوں یا کبھی کوئی خلافِ تہذیب بات کی ہو۔ ہمیشہ انتہائی خوش اخلاق، نیک اطوار، نرم گفتار، بلند کردار اور اعلیٰ درجہ کے پارسا اور پرہیز گار رہے۔"
ایک مرتبہ ملکِ عرب میں انتہائی خوفناک قحط پڑ گیا۔ اہلِ مکہ نے بتوں سے فریاد کرنے کا ارادہ کیا مگر ایک حسین و جمیل بوڑھے نے مکہ والوں سے کہا کہ اے اہلِ مکہ! ہمارے اندر ابو طالب موجود ہیں جو بانی کعبہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی نسل سے ہیں اور کعبہ کے متولی اور سجادہ نشین بھی ہیں۔ ہمیں ان کے پاس چل کر دعا کی درخواست کرنی چاہیے۔ چنانچہ سردارانِ عرب ابو طالب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فریاد کرنے لگے کہ اے ابو طالب! قحط کی آگ نے سارے عرب کو جھلسا کر رکھ دیا ہے۔ جانور گھاس پانی کے لئے ترس رہے ہیں اور انسان دانہ پانی نہ ملنے سے تڑپ تڑپ کر دم توڑ رہے ہیں۔ قافلوں کی آمدورفت بند ہو چکی ہے اور ہر طرف بربادی و ویرانی کا دور دورہ ہے۔ آپ بارش کے لئے دعا کیجیے ۔اہلِ عرب کی فریاد سن کر ابو طالب کا دل بھر آیااورحضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ لے کر حرم کعبہ میں گئے۔ اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو دیوار کعبہ
1۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب،ذکروفاۃ امہ...الخ ،ج۱،ص۳۵۴
" سے ٹیک لگا کر بٹھادیا اور دعا مانگنے میں مشغول ہوگئے۔ درمیان دعا میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی انگشت مبارک کو آسمان کی طرف اٹھا دیا ایک دم چاروں طرف سے بدلیاں نمودار ہوئیں اور فوراً ہی اس زور کا بارانِ رحمت برسا کہ عرب کی زمین سیراب ہو گئی۔ جنگلوں اورمیدانوں میں ہر طرف پانی ہی پانی نظر آنے لگا۔ چٹیل میدانوں کی زمینیں سرسبز و شاداب ہو گئیں۔ قحط دفع ہو گیااور کال کٹ گیا اور سارا عرب خوش حال اور نہال ہو گیا۔
چنانچہ ابوطالب نے اپنے اس طویل قصیدہ میں جس کو انہوں نے حضورِ اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مدح میں نظم کیا ہے اس واقعہ کو ایک شعر میں اس طرح ذکر کیا ہے کہ ؎"
"وَاَبْیَضَ یُسْتَسْقَی الْغَمَامُ بِوَجْھِہٖ ثِمَالُ الْیَتَامِیْ عِصْمَۃٌ لِّـلْاَرَامِلِ"
یعنی وہ (حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) ایسے گورے رنگ والے ہیں کہ ان کے رخ انور کے ذریعہ بدلی سے بارش طلب کی جاتی ہے وہ یتیموں کا ٹھکانااور بیواؤں کے نگہبان ہیں۔(1)(زرقانی علی المواہب ج۱ ص۱۹۰)
حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا لقب ''اُمّی'' ہے اس لفظ کے دو معنی ہیں یا تو یہ ''اُم القریٰ'' کی طرف نسبت ہے۔ ''اُم القریٰ'' مکہ مکرمہ کا لقب ہے۔ لہٰذا ''اُمی'' کے معنی مکہ مکرمہ کے رہنے والے یا''اُمّی'' کے یہ معنی ہیں کہ آپ نے دنیا میں کسی انسان سے لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا۔ یہ حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا بہت ہی عظیم الشان معجزہ ہے کہ دنیا میں کسی نے بھی آپ کو نہیں پڑھایا لکھایا۔ مگر خداوند قدوس نے آپ کو
1۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب، ذکر وفاۃ امہ وما یتعلق بابویہ صلی اللہ علیہ وسلم،ج۱،ص۳۵۵
اس قدر علم عطا فرمایا کہ آپ کا سینہ اولین و آخرین کے علوم و معارف کا خزینہ بن گیا۔ اور آپ پر ایسی کتاب نازل ہوئی جس کی شان
تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْئٍ
(ہر ہر چیز کا روشن بیان) ہے حضرت مولانا جامی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے کیا خوب فرمایا ہے کہ ؎
" نگار من کہ بہ مکتب نرفت و خط ننوشت
بغمزہ سبق آموز صد مدرس شد"
"یعنی میرے محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نہ کبھی مکتب میں گئے ،نہ لکھنا سیکھامگر اپنے چشم و ابرو کے اشارہ سے سیکڑوں مدرسوں کو سبق پڑھادیا۔
ظاہر ہے کہ جس کا استاد اور تعلیم دینے والا خلاق عالم جل جلالہ ہو بھلا اس کو کسی اور استاد سے تعلیم حاصل کرنے کی کیا ضرورت ہو گی؟ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی قدس سرہ العزیز نے ارشاد فرمایا کہ ؎"
" ایسا امی کس لئے منت کش استاذ ہو
کیا کفایت اس کو اقرء ربک الاکرم نہیں"
"آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے امی لقب ہونے کا حقیقی راز کیا ہے؟ اس کو تو خدا وند علام الغیوب کے سوا اور کون بتا سکتا ہے؟ لیکن بظاہر اس میں چند حکمتیں اور فوائد معلوم ہوتے ہیں ۔
اوّل۔ یہ کہ تمام دنیا کو علم و حکمت سکھانے والے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہوں اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا استاد صرف خداوند عالم ہی ہو، کوئی انسان آپ کا استاد نہ ہوتاکہ کبھی کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ پیغمبر تو میرا پڑھایا ہوا شاگرد ہے۔
دوم۔ یہ کہ کوئی شخص کبھی یہ خیال نہ کر سکے کہ فلاں آدمی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ"
"وسلم کا استاد تھا تو شاید وہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے زیادہ علم والا ہو گا۔
سوم۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بارے میں کوئی یہ وہم بھی نہ کر سکے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم چونکہ پڑھے لکھے آدمی تھے اس ليے انہوں نے خود ہی قرآن کی آیتوں کو اپنی طرف سے بنا کر پیش کیا ہے اور قرآن انہیں کا بنایا ہوا کلام ہے۔
چہارم۔جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ساری دنیاکو کتاب وحکمت کی تعلیم دیں تو کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ پہلی اور پرانی کتابوں کو دیکھ دیکھ کر اس قسم کی انمول اور انقلاب آفریں تعلیمات دنیا کے سامنے پیش کررہے ہیں۔
پنجم۔ اگرحضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا کوئی استاد ہوتا تو آپ کو اس کی تعظیم کرنی پڑتی،حالانکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو خالق کائنات نے اس ليے پیدا فرمایا تھا کہ سارا عالم آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی تعظیم کرے، اس ليے حضرت حق جل شانہ نے اس کو گوارا نہیں فرمایا کہ میرا محبوب کسی کے آگے زانوئے تلمذ تہ کرے اور کوئی اس کا استادہو۔(واللہ تعالیٰ اعلم)"
جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی عمر شریف بارہ برس کی ہوئی تو اس وقت ابوطالب نے تجارت کی غرض سے ملک شام کا سفر کیا۔ ابوطالب کو چونکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم سے بہت ہی والہانہ محبت تھی اس ليے وہ آپ کو بھی اس سفر میں اپنے ہمراہ لے گئے۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے اعلان نبوت سے قبل تین بار تجارتی سفر فرمایا۔ دو مرتبہ ملک شام گئے اور ایک بار یمن تشریف لے گئے،یہ ملک شام کا پہلا سفر ہے اس سفر کے دوران '' بُصریٰ '' میں '' بُحیریٰ ''راہب (عیسائی سادھو) کے پاس آپ کا قیام
"ہوا۔اس نے توراۃ وانجیل میں بیان کی ہوئی نبی آخر الزماں کی نشانیوں سے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو دیکھتے ہی پہچان لیااور بہت عقیدت اور احترام کے ساتھ اس نے آپ کے قافلہ والوں کی دعوت کی اور ابو طالب سے کہا کہ یہ سارے جہان کے سردار اور رب العالمین کے رسول ہیں، جن کو خدا عزوجل نے رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ شجر و حجران کو سجدہ کرتے ہیں اور ابران پر سایہ کرتا ہے اور ان کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت ہے۔ اس لئے تمہارے اور ان کے حق میں یہی بہتر ہوگا کہ اب تم ان کو لے کر آگے نہ جاؤاور اپنا مال تجارت یہیں فروخت کرکے بہت جلد مکہ چلے جاؤ ۔کیونکہ ملک شام میں یہودی لوگ ان کے بہت بڑے دشمن ہیں۔ وہاں پہنچتے ہی وہ لوگ ان کو شہید کر ڈالیں گے۔بحیرٰی راہب کے کہنے پر ابو طالب کو خطرہ محسوس ہونے لگا۔ چنانچہ انہوں نے وہیں اپنی تجارت کا مال فروخت کر دیا اور بہت جلدحضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ لے کر مکہ مکرمہ واپس آ گئے۔ بُحیریٰ راہب نے چلتے وقت انتہائی عقیدت کے ساتھ آپ کو سفر کا کچھ توشہ بھی دیا۔(1)
(ترمذی ج۲ باب ماجاء فی بدء نبوۃ النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)"
اسلام سے پہلے عربوں میں لڑائیوں کا ایک طویل سلسلہ جاری تھا۔ انہی لڑائیوں میں سے ایک مشہور لڑائی ''جنگ فجار'' کے نام سے مشہور ہے۔ عرب کے لوگ
1۔۔۔۔۔۔سنن الترمذی، کتاب المناقب ، باب ماجاء فی بدء نبوۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم، الحدیث:۳۶۴۰، ج۵،ص۳۵۶ والسیرۃ النبویۃ لابن ھشام، قصۃ بحیری، ص۷۳
ذوالقعدہ،ذوالحجہ، محرم اور رجب ،ان چار مہینوں کا بے حد احترام کرتے تھے اور ان مہینوں میں لڑائی کرنے کو گناہ جانتے تھے۔یہاں تک کہ عام طور پر ان مہینوں میں لوگ تلواروں کو نیام میں رکھ دیتے۔اور نیزوں کی برچھیاں اتار لیتے تھے۔ مگر اس کے باوجود کبھی کبھی کچھ ایسے ہنگامی حالات درپیش ہو گئے کہ مجبوراً ان مہینوں میں بھی لڑائیاں کرنی پڑیں۔ توان لڑائیوں کو اہل عرب ''حروب فجار''( گناہ کی لڑائیاں) کہتے تھے۔ سب سے آخری جنگ فجار جو '' قریش'' اور ''قیس'' کے قبیلوں کے درمیان ہوئی اس وقت حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی عمر شریف بیس برس کی تھی۔ چونکہ قریش اس جنگ میں حق پر تھے،اس لئے ابو طالب وغیرہ اپنے چچاؤں کے ساتھ آپ نے بھی اس جنگ میں شرکت فرمائی۔ مگر کسی پر ہتھیار نہیں اٹھایا۔ صرف اتنا ہی کیا کہ اپنے چچاؤں کو تیر اٹھا اٹھا کر دیتے رہے۔ اس لڑائی میں پہلے قیس پھر قریش غالب آئے اور آخر کار صلح پر اس لڑائی کا خاتمہ ہو گیا۔(1) (سیرت ابن ہشام ج۲ ص۱۸۶)
روز روز کی لڑائیوں سے عرب کے سیکڑوں گھرانے برباد ہو گئے تھے۔ ہر طرف بدامنی اور آئے دن کی لوٹ مار سے ملک کا امن و امان غارت ہو چکا تھا۔ کوئی شخص اپنی جان و مال کو محفوظ نہیں سمجھتا تھا۔ نہ دن کو چین،نہ رات کو آرام،اس وحشت ناک صور تِ حال سے تنگ آکر کچھ صلح پسند لوگوں نے جنگ فجار کے خاتمہ کے بعد ایک اصلاحی تحریک چلائی۔ چنانچہ بنو ہاشم، بنو زہرہ، بنو اسد وغیرہ قبائل قریش کے بڑے بڑے سردار ان عبداللہ بن جدعان کے مکان پر جمع ہوئے اور حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے
1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃمع شرح الزرقانی، خروجہ الی الشام ، ج۱،ص۳۶۲والسیرۃ النبویۃ لابن ھشام ،حرب الفجار،ص۷۵
"چچا زبیر بن عبدالمطلب نے یہ تجویز پیش کی کہ موجودہ حالات کو سدھارنے کے لئے کوئی معاہدہ کرنا چاہیے۔ چنانچہ خاندان قریش کے سرداروں نے ''بقائے باہم'' کے اصول پر ''جیو اور جینے دو'' کے قسم کا ایک معاہدہ کیا اور حلف اٹھا کر عہد کیا کہ ہم لوگ:
(۱)ملک سے بے امنی دور کریں گے۔(۲) مسافروں کی حفاظت کریں گے۔
(۳)غریبوں کی امداد کرتے رہیں گے۔(۴) مظلوم کی حمایت کریں گے۔
(۵)کسی ظالم یا غاصب کو مکہ میں نہیں رہنے دیں گے۔
اس معاہدہ میں حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بھی شریک ہوئے اور آپ کو یہ معاہدہ اس قدر عزیز تھا کہ اعلانِ نبوت کے بعد آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ اس معاہدہ سے مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ اگر اس معاہدہ کے بدلے میں کوئی مجھے سرخ رنگ کے اونٹ بھی دیتا تو مجھے اتنی خوشی نہیں ہوتی ۔اور آج اسلام میں بھی اگر کوئی مظلوم ''یاآل حلف الفضول'' کہہ کر مجھے مدد کے لئے پکارے تو میں اس کی مدد کے لئے تیار ہوں۔
اس تاریخی معاہدہ کو '' حلف الفضول'' اس لئے کہتے ہیں کہ قریش کے اس معاہدہ سے بہت پہلے مکہ میں قبیلہ'' جرہم'' کے سرداروں کے درمیان بھی بالکل ایسا ہی ایک معاہدہ ہوا تھا ۔اور چونکہ قبیلۂ جرہم کے وہ لوگ جو اس معاہدہ کے محرک تھے ان سب لوگوں کا نام ''فضل'' تھا یعنی فضل بن حارث اور فضل بن وداعہ اور فضل بن فضالہ اس لئے اس معاہدہ کا نام ''حلف الفضول'' رکھ دیا گیا،یعنی ان چند آدمیوں کا معاہدہ جن کے نام ''فضل'' تھے۔(1)(سیرت ابن ہشام ج۱ ص۱۳۴)"
1۔۔۔۔۔۔السیرۃ النبویۃ لابن ھشام ، حرب الفجار، ص۵۶
جب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی عمر شریف تقریباً پچیس سال کی ہوئی تو آپ کی امانت و صداقت کا چرچا دور دور تک پہنچ چکا تھا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مکہ کی ایک بہت ہی مالدار عورت تھیں۔ ان کے شوہر کا انتقال ہو چکا تھا۔ ان کو ضرورت تھی کہ کوئی امانت دار آدمی مل جائے تو اس کے ساتھ اپنی تجارت کا مال و سامان ملک شام بھیجیں۔ چنانچہ ان کی نظر انتخاب نے اس کام کے لئے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو منتخب کیا اور کہلا بھیجا کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میرا مال تجارت لے کر ملک شام جائیں جو معاوضہ میں دوسروں کو دیتی ہوں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی امانت و دیانت داری کی بنا پر میں آپ کو اس کا دوگنا دوں گی۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کی درخواست منظور فرما لی اورتجارت کا مال و سامان لے کر ملک شام کو روانہ ہو گئے۔ اس سفر میں حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے ایک معتمد غلام ''میسرہ'' کو بھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ کر دیا تا کہ وہ آپ کی خدمت کرتا رہے۔ جب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ملک شام کے مشہور شہر''بصریٰ'' کے بازار میں پہنچے تو وہاں ''نسطورا'' راہب کی خانقاہ کے قریب میں ٹھہرے۔ ''نسطورا'' میسرہ کو بہت پہلے سے جانتا پہچانتا تھا۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی صورت دیکھتے ہی ''نسطورا'' میسرہ کے پاس آیا اور دریافت کیا کہ اے میسرہ! یہ کون شخص ہیں جو اس درخت کے نیچے اتر پڑے ہیں ۔میسرہ نے جواب دیا کہ یہ مکہ کے رہنے والے ہیں اورخاندان بنو ہاشم کے چشم و چراغ ہیں ان کا نام نامی ''محمد'' اور لقب ''امین'' ہے۔ نسطوراء نے کہا کہ سوائے نبی کے اس درخت کے نیچے آج تک کبھی کوئی نہیں اترا۔ اس لئے مجھے یقین کامل ہے کہ ''نبی آخر الزماں'' یہی ہیں۔ کیونکہ آخری نبی کی تمام نشانیاں جو میں نے توریت و انجیل میں پڑھی ہیں وہ سب میں ان میں دیکھ رہا ہوں۔ کاش!میں اس وقت زندہ رہتا جب یہ
"اپنی نبوت کا اعلان کریں گے تو میں ان کی بھر پور مدد کرتا اور پوری جاں نثاری کے ساتھ ان کی خدمت گزاری میں اپنی تمام عمر گزار دیتا۔ اے میسرہ! میں تم کو نصیحت اور وصیت کرتا ہوں کہ خبردار! ایک لمحہ کے لئے بھی تم ان سے جدا نہ ہونا اور انتہائی خلوص و عقیدت کے ساتھ ان کی خدمت کرتے رہنا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ''خاتم النبیین''ہونے کا شرف عطا فرمایا ہے۔(1)
حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بصریٰ کے بازار میں بہت جلد تجارت کا مال فروخت کرکے مکہ مکرمہ واپس آ گئے۔ واپسی میں جب آپ کا قافلہ شہر مکہ میں داخل ہونے لگا تو حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ایک بالاخانے پر بیٹھی ہوئی قافلہ کی آمد کا منظر دیکھ رہی تھیں۔ جب ان کی نظر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر پڑی تو انہیں ایسا نظر آیا کہ دو فرشتے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سر پر دھوپ سے سایہ کئے ہوئے ہیں ۔حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے قلب پر اس نورانی منظر کا ایک خاص اثر ہوا اور وہ فرط عقیدت سے انتہائی والہانہ محبت کے ساتھ یہ حسین جلوہ دیکھتی رہیں ۔پھر اپنے غلام میسرہ سے انہوں نے کئی دن کے بعد اس کا ذکر کیا تو میسرہ نے بتایا کہ میں تو پورے سفر میں یہی منظر دیکھتا رہا ہوں۔ اور اس کے علاوہ میں نے بہت سی عجیب و غریب باتوں کامشاہدہ کیا ہے۔ پھر میسرہ نے نسطوراراہب کی گفتگواور اسکی عقیدت و محبت کا تذکرہ بھی کیا۔ یہ سن کر حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو آپ سے بے پناہ قلبی تعلق، اور بے حد عقیدت و محبت ہو گئی اوریہاں تک ان کا دل جھک گیا کہ انہیں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے نکاح کی رغبت ہو گئی۔(2)(مدارج النبوۃ ج۲ ص۲۷)"
"1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم دوم ، باب دوم، ج۲،ص۲۷
2۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم دوم ، باب دوم، ج۲،ص۲۷"
حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مال و دولت کے ساتھ انتہائی شریف اور عفت مآب خاتون تھیں ۔اہل مکہ ان کی پاک دامنی اور پارسائی کی وجہ سے ان کو طاہرہ (پاکباز) کہا کرتے تھے۔ ان کی عمر چالیس سال کی ہو چکی تھی پہلے ان کا نکاح ابو ہالہ بن زرارہ تمیمی سے ہوا تھا اور ان سے دو لڑکے ''ہند بن ابو ہالہ'' اور ''ہالہ بن ابو ہالہ'' پیدا ہو چکے تھے۔ پھر ابو ہالہ کے انتقال کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے دوسرا نکاح ''عتیق بن عابد مخزومی'' سے کیا۔ ان سے بھی دو اولاد ہوئی ، ایک لڑکا ''عبداللہ بن عتیق'' اور ایک لڑکی ''ہند بنت عتیق'' ۔حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے دوسرے شوہر ''عتیق'' کا بھی انتقال ہو چکا تھا۔ بڑے بڑے سردار ان قریش ان کے ساتھ عقد نکاح کے خواہش مند تھے لیکن انہوں نے سب پیغاموں کو ٹھکرا دیا۔ مگر حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پیغمبرانہ اخلاق و عادات کو دیکھ کر اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حیرت انگیز حالات کوسن کر یہاں تک ان کا دل آپ کی طرف مائل ہو گیا کہ خود بخود ان کے قلب میں آپ سے نکاح کی رغبت پیدا ہو گئی۔ کہاں تو بڑے بڑے مالداروں اور شہر مکہ کے سرداروں کے پیغاموں کو رد کر چکی تھیں اوریہ طے کر چکی تھیں کہ اب چالیس برس کی عمر میں تیسرا نکاح نہیں کروں گی اور کہاں خود ہی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی پھوپھی حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بلایا جو ان کے بھائی عوام بن خویلد کی بیوی تھیں۔ ان سے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے کچھ ذاتی حالات کے بارے میں مزیدمعلومات حاصل کیں پھر ''نفیسہ'' بنت امیہ کے ذریعہ خود ہی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا۔ مشہور امام سیرت محمد بن اسحق نے لکھا ہے کہ اس رشتہ کو پسند کرنے کی جو وجہ حضرت
خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے خود حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے بیان کی ہے وہ خود ان کے الفاظ میں یہ ہے۔
اِنِّیْ قَدْ رَغِبْتُ فِیْکَ لِحُسْنِ خُلْقِکَ وَصِدْقِ حَدِیْثِکَ
"یعنی میں نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اچھے اخلاق اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سچائی کی وجہ سے آپ کو پسند کیا۔ (1)(زرقانی علی المواہب ج۱ ص۲۰۰)
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس رشتہ کو اپنے چچاابو طالب اور خاندان کے دوسرے بڑے بوڑھوں کے سامنے پیش فرمایا۔ بھلا حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جیسی پاک دامن شریف، عقلمند اور مالدار عورت سے شادی کرنے کو کون نہ کہتا؟ سارے خاندان والوں نے نہایت خوشی کے ساتھ اس رشتہ کو منظور کر لیا۔اورنکاح کی تاریخ مقرر ہوئی اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابو طالب وغیرہ اپنے چچاؤں اور خاندان کے دوسرے افراد اور شرفاء بنی ہاشم و سرداران مضر کو اپنی برات میں لے کر حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مکان پر تشریف لے گئے اور نکاح ہوا۔ اس نکاح کے وقت ابوطالب نے نہایت ہی فصیح و بلیغ خطبہ پڑھا۔ اس خطبہ سے بہت اچھی طرح اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ اعلانِ نبوت سے پہلے آپ کے خاندانی بڑے بوڑھوں کا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے متعلق کیسا خیال تھااور آپ کے اخلاق و عادات نے ان لوگوں پر کیسا اثر ڈالا تھا۔(2) ابو طالب کے اس خطبہ کا ترجمہ یہ ہے:
تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جس نے ہم لوگوں کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد میں بنایا اور ہم کو معد اور مضر کے خاندان"
"1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،تزوجہ علیہ السلام من خدیجۃ،ج۱،ص۳۷۰۔۳۷۴مختصراً
2۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،تزوجہ علیہ السلام من خدیجۃ،ج۱،ص۳۷۶مختصراً"
"میں پیدا فرمایا اور اپنے گھر(کعبہ) کا نگہبان اور اپنے حرم کا منتظم بنایااور ہم کو علم و حکمت والا گھر اور امن والا حرم عطا فرمایا اور ہم کو لوگوں پر حاکم بنایا۔
یہ میرے بھائی کا فرزند محمد بن عبداللہ ہے۔ یہ ایک ایسا جوان ہے کہ قریش کے جس شخص کا بھی اس کے ساتھ موازنہ کیا جائے یہ اس سے ہر شان میں بڑھا ہوا ہی رہے گا۔ ہاں مال اس کے پاس کم ہے لیکن مال تو ایک ڈھلتی ہوئی چھاؤں اور ادل بدل ہونے والی چیز ہے۔ اما بعد! میرا بھتیجا محمد(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)وہ شخص ہے جس کے ساتھ میری قرابت اور قربت و محبت کو تم لوگ اچھی طرح جانتے ہو۔ وہ خدیجہ بنت خویلدرضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح کرتا ہے اور میرے مال میں سے بیس اونٹ مہر مقرر کرتا ہے اور اس کا مستقبل بہت ہی تابناک،عظیم الشان اور جلیل القدر ہے۔ (1) (زرقانی علی المواہب ج۱ ص۲۰۱)
جب ابو طالب اپنا یہ ولولہ انگیز خطبہ ختم کر چکے تو حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل نے بھی کھڑے ہو کر ایک شاندار خطبہ پڑھا۔ جس کا مضمون یہ ہے:
خدا ہی کے لئے حمد ہے جس نے ہم کو ایسا ہی بنایا جیسا کہ اے ابو طالب ! آپ نے ذکر کیااور ہمیں وہ تمام فضیلتیں عطا فرمائی ہیں جن کو آپ نے شمار کیا۔ بلا شبہ ہم لوگ عرب کے پیشوا اور سردار ہیں اور آپ لوگ بھی تمام فضائل کے اہل ہیں۔ کوئی قبیلہ آپ لوگوں کے فضائل کا انکار نہیں کر سکتااور کوئی شخص آپ لوگوں کے فخر و شرف کو"
1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،تزوجہ علیہ السلام من خدیجۃ،ج۱،ص۳۷۶ ملخصاً ومدارج النبوت ، قسم دوم ، باب دوم ، ج۲،ص۲۸
"رد نہیں کر سکتا اور بے شک ہم لوگوں نے نہایت ہی رغبت کے ساتھ آپ لوگوں کے ساتھ ملنے اور رشتہ میں شامل ہونے کو پسند کیا۔ لہٰذا اے قریش! تم گواہ رہو کہ خدیجہ بنت خویلدرضی اللہ تعالیٰ عنہا کو میں نے محمد بن عبداللہ(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ورضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی زوجیت میں دیا چارسو مثقال مہر کے بدلے۔(1)
غرض حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ حضور علیہ الصلاۃ والسلام کا نکاح ہوگیا اور حضور محبوب خدا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا خانہ معیشت ازدواجی زندگی کے ساتھ آباد ہو گیا۔حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تقریباً ۲۵ برس تک حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں رہیں اور ان کی زندگی میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے کوئی دوسرا نکاح نہیں فرمایا اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ایک فرزند حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوا باقی آپ کی تمام اولاد حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہی کے بطن سے پیدا ہوئی۔ جن کا تفصیلی بیان آگے آئے گا۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنی ساری دولت حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے قدموں پرقربان کر دی اور اپنی تمام عمر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی غمگساری اور خدمت میں نثار کر دی جن کی تفصیل آئندہ صفحات میں تحریر کی جائے گی۔"
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی راست بازی اور امانت و دیانت کی بدولت خداوند عالم عزوجل نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو اس قدر مقبولِ خلائق بنا دیا اور عقلِ سلیم اور بے مثال دانائی کا ایسا عظیم جوہر عطا فرما دیاکہ کم عمری میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے
1۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب ،تزوجہ علیہ السلام من خدیجۃ،ج۱، ص۳۷۷
عرب کے بڑے بڑے سرداروں کے جھگڑوں کا ایسا لاجواب فیصلہ فرما دیا کہ بڑے بڑے دانشوروں اور سرداروں نے اس فیصلہ کی عظمت کے آگے سر جھکا دیا،اور سب نے بالاتفاق آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنا حکم اور سردارِ اعظم تسلیم کر لیا۔ چنانچہ اس قسم کا ایک واقعہ تعمیر کعبہ کے وقت پیش آیا جس کی تفصیل یہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی عمر پینتیس (۳۵) برس کی ہوئی تو زور دار بارش سے حرم کعبہ میں ایسا عظیم سیلاب آگیا کہ کعبہ کی عمارت بالکل ہی منہدم ہو گئی۔ حضرت ابراہیم و حضرت اسمٰعیل علیہما السلام کا بنایا ہوا کعبہ بہت پرانا ہو چکا تھا۔ عمالقہ، قبیلۂ جرہم اور قصی وغیرہ اپنے اپنے وقتوں میں اس کعبہ کی تعمیر و مرمت کرتے رہے تھے مگر چونکہ عمارت نشیب میں تھی اس لئے پہاڑوں سے برساتی پانی کے بہاؤ کا زور دار دھارا وادیئ مکہ میں ہو کر گزرتا تھا اور اکثر حرم کعبہ میں سیلاب آ جاتا تھا ۔ کعبہ کی حفاظت کے لیے بالائی حصہ میں قریش نے کئی بند بھی بنائے تھے مگر وہ بندبار بار ٹوٹ جاتے تھے۔ اس لیے قریش نے یہ طے کیا کہ عمارت کو ڈھا کر پھر سے کعبہ کی ایک مضبوط عمارت بنائی جائے جس کا دروازہ بلند ہو اور چھت بھی ہو۔(1) چنانچہ قریش نے مل جل کر تعمیرکا کام شروع کر دیا۔اس تعمیر میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بھی شریک ہوئے اور سردار ان قریش کے دوش بدوش پتھر اٹھا اٹھا کر لاتے رہے مختلف قبیلوں نے تعمیر کے لیے مختلف حصے آپس میں تقسیم کر لئے۔ جب عمارت ''حجر اسود'' تک پہنچ گئی تو قبائل میں سخت جھگڑا کھڑا ہو گیا۔ ہر قبیلہ یہی چاہتا تھا کہ ہم ہی ''حجراسود'' کو اٹھا کر دیوار میں نصب کریں ۔تا کہ ہمارے قبیلہ کے لئے یہ فخر و اعزاز کا باعث بن جائے۔ اس کشمکش میں چار دن گزر گئے یہاں تک نوبت پہنچی کہ
1۔۔۔۔۔۔السیرۃ الحلبیۃ، باب بنیان قریش الکعبۃ...الخ، ج۱،ص۲۰۴مختصراً
"تلواریں نکل آئیں بنو عبدالدار اور بنو عدی کے قبیلوں نے تواس پر جان کی بازی لگا دی اور زمانہ جاہلیت کے دستور کے مطابق اپنی قسموں کو مضبوط کرنے کے لئے ایک پیالہ میں خون بھر کر اپنی انگلیاں اس میں ڈبو کر چاٹ لیں ۔پانچویں دن حرم کعبہ میں تمام قبائل عرب جمع ہوئے اور اس جھگڑے کو طے کرنے کے لئے ایک بڑے بوڑھے شخص نے یہ تجویز پیش کی کہ کل جو شخص صبح سویرے سب سے پہلے حرم کعبہ میں داخل ہو اس کو پنچ مان لیا جائے۔ وہ جو فیصلہ کر دے سب اس کو تسلیم کر لیں۔ چنانچہ سب نے یہ بات مان لی۔ خدا عزوجل کی شان کہ صبح کو جو شخص حرم کعبہ میں داخل ہوا وہ حضور رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہی تھے۔ آپ کو دیکھتے ہی سب پکار اٹھے کہ واللہ یہ ''امین '' ہیں لہٰذا ہم سب ان کے فیصلہ پر راضی ہیں۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس جھگڑے کا اس طرح تصفیہ فرمایا کہ پہلے آپ نے یہ حکم دیا کہ جس جس قبیلہ کے لوگ حجر اسود کو اس کے مقام پر رکھنے کے مدعی ہیں ان کا ایک ایک سردار چن لیا جائے ۔چنانچہ ہر قبیلہ والوں نے اپنا اپنا سردار چن لیا۔ پھر حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی چادر مبارک کو بچھا کر حجراسود کو اس پر رکھااور سرداروں کو حکم دیا کہ سب لوگ اس چادر کو تھام کر مقدس پتھر کو اٹھائیں ۔ چنانچہ سب سرداروں نے چادر کو اٹھایا ا ور جب حجر اسود اپنے مقام تک پہنچ گیا تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے متبرک ہاتھوں سے اس مقدس پتھر کو اٹھا کر اس کی جگہ پر رکھ دیا۔اس طرح ایک ایسی خونریز لڑائی ٹل گئی جس کے نتیجہ میں نہ معلوم کتنا خون خراباہوتا۔(1) (سیرت ابن ہشام ج۱ ص۱۹۶ تا۱۹۷)
خانہ کعبہ کی عمارت بن گئی لیکن تعمیر کے لئے جوسامان جمع کیاگیاتھاوہ کم"
1۔۔۔۔۔۔السیرۃ النبویۃ لابن ھشام ، حدیث بنیان الکعبۃ ...الخ، ص۷۹
پڑگیااس لئے ایک طرف کاکچھ حصہ باہرچھوڑکرنئی بنیادقائم کرکے چھوٹاساکعبہ بنالیا گیاکعبہ معظمہ کایہی حصہ جس کوقریش نے عمارت سے باہرچھوڑدیا''حطیم''کہلاتا ہے جس میں کعبہ معظمہ کی چھت کاپرنالا گرتاہے۔
" حضرت علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ''تاریخ مکہ'' میں تحریر فرمایا ہے کہ ''خانہ کعبہ'' دس مرتبہ تعمیر کیا گیا:
(۱)سب سے پہلے فرشتوں نے ٹھیک ''بیت المعمور'' کے سامنے زمین پر خانہ کعبہ کو بنایا۔(۲)پھر حضرت آدم علیہ السلام نے اس کی تعمیر فرمائی۔(۳)اس کے بعد حضرت آدم علیہ السلام کے فرزندوں نے اس عمارت کو بنایا۔(۴)اس کے بعد حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور ان کے فرزند ارجمند حضرت اسمٰعیل علیہما الصلوٰۃ والسلام نے اس مقدس گھر کو تعمیر کیا۔ جس کا تذکرہ قرآن مجید میں ہے۔(۵) قوم عمالقہ کی عمارت۔(۶)اس کے بعد قبیلہ جرہم نے اس کی عمارت بنائی۔(۷)قریش کے مورث اعلیٰ ''قصی بن کلاب'' کی تعمیر ۔ (۸)قریش کی تعمیر جس میں خود حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بھی شرکت فرمائی اور قریش کے ساتھ خود بھی اپنے دوش مبارک پر پتھر اٹھا اٹھا کر لاتے رہے۔(۹)حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور خلافت میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے تجویز کردہ نقشہ کے مطابق تعمیر کیا۔ یعنی حطیم کی زمین کو کعبہ میں داخل کر دیا۔ اور دروازہ سطح زمین کے برابر نیچا رکھا اورایک دروازہ مشرق کی جانب اور ایک دروازہ مغرب کی سمت بنا دیا۔(۱۰)عبدالملک بن مروان اموی کے ظالم گورنر حجاج بن یوسف ثقفی نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کر دیا۔ اور ان کے"
"بنائے ہوئے کعبہ کو ڈھا دیا ۔اور پھر زمانۂ جاہلیت کے نقشہ کے مطابق کعبہ بنا دیا۔ جو آج تک موجود ہے۔
لیکن حضرت علامہ حلبی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی سیرت میں لکھا ہے کہ نئے سرے سے کعبہ کی تعمیر جدید صرف تین ہی مرتبہ ہوئی ہے:
(۱)حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی تعمیر(۲)زمانۂ جاہلیت میں قریش کی عمارت اور ان دونوں تعمیروں میں دو ہزار سات سو پینتیس(۲۷۳۵) برس کا فاصلہ ہے (۳)حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تعمیر جو قریش کی تعمیر کے بیاسی سال بعد ہوئی۔
حضرات ملائکہ اور حضرت آدم علیہ السلام اور ان کے فرزندوں کی تعمیرات کے بارے میں علامہ حلبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ یہ صحیح روایتوں سے ثابت ہی نہیں ہے۔ باقی تعمیروں کے بارے میں انہوں نے لکھا کہ یہ عمارت میں معمولی ترمیم یا ٹوٹ پھوٹ کی مرمت تھی۔ تعمیر جدید نہیں تھی۔(1) واللہ تعالیٰ اعلم۔
(حاشیہ بخاری ج۱ ص۲۱۵ باب فضل مکہ)"
اعلانِ نبوت سے قبل جو لوگ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مخصوص احباب و رفقاء تھے وہ سب نہایت ہی بلند اخلاق، عالی مرتبہ، ہوش مند اور باوقار لوگ تھے۔ ان میں سب سے زیادہ مقرب حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے جو برسوں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ وطن اور سفر میں رہے۔ اور تجارت نیز دوسرے کاروباری معاملات میں ہمیشہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے شریک کا رو راز دار رہے۔ اسی طرح حضرت خدیجہ رضی
1۔۔۔۔۔۔حاشیۃ صحیح البخاری،کتاب المناسک،باب فضل مکۃ وبنیانہا،حاشیۃ:۴،ج۱،ص۲۱۵
"اللہ تعالیٰ عنہا کے چچا زاد بھائی حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو قریش کے نہایت ہی معزز رئیس تھے اور جن کا ایک خصوصی شرف یہ ہے کہ ان کی ولادت خانہ کعبہ کے اندر ہوئی تھی،یہ بھی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مخصوص احباب میں خصوصی امتیاز رکھتے تھے۔ (1) حضرت ضماد بن ثعلبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو زمانہ جاہلیت میں طبابت اور جراہی کا پیشہ کرتے تھے یہ بھی احباب خاص میں سے تھے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اعلانِ نبوت کے بعد یہ اپنے گاؤں سے مکہ آئے تو کفار قریش کی زبانی یہ پروپیگنڈا سنا کہ محمد( صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ) مجنون ہو گئے ہیں ۔ پھر یہ دیکھا کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم راستہ میں تشریف لے جارہے ہیں اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پیچھے لڑکوں کا ایک غول ہے جو شور مچا رہا ہے۔ یہ دیکھ کر حضرت ضماد بن ثعلبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کچھ شبہ پیدا ہوا اور پرانی دوستی کی بنا پر ان کو انتہائی رنج و قلق ہوا ۔چنانچہ یہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اے محمد!(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم )میں طبیب ہوں اور جنون کا علاج کر سکتا ہوں۔ یہ سن کر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خداعزوجل کی حمدو ثنا کے بعد چند جملے ارشاد فرمائے جن کا حضرت ضماد بن ثعلبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قلب پر اتنا گہرا اثر پڑا کہ وہ فوراً ہی مشرف بہ اسلام ہو گئے۔(2) (مشکوٰۃ باب علامات النبوۃ ص ۲۲۵ومسلم ج اول ص ۲۸۵ کتاب الجمعہ)
حضر ت قیس بن سائب مخزومی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تجارت کے کاروبار میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے شریک کار رہا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے"
"1۔۔۔۔۔۔اسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، حکیم بن حزام ، ج۲،ص۵۸مختصراً
2۔۔۔۔۔۔مشکاۃ المصابیح ، کتاب الفضائل والشمائل ، باب علامات النبوۃ ،الفصل الاول، الحدیث:۵۸۶۰، ج۲، ص۳۷۴"
گہرے دوستوں میں سے تھے ۔کہا کرتے تھے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا معاملہ اپنے تجارتی شرکا کے ساتھ ہمیشہ نہایت ہی صاف ستھرا رہتا تھااورکبھی کوئی جھگڑاپیش نہیں آتاتھا۔(1) (استیعاب ج ۲ ص ۵۳۷)
عرب میں اگر چہ ہر طرف شرک پھیل گیا تھا اور گھر گھر میں بت پرستی کا چرچا تھا ۔مگر اس ماحول میں بھی کچھ ایسے لوگ تھے جو توحید کے پرستار، اورشرک و بت پرستی سے بیزار تھے ۔ انہی خوش نصیبوں میں زید بن عمرو بن نفیل ہیں۔ یہ علی الاعلان شرک و بت پرستی سے انکار، اور جاہلیت کی مشرکانہ رسموں سے نفرت کا اظہار کرتے تھے۔ یہ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چچا زاد بھائی ہیں۔ شرک و بت پرستی کے خلاف اعلان مذمت کی بنا پر ان کا چچا ''خطاب بن نفیل'' ان کو بہت زیادہ تکلیفیں دیا کرتا تھا۔ یہاں تک کہ ان کو مکہ سے شہر بدر کر دیا تھا اور ان کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیتا تھا۔ مگر یہ ہزاروں ایذاؤں کے باوجود عقیدۂ توحید پر پہاڑ کی طر ح ڈٹے ہوئے تھے۔ چنانچہ آپ کے دو شعر بہت مشہور ہیں جن کو یہ مشرکین کے میلو ں او ر مجمعوں میں بہ آو از بلند سنایا کرتے تھے کہ ؎
"اَرَبًّا وَّاحِدًا اَمْ اَلْفَ رَبٍّ اَدِیْنُ اِذَا تُقُسِّمَتِ الْاُمُوْر،
تَرَکْتُ اللَّاتَ وَالْعُزّیٰ جَمِیْعًا کَذَالِکَ یَفْعَلُ الرَّجُلُ الْبَصِیْر،"
یعنی کیا میں ایک رب کی اطاعت کروں یا ایک ہزار رب کی ؟جب کہ لوگوں کے دینی معاملات تقسیم ہو چکے ہیں۔ میں نے تولات وعزیٰ کو چھوڑ دیا ہے۔ اور ہر بصیرت والا ایسا ہی کریگا۔(2) (سیرت ابن ہشام ج ۱ص۲۲۶)
"1۔۔۔۔۔۔الاستیعاب ،حرف القاف،ج۳،ص۳۴۹
2۔۔۔۔۔۔السیرۃ النبویۃ لابن ھشام ، زید بن عمروبن نفیل، ص۹۰"
"یہ مشرکین کے دین سے متنفر ہو کر دین برحق کی تلاش میں ملک شام چلے گئے تھے۔ وہاں ایک یہودی عالم سے ملے۔ پھر ایک نصرانی پادری سے ملاقات کی اور جب آپ نے یہودی و نصرانی دین کو قبول نہیں کیاتو ان دونوں نے ''دین حنیف''کی طرف آپ کی رہنمائی کی جو حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کا دین تھا اور ان دونوں نے یہ بھی بتایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نہ یہودی تھے، نہ نصرانی اور وہ ایک خدائے واحد کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے تھے۔ یہ سن کر زید بن عمر و بن نفیل ملک شام سے مکہ واپس آگئے۔ اور ہاتھ اٹھا اٹھا کر مکہ میں بہ آواز بلند یہ کہا کرتے تھے کہ اے لوگو! گواہ رہو کہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین پر ہوں۔(۶۵) (سیرت ابن ہشام ج ۱ص۲۲۵)
اعلانِ نبوت سے پہلے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ زید بن عمرو بن نفیل کو بڑا خاص تعلق تھا اورکبھی کبھی ملاقاتیں بھی ہوتی رہتی تھیں۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما راوی ہیں کہ ایک مرتبہ وحی نازل ہونے سے پہلے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقام ''بلدح''کی ترائی میں زید بن عمرو بن نفیل سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سامنے دسترخوان پر کھانا پیش کیا ۔جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے کھانے سے انکار کر دیا، تو زید بن عمرو بن نفیل کہنے لگے کہ میں بتوں کے نام پر ذبح کئے ہوئے جانوروں کا گوشت نہیں کھاتا۔ میں صرف وہی ذبیحہ کھاتا ہوں جو اللہ تعالیٰ کے نام پر ذبح کیا گیاہو۔ پھر قریش کے ذبیحوں کی برائی بیان کرنے لگے اور قریش کو مخاطب کرکے کہنے لگے کہ بکری کو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے آسمان سے پانی برسایا اور زمین سے گھاس اگائی۔ پھر اے قریش! تم بکری کو"
1۔۔۔۔۔۔السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، زید بن عمروبن نفیل،ص۹۳وصحیح البخاری،کتاب مناقب الانصار، باب حدیث زید بن عمروبن نفیل، الحدیث:۳۸۲۷،ج۲،ص۵۶۷
"اللہ کے غیر (بتوں) کے نام پر ذبح کرتے ہو؟(1)
حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتی ہیں کہ میں نے زید بن عمرو بن نفیل کو دیکھا کہ وہ خانہ کعبہ سے ٹیک لگائے ہوئے کہتے تھے کہ اے جماعت قریش! خدا کی قسم! میرے سوا تم میں سے کوئی بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین پر نہیں ہے۔(2) (بخاری ج۱ باب حدیث زید بن عمرو بن نفیل ص۵۴۰)"
"حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا اصل خاندانی پیشہ تجارت تھا اور چونکہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بچپن ہی میں ابو طالب کے ساتھ کئی بار تجارتی سفر فرما چکے تھے۔ جس سے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو تجارتی لین دین کا کافی تجربہ بھی حاصل ہو چکا تھا۔ اس لئے ذریعہ معاش کے لئے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے تجارت کا پیشہ اختیار فرمایا۔ اور تجارت کی غرض سے شام و بُصریٰ اور یمن کا سفر فرمایا۔اورایسی راست بازی اورامانت ودیانت کے ساتھ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے تجارتی کاروبار کیا کہ آپ کے شرکاء کار اور تمام اہل بازار آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو ''امین'' کے لقب سے پکارنے لگے۔
ایک کامیاب تاجر کے لئے امانت، سچائی، وعدہ کی پابندی، خوش اخلاقی تجارت کی جان ہیں۔ ان خصوصیات میں مکہ کے تاجر امین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جو تاریخی شاہکار پیش کیا ہے اس کی مثال تاریخ عالم میں نادرروزگار ہے۔
حضرت عبداللہ بن ابی الحمساء صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ نزول وحی اور"
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری ، کتاب مناقب الانصار ، باب حدیث زید بن عمرو بن نفیل، الحدیث:۳۸۲۶،ج۲، ص۵۶۷
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری ، کتاب مناقب الانصار ، باب حدیث زید بن عمرو بن نفیل، الحدیث:۳۸۲۸،ج۲، ص ۵۶۸"
"اعلانِ نبوت سے پہلے میں نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے کچھ خریدوفروخت کا معاملہ کیا۔ کچھ رقم میں نے ادا کر دی، کچھ باقی رہ گئی تھی۔ میں نے وعدہ کیا کہ میں ابھی ابھی آکر باقی رقم بھی ادا کر دوں گا۔ اتفاق سے تین دن تک مجھے اپنا وعدہ یاد نہیں آیا۔ تیسرے دن جب میں اس جگہ پہنچا جہاں میں نے آنے کا وعدہ کیا تھا تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اسی جگہ منتظر پایا۔ مگر میری اس وعدہ خلافی سے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ماتھے پر اک ذرا بل نہیں آیا۔ بس صرف اتنا ہی فرمایا کہ تم کہاں تھے؟ میں اس مقام پر تین دن سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔ (1) (سنن ابو داؤد ج۲ ص۳۳۴ باب فی العدۃ ۔مجتبائی)
اسی طرح ایک صحابی حضرت سائب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب مسلمان ہوکربارگاہِ رسالت میں حاضرہوئے تو لوگ ان کی تعریف کرنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں انہیں تمہاری نسبت زیادہ جانتا ہوں۔حضرت سائب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں میں عرض گزار ہوا میرے ماں باپ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر فداہوں آپ نے سچ فرمایا، اعلان نبوت سے پہلے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میرے شریک تجارت تھے اور کیا ہی اچھے شریک تھے،آپ نے کبھی لڑائی جھگڑا نہیں کیا تھا۔ (2)
(سنن ابوداؤدج۲ص۳۱۷باب کراہیۃالمرا ۔مجتبائی )"
حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا زمانہ طفولیت ختم ہوا اور جوانی کا زمانہ آیا تو بچپن کی طرح آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی جوانی بھی عام لوگوں سے نرالی تھی۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا شباب مجسم حیاء اور چال چلن عصمت و وقار کا کامل نمونہ تھا۔ اعلانِ نبوت
"1۔۔۔۔۔۔سنن ابی داود،کتاب الادب، با ب فی العدۃ ، الحدیث:۴۹۹۶،ج۴،ص۳۸۸
2۔۔۔۔۔۔سنن ابی داود،کتاب الادب،باب فی کراہیۃ المرائ،الحدیث۴۸۳۶،ج۴،ص۳۴۲"
"سے قبل حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تمام زندگی بہترین اخلاق و عادات کا خزانہ تھی۔ سچائی، دیانتداری، وفاداری، عہد کی پابندی، بزرگوں کی عظمت، چھوٹوں پر شفقت، رشتہ داروں سے محبت، رحم و سخاوت ،قوم کی خدمت، دوستوں سے ہمدردی،عزیزوں کی غمخواری، غریبوں اور مفلسوں کی خبرگیری، دشمنوں کے ساتھ نیک برتاؤ، مخلوق خدا کی خیرخواہی، غرض تمام نیک خصلتوں اور اچھی اچھی باتوں میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اتنی بلند منزل پر پہنچے ہوئے تھے کہ دنیا کے بڑے سے بڑے انسانوں کیلئے وہاں تک رسائی تو کیا؟ اس کا تصور بھی ممکن نہیں ہے۔
کم بولنا، فضول باتوں سے نفرت کرنا، خندہ پیشانی اور خوش روئی کے ساتھ دوستوں اوردشمنوں سے ملنا۔ ہر معاملہ میں سادگی اور صفائی کے ساتھ بات کرنا حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا خاص شیوہ تھا۔
حرص، طمع، دغا، فریب، جھوٹ، شراب خوری، بدکاری، ناچ گانا، لوٹ مار، چوری، فحش گوئی، عشق بازی، یہ تمام بری عادتیں اور مذموم خصلتیں جو زمانہ جاہلیت میں گویا ہر بچے کے خمیر میں ہوتی تھیں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ذات گرامی ان تمام عیوب و نقائص سے پاک صاف رہی۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی راست بازی اور امانت و دیانت کا پورے عرب میں شہرہ تھا اور مکہ کے ہر چھوٹے بڑے کے دلوں میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے برگزیدہ اخلاق کااعتبار، اور سب کی نظروں میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ایک خاص وقار تھا۔
بچپن سے تقریباً چالیس برس کی عمر شریف ہو گئی۔ لیکن زمانہ جاہلیت کے ماحول میں رہنے کے باوجود تمام مشرکانہ رسوم، اور جاہلانہ اطوار سے ہمیشہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا دامن عصمت پاک ہی رہا۔ مکہ شرک و بت پرستی کا سب سے بڑا مرکز تھا۔"
"خود خانہ کعبہ میں تین سو ساٹھ بتوں کی پوجا ہوتی تھی۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے خاندان والے ہی کعبہ کے متولی اور سجادہ نشین تھے۔ لیکن اس کے باوجود آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے کبھی بھی بتوں کے آگے سر نہیں جھکایا۔
غرض نزول وحی اور اعلانِ نبوت سے پہلے بھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس زندگی اخلاق حسنہ اور محاسن افعال کا مجسمہ اور تمام عیوب و نقائص سے پاک و صاف رہی ۔ چنانچہ اعلانِ نبوت کے بعد آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دشمنوں نے انتہائی کوشش کی کہ کوئی ادنیٰ سا عیب، یا ذرا سی خلاف تہذیب کوئی بات آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زندگی کے کسی دور میں بھی مل جائے تو اس کو اچھال کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے وقار پر حملہ کرکے لوگوں کی نگاہوں میں آپ کو ذلیل و خوار کر دیں۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ ہزاروں دشمن سوچتے سوچتے تھک گئے لیکن کوئی ایک واقعہ بھی ایسا نہیں مل سکا جس سے وہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر انگشت نمائی کر سکیں۔ لہٰذا ہر انسان اس حقیقت کے اعتراف پر مجبور ہے کہ بلا شبہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا کردار انسانیت کا ایک ایسا محیرالعقول اور غیر معمولی کردار ہے جو نبی علیہ الصلوۃ والسلام کے سوا کسی دوسرے کے لئے ممکن ہی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اعلانِ نبوت کے بعد سعید روحیں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھ کر تن من دھن کے ساتھ اس طرح آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر قربان ہونے لگیں کہ ان کی جاں نثاریوں کو دیکھ کر شمع کے پروانوں نے جاں نثاری کا سبق سیکھا۔ اور حقیقت شناس لوگ فرط عقیدت سے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حسن صداقت پر اپنی عقلوں کو قربان کرکے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے اسلامی راستہ پر عاشقانہ اداؤں کے ساتھ زبان حال سے یہ کہتے ہوئے چل پڑے کہ ؎"
"چلو وادی عشق میں پا برہنہ! یہ جنگل وہ ہے جس میں کانٹا نہیں ہے"
جب حضورِانور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس زندگی کا چالیسواں سال شروع ہوا تو ناگہاں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ذات اقدس میں ایک نیا انقلاب رونما ہو گیاکہ ایک دم آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم خلوت پسند ہو گئے اور اکیلے تنہائی میں بیٹھ کر خدا کی عبادت کرنے کا ذوق و شوق پیدا ہو گیا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اکثر اوقات غور و فکر میں پائے جاتے تھے اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا بیشتر وقت مناظر قدرت کے مشاہدہ اور کائنات فطرت کے مطالعہ میں صرف ہوتا تھا۔ دن رات خالقِ کائنات کی ذات و صفات کے تصور میں مستغرق اور اپنی قوم کے بگڑے ہوئے حالات کے سدھاراور اس کی تدبیروں کے سوچ بچارمیں مصروف رہنے لگے اور ان دنوں میں ایک نئی بات یہ بھی ہو گئی کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اچھے اچھے خواب نظر آنے لگے اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ہر خواب اتنا سچا ہوتا کہ خواب میں جو کچھ دیکھتے اس کی تعبیر صبح صادق کی طرح روشن ہو کر ظاہر ہو جایا کرتی تھی۔ (1)(بخاری ج1 ص2)
مکہ مکرمہ سے تقریباً تین میل کی دوری پر ''جبل حراء'' نامی پہاڑ کے اُوپر ایک غار(کھوہ)ہے جس کو ''غار حراء'' کہتے ہیں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اکثر کئی کئی دنوں کا کھانا پانی ساتھ لے کر اس غار کے پرسکون ماحول کے اندر خدا کی عبادت میں مصروف رہا کرتے تھے۔ جب کھانا پانی ختم ہو جاتا تو کبھی خود گھر پر آکر لے جاتے
1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب بدء الوحی ، باب ۳،الحدیث:۳،ج۱،ص۷مختصراً
اور کبھی حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کھانا پانی غار میں پہنچا دیا کرتی تھیں۔ آج بھی یہ نورانی غار اپنی اصلی حالت میں موجوداور زیارت گاہ خلائق ہے۔(1)
ایک دن آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ''غار حراء'' کے اندر عبادت میں مشغول تھے کہ بالکل اچانک غار میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس ایک فرشتہ ظاہر ہوا۔(یہ حضرت جبریل علیہ السلام تھے جو ہمیشہ خدا عزوجل کا پیغام اس کے رسولوں علیہم الصلاۃوالسلام تک پہنچاتے رہے ہیں) فرشتے نے ایک دم کہا کہ ''پڑھئیے'' آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ''پڑھنے والا نہیں ہوں۔'' فرشتہ نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو پکڑا اور نہایت گرم جوشی کے ساتھ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے زور دار معانقہ کیا پھر چھوڑ کر کہا کہ '' پڑھئیے'' آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ''میں پڑھنے والا نہیں ہوں۔'' فرشتہ نے دوسری مرتبہ پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنے سینے سے چمٹایا اور چھوڑ کر کہا کہ ''پڑھئیے'' آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے پھر وہی فرمایا کہ ''میں پڑھنے والا نہیں ہوں۔'' تیسری مرتبہ پھر فرشتہ نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو بہت زور کے ساتھ اپنے سینے سے لگا کر چھوڑا اور کہا کہ
اِقْرَاۡ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیۡ خَلَقَ ۚ﴿۱﴾خَلَقَ الْاِنۡسَانَ مِنْ عَلَقٍ ۚ﴿۲﴾اِقْرَاۡ وَ رَبُّکَ الْاَکْرَمُ ۙ﴿۳﴾الَّذِیۡ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ۙ﴿۴﴾عَلَّمَ الْاِنۡسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ ؕ﴿۵﴾ (2)
یہی سب سے پہلی وحی تھی جو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر نازل ہوئی۔ ان آیتوں کو یاد کرکے حضور اقدس
"1۔۔۔۔۔۔ارشاد الساری لشرح صحیح البخاری،کتاب کیف کان بدء الوحی...الخ ، باب ۳،
تحت الحدیث:۳، ج۱،ص۱۰۵۔۱۰۷ملتقطاًوملخصاً
2۔۔۔۔۔۔ترجمہ کنزالایمان:پڑھواپنے رب کے نام سے جس نے پیداکیا آدمی کو خون کی پھٹک سے بنایا پڑھو اور تمہارارب ہی سب سے بڑاکریم جس نے قلم سے لکھناسکھایا آدمی کوسکھایاجونہ جانتاتھا۔(پ۳۰،العلق:۱۔۵)"
"صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے گھر تشریف لائے۔ مگراس واقعہ سے جو بالکل ناگہانی طور پر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کوپیش آیا اس سے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے قلب مبارک پر لرزہ طاری تھا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے گھر والوں سے فرمایا کہ مجھے کملی اڑھاؤ۔ مجھے کملی اڑھاؤ۔ جب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا خوف دور ہوا اور کچھ سکون ہوا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے غار میں پیش آنے والا واقعہ بیان کیااور فرمایا کہ ''مجھے اپنی جان کا ڈر ہے۔'' یہ سن کر حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا کہ نہیں،ہر گز نہیں۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی جان کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ خدا کی قسم! اللہ تعالیٰ کبھی بھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو رسوا نہیں کریگا۔آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تورشتہ داروں کے ساتھ بہترین سلوک کرتے ہیں۔ دوسروں کا بار خوداٹھاتے ہیں۔ خود کما کما کر مفلسوں اور محتاجوں کو عطا فرماتے ہیں۔مسافروں کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق و انصاف کی خاطر سب کی مصیبتوں اور مشکلات میں کام آتے ہیں۔
اس کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنے چچا زاد بھائی ''ورقہ بن نوفل'' کے پاس لے گئیں۔ ورقہ ان لوگوں میں سے تھے جو ''موحد'' تھے اور اہل مکہ کے شرک و بت پرستی سے بیزار ہو کر ''نصرانی'' ہو گئے تھے اور انجیل کا عبرانی زبان سے عربی میں ترجمہ کیا کرتے تھے۔ بہت بوڑھے اور نابینا ہو چکے تھے۔ حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان سے کہا کہ بھائی جان! آپ اپنے بھتیجے کی بات سنیے۔ ورقہ بن نوفل نے کہا کہ بتایئے ۔آپ نے کیا دیکھا ہے؟ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے غار حراء کا پورا واقعہ بیان فرمایا ۔یہ سن کر ورقہ بن نوفل نے کہا کہ یہ تو وہی فرشتہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس بھیجا تھا۔ پھر ورقہ"
"بن نوفل کہنے لگے کہ کاش! میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اعلانِ نبوت کے زمانے میں تندرست جوان ہوتا۔ کاش !میں اس وقت تک زندہ رہتا جب آپ کی قوم آپ کو مکہ سے باہر نکالے گی۔ یہ سن کر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے (تعجب سے)فرمایا کہ کیا مکہ والے مجھے مکہ سے نکال دیں گے تو ورقہ نے کہاجی ہاں!جو شخص بھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی طرح نبوت لے کر آیا لوگ اس کے ساتھ دشمنی پر کمربستہ ہو گئے۔
اس کے بعد کچھ دنوں تک وحی اترنے کا سلسلہ بند ہو گیا اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم وحی کے انتظار میں مضطرب اور بے قرار رہنے لگے۔ یہاں تک کہ ایک دن حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کہیں گھر سے باہر تشریف لے جا رہے تھے کہ کسی نے ''یا محمد'' صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کہہ کر پکارا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے آسمان کی طرف سر اٹھا کر دیکھاتو یہ نظر آیا کہ وہی فرشتہ (حضرت جبریل علیہ السلام)جو غار میں آیا تھا آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہوا ہے۔ یہ منظر دیکھ کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے قلب مبارک میں ایک خوف کی کیفیت پیدا ہو گئی اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مکان پر آکر لیٹ گئے اور گھر والوں سے فرمایا کہ مجھے کمبل اڑھاؤ۔ مجھے کمبل اڑھاؤ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کمبل اوڑھ کر لیٹے ہوئے تھے کہ ناگہاں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر سورہ ''مدثر'' کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں اور رب تعالیٰ کا فرمان اتر پڑا کہ"
یٰۤاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ ۙ﴿۱﴾قُمْ فَاَنۡذِرْ ﴿۲﴾۪ۙوَ رَبَّکَ فَکَبِّرْ ﴿۳﴾۪ۙوَ ثِیَابَکَ فَطَہِّرْ ﴿۴﴾۪ۙوَ الرُّجْزَ فَاہۡجُرْ ﴿۵﴾ (1)
یعنی اے بالاپوش اوڑھنے والے کھڑے ہو جاؤ پھر ڈرسناؤاوراپنے رب ہی کی بڑائی بولواوراپنے کپڑے پاک رکھواوربتوں سے دور رہو۔(بخاری ج1 ص3)
1۔۔۔۔۔۔پ۲۹،المدثر:۱۔۵وصحیح البخاری،کتاب بدء الوحی، باب ۳،الحدیث:۳،۴،ج۱،ص۷
ان آیات کے نزول کے بعد حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو خداوند قدوس نے دعوتِ اسلام کے منصب پر مامور فرما دیا اور آپ خداوند تعالیٰ کے حکم کے مطابق دعوت حق اور تبلیغ اسلام کے لئے کمر بستہ ہو گئے۔
تین برس تک حضورِ اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم انتہائی پوشیدہ طور پر نہایت رازداری کے ساتھ تبلیغ اسلام کا فرض ادا فرماتے رہے اور اس درمیان میں عورتوں میں سب سے پہلے حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہااور آزاد مردوں میں سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور لڑکوں میں سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور غلاموں میں سب سے پہلے زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایمان لائے۔ پھر ـحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دعوت و تبلیغ سے حضرت عثمان، حضرت زبیر بن العوام، حضرت عبدالرحمن بن عوف،حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم بھی جلد ہی دامن اسلام میں آ گئے۔ پھر چند دنوں کے بعد حضرت ابو عبیدہ بن الجراح، حضرت ابو سلمہ عبداللہ بن عبدالاسد، حضرت ارقم بن ابوارقم، حضرت عثمان بن مظعون اور ان کے دونوں بھائی حضرت قدامہ اور حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم بھی اسلام میں داخل ہو گئے۔ پھر کچھ مدت کے بعد حضرت ابو ذر غفاری و حضرت صہیب رومی، حضرت عبیدہ بن الحارث بن عبدالمطلب، سعید بن زید بن عمرو بن نفیل اور ان کی بیوی فاطمہ بنت الخطاب حضرت عمر کی بہن رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے بھی اسلام قبول کر لیا۔ اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی چچی حضرت ام الفضل حضرت عباس بن عبدالمطلب کی
" بیوی اور حضرت اسماء بنت ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہم بھی مسلمان ہو گئیں ۔ان کے علاوہ دوسرے بہت سے مردوں اور عورتوں نے بھی اسلام لانے کا شرف حاصل کر لیا۔ (1) (زرقانی علی المواہب ج1 ص246)
واضح رہے کہ سب سے پہلے اسلام لانے والے جو''سابقین اولین ''کے لقب سے سرفراز ہیں ان خوش نصیبوں کی فہرست پر نظر ڈالنے سے پتا چلتا ہے کہ سب سے پہلے دامن اسلام میں آنے والے وہی لوگ ہیں جو فطرۃً نیک طبع اور پہلے ہی سے دین حق کی تلاش میں سرگرداں تھے اور کفار مکہ کے شرک و بت پرستی اور مشرکانہ رسوم جاہلیت سے متنفر اور بیزار تھے۔ چنانچہ نبی برحق کے دامن میں دین حق کی تجلی دیکھتے ہی یہ نیک بخت لوگ پروانوں کی طرح شمع نبوت پر نثار ہونے لگے اور مشرف بہ اسلام ہوگئے۔"
تین برس کی اس خفیہ دعوت اسلام میں مسلمانوں کی ایک جماعت تیار ہوگئی اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر سورۂ ''شعراء'' کی آیت
وَ اَنۡذِرْ عَشِیۡرَتَکَ الْاَقْرَبِیۡنَ ﴿۲۱۴﴾ (2)
نازل فرمائی اور خداوند تعالیٰ کا حکم ہوا کہ اے محبوب! آپ اپنے قریبی خاندان والوں کو خدا سے ڈرائیے تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک دن کوہ صفا کی چوٹی پر چڑھ کر ''یامعشر قریش'' کہہ کر قبیلہ قریش کو پکارا۔جب سب قریش جمع ہو گئے تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے میری قوم! اگر میں تم لوگوں سے یہ کہہ دوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک لشکر چھپا ہوا ہے جو تم پر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم لوگ
"1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ،دقائق حقائق بعثتہٖ،ج۱،ص۱۱۵،۱۱۶وشرح الزرقانی علی المواھب،
ذکر اول من آمن باللہ ورسولہ،ج۱،ص۴۵۵،۴۶۰ملتقطاًوملخصاً
2۔۔۔۔۔۔ترجمہ کنزالایمان:اوراے محبوب اپنے قریب تررشتہ داروں کوڈراؤ۔(پ۱۹، الشعرآء:۲۱۴)"
میری بات کا یقین کر لو گے؟ تو سب نے ایک زبان ہو کر کہا کہ ہاں! ہاں! ہم یقینا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بات کا یقین کر لیں گے کیونکہ ہم نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو ہمیشہ سچا اور امین ہی پایا ہے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا تو پھر میں یہ کہتا ہوں کہ میں تم لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈرا رہا ہوں اور اگر تم لوگ ایمان نہ لاؤ گے تو تم پر عذاب الٰہی اتر پڑے گا۔ یہ سن کر تمام قریش جن میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا چچا ابو لہب بھی تھا، سخت ناراض ہو کر سب کے سب چلے گئے اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شان میں اول فول بکنے لگے۔ (1) (بخاری ج2 ص702 و عامہ تفاسیر)
اب وہ وقت آگیا کہ اعلان نبوت کے چوتھے سال سورئہ حجر کی آیت فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ(2) نازل فرمائی اور حضرت حق جل شانہ، نے یہ حکم فرمایا کہ اے محبوب! آپ کو جو حکم دیا گیا ہے اس کو علی الاعلان بیان فرمائیے۔ چنانچہ اس کے بعد آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم علانیہ طور پر دین اسلام کی تبلیغ فرمانے لگے۔ اور شرک و بت پرستی کی کھلم کھلا برائی بیان فرمانے لگے۔ اور تمام قریش بلکہ تمام اہل مکہ بلکہ پورا عرب آپ کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گیا۔ اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی ایذارسانیوں کا ایک طولانی سلسلہ شروع ہو گیا۔(3)
کفارِ مکہ خاندان بنو ہاشم کے انتقام اور لڑائی بھڑک اٹھنے کے خوف سے
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخا ری،کتاب التفسیر،باب ولاتخزنی...الخ،الحدیث:۴۷۷۰،ج۳،ص۲۹۴بتغیر
2۔۔۔۔۔۔ترجمہ کنزالایمان:توعلانیہ کہہ دوجس بات کاتمہیں حکم ہے۔(پ۱۴،النحل:۹۴)
3۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، الاجھار بدعوتہ ،ج۱،ص۴۶۱،۴۶۲"
"حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کوقتل تونہیں کرسکے لیکن طرح طرح کی تکلیفوں اور ایذا رسانیوں سے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر ظلم و ستم کا پہاڑ توڑنے لگے۔ چنانچہ سب سے پہلے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کاہن، ساحر، شاعر، مجنون ہونے کا ہرکوچہ و بازار میں زور دار پروپیگنڈہ کرنے لگے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پیچھے شریر لڑکوں کا غول لگا دیاجو راستوں میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر پھبتیاں کستے، گالیاں دیتے اور یہ دیوانہ ہے، یہ دیوانہ ہے ،کا شور مچا مچا کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اوپر پتھر پھینکتے۔ کبھی کفار مکہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے راستوں میں کانٹے بچھاتے۔ کبھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے جسم مبارک پر نجاست ڈال دیتے۔ کبھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو دھکا دیتے۔ کبھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس اور نازک گردن میں چادر کا پھندہ ڈال کر گلا گھونٹنے کی کوشش کرتے۔
روایت ہے کہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم حرم کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک دم سنگدل کافر عقبہ بن ابی معیط نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے گلے میں چادر کا پھندہ ڈال کر اس زور سے کھینچا کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا دم گھٹنے لگا۔ چنانچہ یہ منظر دیکھ کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بے قرار ہو کر دوڑ پڑے اور عقبہ بن ابی معیط کو دھکا دے کر دفع کیا اور یہ کہا کہ کیا تم لوگ ایسے آدمی کو قتل کرتے ہو جو یہ کہتا ہے کہ ''میرا رب اللہ ہے۔'' اس دھکم دھکا میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کفار کو مارا بھی اور کفار کی مار بھی کھائی۔(1) (زرقانی ج1 ص252و بخاری ج1 ص544)
کفار آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے معجزات اور روحانی تاثیرات و تصرفات کو دیکھ کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو سب سے بڑا جادو گر کہتے۔ جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم"
1۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب،الاجھاربدعوتہٖ ام اذیتہ،ج۱،ص۴۶۸وصحیح البخاری، کتاب مناقب الانصا ر،باب مالقی النبی واصحابہ...الخ،الحدیث:۳۸۵۶،ج۲،ص۵۷۵
"قرآن شریف کی تلاوت فرماتے تو یہ کفار قرآن اور قرآن کو لانے والے(جبریل) اور قرآن کو نازل فرمانے والے(اللہ تعالیٰ) کو اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو گالیاں دیتے۔ اور گلی کوچوں میں پہرہ بٹھا دیتے کہ قرآن کی آواز کسی کے کان میں نہ پڑنے پائے اور تالیاں پیٹ پیٹ کر اور سیٹیاں بجا بجا کر اس قدر شوروغل مچاتے کہ قرآن کی آواز کسی کو سنائی نہیں دیتی تھی۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جب کہیں کسی عام مجمع میں یا کفار کے میلوں میں قرآن پڑھ کر سناتے یا دعوت ایمان کا وعظ فرماتے تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا چچاابولہب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پیچھے چلا چلا کر کہتا جاتا تھا کہ اے لوگو! یہ میرا بھتیجا جھوٹا ہے،یہ دیوانہ ہو گیا ہے،تم لوگ اس کی کوئی بات نہ سنو۔(معاذاللہ)
ایک مرتبہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ''ذوالمجاز'' کے بازار میں دعوت اسلام کا وعظ فرمانے کے لئے تشریف لے گئے اور لوگوں کو کلمۂ حق کی دعوت دی تو ابو جہل آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر دھول اڑاتا جاتا تھا اور کہتا تھا کہ اے لوگو! اس کے فریب میں مت آنا،یہ چاہتا ہے کہ تم لوگ لات و عزیٰ کی عبادت چھوڑ دو۔(1) (مسند امام احمد ج4 وغیرہ)
اسی طرح ایک مرتبہ جب کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم حرم کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے عین حالتِ نماز میں ابو جہل نے کہا کہ کوئی ہے؟ جو آل فلاں کے ذبح کیے ہوئے اونٹ کی اوجھڑی لا کر سجدہ کی حالت میں ان کے کندھوں پر رکھ دے۔ یہ سن کر عقبہ بن ابی معیط کافر اٹھااور اس اوجھڑی کو لا کر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دوش مبارک پر رکھ دیا۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سجدہ میں تھے دیر تک اوجھڑی کندھے اور گردن پر پڑی"
1۔۔۔۔۔۔المسند للامام احمد بن حنبل، احادیث رجال من اصحاب النبی ، الحدیث:۲۳۲۵۲، ج۹،ص۶۲
رہی اور کفار ٹھٹھا مار مار کر ہنستے رہے اور مارے ہنسی کے ایک دوسرے پر گر گر پڑتے رہے آخر حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو ان دنوں ابھی کمسن لڑکی تھی آئیں اور ان کافروں کو برا بھلا کہتے ہوئے اس اوجھڑی کو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دوش مبارک سے ہٹا دیا ۔حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے قلب مبارک پر قریش کی اس شرارت سے انتہائی صدمہ گزرا اور نماز سے فارغ ہو کر تین مرتبہ یہ دعا مانگی کہ '' اَللّٰھُمَّ عَلَیْکَ بِقُرَیْشٍ '' یعنی اے اللہ! تو قریش کو اپنی گرفت میں پکڑ لے، پھر ابو جہل،عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف، عمارہ بن ولید کا نام لے کر دعا مانگی کہ الٰہی! تو ان لوگوں کو اپنی گرفت میں لے لے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم! میں نے ان سب کافروں کو جنگ بدر کے دن دیکھا کہ ان کی لاشیں زمین پر پڑی ہوئی ہیں۔ پھر ان سب کفار کی لاشوں کو نہایت ذلت کے ساتھ گھسیٹ کر بدر کے ایک گڑھے میں ڈال دیا گیااور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان گڑھے والوں پر خدا کی لعنت ہے۔(1)(بخاری ج1 ص74 باب المرأۃ تطرح الخ)
جو کفار مکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی دشمنی اور ایذارسانی میں بہت زیادہ سرگرم تھے۔ ان میں سے چند شریروں کے نام یہ ہیں۔(۱)ابو لہب(۲)ابو جہل(۳)اسود بن عبد یغوث(۴)حارث بن قیس بن عدی (۵)ولید بن مغیرہ(۶)امیہ بن خلف(۷) ابی بن خلف(۸)ابو قیس بن فاکہہ
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب الصلٰوۃ،باب المرأۃتطرح عن المصلی...الخ،الحدیث:
۵۲۰،ج۱،ص۱۹۳"
(۹) عاص بن وائل(۱۰) نضربن حارث(۱۱)منبہ بن الحجاج(۱۲) زہیر بن ابی امیہ(۱۳)سائب بن صیفی(۱۴)عدی بن حمرا (۱۵)اسود بن عبدالاسد (۱۶) عاص بن سعید بن العاص(۱۷)عاص بن ہاشم(۱۸)عقبہ بن ابی معیط (۱۹)حکم بن ابی العاص۔ یہ سب کے سب حضور رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پڑوسی تھے اور ان میں سے اکثر بہت ہی مالدار اور صاحب اقتدار تھے اور دن رات سرور کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ایذارسانی میں مصروف کار رہتے تھے۔ (نعوذباللہ من ذالک)
حضور رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ غریب مسلمانوں پر بھی کفار مکہ نے ایسے ایسے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے کہ مکہ کی زمین بلبلا اُٹھی۔ یہ آسان تھا کہ کفار مکہ ان مسلمانوں کو دم زدن میں قتل کر ڈالتے مگر اس سے ان کافروں کے جوش انتقام کا نشہ نہیں اتر سکتا تھا کیونکہ کفار اس بات میں اپنی شان سمجھتے تھے کہ ان مسلمانوں کو اتنا ستاؤ کہ وہ اسلام کو چھوڑ کر پھر شرک و بت پرستی کرنے لگیں۔ اس لئے قتل کر دینے کی بجائے کفار مکہ مسلمانوں کو طرح طرح کی سزاؤں اور ایذا رسانیوں کے ساتھ ستاتے تھے۔ مگر خدا کی قسم! شراب توحید کے ان مستوں نے اپنے استقلال و استقامت کا وہ منظر پیش کر دیا کہ پہاڑوں کی چوٹیاں سر اٹھا اٹھا کر حیرت کے ساتھ ان بلاکشانِ اسلام کے جذبۂ استقامت کا نظارہ کرتی رہیں۔ سنگدل،بے رحم اور درندہ صفت کافروں نے ان غریب و بیکس مسلمانوں پر جبرو اکراہ اور ظلم و ستم کا کوئی دقیقہ باقی نہیں چھوڑا مگر ایک مسلمان کے پائے استقامت میں بھی ذرہ برابر تزلزل نہیں پیدا ہوااور ایک مسلمان کا بچہ بھی اسلام سے منہ پھیر کر کافر و مرتد نہیں ہوا۔
"کفار مکہ نے ان غرباء مسلمین پر جو روجفاکاری کے بے پناہ اندوہناک مظالم ڈھائے اور ایسے ایسے روح فرساء اور جاں سوز عذابوں میں مبتلا کیا کہ اگر ان مسلمانوں کی جگہ پہاڑ بھی ہوتا تو شاید ڈگمگانے لگتا۔ صحرائے عرب کی تیز دھوپ میں جب کہ وہاں کی ریت کے ذرات تنور کی طرح گرم ہو جاتے۔ ان مسلمانوں کی پشت کو کوڑوں کی مار سے زخمی کرکے اس جلتی ہوئی ریت پر پیٹھ کے بل لٹاتے اور سینوں پر اتنا بھاری پتھر رکھ دیتے کہ وہ کروٹ نہ بدلنے پائیں لوہے کو آگ میں گرم کرکے ان سے ان مسلمانوں کے جسموں کو داغتے، پانی میں اس قدرڈبکیاں دیتے کہ ان کا دم گھٹنے لگتا ۔چٹائیوں میں ان مسلمانوں کو لپیٹ کر ان کی ناکوں میں دھواں دیتے جس سے سانس لینا مشکل ہو جاتا اور وہ کرب و بے چینی سے بدحواس ہو جاتے۔
حضرت خباب بن الارت رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ اس زمانے میں اسلام لائے جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت ارقم بن ابوارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر میں مقیم تھے اور صرف چند ہی آدمی مسلمان ہوئے تھے۔ قریش نے ان کو بے حد ستایا۔ یہاں تک کہ کوئلے کے انگاروں پر ان کو چت لٹایا اور ایک شخص ان کے سینے پر پاؤں رکھ کر کھڑا رہا۔ یہاں تک کہ ان کی پیٹھ کی چربی اور رطوبت سے کوئلے بجھ گئے ۔برسوں کے بعد جب حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ واقعہ حضرت امیر المومنین عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے بیان کیا تو اپنی پیٹھ کھول کر دکھائی ۔پوری پیٹھ پر سفید سفید داغ دھبے پڑے ہوئے تھے ۔ اس عبرت ناک منظر کو دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دل بھر آیا اور وہ رو پڑے۔(1)(طبقات ابن سعد ج 3 تذکرہ خباب)"
1۔۔۔۔۔۔الطبقات الکبری لابن سعد ، خباب بن الارت رضی اللہ تعالٰی عنہ ، ج۳،ص۱۲۲،۱۲۳
"حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوجو امیہ بن خلف کافر کے غلام تھے۔ان کی گردن میں رسی باندھ کر کوچہ و بازار میں ان کو گھسیٹا جاتا تھا۔ ان کی پیٹھ پر لاٹھیاں برسائی جاتی تھیں اور ٹھیک دوپہر کے وقت تیز دھوپ میں گرم گرم ریت پر ان کو لٹا کر اتنا بھاری پتھر ان کی چھاتی پر رکھ دیا جاتا تھا کہ ان کی زبان باہر نکل آتی تھی۔ امیہ کافر کہتا تھا کہ اسلام سے باز آ جاؤ ورنہ اسی طرح گھٹ گھٹ کر مر جاؤ گے۔ مگر اس حال میں بھی حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیشانی پر بل نہیں آتا تھا بلکہ زور زور سے '' اَحَد، اَحَد '' کا نعرہ لگاتے تھے اور بلند آواز سے کہتے تھے کہ خدا ایک ہے۔ خدا ایک ہے۔ (1)
(سیرت ابن ہشام ج1 ص317 تاص318)
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو گرم گرم بالو پر چت لٹا کر کفار قریش اس قدر مارتے تھے کہ یہ بے ہوش ہو جاتے تھے۔ ان کی والدہ حضرت بی بی سُمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اسلام لانے کی بنا پر ابو جہل نے ان کی ناف کے نیچے ایسا نیزہ مارا کہ یہ شہید ہوگئیں۔ حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد حضرت یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی کفار کی مار کھاتے کھاتے شہید ہو گئے۔ حضرت صہیب رومی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کفار مکہ اس قدر طرح طرح کی اذیت دیتے اور ایسی ایسی مار دھاڑ کرتے کہ یہ گھنٹوں بے ہوش رہتے۔ جب یہ ہجرت کرنے لگے تو کفار مکہ نے کہا کہ تم اپنا سارا مال و سامان یہاں چھوڑ کر مدینہ جا سکتے ہو۔ آپ خوشی خوشی دنیا کی دولت پر لات مار کر اپنی متاع ایمان کو ساتھ لے کر مدینہ چلے گئے۔(2)"
"1۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب، اسلام حمزۃ،ج۱،ص۴۹۸
2۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواہب ، اسلام حمزۃ،ج۱،ص۹۶۔۴۹۷۴مختصراً"
"حضرت ابوفکیہہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ صفوان بن امیہ کافر کے غلام تھے اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ہی مسلمان ہوئے تھے ۔جب صفوان کو ان کے اسلام کا پتا چلا تو اس نے ان کے گلے میں رسی کا پھندہ ڈال کر ان کو گھسیٹا اور گرم جلتی ہوئی زمین پر ان کو چت لٹا کر سینے پر وزنی پتھر رکھ دیا جب ان کو کفار گھسیٹ کر لے جا رہے تھے راستہ میں اتفاق سے ایک گبریلا نظر پڑا۔ امیہ کافر نے طعنہ مارتے ہوئے کہا کہ ''دیکھ تیرا خدا یہی تو نہیں ہے۔'' حضرت ابو فکیہہ نے فرمایا کہ'' اے کافر کے بچے! خاموش میرا اور تیرا خدا اللہ ہے۔'' یہ سن کر امیہ کافر غضب ناک ہو گیا اور اس زور سے ان کا گلا گھونٹا کہ وہ بے ہوش ہو گئے اور لوگوں نے سمجھا کہ ان کا دم نکل گیا۔
اسی طرح حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی اس قدر مارا جاتا تھا کہ ان کے جسم کی بوٹی بوٹی درد مند ہو جاتی تھی۔(1)
حضرت بی بی لبینہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو لونڈی تھیں ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب کفر کی حالت میں تھے اس غریب لونڈی کو اس قدر مارتے تھے کہ مارتے مارتے تھک جاتے تھے مگر حضرت لبینہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اُف نہیں کرتی تھیں بلکہ نہایت جرأت و استقلال کے ساتھ کہتی تھیں کہ اے عمر! اگر تم خدا کے سچے رسول پر ایمان نہیں لاؤ گے تو خدا تم سے ضرور اس کا انتقام لے گا۔(2)
حضرت زنیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھرانے کی باندی تھیں۔ یہ مسلمان ہوگئیں تو ان کو اس قدر کافروں نے مارا کہ ان کی آنکھیں جاتی"
"1۔۔۔۔۔۔السیرۃ الحلبیۃ، باب استخفائہ واصحابہ...الخ،ج۱،ص۴۲۴مختصراً
2۔۔۔۔۔۔السیرۃ الحلبیۃ، باب استخفائہ واصحابہ...الخ،ج۱،ص۴۲۵"
"رہیں۔ مگر خداوند تعالیٰ نے حضورِاقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی دعا سے پھر ان کی آنکھوں میں روشنی عطا فرما دی تو مشرکین کہنے لگے کہ یہ محمد(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)کے جادو کا اثر ہے۔(1) (زرقانی علی المواہب ج1 ص270)
اسی طرح حضرت بی بی ''نہدیہ'' اور حضرت بی بی ام عبیس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بھی باندیاں تھیں۔ اسلام لانے کے بعد کفار مکہ نے ان دونوں کو طرح طرح کی تکلیفیں دے کر بے پناہ اذیتیں دیں مگر یہ اللہ والیاں صبر و شکر کے ساتھ ان بڑ ی بڑی مصیبتوں کو جھیلتی رہیں اور اسلام سے ان کے قدم نہیں ڈگمگائے۔(2)
حضرت یارغار مصطفی ابوبکر صدیق با صفا رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کس کس طرح اسلام پر اپنی دولت نثار کی اس کی ایک جھلک یہ ہے کہ آپ نے ان غریب و بے کس مسلمانوں میں سے اکثر کی جان بچائی۔ آپ نے حضرت بلال و عامر بن فہیرہ و ابو فکیہہ و لبینہ و زنیرہ و نہدیہ وام عنیس رضی اللہ تعالیٰ عنہم ان تمام غلاموں کو بڑی بڑی رقمیں دے کر خریدااور سب کو آزاد کر دیااور ان مظلوموں کو کافروں کی ایذاؤں سے بچا لیا۔(3)(زرقانی علی المواہب و سیرت ابن ہشام ج1 ص319)
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب دامن اسلام میں آئے تو مکہ میں ایک مسافر کی حیثیت سے کئی دن تک حرم کعبہ میں رہے ۔یہ روزانہ زور زور سے چلا چلا کر اپنے اسلام کا اعلان کرتے تھے اور روزانہ کفار قریش ان کو اس قدر مارتے تھے کہ"
"1۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب، اسلام حمزۃ ،ج۱،ص۵۰۲
2۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب، اسلام حمزۃ ،ج۱،ص۵۰۲
3۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب، اسلام حمزہ، ج۱،ص۵۰۲والسیرۃ الحلبیۃ، باب
استخفائہ واصحابہ ...الخ،ج۱،ص۴۲۵"
"یہ لہولہان ہو جاتے تھے اور ان دنوں میں آب زمزم کے سوا ان کو کچھ بھی کھانے پینے کو نہیں ملا۔(1) (بخاری ج1 ص544 باب اسلام ابی ذر)
واضح رہے کہ کفار مکہ کا یہ سلوک صرف غریبوں اور غلاموں ہی تک محدود نہیں تھابلکہ اسلام لانے کے جرم میں بڑے بڑے مالداروں اور رئیسوں کو بھی ان ظالموں نے نہیں بخشا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو شہر مکہ کے ایک متمول اور ممتاز معززین میں سے تھے مگر ان کو بھی حرم کعبہ میں کفار قریش نے اس قدر مارا کہ ان کا سر خون سے لت پت ہو گیا۔ اسی طرح حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو نہایت مالدار اور صاحب اقتدار تھے۔ جب یہ مسلمان ہوئے تو غیروں نے نہیں بلکہ خود ان کے چچا نے ان کو رسیوں میں جکڑ کر خوب خوب مارا۔ حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑے رعب اور دبدبہ کے آدمی تھے مگر انہوں نے جب اسلام قبول کیا تو ان کے چچا ان کو چٹائی میں لپیٹ کر ان کی ناک میں دھواں دیتے تھے جس سے ان کا دم گھٹنے لگتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چچا زاد بھائی اور بہنوئی حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کتنے جاہ و اعزاز والے رئیس تھے مگر جب ان کے اسلام کا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پتا چلا تو ان کو رسی میں باندھ کر مارا اور ساتھ ہی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی بہن حضرت بی بی فاطمہ بنت الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہاکو بھی اس زور سے تھپڑ مارا کہ ان کے کان کے آویزے گر پڑے اور چہرے پر خون بہہ نکلا۔(2)"
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری ، کتاب مناقب الانصار، باب اسلام ابی ذر رضی اللہ عنہ ،
الحدیث:۳۸۶۱،ج۲، ص۵۷۶
2۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب، اسلام عمرالفاروق رضی اللہ عنہ ، ج۲،ص۵"
ایک مرتبہ سرداران قریش حرم کعبہ میں بیٹھے ہوئے یہ سوچنے لگے کہ آخر اتنی تکالیف اور سختیاں برداشت کرنے کے باوجود محمد(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) اپنی تبلیغ کیوں بند نہیں کرتے؟ آخر ان کا مقصد کیا ہے؟ ممکن ہے یہ عزت و جاہ یا سرداری و دولت کے خواہاں ہوں۔ چنانچہ سبھوں نے عتبہ بن ربیعہ کو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس بھیجا کہ تم کسی طرح ان کا دلی مقصد معلوم کرو۔چنانچہ عتبہ تنہائی میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے ملا اور کہنے لگا کہ اے محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)آخر اس دعوت اسلام سے آپ کا مقصد کیا ہے؟ کیا آپ مکہ کی سرداری چاہتے ہیں؟ یا عزت و دولت کے خواہاں ہیں؟ یا کسی بڑے گھرانے میں شادی کے خواہش مند ہیں؟ آپ کے دل میں جو تمنا ہو کھلے دل کے ساتھ کہہ دیجیے۔ میں اس کی ضمانت لیتا ہوں کہ اگر آپ دعوت اسلام سے باز آجائیں تو پورا مکہ آپ کے زیر فرمان ہو جائے گا اور آپ کی ہر خواہش اور تمنا پوری کر دی جائے گی ۔عتبہ کی یہ ساحرانہ تقریر سن کر حضور رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جواب میں قرآن مجید کی چند آیتیں تلاوت فرمائیں۔ جن کو سن کر عتبہ اس قدر متاثر ہوا کہ اس کے جسم کا رونگٹا رونگٹا اور بدن کا بال بال خوف ذوالجلال سے لرزنے اور کانپنے لگا اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے منہ پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ میں آپ کو رشتہ داری کا واسطہ دے کر درخواست کرتا ہوں کہ بس کیجیے ۔میرا دل اس کلام کی عظمت سے پھٹا جا رہا ہے۔ عتبہ بارگاہ رسالت سے واپس ہوا مگر اس کے دل کی دنیا میں ایک نیا انقلاب رونما ہو چکا تھا۔ عتبہ ایک بڑا ہی ساحر البیان خطیب اور انتہائی فصیح و بلیغ آدمی تھا۔ اس نے واپس لوٹ کر سرداران قریش سے کہہ دیا کہ محمد(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) جو کلام پیش کرتے ہیں وہ نہ جادو ہے نہ کہانت نہ شاعری بلکہ وہ کوئی اور ہی چیز ہے۔ لہٰذا میری
"رائے ہے کہ تم لوگ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو۔ اگر وہ کامیاب ہو کر سارے عرب پر غالب ہوگئے تو اس میں ہم قریشیوں ہی کی عزت بڑھے گی، ورنہ سارا عرب ان کو خود ہی فنا کر دے گا مگر قریش کے سرکش کافروں نے عتبہ کا یہ مخلصانہ اور مدبرانہ مشورہ نہیں مانابلکہ اپنی مخالفت اور ایذا رسانیوں میں اور زیادہ اضافہ کر دیا۔(1)
(زرقانی علی المواہب ج1 ص258و سیرت ابن ہشام ج1 ص294)"
کفار قریش میں کچھ لوگ صلح پسند بھی تھے وہ چاہتے تھے کہ بات چیت کے ذریعہ صلح و صفائی کے ساتھ معاملہ طے ہو جائے۔ چنانچہ قریش کے چند معزز رؤسا ابوطالب کے پاس آئے اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی دعوتِ اسلام اور بت پرستی کے خلاف تقریروں کی شکایت کی۔ ابو طالب نے نہایت نرمی کے ساتھ ان لوگوں کو سمجھا بجھا کر رخصت کر دیا لیکن حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم خدا کے فرمان فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ(2) کی تعمیل کرتے ہوئے علی الاعلان شرک و بت پرستی کی مذمت اور دعوت توحید کا وعظ فرماتے ہی رہے۔ اس لئے قریش کا غصہ پھر بھڑک اٹھا۔ چنانچہ تمام سردارانِ قریش یعنی عتبہ و شیبہ و ابو سفیان و عاص بن ہشام و ابو جہل و ولید بن مغیرہ و عاص بن وائل وغیرہ وغیرہ سب ایک ساتھ مل کر ابو طالب کے پاس آئے اور یہ کہا کہ آپ کا بھتیجا ہمارے معبودوں کی توہین کرتا ہے اس لئے یا تو آپ درمیان میں سے ہٹ جائیں اور اپنے بھتیجا کو ہمارے سپرد کر دیں یا پھر آپ بھی کھل کر ان کے ساتھ میدان میں نکل پڑیں تا کہ ہم دونوں میں سے ایک کا
"1۔۔۔۔۔۔السیرۃ النبویۃ لابن ھشام ، قول عتبۃ بن ربیعۃ فی امر رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم،ص۱۱۴، ۱۱۵ملخصاً والمواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،اسلام حمزۃ،ج ۱،ص۴۷۹،۴۸۰
2۔۔۔۔۔۔ترجمہ کنزالایمان:توعلانیہ کہہ دوجس بات کاتمہیں حکم ہے۔ (پ۱۴،النحل:۹۴)"
فیصلہ ہو جائے۔ ابو طالب نے قریش کا تیور دیکھ کر سمجھ لیا کہ اب بہت ہی خطرناک اور نازک گھڑی سر پر آن پڑی ہے۔ ظاہر ہے کہ اب قریش برداشت نہیں کر سکتے اور میں اکیلا تمام قریش کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ابو طالب نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو انتہائی مخلصانہ اور مشفقانہ لہجے میں سمجھایا کہ میرے پیارے بھتیجے! اپنے بوڑھے چچا کی سفید داڑھی پر رحم کرواور بڑھاپے میں مجھ پر اتنا بوجھ مت ڈالو کہ میں اٹھا نہ سکوں ۔اب تک تو قریش کا بچہ بچہ میرا احترام کرتا تھا مگر آج قریش کے سرداروں کا لب و لہجہ اور ان کا تیور اس قدر بگڑا ہوا تھا کہ اب وہ مجھ پر اور تم پر تلوار اٹھانے سے بھی دریغ نہیں کریں گے ۔ لہٰذا میری رائے یہ ہے کہ تم کچھ دنوں کے لئے دعوت اسلام موقوف کردو۔ اب تک حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ظاہری معین، مددگار جو کچھ بھی تھے وہ صرف اکیلے ابو طالب ہی تھے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے دیکھا کہ اب ان کے قدم بھی اکھڑ رہے ہیں چچا کی گفتگو سن کر حضورِاقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بھرائی ہوئی مگر جذبات سے بھری ہوئی آواز میں فرمایا کہ چچا جان! خدا کی قسم! اگر قریش میرے ایک ہاتھ میں سورج اور دوسرے ہاتھ میں چاند لا کر دے دیں تب بھی میں اپنے اس فرض سے باز نہ آؤں گا۔ یا تو خدا اس کام کو پورا فرما دے گا یا میں خود دین اسلام پر نثار ہو جاؤں گا۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی یہ جذباتی تقریر سن کر ابو طالب کا دل پسیج گیا اور وہ اس قدر متاثر ہوئے کہ ان کی ہاشمی رگوں کے خون کا قطرہ قطرہ بھتیجے کی محبت میں گرم ہو کر کھولنے لگا اور انتہائی جوش میں آ کر کہہ دیا کہ جان عم! جاؤ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ جب تک میں زندہ ہوں کوئی تمہارا بال بیکا نہیں کر سکتا۔ (1) (سیرت ابن ہشام ج1 ص266 وغیرہ)
1۔۔۔۔۔۔السیرۃ النبویۃ لابن ھشام ،مباداۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم...الخ، ص۱۰۳، ۱۰۴ملخصاً
کفار مکہ نے جب اپنے ظلم و ستم سے مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا تو حضور رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ''حبشہ'' جا کر پناہ لینے کا حکم دیا۔
"حبشہ کے بادشاہ کا نام ''اصحمہ'' اور لقب ''نجاشی'' تھا۔ عیسائی دین کا پابند تھا مگر بہت ہی انصاف پسند اور رحم دل تھااور توراۃ و انجیل وغیرہ آسمانی کتابوں کا بہت ہی ماہر عالم تھا۔
اعلانِ نبوت کے پانچویں سال رجب کے مہینے میں گیارہ مرد اور چار عورتوں نے حبشہ کی جانب ہجرت کی۔ ان مہاجرین کرام کے مقدس نام حسب ذیل ہیں۔
(۱،۲) حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی بیوی حضرت بی بی رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ جو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی صاحبزادی ہیں۔(۳،۴)حضرت ابو حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی بیوی حضرت سہلہ بنت سہیل رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ۔(۵،۶)حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی اہلیہ حضرت امِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ۔(۷،۸)حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی زوجہ حضرت لیلیٰ بنت ابی حشمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ۔ (۹) حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔(۱۰)حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔(۱۱) حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔(۱۲)حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ (۱۳)حضرت ابو سبرہ بن ابی رہم یا حاطب بن عمرو"
"رضی اللہ تعالیٰ عنہما۔(۱۴) حضرت سہیل بن بیضاء رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔(۱۵)حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ (1)(زرقانی علی المواہب ج۱ ص۲۷۰)
کفار مکہ کو جب ان لوگوں کی ہجرت کا پتا چلا تو ان ظالموں نے ان لوگوں کی گرفتاری کے لئے ان کا تعاقب کیا لیکن یہ لوگ کشتی پر سوار ہو کر روانہ ہو چکے تھے۔ اس لئے کفار ناکام واپس لوٹے ۔یہ مہاجرین کا قافلہ حبشہ کی سرزمین میں اتر کر امن و امان کے ساتھ خدا کی عبادت میں مصروف ہو گیا۔ چند دنوں کے بعد ناگہاں یہ خبر پھیل گئی کہ کفار مکہ مسلمان ہو گئے۔ یہ خبر سن کر چند لوگ حبشہ سے مکہ لوٹ آئے مگر یہاں آکر پتا چلا کہ یہ خبر غلط تھی۔ چنانچہ بعض لوگ تو پھر حبشہ چلے گئے مگر کچھ لوگ مکہ میں روپوش ہو کر رہنے لگے لیکن کفار مکہ نے ان لوگوں کو ڈھونڈ نکالا اور ان لوگوں پر پہلے سے بھی زیادہ ظلم ڈھانے لگے تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے پھر لوگوں کو حبشہ چلے جانے کا حکم دیا۔ چنانچہ حبشہ سے واپس آنے والے اور ان کے ساتھ دوسرے مظلوم مسلمان کل تراسی (83) مرداور اٹھارہ عورتوں نے حبشہ کی جانب ہجرت کی۔(2)
(زرقانی علی المواہب ج1 ص287)"
تمام مہاجرین نہایت امن و سکون کے ساتھ حبشہ میں رہنے لگے۔ مگر کفار مکہ
"1۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب، الھجرۃ الاولی الی الحبشۃ ، ج۱، ص۵۰۳، ۵۰۶ملخصاً
2۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب، الھجرۃ الاولی الی الحبشۃ ، ج۱، ص۵۰۳، ۵۰۶
والمواھب اللدنیۃمع شرح الزرقانی، الھجرۃ الثانیۃ الی الحبشۃ...الخ، ج۲، ص۳۱
وشرح الزرقانی علی المواھب،باب دخول الشعب ...الخ،ج۲،ص۱۶"
"کو کب گوارا ہو سکتا تھا کہ فرزندان توحید کہیں امن و چین کے ساتھ رہ سکیں۔ ان ظالموں نے کچھ تحائف کے ساتھ ''عمرو بن العاص'' اور ''عمارہ بن ولید'' کو بادشاہ حبشہ کے دربار میں اپنا سفیر بنا کر بھیجا ۔ان دونوں نے نجاشی کے دربار میں پہنچ کر تحفوں کا نذرانہ پیش کیا اور بادشاہ کو سجدہ کرکے یہ فریاد کرنے لگے کہ اے بادشاہ! ہمارے کچھ مجرم مکہ سے بھاگ کر آپ کے ملک میں پناہ گزین ہو گئے ہیں۔ آپ ہمارے ان مجرموں کو ہمارے حوالہ کر دیجیے ۔یہ سن کر نجاشی بادشاہ نے مسلمانوں کو دربار میں طلب کیا ۔اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھائی حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمانوں کے نمائندہ بن کر گفتگو کے لئے آگے بڑھے اور دربار کے آداب کے مطابق بادشاہ کو سجدہ نہیں کیابلکہ صرف سلام کرکے کھڑے ہو گئے۔ درباریوں نے ٹوکا تو حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہمارے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خدا کے سوا کسی کو سجدہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اس لئے میں بادشاہ کو سجدہ نہیں کر سکتا۔ (1) (زرقانی علی المواہب ج1 ص288)
اس کے بعد حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دربار شاہی میں اس طرح تقریر شروع فرمائی کہ
''اے بادشاہ!ہم لوگ ایک جاہل قوم تھے ۔شرک و بت پرستی کرتے تھے۔ لوٹ مار، چوری، ڈکیتی، ظلم و ستم اور طرح طرح کی بدکاریوں اور بداعمالیوں میں مبتلا تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ہماری قوم میں ایک شخص کو اپنا رسول بنا کر بھیجا جس کے حسب و"
"1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃمع شرح الزرقانی، الھجرۃ الثانیۃ الی الحبشۃ...الخ، ج۲، ص۳۳
والمواھب اللدنیۃمع شرح الزرقانی،الھجرۃ الاولٰی الی الحبشۃ...الخ،ج۱،ص۵۰۶"
"نسب اور صدق و دیانت کو ہم پہلے سے جانتے تھے، اس رسول نے ہم کو شرک و بت پرستی سے روک دیا اور صرف ایک خدائے واحد کی عبادت کا حکم دیا اور ہر قسم کے ظلم و ستم اور تمام برائیوں اور بدکاریوں سے ہم کو منع کیا۔ ہم اس رسول پر ایمان لائے اور شرک و بت پرستی چھوڑ کر تمام برے کاموں سے تائب ہو گئے۔ بس یہی ہمارا گناہ ہے جس پر ہماری قوم ہماری جان کی دشمن ہو گئی اور ان لوگوں نے ہمیں اتنا ستایا کہ ہم اپنے وطن کو خیر باد کہہ کر آپ کی سلطنت کے زیر سایہ پرامن زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اب یہ لوگ ہمیں مجبور کر رہے ہیں کہ ہم پھر اسی پرانی گمراہی میں واپس لوٹ جائیں۔''
حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تقریر سے نجاشی بادشاہ بے حد متاثر ہوا۔ یہ دیکھ کر کفار مکہ کے سفیر عمرو بن العاص نے اپنے ترکش کا آخری تیر بھی پھینک دیا اور کہا کہ اے بادشاہ! یہ مسلمان لوگ آپ کے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں کچھ دوسرا ہی اعتقاد رکھتے ہیں جو آپ کے عقیدہ کے بالکل ہی خلاف ہے۔ یہ سن کر نجاشی بادشاہ نے حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس بارے میں سوال کیا تو آپ نے سورهٔ مریم کی تلاوت فرمائی۔ کلام ربانی کی تاثیر سے نجاشی بادشاہ کے قلب پر اتنا گہرا اثر پڑا کہ اس پر رقت طاری ہو گئی اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہمارے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہم کو یہی بتایا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بندے اور اس کے رسول ہیں جو کنواری مریم رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے شکم مبارک سے بغیر باپ کے خدا کی قدرت کا نشان بن کر پیدا ہوئے۔ نجاشی بادشاہ نے بڑے غور سے حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تقریر کو سنا اور یہ کہا کہ بلاشبہ انجیل اور قرآن دونوں ایک ہی آفتاب ہدایت کے دو نور ہیں اور یقینا حضرت عیسیٰ علیہ السلام"
"خدا کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم خدا کے وہی رسول ہیں جن کی بشارت حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے انجیل میں دی ہے اور اگر میں دستور سلطنت کے مطابق تخت شاہی پر رہنے کا پابند نہ ہوتاتو میں خود مکہ جا کر رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی جوتیاں سیدھی کرتااور ان کے قدم دھوتا۔ بادشاہ کی تقریر سن کر اس کے درباری جو کٹرقسم کے عیسائی تھے ناراض و برہم ہوگئے مگر نجاشی بادشاہ نے جوش ایمانی میں سب کو ڈانٹ پھٹکار کر خاموش کر دیا۔ اور کفار مکہ کے تحفوں کو واپس لوٹا کر عمرو بن العاص اور عمارہ بن ولید کو دربار سے نکلوا دیااور مسلمانوں سے کہہ دیا کہ تم لوگ میری سلطنت میں جہاں چاہو امن و سکون کے ساتھ آرام و چین کی زندگی بسر کرو۔ کوئی تمہارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔(1)
(زرقانی ج1 ص288)
واضح رہے کہ نجاشی بادشاہ مسلمان ہو گیا تھا۔ چنانچہ اس کے انتقال پر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں اس کی نماز جنازہ پڑھی۔ حالانکہ نجاشی بادشاہ کا انتقال حبشہ میں ہوا تھا اور وہ حبشہ ہی میں مدفون بھی ہوئے مگر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے غائبانہ ان کی نماز جنازہ پڑھ کر ان کے لئے دعائے مغفرت فرمائی ۔"
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی حبشہ کی طرف ہجرت کی مگر جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مقام ''برک الغماد'' میں پہنچے تو قبیلہ قارہ کا سردار''مالک بن دغنہ'' راستے میں ملا اور دریافت کیا کہ کیوں ؟اے ابوبکر! کہاں چلے ؟ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃمع شرح الزرقانی،الھجرۃ الثانیۃالی الحبشۃ...الخ،ج۲،ص۳۳
نے اہل مکہ کے مظالم کا تذکرہ فرماتے ہوئے کہا کہ اب میں اپنے وطن مکہ کو چھوڑ کر خدا کی لمبی چوڑی زمین میں پھرتا رہوں گا اور خدا کی عبادت کرتا رہوں گا۔ ابن د غنہ نے کہا کہ اے ابوبکر! آپ جیسا آدمی نہ شہر سے نکل سکتا ہے نہ نکالا جا سکتا ہے۔ آپ دوسروں کا بار اٹھاتے ہیں، مہمانانِ حرم کی مہمان نوازی کرتے ہیں، خود کما کما کر مفلسوں اور محتاجوں کی مالی امداد کرتے ہیں، حق کے کاموں میں سب کی امداد و اعانت کرتے ہیں۔ آپ میرے ساتھ مکہ واپس چلیے میں آپ کو اپنی پناہ میں لیتا ہوں۔ ابن د غنہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو زبردستی مکہ واپس لایا اور تمام کفار مکہ سے کہہ دیا کہ میں نے ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنی پناہ میں لے لیا ہے۔ لہٰذا خبردار! کوئی ان کو نہ ستائے کفار مکہ نے کہا کہ ہم کو اس شرط پر منظور ہے کہ ابوبکر اپنے گھر کے اندر چھپ کر قرآن پڑھیں تاکہ ہماری عورتوں اور بچوں کے کان میں قرآن کی آواز نہ پہنچے۔ابن د غنہ نے کفار کی شرط کو منظور کر لیا۔ اور حضرت ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ چند دنوں تک اپنے گھرکے اندرقرآن پڑھتے رہے مگرحضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جذبۂ اسلامی اور جوش ایمانی نے یہ گوارا نہیں کیا کہ معبود ان باطل لات و عزیٰ کی عبادت تو علی الاعلان ہو اور معبود برحق اللہ تعالیٰ کی عبادت گھر کے اندر چھپ کرکی جائے۔ چنانچہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گھر کے باہر اپنے صحن میں ایک مسجد بنالی اور اس مسجد میں علی الاعلان نمازوں میں بلند آواز سے قرآن پڑھنے لگے اور کفار مکہ کی عورتیں اور بچے بھیڑ لگا کر قرآن سننے لگے۔ یہ منظر دیکھ کر کفار مکہ نے ابن د غنہ کو مکہ بلایااور شکایت کی کہ ابوبکر گھر کے باہر قرآن پڑھتے ہیں۔ جس کو سننے کے لئے ان کے گرد ہماری عورتوں اور بچوں کا میلہ لگ جاتا ہے۔ اس سے ہم کو بڑی تکلیف ہوتی ہے لہٰذا تم ان سے کہہ دو کہ یا تو وہ گھر
"میں قرآن پڑھیں ورنہ تم اپنی پناہ کی ذمہ داری سے دست بردار ہو جاؤ۔ چنانچہ ابن دغنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ اے ابوبکر!رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ گھر کے اندر چھپ کر قرآن پڑھیں ورنہ میں اپنی پناہ سے کنارہ کش ہو جاؤں گا اس کے بعد کفار مکہ آپ کو ستائیں گے تو میں اس کا ذمہ دار نہیں ہوں گا۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اے ابن د غنہ! تم اپنی پناہ کی ذمہ داری سے الگ ہوجاؤ مجھے اللہ تعالیٰ کی پناہ کافی ہے اور میں اس کی مرضی پر راضی برضا ہوں۔ (1)
(بخاری ج1 ص307 باب جوارابی بکر الصدیق)"
اعلان نبوت کے چھٹے سال حضرت حمزہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما دو ایسی ہستیاں دامن اسلام میں آ گئیں جن سے اسلام اور مسلمانوں کے جاہ و جلال اور ان کے عزت و اقبال کا پرچم بہت ہی سربلند ہو گیا۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے چچاؤں میں حضرت حمزہ کو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے بڑی والہانہ محبت تھی اور وہ صرف دو تین سال حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے عمر میں زیادہ تھے اور چونکہ انہوں نے بھی حضرت ثویبہ کا دودھ پیا تھا اسلئے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی بھی تھے ۔حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت ہی طاقتور اور بہادر تھے اور شکار کے بہت ہی شوقین تھے۔ روزانہ صبح سویرے تیر کمان لے کر گھر سے نکل جاتے اور شام کو شکار سے واپس لوٹ کر حرم میں جاتے، خانہ کعبہ کا طواف کرتے اور قریش کے سرداروں کی مجلس میں کچھ دیر بیٹھا
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری، کتاب الکفالۃ ، باب جوار ابی بکر رضی اللہ عنہ فی عہد
النبی...الخ، الحدیث:۲۲۹۷،ج۲،ص۷۵"
"کرتے تھے۔ ایک دن حسب معمول شکار سے واپس لوٹے تو ابن جدعان کی لونڈی اور خود ان کی بہن حضرت بی بی صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان کو بتایا کہ آج ابو جہل نے کس کس طرح تمہارے بھتیجے حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ بے ادبی اور گستاخی کی ہے ۔ یہ ماجرا سن کر مارے غصہ کے حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خون کھولنے لگا۔ ایک دم تیر کمان لئے ہوئے مسجد حرام میں پہنچ گئے اور اپنی کمان سے ابو جہل کے سر پر اس زور سے مارا کہ اس کا سر پھٹ گیا اور کہا کہ تو میرے بھتیجے کو گالیاں دیتا ہے؟ تجھے خبر نہیں کہ میں بھی اسی کے دین پر ہوں۔ یہ دیکھ کر قبیلۂ بنی مخزوم کے کچھ لوگ ابو جہل کی مدد کے لئے کھڑے ہو گئے تو ابو جہل نے یہ سوچ کر کہ کہیں بنو ہاشم سے جنگ نہ چھڑ جائے یہ کہا کہ اے بنی مخزوم! آپ لوگ حمزہ کو چھوڑ دیجیے ۔واقعی آج میں نے ان کے بھتیجے کو بہت ہی خراب خراب قسم کی گالیاں دی تھیں۔(1)
(مدارج النبوۃ ج2 ص44 وزرقانی ج1 ص256)
حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسلمان ہو جانے کے بعد زور زور سے ان اشعار کو پڑھنا شروع کر دیا ؎"
"حَمِدْتُّ اللہَ حِیْنَ ھَدٰی فُؤَادِیْ اِلَی الْاِسْلَامِ وَالدِّیْنِ الْحَنِیْفٖ"
میں اﷲ تعالیٰ کی حمد کرتا ہوں جس وقت کہ اس نے میرے دل کو اسلام اور دین حنیف کی طرف ہدایت دی۔
"اِذَا تُلِیَتْ رَسَائِلُہٗ عَلَیْنَا! تَحَدَّرَ دَمْعُ ذِی الْلُبِّ الْحَصِیْفِ"
"1۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب، اسلام حمزۃ رضی اللہ عنہ ،ج۱،ص۴۷۷ودلائل
النبوۃ للبیہقی ، ذکر اسلام حمزۃ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ ،ج۲،ص۲۱۳"
جب احکام اسلام کی ہمارے سامنے تلاوت کی جاتی ہے تو با کمال عقل والوں کے آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔
"وَاَحْمَدُ مُصْطَفًی فِیْنَا مُطَاعٌ فَلاَ تَغْشَوْہُ بِالْقَوْلِ الْعَنِیْفٖ"
اور خدا کے برگزیدہ احمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہمارے مقتدیٰ ہیں تو(اے کافرو) اپنی باطل بکواس سے ان پر غلبہ مت حاصل کرو۔
"فَلاَ وَاﷲِ نُسْلِمُہٗ لِقَوْمٍ! وَلَمَّا نَقْضِ فِیْھِمْ بِالسُّیُوْفٖ"
تو خدا کی قسم !ہم انہیں قوم کفار کے سپرد نہیں کریں گے۔ حالانکہ ابھی تک ہم نے ان کافروں کے ساتھ تلواروں سے فیصلہ نہیں کیا ہے۔(1)(زرقانی ج1 ص256)
"حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے اسلام لانے کے بعد تیسرے ہی دن حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی دولت اسلام سے مالا مال ہو گئے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشرف بہ اسلام ہونے کے واقعات میں بہت سی روایات ہیں۔
ایک روایت یہ ہے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دن غصہ میں بھرے ہوئے ننگی تلوار لے کر اس ارادہ سے چلے کہ آج میں اسی تلوار سے پیغمبرِ اسلام کا خاتمہ کر دوں گا۔ اتفاق سے راستہ میں حضرت نعیم بن عبداﷲ قریشی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ملاقات ہوگئی۔ یہ مسلمان ہوچکے تھے مگر حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو ان کے اسلام کی خبر نہیں تھی۔ حضرت نعیم بن عبداﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے پوچھا کہ کیوں؟ اے عمر! اس دوپہر کی گرمی میں ننگی تلوار لے کر کہاں چلے؟ کہنے لگے کہ آج بانئ اسلام کا فیصلہ کرنے کے لئے گھر سے نکل پڑا"
1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ، فصل فی ترتیب دعوۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، ج۱، ص۱۲۰،۱۲۱
ہوں۔ انہوں نے کہا کہ پہلے اپنے گھر کی خبر لو۔ تمہاری بہن ''فاطمہ بنت الخطاب'' اور تمہارے بہنوئی ''سعید بن زید'' بھی تو مسلمان ہو گئے ہیں۔ یہ سن کر آپ بہن کے گھر پہنچے اور دروازہ کھٹکھٹایا۔گھر کے اندر چند مسلمان چھپ کر قرآن پڑھ رہے تھے۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی آواز سن کر سب لوگ ڈر گئے اور قرآن کے اوراق چھوڑ کر ادھر ادھر چھپ گئے ۔بہن نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ چلا کر بولے کہ اے اپنی جان کی دشمن! کیا تو بھی مسلمان ہو گئی ہے ؟پھر اپنے بہنوئی حضرت سعید بن زید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ پر جھپٹے اور ان کی داڑھی پکڑ کر ان کو زمین پر پٹخ دیا اور سینے پر سوار ہو کر مارنے لگے۔ ان کی بہن حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہااپنے شوہر کو بچانے کے لئے دوڑ پڑیں تو حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ان کو ایسا طمانچہ مارا کہ ان کے کانوں کے جھومر ٹوٹ کر گر پڑے اور ان کا چہرہ خون سے لہو لہان ہو گیا۔ بہن نے صاف صاف کہہ دیا کہ عمر! سن لو ،تم سے جو ہو سکے کر لو مگر اب اسلام دل سے نہیں نکل سکتا۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے بہن کا خون آلودہ چہرہ دیکھا اور ان کا عزم و استقامت سے بھرا ہوا یہ جملہ سنا تو ان پر رقت طاری ہو گئی اور ایک دم دل نرم پڑ گیا۔ تھوڑی دیر تک خاموش کھڑے رہے ۔پھر کہا کہ اچھا تم لوگ جو پڑھ رہے تھے مجھے بھی دکھاؤ۔ بہن نے قرآن کے اوراق کو سامنے رکھ دیا۔ اٹھا کر دیکھا تو اس آیت پر نظر پڑی کہ سَبَّحَ ِﷲِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُo (1) اس آیت کا ایک ایک لفظ صداقت کی تاثیر کا تیر بن کر دل کی گہرائی میں پیوست ہوتا چلا گیا اور جسم کا ایک ایک بال لرزہ براندام ہونے لگا۔
1۔۔۔۔۔۔ ترجمہ کنزالایمان:اللہ کی پاکی بولتاہے جوکچھ آسمانوں اورزمین میں ہے اوروہی عزت وحکمت والا ہے۔ (پ۲۷،الحدید:۱)
جب اس آیت پر پہنچے کہ
اٰمِنُوْا بِاﷲِ وَرَسُوْلِہٖ (1)
تو بالکل ہی بے قابو ہو گئے اور بے اختیار پکار اٹھے کہ
''اَشْھَدُ اَنْ لاَّۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اﷲِ ''
یہ وہ وقت تھا کہ حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت ارقم بن ابوارقم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے مکان میں مقیم تھے حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بہن کے گھر سے نکلے اور سیدھے حضرت ارقم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے مکان پر پہنچے تو دروازہ بند پایا، کنڈی بجائی، اندر کے لوگوں نے دروازہ کی جھری سے جھانک کر دیکھا تو حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ننگی تلوار لئے کھڑے تھے۔ لوگ گھبرا گئے اور کسی میں دروازہ کھولنے کی ہمت نہیں ہوئی مگر حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے بلند آواز سے فرمایا کہ دروازہ کھول دو اور اندر آنے دو اگر نیک نیتی کے ساتھ آیا ہے تو اس کا خیر مقدم کیا جائے گا ورنہ اسی کی تلوار سے اس کی گردن اڑا دی جائے گی۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اندر قدم رکھا تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خود آگے بڑھ کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بازو پکڑا اور فرمایا کہ اے خطاب کے بیٹے! تو مسلمان ہو جا آخر تو کب تک مجھ سے لڑتا رہے گا ؟حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے بہ آواز بلند کلمہ پڑھا ۔حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مارے خوشی کے نعرہ تکبیر بلند فرمایا اور تمام حاضرین نے اس زور سے اﷲ اکبر کا نعرہ مارا کہ مکہ کی پہاڑیاں گونج اٹھیں ۔ پھر حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہنے لگے کہ یا رسول اﷲ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یہ چھپ چھپ کر خدا کی عبادت کرنے کے کیا معنی؟ اٹھئے ہم کعبہ میں چل کر علی الاعلان خدا کی عبادت کریں گے اور خدا کی قسم !میں کفر کی حالت میں جن جن مجلسوں میں بیٹھ کر اسلام کی مخالفت کرتا رہا ہوں اب ان تمام مجالس میں اپنے اسلام کا اعلان کروں گا۔ پھر حضور
1۔۔۔۔۔۔ترجمہ کنزالایمان:اللہ اوراس کے رسول پرایمان لاؤ۔ (پ۲۷،الحدید:۷)
"صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم صحابہ کی جماعت کو لے کر دو قطاروں میں روانہ ہوئے۔ ایک صف کے آگے آگے حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ چل رہے تھے اور دوسری صف کے آگے آگے حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تھے۔ اس شان سے مسجد حرام میں داخل ہوئے اور نماز ادا کی اور حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حرم کعبہ میں مشرکین کے سامنے اپنے اسلام کا اعلان کیا۔ یہ سنتے ہی ہر طرف سے کفار دوڑ پڑے اور حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو مارنے لگے اور حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی ان لوگوں سے لڑنے لگے۔ ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ اتنے میں حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا ماموں ابو جہل آ گیا۔ اس نے پوچھا کہ یہ ہنگامہ کیسا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ مسلمان ہوگئے ہیں اس لئے لوگ برہم ہو کر ان پر حملہ آور ہوئے ہیں۔ یہ سن کر ابو جہل نے حطیم کعبہ میں کھڑے ہو کر اپنی آستین سے اشارہ کرکے اعلان کر دیاکہ میں نے اپنے بھانجے عمر کو پناہ دی۔ ابو جہل کا یہ اعلان سن کر سب لوگ ہٹ گئے۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ اسلام لانے کے بعد میں ہمیشہ کفار کو مارتا اور ان کی مار کھاتا رہایہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ نے اسلام کو غالب فرما دیا۔(1) (زرقانی علی المواہب ج1 ص272)
حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے مسلمان ہونے کا ایک سبب یہ بھی بتایا گیا ہے کہ خود حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ میں کفر کی حالت میں قریش کے بتوں کے پاس حاضر تھا اتنے میں ایک شخص گائے کا ایک بچھڑا لے کر آیا اور اس کو بتوں کے نام پر ذبح کیا۔ پھر بڑے زور سے چیخ مار کر کسی نے یہ کہا کہ"
''یَاجَلِیْحُ اَمْرٌ نَّجِیْحٌ رَجُلٌ فَصِیْحٌ
1۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب،اسلام عمرالفاروق رضی اللہ عنہ ، ج۲، ص۵۔۱۰والمواہب اللدنیۃ ، ھجرتہ صلی اللہ علیہ وسلم، ج۱،ص۱۲۵،۱۲۶ملتقطاً
یَقُوْلُ لَآ اِلٰہَ اِلَا اللہُ۔''
یہ آواز سن کر سب لوگ وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ لیکن میں نے یہ عزم کر لیا کہ میں اس آواز دینے والے کی تحقیق کئے بغیر ہر گز ہر گز یہاں سے نہیں ٹلوں گا۔ اس کے بعد پھر یہی آواز آئی کہ
یَاجَلِیْحُ اَمْرٌ نَّجِیْحٌ رَجُلٌ فَصِیْحٌ یَقُوْلُ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ
یعنی اے کھلی ہوئی دشمنی کرنے والے! ایک کامیابی کی چیز ہے کہ ایک فصاحت والا آدمی
''لَا اِلٰہ َالِاَّ اللہُ''
"کہہ رہا ہے حالانکہ بتوں کے آس پاس میرے سوا دوسرا کوئی بھی نہیں تھا۔ اس کے فوراً ہی بعد حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی نبوت کا اعلان فرمایا ۔ اس واقعہ سے حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بے حد متاثر تھے۔ اس لئے ان کے اسلام لانے کے اسباب میں اس واقعہ کو بھی کچھ نہ کچھ ضرور دخل ہے۔ (1)
(بخاری ج1 ص546 و زرقانی ج1 ص276 باب اسلام عمر)
حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو جب کفار مکہ نے بہت زیادہ ستایاتو عاص بن وائل سہمی نے بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنی پناہ میں لے لیا جو زمانۂ جاہلیت میں آپ کا حلیف تھا اس لئے حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کفار کی مار دھاڑ سے بچ گئے۔ (2)
(بخاری باب اسلام عمر ج 1 ص545)"
اعلان نبوت کے ساتویں سال 7 نبوی میں کفار مکہ نے جب دیکھا کہ روز بروز مسلمانوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور حضرت حمزہ و حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری ، کتاب مناقب الانصار، باب اسلام عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ،
الحدیث:۳۸۶۶، ج۲،ص۵۷۸
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری ، کتاب مناقب الانصار، باب اسلام عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ،الحدیث:۳۸۶۴، ج۲،ص۵۷۸ملخصاً"
"جیسے بہادر ان قریش بھی دامن اسلام میں آ گئے تو غیظ و غضب میں یہ لوگ آپے سے باہر ہو گئے اور تمام سرداران قریش اور مکہ کے دوسرے کفار نے یہ اسکیم بنائی کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور آپ کے خاندان کا مکمل بائیکاٹ کر دیا جائے اور ان لوگوں کو کسی تنگ و تاریک جگہ میں محصور کرکے ان کا دانہ پانی بند کر دیا جائے تا کہ یہ لوگ مکمل طور پر تباہ و برباد ہو جائیں۔ چنانچہ اس خوفناک تجویز کے مطابق تمام قبائل قریش نے آپس میں یہ معاہدہ کیا کہ جب تک بنی ہاشم کے خاندان والے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو قتل کے لئے ہمارے حوالہ نہ کر دیں
(1)کوئی شخص بنو ہاشم کے خاندان سے شادی بیاہ نہ کرے۔
(2)کوئی شخص ان لوگوں کے ہاتھ کسی قسم کے سامان کی خریدوفروخت نہ کرے۔ (3)کوئی شخص ان لوگوں سے میل جول، سلام و کلام اور ملاقات و بات نہ کرے۔ (4)کوئی شخص ان لوگوں کے پاس کھانے پینے کا کوئی سامان نہ جانے دے۔ منصور بن عکرمہ نے اس معاہدہ کو لکھا اور تمام سرداران قریش نے اس پر دستخط کرکے اس دستاویز کو کعبہ کے اندر آویزاں کر دیا۔ ابو طالب مجبوراً حضورِاقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور دوسرے تمام خاندان والوں کو لے کر پہاڑ کی اس گھاٹی میں جس کا نام ''شعب ابی طالب'' تھا پناہ گزین ہوئے۔ ابو لہب کے سوا خاندان بنو ہاشم کے کافروں نے بھی خاندانی حمیت و پاسداری کی بنا پر اس معاملہ میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا ساتھ دیا اور سب کے سب پہاڑ کے اس تنگ و تاریک درہ میں محصور ہو کر قیدیوں کی زندگی بسر کرنے لگے۔ اور یہ تین برس کا زمانہ اتنا سخت اور کٹھن گزرا کہ بنو ہاشم درختوں کے پتے اور سوکھے چمڑے پکا پکا کر کھاتے تھے۔اور ان کے بچے بھوک پیاس کی شدت"
"سے تڑپ تڑپ کر دن رات رویا کرتے تھے ۔سنگدل اور ظالم کافروں نے ہر طرف پہرہ بٹھا دیا تھاکہ کہیں سے بھی گھاٹی کے اندر دانہ پانی نہ جانے پائے۔ (1) (زرقانی علی المواہب ج1 ص278)
مسلسل تین سال تک حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور خاندان بنو ہاشم ان ہوش ربا مصائب کو جھیلتے رہے یہاں تک کہ خود قریش کے کچھ رحم دلوں کو بنو ہاشم کی ان مصیبتوں پررحم آگیااوران لوگوں نے اس ظالمانہ معاہدہ کو توڑنے کی تحریک اٹھائی۔ چنانچہ ہشام بن عمرو عامری، زہیر بن ابی امیہ، مطعم بن عدی، ابو البختری، زمعہ بن الاسودوغیرہ یہ سب مل کر ایک ساتھ حرم کعبہ میں گئے اور زہیر نے جو عبدالمطلب کے نواسے تھے کفار قریش کو مخاطب کرکے اپنی پرجوش تقریر میں یہ کہا کہ اے لوگو! یہ کہاں کا انصاف ہے؟ کہ ہم لوگ تو آرام سے زندگی بسر کر رہے ہیں اور خاندان بنو ہاشم کے بچے بھوک پیاس سے بے قرار ہو کر بلبلا رہے ہیں۔ خدا کی قسم! جب تک اس وحشیانہ معاہدہ کی دستاویز پھاڑ کر پاؤں سے نہ روند دی جائے گی میں ہر گز ہر گز چین سے نہیں بیٹھ سکتا۔ یہ تقریر سن کر ابوجہل نے تڑپ کر کہا کہ خبردار! ہرگز ہرگز تم اس معاہدہ کو ہاتھ نہیں لگا سکتے۔ زمعہ نے ابو جہل کو للکارا اور اس زور سے ڈانٹا کہ ابو جہل کی بولتی بند ہو گئی۔ اسی طرح مطعم بن عدی اور ہشام بن عمرو نے بھی خم ٹھونک کر ابو جہل کو جھڑک دیا اور ابو البختری نے تو صاف صاف کہہ دیا کہ اے ابو جہل! اس ظالمانہ معاہدہ سے نہ ہم پہلے راضی تھے اور نہ اب ہم اس کے پابند ہیں۔
اسی مجمع میں ایک طرف ابو طالب بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ"
1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ ، ھجرتہ صلی اللہ علیہ وسلم، ج۱،ص۱۲۶
اے لوگو! میرے بھتیجے محمد ( صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)کہتے ہیں کہ اس معاہدہ کی دستاویز کو کیڑوں نے کھا ڈالا ہے اور صرف جہاں جہاں خدا کا نام لکھا ہوا تھا اس کو کیڑوں نے چھوڑ دیا ہے۔ لہٰذا میری رائے یہ ہے کہ تم لوگ اس دستاویز کو نکال کر دیکھو اگر واقعی اس کو کیڑوں نے کھا لیا ہے جب تو اس کو چاک کرکے پھینک دو۔ اور اگر میرے بھتیجے کا کہنا غلط ثابت ہوا تو میں محمد(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کو تمہارے حوالے کردوں گا۔یہ سن کر مطعم بن عدی کعبہ کے اندر گیا اور دستاویز کو اتار لایا اور سب لوگوں نے اس کو دیکھا تو واقعی بجز اﷲ تعالیٰ کے نام کے پوری دستاویز کو کیڑوں نے کھا لیا تھا۔ مطعم بن عدی نے سب کے سامنے اس دستاویز کو پھاڑ کر پھینک دیا۔ اور پھر قریش کے چند بہادر باوجودیکہ یہ سب کے سب اس وقت کفر کی حالت میں تھے ہتھیار لے کر گھاٹی میں پہنچے اور خاندان بنوہاشم کے ایک ایک آدمی کو وہاں سے نکال لائے اور ان کو ان کے مکانوں میں آباد کر دیا۔ یہ واقعہ 10 نبوی کا ہے۔ منصور بن عکرمہ جس نے اس دستاویز کو لکھا تھا اس پر یہ قہر الٰہی ٹوٹ پڑا کہ اس کا ہاتھ شل ہو کر سوکھ گیا۔(1)(مدارج النبوۃ ج2ص42 وغیرہ)
"حضورِاقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ''شعب ابی طالب'' سے نکل کر اپنے گھر میں تشریف لائے اور چند ہی روز کفار قریش کے ظلم و ستم سے کچھ امان ملی تھی کہ ابو طالب بیمار ہو گئے اور گھاٹی سے باہر آنے کے آٹھ مہینے بعد ان کا انتقال ہو گیا۔
ابو طالب کی وفات حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے لئے ایک بہت ہی جاں گداز اور روح فرسا حادثہ تھاکیونکہ بچپن سے جس طرح پیارو محبت کے ساتھ ابو طالب نے"
1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت، قسم دوم ، باب سوم، ج۲،ص۴۶مختصرًا
آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی پرورش کی تھی اور زندگی کے ہر موڑ پر جس جاں نثاری کے ساتھ آپ کی نصرت و دستگیری کی اور آپ کے دشمنوں کے مقابل سینہ سپر ہو کر جس طرح آلام و مصائب کا مقابلہ کیا اس کو بھلا حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کس طرح بھول سکتے تھے۔
جب ابو طالب مرض الموت میں مبتلا ہو گئے تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا کہ اے چچا! آپ کلمہ پڑھ لیجیے۔یہ وہ کلمہ ہے کہ اس کے سبب سے میں خدا کے دربار میں آپ کی مغفرت کے لئے اصرار کروں گا۔ اس وقت ابو جہل اور عبداﷲ بن ابی امیہ ابو طالب کے پاس موجود تھے۔ ان دونوں نے ابو طالب سے کہا کہ اے ابو طالب! کیا آپ عبدالمطلب کے دین سے روگردانی کریں گے؟ اور یہ دونوں برابر ابو طالب سے گفتگو کرتے رہے یہاں تک کہ ابو طالب نے کلمہ نہیں پڑھابلکہ ان کی زندگی کا آخری قول یہ رہا کہ ''میں عبدالمطلب کے دین پر ہوں۔'' یہ کہا اور ان کی روح پرواز کر گئی۔ حضور رحمت عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اس سے بڑا صدمہ پہنچا اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں آپ کے لئے اس وقت تک دعائے مغفرت کرتا رہوں گا جب تک اﷲ تعالیٰ مجھے منع نہ فرمائے گا۔اس کے بعد یہ آیت نازل ہو گئی کہ
مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡ یَّسْتَغْفِرُوۡا لِلْمُشْرِکِیۡنَ وَلَوْکَانُوۡۤا اُولِیۡ قُرْبٰی مِنۡۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیۡمِ ﴿۱۱۳﴾ (1)
یعنی نبی اور مومنین کے لئے یہ جائز ہی نہیں ہے کہ وہ مشرکین کے لئے
1۔۔۔۔۔۔پ۱۱،التوبۃ:۱۱۳
مغفرت کی دعا مانگیں اگرچہ وہ رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔ جب انہیں معلوم ہو چکا ہے کہ مشرکین جہنمی ہیں۔(1) (بخاری ج1 ص548 باب قصہ ابی طالب)
"حضورِاقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے قلب مبارک پر ابھی ابو طالب کے انتقال کا زخم تازہ ہی تھا کہ ابو طالب کی وفات کے تین دن یا پانچ دن کے بعد حضرت بی بی خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا بھی دنیا سے رحلت فرما گئیں۔ مکہ میں ابو طالب کے بعد سب سے زیادہ جس ہستی نے رحمت عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی نصرت و حمایت میں اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کیا وہ حضرت بی بی خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی ذات گرامی تھی۔ جس وقت دنیا میں کوئی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا مخلص مشیر اور غمخوار نہیں تھا حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاہی تھیں کہ ہر پریشانی کے موقع پر پوری جاں نثاری کے ساتھ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی غمخواری اور دلداری کرتی رہتی تھیں اس لئے ابو طالب اور حضرت بی بی خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا دونوں کی وفات سے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے مددگار اور غمگسار دونوں ہی دنیا سے اٹھ گئے جس سے آپ کے قلب نازک پر اتنا عظیم صدمہ گزرا کہ آپ نے اس سال کا نام ''عام الحزن''(غم کا سال) رکھ دیا۔
حضرت بی بی خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے رمضان 10 نبوی میں وفات پائی۔ بوقت وفات پینسٹھ برس کی عمر تھی۔ مقام حجون (قبرستان جنت المعلی) میں مدفون ہوئیں۔ حضور رحمت عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم خود بہ نفس نفیس ان کی قبر میں اترے اور اپنے مقدس"
1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب مناقب الانصار،باب قصۃ ابی طالب،الحدیث:۳۸۸۴،ج۲، ص۵۸۳وشرح الزرقانی علی المواھب، وفاۃ خدیجۃ و ابی طالب، ج۲، ص۳۸، ۴۲ ملخصاً
ہاتھوں سے ان کی لاش مبارک کو زمین کے سپرد فرمایا۔(1)(زرقانی ج1 ص296)
مکہ والوں کے عناد اور سرکشی کو دیکھتے ہوئے جب حضور رَحمت عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو ان لوگوں کے ایمان لانے سے مایوسی نظر آئی تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے تبلیغ اسلام کے لئے مکہ کے قرب و جوار کی بستیوں کا رُخ کیا۔ چنانچہ اس سلسلہ میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ''طائف'' کا بھی سفر فرمایا۔ اس سفر میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے غلام حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے۔ طائف میں بڑے بڑے اُمراء اور مالدار لوگ رہتے تھے۔ ان رئیسوں میں ''عمرو'' کا خاندان تمام قبائل کا سردار شمار کیا جاتا تھا۔ یہ لوگ تین بھائی تھے۔ عبدیالیل۔مسعود۔ حبیب۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ان تینوں کے پاس تشریف لے گئے اور اسلام کی دعوت دی۔ ان تینوں نے اسلام قبول نہیں کیا بلکہ انتہائی بیہودہ اور گستاخانہ جواب دیا۔ ان بدنصیبوں نے اسی پر بس نہیں کیابلکہ طائف کے شریر غنڈوں کو ابھار دیا کہ یہ لوگ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ برا سلوک کریں ۔چنانچہ لچوں لفنگوں کا یہ شریر گروہ ہر طرف سے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر ٹوٹ پڑا اور یہ شرارتوں کے مجسمے آپ پر پتھر برسانے لگے یہاں تک کہ آپ کے مقدس پاؤں زخموں سے لہولہان ہو گئے۔ (2)اور آپ کے موزے اور نعلین مبارک خون سے بھر گئے۔ جب آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم زخموں سے بے تاب ہو کر بیٹھ جاتے تو یہ ظالم انتہائی بے دردی کے ساتھ آپ کا بازو پکڑ کر اٹھاتے اورجب آپ
"1۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب، وفاۃ خدیجۃو ابی طالب، ج۲،ص۴۸
2۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب، وفاۃ خدیجۃو ابی طالب، ج۲،ص۵۰،۵۱"
"چلنے لگتے تو پھر آپ پر پتھروں کی بارش کرتے اور ساتھ ساتھ طعنہ زنی کرتے۔ گالیاں دیتے۔ تالیاں بجاتے۔ ہنسی اڑاتے۔ حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ دوڑ دوڑ کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر آنے والے پتھروں کو اپنے بدن پر لیتے تھے اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو بچاتے تھے یہاں تک کہ وہ بھی خون میں نہا گئے اور زخموں سے نڈھال ہو کر بے قابو ہو گئے۔ یہاں تک کہ آخر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے انگور کے ایک باغ میں پناہ لی۔ یہ باغ مکہ کے ایک مشہور کافر عتبہ بن ربیعہ کا تھا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا یہ حال دیکھ کر عتبہ بن ربیعہ اور اس کے بھائی شیبہ بن ربیعہ کو آپ پر رحم آگیا اور کافر ہونے کے باوجود خاندانی حمیت نے جوش مارا۔ چنانچہ ان دونوں کافروں نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنے باغ میں ٹھہرایا اور اپنے نصرانی غلام ''عداس'' کے ہاتھ سے آپ کی خدمت میں انگور کا ایک خوشہ بھیجا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے بسم اﷲ پڑھ کر خوشہ کو ہاتھ لگایاتو عداس تعجب سے کہنے لگا کہ اس اطراف کے لوگ تو یہ کلمہ نہیں بولا کرتے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس سے دریافت فرمایا کہ تمہارا وطن کہاں ہے؟ عداس نے کہا کہ میں ''شہر نینویٰ'' کا رہنے والا ہوں۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ حضرت یونس بن متی علیہ السلام کا شہر ہے۔ وہ بھی میری طرح خدا عزوجل کے پیغمبر تھے۔ یہ سن کر عداس آپ کے ہاتھ پاؤں چومنے لگا اور فوراً ہی آپ کا کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا۔(1)
(زرقانی علی المواہب ج1 ص300)
اسی سفر میں جب آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مقام ''نخلہ'' میں تشریف فرما ہوئے اور رات کو نماز تہجد میں قرآن مجید پڑھ رہے تھے تو '' نصیبین'' کے جنوں کی ایک جماعت"
1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ ، ھجرتہ صلی اللہ علیہ وسلم، ج۱،ص۱۳۶،۱۳۷
"آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور قرآن سن کر یہ سب جن مسلمان ہو گئے ۔پھر ان جنوں نے لوٹ کر اپنی قوم کو بتایا تو مکہ مکرمہ میں جنوں کی جماعت نے فوج در فوج آ کر اسلام قبول کیا۔ چنانچہ قرآن مجید میں سورهٔ جن کی ابتدائی آیتوں میں خداوند عالم نے اس واقعہ کا تذکرہ فرمایا ہے۔ (1) (زرقانی ج1 ص303)
مقام نخلہ میں حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے چند دنوں تک قیام فرمایا۔ پھر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مقام ''حراء'' میں تشریف لائے اور قریش کے ایک ممتاز سردار مطعم بن عدی کے پاس یہ پیغام بھیجا کہ کیا تم مجھے اپنی پناہ میں لے سکتے ہو؟ عرب کا دستور تھا کہ جب کوئی شخص ان سے حمایت اور پناہ طلب کرتاتو وہ اگرچہ کتنا ہی بڑا دشمن کیوں نہ ہو وہ پناہ دینے سے انکار نہیں کر سکتے تھے۔ چنانچہ مطعم بن عدی نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنی پناہ میں لے لیا اور اس نے اپنے بیٹوں کو حکم دیا کہ تم لوگ ہتھیار لگا کر حرم میں جاؤ اور مطعم بن عدی خود گھوڑے پر سوار ہو گیااور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ مکہ لایااور حرم کعبہ میں اپنے ساتھ لے کر گیا اور مجمع عام میں اعلان کر دیاکہ میں نے محمد(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)کو پناہ دی ہے۔ اس کے بعد حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اطمینان کے ساتھ حجر اسود کو بوسہ دیا اور کعبہ کا طواف کرکے حرم میں نماز ادا کی اور مطعم بن عدی اور اس کے بیٹوں نے تلواروں کے سائے میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو آپ کے دولت خانہ تک پہنچا دیا۔ (2) (زرقانی ج1 ص306)
اس سفر کے مدتوں بعد ایک مرتبہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے حضورِاقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اﷲ! صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کیا"
"1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ ، ھجرتہ صلی اللہ علیہ وسلم، ج۱،ص۱۳۷،۱۳۸ملتقطاً
2۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب، ذکر الجن، ج۲،ص۶۶ملخصاً"
" جنگ احد کے دن سے بھی زیادہ سخت کوئی دن آپ پر گزرا ہے؟ تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہاں اے عائشہ! رضی اللہ تعالیٰ عنہاوہ دن میرے لئے جنگ احد کے دن سے بھی زیادہ سخت تھا جب میں نے طائف میں وہاں کے ایک سردار '' عبد یالیل'' کو اسلام کی دعوت دی۔ اس نے دعوت اسلام کو حقارت کے ساتھ ٹھکرا دیا اور اہل طائف نے مجھ پر پتھراؤ کیا۔ میں اس رنج و غم میں سرجھکائے چلتا رہایہاں تک کہ مقام ''قرن الثعالب'' میں پہنچ کر میرے ہوش و حواس بجا ہوئے ۔وہاں پہنچ کر جب میں نے سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بدلی مجھ پر سایہ کئے ہوئے ہے اس بادل میں سے حضرت جبریل علیہ السلام نے مجھے آواز دی اور کہا کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کی قوم کا قول اور ان کا جواب سن لیا اور اب آپ کی خدمت میں پہاڑوں کا فرشتہ حاضر ہے ۔ تاکہ وہ آپ کے حکم کی تعمیل کرے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا بیان ہے کہ پہاڑوں کا فرشتہ مجھے سلام کرکے عرض کرنے لگا کہ اے محمد!(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)اﷲ تعالیٰ نے آپ کی قوم کا قول اور انہوں نے آپ کو جو جواب دیا ہے وہ سب کچھ سن لیا ہے اور مجھ کو آپ کی خدمت میں بھیجا ہے تا کہ آپ مجھے جو چاہیں حکم دیں اور میں آپ کا حکم بجا لاؤں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں ''اخشبین''(ابو قبیس اورقعیقعان)دونوں پہاڑوں کو ان کفار پر اُلٹ دوں تو میں اُلٹ دیتاہوں۔ یہ سن کر حضور رحمت عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ نہیں بلکہ میں امید کرتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ ان کی نسلوں سے اپنے ایسے بندوں کو پیدا فرمائے گا جو صرف اﷲ تعالیٰ کی ہی عبادت کریں گے اور شرک نہیں کریں گے۔(1)
(بخاری باب ذکر الملائکہ ج1 ص458 وزُرقانی ج1 ص297)"
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری ، کتاب بدء الخلق، باب اذا قال احدکم اٰمین...الخ، الحدیث:۳۲۳۱،
ج۲، ص۳۸۶و شرح الزرقانی علی المواھب، خروجہ الی الطائف ،ج۲، ص۵۱ ،۵۲ ملخصاً"
"حضور نبی کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا طریقہ تھا کہ حج کے زمانے میں جب کہ دور دور کے عربی قبائل مکہ میں جمع ہوتے تھے تو حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تمام قبائل میں دورہ فرما کر لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے تھے۔ اسی طرح عرب میں جا بجا بہت سے میلے لگتے تھے جن میں دور دراز کے قبائل عرب جمع ہوتے تھے ۔ان میلوں میں بھی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تبلیغ اسلام کے لئے تشریف لے جاتے تھے۔ چنانچہ عکاظ، مجنہ،ذوالمجازکے بڑے بڑے میلوں میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے قبائل عرب کے سامنے دعوت اسلام پیش فرمائی۔ عرب کے قبائل بنو عامر،محارب،فزارہ،غسان، مرہ،سلیم،عبس،بنو نصر، کندہ، کلب،عذرہ،حضارمہ وغیرہ ان سب مشہور قبائل کے سامنے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اسلام پیش فرمایامگر آپ کا چچا ابو لہب ہر جگہ آپ کے ساتھ ساتھ جاتا اور جب آپ کسی قبیلہ کے سامنے وعظ فرماتے تو ابو لہب چلا چلا کر یہ کہتا کہ ''یہ دین سے پھر گیا ہے ،یہ جھوٹ کہتا ہے۔''(1) (زرقانی ج1 ص309)
قبیلہ بنو ذہل بن شیبان کے پاس جب آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تشریف لے گئے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی آپ کے ساتھ تھے۔ اس قبیلہ کا سردار ''مفروق'' آپ کی طرف متوجہ ہوا اور اس نے کہا کہ اے قریشی برادر! آپ لوگوں کے سامنے کونسا دین پیش کرتے ہیں؟ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا ایک ہے اور میں اس کا رسول ہوں۔ پھر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے سورهٔ انعام کی چند آیتیں"
1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، ذکر عرض المصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم نفسہ...الخ، ج۲،ص۷۳والسیرۃ النبویۃ لابن ھشام،عرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم...الخ،ص۱۶۸ملخصاً
تلاوت فرمائیں ۔یہ سب لوگ آپ کی تقریر اور قرآنی آیتوں کی تاثیر سے انتہائی متاثر ہوئے لیکن یہ کہا کہ ہم اپنے اس خاندانی دین کو بھلا ایک دم کیسے چھوڑ سکتے ہیں؟ جس پر ہم برسہا برس سے کاربند ہیں۔ اس کے علاوہ ہم ملک فارس کے بادشاہ کسریٰ کے زیر اثر اوررعیت ہیں۔ اور ہم یہ معاہدہ کر چکے ہیں کہ ہم بادشاہ کسریٰ کے سوا کسی اور کے زیر اثر نہیں رہیں گے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان لوگوں کی صاف گوئی کی تعریف فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ خیر، خدا اپنے دین کا حامی و ناصراور معین و مدد گار ہے۔(1) (روض الانف بحوالہ سیرۃ النبی)
''مدینہ منورہ'' کا پرانا نام ''یثرب'' ہے۔ جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس شہر میں سکونت فرمائی تو اس کا نام ''مدینۃ النبی'' (نبی کا شہر) پڑ گیا۔ پھر یہ نام مختصر ہو کر ''مدینہ'' مشہور ہو گیا۔ تاریخی حیثیت سے یہ بہت پرانا شہر ہے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب اعلان نبوت فرمایا تو اِس شہر میں عرب کے دو قبیلے ''اوس'' اور ''خزرج'' اور کچھ ''یہودی'' آباد تھے۔ اوس و خزرج کفارِ مکہ کی طرح ''بت پرست'' اور یہودی ''اہل کتاب'' تھے ۔اوس و خزرج پہلے تو بڑے اتفاق و اتحاد کے ساتھ مل جل کر رہتے تھے مگر پھر عربوں کی فطرت کے مطابق اِن دونوں قبیلوں میں لڑائیاں شروع ہو گئیں۔ یہاں تک کہ آخری لڑائی جو تاریخ عرب میں ''جنگ بعاث'' کے نام سے مشہور ہے اس قدر ہولناک اور خونریز ہوئی کہ اس لڑائی میں اوس و خزرج کے تقریباً تمام نامور بہادر لڑ بھڑ
1۔۔۔۔۔۔الروض الانف (مترجم)،ج ۲،ص۳۴۸
"کر کٹ مر گئے اور یہ دونوں قبیلے بے حد کمزور ہوگئے۔ یہودی اگرچہ تعداد میں بہت کم تھے مگر چونکہ وہ تعلیم یافتہ تھے اس لئے اوس و خزرج ہمیشہ یہودیوں کی علمی برتری سے مرعوب اور ان کے زیر اثر رہتے تھے ۔
اِسلام قبول کرنے کے بعد رسولِ رحمت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس تعلیم و تربیت کی بدولت اوس و خزوج کے تمام پرانے اختلافات ختم ہو گئے اور یہ دونوں قبیلے شیروشکر کی طرح مل جل کر رہنے لگے ۔اورچونکہ اِن لوگوں نے اسلام اور مسلمانوں کی اپنے تن من دھن سے بے پناہ امداد و نصرت کی اِس لئے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان خوش بختوں کو ''انصار'' کے معزز لقب سے سرفراز فرما دیااور قرآن کریم نے بھی ان جاں نثاران اسلام کی نصرت رسول و امدادِ مسلمین پر ان خوش نصیبوں کی مدح و ثنا کا جابجا خطبہ پڑھا اور ازروئے شریعت انصار کی محبت اور ان کی جناب میں حسن عقیدت تمام اُمتِمسلمہ کیلئے لازم الایمان اور واجب العمل قرار پائی۔ (رضی اﷲ تعالیٰ عنہم اجمعین)"
"انصار گوبت پرست تھے مگر یہودیوں کے میل جول سے اتنا جانتے تھے کہ نبی آخر الزمان کاظہور ہونے والا ہے ا ور مدینہ کے یہودی اکثر انصار کے دونوں قبیلوں اوس و خزرج کو دھمکیاں بھی دیا کرتے تھے کہ نبی آخر الزمان کے ظہور کے وقت ہم ان کے لشکر میں شامل ہو کر تم بت پرستوں کو دنیا سے نیست و نابود کر ڈالیں گے۔ اس لئے نبی آخر الزمان کی تشریف آوری کا یہود اور انصار دونوں کو انتظار تھا۔
11 نبوی میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم معمول کے مطابق حج میں آنے والے قبائل کو دعوت اسلام دینے کے لئے منیٰ کے میدان میں تشریف لے گئے اور قرآنِ"
مجید کی آیتیں سنا سنا کر لوگوں کے سامنے اسلام پیش فرمانے لگے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم منیٰ میں عقبہ(گھاٹی) کے پاس جہاں آج ''مسجد العقبہ'' ہے تشریف فرما تھے کہ قبیلۂ خزرج کے چھ آدمی آپ کے پاس آ گئے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان لوگوں سے ان کا نام و نسب پوچھا۔ پھر قرآن کی چند آیتیں سنا کر ان لوگوں کو اسلام کی دعوت دی جس سے یہ لوگ بے حد متاثر ہوگئے اور ایک دوسرے کا منہ دیکھ کر واپسی میں یہ کہنے لگے کہ یہودی جس نبی آخر الزمان کی خوشخبری دیتے رہے ہیں یقینا وہ نبی یہی ہیں۔ لہٰذا کہیں ایسا نہ ہو کہ یہودی ہم سے پہلے اسلام کی دعوت قبول کر لیں۔ یہ کہہ کر سب ایک ساتھ مسلمان ہو گئے اور مدینہ جا کر اپنے اہل خاندان اور رشتہ داروں کو بھی اسلام کی دعوت دی ۔ان چھ خوش نصیبوں کے نام یہ ہیں۔ (1)حضرت عقبہ بن عامر بن نابی۔ (2)حضرت ابو امامہ اسعد بن زرارہ(3)حضرت عوف بن حارث(4) حضرت رافع بن مالک(5) حضرت قطبہ بن عامر بن حدیدہ(6)حضرت جابر بن عبداﷲ بن ریاب۔(1) (رضی اﷲ تعالیٰ عنہم اجمعین) (مدارج النبوۃ ج2 ص51 وزرقانی ج1 ص310)
"دوسرے سال سن 12 نبوی میں حج کے موقع پر مدینہ کے بارہ اشخاص منیٰ کی اسی گھاٹی میں چھپ کر مشرف بہ اسلام ہوئے اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے بیعت ہوئے ۔تاریخ اسلام میں اس بیعت کا نام ''بیعت عقبہ اولیٰ'' ہے۔
ساتھ ہی ان لوگوں نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے یہ درخواست بھی کی کہ"
1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم دوم ، باب سوم،ج۲،ص۵۱۔۵۲والمواہب اللدنیۃ ، ھجرتہ صلی اللہ علیہ وسلم، ج۱،ص۱۴۱
"احکامِ اسلام کی تعلیم کے لئے کوئی معلم بھی ان لوگوں کے ساتھ کر دیا جائے۔ چنانچہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت مصعب بن عمیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو ان لوگوں کے ساتھ مدینہ منورہ بھیج دیا۔ وہ مدینہ میں حضرت اسعد بن زرارہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے مکان پر ٹھہرے اور انصار کے ایک ایک گھر میں جا جا کر اسلام کی تبلیغ کرنے لگے اور روزانہ ایک دو نئے آدمی آغوش اسلام میں آنے لگے۔ یہاں تک کہ رفتہ رفتہ مدینہ سے قباء تک گھر گھر اسلام پھیل گیا۔
قبیلۂ اوس کے سردار حضرت سعد بن معاذ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بہت ہی بہادر اور بااثر شخص تھے۔ حضرت مصعب بن عمیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جب ان کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی تو انہوں نے پہلے تو اسلام سے نفرت و بیزاری ظاہر کی مگر جب حضرت مصعب بن عمیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ان کو قرآنِ مجید پڑھ کر سنایا تو ایک دم اُن کا دل پسیج گیا اور اس قدر متاثر ہوئے کہ سعادتِ ایمان سے سرفراز ہو گئے۔ ان کے مسلمان ہوتے ہی ان کا قبیلہ ''اوس'' بھی دامنِ اسلام میں آ گیا۔
اسی سال بقول مشہور ماہ رجب کی ستائیسویں رات کو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو بحالت بیداری ''معراجِ جسمانی'' ہوئی ۔اور اِسی سفر معراج میں پانچ نمازیں فرض ہوئیں جس کا تفصیلی بیان ان شاء اﷲ تعالیٰ معجزات کے باب میں آئے گا۔ (1)
بیعت عقبہ ثانیہ
اس کے ایک سال بعد سن 13 نبوی میں حج کے موقع پر مدینہ کے تقریباً بہتّر اشخاص نے منیٰ کی اسی گھاٹی میں اپنے بت پرست ساتھیوں سے چھپ کر"
1۔۔۔۔۔۔السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، العقبۃ الاولٰی ومصعب بن عمیر ،ص۱۷۱۔۱۷۴
"حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے دست حق پرست پر بیعت کی اور یہ عہد کیا کہ ہم لوگ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی اور اسلام کی حفاظت کے لئے اپنی جان قربان کر دیں گے۔ اس موقع پر حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی موجود تھے جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ انہوں نے مدینہ والوں سے کہا کہ دیکھو! محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے خاندان بنی ہاشم میں ہر طرح محترم اور با عزت ہیں۔ ہم لوگوں نے دشمنوں کے مقابلہ میں سینہ سپر ہو کر ہمیشہ ان کی حفاظت کی ہے۔ اب تم لوگ ان کو اپنے وطن میں لے جانے کے خواہشمند ہو تو سن لو! اگر مرتے دم تک تم لوگ ان کا ساتھ دے سکو تو بہتر ہے ورنہ ابھی سے کنارہ کش ہو جاؤ۔ یہ سن کر حضرت براء بن عازب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ طیش میں آ کر کہنے لگے کہ ''ہم لوگ تلواروں کی گود میں پلے ہیں۔'' حضرت براء بن عازب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اتنا ہی کہنے پائے تھے کہ حضرت ابو الہیثم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے بات کاٹتے ہوئے یہ کہا کہ یا رسول اﷲ!صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہم لوگوں کے یہودیوں سے پرانے تعلقات ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ ہمارے مسلمان ہو جانے کے بعد یہ تعلقات ٹوٹ جائیں گے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ جب اﷲ تعالیٰ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو غلبہ عطا فرمائے تو آپ ہم لوگوں کو چھوڑ کر اپنے وطن مکہ چلے جائیں۔ یہ سنکر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ تم لوگ اطمینان رکھو کہ ''تمہارا خون میرا خون ہے'' اور یقین کرو'' میرا جینا مرنا تمہارے ساتھ ہے۔ میں تمہارا ہوں اور تم میرے ہو۔ تمہارا دشمن میرا دشمن اور تمہارا دوست میرا دوست ہے۔''(1)(زرقانی علی المواہب ج1 ص317 وسیرت ابن ہشام ج4 ص441 تا442)
جب انصار یہ بیعت کر رہے تھے تو حضرت سعد بن زرارہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے"
1۔۔۔۔۔۔السیرۃ النبویۃلابن ھشام،العقبۃ الاولٰی ومصعب بن عمیر ،ص۱۷۵،۱۷۶وشرح الزرقانی علی المواھب،ذکرعرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نفسہ...الخ، ج۲، ص۸۵۔ ۸۸ملتقطاً
"یا حضرت عباس بن نضلہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میرے بھائیو! تمہیں یہ بھی خبر ہے؟ کہ تم لوگ کس چیز پر بیعت کر رہے ہو؟ خوب سمجھ لو کہ یہ عرب و عجم کے ساتھ اعلان جنگ ہے۔ انصار نے طیش میں آ کر نہایت ہی پرجوش لہجے میں کہا کہ ہاں! ہاں!ہم لوگ اسی پر بیعت کررہے ہیں۔بیعت ہو جانے کے بعد آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس جماعت میں سے بارہ آدمیوں کو نقیب(سردار)مقرر فرمایا ۔ان میں نو آدمی قبیلہ خزرج کے اور تین اشخاص قبیلۂ اوس کے تھے جن کے مبارک نام یہ ہیں۔
(۱)حضرت ابوامامہ اسعدبن زرارہ(۲)حضرت سعدبن ربیع(۳)حضرت عبداﷲ بن رواحہ(۴) حضرت رافع بن مالک (۵) حضرت براء بن معرور (۶) حضرت عبداﷲ بن عمرو (۷)حضرت سعد بن عبادہ(۸)حضرت منذر بن عمر (۹)حضرت عبادہ بن ثابت ۔یہ نو آدمی قبیلہ خزرج کے ہیں۔ (۱۰)حضرت اُسید بن حضیر (۱۱)حضرت سعد بن خیثمہ(۱۲)حضرت ابو الہیثم بن تیہان۔ یہ تین شخص قبیلہ اوس کے ہیں۔ (1) (رضی اﷲ تعالیٰ عنہم اجمعین) (زرقانی علی المواہب ج۱ص۳۱۷)
اس کے بعد یہ تمام حضرات اپنے اپنے ڈیروں پر چلے گئے۔ صبح کے وقت جب قریش کو اس کی اطلاع پہنچی تو وہ آگ بگولا ہو گئے اور ان لوگوں نے ڈانٹ کر مدینہ والوں سے پوچھا کہ کیا تم لوگوں نے ہمارے ساتھ جنگ کرنے پر محمد(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) سے بیعت کی ہے؟ انصار کے کچھ ساتھیوں نے جو مسلمان نہیں ہوئے تھے اپنی لاعلمی ظاہر کی ۔یہ سن کر قریش واپس چلے گئے مگر جب تفتیش و تحقیقات کے بعد کچھ"
1۔۔۔۔۔۔السیرۃ النبویۃلابن ھشام،اسماء النقباء الاثنی عشر...الخ،ص۱۷۷،۱۷۸وشرح الزرقانی علی المواھب ، ذکر عرض المصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم نفسہ...الخ،ج۲،ص۸۰،۸۷
انصار کی بیعت کا حال معلوم ہوا تو قریش غیظ و غضب میں آپے سے باہر ہو گئے اور بیعت کرنے والوں کی گرفتاری کے لئے تعاقب کیا مگر قریش حضرت سعد بن عبادہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے سوا کسی اور کو نہیں پکڑ سکے۔ قریش حضرت سعد بن عبادہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو اپنے ساتھ مکہ لائے اور ان کو قید کر دیا مگر جب جبیر بن مطعم اور حارث بن حرب بن امیہ کو پتہ چلا تو ان دونوں نے قریش کو سمجھایا کہ خدا کے لئے سعد بن عبادہ(رضی اﷲ تعالیٰ عنہ)کو فوراً چھوڑ دو ورنہ تمہاری ملک ِشام کی تجارت خطرہ میں پڑجائے گی۔ یہ سن کر قریش نے حضرت سعد بن عبادہ کو قید سے رہاکردیااور وہ بخیریت مدینہ پہنچ گئے۔ (1) (سیرتِ ابن ہشام ج4ص 449 تا 450)
"مدینہ منورہ میں جب اسلام اور مسلمانوں کو ایک پناہ گاہ مل گئی تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو عام اجازت دے دی کہ وہ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ چلے جائیں ۔چنانچہ سب سے پہلے حضرت ابو سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ہجرت کی۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے دوسرے لوگ بھی مدینہ روانہ ہونے لگے۔ جب کفار قریش کو پتہ چلا تو انہوں نے روک ٹوک شروع کر دی مگر چھپ چھپ کر لوگوں نے ہجرت کا سلسلہ جاری رکھایہاں تک کہ رفتہ رفتہ بہت سے صحابہ کرام مدینہ منورہ چلے گئے۔ صرف وہی حضرات مکہ میں رہ گئے جو یا تو کافروں کی قید میں تھے یا اپنی مفلسی کی وجہ سے مجبور تھے۔
حضورِاقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو چونکہ ابھی تک خدا کی طرف سے ہجرت کا"
1۔۔۔۔۔۔السیرۃ النبویۃ لابن ھشام،اسماء النقباء الاثنی عشر...الخ،ص۱۷۸۔۱۷۹
حکم نہیں ملا تھا اس لئے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مکہ ہی میں مقیم رہے اور حضرتِ ابوبکر صدیق اور حضرتِ علی مرتضیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کو بھی آپ نے روک لیا تھا۔ لہٰذا یہ دونوں شمع نبوت کے پروانے بھی آپ ہی کے ساتھ مکہ میں ٹھہرے ہوئے تھے۔
جب مکہ کے کافروں نے یہ دیکھ لیا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے مددگار مکہ سے باہر مدینہ میں بھی ہوگئے اور مدینہ جانے والے مسلمانوں کو انصار نے اپنی پناہ میں لے لیا ہے تو کفار مکہ کو یہ خطرہ محسوس ہونے لگا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)بھی مدینہ چلے جائیں اور وہاں سے اپنے حامیوں کی فوج لے کر مکہ پر چڑھائی نہ کر دیں۔ چنانچہ اس خطرہ کا دروازہ بند کرنے کے لئے کفار مکہ نے اپنے دارالندوہ (پنچائت گھر) میں ایک بہت بڑی کانفرنس منعقد کی ۔اور یہ کفار مکہ کا ایسا زبردست نمائندہ اجتماع تھا کہ مکہ کا کوئی بھی ایسا دانشور اور با اثر شخص نہ تھا جو اس کانفرنس میں شریک نہ ہوا ہو۔ خصوصیت کے ساتھ ابو سفیان،ابو جہل، عتبہ، جبیر بن مطعم، نضربن حارث، ابو البختری، زمعہ بن اسود،حکیم بن حزام، اُمیہ بن خلف وغیرہ وغیرہ تمام سردارانِ قریش اس مجلس میں موجود تھے۔ شیطانِ لعین بھی کمبل اوڑھے ایک بزرگ شیخ کی صورت میں آ گیا۔ قریش کے سرداروں نے نام و نسب پوچھا تو بولا کہ میں ''شیخ نجد''ہوں اس لئے اس کانفرنس میں آگیا ہوں کہ میں تمہارے معاملہ میں اپنی رائے بھی پیش کر دوں۔ یہ سن کر قریش کے سرداروں نے ابلیس کو بھی اپنی کانفرنس میں شریک کر لیااور کانفرنس کی کارروائی شروع ہو گئی۔ جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا معاملہ پیش ہوا تو ابو البختری نے یہ رائے دی کہ ان کو کسی کوٹھری میں بند کرکے ان کے
"ہاتھ پاؤں باندھ دو اور ایک سوراخ سے کھانا پانی ان کو دے دیا کرو۔ شیخ نجدی (شیطان) نے کہا کہ یہ رائے اچھی نہیں ہے۔ خدا کی قسم! اگر تم لوگوں نے ان کو کسی مکان میں قید کر دیا تو یقینا ان کے جاں نثار اصحاب کو اس کی خبر لگ جائے گی اور وہ اپنی جان پر کھیل کر ان کو قید سے چھڑا لیں گے۔
ابو الاسود ربیعہ بن عمر و عامری نے یہ مشورہ دیا کہ ان کو مکہ سے نکال دو تاکہ یہ کسی دوسرے شہر میں جا کر رہیں۔ اس طرح ہم کو ان کے قرآن پڑھنے اور ان کی تبلیغ اسلام سے نجات مل جائے گی۔ یہ سن کر شیخ نجدی نے بگڑ کر کہا کہ تمہاری اس رائے پر لعنت، کیا تم لوگوں کو معلوم نہیں کہ محمد(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)کے کلام میں کتنی مٹھاس اور تاثیر و دل کشی ہے؟ خدا کی قسم! اگر تم لوگ ان کو شہر بدر کرکے چھوڑ دو گے تو یہ پورے ملک عرب میں لوگوں کو قرآن سنا سنا کر تمام قبائل عرب کو اپنا تابع فرمان بنا لیں گے اور پھر اپنے ساتھ ایک عظیم لشکر کو لے کر تم پر ایسی یلغار کر دیں گے کہ تم ان کے مقابلہ سے عاجز و لاچار ہو جاؤ گے اور پھر بجز اس کے کہ تم ان کے غلام بن کر رہو کچھ بنائے نہ بنے گی اس لئے ان کو جلا وطن کرنے کی تو بات ہی مت کرو۔
ابو جہل بولا کہ صاحبو ! میرے ذہن میں ایک رائے ہے جو اب تک کسی کو نہیں سوجھی یہ سن کر سب کے کان کھڑے ہو گئے اور سب نے بڑے اشتیاق کے ساتھ پوچھا کہ کہیے وہ کیا ہے؟ تو ابو جہل نے کہا کہ میری رائے یہ ہے کہ ہر قبیلہ کا ایک ایک مشہور بہادر تلوار لے کر اٹھ کھڑا ہو اور سب یکبارگی حملہ کرکے محمد(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)کو قتل کر ڈالیں۔ اس تدبیر سے خون کرنے کا جرم تمام قبیلوں کے سر پر رہے گا۔ ظاہر ہے کہ خاندان بنو ہاشم اس خون کا بدلہ لینے کے لئے تمام قبیلوں سے لڑنے کی"
طاقت نہیں رکھ سکتے۔ لہٰذا یقینا وہ خون بہا لینے پر راضی ہو جائیں گے اور ہم لوگ مل جل کرآسانی کے ساتھ خون بہا کی رقم ادا کر دیں گے۔ ابو جہل کی یہ خونی تجویز سن کر شیخ نجدی مارے خوشی کے اُچھل پڑا اور کہا کہ بے شک یہ تدبیر بالکل درست ہے۔ اس کے سوا اور کوئی تجویز قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ تمام شرکاء کانفرنس نے اتفاق رائے سے اس تجویز کو پاس کر دیا اور مجلس شوریٰ برخاست ہو گئی اور ہر شخص یہ خوفناک عزم لے کر اپنے اپنے گھر چلا گیا۔ خداوند قدوس نے قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیت میں اس واقعہ کا ذکر فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ
وَاِذْ یَمْکُرُ بِکَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لِیُثْبِتُوۡکَ اَوْ یَقْتُلُوۡکَ اَوْ یُخْرِجُوۡکَ ؕ وَیَمْکُرُوۡنَ وَیَمْکُرُ اللہُ ؕ وَاللہُ خَیۡرُ الْمٰکِرِیۡنَ ﴿۳۰﴾ (1)
"(اے محبوب یاد کیجیے)جس وقت کفار آپ کے بارے میں خفیہ تدبیر کر رہے تھے کہ آپ کو قید کر دیں یا قتل کر دیں یا شہر بدر کر دیں یہ لوگ خفیہ تدبیر کر رہے تھے اور اﷲ خفیہ تدبیر کر رہا تھا اور اﷲ کی پوشیدہ تدبیر سب سے بہتر ہے۔
اﷲ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر کیا تھی؟ اگلے صفحہ پر اس کا جلوہ دیکھیے کہ کس طرح اس نے اپنے حبیب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی حفاظت فرمائی اور کفار کی ساری اسکیم کو کس طرح اس قادر قیوم نے تہس نہس فرما دیا۔ (2) (ابن ِہشام)
ہجرتِ رسول کا واقعہ
جب کفار حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے قتل پر اتفاق کرکے کانفرنس ختم کر چکے"
"1۔۔۔۔۔۔پ۹،الانفال :۳۰
2۔۔۔۔۔۔السیرۃ النبویۃ لابن ھشام،ہجرۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم،ص۱۹۱۔۱۹۳"
اور اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے تو حضرت جبریل امین علیہ السلام رب العالمین کا حکم لے کر نازل ہو گئے کہ اے محبوب! آج رات کو آپ اپنے بستر پر نہ سوئیں اور ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے جائیں۔ چنانچہ عین دوپہر کے وقت حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے گھر تشریف لے گئے اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ سب گھر والوں کو ہٹا دو کچھ مشورہ کرنا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلمآپ پر میرے ماں باپ قربان یہاں آپ کی اہلیہ(حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا)کے سوا اور کوئی نہیں ہے( اُس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی شادی ہو چکی تھی) حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابوبکر ! اﷲ تعالیٰ نے مجھے ہجرت کی اجازت فرما دی ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ میرے ماں باپ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر قربان!مجھے بھی ہمراہی کا شرف عطا فرمائیے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کی درخواست منظور فرما لی۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے چار مہینے سے دو اونٹنیاں ببول کی پتی کھلا کھلا کر تیار کی تھیں کہ ہجرت کے وقت یہ سواری کے کام آئیں گی۔ عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ان میں سے ایک اونٹنی آپ قبول فرما لیں۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قبول ہے مگر میں اس کی قیمت دوں گا ۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے بادل ناخواستہ فرمان رسالت سے مجبور ہو کر اس کو قبول کیا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا تو اس وقت بہت کم عمر تھیں لیکن ان کی بڑی بہن حضرت بی بی اسماء رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے سامان سفر درست کیا اور توشہ دان میں کھانا رکھ کر اپنی کمر کے پٹکے کو پھاڑ کر دو ٹکڑے کیے۔ ایک سے توشہ دان کو
"باندھا اور دوسرے سے مشک کا منہ باندھا ۔یہ وہ قابل فخر شرف ہے جس کی بنا پر ان کو ''ذات النطاقین''(دو پٹکے والی) کے معزز لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔
اس کے بعد حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک کافر کو جس کا نام ''عبداﷲ بن اُرَیْقَطْ'' تھا جو راستوں کا ماہر تھا راہ نمائی کے لئے اُجرت پر نوکر رکھااور ان دونوں اونٹنیوں کو اس کے سپرد کرکے فرمایا کہ تین راتوں کے بعد وہ ان دونوں اونٹنیوں کو لے کر ''غارثور'' کے پاس آ جائے۔ یہ سارا نظام کر لینے کے بعد حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے مکان پر تشریف لائے۔(1) (بخاری ج1 ص553 تا 554 باب ہجرت النبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)"
کفار مکہ نے اپنے پروگرام کے مطابق کاشانۂ نبوت کو گھیر لیااور انتظار کرنے لگے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سو جائیں تو ان پر قاتلانہ حملہ کیا جائے۔ اس وقت گھر میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس صرف علی مرتضیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تھے۔ کفار مکہ اگرچہ رحمت عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے بدترین دشمن تھے مگر اس کے باوجود حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی امانت و دیانت پر کفار کو اس قدر اعتماد تھا کہ وہ اپنے قیمتی مال و سامان کو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس امانت رکھتے تھے۔چنانچہ اس وقت بھی بہت سی امانتیں کاشانۂ نبوت میں تھیں۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ تم میری سبز رنگ کی چادر اوڑھ کر میرے بستر پر سو رہو اور میرے چلے
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب مناقب الانصار،باب ہجرۃالنبی صلی اللہ علیہ وسلم
واصحابہ، الحدیث: ۳۹۰۵،ج۲،ص۵۹۲والسیرۃ النبویۃ لابن ھشام،ہجرۃ الرسول
صلی اللہ علیہ وسلم، ص۱۹۲۔۱۹۳"
"جانے کے بعد تم قریش کی تمام امانتیں ان کے مالکوں کو سونپ کر مدینہ چلے آنا۔
یہ بڑا ہی خوفناک اور بڑے سخت خطرہ کا موقع تھا۔ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو معلوم تھا کہ کفار ِمکہ حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے قتل کا ارادہ کر چکے ہیں مگر حضورِاقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے اس فرمان سے کہ تم قریش کی ساری امانتیں لوٹا کر مدینہ چلے آنا حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو یقین کامل تھا کہ میں زندہ رہوں گا اور مدینہ پہنچوں گا اس لئے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا بستر جو آج کانٹوں کا بچھونا تھا۔ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے لئے پھولوں کی سیج بن گیا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بستر پر صبح تک آرام کے ساتھ میٹھی میٹھی نیند سوتے رہے۔ اپنے اسی کارنامے پر فخر کرتے ہوئے شیر خدا نے اپنے اشعار میں فرمایا کہ"
"وَقَیْتُ بِنَفْسِیْ خَیْرَمَنْ وَطِیئَ الثَّریٰ وَمَنْ طَافَ بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ وَبِالْحَجَرِ"
میں نے اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر اس ذات گرامی کی حفاظت کی جو زمین پر چلنے والوں اور خانہ کعبہ و حطیم کا طواف کرنے والوں میں سب سے زیادہ بہتر اور بلند مرتبہ ہیں۔
"رَسُوْلُ اِلٰہٍ خَافَ اَنْ یَّمْکُرُوْابِہٖ فَنَجَّاہُ ذُوالطَّوْلِ الْاِلٰہُ مِنَ الْمَکْرِ"
رسول خدا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو یہ اندیشہ تھا کہ کفار مکہ ان کے ساتھ خفیہ چال چل جائیں گے مگر خداوند مہربان نے ان کو کافروں کی خفیہ تدبیر سے بچا لیا۔(1) (زرقانی علی المواہب ج1 ص322)
"1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ،قسم دوم ، با ب چہارم، ج۲،ص۵۸وشرح الزرقانی علی المواھب، باب
ہجرۃ المصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم ،ج۲،ص۹۵والسیرۃ النبویۃ لابن ھشام،
ہجرۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم، ص۱۹۴"
"حضورِاقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے بستر نبوت پر جان ولایت کو سلا کر ایک مٹھی خاک ہاتھ میں لی اور سورهٔ یس ۤ کی ابتدائی آیتوں کو تلاوت فرماتے ہوئے نبوت خانہ سے باہر تشریف لائے اور محاصرہ کرنے والے کافروں کے سروں پر خاک ڈالتے ہوئے ان کے مجمع سے صاف نکل گئے۔نہ کسی کو نظر آئے نہ کسی کو کچھ خبر ہوئی۔ ایک دوسرا شخص جو اس مجمع میں موجود نہ تھااس نے ان لوگوں کو خبر دی کہ محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) تو یہاں سے نکل گئے اور چلتے وقت تمہارے سروں پر خاک ڈال گئے ہیں۔ چنانچہ ان کور بختوں نے اپنے سروں پر ہاتھ پھیرا تو واقعی ان کے سروں پر خاک اور دھول پڑی ہوئی تھی۔(1)(مدارج النبوۃ ج2 ص57)
رحمت عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے دولت خانہ سے نکل کر مقام ''حزورہ'' کے پاس کھڑے ہو گئے اور بڑی حسرت کے ساتھ ''کعبہ'' کو دیکھا اور فرمایا کہ اے شہر مکہ! تو مجھ کو تمام دنیا سے زیادہ پیارا ہے۔ اگر میری قوم مجھ کو تجھ سے نہ نکالتی تو میں تیرے سوا کسی اور جگہ سکونت پذیر نہ ہوتا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے پہلے ہی قرار داد ہو چکی تھی۔ وہ بھی اسی جگہ آ گئے اور اس خیال سے کہ کفار مکہ ہمارے قدموں کے نشان سے ہمارا راستہ پہچان کر ہمارا پیچھا نہ کریں پھر یہ بھی دیکھا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے پائے نازک زخمی ہو گئے ہیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنے کندھوں پر سوار کر لیااور اس طرح خاردار جھاڑیوں اور نوک دار پتھروں والی پہاڑیوں کو روندتے ہوئے اسی رات ''غارِ ثور'' پہنچے ۔(2) (مدارج النبوۃ ج2 ص58)"
"1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ،قسم دوم ، با ب چہارم، ج۲،ص۵۷
2۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ،قسم دوم ، با ب چہارم، ج۲،ص۵۷وشرح الزرقانی علی المواھب،
باب ہجرۃ المصطفٰی...الخ،ج۲،ص۱۰۸"
"حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ پہلے خود غار میں داخل ہوئے اور اچھی طرح غار کی صفائی کی اور اپنے بدن کے کپڑے پھاڑ پھاڑ کر غار کے تمام سوراخوں کو بند کیا۔ پھر حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم غار کے اندر تشریف لے گئے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی گودمیں اپنا سر مبارک رکھ کر سو گئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ایک سوراخ کو اپنی ایڑی سے بند کر رکھا تھا۔ سوراخ کے اندر سے ایک سانپ نے بار بار یارغار کے پاؤں میں کاٹا مگر حضرت صدیق جاں نثار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس خیال سے پاؤں نہیں ہٹایا کہ رحمتِعالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے خوابِ راحت میں خلل نہ پڑ جائے مگر درد کی شدت سے یارغار کے آنسوؤں کی دھار کے چند قطرات سرور کائنات کے رخسار پرنثار ہو گئے۔ جس سے رحمتِ عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلمبیدار ہو گئے اور اپنے یارِ غار کو روتا دیکھ کر بے قرار ہو گئے پوچھا ابوبکر! کیا ہوا؟ عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مجھے سانپ نے کاٹ لیا ہے۔ یہ سن کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے زخم پر اپنا لعاب دہن لگا دیاجس سے فوراً ہی سارا درد جاتا رہا۔ حضورِاقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تین رات اس غار میں رونق افروز رہے۔(1)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے جوان فرزند حضرت عبداﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ روزانہ رات کو غار کے منہ پر سوتے اور صبح سویرے ہی مکہ چلے جاتے اور پتہ لگاتے کہ قریش کیا تدبیریں کر رہے ہیں؟ جو کچھ خبر ملتی شام کو آکر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے عرض کردیتے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے غلام حضرت عامر بن فہیرہ رضی اﷲ"
"1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ والزرقانی ،باب ہجرۃ المصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم ...الخ،
ج۲،ص۱۲۱و المواھب اللدنیۃمع شرح الزرقانی، باب ہجرۃ المصطفٰی صلی اللہ
علیہ وسلم...الخ،ج۲،ص۱۲۷"
"تعالیٰ عنہ کچھ رات گئے چراگاہ سے بکریاں لے کر غار کے پاس آ جاتے اور ان بکریوں کا دودھ دونوں عالم کے تاجدارصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور ان کے یار غار پی لیتے تھے۔(1) (زرقانی علی المواہب ج1 ص339)
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تو غار ثور میں تشریف فرما ہو گئے۔ اُدھر کاشانۂ نبوت کا محاصرہ کرنے والے کفار جب صبح کو مکان میں داخل ہوئے تو بستر نبوت پر حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تھے۔ ظالموں نے تھوڑی دیر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھ گچھ کرکے آپ کو چھوڑ دیا۔ پھر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی تلاش و جستجو میں مکہ اور اطراف و جوانب کا چپہ چپہ چھان مارا۔ یہاں تک کہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے غار ثور تک پہنچ گئے مگر غار کے منہ پر اس وقت خداوندی حفاظت کا پہرہ لگا ہوا تھا۔ یعنی غار کے منہ پر مکڑی نے جالا تن دیا تھا اور کنارے پر کبوتری نے انڈے دے رکھے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر کفار قریش آپس میں کہنے لگے کہ اس غارمیں کوئی انسان موجود ہوتا تو نہ مکڑی جالا تنتی نہ کبوتری یہاں انڈے دیتی۔ کفار کی آہٹ پا کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کچھ گھبرائے اور عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اب ہمارے دشمن اس قدر قریب آ گئے ہیں کہ اگر وہ اپنے قدموں پر نظر ڈالیں گے تو ہم کو دیکھ لیں گے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ"
لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللہَ مَعَنَا مت گھبراؤ !خدا ہمارے ساتھ ہے۔
اس کے بعد اﷲ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے قلب پر سکون و اطمینان کا ایسا سکینہ اُتار دیا کہ وہ بالکل ہی بے خوف ہو گئے(2)۔ حضرت ابوبکر صدیق
"1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ والزرقانی،باب ہجرۃ المصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم...الخ،ج۲،ص۱۲۷
2۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ والزرقانی ،باب ہجرۃ المصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم...الخ ،
ج۲، ص۱۲۳ملخصاًومدارج النبوت ،قسم دوم ، با ب چہارم، ج۲،ص۵۹"
رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی یہی وہ جاں نثاریاں ہیں جن کو دربار نبوت کے مشہور شاعر حضرت حسان بن ثابت انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کیا خوب کہا ہے کہ ؎
"وَثَانِیُ اثْنَیْنِ فِی الْغَارِ الْمُنِیْفِ وَقَدْ طَافَ الْعَدُوُّ بِہٖ اِذْ صَاعَدَ الْجَبَلَا"
اور دومیں کے دوسرے (ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ)جب کہ پہاڑ پر چڑھ کر بلند مرتبہ غار میں اس حال میں تھے کہ دشمن ان کے ارد گرد چکر لگا رہا تھا۔
"وَکَانَ حِبَّ رَسُوْلِ اﷲِ قَدْ عَلِمُوْا مِنَ الْخَلَائِقِ لَمْ یَعْدِلْ بِہٖ بَدَلَا"
" اور وہ (ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ)رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے محبوب تھے۔ تمام مخلوق اس بات کو جانتی ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے کسی کو بھی ان کے برابر نہیں ٹھہرایا ہے۔ (1)(زرقانی علی المواہب ج 1ص 337)
بہر حال چوتھے دن حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم یکم ربیع الاول دوشنبہ کے دن غار ثور سے باہر تشریف لائے۔ عبداﷲ بن اریقط جس کو رہنمائی کے لئے کرایہ پر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے نوکر رکھ لیا تھا وہ قرارداد کے مطابق دو اونٹنیاں لے کر غار ثور پر حاضر تھا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور ایک اونٹنی پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور حضرت عامر بن فہیرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بیٹھے اور عبداﷲ بن اُریقط آگے آگے پیدل چلنے لگا اور عام راستہ سے ہٹ کر ساحل سمندر کے غیر معروف راستوں سے سفر شروع کر دیا۔(2)"
"1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃمع شرح الزرقانی، باب ہجرۃ المصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم...الخ،
ج۲،ص۱۲۴
2۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃمع شرح الزرقانی، باب ہجرۃ المصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم...الخ،
ج۲، ص۱۲۸،۱۲۹ملخصاً"
اُدھر اہل مکہ نے اشتہار دے دیا تھا کہ جو شخص محمد(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کو گرفتار کرکے لائے گا اس کو ایک سو اونٹ انعام ملے گا۔ اس گراں قدر انعام کے لالچ میں بہت سے لالچی لوگوں نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی تلاش شروع کر دی اور کچھ لوگ تو منزلوں دور تک تعاقب میں گئے۔(1)
دوسرے روز مقامِ قدید میں اُمِ معبد عاتکہ بنت خالد خزاعیہ کے مکان پر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا گزر ہوا ۔اُمِ معبد ایک ضعیفہ عورت تھی جو اپنے خیمہ کے صحن میں بیٹھی رہا کرتی تھی اور مسافروں کو کھانا پانی دیا کرتی تھی۔حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس سے کچھ کھانا خریدنے کا قصد کیا مگر اس کے پاس کوئی چیز موجود نہ تھی۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے دیکھا کہ اس کے خیمہ کے ایک جانب ایک بہت ہی لاغر بکری ہے۔ دریافت فرمایا کیا یہ دودھ دیتی ہے ؟ اُمِ معبد نے کہا نہیں۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم اجازت دو تو میں اس کا دودھ دوہ لوں۔ اُمِ معبد نے اجازت دے دی اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ''بسم اﷲ'' پڑھ کر جو اس کے تھن کو ہاتھ لگایا تو اس کا تھن دودھ سے بھر گیا اور اتنا دودھ نکلا کہ سب لوگ سیراب ہو گئے اور اُمِ معبد کے تمام برتن دودھ سے بھر گئے۔ یہ معجزہ دیکھ کر ام معبد اور ان کے خاوند دونوں مشرف بہ اسلام ہو گئے۔(2) (مدارج النبوۃ ج 2 ص61)
"1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،باب ہجرۃ المصطفٰیصلی اللہ علیہ وسلم...الخ،ج۲،ص۱۱۰
2۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ،قسم دوم ، با ب چہارم، ج۲،ص۶۱والمواھب اللدنیۃمع شرح
الزرقانی، باب ہجرۃ المصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم...الخ،ج۲،ص۱۳۰"
روایت ہے کہ اُمِ معبد کی یہ بکری 18ھ تک زندہ رہی اور برابر دودھ دیتی رہی اور حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں جب ''عام الرماد'' کا سخت قحط پڑا کہ تمام جانوروں کے تھنوں کا دودھ خشک ہو گیا اس وقت بھی یہ بکری صبح و شام برابر دودھ دیتی رہی۔(1)(زرقانی علی المواہب ج1 ص346)
جب اُمِ معبد کے گھر سے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم آگے روانہ ہوئے تو مکہ کا ایک مشہور شہسوار سراقہ بن مالک بن جعشم تیز رفتار گھوڑے پر سوار ہو کر تعاقب کرتا نظر آیا۔ قریب پہنچ کر حملہ کرنے کا ارادہ کیا مگر اس کے گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور وہ گھوڑے سے گر پڑا مگر سو اونٹوں کا انعام کوئی معمولی چیز نہ تھی۔ انعام کے لالچ نے اسے دوبارہ اُبھارا اور وہ حملہ کی نیت سے آگے بڑھا تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی دعا سے پتھریلی زمین میں اس کے گھوڑے کا پاؤں گھٹنوں تک زمین میں دھنس گیا۔ سراقہ یہ معجزہ دیکھ کر خوف و دہشت سے کانپنے لگا اور امان ! امان! پکارنے لگا۔ رسول اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا دل رحم و کرم کا سمندر تھا۔ سراقہ کی لاچاری اور گریہ زاری پر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا دریائے رحمت جوش میں آ گیا۔ دعا فرما دی تو زمین نے اس کے گھوڑے کو چھوڑ دیا ۔ اس کے بعد سراقہ نے عرض کیا کہ مجھ کو امن کا پروانہ لکھ دیجیے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے حکم سے حضرت عامر بن فہیرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے سراقہ کے لئے امن کی تحریر لکھ دی۔ سراقہ نے اس تحریر کو اپنے ترکش میں رکھ لیااور واپس لوٹ گیا۔ راستہ میں جو شخص بھی حضور صلی اﷲ
"1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃمع شرح الزرقانی، باب ہجرۃ المصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم...الخ،
ج۲،ص۱۴۲"
"تعالیٰ علیہ وسلم کے بارے میں دریافت کرتا تو سراقہ اس کو یہ کہہ کر لوٹا دیتے کہ میں نے بڑی دور تک بہت زیادہ تلاش کیا مگر آنحضرت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اس طرف نہیں ہیں۔ واپس لوٹتے ہوئے سراقہ نے کچھ سامان سفر بھی حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں بطور نذرانہ کے پیش کیا مگر آنحضرت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے قبول نہیں فرمایا۔(1)
(بخاری باب ہجرۃ النبی ج1 ص554 و زرقانی ج1 ص346 و مدارج النبوۃ ج2 ص62)
سراقہ اس وقت تو مسلمان نہیں ہوئے مگر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی عظمت نبوت اور اسلام کی صداقت کا سکہ ان کے دل پر بیٹھ گیا۔ جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فتح مکہ اور جنگ طائف و حنین سے فارغ ہو کر ''جعرانہ'' میں پڑاؤ کیا تو سراقہ اسی پروانۂ امن کو لے کر بارگاہِ نبوت میں حاضر ہو گئے اور اپنے قبیلہ کی بہت بڑی جماعت کے ساتھ اسلام قبول کر لیا۔(2) (دلائل النبوۃ ج2 ص15 و مدارج النبوۃ ج2 ص62)
واضح رہے کہ یہ وہی سراقہ بن مالک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہیں جن کے بارے میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے علم غیب سے غیب کی خبر دیتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ اے سراقہ!تیرا کیا حال ہو گا جب تجھ کو ملک فارس کے بادشاہ کسریٰ کے دونوں کنگن پہنائے جائیں گے؟ اس ارشاد کے برسوں بعد جب حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں ایران فتح ہوا اور کسریٰ کے کنگن دربار خلافت میں لائے گئے تو امیر المومنین حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے تاجدار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے"
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری ، کتاب مناقب الانصار، باب ہجرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم...الخ،
الحدیث:۳۹۰۶،ج۲،ص۵۹۳
2۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ،قسم دوم ، با ب چہارم، ج۲،ص۶۲وشرح الزرقانی علی المواھب،
قصۃ سراقۃ، ج۲، ص۱۴۵ملخصاً"
فرمان کی تصدیق و تحقیق کے لئے وہ کنگن حضرت سراقہ بن مالک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو پہنا دیئے اور فرمایا کہ اے سراقہ!رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ کہو کہ اﷲ تعالیٰ ہی کے لئے حمد ہے جس نے ان کنگنوں کو بادشاہ فارس کسریٰ سے چھین کر سراقہ بدوی کو پہنا دیا۔ (1)حضرت سراقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے 24ھ میں وفات پائی۔جب کہ حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تخت خلافت پر رونق افروز تھے۔(زرقانی علی المواہب ج1 ص246 و ص348)
جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام مدینہ کے قریب پہنچ گئے تو ''بریدہ اسلمی'' قبیلۂ بنی سہم کے ستر سواروں کو ساتھ لے کر اس لالچ میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی گرفتاری کے لئے آئے کہ قریش سے ایک سو اونٹ انعام مل جائے گا۔ مگر جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے سامنے آئے اور پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں محمد بن عبداﷲ ہوں اور خدا کا رسول ہوں۔جمال و جلال نبوت کا ان کے قلب پر ایسا اثر ہوا کہ فوراً ہی کلمہ شہادت پڑھ کر دامن اسلام میں آگئے اور کمال عقیدت سے یہ درخواست پیش کی کہ یا رسول اﷲ!صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم میری تمنا ہے کہ مدینہ میں حضور کا داخلہ ایک جھنڈے کے ساتھ ہونا چاہیے،یہ کہا اور اپنا عمامہ سر سے اتار کر اپنے نیزہ پر باندھ لیا اور حضورِاقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے علمبردار بن کر مدینہ تک آگے آگے چلتے رہے۔ پھر دریافت کیا کہ یارسول اﷲ!صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم آپ مدینہ میں کہاں اتریں گے تاجدار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میری اونٹنی خدا کی طرف سے مامور ہے ۔یہ جہاں بیٹھ جائے گی وہی میری قیام گاہ ہے۔(2) (مدارج النبوۃ ج2 ص62)
"1۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب، قصۃ سراقۃ، ج۲،ص۱۴۵
2۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ،قسم دوم ، با ب چہارم، ج۲،ص۶۲"
اس سفر میں حسن اتفاق سے حضرت زبیر بن العوام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ملاقات ہو گئی جو حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی پھوپھی حضرت صفیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے بیٹے ہیں۔ یہ ملک شام سے تجارت کا سامان لے کر آ رہے تھے۔ انہوں نے حضورِ انور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں چند نفیس کپڑے بطور نذرانہ کے پیش کیے جن کو تاجدار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے قبول فرما لیا۔(1)(مدارج النبوۃ ج2 ص63)
حضورِاکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی آمد آمد کی خبر چونکہ مدینہ میں پہلے سے پہنچ چکی تھی اور عورتوں بچوں تک کی زبانوں پر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی تشریف آوری کا چرچا تھا ۔اس لئے اہل مدینہ آپ کے دیدار کے لئے انتہائی مشتاق و بے قرار تھے۔ روزانہ صبح سے نکل نکل کر شہر کے باہر سراپا انتظار بن کر استقبال کے لئے تیار رہتے تھے اورجب دھوپ تیز ہو جاتی تو حسرت و افسوس کے ساتھ اپنے گھروں کو واپس لوٹ جاتے۔ ایک دن اپنے معمول کے مطابق اہل مدینہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی راہ دیکھ کر واپس جا چکے تھے کہ ناگہاں ایک یہودی نے اپنے قلعہ سے دیکھا کہ تاجدار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی سواری مدینہ کے قریب آن پہنچی ہے۔ اس نے بہ آواز بلند پکارا کہ اے مدینہ والو!لو تم جس کا روزانہ انتظار کرتے تھے وہ کاروانِ رحمت آگیا۔ یہ سن کر
"1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ،قسم دوم ، با ب چہارم، ج۲،ص۶۳مختصراًودلائل النبوۃ للبیہقی،
باب من استقبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،ج۲،ص۴۹۸"
"تمام انصار بدن پر ہتھیار سجا کراور وجد و شادمانی سے بے قرار ہو کر دونوں عالم کے تاجدارصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا استقبال کرنے کے لئے اپنے گھروں سے نکل پڑے اور نعرہ تکبیر کی آوازوں سے تمام شہر گونج اُٹھا۔(1)(مدارج النبوۃ ج2 ص63 وغیرہ)
مدینہ منورہ سے تین میل کے فاصلہ پر جہاں آج ''مسجدقبا'' بنی ہوئی ہے۔ 12ربیع الاول کو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم رونق افروز ہوئے اور قبیلۂ عمرو بن عوف کے خاندان میں حضرت کلثوم بن ہدم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے مکان میں تشریف فرما ہوئے۔ اہل خاندان نے اس فخر و شرف پر کہ دونوں عالم کے میزبان ان کے مہمان بنے اﷲ اکبر کا پرجوش نعرہ مارا۔ چاروں طرف سے انصار جوشِ مسرت میں آتے اور بارگاہ رسالت میں صلاۃ و سلام کا نذرانہ عقیدت پیش کرتے۔ اکثر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پہلے ہجرت کرکے مدینہ منورہ آئے تھے وہ لوگ بھی اس مکان میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی حکم نبوی کے مطابق قریش کی امانتیں واپس لوٹا کر تیسرے دن مکہ سے چل پڑے تھے وہ بھی مدینہ آ گئے اور اسی مکان میں قیام فرمایا اور حضرتِ کلثوم بن ہدم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور ان کے خاندان والے ان تمام مقدس مہمانوں کی مہمان نوازی میں دن رات مصروف رہنے لگے ۔(2)
(مدارج النبوۃ ج 2 ص63 و بخاری ج1 ص560)
اﷲ اکبر! عمروبن عوف کے خاندان میں حضرت سید الانبیاء صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم و سید الاولیاء اور صالحین صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے نورانی اجتماع سے ایسا سماں بندھ گیا ہو گا"
"1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ،قسم دوم ، با ب چہارم، ج۲،ص۶۳ملخصاً
2۔۔۔۔۔۔دلائل النبوۃ للبیہقی، باب من استقبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم...الخ، ج۲،
ص۴۹۹۔۵۰۰ ملتقطاً ومدارج النبوت ،قسم دوم ، با ب چہارم، ج۲،ص۶۳ملخصاً)"
"کہ غالباً چاند، سورج اور ستارے حیرت کے ساتھ اس مجمع کو دیکھ کر زبانِ حال سے کہتے ہوں گے کہ یہ فیصلہ مشکل ہے کہ آج انجمن آسمان زیادہ روشن ہے یا حضرت کلثوم بن ہدم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مکان؟ اور شاید خاندان عمرو بن عوف کا بچہ بچہ جوشِ مسرت سے مسکرا مسکرا کر زبانِ حال سے یہ نغمہ گاتا ہو گا کہ ؎
اُن کے قدم پہ میں نثارجن کے قدوم ناز نے
اُجڑے ہوئے دیار کو رشک چمن بنا دیا"
"اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَ بَارِکْ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّآلِہٖ
وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ"
"اَلْحَمْدُ ِﷲِ! حضور رحمتِ عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ''مکی زندگی'' آپ پڑھ چکے۔ اب ہم آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ''مدنی زندگی'' پر سنہ وار واقعات تحریر کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ آپ بھی اس کے مطالعہ سے آنکھوں میں نور اور دل میں سرور کی دولت حاصل کریں۔
عبدالمصطفیٰ الاعظمی عفی عنہ
28شعبان 1395ھ
گھوسی (بحالت علالت)"
"تعالیٰ اﷲ ذات مصطفی کا حسن لاثانی
کہ یکجا جمع ہیں جس میں تمام اوصافِ امکانی
دعائے یونسی، خلق خلیلی، صبر ایوبی
جلال موسوی، زہدِ مسیحی، حسن کنعانی
(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)"
''قبا''میں سب سے پہلاکام ایک مسجد کی تعمیرتھی۔ اس مقصد کے لیے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت کلثوم بن ہدم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی ایک زمین کو پسند فرمایا جہاں خاندان عمرو بن عوف کی کھجوریں سکھائی جاتی تھیں اسی جگہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے اپنے مقدس ہاتھوں سے ایک مسجد کی بنیاد ڈالی ۔یہی وہ مسجد ہے جو آج بھی''مسجد قباء''کے نام سے مشہور ہے اور جس کی شان میں قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی ۔
لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَی التَّقْوٰی مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ اَحَقُّ اَنۡ تَقُوۡمَ فِیۡہِ ؕ فِیۡہِ رِجَالٌ یُّحِبُّوۡنَ اَنۡ یَّتَطَہَّرُوۡا ؕ وَاللہُ یُحِبُّ الْمُطَّہِّرِیۡنَ ﴿۱۰۸﴾ (1)
"یقینا وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے ہی دن سے پرہیز گاری پر رکھی ہوئی ہے وہ اس بات کی زیادہ حقدار ہے کہ آپ اس میں کھڑے ہوں اس (مسجد) میں ایسے لوگ ہیں جن کو پاکی بہت پسند ہے اور اﷲ تعالیٰ پاک رہنے والوں سے محبت فرماتاہے۔(توبہ)
اس مبارک مسجد کی تعمیرمیں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ساتھ ساتھ خود حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بھی بہ نفس نفیس اپنے دست مبارک سے ا تنے بڑے بڑے پتھر اُٹھاتے تھے کہ ان کے بوجھ سے جسم نازک خم ہو جاتا تھااور اگر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے جاں نثار اصحاب میں سے کوئی عرض کرتا یارسول اﷲ! آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم پر"
1۔۔۔۔۔۔پ۱۱،التوبۃ:۱۰۸
ہمارے ماں باپ قربان ہوجائیں آپ چھوڑ دیجیے ہم اٹھائیں گے، تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اس کی دلجوئی کے لیے چھوڑ دیتے مگر پھر اسی وزن کا دوسرا پتھر اٹھا لیتے اور خود ہی اس کو لاکر عمارت میں لگاتے اور تعمیر ی کام میں جوش و ولولہ پیدا کرنے کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ساتھ آواز ملاکر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت عبداﷲ بن رواحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے یہ اشعار پڑھتے جاتے تھے کہ
"اَفْلَحَ مَنْ یُّعَالِجُ الْمَسْجِدَا وَیَقْرَءُ الْقُرْاٰنَ قَائِمًا وَّقَاعِدًا
وَلَا یَبِیْتُ اللَّیْلَ عَنْہُ رَاقِدًا"
وہ کامیا ب ہے جو مسجد تعمیر کرتا ہے اور اٹھتے بیٹھتے قرآن پڑھتا ہے اور سوتے ہوئے رات نہیں گزارتا ۔(1)(وفا ء الوفاء ج ۱ص۱۸۰)
چودہ یا چوبیس روز کے قیام میں مسجد قباء کی تعمیر فرما کر جمعہ کے دن آپ ''قباء'' سے شہر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے، راستہ میں قبیلۂ بنی سالم کی مسجد میں پہلا جمعہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے پڑھا۔ یہی وہ مسجد ہے جو آج تک ''مسجد الجمعہ'' کے نام سے مشہور ہے۔ اہل شہر کو خبر ہوئی تو ہر طرف سے لوگ جذبات شوق میں مشتاقانہ استقبال کے لیے دوڑپڑے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے دادا عبدالمطلب کے ننہالی رشتہ دار''بنو النجار'' ہتھیار لگائے ''قباء'' سے شہر تک دورویہ صفیں باندھے مستانہ وار چل رہے تھے۔ آپ راستہ میں تمام قبائل کی محبت کاشکریہ ادا کرتے اور سب کو خیر
"1۔۔۔۔۔۔وفاء الوفاء لسمہودی ، الباب الثالث، الفصل العاشرفی دخول النبی صلی اللہ علیہ
وسلم...الخ،المجلد الاول،الجزء الاول،ص۲۵۳"
وبرکت کی دعائیں دیتے ہوئے چلے جا رہے تھے ۔ شہر قریب آگیا تو اہل مدینہ کے جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ پردہ نشین خواتین مکانوں کی چھتوں پر چڑھ گئیں اور یہ استقبالیہ اشعار پڑھنے لگیں کہ ؎
"طَلَعَ لْبَدْرُ عَلَیْنَا مِنْ ثَنِیَّاتِ الْوَدَاع
وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَیْنَا مَا دَٰعی لِلّٰہِ دَاعِی"
ہم پر چاند طلوع ہو گیا و داع کی گھاٹیوں سے، ہم پر خدا کا شکر واجب ہے۔ جب تک اﷲ سے دعاء مانگنے والے دعا مانگتے رہیں۔
"اَیُّھَا الْمَبْعُوْثُ فِیْنَا جِئْتَ بِالْاَمْرِ الْمُطَاع
اَنْتَ شَرَّفْتَ الْمَدِیْنَۃَ مَرْحَبًا یَاخَیْرَ دَاعٖ"
اے وہ ذات گرامی! جو ہمارے اندر مبعوث کئے گئے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم وہ دین لائے جو اطاعت کے قابل ہے آپ نے مدینہ کو مشرف فرمادیا تو آپ کے لیے ''خوش آمدید''ہے اے بہترین دعوت دینے والے۔
"فَلَبِسْنَا ثَوْبَ یَمَنٍ بَعْدَ تَلْفِیْقِ الرِّقَاعٖ
فَعَلَیْکَ اللہُ صَلّٰی مَا سَعیٰ لِلّٰہِ سَاعٖ"
" توہم لوگوں نے یمنی کپڑے پہنے حالانکہ اس سے پہلے پیوند جوڑ جوڑ کر کپڑے پہنا کرتے تھے تو آپ پر اﷲ تعالیٰ اس وقت تک رحمتیں نازل فرمائے ۔ جب تک اﷲ کے لئے کوشش کرنے والے کوشش کرتے رہیں۔
مدینہ کی ننھی ننھی بچیاں جوشِ مسرت میں جھوم جھوم کر اور دف بجا بجا کر یہ گیت گاتی تھیں کہ ؎"
"نَحْنُ جَوَارٍ مِّنْ بَنِی النَّجَّارٖ یَاحَبَّذا مُحَمَّدٌ مِّنْ جَارٖ"
" ہم خاندان ''بنو النجار'' کی بچیاں ہیں، واہ کیا ہی خوب ہوا کہ حضرت محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہمارے پڑوسی ہو گئے۔ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان بچیوں کے جوش مسرت اور ان کی والہانہ محبت سے متاثر ہو کر پوچھا کہ اے بچیو! کیا تم مجھ سے محبت کرتی ہو؟ تو بچیوں نے یک زبان ہو کر کہاکہ ''جی ہاں! جی ہاں۔'' یہ سن کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خوش ہو کر مسکراتے ہوئے فرمایا کہ ''میں بھی تم سے پیار کرتا ہوں۔'' (1) (زرقانی علی المواہب ج۱ ص۳۵۹ و ۳۶۰)
چھوٹے چھوٹے لڑکے اور غلام جھنڈ کے جھنڈ مارے خوشی کے مدینہ کی گلیوں میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی آمد آمد کا نعرہ لگاتے ہوئے دوڑتے پھرتے تھے۔ صحابی رسول براء بن عازب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جو فرحت و سروراور انوار و تجلیات حضور سرور عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے مدینہ میں تشریف لانے کے دن ظاہر ہوئے نہ اس سے پہلے کبھی ظاہر ہوئے تھے نہ اس کے بعد ۔(2) (مدارج النبوۃ ج ۲ ص۶۵)"
تمام قبائل انصار جو راستہ میں تھے انتہائی جوش مسرت کے ساتھ اونٹنی کی مہار تھام کر عرض کرتے یا رسول اﷲ!صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم آپ ہمارے گھروں کو شرفِ نزول بخشیں مگر آپ ان سب محبین سے یہی فرماتے کہ میری اونٹنی کی مہار چھوڑ دو جس جگہ خدا کو منظور ہو گا اسی جگہ میری اونٹنی بیٹھ جائے گی۔ چنانچہ جس جگہ آج مسجد نبوی
"1۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب،خاتمۃ فی وقائع متفرقۃ...الخ،ج۲،ص۱۵۶،۱۵۷، ۱۶۵۔۱۶۹ ملتقطاً وصحیح البخاری ، کتاب الصلٰوۃ، باب ھل تنبش قبور...الخ، الحدیث:۴۲۸،ج۱،ص۱۶۵
2۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ،قسم دوم ، با ب چہارم، ج۲،ص۶۳وشرح الزرقانی علی المواھب، خاتمۃ فی وقائع متفرقۃ...الخ،ج۲،ص۱۶۵ملخصاً"
شریف ہے اس کے پاس حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا مکان تھا اُسی جگہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی اونٹنی بیٹھ گئی اور حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی اجازت سے آپ کا سامان اٹھا کر اپنے گھر میں لے گئے اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے انہی کے مکان پر قیام فرمایا۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اوپر کی منزل پیش کی مگر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ملاقاتیوں کی آسانی کا لحاظ فرماتے ہوئے نیچے کی منزل کو پسند فرمایا۔ حضرت ابوایوب انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ دونوں وقت آپ کے لئے کھانا بھیجتے اور آپ کا بچا ہوا کھانا تبرک سمجھ کر میاں بیوی کھاتے۔ کھانے میں جہاں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی انگلیوں کا نشان پڑا ہوتا حصولِ برکت کے لئے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اسی جگہ سے لقمہ اُٹھاتے اور اپنے ہر قول و فعل سے بے پناہ ادب و احترام اور عقیدت و جاں نثاری کا مظاہرہ کرتے۔ ایک مرتبہ مکان کے اوپر کی منزل پر پانی کا گھڑا ٹوٹ گیاتو اس اندیشہ سے کہ کہیں پانی بہہ کر نیچے کی منزل میں نہ چلا جائے اور حضور رحمتِ عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو کچھ تکلیف نہ ہو جائے، حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے سارا پانی اپنے لحاف میں خشک کر لیا، گھر میں یہی ایک لحاف تھا جو گیلا ہو گیا۔ رات بھر میاں بیوی نے سردی کھائی مگر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو ذرہ برابر تکلیف پہنچ جائے یہ گوارا نہیں کیا۔ سات مہینے تک حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اسی شان کے ساتھ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی میزبانی کا شرف حاصل کیا ۔جب مسجد نبوی اور اس کے آس پاس کے حجرے تیار ہو گئے تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ان حجروں میں اپنی ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے ساتھ قیام پذیر ہوگئے۔(1) (زرقانی علی المواہب ،ج۱، ص۳۵۷ وغیرہ)
1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ والزرقانی، خاتمۃ فی وقائع متفرقۃ...الخ،ج۲،ص۱۶۰۔۱۶۳،۱۸۶
ہجرت کا پہلا سال قسم قسم کے بہت سے واقعات کو اپنے دامن میں لئے ہے مگر ان میں سے چند بڑے بڑے واقعات کو نہایت اختصار کے ساتھ ہم تحریر کرتے ہیں۔
حضرت عبداﷲ بن سلام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ مدینہ میں یہودیوں کے سب سے بڑے عالم تھے، خود ان کا اپنا بیان ہے کہ جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ میں تشریف لائے اور لوگ جوق در جوق ان کی زیارت کے لئے ہر طرف سے آنے لگے تو میں بھی اُسی وقت خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور جونہی میری نظر جمالِ نبوت پر پڑی تو پہلی نظر میں میرے دل نے یہ فیصلہ کر دیا کہ یہ چہرہ کسی جھوٹے آدمی کا چہرہ نہیں ہو سکتا۔پھر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے وعظ میں یہ ارشاد فرمایا کہ
اَیُّھَا النَّاسُ اَفْشُوا السَّلَامَ وَاَطْعِمُوا الطَّعَامَ وَصِلُوا الْاَرْحَامَ وَصَلُّوْا بِاللَّیْلِ وَالنَّاسُ نِیَامٌ
"اے لوگو!سلام کا چرچا کرو اور کھانا کھلاؤ اور( رشتہ داروں کے ساتھ)صلہ رحمی کرو اور راتوں کو جب لوگ سو رہے ہوں تو تم نماز پڑھو۔
حضرت عبداﷲ بن سلام فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو ایک نظر دیکھا اور آپ کے یہ چار بول میرے کان میں پڑے تو میں اس قدر متاثر ہوگیا کہ میرے دل کی دنیا ہی بدل گئی اور میں مشرف بہ اسلام ہو گیا۔ حضرت عبداﷲ بن سلام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا دامن اسلام میں آ جانا یہ اتنا اہم واقعہ تھا کہ مدینہ کے یہودیوں میں کھلبلی مچ گئی۔(1) (مدارج النبوۃ ج ۲ ص۶۶ و بخاری وغیرہ)"
"1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ،قسم سوم ، با ب اول، ج۲،ص۶۶ملخصاًوالمستدرک للحاکم،
کتاب البروالصلہ،باب ارحموا اہل الارض...الخ،الحدیث۷۳۵۹،ج۵،ص۲۲۱ملخصًا"
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جب کہ ابھی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے مکان ہی میں تشریف فرما تھے آپ نے اپنے غلام حضرت زید بن حارثہ اور حضرت ابو رافع رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کو پانچ سو درہم اور دو اونٹ دے کر مکہ بھیجا تا کہ یہ دونوں صاحبان اپنے ساتھ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے اہل و عیال کو مدینہ لائیں۔ چنانچہ یہ دونوں حضرات جا کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیوں حضرت فاطمہ اور حضرت اُمِ کلثوم رضی اﷲ تعالیٰ عنہما اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی زو جہ مطہرہ ام المومنین حضرت بی بی سودہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا اور حضرت اسامہ بن زید اور حضرت اُمِ ایمن رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کو مدینہ لے آئے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نہ آسکیں کیونکہ ان کے شوہر حضرت ابو العاص بن الربیع رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ان کو مکہ میں روک لیا اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی حضرت بی بی رقیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا اپنے شوہر حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ''حبشہ'' میں تھیں۔ انہی لوگوں کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے فرزند حضرت عبداﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی اپنے سب گھر والوں کو ساتھ لے کر مکہ سے مدینہ آ گئے ان میں حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا بھی تھیں یہ سب لوگ مدینہ آکر پہلے حضرت حارثہ بن نعمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے مکان پر ٹھہرے۔ (1) (مدارج النبوۃ ج۲ ص۷۲)
مدینہ میں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں مسلمان با جماعت نماز پڑھ سکیں اس لئے
"1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ،قسم سوم ، با ب اول، ج۲،ص۶۷مختصراًوشرح الزرقانی علی
المواھب،ذکر بناء المسجد النبوی...الخ،ج۲،ص۱۸۶"
"مسجد کی تعمیر نہایت ضروری تھی حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی قیام گاہ کے قریب ہی ''بنو النجار'' کا ایک باغ تھا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے مسجد تعمیر کرنے کے لئے اس باغ کو قیمت دے کر خریدنا چاہا۔ ان لوگوں نے یہ کہہ کر '' یا رسول اﷲ!صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہم خدا ہی سے اس کی قیمت (اجرو ثواب)لیں گے۔'' مفت میں زمین مسجد کی تعمیر کے لئے پیش کر دی لیکن چونکہ یہ زمین اصل میں دو یتیموں کی تھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ان دونوں یتیم بچوں کو بلا بھیجا ۔ ان یتیم بچوں نے بھی زمین مسجد کے لئے نذر کرنی چاہی مگر حضور سرورِ عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کو پسند نہیں فرمایا۔اس لئے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے مال سے آپ نے اس کی قیمت ادا فرما دی ۔(1) (مدارج النبوۃ، ج۲ ،ص۶۸)
اس زمین میں چند درخت، کچھ کھنڈرات اور کچھ مشرکوں کی قبریں تھیں۔ آپ نے درختوں کے کاٹنے اور مشرکین کی قبروں کو کھود کر پھینک دینے کا حکم دیا۔ پھر زمین کو ہموار کرکے خود آپ نے اپنے دست مبارک سے مسجد کی بنیاد ڈالی اور کچی اینٹوں کی دیوار اور کھجور کے ستونوں پر کھجور کی پتیوں سے چھت بنائی جو بارش میں ٹپکتی تھی۔ اس مسجد کی تعمیر میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ساتھ خود حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بھی اینٹیں اٹھا اٹھا کر لاتے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو جوش دلانے کے لئے ان کے ساتھ آواز ملا کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم رجز کا یہ شعر پڑھتے تھے کہ ؎"
"اَللّٰھُمَّ لَاخَیْرَ اِلَّا خَیْرُ الْاٰخِرَۃ فَاغْفِرِ الْاَنْصَارَ وَ الْمُھَاجِرَۃ
(2) (بخاری ج۱ ص۶۱)"
"1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ،قسم سوم،باب اول،ج۲،ص۶۷،۶۸
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری ، کتاب الصلٰوۃ ، باب ھل تنبش قبور مشرکی الجاھلیۃ...الخ،
الحدیث: ۴۲۸،ج۱، ص۱۶۵"
"اے اﷲ!بھلائی تو صرف آخرت ہی کی بھلائی ہے۔ لہٰذا اے اﷲ!تو انصارو مہاجرین کو بخش دے ۔اسی مسجد کا نام ''مسجد نبوی'' ہے۔ یہ مسجد ہر قسم کے دُنیوی تکلفات سے پاک اور اسلام کی سادگی کی سچی اور صحیح تصویر تھی، اس مسجد کی عمارتِ اوّل طول و عرض میں ساٹھ گز لمبی اور چون گز چوڑی تھی اور اس کا قبلہ بیت المقدس کی طرف بنایا گیا تھا مگر جب قبلہ بدل کر کعبہ کی طرف ہو گیا تو مسجد کے شمالی جانب ایک نیا دروازہ قائم کیا گیا۔ اس کے بعد مختلف زمانوں میں مسجد نبوی کی تجدید و توسیع ہوتی رہی۔
مسجد کے ایک کنارے پر ایک چبوترہ تھا جس پر کھجور کی پتیوں سے چھت بنا دی گئی تھی۔ اسی چبوترہ کا نام ''صفہ'' ہے جو صحابہ گھر بار نہیں رکھتے تھے وہ اسی چبوترہ پر سوتے بیٹھتے تھے اور یہی لوگ ''اصحاب صفہ'' کہلاتے ہیں۔ (1) (مدارج النبوۃ،ج۲،ص۶۹وبخاری)"
مسجد نبوی کے متصل ہی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے لئے حجرے بھی بنوائے۔اس وقت تک حضرت بی بی سودہ اور حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما نکاح میں تھیں اس لئے دوہی مکان بنوائے۔جب دوسری ازواجِ مطہرات آتی گئیں تو دوسرے مکانات بنتے گئے۔ یہ مکانات بھی بہت ہی سادگی کے ساتھ بنائے گئے تھے۔ دس دس ہاتھ لمبے چھ چھ،سات سات ہاتھ چوڑے کچی اینٹوں کی دیواریں، کھجور کی پتیوں کی چھت وہ بھی اتنی نیچی کہ آدمی کھڑا ہو کر چھت کو چھو لیتا،
"1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ،قسم سوم ، با ب اول، ج۲،ص۶۸ملخصاًوالمواہب اللدنیۃ
والزرقانی،ذکر بناء المسجد النبوی...الخ،ج۲،ص۱۸۶"
" دروازوں میں کواڑ بھی نہ تھے کمبل یا ٹاٹ کے پردے پڑے رہتے تھے۔(1) (طبقات ابن سعد وغیرہ)
اﷲ اکبر! یہ ہے شہنشاہ دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا وہ کاشانہ نبوت جس کی آستانہ بوسی اور دربانی جبریل علیہ السلام کے لئے سرمایہ سعادت اور باعث افتخار تھی۔
اﷲ اﷲ! وہ شہنشاہ کونین جس کو خالق کائنات نے اپنا مہمان بنا کر عرش اعظم پر مسند نشین بنایا اور جس کے سر پر اپنی محبوبیت کا تاج پہنا کر زمین کے خزانوں کی کنجیاں جس کے ہاتھوں میں عطا فرما دیں اور جس کو کائنات عالم میں قسم قسم کے تصرفات کا مختار بنا دیا، جس کی زَبان کا ہر فرمان کن کی کنجی، جس کی نگاہ کرم کے ایک اشارہ نے ان لوگوں کو جن کے ہاتھوں میں اونٹوں کی مہار رہتی تھی انہیں اقوامِ عالم کی قسمت کی لگام عطا فرما دی۔ اﷲ اکبر!وہ تاجدار رسالت جو سلطان دارین اور شہنشاہ کونین ہے اس کی حرم سرا کا یہ عالم! اے سورج!بول، اے چاند!بتاتم دونوں نے اس زمین کے بے شمار چکر لگائے ہیں مگر کیا تمہاری آنکھوں نے ایسی سادگی کا کوئی منظر کبھی بھی اور کہیں بھی دیکھا ہے؟"
مہاجرین جو اپنا سب کچھ مکہ میں چھوڑ کرمدینہ چلے گئے تھے، ان لوگوں کی سکونت کے لئے بھی حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کے قرب و جوار ہی میں انتظام فرمایا۔انصار نے بہت بڑی قربانی دی کہ نہایت فراخ دلی کے ساتھ اپنے مہاجر بھائیوں کے لئے اپنے مکانات اور زمینیں دیں اور مکانوں کی تعمیرات میں ہر قسم کی امداد بہم پہنچائی
1۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب،ذکر بناء المسجد النبوی...الخ،ج۲،ص۱۸۵
"جس سے مہاجرین کی آبادکاری میں بڑی سہولت ہو گئی۔
سب سے پہلے جس انصاری نے اپنا مکان حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو بطور ہبہ کے نذرکیااس خوش نصیب کانام نامی حضرت حارثہ بن نعمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے، چنانچہ ازواجِ مطہرات کے مکانات حضرت حارثہ بن نعمان ہی کی زمین میں بنائے گئے۔ (1 ) (رضی اﷲ تعالیٰ عنہ)"
حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے نکاح تو ہجرت سے قبل ہی مکہ میں ہو چکا تھا مگر ان کی رُخصتی ہجرت کے پہلے ہی سال مدینہ میں ہوئی۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک پیالہ دودھ سے لوگوں کی دعوت ولیمہ فرمائی۔(2) (مدارج النبوۃ، ج۲، ص۷۰)
مسجد نبوی کی تعمیر تو مکمل ہو گئی مگر لوگوں کو نمازوں کے وقت جمع کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا جس سے نماز با جماعت کا انتظام ہوتا، اس سلسلہ میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے مشورہ فرمایا، بعض نے نمازوں کے وقت آگ جلانے کا مشورہ دیا، بعض نے ناقوس بجانے کی رائے دی مگر حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے غیر مسلموں کے ان طریقوں کو پسند نہیں فرمایا۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے یہ تجویز پیش کی کہ ہر نماز کے وقت کسی آدمی کو بھیج دیا جائے جو پوری مسلم آبادی میں نماز کا اعلان
"1۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب،ذکربناء المسجدالنبوی...الخ، ج۲، ص۱۸۵ ملخصاً
2۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ،قسم سوم ، با ب اول، ج۲،ص۶۹۔۷۰ملخصاً"
کردے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس رائے کو پسند فرمایا اور حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو حکم فرمایا کہ وہ نمازوں کے وقت لوگوں کو پکار دیا کریں۔ چنانچہ وہ ''الصلوٰۃُجامعۃٌ '' کہہ کر پانچوں نمازوں کے وقت اعلان کرتے تھے، اسی درمیان میں ایک صحابی حضرت عبداﷲ بن زید انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے خواب میں دیکھا کہ اذان شرعی کے الفاظ کوئی سنا رہا ہے۔ اس کے بعد حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور دوسرے صحابہ کو بھی اسی قسم کے خواب نظر آئے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کو منجانب اﷲ سمجھ کر قبول فرمایا اور حضرت عبداﷲ بن زید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ تم بلال کو اذان کے کلمات سکھا دو کیونکہ وہ تم سے زیادہ بلند آواز ہیں۔ چنانچہ اسی دن سے شرعی اذان کا طریقہ جو آج تک جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا شروع ہو گیا۔(1) (زرقانی، ج۲، ص۳۷۶ و بخاری)
حضرات مہاجرین چونکہ انتہائی بے سروسامانی کی حالت میں بالکل خالی ہاتھ اپنے اہل و عیال کو چھوڑ کر مدینہ آئے تھے اس لئے پردیس میں مفلسی کے ساتھ وحشت وبیگانگی اور اپنے اہل و عیال کی جدائی کا صدمہ محسوس کرتے تھے۔ اس میں شک نہیں کہ انصار نے ان مہاجرین کی مہمان نوازی اور دل جوئی میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی لیکن مہاجرین دیر تک دوسروں کے سہارے زندگی بسر کرنا پسند نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ لوگ ہمیشہ سے اپنے دست و بازو کی کمائی کھانے کے خوگر تھے۔ اس لئے ضرور ت تھی کہ مہاجرین کی پریشانی کو دور کرنے اور ان کے لئے مستقل ذریعۂ معاش مہیا کرنے کے
1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ والزرقانی،باب بدء الاٰذان ، ج۲،ص۱۹۴۔۱۹۷ملخصاً
"لئے کوئی انتظام کیا جائے۔ اس لئے حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خیال فرمایا کہ انصار و مہاجرین میں رشتہ اخوت(بھائی چارہ)قائم کرکے ان کو بھائی بھائی بنا دیا جائے تا کہ مہاجرین کے دلوں سے اپنی تنہائی اور بے کسی کا احساس دور ہوجائے اور ایک دوسرے کے مددگار بن جانے سے مہاجرین کے ذریعۂ معاش کا مسئلہ بھی حل ہو جائے۔ چنانچہ مسجد نبوی کی تعمیر کے بعد ایک دن حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت انس بن مالک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے مکان میں انصار و مہاجرین کو جمع فرمایا اس وقت تک مہاجرین کی تعداد پینتالیس یا پچاس تھی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انصار کو مخاطب کرکے فرمایا کہ یہ مہاجرین تمہارے بھائی ہیں پھر مہاجرین و انصار میں سے دو دو شخص کو بلا کر فرماتے گئے کہ یہ اور تم بھائی بھائی ہو۔حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ارشاد فرماتے ہی یہ رشتہ اخوت بالکل حقیقی بھائی جیسا رشتہ بن گیا۔ چنانچہ انصار نے مہاجرین کو ساتھ لے جا کر اپنے گھر کی ایک ایک چیز سامنے لا کر رکھ دی اور کہہ دیا کہ آپ ہمارے بھائی ہیں اس لئے ان سب سامانوں میں آدھا آپ کا اور آدھا ہمارا ہے۔ حد ہو گئی کہ حضرت سعد بن ربیع انصاری جو حضرت عبدالرحمن بن عوف مہاجر کے بھائی قرار پائے تھے ان کی دو بیویاں تھیں، حضرت سعد بن ربیع انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ میری ایک بیوی جسے آپ پسند کریں میں اس کو طلاق دے دوں اور آپ اس سے نکاح کر لیں۔
اﷲ اکبر! اس میں شک نہیں کہ انصار کا یہ ایثار ایک ایسا بے مثال شاہکار ہے کہ اقوام عالم کی تاریخ میں اس کی مثال مشکل سے ہی ملے گی مگر مہاجرین نے کیا طرز عمل اختیار کیا یہ بھی ایک قابل تقلید تاریخی کارنامہ ہے۔ حضرت سعد بن ربیع انصاری"
"رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی اس مخلصانہ پیشکش کو سن کر حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے شکریہ کے ساتھ یہ کہا کہ اﷲ تعالیٰ یہ سب مال و متاع اور اہل و عیال آ پ کو مبارک فرمائے مجھے تو آپ صرف بازار کا راستہ بتا دیجیے۔ انہوں نے مدینہ کے مشہور بازار ''قینقاع'' کا راستہ بتا دیا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بازار گئے اور کچھ گھی، کچھ پنیر خرید کر شام تک بیچتے رہے۔ اسی طرح روزانہ وہ بازار جاتے رہے اور تھوڑے ہی عرصہ میں وہ کافی مالدار ہو گئے اور ان کے پاس اتنا سرمایہ جمع ہو گیا کہ انہوں نے شادی کرکے اپنا گھر بسا لیا۔جب یہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے تو حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تم نے بیوی کو کتنا مہر دیا؟ عرض کیا کہ پانچ درہم برابر سونا ۔ارشاد فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ تمہیں برکتیں عطا فرمائے تم دعوتِ ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری ہی ہو۔(1) (بخاری، باب الولیمۃ ولو بشاۃ، ص۷۷۷ ،ج۲)
اور رفتہ رفتہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی تجارت میں اتنی خیر و برکت اور ترقی ہوئی کہ خود ان کا قول ہے کہ ''میں مٹی کو چھو دیتا ہوں تو سونا بن جاتی ہے'' منقول ہے کہ ان کا سامان تجارت سات سو اونٹوں پر لد کر آتا تھاا ور جس دن مدینہ میں ان کا تجارتی سامان پہنچتا تھا تو تمام شہر میں دھوم مچ جاتی تھی۔ (2)
(اسد الغابہ، ج۳، ص۳۱۴)
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی طرح دوسرے مہاجرین نے بھی دکانیں کھول لیں ۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کپڑے کی تجارت کرتے"
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری ، کتاب مناقب الانصار، باب اخاء النبی صلی اللہ علیہ وسلم...الخ،
الحدیث:۳۷۸۱، ج۲،ص۵۵۵
2۔۔۔۔۔۔اسد الغابۃ ، عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ، ج۳،ص۴۹۸مختصراً"
"تھے۔ حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ''قینقاع'' کے بازار میں کھجوروں کی تجارت کرنے لگے۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی تجارت میں مشغول ہو گئے تھے۔ دوسرے مہاجرین نے بھی چھوٹی بڑی تجارت شروع کر دی۔ غرض باوجودیکہ مہاجرین کے لئے انصار کا گھر مستقل مہمان خانہ تھا مگر مہاجرین زیادہ دنوں تک انصار پر بوجھ نہیں بنے بلکہ اپنی محنت اور بے پناہ کوششوں سے بہت جلد اپنے پاؤں پر کھڑے ہو گئے۔
مشہور مؤرخِ اسلام حضرت علامہ ابن عبدالبررحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا قول ہے کہ یہ عقد مواخاۃ(بھائی چارہ کا معاہدہ) تو انصار و مہاجرین کے درمیان ہوا،اس کے علاوہ ایک خاص ''عقد مواخاۃ'' مہاجرین کے درمیان بھی ہوا جس میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک مہاجر کو دوسرے مہاجر کا بھائی بنا دیا ۔چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق و حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما اور حضرت طلحہ و حضرت زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما اور حضرت عثمان و حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کے درمیان جب بھائی چارہ ہو گیا تو حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے دربار رسالت میں عرض کیا کہ یارسول اﷲ!صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم آپ نے اپنے صحابہ کو ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا لیکن مجھے آپ نے کسی کا بھائی نہیں بنایا آخر میرا بھائی کون ہے؟ تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ"
اَنْتَ اَخِیْ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ
یعنی تم دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہو۔ (1)(مدارج النبوۃ ج۲ص۷۱)
مدینہ میں انصار کے علاوہ بہت سے یہودی بھی آباد تھے۔ ان یہودیوں کے تین قبیلے بنو قینقاع،بنو نضیر،قریظہ مدینہ کے اطراف میں آباد تھے اور نہایت
1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ،قسم سوم ، با ب اول، ج۲،ص۷۱
"مضبوط محلات اور مستحکم قلعے بنا کر رہتے تھے۔ ہجرت سے پہلے یہودیوں اور انصار میں ہمیشہ اختلاف رہتا تھااور وہ اختلاف اب بھی موجود تھا اور انصار کے دونوں قبیلے اوس و خزرج بہت کمزور ہو چکے تھے۔ کیونکہ مشہور لڑائی ''جنگ بعاث'' میں ان دونوں قبیلوں کے بڑے بڑے سردار اور نامور بہادر آپس میں لڑ لڑ کر قتل ہو چکے تھے اور یہودی ہمیشہ اس قسم کی تدبیروں اور شرارتوں میں لگے رہتے تھے کہ انصارکے یہ دونوں قبائل ٖہمیشہ ٹکراتے رہیں اور کبھی بھی متحد نہ ہونے پائیں۔ ان وجوہات کی بنا پر حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہودیوں اور مسلمانوں کے آئندہ تعلقات کے بارے میں ایک معاہدہ کی ضرورت محسوس فرمائی تا کہ دونوں فریق امن و سکون کے ساتھ رہیں اور آپس میں کوئی تصادم اور ٹکراؤ نہ ہونے پائے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے انصار اور یہودکوبلاکرمعاہدہ کی ایک دستاویزلکھوائی جس پردونوں فریقوں کے دستخط ہوگئے۔
اس معاہدہ کی دفعات کا خلاصہ حسب ِذیل ہے۔
(۱)خون بہا(جان کے بدلے جو مال دیا جاتا ہے) اور فدیہ(قیدی کو چھڑانے کے بدلے جو رقم دی جاتی ہے) کا جو طریقہ پہلے سے چلا آتا تھا اب بھی وہ قائم رہے گا۔
(۲)یہودیوں کو مذہبی آزادی حاصل رہے گی ان کے مذہبی رسوم میں کوئی دخل اندازی نہیں کی جائے گی۔
(۳)یہودی اور مسلمان باہم دوستانہ برتاؤ رکھیں گے۔
(۴)یہودی یا مسلمانوں کو کسی سے لڑائی پیش آئے گی تو ایک فریق دوسرے کی مدد کریگا۔
(۵)اگر مدینہ پر کوئی حملہ ہو گا تو دونوں فریق مل کر حملہ آور کا مقابلہ کریں گے۔"
"(۶)کوئی فریق قریش اور ان کے مددگاروں کو پناہ نہیں دے گا۔
(۷)کسی دشمن سے اگر ایک فریق صلح کریگا تو دوسرا فریق بھی اس مصالحت میں شامل ہو گالیکن مذہبی لڑائی اس سے مستثنیٰ رہے گی۔(1) (سیرتِ ابن ہشام ج۴ ص۵۰۱ تا ۵۰۲)"
چونکہ مدینہ کی آب وہوااچھی نہ تھی یہاں طرح طرح کی وبائیں اور بیماریاں پھیلتی رہتی تھیں اس لئے کثرت سے مہاجرین بیمار ہونے لگے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ شدید لرزہ بخار میں مبتلا ہو کر بیمار ہو گئے اور بخار کی شدت میں یہ حضرات اپنے وطن مکہ کو یاد کرکے کفار مکہ پر لعنت بھیجتے تھے اور مکہ کی پہاڑیوں اور گھاسوں کے فراق میں اشعار پڑھتے تھے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس موقع پر یہ دعا فرمائی کہ یااﷲ! ہمارے دلوں میں مدینہ کی ایسی ہی محبت ڈال دے جیسی مکہ کی محبت ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ اور مدینہ کی آب و ہوا کو صحت بخش بنا دے اور مدینہ کے صاع اورمُد(ناپ تول کے برتنوں)میں خیروبرکت عطا فرما اور مدینہ کے بخار کو ''جحفہ'' کی طرف منتقل فرما دے۔(2) (مدارج جلد ۲ ص۷۰ و بخاری)
۱ ھ کے واقعات میں حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے اسلام لانے کا واقعہ بھی بہت اہم ہے۔ یہ فارس کے رہنے والے تھے۔ ان کے آباء و اجدادبلکہ ان
"1۔۔۔۔۔۔السیرۃ النبویۃ لابن ھشام،ہجرۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم،ص۲۰۱،۲۰۲
2۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ،قسم سوم ، با ب اول، ج۲،ص۷۰"
کے ملک کی پوری آبادی مجوسی(آتش پرست) تھی۔ یہ اپنے آبائی دین سے بیزار ہو کر دین حق کی تلاش میں اپنے وطن سے نکلے مگر ڈاکوؤں نے ان کو گرفتار کرکے اپنا غلام بنا لیا پھر ان کو بیچ ڈالا۔چنانچہ یہ کئی بار بکتے رہے اور مختلف لوگوں کی غلامی میں رہے۔ اسی طرح یہ مدینہ پہنچے،کچھ دنوں تک عیسائی بن کر رہے اور یہودیوں سے بھی میل جول رکھتے رہے۔ اس طرح ان کو توریت و انجیل کی کافی معلومات حاصل ہو چکی تھیں۔ (1) یہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے تو پہلے دن تازہ کھجوروں کا ایک طباق خدمت اقدس میں یہ کہہ کر پیش کیا کہ یہ ''صدقہ'' ہے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو ہمارے سامنے سے اٹھا کر فقرا و مساکین کو دے دو کیونکہ میں صدقہ نہیں کھاتا۔ پھر دوسرے دن کھجوروں کا خوان لے کر پہنچے اور یہ کہہ کر کہ یہ ''ہدیہ''ہے سامنے رکھ دیا تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے صحابہ کو ہاتھ بڑھانے کااشارہ فرمایا اور خود بھی کھا لیا۔ اس درمیان میں حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے دونوں شانوں کے درمیان جو نظر ڈالی تو ''مہر نبوت'' کو دیکھ لیاچونکہ یہ توراۃ و انجیل میں نبی آخر الزمان کی نشانیاں پڑھ چکے تھے اس لئے فوراً ہی اسلام قبول کر لیا۔(2) (مدارج جلد۲ ص۷۱وغیرہ)
اب تک فرض نمازوں میں صرف دوہی رکعتیں تھیں مگر ہجرت کے سال اول ہی میں جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو ظہر و عصر وعشاء میں چار چار رکعتیں فرض ہو گئیں لیکن سفر کی حالت میں اب بھی وہی دو رکعتیں قائم رہیں اسی کو سفر کی حالت میں نمازوں میں ''قصر'' کہتے ہیں۔(3)(مدارج جلد۲ ص۷۱)
"1۔۔۔۔۔۔الطبقات الکبریٰ لابن سعد،سلمان الفارسی ، ج۴،ص۵۶۔۵۹ملخصاً
2۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ،قسم سوم ، با ب اول، ج۲،ص۷۰۔۷۱
3۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ،قسم سوم ، با ب اول، ج۲،ص۷۱"
"اس سال حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں سے تین نہایت ہی شاندار اور جاں نثار حضرات نے وفات پائی جو درحقیقت اسلام کے سچے جاں نثار اور بہت ہی بڑے معین و مددگار تھے۔
اوّل۔ حضرت کلثوم بن ہدم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ یہ وہ خوش نصیب مدینہ کے رہنے والے انصاری ہیں کہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جب ہجرت فرما کر ''قبا'' میں تشریف لائے تو سب سے پہلے انہی کے مکان کو شرفِ نزول بخشا اور بڑے بڑے مہاجرین صحابہ بھی انہی کے مکان میں ٹھہرے تھے اور انہوں نے دونوں عالم کے میزبان کو اپنے گھر میں مہمان بنا کر ایسی میزبانی اور مہمان نوازی کی کہ قیامت تک تاریخ رسالت کے صفحات پر ان کا نام نامی ستاروں کی طرح چمکتا رہے گا۔
دوم۔حضرت برا ء بن معرور انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ یہ وہ شخص ہیں کہ ''بیعت عقبہ ثانیہ'' میں سب سے پہلے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے دست حق پرست پر بیعت کی اور یہ اپنے قبیلہ ''خزرج'' کے نقیبوں میں تھے۔
سوم۔حضرت اسعد بن زرارہ انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ یہ بیعتِ عقبۂ اولیٰ اور بیعتِ عقبۂ ثانیہ کی دونوں بیعتوں میں شامل رہے اور یہ پہلے وہ شخص ہیں جنہوں نے مدینہ میں اسلام کا ڈنکا بجایا اور ہر گھر میں اسلام کا پیغام پہنچایا۔
جب مذکورہ بالا تینوں معززین صحابہ نے وفات پائی تو منافقین اور یہودیوں نے اس کی خوشی منائی اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو طعنہ دینا شروع کیا کہ اگر یہ پیغمبر ہوتے تو اﷲ تعالیٰ ان کو یہ صدمات کیوں پہنچاتا؟ خدا کی شان کہ ٹھیک اسی زمانے میں"
"کفار کے دوبہت ہی بڑے بڑے سردار بھی مر کر مردار ہو گئے۔ ایک ''عاص بن وائل سہمی'' جو حضرت عمرو بن العاص صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فاتح مصر کا باپ تھا۔ دوسرا ''ولید بن مغیرہ'' جو حضرت خالد سیف اﷲ صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا باپ تھا۔(1)
روایت ہے کہ ''ولید بن مغیرہ'' جاں کنی کے وقت بہت زیادہ بے چین ہو کر تڑپنے اور بے قرار ہو کر رونے لگا اور فریاد کرنے لگا توابوجہل نے پوچھا کہ چچا جان! آخر آپ کی بے قراری اور اس گریہ و زاری کی کیا و جہ ہے؟ تو ''ولید بن مغیرہ'' بولا کہ میرے بھتیجے! میں اس لئے اتنی بے قراری سے رو رہا ہوں کہ مجھے اب یہ ڈر ہے کہ میرے بعد مکہ میں محمد(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کا دین پھیل جائے گا ۔یہ سن کر ابو سفیان نے تسلی دی اور کہا کہ چچا! آپ ہر گزہر گز اس کا غم نہ کریں میں ضامن ہوتا ہوں کہ میں دین اسلام کو مکہ میں نہیں پھیلنے دوں گا۔(2) چنانچہ ابو سفیان اپنے اس عہد پر اس طرح قائم رہے کہ مکہ فتح ہونے تک وہ برابر اسلام کے خلاف جنگ کرتے رہے مگر فتح مکہ کے دن ابو سفیان نے اسلام قبول کر لیا اور پھر ایسے صادق الاسلام بن گئے کہ اسلام کی نصرت و حمایت کے لئے زندگی بھر جہاد کرتے رہے اور انہی جہادوں میں کفار کے تیروں سے ان کی آنکھیں زخمی ہو گئیں اور روشنی جاتی رہی ۔یہی وہ حضرت ابو سفیان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہیں جن کے سپوت بیٹے حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہیں۔ (مدارج النبوۃ ج۲ ص۷۳ وغیرہ)
اسی سال ۱ ھ میں حضرت عبداﷲ بن زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی ولادت ہوئی۔ ہجرت کے بعد مہاجرین کے یہاں سب سے پہلا بچہ جو پیدا ہوا وہ یہی حضرت عبداﷲ بن زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہیں۔ ان کی والدہ حضرت بی بی اسماء جو حضرت ابوبکر صدیق رضی"
"1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ،قسم سوم ، با ب اول، ج۲،ص۷۳ملخصاً
2۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ،قسم سوم ، با ب اول، ج۲،ص۷۳"
اﷲ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی ہیں پیدا ہوتے ہی ان کو لے کر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئیں۔ حضور سید عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو اپنی گود میں بٹھا کر اور کھجور چبا کر ان کے منہ میں ڈال دی۔ اس طرح سب سے پہلی غذا جو ان کے شکم میں پہنچی وہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا لعابِ دہن تھا۔ حضرت عبداﷲ بن زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کی پیدائش سے مسلمانوں کو بے حد خوشی ہوئی اس لئے کہ مدینہ کے یہودی کہا کرتے تھے کہ ہم لوگوں نے مہاجرین پر ایسا جادو کر دیا ہے کہ ان لوگوں کے یہاں کوئی بچہ پیدا ہی نہیں ہو گا۔ (1) (زرقانی ج۱ ص۴۶۰ و اکمال)
۱ھ کی طرح ۲ھ میں بھی بہت سے اہم واقعات وقوع پذیر ہوئے جن میں سے چند بڑے بڑے واقعات یہ ہیں:
جب تک حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مکہ میں رہے خانہ کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے رہے مگر ہجرت کے بعد جب آپ مدینہ منورہ تشریف لائے تو خداوند تعالیٰ کایہ حکم ہوا کہ آپ اپنی نمازوں میں ''بیت المقدس'' کو اپنا قبلہ بنائیں۔ چنانچہ آپ سولہ یا سترہ مہینے تک بیت المقدس کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھتے رہے مگر آپ کے دل کی تمنا یہی تھی کہ کعبہ ہی کو قبلہ بنایا جائے۔ چنانچہ آپ اکثر آسمان کی طرف چہرہ اٹھا اٹھا
"1۔۔۔۔۔۔اکمال فی اسماء الرجال لصاحب المشکوٰۃ، حرف العین ، ص۶۰۴والسیرۃ
الحلبیۃ، باب ہجرۃ الی المدینۃ، ج۲،ص۱۱۰"
کر اس کے لئے وحیِ الٰہی کا انتظار فرماتے رہے یہاں تک کہ ایک دن اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی قلبی آرزو پوری فرمانے کے لئے قرآن کی یہ آیت نازل فرما دی کہ
قَدْ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْہِکَ فِی السَّمَآءِ ۚ فَلَنُوَ لِّیَنَّکَ قِبْلَۃً تَرْضٰىہَا ۪ فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ؕ (1)
"ہم دیکھ رہے ہیں بار بار آپکا آسمان کی طرف منہ کرنا تو ہم ضرور آپ کو پھیر دیں گے اس قبلہ کی طرف جس میں آپ کی خوشی ہے تو ابھی آپ پھیر دیجیے اپنا چہرہ مسجد حرام کی طرف(بقرہ)
چنانچہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم قبیلۂ بنی سلمہ کی مسجد میں نمازِ ظہر پڑھا رہے تھے کہ حالت نما زہی میں یہ وحی نازل ہوئی اور نماز ہی میں آپ نے بیت المقدس سے مڑ کر خانہ کعبہ کی طرف اپنا چہرہ کر لیااور تمام مقتدیوں نے بھی آپ کی پیروی کی۔ اس مسجد کو جہاں یہ واقعہ پیش آیا ''مسجد القبلتین'' کہتے ہیں اور آج بھی یہ تاریخی مسجد زیارت گاہ خواص و عوام ہے جو شہر مدینہ سے تقریباً دوکیلو میٹر دور جانب شمال مغرب واقع ہے۔
اس قبلہ بدلنے کو'' تحویل قبلہ'' کہتے ہیں۔ تحویل قبلہ سے یہودیوں کو بڑی سخت تکلیف پہنچی جب تک حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے تو یہودی بہت خوش تھے اور فخر کے ساتھ کہا کرتے تھے کہ محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)بھی ہمارے ہی قبلہ کی طرف رُخ کرکے عبادت کرتے ہیں مگر جب قبلہ بدل گیا تو یہودی اس قدر برہم اور ناراض ہو گئے کہ وہ یہ طعنہ دینے لگے کہ محمد (صلی اﷲ"
1۔۔۔۔۔۔پ۲،البقرۃ:۱۴۴
تعالیٰ علیہ وسلم) چونکہ ہر بات میں ہم لوگوں کی مخالفت کرتے ہیں اس لئے انہوں نے محض ہماری مخالفت میں قبلہ بدل دیا ہے۔ اسی طرح منافقین کا گروہ بھی طرح طرح کی نکتہ چینی اور قسم قسم کے اعتراضات کرنے لگا تو ان دونوں گروہوں کی زبان بندی اور دہن دوزی کے لئے خداوند کریم نے یہ آیتیں نازل فرمائیں۔
سَیَقُوۡلُ السُّفَہَآءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلّٰىہُمْ عَنۡ قِبْلَتِہِمُ الَّتِیۡ کَانُوۡا عَلَیۡہَا ؕ قُلۡ لِّلہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ؕ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ ﴿۱۴۲﴾ (1)
اب کہیں گے بیوقوف لوگوں میں سے کس نے پھیر دیا مسلمانوں کو ان کے اس قبلہ سے جس پر وہ تھے آپ کہہ دیجیے کہ پورب پچھم سب اﷲ ہی کا ہے وہ جسے چاہے سیدھی راہ چلاتا ہے
وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیۡ کُنۡتَ عَلَیۡہَاۤ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنۡ یَّتَّبِعُ الرَّسُوۡلَ مِمَّنۡ یَّنۡقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیۡہِ ؕ وَ اِنۡ کَانَتْ لَکَبِیۡرَۃً اِلَّا عَلَی الَّذِیۡنَ ہَدَی اللہُ ؕ (2)
"اور(اے محبوب) آپ پہلے جس قبلہ پر تھے ہم نے وہ اسی لئے مقرر کیا تھا کہ دیکھیں کون رسول کی پیروی کرتاہے اورکون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے اور بلا شبہ یہ بڑی بھاری بات تھی مگر جن کو اﷲ تعالیٰ نے ہدایت دے دی ہے(ان کے لئے کوئی بڑی بات نہیں)(بقرہ)
پہلی آیت میں یہودیوں کے اعتراض کا جواب دیا گیا کہ خدا کی عبادت میں قبلہ کی کوئی خاص جہت ضروری نہیں ہے۔ اس کی عبادت کے لئے پورب، پچھم، اتر، دکھن، سب جہتیں برابر ہیں اﷲ تعالیٰ جس جہت کو چاہے اپنے بندوں کے لئے قبلہ مقرر فرما دے لہٰذا اس پر کسی کو اعتراض کا کوئی حق نہیں ہے۔ دوسری آیت میں منافقین کی زَبان بندی کی گئی ہے جو تحویل قبلہ کے بعد ہر طرف یہ پروپیگنڈا کرنے"
1۔۔۔۔۔۔پ۲،البقرۃ:۱۴۲ 2۔۔۔۔۔۔پ۲،البقرۃ:۱۴۳
لگے تھے کہ پیغمبر اسلام تو اپنے دین کے بارے میں خود ہی متردد ہیں کبھی بیت المقدس کو قبلہ مانتے ہیں کبھی کہتے ہیں کہ کعبہ قبلہ ہے۔ آیت میں تحویل قبلہ کی حکمت بتا دی گئی کہ منافقین جو محض نمائشی مسلمان بن کر نمازیں پڑھا کرتے تھے وہ قبلہ کے بدلتے ہی بدل گئے اور اسلام سے منحرف ہو گئے۔ اس طرح ظاہر ہو گیا کہ کون صادق الایمان ہے اور کون منافق اور کون رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی پیروی کرنے والا ہے اور کون دین سے پھر جانے والا۔(1) (عام کتب تفسیر و سیرت)
"اب تک حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو خدا کی طرف سے صرف یہ حکم تھا کہ دلائل اور موعظۂ حسنہ کے ذریعہ لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے رہیں اور مسلمانوں کو کفار کی ایذاؤں پر صبر کا حکم تھا اسی لئے کافروں نے مسلمانوں پر بڑے بڑے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے، مگر مسلمانوں نے انتقام کے لئے کبھی ہتھیار نہیں اٹھایا بلکہ ہمیشہ صبروتحمل کے ساتھ کفار کی ایذاؤں اور تکلیفوں کو برداشت کرتے رہے لیکن ہجرت کے بعد جب سارا عرب اور یہودی ان مٹھی بھر مسلمانوں کے جانی دشمن ہو گئے اور ان مسلمانوں کو فنا کے گھاٹ اتار دینے کا عزم کر لیا تو خداوند قدوس نے مسلمانوں کو یہ اجازت دی کہ جو لوگ تم سے جنگ کی ابتدا کریں ان سے تم بھی لڑ سکتے ہو۔
چنانچہ ۱۲ صفر ۲ھ تواریخ اسلام میں وہ یادگار دن ہے جس میں خداوند کردگار نے مسلمانوں کو کفار کے مقابلہ میں تلوار اٹھانے کی اجازت دی اور یہ آیت نازل فرمائی کہ"
"1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،تحویل القبلۃ...الخ،ج2،ص246،249، 250
ومدارج النبوت ، قسم سوم، با ب دوم، ج2،ص73ملخصاً"
اُذِنَ لِلَّذِیۡنَ یُقٰتَلُوۡنَ بِاَنَّہُمْ ظُلِمُوۡا ؕ وَ اِنَّ اللہَ عَلٰی نَصْرِہِمْ لَقَدِیۡرُۨ ﴿ۙ۳۹﴾ (1)
"جن سے لڑائی کی جاتی ہے (مسلمان) ان کو بھی اب لڑنے کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ وہ (مسلمان) مظلوم ہیں اورخدا ان کی مدد پریقینا قادر ہے
حضرت امام محمد بن شہاب زہریعلیہ الرحمۃ کا قول ہے کہ جہاد کی اجازت کے بارے میں یہی وہ آیت ہے جو سب سے پہلے نازل ہوئی۔(2) مگر تفسیر ابن جریر میں ہے کہ جہاد کے بارے میں سب سے پہلے جو آیت اتری وہ یہ ہے۔"
وَقَاتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَکُمْ (3)
"خداکی راہ میں ان لوگوں سے لڑوجو تم لوگوں سے لڑتے ہیں۔(بقرہ)
بہر حال ۲ھ میں مسلمانوں کو خداوند تعالیٰ نے کفار سے لڑنے کی اجازت دے دی مگر ابتداء میں یہ اجازت مشروط تھی یعنی صرف انہیں کافروں سے جنگ کرنے کی اجازت تھی جو مسلمانوں پر حملہ کریں۔ مسلمانوں کو ابھی تک اس کی اجازت نہیں ملی تھی کہ وہ جنگ میں اپنی طرف سے پہل کریں لیکن حق واضح ہو جانے اور باطل ظاہر ہو جانے کے بعدچونکہ تبلیغ حق اور احکام الٰہی کی نشرواشاعت حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر فرض تھی اس لئے تمام اُن کفار سے جو عناد کے طور پر حق کو قبول کرنے سے انکار کرتے تھے جہاد کا حکم نازل ہو گیا خواہ وہ مسلمانوں سے لڑنے میں پہل کریں یا نہ کریں کیونکہ حق کے ظاہر ہو جانے کے بعد حق کو قبول کرنے کے لئے مجبور کرنا اور باطل کو جبراً ترک"
"1۔۔۔۔۔۔پ۱۷،الحج :۳۹
2۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، کتاب المغازی،ج۲،ص۲۱۸
3۔۔۔۔۔۔تفسیر الطبری لابن جریر،پ۲،البقرۃ تحت الآیۃ:۱۹۰،ج۲،ص۱۹۵وشرح الزرقانی علی المواھب، کتاب المغازی ،ج۲،ص۲۱۸"
"کرانا یہ عین حکمت اور بنی نوع انسان کی صلاح و فلاح کے لئے انتہائی ضروری تھا۔ بہر حال اس میں کوئی شک نہیں کہ ہجرت کے بعد جتنی لڑائیاں بھی ہوئیں اگر پورے ماحول کو گہری نگاہ سے بغور دیکھا جائے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سب لڑائیاں کفار کی طرف سے مسلمانوں کے سر پر مسلط کی گئیں اور غریب مسلمان بدرجۂ مجبوری تلوار اٹھانے پر مجبور ہوئے ۔مثلاً مندرج ذیل چند واقعات پر ذرا تنقیدی نگاہ سے نظر ڈالیے۔
(۱)حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب اپنا سب کچھ مکہ میں چھوڑ کر انتہائی بیکسی کے عالم میں مدینہ چلے آئے تھے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ کفار مکہ اب اطمینان سے بیٹھ رہتے کہ ان کے دشمن یعنی رحمت عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور مسلمان ان کے شہر سے نکل گئے مگر ہوا یہ کہ ان کافروں کے غیظ و غضب کا پارہ اتنا چڑھ گیا کہ اب یہ لوگ اہل مدینہ کے بھی دشمن جان بن گئے۔ چنانچہ ہجرت کے چند روزبعد کفار مکہ نے رئیس انصار ''عبداﷲ بن ابی'' کے پاس دھمکیوں سے بھرا ہو ایک خط بھیجا ۔ ''عبداﷲ بن ابی'' وہ شخص ہے کہ واقعۂ ہجرت سے پہلے تمام مدینہ والوں نے اس کو اپنا بادشاہ مان کر اس کی تاج پوشی کی تیاری کر لی تھی مگر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے مدینہ تشریف لانے کے بعدیہ اسکیم ختم ہو گئی۔ چنانچہ اسی غم و غصہ میں عبداﷲ بن اُبی عمر بھر منافقوں کا سردار بن کر اسلام کی بیخ کنی کرتا رہا اور اسلام و مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کی سازشوں میں مصروف رہا۔(1) (بخاری باب التسلیم فی مجلس فیہ اخلاط ج۲ ص۹۲۴)
بہر کیف کفار مکہ نے اس دشمن اسلام کے نام جو خط لکھا اس کا مضمون یہ ہے"
"1۔۔۔۔۔۔السیرۃ النبویۃ لابن ھشام ، نبذمن ذکر المنافقین،ص۲۴۰وسنن ابی داود ، کتاب
الخراج والفیئ...الخ، باب فی خبر النفیر،الحدیث:۳۰۰۴،ج۳،ص۲۱۲"
"کہ تم نے ہمارے آدمی(محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کو اپنے یہاں پناہ دے رکھی ہے ہم خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ یا تو تم لوگ ان کو قتل کر دو یا مدینہ سے نکال دو ورنہ ہم سب لوگ تم پر حملہ کر دیں گے اور تمہارے تمام لڑنے والے جوانوں کو قتل کرکے تمہاری عورتوں پر تصرف کریں گے۔(1)(ابو داؤد ج۲ ص۶۷ باب فی خبر النفیر)
جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو کفار مکہ کے اس تہدید آمیز اور خوفناک خط کی خبر معلوم ہوئی تو آپ نے عبداﷲ بن اُبی سے ملاقات فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ ''کیا تم اپنے بھائیوں اور بیٹوں کو قتل کرو گے۔'' چونکہ اکثر انصار دامن اسلام میں آ چکے تھے اس لئے عبداﷲ بن اُبی نے اس نکتہ کو سمجھ لیا اور کفار مکہ کے حکم پر عمل نہیں کر سکا۔
(۲)ٹھیک اسی زمانے میں حضرت سعد بن معاذ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جو قبیلہ اوس کے سردار تھے عمرہ ادا کرنے کے لئے مدینہ سے مکہ گئے اور پرانے تعلقات کی بنا پر ''اُمیہ بن خلف''کے مکان پر قیام کیا۔ جب اُمیہ ٹھیک دوپہر کے وقت ان کو ساتھ لے کر طوافِ کعبہ کے لئے گیا تو اتفاق سے ابو جہل سامنے آ گیا اور ڈانٹ کر کہا کہ اے اُمیہ! یہ تمہارے ساتھ کون ہے؟ اُمیہ نے کہا کہ یہ مدینہ کے رہنے والے ''سعد بن معاذ'' ہیں۔ یہ سن کر ابو جہل نے تڑپ کر کہا کہ تم لوگوں نے بے دھرموں( محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور صحابہ) کو اپنے یہاں پناہ دی ہے۔ خدا کی قسم! اگر تم اُمیہ کے ساتھ میں نہ ہوتے تو بچ کر واپس نہیں جاسکتے تھے۔ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی انتہائی جرأت اور دلیری کے ساتھ یہ جواب دیا کہ اگر تم لوگوں نے ہم کو کعبہ کی زیارت"
"1۔۔۔۔۔۔سنن ابی داود ، کتاب الخراج والفیئ...الخ،باب فی خبر النفیر، الحدیث: ۳۰۰۴،
ج۳،ص۲۱۲"
"سے روکا تو ہم تمہاری شام کی تجارت کا راستہ روک دیں گے۔(1) (بخاری کتاب المغازی ج۲ص۵۶۳ )
(۳)کفارِ مکہ نے صرف انہی دھمکیوں پر بس نہیں کیابلکہ وہ مدینہ پر حملہ کی تیاریاں کرنے لگے اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے قتل عام کا منصوبہ بنانے لگے ۔چنانچہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم راتوں کو جاگ جاگ کر بسر کرتے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم آپ کا پہرہ دیا کرتے تھے۔ کفار مکہ نے سارے عرب پر اپنے اثرورسوخ کی وجہ سے تمام قبائل میں یہ آگ بھڑکا دی تھی کہ مدینہ پر حملہ کرکے مسلمانوں کو دنیا سے نیست و نابود کرنا ضروری ہے۔
مذکورہ بالاتینوں وجوہات کی موجودگی میں ہر عاقل کو یہ کہنا ہی پڑے گا کہ ان حالات میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو حفاظت خود اختیاری کے لئے کچھ نہ کچھ تدبیر کرنی ضروری ہی تھی تا کہ انصار و مہاجرین اور خود اپنی زندگی کی بقاء اور سلامتی کا سامان ہوجائے۔
چنانچہ کفارِ مکہ کے خطرناک ارادوں کا علم ہو جانے کے بعد حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی اور صحابہ کی حفاظت خود اختیاری کے لئے دو تدبیروں پر عمل درآمد کا فیصلہ فرمایا۔
اوّل۔یہ کہ کفار مکہ کی شامی تجارت جس پر ان کی زندگی کا دارومدار ہے اس میں رکاوٹ ڈال دی جائے تا کہ وہ مدینہ پر حملہ کا خیال چھوڑ دیں اور صلح پر مجبور ہو جائیں۔"
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری ، کتاب المغازی، باب ذکر النبی صلی اللہ علیہ وسلم من یقتل
ببدر،الحدیث:۳۹۵۰، ج۳،ص۳"
دوم۔یہ کہ مدینہ کے اطراف میں جو قبائل آباد ہیں ان سے امن و امان کا معاہدہ ہو جائے تا کہ کفار مکہ مدینہ پر حملہ کی نیت نہ کر سکیں۔ چنانچہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے انہی دو تدبیروں کے پیش نظر صحابہ کرام کے چھوٹے چھوٹے لشکروں کو مدینہ کے اطراف میں بھیجنا شروع کر دیااور بعض بعض لشکروں کے ساتھ خود بھی تشریف لے گئے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے یہ چھوٹے چھوٹے لشکر کبھی کفار مکہ کی نقل و حرکت کا پتہ لگانے کے لئے جاتے تھے اور کہیں بعض قبائل سے معاہدۂ امن و امان کرنے کے لئے روانہ ہوتے تھے۔ کہیں اس مقصد سے بھی جاتے تھے کہ کفارِ مکہ کی شامی تجارت کا راستہ بند ہو جائے۔ اسی سلسلہ میں کفارِ مکہ اور ان کے حلیفوں سے مسلمانوں کا ٹکراؤ شروع ہوااور چھوٹی بڑی لڑائیوں کاسلسلہ شروع ہو گیاانہی لڑائیوں کو تاریخ اسلام میں ''غزوات و سرایا'' کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے۔
"یہاں مصنفین سیرت کی یہ اصطلاح یاد رکھنی ضروری ہے کہ وہ جنگی لشکر جس کے ساتھ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بھی تشریف لے گئے اس کو ''غزوہ''کہتے ہیں اور وہ لشکروں کی ٹولیاں جن میں حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام شامل نہیں ہوئے ان کو ''سرِیّہ''کہتے ہیں۔ (1) (مدارج النبوۃ ج ۲ص۷۶وغیرہ )
''غزوات ''یعنی جن جن لشکروں میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم شریک ہوئے ان کی تعداد میں مورخین کا اختلاف ہے ۔''مواہب لدنیہ'' میں ہے کہ ''غزوات''کی تعداد ''ستائیس''ہے اورروضۃ الاحباب میں یہ لکھاہے کہ''غزوات کی تعداد''ایک قول کی بنا"
"1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ،قسم سوم ، با ب دوم، ج۲،ص۷۶وشرح الزرقانی علی المواھب،
کتاب المغازی، ج۲، ص۲۱۹،۲۲۰"
"پر''اکیس ''اور بعض کے نزدیک ''چوبیس'' ہے اور بعض نے کہا کہ ''پچیس '' اور بعض نے لکھا ''چھبیس'' ہے۔(1) (زرقانی علی المواہب ج ۱ص۳۸۸)
مگر حضرت امام بخاری نے حضرت زید بن ارقم صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے جو روایت تحریر کی ہے اس میں غزوات کی کل تعداد''انیس'' بتائی گئی ہے (2)اور ان میں سے جن نو غزوات میں جنگ بھی ہوئی وہ یہ ہیں۔
(۱)جنگ بدر (۲)جنگ اُحد (۳)جنگ احزاب (۴)جنگ بنوقریظہ (۵)جنگ بنوالمصطلق(۶)جنگ خیبر(۷)فتح مکہ(۸)جنگ حنین(۹)جنگ طائف(3)
''سرایا''یعنی جن لشکروں کےساتھ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تشریف نہیں لے گئے ان کی تعداد بعض مورخین کے نزدیک ''سینتالیس''اور بعض کے نزدیک ''چھپن '' ہے۔
امام بخاری نے محمدبن اسحق سے روایت کیاہے کہ سب سے پہلاغزوہ ''ابواء'' اور سب سے آخری غزوہ''تبوک'' ہے اور سب سے پہلا ''سریہ'' جو مدینہ سے جنگ کے لیے روانہ ہوا وہ ''سریۂ حمزہ'' ہے جس کا ذکر آگے آتا ہے۔(4)"
ہجرت کے بعدکا تقریباً کل زمانہ ''غزوات و سرایا'' کے اہتمام وانتظام میں گزرااس لیے کہ اگر'' غزوات''کی کم سے کم تعداد جو روایات میں آئی ہے۔ یعنی ''انیس'' اور ''سرایا'' کی کم سے کم تعداد جو روایتوں میں ہے یعنی '' سینتالیس'' شمار کرلی
"1۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب، کتاب المغازی، ج۲،ص۲۲۰
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری ، کتاب المغازی، باب غزوۃ العشیرۃ...الخ، الحدیث:۳۹۴۹، ج۳،ص۳
3۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب، کتاب المغازی، ج۲،ص۲۲۱
4۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب، کتاب المغازی، ج۲،ص۲۲۱،۲۲۹، ۲۲۴ملتقطاً"
جائے تونو سال میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو چھوٹی بڑی '' چھیاسٹھ'' لڑائیوں کا سامنا کرنا پڑا لہٰذا''غزوات وسرایا''کا عنوان حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی سیرتِ مقدسہ کا بہت ہی عظیم الشان حصہ ہے اور بحمدہ تعالیٰ ان تمام غزوات و سرا یااور ان کے وجوہ و اسباب کا پورا پوراحال اسلامی تاریخوں میں مذکور و محفوظ ہے،مگر یہ اتنا لمبا چوڑا مضمون ہے کہ ہماری اس کتاب کا تنگ دامن ان تمام مضامین کو سمیٹنے سے بالکل ہی قاصر ہے لیکن بڑی مشکل یہ ہے کہ اگر ہم بالکل ہی ان مضامین کو چھوڑ دیں تو یقینا ''سیرتِ رسول'' کا مضمون بالکل ہی ناقص اور نامکمل رہ جائے گا اس لیے مختصر طور پر چند مشہور غزوات و سرایا کا یہاں ذکر کر دینا نہایت ضروری ہے تاکہ سیرتِ مقدسہ کایہ اہم باب بھی ناظرین کے لیے نظر افروز ہو جائے ۔
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے، ہجرت کے بعد جب جہاد کی آیت نازل ہوگئی تو سب سے پہلے جو ایک چھوٹا سا لشکر کفار کے مقابلہ کے لیے روانہ فرمایا اس کا نام ''سریۂ حمزہ'' ہے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے چچا حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کوایک سفیدجھنڈاعطافرمایااوراس جھنڈے کے نیچے صرف۳۰ مہاجرین کو ایک لشکر کفار کے مقابلہ کے لیے بھیجاجو تین سو کی تعداد میں تھے اور ابوجہل ان کا سپہ سالار تھا۔حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ''سیف البحر'' تک پہنچے اور دونوں طرف سے جنگ کے لیے صف بندی بھی ہو گئی لیکن ایک شخص مجدی بن عمرو جہنی نے جو دونوں فریق کا حلیف تھابیچ میں پڑ کر لڑائی موقوف کر ادی۔(1)(مدارج جلد ۲ص۷۸ و زُر قانی ج ۱ص۳۹۰)
"1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ والزرقانی، بعث حمزۃ،ج۲،ص۲۲۴ومدارج النبوت، قسم سوم،
با ب دوم،ج ۲، ص۷۸"
اسی سال ساٹھ یا اسّی مہاجرین کے ساتھ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت عبیدہ بن الحارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سفید جھنڈے کے ساتھ امیر بنا کر ''رابغ '' کی طرف ر وانہ فرمایا ۔ اس سریہ کے علمبردار حضرت مسطح بن اثاثہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تھے۔ جب یہ لشکر ''ثنیۂ مرہ'' کے مقام پر پہنچا تو ابو سفیان اور ابو جہل کے لڑکے عکرمہ کی کمان میں دو سو کفار قریش جمع تھے دونوں لشکروں کا سامنا ہوا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کفار پر تیر پھینکا یہ سب سے پہلا تیرتھاجو مسلمانوں کی طرف سے کفار مکہ پر چلایا گیا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کل آٹھ تیر پھینکے او رہر تیر نشانہ پر ٹھیک بیٹھا۔کفاران تیروں کی مارسے گھبراکرفرارہو گئے اس لیے کوئی جنگ نہیں ہوئی۔(1) (مدارج جلد ۲ص۷۸وزر قانی ج۱ص۳۹۲)
اسی سال ماہ ذوالقعدہ میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بیس سواروں کے ساتھ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس مقصد سے بھیجا تاکہ یہ لوگ کفار قریش کے ایک لشکر کا راستہ روکیں، اس سریہ کا جھنڈا بھی سفید رنگ کا تھااور حضرت مقداد بن اسود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اس لشکر کے علمبردار تھے۔ یہ لشکر راتوں رات سفر کرتے ہوئے جب پانچویں دن مقام''خرار'' پر پہنچا تو پتہ چلا کہ مکہ کے کفار ایک دن پہلے ہی فرار ہو چکے ہیں اس لیے کسی تصادم کی نوبت ہی نہیں آئی۔(2) (زرقانی علی المواہب ج ۱ص۳۹۲)
"1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت، قسم سوم، با ب دوم، ج۲، ص۷۸ والمواھب اللدنیۃ والزرقانی ،
سریۃ عبیدۃ المطلبی ، ج۲،ص۲۲۶،۲۲۷
2۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ والزرقانی،سریۃ سعد بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ،ج۲،ص۲۲۸،۲۲۹"
اس غزوہ کو ''غزوہ ودان'' بھی کہتے ہیں۔ یہ سب سے پہلا غزوہ ہے یعنی پہلی مرتبہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جہادکے ارادہ سے ماہ صفر ۲ھ میں ساٹھ مہاجرین کو اپنے ساتھ لے کر مدینہ سے باہر نکلے۔ حضرت سعد بن عبادہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو مدینہ میں اپنا خلیفہ بنایااور حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو جھنڈادیااور مقام ''ابواء''تک کفار کا پیچھا کرتے ہوئے تشریف لے گئے مگر کفار مکہ فرارکرچکے تھے اس لیے کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ ''ابواء'' مدینہ سے اسّی میل دور ایک گاؤں ہے جہاں حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ کا مزار ہے۔ یہاں چند دن ٹھہر کر قبیلہ بنو ضمرہ کے سردار ''مخشی بن عمرو ضمری'' سے امدا دباہمی کا ایک تحریری معاہدہ کیااور مدینہ واپس تشریف لائے اس غزوہ میں پندرہ دن آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مدینہ سے باہر رہے۔(1) (زرقانی علی المواہب ج۱ص۳۹۳)
ہجرت کے تیرھویں مہینے ۲ھ میں مدینہ پر حضرت سعد بن معاذ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو حاکم بنا کر دو سو مہاجرین کو ساتھ لے کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جہاد کی نیت سے روانہ ہوئے۔ اس غزوہ کا جھنڈا بھی سفید تھااور علمبردار حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تھے۔ اس غزوہ کا مقصد کفار مکہ کے ایک تجارتی قافلہ کا راستہ روکنا تھا۔ اس قافلہ کا سالار ''امیہ بن خلف جمحی'' تھا اور اس قافلہ میں ایک سوقریشی کفار اور ڈھائی ہزار اونٹ تھے۔حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اس قافلہ کی تلاش میں مقام ''بواط'' تک تشریف
"1۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب،اول المغازی،ج۲،ص۲۲۹،۲۳۰والسیرۃ الحلبیۃ،
باب ذکرمغازیہ،ج۲ ، ص۱۷۳،۱۷۴ملتقطاً"
لے گئے مگر کفار قریش کا کہیں سامنا نہیں ہوا اس لیے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بغیر کسی جنگ کے مدینہ واپس تشریف لائے۔(1)(زرقانی علی المواہب ج۱ص۳۹۳)
اسی سال ''کرزبن جابر فہری'' نے مدینہ کی چراگاہ میں ڈاکہ ڈالااور کچھ اونٹوں کو ہانک کر لے گیا۔حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو مدینہ میں اپنا خلیفہ بنا کراور حضر ت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو علمبردار بنا کر صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ وادی سفوان تک اس ڈاکو کا تعاقب کیامگر وہ اس قدر تیزی کے ساتھ بھاگا کہ ہاتھ نہیں آیااور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مدینہ واپس تشریف لائے۔ وادی سفوان '' بدر''کے قریب ہے اسی لیے بعض مؤرخین نے اس غزوہ کانام'' غزوۂ بدرِاولیٰ'' رکھا ہے۔ اس لیے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ غزوۂ سفوان او ر غزوۂ بد رِ اولیٰ دونوں ایک ہی غزوہ کے دو نام ہیں۔ (2) (مدارج جلد ۲ص ۷۹)
اسی ۲ھ میں کفار قریش کا ایک قافلہ مال تجارت لے کر مکہ سے شام جا رہا تھا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ڈیڑھ سو یا دو سو مہاجرین صحابہ کو ساتھ لے کر اس قافلہ کا راستہ روکنے کے لیے مقام''ذی العشیرہ''تک تشریف لے گئے جو ''ینبوع''کی بندرگاہ کے قریب ہے مگر یہاں پہنچ کر معلوم ہواکہ قافلہ بہت آگے بڑھ گیاہے۔ اس لیے کوئی ٹکراؤ نہیں ہوا مگر یہی قافلہ جب شام سے واپس لوٹااور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اس کی مزاحمت کے لیے نکلے تو جنگ بدر کا معرکہ پیش آگیاجس کا مفصل ذکر آگے آتا ہے۔ (3)(زرقانی ج ۱ص۳۹۵)
"1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ والزرقانی ، غزوۃ بواط،ج۲،ص۲۳۱،۲۳۲
2۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم، باب دوم ، ج۲،ص۷۹
3۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ و الزرقانی، غزوۃ العشیرۃ،ج۲، ص۲۳۲۔۲۳۴"
"اسی سال ماہ رجب ۲ھ میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت عبد اﷲ بن جحش رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو امیر لشکر بنا کران کی ماتحتی میں اٹھ یا بارہ مہاجرین کا ایک جتھ روانہ فرمایا، دو دو آدمی ایک ایک اونٹ پر سوار تھے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت عبدا ﷲ بن جحش رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو لفافہ میں ایک مہر بند خط دیا اور فرمایا کہ دو دن سفر کرنے کے بعد اس لفافہ کو کھول کر پڑھنا اور اس میں جو ہدایات لکھی ہوئی ہیں ان پر عمل کرنا۔ جب خط کھول کر پڑھا تو اس میں یہ درج تھا کہ تم طائف اور مکہ کے درمیان مقام ''نخلہ'' میں ٹھہر کر قریش کے قافلوں پر نظر رکھواور صورت حال کی ہمیں برابر خبر دیتے رہو۔ یہ بڑا ہی خطر ناک کام تھا کیونکہ دشمنوں کے عین مرکز میں قیام کر کے جاسوسی کرنا گویاموت کے منہ میں جاناتھامگریہ سب جاں نثاربے دھڑک مقام ''نخلہ'' پہنچ گئے۔ عجیب اتفاق کہ رجب کی آخری تاریخ کو یہ لوگ نخلہ میں پہنچے اور اسی دن کفار قریش کا ایک تجارتی قافلہ آیا جس میں عمرو بن الحضرمی اور عبدا ﷲبن مغیرہ کے دو لڑکے عثمان ونوفل اور حکم بن کیسان وغیرہ تھے اوراونٹوں پر کھجور اور دوسرا مالِ تجارت لداہوا تھا۔
امیرسریہ حضرت عبداﷲ بن جحش رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ اگر ہم ان قافلہ والوں کو چھوڑ دیں تو یہ لوگ مکہ پہنچ کر ہم لوگوں کی یہاں موجودگی سے مکہ والوں کو باخبر کردیں گے اور ہم لوگوں کو قتل یا گرفتار کر ادیں گے اور اگر ہم ان لوگوں سے جنگ کریں تو آج رجب کی آخری تاریخ ہے لہٰذا شہر حرام میں جنگ کرنے کا گناہ ہم پر لازم ہو گا۔ آخریہی رائے قرار پائی کہ ا ن لوگوں سے جنگ کر کے اپنی جان کے خطرہ کودفع کرنا چاہیے۔ چنانچہ حضرت و اقد بن عبداﷲ تمیمی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے"
"ایک ایسا تاک کر تیر مارا کہ وہ عمرو بن الحضرمی کولگا اور وہ اسی تیر سے قتل ہو گیااور عثمان وحکم کو ان لوگوں نے گرفتا ر کر لیا، نوفل بھاگ نکلا۔ حضرت عبداﷲ بن جحش رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اونٹوں اور ان پر لدے ہوئے مال و اسباب کو مال غنیمت بنا کر مدینہ لوٹ آئے او ر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں اس مال غنیمت کا پانچواں حصہ پیش کیا۔ (1) (زُرقانی علی المواہب ج۱ص۳۹۸)
جو لوگ قتل یا گرفتار ہوئے وہ بہت ہی معزز خاندان کے لوگ تھے۔ عمرو بن الحضرمی جو قتل ہوا عبداﷲ حضرمی کابیٹا تھا۔ عمرو بن الحضرمی پہلا کافر تھا جو مسلمانوں کے ہاتھ سے مارا گیا۔ جو لوگ گرفتار ہوئے یعنی عثمان او ر حکم، ان میں سے عثمان تو مغیرہ کا پوتا تھا جو قریش کا ایک بہت بڑا رئیس شمار کیا جاتا تھا اور حکم بن کیسان ہشام بن المغیرہ کا آزاد کردہ غلام تھا۔ اس بنا پر اس واقعہ نے تمام کفار قریش کو غیظ و غضب میں آگ بگولہ بنا دیااور ''خون کابدلہ خون''لینے کا نعرہ مکہ کے ہر کوچہ و بازار میں گونجنے لگااور در حقیقت جنگ بدر کا معرکہ اسی واقعہ کا رد عمل ہے۔ چنانچہ حضرت عروہ بن زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ جنگ بدر اور تمام لڑائیاں جو کفار قریش سے ہوئیں ان سب کا بنیادی سبب عمرو بن الحضرمی کا قتل ہے جس کو حضرت و اقدبن عبداﷲ تمیمی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے تیر مار کر قتل کردیا تھا۔ (2) (تاریخ طبری ص۱۲۸۴)"
''بدر '' مدینہ منورہ سے تقریباً اسّی میل کے فاصلہ پر ایک گاؤں کا نام ہے
"1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،سریۃ امیر المؤمنین عبداللہ بن جحش،ج۲،ص۲۳۸
2۔۔۔۔۔۔تاریخ الطبری،الجزئ۲،ص۱۳۱المکتبۃ الشاملۃ"
جہاں زمانۂ جاہلیت میں سالانہ میلہ لگتاتھا۔ یہاں ایک کنواں بھی تھا جس کے مالک کا نام ''بدر''تھا اسی کے نام پر اس جگہ کا نام '' بدر'' رکھ دیا گیا۔ اسی مقام پر جنگ ِبدر کا وہ عظیم معرکہ ہوا جس میں کفار ِقریش اور مسلمانوں کے درمیان سخت خونریزی ہوئی اور مسلمانوں کو وہ عظیم الشان فتح مبین نصیب ہوئی جس کے بعد اسلام کی عزت و اقبال کا پرچم اتنا سر بلند ہوگیا کہ کفار قریش کی عظمت و شوکت بالکل ہی خاک میں مل گئی۔ اﷲ تعالیٰ نے جنگ بدر کے دن کا نام ''یومُ الفرقان'' رکھا۔(1) قرآن کی سورۂ انفال میں تفصیل کے ساتھ اور دوسری سورتوں میں اجمالاً باربار اس معرکہ کا ذکر فرمایا اور اس جنگ میں مسلمانوں کی فتح مبین کے بارے میں احسان جتاتے ہوئے خداوند عالم نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ
وَلَقَدْ نَصَرَکُمُ اللہُ بِبَدْرٍ وَّاَنۡتُمْ اَذِلَّۃٌ ۚ فَاتَّقُوا اللہَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوۡنَ ﴿۱۲۳﴾ (2)
اوریقینا خداوند تعالیٰ نے تم لوگوں کی مدد فرمائی بدر میں جبکہ تم لوگ کمزور اور بے سروسامان تھے تو تم لوگ اﷲ سے ڈرتے رہوتاکہ تم لوگ شکر گزار ہو جاؤ۔
جنگ ِبدر کا اصلی سبب تو جیسا کہ ہم تحریر کر چکے ہیں''عمرو بن الحضرمی'' کے قتل سے کفار قریش میں پھیلا ہوا زبردست اشتعال تھا جس سے ہر کافر کی زبان پریہی ایک نعرہ تھاکہ '' خون کا بدلہ خو ن لے کر رہیں گے۔''
"1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ و الزرقانی، باب غزوۃ بدرالکبریٰ، ج۲،ص۲۵۵۔۲۵۶
2۔۔۔۔۔۔پ۴،اٰل عمرٰن: ۱۲۳"
مگر بالکل نا گہاں یہ صورت پیش آگئی کہ قریش کا وہ قافلہ جس کی تلاش میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مقام '' ذی العشیرہ'' تک تشریف لے گئے تھے مگر وہ قافلہ ہاتھ نہیں آیا تھا بالکل اچانک مدینہ میں خبر ملی کہ اب وہی قافلہ ملک شام سے لوٹ کر مکہ جانے والا ہے او ر یہ بھی پتہ چل گیا کہ اس قافلہ میں ابو سفیان بن حرب و مخرمہ بن نوفل و عمرو بن العاص وغیرہ کل تیس یا چالیس آدمی ہیں اورکفار قریش کا ما ل تجارت جو اس قافلہ میں ہے وہ بہت زیادہ ہے۔حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایاکہ کفار قریش کی ٹولیاں لوٹ مار کی نیت سے مدینہ کے اطراف میں برابر گشت لگاتی رہتی ہیں اور '' کر زبن جابر فہری '' مدینہ کی چراگاہوں تک آکر غارت گری اور ڈاکہ زنی کر گیا ہے لہٰذا کیوں نہ ہم بھی کفار قریش کے اس قافلہ پر حملہ کر کے اس کو لوٹ لیں تاکہ کفار قریش کی شامی تجارت بند ہو جائے او ر وہ مجبور ہو کر ہم سے صلح کر لیں۔ حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی سن کر انصار و مہاجرین اس کے لیے تیار ہوگئے۔
"چنانچہ ۱۲ رمضان ۲ھ کو بڑی عجلت کے ساتھ لوگ چل پڑے، جو جس حال میں تھااسی حال میں روانہ ہو گیا۔ اس لشکر میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ نہ زیادہ ہتھیار تھے نہ فوجی راشن کی کوئی بڑی مقدار تھی کیونکہ کسی کو گمان بھی نہ تھا کہ اس سفر میں کوئی بڑی جنگ ہوگی ۔
مگر جب مکہ میں یہ خبر پھیلی کہ مسلمان مسلح ہو کر قریش کا قافلہ لوٹنے کے لئے مدینہ سے چل پڑے ہیں تو مکہ میں ایک جوش پھیل گیا اور ایک دم کفار قریش کی فوج کا دل بادل مسلمانوں پر حملہ کر نے کے لیے تیار ہو گیا۔جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اس"
"کی اطلاع ملی توآپ نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو جمع فرماکر صورتِ حال سے آگاہ کیا اور صاف صاف فرما دیاکہ ممکن ہے کہ اس سفر میں کفارقریش کے قافلہ سے ملاقات ہوجائے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کفار مکہ کے لشکر سے جنگ کی نوبت آجائے۔ ارشاد گرامی سن کر حضرت ابو بکر صدیق و حضرت عمر فاروق اور دوسرے مہاجرین نے بڑے جوش و خروش کا اظہار کیا مگر حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم انصار کا منہ دیکھ رہے تھے کیونکہ انصار نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کرتے وقت اس بات کا عہد کیاتھا کہ وہ اس وقت تلوار اٹھائیں گے جب کفار مدینہ پر چڑھ آئیں گے اور یہاں مدینہ سے باہر نکل کر جنگ کرنے کا معاملہ تھا۔ (1)
انصار میں سے قبیلۂ خزرج کے سردار حضرت سعد بن عبادہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا چہرهٔ انور دیکھ کر بول اٹھے کہ یا رسول اﷲ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کیا آپ کا اشارہ ہماری طرف ہے ؟خدا کی قسم!ہم وہ جاں نثارہیں کہ اگر آپ کا حکم ہو تو ہم سمندر میں کود پڑیں اسی طرح انصار کے ایک اور معزز سردار حضر ت مقدادبن اسود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جوش میں آکر عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کی طرح یہ نہ کہیں گے کہ آپ اور آپ کا خدا جا کر لڑیں بلکہ ہم لوگ آپ کے دائیں سے، بائیں سے، آگے سے، پیچھے سے لڑیں گے۔ انصار کے ان دونو ں سرداروں کی تقریر سن کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا۔ (2)(بخاری غزوہ بدر ج۲ص۵۶۴)"
"1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم، باب دوم ، ج۲،ص۸۱۔۸۳ملخصاً
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب۴،قول اللہ تعالٰی،الحدیث:۳۹۵۲،ج۳، ص۵مختصرًا والمواہب اللدنیۃ والزرقانی،باب غزوۃبدرالکبریٰ، ج۲،ص۲۶۵ ۔۲۶۷"
مدینہ سے ایک میل دور چل کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے لشکر کا جائزہ لیا، جو لوگ کم عمر تھے ان کو واپس کر دینے کا حکم دیا کیونکہ جنگ کے پر خطرموقع پر بھلا بچوں کا کیا کام؟
"مگر انہی بچوں میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے چھوٹے بھائی حضرت عمیر بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے۔ جب ان سے واپس ہونے کو کہا گیاتو وہ مچل گئے اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے او ر کسی طرح واپس ہونے پر تیار نہ ہوئے۔ ان کی بے قراری اور گریہ و زاری دیکھ کر رحمت عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا قلب نازک متاثر ہو گیااور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو ساتھ چلنے کی اجازت دے دی۔ چنانچہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس ننھے سپاہی کے گلے میں بھی ایک تلوار حمائل کردی مدینہ سے روانہ ہونے کے وقت نمازوں کے لئے حضرت ابن اُمِ مکتوم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو آپ نے مسجد نبوی کا امام مقرر فرما دیا تھا لیکن جب آپ مقام ''روحا'' میں پہنچے تو منافقین اور یہودیوں کی طرف سے کچھ خطرہ محسوس فرمایا اس لئے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت ابو لبابہ بن عبدالمنذر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو مدینہ کا حاکم مقرر فرما کر ان کو مدینہ واپس جانے کا حکم دیا اور حضرت عاصم بن عدی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو مدینہ کے چڑھائی والے گاؤں پر نگرانی رکھنے کا حکم صادر فرمایا۔
ان انتظامات کے بعد حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ''بدر'' کی جانب چل پڑے جدھر سے کفار مکہ کے آنے کی خبر تھی۔ اب کل فوج کی تعداد تین سو تیرہ تھی جن میں ساٹھ مہاجراور باقی انصار تھے۔ منزل بہ منزل سفر فرماتے ہوئے جب آپ مقام"
''صفرا'' میں پہنچے تو دو آدمیوں کو جاسوسی کے لئے روانہ فرمایا تا کہ وہ قافلہ کا پتہ چلائیں کہ وہ کدھر ہے؟ اور کہاں تک پہنچا ہے ؟ (1) (زُرقانی ج۱ ص۴۱۱)
ادھر کفار قریش کے جاسوس بھی اپنا کام بہت مستعدی سے کر رہے تھے۔ جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مدینہ سے روانہ ہوئے تو ابو سفیان کو اس کی خبر مل گئی۔ اس نے فوراً ہی ''ضمضم بن عمرو غفاری'' کو مکہ بھیجا کہ وہ قریش کو اس کی خبر کر دے تا کہ وہ اپنے قافلہ کی حفاظت کا انتظام کریں اور خود راستہ بدل کر قافلہ کو سمندر کی جانب لے کر روانہ ہو گیا۔ ابو سفیان کا قاصد ضمضم بن عمرو غفاری جب مکہ پہنچا تو اس وقت کے دستور کے مطابق کہ جب کوئی خوفناک خبر سنانی ہوتی تو خبر سنانے والا اپنے کپڑے پھاڑ کراور اونٹ کی پیٹھ پر کھڑا ہوکر چلا چلا کر خبر سنایا کرتا تھا ۔ ضمضم بن عمرو غفاری نے اپنا کرتا پھاڑ ڈالا اور اونٹ کی پیٹھ پر کھڑا ہو کر زور زور سے چلانے لگا کہ اے اہل مکہ! تمہارا سارا مال تجارت ابو سفیان کے قافلہ میں ہے اور مسلمانوں نے اس قافلہ کا راستہ روک کر قافلہ کو لوٹ لینے کا عزم کر لیا ہے لہٰذا جلدی کرو اور بہت جلد اپنے اس قافلہ کو بچانے کے لئے ہتھیار لے کر دوڑ پڑو۔(2)(زُرقانی ج۱ ص۴۱۱)
جب مکہ میں یہ خوفناک خبر پہنچی تو اس قدر ہل چل مچ گئی کہ مکہ کا سارا امن و
"1۔۔۔۔۔۔کتاب المغازی للواقدی،باب بدرالقتال،ج۱،ص۲۱وشرح الزرقانی علی المواھب،
باب غزوۃبدر الکبریٰ،ج۲،ص۳۲۶
2۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، باب غزوۃ بد رالکبریٰ، ج۲،ص۲۶۳ومدارج
النبوت، قسم سوم، باب دوم ، ج۲،ص۸۲"
سکون غارت ہو گیا، تمام قبائل قریش اپنے گھروں سے نکل پڑے، سرداران مکہ میں سے صرف ابو لہب اپنی بیماری کی وجہ سے نہیں نکلا، اس کے سوا تمام روساء قریش پوری طرح مسلح ہو کر نکل پڑے اور چونکہ مقام نخلہ کا واقعہ بالکل ہی تازہ تھا جس میں عمرو بن الحضرمی مسلمانوں کے ہاتھ سے مارا گیا تھا اور اس کے قافلہ کو مسلمانوں نے لوٹ لیا تھا اس لئے کفار قریش جوش انتقام میں آپے سے باہر ہو رہے تھے۔ ایک ہزار کا لشکر جرار جس کا ہر سپاہی پوری طرح مسلح،دوہرے ہتھیار،فوج کی خوراک کا یہ انتظام تھا کہ قریش کے مالدار لوگ یعنی عباس بن عبدالمطلب،عتبہ بن ربیعہ،حارث بن عامر، نضر بن الحارث، ابو جہل،اُمیہ وغیرہ باری باری سے روزانہ دس دس اونٹ ذبح کرتے تھے اورپورے لشکر کو کھلاتے تھے عتبہ بن ربیعہ جو قریش کا سب سے بڑا رئیس اعظم تھا اس پورے لشکر کا سپہ سالار تھا۔
ابو سفیان جب عام راستہ سے مڑ کر ساحل سمندر کے راستہ پر چل پڑا اور خطرہ کے مقامات سے بہت دور پہنچ گیا اور اس کو اپنی حفاظت کا پورا پورا اطمینان ہوگیا تو اس نے قریش کو ایک تیز رفتار قاصد کے ذریعہ خط بھیج دیا کہ تم لوگ اپنے مال اور آدمیوں کو بچانے کے لئے اپنے گھروں سے ہتھیار لے کر نکل پڑے تھے اب تم لوگ اپنے اپنے گھروں کو واپس لوٹ جاؤ کیونکہ ہم لوگ مسلمانوں کی یلغار اور لوٹ مار سے بچ گئے ہیں اور جان و مال کی سلامتی کے ساتھ ہم مکہ پہنچ رہے ہیں۔(1)
ابو سفیان کا یہ خط کفار مکہ کو اس وقت ملا جب وہ مقام ''جحفہ'' میں تھے۔ خط
1۔۔۔۔۔۔السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، غزوۃ بدرالکبریٰ،ص۲۵۵
پڑھ کر قبیلۂ بنو زہرہ اور قبیلۂ بنو عدی کے سرداروں نے کہا کہ اب مسلمانوں سے لڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے لہٰذا ہم لوگوں کو واپس لوٹ جانا چاہیے۔ یہ سن کر ابو جہل بگڑگیا اور کہنے لگا کہ ہم خدا کی قسم! اسی شان کے ساتھ بدر تک جائیں گے، وہاں اونٹ ذبح کریں گے اور خوب کھائیں گے، کھلائیں گے، شراب پئیں گے، ناچ رنگ کی محفلیں جمائیں گے تا کہ تمام قبائل عرب پر ہماری عظمت اور شوکت کا سکہ بیٹھ جائے اور وہ ہمیشہ ہم سے ڈرتے رہیں۔کفار قریش نے ابو جہل کی رائے پر عمل کیا لیکن بنو زہرہ اور بنو عدی کے دونوں قبائل واپس لوٹ گئے۔ ان دونوں قبیلوں کے سوا باقی کفار قریش کے تمام قبائل جنگ بدر میں شامل ہوئے۔ (1) (سیرتِ ابن ہشام ج۲ ص۶۱۸ تا ۶۱۹)
کفار قریش چونکہ مسلمانوں سے پہلے بدر میں پہنچ گئے تھے اس لئے مناسب جگہوں پر ان لوگوں نے اپنا قبضہ جما لیا تھا۔ حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جب بدر کے قریب پہنچے تو شام کے وقت حضرت علی، حضرت زبیر، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کو بدر کی طرف بھیجا تا کہ یہ لوگ کفار قریش کے بارے میں خبر لائیں۔ ان حضرات نے قریش کے دو غلاموں کو پکڑ لیا جو لشکر کفار کے لئے پانی بھرنے پر مقرر تھے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان دونوں غلاموں سے دریافت فرمایا کہ بتاؤ اس قریشی فوج میں قریش کے سرداروں میں سے کون کون ہے؟ تو دونوں غلاموں نے بتایا کہ عتبہ بن ربیعہ،شیبہ بن ربیعہ،ابو البختر ی ،حکیم بن حزام، نوفل بن خویلد، حارث بن عامر،نضر بن الحارث، زمعہ بن الاسود، ابو جہل بن ہشام،اُمیہ بن خلف،سہیل بن عمرو، عمروبن عبدود، عباس
1۔۔۔۔۔۔السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، غزوۃ بدرالکبریٰ،ص۲۵۵،۲۵۶
بن عبدالمطلب وغیرہ سب اس لشکر میں موجود ہیں۔ یہ فہرست سن کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ مسلمانو! سن لو! مکہ نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو تمہاری طرف ڈال دیا ہے۔(1)(مسلم ج۲ ص۱۰۲ غزوئہ بدر و زُرقانی وغیرہ)
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب بدر میں نزول فرمایا تو ایسی جگہ پڑاؤ ڈالا کہ جہاں نہ کوئی کنواں تھا نہ کوئی چشمہ اور وہاں کی زمین اتنی ریتلی تھی کہ گھوڑوں کے پاؤں زمین میں دھنستے تھے۔ یہ دیکھ کر حضرت حباب بن منذر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یارسول اﷲ!صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم آپ نے پڑاؤ کے لئے جس جگہ کو منتخب فرمایا ہے یہ وحی کی رو سے ہے یا فوجی تدبیر ہے؟ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے بارے میں کوئی وحی نہیں اتری ہے۔ حضرت حباب بن منذر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ پھر میری رائے میں جنگی تدابیر کی رو سے بہتر یہ ہے کہ ہم کچھ آگے بڑھ کر پانی کے چشموں پر قبضہ کر لیں تا کہ کفار جن کنوؤں پر قابض ہیں وہ بیکار ہو جائیں کیونکہ انہی چشموں سے ان کے کنوؤں میں پانی جاتا ہے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کی رائے کو پسند فرمایا اور اسی پر عمل کیا گیا۔ خدا کی شان کہ بارش بھی ہو گئی جس سے میدان کی گرد اور ریت جم گئی جس پر مسلمانوں کے لئے چلنا پھرنا آسان ہو گیا اور کفار کی زمین پر کیچڑ ہو گئی جس سے ان کو چلنے پھرنے میں دشواری ہو گئی اور مسلمانوں نے بارش کا پانی روک کر جا بجا حوض بنالئے تا کہ یہ پانی غسل اور وضو کے کام آئے۔اسی احسان کو خداوند عالم نے قرآن میں اس طرح بیان فرمایا کہ
1۔۔۔۔۔۔السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، غزوۃ بدرالکبریٰ، ص۲۵۴ملتقطاً
وَیُنَزِّلُ عَلَیۡکُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً لِّیُطَہِّرَکُمۡ بِہٖ (1)
اور خدا نے آسمان سے پانی برسا دیا تا کہ وہ تم لوگوں کو پاک کرے۔(انفال)
۱۷ رمضان ۲ ھ جمعہ کی رات تھی تمام فوج تو آرام و چین کی نیند سو رہی تھی مگر ایک سرورکائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ذات تھی جو ساری رات خداوند عالم سے لو لگائے دعا میں مصروف تھی۔ صبح نمودار ہوئی تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے لوگوں کو نماز کے لئے بیدار فرمایا پھر نماز کے بعد قرآن کی آیات جہاد سنا کر ایسا لرزہ خیز اور ولولہ انگیز وعظ فرمایا کہ مجاہدین اسلام کی رگوں کے خون کا قطرہ قطرہ جوش و خروش کا سمندر بن کر طوفانی موجیں مارنے لگا اور لوگ میدان جنگ کے لئے تیار ہونے لگے۔
"رات ہی میں چند جاں نثاروں کے ساتھ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے میدان جنگ کا معائنہ فرمایا، اس وقت دست مبارک میں ایک چھڑی تھی۔ آپ اُسی چھڑی سے زمین پر لکیر بناتے تھے اور یہ فرماتے جاتے تھے کہ یہ فلاں کافر کے قتل ہونے کی جگہ ہے اور کل یہاں فلاں کافر کی لاش پڑی ہوئی ملے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جس جگہ جس کافر کی قتل گاہ بتائی تھی اس کافر کی لاش ٹھیک اسی جگہ پائی گئی ان میں سے کسی ایک نے لکیر سے بال برابر بھی تجاوز نہیں کیا۔(2)
(ابو داؤد ج۲ ص۳۶۴ مطبع نامی و مسلم ج۲ ص۱۰۲ غزوئہ بدر)"
"1۔۔۔۔۔۔پ۹،الانفال:۱۱والسیرۃ النبویۃ لابن ہشام،غزوۃبدرالکبریٰ،ص۲۵۶وشرح الزرقانی
علی المواھب،غزوۃبد رالکبریٰ،ج ۲، ص۲۷۱
2۔۔۔۔۔۔صحیح مسلم،کتاب الجھادوالسیر،باب غزوۃبدر،الحدیث:۱۷۷۸،ص۹۸۱
وشرح الزرقانی علی المواھب،باب غزوۃ بدرالکبریٰ، ج۲،ص۲۶۹"
اس حدیث سے صاف اور صریح طورپر یہ مسئلہ ثابت ہو جاتاہے کہ کون کب؟ اور کہاں مرے گا؟ ان دونوں غیب کی باتوں کا علم اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو عطا فرمایا تھا۔
کفار قریش لڑنے کے لئے بے تاب تھے مگر ان لوگوں میں کچھ سلجھے دل و دماغ کے لوگ بھی تھے جو خون ریزی کو پسند نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ حکیم بن حزام جو بعد میں مسلمان ہو گئے بہت ہی سنجیدہ اور نرم خو تھے۔ انہوں نے اپنے لشکر کے سپہ سالار عتبہ بن ربیعہ سے کہاکہ آخر اس خون ریزی سے کیا فائدہ؟میں آپ کو ایک نہایت ہی مخلصانہ مشورہ دیتا ہوں وہ یہ ہے کہ قریش کا جو کچھ مطالبہ ہے وہ عمرو بن الحضرمی کا خون ہے اور وہ آپ کا حلیف ہے آپ اس کا خون بہا ادا کر دیجیے، اس طرح یہ لڑائی ٹل جائے گی اور آج کا دن آپ کی تاریخ زندگی میں آپ کی نیک نامی کی یادگار بن جائے گا کہ آپ کے تدبر سے ایک بہت ہی خوفناک اور خون ریز لڑائی ٹل گئی۔ عتبہ بذات خود بہت ہی مدبر اور نیک نفس آدمی تھا۔ اس نے بخوشی اس مخلصانہ مشورہ کو قبول کر لیا مگر اس معاملہ میں ابو جہل کی منظوری بھی ضروری تھی۔ چنانچہ حکیم بن حزام جب عتبہ بن ربیعہ کا یہ پیغام لے کرابو جہل کے پاس گئے تو ابو جہل کی رگِ جہالت بھڑک اُٹھی اور اُس نے ایک خون کھولا دینے والا طعنہ مارا ا ور کہا کہ ہاں ہاں! میں خوب سمجھتا ہوں کہ عتبہ کی ہمت نے جواب دے دیا چونکہ اس کا بیٹا حذیفہ مسلمان ہو کر اسلامی لشکر کے ساتھ آیا ہے اس لئے وہ جنگ سے جی چراتا ہے تا کہ اس کے بیٹے پر آنچ نہ آئے۔
پھر ابو جہل نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ عمرو بن الحضرمی مقتول کے بھائی عامر بن الحضرمی کو بلا کر کہا کہ دیکھو تمہارے مقتول بھائی عمرو بن الحضرمی کے خون کا بدلہ لینے کی ساری اسکیم تہس نہس ہوئی جا رہی ہے کیونکہ ہمارے لشکر کا سپہ سالار عتبہ بزدلی ظاہر کر رہا ہے۔ یہ سنتے ہی عامر بن الحضرمی نے عرب کے دستور کے مطابق اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے اور اپنے سر پر دھول ڈالتے ہوئے ''واعمراہ وا عمراہ'' کا نعرہ مارنا شروع کر دیا۔ اس کارروائی نے کفار قریش کی تمام فوج میں آگ لگا دی اور سارا لشکر ''خون کا بدلہ خون'' کے نعروں سے گونجنے لگا اور ہر سپاہی جوش میں آپے سے باہر ہو کر جنگ کے لئے بے تاب و بے قرار ہو گیا۔ عتبہ نے جب ابو جہل کا طعنہ سنا تو وہ بھی غصہ میں بھر گیااور کہا کہ ابو جہل سے کہہ دو کہ میدان جنگ بتائے گا کہ بزدل کون ہے؟ یہ کہہ کر لوہے کی ٹوپی طلب کی مگر اس کا سر اتنا بڑا تھا کہ کوئی ٹوپی اس کے سر پر ٹھیک نہیں بیٹھی تو مجبوراً اس نے اپنے سر پر کپڑا لپیٹا اور ہتھیار پہن کر جنگ کے لئے تیار ہو گیا۔(1)
۱۷ رمضان ۲ھ جمعہ کے دن حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مجاہدین اسلام کو صف بندی کا حکم دیا۔ دست مبارک میں ایک چھڑی تھی اس کے اشارہ سے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم صفیں درست فرما رہے تھے کہ کوئی شخص آگے پیچھے نہ رہنے پائے اور یہ بھی حکم فرما دیا کہ بجز ذکر الٰہی کے کوئی شخص کسی قسم کا کوئی شوروغل نہ مچائے۔ عین ایسے وقت میں کہ جنگ کا نقارہ بجنے والا ہی ہے دو ایسے واقعات درپیش ہو گئے جو نہایت ہی عبرت خیز اور بہت زیادہ نصیحت آموز ہیں۔
1۔۔۔۔۔۔السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، غزوۃ بدرالکبریٰ،ص۲۵۷
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنی چھڑی کے اشارہ سے صفیں سیدھی فرما رہے تھے کہ آپ نے دیکھا کہ حضرت سواد انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا پیٹ صف سے کچھ آگے نکلا ہوا تھا۔ آپ نے اپنی چھڑی سے ان کے پیٹ پر ایک کونچا دے کر فرمایاکہ اِسْتَوِ یَا سَوَادُ(اے سواد سیدھے کھڑے ہو جاؤ) حضرت سواد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ یا رسول اﷲ! آپ نے میرے شکم پر چھڑی ماری ہے مجھے آپ سے اس کا قصاص (بدلہ)لینا ہے۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنا پیراہن شریف اٹھا کر فرمایا کہ اے سواد!لومیرا شکم حاضر ہے تم اس پر چھڑی مار کر مجھ سے اپنا قصاص لے لو۔ حضرت سواد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے دوڑ کر آپ کے شکم مبارک کو چوم لیااورپھر نہایت ہی والہانہ اندازمیں انتہائی گرم جوشی کے ساتھ آپ کے جسم اقدس سے لپٹ گئے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اے سواد! تم نے ایسا کیوں کیا؟ عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں اس وقت جنگ کی صف میں اپنا سر ہتھیلی پر رکھ کر کھڑا ہوں شاید موت کا وقت آ گیا ہو، اس وقت میرے دل میں اس تمنا نے جوش مارا کہ کاش!مرتے وقت میرا بدن آپ کے جسم اطہر سے چھو جائے ۔یہ سن کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت سوادرضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے اس جذبۂ محبت کی قدر فرماتے ہوئے ان کے لئے خیروبرکت کی دعا فرمائی اور حضرت سواد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے دربار رسالت میں معذرت کرتے ہوئے اپنا قصاص معاف کر دیااور تمام صحابۂ کرام حضرت سواد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی اس عاشقانہ اداکوحیرت سے دیکھتے ہوئے ان کا منہ تکتے رہ گئے۔(1)(سیرت ابن ہشام غزوہ بدر ج۲ ص۶۲۶)
1۔۔۔۔۔۔السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، غزوۃ بدرالکبریٰ،ص۲۵۸،۲۵۹
"اتفاق سے حضرت حذیفہ بن الیمان اور حضرت حسیل رضی اﷲ تعالیٰ عنہما یہ دونوں صحابی کہیں سے آ رہے تھے راستہ میں کفار نے ان دونوں کو روکا کہ تم دونوں بدر کے میدان میں حضرت محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی مدد کرنے کے لئے جا رہے ہو۔ ان دونوں نے انکارکیااورجنگ میں شریک نہ ہونے کاعہدکیاچنانچہ کفارنے ان دونوں کو چھوڑ دیا۔جب یہ دونوں بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اوراپنا واقعہ بیان کیا تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان دونوں کو لڑائی کی صفوں سے الگ کر دیا اور ارشاد فرمایا کہ ہم ہر حال میں عہد کی پابندی کریں گے ہم کو صرف خدا کی مدد درکار ہے۔ (1) (مسلم باب الوفا بالعہد ج۲ ص۱۰۶)
ناظرین کرام! غور کیجیے۔دنیا جانتی ہے کہ جنگ کے موقع پر خصوصاً ایسی صورت میں جب کہ دشمنوں کے عظیم الشان لشکر کا مقابلہ ہو ایک ایک سپاہی کتنا قیمتی ہوتا ہے مگر تاجدار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی کمزور فوج کو دو بہادر اور جانباز مجاہدوں سے محروم رکھنا پسند فرمایا مگر کوئی مسلمان کسی کافر سے بھی بد عہدی اور وعدہ خلافی کرے اس کو گوارا نہیں فرمایا۔
اﷲ اکبر! اے اقوام عالم کے بادشاہو!ﷲ مجھے بتاؤ کہ کیا تمہاری تاریخ زندگی کے بڑے بڑے دفتروں میں کوئی ایسا چمکتا ہوا ورق بھی ہے؟ اے چاند و سورج کی دوربین نگاہو! تم خدا کے لئے بتاؤ! کیا تمہاری آنکھوں نے بھی کبھی صفحۂ ہستی پر پابندی عہد کی کوئی ایسی مثال دیکھی ہے؟ خدا کی قسم!مجھے یقین ہے کہ تم اس کے جواب میں ''نہیں'' کے سوا کچھ بھی نہیں کہہ سکتے۔"
1۔۔۔۔۔۔صحیح مسلم ، کتاب الجھاد والسیر ، باب الوفاء بالعھد،الحدیث:۱۷۸۷، ص۹۸۸
اب وہ وقت ہے کہ میدان بدر میں حق و باطل کی دونوں صفیں ایک دوسرے کے سامنے کھڑی ہیں۔ قرآن اعلان کر رہا ہے کہ
قَدْ کَانَ لَکُمْ اٰیَۃٌ فِیۡ فِئَتَیۡنِ الْتَقَتَا ؕ فِئَۃٌ تُقَاتِلُ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ وَاُخْرٰی کَافِرَۃٌ (1)
"جو لوگ باہم لڑے ان میں تمہارے لئے عبرت کا نشان ہے ایک خدا کی راہ میں لڑ رہا تھا اور دوسرا منکر خدا تھا۔(آل عمران )
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مجاہدین اسلام کی صف بندی سے فارغ ہو کر مجاہدین کی قرارداد کے مطابق اپنے اس چھپر میں تشریف لے گئے جس کو صحابہ کرام نے آپ کی نشست کے لئے بنا رکھا تھا۔ اب اس چھپر کی حفاظت کا سوال بے حد اہم تھا کیونکہ کفار قریش کے حملوں کا اصل نشانہ حضور تاجدار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہی کی ذات تھی کسی کی ہمت نہیں پڑتی تھی کہ اس چھپر کا پہرہ دے لیکن اس موقع پر بھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے یارغار حضرت صدیق باوقاررضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کی قسمت میں یہ سعادت لکھی تھی کہ وہ ننگی تلوار لے کر اس جھونپڑی کے پاس ڈٹے رہے اور حضرت سعد بن معاذ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی چند انصاریوں کے ساتھ اس چھپر کے گرد پہرہ دیتے رہے۔(زُرقانی ج۱ ص۴۱۸)"
حضور سرورِ عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اس نازک گھڑی میں جناب باری سے لو لگائے گریہ و زاری کے ساتھ کھڑے ہو کر ہاتھ پھیلائے یہ دعا مانگ رہے تھے کہ ''خداوندا !تو نے مجھ سے جو وعدہ فرمایا ہے آج اسے پورافرما دے۔''آپ پر اس قدر
1۔۔۔۔۔۔پ۳،اٰل عمرٰن: ۱۳
" رقت اور محویت طاری تھی کہ جوشِ گریہ میں چادر مبارک دوش انور سے گر گر پڑتی تھی مگر آپ کو خبر نہیں ہوتی تھی، کبھی آپ سجدہ میں سر رکھ کر اس طرح دعا مانگتے کہ ''الٰہی!اگر یہ چند نفوس ہلاک ہو گئے تو پھر قیامت تک روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والے نہ رہیں گے۔'' (1) (سیرت ابن ہشام ج۲ ص۶۲۷)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ آپ کے یارغار تھے۔ آپ کو اس طرح بے قرار دیکھ کر ان کے دل کا سکون و قرار جاتا رہا اور ان پر رقت طاری ہو گئی اور انہوں نے چادر مبارک کو اٹھا کر آپ کے مقدس کندھے پر ڈال دی اور آپ کا دست مبارک تھام کر بھرائی ہوئی آواز میں بڑے ادب کے ساتھ عرض کیا کہ حضور! اب بس کیجیے خدا ضرور اپنا وعدہ پورا فرمائے گا۔
اپنے یارغار صدیق جاں نثار کی بات مان کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے دعا ختم کر دی اور آپ کی زبان مبارک پر اس آیت کا ورد جاری ہو گیا کہ"
سَیُہۡزَمُ الْجَمْعُ وَ یُوَلُّوۡنَ الدُّبُرَ ﴿۴۵﴾ (2)
"عنقریب (کفارکی) فوج کو شکست دے دی جائیگی اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے
آپ اس آیت کو بار بار پڑھتے رہے جس میں فتح مبین کی بشارت کی طرف اشارہ تھا۔
لڑائی کس طرح شروع ہوئی
جنگ کی ابتداء اس طرح ہوئی کہ سب سے پہلے عامر بن الحضرمی جو اپنے"
1۔۔۔۔۔۔السیرۃ النبویۃ،غزوۃ بدرالکبریٰ،ص۲۵۹والمواہب اللدنیۃ والزرقانی،غزوۃ بدرالکبریٰ، ج۲، ص۲۷۸،۲۷۹ 2۔۔۔۔۔۔ پ۲۷، القمر:۴۵
مقتول بھائی عمرو بن الحضرمی کے خون کا بدلہ لینے کے لئے بے قرار تھا جنگ کے لئے آگے بڑھا اس کے مقابلہ کے لئے حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے غلام حضرت مہجع رضی اﷲ تعالیٰ عنہ میدان میں نکلے اور لڑتے ہوئے شہادت سے سرفراز ہو گئے۔ پھر حضرت حارثہ بن سراقہ انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حوض سے پانی پی رہے تھے کہ ناگہاں ان کو کفار کا ایک تیر لگا اور وہ شہید ہو گئے۔(1) (سیرت ابن ہشام ج۲ ص۶۲۷)
"حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب جوش جہاد کا وعظ فرماتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا کہ مسلمانو!اس جنت کی طرف بڑھے چلو جس کی چوڑائی آسمان و زمین کے برابر ہے تو حضرت عمیر بن الحمام انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بول اٹھے کہ یا رسول اﷲ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کیا جنت کی چوڑائی زمین و آسمان کے برابر ہے؟ ارشاد فرمایا کہ'' ہاں'' یہ سن کر حضرت عمیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا :''واہ وا'' آپ نے دریافت فرمایا کہ کیوں اے عمیر!تم نے ''واہ وا'' کس لئے کہا؟ عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فقط اس امید پر کہ میں بھی جنت میں داخل ہو جاؤں۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خوشخبری سناتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے عمیر! تو بے شک جنتی ہے۔ حضرت عمیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اس وقت کھجوریں کھا رہے تھے۔ یہ بشارت سنی تو مارے خوشی کے کھجوریں پھینک کر کھڑے ہو گئے اور ایک دم کفار کے لشکرپر تلوار لے کر ٹوٹ پڑے اور جانبازی کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔(2)
(مسلم کتاب الجہاد باب سقوط فرض الجہاد عن المعذورین ج۲ ص۱۳۹)"
"1۔۔۔۔۔۔السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، غزوۃ بدرالکبریٰ،ص۲۵۹
2۔۔۔۔۔۔صحیح مسلم،کتاب الامارۃ،باب ثبوت الجنۃ للشہید ،الحدیث:۱۹۰۱، ص۱۰۵۳ تفصیلاً"
کفار کا سپہ سالار عتبہ بن ربیعہ اپنے سینہ پر شتر مرغ کا پر لگائے ہوئے اپنے بھائی شیبہ بن ربیعہ اور اپنے بیٹے ولید بن عتبہ کو ساتھ لے کر غصہ میں بھرا ہوا اپنی صف سے نکل کر مقابلہ کی دعوت دینے لگا۔ اسلامی صفوں میں سے حضرت عوف و حضرت معاذو عبداﷲ بن رواحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم مقابلہ کو نکلے۔ عتبہ نے ان لوگوں کا نام و نسب پوچھا، جب معلوم ہوا کہ یہ لوگ انصاری ہیں تو عتبہ نے کہا کہ ہم کو تم لوگوں سے کوئی غرض نہیں۔ پھر عتبہ نے چلا کر کہا اے محمد( صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) یہ لوگ ہمارے جوڑ کے نہیں ہیں اشراف قریش کو ہم سے لڑنے کے لئے میدان میں بھیجئے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت حمزہ و حضرت علی و حضرت عبیدہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کو حکم دیا کہ آپ لوگ ان تینوں کے مقابلہ کے لئے نکلیں۔ چنانچہ یہ تینوں بہادران اسلام میدان میں نکلے۔ چونکہ یہ تینوں حضرات سر پر خود پہنے ہوئے تھے جس سے ان کے چہرے چھپ گئے تھے اس لئے عتبہ نے ان حضرات کو نہیں پہچانا اور پوچھا کہ تم کون لوگ ہو؟ جب ان تینوں نے اپنے اپنے نام و نسب بتائے تو عتبہ نے کہا کہ ''ہاں اب ہمارا جوڑ ہے'' جب ان لوگوں میں جنگ شروع ہوئی تو حضرت حمزہ و حضرت علی و حضرت عبیدہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے اپنی ایمانی شجاعت کا ایسا مظاہرہ کیا کہ بدر کی زمین دہل گئی اور کفار کے دل تھرا گئے اور ان کی جنگ کا انجام یہ ہوا کہ حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عتبہ کا مقابلہ کیا، دونوں انتہائی بہادری کے ساتھ لڑتے رہے مگر آخر کار حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنی تلوار کے وار سے مار مار کر عتبہ کو زمین پر ڈھیر کر دیا۔ ولید نے حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے جنگ کی،دونوں نے ایک دوسرے پر بڑھ بڑھ کر قاتلانہ حملہ کیا اور خوب لڑے لیکن
اسد اﷲ الغالب کی ذوالفقار نے ولید کو مار گرایااور وہ ذلت کے ساتھ قتل ہو گیا۔ مگر عتبہ کے بھائی شیبہ نے حضرت عبیدہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو اس طرح زخمی کر دیا کہ وہ زخموں کی تاب نہ لا کر زمین پر بیٹھ گئے۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جھپٹے اور آگے بڑھ کر شیبہ کو قتل کر دیااور حضرت عبیدہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو اپنے کاندھے پر اٹھا کر بارگاہ رسالت میں لائے، ان کی پنڈلی ٹوٹ کر چور چور ہو گئی تھی اور نلی کا گودابہہ رہا تھا، اس حالت میں عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کیا میں شہادت سے محروم رہا؟ ارشاد فرمایا کہ نہیں ہر گز نہیں! بلکہ تم شہادت سے سرفراز ہو گئے۔ حضرت عبیدہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ یارسول اﷲ!صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اگر آج میرے اور آپ کے چچا ابو طالب زندہ ہوتے تو وہ مان لیتے کہ ان کے اس شعر کا مصداق میں ہوں کہ ؎
"وَنُسْلِمُہٗ حَتّٰی نُصَرَّعَ حَوْلَہٗ وَنَذْھَلُ عَنْ اَبْنَائِنَا وَالْحَلَائِلِ"
یعنی ہم محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اس وقت دشمنوں کے حوالہ کریں گے جب ہم ان کے گرد لڑ لڑ کر پچھاڑ دئیے جائیں گے اور ہم اپنے بیٹوں اوربیویوں کو بھول جائیں گے۔ (1) (ابو داؤد ج۲ ص۳۶۱ مطبع نامی وزُرقانی علی المواہب ج۱ ص۴۱۸)
اس کے بعد سعید بن العاص کا بیٹا ''عبیدہ'' سرسے پاؤں تک لوہے کے لباس اور ہتھیارو ں سے چھپا ہوا صف سے باہر نکلا اور یہ کہہ کر اسلامی لشکر کو للکارنے لگا کہ ''میں ابو کرش ہوں'' اس کی یہ مغرورانہ للکار سن کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی حضرت زبیر بن العوام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جوش میں بھرے ہوئے اپنی برچھی لے
1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی ، غزوۃ بدرالکبریٰ، ج۲،ص۲۷۳،۲۷۶
کر مقابلہ کے لئے نکلے مگر یہ دیکھا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے سوا اس کے بدن کا کوئی حصہ بھی ایسا نہیں ہے جو لوہے سے چھپا ہوا نہ ہو۔ حضرت زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے تاک کر اس کی آنکھ میں اس زور سے برچھی ماری کہ وہ زمین پر گرا اور مر گیا۔ برچھی اس کی آنکھ کو چھیدتی ہوئی کھوپڑی کی ہڈی میں چبھ گئی تھی۔ حضرت زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جب اس کی لاش پر پاؤں رکھ کر پوری طاقت سے کھینچا تو بڑی مشکل سے برچھی نکلی لیکن اس کا سر مڑ کر خم ہو گیا۔ یہ برچھی ایک تاریخی یادگار بن کر برسوں تبرک بنی رہی۔ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے یہ برچھی طلب فرما لی اور اس کو ہمیشہ اپنے پاس رکھا پھرحضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعد چاروں خلفاء راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے پاس منتقل ہوتی رہی۔ پھر حضرت زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے فرزند حضرت عبداﷲ بن زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کے پاس آئی یہاں تک کہ ۷۳ھ میں جب بنواُمیہ کے ظالم گورنر حجاج بن یوسف ثقفی نے ان کو شہید کر دیا تو یہ برچھی بنو اُمیہ کے قبضہ میں چلی گئی پھر اس کے بعد لاپتہ ہو گئی۔(1) (بخاری غزوئہ بدر ج۲ ص۵۷۰)
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں صف میں کھڑا تھا اور میرے دائیں بائیں دو نو عمر لڑکے کھڑے تھے۔ ایک نے چپکے سے پوچھا کہ چچا جان!کیا آپ ابو جہل کو پہچانتے ہیں؟ میں نے اس سے کہا کہ کیوں بھتیجے! تم کو ابو جہل سے کیا کام ہے؟ اس نے کہا کہ چچا جان!میں نے خدا سے یہ عہد کیا ہے کہ میں ابو جہل کوجہاں دیکھ لوں گا یا تو اس کو قتل کر دوں گا یا خود لڑتا ہوا مارا جاؤں گا کیونکہ وہ اﷲ کے
1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری ، کتاب المغازی، باب ۱۲، الحدیث:۳۹۹۸،ج۳،ص۱۸
رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا بہت ہی بڑا دشمن ہے۔ حضرت عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں حیرت سے اس نوجوان کا منہ تاک رہا تھا کہ دوسرے نوجوان نے بھی مجھ سے یہی کہا اتنے میں ابوجہل تلوار گھماتا ہوا سامنے آ گیا اور میں نے اشارہ سے بتادیا کہ ابو جہل یہی ہے، بس پھر کیا تھا یہ دونوں لڑکے تلواریں لے کر اس پر اس طرح جھپٹے جس طرح باز اپنے شکار پر جھپٹتا ہے۔ دونوں نے اپنی تلواروں سے مار مار کر ابو جہل کو زمین پر ڈھیر کر دیا۔ یہ دونوں لڑکے حضرت معوذاور حضرت معاذ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما تھے جو ''عفراء'' کے بیٹے تھے۔ ابو جہل کے بیٹے عکرمہ نے اپنے باپ کے قاتل حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر حملہ کر دیا اور پیچھے سے ان کے بائیں شانہ پر تلوار ماری جس سے ان کا بازو کٹ گیا لیکن تھوڑا سا چمڑا باقی رہ گیااور ہاتھ لٹکنے لگا ۔حضرت معاذرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عکرمہ کا پیچھا کیااور دور تک دوڑایا مگر عکرمہ بھاگ کر بچ نکلا۔ حضرت معاذ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اس حالت میں بھی لڑتے رہے لیکن کٹے ہوئے ہاتھ کے لٹکنے سے زحمت ہو رہی تھی تو انہوں نے اپنے کٹے ہوئے ہاتھ کو پاؤں سے دبا کر اس زور سے کھینچا کہ تسمہ الگ ہو گیااور پھر وہ آزاد ہو کر ایک ہاتھ سے لڑتے رہے۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ابو جہل کے پاس سے گزرے، اس وقت ابو جہل میں کچھ کچھ زندگی کی رمق باقی تھی۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس کی گردن کو اپنے پاؤں سے روند کر فرمایا کہ ''تو ہی ابو جہل ہے! بتا آج تجھے اﷲ نے کیسا رسوا کیا۔'' ابو جہل نے اس حالت میں بھی گھمنڈ کے ساتھ یہ کہا کہ تمہارے لئے یہ کوئی بڑا کارنامہ نہیں ہے میرا قتل ہو جانا اس سے زیادہ نہیں ہے کہ ایک آدمی کو اس کی قوم نے قتل کر دیا۔ ہاں!مجھے اس کا افسوس ہے کہ کاش!مجھے کسانوں کے سوا کوئی دوسرا شخص قتل کرتا۔ حضرت معوذ اور
"حضرت معاذ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما چونکہ یہ دونوں انصاری تھے اور انصار کھیتی باڑی کا کام کرتے تھے اور قبیلۂ قریش کے لوگ کسانوں کو بڑی حقارت کی نظر سے دیکھا کرتے تھے اس لئے ابو جہل نے کسانوں کے ہاتھ سے قتل ہونے کو اپنے لئے قابل افسوس بتایا۔
جنگ ختم ہو جانے کے بعد حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت عبداﷲ بن مسعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ساتھ لے کر جب ابو جہل کی لاش کے پاس سے گزرے تو لاش کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ ابو جہل اس زمانے کا ''فرعون'' ہے۔ پھر عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ابو جہل کا سر کاٹ کر تاجدار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے قدموں پر ڈال دیا۔(1) (بخاری غزوه بدر و دلائل النبوۃ ج۲ ص۱۷۳)"
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی یہ فرما دیا تھا کہ کچھ لوگ کفار کے لشکر میں ایسے بھی ہیں جن کو کفار مکہ دباؤ ڈال کر لائے ہیں ایسے لوگوں کو قتل نہیں کرنا چاہیے۔ ان لوگوں کے نام بھی حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے بتا دئیے تھے۔ انہی لوگوں میں سے ابو البختری بھی تھا جو اپنی خوشی سے مسلمانوں سے لڑنے کے لئے نہیں آیا تھابلکہ کفار قریش اس پر دباؤ ڈال کر زبردستی کرکے لائے تھے۔ عین جنگ کی حالت میں حضرت مجذر بن ذیادرضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی نظر ابوالبختری پر پڑی جو اپنے ایک گہرے دوست جنادہ بن ملیحہ کے ساتھ گھوڑے پر سوار تھا۔ حضرت مجذر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اے ابوالبختری!چونکہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہم لوگوں کو تیرے قتل سے
1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب ۱۰،الحدیث:۳۹۸۸،ج۳،ص۱۴وکتاب فرض الخمس،باب من لم یخمس الاسلاب...الخ،الحدیث:۳۱۴۱،ج۲،ص۳۵۶
"منع فرمایا ہے اس لئے میں تجھ کو چھوڑ دیتا ہوں۔ ابوالبختری نے کہا کہ میرے ساتھی جنادہ کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟ تو حضرت مجذر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے صاف صاف کہہ دیا کہ اس کو ہم زندہ نہیں چھوڑ سکتے۔ یہ سن کر ابو البختری طیش میں آ گیا اور کہا کہ میں عرب کی عورتوں کا یہ طعنہ سننا پسند نہیں کر سکتا کہ ابو البختری نے اپنی جان بچانے کے لئے اپنے ساتھی کو تنہا چھوڑ دیا۔ یہ کہہ کر ابو البختری نے رجز کا یہ شعر پڑھا کہ ؎
لَنْ یُّسْلِمَ ابْنُ حُرَّۃٍ زَمِیْلَہٗ حَتّٰی یَمُوْتَ اَوْیَرٰی سَبِیْلَہٗ
ایک شریف زادہ اپنے ساتھی کو کبھی ہر گز نہیں چھوڑ سکتاجب تک کہ مر نہ جائے یا اپنا راستہ نہ دیکھ لے۔(۱)"
اُمیہ بن خلف بہت ہی بڑا دشمن رسول تھا۔ جنگ بدر میں جب کفر و اسلام کے دونوں لشکر گتھم گتھا ہو گئے تو اُمیہ اپنے پرانے تعلقات کی بنا پر حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے چمٹ گیا کہ میری جان بچائیے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو رحم آ گیا اور آپ نے چاہا کہ اُمیہ بچ کر نکل بھاگے مگر حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اُمیہ کو دیکھ لیا ۔حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جب اُمیہ کے غلام تھے تو اُمیہ نے ان کو بہت زیادہ ستایا تھا اس لئے جوشِ انتقام میں حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے انصار کو پکارا، انصاری لوگ دفعۃً ٹوٹ پڑے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اُمیہ سے کہا کہ تم زمین پر لیٹ جاؤ وہ لیٹ گیا تو حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اس کو بچانے کے لئے اس کے اوپر لیٹ کر اس کو چھپانے لگے لیکن
1۔۔۔۔۔۔السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، غزوۃ بدرالکبریٰ،ص۲۶۰
حضرت بلال اور انصار رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے ان کی ٹانگوں کے اندر ہاتھ ڈال کر اور بغل سے تلوار گھونپ گھونپ کر اس کو قتل کر دیا۔(1)(بخاری ج۱ ص۳۰۸ باب اذاوکل المسلم حربیًا)
"جنگ بدر میں اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد کے لئے آسمان سے فرشتوں کا لشکر اتار دیا تھا۔ پہلے ایک ہزار فرشتے آئے پھر تین ہزار ہو گئے اس کے بعد پانچ ہزار ہو گئے۔(2) (قرآن سورہ آل عمران وانفال )
جب خوب گھمسان کارن پڑا تو فرشتے کسی کو نظر نہیں آتے تھے مگر ان کی حرب و ضرب کے اثرات صاف نظر آتے تھے۔ بعض کافروں کی ناک اور منہ پر کوڑوں کی مار کا نشان پایا جاتا تھا، کہیں بغیر تلوار مارے سر کٹ کر گرتا نظر آتا تھا، یہ آسمان سے آنے والے فرشتوں کی فوج کے کارنامے تھے۔"
"عتبہ، شیبہ، ابو جہل وغیرہ کفار قریش کے سرداروں کی ہلاکت سے کفار مکہ کی کمر ٹوٹ گئی اور ان کے پاؤں اکھڑ گئے اور وہ ہتھیار ڈال کر بھاگ کھڑے ہوئے اور مسلمانوں نے ان لوگوں کو گرفتار کرنا شروع کر دیا۔
اس جنگ میں کفار کے ستر آدمی قتل اور ستر آدمی گرفتار ہوئے۔ باقی اپنا سامان چھوڑ کر فرار ہو گئے اس جنگ میں کفارِ مکہ کو ایسی زبردست شکست ہوئی کہ ان کی عسکری طاقت ہی فنا ہو گئی۔ کفار قریش کے بڑے بڑے نامور سردار جو بہادری اور فن سپہ گری"
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب الوکالۃ،باب اذا وکل المسلم حربیاً...الخ،الحدیث:۲۳۰۱،ج۲،ص۷۸
2۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی ، غزوۃ بدرالکبریٰ، ج۲،ص۲۸۶"
میں یکتائے روزگار تھے ایک ایک کرکے سب موت کے گھاٹ اتار دئیے گئے۔ ان ناموروں میں عتبہ، شیبہ،ابو جہل، ابو البختری، زمعہ،عاص بن ہشام، اُمیہ بن خلف، منبہ بن الحجاج، عقبہ بن ابی معیط، نضر بن الحارث وغیرہ قریش کے سرتاج تھے یہ سب مارے گئے۔(1)
"جنگ ِ بدر میں کل چودہ مسلمان شہادت سے سرفراز ہوئے جن میں سے چھ مہاجر اور آٹھ انصار تھے۔ شہداء مہاجرین کے نام یہ ہیں: (۱) حضرت عبیدہ بن الحارث(۲)حضرت عمیر بن ابی وقاص(۳)حضرت ذوالشمالین عمیر بن عبد عمرو (۴) حضرت عاقل بن ابی بکیر(۵) حضرت مہجع(۶) حضرت صفوان بن بیضاء اور انصار کے ناموں کی فہرست یہ ہے۔(۷)حضرت سعد بن خیثمہ(۸)حضرت مبشر بن عبدالمنذر(۹)حضرت حارثہ بن سراقہ(۱۰)حضرت معوذ بن عفراء (۱۱) حضرت عمیر بن حمام (۱۲) حضرت رافع بن معلی (۱۳)حضرت عوف بن عفراء (۱۴)حضرت یزید بن حارث۔ (2) رضی اﷲ تعالیٰ عنہم اجمعین
( زُرقانی ج۱ ص ۴۴۴ و ص۴۴۵)
ان شہداء بدر میں سے تیرہ حضرات تو میدان بدر ہی میں مدفون ہوئے مگر حضرت عبیدہ بن حارث رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے چونکہ بدر سے واپسی پر منزل ''صفراء''میں وفات پائی اس لئے ان کی قبر شریف منزل ''صفراء'' میں ہے۔ (3)
(زُرقانی ج۱ ص۴۴۵)"
"1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃمع شرح الزرقانی، غزوۃ بدرالکبریٰ، ج۲،ص۳۲۸ملخصاًوالسیرۃ
النبویۃ لابن ہشام، غزوۃ بدرالکبریٰ،ص۲۶۷
2۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ و الزرقانی ، غزوۃ بدرالکبریٰ، ج۲،ص۳۲۵،۳۲۶،۳۲۷ملتقطاً
3۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب، غزوۃ بدرالکبریٰ، ج۲،ص۳۲۵"
حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا ہمیشہ یہ طرز عمل رہا کہ جہاں کبھی کوئی لاش نظر آتی تھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اس کو دفن کروا دیتے تھے لیکن جنگ ِ بدر میں قتل ہونے والے کفار چونکہ تعداد میں بہت زیادہ تھے، سب کو الگ الگ دفن کرنا ایک دشوار کام تھا اس لئے تمام لاشوں کو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بدر کے ایک گڑھے میں ڈال دینے کا حکم فرمایا۔ چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے تمام لاشوں کو گھسیٹ گھسیٹ کر گڑھے میں ڈال دیا۔ اُمیہ بن خلف کی لاش پھول گئی تھی، صحابۂ کرام نے اس کو گھسیٹنا چاہا تو اس کے اعضاء الگ الگ ہونے لگے اس لئے اس کی لاش وہیں مٹی میں دبا دی گئی۔(1) ( بخاری کتاب المغازی باب قتل ابی جہل ج۲ ص۵۶۶)
جب کفار کی لاشیں بدر کے گڑھے میں ڈال دی گئیں تو حضور سرور عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس گڑھے کے کنارے کھڑے ہو کر مقتولین کا نام لے کر اس طرح پکارا کہ اے عتبہ بن ربیعہ!اے شیبہ بن ربیعہ!اے فلاں!اے فلاں!کیا تم لوگوں نے اپنے رب کے وعدہ کو سچا پایا؟ ہم نے تو اپنے رب کے وعدہ کو بالکل ٹھیک ٹھیک سچ پایا۔ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جب دیکھا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کفار کی لاشوں سے خطاب فرما رہے ہیں توان کو بڑا تعجب ہوا۔ چنانچہ انہوں نے عرض کیا کہ یارسول اﷲ!صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کیا آپ ان بے روح کے جسموں سے کلام فرما رہے ہیں؟یہ سن کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اے عمر! قسم خدا کی جس کے قبضۂ قدرت
1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ و الزرقانی ، غزوۃ بدرالکبریٰ، ج۲،ص۳۰۳
" میں میری جان ہے کہ تم(زندہ لوگ) میری بات کو ان سے زیادہ نہیں سن سکتے لیکن اتنی بات ہے کہ یہ مردے جواب نہیں دے سکتے۔(1)
(بخاری ج۱ ص۱۸۳، باب ماجاء فی عذاب القبر و بخاری ج۲ ص۵۶۶)"
بخاری وغیرہ کی اس حدیث سے یہ مسئلہ ثابت ہوتا ہے کہ جب کفار کے مردے زندوں کی بات سنتے ہیں تو پھر مومنین خصوصاً اولیاء، شہداء،انبیاء علیہم السلام وفات کے بعد یقینا ہم زندوں کا سلام و کلام اور ہماری فریادیں سنتے ہیں اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب کفار کی مردہ لاشوں کو پکارا توپھر خدا کے برگزیدہ بندوں یعنی ولیوں، شہیدوں اور نبیوں کو ان کی وفات کے بعد پکارنا بھلا کیوں نہ جائز و درست ہوگا؟ اسی لئے تو حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جب مدینہ کے قبرستان میں تشریف لے جاتے تو قبروں کی طرف اپنا رخِ انور کرکے یوں فرماتے کہ
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا اَھْلَ الْقُبُوْرِ یَغْفِرُ اللہُ لَنَا وَلَکُمْ اَنْتُمْ سَلَفُنَا وَنَحْنُ بِالْاَ ثَرِ(2)
(مشکوٰۃ باب زیارۃ القبورص۱۵۴)
یعنی ''اے قبر والو!تم پر سلام ہو خدا ہماری اور تمہاری مغفرت فرمائے، تم لوگ ہم سے پہلے چلے گئے اور ہم تمہارے بعد آنے والے ہیں۔'' اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی امت کو بھی یہی حکم دیا ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو اس کی تعلیم دیتے تھے کہ جب تم لوگ قبروں کی زیارت کے لئے جاؤ تو
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب قتل ابی جھل،الحدیث:۳۹۷۶،ج۳،ص۱۱
والمواہب اللدنیۃ و الزرقانی ، باب غزوۃ بدرالکبریٰ، ج۲،ص۳۰۵-۳۰۷
2۔۔۔۔۔۔مشکاۃ المصابیح،کتاب الجنائز،باب زیارۃ القبور،الفصل الثانی،الحدیث:۱۷۶۵،ج۱،ص۳۳۴"
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ اَھْلَ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَاِنَّا اِنْ شَآءَ اللہُ بِکُمْ لَلاَحِقُوْنَ نَسْأَلُ اللہَ لَنَا وَلَکُمُ الْعَافِیَۃَ (1)
(مشکوٰۃباب زیارۃالقبورص۱۵۴)
ان حدیثوں سے ظاہر ہے کہ مردے زندوں کا سلام و کلام سنتے ہیں ورنہ ظاہر ہے کہ جو لوگ سنتے ہی نہیں ان کو سلام کرنے سے کیا حاصل ؟
"فتح کے بعد تین دن تک حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ''بدر'' میں قیام فرمایا پھر تمام اموال غنیمت اور کفار قیدیوں کو ساتھ لے کر روانہ ہوئے۔ جب ''وادی صفرا'' میں پہنچے تو اموالِ غنیمت کو مجاہدین کے درمیان تقسیم فرمایا۔
حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی زوجہ محترمہ حضرت بی بی رقیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا جو حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی صاحبزادی تھیں جنگ ِ بدر کے موقع پر بیمار تھیں اس لئے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوصاحبزادی کی تیمارداری کے لئے مدینہ میں رہنے کاحکم دے دیاتھااس لئے وہ جنگ بدرمیں شامل نہ ہوسکے مگر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مال غنیمت میں سے ان کو مجاہدین بدر کے برابر ہی حصہ دیا اور ان کے برابر ہی اجروثواب کی بشارت بھی دی اسی لئے حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو بھی اصحاب بدر کی فہرست میں شمار کیا جاتا ہے۔(2)"
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فتح کے بعد حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ تعالیٰ
"1۔۔۔۔۔۔مشکاۃ المصابیح،کتاب الجنائز،باب زیارۃ القبور،الفصل الاول،الحدیث:۱۷۶۴،ج۱،ص۳۳۳
2۔۔۔۔۔۔السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، من حضر بدراً...الخ، ص۲۸۲"
عنہ کو فتح مبین کی خوشخبری سنانے کے لئے مدینہ بھیج دیا تھا۔ چنانچہ حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ یہ خوشخبری لے کر جب مدینہ پہنچے تو تمام اہل مدینہ جوش مسرت کے ساتھ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی آمد آمد کے انتظار میں بے قرار رہنے لگے اور جب تشریف آوری کی خبر پہنچی تواہل مدینہ نے آگے بڑھ کر مقام ''روحاء''میں آپ کا پر جوش استقبال کیا۔(1) (ابن ہشام ج۲ ص۶۴۳)
"کفار مکہ جب اسیران جنگ بن کر مدینہ میں آئے توان کو دیکھنے کے لئے بہت بڑا مجمع اکٹھا ہو گیا اور لوگ ان کو دیکھ کر کچھ نہ کچھ بولتے رہے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت بی بی سودہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا ان قیدیوں کو دیکھنے کے لئے تشریف لائیں اور یہ دیکھا کہ ان قیدیوں میں ان کے ایک قریبی رشتہ دار ''سہیل'' بھی ہیں تو وہ بے ساختہ بول اٹھیں کہ ''اے سہیل!تم نے بھی عورتوں کی طرح بیڑیاں پہن لیں تم سے یہ نہ ہو سکا کہ بہادر مردوں کی طرح لڑتے ہوئے قتل ہوجاتے۔'' (2) (سیرت ابن ہشام ج۲ ص۶۴۵)
ان قیدیوں کو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے صحابہ میں تقسیم فرما دیا اور یہ حکم دیا کہ ان قیدیوں کو آرام کے ساتھ رکھا جائے۔ چنانچہ دودو،چار چار قیدی صحابہ کے گھروں میں رہنے لگے اور صحابہ نے ان لوگوں کے ساتھ یہ حسن سلوک کیا کہ ان لوگوں کو گوشت روٹی وغیرہ حسب مقدور بہترین کھانا کھلاتے تھے اور خود کھجوریں کھا کر رہ جاتے تھے۔(3)(ابن ہشام ج ۲ ص ۶۴۶)"
"1۔۔۔۔۔۔السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، غزوۃ بدرالکبریٰ، ص۲۶۵،۲۶۶ملتقطاً
2۔۔۔۔۔۔السیرۃ النبویۃلابن ہشام،غزوۃ بدرالکبریٰ، ص۲۶۷
3۔۔۔۔۔۔السیرۃ النبویۃلابن ہشام،غزوۃ بدرالکبریٰ، ص۲۶۷ملتقطاًوملخصاً"
"قیدیوں میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس کے بدن پر کرتا نہیں تھا لیکن وہ اتنے لمبے قدکے آدمی تھے کہ کسی کا کرتا ان کے بدن پر ٹھیک نہیں اترتا تھا عبداﷲ بن اُبی(منافقین کا سردار)چونکہ قدمیں ان کے برابر تھااس لئے اس نے اپنا کرتاان کوپہنادیا۔بخاری میں یہ روایت ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے عبداﷲ بن اُبی کے کفن کے لئے جو اپنا پیراہن شریف عطا فرمایا تھا وہ اسی احسان کا بدلہ تھا۔ (1)
(بخاری باب الکسوۃ للاساری ج۱ ص۴۲۲)"
ان قیدیوں کے بارے میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرات صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم سے مشورہ فرمایا کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے ؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ رائے دی کہ اِن سب دشمنانِ اسلام کو قتل کر دینا چاہیے اور ہم میں سے ہر شخص اپنے اپنے قریبی رشتہ دار کو اپنی تلوار سے قتل کرے۔ مگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے یہ مشورہ دیا کہ آخر یہ سب لوگ اپنے عزیز و اقارب ہی ہیں لہٰذا انہیں قتل نہ کیا جائے بلکہ ان لوگوں سے بطور فدیہ کچھ رقم لے کر ان سب کو رہا کر دیا جائے۔ اس وقت مسلمانوں کی مالی حالت بہت کمزور ہے فدیہ کی رقم سے مسلمانوں کی مالی امداد کا سامان بھی ہو جائے گا اور شاید آئندہ اﷲ تعالیٰ ان لوگوں کو اسلام کی توفیق نصیب فرمائے۔ حضور رحمت عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی سنجیدہ رائے کو پسند فرمایا اور ان قیدیوں سے چارچار ہزار درہم فدیہ لے کر ان لوگوں کو چھوڑ دیا۔ جو لوگ مفلسی کی و جہ سے فدیہ نہیں دے سکتے تھے وہ یوں ہی بلا فدیہ چھوڑ دئیے گئے۔
1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب الجھاد والسیر،باب الکسوۃ للاساری،الحدیث: ۳۰۰۸،ج۲،ص ۳۱۳
ان قیدیوں میں جو لوگ لکھنا جانتے تھے ان میں سے ہر ایک کا فدیہ یہ تھا کہ وہ انصار کے دس لڑکوں کو لکھنا سکھا دیں۔(1)(ابن ہشام ج۲ ص۶۴۶)
انصار نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے یہ درخواست عرض کی کہ یا رسول اﷲ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت عباس ہمارے بھانجے ہیں لہٰذا ہم ان کا فدیہ معاف کرتے ہیں۔ لیکن آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ درخواست منظور نہیں فرمائی۔ حضرت عباس قریش کے ان دس دولت مند رئیسوں میں سے تھے جنہوں نے لشکر کفار کے راشن کی ذمہ داری اپنے سر لی تھی، اس غرض کے لئے حضرت عباس کے پاس بیس اوقیہ سونا تھا۔ چونکہ فوج کو کھانا کھلانے میں ابھی حضرت عباس کی باری نہیں آئی تھی اس لئے وہ سونا ابھی تک ان کے پاس محفوظ تھا۔ اس سونے کو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مال غنیمت میں شامل فرما لیا اور حضرت عباس سے مطالبہ فرمایا کہ وہ اپنا اور اپنے دونوں بھتیجوں عقیل بن ابی طالب اور نوفل بن حارث اور اپنے حلیف عتبہ بن عمرو بن جحدم چار شخصوں کا فدیہ ادا کریں۔ حضرت عباس نے کہا کہ میرے پاس کوئی مال ہی نہیں ہے، میں کہاں سے فدیہ ادا کروں؟ یہ سن کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چچا جان!آپ کا وہ مال کہاں ہے؟ جو آپ نے جنگ ِ بدر کے لئے روانہ ہوتے وقت اپنی بیوی ''ام الفضل'' کو دیا تھا اور یہ کہا تھا اگر میں اس لڑائی میں مار ا جاؤں تو اس میں سے اتنا اتنا مال میرے لڑکوں کو دے دینا۔ یہ سن کر حضرت عباس نے کہا کہ قسم ہے اس خدا کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا
"1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ و الزرقانی ، غزوۃ بدرالکبریٰ، ج۲،ص۳۲۰،۳۲۲
وشرح الزرقانی علی المواھب، غزوۃ بدرالکبریٰ ، ج۲،ص۳۲۴"
ہے کہ یقینا آپ اﷲعزوجل کے رسول ہیں کیونکہ اس مال کا علم میرے اور میری بیوی ام الفضل کے سوا کسی کو نہیں تھا۔ چنانچہ حضرت عباس نے اپنا اور اپنے دونوں بھتیجوں اور اپنے حلیف کا فدیہ ادا کرکے رہائی حاصل کی پھر اس کے بعد حضرت عباس اور حضرت عقیل اور حضرت نوفل تینوں مشرف بہ اسلام ہو گئے ۔(1) (رضی اﷲ تعالیٰ عنہم)(مدارج النبوۃ ج۲ ص۹۷ و زُرقانی ج۱ ص۴۴۷)
جنگِ بدر کے قیدیوں میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے داماد ابو العاص بن الربیع بھی تھے۔ یہ ہالہ بنت خویلد کے لڑکے تھے اور ہالہ حضرت بی بی خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی حقیقی بہن تھیں اس لئے حضرت بی بی خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے مشورہ لے کر اپنی لڑکی حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا ابو العاص بن الربیع سے نکاح کر دیا تھا۔حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب اپنی نبوت کا اعلان فرمایا تو آپ کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے تو اسلام قبول کر لیا مگر ان کے شوہر ابوالعاص مسلمان نہیں ہوئے اور نہ حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو اپنے سے جدا کیا ۔ ابو العاص بن الربیع نے حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے پاس قاصد بھیجا کہ فدیہ کی رقم بھیج دیں۔ حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو ان کی والدہ حضرت بی بی خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے جہیز میں ایک قیمتی ہار بھی دیا تھا۔ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فدیہ کی رقم کے ساتھ وہ ہار بھی اپنے گلے سے اتار کر مدینہ بھیج دیا۔ جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی نظر اس ہار پر پڑی تو حضرت بی بی خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا اور ان کی محبت کی یاد نے قلب
" 1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت،باب چہارم ، قسم دوم، ج۲،ص۹۷وشرح الزرقانی علی المواھب،
غزوۃ بدرالکبریٰ ، ج۲،ص۳۲۰،۳۲۳"
"مبارک پر ایسا رقت انگیز اثر ڈالا کہ آپ رو پڑے اور صحابہ سے فرمایا کہ ''اگر تم لوگوں کی مرضی ہو تو بیٹی کو اس کی ماں کی یادگار واپس کر دو''یہ سن کر تمام صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے سرتسلیم خم کر دیا اور یہ ہار حضرت بی بی زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے پاس مکہ بھیج دیا گیا۔ (1) (تاریخ طبری ص ۱۳۴۸)
ابوالعاص رہاہوکرمدینہ سے مکہ آئے اور حضرت بی بی زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو مدینہ بھیج دیا۔ ابوالعاص بہت بڑے تاجر تھے یہ مکہ سے اپنا سامان تجارت لے کر شام گئے اور وہاں سے خوب نفع کما کر مکہ آرہے تھے کہ مسلمان مجاہدین نے ان کے قافلہ پر حملہ کرکے ان کا سارا مال و اسباب لوٹ لیا اور یہ مالِ غنیمت تمام سپاہیوں پر تقسیم بھی ہوگیا۔ ابو العاص چھپ کر مدینہ پہنچے اور حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے ان کو پناہ دے کر اپنے گھر میں اتارا ۔ حضو ر صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے فرمایا کہ اگر تم لوگوں کی خوشی ہو تو ابوالعاص کا مال و سامان واپس کردو۔ فرمانِ رسالت کا اشارہ پاتے ہی تمام مجاہدین نے سارا مال و سامان ابو العاص کے سامنے رکھ دیا۔ ابو العاص اپنا سارا مال و اسباب لے کر مکہ آئے اور اپنے تمام تجارت کے شریکوں کو پائی پائی کا حساب سمجھا کر اور سب کو اس کے حصہ کی رقم ادا کر کے اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کر دیااور اہل مکہ سے کہہ دیا کہ میں یہاں آکر اور سب کا پورا پورا حساب ادا کر کے مدینہ جاتا ہوں تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ابوالعاص ہمارا روپیہ لے کر تقاضا کے ڈر سے مسلمان ہوکر مدینہ بھاگ گیا۔اس کے بعد حضرت ابو العاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ مدینہ آکر حضرت بی بی زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے ساتھ رہنے لگے۔(2) (تاریخ طبری)"
"1۔۔۔۔۔۔السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، ذکر رؤیا عاتکۃ...الخ،ص۲۷۰
2۔۔۔۔۔۔السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، اسلام ابی العاص بن الربیع،ص۲۷۲"
بدر میں کفارِ قریش کی شکست فاش کی خبر جب مکہ میں پہنچی تو ایسا کہرام مچ گیاکہ گھر گھر ماتم کدہ بن گیا مگر اس خیال سے کہ مسلمان ہم پر ہنسیں گے ابو سفیان نے تمام شہر میں اعلان کر اد یا کہ خبر دار کوئی شخص رونے نہ پائے ۔ اس لڑائی میں اسود بن المطلب کے دو لڑکے ''عقیل'' اور ''زمعہ'' اور ایک پوتا ''حارث بن زمعہ'' قتل ہوئے تھے۔ اس صدمۂ جان کاہ سے اسود کا دل پھٹ گیا تھا وہ چاہتا تھا کہ اپنے ان مقتولوں پر خوب پھوٹ پھوٹ کر روئے تاکہ دل کی بھٹراس نکل جائے لیکن قومی غیرت کے خیال سے رو نہیں سکتا تھا مگر دل ہی دل میں گھٹتا اور کڑھتا رہتا تھااور آنسو بہاتے بہاتے اندھا ہو گیا تھا، ایک دن شہر میں کسی عورت کے رونے کی آواز آئی تو اس نے اپنے غلام کو بھیجاکہ دیکھو کون رو رہاہے؟کیا بدر کے مقتولوں پر رونے کی اجازت ہو گئی ہے؟ میرے سینے میں رنج و غم کی آگ سلگ رہی ہے، میں بھی رونے کے لیے بے قرار ہوں۔ غلام نے بتایا کہ ایک عورت کا اونٹ گم ہو گیا ہے وہ اسی غم میں رو رہی ہے۔ اسود شاعر تھا، یہ سن کر بے اختیار اس کی زبان سے یہ درد ناک اشعار نکل پڑے جس کے لفظ لفظ سے خون ٹپک رہا ہے ؎
اگر تجھ کو رونا ہے تو ''عقیل'' پر رویا کر اور ''حارث'' پر رویا کر جو شیروں کا شیر تھا۔
ایک دن عمیر او رصفوان دونوں حطیم کعبہ میں بیٹھے ہوئے مقتولین بدر پر آنسو بہا رہے تھے۔ ایک دم صفوا ن بول اُٹھا کہ اے عمیر! میر ا باپ اوردوسرے رو سائے مکہ جس طرح بدر میں قتل ہوئے ان کو یاد کر کے سینے میں دل پاش پاش ہو رہا ہے اور اب زندگی میں کوئی مزہ باقی نہیں رہ گیا ہے ۔ عمیر نے کہا کہ اے صفوان!تم سچ کہتے ہو میرے سینے میں بھی انتقام کی آگ بھڑک رہی ہے، میر ے اعزہ وا قر باء بھی بدر میں بے دردی کے ساتھ قتل کئے گئے ہیں اور میر ا بیٹا مسلمانوں کی قید میں ہے۔ خدا کی قسم! اگر میں قرضدار نہ ہوتا اور بال بچوں کی فکر سے دو چار نہ ہوتا تو ابھی ابھی میں تیز رفتار گھوڑے پر سوار ہو کرمدینہ جاتااور دم زدن میں دھوکہ سے محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم )کو قتل کر کے فرار ہو جاتا۔ یہ سن کر صفوان نے کہا کہ اے عمیر!تم اپنے قرض اور بچوں کی ذرا بھی فکر نہ کرو۔میں خدا کے گھر میں عہد کرتا ہوں کہ تمہارا ساراقرض ادا کردوں گااور میں تمہارے بچوں کی پرورش کا بھی ذمہ دار ہوں۔ اس معاہدہ کے بعد عمیر سیدھا گھر آیا اور زہر میں بجھائی ہو ئی تلوار لے کر گھوڑے پر سوار ہو گیا۔ جب مدینہ میں مسجد نبوی
1۔۔۔۔۔۔السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، غزوۃ بدرالکبریٰ، ص۲۶۸
"کے قریب پہنچاتوحضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس کو پکڑ لیااور اس کا گلہ دبائے اور گردن پکڑے ہوئے دربار رسالت میں لے گئے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیوں عمیر!کس ارادہ سے آئے ہو؟ جوا ب دیا کہ اپنے بیٹے کو چھڑانے کے لیے۔ آپ نے فرمایا کہ کیا تم نے او ر صفوان نے حطیم کعبہ میں بیٹھ کر میرے قتل کی سازش نہیں کی ہے؟ عمیریہ راز کی بات سن کر سناٹے میں آگیااور کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک آپ اﷲ عزوجل کے رسول ہیں کیونکہ خدا کی قسم!میرے اور صفوان کے سوا اس راز کی کسی کو بھی خبر نہ تھی۔ ادھر مکہ میں صفوان حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے قتل کی خبر سننے کے لیے انتہائی بے قرار تھااو ر د ن گن گن کر عمیر کے آنے کا انتظار کر رہا تھا مگر جب اس نے ناگہاں یہ سنا کہ عمیر مسلمان ہو گیا تو فرطِ حیرت سے اس کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی اور وہ بوکھلا گیا۔
حضرت عمیر مسلما ن ہو کر مکہ آئے اور جس طرح وہ پہلے مسلمانوں کے خون کے پیاسے تھے اب وہ کافروں کی جان کے دشمن بن گئے اور انتہائی بے خوفی اور بہادری کے ساتھ مکہ میں اسلام کی تبلیغ کرنے لگے یہاں تک کہ ان کی دعوت اسلام سے بڑے بڑے کافروں کے اندھیرے دلوں میں نورایمان کی روشنی سے اُجالا ہوگیا اور یہی عمیر اب صحابی رسول حضرت عمیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہلانے لگے۔ (1)(تاریخ طبری ص۱۳۵۴)"
جو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم جنگ ِ بدر کے جہاد میں شریک ہو گئے وہ تمام صحابہ میں ایک خصوصی شرف کے ساتھ ممتاز ہیں اور ان خوش نصیبوں کے فضائل میں
1۔۔۔۔۔۔السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، غزوۃ بدرالکبریٰ، ص۲۷۴،۲۷۵
"ایک بہت ہی عظیم الشان فضیلت یہ ہے کہ ان سعادت مندو ں کے بارے میں حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ
''بے شک اﷲ تعالیٰ اہل بدر سے واقف ہے اور اس نے یہ فرمادیا ہے کہ تم اب جو عمل چاہو کرو بلاشبہ تمہارے لیے جنت واجب ہو چکی ہے یا(یہ فرمایا) کہ میں نے تمہیں بخش دیا ہے۔''(1) (بخاری باب فضل من شہد بدرًاج ۲ص۵۶۷)"
ابو لہب جنگ ِبدر میں شریک نہیں ہو سکا۔ جب کفارِ قریش شکست کھا کر مکہ واپس آئے تو لوگوں کی زبانی جنگ ِبدر کے حالات سن کر ابو لہب کو انتہائی رنج و ملال ہوا۔ اس کے بعد ہی وہ بڑی چیچک کی بیماری میں مبتلا ہو گیا جس سے اس کا تمام بدن سڑ گیااور آٹھویں دن مر گیا۔عرب کے لوگ چیچک سے بہت ڈرتے تھے اور اس بیماری میں مرنے والے کو بہت ہی منحوس سمجھتے تھے اس لیے اس کے بیٹوں نے بھی تین دن تک اس کی لاش کو ہاتھ نہیں لگایا مگر اس خیال سے کہ لوگ طعنہ ماریں گے ایک گڑھا کھود کر لکڑیوں سے دھکیلتے ہوئے لے گئے اور اس گڑھے میں لاش کو گرا کر اوپر سے مٹی ڈال دی اوربعض مورخین نے تحریر فرمایا کہ دور سے لوگوں نے اس گڑھے میں اس قدر پتھر پھینکے کہ ان پتھروں سے اس کی لاش چھپ گئی۔ (2) (زُرقانی ج ۱ص۴۵۲)
رمضان ۲ھ میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جنگ ِ بدر کے معرکہ سے واپس ہوکر
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری ،کتاب المغازی ،باب فضل من شھد بدراً،الحدیث:۳۹۸۳، ج۳،ص۱۲
2۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ و الزرقانی ، باب غزوۃ بدرالکبریٰ، ج۲،ص۳۴۰۔۳۴۱"
مدینہ واپس لوٹے۔ اس کے بعد ہی ۱۵ شوال ۲ھ میں ''غزوہ بنی قینقاع''کا واقعہ درپیش ہو گیا۔ ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ مدینہ کے اطراف میں یہودیوں کے تین بڑے بڑے قبائل آباد تھے۔بنو قینقاع، بنو نضیر، بنو قریظہ۔ان تینوں سے مسلمانوں کا معاہدہ تھا مگر جنگ ِ بدر کے بعد جس قبیلہ نے سب سے پہلے معاہدہ توڑا وہ قبیلہ بنو قینقاع کے یہودی تھے جو سب سے زیادہ بہادر اور دولت مند تھے۔ واقعہ یہ ہوا کہ ایک برقع پوش عرب عورت یہودیوں کے بازار میں آئی، دکانداروں نے شرارت کی اور اس عورت کو ننگا کر دیا اس پر تمام یہودی قہقہہ لگا کر ہنسنے لگے، عورت چلائی تو ایک عرب آیا اور دکاندار کو قتل کر دیا اس پر یہودیوں اور عربوں میں لڑائی شروع ہو گئی۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو خبر ہوئی تو تشریف لائے اور یہودیوں کی اس غیر شریفانہ حرکت پر ملامت فرمانے لگے۔ اس پر بنوقینقاع کے خبیث یہودی بگڑ گئے اور بولے کہ جنگ ِبدر کی فتح سے آپ مغرور نہ ہو جائیں مکہ والے جنگ کے معاملہ میں بے ڈھنگے تھے اس لئے آپ نے ان کو مار لیا اگر ہم سے آپ کا سابقہ پڑا تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ جنگ کس چیز کا نام ہے؟ اور لڑنے والے کیسے ہوتے ہیں؟ جب یہودیوں نے معاہدہ توڑدیا تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے نصف شوال ۲ ھ سنیچر کے دن ان یہودیوں پر حملہ کردیا۔ یہودی جنگ کی تاب نہ لا سکے اور اپنے قلعوں کا پھاٹک بند کرکے قلعہ بند ہو گئے مگر پندرہ دن کے محاصرہ کے بعد بالآخر یہودی مغلوب ہو گئے اور ہتھیار ڈال دینے پر مجبور ہو گئے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے مشورہ سے ان یہودیوں کو شہر بدر کر دیا اور یہ عہد شکن،بدذات یہودی ملک شام کے مقام ''اذرعات'' میں جاکر آباد ہو گئے۔(1) (زُرقانی ج۱ ص۴۵۸)
1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ و الزرقانی ،غزوۃ بنی قینقاع، ج۲،ص۳۴۸۔۳۵۲
"یہ ہم تحریر کر چکے ہیں کہ جنگ ِ بدر کے بعد مکہ کے ہر گھر میں سرداران قریش کے قتل ہو جانے کا ماتم برپا تھااور اپنے مقتولوں کا بدلہ لینے کے لئے مکہ کا بچہ بچہ مضطرب اور بے قرار تھا۔ چنانچہ غزوهٔ سویق اور جنگ ِاُحد وغیرہ کی لڑائیاں مکہ والوں کے اسی جوشِ انتقام کا نتیجہ ہیں۔
عتبہ اور ابو جہل کے قتل ہو جانے کے بعد اب قریش کا سردارِ اعظم ابوسفیان تھا اور اس منصب کا سب سے بڑا کام غزوهٔ بدر کا انتقام تھا۔ چنانچہ ابو سفیان نے قسم کھا لی کہ جب تک بدر کے مقتولوں کا مسلمانوں سے بدلہ نہ لوں گا نہ غسل جنابت کروں گانہ سر میں تیل ڈالوں گا۔ چنانچہ جنگ ِ بدرکے دو ماہ بعد ذوالحجہ ۲ھ میں ابو سفیان دو سو شترسواروں کا لشکر لے کر مدینہ کی طرف بڑھا ۔اس کو یہودیوں پر بڑا بھروسا بلکہ ناز تھا کہ مسلمانوں کے مقابلہ میں وہ اس کی امداد کریں گے۔ اسی امید پر ابو سفیان پہلے 'حیی بن اخطب'' یہودی کے پاس گیا مگر اس نے دروازہ بھی نہیں کھولا۔ وہاں سے مایوس ہو کر سلام بن مشکم سے ملا جو قبیلہ بنو نضیر کے یہودیوں کا سردار تھااور یہود کے تجارتی خزانہ کا مینجر بھی تھا اس نے ابو سفیان کا پرجوش استقبال کیا اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ"
"وسلم کو اس کی خبر ہوئی تو آپ نے اس کا تعاقب کیا لیکن ابو سفیان بدحواس ہو کر اس قدر تیزی سے بھاگاکہ بھاگتے ہوئے اپنا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے ستو کی بوریاں جو وہ اپنی فوج کے راشن کے لئے لایا تھاپھینکتا چلا گیاجو مسلمانوں کے ہاتھ آئے۔ عربی زبان میں ستو کو سویق کہتے ہیں اسی لئے اس غزوہ کا نام غزوہ سویق پڑ گیا۔(1)
(مدارج جلد۲ ص۱۰۴)"
اسی سال ۲ھ میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی سب سے پیاری بیٹی حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی شادی خانہ آبادی حضرت علی کرم اﷲ وجہہ الکریم کے ساتھ ہوئی۔یہ شادی انتہائی وقار اور سادگی کے ساتھ ہوئی۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ وہ حضرات ابوبکر صدیق و عمر و عثمان و عبدالرحمن بن عوف اور دوسرے چند مہاجرین و انصار رضوان اﷲ علیہم اجمعین کو مدعو کریں۔ چنانچہ جب صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم جمع ہو گئے توحضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خطبہ پڑھا اورنکاح پڑھا دیا۔ شہنشاہ کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے شہزادی اسلام حضرت بی بی فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو جہیز میں جو سامان دیااس کی فہرست یہ ہے۔ ایک کملی، بان کی ایک چارپائی، چمڑے کا گدا جس میں روئی کی جگہ کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی، ایک چھاگل، ایک مشک، دو چکیاں، دو مٹی کے گھڑے ۔ حضرت حارثہ بن نعمان انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپناایک مکان حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اس لئے نذر کر دیا کہ اس میں حضرت علی اور حضرت بی بی فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سکونت فرمائیں۔ جب حضرت بی بی فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا رخصت
1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت،قسم سوم، باب دوم، ج۲،ص۱۰۴
ہو کر نئے گھر میں گئیں تو عشاء کی نماز کے بعد حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تشریف لائے اور ایک برتن میں پانی طلب فرمایا اور اس میں کلی فرما کر حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے سینہ اور بازوؤں پر پانی چھڑکا پھر حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو بلایا اور ان کے سر اور سینہ پر بھی پانی چھڑکا اور پھر یوں دعا فرمائی کہ یااﷲ میں علی اور فاطمہ اور ان کی اولادکو تیری پناہ میں دیتا ہوں کہ یہ سب شیطان کے شر سے محفوظ رہیں۔(1) (زُرقانی ج۲ ص۴)
" (۱)اسی سال روزہ اور زکوٰۃ کی فرضیت کے احکام نازل ہوئے اور نماز کی طرح روزہ اور زکوٰۃ بھی مسلمانوں پرفرض ہو گئے۔(2)
(۲)اسی سال حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے عیدالفطر کی نماز جماعت کے ساتھ عید گاہ میں ادا فرمائی، اس سے قبل عیدالفطر کی نماز نہیں ہوئی تھی۔
(۳)صدقۂ فطر ادا کرنے کا حکم اسی سال جاری ہوا۔(3)
(۴)اسی سال ۱۰ ذوالحجہ کو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے بقر عید کی نماز ادا فرمائی اور نماز کے بعد دو مینڈھوں کی قربانی فرمائی۔
(۵)اسی سال ''غزوهٔ قرقرالکدر''و''غزوهٔ بحران''وغیرہ چندچھوٹے چھوٹے غزوات بھی پیش آئے جن میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے شرکت فرمائی مگر ان غزوات میں کوئی جنگ نہیں ہوئی۔(4)"
"1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ و الزرقانی ،ذکر تزویج علی بفاطمۃ ، ج۲، ص۳۵۷۔۳۶۱ ملخصاً
2۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، تحویل القبلۃ...الخ، ج۲،ص۲۵۳،۲۵۴
3۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، تحویل القبلۃ...الخ، ج۲،ص۲۵۴
4۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،تحویل القبلۃ...الخ، ج۲،ص۲۵۴"
اس سال کاسب سے بڑا واقعہ ''جنگ ِ اُحد'' ہے۔ ''احد'' ایک پہاڑ کا نام ہے جو مدینہ منورہ سے تقریباً تین میل دور ہے۔ چونکہ حق و باطل کا یہ عظیم معرکہ اسی پہاڑ کے دامن میں درپیش ہوااسی لئے یہ لڑائی ''غزوهٔ اُحد'' کے نام سے مشہور ہے اور قرآن مجید کی مختلف آیتوں میں اس لڑائی کے واقعات کا خداوند عالم نے تذکرہ فرمایا ہے۔
یہ آپ پڑھ چکے ہیں کہ جنگ ِ بدر میں ستر کفار قتل اور ستر گرفتار ہوئے تھے۔ اور جو قتل ہوئے ان میں سے اکثر کفارِ قریش کے سردار بلکہ تاجدار تھے۔ اس بنا پر مکہ کا ایک ایک گھر ماتم کدہ بنا ہوا تھا۔ اور قریش کا بچہ بچہ جوشِ انتقام میں آتش غیظ و غضب کا تنور بن کر مسلمانوں سے لڑنے کے لئے بے قرار تھا۔ عرب خصوصاً قریش کا یہ طرهٔ امتیاز تھا کہ وہ اپنے ایک ایک مقتول کے خون کا بدلہ لینے کو اتنا بڑا فرض سمجھتے تھے جس کو ادا کئے بغیر گویا ان کی ہستی قائم نہیں رہ سکتی تھی۔ چنانچہ جنگ ِ بدر کے مقتولوں کے ماتم سے جب قریشیوں کو فرصت ملی تو انہوں نے یہ عزم کر لیا کہ جس قدر ممکن ہو جلد سے جلد مسلمانوں سے اپنے مقتولوں کے خون کا بدلہ لینا چاہیے۔ چنانچہ ابو جہل کا بیٹا عکرمہ اور اُمیہ کا لڑکا صفوان اور دوسرے کفارِ قریش جن کے باپ،بھائی،بیٹے جنگ ِ بدر میں قتل ہو چکے تھے سب کے سب ابو سفیان کے پاس گئے اور کہا کہ مسلمانوں نے
ہماری قوم کے تمام سرداروں کو قتل کر ڈالا ہے۔ اس کا بدلہ لینا ہمارا قومی فریضہ ہے لہٰذا ہماری خواہش ہے کہ قریش کی مشترکہ تجارت میں امسال جتنا نفع ہوا ہے وہ سب قوم کے جنگی فنڈ میں جمع ہو جانا چاہیے اوراس رقم سے بہترین ہتھیار خرید کر اپنی لشکری طاقت بہت جلد مضبوط کر لینی چاہیے اور پھر ایک عظیم فوج لے کر مدینہ پر چڑھائی کرکے بانیء اسلام اور مسلمانوں کو دنیا سے نیست و نابود کر دینا چاہیے۔ ابو سفیان نے خوشی خوشی قریش کی اس درخواست کو منظور کر لیا۔ لیکن قریش کو جنگ ِ بدر سے یہ تجربہ ہوچکاتھاکہ مسلمانوں سے لڑنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ آندھیوں اورطوفانوں کا مقابلہ، سمندر کی موجوں سے ٹکرانا،پہاڑوں سے ٹکر لینا بہت آسان ہے مگر محمد رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے عاشقوں سے جنگ کرنا بڑا ہی مشکل کام ہے۔ اس لئے انہوں نے اپنی جنگی طاقت میں بہت زیادہ اضافہ کرنا نہایت ضروری خیال کیا۔ چنانچہ ان لوگوں نے ہتھیاروں کی تیاری اور سامان جنگ کی خریداری میں پانی کی طرح روپیہ بہانے کے ساتھ ساتھ پورے عرب میں جنگ کا جوش اور لڑائی کا بخار پھیلانے کے لئے بڑے بڑے شاعروں کو منتخب کیاجو اپنی آتش بیانی سے تمام قبائل عرب میں جوشِ انتقام کی آگ لگا دیں ''عمروجمحی'' اور ''مسافع'' یہ دونوں اپنی شاعری میں طاق اورآتش بیانی میں شہرهٔ آفاق تھے، ان دونوں نے باقاعدہ دورہ کرکے تمام قبائل عرب میں ایسا جوش اور اشتعال پیدا کر دیا کہ بچہ بچہ ''خون کا بدلہ خون'' کا نعرہ لگاتے ہوئے مرنے اور مارنے پر تیار ہو گیاجس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک بہت بڑی فوج تیار ہو گئی۔ مردوں کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے معزز اور مالدار گھرانوں کی عورتیں بھی جوش انتقام سے لبریز ہو کر فوج میں شامل ہو گئیں۔جن کے باپ،بھائی،بیٹے،شوہر
جنگ ِ بدر میں قتل ہوئے تھے۔ ان عورتوں نے قسم کھا لی تھی کہ ہم اپنے رشتہ داروں کے قاتلوں کا خون پی کر ہی دم لیں گی۔حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ہند کے باپ عتبہ اور جبیر بن مطعم کے چچا کو جنگ ِ بدر میں قتل کیا تھا۔ اس بنا پر ''ہند'' نے ''وحشی'' کو جو جبیر بن مطعم کا غلام تھا حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے قتل پر آمادہ کیااور یہ وعدہ کیا کہ اگر اس نے حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو قتل کر دیا تو وہ اس کارگزاری کے صلہ میں آزاد کر دیاجائے گا۔(1)
الغرض بے پناہ جوش و خروش اور انتہائی تیاری کے ساتھ لشکر کفار مکہ سے روانہ ہوااور ابو سفیان اس لشکر جرار کا سپہ سالار بنا۔ حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جو خفیہ طور پر مسلمان ہو چکے تھے اور مکہ میں رہتے تھے انہوں نے ایک خط لکھ کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو کفارِ قریش کی لشکر کشی سے مطلع کر دیا۔(2) جب آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو یہ خوفناک خبر ملی تو آپ نے ۵شوال ۳ھ کو حضرت عدی بن فضالہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دونوں لڑکوں حضرت انس اور حضرت مونس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کو جاسوس بنا کر کفارِ قریش کے لشکر کی خبر لانے کے لئے روانہ فرمایا۔ چنانچہ ان دونوں نے آکر یہ پریشان کن خبر سنائی کہ ابو سفیان کا لشکر مدینہ کے بالکل قریب آ گیا ہے اور ان کے گھوڑے مدینہ کی چراگاہ (عریض) کی تمام گھاس چر گئے۔
یہ خبر سن کر ۱۴ شوال ۳ ھ جمعہ کی رات میں حضرت سعد بن معاذ و حضرت
"1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ و الزرقانی،باب غزوۃ احد، ج۲،ص۳۸۶۔۳۹۱ ملتقطاً و ملخصاً
2۔۔۔۔۔۔کتاب المغازی للواقدی ، غزوۃ احد،ج۱،ص۲۰۳،۲۰۴"
"اسید بن حضیر و حضرت سعد بن عبادہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم ہتھیار لے کر چند انصاریوں کے ساتھ رات بھر کا شانہ نبوت کا پہرہ دیتے رہے اور شہر مدینہ کے اہم ناکوں پر بھی انصار کا پہرہ بٹھا دیا گیا۔ صبح کو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے انصار و مہاجرین کو جمع فرما کر مشورہ طلب فرمایا کہ شہر کے اندر رہ کر دشمنوں کی فوج کا مقابلہ کیا جائے یا شہر سے باہر نکل کر میدان میں یہ جنگ لڑی جائے؟ مہاجرین نے عام طور پر اور انصار میں سے بڑے بوڑھوں نے یہ رائے دی کہ عورتوں اور بچوں کو قلعوں میں محفوظ کر دیا جائے اور شہر کے اندر رہ کر دشمنوں کا مقابلہ کیا جائے۔ منافقوں کا سردار عبداﷲ بن اُبی بھی اس مجلس میں موجود تھا۔ اس نے بھی یہی کہا کہ شہر میں پناہ گیر ہو کر کفارِ قریش کے حملوں کی مدافعت کی جائے،مگر چند کمسن نوجوان جو جنگ ِ بدر میں شریک نہیں ہوئے تھے اور جوش جہاد میں آپے سے باہر ہو رہے تھے وہ اس رائے پر اڑ گئے کہ میدان میں نکل کر ان دشمنان اسلام سے فیصلہ کن جنگ لڑی جائے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے سب کی رائے سن لی۔ پھر مکان میں جا کر ہتھیار زیب تن فرمایا اور باہر تشریف لائے ۔اب تمام لوگ اس بات پر متفق ہو گئے کہ شہر کے اندر ہی رہ کر کفارِ قریش کے حملوں کو روکا جائے مگر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پیغمبر کے لئے یہ زیبا نہیں ہے کہ ہتھیار پہن کر اتار دے یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ اس کے اور اس کے دشمنوں کے درمیان فیصلہ فرما دے۔اب تم لوگ خدا کا نام لے کر میدان میں نکل پڑو۔ اگر تم لوگ صبر کے ساتھ میدان جنگ میں ڈٹے رہو گے تو ضرور تمہاری فتح ہو گی۔(1) (مدارج ج۲ ص۱۱۴)
پھر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے انصار کے قبیلۂ اوس کا جھنڈا حضرت اُسید"
1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت، قسم سوم، باب سوم، ج۲،ص۱۱۴
بن حضیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کواور قبیلۂ خزرج کا جھنڈا حضرت خباب بن منذر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کواور مہاجرین کا جھنڈاحضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو دیااور ایک ہزار کی فوج لے کر مدینہ سے باہر نکلے۔ (1)(مدارج ج۲ ص۱۱۴)
"شہر سے نکلتے ہی آپ نے دیکھا کہ ایک فوج چلی آ رہی ہے۔آپ نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم یہ رئیس المنافقین عبداﷲ بن اُبی کے حلیف یہودیوں کا لشکر ہے جو آپ کی امداد کے لئے آ رہا ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ:
''ان لوگوں سے کہہ دو کہ واپس لوٹ جائیں۔ ہم مشرکوں کے مقابلہ میں مشرکوں کی مدد نہیں لیں گے۔''(2)(مدارج جلد۲ ص۱۱۴)
چنانچہ یہودیوں کا یہ لشکر واپس چلا گیا۔پھرعبداﷲ بن اُبی (منافقوں کا سردار) بھی جو تین سو آدمیوں کو لے کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ آیا تھایہ کہہ کر واپس چلا گیا کہ محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم )نے میرا مشورہ قبول نہیں کیااور میری رائے کے خلاف میدان میں نکل پڑے، لہٰذا میں ان کا ساتھ نہیں دوں گا۔(3)(مدارج جلد۲ص۱۱۵)
عبداﷲ بن اُبی کی بات سن کر قبیلہ خزرج میں سے ''بنو سلمہ'' کے اور قبیلۂ اوس میں سے ''بنو حارثہ'' کے لوگوں نے بھی واپس لوٹ جانے کا ارادہ کر لیامگر اﷲ تعالیٰ نے ان لوگوں کے دلوں میں اچانک محبت اسلام کاایسا جذبہ پیدا فرما دیا کہ"
"1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت،قسم سوم، باب سوم، ج۲،ص۱۱۴
2۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت،قسم سوم، باب سوم، ج۲،ص۱۱۴
3۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃمع شرح الزرقانی، غزوۃ احد، ج۲،ص۴۰۱"
ان لوگوں کے قدم جم گئے۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجیدمیں ان لوگوں کا تذکرہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ
اِذْ ہَمَّتۡ طَّآئِفَتٰنِ مِنۡکُمْ اَنۡ تَفْشَلَا ۙ وَاللہُ وَلِیُّہُمَا ؕ وَعَلَی اللہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوۡنَ ﴿۱۲۲﴾ (1)
"جب تم میں کے دو گروہوں کا ارادہ ہوا کہ نامردی کر جائیں اور اﷲ ان کا سنبھالنے والا ہے اور مسلمانوں کو اﷲ ہی پر بھروسا ہونا چاہیے۔(آلِ عمران)
اب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے لشکر میں کل سات سو صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم رہ گئے جن میں کل ایک سو زرہ پوش تھے اور کفار کی فوج میں تین ہزار اشرار کا لشکر تھاجن میں سات سوزرہ پوش جوان، دو سو گھوڑے،تین ہزار اونٹ اور پندرہ عورتیں تھیں۔ (2)
شہر سے باہر نکل کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی فوج کا معائنہ فرمایااور جو لوگ کم عمر تھے، ان کو واپس لوٹا دیا کہ جنگ کے ہولناک موقع پر بچوں کا کیا کام؟(3)"
"مگر جب حضرت رافع بن خدیج رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے کہا گیا کہ تم بہت چھوٹے ہو،تم بھی واپس چلے جاؤ تو وہ فوراً انگوٹھوں کے بل تن کر کھڑے ہو گئے تا کہ ان کا قد اونچا نظر آئے۔ چنانچہ ان کی یہ ترکیب چل گئی اور وہ فوج میں شامل کر لئے گئے۔
حضرت سمرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جو ایک کم عمر نوجوان تھے جب ان کو واپس کیا"
"1۔۔۔۔۔۔پ۴،آل عمرٰن:۱۲۲
2۔۔۔۔۔۔ شرح الزرقانی علی المواھب، باب غزوۃ احد، ج۲،ص۴۰۱،۴۰۲
3۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، غزوۃ احد، ج۲،ص۳۹۹-۴۰۱ملتقطاً
ومدارج النبوت، قسم سوم، باب چہارم، ج۲،ص۱۱۴"
جانے لگا تو انہوں نے عرض کیاکہ میں رافع بن خدیج کو کشتی میں پچھاڑلیتا ہوں۔ اس لئے اگر وہ فوج میں لے لئے گئے ہیں تو پھر مجھ کو بھی ضرور جنگ میں شریک ہونے کی اجازت ملنی چاہیے چنانچہ دونوں کا مقابلہ کرایاگیااور واقعی حضرت سمرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوزمین پر دے مارا۔اس طرح ان دونوں پرجوش نوجوانوں کو جنگ ِ اُحد میں شرکت کی سعادت نصیب ہو گئی۔ (1) (مدارج جلد۲ ص۱۱۴)
مشرکین تو۱۲شوال ۳ ھ بدھ کے دن ہی مدینہ کے قریب پہنچ کر کوہِ اُحدپر اپنا پڑاؤ ڈال چکے تھے مگر حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ۱۴ شوال ۳ھ بعد نماز جمعہ مدینہ سے روانہ ہوئے۔ رات کو بنی نجار میں رہے اور ۱۵ شوال سنیچر کے دن نماز فجر کے وقت اُحد میں پہنچے۔ حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اذان دی اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے نماز فجر پڑھا کر میدان جنگ میں مورچہ بندی شروع فرمائی۔ حضرت عکاشہ بن محصن اسدی کو لشکر کے میمنہ (دائیں بازو)پراور حضرت ابو سلمہ بن عبدالاسد مخزومی کو میسرہ (بائیں بازو) پر اور حضرت ابو عبیدہ بن الجراح و حضرت سعد بن ابی وقاص کومقدمہ (اگلے حصہ) پر اور حضرت مقداد بن عمرو کو ساقہ( پچھلے حصہ)پر افسر مقرر فرمایا(رضی اﷲ تعالیٰ عنہم)اور صف بندی کے وقت اُحد پہاڑ کو پشت پر رکھااور کوہ عینین کوجووادی قناۃ میں ہے اپنے بائیں طرف رکھا۔لشکر کے پیچھے پہاڑمیں ایک درہ (تنگ راستہ)تھاجس میں سے گزر کر کفارِ قریش مسلمانوں کی صفوں کے پیچھے سے حملہ آور ہو سکتے تھے اس لئے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس درہ کی حفاظت کے لئے پچاس تیر اندازوں کا ایک دستہ
1۔۔۔۔۔۔کتاب المغازی للواقدی،غزوۃ احد، ج۱،ص۲۱۶
"مقرر فرما دیا اور حضرت عبداﷲ بن جبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو اس دستہ کا افسربنا دیااوریہ حکم دیا کہ دیکھو ہم چاہے مغلوب ہوں یا غالب مگرتم لوگ اپنی اس جگہ سے اس وقت تک نہ ہٹنا جب تک میں تمہارے پاس کسی کو نہ بھیجوں۔(1)
(مدارج جلد۲ ص۱۱۵ و بخاری باب مایکرہ من التنازع)
مشرکین نے بھی نہایت باقاعدگی کے ساتھ اپنی صفوں کو درست کیا۔چنانچہ انہوں نے اپنے لشکر کے میمنہ پر خالد بن ولید کو اورمیسرہ پرعکرمہ بن ابو جہل کو افسر بنا دیا،سواروں کا دستہ صفوان بن اُمیہ کی کمان میں تھا ۔تیر اندازوں کا ایک دستہ الگ تھا جن کا سردار عبداﷲ بن ربیعہ تھااورپورے لشکر کا علمبردار طلحہ بن ابو طلحہ تھاجو قبیلۂ بنی عبدالدار کا ایک آدمی تھا۔(2)(مدارج جلد۲ ص۱۱۵)
حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب دیکھا کہ پورے لشکر کفار کا علمبردار قبیلۂ بنی عبدالدار کا ایک شخص ہے توآپ نے بھی اسلامی لشکر کا جھنڈاحضرت مصعب بن عمیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو عطا فرمایاجو قبیلۂ بنو عبدالدار سے تعلق رکھتے تھے۔"
سب سے پہلے کفارِ قریش کی عورتیں دف بجا بجا کر ایسے اشعار گاتی ہوئی آگے بڑھیں جن میں جنگ ِ بدر کے مقتولین کا ماتم اور انتقامِ خون کا جوش بھرا ہوا تھا۔ لشکر کفار کے سپہ سالار ابو سفیان کی بیوی ''ہند'' آگے آگے اور کفارِ قریش کے معزز گھرانوں کی چودہ عورتیں اس کے ساتھ ساتھ تھیں اور یہ سب آواز ملا کر یہ اشعار گا ر
"1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت،قسم سوم، باب چہارم، ج۲،ص۱۱۴،۱۱۵ملتقطاً
2۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت،قسم سوم، باب چہارم، ج۲،ص۱۱۵"
ہی تھیں کہ ؎
"نَحْنُ بَنَاتُ طَارِقْ نَمْشِیْ عَلَی النَّمَارِقْ"
ہم آسمان کے تاروں کی بیٹیاں ہیں ہم قالینوں پر چلنے والیاں ہیں
"اِنْ تُقْبِلُوْا نُعَانِقْ اَوْ تُدْبِرُوْا نُفَارِقْ"
"اگر تم بڑھ کر لڑو گے تو ہم تم سے گلے ملیں گے اور پیچھے قدم ہٹایا تو ہم تم سے الگ ہو جائیں گے۔(1)
مشرکین کی صفوں میں سے سب سے پہلے جو شخص جنگ کے لئے نکلا وہ ''ابو عامر اوسی'' تھا۔ جس کی عبادت اور پارسائی کی بنا پر مدینہ والے اس کو ''راہب''کہا کرتے تھے مگر رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے اس کا نام ''فاسق'' رکھا تھا۔ زمانہ جاہلیت میں یہ شخص اپنے قبیلہ اوس کا سردار تھااور مدینہ کا مقبول عام آدمی تھا۔ مگر جب رسول اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے تو یہ شخص جذبۂ حسد میں جل بھن کر خدا کے محبوب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مخالفت کرنے لگااور مدینہ سے نکل کر مکہ چلا گیا اور کفارِ قریش کو آپ سے جنگ کرنے پر آمادہ کیا۔اس کو بڑا بھروسا تھا کہ میری قوم جب مجھے دیکھے گی تو رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا ساتھ چھوڑ دے گی۔ چنانچہ اس نے میدان میں نکل کر پکارا کہ اے انصار!کیا تم لوگ مجھے پہچانتے ہو؟ میں ابو عامر راہب ہوں۔ انصار نے چلا کر کہاہاں ہاں!اے فاسق!ہم تجھ کو خوب پہچانتے ہیں۔ خدا تجھے ذلیل فرمائے۔ ابو عامر اپنے لئے فاسق کا لفظ سن کر تلملا گیا۔ کہنے لگا کہ ہائے افسوس! میرے بعدمیری قوم بالکل ہی بدل گئی ۔پھرکفارِقریش کی ایک ٹولی جو اس کے ساتھ تھی"
1۔۔۔۔۔۔کتاب المغازی للواقدی،غزوۃ احد، ج۱،ص۲۲۵
"مسلمانوں پر تیربرسانے لگی۔اس کے جواب میں انصارنے بھی اس زور کی سنگ باری کی کہ ابوعامراوراس کے ساتھی میدان جنگ سے بھاگ کھڑے ہوئے(1)
(مدارج جلد۲ ص۱۱۶)
لشکر کفار کا علمبردار طلحہ بن ابو طلحہ صف سے نکل کر میدان میں آیا اور کہنے لگا کہ کیوں مسلمانو!تم میں کوئی ایسا ہے کہ یا وہ مجھ کو دوزخ میں پہنچا دے یا خود میرے ہاتھ سے وہ جنت میں پہنچ جائے۔ اس کا یہ گھمنڈ سے بھرا ہوا کلام سن کر حضرت علی شیر خدا رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایاکہ ہاں ''میں ہوں'' یہ کہہ کر فاتح خیبر نے ذُوالفقار کے ایک ہی وار سے اُس کا سرپھاڑدیااور وہ زمین پر تڑپنے لگااور شیر خدا منہ پھیرکر وہاں سے ہٹ گئے۔لوگوں نے پوچھا کہ آپ نے اس کا سرکیوں نہیں کاٹ لیا ؟ شیرخدا نے فرمایاکہ جب وہ زمین پر گرا تو اس کی شرمگاہ کھل گئی اور وہ مجھے قسم دینے لگا کہ مجھے معا ف کر دیجیے اس بے حیاکو بے ستردیکھ کرمجھے شرم دا منگیر ہو گئی اس لئے میں نے منہ پھیرلیا۔ (2)(مدارج ج۲ ص۱۱۶)
طلحہ کے بعداس کابھائی عثمان بن ابوطلحہ رجزکایہ شعرپڑھتاہواحملہ آورہوا کہ ؎"
"اِنَّ عَلٰی اَھْلِ اللِّوَاءِ حَقًّا! اَنْ یَّخْضِبَ اللِّوَاءَ اَوْ تَنْدَقَّا"
"علمبردار کافرض ہے کہ نیزہ کو خون میں رنگ دے یا وہ ٹکرا کر ٹوٹ جائے۔
حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اس کے مقابلہ کے لئے تلوار لے کر نکلے اور اس کے شانے پر ایسا بھرپور ہاتھ مارا کہ تلوار ریڑھ کی ہڈی کو کاٹتی ہوئی کمر تک پہنچ گئی اور"
"1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت،قسم سوم، باب سوم، ج۲،ص۱۱۶
2۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت،قسم سوم، باب سوم، ج۲،ص۱۱۶"
آپ کے منہ سے یہ نعرہ نکلا کہ
اَنَا ابْنُ سَاقِی الْحَجِیْجِ
"میں حاجیوں کے سیراب کرنے والے عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔(1)
(مدارج جلد۲ ص۱۱۶)
اس کے بعد عام جنگ شروع ہو گئی اور میدان جنگ میں کشت و خون کا بازار گرم ہو گیا۔"
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے دست مبارک میں ایک تلوار تھی جس پر یہ شعر کندہ تھا کہ ؎
"فِی الْجُبْنِ عَارٌ وَفِی الْاِقْبَال مَکْرُمَۃٌ
وَالْمَرْءُ بِالْجُبْنِ لاَ یَنْجُوْ مِنَ الْقَدْرٖ"
بزدلی میں شرم ہے اور آگے بڑھ کر لڑنے میں عزت ہے اور آدمی بزدلی کرکے تقدیر سے نہیں بچ سکتا۔حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ''کون ہے جو اس تلوار کو لے کر اس کا حق ادا کرے''یہ سن کر بہت سے لوگ اس سعادت کے لئے لپکے مگر یہ فخر و شرف حضرت ابو دجانہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے نصیب میں تھا کہ تاجدار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی یہ تلوار اپنے ہاتھ سے حضرت ابو دجانہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں دے دی ۔وہ یہ اعزاز پا کر جوش مسرت میں مست و بے خود ہو گئے اور عرض کیا کہ یارسول اﷲ!صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم اس تلوار کا حق کیا ہے؟ ارشاد فرمایا کہ''تو اس سے کافروں کو قتل کرے یہاں تک کہ یہ ٹیڑھی ہو جائے۔''
1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت،قسم سوم، باب سوم، ج۲،ص۱۱۶
"حضرت ابو دجانہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم میں اس تلوار کو اس کے حق کے ساتھ لیتا ہوں۔ پھر وہ اپنے سر پر ایک سرخ رنگ کا رومال باندھ کر اکڑتے اور اتراتے ہوئے میدان جنگ میں نکل پڑے اور دشمنوں کی صفوں کو چیرتے ہوئے اور تلوار چلاتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جا رہے تھے کہ ایک دم ان کے سامنے ابوسفیان کی بیوی ''ہند'' آ گئی۔ حضرت ابو دجانہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ارادہ کیا کہ اس پر تلوار چلا دیں مگر پھر اس خیال سے تلوار ہٹالی کہ رسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس تلوار کے لئے یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی عورت کا سر کاٹے۔(1) (زُرقانی ج۲ ص۲۹ و مدارج جلد۲ ص۱۱۶)
حضرت ابو دجانہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی طرح حضرت حمزہ اور حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہما بھی دشمنوں کی صفوں میں گھس گئے اور کفار کا قتل عام شروع کر دیا۔
حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ انتہائی جوش جہاد میں دو دستی تلوار مارتے ہوئے آگے بڑھتے جا رہے تھے۔ اسی حالت میں ''سباع غبشانی'' سامنے آ گیا آپ نے تڑپ کر فرمایا کہ اے عورتوں کاختنہ کرنے والی عورت کے بچے! ٹھہر، کہاں جاتا ہے؟ تو اﷲ و رسول سے جنگ کرنے چلا آیا ہے۔یہ کہہ کر اس پر تلوار چلا دی،اور وہ دو ٹکڑے ہو کر زمین پر ڈھیر ہو گیا۔(2)"
''وحشی'' جو ایک حبشی غلام تھااور اس کا آقا جبیر بن مطعم اس سے وعدہ کر چکا تھا
"1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت،قسم سوم، باب سوم، ج۲،ص۱۱۵
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی، باب قتل حمزۃ رضی اللہ عنہ...الخ،الحدیث: ۴۰۷۲،ج۳،ص۴۱"
"کہ تو اگر حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو قتل کر دے تومیں تجھ کو آزاد کر دوں گا۔ وحشی ایک چٹان کے پیچھے چھپا ہوا تھااور حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی تاک میں تھاجوں ہی آپ اس کے قریب پہنچے اس نے دور سے اپنا نیزہ پھینک کر مارا جو آپ کی ناف میں لگا۔ اور پشت کے پار ہو گیا۔ اس حال میں بھی حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تلوار لے کر اس کی طرف بڑھے مگر زخم کی تاب نہ لا کر گر پڑے اور شہادت سے سرفراز ہوگئے۔(1)
(بخاری باب قتل حمزہ ج۲ ص۵۸۲)
کفار کے علمبردارخود کٹ کٹ کر گرتے چلے جا رہے تھے مگر اُن کا جھنڈا گرنے نہیں پاتا تھاایک کے قتل ہونے کے بعد دوسرا اس جھنڈے کو اٹھا لیتا تھا۔ ان کافروں کے جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ جب ایک کافر نے جس کا نام ''صواب'' تھا مشرکین کا جھنڈا اٹھایا تو ایک مسلمان نے اس کواس زور سے تلوار ماری کہ اس کے دونوں ہاتھ کٹ کر زمین پر گر پڑے مگر اس نے اپنے قومی جھنڈے کو زمین پر گرنے نہیں دیا بلکہ جھنڈے کو اپنے سینے سے دبائے ہوئے زمین پر گر پڑا۔ اسی حالت میں مسلمانوں نے اس کو قتل کر دیا۔ مگر وہ قتل ہوتے ہوتے یہی کہتا رہا کہ ''میں نے اپنا فرض ادا کر دیا۔'' اس کے مرتے ہی ایک بہادر عورت جس کا نام ''عمرہ'' تھا اس نے جھپٹ کر قومی جھنڈے کو اپنے ہاتھ میں لے کر بلند کر دیا،یہ منظر دیکھ کر قریش کو غیرت آئی اور ان کی بکھری ہوئی فوج سمٹ آئی اور ان کے اکھڑے ہوئے قدم پھر جم گئے۔
(مدارج جلد۲ ص۱۱۶ وغیرہ)"
1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری، کتاب المغازی ، باب قتل حمزۃ رضی اللہ عنہ...الخ،الحدیث: ۴۰۷۲، ج۳،ص۴۱
"ابو عامر راہب کفار کی طرف سے لڑ رہا تھا مگر اس کے بیٹے حضرت حنظلہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ پرچم اسلام کے نیچے جہاد کر رہے تھے۔ حضرت حنظلہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مجھے اجازت دیجیے میں اپنی تلوار سے اپنے باپ ابو عامر راہب کا سرکاٹ کر لاؤں مگرحضور رحمۃ للعالمین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی رحمت نے یہ گوارا نہیں کیا کہ بیٹے کی تلوار باپ کا سرکاٹے۔حضرت حنظلہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اس قدر جوش میں بھرے ہوئے تھے کہ سرہتھیلی پر رکھ کر انتہائی جان بازی کے ساتھ لڑتے ہوئے قلب لشکر تک پہنچ گئے اور کفار کے سپہ سالارابو سفیان پر حملہ کر دیا اور قریب تھا کہ حضرت حنظلہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی تلوار ابو سفیان کا فیصلہ کر دے کہ اچانک پیچھے سے شداد بن الاسود نے جھپٹ کر وار کو روکااور حضرت حنظلہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو شہید کردیا۔
حضرت حنظلہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے بارے میں حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ''فرشتے حنظلہ کو غسل دے رہے ہیں۔'' جب ان کی بیوی سے ان کا حال دریافت کیا گیا تو اس نے کہا کہ جنگ ِ اُحد کی رات میں وہ اپنی بیوی کے ساتھ سوئے تھے،غسل کی حاجت تھی مگر دعوت جنگ کی آواز ان کے کان میں پڑی تو وہ اسی حالت میں شریک جنگ ہو گئے۔ یہ سن کر حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہی وجہ ہے جو فرشتوں نے اس کو غسل دیا۔ اسی واقعہ کی بنا پر حضرت حنظلہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو ''غسیل الملائکہ'' کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔(1) (مدارج ج۲ ص۱۲۳)"
1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ و شرح الزرقانی ، باب غزوۃ احد، ج۲،ص۴۰۸،۴۰۹
اس جنگ میں مجاہدین انصار و مہاجرین بڑی دلیری اور جان بازی سے لڑتے رہے یہاں تک کہ مشرکین کے پاؤں اکھڑ گئے۔ حضرت علی و حضرت ابو دجانہ و حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہم وغیرہ کے مجاہدانہ حملوں نے مشرکین کی کمر توڑ دی۔ کفار کے تمام علمبردارعثمان،ابو سعد،مسافع،طلحہ بن ابی طلحہ وغیرہ ایک ایک کرکے کٹ کٹ کر زمین پر ڈھیر ہو گئے ۔کفار کو شکست ہو گئی اور وہ بھاگنے لگے اور ان کی عورتیں جو اشعار پڑھ پڑھ کر لشکر کفار کو جوش دلا رہی تھیں وہ بھی بدحواسی کے عالم میں اپنے ازار اٹھائے ہوئے برہنہ ساق بھاگتی ہوئی پہاڑوں پر دوڑتی ہوئی چلی جا رہی تھیں اور مسلمان قتل و غارت میں مشغول تھے۔(1)
کفار کی بھگدڑ اور مسلمانوں کے فاتحانہ قتل وغارت کا یہ منظر دیکھ کر وہ پچاس تیر انداز مسلمان جو درہ کی حفاظت پر مقرر کئے گئے تھے وہ بھی آپس میں ایک دوسرے سے یہ کہنے لگے کہ غنیمت لوٹو،غنیمت لوٹو،تمہاری فتح ہو گئی۔ ان لوگوں کے افسرحضرت عبداﷲ بن جبیررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہر چند روکا اورحضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا فرمان یاد دلایا اور فرمانِ مصطفوی کی مخالفت سے ڈرایا مگر ان تیر انداز مسلمانوں نے ایک نہیں سنی اور اپنی جگہ چھوڑ کر مال غنیمت لوٹنے میں مصروف ہو گئے۔ لشکر کفار کا ایک افسر خالدبن ولید پہاڑ کی بلندی سے یہ منظر دیکھ رہا تھا ۔جب اس نے دیکھا کہ درہ پہرہ داروں سے خالی ہو گیا ہے فوراً ہی اس نے درہ کے راستہ سے فوج لا کر مسلمانوں کے پیچھے سے حملہ کر دیا۔ حضرت عبداﷲ بن جبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے چند جان بازوں کے ساتھ انتہائی دلیرانہ مقابلہ
1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، باب غزوۃ احد،ج۲،ص۴۰۵،۴۰۹،۴۱۰ ملتقطاً
کیامگریہ سب کے سب شہید ہو گئے۔ اب کیا تھا کافروں کی فوج کے لئے راستہ صاف ہو گیاخالد بن ولید نے زبردست حملہ کر دیا۔ یہ دیکھ کر بھاگتی ہوئی کفارِ قریش کی فوج بھی پلٹ پڑی۔مسلمان مال غنیمت لوٹنے میں مصروف تھے پیچھے پھر کر دیکھا تو تلواریں برس رہی تھیں اورکفار آگے پیچھے دونوں طرف سے مسلمانوں پر حملہ کر رہے تھے اور مسلمانوں کا لشکر چکی کے دو پاٹوں میں دانہ کی طرح پسنے لگا اور مسلمانوں میں ایسی بدحواسی اور ابتری پھیل گئی کہ اپنے اور بیگانے کی تمیز نہیں رہی۔ خود مسلمان مسلمانوں کی تلواروں سے قتل ہوئے۔ چنانچہ حضرت حذیفہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے والدحضرت یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ خودمسلمانوں کی تلوارسے شہید ہوئے۔ حضرت حذیفہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ چلاتے ہی رہے کہ ''اے مسلمانو! یہ میرے باپ ہیں،یہ میرے باپ ہیں۔'' مگر کچھ عجیب بدحواسی پھیلی ہوئی تھی کہ کسی کو کسی کا دھیان ہی نہیں تھا اور مسلمانوں نے حضرت یمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو شہید کر دیا۔(1)
پھر بڑا غضب یہ ہوا کہ لشکر اسلام کے علمبردار حضرت مصعب بن عمیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ پر ابن قمیہ کافر جھپٹا اور ان کے دائیں ہاتھ پراس زور سے تلوار چلا دی کہ ان کا دایاں ہاتھ کٹ کر گر پڑا ۔اس جاں باز مہاجر نے جھپٹ کر اسلامی جھنڈے کو بائیں ہاتھ سے سنبھال لیامگر ابن قمیۂ نے تلوار مار کر ان کے بائیں ہاتھ کو بھی شہید کر دیا دونوں ہاتھ کٹ چکے تھے مگر حضرت عمیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اپنے دونوں کٹے ہوئے بازوؤں سے پرچم اسلام کو اپنے سینے سے لگائے ہوئے کھڑے رہے اور بلند آواز سے یہ آیت پڑھتے
1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ والزرقانی ، باب غزوۃ احد، ج۲،ص۴۱۱،۴۱۳ومدارج النبوت، قسم سوم، باب سوم، ج۲،ص۱۱۷
رہے کہ
وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدْ خَلَتْ مِنۡ قَبْلِہِ الرُّسُلُ ؕ (1)
"پھرابن قمیہ نے ان کو تیر مار کر شہید کر دیا۔ حضرت مصعب بن عمیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جو صورت میں حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے کچھ مشابہ تھے ان کو زمین پر گرتے ہوئے دیکھ کر کفار نے غل مچا دیا کہ(معاذ اﷲ) حضور تاجدارِ عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم قتل ہو گئے۔ (2)
اﷲ اکبر!اس آواز نے غضب ہی ڈھا دیامسلمان یہ سن کربالکل ہی سراسیمہ اور پراگندہ دماغ ہو گئے اور میدان جنگ چھوڑ کر بھاگنے لگے۔ بڑے بڑے بہادروں کے پاؤں اکھڑ گئے اور مسلمانوں میں تین گروہ ہو گئے۔ کچھ لوگ تو بھاگ کر مدینہ کے قریب پہنچ گئے،کچھ لوگ سہم کر مردہ دل ہوگئے جہاں تھے وہیں رہ گئے اپنی جان بچاتے رہے یاجنگ کرتے رہے ،کچھ لوگ جن کی تعداد تقریباً بارہ تھی وہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے ساتھ ثابت قدم رہے۔ اس ہلچل اور بھگدڑ میں بہت سے لوگوں نے تو بالکل ہی ہمت ہار دی اور جوجاں بازی کے ساتھ لڑنا چاہتے تھے وہ بھی دشمنوں کے دو طرفہ حملوں کے نرغے میں پھنس کرمجبور و لاچار ہو چکے تھے۔ تاجدار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کہاں ہیں؟ اور کس حال میں ہیں؟ کسی کو اس کی خبر نہیں تھی۔(3)
حضرت علی شیرخدارضی اﷲ تعالیٰ عنہ تلوار چلاتے اور دشمنوں کی صفوں کو درہم"
"1۔۔۔۔۔۔ترجمہ کنزالایمان: اور محمد(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)توایک رسول ہیں ان سے پہلے اوررسول ہوچکے۔مدارج النبوت، قسم سوم، باب سوم، ج۲،ص۱۲۴
2۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، باب غزوۃ احد، ج۲،ص۴۱۴ومدارج النبوت،
قسم سوم، باب چہارم، ج۲،ص۱۲۴
3۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب، باب غزوۃ احد،ج۲،ص۴۱۵"
"برہم کرتے چلے جاتے تھے مگر وہ ہر طرف مڑ مڑ کر رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو دیکھتے تھے مگر جمالِ نبوت نظر نہ آنے سے وہ انتہائی اضطراب و بے قراری کے عالم میں تھے۔(1) حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے چچا حضرت انس بن نضررضی اﷲ تعالیٰ عنہ لڑتے لڑتے میدان جنگ سے بھی کچھ آگے نکل پڑے وہاں جا کر دیکھا کہ کچھ مسلمانوں نے مایوس ہو کر ہتھیار پھینک دئیے ہیں۔حضرت انس بن نضر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے پوچھا کہ تم لوگ یہاں بیٹھے کیا کر رہے ہو؟ لوگوں نے جواب دیا کہ اب ہم لڑ کر کیاکریں گے؟ جن کے لئے لڑتے تھے وہ تو شہید ہو گئے ۔حضرت انس بن نضررضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اگر واقعی رسول خداصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم شہید ہو چکے توپھر ہم ان کے بعد زندہ رہ کر کیا کریں گے؟ چلو ہم بھی اسی میدان میں شہید ہو کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس پہنچ جائیں۔ یہ کہہ کر آپ دشمنوں کے لشکر میں لڑتے ہوئے گھس گئے اور آخری دم تک انتہائی جوشِ جہاد اور جان بازی کے ساتھ جنگ کرتے رہے یہاں تک کہ شہید ہو گئے ۔لڑائی ختم ہونے کے بعد جب ان کی لاش دیکھی گئی تو اسّی سے زیادہ تیرو تلوار اور نیزوں کے زخم ان کے بدن پر تھے کافروں نے ان کے بدن کو چھلنی بنا دیا تھا اور ناک،کان وغیرہ کاٹ کران کی صورت بگاڑ دی تھی،کوئی شخص ان کی لاش کو پہچان نہ سکاصرف ان کی بہن نے ان کی انگلیوں کو دیکھ کر ان کو پہچانا۔(2)
(بخاری غزوۂ اُحد ج۲ ص۵۷۹ و مسلم جلد ۲ ص۳۸)
اسی طرح حضرت ثابت بن دحداح رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے مایوس ہو جانےوالے"
"1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت، قسم سوم، باب چہارم، ج۲،ص۱۲۱
2۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب، باب غزوۃ احد،ج۲،ص۴۱۷ملخصاً"
"انصاریوں سے کہا کہ اے جماعت انصار! اگر بالفرض رسول اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم شہید بھی ہو گئے توتم ہمت کیوں ہار گئے؟ تمہارا اﷲ تو زندہ ہے لہٰذا تم لوگ اٹھواور اﷲ کے دین کے لئے جہاد کرو،یہ کہہ کر آپ نے چند انصاریوں کو اپنے ساتھ لیا اور لشکر کفار پر بھوکے شیروں کی طرح حملہ آور ہو گئے اور آخر خالد بن ولید کے نیزہ سے جام شہادت نوش کر لیا۔(1)(اصابہ، ترجمہ ثابت بن دحداح)
جنگ جاری تھی اور جاں نثاران اسلام جو جہاں تھے وہیں لڑائی میں مصروف تھے مگر سب کی نگاہیں انتہائی بے قراری کے ساتھ جمال نبوت کو تلاش کرتی تھیں،عین مایوسی کے عالم میں سب سے پہلے جس نے تاجدار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کاجمال دیکھا وہ حضرت کعب بن مالک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی خوش نصیب آنکھیں ہیں،انہوں نے حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو پہچان کر مسلمانوں کو پکارا کہ اے مسلمانو!ادھر آؤ،رسول خدا عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم یہ ہیں،اس آواز کو سن کر تمام جاں نثاروں میں جان پڑ گئی اورہر طرف سے دوڑ دوڑ کر مسلمان آنے لگے،کفار نے بھی ہر طرف سے حملہ روک کر رحمت عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر قاتلانہ حملہ کرنے کے لئے سارا زور لگا دیا۔ لشکر کفار کا دل بادل ہجوم کے ساتھ امنڈ پڑااور بار بار مدنی تاجدارصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلمپریلغار کرنے لگامگر ذوالفقار کی بجلی سے یہ بادل پھٹ پھٹ کر رہ جاتا تھا۔(2)"
ایک مرتبہ کفار کا ہجوم حملہ آور ہوا تو سرور ِعالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
"1۔۔۔۔۔۔الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ ، ثابت بن الدحداح ، ج۱،ص۵۰۳
2۔۔۔۔۔۔الاکتفا، باب ذکر مغازی الرسول صلی اللہ علیہ وسلم،ج۱،ص۳۸۰"
''کون ہے جو میرے اوپر اپنی جان قربان کرتا ہے؟'' یہ سنتے ہی حضرت زیاد بن سکن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ پانچ انصاریوں کو ساتھ لے کر آگے بڑھے اور ہر ایک نے لڑتے ہوئے اپنی جانیں فدا کر دیں۔ حضرت زیاد بن سکن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ زخموں سے لاچار ہو کر زمین پر گر پڑے تھے مگرکچھ کچھ جان باقی تھی،حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ان کی لاش کو میرے پاس اٹھا لاؤ،جب لوگوں نے ان کی لاش کو بارگاہ رسالت میں پیش کیاتو حضرت زیاد بن سکن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کھسک کر محبوبِ خدا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے قدموں پراپنامنہ رکھ دیااوراسی حالت میں ان کی روح پروازکرگئی۔(1)اﷲ اکبر! حضرت زیادبن سکن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی اس موت پرلاکھوں زندگیاں قربان !سبحان اللہ
" بچہ ناز رفتہ باشد ز جہاں نیاز مندے
کہ بوقت جاں سپردن بسرش رسیدہ باشی"
اس گھمسان کی لڑائی اور مار دھاڑ کے ہنگاموں میں ایک بہادر مسلمان کھڑا ہوا،نہایت بے پروائی کے ساتھ کھجوریں کھا رہا تھا۔ ایک دم آگے بڑھااور عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم اگر میں اس وقت شہید ہو جاؤں تو میرا ٹھکانہ کہاں ہو گا؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ تو جنت میں جائے گا ۔وہ بہادر اس فرمان بشارت کو سن کر مست و بےخود ہو گیا۔ ایک دم کفار کے ہجوم میں کود پڑااور ایسی شجاعت کے ساتھ لڑنے لگا کہ کافروں کے دل دہل گئے۔ اسی طرح جنگ کرتے کرتے شہید ہو گیا۔(2) (بخاری غزوۂ اُحد ج۲ ص۵۷۹)
"1۔۔۔۔۔۔دلائل النبوۃ للبیہقی ، باب تحریض النبی صلی اللہ علیہ وسلم...الخ،ج۳،ص۲۳۲
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ احد، الحدیث:۴۰۴۶،ج۳،ص۳۵"
حضرت عمرو بن جموح انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ لنگڑے تھے،یہ گھرسے نکلتے وقت یہ دعا مانگ کر چلے تھے کہ یااﷲ!عزوجل مجھ کو میدان جنگ سے اہل و عیال میں آنا نصیب مت کر،ان کے چار فرزند بھی جہاد میں مصروف تھے۔ لوگوں نے ان کو لنگڑا ہونے کی بنا پر جنگ کرنے سے روک دیا تو یہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی بارگاہ میں گڑ گڑا کر عرض کرنے لگے کہ یارسول اﷲ!عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مجھ کو جنگ میں لڑنے کی اجازت عطا فرمائیے،میری تمنا ہے کہ میں بھی لنگڑاتا ہوا باغِ بہشت میں خراماں خراماں چلا جاؤں۔ ان کی بے قراری اور گریہ و زاری سے رحمت عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا قلب مبارک متأثرہو گیااور آپ نے ان کو جنگ کی اجازت دے دی۔ یہ خوشی سے اچھل پڑے اور اپنے ایک فرزند کو ساتھ لے کر کافروں کے ہجوم میں گھس گئے۔ حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عمرو بن جموح رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو دیکھا کہ وہ میدان جنگ میں یہ کہتے ہوئے چل رہے تھے کہ'' خدا کی قسم!میں جنت کا مشتاق ہوں۔'' ان کے ساتھ ساتھ ان کو سہارا دیتے ہوئے ان کا لڑکا بھی انتہائی شجاعت کے ساتھ لڑ رہا تھایہاں تک کہ یہ دونوں شہادت سے سرفراز ہو کر باغ بہشت میں پہنچ گئے۔ لڑائی ختم ہو جانے کے بعد ان کی بیوی ہند زوجہ عمرو بن جموح میدان جنگ میں پہنچی اور اس نے ایک اونٹ پر ان کی اور اپنے بھائی اور بیٹے کی لاش کو لاد کر دفن کے لئے مدینہ لانا چاہا تو ہزاروں کوششوں کے باوجود کسی طرح بھی وہ اونٹ ایک قدم بھی مدینہ کی طرف نہیں چلابلکہ وہ میدان جنگ ہی کی طرف بھاگ بھاگ کر جاتا رہا۔ ہند نے جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے یہ ماجرا عرض کیاتو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
وسلم نے فرمایا کہ یہ بتا کیا عمرو بن جموح رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گھر سے نکلتے وقت کچھ کہا تھا؟ ہند نے کہا کہ جی ہاں!وہ یہ دعا کرکے گھر سے نکلے تھے کہ ''یا اﷲ!عزوجل مجھ کو میدان جنگ سے اہل و عیال میں آنا نصیب مت کر۔ ''آپ نے ارشاد فرمایا کہ یہی وجہ ہے کہ اونٹ مدینہ کی طرف نہیں چل رہا ہے۔(1)(مدارج جلد۲ ص۱۲۴)
اسی سراسیمگی اور پریشانی کے عالم میں جب کہ بکھرے ہوئے مسلمان ابھی رحمت عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس جمع بھی نہیں ہوئے تھے کہ عبداﷲ بن قمیئہ جو قریش کے بہادروں میں بہت ہی نامور تھا۔ اس نے ناگہاں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو دیکھ لیا۔ ایک دم بجلی کی طرح صفوں کو چیرتا ہوا آیا اور تاجدار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر قاتلانہ حملہ کر دیا۔ ظالم نے پوری طاقت سے آپ کے چہرهٔ انور پر تلوار ماری جس سے خود کی دو کڑیاں رخ انور میں چبھ گئیں۔ ایک دوسرے کافر نے آپ کے چہرهٔ اقدس پر ایسا پتھر مارا کہ آپ کے دو دندان مبارک شہید، اور نیچے کا مقدس ہونٹ زخمی ہو گیا۔ اسی حالت میں ابی بن خلف ملعون اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر آپ کو شہید کر دینے کی نیت سے آگے بڑھا۔ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے ایک جاں نثار صحابی حضرت حارث بن صمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ایک چھوٹا سا نیزہ لے کر ابی بن خلف کی گردن پر ماراجس سے وہ تلملا گیا۔ گردن پر بہت معمولی زخم آیا اور وہ بھاگ نکلامگر اپنے لشکر میں جا کر اپنی گردن کے زخم کے بارے میں لوگوں سے اپنی تکلیف اور پریشانی ظاہر کرنے لگااور بے پناہ ناقابل برداشت درد کی شکایت کرنے لگا ۔اس پر اس کے ساتھیوں نے کہا کہ ''یہ تو معمولی
1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت، قسم سوم، باب چہارم، ج۲،ص۱۲۴
"خراش ہے،تم اس قدر پریشان کیوں ہو؟'' اس نے کہا کہ تم لوگ نہیں جانتے کہ ایک مرتبہ مجھ سے محمد(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) نے کہا تھا کہ میں تم کو قتل کروں گااس لئے۔یہ توبہرحال زخم ہے میراتو اعتقادہے کہ اگر وہ میرے اوپر تھوک دیتے تو بھی میں سمجھ لیتا کہ میری موت یقینی ہے۔(1)
اس کاواقعہ یہ ہے کہ ابی بن خلف نے مکہ میں ایک گھوڑا پالا تھاجس کا نام اس نے ''عود'' رکھا تھا۔ وہ روزانہ اس کو چراتاتھااور لوگوں سے کہتا تھا کہ میں اسی گھوڑے پر سوار ہو کر محمد(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کو قتل کروں گا۔جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ ان شاء اللہ تعالیٰ میں اُبی بن خلف کو قتل کروں گا۔چنانچہ ابی بن خلف اپنے اسی گھوڑے پر چڑھ کر جنگ ِ اُحد میں آیا تھا جو یہ واقعہ پیش آیا۔(2) ابی بن خلف نیزہ کے زخم سے بے قرار ہو کر راستہ بھر تڑپتا اور بلبلاتا رہا۔ یہاں تک کہ جنگ ِ اُحد سے واپس آتے ہوئے مقام ''سرف'' میں مر گیا۔(3) (زُرقانی علی المواہب ج۲ ص۴۵)
اس طرح ابن قَمِیئَہ ملعون جس نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے رخ انور پر تلوار چلا دی تھی ایک پہاڑی بکرے کو خداوند قہار و جبار نے اس پر مسلط فرما دیا اور اس نے اس کو سینگ مار مار کر چھلنی بنا ڈالااور پہاڑ کی بلندی سے نیچے گرا دیا جس سے اس کی لاش ٹکڑے ٹکڑے ہو کر زمین پر بکھر گئی۔(4)(زُرقانی ج۲ ص۳۹)"
"1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت،قسم سوم، باب چہارم، ج۲،ص۱۲۷۔۱۲۹ملتقطاً
2۔۔۔۔۔۔الطبقات الکبریٰ لابن سعد ، باب من قتل من المسلمین یوم احد،ج۲،ص۳۵
3۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃو شرح الزرقانی ،باب غزوۃ احد، ج۲،ص۴۳۷
4۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃو شرح الزرقانی ،باب غزوۃ احد، ج۲،ص۴۲۶"
جب حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم زخمی ہو گئے تو چاروں طرف سے کفار نے آپ پر تیرو تلوار کا وار شروع کر دیااورکفار کا بے پناہ ہجوم آپ کے ہر چہار طرف سے حملہ کرنے لگاجس سے آپ کفار کے نرغہ میں محصور ہو نے لگے۔ یہ منظر دیکھ کر جان نثار صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کاجوش جاں نثاری سے خون کھولنے لگااور وہ اپنا سر ہتھیلی پر رکھ کر آپ کو بچانے کے لئے اس جنگ کی آگ میں کود پڑے اور آپ کے گرد ایک حلقہ بنا لیا۔ حضرت ابو دجانہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جھک کر آپ کے لئے ڈھال بن گئے اور چاروں طرف سے جو تلواریں برس رہی تھیں ان کو وہ اپنی پشت پر لیتے رہے اور آپ تک کسی تلوار یا نیزے کی مار کو پہنچنے ہی نہیں دیتے تھے۔ حضرت طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی جاں نثاری کا یہ عالم تھا کہ وہ کفار کی تلواروں کے وار کو اپنے ہاتھ پر روکتے تھے یہاں تک کہ ان کا ایک ہاتھ کٹ کر شل ہو گیااور ان کے بدن پر پینتیس یا اُنتالیس زخم لگے۔غرض جاں نثارصحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی حفاظت میں اپنی جانوں کی پروا نہیں کی اور ایسی بہادری اور جاں بازی سے جنگ کرتے رہے کہ تاریخ عالم میں اس کی مثال نہیں مل سکتی۔ حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نشانہ بازی میں مشہور تھے۔ انہوں نے اس موقع پر اس قدر تیر برسائے کہ کئی کمانیں ٹوٹ گئیں۔ انہوں نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنی پیٹھ کے پیچھے بٹھا لیا تھا تا کہ دشمنوں کے تیر یا تلوارکا کوئی وار آپ پر نہ آ سکے۔ کبھی کبھی آپ دشمنوں کی فوج کو دیکھنے کے لئے گردن اٹھاتے تو حضرت طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ عرض کرتے کہ یا رسول اﷲ!عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان! آپ گردن نہ اٹھائیں،کہیں ایسا نہ ہو کہ دشمنوں کا کوئی تیر آپ کو لگ جائے۔
"یا رسول اﷲ!عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم آپ میری پیٹھ کے پیچھے ہی رہیں میرا سینہ آپ کے لئے ڈھال بنا ہوا ہے۔ (1)(بخاری غزوۂ احد ص۵۸۱)
حضرت قتادہ بن نعمان انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے چہرهٔ انور کو بچانے کے لئے اپنا چہرہ دشمنوں کے سامنے کئے ہوئے تھے۔ناگہاں کافروں کا ایک تیر ان کی آنکھ میں لگا اور آنکھ بہہ کر ان کے رخسار پر آ گئی۔حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے ان کی آنکھ کو اٹھا کرآنکھ کے حلقہ میں رکھ دیااور یوں دعا فرمائی کہ یااﷲ!عزوجل قتادہ کی آنکھ بچا لے جس نے تیرے رسول کے چہرہ کوبچایا ہے۔ مشہور ہے کہ ان کی وہ آنکھ دوسری آنکھ سے زیادہ روشن اورخوبصورت ہوگئی۔(2)
(زُرقانی ج۲ ص۴۲)
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی تیر اندازی میں انتہائی با کمال تھے ۔یہ بھی حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مدافعت میں جلدی جلدی تیر چلا رہے تھے اور حضورانورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم خود اپنے دست مبارک سے تیر اُٹھا اُٹھا کر ان کو دیتے تھے اورفرماتے تھے کہ اے سعد!تیر برساتے جاؤتم پر میرے ماں باپ قربان۔(3)
(بخاری غزوۂ احد ص۵۸۰)
ظالم کفار انتہائی بے دردی کے ساتھ حضور انور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر تیر برسا رہے تھے مگر اس وقت بھی زبان مبارک پر یہ دعا تھی
رَبِّ اغْفِرْ قَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لَایَعْلَمُوْنِ"
رَبِّ اغْفِرْ قَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لَایَعْلَمُوْنِ
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب اذھمت طائفتان...الخ، الحدیث:۴۰۶۴،
ج۳،ص۳۸وشرح الزرقانی علی المواھب، باب غزوۃ احد، ج۲،ص۴۲۴
2۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ و شرح الزرقانی،باب غزوۃ احد، ج۲،ص۴۳۲
3۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب اذھمت...الخ،الحدیث:۴۰۵۵،ج۳،ص۳۷"
"یعنی اے اﷲ!میری قوم کو بخش دے وہ مجھے جانتے نہیں ہیں۔(1)
(مسلم غزوۂ احد ج۲ ص۹۰)
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم دندان مبارک کے صدمہ اور چہرهٔ انور کے زخموں سے نڈھال ہو رہے تھے۔ اس حالت میں آپ ان گڑھوں میں سے ایک گڑھے میں گرپڑے جوابوعامرفاسق نے جابجاکھودکران کوچھپادیاتھاتاکہ مسلمان لاعلمی میں ان گڑھوں کے اندر گرپڑیں۔ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے آپکا دست مبارک پکڑا اور حضرت طلحہ بن عبیداﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے آپ کو اٹھایا۔ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے خَود (لوہے کی ٹوپی) کی کڑی کا ایک حلقہ جو چہرهٔ انور میں چبھ گیا تھا اپنے دانتوں سے پکڑ کر اس زور کے ساتھ کھینچ کر نکالا کہ ان کا ایک دانت ٹوٹ کر زمین پر گر پڑا۔ پھر دوسرا حلقہ جو دانتوں سے پکڑ کر کھینچا تو دوسرا دانت بھی ٹوٹ گیا ۔ چہرهٔ انور سے جو خون بہا اس کو حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے والد حضرت مالک بن سنان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جوش عقیدت سے چوس چوس کر پی لیااورایک قطرہ بھی زمین پر گرنے نہیں دیا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے مالک بن سنان! کیا تو نے میرا خون پی ڈالا۔ عرض کیا کہ جی ہاں یا رسول اﷲ!صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ارشاد فرمایاکہ جس نے میراخون پی لیا جہنم کی کیامجال جواس کوچھوسکے۔(2) (زُرقانی ج۲ ص۳۹)
اس حالت میں رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم اپنے جاں نثاروں کے ساتھ پہاڑ کی بلندی پر چڑھ گئے جہاں کفار کے لئے پہنچنا دشوار تھا۔ ابو سفیان نے دیکھ لیااور"
"1۔۔۔۔۔۔صحیح مسلم، کتاب الجھاد والسیر ، باب غزوۃ احد ،الحدیث: ۱۷۹۲،ص۹۹۰
2۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ و شرح الزرقانی ، باب غزوۃ احد، ج۲،ص۴۲۴،۴۲۶"
"فوج لے کر وہ بھی پہاڑ پر چڑھنے لگالیکن حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور دوسرے جان نثار صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے کافروں پر اس زور سے پتھر برسائے کہ ابو سفیان اس کی تاب نہ لا سکااورپہاڑسے اترگیا۔(1)
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے چند صحابہ کے ساتھ پہاڑ کی ایک گھاٹی میں تشریف فرما تھے اور چہرهٔ انور سے خون بہہ رہا تھا۔ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اپنی ڈھال میں پانی بھر بھر کر لا رہے تھے اور حضرت فاطمہ زہراء رضی اﷲ تعالیٰ عنہا اپنے ہاتھوں سے خون دھو رہی تھیں مگرخون بند نہیں ہوتا تھا بالآخر کھجور کی چٹائی کا ایک ٹکڑا جلایا اور اس کی راکھ زخم پر رکھ دی تو خون فوراً ہی تھم گیا۔(2)(بخاری غزوۂ احد ج۲ ص۵۸۴)"
ابو سفیان جنگ کے میدان سے واپس جانے لگا تو ایک پہاڑی پر چڑھ گیا اور زور زور سے پکارا کہ کیا یہاں محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) ہیں؟ حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ اس کا جواب نہ دو،پھر اس نے پکارا کہ کیا تم میں ابوبکرہیں؟ حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی کچھ جواب نہ دے،پھر اس نے پکارا کہ کیا تم میں عمر ہیں؟ جب اس کا بھی کوئی جواب نہیں ملا تو ابو سفیان گھمنڈ سے کہنے لگا کہ یہ سب مارے گئے کیونکہ اگر زندہ ہوتے تو ضرورمیرا جواب دیتے۔یہ سن کر حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ضبط نہ ہو سکا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چلا کر کہا کہ اے دشمن خدا!تو جھوٹا ہے۔ ہم سب زندہ ہیں۔
"1۔۔۔۔۔۔السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، شان عاصم بن ثابت، ص۳۳۳
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب ۲۶، الحدیث:۴۰۷۵،ج۳،ص۴۳"
"بو سفیان نے اپنی فتح کے گھمنڈ میں یہ نعرہ مارا کہ''اُعْلُ ھُبَلْ'' ''اُعْلُ ھُبَلْ'' یعنی اے ہبل! توسربلند ہو جا۔ اے ہبل !تو سربلند ہو جا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ تم لوگ بھی اس کے جواب میں نعرہ لگاؤ ۔لوگوں نے پوچھا کہ ہم کیا کہیں؟ ارشاد فرمایا کہ تم لوگ یہ نعرہ مارو کہ اَللہُ اَعْلٰی وَاَجَلّ یعنی اﷲ سب سے بڑھ کر بلند مرتبہ اور بڑا ہے۔ ابو سفیان نے کہاکہ لَنَا الْعُزّیٰ وَلَا عُزّیٰ لَکُمْ یعنی ہمارے لئے عزیٰ (بت) ہے اور تمہارے لئے کوئی ''عزیٰ'' نہیں ہے ۔حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ اس کے جواب میں یہ کہو کہ اَللہُ مَوْلَانَا وَلَا مَوْلٰی لَکُمْ یعنی اﷲ ہمارا مددگار ہے اور تمہارا کوئی مددگار نہیں۔
ابو سفیان نے بہ آواز بلند بڑے فخر کے ساتھ یہ اعلان کیا کہ آج کا دن بدر کے دن کا بدلہ اور جواب ہے لڑائی میں کبھی فتح کبھی شکست ہوتی ہے ۔اے مسلمانو! ہماری فوج نے تمہارے مقتولوں کے کان ناک کاٹ کر ان کی صورتیں بگاڑ دی ہیں مگر میں نے نہ تواس کا حکم دیاتھا،نہ مجھے اس پرکوئی رنج وافسوس ہواہے یہ کہہ کرابوسفیان میدان سے ہٹ گیااورچل دیا۔(1)(زرقانی ج۲ص۴۸وبخاری غزوۂ احدج۲ص۵۷۹)"
کفارِ قریش کی عورتوں نے جنگ ِ بدر کا بدلہ لینے کے لئے جوش میں شہداء کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی لاشوں پر جا کر ان کے کان، ناک وغیرہ کاٹ کر صورتیں بگاڑ دیں اورابوسفیان کی بیوی ہند نے تو اس بے دردی کا مظاہرہ کیا کہ ان اعضاء کا ہار بنا کر اپنے گلے میں ڈالا۔ ہند حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی مقدس لاش کو تلاش کرتی پھر رہی
1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ احد، الحدیث: ۴۵۴۳،ج۳،ص۳۴
تھی کیونکہ حضرت حمزہ ہی نے جنگ ِ بدر کے دن ہند کے باپ عتبہ کو قتل کیا تھا ۔جب اس بے درد نے حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی لاش کو پا لیا تو خنجر سے ان کا پیٹ پھاڑ کر کلیجہ نکالااور اس کو چبا گئی لیکن حلق سے نہ اترسکااس لئے اگل دیا تاریخوں میں ہند کا لقب جو ''جگرخوار'' ہے وہ اسی واقعہ کی بنا پر ہے ۔ہند اور اس کے شوہر ابو سفیان نے رمضان ۸ھ میں فتح مکہ کے دن اسلام قبول کیا۔رضی اﷲ تعالیٰ عنہم(1) (زُرقانی ج۲ ص۴۷ وغیرہ)
حضرت زید بن ثابت رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے حکم سے حضرت سعد بن الربیع رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی لاش کی تلاش میں نکلا تومیں نے ان کو سکرات کے عالم میں پایا۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ تم رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم سے میرا سلام عرض کر دینااور اپنی قوم کوبعدسلام میرایہ پیغام سنا دینا کہ جب تک تم میں سے ایک آدمی بھی زندہ ہے اگر رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم تک کفار پہنچ گئے تو خدا کے دربار میں تمہارا کوئی عذر بھی قابل قبول نہ ہو گا۔ یہ کہا اور ان کی روح پرواز کر گئی۔ (2)(زُرقانی ج۲ ص۴۸)
جنگ ِ اُحد میں مردوں کی طرح عورتوں نے بھی بہت ہی مجاہدانہ جذبات کے ساتھ لڑائی میں حصہ لیا۔ حضرت بی بی عائشہ اور حضرت بی بی اُمِ سلیم رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کے بارے میں حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ یہ دونوں پائینچے چڑھائے
"1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، غزوۃ احد، ج۲،ص۴۴۰
ومدارج النبوت، قسم سوم، باب چہارم،ج۲،ص۱۲۰
2۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ و شرح الزرقانی ، باب غزوۃ احد، ج۲،ص۴۴۵"
ہوئے مشک میں پانی بھر بھر کر لاتی تھیں اور مجاہدین خصوصاً زخمیوں کو پانی پلاتی تھیں۔ اسی طرح حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی والدہ حضرت بی بی اُمِ سلیط رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی برابر پانی کی مشک بھر کر لاتی تھیں اور مجاہدین کو پانی پلاتی تھیں۔(1)(بخاری ج۲ باب ذکراُمِ سلیط ص۵۸۲)
"حضرت بی بی ام عمارہ جن کا نام ''نسیبہ'' ہے جنگ ِ اُحد میں اپنے شوہر حضرت زید بن عاصم اور دو فرزند حضرت عمارہ اور حضرت عبداﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کو ساتھ لے کر آئی تھیں۔ پہلے تو یہ مجاہدین کو پانی پلاتی رہیں لیکن جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر کفار کی یلغار کا ہوش ربا منظر دیکھاتو مشک کو پھینک دیا اور ایک خنجر لے کر کفار کے مقابلہ میں سینہ سپر ہو کر کھڑی ہو گئیں اور کفار کے تیروتلوار کے ہر ایک وار کو روکتی رہیں۔ چنانچہ ان کے سر اور گردن پر تیرہ زخم لگے۔ابن قمیئہ ملعون نے جب حضور رسالت مآب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر تلوار چلا دی تو بی بی اُمِ عمارہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے آگے بڑھ کراپنے بدن پر روکا۔ چنانچہ ان کے کندھے پر اتنا گہرا زخم آیا کہ غار پڑ گیاپھر خود بڑھ کر ابن قمیئہ کے شانے پر زور دار تلوار ماری لیکن وہ ملعون دوہری زرہ پہنے ہوئے تھااس لئے بچ گیا۔
حضرت بی بی ام عمارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے فرزند حضرت عبداﷲرضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے ایک کافر نے زخمی کر دیااور میرے زخم سے خون بند نہیں ہوتا تھا۔ میری والدہ حضرت اُمِ عمارہ نے فوراً اپنا کپڑا پھاڑ کر زخم کو باندھ دیااور کہا کہ بیٹا اُٹھو،"
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب اذھمت طائفتان...الخ، الحدیث:۴۰۶۴،
ج۳،ص۳۸وباب ذکرام سلیط،الحدیث:۴۰۷۱،ج۳،ص۴۱"
کھڑے ہو جاؤ اور پھر جہادمیں مشغول ہو جاؤ۔ اتفاق سے وہی کافر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے سامنے آگیا تو آپ نے فرمایا کہ اے ام عمارہ!رضی اﷲ تعالیٰ عنہادیکھ تیرے بیٹے کو زخمی کرنے والا یہی ہے۔ یہ سنتے ہی حضرت بی بی اُمِ عمارہ نے جھپٹ کراس کافر کی ٹانگ پر تلوار کا ایسا بھرپور ہاتھ مارا کہ وہ کافر گر پڑااور پھر چل نہ سکا بلکہ سرین کے بل گھسٹتا ہوا بھاگا۔یہ منظر دیکھ کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہنس پڑے اور فرمایا کہ اے اُمِ عمارہ!رضی اﷲ تعالیٰ عنہاتو خدا کا شکر ادا کر کہ اس نے تجھ کو اتنی طاقت اور ہمت عطا فرمائی کہ تو نے خداکی راہ میں جہاد کیا، حضرت بی بی اُمِ عمارہ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم دعافرمائیے کہ ہم لوگوں کو جنت میں آپ کی خدمت گزاری کا شرف حاصل ہو جائے۔ اس وقت آپ نے ان کے لئے اور ان کے شوہر اور ان کے بیٹوں کے لئے اس طرح دعا فرمائی کہ
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْھُمْ رُفَقَائِیْ فِی الْجَنَّۃِ
"یااﷲ!عزوجل ان سب کو جنت میں میرارفیق بنا دے۔
حضرت بی بی اُم عمارہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا زندگی بھر علانیہ یہ کہتی رہیں کہ رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی اس دعا کے بعد دنیا میں بڑی سے بڑی مصیبت بھی مجھ پر آجائے تو مجھے اس کی کوئی پروا نہیں ہے۔(1) (مدارج ج۲ ص۱۲۶)"
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی پھوپھی حضرت بی بی صفیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا اپنے بھائی حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی لاش پر آئیں تو آپ نے انکے بیٹے حضرت زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ میری پھوپھی اپنے بھائی کی لاش نہ دیکھنے پائیں۔حضرت بی بی
1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت،قسم سوم، باب چہارم، ج۲،ص۱۲۶،۱۲۷
صفیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے کہا کہ مجھے اپنے بھائی کے بارے میں سب کچھ معلوم ہو چکا ہے لیکن میں اس کو خدا کی راہ میں کوئی بڑی قربانی نہیں سمجھتی،پھر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی اجازت سے لاش کے پاس گئیں اوریہ منظر دیکھا کہ پیارے بھائی کے کان، ناک، آنکھ سب کٹے پٹے شکم چاک، جگر چبایا ہوا پڑا ہے، یہ دیکھ کر اس شیر دل خاتون نے اِنَّا ِﷲِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کے سوا کچھ بھی نہ کہاپھر ان کی مغفرت کی دعا مانگتی ہوئی چلی آئیں۔ (1)(طبری ص۱۴۲۱)
ایک انصاری عورت جس کا شوہر، باپ، بھائی سبھی اس جنگ میں شہید ہو چکے تھے تینوں کی شہادت کی خبر باری باری سے لوگوں نے اُسے دی مگر وہ ہر بار یہی پوچھتی رہی یہ بتاؤ کہ رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کیسے ہیں؟ جب لوگوں نے اس کو بتایا کہ الحمدﷲ وہ زندہ اور سلامت ہیں تو بے اختیار اس کی زبان سے اس شعر کا مضمون نکل پڑا کہ ؎
" تسلی ہے پناہ بے کساں زندہ سلامت ہے
کوئی پروا نہیں سارا جہاں زندہ سلامت ہے
اللہ اکبر!اس شیردل عورت کے صبروایثارکاکیاکہنا؟شوہر،باپ،بھائی، تینوں کے قتل سے دل پرصدمات کے تین تین پہاڑگرپڑے ہیں مگرپھربھی زبان حال سے اس کایہی نعرہ ہے کہ ؎
میں بھی اور باپ بھی، شوہر بھی، برادر بھی فدا
اے شہ دیں! ترے ہوتے ہوئے کیا چیز ہیں ہم(2)
(طبری ص۱۴۲۵)"
"1۔۔۔۔۔۔الاکتفا،باب ذکر مغازی الرسول صلی اللہ علیہ وسلم ، ج۱،ص۳۸۶،۳۸۷
2۔۔۔۔۔۔السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، باب غزوۃ احد، ص۳۴۰"
"اس جنگ میں ستر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے جامِ شہادت نوش فرمایا جن میں چار مہاجر اور چھیاسٹھ انصار تھے۔ تیس کی تعداد میں کفار بھی نہایت ذلت کے ساتھ قتل ہوئے۔(1)(مدارج النبوۃ جلد۲ ص۱۳۳)
مگر مسلمانوں کی مفلسی کا یہ عالم تھا کہ ان شہداء کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے کفن کے لئے کپڑا بھی نہیں تھا۔ حضرت مصعب بن عمیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا یہ حال تھا کہ بوقت شہادت ان کے بدن پر صرف ایک اتنی بڑی کملی تھی کہ ان کی لاش کو قبر میں لٹانے کے بعد اگر ان کا سر ڈھانپا جاتا تھا تو پاؤں کھل جاتے تھے اور اگر پاؤں کوچھپایا جاتا تھا تو سر کھل جاتا تھا بالآخر سر چھپا دیا گیا اور پاؤں پر اذخر گھاس ڈال دی گئی۔ شہداء کرام خون میں لتھڑے ہوئے دو دو شہید ایک ایک قبر میں دفن کئے گئے۔ جس کو قرآن زیادہ یاد ہوتا اس کو آگے رکھتے۔(2)
(بخاری باب اذالم یوجدالاثواب واحدج۱ ص۱۷۰وبخاری ج۲ص۵۸۴باب الذین استجابوا)"
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم شہداء اُحد کی قبروں کی زیارت کے لئے تشریف لے جاتے تھے ا ور آپ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق و حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کا بھی یہی عمل رہا۔ ایک مرتبہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم شہداء احد کی قبروں پر تشریف لے
"1۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب،باب غزوۃ احد، ج۲،ص۴۱۹ومدارج النبوت،قسم
سوم، باب چہارم، ج۲،ص۱۳۳
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی ،باب غزوۃ احد، الحدیث: ۴۰۴۷، ج۳، ص۳۵
وباب من قتل من المسلمین...الخ،الحدیث:۴۰۷۹،ج۳،ص۴۴ماخوذاً"
"گئے تو ارشاد فرمایا کہ یااﷲ! تیرا رسول گواہ ہے کہ اس جماعت نے تیری رضا کی طلب میں جان دی ہے، پھر یہ بھی ارشاد فرمایا کہ قیامت تک جو مسلمان بھی ان شہیدوں کی قبروں پر زیارت کے لئے آئے گا اور ان کو سلام کریگا تو یہ شہداء کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اس کے سلام کا جواب دیں گے۔
چنانچہ حضرت فاطمہ خزاعیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ میں ایک دن اُحد کے میدان سے گزر رہی تھی حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی قبر کے پاس پہنچ کر میں نے عرض کیا کہ"
اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَاعَمَّ رَسُوْلِ اللہ
(اے رسول اﷲعزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے چچا !آپ پر سلام ہو) تو میرے کان میں یہ آواز آئی کہ
وَعَلَیْکِ السَّلَامُ وَرَحْمَۃُ اﷲِ وَبَرَکَاتُہٗ
(1) (مدارج النبوۃ ج۲ ص۱۳۵)
چھیالیس برس کے بعد شہداء اُحد کی بعض قبریں کھل گئیں تو ان کے کفن سلامت اور بدن تروتازہ تھے اور تمام اہل مدینہ اور دوسرے لوگوں نے دیکھا کہ شہداء کرام اپنے زخموں پر ہاتھ رکھے ہوئے ہیں اور جب زخم سے ہاتھ اٹھایا تو تازہ خون نکل کر بہنے لگا۔(2)(مدارج النبوۃ ج۲ ص۱۳۵)
یہودیوں میں کعب بن اشرف بہت ہی دولت مند تھا۔ یہودی علماء اور یہود کے مذہبی پیشواؤں کو اپنے خزانہ سے تنخواہ دیتا تھا۔ دولت کے ساتھ شاعری میں بھی بہت با کمال تھا جس کی وجہ سے نہ صرف یہودیوں بلکہ تمام قبائل عرب پر اس کا ایک
"1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب چہارم ،ج۲،ص۱۳۵
2۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب چہارم ،ج۲،ص۱۳۵"
"خاص اثر تھا ۔اس کو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے سخت عداوت تھی۔ جنگ ِ بدر میں مسلمانوں کی فتح اور سرداران قریش کے قتل ہو جانے سے اس کو انتہائی رنج و صدمہ ہوا۔ چنانچہ یہ قریش کی تعزیت کے لئے مکہ گیا اور کفارِ قریش کا جو بدر میں مقتول ہوئے تھے ایسا پردردمرثیہ لکھا کہ جس کو سن کر سامعین کے مجمع میں ماتم برپا ہو جاتا تھا۔ اس مرثیہ کو یہ شخص قریش کو سنا سنا کر خود بھی زار زار روتا تھااور سامعین کو بھی رلاتا تھا ۔مکہ میں ابو سفیان سے ملااور اس کو مسلمانوں سے جنگ ِ بدر کا بدلہ لینے پر ابھارابلکہ ابو سفیان کو لے کر حرم میں آیااور کفار مکہ کے ساتھ خود بھی کعبہ کا غلاف پکڑ کر عہد کیا کہ مسلمانوں سے بدر کا ضرور انتقام لیں گے پھر مکہ سے مدینہ لوٹ کر آیا تو حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ہجو لکھ کر شان اقدس میں طرح طرح کی گستاخیاں اور بے ادبیاں کرنے لگا،اسی پر بس نہیں کیا بلکہ آپ کو چپکے سے قتل کرا دینے کا قصد کیا۔
کعب بن اشرف یہودی کی یہ حرکتیں سراسراس معاہدہ کی خلاف ورزی تھی جو یہود اور انصار کے درمیان ہو چکا تھاکہ مسلمانوں اور کفارِ قریش کی لڑائی میں یہودی غیر جانبدار رہیں گے۔بہت دنوں تک مسلمان برداشت کرتے رہے مگر جب بانیئ اسلام صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس جان کو خطرہ لاحق ہو گیا تو حضرت محمد بن مسلمہ نے حضرت ابونائلہ و حضرت عباد بن بشر و حضرت حارث بن اوس و حضرت ابو عبس رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کو ساتھ لیااور رات میں کعب بن اشرف کے مکان پر گئے اور ربیع الاول ۳ھ کو اس کے قلعہ کے پھاٹک پر اس کو قتل کر دیااور صبح کو بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر اس کا سر تاجدار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈال دیا۔ اس قتل کے سلسلہ میں حضرت حارث بن اوس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تلوار کی نوک سے زخمی ہو گئے تھے۔ محمد بن مسلمہ"
وغیرہ ان کو کندھوں پر اٹھا کر بارگاہ رسالت میں لائے اور آپ نے اپنا لعاب دہن ان کے زخم پر لگا دیا تو اُسی وقت شفاء کامل حاصل ہو گئی۔(1) (زرقانی جلد۲ ص۱۰ و بخاری ج۲ ص۵۷۶ و مسلم ص۱۱۰)
"ربیع الاول ۳ھ میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو یہ اطلاع ملی کہ نجد کے ایک مشہور بہادر ''دعثور بن الحارث محاربی''نے ایک لشکر تیار کر لیا ہے تا کہ مدینہ پر حملہ کرے۔ اس خبر کے بعد آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم چارسوصحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی فوج لے کر مقابلہ کے لئے روانہ ہوگئے۔ جب دعثور کو خبر ملی کہ رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ہمارے دیار میں آ گئے تو وہ بھاگ نکلا اور اپنے لشکر کو لے کر پہاڑوں پر چڑھ گیامگر اس کی فوج کا ایک آدمی جس کا نام ''حبان'' تھا گرفتار ہو گیا اور فوراً ہی کلمہ پڑھ کر اس نے اسلام قبول کر لیا۔
اتفاق سے اس روز زور دار بارش ہو گئی۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ایک درخت کے نیچے لیٹ کر اپنے کپڑے سکھانے لگے۔پہاڑ کی بلندی سے کافروں نے دیکھ لیا کہ آپ بالکل اکیلے اور اپنے اصحاب سے دور بھی ہیں، ایک دم دعثور بجلی کی طرح پہاڑ سے اتر کر ننگی شمشیر ہاتھ میں لئے ہوئے آیااور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے سر مبارک پر تلوار بلند کرکے بولا کہ بتائیے اب کون ہے جو آپ کو مجھ سے بچا لے؟ آپ نے جواب دیا کہ'' میرا اﷲ مجھ کو بچا لے گا۔'' چنانچہ جبریل علیہ السلام دم زدن میں زمین پر اتر پڑے اور دعثور کے سینے میں ایک ایسا گھونسہ مارا کہ تلوار اس کے ہاتھ سے گر پڑی"
1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،قتل کعب بن الاشرف...الخ،ج۲،ص۳۶۸ملخصاً
"اور دعثور عین غین ہو کر رہ گیا۔ رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فوراً تلوار اٹھا لی اور فرمایا کہ بول اب تجھ کومیری تلوار سے کون بچائے گا؟ دعثور نے کانپتے ہوئے بھرائی ہوئی آواز میں کہا کہ''کوئی نہیں۔'' رحمۃ للعالمین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اس کی بے کسی پر رحم آگیااور آپ نے اس کا قصور معاف فرما دیا۔دعثور اس اخلاقِ نبوت سے بے حد متاثرہوااور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیااور اپنی قوم میں آ کر اسلام کی تبلیغ کرنے لگا۔
اس غزوہ میں کوئی لڑائی نہیں ہوئی اورحضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم گیارہ یاپندرہ دن مدینہ سے باہررہ کرپھرمدینہ آگئے۔(1)(زرقانی ج۲ص۱۵وبخاری ج۲ص۵۱۳)
بعض مورخین نے اس تلوار کھینچنے والے واقعہ کو ''غزوهٔ ذات الرقاع'' کے موقع پر بتایا ہے مگر حق یہ ہے کہ تاریخ نبوی میں اس قسم کے دو واقعات ہوئے ہیں۔ ''غزوهٔ غطفان'' کے موقع پر سر انور کے اوپر تلوار اٹھانے والا ''دعثور بن حارث محاربی'' تھاجو مسلمان ہو کر اپنی قوم کے اسلام کا باعث بنااور غزوہ ذات الرقاع میں جس شخص نے حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر تلوار اٹھائی تھی اس کا نام ''غورث'' تھا۔ اس نے اسلام قبول نہیں کیا بلکہ مرتے وقت تک اپنے کفر پر اڑا رہا۔ ہاں البتہ اس نے یہ معاہدہ کر لیا تھا کہ وہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے کبھی جنگ نہیں کریگا۔(2) (زُرقانی ج۲ ص۱۶)"
ہجرت کے تیسرے سال میں مندرجہ ذیل واقعات بھی ظہور پذیر ہوئے۔
"1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،باب غزوۃ غطفان ،ج۲،ص۳۷۸۔۳۸۲ ملخصاً
2۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،باب غزوۃ غطفان ،ج۲،ص۳۸۲ مختصراً"
" (۱)۱۵ رمضان ۳ ھ کو حضرت امام حسن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی ولادت ہوئی۔ (1)
(۲)اسی سال حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت بی بی حفصہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے نکاح فرمایا۔ حضرت حفصہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی ہیں جو غزوهٔ بدر کے زمانہ میں بیوہ ہو گئی تھیں۔ان کے مفصل حالات ازواجِ مطہرات کے ذکر میں آگے تحریر کئے جائیں گے۔
(۳)اسی سال حضرت عثمانِ غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت اُمِ کلثوم رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے نکاح کیا۔(2)
(۴)میراث کے احکام و قوانین بھی اسی سال نازل ہوئے۔ اب تک میراث میں ذوی الارحام کا کوئی حصہ نہ تھا۔ ان کے حقوق کا مفصل بیان نازل ہو گیا۔
(۵)اب تک مشرک عورتوں کا نکاح مسلمانوں سے جائز تھامگر ۳ ھ میں اس کی حرمت نازل ہوگئی اورہمیشہ کے لئے مشرک عورتوں کانکاح مسلمانوں سے حرام کر دیا گیا۔(واﷲ تعالیٰ اعلم)"
ہجرت کا چوتھا سال بھی کفار کے ساتھ چھوٹی بڑی لڑائیوں ہی میں گزرا۔ جنگ ِ بدر کی فتح مبین سے مسلمانوں کا رعب تمام قبائل عرب پر بیٹھ گیا تھااس لئے تمام قبیلے کچھ دنوں کے لئے خاموش بیٹھ گئے تھے لیکن جنگ ِ اُحد میں مسلمانوں کے جانی نقصان کا چرچا ہو جانے سے دوبارہ تمام قبائل دفعۃً اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کے
"1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب سوم ،ج۲،ص۱۱۰
2۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب سوم ،ج۲،ص۱۱۰"
لئے کھڑے ہو گئے اور مجبوراً مسلمانوں کو بھی اپنے دفاع کے لئے لڑائیوں میں حصہ لینا پڑا۔ ۴ ھ کی مشہور لڑائیوں میں سے چند یہ ہیں:
یکم محرم ۴ ھ کو ناگہاں ایک شخص نے مدینہ میں یہ خبر پہنچائی کہ طلیحہ بن خویلد اور سلمہ بن خویلد دونوں بھائی کفار کا لشکر جمع کرکے مدینہ پر چڑھائی کرنے کے لئے نکل پڑے ہیں۔حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس لشکر کے مقابلہ میں حضرت ابو سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو ڈیڑھ سو مجاہدین کے ساتھ روانہ فرمایاجس میں حضرت ابو سبرہ اور حضرت ابو عبیدہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما جیسے معزز مہاجرین و انصار بھی تھے، لیکن کفار کو جب پتہ چلا کہ مسلمانوں کا لشکر آ رہا ہے تو وہ لوگ بہت سے اونٹ اور بکریاں چھوڑ کر بھاگ گئے جن کو مسلمان مجاہدین نے مال غنیمت بنا لیا اور لڑائی کی نوبت ہی نہیں آئی۔(1) (زرقانی ج۲ ص۶۲)
محرم ۴ ھ کو اطلاع ملی کہ ''خالد بن سفیان ہزلی'' مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے فوج جمع کر رہا ہے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کے مقابلہ کے لئے حضرت عبداﷲ بن انیس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو بھیج دیا۔آپ نے موقع پا کر خالد بن سفیان ہزلی کو قتل کر دیا اور اس کا سر کاٹ کر مدینہ لائے اور تاجدارِ دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈال دیا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت عبداﷲ بن انیس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی بہادری اور جان بازی سے خوش ہو کر ان کو اپنا عصا(چھڑی)عطا فرمایااور ارشاد فرمایا کہ تم اسی عصا کو ہاتھ میں لےکر
1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب سریۃ ابی سلمۃ ...الخ ،ج۲،ص۴۷۱ملخصاً
جنت میں چہل قدمی کرو گے۔ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم قیامت کے دن یہ مبارک عصا میرے پاس نشانی کے طور پر رہے گا۔ چنانچہ انتقال کے وقت انہوں نے یہ وصیت فرمائی کہ اس عصا کو میرے کفن میں رکھ دیا جائے۔ (1) (زرقانی ج۲ ص۶۴)
عسفان و مکہ کے درمیان ایک مقام کا نام ''رجیع'' ہے۔ یہاں کی زمین سات مقدس صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے خون سے رنگین ہوئی اس لئے یہ واقعہ ''سریۂ رجیع'' کے نام سے مشہور ہے۔ یہ درد ناک سانحہ بھی ۴ ھ میں پیش آیا۔ اس کا واقعہ یہ ہے کہ قبیلہ عضل وقارہ کے چند آدمی بارگاہ رسالت میں آئے اور عرض کیا کہ ہمارے قبیلہ والوں نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ اب آپ چند صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو وہاں بھیج دیں تا کہ وہ ہماری قوم کو عقائد و اعمال اسلام سکھا دیں۔ ان لوگوں کی درخواست پر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے دس منتخب صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کوحضرت عاصم بن ثابت رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی ماتحتی میں بھیج دیا۔ جب یہ مقدس قافلہ مقام رجیع پر پہنچا تو غدار کفار نے بدعہدی کی اور قبیلۂ بنو لحیان کے کافروں نے دو سو کی تعداد میں جمع ہو کر ان دس مسلمانوں پر حملہ کر دیا مسلمان اپنے بچاؤ کے لئے ایک اونچے ٹیلہ پر چڑھ گئے۔ کافروں نے تیر چلانا شروع کیا اور مسلمانوں نے ٹیلے کی بلندی سے سنگ باری کی۔ کفار نے سمجھ لیا کہ ہم ہتھیاروں سے ان مسلمانوں کو ختم نہیں کر سکتے تو ان لوگوں نے دھوکہ دیا اور کہا کہ اے مسلمانو!ہم تم لوگوں کو امان دیتے ہیں اور اپنی پناہ میں لیتے ہیں اس لئے تم لوگ ٹیلے سے اتر آؤ حضرت
"1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ وشرح الزرقانی ، باب سریۃ ابی سلمۃ...الخ،ج۲،ص۴۷۳ملخصاً
ومدارج النبوت ، قسم سوم ، باب چہارم ،ج۲،ص۱۴۲،۱۴۳"
"عاصم بن ثابت رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں کسی کافر کی پناہ میں آنا گوارا نہیں کر سکتا۔ یہ کہہ کر خدا سے دعا مانگی کہ '' یااﷲ! تو اپنے رسول کو ہمارے حال سے مطلع فرما دے۔'' پھر وہ جوش جہاد میں بھرے ہوئے ٹیلے سے اترے اور کفار سے دست بدست لڑتے ہوئے اپنے چھ ساتھیوں کے ساتھ شہید ہو گئے۔ چونکہ حضرت عاصم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جنگ ِ بدر کے دن بڑے بڑے کفار قریش کو قتل کیا تھااس لئے جب کفار مکہ کو حضرت عاصم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی شہادت کا پتہ چلا تو کفار مکہ نے چند آدمیوں کو مقام رجیع میں بھیجا تا کہ ان کے بدن کا کوئی ایسا حصہ کاٹ کر لائیں جس سے شناخت ہو جائے کہ واقعی حضرت عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ قتل ہو گئے ہیں لیکن جب کفار آپ کی لاش کی تلاش میں اس مقام پر پہنچے تو اس شہید کی یہ کرامت دیکھی کہ لاکھوں کی تعداد میں شہد کی مکھیوں نے ان کی لاش کے پاس اس طرح گھیرا ڈال رکھا ہے جس سے وہاں تک پہنچنا ہی نا ممکن ہوگیا ہے اس لئے کفارِ مکہ ناکام واپس چلے گئے۔ (1)(زرقانی ج۲ ص۷۳ و بخاری ج۲ ص۵۶۹)
باقی تین اشخاص حضرت خبیب و حضرت زید بن دثنہ و حضرت عبداﷲ بن طارق رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کفار کی پناہ پر اعتماد کرکے نیچے اترے تو کفار نے بدعہدی کی اور اپنی کمان کی تانتوں سے ان لوگوں کو باندھنا شروع کر دیا،یہ منظر دیکھ کر حضرت عبداﷲ بن طارق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یہ تم لوگوں کی پہلی بدعہدی ہے اور میرے لئے اپنے ساتھیوں کی طرح شہید ہو جانا بہتر ہے۔ چنانچہ وہ ان کافروں سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔(2)(بخاری ج۲ ص۵۶۸ و زُرقانی ج۲ ص۶۷)"
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی، باب غزوۃ الرجیع...الخ،الحدیث:۴۰۸۶،ج۳،ص۴۶
والمواھب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب بعث الرجیع،ج۲،ص۴۷۷۔۴۸۱ملخصاً وص۴۹۳۔۴۹۵
ومدارج النبوت ، قسم سوم،باب چہارم ،ج۲،ص۱۳۸ ملتقطاً
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی، باب غزوۃ الرجیع...الخ، الحدیث:۴۰۸۶،ج۳،ص۴۶
والمواھب اللدنیۃ و شرح الزرقانی ، باب بعث الرجیع ،ج۲،ص۴۸۱"
لیکن حضرت خبیب اور حضرت زید بن دثنہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کو کافروں نے باندھ دیا تھا اس لئے یہ دونوں مجبور ہو گئے تھے۔ ان دونوں کو کفار نے مکہ میں لے جا کر بیچ ڈالا۔ حضرت خبیب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جنگ ِ اُحد میں حارث بن عامر کو قتل کیا تھا اس لئے اس کے لڑکوں نے ان کو خرید لیاتاکہ ان کو قتل کرکے باپ کے خون کا بدلہ لیا جائے اور حضرت زید بن دثنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اُمیہ کے بیٹے صفوان نے قتل کرنے کے ارادہ سے خریدا۔ حضرت خبیب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو کافروں نے چند دن قید میں رکھاپھر حدود ِحرم کے باہر لے جا کر سولی پر چڑھا کر قتل کر دیا۔ حضرت خبیبرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قاتلوں سے دو رکعت نماز پڑھنے کی اجازت طلب کی،قاتلوں نے اجازت دے دی۔ آپ نے بہت مختصر طور پر دو رکعت نماز ادا فرمائی اور فرمایا کہ اے گروہ کفار! میرا دل تو یہی چاہتا تھا کہ دیر تک نماز پڑھتا رہوں کیونکہ یہ میری زندگی کی آخری نماز تھی مگر مجھ کو یہ خیال آ گیا کہ کہیں تم لوگ یہ نہ سمجھ لو کہ میں موت سے ڈر رہا ہوں۔ کفار نے آپ کو سولی پر چڑھا دیا اس وقت آپ نے یہ اشعار پڑھے ؎
" فَلَسْتُ اُبَالِیْ حِیْنَ اُقْتَلُ مُسْلِمًا
عَلٰی اَیِّ شِقٍّ کَانَ ﷲ مَصْرَعی"
جب میں مسلمان ہوکر قتل کیا جا رہا ہوں تو مجھے کوئی پروا نہیں ہے کہ میں کس پہلو پر قتل کیا جاؤں گا۔
"وَذَالِکَ فِیْ ذَاتِ الْاِ لٰہِ وَاِنْ یَّشَأْ
یُبَارِکْ عَلٰی اَوْصَالِ شِلْوٍ مُّمَزَّعٖ"
"یہ سب کچھ خدا کے لئے ہے اگر وہ چاہے گاتو میرے کٹے پٹے جسم کے ٹکڑوں پر برکت نازل فرمائے گا۔
حارث بن عامر کے لڑکے ''ابو سروعہ'' نے آپ کو قتل کیامگر خدا کی شان کہ یہی ابو سروعہ اور ان کے دونوں بھائی ''عقبہ'' اور''حجیر'' پھر بعد میں مشرف بہ اسلام ہوکر صحابیت کے شرف و اعزاز سے سرفراز ہو گئے۔(1)
(بخاری ج۲ ص۵۶۹ و زُرقانی ج۲ ص۶۴ تا ۷۸)"
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اﷲ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ حضرت خبیب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی شہادت سے مطلع فرمایا۔ آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے فرمایا کہ جو شخص خبیب کی لاش کو سولی سے اتار لائے اس کے لئے جنت ہے۔ یہ بشارت سن کر حضرت زبیر بن العوام و حضرت مقداد بن الاسود رضی اﷲ تعالیٰ عنہما راتوں کو سفر کرتے اور دن کو چھپتے ہوئے مقام''تنعیم'' میں حضرت خبیب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی سولی کے پاس پہنچے۔ چالیس کفار سولی کے پہرہ دار بن کر سو رہے تھے ان دونوں حضرات نے سولی سے لاش کو اُتارا اور گھوڑے پر رکھ کر چل دئیے۔چالیس دن گزر جانے کے باوجود لاش تروتازہ تھی اور زخموں سے تازہ خون ٹپک رہا تھا۔ صبح کو قریش کے ستر سوار تیز رفتار گھوڑوں پر تعاقب میں چل پڑے اور ان دونوں حضرات کے پاس پہنچ گئے،ان حضرات نے جب دیکھا کہ قریش کے سوار ہم کو گرفتار کر لیں گے تو انہوں نے حضرت خبیب
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی، باب غزوۃ الرجیع...الخ،الحدیث:۴۰۸۶،ج۳،ص۴۶
والمواھب اللدنیۃ وشرح الزرقانی، باب بعث الرجیع ،ج۲،ص۴۸۲۔۴۸۷،۴۸۹ملخصاً"
"رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی لاش مبارک کو گھوڑے سے اتار کر زمین پر رکھ دیا۔ خدا کی شان کہ ایک دم زمین پھٹ گئی اورلاش مبارک کو نگل گئی اور پھر زمین اس طرح برابر ہو گئی کہ پھٹنے کا نشان بھی باقی نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت خبیب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا لقب ''بلیع الارض''(جن کو زمین نگل گئی) ہے۔
اس کے بعد ان حضرات رضی اللہ تعالیٰ عنہمانے کفار سے کہا کہ ہم دو شیر ہیں جو اپنے جنگل میں جا رہے ہیں اگر تم لوگوں سے ہو سکے تو ہمارا راستہ روک کر دیکھو ورنہ اپنا راستہ لو۔ کفار نے ان حضرات کے پاس لاش نہیں دیکھی اس لئے مکہ واپس چلے گئے۔ جب دونوں صحابہ کرام نے بارگاہ رسالت میں سارا ماجرا عرض کیا تو حضرت جبریل علیہ السلام بھی حاضر دربار تھے۔ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم آپ کے ان دونوں یاروں کے اس کارنامہ پر ہم فرشتوں کی جماعت کو بھی فخر ہے۔(1)
(مدارج النبوۃ جلد۲ ص۱۴۱)"
حضرت زید بن دثنہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے قتل کا تماشہ دیکھنے کے لئے کفار قریش کثیر تعداد میں جمع ہو گئے جن میں ابو سفیان بھی تھے۔ جب ان کو سولی پر چڑھا کر قاتل نے تلوار ہاتھ میں لی تو ابو سفیان نے کہا کہ کیوں؟ اے زید! سچ کہنا،اگر اس وقت تمہاری جگہ محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) اس طرح قتل کئے جاتے توکیا تم اس کو پسند کرتے؟ حضرت زید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ابو سفیان کی اس طعنہ زنی کو سن کر تڑپ گئے اور جذبات سے بھری ہوئی آواز میں فرمایا کہ اے ابو سفیان! خدا کی قسم! میں اپنی جان کو قربان کر دینا
1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب چہارم ،ج۲،ص۱۴۱
"عزیز سمجھتا ہوں مگر میرے پیارے رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے مقدس پاؤں کے تلوے میں ایک کانٹا بھی چبھ جائے۔ مجھے کبھی بھی یہ گوارا نہیں ہو سکتا۔ ؎
مجھے ہو ناز قسمت پر اگر نام محمد(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) پر
یہ سر کٹ جائے اور تیرا کف پا اس کو ٹھکرائے
یہ سب کچھ ہے گوارا پر یہ مجھ سے ہو نہیں سکتا
کہ انکے پاؤں کے تلوے میں اک کانٹا بھی چبھ جائے
یہ سن کر ابو سفیان نے کہا کہ میں نے بڑے بڑے محبت کرنے والوں کو دیکھا ہے۔ مگر محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے عاشقوں کی مثال نہیں مل سکتی۔ صفوان کے غلام ''نسطاس'' نے تلوار سے ان کی گردن ماری۔(1)(زرقانی ج۲ ص۷۳)"
ماہ صفر ۴ ھ میں ''بیرمعونہ'' کا مشہور واقعہ پیش آیا۔ ابو براء عامر بن مالک جو اپنی بہادری کی وجہ سے ''ملاعب الاسنہ'' (برچھیوں سے کھیلنے والا) کہلاتا تھا،بارگاہ رسالت میں آیا،حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کو اسلام کی دعوت دی،اس نے نہ تو اسلام قبول کیا نہ اس سے کوئی نفرت ظاہر کی بلکہ یہ درخواست کی کہ آپ اپنے چند منتخب صحابہ کو ہمارے دیار میں بھیج دیجئے مجھے امید ہے کہ وہ لوگ اسلام کی دعوت قبول کر لیں گے۔ آ پ نے فرمایا کہ مجھے نجد کے کفار کی طرف سے خطرہ ہے۔ ابو براء نے کہا کہ میں آپ کے اصحاب کی جان و مال کی حفاظت کا ضامن ہوں۔(2)
"1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب بعث الرجیع ،ج۲،ص۴۹۲۔۴۹۳
2۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب بئرمعونۃ،ج۲،ص۴۹۶ومدارج النبوت،قسم سوم، باب چہارم،ج۲،ص۱۴۳والکامل فی التاریخ،السنۃ الرابعۃ من الہجرۃ،ذکربئرمعونۃ،ج۲،ص۶۳"
"اس کے بعد حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے صحابہ میں سے ستر منتخب صالحین کو جو ''قراء'' کہلاتے تھے بھیج دیا۔یہ حضرات جب مقام ''بیرمعونہ'' پر پہنچے تو ٹھہر گئے اور صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کے قافلہ سالار حضرت حرام بن ملحان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا خط لے کر عامر بن طفیل کے پاس اکیلے تشریف لے گئے جو قبیلہ کارئیس اور ابوبراء کا بھتیجا تھا۔ اس نے خط کو پڑھا بھی نہیں اور ایک شخص کو اشارہ کر دیا جس نے پیچھے سے حضرت حرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو نیزہ مار کر شہید کر دیا اور آس پاس کے قبائل یعنی رعل وذکوان اور عصیہ و بنو لحیان وغیرہ کو جمع کرکے ایک لشکر تیارکر لیااور صحابہ کرام پر حملہ کے لئے روانہ ہو گیا۔ حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم بیرمعونہ کے پاس بہت دیر تک حضرت حرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی واپسی کا انتظار کرتے رہے مگر جب بہت زیادہ دیر ہو گئی تو یہ لوگ آگے بڑھے راستہ میں عامر بن طفیل کی فوج کا سامنا ہوا اور جنگ شروع ہو گئی کفار نے حضرت عمر و بن امیہ ضمری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے سوا تمام صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کوشہید کر دیا،انہی شہداء کرام میں حضرت عامر بن فہیرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی تھے۔ جن کے بارے میں عامر بن طفیل کا بیان ہے کہ قتل ہونے کے بعد ان کی لاش بلند ہو کر آسمان تک پہنچی پھر زمین پر آ گئی،اس کے بعد ان کی لاش تلاش کرنے پربھی نہیں ملی کیونکہ فرشتوں نے انہیں دفن کر دیا۔(1)(بخاری ج۲ ص۵۸۷ باب غزوۃ الرجیع)
حضرت عمرو بن اُمیہ ضمری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو عامر بن طفیل نے یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ میری ماں نے ایک غلام آزاد کرنے کی منت مانی تھی اس لئے میں تم کو آزاد کرتا"
1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،باب بئرمعونۃ،ج۲،ص۴۹۸۔۵۰۲ملخصاً وصحیح البخاری ،کتاب المغازی،باب غزوۃ الرجیع ،الحدیث: ۴۰۹۱،ج۳،ص۴۸
ہوں یہ کہا اور ان کی چوٹی کا بال کاٹ کر ان کو چھوڑ دیا۔(1) حضرت عمرو بن امیہ ضمری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ وہاں سے چل کر جب مقامِ''قرقرہ'' میں آئے تو ایک درخت کے سائے میں ٹھہرے وہیں قبیلۂ بنو کلاب کے دوآدمی بھی ٹھہرے ہوئے تھے۔ جب وہ دونوں سو گئے تو حضرت عامر بن اُمیہ ضمری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ان دونوں کافروں کو قتل کر دیااور یہ سوچ کر دل میں خوش ہو رہے تھے کہ میں نے صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے خون کا بدلہ لے لیا ہے مگر ان دونوں شخصوں کو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم امان دے چکے تھے جس کا حضرت عمرو بن امیہ ضمری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو علم نہ تھا۔(2)جب مدینہ پہنچ کر انہوں نے سارا حال دربار رسالت میں بیان کیاتو اصحاب بیرمعونہ کی شہادت کی خبر سن کر سرکار رسالت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اتنا عظیم صدمہ پہنچا کہ تمام عمر شریف میں کبھی بھی اتنا رنج و صدمہ نہیں پہنچا تھا۔ چنانچہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مہینہ بھر تک قبائل رعل و ذکوان اور عصیہ و بنو لحیان پر نماز فجر میں لعنت بھیجتے رہے اور حضرت عمرو بن امیہ ضمری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جن دو شخصوں کو قتل کر دیا تھا حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان دونوں کے خون بہا ادا کرنے کا اعلان فرمایا۔(3)(بخاری ج۱ ص۱۳۶ و زُرقانی ج۲ ص۷۴ تا ۷۸)
حضرت عمرو بن امیہ ضمری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے قبیلۂ بنو کلاب کے جن دو شخصوں کو قتل کر دیا تھا اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان دونوں کا خون بہا ادا کرنے کا اعلان فرما دیا
"1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، باب بئر معونۃ ،ج۲،ص۵۰۱
2۔۔۔۔۔۔کتاب المغازی للواقدی ، باب غزوۃ بنی النضیر،ج۱،ص۳۶۳
والسیرۃ النبویۃ لابن ھشام،حدیث بئر معونۃ ، ص۳۷۶
3۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، باب بئر معونۃ ، ج۲،ص۵۰۳،۵۰۸"
تھااسی معاملہ کے متعلق گفتگو کرنے کے لئے حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم قبیلۂ بنو نضیر کے یہودیوں کے پاس تشریف لے گئے کیونکہ ان یہودیوں سے آپ کا معاہدہ تھا مگر یہودی در حقیقت بہت ہی بدباطن ذہنیت والی قوم ہیں معاہدہ کرلینے کے باوجود ان خبیثوں کے دلوں میں پیغمبر اسلام صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی دشمنی اور عناد کی آگ بھری ہوئی تھی۔ ہر چند حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ان بدباطنوں سے اہل کتاب ہونے کی بنا پر اچھا سلوک فرماتے تھے مگر یہ لوگ ہمیشہ اسلام کی بیخ کنی اور بانیئ اسلام کی دشمنی میں مصروف رہے۔ مسلمانوں سے بغض و عناد اور کفار و منافقین سے ساز باز اور اتحاد یہی ہمیشہ ان غداروں کا طرزِ عمل رہا۔ چنانچہ اس موقع پرجب رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ان یہودیوں کے پاس تشریف لے گئے تو ان لوگوں نے بظاہر تو بڑے اخلاق کا مظاہرہ کیامگر اندرونی طور پر بڑی ہی خوفناک سازش اور انتہائی خطرناک اسکیم کا منصوبہ بنا لیا۔(1) حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت ابوبکر و حضرت عمرو حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہم بھی تھے یہودیوں نے ان سب حضرات کو ایک دیوار کے نیچے بڑے احترام کے ساتھ بٹھایااور آپس میں یہ مشورہ کیا کہ چھت پر سے ایک بہت ہی بڑا اور وزنی پتھر ان حضرات پر گرا دیں تا کہ یہ سب لوگ دب کر ہلاک ہوجائیں۔ چنانچہ عمرو بن جحاش اس مقصد کے لئے چھت کے اوپر چڑھ گیا،محافظ ِحقیقی پر وردگار عالم عزوجل نے اپنے حبیب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو یہودیوں کی اس ناپاک سازش سے بذریعہ وحی مطلع فرما دیااس لئے فوراً ہی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم وہاں سے اٹھ کر چپ چاپ اپنے ہمراہیوں کے ساتھ چلے آئے اور مدینہ تشریف لا کر صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کو یہودیوں کی اس سازش سے آگاہ فرمایااور انصار ومہاجرین
1۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب، حدیث بنی النضیر، ج۲،ص۵۰۸ ملخصاً
"سے مشورہ کے بعد ان یہودیوں کے پاس قاصد بھیج دیا(1) کہ چونکہ تم لوگوں نے اپنی اس دسیسہ کاری اور قاتلانہ سازش سے معاہدہ توڑ دیااس لئے اب تم لوگوں کو دس دن کی مہلت دی جاتی ہے کہ تم اس مدت میں مدینہ سے نکل جاؤ،اس کے بعد جو شخص بھی تم میں کایہاں پایا جائے گا قتل کر دیا جائے گا۔ شہنشاہ مدینہ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا یہ فرمان سن کر بنو نضیر کے یہودی جلا وطن ہونے کے لئے تیار ہو گئے تھے مگر منافقوں کا سردار عبداﷲ ابن ابی ان یہودیوں کا حامی بن گیا اور اس نے کہلا بھیجا کہ تم لوگ ہر گز ہر گز مدینہ سے نہ نکلو ہم دو ہزار آدمیوں سے تمہاری مدد کرنے کوتیارہیں اس کے علاوہ بنو قریظہ اور بنو غطفان یہودیوں کے دو طاقتور قبیلے بھی تمہاری مدد کریں گے۔ بنو نضیر کے یہودیوں کو جب اتنا بڑاسہارامل گیاتووہ شیرہوگئے اورانہوں نے حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس کہلا بھیجا کہ ہم مدینہ چھوڑکرنہیں جا سکتے آپ کے جودل میں آئے کرلیجیے۔(2)
(مدارج جلد۲ ص۱۴۷)
یہودیوں کے اس جواب کے بعد حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کی امامت حضرت ابن اُمِ مکتوم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے سپرد فرما کر خود بنو نضیر کا قصد فرمایا اور ان یہودیوں کے قلعہ کا محاصرہ کر لیایہ محاصرہ پندرہ دن تک قائم رہاقلعہ میں باہر سے ہر قسم کے سامانوں کا آنا جانا بند ہو گیااور یہودی بالکل ہی محصور و مجبور ہو کر رہ گئے مگر اس موقع پر نہ تو منافقوں کا سردار عبداﷲ بن ابی یہودیوں کی مدد کے لئے آیا نہ بنو قریظہ اور بنو غطفان نے کوئی مدد کی۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے ان دغا بازوں کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ"
"1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب چہارم ،ج۲،ص۱۴۶،۱۴۷ملتقطاً
2۔۔۔۔۔۔ شرح الزرقانی علی المواھب،حدیث بنی النضیر، ج۲،ص۱۴۷"
کَمَثَلِ الشَّیۡطٰنِ اِذْ قَالَ لِلْاِنۡسَانِ اکْفُرْ ۚ فَلَمَّا کَفَرَ قَالَ اِنِّیۡ بَرِیۡٓءٌ مِّنۡکَ اِنِّیۡۤ اَخَافُ اللہَ رَبَّ الْعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۶﴾ (1)
"ان لوگوں کی مثال شیطان جیسی ہے جب اس نے آدمی سے کہا کہ تو کفر کر پھر جب اس نے کفر کیا تو بولا کہ میں تجھ سے الگ ہوں میں اﷲ سے ڈرتا ہوں جو سارے جہان کا پالنے والا ہے۔(سورۂ حشر)
یعنی جس طرح شیطان آدمی کو کفر پر ابھارتا ہے لیکن جب آدمی شیطان کے ورغلانے سے کفر میں مبتلا ہو جاتا ہے تو شیطان چپکے سے کھسک کر پیچھے ہٹ جاتا ہے اسی طرح منافقوں نے بنو نضیر کے یہودیوں کو شہ دے کر دلیربنا دیااور اﷲ کے حبیب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے لڑادیالیکن جب بنونضیرکے یہودیوں کو جنگ کا سامنا ہوا تو منافق چھپ کر اپنے گھروں میں بیٹھ رہے۔
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے قلعہ کے محاصرہ کے ساتھ قلعہ کے آس پاس کھجوروں کے کچھ درختوں کو بھی کٹوا دیاکیونکہ ممکن تھا کہ درختوں کے جھنڈ میں یہودی چھپ کر اسلامی لشکر پر چھاپا مارتے اور جنگ میں مسلمانوں کو دشواری ہو جاتی۔ ان درختوں کو کاٹنے کے بارے میں مسلمانوں کے دو گروہ ہو گئے،کچھ لوگوں کا یہ خیال تھا کہ یہ درخت نہ کاٹے جائیں کیونکہ فتح کے بعدیہ سب درخت مالِ غنیمت بن جائیں گے اور مسلمان ان سے نفع اٹھائیں گے اور کچھ لوگوں کا یہ کہنا تھا کہ درختوں کے جھنڈکو کاٹ کر صاف کر دینے سے یہودیوں کی کمین گاہوں کو برباد کرنا اور ان کو نقصان پہنچا کر غیظ و غضب میں ڈالنا مقصود ہے،لہٰذا ان درختوں کو کاٹ دینا ہی بہتر ہے اس موقع پر سورهٔ حشر کی یہ آیت اتری:"
1۔۔۔۔۔۔پ۲۸، الحشر:۱۶
مَا قَطَعْتُمۡ مِّنۡ لِّیۡنَۃٍ اَوْ تَرَکْتُمُوۡہَا قَآئِمَۃً عَلٰۤی اُصُوۡلِہَا فَبِاِذْنِ اللہِ وَ لِیُخْزِیَ الْفٰسِقِیۡنَ ﴿۵﴾ (1)
"جو درخت تم نے کاٹے یا جن کو انکی جڑوں پر قائم چھوڑ دیے یہ سب اﷲ کے حکم سے تھاتاکہ خدا فاسقوں کو رسوا کرے
مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں میں جو درخت کاٹنے والے ہیں ان کا عمل بھی درست ہے اور جو کاٹنا نہیں چاہتے وہ بھی ٹھیک کہتے ہیں کیونکہ کچھ درختوں کو کاٹنا اور کچھ کو چھوڑ دینا یہ دونوں اﷲ تعالیٰ کے حکم اور اس کی اجازت سے ہیں۔(2)
بہر حال آخر کار محاصرہ سے تنگ آ کر بنو نضیر کے یہودی اس بات پر تیار ہوگئے کہ وہ اپنا اپنا مکان اور قلعہ چھوڑ کر اس شرط پر مدینہ سے باہر چلے جائیں گے کہ جس قدر مال و اسباب وہ اونٹوں پر لے جا سکیں لے جائیں،حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہودیوں کی اس شرط کو منظور فرما لیااور بنو نضیر کے سب یہودی چھ سو اونٹوں پر اپنا مال و سامان لاد کر ایک جلوس کی شکل میں گاتے بجاتے ہوئے مدینہ سے نکلے کچھ تو ''خیبر'' چلے گئے اور زیادہ تعداد میں ملک شام جا کر ''اذرعات'' اور ''اریحاء'' میں آباد ہو گئے۔
ان لوگوں کے چلے جانے کے بعد ان کے گھروں کی مسلمانوں نے جب تلاشی لی تو پچاس لوہے کی ٹوپیاں،پچاس زرہیں، تین سو چالیس تلواریں نکلیں جو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے قبضہ میں آئیں۔ (3)(زرقانی ج۲ ص۷۹ تا ۸۵)
اﷲ تعالیٰ نے بنو نضیر کے یہودیوں کی اس جلا وطنی کا ذکر قرآن مجید کی سورهٔ حشر میں اس طرح فرمایا کہ"
"1۔۔۔۔۔۔پ۲۸، الحشر:۵
2۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ و شرح الزرقانی،حدیث بنی النضیر، ج۲،ص۵۱۶،۵۱۷
3۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ و شرح الزرقانی،حدیث بنی النضیر، ج۲،ص۵۱۷،۵۱۸"
ہُوَ الَّذِیۡۤ اَخْرَجَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنْ اَہۡلِ الْکِتٰبِ مِنۡ دِیَارِہِمْ لِاَوَّلِ الْحَشْرِ ؕؔ مَا ظَنَنۡتُمْ اَنۡ یَّخْرُجُوۡا وَ ظَنُّوۡۤا اَنَّہُمۡ مَّانِعَتُہُمْ حُصُوۡنُہُمۡ مِّنَ اللہِ فَاَتٰىہُمُ اللہُ مِنْ حَیۡثُ لَمْ یَحْتَسِبُوۡا ٭ وَ قَذَفَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمُ الرُّعْبَ یُخْرِبُوۡنَ بُیُوۡتَہُمۡ بِاَیۡدِیۡہِمْ وَ اَیۡدِی الْمُؤْمِنِیۡنَ ٭ فَاعْتَبِرُوۡا یٰۤاُولِی الْاَبْصَارِ ﴿۲﴾ (1)
اﷲ وہی ہے جس نے کافر کتابیوں کو ان کے گھروں سے نکالا ان کے پہلے حشر کیلئے (اے مسلمانو!) تمہیں یہ گمان نہ تھا کہ وہ نکلیں گے اور وہ سمجھتے تھے کہ انکے قلعے انہیں اﷲ سے بچا لیں گے تو اﷲ کا حکم ان کے پاس آ گیا جہاں سے ان کو گمان بھی نہ تھا اور اس نے ان کے دلوں میں خوف ڈال دیا کہ وہ اپنے گھروں کو خود اپنے ہاتھوں سے اور مسلمانوں کے ہاتھوں سے ویران کرتے ہیں تو عبرت پکڑو اے نگاہ والو!(حشر)
جنگ ِ اُحد سے لوٹتے وقت ابو سفیان نے کہا تھا کہ آئندہ سال بدر میں ہمارا تمہارا مقابلہ ہو گا۔ چنانچہ شعبان یا ذوالقعدہ ۴ ھ میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مدینہ کے نظم و نسق کا انتظام حضرت عبداﷲ بن رواحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے سپرد فرما کر لشکر کے ساتھ بدر میں تشریف لے گئے۔ آٹھ روز تک کفار کا انتظار کیا ادھر ابو سفیان بھی فوج کے ساتھ چلا،ایک منزل چلا تھا کہ اس نے اپنے لشکر سے یہ کہا کہ یہ سال جنگ کے لئے مناسب نہیں ہے ۔کیونکہ اتنا زبردست قحط پڑا ہوا ہے کہ نہ آدمیوں کے لئے دانہ پانی ہے نہ جانوروں کے لئے گھاس چارا،یہ کہہ کر ابو سفیان مکہ واپس چلا گیا، مسلمانوں کے پاس
1۔۔۔۔۔۔پ۲۸، الحشر:۲
کچھ مال تجارت بھی ساتھ تھاجب جنگ نہیں ہوئی تو مسلمانوں نے تجارت کرکے خوب نفع کمایااورمدینہ واپس چلے آئے۔ (1)(مدارج جلد۲ ص۱۵۱ وغیرہ)
(۱)اسی سال غزوۂ بنو نضیر کے بعد جب انصار نے کہا کہ یا رسول اﷲ!صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بنو نضیر کے جو اموال غنیمت میں ملے ہیں وہ سب آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہمارے مہاجر بھائیوں کو دے دیجیے ہم اس میں سے کسی چیز کے طلب گار نہیں ہیں تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خوش ہو کر یہ دعا فرمائی کہ
اَللّٰھُمَّ ارْحَمِ الْاَنْصَارَ وَاَبْنَآءَ الْاَنْصَارِ وَاَبْنَآءَ اَبْنَآءِ الْاَنْصَارِ۔
"اے اﷲ! عزوجل انصارپر،اورانصارکے بیٹوں پراورانصارکے بیٹوں کے بیٹوں پررحم فرما۔(2)
(مدارج جلد۲ ص۱۴۸)
(۲)اسی سال حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے نواسے حضرت عبداﷲ بن عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کی آنکھ میں ایک مرغ نے چونچ مار دی جس کے صدمے سے وہ دورات تڑپ کر وفات پا گئے۔(3)(مدارج جلد ۲ ص۱۵۰)
(۳)اسی سال حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی زوجۂ مطہرہ حضرت بی بی زینب بنت خزیمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی وفات ہوئی۔(4)(مدارج جلد ۲ ص۱۵۰)"
" 1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت،قسم سوم،باب چہارم،ج۲،ص۱۵۱ملتقطاً وملخصاً
والمواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، باب غزوۃ بدرالاخیرۃ...الخ،ج۲،ص۵۳۵
2۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب چہارم ،ج۲،ص۱۴۹
3۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب چہارم ،ج۲،ص۱۴۹،۱۵۰
4۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب چہارم ،ج۲،ص۱۴۹،۱۵۰"
"(۴)اسی سال حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت ام المؤمنین بی بی اُمِ سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے نکاح فرمایا۔ (1)(مدارج جلد۲ ص۱۵۰)
(۵)اسی سال حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی والدہ ماجدہ حضرت بی بی فاطمہ بنت اسد رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے وفات پائی،حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنا مقدس پیراہن ان کے کفن کیلئے عطا فرمایااور ان کی قبر میں اتر کر ان کی میت کو اپنے دست مبارک سے قبر میں اتارا اور فرمایا کہ فاطمہ بنت اسد کے سوا کوئی شخص بھی قبر کے دبوچنے سے نہیں بچا ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ صرف پانچ ہی میت ایسی خوش نصیب ہوئی ہیں جن کی قبر میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم خود اترے:اوّل: حضرت بی بی خدیجہ، دوم:حضرت بی بی خدیجہ کا ایک لڑکا،سوم: عبداﷲ مزنی جن کا لقب ذوالبجادین ہے، چہارم:حضرت بی بی عائشہ کی ماں حضرت اُمِ رومان،پنجم: حضرت فاطمہ بنت اسد حضرت علی کی والدہ۔(رضی اﷲ تعالیٰ عنہم اجمعین)(2)(مدارج جلد۲ ص۱۵۰)
(۶)اسی سال ۴ شعبان ۴ ھ کو حضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی پیدائش ہوئی۔ (3)
(مدارج جلد ۲ ص۱۵۱)
(۷)اسی سال ایک یہودی نے ایک یہودی کی عورت کے ساتھ زناکیااوریہودیوں نے یہ مقدمہ بارگاہ نبوت میں پیش کیاتوآپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے تورات وقرآن دونوں کتابوں کے فرمان سے اس کوسنگسارکرنے کافیصلہ فرمایا۔(4)(مدارج جلد۲ ص۱۵۲)"
"1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب چہارم ،ج۲،ص۱۴۹،۱۵۰
2۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب چہارم ،ج۲،ص۱۵۰،۱۵۱
3۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب چہارم ،ج۲،ص۱۵۱
4۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب چہارم ،ج۲،ص۱۵۲"
"(۸)اسی سال طعمہ بن ابیرق نے جو مسلمان تھا چوری کی تو حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے قرآن کے حکم سے اس کاہاتھ کاٹنے کا حکم فرمایا،اس پروہ بھاگ نکلا اور مکہ چلا گیا۔ وہاں بھی اس نے چوری کی اہل مکہ نے اس کوقتل کرڈالایااس پر دیوار گر پڑی اور مر گیا یا دریامیں پھینک دیاگیا۔ایک قول یہ بھی ہے کہ وہ مرتدہوگیاتھا۔(1)(مدارج جلد۲ ص۱۵۳)
(۹)بعض مؤرخین کے نزدیک شراب کی حرمت کا حکم بھی اسی سال نازل ہوااور بعض کے نزدیک ۶ھ میں اور بعض نے کہا کہ ۸ ھ میں شراب حرام کی گئی۔(2) (مدارج جلد ۲ ص۱۵۳)"
جنگ ِ اُحد میں مسلمانوں کے جانی نقصان کا چرچا ہو جانے اور کفار قریش اور یہودیوں کی مشترکہ سازشوں سے تمام قبائل کفار کا حوصلہ اتنا بلند ہو گیا کہ سب کو مدینہ پر حملہ کرنے کا جنون ہو گیا۔ چنانچہ ۵ ھ بھی کفر و اسلام کے بہت سے معرکوں کو اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے۔ ہم یہاں چند مشہور غزوات و سرایا کا ذکر کرتے ہیں۔
سب سے پہلے قبائل ''انمار و ثعلبہ'' نے مدینہ پر چڑھائی کرنے کا ارادہ کیا جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اِس کی اطلاع ملی توآپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے چارسوصحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کالشکراپنے ساتھ لیا اور ۱۰محرم ۵ھ کو مدینہ سے روانہ ہو کر مقامِ
"1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب چہارم ،ج۲،ص۱۵۲،۱۵۳
2۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب چہارم ،ج۲،ص۱۵۳"
"''ذات الرقاع'' تک تشریف لے گئے لیکن آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی آمد کا حال سن کر یہ کفار پہاڑوں میں بھاگ کر چھپ گئے اس لئے کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ مشرکین کی چند عورتیں ملیں جن کو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے گرفتارکرلیا۔اس وقت مسلمان بہت ہی مفلس اور تنگ دستی کی حالت میں تھے۔ چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ سواریوں کی اتنی کمی تھی کہ چھ چھ آدمیوں کی سواری کے لئے ایک ایک اونٹ تھا جس پر ہم لوگ باری باری سوار ہو کر سفر کرتے تھے پہاڑی زمین میں پیدل چلنے سے ہمارے قدم زخمی اور پاؤں کے ناخن جھڑ گئے تھے اس لئے ہم لوگوں نے اپنے پاؤں پر کپڑوں کے چیتھڑے لپیٹ لئے تھے یہی وجہ ہے کہ اس غزوہ کا نام ''غزوہ ذات الرقاع'' (پیوندوں والا غزوہ) ہو گیا۔(1) (بخاری غزوہ ذات الرقاع ج۲ ص۵۹۲)
بعض مؤرخین نے کہا کہ چونکہ وہاں کی زمین کے پتھر سفید و سیاہ رنگ کے تھے اور زمین ایسی نظر آتی تھی گویا سفید اور کالے پیوند ایک دوسرے سے جوڑے ہوئے ہیں،لہٰذا اس غزوہ کو ''غزوہ ذات الرقاع'' کہا جانے لگااور بعض کا قول ہے کہ یہاں پر ایک درخت کا نام ''ذات الرقاع'' تھااس لئے لوگ اس کو غزوہ ذات الرقاع کہنے لگے،ہو سکتا ہے کہ یہ ساری باتیں ہوں۔(2)(زرقانی جلد۲ ص۸۸)
مشہور امام سیرت ابن سعد کا قول ہے کہ سب سے پہلے اس غزوہ میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے '' صلوٰۃ الخوف'' پڑھی۔(3)
(زُرقانی ج۲ ص۹۰ و بخاری باب غزوہ ذات الرقاع ج۲ ص۵۹۲)"
"1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب غزوۃ ذات الرقاع،ج۲،ص۵۲۶،۵۲۸
وصحیح البخاری،کتاب المغازی،باب غزوۃ ذات الرقاع،الحدیث۴۱۲۸،ج۳،ص۵۸
2۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،باب غزوۃ ذات الرقاع، ج۲،ص۵۲۵
3۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب غزوۃ ذات الرقاع، ج۲،ص۵۲۸،۵۲۹"
ربیع الاول ۵ھ میں پتاچلاکہ ''مقام دومۃ الجندل'' میں جو مدینہ اور شہر دمشق کے درمیان ایک قلعہ کا نام ہے مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے ایک بہت بڑی فوج جمع ہو رہی ہے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ایک ہزار صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا لشکر لے کر مقابلہ کے لئے مدینہ سے نکلے،جب مشرکین کو یہ معلوم ہواتووہ لوگ اپنے مویشیوں اور چرواہوں کو چھوڑ کر بھاگ نکلے،صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے ان تمام جانوروں کو مال غنیمت بنا لیا اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے تین دن وہاں قیام فرما کر مختلف مقامات پر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے لشکروں کو روانہ فرمایا۔ اس غزوہ میں بھی کوئی جنگ نہیں ہوئی اس سفر میں ایک مہینہ سے زائد آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مدینہ سے باہر رہے۔(1) (زرقانی ج۲ ص۹۴ تا ۹۵)
اس کا دوسرا نام ''غزوہ بنی المصطلق'' بھی ہے ''مریسیع'' ایک مقام کا نام ہے جو مدینہ سے آٹھ منزل دور ہے۔ قبیلۂ خزاعہ کا ایک خاندان ''بنو المصطلق'' یہاں آباد تھااور اس قبیلہ کا سردار حارث بن ضرار تھااس نے بھی مدینہ پر فوج کشی کے لئے لشکر جمع کیا تھا،جب یہ خبر مدینہ پہنچی تو ۲ شعبان ۵ ھ کو حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مدینہ پر حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو اپنا خلیفہ بنا کر لشکر کے ساتھ روانہ ہوئے۔ اس غزوہ میں حضرت بی بی عائشہ اور حضرت بی بی اُمِ سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما بھی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ تھیں،جب حارث بن ضرار کو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی تشریف
1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب پنجم ،ج۲،ص۱۸۴ملخصاً
"آوری کی خبر ہوگئی تو اس پر ایسی دہشت سوار ہو گئی کہ وہ اور اس کی فوج بھاگ کر منتشر ہو گئی مگر خود مریسیع کے باشندوں نے لشکر اسلام کا سامنا کیا اور جم کر مسلمانوں پر تیر برسانے لگے لیکن جب مسلمانوں نے ایک ساتھ مل کر حملہ کر دیا تو دس کفار مارے گئے اور ایک مسلمان بھی شہادت سے سرفراز ہوئے،باقی سب کفار گرفتارہو گئے جن کی تعداد سات سو سے زائد تھی،دو ہزار اونٹ اور پانچ ہزار بکریاں مال غنیمت میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ہاتھ آئیں۔(1)(زُرقانی ج ۲ص ۹۷ تا ۹۸)
غزوہ مریسیع جنگ کے اعتبار سے تو کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا مگر اس جنگ میں بعض ایسے اہم واقعات درپیش ہو گئے کہ یہ غزوہ تاریخ نبوی کا ایک بہت ہی اہم اور شاندار عنوان بن گیا ہے،ان مشہور واقعات میں سے چند یہ ہیں:"
اس جنگ میں مال غنیمت کے لالچ میں بہت سے منافقین بھی شریک ہوگئے تھے ایک دن پانی لینے پر ایک مہاجر اور ایک انصاری میں کچھ تکرار ہو گئی مہاجر نے بلند آواز سے یاللمھاجرین(اے مہاجرو!فریادہے) اورانصاری نے یاللا نصار (اے انصاریو! فریادہے) کا نعرہ مارا،یہ نعرہ سنتے ہی انصار و مہاجرین دوڑ پڑے اور اسقدر بات بڑھ گئی کہ آپس میں جنگ کی نوبت آ گئی رئیس المنافقین عبداﷲ بن اُبی کو شرارت کا ایک موقعہ مل گیااس نے اشتعال دلانے کے لئے انصاریوں سے کہا کہ ''لو! یہ تو وہی مثل ہوئی کہ
سَمِّنْ کَلْبَکَ لِیَأْکُلَکَ
(تم اپنے کتے کو فربہ کروتا کہ وہ تمہیں کو کھا ڈالے) تم انصاریوں ہی نے ان مہاجرین کا حوصلہ بڑھا دیا ہے لہٰذا اب ان مہاجرین کی مالی امداد و مدد بالکل بند کر دو یہ لوگ ذلیل و خوار
1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب غزوۃ المریسیع،ج۳،ص۳۔۸ ملتقطاً
"ہیں اور ہم انصار عزت دار ہیں اگر ہم مدینہ پہنچے تو یقینا ہم ان ذلیل لوگوں کو مدینہ سے نکال باہر کر دیں گے۔(1) (قرآن سورۂ منافقون)
حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب اس ہنگامہ کا شورو غوغا سنا تو انصار و مہاجرین سے فرمایا کہ کیا تم لوگ زمانہ جاہلیت کی نعرہ بازی کر رہے ہو؟ جمالِ نبوت دیکھتے ہی انصار و مہاجرین برف کی طرح ٹھنڈے پڑ گئے اور رحمت عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے چند فقروں نے محبت کا ایسا دریا بہا دیا کہ پھر انصار و مہاجرین شیروشکر کی طرح گھل مل گئے۔
جب عبداﷲ بن اُبی کی بیہودہ بات حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے کان میں پڑی تو وہ اس قدر طیش میں آ گئے کہ ننگی تلوار لے کر آئے اور عرض کیا کہ یا رسول اﷲ! صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مجھے اجازت دیجیے کہ میں اس منافق کی گردن اڑا دوں۔ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے نہایت نرمی کے ساتھ ارشاد فرمایا کہ اے عمر!رضی اللہ تعالیٰ عنہ خبردار ایسا نہ کرو، ورنہ کفار میں یہ خبر پھیل جائے گی کہ محمد(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)اپنے ساتھیوں کو بھی قتل کرنے لگے ہیں۔ یہ سن کر حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بالکل ہی خاموش ہو گئے مگر اس خبر کا پورے لشکر میں چرچا ہو گیا،یہ عجیب بات ہے کہ عبداﷲ ابن اُبی جتنا بڑا اسلام اور بانی اسلام صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا دشمن تھا اس سے کہیں زیادہ بڑھ کر اس کے بیٹے اسلام کے سچے شیدائی اورحضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے جان نثار صحابی تھے ان کا نام بھی عبداﷲ تھا جب اپنے باپ کی بکواس کا پتا چلا تو وہ غیظ و غضب میں بھرے ہوئے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یارسول اﷲ!صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اگر آپ میرے باپ کے قتل کو پسند فرماتے ہوں تو میری تمنا ہے کہ کسی دوسرے کے بجائے میں خود اپنی تلوار سے اپنے باپ"
1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب پنجم ،ج۲،ص۱۵۶ملخصاً
"کا سر کاٹ کر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈال دوں۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ نہیں ہر گز نہیں میں تمہارے باپ کے ساتھ کبھی بھی کوئی برا سلوک نہیں کروں گا۔(1)
(ابن سعد و طبری وغیرہ)
اور ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ مدینہ کے قریب وادی عقیق میں وہ اپنے باپ عبداﷲ بن ابی کا راستہ روک کر کھڑے ہو گئے اور کہا کہ تم نے مہاجرین اور رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو ذلیل کہا ہے خداکی قسم!میں اس وقت تک تم کو مدینہ میں داخل نہیں ہونے دوں گاجب تک رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اجازت عطا نہ فرمائیں اور جب تک تم اپنی زبان سے یہ نہ کہو کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تمام اولاد آدم میں سب سے زیادہ عزت والے ہیں اور تم سارے جہان والوں میں سب سے زیادہ ذلیل ہو، تمام لوگ انتہائی حیرت اور تعجب کے ساتھ یہ منظر دیکھ رہے تھے جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم وہاں پہنچے اور یہ دیکھا کہ بیٹا باپ کا راستہ روکے ہوئے کھڑا ہے ا ور عبداﷲ بن ابی زور زور سے کہہ رہا ہے کہ ''میں سب سے زیادہ ذلیل ہوں اور حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سب سے زیادہ عزت دارہیں۔'' آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ دیکھتے ہی حکم دیا کہ اس کاراستہ چھوڑدوتاکہ یہ مدینہ میں داخل ہوجائے۔(2)(مدارج النبوۃج۲ ص۱۵۷)"
غزوہ مریسیع کی جنگ میں جو کفار مسلمانوں کے ہاتھ میں گرفتار ہوئے ان میں سردار قوم حارث بن ضرار کی بیٹی حضرت جویریہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا بھی تھیں جب تمام
"1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب پنجم ،ج۲، ص۱۵۶ملخصاً والسیرۃ النبویۃ لابن
ھشام،طلب ابن عبداللہ بن ابی...الخ،ص۴۲۰
2۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب پنجم ،ج۲،ص۱۵۷"
قیدی لونڈی غلام بنا کر مجاہدین اسلام میں تقسیم کر دئیے گئے تو حضرت جویریہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا حضرت ثابت بن قیس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے حصہ میں آئیں انہوں نے حضرت جویریہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے یہ کہہ دیا کہ تم مجھے اتنی اتنی رقم دے دو تومیں تمہیں آزاد کر دوں گا ، حضرت جویریہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے پاس کوئی رقم نہیں تھی وہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے دربار میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم میں اپنے قبیلے کے سردار حارث بن ضرار کی بیٹی ہوں اورمیں مسلمان ہو چکی ہوں حضرت ثابت بن قیس نے اتنی اتنی رقم لے کر مجھے آزاد کر دینے کا وعدہ کر لیا ہے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم میری مدد فرمائیں تا کہ میں یہ رقم ادا کرکے آزاد ہو جاؤں۔آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر میں اس سے بہتر سلوک تمہارے ساتھ کروں تو کیا تم منظور کر لو گی؟ انہوں نے پوچھا کہ وہ کیا ہے؟ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ میں خود تنہا تمہاری طرف سے ساری رقم ادا کردوں اور تم کو آزاد کرکے میں تم سے نکاح کر لوں تاکہ تمہارا خاندانی اعزاز و وقار برقرار رہ جائے، حضرت جویریہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے خوشی خوشی اس کو منظور کر لیا،چنانچہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ساری رقم اپنے پاس سے ادا فرما کر حضرت جویریہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے نکاح فرما لیاجب یہ خبر لشکر میں پھیل گئی کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت جویریہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے نکاح فرما لیا تو مجاہدین اسلام کے لشکر میں اس خاندان کے جتنے لونڈی غلام تھے مجاہدین نے سب کو فوراً ہی آزاد کرکے رہا کر دیا اور لشکر اسلام کا ہر سپاہی یہ کہنے لگا کہ جس خاندان میں رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے شادی کر لی اس خاندان کا کوئی آدمی لونڈی غلام نہیں رہ سکتااور حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کہنے لگیں کہ ہم نے کسی عورت کا نکاح حضرت
"جویریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے نکاح سے بڑھ کر خیروبرکت والا نہیں دیکھاکہ اس کی وجہ سے تمام خاندان بنی المصطلق کو غلامی سے آزادی نصیب ہو گئی۔(1)(ابو داودکتاب العتق ج۲ ص۵۴۸)
حضرت جویریہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا اصلی نام ''برہ'' تھا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس نام کو بدل کر ''جویریہ'' نام رکھا۔(2)(مدارج جلد۲ ص۱۵۵)"
اسی غزوہ سے جب رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مدینہ واپس آنے لگے تو ایک منزل پر رات میں پڑاؤ کیا،حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا ایک بند ہودج میں سوار ہو کر سفر کرتی تھیں اور چند مخصوص آدمی اس ہودج کو اونٹ پر لادنے اور اتارنے کے لئے مقرر تھے،حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا لشکر کی روانگی سے کچھ پہلے لشکر سے باہر رفع حاجت کے لئے تشریف لے گئیں جب واپس ہوئیں تو دیکھا کہ ان کے گلے کا ہار کہیں ٹوٹ کر گر پڑا ہے وہ دوبارہ اس ہار کی تلاش میں لشکر سے باہر چلی گئیں اس مرتبہ واپسی میں کچھ دیر لگ گئی اور لشکر روانہ ہو گیاآپ کا ہودج لادنے والوں نے یہ خیال کرکے کہ اُم المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہاہودج کے اندر تشریف فرما ہیں ہودج کو اونٹ پر لاد دیااور پورا قافلہ منزل سے روانہ ہو گیاجب حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا منزل پر واپس آئیں تو یہاں کوئی آدمی موجود نہیں تھاتنہائی سے سخت گھبرائیں اندھیری رات میں اکیلے چلنا بھی خطرناک تھااس لئے وہ یہ سوچ کر وہیں لیٹ گئیں کہ جب اگلی منزل پر لوگ مجھے نہ پائیں گے تو ضرور ہی میری تلاش میں یہاں آئیں گے، وہ لیٹی
"1۔۔۔۔۔۔کتاب المغازی للواقدی ،غزوۃ المریسیع،ج۱،ص۴۱۰،۴۱۱
2۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب پنجم ،ج۲،ص۱۵۵"
"لیٹی سوگئیں ایک صحابی جن کا نام حضرت صفوان بن معطل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تھاوہ ہمیشہ لشکر کے پیچھے پیچھے اس خیال سے چلا کرتے تھے تا کہ لشکر کا گرا پڑا سامان اٹھاتے چلیں وہ جب اس منزل پر پہنچے توحضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو دیکھا اور چونکہ پردہ کی آیت نازل ہونے سے پہلے وہ بارہا ام المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہاکو دیکھ چکے تھے اس لئے دیکھتے ہی پہچان لیا اور انہیں مردہ سمجھ کر''اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن''پڑھااس آواز سے وہ جاگ اٹھیں حضرت صفوان بن معطل سلمی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فوراً ہی ان کو اپنے اونٹ پر سوار کر لیا اور خود اونٹ کی مہار تھام کر پیدل چلتے ہوئے اگلی منزل پر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئے۔(1)
منافقوں کے سردار عبداﷲ بن اُبی نے اس واقعہ کو حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا پر تہمت لگانے کا ذریعہ بنا لیااور خوب خوب اس تہمت کا چرچاکیایہاں تک کہ مدینہ میں اس منافق نے اس شرمناک تہمت کو اس قدر اچھالا اور اتنا شوروغل مچایا کہ مدینہ میں ہر طرف اس افتراء اور تہمت کا چرچا ہونے لگااوربعض مسلمان مثلاً حضرت حسان بن ثابت اور حضرت مسطح بن اثاثہ اور حضرت حمنہ بنت جحش رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے بھی اس تہمت کو پھیلانے میں کچھ حصہ لیا،حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اس شرانگیز تہمت سے بے حد رنج و صدمہ پہنچااور مخلص مسلمانوں کو بھی انتہائی رنج و غم ہواحضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا مدینہ پہنچتے ہی سخت بیمار ہو گئیں،پردہ نشین تو تھیں ہی صاحب فراش ہو گئیں اور انہیں اس تہمت تراشی کی بالکل خبر ہی نہیں ہوئی گو کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی پاک دامنی کا پورا پورا علم و یقین تھامگر چونکہ اپنی"
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب حدیث الافک،الحدیث۴۱۴۱،ج۳،ص۶۱ملتقطاً
ومدارج النبوت،قسم سوم ، باب پنجم ،ج۲،ص۱۵۹ملتقطاًوملخصاً"
"بیوی کا معاملہ تھااس لئے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے اپنی بیوی کی براء ت اور پاکدامنی کا اعلان کرنا مناسب نہیں سمجھااور وحی الٰہی کا انتظار فرمانے لگے اس درمیان میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے مخلص اصحاب سے اس معاملہ میں مشورہ فرماتے رہے تا کہ ان لوگوں کے خیالات کاپتاچل سکے۔(1)(بخاری ج۲ ص۵۹۴)
چنانچہ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے جب آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس تہمت کے بارے میں گفتگو فرمائی تو انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ! صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلمیہ منافق یقینا جھوٹے ہیں اس لئے کہ جب اﷲ تعالیٰ کو یہ گوارا نہیں ہے کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے جسم اطہر پر ایک مکھی بھی بیٹھ جائے کیونکہ مکھی نجاستوں پر بیٹھتی ہے تو بھلا جو عورت ایسی برائی کی مرتکب ہو خداوند قدوس کب اور کیسے برداشت فرمائے گا کہ وہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی زوجیت میں رہ سکے۔(2)
حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ یا رسول اﷲ!(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) جب اﷲ تعالیٰ نے آپ کے سایہ کوزمین پرنہیں پڑنے دیاتاکہ اس پرکسی کاپاؤں نہ پڑ سکے تو بھلا اس معبود برحق کی غیرت کب یہ گوارا کرے گی کہ کوئی انسان آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ کے ساتھ ایسی قباحت کا مرتکب ہو سکے؟۔(3) حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے یہ گزارش کی کہ یا رسول اﷲ!(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)ایک مرتبہ آپ کی نعلین اقدس میں نجاست لگ گئی تھی تو اﷲ تعالیٰ نے حضرت جبریل علیہ السلام کو بھیج کرآپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کوخبردی کہ آپ اپنی نعلین اقدس کو اتاردیں اس لئے حضرت بی بی عائشہ"
"1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب پنجم ،ج۲،ص۱۵۹۔۱۶۱ملتقطاً
2۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب پنجم ،ج۲،ص۱۶۱
3۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب پنجم ،ج۲،ص۱۶۱"
"رضی اللہ تعالیٰ عنہامعاذاﷲ اگر ایسی ہوتیں تو ضرور اﷲ تعالیٰ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلمپر وحی نازل فرما دیتا کہ ''آپ ان کو اپنی زوجیت سے نکال دیں۔''(1)
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جب اس تہمت کی خبر سنی تو انہوں نے اپنی بیوی سے کہا کہ اے بیوی!تو سچ بتا!اگر حضرت صفوان بن معطل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جگہ میں ہوتا تو کیا تو یہ گمان کر سکتی ہے کہ میں حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی حرم پاک کے ساتھ ایسا کر سکتا تھا؟ تو ان کی بیوی نے جواب دیا کہ اگر حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی جگہ میں رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی بیوی ہوتی تو خدا کی قسم! میں کبھی ایسی خیانت نہیں کر سکتی تھی تو پھر حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا جو مجھ سے لاکھوں درجے بہتر ہے اورحضرت صفوان بن معطل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جو بدر جہاتم سے بہتر ہیں بھلا کیونکر ممکن ہے کہ یہ دونوں ایسی خیانت کر سکتے ہیں؟(2)(مدارک التنزیل مصری ج۲ ص۱۳۴ تا ۱۳۵)
بخاری شریف کی روایت ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس معاملہ میں حضرت علی اور اسامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے جب مشورہ طلب فرمایا تو حضرت اُسامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے برجستہ کہا کہ اَھْلُکَ وَلَا نَعْلَمُ اِلَّاخَیْرًا کہ یارسول اﷲ!( صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم) وہ آپ کی بیوی ہیں اور ہم انہیں اچھی ہی جانتے ہیں،اور حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے یہ جواب دیا کہ یا رسول اﷲ!صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اﷲ تعالیٰ نے آپ پر کوئی تنگی نہیں ڈالی ہے عورتیں ان کے سوا بہت ہیں اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ان کے بارے میں ان"
"1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب پنجم ،ج۲،ص۱۵۷ومدارک التنزیل المعروف
بتفسیر النسفی ،الجزء الثامن عشر ، سورۃ النور،تحت الایۃ ۱۲،۱۳،ص۷۷۲
2۔۔۔۔۔۔مدارک التنزیل المعروف بتفسیر النسفی ،الجزء الثامن عشر ، سورۃ النور،تحت الایۃ
۱۲،۱۳،ص۷۷۲"
"کی لونڈی (حضرت بریرہ) سے پوچھ لیں وہ آپ سے سچ مچ کہہ دے گی۔(1)
حضرت بریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے جب آپ نے سوال فرمایا تو انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!( صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) اس ذات پاک کی قسم جس نے آپ کو رسول برحق بنا کر بھیجا ہے کہ میں نے حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا میں کوئی عیب نہیں دیکھا،ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ وہ ابھی کمسن لڑکی ہیں وہ گوندھا ہوا آٹا چھوڑ کر سو جاتی ہیں اور بکری آ کر کھا ڈالتی ہے۔(2)
پھر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی زوجہ محترمہ حضرت زینب بنت جحش رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے دریافت فرمایاجو حسن و جمال میں حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے مثل تھیں تو انہوں نے قسم کھا کر یہ عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم"
اَحْمِیْ سَمْعِیْ وَ بَصَرِیْ وَاللہِ مَا عَلِمْتُ اِلَّاخَیْرًا
"میں اپنے کان اور آنکھ کی حفاظت کرتی ہوں خداکی قسم! میں تو حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکو اچھی ہی جانتی ہوں۔(3) (بخاری باب حدیث الافک ج۲ ص۵۹۶)
اس کے بعدحضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک دن منبر پر کھڑے ہو کر مسلمانوں سے فرمایا کہ اس شخص کی طرف سے مجھے کون معذور سمجھے گا،یا میری مدد کریگا جس نے میری بیوی پر بہتان تراشی کرکے میری دل آزاری کی ہے"
، وَاللہِ مَا عَلِمْتُ عَلٰی اَھْلِیْ اِلَّاخَیْرًا
خدا کی قسم! میں اپنی بیوی کو ہر طرح کی اچھی ہی جانتا
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب حدیث الافک،الحدیث۴۱۴۱،ج۳،ص۶۳ملتقطاً
2۔۔۔۔۔۔السیرۃ الحلبیۃ ، غزوۃ بنی المصطلق ، ج۲ ، ص۴۰۲ ودلائل النبوۃ للبیھقی ، باب
حدیث الافک،ج۴، ص ۶۸
3۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب حدیث الافک،الحدیث۴۱۴۱،ج۳،ص۶۶"
ہوں۔
وَلَقَدْ ذَکَرُوْا رَجُلًا مَا عَلِمْتُ عَلَیْہِ اِلَّا خَیْرًا
"اور ان لوگوں (منافقوں) نے (اس بہتان میں)ایک ایسے مرد(صفوان بن معطل) کا ذکر کیا ہے جس کو میں بالکل اچھا ہی جانتا ہوں۔(1)(بخاری ج۲ ص۵۹۵ باب حدیث الافک)
حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی برسرمنبر اس تقریر سے معلوم ہوا کہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ اور حضرت صفوان بن معطل رضی اﷲ تعالیٰ عنہما دونوں کی براء ت و طہارت اور عفت و پاک دامنی کا پورا پورا علم اور یقین تھااور وحی نازل ہونے سے پہلے ہی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو یقینی طور پر معلوم تھا کہ منافق جھوٹے اور اُم المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہاپاک دامن ہیں ورنہ آپ برسر منبر قسم کھا کر ان دونوں کی اچھائی کا مجمع عام میں ہر گز اعلان نہ فرماتے مگر پہلے ہی اعلان عام نہ فرمانے کی وجہ یہی تھی کہ اپنی بیوی کی پاکدامنی کا اپنی زبان سے اعلان کرنا حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مناسب نہیں سمجھتے تھے،جب حد سے زیادہ منافقین نے شوروغوغا شروع کر دیا تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے منبر پر اپنے خیال اقدس کا اظہار فرما دیامگر اب بھی اعلان عام کے لئے آپ کو وحی الٰہی کا انتظار ہی رہا۔
یہ پہلے تحریر کیا جا چکا ہے کہ اُم المؤمنین حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سفر سے آتے ہی بیمار ہو کر صاحب فراش ہو گئی تھیں اس لئے وہ اس بہتان کے طوفان سے بالکل ہی بے خبر تھیں جب انہیں مرض سے کچھ صحت حاصل ہوئی اور وہ ایک رات حضرت اُم مسطح صحابیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے ساتھ رفع حاجت کے لئے صحرا میں تشریف لے گئیں تو انکی زبانی انہوں نے اس دلخراش اور روح فرساخبر کو سنا۔ جس سے انہیں بڑا دھچکا لگااور وہ شدت رنج و غم سے نڈھال ہو گئیں چنانچہ ان کی بیماری میں مزید اضافہ ہو گیااور وہ دن"
1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب حدیث الافک،الحدیث۴۱۴۱،ج۳،ص۶۴
"رات بلک بلک کر روتی رہیں اخر جب ان سے یہ صدمہ جاں کاہ برداشت نہ ہوسکا تو وہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے اجازت لے کر اپنی والدہ کے گھر چلی گئیں اور اس منحوس خبر کا تذکرہ اپنی والدہ سے کیا،ماں نے کافی تسلی و تشفی دی مگر یہ برابر لگاتار روتی ہی رہیں(1)
اسی حالت میں ناگہاں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا کہ اے عائشہ!رضی اللہ تعالیٰ عنہاتمہارے بارے میں ایسی ایسی خبر اڑائی گئی ہے اگر تم پاک دامن ہو اور یہ خبر جھوٹی ہے تو عنقریب خداوند تعالیٰ تمہاری براء ت کا بذریعہ وحی اعلان فرما دے گا۔ ورنہ تم توبہ و استغفار کر لوکیونکہ جب کوئی بندہ خدا سے توبہ کرتاہے اور بخشش مانگتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کے گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی یہ گفتگو سن کر حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے آنسو بالکل تھم گئے اور انہوں نے اپنے والد حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ آپ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا جواب دیجیے۔ تو انہوں نے فرمایا کہ خدا کی قسم! میں نہیں جانتا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو کیا جواب دوں؟ پھر انہوں نے ماں سے جواب دینے کی درخواست کی تو ان کی ماں نے بھی یہی کہاپھر خود حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو یہ جواب دیا کہ لوگوں نے جو ایک بے بنیاد بات اڑائی ہے اور یہ لوگوں کے دلوں میں بیٹھ چکی ہے اور کچھ لوگ اس کو سچ سمجھ چکے ہیں اس صورت میں اگر میں یہ کہوں کہ میں پاک دامن ہوں تو لوگ اس کی تصدیق نہیں کریں گے اور اگر میں اس برائی کا اقرار کر لوں تو سب مان لیں گے حالانکہ اﷲ تعالیٰ جانتاہے کہ میں اس الزام سے بری اور پاک دامن ہوں اس وقت میری مثال حضرت یوسف علیہ السلام کے باپ (حضرت یعقوب علیہ السلام) جیسی ہے لہٰذا میں بھی وہی کہتی ہوں"
1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی، باب حدیث الافک،الحدیث:۴۱۴۱،ج۳،ص۶۳
جو انہوں نے کہا تھا یعنی
فَصَبْرٌ جَمِیۡلٌ ؕ وَاللہُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوۡنَ ﴿۱۸﴾
یہ کہتی ہوئی انہوں نے کروٹ بدل کر منہ پھیر لیااور کہا کہ اﷲ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں اس تہمت سے بری اور پاک دامن ہوں اور مجھے یقین ہے کہ اﷲ تعالیٰ ضرور میری براء ت کو ظاہر فرما دے گا۔(2) حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا جواب سن کر ابھی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنی جگہ سے اٹھے بھی نہ تھے اور ہر شخص اپنی اپنی جگہ پر بیٹھا ہی ہوا تھا کہ ناگہاں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر وحی نازل ہونے لگی اور آپ پر نزول وحی کے وقت کی بے چینی شروع ہو گئی اور باوجودیکہ شدید سردی کا وقت تھامگر پسینے کے قطرات موتیوں کی طرح آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے بدن سے ٹپکنے لگے جب وحی اتر چکی توہنستے ہوئے حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اے عائشہ!رضی اللہ تعالیٰ عنہا تم خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے اس کی حمد کرو کہ اس نے تمہاری براء ت اور پاکدامنی کا اعلان فرما دیا اور پھر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے قرآن کی سورهٔ نور میں سے دس آیتوں کی تلاوت فرمائی جو
اِنَّ الَّذِیْنَ جَآءُ وْ ِبالْاِفْکِ
سے شروع ہو کر
وَ اَنَّ اللہَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ ﴿٪۲۰﴾
"پر ختم ہوتی ہیں۔
ان آیات کے نازل ہو جانے کے بعد منافقوں کا منہ کالا ہو گیا اور حضرت ام المؤمنین بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی پاک دامنی کا آفتاب اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ اس طرح چمک اٹھا کہ قیامت تک آنے والے مسلمانوں کے دلوں کی دنیا میں نور ایمان سے اجالا ہو گیا۔(3)"
"1۔۔۔۔۔۔ترجمہ کنزالایمان:توصبراچھااور اللہ ہی سے مددچاہتاہوں ان باتوں پرجو تم بتارہے ہو۔پ ۱۱،یوسف:۱۸
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب حدیث الافک،الحدیث۴۱۴۱،ج۳،ص۶۴
3۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب حدیث الافک،الحدیث۴۱۴۱،ج۳،ص۶۵"
حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو حضرت مسطح بن اثاثہ پر بڑا غصہ آیایہ آپ کے خالہ زاد بھائی تھے اور بچپن ہی میں ان کے والد وفات پا گئے تھے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ان کی پرورش بھی کی تھی اور ان کی مفلسی کی وجہ سے ہمیشہ آپ ان کی مالی امداد فرماتے رہتے تھے مگر اس کے باوجود حضرت مسطح بن اثاثہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے بھی اس تہمت تراشی اور اس کا چرچا کرنے میں کچھ حصہ لیا تھا اس وجہ سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے غصہ میں بھر کر یہ قسم کھا لی کہ اب میں مسطح بن اثاثہ کی کبھی بھی کوئی مالی مدد نہیں کروں گا،اس موقع پر اﷲ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ:
وَ لَا یَاۡتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنۡکُمْ وَ السَّعَۃِ اَنۡ یُّؤْتُوۡۤا اُولِی الْقُرْبٰی وَ الْمَسٰکِیۡنَ وَالْمُہٰجِرِیۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ ۪ۖ وَلْیَعْفُوۡا وَلْیَصْفَحُوۡا ؕ اَلَا تُحِبُّوۡنَ اَنۡ یَّغْفِرَ اللہُ لَکُمْ ؕ وَاللہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۲۲﴾ (1) (نور)
"اور قسم نہ کھائیں وہ جو تم میں فضیلت والے اور گنجائش والے ہیں قرابت والوں اور مسکینوں اور اﷲ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو دینے کی اور چاہیے کہ معاف کریں اور درگزر کریں کیا تم اسے پسند نہیں کرتے کہ اﷲ تمہاری بخشش کرے اور اﷲ بہت بخشنے والا اور بڑا مہربان ہے۔
اس آیت کوسن کرحضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنی قسم توڑڈالی اور پھرحضرت مسطح بن اثاثہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کاخرچ بدستورسابق عطافرمانے لگے۔(2)(بخاری حدیث الافک ج۲ ص۵۹۵ تا ۵۹۶ املخصاً)"
"1۔۔۔۔۔۔پ۱۸،النور:۲۲
2۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب پنجم ،ج۲،ص۱۶۴"
"پھرحضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مسجدنبوی میں ایک خطبہ پڑھااورسوره نورکی آیتیں تلاوت فرماکرمجمع عام میں سنادیں اورتہمت لگانے والوں میں سے حضرت حسان بن ثابت وحضرت مسطح بن اثاثہ وحضرت حمنہ بنت جحش رضی اﷲ تعالیٰ عنہم اوررئیس المنافقین عبداﷲبن ابی ان چاروں کوحدقذف کی سزامیں اسّی اسّی درے مارے گئے۔(1) (مدارج جلد۲ص ۱۶۳وغیرہ)
شارح بخاری علامہ کرمانی علیہ الرحمۃ نے فرمایاکہ حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی براء ت اورپاک دامنی قطعی ویقینی ہے جوقرآن سے ثابت ہے اگرکوئی اس میں ذرا بھی شک کرے تووہ کافرہے۔(2)(بخاری جلد۲ ص۵۹۵)
دوسرے تمام فقہاءِ امت کا بھی یہی مسلک ہے۔"
"ابن عبدالبر و ابن سعد و ابن حبان وغیرہ محدثین و علماء سیرت کا قول ہے کہ تیمم کی آیت اسی غزوہ مریسیع میں نازل ہوئی مگر روضۃ الاحباب میں لکھا ہے کہ آیت تیمم کسی دوسرے غزوہ میں اتری ہے۔واﷲ تعالیٰ اعلم۔(3)(مدارج النبوۃ ج ۲ ص۱۵۷)
بخاری شریف میں آیت تیمم کی شان نزول جو مذکور ہے وہ یہ ہے کہ حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ ہم لوگ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے جب ہم لوگ مقام ''بیداء'' یا مقام'' ذات الجیش'' میں پہنچے تو میرا ہار ٹوٹ کر کہیں گر گیا حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور کچھ لوگ اس ہار کی تلاش میں وہاں ٹھہر گئے"
"1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب پنجم ،ج۲،ص۱۶۳
2۔۔۔۔۔۔حاشیۃ صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب حدیث الافک،حاشیۃ:۹،ج۲،ص۵۹۶
3۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب پنجم ،ج۲،ص۱۵۷،۱۵۸"
"اور وہاں پانی نہیں تھا توکچھ لوگوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے پاس آ کر شکایت کی کہ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے کیا کیا؟ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو یہاں ٹھہرا لیا ہے حالانکہ یہاں پانی موجود نہیں ہے،یہ سن کر حضرت ابوبکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ میرے پاس آئے اور جو کچھ خدا نے چاہا انہوں نے مجھ کو (سخت وسست) کہااور پھر (غصہ میں) اپنے ہاتھ سے میری کوکھ میں کونچا مارنے لگے اس وقت رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم میری ران پر اپنا سر مبارک رکھ کر آرام فرما رہے تھے اس وجہ سے (مار کھانے کے باوجود) میں ہل نہیں سکتی تھی صبح کو جب رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو وہاں کہیں پانی موجود ہی نہیں تھاناگہاں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر تیمم کی آیت نازل ہو گئی چنانچہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور تمام اصحاب نے تیمم کیا اور نماز فجر ادا کی اس موقع پر حضرت اسید بن حضیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے (خوش ہو کر) کہا کہ اے ابوبکر کی آل! یہ تمہاری پہلی ہی برکت نہیں ہے۔ پھر ہم لوگوں نے اونٹ کو اٹھایا تو اس کے نیچے ہم نے ہار کو پا لیا۔(1)(بخاری ج۱ ص۴۸ کتاب التیمم)
اس حدیث میں کسی غزوہ کانام نہیں ہے مگرشارح بخاری حضرت علامہ ابن حجرعلیہ الرحمۃنے فرمایاکہ یہ واقعہ غزوہ بنی المصطلق کاہے جس کادوسرانام غزوہ مریسیع بھی ہے جس میں قصہ افک واقع ہوا۔(2)(فتح الباری ج۱ص۳۶۵کتاب التیمم)
اس غزوہ میں حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اٹھائیس دن مدینہ سے باہررہے۔ (3)
(زُرقانی ج۲ ص۱۰۲)"
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب التیمم،باب التیمم،الحدیث:۳۳۴،ج۱،ص۱۳۳
2۔۔۔۔۔۔فتح الباری شرح صحیح البخاری،کتاب التیمم،باب۱،تحت الحدیث۳۳۴،ج۱،ص۳۸۶
3۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،باب غزوۃ المریسیع، ج۳،ص۱۷"
۵ھ کی تمام لڑائیوں میں یہ جنگ سب سے زیادہ مشہور اور فیصلہ کن جنگ ہے چونکہ دشمنوں سے حفاظت کے لئے شہر مدینہ کے گرد خندق کھودی گئی تھی اس لئے یہ لڑائی ''جنگ خندق'' کہلاتی ہے اور چونکہ تمام کفار عرب نے متحد ہو کر اسلام کے خلاف یہ جنگ کی تھی اس لئے اس لڑائی کا دوسرا نام ''جنگ احزاب''(تمام جماعتوں کی متحدہ جنگ)ہے،قرآن مجید میں اس لڑائی کا تذکرہ اسی نام کے ساتھ آیا ہے۔(1)
گزشتہ اوراق میں ہم یہ لکھ چکے ہیں کہ ''قبیلہ بنو نضیر'' کے یہودی جب مدینہ سے نکال دئیے گئے تو ان میں سے یہودیوں کے چند رؤسا ''خیبر'' میں جا کر آباد ہو گئے اور خیبر کے یہودیوں نے ان لوگوں کا اتنا اعزاز و اکرام کیا کہ سلام بن مشکم وابن ابی الحقیق وحیی بن اخطب و کنانہ بن الربیع کو اپنا سردار مان لیایہ لوگ چونکہ مسلمانوں کے خلاف غیظ و غضب میں بھرے ہوئے تھے اور انتقام کی آگ ان کے سینوں میں دہک رہی تھی اس لئے ان لوگوں نے مدینہ پر ایک زبردست حملہ کی اسکیم بنائی،چنانچہ یہ تینوں اس مقصد کے پیش نظر مکہ گئے اور کفار قریش سے مل کر یہ کہا کہ اگر تم لوگ ہمارا ساتھ دو تو ہم لوگ مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے نیست و نابود کر سکتے ہیں کفار قریش تو اس کے بھوکے ہی تھے فوراً ہی ان لوگوں نے یہودیوں کی ہاں میں ہاں ملا دی کفار قریش سے ساز باز کر لینے کے بعد ان تینوں یہودیوں نے ''قبیلہ بنو غطفان'' کا رُخ کیااور خیبر کی آدھی آمدنی دینے کا لالچ دے کر ان لوگوں کو بھی مسلمانوں کے
1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،باب غزوۃ المریسیع،ج۳،ص۱۷ملتقطاً
"خلاف جنگ کرنے کے لئے آمادہ کر لیاپھر بنو غطفان نے اپنے حلیف ''بنو اسد'' کو بھی جنگ کے لئے تیار کر لیاادھریہودیوں نے اپنے حلیف ''قبیلہ بنو اسعد'' کو بھی اپنا ہمنوا بنا لیا اور کفار قریش نے اپنی رشتہ داریوں کی بنا پر ''قبیلہ بنو سلیم'' کو بھی اپنے ساتھ ملا لیاغرض اس طرح تمام قبائل عرب کے کفار نے مل جل کر ایک لشکر جرار تیار کر لیا جس کی تعداد دس ہزار تھی اور ابوسفیان اس پورے لشکر کا سپہ سالار بن گیا۔(1)
(زُرقانی ج۲ ص۱۰۴ تا ۱۰۵)"
جب قبائل عرب کے تمام کافروں کے اس گٹھ جوڑ اور خوفناک حملہ کی خبریں مدینہ پہنچیں تو حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو جمع فرما کر مشورہ فرمایا کہ اس حملہ کا مقابلہ کس طرح کیا جائے؟ حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے یہ رائے دی کہ جنگ ِ اُحد کی طرح شہر سے باہر نکل کر اتنی بڑی فوج کے حملہ کو میدانی لڑائی میں روکنا مصلحت کے خلاف ہے لہٰذا مناسب یہ ہے کہ شہر کے اندر رہ کر اس حملہ کا دفاع کیا جائے اور شہر کے گرد جس طرف سے کفار کی چڑھائی کا خطرہ ہے ایک خندق کھود لی جائے تاکہ کفار کی پوری فوج بیک وقت حملہ آور نہ ہو سکے،مدینہ کے تین طرف چونکہ مکانات کی تنگ گلیاں اور کھجوروں کے جھنڈ تھے اس لئے ان تینوں جانب سے حملہ کا امکان نہیں تھا مدینہ کا صرف ایک رُخ کھلا ہوا تھا اس لئے یہ طے کیا گیا کہ اسی طرف پانچ گز گہری خندق کھودی جائے،چنانچہ ۸ ذوقعدہ ۵ھ کو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تین ہزار صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو ساتھ لے کر خندق کھودنے میں مصروف ہو گئے،حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم
1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،باب غزوۃ المریسیع، ج۳،ص۲۱،۲۲
"نے خود اپنے دست مبارک سے خندق کی حد بندی فرمائی اور دس دس آدمیوں پر دس دس گز زمین تقسیم فرما دی اور تقریباً بیس دن میں یہ خندق تیار ہوگئی۔(1)(مدارج النبوۃ ج۲ ص۱۶۸ تا ۱۷۰)
حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم خندق کے پاس تشریف لائے اور جب یہ دیکھا کہ انصار ومہاجرین کڑکڑاتے ہوئے جاڑے کے موسم میں صبح کے وقت کئی کئی فاقوں کے باوجود جوش و خروش کے ساتھ خندق کھودنے میں مشغول ہیں تو انتہائی متأثرہو کر آپ نے یہ رجز پڑھنا شروع کر دیا کہ ؎"
"اَللّٰھُمَّ اِنَّ الْعَیْشَ عَیْشُ الْاٰخِرَۃ فَاغْفِرِ الْاَنْصَارَ وَالْمُھَاجِرَۃ"
"اے اﷲ!عزوجل بلا شبہ زندگی تو بس آخرت کی زندگی ہے لہٰذا تو انصار و مہاجرین کو بخش دے۔
اس کے جواب میں انصار و مہاجرین نے آواز ملا کر یہ پڑھنا شروع کر دیا کہ ؎"
"نَحْنُ الَّذِیْنَ بَایَعُوْا مُحَمَّدًا عَلَی الْجِھَادِ مَا بَقِیْنَا اَبَدًا"
"ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے جہاد پر حضرت محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی بیعت کر لی ہے جب تک ہم زندہ رہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔ (2) (بخاری غزوۂ خندق ج۲ ص۵۸۸)
حضرت براء بن عازب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم خود"
"1۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب،باب غزوۃ الخندق...الخ، ج۳،ص۱۹،۳۳
ومدارج النبوت ، قسم اول ، باب پنجم،ذکر فضائل...الخ،ج۲،ص۱۶۸ملخصاً
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب غزوۃ الخندق...الخ،الحدیث۴۰۹۹،ج۳،ص۵۰"
بھی خندق کھودتے اور مٹی اُٹھا اُٹھا کر پھینکتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے شکم مبارک پر غبار کی تہ جم گئی تھی اور مٹی اٹھاتے ہوئے صحابہ کو جوش دلانے کے لئے رجز کے یہ اشعار پڑھتے تھے کہ ؎
"وَاللہِ لَوْلَا اللہُ مَا اھْتَدَیْنَا وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّیْنَا"
خدا کی قسم! اگر اﷲ کا فضل نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے اور نہ صدقہ دیتے نہ نماز پڑھتے۔
"فَاَنْزِلَنْ سَکِیْنَۃً عَلَیْنَا وَثَبِّتِ الْاَقْدَامَ اِنْ لَاقَیْنَا"
لہٰذا اے اﷲ!عزوجل تو ہم پر قلبی اطمینان اتار دے اور جنگ کے وقت ہم کو ثابت قدم رکھ۔
"اِنَّ الْاُلٰی قَدْ بَغَوْا عَلَیْنَا اِذَا اَرَادُوْا فِتْنَۃً اَبَیْنَا"
یقینا ان (کافروں) نے ہم پر ظلم کیا ہے اور جب بھی ان لوگوں نے فتنہ کا ارادہ کیاتو ہم لوگوں نے انکار کر دیا۔لفظ ''اَبَیْنَا'' حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بار بار بہ تکرار بلند آواز سے دہراتے تھے۔(1)
حضرت جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے بیان فرمایا کہ خندق کھودتے وقت ناگہاں ایک ایسی چٹان نمودار ہو گئی جو کسی سے بھی نہیں ٹوٹی جب ہم نے بارگاہ رسالت میں یہ ماجرا عرض کیا تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اٹھے تین دن کا فاقہ تھا اور شکم مبارک پر پتھر بندھا
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب غزوۃالخندق...الخ،الحدیث۴۱۰۶،ج۳،ص۵۳
والمواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،باب غزوۃالخندق...الخ،ج۳،ص۲۷،۲۸"
"ہوا تھاآپ نے اپنے دست مبارک سے پھاوڑا مارا تو وہ چٹان ریت کے بھربھرے ٹیلے کی طرح بکھر گئی۔(1)(بخاری جلد۲ ص۵۸۸ خندق)
اور ایک روایت یہ ہے کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس چٹان پر تین مرتبہ پھاوڑا ماراہر ضرب پر اس میں سے ایک روشنی نکلتی تھی اور اس روشنی میں آپ نے شام و ایران اور یمن کے شہروں کو دیکھ لیااور ان تینوں ملکوں کے فتح ہونے کی صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو بشارت دی۔(2)(زُرقانی جلد۲ ص۱۰۹ و مدارج ج۲ ص۱۶۹)
اور نسائی کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مدائن کسریٰ و مدائن قیصر و مدائن حبشہ کی فتوحات کا اعلان فرمایا۔(3)(نسائی ج۲ ص۶۳)"
حضرت جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ فاقوں سے شکم اقدس پر پتھر بندھا ہوا دیکھ کر میرا دل بھر آیاچنانچہ میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے اجازت لے کر اپنے گھر آیا اور بیوی سے کہا کہ میں نے نبی اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اس قدر شدید بھوک کی حالت میں دیکھا ہے کہ مجھ کو صبر کی تاب نہیں رہی کیا گھر میں کچھ کھانا ہے؟ بیوی نے کہا کہ گھر میں ایک صاع جو کے سوا کچھ بھی نہیں ہے،میں نے کہا کہ تم جلدی سے اس جو کو پیس کر گوندھ لواور اپنے گھر کا پلا ہوا ایک بکری کا بچہ میں نے ذبح کرکے اس کی بوٹیاں بنا دیں اور بیوی سے کہا کہ جلدی سے تم گوشت روٹی تیار کر لومیں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو بلا کر
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب غزوۃ الخندق...الخ،الحدیث:۴۱۰۱،ج۳، ص۵۱ملتقطاً والمواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،باب غزوۃ الخندق...الخ،ج۳،ص۲۷
2۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،باب غزوۃ الخندق...الخ، ج۳،ص۳۱
3۔۔۔۔۔۔سنن النسائی،کتاب الجھاد،باب غزوۃ الترک والحبشۃ،الحدیث:۳۱۷۳،ص۵۱۷ملخصاً"
لاتا ہوں،چلتے وقت بیوی نے کہا کہ دیکھنا صرف حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور چند ہی اصحاب کو ساتھ میں لاناکھانا کم ہی ہے کہیں مجھے رسوا مت کر دینا۔ حضرت جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے خندق پر آ کر چپکے سے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ایک صاع آٹے کی روٹیاں اور ایک بکری کے بچے کا گوشت میں نے گھر میں تیار کرایا ہے لہٰذا آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلمصرف چند اشخاص کے ساتھ چل کر تناول فرما لیں،یہ سن کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے خندق والو!جابر نے دعوت طعام دی ہے لہٰذا سب لوگ ان کے گھر پر چل کر کھانا کھا لیں پھر مجھ سے فرمایا کہ جب تک میں نہ آجاؤں روٹی مت پکوانا،چنانچہ جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تشریف لائے تو گوندھے ہوئے آٹے میں اپنا لعاب دہن ڈال کر برکت کی دعا فرمائی اور گوشت کی ہانڈی میں بھی اپنا لعاب دہن ڈال دیا۔ پھر روٹی پکانے کا حکم دیااور یہ فرمایا کہ ہانڈی چولھے سے نہ اتاری جائے پھر روٹی پکنی شروع ہوئی اور ہانڈی میں سے حضرت جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی بیوی نے گوشت نکال نکال کر دینا شروع کیاایک ہزار آدمیوں نے آسودہ ہو کر کھانا کھا لیامگر گوندھا ہوا آٹا جتنا پہلے تھا اتنا ہی رہ گیا اور ہانڈی چولھے پر بدستور جوش مارتی رہی۔(1) (بخاری ج۲ ص۵۸۹ غزوہ خندق)
اسی طرح ایک لڑکی اپنے ہاتھ میں کچھ کھجوریں لے کر آئی،حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا ہے؟ لڑکی نے جواب دیا کہ کچھ کھجوریں ہیں جو میری ماں نے میرے باپ کے ناشتہ کے لئے بھیجی ہیں،آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کھجوروں کو
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغا زی، باب غزوۃ الخندق...الخ، الحدیث:۴۱۰۱،۴۱۰۲،
ج۳،ص۵۱ ملخصاً"
"اپنے دست مبارک میں لے کر ایک کپڑے پر بکھیر دیا اور تمام اہل خندق کو بلا کر فرمایا کہ خوب سیر ہو کر کھاؤچنانچہ تمام خندق والوں نے شکم سیر ہو کر ان کھجوروں کو کھایا۔ (1)
(مدارج جلد۲ ص۱۶۹)
یہ دونوں واقعات حضور سرور کائنات صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے معجزات میں سے ہیں۔"
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خندق تیار ہو جانے کے بعد عورتوں اور بچوں کو مدینہ کے محفوظ قلعہ میں جمع فرما دیا اور مدینہ پر حضرت ابن اُمِ مکتوم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو اپنا خلیفہ بنا کر تین ہزار انصار و مہاجرین کی فوج کے ساتھ مدینہ سے نکل کر سَلَع پہاڑ کے دامن میں ٹھہرے سلع آپ کی پشت پر تھااور آپ کے سامنے خندق تھی۔ مہاجرین کا جھنڈا حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں دیااور انصار کا علمبردار حضرت سعد بن عبادہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو بنایا۔ (2)(زرقانی جلد۲ ص۱۱۱)
کفار قریش اور ان کے اتحادیوں نے دس ہزار کے لشکر کے ساتھ مسلمانوں پر ہلابول دیا اور تین طرف سے کافروں کا لشکر اس زور شورکے ساتھ مدینہ پر امنڈ پڑا کہ شہر کی فضاؤں میں گردو غبار کا طوفان اٹھ گیااس خوفناک چڑھائی اور لشکر کفار کے دل بادل کی معرکہ آرائی کا نقشہ قرآن کی زبان سے سنیے:
"1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب پنجم ،ج۲،ص۱۶۹،۱۷۰ملخصاً
2۔۔۔۔۔۔السیرۃ الحلبیۃ، باب ذکرمغازیہ، غزوۃالخندق، ج۲، ص۴۲۱،۴۲۲ملتقطاً
والمواھب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب غزوۃ الخندق...الخ، ج۳،ص۳۵"
اِذْ جَآءُوۡکُمۡ مِّنۡ فَوْقِکُمْ وَ مِنْ اَسْفَلَ مِنۡکُمْ وَ اِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَ بَلَغَتِ الْقُلُوۡبُ الْحَنَاجِرَ وَ تَظُنُّوۡنَ بِاللہِ الظُّنُوۡنَا ﴿۱۰﴾ہُنَالِکَ ابْتُلِیَ الْمُؤْمِنُوۡنَ وَ زُلْزِلُوۡا زِلْزَالًا شَدِیۡدًا ﴿۱۱﴾ (1)
"جب کافر تم پر آ گئے تمہارے اوپر سے ا و ر تمہارے نیچے سے اور جب کہ ٹھٹھک کر رہ گئیں نگاہیں اور دل گلوں کے پاس(خوف سے)آ گئے اور تم اﷲ پر (امید و یاس سے) طرح طرح کے گمان کرنے لگے اس جگہ مسلمان آزمائش اور امتحان میں ڈال دئیے گئے اور وہ بڑے زور کے زلزلے میں جھنجھوڑ کر رکھ دئیے گئے۔(احزاب)
منافقین جو مسلمانوں کے دوش بدوش کھڑے تھے وہ کفار کے اس لشکر کو دیکھتے ہی بزدل ہو کر پھسل گئے اوراس وقت ان کے نفاق کا پردہ چاک ہو گیا۔ چنانچہ ان لوگوں نے اپنے گھر جانے کی اجازت مانگنی شروع کر دی۔(2) جیسا کہ قرآن میں اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ"
وَیَسْتَاْذِنُ فَرِیۡقٌ مِّنْہُمُ النَّبِیَّ یَقُوۡلُوۡنَ اِنَّ بُیُوۡتَنَا عَوْرَۃٌ ؕۛ وَمَا ہِیَ بِعَوْرَۃٍ ۚۛ اِنۡ یُّرِیۡدُوۡنَ اِلَّا فِرَارًا ﴿۱۳﴾ (3)
"اور ایک گروہ(منافقین) ان میں سے نبی کی اجازت طلب کرتا تھا منافق کہتے ہیں کہ ہمارے گھر کھلے پڑے ہیں حالانکہ وہ کھلے ہوئے نہیں تھے ان کا مقصد بھاگنے کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔(احزاب)
لیکن اسلام کے سچے جاں نثار مہاجرین و انصار نے جب لشکر کفار کی طوفانی یلغار کو دیکھا تو اس طرح سینہ سپر ہو کر ڈٹ گئے کہ ''سلع'' اور ''احد'' کی پہاڑیاں سر"
"1۔۔۔۔۔۔پ۲۱،الاحزاب:۱۰،۱۱
2۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ و شرح الزرقانی،باب غزوۃ الخندق...الخ،ج۳،ص۴۰ ملخصاً
3۔۔۔۔۔۔پ۲۱،الاحزاب:۱۳"
اٹھا اٹھا کر ان مجاہدین کی اولوالعزمی کو حیرت سے دیکھنے لگیں ان جاں نثاروں کی ایمانی شجاعت کی تصویر صفحات قرآن پر بصورت تحریر دیکھیے ارشاد ربانی ہے کہ
وَلَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُوۡنَ الْاَحْزَابَ ۙ قَالُوۡا ہٰذَا مَا وَعَدَنَا اللہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَ صَدَقَ اللہُ وَ رَسُوۡلُہٗ ۫ وَمَا زَادَہُمْ اِلَّاۤ اِیۡمَانًا وَّ تَسْلِیۡمًا ﴿ؕ۲۲﴾ (1)
اور جب مسلمانوں نے قبائل کفار کے لشکروں کو دیکھا تو بول اٹھے کہ یہ تو وہی منظر ہے جس کا اﷲ اوراسکے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھااور خدا اور اسکا رسول دونوں سچے ہیں اور اس نے ان کے ایمان و اطاعت کو اور زیادہ بڑھا دیا۔(احزاب)
"قبیلہ بنو قریظہ کے یہودی اب تک غیر جانبدار تھے لیکن بنو نضیر کے یہودیوں نے ان کو بھی اپنے ساتھ ملا کر لشکر کفار میں شامل کر لینے کی کوشش شروع کر دی چنانچہ حیی بن اخطب ابو سفیان کے مشورہ سے بنو قریظہ کے سردار کعب بن اسد کے پاس گیا پہلے تو اسنے اپنا دروازہ نہیں کھولا اور کہا کہ ہم محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے حلیف ہیں اور ہم نے ان کو ہمیشہ اپنے عہد کا پابند پایا ہے اس لئے ہم ان سے عہد شکنی کرنا خلاف مروت سمجھتے ہیں مگر بنو نضیر کے یہودیوں نے اس قدر شدید اصرار کیااور طرح طرح سے ورغلایا کہ بالآخر کعب بن اسد معاہدہ توڑنے کے لئے راضی ہو گیا،بنو قریظہ نے جب معاہدہ توڑ دیا اور کفار سے مل گئے تو کفار مکہ اور ابو سفیان خوشی سے باغ باغ ہو گئے۔(2)
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو جب اس کی خبر ملی تو آپ نے حضرت سعد"
"1۔۔۔۔۔۔پ۲۱، الاحزاب:۲۲
2۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ و شرح الزرقانی،باب غزوۃ الخندق...الخ،ج۳،ص۳۵ملخصاً اور جب مسلمانوں نے قبائل کفار کے لشکروں کو دیکھا تو بول اٹھے کہ یہ تو وہی منظر ہے جس کا اﷲ اوراسکے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھااور خدا اور اسکا رسول دونوں سچے ہیں اور اس نے ان کے ایمان و اطاعت کو اور زیادہ بڑھا دیا۔"
"بن معاذ اور حضرت سعد بن عبادہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کو تحقیق حال کے لئے بنو قریظہ کے پاس بھیجاوہاں جا کر معلوم ہوا کہ واقعی بنو قریظہ نے معاہدہ توڑ دیا ہے جب ان دونوں معزز صحابیوں رضی اللہ تعالیٰ عنہمانے بنو قریظہ کو ان کا معاہدہ یاد دلایا تو ان بدذات یہودیوں نے انتہائی بے حیائی کے ساتھ یہاں تک کہہ دیا کہ ہم کچھ نہیں جانتے کہ محمد(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کون ہیں؟ اور معاہدہ کس کو کہتے ہیں؟ ہمارا کوئی معاہدہ ہوا ہی نہیں تھایہ سن کر دونوں حضرات واپس آ گئے اور صورتحال سے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو مطلع کیاتو آپ نے بلند آواز سے ''اﷲ اکبر'' کہا اور فرمایا کہ مسلمانو! تم اس سے نہ گھبراؤنہ اس کا غم کرو اس میں تمہارے لئے بشارت ہے۔ (1)(زرقانی جلد ۲ ص۱۱۳)
کفار کا لشکر جب آگے بڑھا تو سامنے خندق دیکھ کر ٹھہر گیااور شہر مدینہ کا محاصرہ کر لیا اور تقریباً ایک مہینے تک کفار شہر مدینہ کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے پڑے رہے اور یہ محاصرہ اس سختی کے ساتھ قائم رہا کہ حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اورصحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم پر کئی کئی فاقے گزر گئے۔
کفار نے ایک طرف تو خندق کا محاصرہ کر رکھا تھا اور دوسری طرف اس لئے حملہ کرنا چاہتے تھے کہ مسلمانوں کی عورتیں اور بچے قلعوں میں پناہ گزیں تھے مگر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جہاں خندق کے مختلف حصوں پر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو مقرر فرما دیا تھا کہ وہ کفار کے حملوں کا مقابلہ کرتے رہیں اسی طرح عورتوں اور بچوں کی حفاظت کے لئے بھی کچھ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو متعین کر دیا تھا۔"
محاصرہ کی وجہ سے مسلمانوں کی پریشانی دیکھ کر حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم
1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ و شرح الزرقانی،باب غزوۃ الخندق...الخ،ج۳،ص۳۸ملخصاً
"نے یہ خیال کیا کہ کہیں مہاجرین و انصار ہمت نہ ہار جائیں اس لئے آپ نے ارادہ فرمایا کہ قبیلہ غطفان کے سردار عیینہ بن حصن سے اس شرط پر معاہدہ کر لیں کہ وہ مدینہ کی ایک تہائی پیداوار لے لیا کرے اور کفار مکہ کا ساتھ چھوڑ دے مگر جب آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن معاذ اور حضرت سعد بن عبادہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے اپنا یہ خیال ظاہر فرمایاتو ان دونوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) اگر اس بارے میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے وحی اتر چکی ہے جب تو ہمیں اس سے انکار کی مجال ہی نہیں ہو سکتی اور اگر یہ ایک رائے ہے تو یا رسول اﷲ!(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) جب ہم کفر کی حالت میں تھے اس وقت تو قبیلہ غطفان کے سرکش کبھی ہماری ایک کھجور نہ لے سکے اور اب جب کہ اﷲ تعالیٰ نے ہم لوگوں کو اسلام اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی غلامی کی عزت سے سرفراز فرما دیا ہے تو بھلا کیونکر ممکن ہے کہ ہم اپنا مال ان کافروں کو دے دیں گے؟ ہم ان کفار کو کھجوروں کا انبار نہیں بلکہ نیزوں اور تلواروں کی مار کا تحفہ دیتے رہیں گے یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ فرما دے گا،یہ سن کر حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم خوش ہوگئے اورآپ کوپوراپورااطمینان ہو گیا۔(1)
(زرقانی ج۲ص۱۱۳)
خندق کی و جہ سے دست بدست لڑائی نہیں ہو سکتی تھی اور کفار حیران تھے کہ اس خندق کو کیونکر پار کریں مگر دونوں طرف سے روزانہ برابر تیر اور پتھر چلا کرتے تھے آخر ایک روز عمرو بن عبدودو عکرمہ بن ابو جہل وہبیرہ بن ابی وہب وضرار بن الخطاب وغیرہ کفار کے چند بہادروں نے بنو کنانہ سے کہا کہ اٹھوآج مسلمانوں سے جنگ"
1۔۔۔۔۔۔السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، غزوۃ الخندق، ص۳۹۱
کرکے بتا دو کہ شہسوار کون ہے؟ چنانچہ یہ سب خندق کے پاس آ گئے اور ایک ایسی جگہ سے جہاں خندق کی چوڑائی کچھ کم تھی گھوڑا کودا کر خندق کو پار کر لیا۔(1)
"سب سے آگے عمرو بن عبدود تھایہ اگرچہ نوے برس کا خرانٹ بڈھا تھا مگر ایک ہزار سواروں کے برابر بہادر مانا جاتا تھاجنگ ِ بدر میں زخمی ہو کر بھاگ نکلا تھا اور اس نے یہ قسم کھا رکھی تھی کہ جب تک مسلمانوں سے بدلہ نہ لے لوں گا بالوں میں تیل نہ ڈالوں گا،یہ آگے بڑھا اور چلا چلا کر مقابلہ کی دعوت دینے لگاتین مرتبہ اس نے کہا کہ کون ہے جو میرے مقابلہ کو آتا ہے؟ تینوں مرتبہ حضرت علی شیرخداکرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم نے اُٹھ کر جواب دیا کہ ''میں'' حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے روکاکہ اے علی!کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم یہ عمرو بن عبدود ہے۔حضرت علی شیر خداکرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم نے عرض کیا کہ جی ہاں میں جانتا ہوں کہ یہ عمرو بن عبدود ہے لیکن میں اس سے لڑوں گا،یہ سن کر تاجدار نبوت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی خاص تلوار ذوالفقار اپنے دست مبارک سے حیدر کرارکرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کے مقدس ہاتھ میں دے دی اور اپنے مبارک ہاتھوں سے ان کے سر انور پر عمامہ باندھااوریہ دعا فرمائی کہ یااللہ!عزوجل تو علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کی مدد فرما ۔حضرت اسد اﷲ الغالب علی بن ابی طالب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ مجاہدانہ شان سے اس کے سامنے کھڑے ہو گئے اور دونوں میں اس طرح مکالمہ شروع ہوا:
حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اے عمرو بن عبدود! تو مسلمان ہو جا!
عمرو بن عبدود یہ مجھ سے کبھی ہر گز ہر گز نہیں ہو سکتا!"
1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ و شرح الزرقانی، باب غزوۃ الخندق...الخ، ج۳،ص۴۲ملخصاً
"حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ لڑائی سے واپس چلا جا!
عمرو بن عبدود یہ مجھے منظور نہیں!
حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تو پھر مجھ سے جنگ کر!
عمرو بن عبدود ہنس کر کہا کہ میں کبھی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ دنیا
میں کوئی مجھ کو جنگ کی دعوت دے گا۔
حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ لیکن میں تجھ سے لڑنا چاہتا ہوں۔
عمرو بن عبدود آخر تمہارا نام کیا ہے؟
حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ علی بن ابی طالب
عمرو بن عبدود اے بھتیجے!تم ابھی بہت ہی کم عمر ہومیں تمہارا خون
بہانا پسند نہیں کرتا۔
حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ لیکن میں تمہاراخون بہانے کوبے حدپسندکرتا ہوں۔
عمرو بن عبدود خون کھولا دینے والے یہ گرم گرم جملے سن کر مارے غصہ کے آپے سے باہر ہو گیاحضرت شیر خداکرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم پیدل تھے اور یہ سوار تھااس پر جو غیرت سوار ہوئی توگھوڑے سے اتر پڑا اور اپنی تلوار سے گھوڑے کے پاؤں کاٹ ڈالے اور ننگی تلوار لے کر آگے بڑھا اورحضرت شیر خداکرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم پر تلوار کا بھرپور وار کیاحضرت شیر خدا نے تلوار کے اس وار کو اپنی ڈھال پر روکا،یہ وار اتنا سخت تھا کہ تلوار ڈھال اور عمامہ کو کاٹتی ہوئی پیشانی پر لگی گو بہت گہرا زخم نہیں لگامگر پھر بھی زندگی بھریہ طغریٰ آپ کی پیشانی پر یادگار بن کر رہ گیاحضرت علی شیر خدا رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے تڑپ کر للکارا کہ اے عمرو! سنبھل جااب میری باری ہے یہ کہہ کر اسد اﷲ الغالب کرم اللہ تعالیٰ وجہہ"
"الکریم نے ذوالفقار کا ایسا جچا تلا ہاتھ مارا کہ تلوار دشمن کے شانے کو کاٹتی ہوئی کمر سے پار ہو گئی اور وہ تلملا کر زمین پر گرااور دم زدن میں مر کر فی النار ہو گیااور میدان کارزار زبان حال سے پکار اٹھا کہ ؎
شاہِ مرداں، شیرِ یزداں قوتِ پرورد گار
لَا فَتٰی اِلَّا عَلِی لَا سَیْفَ اِلَّا ذُوالْفِقَار
حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس کو قتل کیااور منہ پھیر کر چل دئیے حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اے علی!کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم آپ نے عمرو بن عبدود کی زرہ کیوں نہیں اتار لی ؟سارے عرب میں اس سے اچھی کوئی زرہ نہیں ہے آپ نے فرمایا کہ اے عمر!رضی اللہ تعالیٰ عنہ ذوالفقار کی مار سے وہ اس طرح بے قرار ہو کر زمین پر گرا کہ اس کی شرمگاہ کھل گئی اس لئے حیاء کی وجہ سے میں نے منہ پھیر لیا۔ (1)
(زُرقانی ج۲ ص۱۱۴و۱۱۵)"
اس کے بعد نوفل غصہ میں بپھرا ہوا میدان میں نکلااور پکارنے لگا کہ میرے مقابلہ کے لئے کون آتا ہے؟ حضرت زبیر بن العوام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اس پر بجلی کی طرح جھپٹے اور ایسی تلوار ماری کہ وہ دو ٹکڑے ہو گیا اور تلوار زین کو کاٹتی ہوئی گھوڑے کی کمر تک پہنچ گئی لوگوں نے کہا کہ اے زبیر!رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمہاری تلوار کی تو مثال نہیں مل سکتی آپ نے فرمایاکہ تلوار کیا چیز ہے؟ کلائی میں دم خم اور ضرب میں کمال چاہیے۔ ہبیرہ اور ضرار بھی بڑے طنطنہ سے آگے بڑھے مگر جب ذوالفقار کا وار دیکھا تو لرزہ براندام
1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ و شرح الزرقانی،باب غزوۃ الخندق...الخ، ج۳،ص۴۲ملخصاً
"ہو کر فرار ہو گئے کفار کے باقی شہسوار بھی جو خندق کو پار کرکے آ گئے تھے وہ سب بھی بھاگ کھڑے ہوئے اور ابو جہل کا بیٹا عکرمہ تو اس قدر بدحواس ہو گیا کہ اپنا نیزہ پھینک کر بھاگا اور خندق کے پار جا کر اس کو قرار آیا۔(1)(زرقانی جلد ۲ )
بعض مؤرخین کا قول ہے کہ نوفل کو حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے قتل کیااور بعض نے یہ کہا کہ نوفل حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر حملہ کرنے کی غرض سے اپنے گھوڑے کو کودا کر خندق کو پار کرنا چاہتا تھا کہ خود ہی خندق میں گر پڑااور اس کی گردن ٹوٹ گئی اور وہ مر گیابہر حال کفار مکہ نے دس ہزار درہم میں اس کی لاش کو لینا چاہاتاکہ وہ اس کو اعزاز کے ساتھ دفن کریں حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے رقم لینے سے انکار فرما دیا اور ارشاد فرمایا کہ ہم کو اس لاش سے کوئی غرض نہیں مشرکین اس کو لے جائیں اور دفن کریں ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔(2)(زرقانی جلد۲ ص۱۱۴)
اس دن کاحملہ بہت ہی سخت تھادن بھرلڑائی جاری رہی اوردونوں طرف سے تیراندازی اورپتھربازی کاسلسلہ برابرجاری رہااورکسی مجاہدکااپنی جگہ سے ہٹنانا ممکن تھا، خالد بن ولید نے اپنی فوج کے ساتھ ایک جگہ سے خندق کو پار کر لیا اور بالکل ہی ناگہاں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے خیمہ اقدس پر حملہ آور ہو گیامگر حضرت اسید بن حضیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس کو دیکھ لیا اور دو سو مجاہدین کو ساتھ لے کر دوڑ پڑے اور خالد بن الولید کے دستہ کے ساتھ دست بدست کی لڑائی میں ٹکرا گئے اور خوب جم کر لڑے اس لئے کفار خیمہ اطہر تک نہ پہنچ سکے ۔ (3)(زرقانی جلد۲ ص۱۱۷)"
"1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ و شرح الزرقانی،باب غزوۃ الخندق...الخ، ج۳،ص۴۳ملخصاً
2۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ و شرح الزرقانی،باب غزوۃ الخندق...الخ،ج۳،ص۴۱،۴۳ملتقطاً
3۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب،باب غزوۃ الخندق...الخ،ج۳،ص۴۷ملخصاً"
اس گھمسان کی لڑائی میں حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی نماز عصر قضا ہو گئی۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جنگ خندق کے دن سورج غروب ہونے کے بعد کفار کو برا بھلا کہتے ہوئے بارگاہ ِرسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم میں نماز عصر نہیں پڑھ سکا ۔تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے بھی ابھی تک نماز عصر نہیں پڑھی ہے پھر آپ نے وادی بطحان میں سورج غروب ہو جانے کے بعد نماز عصر قضا پڑھی پھر اس کے بعد نماز مغرب ادا فرمائی۔ اور کفار کے حق میں یہ دعا مانگی کہ
مَلَاَ اللہُ عَلَیْہِمْ بُیُوْتَھُمْ وَقُبُوْرَھُمْ نَارًا کَمَا شَغَلُوْنَا عَنِ الصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی حَتّٰی غَابَتِ الشَّمْسُ (1)(بخاری ج2ص۵۹۰)
" اﷲ ان مشرکوں کے گھروں اور ان کی قبروں کو آگ سے بھر دے ان لوگوں نے ہم کو نماز وسطیٰ سے روک دیایہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔
جنگ خندق کے دن حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ دعا بھی فرمائی کہ :"
اَللّٰھُمَّ مُنْزِلَ الْکِتَابِ سَرِیْعَ الْحِسَابِ اھْزِمِ الْاَحْزَابَ اَللّٰھُمَّ اھْزِمْھُمْ وَزَلْزِلْھُمْ(2)(بخاری ج۲ ص۵۹۰)
اے اﷲ!عزوجل اے کتاب نازل فرمانے والے!جلدحساب لینے والے!تو ان کفار کے لشکروں کو شکست دے دے،اے اﷲ!عزوجل ان کو شکست دے اور انہیں جھنجھوڑ دے۔
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب غزوۃ الخندق،الحدیث:۴۱۱۱،۴۱۱۲،
ج۳، ص۵۴
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب غزوۃ الخندق،الحدیث:۴۱۱۵،ج۳،ص۵۵"
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جنگ خندق کے موقع پر جب کہ کفار مدینہ کا محاصرہ کئے ہوئے تھے اور کسی کے لئے شہر سے باہر نکلنا دشوار تھاتین مرتبہ ارشاد فرمایا کہ کون ہے جو قوم کفار کی خبر لائے؟ تینوں مرتبہ حضرت زبیر بن العوام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی پھوپھی حضرت صفیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے فرزند ہیں یہ کہا کہ ''میں یا رسول اﷲ!( صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)خبر لاؤں گا۔'' حضرت زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی اس جان نثاری سے خوش ہو کر تاجدار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
لِکُلِّ نَبِیٍّ حَوَارِیٌّ وَّاِنَّ حَوَارِیَّ الزُّبَیْرُ (بخاری ج۲ ص۵۹۰)
"ہرنبی کے لئے حواری(مددگارخاص)ہوتے ہیں اور میرا ''حواری'' زبیر ہے۔
اسی طرح حضرت زبیررضی اﷲ تعالیٰ عنہ کوبارگاہ رسالت سے ''حواری'' کا خطاب ملاجو کسی دوسرے صحابی کو نہیں ملا۔(1)"
اس جنگ میں مسلمانوں کا جانی نقصان بہت ہی کم ہوایعنی کل چھ مسلمان شہادت سے سرفرازہوئے مگر انصار کا سب سے بڑا بازو ٹوٹ گیایعنی حضرت سعد بن معاذ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جو قبیلہ اوس کے سردار اعظم تھے،اس جنگ میں ایک تیر سے زخمی ہو گئے اور پھر شفا یاب نہ ہو سکے۔(2)
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب غزوۃ الخندق،الحدیث:۴۱۱۳،ج۳،ص۵۴
2۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، باب غزوۃ الخندق...الخ وباب غزوۃ بنی قریظۃ،
ج۳،ص۴۳،۸۹ ملتقطاً وملخصاً"
"آپ کی شہادت کا واقعہ یہ ہے کہ آپ ایک چھوٹی سی زرہ پہنے ہوئے جوش میں بھرے ہوئے نیزہ لے کر لڑنے کے لئے جا رہے تھے کہ ابن العرقہ نامی کافر نے ایسا نشانہ باندھ کر تیر مارا کہ جس سے آپ کی ایک رگ جس کا نام اکحل ہے وہ کٹ گئی جنگ ختم ہونے کے بعد ان کے لئے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مسجد نبوی میں ایک خیمہ گاڑااور ان کا علاج کرنا شروع کیا۔ خود اپنے دست مبارک سے ان کے زخم کو دو مرتبہ داغا،اسی حالت میں آپ ایک مرتبہ بنی قریظہ تشریف لے گئے اور وہاں یہودیوں کے بارے میں اپنا وہ فیصلہ سنایا جس کا ذکر ''غزوہ قریظہ'' کے عنوان کے تحت آئے گااس کے بعد وہ اپنے خیمہ میں واپس تشریف لائے اور اب ان کا زخم بھرنے لگ گیا تھا لیکن انہوں نے شوق شہادت میں خداوند تعالیٰ سے یہ دعا مانگی کہ
یااﷲ!عزوجل تو جانتا ہے کہ کسی قوم سے جنگ کرنے کی مجھے اتنی زیادہ تمنا نہیں ہے جتنی کفار قریش سے لڑنے کی تمنا ہے جنہوں نے تیرے رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو جھٹلایا اور ان کو ان کے وطن سے نکالا،اے اﷲ!عزوجل میرا تویہی خیال ہے کہ اب تو نے ہمارے اور کفار قریش کے درمیان جنگ کا خاتمہ کر دیا ہے لیکن اگر ابھی کفار قریش سے کوئی جنگ باقی رہ گئی ہوجب تومجھے تو زندہ رکھ تا کہ میں تیری راہ میں ان کافروں سے جہاد کروں اور اگر اب ان لوگوں سے کوئی جنگ باقی نہ رہ گئی ہو تو میرے اس زخم کو تو پھاڑ دے اور اسی زخم میں تو مجھے موت عطا فرما دے۔
آپ کی یہ دعا ختم ہوتے ہی بالکل اچانک آپ کا زخم پھٹ گیااور خون بہ کر مسجد نبوی کے اندر بنی غفار کے خیمہ میں پہنچ گیاان لوگوں نے چونک کر کہا کہ اے خیمہ والو! یہ کیسا خون ہے جو تمہارے خیمہ سے بہ کر ہماری طرف آ رہا ہے؟ جب لوگوں نے"
"دیکھا تو حضرت سعد بن معاذ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے زخم سے خون بہ رہا تھااسی زخم میں ان کی وفات ہو گئی۔(1)(بخاری ج۲ ص۵۹۱ باب مرجع النبی من الاحزاب)
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سعد بن معاذرضی اللہ تعالیٰ عنہ کی موت سے عرش الٰہی ہل گیا اور ان کے جنازہ میں ستر ہزار ملائکہ حاضر ہوئے اور جب ان کی قبر کھودی گئی تو اس میں مشک کی خوشبو آنے لگی۔ (2)(زرقانی ج۲ ص۱۴۳)
عین وفات کے وقت حضور انور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ان کے سرہانے تشریف فرما تھے،انہوں نے آنکھ کھول کر آخری بار جمال نبوت کا نظارہ کیا اور کہا کہ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہِ۔پھر بہ آواز بلند یہ کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اﷲ کے رسول ہیں اور آپ نے تبلیغ رسالت کا حق ادا کر دیا۔(3)(مدارج النبوۃ ج۲ ص۱۸۱)"
جنگ خندق میں ایک ایسا موقع بھی آیا کہ جب یہودیوں نے یہ دیکھا کہ ساری مسلمان فوج خندق کی طرف مصروفِ جنگ ہے تو جس قلعہ میں مسلمانوں کی عورتیں اور بچے پناہ گزین تھے یہودیوں نے اچانک اس پر حملہ کر دیااور ایک یہودی دروازہ تک پہنچ گیا،حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی پھوپھی حضرت صفیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے اس کو دیکھ لیا اور حضرت حسان بن ثابت رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ تم اس یہودی کو قتل کر
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی، باب مرجع النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم من
الاحزاب...الخ، الحدیث:۴۱۲۲،ج۳،ص۵۶ومدارج النبوت ، قسم سوم ، باب
پنجم،ج۲،ص۱۷۱،۱۷۲ملخصاً
2۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، باب غزوۃ بنی قریظۃ،ج۳،ص۹۲،۱۰۰ملتقطاً
3۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب پنجم ،ج۲،ص۱۸۱"
دو،ورنہ یہ جا کر دشمنوں کو یہاں کا حال و ماحول بتا دے گاحضرت حسان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی اس وقت ہمت نہیں پڑی کہ اس یہودی پر حملہ کریں یہ دیکھ کر خود حضرت صفیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے خیمہ کی ایک چوب اکھاڑ کر اس یہودی کے سر پر اس زور سے مارا کہ اس کا سر پھٹ گیاپھرخود ہی اس کا سر کاٹ کر قلعہ کے باہر پھینک دیایہ دیکھ کر حملہ آور یہودیوں کو یقین ہو گیا کہ قلعہ کے اندر بھی کچھ فوج موجود ہے اس ڈر سے انہوں نے پھر اس طرف حملہ کرنے کی جراء ت ہی نہیں کی۔(1)(زرقانی ج۲ ص۱۱۱)
"حضرت نعیم بن مسعود اشجعی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ قبیلہ غطفان کے بہت ہی معزز سردار تھے اور قریش و یہود دونوں کو ان کی ذات پر پورا پورا اعتماد تھایہ مسلمان ہو چکے تھے لیکن کفار کو ان کے اسلام کا علم نہ تھاانہوں نے بارگاہ رسالت میں یہ درخواست کی کہ یارسول اﷲ! صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں یہود اور قریش دونوں سے ایسی گفتگو کروں کہ دونوں میں پھوٹ پڑ جائے،آپ نے اس کی اجازت دے دی چنانچہ انہوں نے یہود اور قریش سے الگ الگ کچھ اس قسم کی باتیں کیں جس سے واقعی دونوں میں پھوٹ پڑ گئی۔
ابو سفیان شدید سردی کے موسم، طویل محاصرہ،فوج کا راشن ختم ہو جانے سے حیران و پریشان تھاجب اس کو یہ پتا چلا کہ یہودیوں نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا ہے تو اس کا حوصلہ پست ہو گیا اور وہ بالکل ہی بددل ہو گیاپھر ناگہاں کفار کے لشکر پر قہر قہار و غضب جبار کی ایسی مار پڑی کہ اچانک مشرق کی جانب سے ایسی طوفان خیز آندھی آئی"
1۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب، باب غزوۃ الخندق...الخ، ج۳، ص۳۷
کہ دیگیں چولھوں پر سے الٹ پلٹ ہو گئیں،خیمے اکھڑ اکھڑ کر اڑ گئے اور کافروں پر ایسی وحشت اور دہشت سوار ہو گئی کہ انہیں راہ فرار اختیار کرنے کے سوا کوئی چارہ کار ہی نہیں رہا،یہی وہ آندھی ہے جس کا ذکر خداوند قدوس نے قرآن میں اس طرح بیان فرمایا کہ
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوۡا نِعْمَۃَ اللہِ عَلَیۡکُمْ اِذْ جَآءَتْکُمْ جُنُوۡدٌ فَاَرْسَلْنَا عَلَیۡہِمْ رِیۡحًا وَّ جُنُوۡدًا لَّمْ تَرَوْہَا ؕ وَ کَانَ اللہُ بِمَا تَعْمَلُوۡنَ بَصِیۡرًا ۚ﴿۹﴾ (1)
"اے ایمان والو! خدا کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم پر فوجیں آ پڑیں تو ہم نے ان پر آندھی بھیج دی۔ اور ایسی فوجیں بھیجیں جو تمہیں نظر نہیں آتی تھیں اور اﷲ تمہارے کاموں کو دیکھنے والا ہے۔ (احزاب)
ابو سفیان نے اپنی فوج میں اعلان کرا دیا کہ راشن ختم ہو چکا،موسم انتہائی خراب ہے،یہودیوں نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیالہٰذا اب محاصرہ بے کار ہے،یہ کہہ کر کوچ کا نقارہ بجا دینے کا حکم دے دیااور بھاگ نکلا قبیلہ غطفان کا لشکر بھی چل دیابنو قریظہ بھی محاصرہ چھوڑ کر اپنے قلعوں میں چلے آئے اور ان لوگوں کے بھاگ جانے سے مدینہ کا مطلع کفار کے گردو غبار سے صاف ہو گیا۔ (2)(مدارج ج۲ ص۱۷۲ و زرقانی ج۲ ص۱۱۶ تا ۱۱۸)"
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جنگ خندق سے فارغ ہو کر اپنے مکان میں تشریف لائے اور ہتھیار اتار کر غسل فرمایا،ابھی اطمینان کے ساتھ بیٹھے بھی نہ تھے کہ ناگہاں
"1۔۔۔۔۔۔پ۲۱،الاحزاب:۹
2۔۔۔۔۔۔السیرۃ الحلبیۃ،باب ذکر مغازیہ ، غزوۃ بنی قریظۃ،ج۲،ص۴۴۱۔۴۴۸ملتقطاً
والمواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،باب غزوۃ الخندق...الخ، ج۳،ص۵۴۔۵۶"
"حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے اور کہا کہ یا رسول اﷲ! صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم آپ نے ہتھیار اتار دیالیکن ہم فرشتوں کی جماعت نے ابھی تک ہتھیار نہیں اتارا ہے اﷲ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بنی قریظہ کی طرف چلیں کیونکہ ان لوگوں نے معاہدہ توڑ کر علانیہ جنگ خندق میں کفار کے ساتھ مل کر مدینہ پر حملہ کیا ہے۔(1)
(مسلم باب جواز قتال من نقض العہدج ۲ ص۹۵)
چنانچہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اعلان کر دیا کہ لوگ ابھی ہتھیار نہ اتاریں اور بنی قریظہ کی طرف روانہ ہو جائیں،حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خود بھی ہتھیار زیب تن فرمایا،اپنے گھوڑے پر جس کا نام ''لحیف'' تھاسوار ہو کر لشکر کے ساتھ چل پڑے اور بنی قریظہ کے ایک کنویں کے پاس پہنچ کر نزول فرمایا۔(2)(زرقانی ج۲ ص۱۲۸)
بنی قریظہ بھی جنگ کے لئے بالکل تیار تھے چنانچہ جب حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ان کے قلعوں کے پاس پہنچے تو ان ظالم اور عہد شکن یہودیوں نے حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو(معاذ اﷲ) گالیاں دیں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کے قلعوں کا محاصرہ فرما لیااور تقریباً ایک مہینہ تک یہ محاصرہ جاری رہایہودیوں نے تنگ آکر یہ درخواست پیش کی کہ ''حضرت سعد بن معاذ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہمارے بارے میں جو فیصلہ کر دیں وہ ہمیں منظور ہے۔''
حضرت سعد بن معاذ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جنگ خندق میں ایک تیر کھا کر شدید طور پر زخمی تھے مگر اسی حالت میں وہ ایک گدھے پر سوار ہو کر بنی قریظہ گئے اور انہوں نے"
"1۔۔۔۔۔۔صحیح مسلم،کتاب الجھادوالسیر،باب جوازقتال من...الخ،الحدیث:۱۷۶۹،ص۹۷۳
2۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ و شرح الزرقانی،باب غزوۃ بنی قریظۃ، ج۳،ص۶۸،۶۹ملتقطاً"
"یہودیوں کے بارے میں یہ فیصلہ فرمایا کہ
''لڑنے والی فوجوں کو قتل کر دیا جائے،عورتیں اور بچے قیدی بنا لئے جائیں اور یہودیوں کا مال و اسباب مال غنیمت بنا کر مجاہدوں میں تقسیم کر دیا جائے۔''
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کی زبان سے یہ فیصلہ سن کر ارشاد فرمایا کہ یقینا بلا شبہ تم نے ان یہودیوں کے بارے میں وہی فیصلہ سنایا ہے جو اللہ کا فیصلہ ہے۔(1)(مسلم جلد۲ ص۹۵)
اس فیصلہ کے مطابق بنی قریظہ کی لڑاکا فوجیں قتل کی گئیں اور عورتوں بچوں کو قیدی بنا لیا گیا اور ان کے مال و سامان کو مجاہدین اسلام نے مال غنیمت بنا لیااور اس شریر و بدعہد قبیلہ کے شروفساد سے ہمیشہ کے لئے مسلمان پرامن و محفوظ ہو گئے۔
یہودیوں کا سردار حیی بن اخطب جب قتل کیلئے مقتل میں لایا گیا تو اس نے قتل ہونے سے پہلے یہ الفاظ کہے کہ
اے محمد!(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) خدا کی قسم! مجھے اس کا ذرا بھی افسوس نہیں ہے کہ میں نے کیوں تم سے عداوت کی لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو خدا کو چھوڑ دیتا ہے،خدا بھی اس کو چھوڑ دیتا ہے،لوگو! خدا کے حکم کی تعمیل میں کوئی مضائقہ نہیں بنی قریظہ کا قتل ہونا یہ ایک حکم الٰہی تھا یہ (توراۃ) میں لکھا ہوا تھایہ ایک سزا تھی جوخدا نے بنی اسرائیل پر لکھی تھی۔(2)(سیرت ابن ہشام غزوۂ بنو قریظہ ج۳ ص۲۴۱)"
"1۔۔۔۔۔۔السیرۃ الحلبیۃ، باب ذکر مغازیہ، غزوۃ بنی قریظۃ،ج۲،ص۴۴۲۔۴۴۸ ملتقطاً
والکامل فی التاریخ، ذکرغزوۃ بنی قریظۃ ،ج۲،ص۷۵،۷۶
2۔۔۔۔۔۔الکامل فی التاریخ ،ذکرغزوۃ بنی قریظۃ ،ج۲،ص۷۶"
"یہ حیی بن اخطب وہی بدنصیب ہے کہ جب وہ مدینہ سے جلا وطن ہو کر خیبر جا رہا تھا تو اس نے یہ معاہدہ کیا تھا کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مخالفت پر میں کسی کو مدد نہ دوں گااور اس عہد پر اس نے خدا کو ضامن بنایا تھا لیکن جنگ خندق کے موقع پر اس نے اس معاہدہ کو کس طرح توڑ ڈالا یہ آپ گزشتہ اوراق میں پڑھ چکے کہ اس ظالم نے تمام کفار عرب کے پاس دورہ کرکے سب کو مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے ابھاراپھر بنو قریظہ کو بھی معاہدہ توڑنے پر اکسایاپھر خود جنگ خندق میں کفار کے ساتھ مل کر لڑائی میں شامل ہوا۔
۵ ھ کے متفرق واقعات
(۱)اس سال حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت بی بی زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح فرمایا۔(1)
(۲)اسی سال مسلمان عورتوں پر پردہ فرض کردیا گیا۔
(۳)اسی سال حد قذف( کسی پر زنا کی تہمت لگانے کی سزا)اور لعان و ظہار کے احکام نازل ہوئے۔
(۴)اسی سال تیمم کی آیت نازل ہوئی۔(2)
(۵)اسی سال نماز خوف کا حکم نازل ہوا۔"
"1۔۔۔۔۔۔الکامل فی التاریخ ، ذکرالاحداث فی السنۃ الخامسۃ ،ج۲،ص۶۹
2۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ و شرح الزرقانی، باب غزوۃ المریسیع، ج۳،ص۹"
"اس سال کے تمام واقعات میں سب سے زیادہ اہم اور شاندار واقعہ ''بیعۃ الرضوان'' اور ''صلح حدیبیہ'' ہے۔ تاریخ اسلام میں اس واقعہ کی بڑی اہمیت ہے۔ کیونکہ اسلام کی تمام آئندہ ترقیوں کا راز اسی کے دامن سے وابستہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گوبظاہر یہ ایک مغلوبانہ صلح تھی مگر قرآن مجید میں خداوند عالم نے اس کو ''فتح مبین'' کا لقب عطا فرمایا ہے۔
ذوالقعدہ ۶ھ میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم چودہ سو صحابۂ کرام کے ساتھ عمرہ کا احرام باندھ کر مکہ کے لئے روانہ ہوئے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اندیشہ تھا کہ شاید کفار مکہ ہمیں عمرہ ادا کرنے سے روکیں گے اس لئے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے پہلے ہی قبیلۂ خزاعہ کے ایک شخص کو مکہ بھیج دیا تھا تاکہ وہ کفارمکہ کے ارادوں کی خبر لائے۔ جب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا قافلہ مقام ''عسفان'' کے قریب پہنچا تو وہ شخص یہ خبر لے کر آیا کہ کفارمکہ نے تمام قبائل عرب کے کافروں کو جمع کرکے یہ کہہ دیا ہے کہ مسلمانوں کو ہرگز ہرگز مکہ میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔ چنانچہ کفارقریش نے اپنے تمام ہمنوا قبائل کو جمع کرکے ایک فوج تیار کرلی اور مسلمانوں کا راستہ روکنے کے لئے مکہ سے باہر نکل کر مقامِ ''بلدح'' میں پڑاؤ ڈال دیا۔ اور خالد بن الولید اور ابوجہل کا بیٹا عکرمہ یہ دونوں دو سوچنے ہوئے سواروں کا دستہ لے کر مقام ''غمیم'' تک پہنچ گئے۔ جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو راستہ میں خالد بن الولید کے سواروں کی گرد نظر آئی تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے شاہراہ"
"سے ہٹ کر سفر شروع کردیا اور عام راستہ سے کٹ کر آگے بڑھے اور مقام ''حدیبیہ'' میں پہنچ کر پڑاؤ ڈالا۔ یہاں پانی کی بے حد کمی تھی۔ ایک ہی کنواں تھا۔ وہ چند گھنٹوں ہی میں خشک ہوگیا۔ جب صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم پیاس سے بے تاب ہونے لگے تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک بڑے پیالہ میں اپنا دست مبارک ڈال دیا اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس انگلیوں سے پانی کا چشمہ جاری ہوگیا۔ پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خشک کنویں میں اپنے وضو کا غسالہ اور اپنا ایک تیر ڈال دیا تو کنویں میں اس قدر پانی ابل پڑا کہ پورا لشکر اور تمام جانور اس کنویں سے کئی دنوں تک سیراب ہوتے رہے۔(1)
(بخاری غزوۂ حدیبیہ ج ۲ ص ۵۹۸و بخاری ج۱ص۳۷۸ )"
مقام حدیبیہ میں پہنچ کر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ دیکھا کہ کفار قریش کا ایک عظیم لشکر جنگ کے لئے آمادہ ہے اور ادھر یہ حال ہے کہ سب لوگ احرام باندھے ہوئے ہیں اس حالت میں جوئیں بھی نہیں مار سکتے تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مناسب سمجھا کہ کفارمکہ سے مصالحت کی گفتگو کرنے کے لئے کسی کو مکہ بھیج دیا جائے۔ چنانچہ اس کام کے لئے آپ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو منتخب فرمایا۔ لیکن انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کردی کہ یارسول اللہ!صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کفارقریش میرے بہت ہی سخت دشمن ہیں اور مکہ میں میرے قبیلہ کا کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ہے جو مجھ کو ان کافروں سے بچا سکے۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مکہ بھیجا۔ انہوں نے مکہ پہنچ کر کفارقریش کو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی طرف سے صلح کا پیغام پہنچایا۔ حضرت عثمان
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب غزوۃ الحدیبیۃ،الحدیث:۴۱۵۰،۴۱۵۲،
ج۳، ص۶۸،۶۹ملخصاً والکامل فی التاریخ ،ذکرعمرۃ الحدیبیۃ،ج۲،ص۸۶، ۸۷ملخصاً"
رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی مالداری اور اپنے قبیلہ والوں کی حمایت و پاسداری کی وجہ سے کفار قریش کی نگاہوں میں بہت زیادہ معزز تھے۔ اس لئے کفارقریش ان پر کوئی درازدستی نہیں کرسکے۔ بلکہ ان سے یہ کہا کہ ہم آپ کو اجازت دیتے ہیں کہ آپ کعبہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کرکے اپنا عمرہ ادا کرلیں مگر ہم محمد(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کو کبھی ہرگز ہرگز کعبہ کے قریب نہ آنے دیں گے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انکار کردیا اور کہا کہ میں بغیر رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو ساتھ لئے کبھی ہرگز ہرگز اکیلے اپنا عمرہ نہیں ادا کرسکتا۔ اس پر بات بڑھ گئی اور کفار نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مکہ میں روک لیا۔ مگر حدیبیہ کے میدان میں یہ خبر مشہور ہوگئی کہ کفار قریش نے ان کو شہید کردیا۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو جب یہ خبر پہنچی تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خون کا بدلہ لینا فرض ہے۔ یہ فرماکر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ایک ببول کے درخت کے نیچے بیٹھ گئے اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے فرمایا کہ تم سب لوگ میرے ہاتھ پر اس بات کی بیعت کرو کہ آخری دم تک تم لوگ میرے وفادار اور جاں نثارر ہوگے۔ تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے نہایت ہی ولولہ انگیز جوش و خروش کے ساتھ جاں نثاری کا عہد کرتے ہوئے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دست حق پرست پر بیعت کرلی۔ یہی وہ بیعت ہے جس کا نام تاریخ اسلام میں ''بیعۃ الرضوان'' ہے۔ حضرت حق جل مجدہ نے اس بیعت اور اس درخت کا تذکرہ قرآن مجید کی سورهٔ فتح میں اس طرح فرمایا ہے کہ
اِنَّ الَّذِیۡنَ یُبَایِعُوۡنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوۡنَ اللہَ ؕ یَدُ اللہِ فَوْقَ اَیۡدِیۡہِمْ ۚ (1)
یقینا جو لوگ (اے رسول) تمہاری بیعت کرتے ہیں وہ تو اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے۔
1۔۔۔۔۔۔پ۲۶، الفتح:۱۰
اسی سورہ فتح میں دوسری جگہ ان بیعت کرنے والوں کی فضیلت اور ان کے اجروثواب کا قرآن مجید میں اس طرح خطبہ پڑھا کہ
لَقَدْ رَضِیَ اللہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیۡنَ اِذْ یُبَایِعُوۡنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیۡ قُلُوۡبِہِمْ فَاَنۡزَلَ السَّکِیۡنَۃَ عَلَیۡہِمْ وَ اَثَابَہُمْ فَتْحًا قَرِیۡبًا ﴿ۙ۱۸﴾ (1)
"بے شک اللہ راضی ہوا ایمان والوں سے جب وہ درخت کے نیچے تمہاری بیعت کرتے تھے تو اللہ نے جانا جوان کے دلوں میں ہے پھر ان پر اطمینان اتار دیا اور انہیں جلد آنے والی فتح کا انعام دیا۔
لیکن ''بیعۃ الرضوان'' ہوجانے کے بعد پتا چلا کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کی خبر غلط تھی۔ وہ باعزت طورپر مکہ میں زندہ و سلامت تھے اور پھر وہ بخیروعافیت حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر بھی ہوگئے۔(2)"
"حدیبیہ میں سب سے پہلا شخص جو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا وہ بدیل بن ورقاء خزاعی تھا۔ ان کا قبیلہ اگرچہ ابھی تک مسلمان نہیں ہوا تھا مگر یہ لوگ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حلیف اور انتہائی مخلص و خیرخواہ تھے۔ بدیل بن ورقاء نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو خبر دی کہ کفارقریش نے کثیرتعداد میں فوج جمع کرلی ہے اور فوج کے ساتھ راشن کے لئے دودھ والی اونٹنیاں بھی ہیں۔ یہ لوگ آپ سے جنگ کریں گے اور آپ کو خانہ کعبہ تک نہیں پہنچنے دیں گے۔
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم قریش کو میرا یہ پیغام پہنچا دو کہ ہم"
"1۔۔۔۔۔۔پ۲۶،الفتح:۱۸
2۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، باب امر الحدیبیۃ، ج۳، ص۲۲۲۔۲۲۶"
"جنگ کے ارادہ سے نہیں آئے ہیں اور نہ ہم جنگ چاہتے ہیں۔ ہم یہاں صرف عمرہ ادا کرنے کی غرض سے آئے ہیں۔ مسلسل لڑائیوں سے قریش کو بہت کافی جانی ومالی نقصان پہنچ چکا ہے۔ لہٰذا ان کے حق میں بھی یہی بہتر ہے کہ وہ جنگ نہ کریں بلکہ مجھ سے ایک مدت معینہ تک کے لئے صلح کا معاہدہ کرلیں اور مجھ کو اہل عرب کے ہاتھ میں چھوڑ دیں۔ اگر قریش میری بات مان لیں تو بہتر ہوگااور اگر انہوں نے مجھ سے جنگ کی تو مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے کہ میں ان سے اس وقت تک لڑوں گا کہ میری گردن میرے بدن سے الگ ہوجائے۔
بدیل بن ورقاء آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا یہ پیغام لے کر کفارقریش کے پاس گیا اور کہا کہ میں محمد(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کا ایک پیغام لے کر آیا ہوں۔ اگر تم لوگوں کی مرضی ہوتو میں ان کا پیغام تم لوگوں کو سناؤں۔ کفارقریش کے شرارت پسند لونڈے جن کا جوش ان کے ہوش پر غالب تھا شورمچانے لگے کہ نہیں! ہرگزنہیں! ہمیں ان کا پیغام سننے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن کفارقریش کے سنجیدہ اور سمجھدار لوگوں نے پیغام سنانے کی اجازت دے دی اور بدیل بن ورقاء نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی دعوت صلح کو ان لوگوں کے سامنے پیش کردیا۔ یہ سن کر قبیلہ قریش کا ایک بہت ہی معمر اور معزز سردار عروہ بن مسعود ثقفی کھڑا ہوگیا اور اس نے کہا کہ اے قریش!کیا میں تمہارا باپ نہیں؟ سب نے کہا کہ کیوں نہیں۔ پھر اس نے کہا کہ کیا تم لوگ میرے بچے نہیں؟سب نے کہا کہ کیوں نہیں۔ پھر اس نے کہا کہ میرے بارے میں تم لوگوں کو کوئی بدگمانی تو نہیں؟ سب نے کہا کہ نہیں !ہرگز نہیں۔ اس کے بعد عروہ بن مسعود نے کہا کہ محمد(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) نے بہت ہی سمجھداری اور بھلائی کی بات پیش کردی۔ لہٰذا تم لوگ مجھے اجازت"
"دو کہ میں ان سے مل کر معاملات طے کروں۔سب نے اجازت دے دی کہ بہت اچھا! آپ جایئے۔ عروہ بن مسعود وہاں سے چل کر حدیبیہ کے میدان میں پہنچا اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے یہ کہا کہ بدیل بن ورقاء کی زبانی آپ کا پیغام ہمیں ملا۔ اے محمد(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) مجھے آپ سے یہ کہنا ہے کہ اگر آپ نے لڑ کر قریش کو برباد کرکے دنیا سے نیست و نابود کردیا تو مجھے بتایئے کہ کیا آپ سے پہلے کبھی کسی عرب نے اپنی ہی قوم کو برباد کیا ہے؟ اور اگر لڑائی میں قریش کا پلہ بھاری پڑا تو آپ کے ساتھ جو یہ لشکر ہے میں ان میں ایسے چہروں کو دیکھ رہا ہوں کہ یہ سب آپ کو تنہا چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔ عروہ بن مسعود کا یہ جملہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صبر و ضبط کی تاب نہ رہی۔ انہوں نے تڑپ کر کہا کہ اے عروہ!چپ ہو ،جا! اپنی دیوی ''لات'' کی شرمگاہ چوس،کیا ہم بھلا اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔
عروہ بن مسعود نے تعجب سے پوچھا کہ یہ کون شخص ہے؟ لوگوں نے کہا کہ ''یہ ابوبکر ہیں۔'' عروہ بن مسعود نے کہا کہ مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، اے ابوبکر!اگر تیرا ایک احسان مجھ پر نہ ہوتا جس کا بدلہ میں اب تک تجھ کو نہیں دے سکا ہوں تو میں تیری اس تلخ گفتگو کا جواب دیتا۔(1) عروہ بن مسعود اپنے کو سب سے بڑا آدمی سمجھتا تھا۔ اس لئے جب بھی وہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے کوئی بات کہتا تو ہاتھ بڑھا کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ریش مبارک پکڑ لیتا تھا اور بار بار آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس داڑھی پر ہاتھ ڈالتا تھا۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو ننگی تلوار لے کر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے تھے۔ وہ عروہ بن مسعود"
1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب ششم ،ج۲،ص۲۰۴،۲۰۶ملخصاً
"کی اس جرأت اور حرکت کو برداشت نہ کرسکے۔ عروہ بن مسعود جب ریش مبارک کی طرف ہاتھ بڑھاتا تو وہ تلوار کا قبضہ اس کے ہاتھ پر مار کر اس سے کہتے کہ ریش مبارک سے اپنا ہاتھ ہٹا لے۔ عروہ بن مسعود نے اپنا سر اٹھایا اور پوچھا کہ یہ کون آدمی ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ مغیرہ بن شعبہ ہیں۔ تو عروہ بن مسعود نے ڈانٹ کر کہا کہ اے دغاباز!کیا میں تیری عہدشکنی کو سنبھالنے کی کوشش نہیں کررہا ہوں؟(حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چند آدمیوں کو قتل کردیا تھا جس کا خون بہا عروہ بن مسعود نے اپنے پاس سے ادا کیا تھا یہ اسی طرف اشارہ تھا)(1)
اس کے بعد عروہ بن مسعود صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو دیکھنے لگا اور پوری لشکرگاہ کو دیکھ بھال کر وہاں سے روانہ ہوگیا۔ عروہ بن مسعود نے حدیبیہ کے میدان میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی حیرت انگیز اور تعجب خیز عقیدت و محبت کا جو منظر دیکھا تھا اس نے اس کے دل پر بڑا عجیب اثر ڈالا تھا۔ چنانچہ اس نے قریش کے لشکر میں پہنچ کر اپنا تاثر ان لفظوں میں بیان کیا۔
''اے میری قوم!خدا کی قسم!جب محمد(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)اپنا کھنکھار تھوکتے ہیں تو وہ کسی نہ کسی صحابی کی ہتھیلی میں پڑتا ہے اور وہ فرط عقیدت سے اس کو اپنے چہرے اور اپنی کھال پر مل لیتا ہے۔ اور اگر وہ کسی بات کا ان لوگوں کو حکم دیتے ہیں تو سب کے سب اس کی تعمیل کے لئے جھپٹ پڑتے ہیں۔ اور وہ جب وضو کرتے ہیں تو ان کے اصحاب ان کے وضو کے دھوون کو اس طرح لوٹتے ہیں کہ گویا ان میں تلوار چل پڑے گی اور وہ جب کوئی گفتگو کرتے ہیں تو تمام اصحاب خاموش ہوجاتے ہیں۔ اور"
1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب ششم ،ج۲،ص۲۰۶،۲۰۷ملخصاً
"ان کے ساتھیوں کے دلوں میں ان کی اتنی زبردست عظمت ہے کہ کوئی شخص ان کی طرف نظر بھر دیکھ نہیں سکتا۔ اے میری قوم!خدا کی قسم! میں نے بہت سے بادشاہوں کا دربار دیکھاہے۔میں قیصروکسریٰ اور نجاشی کے درباروں میں بھی باریاب ہوچکا ہوں۔ مگر خدا کی قسم!میں نے کسی بادشاہ کے درباریوں کو اپنے بادشاہ کی اتنی تعظیم کرتے ہوئے نہیں دیکھا ہے جتنی تعظیم محمد(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کے ساتھی محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کی کرتے ہیں۔''(1)
عروہ بن مسعود کی یہ گفتگو سن کر قبیلہ بنی کنانہ کے ایک شخص نے جس کانام ''حلیس'' تھا، کہا کہ تم لوگ مجھ کو اجازت دو کہ میں ان کے پاس جاؤں۔ قریش نے کہا کہ ''ضرور جایئے'' چنانچہ یہ شخص جب بارگاہ رسالت کے قریب پہنچا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے فرمایا کہ یہ فلاں شخص ہے اور یہ اس قوم سے تعلق رکھتا ہے جو قربانی کے جانوروں کی تعظیم کرتے ہیں۔ لہٰذا تم لوگ قربانی کے جانوروں کو اس کے سامنے کھڑا کردواور سب لوگ ''لبیک'' پڑھنا شروع کردو۔ اس شخص نے جب قربانی کے جانوروں کو دیکھا اور احرام کی حالت میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو ''لبیک'' پڑھتے ہوئے سنا تو کہا کہ سبحان اللہ!بھلا ان لوگوں کو کس طرح مناسب ہے کہ بیت اللہ سے روک دیا جائے؟ وہ فوراً ہی پلٹ کر کفار قریش کے پاس پہنچا اور کہا کہ میں اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آرہا ہوں کہ قربانی کے جانور ان لوگوں کے ساتھ ہیں اور سب احرام کی حالت میں ہیں۔لہٰذا میں کبھی بھی یہ رائے نہیں دے سکتا کہ ان لوگوں کو خانہ کعبہ سے روک دیا جائے۔ اس کے بعد ایک شخص کفارقریش کے لشکر میں سے کھڑا ہوگیا جس"
1۔۔۔۔۔۔الکامل فی التاریخ ، ذکرعمرۃ الحدیبیۃ ،ج۲،ص۸۸
کا نام مکرز بن حفص تھا اس نے کہا کہ مجھ کو تم لوگ وہاں جانے دو۔ قریش نے کہا: ''تم بھی جاؤ'' چنانچہ یہ چلا۔ جب یہ نزدیک پہنچا تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ مکرز ہے۔ یہ بہت ہی لچا آدمی ہے۔ اس نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے گفتگو شروع کی۔ ابھی اس کی بات پوری بھی نہ ہوئی تھی کہ ناگہاں ''سہیل بن عمرو'' آگیا اس کو دیکھ کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے نیک فالی کے طور پریہ فرمایا کہ سہیل آگیا ، لو! اب تمہارا معاملہ سہل ہو گیا۔(1) چنانچہ سہیل نے آتے ہی کہا کہ آیئے ہم اور آپ اپنے اور آپ کے درمیان معاہدہ کی ایک دستاویز لکھ لیں۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کو منظور فرما لیا اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دستاویز لکھنے کے لئے طلب فرمایا۔ سہیل بن عمرو اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے درمیان دیر تک صلح کے شرائط پر گفتگو ہوتی رہی۔ بالآخر چند شرطوں پردونوں کااتفاق ہوگیا۔حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ارشاد فرمایا کہ لکھو بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم سہیل نے کہا کہ ہم ''رحمن'' کو نہیں جانتے کہ یہ کیا ہے؟ آپ ''باسمک اللھم'' لکھوایئے جو ہمارا اور آپ کا پرانا دستور رہاہے۔ مسلمانوں نے کہا کہ ہم بسم اﷲ الرحمن الرحیم کے سوا کوئی دوسرا لفظ نہیں لکھیں گے۔ مگر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے سہیل کی بات مان لی اور فرمایا کہ اچھا۔ اے علی! باسمک اللھم ہی لکھ دو۔ پھر حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ عبارت لکھوائی۔ ھذا ما قاضٰی علیہ محمد رسول اﷲ یعنی یہ وہ شرائط ہیں جن پر قریش کے ساتھ محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے صلح کا فیصلہ کیا۔ سہیل پھر بھڑک گیا اور کہنے لگا کہ خدا کی قسم!اگر ہم جان لیتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو نہ ہم آپ کو بیت اللہ سے روکتے نہ آپ کے ساتھ جنگ کرتے لیکن آپ ''محمد بن عبداللہ'' لکھیئے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا کی قسم!
1۔۔۔۔۔۔الکامل فی التاریخ ، ذکرعمرۃ الحدیبیۃ ،ج۲، ص۸۸،۸۹
"میں محمد رسول اللہ بھی ہوں اور محمد بن عبداللہ بھی ہوں۔ یہ اور بات ہے کہ تم لوگ میری رسالت کو جھٹلاتے ہو۔ یہ کہہ کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ محمد رسول اللہ کو مٹا دو اور اس جگہ محمد بن عبداللہ لکھ دو۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے زیادہ کون مسلمان آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا فرمانبردار ہوسکتا ہے؟ لیکن محبت کے عالم میں کبھی کبھی ایسا مقام بھی آجاتا ہے کہ سچے محب کو بھی اپنے محبوب کی فرمانبرداری سے محبت ہی کے جذبہ میں انکار کرنا پڑتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ!صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں آپ کے نام کو تو کبھی ہرگز ہرگز نہیں مٹاؤں گا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا مجھے دکھاؤ میرا نام کہاں ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس جگہ پر انگلی رکھ دی۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے وہاں سے ''رسول اللہ'' کا لفظ مٹا دیا۔ بہرحال صلح کی تحریر مکمل ہوگئی۔ اس دستاویز میں یہ طے کردیا گیا کہ فریقین کے درمیان دس سال تک لڑائی بالکل موقوف رہے گی۔ صلح نامہ کی باقی دفعات اور شرطیں یہ تھیں کہ
(۱)مسلمان اس سال بغیر عمرہ ادا کیے واپس چلے جائیں۔
(۲)آئندہ سال عمرہ کیلئے آئیں اور صرف تین دن مکہ میں ٹھہر کر واپس چلے جائیں۔
(۳)تلوار کے سوا کوئی دوسرا ہتھیار لے کر نہ آئیں۔ تلوار بھی نیام کے اندر رکھ کر تھیلے وغیرہ میں بند ہو۔
(۴)مکہ میں جو مسلمان پہلے سے مقیم ہیں ان میں سے کسی کو اپنے ساتھ نہ لے جائیں اور مسلمانوں میں سے اگر کوئی مکہ میں رہنا چاہے تو اس کو نہ روکیں۔
(۵)کافروں یا مسلمانوں میں سے کوئی شخص اگر مدینہ چلا جائے تو واپس کردیا جائے"
"لیکن اگر کوئی مسلمان مدینہ سے مکہ میں چلا جائے تو وہ واپس نہیں کیا جائے گا۔
(۶)قبائل عرب کو اختیار ہوگا کہ وہ فریقین میں سے جس کے ساتھ چاہیں دوستی کا معاہدہ کرلیں۔
یہ شرطیں ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے سخت خلاف تھیں اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو اس پر بڑی زبردست ناگواری ہورہی تھی مگر وہ فرمان رسالت کے خلاف دم مارنے سے مجبور تھے۔(1) (ابن ہشام ج۳ ص ۳۱۷ وغیرہ )"
یہ عجیب اتفاق ہے کہ معاہدہ لکھا جا چکا تھا لیکن ابھی اس پر فریقین کے دستخط نہیں ہوئے تھے کہ اچانک اسی سہیل بن عمرو کے صاحبزادے حضرت ابوجندل رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی بیڑیاں گھسیٹتے ہوئے گرتے پڑتے حدیبیہ میں مسلمانوں کے درمیان آن پہنچے۔ سہیل بن عمرو اپنے بیٹے کو دیکھ کر کہنے لگا کہ اے محمد!(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)اس معاہدہ کی دستاویز پر دستخط کرنے کے لئے میری پہلی شرط یہ ہے کہ آپ ابوجندل کو میری طرف واپس لوٹایئے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابھی تو اس معاہدہ پر فریقین کے دستخط ہی نہیں ہوئے ہیں۔ ہمارے اور تمہارے دستخط ہوجانے کے بعد یہ معاہدہ نافذ ہوگا۔ یہ سن کر سہیل بن عمرو کہنے لگا کہ پھر جایئے۔ میں آپ سے کوئی صلح نہیں کروں گا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا اے سہیل!تم اپنی طرف سے اجازت دے دو کہ میں ابوجندل کو اپنے پاس رکھ لوں۔ اس نے کہا کہ میں ہرگز کبھی
1۔۔۔۔۔۔الکامل فی التاریخ،ذکرعمرۃ الحدیبیۃ،ج۲،ص۸۹،۹۰والسیرۃ النبویۃ لابن ھشام، امرالحدیبیۃ فی اٰخر سنۃ...الخ،ص۴۳۱والسیرۃ الحلبیۃ،باب ذکر مغازیہ،غزوۃ الحدیبیۃ، ج۳،ص۲۹وشرح الزرقانی علی المواھب،باب امرالحدیبیۃ،ج۳،ص۱۹۸۔ ۲۰۰، ۲۰۸۔۲۱۰
"اس کی اجازت نہیں دے سکتا۔ حضرت ابوجندل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب دیکھا کہ میں پھر مکہ لوٹا دیا جاؤں گا تو انہوں نے مسلمانوں سے فریاد کی اور کہا کہ اے جماعت مسلمین!دیکھو میں مشرکین کی طرف لوٹایا جارہاہوں حالانکہ میں مسلمان ہوں اور تم مسلمانوں کے پاس آگیا ہوں کفار کی مار سے ان کے بدن پر چوٹوں کے جو نشانات تھے انہوں نے ان نشانات کو دکھا دکھا کر مسلمانوں کو جوش دلایا۔(1)
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر حضرت ابوجندل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تقریر سن کر ایمانی جذبہ سوار ہوگیا اور وہ دندناتے ہوئے بارگاہ رسالت میں پہنچے اور عرض کیا کہ کیا آپ سچ مچ اللہ کے رسول نہیں ہیں؟ ارشاد فرمایا کہ کیوں نہیں؟ انہوں نے کہا کہ کیا ہم حق پر اور ہمارے دشمن باطل پر نہیں ہیں؟ ارشاد فرمایا کہ کیوں نہیں؟ پھر انہوں نے کہا کہ تو پھر ہمارے دین میں ہم کو یہ ذلت کیوں دی جارہی ہے؟ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عمر! میں اللہ کا رسول ہوں۔میں اس کی نافرمانی نہیں کرتاہوں۔ وہ میرا مددگار ہے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ!صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کیا آپ ہم سے یہ وعدہ نہ فرماتے تھے کہ ہم عنقریب بیت اللہ میں آکر طواف کریں گے؟ ارشاد فرمایا کہ کیا میں نے تم کو یہ خبر دی تھی کہ ہم اسی سال بیت اللہ میں داخل ہوں گے؟ انہوں نے کہا کہ ''نہیں'' آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں پھر کہتا ہوں کہ تم یقینا کعبہ میں پہنچو گے اور اس کا طواف کرو گے۔
درباررسالت سے اٹھ کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور وہی گفتگو کی جو بارگاہ رسالت میں عرض کرچکے تھے۔"
"1۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب، باب امر الحدیبیۃ، ج۳، ص۲۱۱۔۲۱۳
وکتاب المغا زی للواقدی، غزوۃ الحدیبیۃ،ج۲، ص۲۰۸"
"آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اے عمر!وہ خدا کے رسول ہیں۔ وہ جو کچھ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ہی کے حکم سے کرتے ہیں وہ کبھی خدا کی نافرمانی نہیں کرتے اور خدا ان کا مددگار ہے اور خدا کی قسم!یقینا وہ حق پر ہیں لہٰذا تم ان کی رکاب تھامے رہو۔(1) (ابن ہشام ج ۳ص۳۱۷ )
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تمام عمر اِن باتوں کا صدمہ اور سخت رنج و افسوس رہا جو انہوں نے جذبہ بے اختیاری میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے کہہ دی تھیں۔ زندگی بھر وہ اس سے توبہ و استغفار کرتے رہے اور اس کے کفارہ کے لئے انہوں نے نمازیں پڑھیں، روزے رکھے،خیرات کی، غلام آزاد کئے۔بخاری شریف میں اگرچہ ان اعمال کا مفصل تذکرہ نہیں ہے، اجمالاً ہی ذکر ہے لیکن دوسری کتابوں میں نہایت تفصیل کے ساتھ یہ تمام باتیں بیان کی گئی ہیں۔(2)
بہرحال یہ بڑے سخت امتحان اور آزمائش کا وقت تھا۔ ایک طرف حضرت ابوجندل رضی اللہ تعالیٰ عنہ گڑگڑا کر مسلمانوں سے فریاد کررہے ہیں اور ہر مسلمان اس قدر جوش میں بھرا ہوا ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ادب مانع نہ ہوتا تو مسلمانوں کی تلواریں نیام سے باہر نکل پڑتیں۔ دوسری طرف معاہدہ پر دستخط ہوچکے ہیں اور اپنے عہد کو پورا کرنے کی ذمہ داری سر پر آن پڑی ہے۔ حضورِ انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے موقع کی نزاکت کا خیال فرماتے ہوئے حضرت ابوجندل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ تم صبر کرو۔ عنقریب اللہ تعالیٰ تمہارے لئے اور دوسرے مظلوموں کے لئے ضرور ہی کوئی راستہ"
"1۔۔۔۔۔۔کتاب المغازی للواقدی، غزوۃ الحدیبیۃ،ج۲،ص۶۰۸
وشرح الزرقانی علی المواھب، باب امر الحدیبیۃ، ج۳، ص۲۱۷۔۲۱۹
2۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب، باب امر الحدیبیۃ، ج۳، ص۲۱۳"
"نکالے گا۔ ہم صلح کا معاہدہ کرچکے اب ہم ان لوگوں سے بدعہدی نہیں کرسکتے۔ غرض حضرت ابوجندل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اسی طرح پابزنجیر پھر مکہ واپس جانا پڑا۔(1)
جب صلح نامہ مکمل ہوگیا تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ اٹھو اور قربانی کرو اور سرمنڈا کر احرام کھول دو۔ مسلمانوں کی ناگواری اور ان کے غیظ و غضب کا یہ عالم تھا کہ فرمان نبوی سن کر ایک شخص بھی نہیں اٹھا۔ مگر ادب کے خیال سے کوئی ایک لفظ بول بھی نہ سکا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت بی بی اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے اس کا تذکرہ فرمایا تو انہوں نے عرض کیا کہ میری رائے یہ ہے کہ آپ کسی سے کچھ بھی نہ کہیں اور خود آپ اپنی قربانی کرلیں اور بال ترشوا لیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا۔ جب صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو قربانی کرکے احرام اتارتے دیکھ لیا تو پھر وہ لوگ مایوس ہوگئے کہ اب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اپنا فیصلہ نہیں بدل سکتے تو سب لوگ قربانی کرنے لگے اور ایک دوسرے کے بال تراشنے لگے مگر اس قدر رنج و غم میں بھرے ہوئے تھے کہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک دوسرے کو قتل کرڈالے گا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ مدینہ منورہ کیلئے روانہ ہوگئے۔(2) (بخاری ج۲ ص۶۱۰ باب عمرۃ القضاء مسلم جلد ۲ ص۱۰۴صلح حدیبیہ بخاری ج۱ص۳۸۰باب شروط فی الجہاد الخ )"
اس صلح کو تمام صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے ایک مغلوبانہ صلح اور ذلت آمیز معاہدہ
"1۔۔۔۔۔۔کتاب المغازی للواقدی، غزوۃ الحدیبیۃ،ج۲، ص۲۲۰
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب الشروط، باب الشروط فی الجھاد...الخ، الحدیث:۲۷۳۱،
۲۷۳۲، ج۲، ص۲۲۷مفصلاً"
سمجھا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس سے جو رنج و صدمہ گزرا وہ آپ پڑھ چکے۔ مگر اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی کہ
اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیۡنًا ۙ﴿۱﴾ (1)
"اے حبیب!ہم نے آپ کو فتح مبین عطا کی۔
خدا وند قدوس نے اس صلح کو ''فتح مبین'' بتایا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ!(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)کیا یہ ''فتح'' ہے؟ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ''ہاں! یہ فتح ہے۔''
گو اس وقت اس صلح نامہ کے بارے میں صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے خیالات اچھے نہیں تھے۔مگراس کے بعد کے واقعات نے بتا دیا کہ درحقیقت یہی صلح تمام فتوحات کی کنجی ثابت ہوئی اور سب نے مان لیا کہ واقعی صلح حدیبیہ ایک ایسی فتح مبین تھی جو مکہ میں اشاعت اسلام بلکہ فتح مکہ کا ذریعہ بن گئی۔ اب تک مسلمان اور کفار ایک دوسرے سے الگ تھلگ رہتے تھے ایک دوسرے سے ملنے جلنے کا موقع ہی نہیں ملتا تھا مگر اس صلح کی وجہ سے ایک دوسرے کے یہاں آمدورفت آزادی کے ساتھ گفت و شنید اور تبادلۂ خیالات کا راستہ کھل گیا۔ کفارمدینہ آتے اور مہینوں ٹھہر کر مسلمانوں کے کردارواعمال کا گہرا مطالعہ کرتے۔ اسلامی مسائل اور اسلام کی خوبیوں کا تذکرہ سنتے جو مسلمان مکہ جاتے وہ اپنے چال چلن، عفت شعاری اور عبادت گزاری سے کفار کے دلوں پر اسلام کی خوبیوں کا ایسا نقش بٹھا دیتے کہ خودبخود کفاراسلام کی طرف مائل ہوتے جاتے تھے۔ چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ صلح حدیبیہ سے فتح مکہ تک اس قدر کثیرتعداد میں لوگ مسلمان ہوئے کہ اتنے کبھی نہیں ہوئے تھے۔"
1۔۔۔۔۔۔پ۲۶، الفتح:۱
چنانچہ حضرت خالد بن الولید(فاتح شام)اور حضرت عمرو بن العاص(فاتح مصر)بھی اسی زمانے میں خودبخود مکہ سے مدینہ جاکر مسلمان ہوئے۔(رضی اللہ تعالیٰ عنہما) (سیرت ابن ہشام ج۳ ص۲۷۷ وص۲۷۸ )
ہجرت کے بعد جو لوگ مکہ میں مسلمان ہوئے انہوں نے کفارکے ہاتھوں بڑی بڑی مصیبتیں برداشت کیں۔ ان کو زنجیروں میں باندھ باندھ کر کفار کوڑے مارتے تھے لیکن جب بھی ان میں سے کوئی شخص موقع پاتا تو چھپ کر مدینہ آجاتا تھا۔ صلح حدیبیہ نے اس کا دروازہ بند کردیاکیونکہ اس صلح نامہ میں یہ شرط تحریر تھی کہ مکہ سے جو شخص بھی ہجرت کرکے مدینہ جائے گا وہ پھر مکہ واپس بھیج دیا جائے گا۔
صلح حدیبیہ سے فارغ ہوکر جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مدینہ واپس تشریف لائے تو سب سے پہلے جو بزرگ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ آئے وہ حضرت ابوبصیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ کفارمکہ نے فوراً ہی دو آدمیوں کو مدینہ بھیجا کہ ہمارا آدمی واپس کردیجئے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت ابوبصیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ ''تم مکے چلے جاؤ، تم جانتے ہو کہ ہم نے کفارقریش سے معاہدہ کرلیا ہے اور ہمارے دین میں عہدشکنی اور غداری جائز نہیں ہے'' حضرت ابوبصیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ!صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کیا آپ مجھ کو کافروں کے حوالہ فرمائیں گے تاکہ وہ مجھ کو کفر پر مجبور کریں؟ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم جاؤ!خداوند کریم تمہاری رہائی کا کوئی سبب بنا دے گا۔ آخر مجبور ہوکر حضرت ابوبصیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں
کافروں کی حراست میں مکہ واپس ہوگئے۔ لیکن جب مقام ''ذوالحلیفہ'' میں پہنچے تو سب کھانے کے لئے بیٹھے اور باتیں کرنے لگے ۔ حضرت ابوبصیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک کافر سے کہا کہ اجی!تمہاری تلوار بہت اچھی معلوم ہوتی ہے۔ اس نے خوش ہوکر نیام سے تلوار نکال کر دکھائی اور کہا کہ بہت ہی عمدہ تلوار ہے اور میں نے بارہا لڑائیوں میں اس کا تجربہ کیا ہے۔ حضرت ابوبصیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ ذرا میرے ہاتھ میں تو دو۔ میں بھی دیکھوں کہ کیسی تلوار ہے؟ اس نے ان کے ہاتھ میں تلوار دے دی۔ انہوں نے تلوار ہاتھ میں لے کر اس زور سے تلوار ماری کہ کافر کی گردن کٹ گئی اور اس کا سر دور جاگرا۔ اس کے ساتھی نے جو یہ منظر دیکھا تو وہ سر پر پیر رکھ کر بھاگا اور سرپٹ دوڑتا ہوا مدینہ پہنچا اور مسجدنبوی میں گھس گیا۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کو دیکھتے ہی فرمایا کہ یہ شخص خوفزدہ معلوم ہوتا ہے۔اس نے ہانپتے کانپتے ہوئے بارگاہ نبوت میں عرض کیا کہ میرے ساتھی کو ابوبصیر نے قتل کردیااورمیں بھی ضرور مارا جاؤں گا۔ اتنے میں حضرت ابوبصیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ننگی تلوار ہاتھ میں لئے ہوئے آن پہنچے اور عرض کیا کہ یارسول اللہ! (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)اللہ تعالیٰ نے آپ کی ذمہ داری پوری کردی کیونکہ صلح نامہ کی شرط کے بموجب آپ نے تو مجھ کو واپس کردیا۔ اب یہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے کہ اس نے مجھ کو ان کافروں سے نجات دے دی۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اس واقعہ سے بڑا رنج پہنچا اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خفاہوکر فرمایا کہ
وَیْلُ اُمِّہٖ مِسْعَرُ حَرْبٍ لَوْ کَانَ لَہٗ اَحَدٌ۔
اس کی ماں مرے!یہ تو لڑائی بھڑکا دے گا کاش اس کے ساتھ کوئی آدمی ہوتا جو اس کو روکتا۔
"حضرت ابوبصیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس جملہ سے سمجھ گئے کہ میں پھر کافروں کی طرف لوٹا دیا جاؤں گا، اس لئے وہ وہاں سے چپکے سے کھسک گئے اور ساحل سمندر کے قریب مقام ''عیص'' میں جاکر ٹھہرے ۔ ادھر مکہ سے حضرت ابوجندل رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی زنجیر کاٹ کر بھاگے اور وہ بھی وہیں پہنچ گئے۔ پھر مکہ کے دوسرے مظلوم مسلمانوں نے بھی موقع پاکر کفار کی قید سے نکل نکل کر یہاں پناہ لینی شروع کردی۔ یہاں تک کہ اس جنگل میں ستر آدمیوں کی جماعت جمع ہوگئی۔ کفارقریش کے تجارتی قافلوں کا یہی راستہ تھا۔ جو قافلہ بھی آمدورفت میں یہاں سے گزرتا،یہ لوگ اس کو لوٹ لیتے۔ یہاں تک کہ کفارقریش کے ناک میں دم کردیا۔ بالآخر کفارقریش نے خدا اور رشتہ داری کا واسطہ دے کر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو خط لکھا کہ ہم صلح نامہ میں اپنی شرط سے باز آئے۔ آپ لوگوں کو ساحل سمندر سے مدینہ بلا لیجئے اور اب ہماری طرف سے اجازت ہے کہ جو مسلمان بھی مکہ سے بھاگ کر مدینہ جائے آپ اس کو مدینہ میں ٹھہرا لیجئے۔ ہمیں اس پرکوئی اعتراض نہ ہوگا۔(1)(بخاری باب الشروط فی الجہاد ج۱ ص۳۸۰ )
یہ بھی روایت ہے کہ قریش نے خود ابوسفیان کو مدینہ بھیجا کہ ہم صلح نامہ حدیبیہ میں اپنی شرط سے دست بردار ہو گئے۔ لہٰذا آپ حضرت ابوبصیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مدینہ میں بلا لیں تاکہ ہمارے تجارتی قافلے ان لوگوں کے قتل و غارت سے محفوظ ہوجائیں۔ چنانچہ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت ابوبصیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس خط بھیجا کہ تم اپنے ساتھیوں سمیت مقامِ ''عیص'' سے مدینہ چلے آؤ۔ مگر افسوس!کہ فرمانِ رسالت"
"1۔۔۔۔۔۔ صحیح البخاری، کتاب الشروط، باب الشروط فی الجھاد...الخ، الحدیث:۲۷۳۱،
۲۷۳۲،ج۲، ص۲۲۷مفصلاً والسیرۃ النبویۃ لابن ھشام، باب ماجری علیہ امر قوم
من...الخ،ص۴۳۴،۴۳۵"
ان کے پاس ایسے وقت پہنچاجب وہ نزع کی حالت میں تھے۔ مقدس خط کو انہوں نے اپنے ہاتھ میں لے کر سر اور آنکھوں پر رکھااور ان کی روح پرواز کرگئی۔ حضرت ابوجندل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل جل کر ان کی تجہیز وتکفین کا انتظام کیا اور دفن کے بعد ان کی قبرشریف کے پاس یادگار کے لئے ایک مسجد بنا دی۔ پھر فرمان رسول کے بموجب یہ سب لوگ وہاں سے آکر مدینہ میں آباد ہوگئے۔(1)(مدارج النبوۃ ج ۲ص۲۱۸ )
" ۶ھ میں صلح حدیبیہ کے بعد جب جنگ و جدال کے خطرات ٹل گئے اور ہر طرف امن و سکون کی فضا پیدا ہوگئی تو چونکہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کا دائرہ صرف خطۂ عرب ہی تک محدود نہیں تھابلکہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تمام عالم کے لئے نبی بناکر بھیجے گئے اس لئے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارادہ فرمایا کہ اسلام کا پیغام تمام دنیا میں پہنچا دیا جائے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے روم کے بادشاہ ''قیصر'' فارس کے بادشاہ ''کسریٰ'' حبشہ کے بادشاہ ''نجاشی'' مصر کے بادشاہ ''عزیز'' اور دوسرے سلاطین عرب و عجم کے نام دعوت اسلام کے خطوط روانہ فرمائے۔
صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں سے کون کون حضرات ان خطوط کو لے کرکن کن بادشاہوں کے دربار میں گئے؟ ان کی فہرست کافی طویل ہے مگر ایک ہی دن چھ خطوط لکھوا کر اور اپنی مہرلگاکر جن چھ قاصدوں کوجہاں جہاں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے روانہ فرمایا وہ یہ ہیں۔"
1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب ششم ،ج۲، ص۲۱۸
"(۱) حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہر قل قیصر روم کے دربار میں
(۲)حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ خسروپرویز شاہ ایران //
(۳)حضرت حاطب رضی اللہ تعالیٰ عنہ مقوقس عزیز مصر //
(۴)حضرت عمروبن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نجاشی بادشاہ حبشہ //
(۵)حضرت سلیط بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوذہ، بادشاہ یمامہ //
(۶)حضرت شجاع بن وہب رضی اللہ تعالیٰ عنہ حارث غسانی والی غسان //(1)
نامہ مبارک اور قیصر
حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا مقدس خط لے کر ''بصریٰ'' تشریف لے گئے اور وہاں قیصرروم کے گورنر شام حارث غسانی کو دیا۔ اس نے اس نامہ مبارک کو ''بیت المقدس'' بھیج دیا ۔کیونکہ قیصرروم ''ہرقل'' ان دنوں بیت المقدس کے دورہ پر آیا ہوا تھا۔ قیصر کو جب یہ مبارک خط ملا تو اس نے حکم دیا کہ قریش کا کوئی آدمی ملے تو اس کو ہمارے دربار میں حاضر کرو۔ قیصر کے حکام نے تلاش کیا تو اتفاق سے ابوسفیان اور عرب کے کچھ دوسرے تاجر مل گئے۔ یہ سب لوگ قیصر کے دربار میں لائے گئے۔ قیصر نے بڑے طمطراق کے ساتھ دربار منعقد کیا اور تاج شاہی پہن کر تخت پر بیٹھا۔ اور تخت کے گرد اراکین سلطنت، بطارقہ اور احبار ورہبان وغیرہ صف باندھ کر کھڑے ہوگئے۔ اسی حالت میں عرب کے تاجروں کا گروہ دربار میں حاضر کیا گیا اور شاہی محل کے تمام دروازے بند کردئیے گئے۔ پھر قیصر نے ترجمان کو بلایا اور اس کے ذریعہ گفتگو شروع کی۔ سب سے پہلے قیصر نے یہ سوال کیا کہ عرب"
1۔۔۔۔۔۔الکامل فی التاریخ ، ذکر مکاتبۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الملوک،ج۲،ص۹۵
"میں جس شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے تم میں سے ان کا سب سے قریبی رشتہ دار کون ہے؟ ابوسفیان نے کہاکہ ''میں'' قیصر نے ان کو سب سے آگے کیااور دوسرے عربوں کو ان کے پیچھے کھڑا کیا اور کہا کہ دیکھو! اگر ابوسفیان کوئی غلط بات کہے تو تم لوگ اس کا جھوٹ ظاہر کردینا۔ پھر قیصر اور ابوسفیان میں جو مکالمہ ہوا وہ یہ ہے۔
قیصر: مدعی نبوت کا خاندان کیسا ہے؟
ابوسفیان: ان کا خاندان شریف ہے۔
قیصر: کیا اس خاندان میں ان سے پہلے بھی کسی نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا؟
ابوسفیان: ''نہیں''۔
قیصر: کیا ان کے باپ داداؤں میں کوئی بادشاہ تھا؟
ابوسفیان: نہیں ۔
قیصر: جن لوگوں نے ان کا دین قبول کیا ہے وہ کمزور لوگ ہیں یا صاحب اثر؟
ابوسفیان: کمزور لوگ ہیں۔
قیصر: ان کے متبعین بڑھ رہے ہیں یا گھٹتے جارہے ہیں؟
ابوسفیان: بڑھتے جارہے ہیں۔
قیصر: کیا کوئی ان کے دین میں داخل ہوکر پھر اس کو ناپسند کرکے پلٹ بھی
جاتا ہے؟
ابوسفیان: ''نہیں''۔
قیصر: کیا نبوت کا دعویٰ کرنے سے پہلے تم لوگ انہیں جھوٹا سمجھتے تھے؟
ابوسفیان: ''نہیں''۔"
"قیصر: کیا وہ کبھی عہدشکنی اور وعدہ خلافی بھی کرتے ہیں؟
ابوسفیان: ابھی تک تونہیں کی ہے لیکن اب ہمارے اوران کے درمیان (حدیبیہ)
میں جو ایک نیا معاہدہ ہوا ہے معلوم نہیں اس میں وہ کیا کریں گے؟
قیصر: کیا کبھی تم لوگوں نے ان سے جنگ بھی کی؟
ابوسفیان: ''ہاں''۔
قیصر: نتیجہ جنگ کیا رہا؟
ابوسفیان: کبھی ہم جیتے، کبھی وہ۔
قیصر: وہ تمہیں کن باتوں کا حکم دیتے ہیں؟
ابوسفیان: وہ کہتے ہیں کہ صرف ایک خدا کی عبادت کرو کسی اور کو خدا کا شریک
نہ ٹھہراؤ، بتوں کو چھوڑو، نماز پڑھو، سچ بولو، پاک دامنی اختیارکرو،
رشتہ داروں کے ساتھ نیک سلوک کرو۔(1)
اس سوال و جواب کے بعد قیصر نے کہا کہ تم نے ان کو خاندانی شریف بتایا اور تمام پیغمبروں کا یہی حال ہے کہ ہمیشہ پیغمبر اچھے خاندانوں ہی میں پیدا ہوتے ہیں۔ تم نے کہا کہ ان کے خاندان میں کبھی کسی اور نے نبوت کا دعویٰ نہیں کیا۔ اگر ایسا ہوتا تو میں کہہ دیتا کہ یہ شخص اوروں کی نقل اتار رہا ہے۔ تم نے اقرار کیا ہے کہ ان کے خاندان میں کبھی کوئی بادشاہ نہیں ہوا ہے۔ اگر یہ بات ہوتی تو میں سمجھ لیتا کہ یہ شخص اپنے آباء واجداد کی بادشاہی کا طلبگار ہے۔ تم مانتے ہو کہ نبوت کا دعویٰ کرنے سے پہلے وہ کبھی کوئی جھوٹ نہیں بولے تو جو شخص انسانوں سے جھوٹ نہیں بولتا بھلا وہ خدا پر کیوں کر"
1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب بدء الوحی،باب۶،الحدیث۷،ج۱،ص۱۰۔۱۲
جھوٹ باندھ سکتا ہے؟ تم کہتے ہو کہ کمزور لوگوں نے ان کے دین کو قبول کیا ہے۔ تو سن لو ہمیشہ ابتداء میں پیغمبروں کے متبعین مفلس اور کمزور ہی لوگ ہوتے رہے ہیں۔ تم نے یہ تسلیم کیا ہے کہ ان کی پیروی کرنے والے بڑھتے ہی جارہے ہیں تو ایمان کا معاملہ ہمیشہ ایسا ہی رہا ہے کہ اس کے ماننے والوں کی تعداد ہمیشہ بڑھتی ہی جاتی ہے۔ تم کو یہ تسلیم ہے کہ کوئی ان کے دین سے پھر کر مرتد نہیں ہورہا ہے۔ تو تمہیں معلوم ہونا چاہے کہ ایمان کی شان ایسی ہی ہوا کرتی ہے کہ جب اس کی لذت کسی کے دل میں گھر کرلیتی ہے تو پھر وہ کبھی نکل نہیں سکتی۔ تمہیں اس کا اعتراف ہے کہ انہوں نے کبھی کوئی غداری اور بدعہدی نہیں کی ہے۔ تو رسولوں کا یہی حال ہوتا ہے کہ وہ کبھی کوئی دغا فریب کا کام کرتے ہی نہیں۔ تم نے ہمیں بتایا کہ وہ خدائے واحد کی عبادت، شرک سے پرہیز، بت پرستی سے ممانعت، پاک دامنی، صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں۔ تو سن لو کہ تم نے جو کچھ کہا ہے اگر یہ صحیح ہے تو وہ عنقریب اس جگہ کے مالک ہوجائیں گے جہاں اس وقت میرے قدم ہیں اور میں جانتا ہوں کہ ایک رسول کا ظہور ہونے والا ہے مگر میرا یہ گمان نہیں تھا کہ وہ رسول تم عربوں میں سے ہوگا۔ اگر میں یہ جان لیتا کہ میں ان کی بارگاہ میں پہنچ سکوں گا تو میں تکلیف اٹھاکر وہاں تک پہنچتااور اگر میں ان کے پاس ہوتا تو میں ان کا پاؤں دھوتا۔ قیصر نے اپنی اس تقریر کے بعد حکم دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا خط پڑھ کر سنایا جائے۔ نامہ مبارک کی عبارت یہ تھی۔
بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم من محمد عبد اﷲ ورسولہ الی ہرقل عظیم الروم سلام علٰی من اتبع الھدی اما بعد فانی ادعوک بدعایۃ الاسلام اسلم تسلم یوتک اﷲ اجرک مرتین فان تولیت فان علیک اثم الاریسین یااھل الکتاب
تعالوا الٰی کلمۃ سواء بیننا و بینکم ان لا نعبد الا اﷲ ولا نشرک بہ شیأا ولا یتخذ بعضنا بعضا اربابا من دون اﷲ فان تولوا فقولوا اشھدوا بانا مسلمون(1)
"شروع کرتاہوں میں خداکے نام سے جوبڑامہربان اورنہایت رحم فرمانے والاہے۔ اللہ کے بندے اور رسول محمد(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کی طرف سے یہ خط ''ہرقل'' کے نام ہے جو روم کا بادشاہ ہے۔ اس شخص پر سلامتی ہو جو ہدایت کا پیرو ہے۔ اس کے بعد میں تجھ کو اسلام کی دعوت دیتا ہوں تو مسلمان ہوجا تو سلامت رہے گا۔ خدا تجھ کو دوگنا ثواب دے گا۔ اور اگر تو نے روگردانی کی توتیری تمام رعایاکا گناہ تجھ پر ہوگا۔ اے اہل کتاب!ایک ایسی بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور ہم میں سے بعض لوگ دوسرے بعض لوگوں کو خدا نہ بنائیں اور اگر تم نہیں مانتے تو گواہ ہوجاؤ کہ ہم مسلمان ہیں!
قیصر نے ابوسفیان سے جو گفتگو کی اس سے اس کے درباری پہلے ہی انتہائی برہم اور بیزار ہوچکے تھے۔ اب یہ خط سنا۔ پھر جب قیصر نے ان لوگوں سے یہ کہا کہ اے جماعت روم!اگر تم اپنی فلاح اور اپنی بادشاہی کی بقا چاہتے ہوتو اس نبی کی بیعت کرلو۔ تو درباریوں میں اس قدر ناراضگی اور بیزاری پھیل گئی کہ وہ لوگ جنگلی گدھوں کی طرح بدک بدک کردربارسے دروازوں کی طرف بھاگنے لگے۔مگرچونکہ تمام دروازے بند تھے اس لئے وہ لوگ باہر نہ نکل سکے۔جب قیصر نے اپنے درباریوں کی نفرت کا یہ منظر دیکھا تو وہ ان لوگوں کے ایمان لانے سے مایوس ہوگیا اور اس نے کہا کہ ان درباریوں کو بلاؤ۔ جب سب آگئے تو قیصر نے کہا کہ ابھی ابھی میں نے تمہارے سامنے جو کچھ"
1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری، کتاب بدء الوحی،باب ۶،الحدیث:۷، ج۱، ص۱۱۔۱۲ ملخصاً
"کہا۔ اس سے میرا مقصد تمہارے دین کی پختگی کا امتحان لینا تھا تو میں نے دیکھ لیا کہ تم لوگ اپنے دین میں بہت پکے ہو۔ یہ سن کر تمام درباری قیصر کے سامنے سجدہ میں گر پڑے اور ابوسفیان وغیرہ دربار سے نکال دئیے گئے اور دربار برخواست ہوگیا۔ چلتے وقت ابوسفیان نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اب یقینا ابوکبشہ کے بیٹے (محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کا معاملہ بہت بڑھ گیا۔ دیکھ لو! رومیوں کا بادشاہ ان سے ڈر رہا ہے۔(1)
(بخاری باب کیف کان بدء الوحی ج۱ ص۴ تا۵ومسلم ج۲ ص ۹۷ تا ۹۹،مدارج ج ۲ص۲۲۱وغیرہ)
قیصر چونکہ توراۃ و انجیل کا ماہر اور علم نجوم سے واقف تھا اس لئے وہ نبی آخرالزماں کے ظہورسے باخبر تھا اور ابوسفیان کی زبان سے حالات سن کر اس کے دل میں ہدایت کا چراغ روشن ہوگیا تھا۔ مگر سلطنت کی حرص و ہوس کی آندھیوں نے اس چراغ ہدایت کو بجھا دیا اور وہ اسلام کی دولت سے محروم رہ گیا۔"
تقریباً اسی مضمون کے خطوط دوسرے بادشاہوں کے پاس بھی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے روانہ فرمائے۔شہنشاہ ایران خسروپرویز کے دربار میں جب نامہ مبارک پہنچا تو صرف اتنی سی بات پر اس کے غرور اور گھمنڈ کا پارہ اتنا چڑھ گیا کہ اس نے کہا کہ اس خط میں محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) نے میرے نام سے پہلے اپنا نام کیوں لکھا؟ یہ کہہ کر اس نے فرمان رسالت کو پھاڑ ڈالا اور پرزے پرزے کرکے خط کو زمین پر پھینک دیا۔ جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو یہ خبر ملی تو آپ نے فرمایا کہ
مَزَّقَ کِتَابِیْ مَزَّقَ اللہُ مُلْکَہٗ
1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب بدء الوحی،باب ۶،الحدیث:۷،ج۱،ص۱۱۔۱۲ملخصاً
"اس نے میرے خط کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا خدا اس کی سلطنت کو ٹکڑے ٹکڑے کردے۔
چنانچہ اس کے بعد ہی خسروپرویز کو اس کے بیٹے ''شیرویہ'' نے رات میں سوتے ہوئے اس کا شکم پھاڑ کر اس کو قتل کردیا۔ اور اس کی بادشاہی ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی۔ یہاں تک کہ حضرت امیرالمومنین عمرفاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت میں یہ حکومت صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔ (1)(مدارج النبوۃ ج۲ص۲۲۵وغیرہ و بخاری ج۱ص۴۱۱ )"
نجاشی بادشاہ حبشہ کے پاس جب فرمان رسالت پہنچا تو اس نے کوئی بے ادبی نہیں کی۔ اس معاملہ میں مؤرخین کا اختلاف ہے کہ اس نجاشی نے اسلام قبول کیا یا نہیں؟ مگر مواہب لدنیہ میں لکھا ہوا ہے کہ یہ نجاشی جس کے پاس اعلان نبوت کے پانچویں سال مسلمان مکہ سے ہجرت کرکے گئے تھے اور ۶ھ میں جس کے پاس حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خط بھیجا اور ۹ھ میں جس کا انتقال ہوا اور مدینہ میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جس کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھائی اس کا نام ''اصمحہ'' تھا اور یہ بلاشبہ مسلمان ہوگیا تھا۔ لیکن اس کے بعد جو نجاشی تخت پر بیٹھا اس کے پاس بھی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اسلام کا دعوت نامہ بھیجا تھا ۔مگر اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ اس نجاشی کانام کیاتھا؟اور اس نے اسلام قبول کیا یا نہیں؟ مشہورہے کہ یہ دونوں مقدس خطوط اب تک سلاطین حبشہ کے پاس موجود ہیں اور وہ لوگ اس کا بے حد ادب و احترام کرتے ہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔(2) (مدارج النبوۃ ج ۲ص ۲۲۰ )
"1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب ششم ،ج۲،ص۲۲۴
2۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب ششم ،ج۲،ص۲۲۰ملتقطاً"
حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ''مقوقس'' مصر و اسکندریہ کے بادشاہ کے پاس قاصد بناکر بھیجا۔ یہ نہایت ہی اخلاق کے ساتھ قاصد سے ملااور فرمانِ نبوی کو بہت ہی تعظیم و تکریم کے ساتھ پڑھا۔ مگر مسلمان نہیں ہوا۔ ہاں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں چند چیزوں کا تحفہ بھیجا۔ دو لونڈیاں ایک حضرت ''ماریہ قبطیہ''رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں جو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حرم میں داخل ہوئیں اور انہیں کے شکم مبارک سے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے فرزند حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیدا ہوئے۔دوسری حضرت ''سیرین''رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں جن کو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عطا فرما دیا۔ ان کے بطن سے حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صاحبزادے حضرت عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیدا ہوئے ان دونوں لونڈیوں کے علاوہ ایک سفید گدھا جس کا نام ''یعفور'' تھا اور ایک سفید خچر جو دُلدل کہلاتا تھا، ایک ہزار مثقال سونا، ایک غلام، کچھ شہد، کچھ کپڑے بھی تھے۔(1) (مدارج النبوۃ ج۲ ص۲۲۹ )
حضرت سلیط رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب ''ہوذہ'' بادشاہ یمامہ کے پاس خط لے کر پہنچے تو اس نے بھی قاصد کا احترام کیا۔ لیکن اسلام قبول نہیں کیا اور جواب میں یہ لکھا کہ آپ جو باتیں کہتے ہیں وہ نہایت اچھی ہیں۔ اگر آپ اپنی حکومت میں سے کچھ مجھے بھی حصہ دیں تو میں آپ کی پیروی کروں گا۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کا خط پڑھ
1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت، قسم سوم ، باب ششم ،ج۲، ص۲۲۶
کر فرمایا کہ اسلام ملک گیری کی ہوس کے لئے نہیں آیا ہے اگر زمین کا ایک ٹکڑا بھی ہوتو میں نہ دوں گا۔(1)(مدارج النبوۃ ج ۲ص ۲۲۹ )
"حضرت شجاع رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب حارث غسانی والی غسان کے سامنے نامۂ اقدس کو پیش کیا تو وہ مغرور خط کو پڑھ کر برہم ہوگیا اور اپنی فوج کو تیاری کا حکم دے دیا۔ چنانچہ مدینہ کے مسلمان ہر وقت اس کے حملہ کے منتظر رہنے لگے۔ اور بالآخر ''غزوہ موتہ'' اور''غزوہ تبوک'' کے واقعات درپیش ہوئے جن کا مفصل تذکرہ ہم آگے تحریر کریں گے۔
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان بادشاہوں کے علاوہ اور بھی بہت سے سلاطین و امراء کو دعوت اسلام کے خطوط تحریر فرمائے جن میں سے کچھ نے اسلام قبول کرنے سے انکار کردیا اور کچھ خوش نصیبوں نے اسلام قبول کرکے حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں نیازمندیوں سے بھرے ہوئے خطوط بھی بھیجے۔ مثلاً یمن کے شاہان حمیر میں سے جن جن بادشاہوں نے مسلمان ہوکر بارگاہ نبوت میں عرضیاں بھیجیں جو غزوهٔ تبوک سے واپسی پر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچیں ان بادشاہوں کے نام یہ ہیں۔
(۱)حارث بن عبد کلال (۲)نعیم بن عبد کلال
(۳) نعمان حاکم ذورعین ومعافروہمدان (۴) زرعہ
یہ سب یمن کے بادشاہ ہیں۔"
1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت، قسم سوم، باب ششم،ج۲، ص۲۲۸
ان کے علاوہ ''فروہ بن عمرو'' جو کہ سلطنت روم کی جانب سے گورنر تھا۔ اپنے اسلام لانے کی خبر قاصد کے ذریعہ بارگاہ رسالت میں بھیجی۔ اس طرح ''باذان''جو بادشاہ ایران کسریٰ کی طرف سے صوبہ یمن کا صوبہ دار تھا اپنے دو بیٹوں کے ساتھ مسلمان ہوگیا اور ایک عرضی تحریر کرکے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنے اسلام کی خبر دی۔(1) ان سب کا مفصل تذکرہ ''سیرت ابن ہشام و زرقانی و مدارج النبوۃ'' وغیرہ میں موجود ہے۔ہم اپنی اس مختصر کتاب میں ان کا مفصل بیان تحریر کرنے سے معذرت خواہ ہیں۔
۶ھ میں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ماتحتی میں ایک لشکر نجد کی جانب روانہ فرمایا۔ ان لوگوں نے بنی حنیفہ کے سردار ثمامہ بن اُثال کو گرفتار کرلیا اور مدینہ لائے۔ جب لوگوں نے ان کو بارگاہ رسالت میں پیش کیا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس کو مسجدنبوی کے ایک ستون میں باندھ دیا جائے۔ چنانچہ یہ ستون میں باندھ دئیے گئے۔ پھر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لے گئے اور دریافت فرمایا کہ اے ثمامہ!تمہارا کیا حال ہے؟ اور تم اپنے بارے میں کیا گمان رکھتے ہو؟ ثمامہ نے جواب دیا کہ اے محمد!(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) میرا حال اور خیال تو اچھا ہی ہے۔ اگر آپ مجھے قتل کریں گے تو ایک خونی آدمی کو قتل کریں گے اور اگر مجھے اپنے انعام سے نواز کر چھوڑ دیں گے تو ایک شکرگزار کو چھوڑیں گے اور اگر آپ مجھ سے کچھ مال کے طلبگار ہوں تو بتا دیجئے۔ آپ کو مال دیا جائے گا۔
" حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یہ گفتگو کرکے چلے آئے۔پھر دوسرے روز بھی یہی سوال و جواب ہوا۔ پھر تیسرے روز بھی یہی ہوا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ ثمامہ کو چھوڑدو۔ چنانچہ لوگوں نے ان کو چھوڑ دیا۔ ثمامہ مسجد سے نکل کر ایک کھجور کے باغ میں چلے گئے جو مسجدنبوی کے قریب ہی میں تھا۔ وہاں انہوں نے غسل کیا۔ پھر مسجدنبوی میں واپس آئے اور کلمۂ شہادت پڑھ کر مسلمان ہوگئے اور کہنے لگے کہ خدا کی قسم!مجھے جس قدر آپ کے چہرہ سے نفرت تھی اتنی روئے زمین پر کسی کے چہرہ سے نہ تھی۔ مگر آج آپ کے چہرہ سے مجھے اس قدر محبت ہوگئی ہے کہ اتنی محبت کسی کے چہرہ سے نہیں ہے۔ کوئی دین میری نظر میں اتنا ناپسند نہ تھا جتنا آپ کا دین لیکن آج کوئی دین میری نظر میں اتنا محبوب نہیں ہے جتنا آپ کا دین۔ کوئی شہر میری نگاہ میں اتنا برا نہ تھا جتنا آپ کا شہر اور اب میرا یہ حال ہوگیا ہے کہ آپ کے شہر سے زیادہ مجھے کوئی شہر محبوب نہیں ہے۔ یارسول اللہ!صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں عمرہ ادا کرنے کے ارادہ سے مکہ جارہا تھا کہ آپ کے لشکر نے مجھے گرفتار کرلیا۔ اب آپ میرے بارے میں کیا حکم دیتے ہیں؟ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو دنیا و آخرت کی بھلائیوں کا مژدہ سنایا اور پھر حکم دیا کہ تم مکہ جاکر عمرہ ادا کرلو!
جب یہ مکہ پہنچے اور طواف کرنے لگے تو قریش کے کسی کافر نے ان کو دیکھ کر کہاکہ اے ثمامہ!تم صابی(بے دین)ہوگئے ہو۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نہایت جرأت کے ساتھ جواب دیا کہ میں بے دین نہیں ہوا ہوں بلکہ میں مسلمان ہوگیا ہوں اور اے اہل مکہ! سن لو!اب جب تک رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اجازت نہ دیں گے تم لوگوں کو ہمارے وطن سے گیہوں کا ایک دانہ بھی نہیں مل سکے گا ۔مکہ والوں کے لئے ان"
کے وطن ''یمامہ'' ہی سے غلہ آیا کرتا تھا۔(1)(بخاری ج ۲ص۶۲۷باب وفدبنی حنیفہ و حدیث ثمامہ و مسلم ج۲ص۹۳ باب ربط الاسیر و مدارج ،ج ۲ ص ۱۸۹ )
۶ھ کے واقعات میں سے ابورافع یہودی کا قتل بھی ہے۔ ابورافع یہودی کا نام عبداللہ بن ابی الحقیق یا سلام بن الحقیق تھا۔یہ بہت ہی دولت مند تاجر تھا لیکن اسلام کا زبردست دشمن اور بارگاہ نبوت کی شان میں نہایت ہی بدترین گستاخ اور بے ادب تھا۔ یہ وہی شخص ہے جو حیی بن اخطب یہودی کے ساتھ مکہ گیا اور کفار قریش اور دوسرے قبائل کو جوش دلاکر غزوهٔ خندق میں مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے دس ہزار کی فوج لے کر آیا تھا اور ابوسفیان کو اُبھارکر اسی نے اس فوج کا سپہ سالار بنایا تھا۔ حیی بن اخطب تو جنگ خندق کے بعد غزوہ بنی قریظہ میں مارا گیا تھا مگر یہ بچ نکلا تھا اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ایذارسانی اور اسلام کی بیخ کنی میں تن، من، دھن سے لگا ہوا تھا۔ انصار کے دونوں قبیلوں اوس اور خزرج میں ہمیشہ مقابلہ رہتا تھا اور یہ دونوں اکثر رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سامنے نیکیوں میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔ چونکہ قبیلہ اوس کے لوگوں حضرت محمد بن مسلمہ وغیرہ نے ۳ھ میں بڑے خطرہ میں پڑ کر ایک دشمن رسول ''کعب بن اشرف یہودی'' کو قتل کیا تھا۔ اس لئے قبیلۂ خزرج کے لوگوں نے مشورہ کیا کہ اب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا سب سے بڑا دشمن ''ابورافع'' رہ گیا ہے۔ لہٰذا ہم لوگوں کو چاہے کہ اس کو قتل کرڈالیں تاکہ ہم لوگ بھی قبیلہ اوس کی
"1۔۔۔۔۔۔صحیح مسلم،کتاب الجھادوالسیر،باب ربط الاسیر...الخ،الحدیث:۱۷۶۴،ص۹۷۰
ومدارج النبوت، قسم سوم، باب ششم، ج۲، ص۱۸۹"
"طرح ایک دشمن رسول کو قتل کرنے کا اجروثواب حاصل کرلیں۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عتیک و عبداللہ بن انیس و ابوقتادہ و حارث بن ربعی و مسعود بن سنان و خزاعی بن اسود رضی اللہ تعالیٰ عنہم اس کے لئے مستعد اور تیار ہوئے۔ ان لوگوں کی درخواست پر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اجازت دے دی اور حضرت عبداللہ بن عتیک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس جماعت کا امیر مقرر فرما دیااور ان لوگوں کو منع کردیا کہ بچوں اور عورتوں کو قتل نہ کیا جائے۔ (1) (زرقانی علی المواہب ج ۲ ص ۱۶۳ )
حضرت عبداللہ بن عتیک رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابورافع کے محل کے پاس پہنچے اور اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ تم لوگ یہاں بیٹھ کر میری آمد کا انتظار کرتے رہو اور خود بہت ہی خفیہ تدبیروں سے رات میں اس کے محل کے اندر داخل ہوگئے اور اس کے بستر پر پہنچ کر اندھیرے میں اس کو قتل کردیا۔جب محل سے نکلنے لگے تو سیڑھی سے گر پڑے جس سے ان کے پاؤں کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ مگر انہوں نے فوراً ہی اپنی پگڑی سے اپنے ٹوٹے ہوئے پاؤں کو باندھ دیااور کسی طرح محل سے باہر آگئے۔ پھر اپنے ساتھیوں کی مدد سے مدینہ پہنچے۔ جب درباررسالت میں حاضرہوکر ابورافع کے قتل کا سارا ماجرا بیان کیا تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ''پاؤں پھیلاؤ'' انہوں نے پاؤں پھیلایا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک ان کے پاؤں پر پھرا دیا۔ فوراً ہی ٹوٹی ہوئی ہڈی جڑ گئی اور ان کا پاؤں بالکل صحیح و سالم ہوگیا۔(2)
(بخاری ج۱ص ۲۲۴ باب قتل النائم المشرک )"
"1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ و شرح الزرقانی، باب قتل ابی رافع، ج۳، ص۱۴۱۔۱۴۳ملخصاً
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی، باب قتل ابی رافع...الخ،الحدیث۴۰۳۹،ج۳،ص۳۱"
"۶ھ میں صلح حدیبیہ سے قبل چند چھوٹے چھوٹے لشکروں کو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مختلف اطراف میں روانہ فرمایاتاکہ وہ کفار کے حملوں کی مدافعت کرتے رہیں۔ ان لڑائیوں کا مفصل تذکرہ زرقانی علی المواہب اور مدارج النبوۃ وغیرہ کتابوں میں لکھا ہوا ہے۔ مگر ان لڑائیوں کی ترتیب اور ان کی تاریخوں میں مؤرخین کا بڑا اختلاف ہے۔ اس لئے ٹھیک طورپر ان کی تاریخوں کی تعیین بہت مشکل ہے۔ ان واقعات کا چیدہ چیدہ بیان حدیثوں میں موجود ہے مگر حدیثوں میں بھی ان کی تاریخیں مذکور نہیں ہیں۔ البتہ بعض قرائن و شواہد سے اتنا پتا چلتاہے کہ یہ سب صلح حدیبیہ سے قبل کے واقعات ہیں۔ ان لڑائیوں میں سے چند کے نام یہ ہیں۔
(۱)سریۂ قرطاء (۲)غزوۂ بنی لحیان (۳)سریۃ الغمر (۴)سریۂ زید بجانب جموم (۵)سریۂ زید بجانب عیص (۶)سریۂ زید بجانب وادی القریٰ (۷)سریۂ علی بجانب بنی سعد (۸) سریۂ زید بجانب ام قرفہ (۹) سریۂ ابن رواحہ (۱۰) سریۂ ابن مسلمہ (۱۱) سریۂ زید بجانب طرف (۱۲)سریۂ عکل وعرینہ (۱۳)بعث ضمری۔ ان لڑائیوں کے ناموں میں بھی اختلاف ہے۔ ہم نے یہاں ان لڑائیوں کے مذکورہ بالا نام زرقانی علی المواہب کی فہرست سے نقل کئے ہیں۔(1)
(فہرست زرقانی علی المواہب ج۲ص۳۵۰ )"
1۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب، الفھرس،ج۳، ص۵۳۹
مدینہ کے قریب ''ذاتُ القرد'' ایک چراگاہ کا نام ہے جہاں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی اونٹنیاں چرتی تھیں۔ عبدالرحمن بن عیینہ فزاری نے جو قبیلہ غطفان سے تعلق رکھتا تھا اپنے چند آدمیوں کے ساتھ ناگہاں اس چراگاہ پر چھاپہ مارا اور یہ لوگ بیس اونٹنیوں کو پکڑ کر لے بھاگے۔مشہور تیرانداز صحابی حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سب سے پہلے اس کی خبر معلوم ہوئی۔ انہوں نے اس خطرہ کا اعلان کرنے کے لئے بلند آواز سے یہ نعرہ مارا کہ ''یا صباحاہ'' پھر اکیلے ہی ان ڈاکوؤں کے تعاقب میں دوڑ پڑے اور ان ڈاکوؤں کو تیر مار مار کر تمام اونٹنیوں کو بھی چھین لیا اور ڈاکو بھاگتے ہوئے جو تیس چادریں پھینکتے گئے تھے ان چادروں پر بھی قبضہ کرلیا۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم لشکر لے کر پہنچے۔حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں نے ان چھاپہ ماروں کو ابھی تک پانی نہیں پینے دیا ہے ۔ یہ سب پیاسے ہیں۔ ان لوگوں کے تعاقب میں لشکر بھیج دیجئے تو یہ سب گرفتار ہوجائیں گے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم اپنی اونٹنیوں کے مالک ہوچکے ہو۔ اب ان لوگوں کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرو۔ پھر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے اونٹ پر اپنے پیچھے بٹھا لیا اور مدینہ واپس تشریف لائے۔
حضرت امام بخاری کا بیان ہے کہ یہ غزوہ جنگ خیبر کے لئے روانہ ہونے سے تین دن قبل ہوا۔ (1)(بخاری غزوۂ ذات القرد،ج ۲ص ۶۰۳ومسلم ج۲ ص۱۱۳ )
"''خیبر'' مدینہ سے آٹھ منزل کی دوری پر ایک شہر ہے۔ایک انگریز سیاح نے لکھا ہے کہ خیبر مدینہ سے تین سو بیس کیلومیٹر دور ہے۔یہ بڑا زرخیز علاقہ تھا اور یہاں عمدہ کھجوریں بکثرت پیدا ہوتی تھیں۔ عرب میں یہودیوں کا سب سے بڑا مرکز یہی خیبر تھا۔ یہاں کے یہودی عرب میں سب سے زیادہ مالدار اور جنگجو تھے اور ان کو اپنی مالی اور جنگی طاقتوں پر بڑا ناز اور گھمنڈ بھی تھا۔ یہ لوگ اسلام اور بانئ اسلام صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بدترین دشمن تھے۔ یہاں یہودیوں نے بہت سے مضبوط قلعے بنارکھے تھے جن میں سے بعض کے آثار اب تک موجودہیں۔ ان میں سے آٹھ قلعے بہت مشہور ہیں۔ جن کے نام یہ ہیں۔
(۱)کتیبہ (۲) ناعم (۳) شق (۴)قموص
(۵)نطارہ (۶)صعب (۷)سطیخ (۸)سلالم۔
درحقیقت یہ آٹھوں قلعے آٹھ محلوں کے مثل تھے اور انہی آٹھوں قلعوں کا مجموعہ''خیبر''کہلاتا تھا۔ (2) (مدارج النبوۃ ج۲ص۲۳۴ )"
تمام مؤرخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جنگ خیبر محرم کے مہینے میں ہوئی۔ لیکن
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب غزوۃ ذات القرد،الحدیث۴۱۹۴،ج۳، ص۷۹
والمواھب اللدنیۃ و شرح الزرقانی، باب غزوۃ ذی قرد،ج۳،ص۱۱۰ملتقطاً
2۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب ششم ،ج۲،ص۲۳۴"
اس میں اختلاف ہے کہ ۶ھ تھا یا ۷ھ ۔ غالباً اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ بعض لوگ سن ہجری کی ابتدا محرم سے کرتے ہیں۔ اس لئے ان کے نزدیک محرم میں ۷ھ شروع ہوگیا اور بعض لوگ سن ہجری کی ابتدا ربیع الاول سے کرتے ہیں۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ہجرت ربیع الاول میں ہوئی۔ لہٰذا ان لوگوں کے نزدیک یہ محرم و صفر ۶ھ کے تھے۔(1) واللہ اعلم۔
یہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ جنگ ِخندق میں جن جن کفارعرب نے مدینہ پر حملہ کیا تھا ان میں خیبر کے یہودی بھی تھے۔ بلکہ درحقیقت وہی اس حملہ کے بانی اور سب سے بڑے محرک تھے۔ چنانچہ ''بنونضیر'' کے یہودی جب مدینہ سے جلاوطن کئے گئے تو یہودیوں کے جو رؤسا خیبر چلے گئے تھے ان میں سے حیی بن اخطب اور ابورافع سلام بن ابی الحقیق نے تومکہ جاکر کفارقریش کو مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے ابھارا اور تمام قبائل کا دورہ کرکے کفارعرب کو جوش دلاکر برانگیختہ کیا اور حملہ آوروں کی مالی امداد کے لئے پانی کی طرح روپیہ بہایا۔ اور خیبر کے تمام یہودیوں کو ساتھ لے کر یہودیوں کے یہ دونوں سردار حملہ کرنے والوں میں شامل رہے۔ حیی بن اخطب تو جنگ قریظہ میں قتل ہوگیا اور ابورافع سلام بن ابی الحقیق کو ۶ھ میں حضرت عبداللہ بن عتیک انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے محل میں داخل ہوکر قتل کردیا۔ لیکن ان سب واقعات کے بعد بھی خیبر کے یہودی بیٹھ نہیں رہے بلکہ اور زیادہ انتقام کی آگ ان کے سینوں میں بھڑکنے لگی۔ چنانچہ یہ لوگ مدینہ پر پھر ایک دوسرا حملہ کرنے کی تیاریاں کرنے
1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، باب غزوۃ خیبر، ج۳، ص۲۴۴ ملتقطاً
لگے اور اس مقصد کے لئے قبیلہ غطفان کو بھی آمادہ کرلیا۔ قبیلہ غطفان عرب کا ایک بہت ہی طاقتور اور جنگجو قبیلہ تھا اور اس کی آبادی خیبر سے بالکل ہی متصل تھی اور خیبر کے یہودی خود بھی عرب کے سب سے بڑے سرمایہ دار ہونے کے ساتھ بہت ہی جنگ بازاور تلوار کے دھنی تھے۔ ان دونوں کے گٹھ جوڑ سے ایک بڑی طاقتور فوج تیار ہوگئی اور ان لوگوں نے مدینہ پر حملہ کرکے مسلمانوں کو تہس نہس کردینے کا پلان بنا لیا۔
"جب رسول خدا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو خبر ملی کہ خیبر کے یہودی قبیلۂ غطفان کو ساتھ لے کر مدینہ پر حملہ کرنے والے ہیں تو ان کی اس چڑھائی کو روکنے کے لئے سولہ سو صحابہ کرام کا لشکر ساتھ لے کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم خیبر روانہ ہوئے۔ مدینہ پر حضرت سباع بن عرفطہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو افسر مقرر فرمایا اور تین جھنڈے تیار کرائے۔ایک جھنڈا حضرت حباب بن منذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیا اور ایک جھنڈے کا علمبردار حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بنایا اور خاص علم نبوی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دست مبارک میں عنایت فرمایا اور ازواجِ مطہرات میں سے حضرت بی بی اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ساتھ لیا۔(1)
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم رات کے وقت حدود خیبر میں اپنی فوج ظفر موج کے ساتھ پہنچ گئے اور نمازفجر کے بعد شہر میں داخل ہوئے تو خیبر کے یہودی اپنے اپنے ہنسیا اور ٹوکری لے کر کھیتوں اور باغوں میں کام کاج کے لئے قلعہ سے نکلے۔ جب انہوں نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو دیکھا تو شورمچانے لگے اور چلا چلاکر کہنے لگے کہ ''خدا کی"
1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، باب غزوۃ خیبر، ج۳، ص۲۴۵،۲۵۵ ملتقطاً
"قسم!لشکر کے ساتھ محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)ہیں۔''اس وقت حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خیبر برباد ہوگیا۔بلاشبہ ہم جب کسی قوم کے میدان میں اتر پڑتے ہیں تو کفار کی صبح بری ہوجاتی ہے۔(1) (بخاری ج۲ص۶۰۳ )
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم خیبر کی طرف متوجہ ہوئے تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم بہت ہی بلند آوازوں سے نعرهٔ تکبیر لگانے لگے۔ تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے اوپر نرمی برتو۔ تم لوگ کسی بہرے اور غائب کو نہیں پکار رہے ہو بلکہ اس (اللہ) کو پکار رہے ہو جو سننے والا اور قریب ہے۔ میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سواری کے پیچھے لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ کا وظیفہ پڑھ رہا تھا۔ جب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے سنا تو مجھ کو پکارا اور فرمایا کہ کیا میں تم کو ایک ایسا کلمہ نہ بتا دوں جو جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔ میں نے عرض کیا کہ ''کیوں نہیں یارسول اللہ!صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلمآپ پر میرے ماں باپ قربان!''تو فرمایا کہ وہ کلمہ''لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ ہے۔(2)(بخاری ج۲ص۶۰۵ )"
یہودیوں نے اپنی عورتوں اور بچوں کو ایک محفوظ قلعہ میں پہنچا دیا اور راشن کا ذخیرہ قلعہ ''ناعم'' میں جمع کردیا اور فوجوں کو ''نطاۃ'' اور ''قموص'' کے قلعوں میں اکٹھا کیا۔ ان میں سب سے زیادہ مضبوط اور محفوظ قلعہ ''قموص ''تھا اور ''مرحب یہودی'' جو عرب کے پہلوانوں میں ایک ہزارسوار کے برابر مانا جاتا تھا اسی قلعہ کا رئیس تھا۔ سلام بن مشکم یہودی گوبیمار تھا مگر وہ بھی قلعہ ''نطاۃ'' میں فوجیں لے کر ڈٹا ہوا تھا۔ یہودیوں
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری، کتاب المغازی ، باب غزوۃ خیبر،الحدیث: ۴۱۹۷،ج۳، ص۸۱
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری، کتاب المغازی ، باب غزوۃ خیبر،الحدیث: ۴۲۰۵،ج۳، ص۸۳"
کے پاس تقریباً بیس ہزار فوج تھی جو مختلف قلعوں کی حفاظت کے لئے مورچہ بندی کئے ہوئے تھی۔
سب سے پہلے قلعہ ''ناعم'' پر معرکہ آرائی اور جم کر لڑائی ہوئی۔ حضرت محمود بن مسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑی بہادری اور جاں نثاری کے ساتھ جنگ کی مگر سخت گرمی اورلو کے تھپیڑوں کی وجہ سے ان پر پیاس کا غلبہ ہوگیا۔ وہ قلعہ ناعم کی دیوار کے نیچے سو گئے۔ کنانہ بن ابی الحقیق یہودی نے ان کو دیکھ لیا اور چھت سے ایک بہت بڑا پتھر ان کے اوپر گرا دیا جس سے ان کا سر کچل گیا اور یہ شہید ہوگئے۔ اس قلعہ کو فتح کرنے میں پچاس مسلمان زخمی ہوگئے، لیکن قلعہ فتح ہوگیا۔(1)
حضرت اسودراعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی قلعہ کی جنگ میں شہادت سے سرفراز ہوئے۔ ان کا واقعہ یہ ہے کہ یہ ایک حبشی تھے جو خیبر کے کسی یہودی کی بکریاں چرایا کرتے تھے۔ جب یہودی جنگ کی تیاریاں کرنے لگے تو انہوں نے پوچھا کہ آخر تم لوگ کس سے جنگ کے لئے تیاریاں کررہے ہو؟ یہودیوں نے کہا کہ آج ہم اس شخص سے جنگ کریں گے جو نبوت کا دعویٰ کرتا ہے۔ یہ سن کر ان کے دل میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ملاقات کا جذبہ پیدا ہوا۔ چنانچہ یہ بکریاں لئے ہوئے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوگئے اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ آپ کس چیز کی دعوت دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کے سامنے اسلام پیش فرمایا۔ انہوں نے عرض کیا کہ اگر میں
"1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت،قسم سوم، باب ششم، ج۲، ص۲۳۹
والسیرۃ النبویۃ لابن ھشام،افتتاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم للحصون،ص۴۳۸"
"مسلمان ہوجاؤں تو مجھے خداوند تعالیٰ کی طرف سے کیا اجروثواب ملے گا؟ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم کو جنت اور اس کی نعمتیں ملیں گی۔ انہوں نے فوراً ہی کلمہ پڑھ کر اسلام قبول کرلیا۔ پھر عرض کیا کہ یارسول اللہ!صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلمیہ بکریاں میرے پاس امانت ہیں۔ اب میں ان کو کیا کروں؟ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ان بکریوں کو قلعہ کی طرف ہانک دو اور ان کو کنکریوں سے مارو۔ یہ سب خودبخود اپنے مالک کے گھر پہنچ جائیں گی۔ چنانچہ یہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا معجزہ تھا کہ انہوں نے بکریوں کو کنکریاں مار کر ہانک دیا اور وہ سب اپنے مالک کے گھر پہنچ گئیں۔
اس کے بعد یہ خوش نصیب حبشی ہتھیار پہن کر مجاہدین اسلام کی صف میں کھڑا ہوگیااور انتہائی جوش و خروش کے ساتھ جہاد کرتے ہوئے شہید ہوگیا۔ جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی تو فرمایا کہ عَمِلَ قَلِیْلاً وَ اُجِرَکَثِیْرًا۔یعنی اس شخص نے بہت ہی کم عمل کیااوربہت زیادہ اجر دیا گیا۔ پھر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کی لاش کوخیمہ میں لانے کاحکم دیااوران کی لاش کے سرہانے کھڑے ہوکر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ بشارت سنائی کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے کالے چہرہ کو حسین بنا دیا، اس کے بدن کو خوشبو دار بنادیا اور دو حوریں اس کو جنت میں ملیں۔ اس شخص نے ایمان اور جہاد کے سوا کوئی دوسرا عمل خیر نہیں کیا،نہ ایک وقت کی نمازپڑھی، نہ ایک روزہ رکھا، نہ حج و زکوٰۃ کا موقعہ ملا مگر ایمان اور جہاد کے سبب سے اللہ تعالیٰ نے اس کو اتنا بلند مرتبہ عطا فرمایا۔(1) (مدارج النبوۃ ج۲ص ۲۴۰ )"
"1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت، قسم سوم، باب ششم، ج۲، ص۲۳۹،۲۴۰
والسیرۃ النبویۃ لابن ھشام،افتتاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم للحصون،ص۴۳۸"
"حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو پہلے ہی سے یہ علم تھا کہ قبیلہ غطفان والے ضرور ہی خیبر والوں کی مدد کو آئیں گے۔ اس لئے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خیبر اور غطفان کے درمیان مقام ''رجیع'' میں اپنی فوجوں کا ہیڈکوارٹر بنایا اور خیموں، باربرداری کے سامانوں اور عورتوں کو بھی یہیں رکھا تھااور یہیں سے نکل نکل کر یہودیوں کے قلعوں پر حملہ کرتے تھے۔ (1)(مدارج النبوۃ ج ۲ص ۲۳۹ )
قلعہ ناعم کے بعد دوسرے قلعے بھی بہ آسانی اور بہت جلد فتح ہوگئے لیکن قلعہ ''قموص'' چونکہ بہت ہی مضبوط اور محفوظ قلعہ تھا اور یہاں یہودیوں کی فوجیں بھی بہت زیادہ تھیں اور یہودیوں کا سب سے بڑا بہادر ''مرحب'' خود اس قلعہ کی حفاظت کرتا تھا اس لئے اس قلعہ کو فتح کرنے میں بڑی دشواری ہوئی۔ کئی روز تک یہ مہم سر نہ ہوسکی۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس قلعہ پر پہلے دن حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کمان میں اسلامی فوجوں کو چڑھائی کے لئے بھیجا اور انہوں نے بہت ہی شجاعت اور جاں بازی کے ساتھ حملہ فرمایامگر یہودیوں نے قلعہ کی فصیل پر سے اس زور کی تیراندازی اور سنگ باری کی کہ مسلمان قلعہ کے پھاٹک تک نہ پہنچ سکے اور رات ہوگئی۔ دوسرے دن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زبردست حملہ کیااور مسلمان بڑی گرم جوشی کے ساتھ بڑھ بڑھ کر دن بھر قلعہ پر حملہ کرتے رہے مگر قلعہ فتح نہ ہوسکا۔ اور کیونکر فتح ہوتا؟ فاتح خیبر ہونا تو علی حیدررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقدر میں لکھا تھا۔ چنانچہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ"
1۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب،باب غزوۃ خیبر، ج۳،ص۲۵۲مختصراً
لَاُعْطِیَنَّ الرَّایَۃَ غَدًا رَجُلاً یَفْتَحُ اللہُ عَلٰی یَدَیْہِ یُحِبُّ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیُحِبُّہٗ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ قَالَ فَبَاتَ النَّاسُ یَدُوْکُوْنَ لَیْلَتَھُمْ اَیُّھُمْ یُعْطَاھَا۔(1) (بخاری ج۲ص۶۰۵ غزوہ خیبر )
"کل میں اس آدمی کو جھنڈا دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ فتح دے گا وہ اللہ ورسول کا محب بھی ہے اور محبوب بھی۔ راوی نے کہا کہ لوگوں نے یہ رات بڑے اضطراب میں گزاری کہ دیکھئے کل کس کو جھنڈا دیا جاتا ہے؟
صبح ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ خدمت اقدس میں بڑے اشتیاق کے ساتھ یہ تمنا لے کر حاضر ہوئے کہ یہ اعزازوشرف ہمیں مل جائے۔ اس لئے کہ جس کو جھنڈا ملے گا اس کے لئے تین بشارتیں ہیں۔
(۱) وہ اللہ و رسول کا محب ہے۔
(۲) وہ اللہ ورسول کا محبوب ہے۔
(۳) خیبر اس کے ہاتھ سے فتح ہوگا۔
حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ اس روز مجھے بڑی تمنا تھی کہ کاش! آج مجھے جھنڈا عنایت ہوتا۔ وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ اس موقع کے سوا مجھے کبھی بھی فوج کی سرداری اور افسری کی تمنا نہ تھی۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اس نعمت عظمیٰ کے لئے ترس رہے تھے۔ (2) (مسلم ج۲ص ۲۷۸، ۲۷۹ باب من فضائل علی )"
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب غزوۃ خیبر، الحدیث:۴۲۱۰، ج۳، ص۸۵
ودلائل النبوۃ للبیہقی،ماجاء فی بعث سرایا الی حصون ...الخ،ج۴،ص۲۱۱ملخصاً
2۔۔۔۔۔۔صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ،باب من فضائل علی...الخ،الحدیث:۲۴۰۵،
۲۴۰۶، ص۱۳۱۱"
"لیکن صبح کو اچانک یہ صدا لوگوں کے کان میں آئی کہ علی کہاں ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا کہ ان کی آنکھوں میں آشوب ہے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے قاصد بھیج کر ان کو بلایا اور ان کی دکھتی ہوئی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن لگا دیا اور دعا فرمائی تو فوراً ہی انہیں ایسی شفا حاصل ہوگئی کہ گویا انہیں کوئی تکلیف تھی ہی نہیں۔ پھر تاجدار دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے اپنا علم نبوی جو حضرت اُمُ المؤمنین بی بی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سیاہ چادر سے تیار کیا گیا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں عطا فرمایا۔(1) (زرقانی ج۲ص۲۲۲ )
اور ارشاد فرمایا کہ تم بڑے سکون کے ساتھ جاؤ اور ان یہودیوں کو اسلام کی دعوت دواور بتاؤ کہ مسلمان ہوجانے کے بعد تم پر فلاں فلاں اللہ کے حقوق واجب ہیں۔ خدا کی قسم!اگر ایک آدمی نے بھی تمہاری بدولت اسلام قبول کرلیا تو یہ دولت تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ بہتر ہے۔(2) (بخاری ج۲ ص ۶۰۵غزوه خیبر )"
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ''قلعہ قموص'' کے پاس پہنچ کر یہودیوں کو اسلام کی دعوت دی، لیکن انہوں نے اس دعوت کا جواب اینٹ اور پتھر اور تیرو تلوار سے دیا۔ اور قلعہ کا رئیس اعظم ''مرحب'' خودبڑے طنطنہ کے ساتھ نکلا۔ سر پر یمنی زرد رنگ کا ڈھاٹا باندھے ہوئے اور اس کے اوپر پتھر کا خود پہنے ہوئے رجز کا یہ شعر پڑھتے ہوئے حملہ کے لئے آگے بڑھا کہ ؎
"1۔۔۔۔۔۔صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ،باب من فضائل علی...الخ،الحدیث۲۴۰۵،۲۴۰۶،ص۱۳۱۱
والمواھب اللدنیۃ وشرح الزرقانی، باب غزوۃ خیبر،ج۳، ص۲۵۵
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری، کتاب المغازی ، باب غزوۃ خیبر،الحدیث: ۴۲۱۰،ج۳، ص۸۵"
"قَدْ عَلِمَتْ خَیْبَرُ اَنِّیْ مُرَحَّب، شَاکِیْ السَّلَاحِ بَطَلٌ مُّجَرَّب،"
"خیبر خوب جانتا ہے کہ میں ''مرحب ''ہوں،اسلحہ پوش ہوں،بہت ہی بہادر اور تجربہ کار ہوں۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے جواب میں رجز کا یہ شعر پڑھا ؎"
"اَنَا الَّذِیْ سَمَّتْنِیْ اُمِّیْ حَیْدَرَہٗ کَلَیْثِ غَابَاتٍ کَرِیْہِ الْمَنْظَرَہٗ"
"میں وہ ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر(شیر) رکھا ہے۔ میں کچھار کے شیر کی طرح ہیبت ناک ہوں۔ مرحب نے بڑے طمطراق کے ساتھ آگے بڑھ کر حضرت شیرخدا پر اپنی تلوار سے وار کیا مگر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایسا پینترا بدلا کہ مرحب کا وار خالی گیا۔ پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑھ کر اس کے سر پر اس زور کی تلوار ماری کہ ایک ہی ضرب سے خود کٹا، مغفرکٹا اور ذوالفقار حیدری سر کو کاٹتی ہوئی دانتوں تک اتر آئی اور تلوار کی مار کا تڑاکہ فوج تک پہنچا اور مرحب زمین پر گر کر ڈھیر ہوگیا۔ (1) (مسلم ج ۲ ص ۱۱۵ و ص ۲۷۸ )
مرحب کی لاش کو زمین پر تڑپتے ہوئے دیکھ کر اس کی تمام فوج حضرت شیرخدا رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر ٹوٹ پڑی۔ لیکن ذوالفقار حیدری بجلی کی طرح چمک چمک کر گرتی تھی جس سے صفوں کی صفیں اُلٹ گئیں۔ اور یہودیوں کے مایہ ناز بہادر مرحب، حارث، اسیر، عامر وغیرہ کٹ گئے۔ اسی گھمسان کی جنگ میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ڈھال کٹ کر گر پڑی تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آگے بڑھ کر قلعہ قموص کا پھاٹک"
"1۔۔۔۔۔۔صحیح مسلم،کتاب الجھاد والسیر، باب غزوۃ ذی قرد وغیرہا، الحدیث:۱۸۰۷،
ص۱۰۰۴، ۱۰۰۵ مختصراً"
"اکھاڑ دیا اور کواڑ کو ڈھال بناکر اس پر دشمنوں کی تلواریں روکتے رہے۔ یہ کواڑ اتنا بڑا اور وزنی تھا کہ بعد کو چالیس آدمی اس کو نہ اٹھا سکے۔(1) (زرقانی ج ۲ص۲۳۰ )
جنگ جاری تھی کہ حضرت علی شیرخدارضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کمال شجاعت کے ساتھ لڑتے ہوئے خیبر کو فتح کرلیا اور حضرت صادق الوعد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا فرمان صداقت کا نشان بن کر فضاؤں میں لہرانے لگا کہ''کل میں اس آدمی کو جھنڈا دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ فتح دے گا وہ اللہ و رسول عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا محب بھی ہے اور اللہ و رسول عز وجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا محبوب بھی۔''
بے شک حضرت مولائے کائنات رضی اللہ تعالیٰ عنہ اللہ و رسول عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے محب بھی ہیں اور محبوب بھی ہیں۔ اوربلاشبہ اللہ تعالیٰ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ سے خیبر کی فتح عطا فرمائی اور قیامت تک کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فاتح خیبر کے معزز لقب سے سرفراز فرما دیا اور یہ وہ فتح عظیم ہے جس نے پورے ''جزیرۃ العرب'' میں یہودیوں کی جنگی طاقت کا جنازہ نکال دیا۔ فتح خیبر سے قبل اسلام یہودیوں اور مشرکین کے گٹھ جوڑ سے نزع کی حالت میں تھا لیکن خیبر فتح ہوجانے کے بعد اسلام اس خوفناک نزع سے نکل گیا اور آگے اسلامی فتوحات کے دروازے کھل گئے۔ چنانچہ اس کے بعد ہی مکہ بھی فتح ہوگیا۔ اس لئے یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ فاتح خیبر کی ذات سے تمام اسلامی فتوحات کا سلسلہ وابستہ ہے۔ بہرحال خیبر کا قلعہ قموص بیس دن کے محاصرہ اور زبردست معرکہ آرائی کے بعد فتح ہوگیا۔ ان معرکوں میں ۹۳یہودی قتل ہوئے اور ۱۵ مسلمان جام شہادت سے سیراب ہوئے۔(2) (زرقانی ج ۲ ص ۲۲۸ )"
"1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،باب غزوۃ خیبر، ج۳،ص۲۶۷مختصراً
2۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،باب غزوۃ خیبر،ج۳،ص۲۵۶،۲۶۴۔۲۶۵ملتقطاً"
"فتح کے بعد خیبر کی زمین پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارادہ فرمایا کہ بنونضیر کی طرح اہل خیبر کو بھی جلاوطن کردیں۔ لیکن یہودیوں نے یہ درخواست کی کہ ہم کو خیبر سے نہ نکالا جائے اور زمین ہمارے ہی قبضہ میں رہنے دی جائے۔ہم یہاں کی پیداوار کا آدھا حصہ آپ کو دیتے رہیں گے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کی یہ درخواست منظور فرمالی۔ چنانچہ جب کھجوریں پک جاتیں اور غلہ تیار ہوجاتا تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خیبر بھیج دیتے وہ کھجوروں اور اناجوں کو دو برابر حصوں میں تقسیم کردیتے اور یہودیوں سے فرماتے کہ اس میں سے جو حصہ تم کو پسند ہو وہ لے لو۔ یہودی اس عدل پر حیران ہوکر کہتے تھے کہ زمین و آسمان ایسے ہی عدل سے قائم ہیں۔ (1)(فتوح البلدان بلاذری ص ۲۷ فتح خیبر )
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا بیان ہے کہ خیبر فتح ہوجانے کے بعد یہودیوں سے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس طورپر صلح فرمائی کہ یہودی اپنا سونا چاندی ہتھیار سب مسلمانوں کے سپرد کردیں اور جانوروں پر جو کچھ لدا ہوا ہے وہ یہودی اپنے پاس ہی رکھیں مگر شرط یہ ہے کہ یہودی کوئی چیز مسلمانوں سے نہ چھپائیں مگر اس شرط کو قبول کرلینے کے باوجود حیی بن اخطب کاوہ چرمی تھیلا یہودیوں نے غائب کردیا جس میں بنونضیر سے جلاوطنی کے وقت وہ سونا چاندی بھر کر لایا تھا۔ جب یہودیوں سے پوچھ گچھ کی گئی تو وہ جھوٹ بولے اور کہا کہ وہ ساری رقم لڑائیوں میں خرچ ہوگئی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی اپنے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو بتا دیا کہ وہ تھیلا کہاں ہے۔"
"1۔۔۔۔۔۔سنن ابی داود،کتاب الخراج...الخ، باب ماجاء فی حکم ارض خیبر،الحدیث:۳۰۰۶،
ج۳، ص۲۱۴ و السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، تسمیۃ النفر الداریین...الخ، ص۴۴۹"
چنانچہ مسلمانوں نے اس تھیلے کو برآمد کرلیا۔ اس کے بعد(چونکہ کنانہ بن ابی الحقیق نے حضرت محمود بن مسلمہ کو چھت سے پتھر گرا کر قتل کردیا تھا اس لئے) حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کو قصاص میں قتل کرا دیا اور اس کی عورتوں کو قیدی بنا لیا ۔(1) (مدارج النبوۃ ج ۲ص ۲۴۵ و ابوداؤد ج ۲ ص ۴۲۴ باب ماجاء فی ارض خیبر )
قیدیوں میں حضرت بی بی صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی تھیں۔ یہ بنو نضیر کے رئیس اعظم حیی بن اخطب کی بیٹی تھیں اور ان کا شوہر کنانہ بن ابی الحقیق بھی بنونضیر کا رئیس اعظم تھا۔ جب سب قیدی جمع کئے گئے تو حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یارسول اللہ!صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ان میں سے ایک لونڈی مجھ کو عنایت فرمایئے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو اختیار دے دیا کہ خود جاکر کوئی لونڈی لے لو۔ انہوں نے حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو لے لیا۔ بعض صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اس پر گزارش کی کہ یارسول اللہ!صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم
اَعْطَیْتَ دِحْیَۃَ صَفِیَّۃَ بِنْتَ حُیَیٍّ سَیِّدَۃَ قُرَیْظَۃَ وَالنَّضِیْرِ لَاتَصْلُحُ اِلَّا لَکَ(2)(ابوداؤد ج ۲ ص۴۲۰ باب ماجاء فی سھم الصفی )
یارسول اللہ!صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم آپ نے صفیہ کو دحیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالہ کردیا۔ وہ قریظہ اور بنونضیر کی رئیسہ ہے وہ آپ کے سوا کسی اورکے لائق نہیں ہے۔
"1۔۔۔۔۔۔سنن ابی داود ،کتاب الخراج والفیء والامارۃ ، باب ماجاء فی حکم ارض خیبر ،
الحدیث:۳۰۰۶، ج۳، ص۲۱۴
2۔۔۔۔۔۔سنن ابی داود ،کتاب الخراج والفیء والامارۃ، باب ماجاء فی سھم الصفی،الحدیث:۲۹۹۸،
ج۳ ص۲۰۹"
یہ سن کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت دحیہ کلبی اور حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو بلایا اور حضرت دحیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایاکہ تم اس کے سوا کوئی دوسری لونڈی لے لو۔ اس کے بعد حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو آزاد کرکے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان سے نکاح فرمالیا اور تین دن تک منزل صہبا میں ان کو اپنے خیمہ میں سرفراز فرمایا اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو دعوت ولیمہ میں کھجور، گھی، پنیر کا مالیدہ کھلایا۔(1)
(بخاری جلد ۱ص ۲۹۸ باب ھل یسافر بالجاریہ و بخاری جلد ۲ ص ۷۶۱ باب اتخاذالسراری ومسلم جلد۱ص ۴۵۸ باب فضل اعتاق امتہ )
فتح کے بعد چند روز حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم خیبر میں ٹھہرے۔ یہودیوں کو مکمل امن و امان عطا فرمایا اور قسم قسم کی نوازشوں سے نوازا مگر اس بدباطن قوم کی فطرت میں اس قدر خباثت بھری ہوئی تھی کہ سلام بن مشکم یہودی کی بیوی ''زینب'' نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی دعوت کی اور گوشت میں زہر ملا دیا۔ خدا کے حکم سے گوشت کی بوٹی نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو زہر کی خبر دی اور آپ نے ایک ہی لقمہ کھاکر ہاتھ کھینچ لیا۔ لیکن ایک صحابی حضرت بشربن براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شکم سیر کھالیا اور زہر کے اثر سے ان کی شہادت ہوگئی اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو بھی اس زہریلے لقمہ سے عمر بھرتالو میں تکلیف رہی۔ آپ نے جب یہودیوں سے اس کے بارے میں پوچھا تو ان ظالموں نے اپنے جرم کا اقرار کرلیا اور کہا کہ ہم نے اس نیت سے آپ کو زہر کھلایا کہ اگر آپ سچے
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب الصلٰوۃ،باب مایذکر فی الفخذ،الحدیث:۳۷۱،ج۱،ص۱۴۸
والمواھب اللدنیۃ و شرح الزرقانی، باب غزوۃ خیبر، ج۳، ص۲۶۸۔۲۷۳ملتقطاً"
نبی ہوں گے تو آپ پر اس زہر کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ ورنہ ہم کوآپ سے نجات مل جائے گی۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے لئے تو کبھی کسی سے انتقام لیا ہی نہیں اس لئے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے زینب سے کچھ بھی نہیں فرمایا مگر جب حضرت بشر بن براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اسی زہر سے وفات ہوگئی تو ان کے قصاص میں زینب قتل کی گئی۔ (1)(بخاری ج۲ ص ۲۴۲ و مدارج جلد۲ص ۲۵۱ )
" حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فتح خیبر سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ مہاجرین حبشہ میں سے حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھائی تھے اور مکہ سے ہجرت کرکے حبشہ چلے گئے تھے وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ حبشہ سے آگئے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرط محبت سے ان کی پیشانی چوم لی اور ارشاد فرمایا کہ میں کچھ کہہ نہیں سکتا کہ مجھے خیبر کی فتح سے زیادہ خوشی ہوئی ہے یا جعفررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آنے سے۔ (2)(زرقانی ج ۲ص ۲۴۶ )
ان لوگوں کو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ''صاحب الہجرتین''(دو ہجرتوں والے)کا لقب عطا فرمایا کیونکہ یہ لوگ مکہ سے حبشہ ہجرت کرکے گئے۔ پھر حبشہ سے ہجرت کرکے مدینہ آئے اور باوجودیکہ یہ لوگ جنگ خیبر میں شامل نہ ہوسکے مگر ان لوگوں کو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مال غنیمت میں سے مجاہدین کے برابر حصہ دیا۔ (3)"
"1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ و شرح الزرقانی،باب غزوۃ خیبر، ج۳،ص۲۸۷،۲۹۱،۲۹۲ملخصاً
2۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب، باب غزوۃ خیبر،ج۳، ص۲۹۹
3۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت،قسم سوم، باب ششم، ج۲، ص۲۴۸"
"جنگ خیبر کے موقع پر مندرجہ ذیل فقہی مسائل کی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے تبلیغ فرمائی۔
(۱)پنجہ دار پرندوں کو حرام فرمایا۔
(۲)تمام درندہ جانوروں کی حرمت کا اعلان فرما دیا۔
(۳)گدھا اورخچر حرام کردیا گیا۔
(۴)چاندی سونے کی خریدوفروخت میں کمی بیشی کے ساتھ خریدنے اور بیچنے کو حرام فرمایا اور حکم دیا کہ چاندی کو چاندی کے بدلے اور سونے کو سونے کے بدلے برابربرار بیچنا ضروری ہے۔ اگر کمی بیشی ہوگی تو وہ سود ہوگا جو حرام ہے۔
(۵)اب تک یہ حکم تھا کہ لونڈیوں سے ہاتھ آتے ہی صحبت کرنا جائز تھا لیکن اب ''استبراء'' ضروری قرار دے دیا گیا یعنی اگر وہ حاملہ ہوں تو بچہ پیدا ہونے تک ورنہ ایک مہینہ ان سے صحبت جائز نہیں۔''عورتوں سے متعہ کرنا بھی اسی غزوہ میں حرام کردیا گیا۔'' (1)(زرقانی ج۲ص ۲۳۳ تا ص ۲۳۸ )"
خیبر کی لڑائی سے فارغ ہوکر حضورِاکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ''وادی القریٰ'' تشریف لے گئے جو مقام ''تیماء'' اور ''فدک''کے درمیان ایک وادی کا نام ہے۔ یہاں یہودیوں کی چند بستیاں آباد تھیں۔حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جنگ کے ارادہ سے یہاں نہیں آئے تھے مگر یہاں کے یہودی چونکہ جنگ کے لئے تیار تھے اس لئے انہوں نے حضور صلی اللہ
"1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃمع شرح الزرقانی،باب غزوۃخیبر، ج۳، ص۲۸۶، ۲۸۷ ملتقطاً
ومدارج النبوت،قسم سوم، باب ششم، ج۲، ص۲۶۰"
"تعالیٰ علیہ وسلم پر تیر برسانا شروع کردیا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ایک غلام جن کا نام حضرت مدعم رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھا یہ اونٹ سے کجاوہ اُتار رہے تھے کہ ان کو ایک تیر لگا اور یہ شہید ہوگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان یہودیوں کو اسلام کی دعوت دی جس کا جواب ان بدبختوں نے تیروتلوار سے دیا اور باقاعدہ صف بندی کرکے مسلمانوں سے جنگ کے لئے تیار ہوگئے۔ مجبوراً مسلمانوں نے بھی جنگ شروع کردی، چار دن تک نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ان یہودیوں کا محاصرہ کئے ہوئے ان کو اسلام کی دعوت دیتے رہے مگر یہ لوگ برابر لڑتے ہی رہے۔ آخر دس یہودی قتل ہوگئے اور مسلمانوں کو فتح مبین حاصل ہوگئی۔ اس کے بعد اہل خیبر کی شرطوں پر ان لوگوں نے بھی صلح کرلی کہ مقامی پیداوار کا آدھا حصہ مدینہ بھیجتے رہیں گے۔
جب خیبر اور وادی القریٰ کے یہودیوں کا حال معلوم ہوگیا تو ''تیماء'' کے یہودیوں نے بھی جزیہ دے کر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے صلح کرلی۔ وادی القریٰ میں حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم چار دن مقیم رہے۔ (1)
(مدارج النبوۃ ج۲ ص ۲۶۲ وزرقانی ج۲ ص ۲۴۸ )"
جب ''فدک'' کے یہودیوں کو خیبر اور وادی القریٰ کے معاملہ کی اطلاع ملی تو ان لوگوں نے کوئی جنگ نہیں کی۔ بلکہ دربارنبوت میں قاصد بھیج کر یہ درخواست کی کہ خیبر اور وادی القریٰ والوں سے جن شرطوں پر آپ نے صلح کی ہے اسی طرح کے معاملہ پر ہم سے بھی صلح کرلی جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کی یہ درخواست منظور فرمالی اور ان سے صلح ہوگئی۔ لیکن یہاں چونکہ کوئی فوج نہیں بھیجی گئی
1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ و شرح الزرقانی،باب فتح وادی القری، ج۳،ص۳۰۱،۳۰۳
اس لئے اس بستی میں مجاہدین کو کوئی حصہ نہیں ملا بلکہ یہ خاص حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ملکیت قرارپائی اور خیبرو وادی القریٰ کی زمینیں تمام مجاہدین کی ملکیت ٹھہریں۔ (1) (زرقانی ج ۲ ص ۲۴۸ )
"چونکہ حدیبیہ کے صلح نامہ میں ایک دفعہ یہ بھی تھی کہ آئندہ سال حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مکہ آکر عمرہ ادا کریں گے اور تین دن مکہ میں ٹھہریں گے۔ اس دفعہ کے مطابق ماہ ذوالقعدہ ۷ھ میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے عمرہ ادا کرنے کے لئے مکہ روانہ ہونے کاعزم فرمایا اور اعلان کرا دیا کہ جو لوگ گزشتہ سال حدیبیہ میں شریک تھے وہ سب میرے ساتھ چلیں۔ چنانچہ بجز ان لوگوں کے جو جنگ خیبر میں شہید یا وفات پاچکے تھے سب نے یہ سعادت حاصل کی۔
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو چونکہ کفارمکہ پر بھروسا نہیں تھا کہ وہ اپنے عہد کو پورا کریں گے اس لئے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جنگ کی پوری تیاری کے ساتھ روانہ ہوئے۔ بوقت روانگی حضرت ابو رہم غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مدینہ پر حاکم بنا دیا اور دو ہزار مسلمانوں کے ساتھ جن میں ایک سوگھوڑوں پر سوار تھے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مکہ کے لئے روانہ ہوئے۔ ساٹھ اونٹ قربانی کے لئے ساتھ تھے۔ جب کفارمکہ کو خبر لگی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہتھیاروں اور سامان جنگ کے ساتھ مکہ آرہے ہیں تو وہ بہت گھبرائے اور انہوں نے چند آدمیوں کو صورت حال کی تحقیقات کے لئے ''مرالظہران'' تک بھیجا۔ حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو اسپ سواروں"
1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ و شرح الزرقانی، باب فتح وادی القری، ج۳، ص۳۰۳
"کے افسر تھے قریش کے قاصدوں نے ان سے ملاقات کی۔ انہوں نے اطمینان دلایا کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم صلح نامہ کی شرط کے مطابق بغیر ہتھیار کے مکہ میں داخل ہوں گے یہ سن کر کفارقریش مطمئن ہوگئے۔
چنانچہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جب مقام ''یاجج'' میں پہنچے جو مکہ سے آٹھ میل دور ہے تو تمام ہتھیاروں کو اس جگہ رکھ دیا اور حضرت بشیر بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ماتحتی میں چند صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو ان ہتھیاروں کی حفاظت کے لئے متعین فرما دیا ۔ اور اپنے ساتھ ایک تلوار کے سوا کوئی ہتھیار نہیں رکھا اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے مجمع کے ساتھ ''لبیک'' پڑھتے ہوئے حرم کی طرف بڑھے جب مکہ میں داخل ہونے لگے تو دربار نبوت کے شاعر حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اونٹ کی مہار تھامے ہوئے آگے آگے رجز کے یہ اشعار جوش و خروش کے ساتھ بلندآواز سے پڑھتے جاتے تھے کہ ؎"
"خَلُّوْا بَنِی الْکُفَّارِ عَنْ سَبِیْلِہٖ اَلْیَوْمَ نَضْرِبُکُمْ عَلٰی تَنْزِیْلِہٖ"
اے کافروں کے بیٹو!سامنے سے ہٹ جاؤ۔ آج جو تم نے اترنے سے روکا تو ہم تلوار چلائیں گے۔
"ضَرْبًا یُّزِیْلُ الْھَامَ عَنْ مَقِیْلِہٖ وَیُذْھِلُ الْخَلِیْلَ عَنْ خَلِیْلِہٖ"
"ہم تلوار کا ایسا وار کریں گے جو سر کو اس کی خوابگاہ سے الگ کردے اور دوست کی یاد اس کے دوست کے دل سے بھلا دے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ٹوکا اور کہا کہ اے عبداللہ بن رواحہ!رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے آگے آگے اور اللہ تعالیٰ کے حرم میں تم اشعار پڑھتے ہو؟ تو"
"حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عمر !رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کو چھوڑ دو۔ یہ اشعار کفار کے حق میں تیروں سے بڑھ کر ہیں۔ (1)(شمائل ترمذی ص ۱۷ و زرقانی ج ۲ ص ۲۵۵ تا ص ۲۵۷ )
جب رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم خاص حرم کعبہ میں داخل ہوئے تو کچھ کفارقریش مارے جلن کے اس منظر کی تاب نہ لاسکے اور پہاڑوں پر چلے گئے۔ مگر کچھ کفار اپنے دارالندوہ(کمیٹی گھر) کے پاس کھڑے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر بادهٔ توحید و رسالت سے مست ہونے والے مسلمانوں کے طواف کا نظارہ کرنے لگے اور آپس میں کہنے لگے کہ یہ مسلمان بھلا کیا طواف کریں گے؟ ان کو تو بھوک اور مدینہ کے بخار نے کچل کر رکھ دیا ہے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مسجد حرام میں پہنچ کر ''اضطباع'' کرلیا۔ یعنی چادر کو اس طرح اوڑھ لیا کہ آپ کا داہنا شانہ اور بازو کھل گیا اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا اس پر اپنی رحمت نازل فرمائے جو ان کفار کے سامنے اپنی قوت کا اظہار کرے۔ پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ساتھ شروع کے تین پھیروں میں شانوں کو ہلا ہلاکر اور خوب اکڑتے ہوئے چل کر طواف کیا۔ اس کو عربی زبان میں ''رمل'' کہتے ہیں۔ چنانچہ یہ سنت آج تک باقی ہے اور قیامت تک باقی رہے گی کہ ہر طواف کعبہ کرنے والا شروع طواف کے تین پھیروں میں ''رمل'' کرتا ہے۔(2) (بخاری ج۱ ص ۲۱۸ باب کیف کان بدء الرمل )"
تین دن کے بعد کفارمکہ کے چند سردار حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ شرط پوری ہوچکی۔ اب آپ لوگ مکہ سے نکل جائیں۔ حضرت علی رضی
"1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ و شرح الزرقانی،باب عمرۃ القضائ، ج۳،ص۳۱۴۔۳۱۸
2۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،باب عمرۃ القضائ،ج۳،ص۳۱۶۔۳۲۳ملتقطاً"
اللہ تعالیٰ عنہ نے بارگاہ نبوت میں کفار کا پیغام سنایا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اسی وقت مکہ سے روانہ ہوگئے۔ چلتے وقت حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک چھوٹی صاحبزادی جن کا نام ''امامہ'' تھا۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو چچا چچا کہتی ہوئی دوڑی آئیں۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنگ ِاُحد میں شہید ہوچکے تھے۔ ان کی یہ یتیم چھوٹی بچی مکہ میں رہ گئی تھیں۔ جس وقت یہ بچی آپ کو پکارتی ہوئی دوڑی آئیں تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنے شہید چچا جان کی اس یادگار کو دیکھ کر پیار آگیا۔ اس بچی نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو بھائی جان کہنے کی بجائے چچا جان اس رشتہ سے کہا کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے رضاعی بھائی ہیں، کیونکہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اور حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ثویبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا دودھ پیا تھا۔جب یہ صاحبزادی قریب آئیں تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آگے بڑھ کر ان کو اپنی گود میں اٹھا لیا لیکن اب ان کی پرورش کے لئے تین دعویدار کھڑے ہوگئے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ کہا کہ یارسول اللہ!صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یہ میری چچازاد بہن ہے اور میں نے اس کو سب سے پہلے اپنی گود میں اٹھالیا ہے اس لئے مجھ کو اس کی پرورش کا حق ملنا چاہے۔ حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ گزارش کی کہ یارسول اللہ!صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یہ میری چچازاد بہن بھی ہے اور اس کی خالہ میری بیوی ہے اس لئے اس کی پرورش کا میں حقدار ہوں۔حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ!صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یہ میرے دینی بھائی حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی لڑکی ہے اس لئے میں اس کی پرورش کروں گا۔ تینوں صاحبوں کا بیان سن کر حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا کہ ''خالہ ماں کے برابر ہوتی ہے'' لہٰذا یہ لڑکی حضرت جعفر
رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پرورش میں رہے گی۔پھر تینوں صاحبوں کی دلداری و دل جوئی کرتے ہوئے رحمتِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا کہ ''اے علی!تم مجھ سے ہو اورمیں تم سے ہوں۔''اور حضرت جعفررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ ''اے جعفر !تم سیرت و صورت میں مجھ سے مشابہت رکھتے ہو۔'' اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ فرمایا کہ'' اے زید!تم میرے بھائی اور میرے مولیٰ(آزادکردہ غلام )ہو۔'' (1) (بخاری ج۲ص ۶۱۰عمرۃ القضاء )
اسی عمرۃ القضاء کے سفر میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت بی بی میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح فرمایا۔ یہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی چچی ام فضل زوجہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی بہن تھیں۔ عمرۃ القضاء سے واپسی میں جب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مقام ''سرف'' میں پہنچے تو ان کو اپنے خیمہ میں رکھ کر اپنی صحبت سے سرفراز فرمایااور عجیب اتفاق کہ اس واقعہ سے چوالیس برس کے بعد اسی مقام سرف میں حضرت بی بی میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا وصال ہوا اور ان کی قبرشریف بھی اسی مقام میں ہے۔ صحیح قول یہ ہے کہ ان کی وفات کا سال ۵۱ھ ہے۔مفصل بیان ان شاء اللہ تعالیٰ ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے بیان میں آئے گا۔(2)
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب عمرۃ القضائ...الخ،الحدیث ۴۲۵۱،ج۳، ص۹۴
والمواھب اللدنیۃ وشرح الزرقانی، باب عمرۃ القضائ،ج۳،ص۳۲۵،۳۲۶ ملخصاً
2۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ و شرح الزرقانی، باب عمرۃ القضائ، ج۳،ص۳۲۸،۳۲۹ ملخصاً"
ہجرت کا آٹھواں سال بھی حضور سرورکائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس حیات کے بڑے بڑے واقعات پر مشتمل ہے۔ ہم ان میں سے یہاں چند اہمیت و شہرت والے واقعات کا تذکرہ کرتے ہیں۔
''موتہ'' ملک شام میں ایک مقام کا نام ہے۔ یہاں ۸ھ میں کفرواسلام کا وہ عظیم الشان معرکہ ہوا جس میں ایک لاکھ لشکر کفار سے صرف تین ہزار جاں نثار مسلمانوں نے اپنی جان پر کھیل کر ایسی معرکہ آرائی کی کہ یہ لڑائی تاریخ اسلام میں ایک تاریخی یادگار بن کر قیامت تک باقی رہے گی اور اس جنگ میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی بڑی بڑی اولوالعزم ہستیاں شرف شہادت سے سرفراز ہوئیں۔(1)
اس جنگ کا سبب یہ ہوا کہ حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ''بصریٰ'' کے بادشاہ یا قیصر روم کے نام ایک خط لکھ کر حضرت حارث بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذریعہ روانہ فرمایا۔ راستہ میں ''بلقاء'' کے بادشاہ شرحبیل بن عمروغسانی نے جوقیصر روم کا باج گزار تھا حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اس قاصد کو نہایت بے دردی کے ساتھ رسی میں باندھ کر قتل کردیا۔ جب بارگاہ رسالت میں اس حادثہ کی اطلاع پہنچی تو قلب مبارک پر انتہائی
1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، باب غزوۃ موتۃ، ج۳، ص۳۳۹۔۳۴۱، ۳۴۴
"رنج و صدمہ پہنچا۔اس وقت آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے تین ہزار مسلمانوں کا لشکر تیار فرمایا اور اپنے دستِ مبارک سے سفید رنگ کا جھنڈا باندھ کر حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں دیا اور ان کو اس فوج کا سپہ سالار بنایا اور ارشاد فرمایا کہ اگر زید بن حارثہ شہید ہوجائیں تو حضرت جعفر سپہ سالار ہوں گے اور جب وہ بھی شہادت سے سرفراز ہوجائیں تو اس جھنڈے کے علمبردار حضرت عبداللہ بن رواحہ ہوں گے(رضی اللہ تعالیٰ عنہم) ان کے بعد لشکراسلام جس کو منتخب کرے وہ سپہ سالار ہوگا۔(1)
اس لشکر کو رخصت کرنے کے لئے خود حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مقام ''ثنیۃ الوداع'' تک تشریف لے گئے اور لشکر کے سپہ سالار کو حکم فرمایا کہ تم ہمارے قاصد حضرت حارث بن عمیر(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی شہادت گاہ میں جاؤ جہاں اس جاں نثار نے ادائے فرض میں اپنی جان دی ہے۔ پہلے وہاں کے کفار کو اسلام کی دعوت دو۔ اگر وہ لوگ اسلام قبول کرلیں تو پھر وہ تمہارے اسلامی بھائی ہیں ورنہ تم اللہ عزوجل کی مددطلب کرتے ہوئے ان سے جہاد کرو۔ جب لشکر چل پڑا تو مسلمانوں نے بلند آواز سے یہ دعا دی کہ خدا سلامت اور کامیاب واپس لائے۔
جب یہ فوج مدینہ سے کچھ دور آگے نکل گئی تو خبر ملی کہ خود قیصرروم مشرکین کی ایک لاکھ فوج لے کر بلقاء کی سرزمین میں خیمہ زن ہوگیا ہے۔ یہ خبر پاکر امیرلشکر حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے لشکر کو پڑاؤ کا حکم دے دیا اور ارادہ کیا کہ بارگاہ رسالت میں اس کی اطلاع دی جائے اور حکم کا انتظار کیا جائے۔ مگر حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہمارا مقصد فتح یامال غنیمت نہیں ہے بلکہ"
1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ و شرح الزرقانی،باب غزوۃ موتۃ، ج۳، ص۳۴۰،۳۴۲
"ہمارا مطلوب تو شہادت ہے۔ کیونکہ ؎
شہادت ہے مقصودو مطلوبِ مومن نہ مالِ غنیمت ، نہ کشور کشائی
اور یہ مقصد بلند ہر وقت اور ہر حالت میں حاصل ہوسکتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ تقریر سن کر ہر مجاہد جوش جہاد میں بے خود ہوگیا۔ اور سب کی زبان پر یہی ترانہ تھا کہ ؎
بڑھتے چلو مجاہدو بڑھتے چلو مجاہدو
غرض یہ مجاہدین اسلام موتہ کی سرزمین میں داخل ہوگئے اور وہاں پہنچ کر دیکھا کہ واقعی ایک بہت بڑا لشکر ریشمی زرق برق وردیاں پہنے ہوئے بے پناہ تیاریوں کے ساتھ جنگ کے لئے کھڑا ہے۔ ایک لاکھ سے زائد لشکر کا بھلا تین ہزار سے مقابلہ ہی کیا؟ مگر مسلمان خداعزوجل کے بھروسا پر مقابلہ کے لئے ڈٹ گئے۔(1)"
سب سے پہلے مسلمانوں کے امیر لشکر حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آگے بڑھ کر کفار کے لشکر کو اسلام کی دعوت دی۔ جس کا جواب کفار نے تیروں کی مار اور تلواروں کے وار سے دیا۔ یہ منظر دیکھ کر مسلمان بھی جنگ کے لئے تیار ہوگئے اور لشکر اسلام کے سپہ سالار حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھوڑے سے اتر کر پا پیادہ میدان جنگ میں کود پڑے اور مسلمانوں نے بھی نہایت جوش و خروش کے ساتھ لڑنا شروع کردیا لیکن اس گھمسان کی لڑائی میں کافروں نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نیزوں اور برچھیوں سے چھید ڈالااور وہ جوانمردی کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔ فوراً ہی جھپٹ کر حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پرچم
1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ و شرح الزرقانی، باب غزوۃ موتۃ، ج۳، ص۳۴۲۔۳۴۴
"اسلام کو اٹھا لیا مگر ان کو ایک رومی مشرک نے ایسی تلوار ماری کہ یہ کٹ کر دو ٹکڑے ہوگئے۔ لوگوں کا بیان ہے کہ ہم نے ان کی لاش دیکھی تھی۔ ان کے بدن پر نیزوں اور تلواروں کے نوے سے کچھ زائد زخم تھے۔ لیکن کوئی زخم ان کی پیٹھ کے پیچھے نہیں لگا تھا بلکہ سب کے سب زخم سامنے ہی کی جانب لگے تھے۔ حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے علم اسلام ہاتھ میں لیا۔ فوراً ہی ان کے چچازادبھائی نے گوشت سے بھری ہوئی ایک ہڈی پیش کی اور عرض کیا کہ بھائی جان! آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کچھ کھایا پیا نہیں ہے۔ لہٰذا اس کو کھا لیجئے۔ آپ نے ایک ہی مرتبہ دانت سے نوچ کر کھایا تھا کہ کفار کا بے پناہ ہجوم آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر ٹوٹ پڑا۔ آپ نے ہڈی پھینک دی اور تلوار نکال کر دشمنوں کے نرغہ میں گھس کر رجز کے اشعار پڑھتے ہوئے انتہائی دلیری اور جاں بازی کے ساتھ لڑنے لگے مگر زخموں سے نڈھال ہوکر زمین پر گر پڑے اور شربت شہادت سے سیراب ہوگئے۔(1) ( بخاری ج ۲ص ۶۱۱ غزوہ موتہ وزرقانی ج ۲ص ۲۷۱ ص ۲۷۴)
اب لوگوں کے مشورہ سے حضرت خالد بن الولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ جھنڈے کے علمبردار بنے اور اس قدر شجاعت اوربہادری کے ساتھ لڑے کہ نوتلواریں ٹوٹ ٹوٹ کر ان کے ہاتھ سے گر پڑیں۔اور اپنی جنگی مہارت اور کمال ہنرمندی سے اسلامی فوج کو دشمنوں کے نرغہ سے نکال لائے۔ (بخاری ج ۲ ص ۶۱۱ غزوه موتہ)
اس جنگ میں جو بارہ معزز صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ مشہید ہوئے ان کے مقدس نام یہ ہیں:
(۱)حضرت زید بن حارثہ (۲)حضرت جعفر بن ابی طالب"
1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ و شرح الزرقانی، باب غزوۃ موتۃ، ج۳،ص۳۴۵۔۳۴۷ ملتقطاً
" (۳)حضرت عبداللہ بن رواحہ (۴)حضرت مسعود بن اوس
(۵)حضرت وہب بن سعد (۶)حضرت عباد بن قیس
(۷)حضرت حارث بن نعمان (۸)حضرت سراقہ بن عمر
(۹)حضرت ابوکلیب بن عمر (۱۰)حضرت جابر بن عمر
(۱۱) حضرت عمر بن سعد (۱۲)حضرت ہو بجہ ضبی(1)
(رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین) (زُرقانی ج۲ص ۲۷۳)
اسلامی لشکر نے بہت سے کفار کو قتل کیا اور کچھ مال غنیمت بھی حاصل کیا اور سلامتی کے ساتھ مدینہ واپس آگئے۔"
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب غزوۃ موتۃ من ارض الشام،الحدیث:۴۲۶۵،
ج۳،ص۹۷ والمواھب اللدنیۃ و شرح الزرقانی، باب غزوۃ موتۃ، ج۳،ص۳۴۸
2۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب غزوۃ موتۃ،ج۳،ص۳۵۰وصحیح البخاری،
کتاب المغازی، باب غزوۃ موتۃ من ارض الشام، الحدیث:۴۲۶۲،ج۳،ص۹۶"
"ہوگئے۔ پھر جعفررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جھنڈالیاوہ بھی شہیدہوگئے ،پھر عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ علمبردار بنے اور وہ بھی شہید ہوگئے۔یہاں تک کہ جھنڈے کو خدا کی تلواروں میں سے ایک تلوار (خالد بن ولیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے اپنے ہاتھوں میں لیا۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو یہ خبریں سناتے رہے اور آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ (1)(بخاری ج۲ ص ۶۱۱ غزوۂ موتہ)
موسیٰ بن عقبہ نے اپنے مغازی میں لکھا ہے کہ جب حضرت یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنگ موتہ کی خبر لے کر دربار نبوت میں پہنچے تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تم مجھے وہاں کی خبر سناؤ گے؟ یا میں تمہیں وہاں کی خبر سناؤں۔ حضرت یعلیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ!(عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)آپ ہی سنایئے جب آپ نے وہاں کا پورا پورا حال و ماحول سنایا تو حضرت یعلیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک بات بھی نہیں چھوڑی کہ جس کو میں بیان کروں۔ (2)(زرقانی ج۲ ص ۲۷۶)
حضرت جعفر شہید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا بیان ہے کہ میں نے اپنے بچوں کو نہلا دھلا کر تیل کا جل سے آراستہ کرکے آٹا گوندھ لیا تھا کہ بچوں کے لئے روٹیاں پکاؤں کہ اتنے میں رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میرے گھر میں تشریف لائے اور فرمایا کہ جعفررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بچوں کو میرے سامنے لاؤ جب میں نے بچوں کو پیش کیا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بچوں کو سونگھنے اور چومنے لگے"
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری، کتاب المغازی،باب غزوۃ موتۃ من ارض الشام، الحدیث:۴۲۶۲،
ج۳،ص۹۶
2۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃمع شرح الزرقانی،باب غزوۃ موتۃ، ج۳،ص۳۵۵،۳۵۶"
"اور آپ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی دھار رُخسارِ پرانوار پر بہنے لگی تو میں نے عرض کیا کہ کیا حضرت جعفررضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں کوئی خبر آئی ہے؟ توارشاد فرمایاکہ ہاں!وہ لوگ آج ہی شہید ہوگئے ہیں۔ یہ سن کر میری چیخ نکل گئی اور میرا گھر عورتوں سے بھر گیا۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے کاشانہ نبوت میں تشریف لے گئے اور ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہ نسے فرمایا کہ جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھروالوں کے لئے کھانا تیار کراؤ۔(1)(زرقانی ج ۲ ص ۲۷۷)
جب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے لشکر کے ساتھ مدینہ کے قریب پہنچے تو حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم گھوڑے پر سوار ہوکر ان لوگوں کے استقبال کے لئے تشریف لے گئے اور مدینہ کے مسلمان اور چھوٹے چھوٹے بچے بھی دوڑتے ہوئے مجاہدین اسلام کی ملاقات کے لئے گئے اور حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جنگ موتہ کے شہدائے کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا ایسا پر درد مرثیہ سنایا کہ تمام سامعین رونے لگے۔(2)
(زرقانی ج ۲ ص ۲۷۷)
حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دونوں ہاتھ شہادت کے وقت کٹ کر گر پڑے تھے توحضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت جعفررضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کے دونوں ہاتھوں کے بدلے دو بازو عطا فرمائے ہیں جن سے اڑ اڑ کر وہ جنت میں جہاں چاہتے ہیں چلے جاتے ہیں۔ (3)
(زرقانی ج ۲ ص۲۷۴)"
"1۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب،باب غزوۃ موتۃ،ج۳،ص۳۵۶
2۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب،باب غزوۃ موتۃ،ج۳،ص۳۵۶
3۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ و شرح الزرقانی،باب غزوۃ موتۃ، ج۳،ص۳۵۳"
" یہی وجہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما جب حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صاحبزادے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سلام کرتے تھے تو یہ کہتے تھے کہ ''السلام علیک یا ابن ذی الجناحین'' یعنی اے دو بازوؤں والے کے فرزند!تم پر سلام ہو۔ (1) (بخاری ج ۲ ص ۶۱۱ غزوۂ موتہ)
جنگ موتہ اور فتح مکہ کے درمیان چند چھوٹی چھوٹی جماعتوں کو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے کفار کی مدافعت کے لئے مختلف مقامات پر بھیجا۔ ان میں سے بعض لشکروں کے ساتھ کفار کا ٹکراؤ بھی ہوا جن کا مفصل تذکرہ زرقانی و مدارج النبوۃ وغیرہ میں لکھا ہوا ہے۔ ان سریوں کے نام یہ ہیں۔
ذات السلاسل۔ سریۃ الخبط۔ سریہ ابوقتادہ(نجد)۔ سریہ ابوقتادہ(صنم)مگران سریوں میں ''سریۃ الخبط'' زیادہ مشہور ہے جس کا مختصر بیان یہ ہے:"
اس سریہ کو حضرت امام بخاری رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے ''غزوہ سیف البحر'' کے نام سے ذکر کیا ہے۔ رجب ۸ ھ میں حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تین سو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے لشکر پر امیر بناکر ساحل سمندر کی جانب روانہ فرمایاتاکہ یہ لوگ قبیلہ جہینہ کے کفار کی شرارتوں پر نظر رکھیں اس لشکر میں خوراک کی اس قدر کمی پڑگئی کہ امیرلشکر مجاہدین کو روزانہ ایک ایک کھجور راشن میں دیتے تھے۔ یہاں تک کہ ایک وقت ایسا بھی آگیا کہ یہ کھجوریں بھی ختم ہوگئیں اور لوگ بھوک سے بے چین ہوکر درختوں کے پتے کھانے لگے یہی وجہ ہے کہ عام طورپر مؤرخین
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری، کتاب المغازی،باب غزوۃ موتۃ من ارض الشام، الحدیث:۴۲۶۴،
ج۳،ص۹۷"
نے اس سریہ کا نام ''سریۃ الخبط'' یا ''جیش الخبط'' رکھا ہے۔ ''خبط'' عربی زبان میں درخت کے پتوں کو کہتے ہیں۔ چونکہ مجاہدین اسلام نے اس سریہ میں درختوں کے پتے کھاکر جان بچائی اس لئے یہ سریۃ الخبط کے نام سے مشہور ہوگیا۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ہم لوگوں کو اس سفر میں تقریباً ایک مہینہ رہنا پڑا اور جب بھوک کی شدت سے ہم لوگ درختوں کے پتے کھانے لگے تو اللہ تعالیٰ نے غیب سے ہمارے رزق کا یہ سامان پیدا فرما دیا کہ سمندر کی موجوں نے ایک اتنی بڑی مچھلی ساحل پر پھینک دی،جو ایک پہاڑی کے مانند تھی چنانچہ تین سو صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اٹھارہ دنوں تک اس مچھلی کا گوشت کھاتے رہے اور اس کی چربی اپنے بدن پر ملتے رہے اور جب وہاں سے روانہ ہونے لگے تو اس کا گوشت کاٹ کاٹ کر مدینہ تک لائے اور جب یہ لوگ بارگاہ نبوت میں پہنچے اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے لئے رزق کا سامان ہوا تھا پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس مچھلی کا گوشت طلب فرمایا اور اس میں سے کچھ تناول بھی فرمایا ،یہ اتنی بڑی مچھلی تھی کہ امیرلشکر حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی دو پسلیاں زمین میں گاڑ کر کھڑی کردیں تو کجا وہ بندھا ہوا اونٹ اس محراب کے اندر سے گزر گیا۔ (1) (بخاری ج ۲ ص ۶۲۵ غزوہ سیف البحر و زرقانی ج۲ ص ۲۸۰)
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب غزوۃسیف البحر...الخ، الحدیث:۴۳۶۱،
۴۳۶۲،ج۳،ص۱۲۷ ، ۱۲۸ملخصاًوالمواھب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب سریۃ
الخبط، ج۳،ص۳۶۱۔۳۶۵ ملتقطاً"
"رمضان ۸ ھ تاریخ نبوت کا نہایت ہی عظیم الشان عنوان ہے اور سیرت مقدسہ کا یہ وہ سنہرا باب ہے کہ جس کی آب و تاب سے ہر مومن کا قلب قیامت تک مسرتوں کا آفتاب بنا رہے گا کیونکہ تاجدار دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس تاریخ سے آٹھ سال قبل انتہائی رنجیدگی کے عالم میں اپنے یارغار کو ساتھ لے کر رات کی تاریکی میں مکہ سے ہجرت فرماکر اپنے وطن عزیز کو خیرباد کہہ دیا تھااور مکہ سے نکلتے وقت خدا کے مقدس گھر خانہ کعبہ پر ایک حسرت بھری نگاہ ڈال کر یہ فرماتے ہوئے مدینہ روانہ ہوئے تھے کہ ''اے مکہ!خدا کی قسم!تو میری نگاہ محبت میں تمام دنیا کے شہروں سے زیادہ پیارا ہے اگر میری قوم مجھے نہ نکالتی تو میں ہرگز تجھے نہ چھوڑتا۔'' لیکن آٹھ برس کے بعد یہی وہ مسرت خیز تاریخ ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک فاتح اعظم کی شان و شوکت کے ساتھ اسی شہر مکہ میں نزول اجلال فرمایا اور کعبۃ اللہ میں داخل ہوکر اپنے سجدوں کے جمال و جلال سے خدا کے مقدس گھر کی عظمت کو سرفراز فرمایا۔
لیکن ناظرین کے ذہنوں میں یہ سوال سر اٹھاتا ہوگا کہ جب کہ حدیبیہ کے صلح نامہ میں یہ تحریر کیا جا چکا تھا کہ دس برس تک فریقین کے مابین کوئی جنگ نہ ہوگی تو پھر آخر وہ کونسا ایسا سبب نمودار ہوگیا کہ صلح نامہ کے فقط دو سال ہی بعد تاجدار دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اہل مکہ کے سامنے ہتھیار اٹھانے کی ضرورت پیش آگئی اور آپ ایک عظیم لشکر کے ساتھ فاتحانہ حیثیت سے مکہ میں داخل ہوئے۔تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اس کا سبب کفارمکہ کی ''عہدشکنی'' اور حدیبیہ کے صلح نامہ سے غداری ہے۔ (1)"
1۔۔۔۔۔۔السیرۃ الحلبیۃ،باب ذکر مغازیہ،غزوۃ خیبر،ج۳،ص۷۴، ماخوذاً
"صلح حدیبیہ کے بیان میں آپ پڑھ چکے کہ حدیبیہ کے صلح نامہ میں ایک یہ شرط بھی درج تھی کہ قبائل عرب میں سے جو قبیلہ قریش کے ساتھ معاہدہ کرنا چاہے وہ قریش کے ساتھ معاہدہ کرے اور جو حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے معاہدہ کرنا چاہے وہ حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ معاہدہ کرے۔
چنانچہ اسی بنا پر قبیلہ بنی بکر نے قریش سے باہمی امداد کا معاہدہ کرلیا اور قبیلہ بنی خزاعہ نے رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے امدادباہمی کا معاہدہ کرلیا۔ یہ دونوں قبیلے مکہ کے قریب ہی میں آباد تھے لیکن ان دونوں میں عرصہ دراز سے سخت عداوت اور مخالفت چلی آرہی تھی۔
ایک مدت سے توکفارقریش اور دوسرے قبائل عرب کے کفار مسلمانوں سے جنگ کرنے میں اپنا سارا زور صرف کررہے تھے لیکن صلح حدیبیہ کی بدولت جب مسلمانوں کی جنگ سے کفارقریش اور دوسرے قبائل کفار کو اطمینان ملا تو قبیلہ بنی بکر نے قبیلہ بنی خزاعہ سے اپنی پرانی عداوت کا انتقام لینا چاہا اور اپنے حلیف کفارِقریش سے مل کر بالکل اچانک طورپر قبیلہ بنی خزاعہ پر حملہ کردیا اور اس حملہ میں کفارقریش کے تمام رؤسا یعنی عکرمہ بن ابی جہل، صفوان بن امیہ و سہیل بن عمرو وغیرہ بڑے بڑے سرداروں نے علانیہ بنی خزاعہ کو قتل کیا۔ بے چارے بنی خزاعہ اس خوفناک ظالمانہ حملہ کی تاب نہ لاسکے اور اپنی جان بچانے کے لئے حرم کعبہ میں پناہ لینے کے لئے بھاگے۔ بنی بکر کے عوام نے تو حرم میں تلوار چلانے سے ہاتھ روک لیا اور حرم الٰہی کا احترام کیا۔ لیکن بنی بکر کا سردار ''نوفل'' اس قدر جوش انتقام میں آپے سے باہر ہوچکا"
"تھا کہ وہ حرم میں بھی بنی خزاعہ کو نہایت بے دردی کے ساتھ قتل کرتا رہا اور چلا چلاکر اپنی قوم کو للکارتا رہا کہ پھر یہ موقع کبھی ہاتھ نہیں آسکتا۔ چنانچہ ان درندہ صفت خونخوار انسانوں نے حرم الٰہی کے احترام کو بھی خاک میں ملا دیااور حرم کعبہ کی حدود میں نہایت ہی ظالمانہ طورپر بنی خزاعہ کا خون بہایااور کفارقریش نے بھی اس قتل و غارت اور کشت و خون میں خوب خوب حصہ لیا۔ (1)(زرقانی ج ۲ ص ۲۸۹)
ظاہر ہے کہ قریش نے اپنی اس حرکت سے حدیبیہ کے معاہدہ کو عملی طورپر توڑ ڈالا۔ کیونکہ بنی خزاعہ رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے معاہدہ کرکے آپ کے حلیف بن چکے تھے، اس لئے بنی خزاعہ پر حملہ کرنا، یہ رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر حملہ کرنے کے برابر تھا۔ اس حملہ میں بنی خزاعہ کے تیئیس(۲۳) آدمی قتل ہوگئے۔
اس حادثہ کے بعد قبیلۂ بنی خزاعہ کے سردار عمروبن سالم خزاعی چالیس آدمیوں کا وفد لے کر فریاد کرنے اور امدادطلب کرنے کے لئے مدینہ بارگاہ رسالت میں پہنچے اور یہی فتح مکہ کی تمہید ہوئی۔"
حضرت بی بی میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ ایک رات حضورِ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کاشانۂ نبوت میں وضو فرمارہے تھے کہ ایک دم بالکل ناگہاں آپ نے بلند آواز سے تین مرتبہ یہ فرمایا کہ لبیک۔ لبیک۔ لبیک۔(میں تمہارے لئے بار بار حاضر ہوں۔)پھر تین مرتبہ بلند آواز سے آپ نے یہ ارشاد فرمایا کہ نصرت۔نصرت۔ نصرت (تمہیں مدد مل گئی) جب آپ وضو خانہ سے نکلے تو میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ
1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب ہفتم ،ج۲،ص۲۸۱،۲۸۲ملخصاً
!(عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) آپ تنہائی میں کس سے گفتگو فرمارہے تھے؟ تو ارشاد فرمایا کہ اے میمونہ!رضی اللہ تعالیٰ عنہاغضب ہوگیا۔ میرے حلیف بنی خزاعہ پر بنی بکر اور کفارقریش نے حملہ کردیا ہے اور اس مصیبت و بے کسی کے وقت میں بنی خزاعہ نے وہاں سے چلا چلاکر مجھے مدد کے لئے پکارا ہے اور مجھ سے مدد طلب کی ہے اور میں نے ان کی پکار سن کر ان کی ڈھارس بندھانے کے لئے ان کو جواب دیا ہے۔ حضرت بی بی میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ اس واقعہ کے تیسرے دن جب حضورِ اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نمازفجر کے لئے مسجد میں تشریف لے گئے اور نماز سے فارغ ہوئے تو دفعۃًبنی خزاعہ کے مظلومین نے رجز کے ان اشعار کو بلند آواز سے پڑھنا شروع کردیا اور حضورِ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور اصحاب کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے ان کی اس پردرد اور رقت انگیز فریاد کو بغور سنا۔ آپ بھی اس رجز کے چند اشعار کو ملاحظہ فرمائیے:
"یَا رَبِّ اِنِّیْ نَاشِدٌ مُحَمَّدًا حِلْفَ اَبِیْنَا وَاَبِیْہِ الْاَتْلَدًا"
اے خدا!میں محمد(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کو وہ معاہدہ یاد دلاتا ہوں جو ہمارے اور ان کے باپ داداؤں کے درمیان قدیم زمانے سے ہوچکا ہے۔
"فَانْصُرْ ھَدَاکَ اللہُ نَصْرًا اَبَّدَا وَادْعُ عِبَادَ اﷲِ یَاتُوْا مَدَّدَا"
تو خدا آپ کو سیدھی راہ پر چلائے۔ آپ ہماری بھرپور مدد کیجئے اور خدا کے بندوں کو بلائیے۔ وہ سب امداد کے لئے آئیں گے۔
"فِیْھِمْ رَسُوْلُ اللہِ قَدْ تجَرَؒدَا اِنْ سِیْمَ خَسْفًا وَجْھُہٗ تَرَبَّدَا"
ان مدد کرنے والوں میں رسول اللہ (عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) بھی غضب
کی حالت میں ہوں کہ اگر انہیں ذلت کا داغ لگے تو ان کا تیور بدل جائے۔
"ھُمْ بَیَّتُوْنَا بِالْوَتِیْرِ ھُجَّدًا وَ قَتَلُوْنَا رُکَّعًا وَّسُجَّدًا"
ان لوگوں(بنی بکر و قریش) نے ''مقام و تیر'' میں ہم سوتے ہوؤں پر شب خون مارا اور رکوع و سجدہ کی حالت میں بھی ہم لوگوں کو بیدردی کے ساتھ قتل کر ڈالا۔
"اِنَّ قُرَیْشًا اَخْلَفُوْکَ الْمَوْعِدَا وَنَقَّضُوْا مِیْثَاقَکَ الْمُؤَکَّدَا"
"یقینا قریش نے آپ سے وعدہ خلافی کی ہے اور آپ سے مضبوط معاہدہ کرکے توڑ ڈالا ہے۔
ان اشعار کو سن کر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو تسلی دی اور فرمایا کہ مت گھبراؤ میں تمہاری امداد کے لئے تیار ہوں۔(1)(زرقانی ج ۲ ص ۲۹۰)"
"اس کے بعد حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے قریش کے پاس قاصد بھیجا اور تین شرطیں پیش فرمائیں کہ ان میں سے کوئی ایک شرط قریش منظور کرلیں:
(۱)بنی خزاعہ کے مقتولوں کا خون بہادیا جائے۔
(۲)قریش قبیلہ بنی بکر کی حمایت سے الگ ہوجائیں۔
(۳)اعلان کردیا جائے کہ حدیبیہ کا معاہدہ ٹوٹ گیا۔
جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے قاصد نے ان شرطوں کو قریش کے سامنے رکھا تو قرطہ بن عبد عمرنے قریش کا نمائندہ بن کر جواب دیا کہ ''نہ ہم مقتولوں کے خون کا معاوضہ دیں گے نہ اپنے حلیف قبیلہ بنی بکر کی حمایت چھوڑیں گے۔ ہاں تیسری شرط"
1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃمع شرح الزرقانی،باب غزوۃ الفتح الاعظم، ج۳،ص۳۸۰،۳۸۲
ہمیں منظور ہے اور ہم اعلان کرتے ہیں کہ حدیبیہ کا معاہدہ ٹوٹ گیا۔'' لیکن قاصد کے چلے جانے کے بعد قریش کو اپنے اس جواب پر ندامت ہوئی۔ چنانچہ چند رؤسائے قریش ابوسفیان کے پاس گئے اور یہ کہا کہ اگر یہ معاملہ نہ سلجھا تو پھر سمجھ لو کہ یقینا محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) ہم پر حملہ کردیں گے۔ ابوسفیان نے کہا کہ میری بیوی ہندبنت عتبہ نے ایک خواب دیکھا ہے کہ مقام '' حجون '' سے مقام ''خندمہ'' تک ایک خون کی نہر بہتی ہوئی آئی ہے، پھر ناگہاں وہ خون غائب ہوگیا۔ قریش نے اس خواب کو بہت ہی منحوس سمجھا اور خوف و دہشت سے سہم گئے اور ابوسفیان پر بہت زیادہ دباؤ ڈالا کہ وہ فوراً مدینہ جاکر معاہدہ حدیبیہ کی تجدید کرے۔ (1)(زرقانی ج۲ ص ۲۹۲)
اس کے بعد بہت تیزی کے ساتھ ابوسفیان مدینہ گیا اور پہلے اپنی لڑکی حضرت اُم المؤمنین بی بی ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مکان پر پہنچااور بستر پر بیٹھنا ہی چاہتا تھا کہ حضرتِ بی بی اُمِ حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جلدی سے بستر اٹھا لیا ابوسفیان نے حیران ہوکر پوچھا کہ بیٹی تم نے بستر کیوں اٹھالیا؟ کیا بستر کو میرے قابل نہیں سمجھا یا مجھ کو بستر کے قابل نہیں سمجھا؟ اُم المؤمنین نے جواب دیا کہ یہ رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا بستر ہے اور تم مشرک اور نجس ہو۔ اس لئے میں نے یہ گوارا نہیں کیا کہ تم رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بستر پر بیٹھو۔ یہ سن کر ابوسفیان کے دل پر چوٹ لگی اور وہ رنجیدہ ہوکر وہاں سے چلا آیا اور رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنا مقصد بیان کیا۔ آپ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر ابوسفیان
1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃمع شرح الزرقانی، باب غزوۃ الفتح الاعظم، ج۳،ص۳۸۴
حضرت ابوبکر صدیق و حضرت عمر وحضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے پاس گیا۔ ان سب حضرات نے جواب دیا کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جب ابوسفیان پہنچا تو وہاں حضرت بی بی فاطمہ اور حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہما بھی تھے۔ ابوسفیان نے بڑی لجاجت سے کہا کہ اے علی!تم قوم میں بہت ہی رحم دل ہو ہم ایک مقصد لے کر یہاں آئے ہیں کیا ہم یوں ہی ناکام چلے جائیں۔ ہم صرف یہی چاہتے ہیں کہ تم محمد(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) سے ہماری سفارش کردو۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اے ابوسفیان!ہم لوگوں کی یہ مجال نہیں ہے کہ ہم حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ارادہ اور ان کی مرضی میں کوئی مداخلت کرسکیں۔ ہر طرف سے مایوس ہوکر ابوسفیان نے حضرت فاطمہ زہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا کہ اے فاطمہ!یہ تمہارا پانچ برس کا بچہ(امام حسن) ایک مرتبہ اپنی زبان سے اتنا کہہ دے کہ میں نے دونوں فریق میں صلح کرا دی تو آج سے یہ بچہ عرب کا سردار کہہ کر پکارا جائے گا۔ حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواب دیا کہ بچوں کو ان معاملات میں کیا دخل؟ بالآخر ابوسفیان نے کہا کہ اے علی!معاملہ بہت کٹھن نظر آتا ہے کوئی تدبیر بتاؤ؟ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں اس سلسلے میں تم کو کوئی مفید رائے تو نہیں دے سکتا۔ لیکن تم بنی کنانہ کے سردار ہو تم خود ہی لوگوں کے سامنے اعلان کردو کہ میں نے حدیبیہ کے معاہدہ کی تجدید کردی ابوسفیان نے کہا کہ کیا میرا یہ اعلان کچھ مفید ہوسکتا ہے؟ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یک طرفہ اعلان ظاہر ہے کہ کچھ مفید نہیں ہوسکتا۔ مگر اب تمہارے پاس اس کے سوا اور چارهٔ کار ہی کیا ہے؟ ابوسفیان وہاں سے مسجد نبوی میں آیا اور بلند آواز سے مسجد میں اعلان کردیا کہ میں نے معاہدہ حدیبیہ کی تجدید کردی مگر مسلمانوں میں سے
"کسی نے بھی کوئی جواب نہیں دیا۔
ابوسفیان یہ اعلان کرکے مکہ روانہ ہوگیا جب مکہ پہنچا تو قریش نے پوچھا کہ مدینہ میں کیا ہوا؟ ابوسفیان نے ساری داستان بیان کردی۔ تو قریش نے سوال کیا کہ جب تم نے اپنی طرف سے معاہدہ حدیبیہ کی تجدید کا اعلان کیا تو کیا محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) نے اس کو قبول کرلیا؟ ابوسفیان نے کہا کہ ''نہیں'' یہ سن کر قریش نے کہا کہ یہ تو کچھ بھی نہ ہوا۔ یہ نہ تو صلح ہے کہ ہم اطمینان سے بیٹھیں نہ یہ جنگ ہے کہ لڑائی کا سامان کیا جائے۔ (1) (زرقانی ج۲ ص ۲۹۲تا ص ۲۹۳)
اس کے بعد حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے لوگوں کو جنگ کی تیاری کا حکم دے دیا اور حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بھی فرما دیا کہ جنگ کے ہتھیار درست کریں اور اپنے حلیف قبائل کو بھی جنگی تیاریوں کے لئے حکم نامہ بھیج دیا۔ مگر کسی کو حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ نہیں بتایا کہ کس سے جنگ کا ارادہ ہے؟ یہاں تک کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی آپ نے کچھ نہیں فرمایا۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آئے اور دیکھا کہ وہ جنگی ہتھیاروں کو نکال رہی ہیں تو آپ نے دریافت کیا کہ کیا حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے؟ عرض کیا: ''جی ہاں'' پھر آپ نے پوچھا کہ کیا تمہیں کچھ معلوم ہے کہ کہاں کا ارادہ ہے؟ حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا کہ ''واللہ! مجھے یہ معلوم نہیں۔''(2)
(زرقانی ج۲ ص ۲۹۱)"
"1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃمع شرح الزرقانی،باب غزوۃ الفتح الاعظم، ج۳،ص۳۸۵۔۳۸۶
2۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃمع شرح الزرقانی،باب غزوۃ الفتح الاعظم، ج۳،ص۳۸۱،۳۸۲"
غرض انتہائی خاموشی اور رازداری کے ساتھ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جنگ کی تیاری فرمائی اور مقصد یہ تھا کہ اہل مکہ کو خبر نہ ہونے پائے اور اچانک ان پر حملہ کردیا جائے۔
حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو ایک معزز صحابی تھے انہوں نے قریش کو ایک خط اس مضمون کا لکھدیا کہ رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جنگ کی تیاریاں کررہے ہیں، لہٰذا تم لوگ ہوشیار ہوجاؤ۔ اس خط کو انہوں نے ایک عورت کے ذریعہ مکہ بھیجا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو علم غیب عطا فرمایا تھا۔ آپ نے اپنے اس علم غیب کی بدولت یہ جان لیا کہ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا کارروائی کی ہے۔ چنانچہ آپ نے حضرت علی و حضرت زبیر و حضرت مقداد رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو فوراً ہی روانہ فرمایا کہ تم لوگ ''روضۂ خاخ'' میں چلے جاؤ۔ وہاں ایک عورت ہے اور اس کے پاس ایک خط ہے۔ اس سے وہ خط چھین کر میرے پاس لاؤ۔ چنانچہ یہ تینوں اصحاب کباررضی اللہ تعالیٰ عنہم تیزرفتار گھوڑوں پر سوار ہوکر ''روضۂ خاخ'' میں پہنچے اور عورت کو پالیا۔ جب اس سے خط طلب کیا تو اس نے کہا کہ میرے پاس کوئی خط نہیں ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ خدا کی قسم!رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کبھی کوئی جھوٹی بات نہیں کہہ سکتے، نہ ہم لوگ جھوٹے ہیں لہٰذا تو خط نکال کر ہمیں دے دے ورنہ ہم تجھ کو ننگی کرکے تلاشی لیں گے۔ جب عورت مجبور ہوگئی تو اس نے اپنے بالوں کے جوڑے میں سے وہ خط نکال کر دے دیا۔ جب یہ لوگ خط لے کر بارگاہ رسالت میں پہنچے تو آپ نے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا اور فرمایا کہ اے
حاطب!یہ تم نے کیا کیا؟ انہوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ! (عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) آپ میرے بارے میں جلدی نہ فرمائیں نہ میں نے اپنا دین بدلا ہے نہ مرتد ہوا ہوں میرے اس خط کے لکھنے کی وجہ صرف یہ ہے کہ مکہ میں میرے بیوی بچے ہیں۔ مگر مکہ میں میرا کوئی رشتہ دار نہیں ہے جو میرے بیوی بچوں کی خبرگیری و نگہداشت کرے میرے سوا دوسرے تمام مہاجرین کے عزیزواقارب مکہ میں موجود ہیں جو ان کے اہل و عیال کی دیکھ بھال کرتے رہتے ہیں۔ اس لئے میں نے یہ خط لکھ کر قریش پر ایک اپنا احسان رکھ دیا ہے تاکہ میں ان کی ہمدردی حاصل کرلوں اور وہ میرے اہل و عیال کے ساتھ کوئی برا سلوک نہ کریں۔ یارسول اللہ! (عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)میرا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ ضروران کافروں کو شکست دے گا اور میرے اس خط سے کفار کو ہرگز ہرگز کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت حاطب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس بیان کو سن کر ان کے عذرکو قبول فرما لیا مگر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس خط کو دیکھ کر اس قدر طیش میں آگئے کہ آپے سے باہر ہوگئے اور عرض کیا کہ یارسول اللہ!(عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) مجھے اجازت دیجیے کہ میں اس منافق کی گردن اڑا دوں۔ دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم بھی غیظ و غضب میں بھر گئے۔ لیکن رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی جبینِ رحمت پر اک ذرا شکن بھی نہیں آئی اور آپ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ارشاد فرمایا کہ اے عمر!رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیا تمہیں خبر نہیں کہ حاطب اہل بدر میں سے ہے اور اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کو مخاطب کرکے فرمادیا ہے کہ ''تم جو چاہو کرو۔ تم سے کوئی مواخذہ نہیں'' یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آنکھیں نم ہوگئیں اور وہ یہ کہہ کر بالکل خاموش ہوگئے کہ'' اللہ اور اس کے رسول کو ہم سب سے زیادہ علم ہے'' اسی موقع پر قرآن کی یہ آیت
نازل ہوئی کہ
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا عَدُوِّیۡ وَ عَدُوَّکُمْ اَوْلِیَآءَ (1)
"اے ایمان والو!میرے اور اپنے دشمن کافروں کو دوست نہ بناؤ۔(ممتحنہ)
بہرحال حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو معاف فرما دیا۔ (2)(بخاری ج ۲ ص ۶۱۲غزوۂ الفتح)"
غرض ۱۰ رمضان ۸ ھ کو رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مدینہ سے دس ہزار کا لشکرِ پرانوار ساتھ لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ بعض روایتوں میں ہے کہ فتح مکہ میں آپ کے ساتھ بارہ ہزار کا لشکر تھا ان دونوں روایتوں میں کوئی تعارض نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ مدینہ سے روانگی کے وقت دس ہزار کا لشکر رہا ہو۔ پھر راستہ میں بعض قبائل اس لشکر میں شامل ہوگئے ہوں تو مکہ پہنچ کر اس لشکر کی تعداد بارہ ہزار ہوگئی ہو۔ بہرحال مدینہ سے چلتے وقت حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور تمام صحابہ کباررضی اللہ تعالیٰ عنہم روزہ دار تھے جب آپ ''مقام کدید'' میں پہنچے تو پانی مانگا اور اپنی سواری پر بیٹھے ہوئے پورے لشکر کو دکھاکر آپ نے دن میں پانی نوش فرمایا اور سب کو روزہ چھوڑ دینے کا حکم دیا۔ چنانچہ آپ اور آپ کے اصحاب نے سفر اور جہاد میں ہونے کی وجہ سے روزہ رکھنا موقوف کردیا۔(3) (بخاری ج۲ ص ۶۱۳ و زرقانی ج۲ ص۳۰۰و سیرت ابن ہشام ج۲ص۴۰۰)
"1۔۔۔۔۔۔پ۲۸،الممتحنۃ:۱
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب غزوۃ الفتح،الحدیث:۴۲۷۴، ج۳، ص۹۹
والمواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،باب غزوۃ الفتح الاعظم،ج۳،ص۳۷۸۔۳۹۱
3۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،باب غزوۃ الفتح الاعظم، ج۳،ص۳۹۵،۳۹۷"
جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مقام ''جحفہ'' میں پہنچے تو وہاں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ یہ مسلمان ہوکر آئے تھے بلکہ اس سے بہت پہلے مسلمان ہوچکے تھے اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مرضی سے مکہ میں مقیم تھے اور حجاج کو زمزم پلانے کے معزز عہدہ پر فائز تھے اور آپ کے ساتھ میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے چچا حارث بن عبدالمطلب کے فرزند جن کا نام بھی ابوسفیان تھا اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی عبداللہ بن ابی امیہ جواُم المؤمنین حضرت بی بی اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سوتیلے بھائی بھی تھے بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے ان دونوں صاحبوں کی حاضری کا حال جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ نے ان دونوں صاحبوں کی ملاقات سے انکار فرما دیا۔ کیونکہ ان دونوں نے حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو بہت زیادہ ایذائیں پہنچائی تھیں۔ خصوصاً ابوسفیان بن الحارث آپ کے چچازاد بھائی جو اعلان نبوت سے پہلے آپ کے انتہائی جاں نثاروں میں سے تھے مگر اعلان نبوت کے بعد انہوں نے اپنے قصیدوں میں اتنی شرمناک اور بیہودہ ہجو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی کر ڈالی تھی کہ آپ کا دل زخمی ہوگیا تھا۔ اس لئے آپ ان دونوں سے انتہائی ناراض و بیزار تھے مگر حضرت بی بی ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان دونوں کا قصور معاف کرنے کے لئے بہت ہی پرزور سفارش کی اور ابوسفیان بن الحارث نے یہ کہہ دیا کہ اگر رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے میرا قصور نہ معاف فرمایا تو میں اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو لے کر عرب کے ریگستان میں چلا جاؤں گا تاکہ وہاں بغیر دانہ پانی کے بھوک
پیاس سے تڑپ تڑپ کر میں اور میرے سب بچے مر کر فنا ہوجائیں۔ حضرت بی بی اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بارگاہ رسالت میں آبدیدہ ہوکر عرض کیا کہ یارسول اللہ! (عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کیا آپ کے چچا کا بیٹا اور آپ کی پھوپھی کا بیٹا تمام انسانوں سے زیادہ بدنصیب رہے گا؟ کیا ان دونوں کو آپ کی رحمت سے کوئی حصہ نہیں ملے گا؟ جان چھڑکنے والی بیوی کے ان درد انگیز کلمات سے رحمۃ للعالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے رحمت بھرے دل میں رحم و کرم اور عفوودرگزر کے سمندر موجیں مارنے لگے۔ پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان دونوں کو یہ مشورہ دیا کہ تم دونوں اچانک بارگاہ رسالت میں سامنے جاکر کھڑے ہوجاؤ اور جس طرح حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے کہا تھا وہی تم دونوں بھی کہو کہ
قَالُوۡا تَاللہِ لَقَدْ اٰثَرَکَ اللہُ عَلَیۡنَا وَ اِنۡ کُنَّا لَخٰطِئِیۡنَ ﴿۹۱﴾ (1)
"کہ یقینا آپ کو اللہ تعالیٰ نے ہم پر فضیلت دی ہے اور ہم بلاشبہ خطاوار ہیں۔
چنانچہ ان دونوں صاحبوں نے درباررسالت میں ناگہاں حاضر ہوکر یہی کہا۔ ایک دم رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی جبینِ رحمت پر رحم و کرم کے ہزاروں ستارے چمکنے لگے اور آپ نے ان کے جواب میں بعینہٖ وہی جملہ اپنی زبانِ رحمت نشان سے ارشاد فرمایا جو حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کے جواب میں فرمایا تھاکہ"
قَالَ لَا تَثْرِیۡبَ عَلَیۡکُمُ الْیَوْمَ ؕ یَغْفِرُ اللہُ لَکُمْ ۫ وَہُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیۡنَ ﴿۹۲﴾ (2)
"آج تم سے کوئی مواخذہ نہیں ہے اللہ تمہیں بخش دے۔وہ ارحم الر احمین ہے
جب قصور معاف ہوگیا تو ابوسفیان بن الحارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تاجدار"
1۔۔۔۔۔۔پ۱۳،یوسف:۹۱ 2۔۔۔۔۔۔پ۱۳،یوسف:۹۲
"دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مدح میں اشعار لکھے اور زمانہ جاہلیت کے دور میں جو کچھ آپ کی ہجو میں لکھا تھا اس کی معذرت کی اور اس کے بعد عمر بھر نہایت سچے اور ثابت قدم مسلمان رہے مگر حیاء کی و جہ سے رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سامنے کبھی سر نہیں اٹھاتے تھے اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ بہت زیادہ محبت رکھتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ مجھے امید ہے کہ ابوسفیان بن الحارث میرے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قائم مقام ثابت ہوں گے۔ (1)
(زرقانی ج ۲ص ۳۰۱ تا ص ۳۰۲و سیرت ابن ہشام ج ۲ ص ۴۰۰)"
مکہ سے ایک منزل کے فاصلہ پر ''مرالظہران'' میں پہنچ کر اسلامی لشکر نے پڑاؤ ڈالا اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فوج کو حکم دیا کہ ہر مجاہد اپنا الگ الگ چولہا جلائے۔ دس ہزار مجاہدین نے جو الگ الگ چولہے جلائے تو ''مرالظہران'' کے پورے میدان میں میلوں تک آگ ہی آگ نظر آنے لگی۔(2)
گو قریش کو معلوم ہی ہوچکا تھا کہ مدینہ سے فوجیں آرہی ہیں۔ مگر صورت حال کی تحقیق کے لئے قریش نے ابوسفیان بن حرب، حکیم بن حزام و بدیل بن ورقاء کو اپنا جاسوس بناکر بھیجا۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بے حد فکرمند ہوکر قریش کے انجام پر افسوس کررہے تھے۔ وہ یہ سوچتے تھے کہ اگر رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اتنے عظیم لشکر کے ساتھ مکہ میں فاتحانہ داخل ہوئے تو آج قریش کا خاتمہ ہوجائے گا۔ چنانچہ
"1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃمع شرح الزرقانی،باب غزوۃ الفتح الاعظم، ج۳،ص۳۹۹۔۴۰۲
2۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب غزوۃ الفتح الاعظم، ج۳،ص۴۰۳"
"وہ رات کے وقت رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سفید خچر پر سوار ہوکر اس ارادہ سے مکہ چلے کہ قریش کو اس خطرہ سے آگاہ کرکے انہیں آمادہ کریں کہ چل کر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے معافی مانگ کر صلح کرلو ورنہ تمہاری خیر نہیں۔ (1) (زرقانی ج ۲ص ۳۰۴)
مگر بخاری کی روایت میں ہے کہ قریش کو یہ خبر تو مل گئی تھی کہ رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مدینہ سے روانہ ہوگئے ہیں مگر انہیں یہ پتا نہ تھا کہ آپ کا لشکر ''مرالظہران'' تک آگیا ہے۔ اس لئے ابوسفیان بن حرب اور حکیم بن حزام و بدیل بن ورقاء اس تلاش و جستجو میں نکلے تھے کہ رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا لشکر کہاں ہے؟ جب یہ تینوں ''مرالظہران'' کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ میلوں تک آگ ہی آگ جل رہی ہے یہ منظر دیکھ کر یہ تینوں حیران رہ گئے اور ابوسفیان بن حرب نے کہا کہ میں نے تو زندگی میں کبھی اتنی دور تک پھیلی ہوئی آگ اس میدان میں جلتے ہوئے نہیں دیکھی۔ آخر یہ کون سا قبیلہ ہے؟بدیل بن ورقاء نے کہا کہ بنی عمرومعلوم ہوتے ہیں۔ ابوسفیان نے کہا کہ نہیں بنی عمرو اتنی کثیرتعداد میں کہاں ہیں جو ان کی آگ سے ''مرالظہران'' کا پورا میدان بھر جائے گا۔(2) (بخاری ج۲ص ۶۱۳)
بہرحال حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ان تینوں سے ملاقات ہوگئی اور ابوسفیان نے پوچھا کہ اے عباس!تم کہاں سے آرہے ہو؟ اوریہ آگ کیسی ہے؟ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یہ رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے لشکر کی آگ"
"1۔۔۔۔۔۔السیرۃ النبویۃلابن ھشام، اسلام ابی سفیان بن الحارث...الخ،ص۴۶۸،۴۶۹ ملخصاً
والمواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، باب غزوۃ الفتح الاعظم، ج۳، ص۴۰۳
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری، کتاب المغازی ، باب این رکز النبی صلی اللہ علیہ وسلم...الخ،
الحدیث:۴۲۸۰، ج۳،ص۱۰۱"
ہے۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابوسفیان بن حرب سے کہا کہ تم میرے خچر پر پیچھے سوار ہوجاؤ ورنہ اگر مسلمانوں نے تمہیں دیکھ لیا تو ابھی تم کو قتل کرڈالیں گے۔ جب یہ لوگ لشکرگاہ میں پہنچے تو حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دوسرے چند مسلمانوں نے جو لشکرگاہ کا پہرہ دے رہے تھے۔ ابوسفیان کو دیکھ لیا۔ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے جذبہ انتقام کو ضبط نہ کرسکے اور ابوسفیان کو دیکھتے ہی ان کی زبان سے نکلا کہ ''ارے یہ تو خدا کا دشمن ابوسفیان ہے۔'' دوڑتے ہوئے بارگاہ رسالت میں پہنچے اور عرض کیا کہ یارسول اللہ! (عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)ابوسفیان ہاتھ آگیا ہے۔ اگراجازت ہوتو ابھی اس کا سر اڑا دوں۔ اتنے میں حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ان تینوں مشرکوں کو ساتھ لئے ہوئے دربار رسول میں حاضر ہوگئے اور ان لوگوں کی جان بخشی کی سفارش پیش کردی اور یہ کہا کہ یارسول اللہ!(عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) میں نے ان سبھوں کو امان دے دی ہے۔ (1)
ابوسفیان بن حرب کی اسلام دشمنی کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں تھی۔ مکہ میں رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو سخت سے سخت ایذائیں دینی، مدینہ پر بار بار حملہ کرنا، قبائل عرب کو اشتعال دلاکر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے قتل کی بارہا سازشیں، یہودیوں اور تمام کفارعرب سے سازباز کرکے اسلام اور بانی اسلام کے خاتمہ کی کوششیں یہ وہ ناقابل معافی جرائم تھے جو پکار پکار کرکہہ رہے تھے کہ ابوسفیان کا قتل بالکل درست و جائز اور
"1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت،قسم سوم، باب ہفتم، فتح مکہ،ج۲، ص۲۸۱،۲۸۲
وشرح الزرقانی علی المواھب، باب غزوۃ الفتح الاعظم،ج۳، ص۴۱۸ مختصراً"
"برمحل ہے۔ لیکن رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جن کو قرآن نے ''رء وف و رحیم'' کے لقب سے یاد کیا ہے۔ ان کی رحمت چمکارچمکار کر ابوسفیان کے کان میں کہہ رہی تھی کہ اے مجرم!مت ڈر۔ یہ دنیا کے سلاطین کا دربار نہیں ہے بلکہ یہ رحمۃ للعالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بارگاہ رحمت ہے۔ بخاری شریف کی روایت تویہی ہے کہ ابوسفیان بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے تو فوراً ہی اسلام قبول کرلیا۔ اس لئے جان بچ گئی۔ (1)
(بخاری ج۲ ص ۶۱۳باب این رکزالنبی رایۃ)
مگر ایک روایت یہ بھی ہے کہ حکیم بن حزام اور بدیل بن ورقاء نے تو فوراً رات ہی میں اسلام قبول کرلیا مگر ابوسفیان نے صبح کو کلمہ پڑھا۔(2) (زرقانی ج ۲ص۳۰۴)
اور بعض روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ ابوسفیان اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے درمیان ایک مکالمہ ہوا اس کے بعد ابوسفیان نے اپنے اسلام کا اعلان کیا۔ وہ مکالمہ یہ ہے:
رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم: کیوں اے ابوسفیان!کیا اب بھی تمہیں یقین نہ آیا کہ خدا ایک ہے؟
ابوسفیان: کیوں نہیں کوئی اورخداہوتاتوآج ہمارے کام آتا ۔
رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم: کیا اس میں تمہیں کوئی شک ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟
ابوسفیان: ہاں! اس میں تو ابھی مجھے کچھ شبہ ہے۔"
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب این رکز النبی صلی اللہ علیہ وسلم...الخ،
الحدیث:۴۲۸۰، ج۳، ص۱۰۱
2۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب،باب غزوۃ الفتح الاعظم،ج۳،ص۴۰۵"
"مگر پھر اس کے بعد انہوں نے کلمہ پڑھ لیا اور اس وقت گو ان کا ایمان متزلزل تھا لیکن بعد میں بالآخر وہ سچے مسلمان بن گئے۔چنانچہ غزوه طائف میں مسلمانوں کی فوج میں شامل ہوکر انہوں نے کفار سے جنگ کی اور اسی میں ان کی ایک آنکھ زخمی ہوگئی۔ پھر یہ جنگ یرموک میں بھی جہاد کے لئے گئے۔(1)
(سیرت ابن ہشام ج ۲ص ۴۰۳وزرقانی ج۲ ص ۳۱۳)"
مجاہدین اسلام کا لشکر جب مکہ کی طرف بڑھا تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ آپ ابوسفیان کو کسی ایسے مقام پر کھڑا کردیں کہ یہ افواج الٰہی کا جلال اپنی آنکھوں سے دیکھ لے۔ چنانچہ جہاں راستہ کچھ تنگ تھا ایک بلند جگہ پر حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابوسفیان کو کھڑا کردیا۔ تھوڑی دیر کے بعد اسلامی لشکر سمندر کی موجوں کی طرح امنڈتا ہوا روانہ ہوا۔ اور قبائل عرب کی فوجیں ہتھیار سج سج کریکے بعد دیگرے ابوسفیان کے سامنے سے گزرنے لگیں۔ سب سے پہلے قبیلۂ غفار کا باوقار پرچم نظر آیا۔ ابوسفیان نے سہم کر پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ یہ قبیلہ غفار کے شہسوار ہیں۔ ابوسفیان نے کہا کہ مجھے قبیلہ غفار سے کیا مطلب ہے؟ پھر جہینہ پھر سعد بن ھذیم، پھر سلیم کے قبائل کی فوجیں زرق برق ہتھیاروں میں ڈوبے ہوئے پرچم لہراتے اور تکبیر کے نعرے مارتے ہوئے سامنے سے نکل گئے۔ ابوسفیان ہر فوج کا جلال دیکھ کر مرعوب ہوہو جاتے تھے اورحضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہر فوج کے بارے میں پوچھتے جاتے تھے کہ یہ کون
1۔۔۔۔۔۔السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، اسلام ابی سفیان بن الحارث...الخ،ص۴۶۹ ملخصاً
ہیں؟ یہ کن لوگوں کا لشکر ہے؟ اس کے بعد انصار کا لشکر پرانوار اتنی عجیب شان اور ایسی نرالی آن بان سے چلا کہ دیکھنے والوں کے دل دہل گئے۔ ابوسفیان نے اس فوج کی شان و شوکت سے حیران ہوکر کہا کہ اے عباس!یہ کون لوگ ہیں؟ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یہ ''انصار'' ہیں ناگہاں انصار کے علمبردار حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جھنڈا لئے ہوئے ابوسفیان کے قریب سے گزرے اور جب ابوسفیان کو دیکھا تو بلند آواز سے کہا کہ اے ابوسفیان
! اَلْیَوْمَ یَوْمُ الْمَلْحَمَۃِ الْیَوْمَ تُسْتَحَلُّ الْکَعْبَۃُ
"آج گھمسان کی جنگ کا دن ہے۔ آج کعبہ میں خونریزی حلال کر دی جائے گی۔
ابوسفیان یہ سن کر گھبرا گئے اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ اے عباس!سن لو! آج قریش کی ہلاکت تمہیں مبارک ہو۔ پھر ابوسفیان کو چین نہیں آیا تو پوچھا کہ بہت دیر ہوگئی۔ ابھی تک میں نے محمد(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کو نہیں دیکھا کہ وہ کون سے لشکر میں ہیں!اتنے میں حضور تاجدارِدوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پرچم نبوت کے سائے میں اپنے نورانی لشکر کے ہمراہ پیغمبرانہ جاہ و جلال کے ساتھ نمودار ہوئے۔ ابوسفیان نے جب شہنشاہ کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو دیکھا تو چلاکر کہا کہ اے حضور!کیا آپ نے سنا کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیا کہتے ہوئے گئے ہیں؟ارشاد فرمایا کہ انہوں نے کیا کہا ہے؟ ابوسفیان بولے کہ انہوں نے یہ کہا ہے کہ آج کعبہ حلال کردیا جائے گا۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے غلط کہا، آج تو کعبہ کی عظمت کا دن ہے۔ آج تو کعبہ کو لباس پہنانے کا دن ہے اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سعد بن عبادہ نے اتنی غلط بات کیوں کہہ دی۔ آپ نے ان کے ہاتھ سے جھنڈا لے کر ان کے بیٹے قیس بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں دے دیا۔"
اور ایک روایت میں یہ ہے کہ جب ابوسفیان نے بارگاہ رسول میں یہ شکایت کی کہ یارسول اللہ!عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ابھی ابھی سعد بن عبادہ یہ کہتے ہوئے گئے ہیں کہ
اَلْیَوْمَ یَوْمُ الْمَلْحَمَۃ
"آج گھمسان کی لڑائی کا دن ہے۔
تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خفگی کا اظہار فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ سعد بن عبادہ نے غلط کہا، بلکہ اے ابوسفیان!"
اَلْیَوْمَ یَوْمُ الْمَرْحَمَۃ
"آج کا دن تو رحمت کا دن ہے۔ (1) (زرقانی ج۲ص ۳۰۶)
پھر فاتحانہ شان و شوکت کے ساتھ بانی کعبہ کے جانشین حضور رحمۃ للعالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مکہ کی سرزمین میں نزول اجلال فرمایا اور حکم دیا کہ میرا جھنڈا مقام ''حجون'' کے پاس گاڑا جائے اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام فرمان جاری فرمایا کہ وہ فوجوں کے ساتھ مکہ کے بالائی حصہ یعنی ''کداء'' کی طرف سے مکہ میں داخل ہوں۔ (2)(بخاری ج ۲ ص ۶۱۳ باب این رکزالنبی رایۃ و زرقانی ج۲ ص ۳۰۴ تا ص ۳۰۶)"
"تاجدار دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مکہ کی سرزمین میں قدم رکھتے ہی جو پہلا فرمان جاری فرمایا وہ یہ اعلان تھا کہ جس کے لفظ لفظ میں رحمتوں کے دریا موجیں مار رہے ہیں:
''جو شخص ہتھیار ڈال دے گا اس کے لئے امان ہے۔"
"1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی، باب غزوۃ الفتح الاعظم،ج۳،ص۴۰۵۔۴۰۹، ۴۱۲
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی، باب این رکز النبی صلی اللہ علیہ وسلم...الخ،
الحدیث:۴۲۸۰، ج۳، ص۱۰۱،۱۰۲ملخصاً"
"جو شخص اپنا دروازہ بند کر لے گا اس کے لئے امان ہے۔
جو کعبہ میں داخل ہوجائے گا اس کے لئے امان ہے۔''
اس موقع پر حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ! عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ابوسفیان ایک فخرپسند آدمی ہے اس کے لئے کوئی ایسی امتیازی بات فرما دیجئے کہ اس کا سر فخر سے اونچا ہوجائے تو آپ نے فرما دیا کہ
''جوابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے اس کے لئے امان ہے۔''
اس کے بعد ابوسفیان مکہ میں بلند آواز سے پکار پکار کر اعلان کرنے لگا کہ اے قریش!محمد(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)اتنا بڑا لشکر لے کر آگئے ہیں کہ اس کا مقابلہ کرنے کی کسی میں بھی طاقت نہیں ہے جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے اس کے لئے امان ہے۔ ابوسفیان کی زبان سے یہ کم ہمتی کی بات سن کر اس کی بیوی ہند بنت عتبہ جل بھن کر کباب ہوگئی اور طیش میں آکر ابوسفیان کی مونچھ پکڑ لی اور چلا کر کہنے لگی کہ اے بنی کنانہ! اس کم بخت کو قتل کردو یہ کیسی بزدلی اور کم ہمتی کی بات بک رہا ہے۔ ہند کی اس چیخ و پکار کی آواز سن کر تمام بنوکنانہ کا خاندان ابوسفیان کے مکان میں جمع ہوگیا اور ابوسفیان نے صاف صاف کہہ دیا کہ اس وقت غصہ اور طیش کی باتوں سے کچھ کام نہیں چل سکتا۔ میں پورے اسلامی لشکر کو اپنی آنکھ سے دیکھ کر آیا ہوں اور میں تم لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ اب ہم لوگوں سے محمدصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا مقابلہ نہیں ہوسکتا۔ یہ خیریت ہے کہ انہوں نے اعلان کردیا ہے کہ جو ابوسفیان کے مکان میں چلا جائے اس کے لئے امان ہے۔ لہٰذا زیادہ سے زیادہ لوگ میرے مکان میں آکر پناہ لے لیں۔ ابوسفیان کے خاندان والوں نے کہا کہ تیرے مکان میں بھلا کتنے انسان آسکیں گے؟"
"ابوسفیان نے بتایا کہ محمد(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) نے ان لوگوں کو بھی امان دے دی ہے جو اپنے دروازے بند کرلیں یا مسجد حرام میں داخل ہوجائیں یا ہتھیار ڈال دیں۔ ابوسفیان کا یہ بیان سن کر کوئی ابوسفیان کے مکان میں چلا گیا۔ کوئی مسجد حرام کی طرف بھاگا۔ کوئی اپنا ہتھیار زمین پر رکھ کر کھڑا ہوگیا۔(1)(زرقانی ج ۲ص ۳۱۳)
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اس اعلان رحمت نشان یعنی مکمل امن و امان کا فرمان جاری کردینے کے بعد ایک قطرہ خون بہنے کا کوئی امکان ہی نہیں تھا۔ لیکن عکرمہ بن ابوجہل و صفوان بن امیہ و سہیل بن عمرو اور جماش بن قیس نے مقام ''خندمہ'' میں مختلف قبائل کے اوباش کو جمع کیا تھا۔ ان لوگوں نے حضرت خالد بن الولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فوج میں سے دو آدمیوں حضرت کرزبن جابر فہری اور حبیش بن اشعر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو شہید کردیا اور اسلامی لشکر پر تیر برسانا شروع کردیا۔ بخاری کی روایت میں انہی دو حضرات کی شہادت کا ذکر ہے مگر زرقانی وغیرہ کتابوں سے پتا چلتا ہے کہ تین صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو کفارقریش نے قتل کردیا۔ دو وہ جواو پر ذکر کئے گئے اور ایک حضرت مسلمہ بن المیلاء رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بارہ یا تیرہ کفار بھی مارے گئے اور باقی میدان چھوڑ کر بھاگ نکلے۔(2) (بخاری ج ۲ ص ۶۱۳ و زرقانی ج ۲ ص ۳۱۰)
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب دیکھا کہ تلواریں چمک رہی ہیں تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ میں نے تو خالد بن الولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جنگ"
"1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،باب غزوۃ الفتح الاعظم،ج۳،ص۴۱۷۔۴۲۲ملتقطاً
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی، باب این رکز النبی صلی اللہ علیہ وسلم...الخ ،
الحدیث:۴۲۸۰، ج۳، ص۱۰۱،۱۰۲وشرح الزرقانی علی المواھب، باب غزوۃ
الفتح الاعظم، ج۳، ص۴۱۵،۴۱۶ ملتقطاً"
کرنے سے منع کردیا تھا۔ پھر یہ تلواریں کیسی چل رہی ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا کہ پہل کفار کی طرف سے ہوئی ہے۔ اس لئے لڑنے کے سوا حضرت خالد بن الولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فوج کے لئے کوئی چارہ کار ہی نہیں رہ گیا تھا۔ یہ سن کر ارشاد فرمایا کہ قضاء الٰہی یہی تھی اور خدا نے جو چاہا وہی بہتر ہے۔ (1)(زرقانی ج ۲ ص ۳۱۰)
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جب فاتحانہ حیثیت سے مکہ میں داخل ہونے لگے تو آپ اپنی اونٹنی ''قصواء'' پر سوار تھے۔ ایک سیاہ رنگ کا عمامہ باندھے ہوئے تھے اور بخاری میں ہے کہ آپ کے سر پر ''مغفر'' تھا۔ آپ کے ایک جانب حضرت ابوبکر صدیق اور دوسری جانب اسید بن حضیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما تھے اور آپ کے چاروں طرف جوش میں بھرا ہوا اور ہتھیاروں میں ڈوبا ہوا لشکر تھا جس کے درمیان کو کبۂ نبوی تھا۔ اس شان و شوکت کو دیکھ کر ابوسفیان نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ اے عباس! تمہارا بھتیجا تو بادشاہ ہوگیا۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ تیرا برا ہو اے ابوسفیان!یہ بادشاہت نہیں ہے بلکہ یہ ''نبوت'' ہے۔ اس شاہانہ جلوس کے جاہ و جلال کے باوجود شہنشاہ رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شانِ تواضع کا یہ عالم تھا کہ آپ سورهٔ فتح کی تلاوت فرماتے ہوئے اس طرح سرجھکائے ہوئے اونٹنی پر بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ کا سر اونٹنی کے پالان سے لگ لگ جاتا تھا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی یہ کیفیت تواضع خداوند قدوس کا شکر ادا کرنے اور اس کی بارگاہِ عظمت میں اپنے عجزونیازمندی کا اظہار کرنے کے لئے تھی۔(2) (زرقانی ج ۲ ص ۳۲۰ و ص ۳۲۱)
"1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، باب غزوۃ الفتح الاعظم، ج۳،ص۴۱۷
2۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، باب غزوۃ الفتح الاعظم، ج۳،ص۴۳۲،۴۳۴"
"بخاری کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فتح مکہ کے دن حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بہن حضرت ام ہانی بنت ابی طالب کے مکان پر تشریف لے گئے اور وہاں غسل فرمایاپھر آٹھ رکعت نماز چاشت پڑھی۔ یہ نماز بہت ہی مختصر طورپر ادا فرمائی لیکن رکوع و سجدہ مکمل طورپر ادا فرماتے رہے۔ (1) (بخاری ج۲ ص ۶۱۵ باب منزل النبی یوم الفتح)
ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت بی بی ام ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا کہ کیا گھر میں کچھ کھانا بھی ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ !عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم خشک روٹی کے چند ٹکڑے ہیں۔ مجھے بڑی شرم دامن گیر ہوتی ہے کہ اس کو آپ کے سامنے پیش کردوں۔ ارشاد فرمایا کہ ''لاؤ'' پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے ان خشک روٹیوں کو توڑا اور پانی میں بھگو کر نرم کیا اور حضرت اُمِ ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان روٹیوں کے سالن کے لئے نمک پیش کیا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا کوئی سالن گھر میں نہیں ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ میرے گھر میں ''سرکہ'' کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ''سرکہ'' لاؤ۔ آپ نے سرکہ کو روٹی پر ڈالا اور تناول فرماکر خدا کا شکر بجالائے۔ پھر فرمایاکہ ''سرکہ بہترین سالن ہے اور جس گھر میں سرکہ ہوگا اس گھروالے محتاج نہ ہوں گے۔'' پھر حضرت اُمِ ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کیا کہ یارسول اللہ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں نے حارث بن ہشام (ابوجہل کے بھائی) اور زہیر بن اُمیہ کو امان دے دی"
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب منزل النبی صلی اللہ علیہ وسلم یوم الفتح،
الحدیث:۴۲۹۲، ج۳، ص۱۰۴"
ہے۔ لیکن میرے بھائی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان دونوں کو اس جرم میں قتل کرنا چاہتے ہیں کہ ان دونوں نے حضرت خالد بن الولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فوج سے جنگ کی ہے تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اُمِ ہانی!رضی اللہ تعالیٰ عنہاجس کو تم نے امان دے دی اس کے لئے ہماری طرف سے بھی امان ہے۔(1) (زرقانی ج ۲ ص ۳۲۶)
"حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا جھنڈا ''حجون'' میں جس کو آج کل جنۃ المعلیٰ کہتے ہیں ''مسجدالفتح''کے قریب میں گاڑا گیا پھر آپ اپنی اونٹنی پر سوار ہوکر اور حضرت اسامہ بن زیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اونٹنی پر اپنے پیچھے بٹھاکر مسجد حرام کی طرف روانہ ہوئے اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور کعبہ کے کلید بردار عثمان بن طلحہ بھی آپ کے ساتھ تھے۔ آپ نے مسجدحرام میں اپنی اونٹنی کو بٹھایا اور کعبہ کا طواف کیا اور حجراسود کو بوسہ دیا۔(2)
(بخاری ج۲ ص ۶۱۴ وغیرہ)
یہ انقلاب زمانہ کی ایک حیرت انگیز مثال ہے کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوۃ والسلام جن کا لقب ''بت شکن'' ہے ان کی یادگار خانہ کعبہ کے اندرونِ حصار تین سو ساٹھ بتوں کی قطار تھی۔ فاتح مکہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا حضرت خلیل علیہ السلام کاجانشینِ جلیل ہونے کی حیثیت سے فرض اولین تھا کہ یادگار خلیل کو بتوں کی نجس اور گندی آلائشوں سے پاک کریں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم خود بہ نفس نفیس ایک چھڑی لے کر کھڑے ہوئے اور ان بتوں کو چھڑی کی نوک سے ٹھونکے مار مار کر گراتے جاتے"
"1۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب، باب غزوۃ الفتح الاعظم، ج۳،ص۴۶۴
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب دخول النبی صلی اللہ علیہ وسلم من اعلی
مکۃ،الحدیث:۴۲۸۹، ج۳،ص۱۰۴"
تھے اور
جَآءَ الْحَقُّ وَ زَہَقَ الْبَاطِلُ ؕ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَہُوۡقًا ﴿۸۱﴾ (1)
"کی آیت تلاوت فرماتے جاتے تھے، یعنی حق آگیا اور باطل مٹ گیا اور باطل مٹنے ہی کی چیز تھی۔(2) (بخاری ج ۲ ص ۶۱۴فتح مکہ وغیرہ)
پھر ان بتوں کو جو عین کعبہ کے اندر تھے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ وہ سب نکالے جائیں۔ چنانچہ وہ سب بت نکال باہر کئے گئے۔ انہی بتوں میں حضرت ابراہیم و حضرت اسمٰعیل علیہما السلام کے مجسمے بھی تھے جن کے ہاتھوں میں فال کھولنے کے تیر تھے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو دیکھ کر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان کافروں کو مار ڈالے۔ ان کافروں کو خوب معلوم ہے کہ ان دونوں پیغمبروں نے کبھی بھی فال نہیں کھولا۔ جب تک ایک ایک بت کعبہ کے اندر سے نہ نکل گیا، آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے کعبہ کے اندر قدم نہیں رکھا جب تمام بتوں سے کعبہ پاک ہوگیا تو آپ اپنے ساتھ حضرت اسامہ بن زید اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور عثمان بن طلحہ حجبی کو لے کر خانہ کعبہ کے اندر تشریف لے گئے اور بیت اللہ شریف کے تمام گوشوں میں تکبیر پڑھی اور دو رکعت نماز بھی ادا فرمائی اس کے بعد باہر تشریف لائے۔(3)
(بخاری ج۱ ص ۲۱۸ باب من کبر فی نواحی الکعبۃ و بخاری ج۲ ص ۶۱۴ فتح مکہ وغیرہ)
کعبہ مقدسہ کے اندر سے جب آپ باہرنکلے توعثمان بن طلحہ کو بلاکر کعبہ کی"
"1۔۔۔۔۔۔پ۱۵، بنی اسراء یل:۸۱
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب این رکز النبی صلی اللہ علیہ وسلم الرایۃ...الخ،
الحدیث:۴۲۸۷، ج۳،ص۱۰۳
3۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب الصلٰوۃ،باب قول اللہ تعالٰی واتخذوا...الخ، الحدیث:۳۹۷،
ج۱،ص۱۵۶وصحیح البخاری،کتاب المغازی،باب این رکز النبی صلی اللہ علیہ
وسلم...الخ،الحدیث:۴۲۸۸،ج۳،ص۱۰۳"
کنجی ان کے ہاتھ میں عطا فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ
خُذُوْھَا خَالِدَۃً تَالِدَۃً لَایَنْزعُھَا مِنْکُمْ اِلَّا ظَالِمٌ
لو یہ کنجی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تم لوگوں میں رہے گی یہ کنجی تم سے وہی چھینے گا جو ظالم ہوگا۔(1) (زرقانی ج ۲ص ۲۳۹)
"اس کے بعد تاجدارِ دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے شہنشاہ اسلام کی حیثیت سے حرم الٰہی میں سب سے پہلا دربارِعام منعقد فرمایا جس میں افواج اسلام کے علاوہ ہزاروں کفارومشرکین کے خواص و عوام کا ایک زبردست ازدحام تھا۔ اس شہنشاہی خطبہ میں آپ نے صرف اہل مکہ ہی سے نہیں بلکہ تمام اقوام عالم سے خطابِ عام فرماتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا کہ
''ایک خدا کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا۔ اس نے اپنے بندے (حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کی مدد کی اور کفار کے تمام لشکروں کو تنہا شکست دے دی، تمام فخر کی باتیں، تمام پرانے خونوں کا بدلہ، تمام پرانے خون بہا، اور جاہلیت کی رسمیں سب میرے پیروں کے نیچے ہیں۔ صرف کعبہ کی تولیت اور حجاج کوپانی پلانا،یہ دواعزازاس سے مستثنیٰ ہیں۔اے قوم قریش! اب جاہلیت کا غرور اور خاندانوں کا افتخار خدا نے مٹا دیا۔ تمام لوگ حضرت آدم علیہ السلام کی نسل سے ہیں اور حضرت آدم علیہ السلام مٹی سے بنائے گئے ہیں۔''
اس کے بعد حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے قرآن مجید کی یہ آیت تلاوت فرمائی"
1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، باب غزوۃ الفتح الاعظم، ج۳،ص۴۶۹۔۴۷۰
"جس کا ترجمہ یہ ہے:
اے لوگو!ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہارے لئے قبیلے اور خاندان بنادئیے تاکہ تم آپس میں ایک دوسرے کی پہچان رکھو لیکن خدا کے نزدیک سب سے زیادہ شریف وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ یقینا اللہ تعالیٰ بڑا جاننے والا اور خبر رکھنے والا ہے۔(1)
بے شک اللہ نے شراب کی خریدوفروخت کو حرام فرما دیا ہے۔(2)
(سیرت ابن ہشام ج ۲ ص ۴۱۲مختصراً و بخاری وغیرہ)"
اس کے بعد شہنشاہ کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس ہزاروں کے مجمع میں ایک گہری نگاہ ڈالی تو دیکھا کہ سرجھکائے، نگاہیں نیچی کئے ہوئے لرزاں و ترساں اشراف قریش کھڑے ہوئے ہیں۔ ان ظالموں اور جفاکاروں میں وہ لوگ بھی تھے جنہوں نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے راستوں میں کانٹے بچھائے تھے۔ وہ لوگ بھی تھے جو بارہا آپ پر پتھروں کی بارش کرچکے تھے۔ وہ خونخوار بھی تھے جنہوں نے بار بار آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر قاتلانہ حملے کئے تھے۔ وہ بے رحم و بے درد بھی تھے جنہوں نے آپ کے دندان مبارک کو شہید اور آپ کے چہرهٔ انور کو لہولہان کر ڈالا تھا۔ وہ اوباش بھی تھے جو برسہابرس تک اپنی بہتان تراشیوں اور شرمناک گالیوں سے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے قلب مبارک کو زخمی کرچکے تھے۔ وہ سفاک و درندہ صفت بھی تھے جو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ
"1۔۔۔۔۔۔پ۲۶،الحجرٰت:۱۳
2۔۔۔۔۔۔السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، باب دخول الرسول الحرم،ص۴۷۳ وصحیح البخاری،
کتاب المغازی، باب ۵۵، الحدیث:۴۲۹۶، ج۳،ص۱۰۶"
وسلم کے گلے میں چادر کا پھندا ڈال کر آپ کا گلا گھونٹ چکے تھے۔ وہ ظلم و ستم کے مجسمے اور پاپ کے پتلے بھی تھے جنہوں نے آپ کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو نیزہ مار کر اونٹ سے گرا دیا تھا اور ان کا حمل ساقط ہوگیا تھا۔ وہ آپ کے خون کے پیاسے بھی تھے جن کی تشنہ لبی اور پیاس خون نبوت کے سوا کسی چیز سے نہیں بجھ سکتی تھی۔ وہ جفاکار و خونخوار بھی تھے جن کے جارحانہ حملوں اور ظالمانہ یلغار سے بار بار مدینہ منورہ کے درودیوار دہل چکے تھے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پیارے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قاتل اور ان کی ناک، کان کاٹنے والے، ان کی آنکھیں پھوڑنے والے، ان کا جگر چبانے والے بھی اس مجمع میں موجود تھے وہ ستم گار جنہوں نے شمع نبوت کے جاں نثارپروانوں حضرت بلال،حضرت صہیب، حضرت عمار، حضرت خباب، حضرت خبیب، حضرت زید بن دثنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم وغیرہ کو رسیوں سے باندھ باندھ کر کوڑے مار مار کر جلتی ہوئی ریتوں پر لٹایا تھا،کسی کو آگ کے دہکتے ہوئے کوئلوں پر سلایا تھا، کسی کو چٹائیوں میں لپیٹ لپیٹ کر ناکوں میں دھوئیں دئیے تھے، سینکڑوں بار گلا گھونٹا تھا۔ یہ تمام جوروجفا اور ظلم و ستمگاری کے پیکر، جن کے جسم کے رونگٹے رونگٹے اور بدن کے بال بال ظلم وعدوان اور سرکشی و طغیان کے وبال سے خوفناک جرموں اور شرمناک مظالم کے پہاڑ بن چکے تھے۔ آج یہ سب کے سب دس بارہ ہزار مہاجرین و انصار کے لشکر کی حراست میں مجرم بنے ہوئے کھڑے کانپ رہے تھے اور اپنے دلوں میں یہ سوچ رہے تھے کہ شاید آج ہماری لاشوں کو کتوں سے نچوا کر ہماری بوٹیاں چیلوں اور کووں کو کھلا دی جائیں گی اور انصارو مہاجرین کی غضب ناک فوجیں ہمارے بچے بچے کو خاک و خون میں ملاکر ہماری نسلوں کو نیست و نابود کر ڈالیں گی اور ہماری بستیوں کو تاخت و تاراج
"کرکے تہس نہس کر ڈالیں گی ان مجرموں کے سینوں میں خوف وہراس کا طوفان اُٹھ رہا تھا۔ دہشت اور ڈر سے ان کے بدنوں کی بوٹی بوٹی پھڑک رہی تھی،دل دھڑک رہے تھے، کلیجے منہ میں آگئے تھے اور عالم یاس میں انہیں زمین سے آسمان تک دھوئیں ہی دھوئیں کے خوفناک بادل نظر آرہے تھے۔ اسی مایوسی اور ناامیدی کی خطرناک فضا میں ایک دم شہنشاہِ رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی نگاہ رحمت ان پاپیوں کی طرف متوجہ ہوئی۔ اور ان مجرموں سے آپ نے پوچھا کہ
''بولو! تم کو کچھ معلوم ہے ؟کہ آج میں تم سے کیا معاملہ کرنے والا ہوں۔''
اس دہشت انگیز اور خوفناک سوال سے مجرمین حواس باختہ ہو کر کانپ اُٹھے لیکن جبین رحمت کے پیغمبرانہ تیور کو دیکھ کر اُمید و بیم کے محشر میں لرزتے ہوئے سب یک زبان ہوکر بولے کہ"
اَخٌ کَرِیْمٌ وَابْنُ اَخٍ کَرِیْمٍ
"آپ کرم والے بھائی اور کرم والے باپ کے بیٹے ہیں۔
سب کی للچائی ہوئی نظریں جمال نبوت کا منہ تک رہی تھیں ۔اور سب کے کان شہنشاہ نبوت کا فیصلہ کن جواب سننے کے منتظر تھے کہ اک دم دفعۃً فاتح مکہ نے اپنے کریمانہ لہجے میں ارشاد فرمایا کہ"
لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ فَاذْھَبُوْا اَنْتُمُ الطُّلَقَآءُ(1) (زرقانی ج ۲ ص ۳۲۸)
"آج تم پر کوئی الزام نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو۔
بالکل غیرمتوقع طورپر ایک دم اچانک یہ فرمان رسالت سن کر سب مجرموں کی آنکھیں فرط ندامت سے اشکبار ہوگئیں اور ان کے دلوں کی گہرائیوں سے جذبات"
1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ و شرح الزرقانی، باب غزوۃ الفتح الاعظم، ج۳،ص۴۴۹
"شکریہ کے آثار آنسوؤں کی دھار بن کر ان کے رخسار پر مچلنے لگے اور کفار کی زبانوں پر لَااِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ کے نعروں سے حرم کعبہ کے درودیوار پر ہر طرف انوار کی بارش ہونے لگی۔ ناگہاں بالکل ہی اچانک اور دفعۃً ایک عجیب انقلاب برپا ہوگیا کہ سماں ہی بدل گیا، فضا ہی پلٹ گئی اور ایک دم ایسا محسوس ہونے لگا کہ ؎
جہاں تاریک تھا، بے نور تھا اور سخت کالا تھا
کوئی پردے سے کیا نکلا کہ گھر گھر میں اجالا تھا
کفار نے مہاجرین کی جائدادوں، مکانوں، دکانوں پر غاصبانہ قبضہ جمالیا تھا۔ اب وقت تھا کہ مہاجرین کو ان کے حقوق دلائے جاتے اور ان سب جائدادوں، مکانوں،دکانوں اورسامانوں کو مکہ کے غاصبوں کے قبضوں سے واگزار کرکے مہاجرین کے سپرد کیے جاتے۔ لیکن شہنشاہ رسالت نے مہاجرین کو حکم دے دیا کہ وہ اپنی کل جائدادیں خوشی خوشی مکہ والوں کو ہبہ کردیں۔
اللہ اکبر!اے اقوام عالم کی تاریخی داستانو!بتاؤکیا دنیا کے کسی فاتح کی کتاب زندگی میں کوئی ایسا حسین و زریں ورق ہے؟ اے دھرتی!خدا کے لئے بتا؟ اے آسمان!للہ بول۔ کیا تمہارے درمیان کوئی ایسا فاتح گزرا ہے؟ جس نے اپنے دشمنوں کے ساتھ ایسا حسن سلوک کیا ہو؟ اے چاند اور سورج کی چمکتی اور دوربین نگاہو!کیا تم نے لاکھوں برس کی گردش لیل و نہار میں کوئی ایسا تاجدار دیکھا ہے؟ تم اس کے سوا اور کیا کہو گے؟ کہ یہ نبی جمال و جلال کا وہ بے مثال شاہکار ہے کہ شاہان عالم کے لئے اس کا تصور بھی محال ہے۔ اس لئے ہم تمام دنیا کوچیلنج کے ساتھ دعوت نظارہ دیتے ہیں کہ"
"چشم اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے
رفعت شانِ رَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ دیکھے"
فتح مکہ کے دوسرے دن بھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک خطبہ دیا جس میں حرم کعبہ کے احکام و آداب کی تعلیم دی کہ حرم میں کسی کا خون بہانا،جانوروں کا مارنا، شکار کرنا، درخت کاٹنا، اذخر کے سوا کوئی گھاس کاٹنا حرام ہے اور اللہ عزوجل نے گھڑی بھر کے لئے اپنے رسول علیہ السلام کو حرم میں جنگ کرنے کی اجازت دی پھر قیامت تک کے لئے کسی کو حرم میں جنگ کی اجازت نہیں ہے۔ اللہ عزوجل نے اس کو حرم بنادیا ہے۔ نہ مجھ سے پہلے کسی کے لئے اس شہر میں خونریزی حلال کی گئی نہ میرے بعد قیامت تک کسی کے لئے حلال کی جائے گی۔(1) (بخاری ج۲ ص ۶۱۷ فتح مکہ)
انصار نے قریش کے ساتھ جب رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اس کریمانہ حسن سلوک کو دیکھا اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کچھ دنوں تک مکہ میں ٹھہر گئے تو انصار کو یہ خطرہ لاحق ہوگیا کہ شاید رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر اپنی قوم اور وطن کی محبت غالب آگئی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ مکہ میں اقامت فرمالیں اور ہم لوگ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے دور ہوجائیں جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو انصار کے اس خیال کی اطلاع ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ معاذاللہ!اے انصار!
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی، باب ۵۵، الحدیث:۴۳۱۳، ص۱۱۰ والسیرۃ النبویۃ
لابن ھشام، باب دخول الرسول صلی اللہ علیہ وسلم الحرم، ص۴۷۴ والمواہب
اللدنیۃ و شرح الزرقانی، باب غزوۃ الفتح الاعظم، ج۳، ص۴۴۷"
اَلْمَحْیَا مَحْیَاکُمْ وَالْمَمَاتُ مَمَاتُکُمْ (1)(سیرت ابن ہشام ج۲ ص ۴۱۶)
"اب تو ہماری زندگی اور وفات تمہارے ہی ساتھ ہے۔
یہ سن کر فرط مسرت سے انصار کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور سب نے کہا کہ یارسول اللہ!(عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم )ہم لوگوں نے جو کچھ دل میں خیال کیا یا زبان سے کہا اس کا سبب آپ کی ذات مقدسہ کے ساتھ ہمارا جذبہ عشق ہے ۔ کیونکہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی جدائی کا تصور ہمارے لئے ناقابل برداشت ہورہا تھا۔(2)(زرقانی ج ۲ص ۳۳۳ و سیرت ابن ہشام ج ۲ص ۴۱۶)"
"جب نماز کا وقت آیا تو حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ کعبہ کی چھت پر چڑھ کر اذان دیں۔ جس وقت اَللہُ اَکْبَرُ اَللہُ اَکْبَرُ کی ایمان افروز صدا بلند ہوئی تو حرم کے حصار اور کعبہ کے درودیوار پر ایمانی زندگی کے آثار نمودار ہوگئے مگر مکہ کے وہ نومسلم جو ابھی کچھ ٹھنڈے پڑ گئے تھے اذان کی آواز سن کر ان کے دلوں میں غیرت کی آگ پھر بھڑک اٹھی۔ چنانچہ روایت ہے کہ حضرت عتاب بن اُسید نے کہا کہ خدا نے میرے باپ کی لاج رکھ لی کہ اس آواز کو سننے سے پہلے ہی اس کو دنیا سے اٹھا لیا اور ایک دوسرے سردار قریش کے منہ سے نکلا کہ ''اب جینا بے کار ہے۔'' (3) (اصابہ تذکرہ عتاب بن اسید ج۲ص ۴۵۱ و زرقانی ج۲ ص ۳۴۶)
مگر اس کے بعد حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے فیض صحبت سے حضرت عتاب"
"1۔۔۔۔۔۔السیرۃ النبویۃ لابن ھشام،باب تعطیم الاصنام،ص۴۷۵
2۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب،باب غزوۃ الفتح الاعظم،ج۳،ص۴۵۹
3۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب، باب غزوۃ الفتح الاعظم، ج۳،ص۴۸۴"
بن اسید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل میں نور ایمان کا سورج چمک اٹھا اور وہ صادق الایمان مسلمان بن گئے۔ چنانچہ مکہ سے روانہ ہوتے وقت حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے انہی کو مکہ کا حاکم بنا دیا۔(1) (سیرت ابن ہشام ج۲ ص ۴۱۳وص۴۴۰)
" اس کے بعد حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کوہ صفا کی پہاڑی کے نیچے ایک بلند مقام پر بیٹھے اور لوگ جوق در جوق آکر آپ کے دست حق پرست پر اسلام کی بیعت کرنے لگے۔ مردوں کی بیعت ختم ہوچکی تو عورتوں کی باری آئی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہر بیعت کرنے والی عورت سے جب وہ تمام شرائط کا اقرار کرلیتی تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اس سے فرما دیتے تھے کہ''قَدْ بَایَعْتُکِ'' میں نے تجھ سے بیعت لے لی۔ حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ خدا کی قسم!آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ہاتھ نے بیعت کے وقت کسی عورت کے ہاتھ کو نہیں چھوا۔ صرف کلام ہی سے بیعت فرما لیتے تھے۔ (2)
(بخاری ج۱ ص ۳۷۵ کتاب الشروط)
انہی عورتوں میں نقاب اوڑھ کر ہندبنت عتبہ بن ربیعہ بھی بیعت کے لئے آئیں جو حضرت ابوسفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ ہیں۔ یہ وہی ہند ہیں جنہوں نے جنگ ِ اُحد میں حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا شکم چاک کرکے ان کے جگر کو نکال کر چبا ڈالا تھا اور ان کے کان ناک کو کاٹ کر اور آنکھ کو"
"1۔۔۔۔۔۔السیرۃ النبویۃ لابن ھشام،باب دخول الرسول صلی اللہ علیہ وسلم الحرم،ص۴۷۴ملخصاً
والمواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی، باب غزوۃحنین،ج۳،ص۴۹۸ملخصاً
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری، کتاب الشروط، باب مایجوز من الشروط...الخ، الحدیث: ۲۷۱۳،
ج۲، ص۲۱۷ ملخصاً"
"نکال کر ایک دھاگہ میں پرو کر گلے کا ہار بنایا تھا۔ جب یہ بیعت کے لئے آئیں تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے نہایت دلیری کے ساتھ گفتگو کی۔ ان کا مکالمہ حسب ذیل ہے۔
رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تم خدا کے ساتھ کسی کو شریک مت کرنا۔
ہند بنت عتبہ یہ اقرار آپ نے مردوں سے تو نہیں لیا لیکن بہرحال ہم کو منظور ہے۔
رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم چوری مت کرنا۔
ہند بنت عتبہ میں اپنے شوہر(ابوسفیان)کے مال میں سے کچھ لے لیا کرتی ہوں۔معلوم نہیں یہ بھی جائز ہے یا نہیں؟
رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اپنی اولاد کو قتل نہ کرنا۔
ہندبنت عتبہ ہم نے تو بچوں کو پالا تھا اور جب وہ بڑے ہوگئے تو آپ نے جنگ بدر میں ان کو مار ڈالا۔ اب آپ جانیں اور وہ جانیں۔ (1)
(طبری ج۳ ص ۶۴۳ مختصراً)
بہرحال حضرت ابوسفیان اور ان کی بیوی ہند بنت عتبہ دونوں مسلمان ہوگئے (رضی اللہ تعالیٰ عنہما) لہٰذا ان دونوں کے بارے میں بدگمانی یا ان دونوں کی شان میں بدزبانی روافض کا مذہب ہے۔ اہل سنت کے نزدیک ان دونوں کا شمار صحابہ اور صحابیات رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی فہرست میں ہے۔
ابتداء میں گو ان دونوں کے ایمان میں کچھ تذبذب رہاہو مگر بعد میں یہ دونوں"
1۔۔۔۔۔۔تاریخ الطبری،الجزئ۲،ص۳۷۔۳۸،مختصراً ۔المکتبۃ الشاملۃ
"صادق الایمان مسلمان ہوگئے اور ایمان ہی پر ان دونوں کا خاتمہ ہوا۔ (رضی اللہ تعالیٰ عنہما)
حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ ہند بنت عتبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بارگاہ نبوت میں آئیں اور یہ عرض کیا کہ یارسول اللہ! عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم روئے زمین پر آپ کے گھر والوں سے زیادہ کسی گھر والے کا ذلیل ہونا مجھے محبوب نہ تھا۔ مگر اب میرا یہ حال ہے کہ روئے زمین پر آپ کے گھروالوں سے زیادہ کسی گھروالے کا عزت دار ہونا مجھے پسند نہیں۔ (1) (بخاری ج۱ ص ۵۳۹باب ذکر ہند بنت عتبہ)
اسی طرح حضرت ابوسفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں محدث ابن عساکر کی ایک روایت ہے کہ یہ مسجدحرام میں بیٹھے ہوئے تھے اور حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سامنے سے نکلے تو انہوں نے اپنے دل میں یہ کہا کہ کونسی طاقت ان کے پاس ایسی ہے کہ یہ ہم پر غالب رہتے ہیں تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کے دل میں چھپے ہوئے خیال کو جان لیا اور قریب آکر آپ نے ان کے سینے پرہاتھ مارا اور فرمایا کہ ہم خدا کی طاقت سے غالب آجاتے ہیں۔ یہ سن کر انہوں نے بلند آواز سے کہا کہ ''میں شہادت دیتا ہوں کہ بے شک آپ اللہ کے رسول ہیں۔'' اور محدث حاکم اور ان کے شاگرد امام بیہقی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے یہ روایت کی ہے کہ حضرت ابوسفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو دیکھ کر اپنے دل میں کہا کہ ''کاش!میں ایک فوج جمع کرکے دوبارہ ان سے جنگ کرتا''ادھر ان کے دل میں یہ خیال آیا ہی تھا کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے آگے بڑھ کر ان کے سینہ پر ہاتھ مارا اور فرمایا کہ ''اگر تو ایسا کریگا تو اللہ تعالیٰ تجھے ذلیل و خوار کردے گا۔'' یہ سن کر حضرت ابوسفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ توبہ و استغفار کرنے"
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب مناقب الانصار، باب ذکر ھند بنت عتبۃ بن ربیعۃ رضی اللہ
تعالیٰ عنہا، الحدیث:۳۸۲۵، ج۲، ص۵۶۷"
"لگے اور عرض کیا کہ مجھے اس وقت آپ کی نبوت کا یقین حاصل ہوگیاکیونکہ آپ نے میرے دل میں چھپے ہوئے خیال کو جان لیا۔(1) (زرقانی ج ۲ ص ۳۴۶)
یہ بھی روایت ہے کہ جب سب سے پہلے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان پر اسلام پیش فرمایا تھا تو انہوں نے کہا تھاکہ پھر میں اپنے معبود عزیٰ کو کیا کروں گا؟ تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے برجستہ فرمایا تھا کہ ''تم عزیٰ پر پاخانہ پھر دینا'' چنانچہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب عزیٰ کو توڑنے کے لئے حضرت خالد بن الولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو روانہ فرمایا توساتھ میں حضرت ابوسفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی بھیجا اور انہوں نے اپنے ہاتھ سے اپنے معبود عزیٰ کو توڑ ڈالا۔ یہ محمد بن اسحاق کی روایت ہے اور ابن ہشام کی روایت یہ ہے کہ عزیٰ کو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے توڑا تھا۔(2) واللہ اعلم۔ (زرقانی ج۲ ص ۳۴۹)"
گزشتہ اوراق میں ہم تحریر کرچکے کہ خانہ کعبہ کے تمام بتوں اور دیواروں کی تصاویر کو توڑ پھوڑ کر اور مٹاکر مکہ کو تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بت پرستی کی لعنت سے پاک کر ہی دیا تھا لیکن مکہ کے اطراف میں بھی بت پرستی کے چند مراکز تھے یعنی لات، مناۃ، سواع، عزیٰ یہ چند بڑے بڑے بت تھے جو مختلف قبائل کے معبود تھے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے لشکروں کو بھیج کر ان سب بتوں کو توڑ پھوڑ کر بت پرستی کے سارے طلسم کو تہس نہس کردیا اور مکہ نیز اس کے اطراف و جوانب کے تمام بتوں کو نیست و نابود کردیا۔(3) (زرقانی ج ۲ص ۳۴۷تا ص ۳۴۹)
"1۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب، باب غزوۃ الفتح الاعظم، ج۳،ص۴۸۵
2۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب، باب ھدم مناۃ، ج۳،ص۴۸۷۔۴۹۱
3۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، ہدم العزیٰ وسواع ومناۃ،ج۳،ص۴۸۷۔۴۹۰"
" اس طرح بانی کعبہ حضرت خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جانشین حضور رحمۃٌ للعالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے مورث اعلیٰ کے مشن کو مکمل فرما دیا اور درحقیقت فتح مکہ کا سب سے بڑا یہی مقصد تھا کہ شرک و بت پرستی کا خاتمہ اور توحید خداوندی کا بول بالا ہوجائے۔ چنانچہ یہ عظیم مقصد بحمدہ تعالیٰ بدرجہ اتم حاصل ہوگیا کہ ؎
آنجا کہ بود نعرہ کفارو مشرکاں اکنوں خروش نعرہ اللہ اکبر است"
" جب مکہ فتح ہوگیا تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے عام معافی کا اعلان فرمادیا۔ مگر چند ایسے مجرمین تھے جن کے بارے میں تاجداردوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ فرمان جاری فرما دیا کہ یہ لوگ اگر اسلام نہ قبول کریں تو یہ لوگ جہاں بھی ملیں قتل کردئیے جائیں خواہ وہ غلاف کعبہ ہی میں کیوں نہ چھپے ہوں۔ ان مجرموں میں سے بعض نے تو اسلام قبول کرلیا اور بعض قتل ہوگئے ان میں سے چند کا مختصر تذکرہ تحریر کیا جاتا ہے:
(۱)''عبدالعزیٰ بن خطل'' یہ مسلمان ہوگیا تھا اس کو حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے زکوٰۃ کے جانور وصول کرنے کے لئے بھیجا اور ساتھ میں ایک دوسرے مسلمان کو بھی بھیج دیاکسی بات پر دونوں میں تکرار ہوگئی تو اس نے اس مسلمان کو قتل کردیا اور قصاص کے ڈر سے تمام جانوروں کو لے کر مکہ بھاگ نکلا اور مرتد ہوگیا۔ فتح مکہ کے دن یہ بھی ایک نیزہ لے کر مسلمانوں سے لڑنے کے لئے گھر سے نکلا تھا۔ لیکن مسلم افواج کا جلال دیکھ کر کانپ اٹھا اور نیزہ پھینک کر بھاگا اور کعبہ کے پردوں میں چھپ گیا۔ حضرت سعید بن حریث مخزومی اور ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے مل کر اس کو قتل کردیا۔ (1)(زرقانی ج ۲ ص ۳۲۲)"
1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب ہفتم ،ج۲،ص۲۹۶
" (۲)'' حویرث بن نقید''یہ شاعر تھااور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ہجو لکھا کرتا تھا اور خونی مجرم بھی تھا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو قتل کیا۔
(۳)''مقیس بن صبابہ ''اس کو نمیلہ بن عبداللہ نے قتل کیا۔ یہ بھی خونی تھا۔
(۴)''حارث بن طلاطلہ''یہ بھی بڑا ہی موذی تھا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو قتل کیا۔
(۵)'' قریبہ''یہ ابن خطل کی لونڈی تھی۔ رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ہجو گایا کرتی تھی یہ بھی قتل کی گئی۔(1)"
" چار اشخاص مکہ سے بھاگ نکلے تھے ان لوگوں کا مختصر تذکرہ یہ ہے:
(۱)''عکرمہ بن ابی جہل''یہ ابوجہل کے بیٹے ہیں۔ اس لئے ان کی اسلام دشمنی کا کیا کہنا؟ یہ بھاگ کریمن چلے گئے لیکن ان کی بیوی ''اُمِ حکیم'' جو ابوجہل کی بھتیجی تھیں انہوں نے اسلام قبول کرلیااوراپنے شوہر عکرمہ کے لئے بارگاہ رسالت میں معافی کی درخواست پیش کی۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے معاف فرمادیا۔ اُمِ حکیم خود یمن گئیں اور معافی کا حال بیان کیا۔ عکرمہ حیران رہ گئے اور انتہائی تعجب کے ساتھ کہا کہ کیا مجھ کو محمد(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)نے معاف کردیا! بہرحال اپنی بیوی کے ساتھ بارگاہ رسالت میں مسلمان ہوکر حاضر ہوئے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب ان کو دیکھا تو بے حد خوش ہوئے اور اس تیزی سے ان کی طرف بڑھے کہ جسم اطہر سے چادر گر پڑی۔ پھر حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خوشی خوشی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دست"
1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب ہفتم ،ج۲،ص۳۰۰،۳۰۴ ملخصاً
"حق پرست پر بیعت اسلام کی۔ (1) (موطا امام مالک کتاب النکاح وغیرہ)
(۲)''صفوان بن امیہ''یہ امیہ بن خلف کے فرزند ہیں۔ اپنے باپ امیہ ہی کی طرح یہ بھی اسلام کے بہت بڑے دشمن تھے۔ فتح مکہ کے دن بھاگ کر جدہ چلے گئے۔ حضرت عمیر بن وہب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دربار رسالت میں ان کی سفارش پیش کی اور عرض کیا کہ یارسول اللہ!(عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) قریش کا ایک رئیس صفوان مکہ سے جلاوطن ہوا چاہتا ہے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو بھی معافی عطا فرما دی اور امان کے نشان کے طورپر حضرت عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا عمامہ عنایت فرمایا۔ چنانچہ وہ مقدس عمامہ لے کر ''جدہ''گئے اور صفوان کو مکہ لے کر آئے صفوان جنگ حنین تک مسلمان نہیں ہوئے ۔لیکن اس کے بعد اسلام قبول کرلیا۔ (2) (طبری ج ۳ ص ۶۴۵)
(۳)''کعب بن زہیر''یہ ۹ھ میں اپنے بھائی کے ساتھ مدینہ آکر مشرف بہ اسلام ہوئے اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مدح میں اپنا مشہور قصیدہ ''بانت سعاد'' پڑھا۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خوش ہوکر ان کو اپنی چادر مبارک عنایت فرمائی۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی یہ چادر مبارک حضرت کعب بن زہیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تھی۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دورسلطنت میں ان کو دس ہزار درہم پیش کیا کہ یہ مقدس چادر ہمیں دے دو۔ مگر انہوں نے صاف انکار کردیا اور فرمایا کہ میں رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی یہ چادر مبارک ہرگز ہرگز کسی کو نہیں دے سکتا۔ لیکن آخر حضرت امیر"
"1۔۔۔۔۔۔الموطاء للامام مالک، کتاب النکاح، باب نکاح المشرک اذا اسلمت زوجتہ قبلہ،
الحدیث:۱۱۸۰، ج۲، ص۹۴وشرح الزرقانی علی المواھب، باب غزوۃ الفتح
الاعظم، ج۳،ص۴۲۴،۴۲۵ ملخصاً
2۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب ہفتم ،ج۲،ص۲۹۹ملخصاً"
"معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت کعب بن زہیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے بعد ان کے وارثوں کو بیس ہزار درہم دے کر وہ چادر لے لی اور عرصہ دراز تک وہ چادر سلاطین اسلام کے پاس ایک مقدس تبرک بن کر باقی رہی۔(1) (مدارج ج۲ ص ۳۳۸)
(۴)''وحشی''یہی وہ وحشی ہیں جنہوں نے جنگ ِ اُحد میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کردیا تھا۔یہ بھی فتح مکہ کے دن بھاگ کر طائف چلے گئے تھے مگر پھر طائف کے ایک وفد کے ہمراہ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر مسلمان ہوگئے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کی زبان سے اپنے چچا کے قتل کی خونی داستان سنی اور رنج و غم میں ڈوب گئے مگر ان کو بھی آپ نے معاف فرما دیا۔ لیکن یہ فرمایا کہ وحشی! تم میرے سامنے نہ آیاکرو۔ حضرت وحشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کا بے حد ملال رہتا تھا۔ پھر جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے زمانے میں مسیلمۃ الکذاب نے نبوت کا دعویٰ کیا اور لشکر اسلام نے اس ملعون سے جہاد کیا تو حضرت وحشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اپنا نیزہ لے کرجہاد میں شامل ہوئے اور مسیلمۃ الکذاب کو قتل کردیا۔ حضرت وحشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی زندگی میں کہا کرتے تھے کہ قَتَلْتُ خَیْرَ النَّاسِ فِی الْجَاھِلِیَّۃِ وَقَتَلْتُ شَرَّالنَّاسِ فِی الْاِسْلَامِ۔ یعنی میں نے دور جاہلیت میں بہترین انسان (حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ)کو قتل کیااوراپنے دور اسلام میں بدترین آدمی (مسیلمۃ الکذاب) کو قتل کیا۔ انہوں نے درباراقدس میں اپنے جرائم کا اعتراف کرکے عرض کیا کہ کیا خدا مجھ جیسے مجرم کو بھی بخش دے گا؟ تو یہ آیت نازل ہوئی کہ"
1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب نہم ،ج۲،ص۳۰۱،۳۳۸
قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اَسْرَفُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوۡا مِنۡ رَّحْمَۃِ اللہِ ؕ اِنَّ اللہَ یَغْفِرُ الذُّنُوۡبَ جَمِیۡعًا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ الْغَفُوۡرُ الرَّحِیۡمُ ﴿۵۳﴾ (1)
"یعنی اے حبیب آپ فرمادیجئے کہ اے میرے بندو!جنہوں نے اپنی جانوں پر حد سے زیادہ گناہ کرلیا ہے اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہوجاؤ۔ اللہ تمام گناہوں کو بخش دے گا۔ وہ یقینا بڑا بخشنے والااور بہت مہربان ہے۔ (زمر)(2)
(مدارج النبوۃ ج ۲ص ۳۰۲)"
" حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مکہ کا نظم و نسق اور انتظام چلانے کے لئے حضرت عتاب بن اسید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مکہ کا حاکم مقرر فرما دیا اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس خدمت پر مامور فرمایا کہ وہ نومسلموں کو مسائل و احکام اسلام کی تعلیم دیتے رہیں۔ (3)(مدارج النبوۃ ج ۲ ص ۳۲۴)
اس میں اختلاف ہے کہ فتح کے بعد کتنے دنوں تک حضورِ اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مکہ میں قیام فرمایا۔ ابوداود کی روایت ہے کہ سترہ دن تک آپ مکہ میں مقیم رہے۔ اور ترمذی کی روایت سے پتا چلتا ہے کہ اٹھارہ دن آپ کا قیام رہا۔ لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کی ہے کہ انیس دن آپ مکہ میں ٹھہرے۔(بخاری ج۲ ص ۶۱۵)"
"1۔۔۔۔۔۔پ۲۴، الزمر: ۵۳
2۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب ہفتم ،ج۲،ص۳۰۱،۳۰۲ملخصاً
3۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت،قسم سوم، باب ہشتم، ج۲، ص۳۲۴،۳۲۵
والمواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی، باب غزوۃ حنین،ج۳، ص۴۹۸۔۴۹۹"
" ان تینوں روایتوں میں اس طرح تطبیق دی جاسکتی ہے کہ ابوداود کی روایت میں مکہ میں داخل ہونے اور مکہ سے روانگی کے دونوں دنوں کو شمار نہیں کیا ہے اس لئے سترہ دنوں مدتِ اقامت بتائی ہے اور ترمذی کی روایت میں مکہ میں آنے کے دن کو توشمار کرلیا۔ کیونکہ آپ صبح کو مکہ میں داخل ہوئے تھے اور مکہ سے روانگی کے دن کو شمار نہیں کیا ۔کیونکہ آپ صبح سویرے ہی مکہ سے حنین کے لئے روانہ ہوگئے تھے اور امام بخاری کی روایت میں آنے اور جانے کے دونوں دنوں کو بھی شمار کرلیا گیا ہے۔ اس لئے انیس دن آپ مکہ میں مقیم رہے۔ (1) واللہ تعالیٰ اعلم۔
اسی طرح اس میں بڑا اختلاف ہے کہ مکہ کونسی تاریخ میں فتح ہوا؟ اور آپ کس تاریخ کو مکہ میں فاتحانہ داخل ہوئے؟ امام بیہقی نے۱۳رمضان، امام مسلم نے ۱۶رمضان، امام احمدنے۱۸رمضان بتایا اور بعض روایات میں ۱۷ رمضان اور ۱۸ رمضان بھی مروی ہے۔ مگر محمد بن اسحاق نے اپنے مشائخ کی ایک جماعت سے روایت کرتے ہوئے فرمایا کہ ۲۰رمضان ۸ھ کو مکہ فتح ہوا۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔(2) (زرقانی ج۲ ص ۲۹۹)"
" ''حنین'' مکہ اور طائف کے درمیان ایک مقام کا نام ہے۔ تاریخ اسلام میں اس جنگ کا دوسرا نام ''غزوہ ہوازن'' بھی ہے۔ اس لئے کہ اس لڑائی میں ''بنی ہوازن'' سے مقابلہ تھا۔
فتح مکہ کے بعد عام طورسے تمام عرب کے لوگ اسلام کے حلقہ بگوش ہوگئے کیونکہ ان میں اکثروہ لوگ تھے جو اسلام کی حقانیت کا پورا پورا یقین رکھنے کے باوجود"
"1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ و شرح الزرقانی، باب غزوۃ الفتح الاعظم، ج۳،ص۴۸۵۔۴۸۶
2۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ و شرح الزرقانی، باب غزوۃ الفتح الاعظم، ج۳،ص۳۹۶۔۳۹۷"
"قریش کے ڈر سے مسلمان ہونے میں توقف کررہے تھے اور فتح مکہ کا انتظار کررہے تھے۔ پھر چونکہ عرب کے دلوں میں کعبہ کا بے حد احترام تھا اور ان کا اعتقاد تھا کہ کعبہ پر کسی باطل پرست کا قبضہ نہیں ہوسکتا۔ اس لئے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب مکہ کو فتح کرلیا تو عرب کے بچے بچے کو اسلام کی حقانیت کا پورا پورا یقین ہوگیا اور وہ سب کے سب جوق در جوق بلکہ فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے لگے۔ باقی ماندہ عرب کی بھی ہمت نہ رہی کہ اب اسلام کے مقابلہ میں ہتھیار اٹھاسکیں۔
لیکن مقام حنین میں ''ہوازن'' اور ''ثقیف'' نام کے دو قبیلے آباد تھے جو بہت ہی جنگجو اور فنون جنگ سے واقف تھے۔ ان لوگوں پر فتح مکہ کا اُلٹا اثر پڑا۔ ان لوگوں پر غیرت سوار ہوگئی اور ان لوگوں نے یہ خیال قائم کرلیا کہ فتح مکہ کے بعد ہماری باری ہے اس لئے ان لوگوں نے یہ طے کرلیا کہ مسلمانوں پر جو اس وقت مکہ میں جمع ہیں ایک زبردست حملہ کردیا جائے۔ چنانچہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن ابی حدرد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تحقیقات کے لئے بھیجا۔ جب انہوں نے وہاں سے واپس آکر ان قبائل کی جنگی تیاریوں کا حال بیان کیااور بتایا کہ قبیلہ ہوازن اور ثقیف نے اپنے تمام قبائل کو جمع کرلیا ہے اور قبیلہ ہوازن کا رئیس اعظم مالک بن عوف ان تمام افواج کا سپہ سالار ہے اور سو برس سے زائد عمر کا بوڑھا۔ ''درید بن الصمہ'' جو عرب کا مشہور شاعر اور مانا ہوا بہادر تھا بطور مشیر کے میدانِ جنگ میں لایا گیا ہے اور یہ لوگ اپنی عورتوں بچوں بلکہ جانوروں تک کو میدانِ جنگ میں لائے ہیں تاکہ کوئی سپاہی میدان سے بھاگنے کا خیال بھی نہ کرسکے۔
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بھی شوال ۸ ھ میں بارہ ہزار کا لشکر جمع فرمایا۔"
"دس ہزار تو مہاجرین و انصار وغیرہ کا وہ لشکر تھا جو مدینہ سے آپ کے ساتھ آیا تھا اور دو ہزار نومسلم تھے جو فتح مکہ میں مسلمان ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس لشکر کو ساتھ لے کر اس شان و شوکت کے ساتھ حنین کا رُخ کیا کہ اسلامی افواج کی کثرت اور اس کے جاہ و جلال کو دیکھ کر بے اختیار بعض صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی زبان سے یہ لفظ نکل گیا کہ''آج بھلا ہم پر کون غالب آسکتا ہے۔''
لیکن خداو ند عالم عزوجل کو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا اپنی فوجوں کی کثرت پر ناز کرنا پسند نہیں آیا۔ چنانچہ اس فخر و نازش کا یہ انجام ہوا کہ پہلے ہی حملہ میں قبیلہ ہوازن و ثقیف کے تیر اندازوں نے جو تیروں کی بارش کی اورہزاروں کی تعداد میں تلواریں لےکر مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے تو وہ دو ہزار نو مسلم اور کفار مکہ جو لشکر اسلام میں شامل ہو کر مکہ سے آئے تھے ایک دم سرپر پیر رکھ کر بھاگ نکلے۔ ان لوگوں کی بھگدڑ دیکھ کر انصار و مہاجرین کے بھی پاؤں اکھڑ گئے۔ حضور تاجدار دوعالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جو نظر اٹھا کر دیکھا تو گنتی کے چند جاں نثاروں کے سوا سب فرار ہو چکے تھے۔ تیروں کی بارش ہو رہی تھی۔بارہ ہزار کا لشکر فرار ہو چکا تھامگر خداعزوجل کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پائے استقامت میں بال برابر بھی لغزش نہیں ہوئی۔بلکہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اکیلے ایک لشکر بلکہ ایک عالم کائنات کا مجموعہ بنے ہوئے نہ صرف پہاڑ کی طرح ڈٹے رہے بلکہ اپنے سفید خچر پر سوار برابر آگے ہی بڑھتے رہے اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زَبانِ مبارک پر یہ الفاظ جاری تھے کہ"
اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ
میں نبی ہوں یہ جھوٹ نہیں ہے میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔
" اسی حالت میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے دا ہنی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پکارا کہ '' یَا مَعْشَرَ الْاَنْصَارِ'' فورًا آواز آئی کہ ''ہم حاضر ہیں،یا رسول اﷲ!'' صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پھر بائیں جانب رخ کرکے فرمایا کہ ''یَا لَلْمُھَاجِرِیْنَ'' فوراً آواز آئی کہ ''ہم حاضر ہیں،یا رسول اﷲ!'' صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ،حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ چونکہ بہت ہی بلند آواز تھے۔ آپ نے ان کو حکم دیا کہ انصار و مہاجرین کو پکارو۔ انہوں نے جو '' یَا مَعْشَرَ الْاَنْصَار'' اور '' یَا لَلْمُھَاجِرِیْنَ'' کا نعرہ مارا تو ایک دم تمام فوجیں پلٹ پڑیں اور لوگ اس قدر تیزی کے ساتھ دوڑ پڑے کہ جن لوگوں کے گھوڑے ازدحام کی و جہ سے نہ مڑ سکے انہوں نے ہلکا ہونے کے لئے اپنی زرہیں پھینک دیں اور گھوڑوں سے کود کود کر دوڑے اور کفار کے لشکر پر جھپٹ پڑے اور اس طرح جاں بازی کے ساتھ لڑنے لگے کہ دم زدن میں جنگ کا پانسہ پلٹ گیا۔ کفار بھاگ نکلے کچھ قتل ہو گئے جو رہ گئے گرفتار ہو گئے۔ قبیلہ ثقیف کی فوجیں بڑی بہادری کے ساتھ جم کر مسلما نو ں سے لڑتی رہیں۔ یہاں تک کہ ان کے ستر بہادر کٹ گئے۔ لیکن جب ان کا علمبردار عثمان بن عبداﷲ قتل ہو گیا تو ان کے پاؤں بھی اُکھڑ گئے۔ اور فتح مبین نے حضور رحمۃ للعالمین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے قدموں کا بوسہ لیا اور کثیر تعداد و مقدار میں مال غنیمت ہاتھ آیا۔(1)(بخاری ج۲ ص۶۲۱ غزوۂ طائف)
یہی وہ مضمون ہے جس کو قرآن حکیم نے نہایت مؤثر انداز میں بیان فرمایا کہ"
"1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی، باب غزوۃحنین، ج۳، ص۴۹۶۔۵۳۰ ملخصاً
ومدارج النبوت،قسم سوم،باب ہشتم،ج۲،ص۳۰۸"
وَّیَوْمَ حُنَیۡنٍ ۙ اِذْ اَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنۡکُمْ شَیْـًٔا وَّضَاقَتْ عَلَیۡکُمُ الۡاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیۡتُمۡ مُّدْبِرِیۡنَ ﴿ۚ۲۵﴾ثُمَّ اَنۡزَلَ اللہُ سَکِیۡنَتَہٗ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ وَعَلَی الْمُؤْمِنِیۡنَ وَاَنۡزَلَ جُنُوۡدًا لَّمْ تَرَوْہَا ۚ وَعَذَّبَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ؕ وَ ذٰلِکَ جَزَآءُ الْکٰفِرِیۡنَ ﴿۲۶﴾ (1)(توبہ)
"اور حنین کا دن یاد کرو جب تم اپنی کثرت پر نازاں تھے تو وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین اتنی وسیع ہونے کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی۔ پھر تم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے پھر اﷲ نے اپنی تسکین اتاری اپنے رسول اور مسلمانوں پر اور ایسے لشکروں کو اتار دیا جو تمہیں نظر نہیں آئے اور کافروں کو عذاب دیا اور کافروں کی یہی سزا ہے۔
حنین میں شکست کھا کر کفار کی فوجیں بھاگ کر کچھ تو ''اوطاس'' میں جمع ہوگئیں اور کچھ ''طائف'' کے قلعہ میں جا کر پناہ گزین ہو گئیں۔ اس لئے کفار کی فوجوں کو مکمل طور پر شکست دینے کے لئے ''اوطاس'' اور ''طائف'' پر بھی حملہ کرنا ضروری ہو گیا۔"
چنانچہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت ابو عامر اشعری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی ماتحتی میں تھوڑی سی فوج ''اوطاس'' کی طرف بھیج دی۔ درید بن الصمہ کئی ہزار کی فوج لے کر نکلا۔ درید بن الصمہ کے بیٹے نے حضرت ابو عامر اشعری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے زانو پر ایک تیر مارا حضرت ابو عامر اشعری حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے چچا تھے۔ اپنے چچا کو زخمی دیکھ کر حضرت ابو موسیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ دوڑ کر اپنے چچا کے پاس آئے اور
1۔۔۔۔۔۔پ۱۰، التوبۃ:۲۶
پوچھا کہ چچا جان! آپ کو کس نے تیر مارا ہے؟ تو حضرت ابو عامر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اشارہ سے بتایا کہ وہ شخص میرا قاتل ہے۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جوش میں بھرے ہوئے اس کافر کو قتل کرنے کے لئے دوڑے تو وہ بھاگ نکلا۔ مگر حضرت ابو موسیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس کا پیچھا کیا اور یہ کہہ کر کہ اے او بھاگنے والے! کیا تجھ کو شرم اور غیرت نہیں آتی؟ جب اس کافر نے یہ گرم گرم طعنہ سنا تو ٹھہر گیا پھر دونوں میں تلوار کے دو دو ہاتھ ہوئے اور حضرت ابو موسیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے آخر اس کو قتل کرکے دم لیا۔ پھر اپنے چچا کے پاس آئے اور خوشخبری سنائی کہ چچا جان! خدا نے آپ کے قاتل کاکام تمام کر دیا۔ پھر حضرت ابو موسیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنے چچا کے زانو سے وہ تیر کھینچ کر نکالا تو چونکہ زہر میں بجھایا ہوا تھا اس لئے زخم سے بجائے خون کے پانی بہنے لگا۔ حضرت ابو عامر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنی جگہ حضرت ابو موسیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو فوج کا سپہ سالار بنایا اور یہ وصیت کی کہ رسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں میرا سلام عرض کر دینا اورمیرے لئے دعا کی درخواست کرنا ۔یہ وصیت کی اور ان کی روح پرواز کر گئی۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ جب اس جنگ سے فارغ ہو کر میں بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا اور اپنے چچا کا سلام اور پیغام پہنچایا تو اس وقت تاجدار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ایک بان کی چارپائی پر تشریف فرما تھے اور آپ کی پشت مبارک اور پہلوئے اقدس میں بان کے نشان پڑے ہوئے تھے۔ آپ نے پانی منگا کر وضو فرمایا ۔پھر اپنے دونوں ہاتھوں کو اتنا اونچا اٹھایا کہ میں نے آپ کی دونوں بغلوں کی سفیدی دیکھ لی اور اس طرح آپ نے دعا مانگی کہ ''یااﷲ! عزوجل تو ابو عامررضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو قیامت کے دن بہت سے انسانوں سے زیادہ بلند مرتبہ بنا دے۔'' یہ کرم دیکھ کر حضرت ابو موسیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا
"کہ یا رسول اﷲ!(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) میرے لئے بھی دعا فرما دیجئے؟ تو یہ دعا فرمائی کہ ''یااﷲ!عزوجل توعبداﷲ بن قیس کے گناہوں کو بخش دے اور اس کو قیامت کے دن عزت والی جگہ میں داخل فرما۔ عبداﷲ بن قیس حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا نام ہے۔(1) (بخاری ج۲ ص۶۱۹ غزوۂ اوطاس)
بہر کیف حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے درید بن الصمہ کے بیٹے کو قتل کر دیا اور اسلامی علم کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ درید بن الصمہ بڑھاپے کی وجہ سے ایک ہودج پر سوار تھا۔ اس کو حضرت ربیعہ بن رفیع رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے خود اسی کی تلوار سے قتل کر دیا۔ اس کے بعد کفار کی فوجوں نے ہتھیار ڈال دیا اور سب گرفتار ہو گئے۔ ان قیدیوں میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی رضاعی بہن حضرت ''شیماء'' رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی تھیں۔ یہ حضرت بی بی حلیمہ سعدیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی صاحبزادی تھیں۔ جب لوگوں نے ان کو گرفتار کیا تو انہوں نے کہا کہ میں تمہارے نبی کی بہن ہوں۔ مسلمان ان کو شناخت کے لئے بارگاہ نبوت میں لائے تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو پہچان لیا اور جوشِ محبت میں آپ کی آنکھیں نم ہو گئیں اور آپ نے اپنی چادر مبارک زمین پر بچھا کر ان کو بٹھایا اور کچھ اونٹ کچھ بکریاں ان کو دے کر فرمایا کہ تم آزاد ہو۔ اگر تمہارا جی چاہے تو میرے گھر پر چل کر رہو اور اگر اپنے گھر جانا چاہو تو میں تم کو وہاں پہنچا دوں۔ انہوں نے اپنے گھر جانے کی خواہش ظاہر کی تو نہایت ہی عزت و احترام کے ساتھ وہ ان کے قبیلے میں پہنچا دی گئیں۔(2) (طبری ج۳ ص۶۶۸)"
"1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب غزوۃاوطاس،ج۳، ص۵۳۲۔۵۳۶ملخصاً
وصحیح البخاری،کتاب المغازی، باب غزوۃ اوطاس، الحدیث۴۳۲۳،ج۳،ص۱۱۳
2۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، باب غزوۃ اوطاس ،ج۳، ص۵۳۳"
" یہ تحریر کیا جا چکا ہے کہ حنین سے بھاگنے والی کفار کی فوجیں کچھ تو اوطاس میں جا کر ٹھہری تھیں اور کچھ طائف کے قلعہ میں جا کر پناہ گزیں ہو گئی تھیں۔ اوطاس کی فوجیں تو آپ پڑھ چکے کہ وہ شکست کھا کر ہتھیار ڈال دینے پر مجبورہو گئیں اور سب گرفتار ہو گئیں۔ لیکن طائف میں پناہ لینے والوں سے بھی جنگ ضروری تھی۔ اس لئے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حنین اور اوطاس کے اموال غنیمت اور قیدیوں کو ''مقام جعرانہ'' میں جمع کرکے طائف کا رخ فرمایا۔
طائف خود ایک بہت ہی محفوظ شہر تھا جس کے چاروں طرف شہر پناہ کی دیوار بنی ہوئی تھی اوریہاں ایک بہت ہی مضبوط قلعہ بھی تھا۔ یہاں کا رئیس اعظم عروہ بن مسعود ثقفی تھا جو ابو سفیان کا داماد تھا۔ یہاں ثقیف کا جو خاندان آباد تھا وہ عزت و شرافت میں قریش کا ہم پلہ شمار کیا جاتا تھا ۔کفار کی تمام فوجیں سال بھر کا راشن لے کر طائف کے قلعہ میں پناہ گزیں ہو گئی تھیں۔ اسلامی افواج نے طائف پہنچ کر شہر کا محاصرہ کر لیا مگر قلعہ کے اندر سے کفار نے اس زور و شور کے ساتھ تیروں کی بارش شروع کر دی کہ لشکر اسلام اس کی تاب نہ لا سکا اور مجبوراً اس کو پسپا ہونا پڑا۔ اٹھارہ دن تک شہر کا محاصرہ جاری رہا مگر طائف فتح نہیں ہو سکا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب جنگ کے ماہروں سے مشورہ فرمایا تو حضرت نوفل بن معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ''لومڑی اپنے بھٹ میں گھس گئی ہے۔ اگر کوشش جاری رہی تو پکڑ لی جائے گی لیکن اگر چھوڑ دی جائے تو بھی اس سے کوئی اندیشہ نہیں ۔'' یہ سن کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے محاصرہ اٹھا لینے کا حکم دے دیا۔(1)(زرقانی ج۳ ص۳۳)"
1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ و شرح الزرقانی، باب غزوۃ الطائف،ج۴،ص۶،۷،۱۳ملتقطاً
طائف کے محاصرہ میں بہت سے مسلمان زخمی ہوئے اورکل بارہ اصحاب شہید ہوئے سات قریش،چار انصار اور ایک شخص بنی لیث کے۔ زخمیوں میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے صاحبزادے عبداﷲ بن ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بھی تھے یہ ایک تیر سے زخمی ہو گئے تھے۔ پھر اچھے بھی ہو گئے، لیکن ایک مدت کے بعد پھر ان کا زخم پھٹ گیا اور اپنے والد ماجد حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں اِسی زخم سے ان کی وفات ہو گئی۔ (1) (زرقانی ج۳ ص۳۰)
یہ مسجد جس کو حضرت عمروبن امیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے تعمیر کیا تھا ایک تاریخی مسجدہے۔ اس جنگ طائف میں ازواجِ مطہرات میں سے دوازواج ساتھ تھیں حضرت اُمِ سلمہ اور حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہما ان دونوں کے لئے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے دو خیمے گاڑے تھے اور جب تک طائف کا محاصرہ رہا آپ ان دونوں خیموں کے درمیان میں نمازیں پڑھتے رہے۔ جب بعد میں قبیلہ ثقیف کے لوگوں نے اسلام قبول کر لیا تو ان لوگوں نے اسی جگہ پر مسجد بنا لی۔ (2) (زرقانی ج۳ ص۳۱)
جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے طائف کا ارادہ فرمایا تو حضرت طفیل بن عمرو دوسی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو ایک لشکر کے ساتھ بھیجا کہ وہ ''ذوالکفین'' کے بت خانہ کو برباد کر دیں۔ یہاں عمربن حممہ دوسی کا بت تھا جو لکڑی کا بنا ہوا تھا۔ چنانچہ حضرت طفیل بن عمرو
"1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی، باب غزوۃ الطائف،ج۴، ص۹
والسیرۃ النبویۃ لابن ھشام، باب شھداء المسلمین فی الطائف، ص۵۰۴
2۔۔۔۔۔۔السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، باب الطریق الی الطائف، ص۵۰۲"
دوسی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے وہاں جا کر بت خانہ کو منہدم کر دیا اور بت کو جلا دیا۔ بت کو جلاتے وقت وہ ان اشعار کو پڑھتے جاتے تھے:
یَاذَا الْکَفَیْنِ لَسْتُ مِنْ عِبَادِکَا
اے ذالکفین!میں تیرا بندہ نہیں ہوں
مِیْلَادُنَا اَقدم مِنْ مِیْلَادِکَا
میری پیدائش تیری پیدائش سے بڑی ہے
اِنِّیْ حَشَوْتُ النَّارَ فِیْ فُؤَادِکَا
" میں نے تیرے دل میں آگ لگا دی ہے
حضرت طفیل بن عمرو دوسی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ چار دن میں اس مہم سے فارغ ہوکر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس طائف میں پہنچ گئے۔ یہ ''ذوالکفین'' سے قلعہ توڑنے کے آلات منجنیق وغیرہ بھی لائے تھے۔ چنانچہ اسلام میں سب سے پہلی یہی منجنیق ہے جو طائف کا قلعہ توڑنے کے لئے لگائی گئی ۔مگر کفار کی فوجوں نے تیر اندازی کے ساتھ ساتھ گرم گرم لوہے کی سلاخیں پھینکنی شروع کر دیں اس وجہ سے قلعہ توڑنے میں کامیابی نہ ہو سکی۔ (1) (زرقانی ج۳ ص۳۱)
اسی طرح حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو بھیجا کہ طائف کے اطراف میں جو جا بجا ثقیف کے بت خانے ہیں ان سب کو منہدم کر دیں۔"
"1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی، باب حرق ذی الکفین،ج۴، ص۳،۴
والمواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی، باب غزوۃ الطائف،ص۱۰"
"چنانچہ آپ نے ان سب بتوں اور بت خانوں کو توڑ پھوڑ کر مسمار و برباد کردیا۔ اور جب لوٹ کر خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ان کو دیکھ کر بے حد خوش ہوئے اور بہت دیر تک ان سے تنہائی میں گفتگو فرماتے رہے،جس سے لوگوں کو بہت تعجب ہوا۔ (1) (مدارج النبوۃ ج۲ ص۳۱۸)
طائف سے روانگی کے وقت صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا کہ یارسول اﷲ!(عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) آپ قبیلہ ثقیف کے کفار کے لئے ہلاکت کی دعا فرما دیجئے۔ تو آپ نے دعا مانگی کہ'' اَللّٰھُمَّ اھْدِ ثَقِیْفًا وَأْتِ بِھِمْ ''یااﷲ!عزوجلثقیف کو ہدایت دے اور انکو میرے پاس پہنچا دے۔(مسلم ج۲ص۳۰۷)
چنانچہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی یہ دعا مقبول ہوئی کہ قبیلہ ثقیف کا وفد مدینہ پہنچا اور پورا قبیلہ مشرف بہ اسلام ہو گیا۔(2)"
" طائف سے محاصرہ اُٹھا کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ''جعرانہ'' تشریف لائے۔ یہاں اموال غنیمت کا بہت بڑا ذخیرہ جمع تھا۔ چوبیس ہزار اونٹ، چالیس ہزار سے زائد بکریاں، کئی من چاندی،اور چھ ہزار قیدی۔ (3)(سیرت ابن ہشام ج۲ ص۴۸۸ و زرقانی)
اسیرانِ جنگ کے بارے میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کے رشتہ داروں کے آنے کا انتظار فرمایا۔ لیکن کئی دن گزرنے کے باوجود جب کوئی نہ آیا تو آپ نے مال غنیمت کو تقسیم فرما دینے کا حکم دے دیا مکہ اور اس کے اطراف کے نومسلم"
"1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت، قسم سوم، باب ہشتم، ج۲، ص۳۱۸
2۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ و شرح الزرقانی، باب نبذۃ من قسم الغنائم...الخ، ج۴، ص۱۸
3۔۔۔۔۔۔السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، باب امراموال ھوازن وسبایاھا...الخ، ص۵۰۴
والمواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی، باب نبذۃ من قسم الغنائم...الخ، ج۴، ص۱۹"
رئیسوں کو آپ نے بڑے بڑے انعاموں سے نوازا۔ یہاں تک کہ کسی کو تین سو اونٹ، کسی کو دو سو اونٹ، کسی کو سو اونٹ انعام کے طور پر عطا فرما دیا۔ اسی طرح بکریوں کو بھی نہایت فیاضی کے ساتھ تقسیم فرمایا۔ (1) (سیرت ابن ہشام ج۲ ص۴۸۹)
" جن لوگوں کو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے بڑے بڑے انعامات سے نوازا وہ عموماً مکہ والے نو مسلم تھے۔ اس پر بعض نوجوان انصاریوں نے کہاکہ
''رسول اﷲ عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم قریش کو اس قدر عطا فرما رہے ہیں اور ہم لوگوں کا کچھ بھی خیال نہیں فرما رہے ہیں۔حالانکہ ہماری تلواروں سے خون ٹپک رہا ہے۔(بخاری ج۲ ص۶۲۰ غزوۂ طائف)
اور انصار کے کچھ نوجوانوں نے آپس میں یہ بھی کہا اور اپنی دل شکنی کا اظہار کیا کہ جب شدید جنگ کا موقع ہوتا ہے تو ہم انصاریوں کو پکارا جاتا ہے اور غنیمت دوسرے لوگوں کو دی جا رہی ہے۔(2) (بخاری ج۲ ص۶۲۱ غزوۂ طائف)
آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب یہ چرچا سنا تو تمام انصاریوں کو ایک خیمہ میں جمع فرمایا ا ور ان سے ارشاد فرمایا کہ اے انصار!کیا تم لوگوں نے ایسا ایسا کہا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ یارسول اﷲ!(عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) ہمارے سرداروں میں سے کسی نے بھی کچھ نہیں کہا ہے۔ ہاں چند نئی عمر کے لڑکوں نے ضرور کچھ کہہ دیا ہے۔"
"1۔۔۔۔۔۔السیرۃ النبویۃلابن ھشام، باب امراموال ھوازن وسبایاھا...الخ،ص۵۰۶
والمواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی، باب نبذۃ من قسم الغنائم...الخ،ج۴، ص۱۹
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری ،کتاب المغازی، باب غزوۃ الطائف، الحدیث: ۴۳۳۱،۴۳۳۷،
ج۳،ص۱۱۷والمواہب اللدنیۃ و شرح الزرقانی،باب نبذۃ من ...الخ،ج۴،ص۲۲۔۲۴"
"حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے انصار کو مخاطب فرما کر ارشاد فرمایا کہ
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ تم پہلے گمراہ تھے میرے ذریعہ سے خدا نے تم کو ہدایت دی، تم متفرق اور پراگندہ تھے، خدا نے میرے ذریعہ سے تم میں اتفاق و اتحاد پیدا فرمایا، تم مفلس تھے، خدا نے میرے ذریعہ سے تم کو غنی بنا دیا۔(بخاری ج۲ ص۶۲۰ غزوۂ طائف)
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم یہ فرماتے جاتے تھے اور انصار آپ کے ہر جملہ کو سن کر یہ کہتے جاتے تھے کہ''اﷲ اور رسول کا ہم پر بہت بڑا احسان ہے۔''
آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اے انصار!تم لوگ یوں مت کہو، بلکہ مجھ کو یہ جواب دو کہ یارسول اﷲ!عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جب لوگوں نے آپ کو جھٹلایا تو ہم لوگوں نے آپ کی تصدیق کی۔ جب لوگوں نے آپ کو چھوڑ دیا تو ہم لوگوں نے آپ کو ٹھکانا دیا۔ جب آپ بے سروسامانی کی حالت میں آئے تو ہم نے ہر طرح سے آپ کی خدمت کی۔ لیکن اے انصاریو! میں تم سے ایک سوال کرتا ہوں تم مجھے اس کا جواب دو۔سوال یہ ہے کہ
کیا تم لوگوں کو یہ پسند نہیں کہ سب لوگ یہاں سے مال و دولت لے کر اپنے گھر جائیں اور تم لوگ اﷲ کے نبی کو لے کر اپنے گھر جاؤ۔خدا کی قسم! تم لوگ جس چیز کو لے کر اپنے گھر جاؤ گے وہ اس مال و دولت سے بہت بڑھ کر ہے جس کو وہ لوگ لے کر اپنے گھر جائیں گے۔
یہ سن کر انصار بے اختیار چیخ پڑے کہ یارسول اﷲ!عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہم اس پر راضی ہیں۔ ہم کو صرف اﷲعزوجل کا رسول چاہیے اور اکثر انصار کا تو یہ حال ہو گیا کہ وہ روتے روتے بے قرار ہو گئے اور آنسوؤں سے ان کی داڑھیاں تر ہو گئیں۔"
"پھر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے انصار کو سمجھایا کہ مکہ کے لوگ بالکل ہی نو مسلم ہیں۔ میں نے ان لوگوں کو جو کچھ دیا ہے یہ ان کے استحقاق کی بنا پر نہیں ہے بلکہ صرف ان کے دلوں میں اسلام کی اُلفت پیدا کرنے کی غرض سے دیا ہے، پھر ارشاد فرمایا کہ اگرہجرت نہ ہوتی تو میں انصار میں سے ہوتا اور اگر تمام لوگ کسی وادی اور گھاٹی میں چلیں اور انصار کسی دوسری وادی اور گھاٹی میں چلیں تو میں انصار کی وادی اور گھاٹی میں چلوں گا۔(1)
(بخاری ج۲ ص۶۲۰ و ص۶۲۱ غزوۂ طائف)"
"آپ جب اموالِ غنیمت کی تقسیم سے فارغ ہو چکے تو قبیلہ بنی سعد کے رئیس زہیر ابو صردچند معززین کے ساتھ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور اسیران جنگ کی رہائی کے بارے میں درخواست پیش کی۔ اس موقع پر زہیر ابو صرد نے ایک بہت مؤثر تقریر کی،جس کا خلاصہ یہ ہے کہ
اے محمد!(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)آپ نے ہمارے خاندان کی ایک عورت حلیمہ کا دودھ پیا ہے۔ آپ نے جن عورتوں کو ان چھپروں میں قید کر رکھا ہے ان میں سے بہت سی آپ کی(رضاعی)پھوپھیاں اور بہت سی آپ کی خالائیں ہیں۔ خدا کی قسم! اگر عرب کے بادشاہوں میں سے کسی بادشاہ نے ہمارے خاندان کی کسی عورت کا دودھ پیا ہوتا تو ہم کو اس سے بہت زیادہ امیدیں ہوتیں اور آپ سے تو اور بھی زیادہ ہماری توقعات وابستہ ہیں۔ لہٰذا آپ ان سب قیدیوں کو رہا کر دیجئے۔"
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی، باب غزوۃالطائف، الحدیث:۴۳۳۰،ج۳،ص۱۱۶
والمواہب اللدنیۃ و شرح الزرقانی، باب نبذۃ من قسم الغنائم...الخ،ج۴، ص۲۳"
" زہیر کی تقریر سن کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بہت زیادہ متأثر ہوئے اور آپ نے فرمایا کہ میں نے آپ لوگوں کا بہت زیادہ انتظار کیا مگر آپ لوگوں نے آنے میں بہت زیادہ دیر لگا دی۔ بہر کیف میرے خاندان والوں کے حصہ میں جس قدر لونڈی غلام آئے ہیں۔ میں نے ان سب کو آزاد کر دیا۔ لیکن اب عام رہائی کی تدبیر یہ ہے کہ نماز کے وقت جب مجمع ہو توآپ لوگ اپنی درخواست سب کے سامنے پیش کریں۔ چنانچہ نماز ظہر کے وقت ان لوگوں نے یہ درخواست مجمع کے سامنے پیش کی اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مجمع کے سامنے یہ ارشاد فرمایا کہ مجھ کو صرف اپنے خاندان والوں پر اختیار ہے لیکن میں تمام مسلمانوں سے سفارش کرتا ہوں کہ قیدیوں کو رہا کر دیا جائے یہ سن کر تمام انصار و مہاجرین اور دوسرے تمام مجاہدین نے بھی عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!(عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) ہمارا حصہ بھی حاضر ہے۔ آپ ان لوگوں کو بھی آزاد فرما دیں۔ اس طرح دفعۃً چھ ہزار اسیران جنگ کی رہائی ہو گئی۔(1)(سیرتِ ابن ہشام ج۴ ص۴۸۸ و ص۴۸۹)
بخاری شریف کی روایت یہ ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم دس دنوں تک ''ہوازن'' کے وفد کا انتظار فرماتے رہے۔ جب وہ لوگ نہ آئے تو آپ نے مال غنیمت اور قیدیوں کو مجاہدین کے درمیان تقسیم فرما دیا۔ اس کے بعد جب ''ہوازن'' کا وفد آیا اور انہوں نے اپنے اسلام کا اعلان کرکے یہ درخواست پیش کی کہ ہمارے مال اور قیدیوں کو واپس کر دیا جائے تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے سچی بات ہی پسند ہے۔ لہٰذا سن لو! کہ مال اور قیدی دونوں کو تو میں واپس نہیں کرسکتا۔ ہاں ان"
1۔۔۔۔۔۔السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، باب امر اموال ھواز ن ...الخ، ص۵۰۴ ملخصاً
"دونوں میں سے ایک کو تم اختیار کر لو یا مال لے لویا قیدی۔ یہ سن کر وفد نے قیدیوں کو واپس لینا منظور کیا۔ اس کے بعد آپ نے فوج کے سامنے ایک خطبہ پڑھا اور حمد و ثنا کے بعد ارشاد فرمایا کہ
اے مسلمانو! یہ تمہارے بھائی تائب ہو کر آ گئے ہیں ا ور میری یہ رائے ہے کہ میں ان کے قیدیوں کو واپس کر دوں تو تم میں سے جو خوشی خوشی اس کو منظور کرے وہ اپنے حصہ کے قیدیوں کو واپس کر دے اور جو یہ چاہے کہ ان قیدیوں کے بدلے میں دوسرے قیدیوں کو لے کر ان کو واپس کرے تو میں یہ وعدہ کرتا ہوں کہ سب سے پہلے اﷲ تعالیٰ مجھے جو غنیمت عطا فرمائے گا میں اس میں سے اس کا حصہ دوں گا۔ یہ سن کر ساری فوج نے کہہ دیا کہ یا رسول اﷲ!(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) ہم سب نے خوشی خوشی سب قیدیوں کو واپس کر دیا۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ اس طرح پتا نہیں چلتا کہ کس نے اجازت دی اور کس نے نہیں دی؟ لہٰذا تم لوگ اپنے اپنے چودھریوں کے ذریعہ مجھے خبر دو۔ چنانچہ ہر قبیلہ کے چودھریوں نے دربار رسالت میں آ کر عرض کر دیا کہ ہمارے قبیلہ والوں نے خوش دلی کے ساتھ اپنے حصہ کے قیدیوں کو واپس کر دیا ہے۔(1)(بخاری ج۱ ص۳۴۵ باب من ملک من العرب و بخاری ج۲ ص۳۰۹ باب الوکالۃ فی قضاء الدیون و بخاری ج۲ ص۶۱۸)"
رسول اﷲ عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہوازن کے وفد سے دریافت فرمایا کہ مالک بن عوف کہاں ہے؟ انہوں نے بتایا کہ وہ ''ثقیف'' کے ساتھ طائف
1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب الوکالۃ،باب الوکالۃ...الخ، الحدیث:۲۳۰۷،۲۳۰۸،ج۲،ص۸۰
میں ہے۔آپ نے فرمایا کہ تم لوگ مالک بن عوف کو خبر کردو کہ اگر وہ مسلمان ہو کر میرے پاس آ جائے تو میں اس کا سارا مال اس کو واپس دے دوں گا۔ اس کے علاوہ اس کو ایک سو اونٹ اور بھی دوں گا ۔مالک بن عوف کو جب یہ خبر ملی تو وہ رسول اﷲ عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں مسلمان ہو کر حاضر ہو گئے اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کا کل مال ان کے سپرد فرما دیا اور وعدہ کے مطابق ایک سو اونٹ اس کے علاوہ بھی عنایت فرمائے۔ مالک بن عوف آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے اس خلق عظیم سے بے حد متأثر ہوئے اور آپ کی مدح میں ایک قصیدہ پڑھا جس کے دو شعر یہ ہیں:
"مَا اِنْ رَاَیْتُ وَلَا سَمِعْتُ بِمِثْلِہٖ فِی النَّاسِ کُلِّھِمْ بِمِثْلِ مُحَمَّدٖ
اَوْفیٰ وَاَعْطٰی لِلْجَزِیْلِ اِذَا اجْتُدِی وَمَتٰی تَشَأ یُخْبِرُکَ عَمَّا فِیْ غَدٖ"
" یعنی تمام انسانوں میں حضرت محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا مثل نہ میں نے دیکھا نہ سنا جو سب سے زیادہ وعدہ کو پورا کرنے والے اور سب سے زیادہ مال کثیر عطا فرمانے والے ہیں۔ اور جب تم چاہو ان سے پوچھ لو وہ کل آئندہ کی خبر تم کو بتا دیں گے۔(1)
روایت ہے کہ نعت کے یہ اشعار سن کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ان سے خوش ہو گئے اور ان کے لئے کلمات خیر فرماتے ہوئے انہیں بطور انعام ایک حلہ بھی عنایت فرمایا۔ (سیرت ابن ہشام ج۴ ص۴۹۱ و مدارج ج۲ ص۳۲۴)"
اس کے بعد نبی کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جعرانہ ہی سے عمرہ کا ارادہ فرمایا اور احرام باندھ کر مکہ تشریف لے گئے اور عمرہ ادا کرنے کے بعد پھر مدینہ واپس
1۔۔۔۔۔۔السیرۃ النبویۃ لابن ھشام،باب امر اموال ھواز ن و سبایا ھا۔۔۔۔۔۔الخ،ص۵۰۵
تشریف لے گئے اور ذوالقعدہ ۸ھ کو مدینہ میں داخل ہوئے۔(1)
" (۱) اسی سال رسول اﷲ عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے فرزند حضرت ابراہیم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے شکم سے پیدا ہوئے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو ان سے بے پناہ محبت تھی۔ تقریباً ڈیڑھ سال کی عمر میں ان کی وفات ہو گئی۔
اتفاق سے جس دن ان کی وفات ہوئی سورج گرہن ہواچونکہ عربوں کا عقیدہ تھا کہ کسی عظیم الشان انسان کی موت پر سورج گرہن لگتا ہے۔ اس لئے لوگوں نے یہ خیال کر لیا کہ یہ سورج گرہن حضرت ابراہیم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی وفات کا نتیجہ ہے۔ جاہلیت کے اس عقیدہ کو دور فرمانے کے لئے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک خطبہ دیا جس میں آپ نے ارشاد فرمایا کہ چاند اور سورج میں کسی کی موت و حیات کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا بلکہ اﷲ تعالیٰ اس کے ذریعہ اپنے بندوں کو خوف دلاتا ہے۔ اس کے بعد آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے نماز کسوف جماعت کے ساتھ پڑھی۔(2) (بخاری ج۱ ص۱۴۲ ابواب الکسو ف )
(۲)اسی سال حضور نبی اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے وفات پائی۔ یہ صاحبزادی صاحبہ حضرت ابو العاص بن ربیع رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی منکوحہ تھیں۔ انہوں نے ایک فرزند جس کا نام ''علی'' تھا اور ایک لڑکی جن کا نام ''امامہ''"
"1۔۔۔۔۔۔الکامل فی التاریخ،ذکر قسمۃ غنائم حنین،ج۲،ص۱۴۴،ملخصاً
2۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت، قسم سوم، باب ہشتم، ج۲، ص۳۲۵ مختصراً وصحیح البخاری،
کتاب الکسوف، باب الصلٰوۃ فی الکسوف، الحدیث:۱۰۴۳،۱۰۴۸، ج۱، ص۳۵۷،
وفتح الباری شرح صحیح البخاری، کتاب الکسوف، باب الصلٰوۃ فی الکسوف
الشمس، تحت الحدیث:۱۰۴۳، ج۲، ص۴۵۷"
"تھا،اپنے بعد چھوڑا ۔حضرت بی بی فاطمہ زہراء رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے حضرت علی مرتضیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو وصیت کی تھی کہ میری وفات کے بعد آپ حضرت امامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے نکاح کر لیں۔ چنانچہ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضرت سیدہ فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی وصیت پر عمل کیا۔ (1)(مدارج النبوۃ ج۲ ص۳۲۵)
(۳)اسی سال مدینہ میں غلہ کی گرانی بہت زیادہ بڑھ گئی تو صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے درخواست کی کہ یارسول اﷲ!عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم آپ غلہ کا بھاؤ مقرر فرما دیں تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے غلہ کی قیمت پر کنٹرول فرمانے سے انکار فرما دیا اور ارشاد فرمایا کہ"
اِنَّ اﷲَ ھُوَ الْمُسَعّرُ الْقَابِضُ الْبَاسِطُ الرَّزَّاقُ
"اﷲ ہی بھاؤ مقرر فرمانے والا ہے وہی روزی کو تنگ کرنے والا، کشادہ کرنے والا، روزی رساں ہے۔(2)
( مدارج النبوۃ ج۲ ص۳۲۵)
(۴)بعض مؤرخین کے بقول اسی سال مسجد نبوی میں منبر شریف رکھا گیا۔ اس سے قبل حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ایک ستون سے ٹیک لگا کر خطبہ پڑھا کرتے تھے اور بعض مؤرخین کا قول ہے کہ منبر ۷ھ میں رکھا گیا۔ یہ منبر لکڑی کا بنا ہوا تھا جو ایک انصاری عورت نے بنوا کر مسجد میں رکھوایا تھا۔ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے چاہا کہ میں اس منبر کو تبرکاً ملک شام لے جاؤں مگر انہوں نے جب اس کو اس کی جگہ سے ہٹایا تو اچانک سارے شہر میں ایسا اندھیرا چھا گیا کہ دن میں تارے نظر آنے لگے۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بہت شرمندہ ہوئے اور صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم سے معذرت خواہ ہوئے اور انہوں نے اس منبر کے نیچے تین سیڑھیوں کا اضافہ"
"1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت،قسم سوم،باب ہشتم،ج۲،ص۳۲۵
2۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت،قسم سوم،باب ہشتم،ج۲،ص۳۲۵"
"کر دیا۔ جس سے منبر نبوی کی تینوں پرانی سیڑھیاں اوپر ہو گئیں تاکہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین رضی اﷲ تعالیٰ عنہم جن سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر خطبہ پڑھتے تھے اب دوسرا کوئی خطیب ان پر قدم نہ رکھے۔ جب یہ منبر بہت زیادہ پرانا ہو کر انتہائی کمزور ہو گیا تو خلفاء عباسیہ نے بھی اس کی مرمت کرائی۔ (1)(مدارج النبوۃ ج۲ ص۳۲۷)
(۵)اسی سال قبیلہ عبدالقیس کا وفد حاضر خدمت ہوا ۔حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو خوش آمدید کہااور ان لوگوں کے حق میں یوں دعا فرمائی کہ ''اے اﷲ!عزوجل توعبدالقیس کو بخش دے''جب یہ لوگ بارگاہ رسالت میں پہنچے تو اپنی سواریوں سے کود کر دوڑ پڑے اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے مقدس قدم کو چومنے لگے اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو منع نہیں فرمایا۔ (2) (مدارج النبوۃ ج۲ ص۳۳۰)"
"1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت، قسم سوم، باب ہشتم، ج۲، ص۳۲۶،۳۲۷ ملتقطاً
2۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت، قسم سوم، باب ہشتم،ج۲، ص۳۲۸۔۳۳۰ملخصاً"
۹ھ بہت سے واقعاتِ عجیبہ سے لبریز ہے۔ لیکن چند واقعات بہت ہی اہم ہیں جنکو مؤرخین نے بہت ہی بسط و تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے ہم ان واقعات کو اپنی مختصر کتاب میں نہایت ہی اختصار کے ساتھ الگ الگ عنوانوں کے ساتھ قلمبند کرتے ہیں۔
" ''تخییر'' اور ''ایلاء''یہ شریعت کے دواصطلاحی الفاظ ہیں۔ شوہر اپنی بیوی کو اپنی طرف سے یہ اختیار دے دے کہ وہ چاہے تو طلاق لے لے اور چاہے تو اپنے شوہر ہی کے نکاح میں رہ جائے اس کو ''تخییر'' کہتے ہیں۔ اور ''ایلاء'' یہ ہے کہ شوہر یہ قسم کھا لے کہ میں اپنی بیوی سے صحبت نہیں کروں گا۔ حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اپنی ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن سے ناراض ہو کر ایک مہینہ کا ''ایلاء'' فرمایا یعنی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ قسم کھا لی کہ میں ایک ماہ تک اپنی ازواج مقدسہ سے صحبت نہیں کروں گا۔ پھر اس کے بعد آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی تمام مقدس بیویوں کو طلاق حاصل کرنے کا اختیار بھی سونپ دیا مگر کسی نے بھی طلاق لینا پسند نہیں کیا۔
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ناراضگی اور عتاب کا سبب کیا تھا اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ''تخییروایلاء'' کیوں فرمایا؟ اس کا واقعہ یہ ہے کہ حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس بیویاں تقریباً سب مالدار اور بڑے گھرانوں کی لڑکیاں تھیں۔'' حضرت ام حبیبہ'' رضی اﷲ تعالیٰ عنہا رئیس مکہ حضرت ابو سفیان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی تھیں۔ ''حضرت"
جویریہ'' رضی اﷲ تعالیٰ عنہا قبیلہ بنی المصطلق کے سردار اعظم حارث بن ضرار کی بیٹی تھیں۔ ''حضرت صفیہ'' رضی اﷲ تعالیٰ عنہا بنو نضیر اور خیبر کے رئیس اعظم حیی بن اخطب کی نور نظر تھیں۔ ''حضرت عائشہ'' رضی اﷲ تعالیٰ عنہا حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی پیاری بیٹی تھیں۔'' حضرت حفصہ'' رضی اﷲ تعالیٰ عنہا حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی چہیتی صاحبزادی تھیں۔ ''حضرت زینب بنت جحش'' اور'' حضرت اُمِ سلمہ'' رضی اﷲ تعالیٰ عنہما بھی خاندانِ قریش کے اونچے اونچے گھروں کی ناز و نعمت میں پلی ہوئی لڑکیاں تھیں۔ ظاہر ہے کہ یہ امیر زادیاں بچپن سے امیرانہ زندگی اور رئیسانہ ماحول کی عادی تھیں اور ان کا رہن سہن، خوردونوش، لباس و پوشاک سب کچھ امیرزادیوں کی رئیسانہ زندگی کا آئینہ دار تھااور تاجدار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس زندگی بالکل ہی زاہدانہ اور دنیوی تکلفات سے یکسر بے گانہ تھی۔ دو دو مہینے کا شانہ نبوت میں چولھا نہیں جلتا تھا۔ صرف کھجور اور پانی پر پورے گھرانے کی زندگی بسر ہوتی تھی۔ لباس و پوشاک میں بھی پیغمبرانہ زندگی کی جھلک تھی مکان اور گھر کے سازو سامان میں بھی نبوت کی سادگی نمایاں تھی۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے سرمایہ کا اکثر و بیشتر حصہ اپنی امت کے غربا و فقراء پر صرف فرما دیتے تھے اور اپنی ازواجِ مطہرات کو بقدرِ ضرورت ہی خرچ عطا فرماتے تھے جو ان رئیس زادیوں کے حسب خواہ زیب و زینت اور آرائش و زیبائش کے لئے کافی نہیں ہوتا تھا۔ اس لئے کبھی کبھی ان امت کی ماؤں کا پیمانہ صبرو قناعت لبریز ہو کر چھلک جاتا تھا اور وہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے مزید رقموں کا مطالبہ اور تقاضا کرنے لگتی تھیں۔ چنانچہ ایک مرتبہ ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن نے متفقہ طور پر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے مطالبہ کیا کہ آپ ہمارے اخراجات میں اضافہ فرمائیں۔ ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن
"کی یہ ادائیں مہرنبوت کے قلب نازک پر بار گزریں اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے سکونِ خاطر میں اس قدر خلل انداز ہوئیں کہ آپ نے برہم ہو کر یہ قسم کھا لی کہ ایک مہینہ تک ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن سے نہ ملیں گے۔ اس طرح ایک ماہ کا آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ''ایلاء'' فرما لیا۔
عجیب اتفاق کہ انہی ایام میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم گھوڑے سے گرپڑے جس سے آپ کی مبارک پنڈلی میں موچ آ گئی۔ اس تکلیف کی وجہ سے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے بالاخانہ پر گوشہ نشینی اختیار فرما لی اور سب سے ملنا جلنا چھوڑ دیا۔
صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے واقعات کے قرینوں سے یہ قیاس آرائی کر لی کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی تمام مقدس بیویوں کو طلاق دے دی اور یہ خبر جو بالکل ہی غلط تھی بجلی کی طرح پھیل گئی۔ اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم رنج و غم سے پریشان حال اور اس صدمہ جانکاہ سے نڈھال ہونے لگے۔
اس کے بعد جو واقعات پیش آئے وہ بخاری شریف کی متعدد روایات میں مفصل طورپر مذکور ہیں۔ ان واقعات کا بیان حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی زَبان سے سنیے۔
حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں اورمیرا ایک پڑوسی جو انصاری تھا ہم دونوں نے آپس میں یہ طے کر لیا تھا کہ ہم دونوں ایک ایک دن باری باری سے بارگاہ رسالت میں حاضری دیا کریں گے اور دن بھر کے واقعات سے ایک دوسرے کو مطلع کرتے رہیں گے۔ ایک دن کچھ رات گزرنے کے بعد میرا پڑوسی انصاری آیا اور زور زور سے میرا دروازہ پیٹنے اور چلا چلا کر مجھے پکارنے لگا ۔میں نے گھبرا کر دروازہ کھولا تو اس نے کہا کہ آج غضب ہو گیا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا غسانیوں نے مدینہ پر"
حملہ کر دیا؟ (ان دنوں شام کے غسانی مدینہ پر حملہ کی تیاریاں کر رہے تھے۔)انصاری نے جواب دیا کہ اجی اس سے بھی بڑھ کر حادثہ رونما ہو گیا ۔وہ یہ کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی تمام بیویوں کو طلاق دے دی۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں اس خبر سے بے حدمُتوحّش ہو گیا اور علی الصباح میں نے مدینہ پہنچ کر مسجد نبوی میں نماز فجر ادا کی۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوتے ہی بالاخانہ پر جا کر تنہا تشریف فرما ہو گئے اور کسی سے کوئی گفتگو نہیں فرمائی۔ میں مسجد سے نکل کر اپنی بیٹی حفصہ کے گھر گیا تو دیکھا کہ وہ بیٹھی رو رہی ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ میں نے پہلے ہی تم کو سمجھا دیا تھا کہ تم رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو تنگ مت کیا کرو اور تمہارے اخراجات میں جو کمی ہوا کرے وہ مجھ سے مانگ لیا کرو مگر تم نے میری بات پر دھیان نہیں دیا۔ پھر میں نے پوچھا کہ کیا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے سبھوں کو طلاق دے دی ہے؟ حفصہ نے کہا میں کچھ نہیں جانتی۔ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بالاخانہ پر ہیں آپ ان سے دریافت کریں۔ میں وہاں سے اُٹھ کر مسجد میں آیا تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو بھی دیکھا کہ وہ منبر کے پاس بیٹھے رو رہے ہیں ۔میں ان کے پاس تھوڑی دیر بیٹھا لیکن میری طبیعت میں سکون و قرار نہیں تھا۔ اس لئے میں اُٹھ کر بالاخانہ کے پاس آیا اور پہرہ دار غلام ''رباح'' سے کہا کہ تم میرے لئے اندر آنے کی اجازت طلب کرو۔ رباح نے لوٹ کر جواب دیا کہ میں نے عرض کر دیا لیکن آ پ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میری اُلجھن اوربے تابی اور زیادہ بڑھ گئی اور میں نے دربان سے دوبارہ اجازت طلب کرنے کی درخواست کی پھر بھی کوئی جواب نہیں ملا۔ تو میں نے بلند آواز سے کہا کہ اے رباح! تم میرا نام لے کر اجازت طلب کرو۔ شاید رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو یہ خیال ہو کہ میں
"اپنی بیٹی حفصہ کے لئے کوئی سفارش لے کر آیا ہوں۔ تم عرض کر دو کہ خدا کی قسم! اگر رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مجھے حکم فرمائیں تو میں ابھی ابھی اپنی تلوار سے اپنی بیٹی حفصہ کی گردن اڑا دوں۔ اس کے بعد مجھ کو اجازت مل گئی جب میں بارگاہِ رسالت میں باریاب ہوا تو میری آنکھوں نے یہ منظر دیکھا کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ایک کھری بان کی چارپائی پر لیٹے ہوئے ہیں اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے جسم نازک پر بان کے نشان پڑے ہوئے ہیں پھر میں نے نظر اٹھا کر اِدھر اُدھر دیکھا تو ایک طرف تھوڑے سے ''جو'' رکھے ہوئے تھے اور ایک طرف ایک کھال کھونٹی پر لٹک رہی تھی۔ تاجدارِ دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے خزانہ کی یہ کائنات دیکھ کر میرا دل بھر آیا اور میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے میرے رونے کا سبب پوچھا تو میں نے عرض کیا کہ یارسول اﷲ! صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اس سے بڑھ کر رونے کا اور کونسا موقع ہو گا ؟کہ قیصر و کسریٰ خدا کے دشمن تو نعمتوں میں ڈوبے ہوئے عیش و عشرت کی زندگی بسر کررہے ہیں اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم خدا کے رسول معظم ہوتے ہوئے اس حالت میں ہیں۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اے عمر!کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ قیصر و کسریٰ دنیا لیں اور ہم آخرت!
اس کے بعد میں نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو مانوس کرنے کے لئے کچھ اور بھی گفتگو کی یہاں تک کہ میری بات سن کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے لب انور پر تبسم کے آثار نمایاں ہو گئے۔ اس وقت میں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کیا آپ نے اپنی ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کو طلاق دے دی ہے؟ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ''نہیں'' مجھے اس قدر خوشی ہوئی کہ فرط مسرت سے میں نے تکبیر کا نعرہ مارا۔ پھر میں نے یہ گزارش کی یا رسول اﷲ!(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) صحابہ کرام رضی اللہ"
"تعالیٰ عنہم مسجد میں غم کے مارے بیٹھے رو رہے ہیں اگر اجازت ہو تو میں جا کر ان لوگوں کو مطلع کر دوں کہ طلاق کی خبر سراسرغلط ہے۔ چنانچہ مجھے اس کی اجازت مل گئی اور میں نے جب آ کر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو اس کی خبر دی تو سب لوگ خوش ہو کر ہشاش بشاش ہو گئے اور سب کو سکون و اطمینان حاصل ہو گیا۔
جب ایک مہینہ گزر گیا اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی قسم پوری ہو گئی تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بالاخانہ سے اتر آئے اس کے بعد ہی آیت تخییر نازل ہوئی جو یہ ہے۔"
یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلۡ لِّاَزْوَاجِکَ اِنۡ کُنۡـتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَ زِیۡنَتَہَا فَتَعَالَیۡنَ اُمَتِّعْکُنَّ وَ اُسَرِّحْکُنَّ سَرَاحًا جَمِیۡلًا ﴿۲۸﴾وَ اِنۡ کُنۡـتُنَّ تُرِدْنَ اللہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَالدَّارَ الْاٰخِرَۃَ فَاِنَّ اللہَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنۡکُنَّ اَجْرًا عَظِیۡمًا ﴿۲۹﴾ (1)(احزاب)
"اے نبی!اپنی بیویوں سے فرما دیجئے کہ اگر تم دنیا کی زندگی اوراسکی آرائش چاہتی ہو تو آؤمیں تمہیں کچھ مال دوں اور اچھی طرح چھوڑ دوں اور اگر تم اﷲ اور اس کے رسول اور آخرت کا گھر چاہتی ہو تو بے شک اﷲ نے تمہاری نیکی والیوں کے لئے بہت بڑااجر تیار کر رکھا ہے۔
ان آیاتِ بینات کا ماحصل اور خلاصہ مطلب یہ ہے کہ رسولِ خدا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو خداوند ِقدوس نے یہ حکم دیا کہ آپ اپنی مقدس بیویوں کو مطلع فرما دیں کہ دو چیزیں تمہارے سامنے ہیں۔ ایک دنیا کی زینت و آرائش دوسری آخرت کی نعمت۔ اگر تم دنیا کی زیب و زینت چاہتی ہو تو پیغمبر کی زندگی چونکہ بالکل ہی زاہدانہ زندگی ہے اس لئے پیغمبر کے گھر میں تمہیں یہ دنیوی زینت و آرائش تمہاری مرضی کے مطابق نہیں"
1۔۔۔۔۔۔پ۲۱، الاحزاب: ۲۸
"مل سکتی؛لہٰذا تم سب مجھ سے جدائی حاصل کر لو۔ میں تمہیں رخصتی کا جوڑا پہنا کر اور کچھ مال دے کر رخصت کر دوں گا۔ اور اگر تم خدا و رسول اور آخرت کی نعمتوں کی طلب گار ہو تو پھر رسولِ خدا کے دامنِ رحمت سے چمٹی رہو۔ خداعزوجل نے تم نیکو کاروں کے لئے بہت ہی بڑا اجر و ثواب تیار کر رکھا ہے جو تم کو آخرت میں ملے گا۔
(بخاری کتاب الطلاق کتاب العلم۔ کتاب اللباس باب موعظۃ الرجل ابنتہ لحال زوجہا)
اس آیت کے نزول کے بعد سب سے پہلے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا کہ اے عائشہ! میں تمہارے سامنے ایک بات رکھتا ہوں مگر تم اس کے جواب میں جلدی مت کرنا اور اپنے والدین سے مشورہ کرکے مجھے جواب دینا ۔اس کے بعد آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مذکورہ بالا تخییر کی آیت تلاوت فرما کر ان کو سنائی تو انہوں نے برجستہ عرض کیا کہ یارسول اﷲ! صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم"
فَفِیْ اَیِّ ھٰذَا اَسْتَامِرُ اَبَوَیَّ فَاِنِّیْ اُرِیْدُ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَالدَّارَ الْاٰخِرَۃَ (1)(بخاری ج۲ ص۷۹۲ باب من خیر نساء ہ)
" اس معاملہ میں بھلا میں کیا اپنے والدین سے مشورہ کروں میں اﷲ اور اسکے رسول اور آخرت کے گھر کو چاہتی ہوں۔پھر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یکے بعد دیگرے تمام ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کو الگ الگ آیت تخییر سنا سنا کر سب کو اختیار دیا اور سب نے وہی جواب دیا جو حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے جواب دیاتھا۔
اﷲ اکبر!یہ واقعہ اس بات کی آفتاب سے زیادہ روشن دلیل ہے کہ ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ذات سے کس قدر عاشقانہ شیفتگی"
1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب التفسیر،باب وان کنتن ...الخ،الحدیث:۴۷۸۶،ج۳،ص۳۰۲
اور والہانہ محبت تھی کہ کئی کئی سوکنوں کی موجودگی اور خانہ نبوت کی سادہ اور زاہدانہ طرزِ معاشرت اور تنگی ترشی کی زندگی کے باوجود یہ رئیس زادیاں ایک لمحہ کے لئے بھی رسول کے دامن رحمت سے جدائی گوارا نہیں کر سکتی تھیں۔
احادیث کی روایتوں اور تفسیروں میں ''ایلاء'' آیت ''تخییر'' اور حضرت عائشہ و حفصہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کا ''مظاہرہ'' ان واقعات کو عام طورپر الگ الگ اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ گویا یہ مختلف زمانوں کے مختلف واقعات ہیں۔ اس سے ایک کم علم و کم فہم اور ظاہربین انسان کو یہ دھوکہ ہو سکتا ہے کہ شاید رسول خدا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور آپ کی ازواجِ مطہرات کے تعلقات خوشگوارنہ تھے اورکبھی ''ایلاء''کبھی''تخییر''کبھی ''مظاہرہ'' ہمیشہ ایک نہ ایک جھگڑا ہی رہتا تھا لیکن اہل علم پر مخفی نہیں کہ یہ تینوں واقعات ایک ہی سلسلہ کی کڑیاں ہیں۔ چنانچہ بخاری شریف کی چند روایات خصوصاً بخاری کتاب النکاح باب موعظۃ الرجل ابنتہ لحال زوجہا میں حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کی جو مفصل روایت ہے۔ اس میں صاف طور پر یہ تصریح ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا ایلاء کرنا اور ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن سے الگ ہو کر بالاخانہ پر تنہا نشینی کر لینا، حضرت عائشہ و حضرت حفصہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کا مظاہرہ کرنا، آیت تخییر کا نازل ہونا، یہ سب واقعات ایک دوسرے سے منسلک اور جڑے ہوئے ہیں اور ایک ہی وقت میں یہ سب واقع ہوئے ہیں۔ورنہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور آپ کی ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے خوشگوار تعلقات جس قدر عاشقانہ اُلفت و محبت کے آئینہ دار رہے ہیں قیامت تک اس کی مثال نہیں مل سکتی اور نبوت کی مقدس زندگی کے بے شمار واقعات اس اُلفت و محبت کے تعلقات پر گواہ ہیں۔
جو احادیث و سیرت کی کتابوں میں آسمان کے ستاروں کی طرح چمکتے اور داستانِ عشق و محبت کے چمنستانوں میں موسم بہار کے پھولوں کی طرح مہکتے ہیں۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ وَاَزْوَاجِہِ الْطَاھِرَاتِ اُمَّھَاتِ الْمُوْمِنِیْنَ اَبَدَ الْاَبَدِیْنَ بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ.
" حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ۹ھ محرم کے مہینے میں زکوٰۃ و صدقات کی وصولی کے لئے عاملوں اور محصّلوں کو مختلف قبائل میں روانہ فرمایا ۔ان امراء و عاملین کی فہرست میں مندرج ذیل حضرات خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں جن کو ابن سعد نے ذکر فرمایا ہے۔
(۱) حضرت عیینہ بن حصن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بنی تمیم کی طرف
(۲) حضرت یزید بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اسلم و غفار //
(۳) حضرت عباد بن بشر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سلیم و مزینہ //
(۴) حضرت رافع بن مکیث رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جہینہ کی طرف
(۵) حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بنی فزارہ //
(۶) حضرت ضحاک بن سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بنی کلاب //
(۷) حضرت بشر بن سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بنی کعب //
(۸) حضرت ابن اللبتیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو بنی ذبیان //
(۹) حضرت مہاجربن ابی امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صنعاء //
(۱۰) حضرت زیاد بن لبید انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضر موت //"
"(۱۱) حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قبیلہ طی وبنی اسعد //
(۱۲) حضرت مالک بن نویرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو بنی حنظلہ //
(۱۳) حضرت زبرقان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بنی سعد کے نصف حصہ //
(۱۴) حضرت قیس بن عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو // //
(۱۵) حضرت علاء بن الحضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بحرین //
(۱۶) حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نجران //
یہ حضور شہنشاہ رسالت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے امراء اور عاملین ہیں جن کو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے زکوٰۃ و صدقات و جزیہ وصول کرنے کے لئے مقرر فرمایا تھا۔ (اصح السیر ص۳۳۵)"
محرم ۹ھ میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے بشر بن سفیان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو بنی خزاعہ کے صدقات وصول کرنے کے لئے بھیجا۔ انہوں نے صدقات وصول کرکے جمع کئے کہ ناگہاں ان پر بنی تمیم نے حملہ کر دیا وہ اپنی جان بچا کر کسی طرح مدینہ آ گئے اور سارا ماجرا بیان کیا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے بنی تمیم کی سرکوبی کے لئے حضرت عیینہ بن حصن فزاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو پچاس سواروں کے ساتھ بھیجا۔ انہوں نے بنی تمیم پر ان کے صحرا میں حملہ کرکے ان کے گیارہ مردوں، اکیس عورتوں اور تیس لڑکوں کو گرفتار کر لیا اور ان سب قیدیوں کو مدینہ لائے۔(1) (زرقانی ج۳ص ۴۳)
"1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب البعث الی بنی تمیم،ج۴، ص۳۰،۳۱ ملخصاً
ومدارج النبوت،قسم سوم،باب نہم،ج۲،ص۳۳۱ملخصاً"
" اس کے بعد بنی تمیم کا ایک وفد مدینہ آیا جس میں اس قبیلے کے بڑے بڑے سردار تھے اور ان کا رئیس اعظم اقرع بن حابس اور ان کا خطیب ''عطارد'' اور شاعر ''زبرقان بن بدر'' بھی اس وفد میں ساتھ آئے تھے۔ یہ لوگ دندناتے ہوئے کاشانہ نبوت کے پاس پہنچ گئے اور چلانے لگے کہ آپ نے ہماری عورتوں اور بچوں کو کس جرم میں گرفتار کرر کھا ہے۔
اس وقت میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے حجرۂ مبارکہ میں قیلولہ فرما رہے تھے۔ ہر چند حضرت بلال اور دوسرے صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے ان لوگوں کو منع کیا کہ تم لوگ کاشانۂ نبوی کے پاس شور نہ مچاؤ۔ نماز ظہر کے لئے خود حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لانے والے ہیں۔ مگر یہ لوگ ایک نہ مانے شور مچاتے ہی رہے جب آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم باہر تشریف لا کر مسجد نبوی میں رونق افروز ہوئے تو بنی تمیم کا رئیس اعظم اقرع بن حابس بولا کہ اے محمد!(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) ہمیں اجازت دیجئے کہ ہم گفتگو کریں کیونکہ ہم وہ لوگ ہیں کہ جس کی مدح کردیں وہ مزین ہو جاتا ہے اور ہم لوگ جس کی مذمت کر دیں وہ عیب سے داغدار ہوجاتا ہے۔
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ غلط کہتے ہو۔یہ خدا وند تعالیٰ ہی کی شان ہے کہ اس کی مدح زینت اور اس کی مذمت داغ ہے تم لوگ یہ کہو کہ تمہارا مقصد کیا ہے ؟ یہ سن کر بنی تمیم کہنے لگے کہ ہم اپنے خطیب اور اپنے شاعر کو لے کر یہاں آئے ہیں تاکہ ہم اپنے قابل فخر کارناموں کو بیان کریں اور آپ اپنے مفاخر کو پیش کریں۔
آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہ میں شعر و شاعری کے لئے بھیجا گیا ہوں نہ اس طرح کی مفاخرت کا مجھے خداعزوجل کی طرف سے حکم ملا ہے۔ میں تو خدا کا رسول"
"ہوں اس کے باوجود اگر تم یہی کرنا چاہتے ہو تو میں تیار ہوں۔
یہ سنتے ہی اقرع بن حابس نے اپنے خطیب عطارد کی طرف اشارہ کیا۔ اس نے کھڑے ہو کر اپنے مفاخر اور اپنے آباء واجداد کے مناقب پر بڑی فصاحت و بلاغت کے ساتھ ایک دھواں دھار خطبہ پڑھا۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے انصار کے خطیب حضرت ثابت بن قیس بن شماس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو جواب دینے کا حکم فرمایا۔ انہوں نے اٹھ کر برجستہ ایسا فصیح و بلیغ اور موثر خطبہ دیا کہ بنی تمیم ان کے زورِ کلام اور مفاخر کی عظمت سن کر دنگ رہ گئے۔ اور ان کا خطیب عطارد بھی ہکا بکا ہو کر شرمندہ ہو گیاپھر بنی تمیم کا شاعر ''زبرقان بن بدر'' اٹھا اور اس نے ایک قصیدہ پڑھا۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت حسان بن ثابت رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو اشارہ فرمایا تو انہوں نے فی البدیہہ ایک ایسا مرصع اور فصاحت و بلاغت سے معمور قصیدہ پڑھ دیا کہ بنی تمیم کا شاعر اُلو بن گیا۔ بالآخر اقرع بن حابس کہنے لگا کہ خدا کی قسم! محمد(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کو غیب سے ایسی تائید و نصرت حاصل ہو گئی ہے کہ ہر فضل و کمال ان پر ختم ہے۔ بلا شبہ ان کا خطیب ہمارے خطیب سے زیادہ فصیح و بلیغ ہے ا ور ان کا شاعر ہمارے شاعر سے بہت بڑھ چڑھ کر ہے۔ اس لئے انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ان کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں۔ چنانچہ یہ لوگ حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے مطیع و فرمانبردار ہو گئے اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئے۔ پھر ان لوگوں کی درخواست پر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کے قیدیوں کو رہا فرما دیا اور یہ لوگ اپنے قبیلے میں واپس چلے گئے۔ انہی لوگوں کے بارے میں قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی کہ"
اِنَّ الَّذِیۡنَ یُنَادُوۡنَکَ مِنۡ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَکْثَرُہُمْ لَا یَعْقِلُوۡنَ ﴿۴﴾ وَلَوْ اَنَّہُمْ صَبَرُوۡا حَتّٰی تَخْرُجَ اِلَیۡہِمْ لَکَانَ خَیۡرًا لَّہُمْ ؕ وَ اللہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۵﴾
"بے شک وہ جو آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں۔ ان میں اکثر بے عقل ہیں اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ آپ ان کے پاس تشریف لاتے تو یہ ان کے لئے بہتر تھا اور اﷲ بخشنے والا مہربان ہے۔ (حجرات)
(2)(مدارج النبوۃ ج۲ ص۳۳۲ و زرقانی ج۳ ص۴۴)"
ربیع الآ خر ۹ھ میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی ماتحتی میں ایک سو پچاس سواروں کو اس لئے بھیجا کہ وہ قبیلہ ''طی'' کے بت خانہ کو گرا دیں۔ ان لوگوں نے شہرفلس میں پہنچ کر بت خانہ کو منہدم کر ڈالا اور کچھ اونٹوں اور بکریوں کو پکڑ کر اور چند عورتوں کو گرفتار کرکے یہ لوگ مدینہ لائے۔ ان قیدیوں میں مشہور سخی حاتم طائی کی بیٹی بھی تھی۔ حاتم طائی کا بیٹا عدی بن حاتم بھاگ کر ملک ِشام چلا گیا۔ حاتم طائی کی لڑکی جب بارگاہ رسالت میں پیش کی گئی تو اس نے کہا یا رسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) میں ''حاتم طائی'' کی لڑکی ہوں۔ میرے باپ کا انتقال ہو گیا اور میرا بھائی ''عدی بن حاتم'' مجھے چھوڑ کر بھاگ گیا۔ میں ضعیفہ ہوں آپ مجھ پر احسان کیجئے خدا آپ پر احسان کریگا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو چھوڑ دیا اور سفر کے لئے ایک اونٹ بھی عنایت فرمایا۔ یہ مسلمان ہو کر اپنے بھائی عدی بن حاتم کے پاس پہنچی اور اس کو حضور
"1۔۔۔۔۔۔پ۲۶،الحجرات:۴،۵
2۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ وشرح الزرقانی، باب البعث الی بنی تمیم،ج۴،ص۳۱،۳۴ ملخصاً
ومدارج النبوت، قسم سوم، باب نہم، ج۲، ص۳۳۱،۳۳۲ ملخصاً"
"صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے اخلاقِ نبوت سے آگاہ کیا اور رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی بہت زیادہ تعریف کی۔ عدی بن حاتم اپنی بہن کی زبانی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلق عظیم اور عاداتِ کریمہ کے حالات سن کر بے حد متاثر ہوئے اور بغیر کوئی امان طلب کئے ہوئے مدینہ حاضر ہو گئے۔ لوگوں نے بارگاہ نبوت میں یہ خبر دی کہ عدی بن حاتم آ گیا ہے۔ حضور رحمۃللعالمین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے انتہائی کریمانہ انداز سے عدی بن حاتم کے ہاتھ کو اپنے دستِ رحمت میں لے لیا اور فرمایا کہ اے عدی! تم کس چیز سے بھاگے؟ کیا لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ کہنے سے تم بھاگے؟ کیا خدا کے سوا کوئی اور معبود بھی ہے؟ عدی بن حاتم نے کہا کہ'' نہیں '' پھر کلمہ پڑھ لیا اور مسلمان ہو گئے ان کے اسلام قبول کرنے سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس قدر خوشی ہوئی کہ فرطِ مسرت سے آپ کا چہرۂ انور چمکنے لگا اور آپ نے ان کو خصوصی عنایات سے نوازا۔
حضرت عدی بن حاتم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی اپنے باپ حاتم کی طرح بہت ہی سخی تھے۔ حضرت امام احمد ناقل ہیں کہ کسی نے ان سے ایک سو درہم کا سوال کیا تو یہ خفا ہوگئے اور کہا کہ تم نے فقط ایک سو درہم ہی مجھ سے مانگا تم نہیں جانتے کہ میں حاتم کا بیٹا ہوں خدا کی قسم! میں تم کو اتنی حقیر رقم نہیں دوں گا۔
یہ بہت ہی شاندار صحابی ہیں، خلافت صدیق اکبر میں جب بہت سے قبائل نے اپنی زکوٰۃ روک دی اور بہت سے مرتد ہو گئے یہ اس دور میں بھی پہاڑ کی طرح اسلام پر ثابت قدم رہے اور اپنی قوم کی زکوٰۃ لا کر بارگاہ خلافت میں پیش کی اور عراق کی فتوحات اور دوسرے اسلامی جہادوں میں مجاہد کی حیثیت سے شریک ہوئے اور ۶۸ھ میں ایک سو بیس برس کی عمر پا کر وصال فرمایا اور صحاح ستہ کی ہر کتاب میں آپ"
"رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کردہ حدیثیں مذکور ہیں۔(1)
(زرقانی ج۳ص۵۳ و مدارج ج۲ ص۳۳۷)"
" ''تبوک'' مدینہ اور شام کے درمیان ایک مقام کا نام ہے جو مدینہ سے چودہ منزل دور ہے۔ بعض مؤرخین کا قول ہے کہ ''تبوک'' ایک قلعہ کا نام ہے اور بعض کا قول ہے کہ ''تبوک'' ایک چشمہ کا نام ہے ۔ ممکن ہے یہ سب باتیں موجود ہوں!
یہ غزوہ سخت قحط کے دنوں میں ہوا۔ طویل سفر، ہواگرم، سواری کم، کھانے پینے کی تکلیف، لشکر کی تعداد بہت زیادہ، اس لیے اس غزوہ میں مسلمانوں کو بڑی تنگی اور تنگ دستی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ اس غزوہ کو''جیش العسرۃ ''(تنگ دستی کا لشکر) بھی کہتے ہیں اورچونکہ منافقوں کواس غزوہ میں بڑی شرمندگی اورشرمساری اٹھانی پڑی تھی۔ اس وجہ سے اس کا ایک نام ''غزوہ فاضحہ''(رسوا کرنے والا غزوہ) بھی ہے ۔ اس پر تمام مؤرخین کا اتفاق ہے کہ اس غزوہ کے لئے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ماہ رجب ۹ھجمعرات کے دن روانہ ہوئے۔(2)(زرقانی ج ۳ص ۶۳)"
عرب کا غسانی خاندان جو قیصر روم کے زیر اثر ملک شام پر حکومت کرتا تھا چونکہ وہ عیسائی تھا اس لیے قیصر روم نے اس کو اپنا آلہ کار بنا کر مدینہ پر فوج کشی کا عزم کرلیا۔ چنانچہ ملک شام کے جو سوداگر روغن زیتون بیچنے مدینہ آیا کرتے تھے۔ انہوں
"1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃمع شرح الزرقانی، ھدم صنم طیئ،ج۴،ص۴۸۔۵۰
2۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت،قسم سوم،باب نہم،ج۲،ص۳۴۳۔۳۴۴والمواھب اللدنیۃ وشرح
الزرقانی،باب ثم غزوۃ تبوک،ج۴،ص۶۵۔۶۷ملخصاً"
"نے خبر دی کہ قیصر روم کی حکومت نے ملک ِشام میں بہت بڑی فوج جمع کردی ہے۔ اور اس فوج میں رومیوں کے علاوہ قبائل لخم و جذام اور غسان کے تمام عرب بھی شامل ہیں۔ ان خبروں کا تمام عرب میں ہر طرف چرچا تھا اور رومیوں کی اسلام دشمنی کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں تھی اس لیے ان خبروں کو غلط سمجھ کر نظر انداز کردینے کی بھی کوئی و جہ نہیں تھی۔ اس لیے حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے بھی فوج کی تیاری کا حکم دے دیا۔
لیکن جیسا کہ ہم تحریر کرچکے ہیں کہ اس وقت حجازِ مقدس میں شدید قحط تھا اور بے پناہ شدت کی گرمی پڑ رہی تھی ان وجوہات سے لوگوں کو گھر سے نکلنا شاق گزر رہا تھا۔ مدینہ کے منافقین جن کے نفاق کا بھانڈا پھوٹ چکا تھا وہ خود بھی فوج میں شامل ہونے سے جی چراتے تھے اور دوسروں کو بھی منع کرتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود تیس ہزار کا لشکر جمع ہوگیا۔مگر ان تمام مجاہدین کے لیے سواریوں اور سامان جنگ کا انتظام کرنا ایک بڑا ہی کٹھن مرحلہ تھاکیونکہ لوگ قحط کی وجہ سے انتہائی مفلوک الحال اور پریشان تھے۔ اس لیے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے تمام قبائل عرب سے فوجیں اور مالی امداد طلب فرمائی۔ اس طرح اسلام میں کسی کا رخیر کے لیے چندہ کرنے کی سنت قائم ہوئی۔(1)"
حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنا سارا مال اور گھر کا تمام اثاثہ یہاں تک کہ بدن کے کپڑے بھی لا کر بارگاہ نبوت میں پیش کردئیے۔ اور حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنا آدھا مال اس چندہ میں دے دیا۔ منقول ہے کہ حضرت عمر
1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ وشرح الزرقانی ، باب ثم غزوۃ تبوک،ج۴،ص۶۸۔۷۲
"رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جب اپنا نصف مال لے کر بارگاہ اقدس میں چلے تو اپنے دل میں یہ خیال کرکے چلے تھے کہ آج میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سبقت لے جاؤں گا کیونکہ اس دن کا شانۂ فاروق میں اتفاق سے بہت زیادہ مال تھا۔ حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے دریافت فرمایا کہ اے عمر!کتنا مال یہاں لائے اور کس قدر گھر پر چھوڑا؟ عرض کیا کہ یا رسول اﷲ! (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) آدھا مال حاضر خدمت ہے اور آدھا مال اہل و عیال کے لئے گھر میں چھوڑ دیا ہے اور جب یہی سوال اپنے یارغار حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے کیا تو انہوں نے عرض کیا کہ ''اِدَّخَرْتُ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ'' میں نے اﷲ اور اس کے رسول کو اپنے گھر کا ذخیرہ بنا دیا ہے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مَا بَیْنَکُمَا مَا بَیْنَ کَلِمَتَیْکُمَا تم دونوں میں اتنا ہی فرق ہے جتنا تم دونوں کے کلاموں میں فرق ہے۔
حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ایک ہزار اونٹ اور ستر گھوڑے مجاہدین کی سواری کے لئے اور ایک ہزار اشرفی فوج کے اخراجات کی مد میں اپنی آستین میں بھر کر لائے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آغوش مبارک میں بکھیر دیا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو قبول فرما کر یہ دعا فرمائی کہ اَللّٰھُمَّ ارْضِ عَنْ عُثْمَانَ فَاِنِّیْ عَنْہُ رَاضٍ اے اﷲ تو عثمان سے راضی ہو جا کیونکہ میں اس سے خوش ہو گیا ہوں۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے چالیس ہزار درہم دیا اور عرض کیا کہ یا رسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) میرے گھر میں اس وقت اسی ہزار درہم تھے۔ آدھا بارگاہ اقدس میں لایا ہوں اور آدھا گھر پر بال بچوں کے لئے چھوڑ آیا ہوں۔ ارشاد فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ اس میں بھی برکت دے جو تم لائے اور اس میں بھی برکت عطا"
"فرمائے جو تم نے گھر پر رکھا۔ اس دعاء نبوی کا یہ اثر ہوا کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بہت زیادہ مالدار ہو گئے۔
اسی طرح تمام انصار و مہاجرین نے حسب توفیق اس چندہ میں حصہ لیا۔ عورتوں نے اپنے زیورات اتار اتار کر بارگاہ نبوت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔
حضرت عاصم بن عدی انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کئی من کھجور یں دیں۔ اور حضرت ابو عقیل انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جو بہت ہی مفلس تھے فقط ایک صاع کھجور لے کر حاضر خدمت ہوئے اور گزارش کی کہ یا رسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) میں نے دن بھرپانی بھر بھر کر مزدوری کی تو دو صاع کھجوریں مجھے مزدوری میں ملی ہیں۔ ایک صاع اہل و عیال کو دے دی ہے اور یہ ایک صاع حاضر خدمت ہے۔ حضور رحمۃ للعالمین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا قلب نازک اپنے ایک مفلس جاں نثار کے اس نذرانہ خلوص سے بےحد متاثر ہوا اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کھجور کو تمام مالوں کے اوپر رکھ دیا۔(1) (مدارج النبوۃ ج۲ ص۳۴۵ تا ص۳۴۶)"
رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا اب تک یہ طریقہ تھا کہ غزوات کے معاملہ میں بہت زیادہ رازداری کے ساتھ تیاری فرماتے تھے۔ یہاں تک کہ عساکر اسلامیہ کو عین وقت تک یہ بھی نہ معلوم ہوتا تھا کہ کہاں اور کس طرف جانا ہے؟ مگر جنگ تبوک کے موقع پر سب کچھ انتظام علانیہ طور پر کیا اور یہ بھی بتا دیا کہ تبوک چلنا ہے اور قیصر روم کی
"1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت، قسم سوم، باب نہم، ج۲، ص۳۴۴۔۳۴۶
والمواھب اللدنیۃ وشرح الزرقانی، باب ثم غزوۃ تبوک،ج۴، ص۶۹۔۷۱"
"فوجوں سے جہاد کرنا ہے تا کہ لوگ زیادہ سے زیادہ تیاری کر لیں۔
حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے جیسا کہ لکھا جا چکا دل کھول کر چندہ دیا مگر پھر بھی پوری فوج کے لئے سواریوں کا انتظام نہ ہو سکا۔ چنانچہ بہت سے جانباز مسلمان اسی بنا پر اس جہاد میں شریک نہ ہو سکے کہ ان کے پاس سفر کا سامان نہیں تھا یہ لوگ دربار رسالت میں سواری طلب کرنے کے لئے حاضر ہوئے مگر جب رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس سواری نہیں ہے تو یہ لوگ اپنی بے سروسامانی پر اس طرح بلبلا کر روئے کہ حضوررحمت عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو ان کی آہ و زاری اور بے قراری پر رحم آ گیا۔ چنانچہ قرآن مجید گواہ ہے کہ(1)"
وَّلَا عَلَی الَّذِیۡنَ اِذَا مَاۤ اَتَوْکَ لِتَحْمِلَہُمْ قُلْتَ لَاۤ اَجِدُ مَاۤ اَحْمِلُکُمْ عَلَیۡہِ ۪ تَوَلَّوۡا وَّ اَعْیُنُہُمْ تَفِیۡضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا اَلَّا یَجِدُوۡا مَا یُنۡفِقُوۡنَ ﴿ؕ۹۲﴾ (2)
اور نہ ان لوگوں پر کچھ حرج ہے کہ وہ جب (اے رسول) آپ کے پاس آئے کہ ہم کو سواری دیجئے اور آپ نے کہا کہ میرے پاس کوئی چیز نہیں جس پر تمہیں سوار کروں تو وہ واپس گئے اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے کہ افسوس ہمارے پاس خرچ نہیں ہے۔(سورۃ التوبہ)
بہرحال حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تیس ہزار کا لشکر ساتھ لے کر تبوک کے لئے روانہ ہوئے اور مدینہ کا نظم و نسق چلانے کے لئے حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو اپنا خلیفہ
"1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت، قسم سوم، باب نہم،ج۲، ص۳۴۷
والمواھب اللدنیۃ وشرح الزرقانی، باب ثم غزوۃ تبوک،ج۴،ص۷۲۔۷۵
2۔۔۔۔۔۔پ۱۰، التوبۃ:۹۲"
بنایا۔ جب حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے نہایت ہی حسرت و افسوس کے ساتھ عرض کیا کہ یا رسول اﷲـ!(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑ کر خود جہاد کے لئے تشریف لئے جا رہے ہیں تو ارشاد فرمایا کہ
اَلَا تَرْضٰی اَنْ تَکُوْنَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ ھَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی اِلاَّ اَنَّہٗ لَیْسَ نَبِیَّ بَعْدِیْ (1)(بخاری ج۲ ص۶۳۳ غزوۂ تبوک)
" کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ تم کو مجھ سے وہ نسبت ہے جو حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔
یعنی جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر جاتے وقت حضرت ہارون علیہ السلام کو اپنی امت بنی اسرائیل کی دیکھ بھال کے لئے اپنا خلیفہ بنا کر گئے تھے اسی طرح میں تم کو اپنی امت سونپ کر جہاد کے لئے جا رہا ہوں۔
مدینہ سے چل کر مقام ''ثنیۃ الوداع'' میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے قیام فرمایا۔ پھر فوج کا جائزہ لیا اور فوج کا مقدمہ،میمنہ، میسرہ وغیرہ مرتب فرمایا۔ پھر وہاں سے کوچ کیا۔ منافقین قسم قسم کے جھوٹے عذر اور بہانے بنا کر رہ گئے اور مخلص مسلمانوں میں سے بھی چند حضرات رہ گئے ان میں یہ حضرات تھے، کعب بن مالک، ہلال بن امیہ، مرارہ بن ربیع، ابوخیثمہ، ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔ ان میں سے ابوخیثمہ اور ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہما تو بعد میں جا کر شریک جہاد ہو گئے لیکن تین اول الذکر نہیں گئے۔
حضرت ابو ذر غفاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے پیچھے رہ جانے کا سبب یہ ہوا کہ ان کا اونٹ بہت ہی کمزور اور تھکا ہوا تھا۔ انہوں نے اس کو چند دن چارہ کھلایا تا کہ وہ چنگا"
1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب غزوۃ تبوک...الخ،الحدیث:۴۴۱۶،ج۳،ص۱۴۴
"ہو جائے۔ جب روانہ ہوئے تو وہ پھر راستہ میں تھک گیا۔ مجبوراً وہ اپنا سامان اپنی پیٹھ پر لاد کر چل پڑے اور اسلامی لشکر میں شامل ہو گئے۔(1) (زرقانی ج۳ ص۷۱)
حضرت ابوخیثمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جانے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے مگر وہ ایک دن شدید گرمی میں کہیں باہر سے آئے تو ان کی بیوی نے چھپر میں چھڑ کاؤ کر رکھا تھا۔ تھوڑی دیر اس سایہ دار ا ور ٹھنڈی جگہ میں بیٹھے پھر ناگہاں ان کے دل میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا خیال آ گیا۔ اپنی بیوی سے کہا کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ میں تو اپنی چھپر میں ٹھنڈک اور سایہ میں آرام و چین سے بیٹھا رہوں اور خداعزوجل کے مقدس رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اس دھوپ کی تمازت اور شدید لو کے تھپیڑوں میں سفر کرتے ہوئے جہادکے لئے تشریف لے جا رہے ہوں ایک دم ان پر ایسی ایمانی غیرت سوار ہو گئی کہ توشہ کے لئے کھجور لے کر ایک اونٹ پر سوار ہو گئے اور تیزی کے ساتھ سفر کرتے ہوئے روانہ ہو گئے۔ لشکر والوں نے دور سے ایک شتر سوار کو دیکھا تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوخیثمہ ہوں گے اس طرح یہ بھی لشکر اسلام میں پہنچ گئے۔ (2) (زرقانی ج۳ص۷۱)
راستے میں قوم عاد و ثمود کی وہ بستیاں ملیں جو قہر الٰہی کے عذابوں سے الٹ پلٹ کر دی گئی تھیں۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ یہ وہ جگہیں ہیں جہاں خدا کا عذاب نازل ہوچکاہے اس لئے کوئی شخص یہاں قیام نہ کرے بلکہ نہایت تیزی کے ساتھ سب لوگ یہاں سے سفر کرکے ان عذاب کی وادیوں سے جلد باہر نکل جائیں اور کوئی یہاں کا پانی نہ پیئے اور نہ کسی کام میں لائے۔
اس غزوہ میں پانی کی قلت، شدید گرمی، سواریوں کی کمی سے مجاہدین نے"
"1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ وشرح الزرقانی ، باب ثم غزوۃ تبوک،ج۴،ص۸۱۔۸۲،۸۳
2۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواھب، باب ثم غزوۃ تبوک،ج۴،ص۸۲"
بے حد تکلیف اٹھائی مگر منزل مقصود پر پہنچ کر ہی دم لیا۔(1)
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت ابو ذر غفاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو دیکھا کہ وہ سب سے الگ الگ چل رہے ہیں۔ تو ارشاد فرمایا کہ یہ سب سے الگ ہی چلیں گے اور الگ ہی زندگی گزاریں گے اور الگ ہی وفات پائیں گے۔ چنانچہ ٹھیک ایسا ہی ہوا کہ حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور خلافت میں ان کو حکم دے دیا کہ آپ ''ربذہ'' میں رہیں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ربذہ میں اپنی بیوی اور غلام کے ساتھ رہنے لگے۔ جب وفات کا وقت آیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ تم دونوں مجھ کو غسل دے کر اور کفن پہنا کر راستہ میں رکھ دینا۔ جب شترسواروں کا پہلا گروہ میرے جنازہ کے پاس سے گزرے تو تم لوگ اس سے کہنا کہ یہ ابو ذرغفاری کا جنازہ ہے ان پر نماز پڑھ کر ان کو دفن کرنے میں ہماری مدد کرو۔ خداعزوجل کی شان کہ سب سے پہلا جو قافلہ گزرا اس میں حضرت عبداﷲ بن مسعود صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تھے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب یہ سنا کہ یہ حضرت ابو ذر غفاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا جنازہ ہے۔ توانہوں نے اناللہ وانا الیہ راجعون پڑھااورقافلہ کوروک کراتر پڑے اور کہا کہ بالکل سچ فرمایا تھا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے کہ''اے ابوذر! تو تنہا چلے گا، تنہا مرے گا،تنہا قبر سے اُٹھے گا۔''پھر حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور قافلہ والوں نے ان کو پورے اعزاز کے ساتھ دفن کیا۔(2) (سیرت ابن ہشام ج۴ص۵۲۴ و زرقانی ج۳ ص۷۴)
"1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، باب ثم غزوۃ تبوک،ج۴، ص۸۵
2۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، باب ثم غزوۃ تبوک،ج۴، ص۸۳"
بعض روایتوں میں یہ بھی آیا ہے کہ ان کی بیوی کے پاس کفن کے لئے کپڑا نہیں تھا تو آنے والے لوگوں میں سے ایک انصاری نے کفن کے لئے کپڑا دیا اور نماز جنازہ پڑھ کر دفن کیا۔ (واﷲ تعالیٰ اعلم)
جب اسلامی لشکر مقام ''حجر'' میں پہنچا تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ کوئی شخص اکیلا لشکر سے باہر کہیں دور نہ چلا جائے پورے لشکر نے اس حکم نبوی کی اطاعت کی مگر قبیلہ بنو ساعدہ کے دو آدمیوں نے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے حکم کو نہیں مانا۔ ایک شخص اکیلا ہی رفع حاجت کے لئے لشکرسے دور چلا گیا وہ بیٹھا ہی تھا کہ دفعۃً کسی نے اس کا گلا گھونٹ دیا اور وہ اسی جگہ مر گیا اور دوسرا شخص اپنا اونٹ پکڑنے کے لئے اکیلا ہی لشکر سے کچھ دور چلا گیا تو ناگہاں ایک ہوا کا جھونکا آیا اور اس کو اڑا کر قبیلہ ''طی'' کے دونوں پہاڑوں کے درمیان پھینک دیا اور وہ ہلاک ہو گیا آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان دونوں کا انجام سن کر فرمایا کہ کیا میں نے تم لوگوں کو منع نہیں کر دیا تھا؟ (1) (زرقانی ج۳ ص۷۳)
ایک منزل پر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی اونٹنی کہیں چلی گئی اور لوگ اس کی تلاش میں سرگرداں پھرنے لگے تو ایک منافق جس کا نام ''زید بن لصیت'' تھا کہنے لگا کہ محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)کہتے ہیں کہ میں اﷲ کا نبی ہوں اور میرے پاس آسمان کی خبریں آتی ہیں مگر ان کو یہ پتا ہی نہیں ہے کہ ان کی اونٹنی کہاں ہے؟ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے
1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃمع شرح الزرقانی ، باب ثم غزوۃ تبوک،ج۴،ص۸۵،۸۶
اپنے اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے فرمایا کہ ایک شخص ایسا ایسا کہتا ہے حالانکہ خدا کی قسم! اﷲ تعالیٰ کے بتا دینے سے میں خوب جانتا ہوں کہ میری اونٹنی کہاں ہے؟ وہ فلاں گھاٹی میں ہے اور ایک درخت میں اس کی مہار کی رسی اُلجھ گئی ہے۔ تم لوگ جاؤ اور اس اونٹنی کو میرے پاس لے کر آ جاؤ۔ جب لوگ اس جگہ گئے تو ٹھیک ایسا ہی دیکھا کہ اسی گھاٹی میں وہ اونٹنی کھڑی ہے اور اس کی مہار ایک درخت کی شاخ میں الجھی ہوئی ہے۔(1) (زرقانی ج۳ ص۷۵)
جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تبوک کے قریب میں پہنچے تو ارشاد فرمایا کہ ان شاء اﷲ تعالیٰ کل تم لوگ تبوک کے چشمہ پر پہنچو گے اور سورج بلند ہونے کے بعد پہنچو گے لیکن کوئی شخص وہاں پہنچے تو پانی کو ہاتھ نہ لگائے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جب وہاں پہنچے تو جوتے کے تسمے کے برابر اس میں ایک پانی کی دھار بہہ رہی تھی۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس میں سے تھوڑا سا پانی منگا کر ہاتھ منہ دھویا اور اس پانی میں کلی فرمائی۔ پھر حکم دیا کہ اس پانی کو چشمہ میں انڈیل دو۔ لوگوں نے جب اس پانی کو چشمہ میں ڈالا تو چشمہ سے زوردار پانی کی موٹی دھار بہنے لگی اور تیس ہزار کا لشکر اور تمام جانور اس چشمہ کے پانی سے سیراب ہو گئے۔(2) (زرقانی ج۳ ص۷۶)
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے تبوک میں پہنچ کر لشکر کو پڑاؤ کا حکم دیا۔ مگر
"1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃمع شرح الزرقانی ، باب ثم غزوۃ تبوک،ج۴،ص۸۹
2۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ وشرح الزرقانی ، باب ثم غزوۃ تبوک،ج۴،ص۹۰"
"دور دور تک رومی لشکروں کا کوئی پتا نہیں چلا۔ واقعہ یہ ہوا کہ جب رومیوں کے جاسوسوں نے قیصر کو خبردی کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تیس ہزار کا لشکر لے کر تبوک میں آ رہے ہیں تو رومیوں کے دلوں پر اس قدر ہیبت چھا گئی کہ وہ جنگ سے ہمت ہار گئے اور اپنے گھروں سے باہر نہ نکل سکے ۔(1)
رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے بیس دن تبوک میں قیام فرمایا اور اطراف و جوانب میں افواج الٰہی کا جلال دکھا کر اور کفار کے دلوں پر اسلام کا رعب بٹھا کر مدینہ واپس تشریف لائے اور تبوک میں کوئی جنگ نہیں ہوئی۔
اسی سفر میں ''ایلہ'' کا سردار جس کا نام''یحنۃ'' تھا بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا اور جزیہ دینا قبول کر لیا اور ایک سفید خچر بھی دربار رسالت میں نذر کیا جس کے صلہ میں تاجدار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کو اپنی چادر مبارک عنایت فرمائی اور اس کو ایک دستاویز تحریر فرما کر عطا فرمائی کہ وہ اپنے گردوپیش کے سمندر سے ہر قسم کے فوائد حاصل کرتا رہے۔ (2) (بخاری ج۱ ص۴۴۸)
اسی طرح ''جرباء'' اور ''اذرح'' کے عیسائیوں نے بھی حاضر خدمت ہو کر جزیہ دینے پر رضا مندی ظاہر کی۔
اس کے بعد حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت خالد بن ولید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو ایک سو بیس سواروں کے ساتھ ''دومۃ الجندل'' کے بادشاہ ''اکیدر بن عبدالملک'' کی طرف روانہ فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ وہ رات میں نیل گائے کا شکار کر رہا ہو گا تم اس کے پاس"
"1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت،قسم سوم،باب نہم،ج۲،ص۳۴۹مختصراً
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب الزکاۃ،باب خرص التمر،الحدیث:۱۴۸۱،ج۱، ص۴۹۹ملتقطاً
والمواھب اللدنیۃ وشرح الزرقانی، باب ثم غزوۃ تبوک،ج۴، ص۹۱،۹۶"
"پہنچو تو اس کو قتل مت کرنا بلکہ اس کو زندہ گرفتار کرکے میرے پاس لانا۔ چنانچہ حضرت خالد بن ولید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے چاندنی رات میں اکیدر اور اس کے بھائی حسان کو شکار کرتے ہوئے پا لیا۔ حسان نے چونکہ حضرت خالد بن ولید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے جنگ شروع کر دی ۔ اس لئے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو تو قتل کر دیا مگر اکیدر کو گرفتار کر لیا اور اس شرط پر اس کو رہا کیا کہ وہ مدینہ بارگاہ اقدس میں حاضر ہو کر صلح کرے۔ چنانچہ وہ مدینہ آیا اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کو امان دی۔ (1) (زرقانی ج۳ ص۷۷ و ص۷۸)
اس غزوہ میں جو لوگ غیر حاضر رہے ان میں اکثر منافقین تھے۔ جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تبوک سے مدینہ واپس آئے اورمسجد نبوی میں نزولِ اجلال فرمایا تو منافقین قسمیں کھا کھا کر اپنا اپنا عذر بیان کرنے لگے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے کسی سے کوئی مواخذہ نہیں فرمایا لیکن تین مخلص صحابیوں حضرت کعب بن مالک و ہلال بن امیہ و مرارہ بن ربیعہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کا پچاس دنوں تک آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے بائیکاٹ فرما دیا۔ پھر ان تینوں کی توبہ قبول ہوئی اور ان لوگوں کے بارے میں قرآن کی آیت نازل ہوئی۔ (2) ( اس کا مفصل ایک وعظ ہم نے اپنی کتاب ''عرفانی تقریریں'' میں لکھ دیا ہے۔) (بخاری ج۲ ص۶۳۴ تا ص۶۳۷ حدیث کعب بن مالک)
جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام مدینہ کے قریب پہنچے اور اُحدپہاڑ کو دیکھا تو فرمایا کہ ھٰذَا اُحُدٌ جَبَلٌ یُحِبُّنَا وَنُحِبُّہ، (3) یہ اُحد ہے۔ یہ ایسا پہاڑ ہے کہ یہ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔"
"1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ وشرح الزرقانی ، باب ثم غزوۃ تبوک،ج۴،ص۹۱،۹۴
2۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ وشرح الزرقانی ، باب ثم غزوۃ تبوک،ج۴،ص۱۰۷،۱۰۹ملخصاً
3۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی، باب ۸۳،الحدیث: ۴۴۲۲،ج۳،ص۱۵۰"
جب آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مدینہ کی سرزمین میں قدم رکھا تو عورتیں، بچے اور لونڈی غلام سب استقبال کے لئے نکل پڑے اور استقبالیہ نظمیں پڑھتے ہوئے آپ کے ساتھ مسجد نبوی تک آئے۔ جب آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مسجد نبوی میں دو رکعت نماز پڑھ کر تشریف فرما ہو گئے۔ تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے آپ کی مدح میں ایک قصیدہ پڑھا اور اہل مدینہ نے بخیر و عافیت اس دشوار گزار سفر سے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی تشریف آوری پر انتہائی مسرت و شادمانی کا اظہار کیااور ان منافقین کے بارے میں جو جھوٹے بہانے بنا کر اس جہاد میں شریک نہیں ہوئے تھے اور بارگاہ نبوت میں قسمیں کھا کھا کر عذر پیش کر رہے تھے قہرو غضب میں بھری ہوئی قرآن مجید کی آیتیں نازل ہوئیں اوران منافقوں کے نفاق کا پردہ چاک ہو گیا۔(1)
غزوۂ تبوک میں بجز ایک حضرت ذوالبجادین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے نہ کسی صحابی کی شہادت ہوئی نہ وفات۔ حضرت ذوالبجادین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کون تھے؟ اور ان کی وفات اور دفن کا کیسا منظر تھا؟ یہ ایک بہت ہی ذوق آفریں اور لذیذ حکایت ہے۔ یہ قبیلہ مزینہ کے ایک یتیم تھے اور اپنے چچا کی پرورش میں تھے۔ جب یہ سن شعور کو پہنچے اور اسلام کا چرچا سنا تو اِن کے دل میں بت پرستی سے نفرت اور اسلام قبول کرنے کا جذبہ پیدا ہوا۔ مگر ان کا چچا بہت ہی کٹر کافر تھا۔ اس کے خوف سے یہ اسلام قبول نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن فتح مکہ کے بعد جب لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے لگے تو انہوں نے
1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ وشرح الزرقانی ، باب ثم غزوۃ تبوک،ج۴،ص۱۰۰،۱۰۴ملخصاً
اپنے چچا کو ترغیب دی کہ تم بھی دامن اسلام میں آ جاؤ کیونکہ میں قبول اسلام کے لئے بہت ہی بے قرار ہوں۔یہ سن کر ان کے چچا نے ان کو برہنہ کرکے گھر سے نکال دیا۔ انہوں نے اپنی والدہ سے ایک کمبل مانگ کر اس کو دو ٹکڑے کرکے آدھے کو تہبند اور آدھے کو چادر بنا لیااور اسی لباس میں ہجرت کرکے مدینہ پہنچ گئے۔ رات بھر مسجد نبوی میں ٹھہرے رہے۔ نماز فجر کے وقت جب جمالِ محمدی کے انوار سے ان کی آنکھیں منور ہوئیں تو کلمہ پڑھ کر مشرف بہ اسلام ہو گئے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کا نام دریافت فرمایا تو انہوں نے اپنا نام عبدالعزیٰ بتا دیا۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج سے تمہارا نام عبداﷲ اور لقب ذوالبجادین (دوکمبلوں والا) ہے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ان پر بہت کرم فرماتے تھے اور یہ مسجد نبوی میں اصحاب صفہ کی جماعت کے ساتھ رہنے لگے اور نہایت بلند آواز سے ذوق و شوق کے ساتھ قرآن مجید پڑھا کرتے تھے۔ جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جنگ تبوک کے لئے روانہ ہوئے تو یہ بھی مجاہدین میں شامل ہو کر چل پڑے اور بڑے ہی ذوق و شوق اور انتہائی اشتیاق کے ساتھ درخواست کی کہ یارسول اﷲ!(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) دعا فرمائیے کہ مجھے خداکی راہ میں شہادت نصیب ہو جائے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم کسی درخت کی چھال لاؤ۔ وہ تھوڑی سی ببول کی چھال لائے۔آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کے بازو پر وہ چھال باندھ دی اور دعا کی کہ اے اﷲ! میں نے اس کے خون کو کفار پر حرام کر دیا۔ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) میرا مقصد تو شہادت ہی ہے۔ ارشاد فرمایا کہ جب تم جہاد کے لئے نکلے ہو تو اگر بخار میں بھی مرو گے جب بھی تم شہید ہی ہو گے۔ خدا عزوجل کی شان کہ جب حضرت ذوالبجادین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تبوک میں پہنچے توبخار میں مبتلا ہو گئے اور اسی بخار میں ان کی وفات ہو گئی۔
" حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ان کے دفن کا عجیب منظر تھا کہ حضرت بلال مؤ ذن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہاتھ میں چراغ لئے ان کی قبر کے پاس کھڑے تھے اور خود بہ نفس نفیس حضور ِاکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ان کی قبر میں اترے اور حضرت ابوبکر صدیق و حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو حکم دیا کہ تم دونوں اپنے اسلامی بھائی کی لاش کو اٹھاؤ۔ پھر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو اپنے دستِ مبارک سے لحد میں سلایا اور خود ہی قبر کو کچی اینٹوں سے بند فرمایا اور پھر یہ دعا مانگی کہ یااﷲ! میں ذوالبجادین سے راضی ہوں تو بھی اس سے راضی ہو جا۔
حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضرت ذوالبجادین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دفن کا یہ منظر دیکھا تو بے اختیار ان کے منہ سے نکلا کہ کاش! ذوالبجادین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جگہ یہ میری میت ہوتی۔ (1) (مدارج النبوۃ ج۲ ص۳۵۰ و ص۳۵۱)"
منافقوں نے اسلام کی بیخ کنی اور مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کے لئے مسجد قباء کے مقابلہ میں ایک مسجد تعمیر کی تھی جو در حقیقت منافقین کی سازشوں اور ان کی دسیسہ کاریوں کا ایک زبردست اڈہ تھا۔ ابو عامر راہب جو انصار میں سے عیسائی ہو گیا تھا جس کا نام حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ابو عامر فاسق رکھا تھا اس نے منافقین سے کہا کہ تم لوگ خفیہ طریقے پر جنگ کی تیاریاں کرتے رہو۔ میں قیصر روم کے پاس جاکر وہاں سے فوجیں لاتا ہوں تا کہ اس ملک سے اسلام کا نام و نشان مٹا دوں۔ چنانچہ اسی مسجد میں بیٹھ بیٹھ کر اسلام کے خلاف منافقین کمیٹیاں کرتے تھے اور اسلام و بانئ اسلام
1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت، قسم سوم، باب نہم،ج۲،ص۳۵۰
"صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا خاتمہ کر دینے کی تدبیریں سوچا کرتے تھے۔
جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جنگ تبوک کے لئے روانہ ہونے لگے تو مکار منافقوں کا ایک گروہ آیا اور محض مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لئے بارگاہ اقدس میں یہ درخواست پیش کی کہ یا رسول اﷲ!(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)ہم نے بیماروں اور معذوروں کے لئے ایک مسجد بنائی ہے ۔آپ چل کر ایک مرتبہ اس مسجد میں نماز پڑھا دیں تا کہ ہماری یہ مسجد خدا کی بارگاہ میں مقبول ہو جائے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ اس وقت تو میں جہاد کے لئے گھر سے نکل چکا ہوں لہٰذا اس وقت تو مجھے اتنا موقع نہیں ہے۔ منافقین نے کافی اصرار کیا مگر آ پ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کی اس مسجد میں قدم نہیں رکھا۔ جب آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جنگ تبوک سے واپس تشریف لائے تو منافقین کی چالبازیوں اور ان کی مکاریوں، دغابازیوں کے بارے میں ''سورۂ توبہ'' کی بہت سی آیات نازل ہو گئیں اور منافقین کے نفاق اور ان کی اسلام دشمنی کے تمام رموز و اسرار بے نقاب ہو کر نظروں کے سامنے آ گئے۔ اور ان کی اس مسجد کے بارے میں خصوصیت کے ساتھ یہ آیتیں نازل ہوئیں کہ"
وَالَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَّکُفْرًا وَّتَفْرِیۡقًۢا بَیۡنَ الْمُؤْمِنِیۡنَ وَ اِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللہَ وَرَسُوۡلَہٗ مِنۡ قَبْلُ ؕ وَلَیَحْلِفُنَّ اِنْ اَرَدْنَاۤ اِلَّا الْحُسْنٰی ؕ
اور وہ لوگ جنہوں نے ایک مسجد ضرر پہنچانے اور کفر کرنے اور مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کی غرض سے بنائی اور اس مقصد سے کہ جو لوگ پہلے ہی سے خدا اور اس کے رسول سے جنگ کر رہے ہیں ان کیلئے ایک کمین گاہ ہاتھ آ جائے اور وہ ضرورقسمیں کھائیں گے کہ ہم نے تو بھلائی ہی کا ارادہ کیا ہے
وَاللہُ یَشْہَدُ اِنَّہُمْ لَکٰذِبُوۡنَ ﴿۱۰۷﴾لَاتَقُمْ فِیۡہِ اَبَدًا ؕ لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَی التَّقْوٰی مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ اَحَقُّ اَنۡ تَقُوۡمَ فِیۡہِ ؕ فِیۡہِ رِجَالٌ یُّحِبُّوۡنَ اَنۡ یَّتَطَہَّرُوۡا ؕ وَاللہُ یُحِبُّ الْمُطَّہِّرِیۡنَ ﴿۱۰۸﴾ (1)
"اور خدا گواہی دیتا ہے کہ بےشک یہ لوگ جھوٹے ہیں آپ کبھی بھی اس مسجد میں نہ کھڑے ہوں وہ مسجد (مسجد قباء) جسکی بنیاد پہلے ہی دن سے پرہیز گاری پر رکھی ہوئی ہے وہ اس بات کی زیادہ حقدار ہے کہ آپ اس میں کھڑے ہوں اسمیں ایسے لوگ ہیں جو پاکی کو پسند کرتے ہیں اور خدا پاکی رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔(توبہ )
اس آیت کے نازل ہو جانے کے بعد حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت مالک بن د خشم و حضرت معن بن عدی رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کو حکم دیا کہ اس مسجد کو منہدم کرکے اس میں آگ لگا دیں۔(2) (زرقانی ج۳ ص۸۰)"
" غزوۂ تبوک سے واپسی کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ذوالقعدہ ۹ھ میں تین سو مسلمانوں کا ایک قافلہ مدینہ منورہ سے حج کے لئے مکہ مکرمہ بھیجا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو ''امیر الحج'' اور حضرت علی مرتضی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو ''نقیب اسلام'' اور حضرت سعد بن ابی وقاص و حضرت جابر بن عبداﷲ و حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کو معلم بنا دیا اور اپنی طرف سے قربانی کے لئے بیس اونٹ بھی بھیجے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حرمِ کعبہ اور عرفات و منیٰ میں خطبہ"
"1۔۔۔۔۔۔پ۱۱،التوبۃ:۱۰۷۔۱۰۸
2۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ وشرح الزرقانی، ثم غزوۃ تبوک، ج۴، ص۹۷۔۹۸ ماخوذاً"
"پڑھا اس کے بعد حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوئے اور ''سورۂ براء ت''کی چالیس آیتیں پڑھ کر سنائیں اور اعلان کر دیا کہ اب کوئی مشرک خانہ کعبہ میں داخل نہ ہو سکے گا نہ کوئی برہنہ بدن اور ننگا ہو کر طواف کر سکے گا اور چار مہینے کے بعد کفار و مشرکین کے لئے امان ختم کر دی جائے گی۔ حضرت ابوہریرہ اور دوسرے صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے اس اعلان کی اس قدر زور زور سے منادی کی کہ ان لوگوں کا گلا بیٹھ گیا۔ اس اعلان کے بعد کفار و مشرکین فوج کی فوج آ کر مسلمان ہونے لگے۔(1)
(طبری ج۲ ص۱۷۲۱و زرقانی ج۳ ص۹۰ تا ۹۳)"
"(۱)اس سال پورے ملک میں ہر طرف امن و امان کی فضا پیدا ہو گئی اور زکوٰۃ کا حکم نازل ہوا اور زکوٰۃ کی وصولی کے لئے عاملین اور محصّلوں کا تقرر ہوا۔(2)
(زرقانی ج۳ ص۱۰۰)
(۲)جو غیر مسلم قومیں اسلامی سلطنت کے زیر سایہ رہیں ان کے لئے جزیہ کا حکم نازل ہوا اور قرآن کی یہ آیت اتری کہ"
حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنۡ یَّدٍ وَّہُمْ صٰغِرُوۡنَ ﴿٪۲۹﴾ (3)(توبہ)
"وہ چھوٹے بن کر ''جزیہ'' ادا کریں
(۳)سود کی حرمت نازل ہوئی اور اس کے ایک سال بعد ۱۰ھ میں ''حجۃ الوداع'' کے"
"1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، حج الصدیق بالناس، ج۴، ص۱۱۴۔۱۲۳ ملتقطاً
2۔۔۔۔۔۔الکامل فی التاریخ، ذکرحج ابی بکر،ج۲،ص۱۶۱و شرح الزرقانی علی المواھب
تحویل القبلۃ...الخ، ج۲،ص۲۵۴
3۔۔۔۔۔۔پ۱۰،التوبۃ:۲۹"
"موقع پر اپنے خطبوں میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کا خوب خوب اعلان فرمایا۔
(بخاری و مسلم باب تحریم الخمر)
(۴)حبشہ کا بادشاہ جن کا نام حضرت اصحمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھا۔ جن کے زیر سایہ مسلمان مہاجرین نے چند سال حبشہ میں پناہ لی تھی ان کی وفات ہو گئی۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مدینہ میں ان کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی اور ان کے لئے مغفرت کی دعا مانگی۔(1)
(۵)اسی سال منافقوں کا سردار عبداﷲ بن ابی مر گیا۔ اس کے بیٹے حضرت عبداﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی درخواست پر ان کی دلجوئی کے واسطے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس منافق کے کفن کے لئے اپنا پیرہن عطا فرمایا اور اس کی لاش کو اپنے زانوئے اقدس پر رکھ کر اس کے کفن میں اپنا لعاب دہن ڈالا اور حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے بار بار منع کرنے کے باوجود چونکہ ابھی تک ممانعت نازل نہیں ہوئی تھی اس لئے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کے جنازہ کی نماز پڑھائی لیکن اس کے بعد ہی یہ آیت نازل ہو گئی کہ"
وَلَا تُصَلِّ عَلٰۤی اَحَدٍ مِّنْہُمۡ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَاتَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ ؕ اِنَّہُمْ کَفَرُوۡا بِاللہِ وَرَسُوۡلِہٖ وَمَاتُوۡا وَہُمْ فٰسِقُوۡنَ ﴿۸۴﴾ (2)
"(اے رسول) ان (منافقوں) میں سے جو مریں کبھی آپ ان پر نمازجنازہ نہ پڑھئے اور انکی قبر کے پاس آپ کھڑے بھی نہ ہوں یقینا ان لوگوں نے اﷲ اوراسکے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے اور کفر کی حالت میں یہ لوگ مرے ہیں۔(توبہ)
اس آیت کے نزول کے بعد پھر کبھی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے کسی منافق کی"
"1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، ھلاک رأس المنافقین، ج۴، ص۱۲۴۔۱۲۸
ومدارج النبوت، قسم سوم، باب نہم،ج۲،ص۳۷۷
2۔۔۔۔۔۔پ۱۰،التوبۃ:۸۴"
"نماز جنازہ نہیں پڑھائی نہ اس کی قبر کے پاس کھڑے ہوئے۔ (1)
(بخاری ج۱ ص۱۶۹ و ص۱۸۰ و زرقانی ج۳ ص۹۵ و ص۹۶)"
" حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تبلیغ اسلام کے لئے تمام اطراف و اکناف میں مبلغین اسلام اور عاملین و مجاہدین کو بھیجا کرتے تھے۔ ان میں سے بعض قبائل تو مبلغین کے سامنے ہی دعوتِ اسلام قبول کرکے مسلمان ہو جاتے تھے مگر بعض قبائل اس بات کے خواہش مند ہوتے تھے کہ براہِ راست خود بارگاہِ نبوت میں حاضر ہو کر اپنے اسلام کا اعلان کریں۔ چنانچہ کچھ لوگ اپنے اپنے قبیلوں کے نمائندہ بن کر مدینہ منورہ آتے تھے اور خود بانی اسلام صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زبانِ فیض ترجمان سے دعوتِ اسلام کا پیغام سن کر اپنے اسلام کا اعلان کرتے تھے اور پھراپنے اپنے قبیلوں میں واپس جا کر پورے قبیلہ والوں کو مشرف بہ اسلام کرتے تھے۔ انہی قبائل کے نمائندوں کو ہم ''وفودالعرب'' کے عنوان سے بیان کرتے ہیں۔
اس قسم کے وفود اور نمائندگان قبائل مختلف زمانوں میں مدینہ منورہ آتے رہے مگر فتح مکہ کے بعد ناگہاں سارے عرب کے خیالات میں ایک عظیم تغیر واقع ہوگیا اور سب لوگ اسلام کی طرف مائل ہونے لگے کیونکہ اسلام کی حقانیت واضح اور ظاہر ہوجانے کے باوجود بہت سے قبائل محض قریش کے دباؤ اور اہل مکہ کے ڈر سے اسلام قبول نہیں کرسکتے تھے۔ فتح مکہ نے اس رکاوٹ کو بھی دور کردیا اور اب دعوتِ اسلام اور قرآن کے مقدس پیغام نے گھر گھر پہنچ کر اپنی حقانیت اور اعجازی تصرفات سے سب"
1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت، قسم سوم، باب نہم،ج۲،ص۳۷۷
"کے قلوب پر سکہ بٹھا دیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہی لوگ جو ایک لمحہ کے لئے اسلام کا نام سننا اور مسلمانوں کی صورت دیکھنا گوارا نہیں کرسکتے تھے آج پروانوں کی طرح شمع نبوت پر نثار ہونے لگے اور جوق در جوق بلکہ فوج در فوج حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں دور و دراز کے سفر طے کرتے ہوئے وفود کی شکل میں آنے لگے اور برضاورغبت اسلام کے حلقہ بگوش بننے لگے چونکہ اس قسم کے وفود اکثر و بیشتر فتح مکہ کے بعد ۹ھ میں مدینہ منورہ آئے اس لئے ۹ ھ کو لوگ ''سنۃ الوفود''(نمائندہ کا سال) کہنے لگے۔
اس قسم کے وفود کی تعداد میں مصنفین سیرت کا بہت زیادہ اختلاف ہے۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ نے ان وفود کی تعداد ساٹھ سے زیادہ بتائی ہے۔(1)(مدارج ج ۲ ص ۳۵۸)
اور علامہ قسطلانی و حافظ ابن قیم نے اس قسم کے چودہ وفدوں کا تذکرہ کیا ہے ہم بھی اپنی اس مختصر کتاب میں چند وفود کا تذکرہ کرتے ہیں۔"
حضور سید ِعالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم قبائل سے آنے والے وفدوں کے استقبال، اوران کی ملاقات کا خاص طورپر اہتمام فرماتے تھے۔ چنانچہ ہر وفد کے آنے پر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نہایت ہی عمدہ پوشاک زیب تن فرما کر کاشانہ اقدس سے نکلتے اور اپنے خصوصی اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی حکم دیتے تھے کہ بہترین لباس پہن کر آئیں پھر ان مہمانوں کو اچھے سے اچھے مکانوں میں ٹھہراتے اور ان لوگوں کی مہمان نوازی اور خاطر مدارات کا خاص طورپرخیال فرماتے تھے اور ان مہمانوں سے ملاقات کے لئے مسجد نبوی میں ایک ستون سے ٹیک لگا کر نشست فرماتے پھر ہر ایک وفد سے
1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت، قسم سوم، باب نہم،ج۲، ص۳۵۸ مختصراً
نہایت ہی خوش روئی اور خندہ پیشانی کے ساتھ گفتگو فرماتے اور ان کی حاجتوں اور حالتوں کو پوری توجہ کے ساتھ سنتے اور پھر ان کو ضروری عقائد و احکامِ اسلام کی تعلیم و تلقین بھی فرماتے اور ہر وفد کو ان کے درجات و مراتب کے لحاظ سے کچھ نہ کچھ نقد یا سامان بھی تحائف اور انعامات کے طور پر عطا فرماتے۔(1)
جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جنگ ِحنین کے بعد طائف سے واپس تشریف لائے اور ''جعرانہ'' سے عمرہ ادا کرنے کے بعد مدینہ تشریف لے جا رہے تھے تو راستے ہی میں قبیلہ ثقیف کے سردار اعظم '' عروہ بن مسعود ثقفی''رضی اللہ تعالیٰ عنہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر برضا و رغبت دامن اسلام میں آ گئے۔ یہ بہت ہی شاندار اور با وفا آدمی تھے اور ان کا کچھ تذکرہ صلح حدیبیہ کے موقع پر ہم تحریر کر چکے ہیں۔ انہوں نے مسلمان ہونے کے بعد عرض کیا کہ یا رسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) آپ مجھے اجازت عطا فرمائیں کہ میں اب اپنی قوم میں جا کر اسلام کی تبلیغ کروں۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اجازت دے دی اور یہ وہیں سے لوٹ کر اپنے قبیلہ میں گئے اور اپنے مکان کی چھت پر چڑھ کر اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کیا اور اپنے قبیلہ والوں کو اسلام کی دعوت دی۔ اس علانیہ دعوت اسلام کو سن کر قبیلہ ثقیف کے لوگ غیظ و غضب میں بھر کر اس قدر طیش میں آ گئے کہ چاروں طرف سے ان پر تیروں کی بارش کرنے لگے یہاں تک کہ ان کو ایک تیر لگا اور یہ شہید ہو گئے۔ قبیلہ ثقیف کے لوگوں نے ان کو قتل تو کر دیا لیکن پھر یہ سوچا کہ تمام قبائل عرب اسلام قبول کرچکے ہیں۔ اب ہم بھلا اسلام کے خلاف کب تک اور کتنے لوگوں سے لڑتے رہیں گے؟ پھر مسلمانوں کے انتقام اور ایک لمبی جنگ
1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت،قسم سوم،باب نہم،ج۲،ص۳۵۹ملخصاً
کے انجام کو سوچ کر دن میں تارے نظر آنے لگے۔ اس لئے ان لوگوں نے اپنے ایک معزز رئیس عبدیالیل بن عمرو کو چند ممتاز سرداروں کے ساتھ مدینہ منورہ بھیجا۔ اس وفد نے مدینہ پہنچ کر بارگاہ اقدس میں عرض کیا کہ ہم اس شرط پر اسلام قبول کرتے ہیں کہ تین سال تک ہمارے بت ''لات'' کو توڑا نہ جائے۔ آپ نے اس شرط کو قبول فرمانے سے صاف انکار فرما دیا اور ارشاد فرمایا کہ اسلام کسی حال میں بھی بت پرستی کو ایک لمحہ کے لئے بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ لہٰذا بت تو ضرور توڑا جائے گا یہ اور بات ہے کہ تم لوگ اس کو اپنے ہاتھ سے نہ توڑو بلکہ میں حضرت ابوسفیان اور حضرت مغیرہ بن شعبہ (رضی اﷲ تعالیٰ عنہما) کو بھیج دوں گاوہ اس بت کو توڑ ڈالیں گے۔ چنانچہ یہ لوگ مسلمان ہو گئے اور حضرت عثمان بن العاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو جو اس قوم کے ایک معزز اور ممتاز فرد تھے اس قبیلے کا امیر مقرر فرما دیا۔ اور ان لوگوں کے ساتھ حضرت ابوسفیان اور حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کو طائف بھیجا اور ان دونوں حضرات نے ان کے بت ''لات'' کو توڑ پھوڑ کر ریزہ ریزہ کر ڈالا۔(1)(مدارج النبوۃ ج۲ ص۳۶۶)
یہ لوگ یمن کے اطراف میں رہتے تھے۔ اس قبیلے کے ستّریا اسی سوار بڑے ٹھاٹھ باٹ کے ساتھ مدینہ آئے۔ خوب بالوں میں کنگھی کئے ہوئے اور ریشمی گونٹ کے جبے پہنے ہوئے، ہتھیاروں سے سجے ہوئے مدینہ کی آبادی میں داخل ہوئے۔ جب یہ لوگ دربار رسالت میں باریاب ہوئے تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان لوگوں سے دریافت فرمایا کہ کیا تم لوگوں نے اسلام قبول کر لیا ہے؟ سب نے عرض کیا کہ ''جی ہاں'' آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تم لوگوں نے یہ ریشمی لباس کیوں پہن رکھا
1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت،قسم سوم،باب نہم،ج۲،ص۳۶۵،۳۶۶ملخصاً
ہے؟ یہ سنتے ہی ان لوگوں نے اپنے جبوں کو بدن سے اتار دیا اور ریشمی گونٹوں کو پھاڑ پھاڑ کر جبوں سے الگ کر دیا۔(1) (مدارج ۲ص۳۶۶)
یہ لوگ یمن کے باشندے اور ''قبیلہ اشعر'' کے معزز اور نامور حضرات تھے۔ جب یہ لوگ مدینہ میں داخل ہونے لگے تو جوشِ محبت اور فرط عقیدت سے رجز کا یہ شعر آواز ملا کر پڑھتے ہوئے شہر میں داخل ہوئے کہ ؎
"غَدًا نَلْقِی الْاَحِبَّۃ مُحَمَّدًا وَّ حِزْبَہ"
کل ہم لوگ اپنے محبوبوں سے یعنی حضرت محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ سے ملاقات کریں گے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول خدا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ یمن والے آ گئے۔ یہ لوگ بہت ہی نرم دل ہیں ایمان تو یمنیوں کا ایمان ہے اور حکمت بھی یمنیوں میں ہے۔ بکری پالنے والوں میں سکون و وقار ہے اور اونٹ پالنے والوں میں فخر اور گھمنڈ ہے۔ چنانچہ اس ارشاد نبوی کی برکت سے اہل یمن علم و صفائی قلب اور حکمت و معرفت الٰہی کی دولتوں سے ہمیشہ مالا مال رہے۔ خاص کر حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہ یہ نہایت ہی خوش آواز تھے اور قرآن شریف ایسی خوش الحانی کے ساتھ پڑھتے تھے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں ان کا کوئی ہم مثل نہ تھا۔علم عقائد میں اہل سنت کے امام شیخ ابو الحسن اشعری رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ انہی حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں سے ہیں۔(2) (مدارج النبوۃ ج۲ ص۳۶۷)
"1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت، قسم سوم، باب نہم، ج۲، ص۳۶۶
2۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت، قسم سوم، باب نہم،ج۲، ص۳۶۶۔۳۶۷ ملخصاً
والمواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، باب الوفد الثامن...الخ،ج۵،ص۱۶۳۔۱۶۶"
اس قبیلے کے چند اشخاص بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے اور نہایت ہی خوش دلی کے ساتھ مسلمان ہو ئے۔ لیکن پھر احسان جتانے کے طور پر کہنے لگے کہ یا رسول اﷲ!(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) اتنے سخت قحط کے زمانے میں ہم لوگ بہت ہی دور دراز سے مسافت طے کرکے یہاں آئے ہیں۔ راستے میں ہم لوگوں کو کہیں شکم سیر ہو کر کھانا بھی نصیب نہیں ہوا اور بغیر اس کے کہ آپ کا لشکر ہم پر حملہ آور ہوا ہو ہم لوگوں نے برضاو رغبت اسلام قبول کر لیا ہے۔ ان لوگوں کے اس احسان جتانے پر خداوند قدوس نے یہ آیت نازل فرمائی کہ(1)
یَمُنُّوۡنَ عَلَیۡکَ اَنْ اَسْلَمُوۡا ؕ قُلۡ لَّا تَمُنُّوۡا عَلَیَّ اِسْلَامَکُمۡ ۚ بَلِ اللہُ یَمُنُّ عَلَیۡکُمْ اَنْ ہَدٰىکُمْ لِلْاِیۡمَانِ اِنۡ کُنۡتُمْ صٰدِقِیۡنَ ﴿۱۷﴾
اے محبوب! یہ تم پر احسان جتاتے ہیں کہ ہم مسلمان ہوگئے ۔آپ فرما دیجئے کہ اپنے اسلام کا احسان مجھ پر نہ رکھو بلکہ اﷲ تم پر احسان رکھتا ہے کہ اس نے تمہیں اسلام کی ہدایت کی اگر تم سچے ہو۔(حجرات)
یہ لوگ عیینہ بن حصن فزاری کی قوم کے لوگ تھے۔ بیس آدمی دربار اقدس میں حاضر ہوئے اور اپنے اسلام کا اعلان کیا اور بتایا کہ یا رسول اﷲ (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) ہمارے دیار میں اتنا سخت قحط اور کال پڑ گیا ہے کہ اب فقر و فاقہ کی مصیبت ہمارے لئے ناقابل برداشت ہو چکی ہے۔ لہٰذا آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بارش کے لئے دعا فرمائیے۔
"1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت، قسم سوم، باب نہم، ج۲، ص۳۵۹
2۔۔۔۔۔۔پ۲۶،الحجرات:۱۷"
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن منبر پر دعا فرما دی اور فوراً ہی بارش ہونے لگی اور لگاتار ایک ہفتہ تک موسلادھار بارش کا سلسلہ جاری رہا پھر دوسرے جمعہ کو جب کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم منبر پر خطبہ پڑھ رہے تھے ایک اعرابی نے عرض کیا کہ یارسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ) چوپائے ہلاک ہونے لگے اور بال بچے بھوک سے بلکنے لگے اور تمام راستے منقطع ہو گئے۔ لہٰذا دعا فرما دیجئے کہ یہ بارش پہاڑوں پر برسے اور کھیتوں بستیوں پر نہ برسے۔ چنانچہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے دعا فرما دی تو بادل شہر مدینہ اور اس کے اطراف سے کٹ گیا اور آٹھ دن کے بعد مدینہ میں سورج نظر آیا۔ (1) (مدارج النبوۃ ج۲ ص۳۵۹)
" اس وفد میں بنی مرہ کے تیرہ آدمی مدینہ آئے تھے۔ انکا سردار حارث بن عوف بھی اس وفد میں شامل تھا۔ ان سب لوگوں نے بارگاہ اقدس میں اسلام قبول کیا اور قحط کی شکایت اور باران رحمت کی دعا کے لئے درخواست پیش کی۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان لفظوں کے ساتھ دعا مانگی کہ '' اَللّٰھُمَّ اسْقِھِمُ الْغَیْثَ'' ( اے اﷲ! ان لوگوں کو بارش سے سیراب فرما دے) پھر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ ان میں سے ہر شخص کو دس دس اوقیہ چاندی اور چار چار سو درہم انعام اور تحفہ کے طور پر عطا کریں۔ اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کے سردار حضرت حارث بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بارہ اوقیہ چاندی کا شاہانہ عطیہ مرحمت فرمایا۔
جب یہ لوگ مدینہ سے اپنے وطن پہنچے تو پتا چلا کہ ٹھیک اسی وقت"
1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت، قسم سوم، باب نہم،ج۲، ص۳۵۹
ان کے شہروں میں بارش ہوئی تھی جس وقت سرکار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان لوگوں کی درخواست پر مدینہ میں بارش کے لئے دعا مانگی تھی۔(1) (مدارج النبوۃ ج۲ ص۳۶۰)
اس وفد کے ساتھ حضرت معاویہ بن ثور بن عباد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی آئے تھے جو ایک سو برس کی عمر کے بوڑھے تھے۔ ان سب حضرات نے بارگاہ اقدس میں حاضر ہو کر اپنے اسلام کا اعلان کیا پھر حضرت معاویہ بن ثور بن عباد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنے فرزند حضرت بشیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو پیش کیا اور یہ گزارش کی کہ یارسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) آپ میرے اس بچے کے سر پر اپنا دست مبارک پھرا دیں ۔ان کی درخواست پر حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کے فرزند کے سر پر اپنا مقدس ہاتھ پھرا دیا ۔اور ان کو چند بکریاں بھی عطا فرمائیں ۔اور وفد والوں کے لئے خیروبرکت کی دعا فرما دی اس دعا نبوی کا یہ اثر ہوا کہ ان لوگوں کے دیار میں جب بھی قحط اور فقر و فاقہ کی بلا آئی تو اس قوم کے گھر ہمیشہ قحط ا ور بھکمری کی مصیبتوں سے محفوظ رہے۔(2) (مدارج ا لنبوۃ ج۲ ص۳۶۰)
اس وفد کے امیر کارواں حضرت واثلہ بن اسقع رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تھے۔ یہ سب لوگ دربار رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام میں نہایت ہی عقیدت مندی کے ساتھ حاضر ہو کر مسلمان ہو گئے اور حضرت واثلہ بن اسقع رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بیعت اسلام کرکے جب اپنے وطن میں پہنچے تو ان کے باپ نے ان سے ناراض و بیزار ہو کر کہہ دیا کہ میں خدا کی قسم!
"1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت،قسم سوم،باب نہم،ج۲،ص۳۵۹۔۳۶۰
2۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت،قسم سوم،باب نہم،ج۲،ص۳۶۰"
تجھ سے کبھی کوئی بات نہ کروں گا۔ لیکن ان کی بہن نے صدق دل سے اسلام قبول کر لیا۔ یہ اپنے باپ کی حرکت سے رنجیدہ اور دل شکستہ ہو کر پھر مدینہ منورہ چلے آئے اور جنگ تبوک میں شریک ہوئے اور پھر اصحاب صفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی جماعت میں شامل ہو کر حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت کرنے لگے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد یہ بصرہ چلے گئے۔ پھر آخر عمر میں شام گئے اور ۸۵ھ میں شہر دمشق کے اندر وفات پائی۔(1) (مدارج النبوۃ ج۲ ص۳۶۰)
" اس وفد کے لوگوں نے بھی دربار نبوت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کر لیا۔ اس وفد میں حضرت زیاد بن عبداﷲرضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے یہ مسلمان ہو کر دندناتے ہوئے حضرت ام المؤمنین بی بی میمونہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے گھر میں داخل ہو گئے کیونکہ وہ ان کی خالہ تھیں۔
یہ اطمینان کے ساتھ اپنی خالہ کے پاس بیٹھے ہوئے گفتگو میں مصروف تھے جب رسول خدا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مکان میں تشریف لائے اور یہ پتا چلا کہ حضرت زیاد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ام المؤمنین کے بھانجے ہیں تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ازراہ شفقت ان کے سر اور چہرہ پر اپنا نورانی ہاتھ پھیر دیا۔ اس دست مبارک کی نورانیت سے حضرت زیاد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا چہرہ اس قدر پر نور ہو گیا کہ قبیلہ بنی ہلال کے لوگوں کا بیان ہے کہ اس کے بعد ہم لوگ حضرت زیاد بن عبداﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے چہرہ پر ہمیشہ ایک نور اور برکت کا اثر دیکھتے رہے۔ (2) (مدارج النبوۃ ج۲ ص۳۶۰)"
"1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت،قسم سوم،باب نہم،ج۲،ص۳۶۰ملخصاً
2۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت،قسم سوم،باب نہم،ج۲،ص۳۶۰"
" یہ قبیلہ سعد بن بکر کے نمائندہ بن کر بارگاہ رسالت میں آئے۔ یہ بہت ہی خوبصورت سرخ و سفید رنگ کے گیسو دراز آدمی تھے۔ مسجد نبوی میں پہنچ کر اپنے اونٹ کو بٹھا کر باندھ دیا پھر لوگوں سے پوچھا کہ محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کون ہیں؟ لوگوں نے دور سے اشارہ کرکے بتایا کہ وہ گورے رنگ کے خوبصورت آدمی جو تکیہ لگا کر بیٹھے ہوئے ہیں وہی حضرت محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہیں۔ حضرت ضمام بن ثعلبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سامنے آئے اور کہا کہ اے عبدالمطلب کے فرزند! میں آپ سے چند چیزوں کے بارے میں سوال کروں گا اور میں اپنے سوال میں بہت زیادہ مبالغہ اور سختی برتوں گا۔ آپ اس سے مجھ پر خفا نہ ہوں۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم جو چاہو پوچھ لو۔ پھر حسب ذیل مکالمہ ہوا۔
ضمام بن ثعلبہ: میں آپکو اس خدا کی قسم دے کر جو آپکا اور تمام انسانوں کا پروردگار
ہے یہ پوچھتا ہوں کہ کیا اﷲ نے آپ کو ہماری طرف اپنا رسول
بنا کر بھیجا ہے؟
نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم: ''ہاں''
ضمام بن ثعلبہ: میں آپ کو خدا کی قسم دے کر یہ سوال کرتا ہوں کہ کیا نماز و روزہ
اور حج و زکوٰۃ کو اﷲ نے ہم لوگوں پر فرض کیا ہے؟
نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم: ''ہاں''
ضمام بن ثعلبہ: آپ نے جو کچھ فرمایا میں اس پر ایمان لایا اور میں ضمام بن ثعلبہ
ہوں۔ میری قوم نے مجھے اس لئے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ میں"
" آپ کے دین کو اچھی طرح سمجھ کر اپنی قوم بنی سعد بن بکر تک اسلام
کا پیغام پہنچا دوں۔
حضرت ضمام بن ثعلبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ مسلمان ہو کر اپنے وطن میں پہنچے اور ساری قوم کو جمع کرکے سب سے پہلے اپنی قوم کے تمام بتوں یعنی ''لات و عزیٰ'' اور ''منات وہبل'' کو برا بھلا کہنے لگے اور خوب خوب ان بتوں کی توہین کرنے لگے۔ ان کی قوم نے جو اپنے بتوں کی توہین سنی تو ایک دم سب چونک پڑے اور کہنے لگے کہ اے ثعلبہ کے بیٹے! تو کیا کہہ رہا ہے؟ خاموش ہو جا ورنہ ہم کو یہ ڈر ہے کہ ہمارے یہ دیوتا تجھ کو برص اور کوڑھ اور جنون میں مبتلا کر دیں گے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ سن کر طیش میں آ گئے اور تڑپ کر فرمایا کہ اے بے عقل انسانو! یہ پتھر کے بت بھلا ہم کو کیا نفع و نقصان پہنچا سکتے ہیں؟ سنو! اﷲ تعالیٰ جو ہر نفع و نقصان کا مالک ہے اس نے اپنا ایک رسول بھیجا ہے اور ایک کتاب نازل فرمائی ہے تا کہ تم انسانوں کو اس گمراہی اور جہالت سے نجات عطا فرمائے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲعزوجل کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور حضرت محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اﷲ کے رسول ہیں۔ میں اﷲ کے رسول کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اسلام کا پیغام تم لوگوں کے پاس لایا ہوں، پھر انہوں نے اعمال اسلام یعنی نماز و روزہ اور حج و زکوٰۃ کو ان لوگوں کے سامنے پیش کیا اور اسلام کی حقانیت پر ایسی پرجوش اور موثر تقریر فرمائی کہ رات بھر میں قبیلے کے تمام مرد و عورت مسلمان ہو گئے اور ان لوگوں نے اپنے بتوں کو توڑ پھوڑ کر پاش پاش کر ڈالا اور اپنے قبیلہ میں ایک مسجد بنا لی اور نماز و روزہ اور حج و زکوٰۃ کے پابند ہو کر صادق الایمان مسلمان بن گئے۔(1)(مدارج النبوۃ ج۲ ص۳۶۴)"
1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت، قسم سوم، باب نہم، ج۲، ص۳۶۳۔۳۶۴ ملخصاً
" یہ لوگ جب مدینہ منورہ پہنچے تو حضرت ابو رویفع رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جو پہلے ہی سے مسلمان ہو کر خدمت اقدس میں موجود تھے۔ انہوں نے اس وفد کا تعارف کراتے ہوئے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) یہ لوگ میری قوم کے افراد ہیں۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں تم کو اور تمہاری قوم کو ''خوش آمدید'' کہتا ہوں۔ پھر حضرت ابو رویفع رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) یہ سب لوگ اسلام کا اقرار کرتے ہیں اور اپنی پوری قوم کے مسلمان ہونے کی ذمہ داری لیتے ہیں۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اس کو اسلام کی ہدایت دیتا ہے۔
اس وفد میں ایک بہت ہی بوڑھا آدمی بھی تھا۔ جس کا نام ''ابو الضیف'' تھا اس نے سوال کیا کہ یا رسول اﷲ !(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) میں ایک ایسا آدمی ہوں کہ مجھے مہمانوں کی مہمان نوازی کا بہت زیادہ شوق ہے تو کیا اس مہمان نوازی کا مجھے کچھ ثواب بھی ملے گا؟ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مسلمان ہونے کے بعد جس مہمان کی بھی مہمان نوازی کرو گے خواہ وہ امیر ہو یا فقیر تم ثواب کے حق دار ٹھہرو گے۔پھر ابو الضیف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے یہ پوچھا کہ یا رسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) مہمان کتنے دنوں تک مہمان نوازی کا حق دار ہے؟ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین دن تک اس کے بعد وہ جو کھائے گا وہ صدقہ ہو گا۔(1) (مدارج النبوۃ ج۲ ص۳۶۴)"
1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت، قسم سوم، باب نہم، ج۲، ص۳۶۴
یہ تیرہ آدمیوں کا ایک وفد تھا جو اپنے مالوں اور مویشیوں کی زکوٰۃ لے کر بارگاہ اقدس میں حاضر ہوا تھا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مرحبا اور خوش آمدید کہہ کر ان لوگوں کا استقبال فرمایا ۔اوریہ ارشاد فرمایا کہ تم لوگ اپنے اس مال زکوٰۃ کو اپنے وطن میں لے جاؤ اور وہاں کے فقرا و مساکین کو یہ سارا مال دے دو۔ ان لوگوں نے عرض کیا کہ یارسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) ہم اپنے وطن کے فقراء و مساکین کو اس قدر مال دے چکے ہیں کہ یہ مال ان کی حاجتوں سے زیادہ ہمارے پاس بچ رہا ہے۔ یہ سن کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان لوگوں کی اس زکوٰۃ کو قبول فرما لیا اور ان لوگوں پر بہت زیادہ کرم فرماتے ہوئے ان خوش نصیبوں کی خوب خوب مہمان نوازی فرمائی اور بوقت رخصت ان لوگوں کو اکرام و انعام سے بھی نوازا۔ پھر دریافت فرمایا کہ کیا تمہاری قوم میں کوئی ایسا شخص باقی رہ گیا ہے؟ جس نے میرا دیدار نہیں کیا ہے ۔ان لوگوں نے کہا کہ جی ہاں۔ ایک نوجو ان کو ہم اپنے وطن میں چھوڑ آئے ہیں جو ہمارے گھروں کی حفاظت کر رہا ہے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ اس نوجوان کومیرے پاس بھیج دو۔ چنانچہ ان لوگوں نے اپنے وطن پہنچ کر اس نوجوان کو مدینہ طیبہ روانہ کر دیا۔ جب وہ نوجوان بارگاہ عالی میں باریاب ہوا تو اس نے یہ گزارش کی کہ یارسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) آپ نے میری قوم کی حاجتوں کو تو پوری فرما کر انہیں وطن میں بھیج دیا اب میں بھی ایک حاجت لے کر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہو گیا ہوں اور امیدوار ہوں کہ آپ میری حاجت بھی پوری فرما دیں گے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تمہاری کیا حاجت ہے؟ اس نے کہا کہ یا رسول اﷲ!( صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) میں
اپنے گھر سے یہ مقصد لے کر نہیں حاضر ہوا ہوں کہ آپ مجھے کچھ مال عطا فرمائیں بلکہ میری فقط اتنی حاجت اور دلی تمنا ہے جس کو دل میں لے کر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ مجھے بخش دے اور مجھ پر اپنا رحم فرمائے اور میرے دل میں بے نیازی اور استغناء کی دولت پیدا فرما دے۔ نوجوان کی اس دلی مراد ا ور تمنا کو سن کر محبوبِ خدا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اور اس کے حق میں ان لفظوں کے ساتھ دعا فرمائی کہ
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلَہٗ وَارْحَمْہُ وَاجْعَلْ غِنَاہُ فِیْ قَلْبِہٖ
"اے اﷲ! عزوجل اس کو بخش دے اور اس پر رحم فرما اور اس کے دل میں بے نیازی ڈال دے۔
پھر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس نوجوان کو اس کی قوم کا امیر مقرر فرما دیا اور یہی نوجوان اپنے قبیلے کی مسجد کا امام ہو گیا۔(1) (مدارج النبوۃ ج۲ ص۳۶۴)"
اس وفد کے سربراہ حضرت نعمان بن مقرن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے قبیلہ کے چار سو آدمی حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور جب ہم لوگ اپنے گھروں کو واپس ہونے لگے تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عمر! تم ان لوگوں کو کچھ تحفہ عنایت کرو۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) میرے گھر میں بہت ہی تھوڑی سی کھجوریں ہیں۔ یہ لوگ اتنے قلیل تحفہ سے شاید خوش نہ ہوں گے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے پھر یہی ارشاد فرمایا کہ اے عمر!جاؤ ان لوگوں کو ضرور کچھ تحفہ عطا کرو۔ارشادِ نبوی سن کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان چار سو آدمیوں کو ہمراہ لے کر مکان پر پہنچے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ مکان میں کھجوروں
1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت، قسم سوم، باب نہم،ج۲، ص۳۶۴
"کا ایک بہت ہی بڑا تودہ پڑا ہوا ہے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وفد کے لوگوں سے فرمایا کہ تم لوگ جتنی اور جس قدر چاہو ان کھجوروں میں سے لے لو۔ ان لوگوں نے اپنی حاجت اور مرضی کے مطابق کھجوریں لے لیں۔ حضرت نعمان بن مقرن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ سب سے آخر میں جب میں کھجوریں لینے کے لئے مکان میں داخل ہوا تو مجھے ایسا نظر آیا کہ گویا اس ڈھیر میں سے ایک کھجور بھی کم نہیں ہوئی ہے۔(1)
یہ وہی حضرت نعمان بن مقرن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہیں۔ جو فتح مکہ کے دن قبیلہ مزینہ کے علم بردار تھے یہ اپنے سات بھائیوں کے ساتھ ہجرت کرکے مدینہ آئے تھے حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ کچھ گھر تو ایمان کے ہیں اور کچھ گھر نفاق کے ہیں اور آل مقرن کا گھر ایمان کا گھر ہے۔(2) (مدارج النبوۃ ج۲ ص۳۶۷)"
اس وفد کے قائد حضرت طفیل بن عمرو دوسی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تھے یہ ہجرت سے قبل ہی اسلام قبول کر چکے تھے۔ ان کے اسلام لانے کا واقعہ بھی بڑا ہی عجیب ہے یہ ایک بڑے ہوش مند اور شعلہ بیان شاعر تھے۔ یہ کسی ضرورت سے مکہ آئے تو کفار قریش نے ان سے کہہ دیا کہ خبردار تم محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) سے نہ ملنا اور ہر گز ہر گز ان کی بات نہ سننا۔ ان کے کلام میں ایسا جادو ہے کہ جو سن لیتا ہے وہ اپنا دین و مذہب چھوڑ بیٹھتا ہے اور عزیز و اقارب سے اس کا رشتہ کٹ جاتا ہے۔ یہ کفار مکہ کے فریب میں آ گئے اور اپنے کانوں میں انہوں نے روئی بھر لی کہ کہیں قرآن کی آواز کانوں
"1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، باب الوفدالثانی عشر، وفدمزنیۃ،ج۵، ص۱۷۸۔۱۷۹
2۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت،قسم سوم،باب نہم،ج۲،ص۳۶۷"
"میں نہ پڑ جائے۔ لیکن ایک دن صبح کو یہ حرم کعبہ میں گئے تو رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فجر کی نماز میں قراء ت فرما رہے تھے ایک دم قرآن کی آواز جو ان کے کان میں پڑی تو یہ قرآن کی فصاحت و بلاغت پر حیران رہ گئے اور کتابِ الٰہی کی عظمت اور اس کی تاثیر ربانی نے ان کے دل کو موہ لیا۔ جب حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا شانہ نبوت کو چلے تو یہ بے تابانہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے چل پڑے اور مکان میں آ کر آپ کے سامنے مودبانہ بیٹھ گئے اور اپنا اور قریش کی بدگوئیوں کا سارا حال سنا کر عرض کیا کہ خدا کی قسم! میں نے قرآن سے بڑھ کر فصیح و بلیغ آج تک کوئی کلام نہیں سنا۔ ﷲ! مجھے بتائیے کہ اسلام کیا ہے؟ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اسلام کے چند احکام ان کے سامنے بیان فرما کر ان کو اسلام کی دعوت دی تو وہ فوراً ہی کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئے۔
پھر انہوں نے درخواست کی یا رسول اﷲ! صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مجھے کوئی ایسی علامت و کرامت عطا فرمائیے کہ جس کو دیکھ کر لوگ میری باتوں کی تصدیق کریں تا کہ میں اپنی قوم میں یہاں سے جا کر اسلام کی تبلیغ کروں۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے دعا فرما دی کہ الٰہی!تو ان کو ایک خاص قسم کا نور عطا فرما دے۔ چنانچہ اس دعاء نبوی کی بدولت ان کو یہ کرامت عطا ہوئی کہ ان کی دونوں آنکھوں کے درمیان چراغ کے مانند ایک نور چمکنے لگا۔ مگر انہوں نے یہ خواہش ظاہر کی کہ یہ نور میرے سر میں منتقل ہو جائے۔ چنانچہ ان کا سر قندیل کی طرح چمکنے لگا۔ جب یہ اپنے قبیلہ میں پہنچے اور اسلام کی دعوت دینے لگے تو ان کے ماں باپ اور بیوی نے تو اسلام قبول کر لیا مگر ان کی قوم مسلمان نہیں ہوئی بلکہ اسلام کی مخالفت پر تل گئی۔ یہ اپنی قوم کے اسلام سے مایوس ہوکر پھر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں چلے گئے اور اپنی قوم کی سرکشی اور سرتابی کا سارا حال بیان کیا تو آپ"
صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم پھر اپنی قوم میں چلے جاؤ اور نرمی کے ساتھ ان کو خدا کی طرف بلاتے رہو۔ چنانچہ یہ پھر اپنی قوم میں آ گئے اور لگاتار اسلام کی دعوت دیتے رہے یہاں تک کہ ستر یا اسی گھرانوں میں اسلام کی روشنی پھیل گئی اور یہ ان سب لوگوں کو ساتھ لے کر خیبر میں تاجدار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو گئے اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خوش ہو کر خیبر کے مال غنیمت میں سے ان سب لوگوں کو حصہ عطا فرمایا۔(1) (مدارج النبوۃ ج۲ ص۳۷۰)
قبیلہ بنی عبس کے وفد نے دربار اقدس میں جب حاضری دی تو یہ عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) ہمارے مبلغین نے ہم کو خبر دی ہے کہ جو ہجرت نہ کرے اس کا اسلام مقبول ہی نہیں ہے تو یا رسول اﷲ!(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) اگر آپ حکم دیں تو ہم اپنے سارے مال و متاع اور مویشیوں کو بیچ کر ہجرت کرکے مدینہ چلے آئیں۔یہ سن کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگوں کے لئے ہجرت ضروری نہیں۔ ہاں!یہ ضروری ہے کہ تم جہاں بھی رہو خدا سے ڈرتے رہو اور زہد و تقویٰ کے ساتھ زندگی بسر کرتے رہو۔(2) (مدارج النبوۃ ج۲ ص۳۷۰)
یہ وفد دس آدمیوں کا ایک گروہ تھا جن کا تعلق قبیلہ ''لخم'' سے تھا اور ان کے سربراہ اور پیشوا کا نام ''ہانی بن حبیب'' تھا۔ یہ لوگ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے لئے تحفے
"1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، باب الوفد الثالث عشر، وفددوس،ج۵،ص۱۸۰۔۱۸۵
2۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، باب الوفد الحادی والثلا ثون، وفد بنی عبس،
ج۵، ص۲۲۴"
"میں چند گھوڑے اور ایک ریشمی جبہ اور ایک مشک شراب اپنے وطن سے لے کر آئے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے گھوڑوں اور جبہ کے تحائف کو تو قبول فرما لیا لیکن شراب کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ اﷲ تعالیٰ نے شراب کو حرام فرما دیا ہے۔ ہانی بن حبیب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) اگر اجازت ہو تو میں اس شراب کو بیچ ڈالوں۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس خدا نے شراب کے پینے کو حرام فرمایا ہے اسی نے اس کی خرید و فروخت کو بھی حرام ٹھہرایا ہے۔ لہٰذا تم شراب کی اس مشک کو لے جا کر کہیں زمین پر اس شراب کو بہا دو۔
ریشمی جبہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے چچا حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو عطا فرمایا تو انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) میں اس کو لے کر کیا کروں گا؟ جب کہ مردوں کے لئے اس کا پہننا ہی حرام ہے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس میں جس قدر سونا ہے آپ اس کو اس میں سے جدا کر لیجئے اور اپنی بیویوں کے لئے زیورات بنوا لیجئے اور ریشمی کپڑے کوفروخت کرکے اس کی قیمت کو اپنے استعمال میں لائیے۔ چنانچہ حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس جبہ کو آٹھ ہزار درہم میں بیچا۔ یہ وفد بھی بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر نہایت خوش دلی کے ساتھ مسلمان ہو گیا۔(1)
(مدارج النبوۃ ج۲ ص۳۶۵)"
یہ دس آدمیوں کی جماعت تھی جو ۱۰ھ میں مدینہ آئے اور اپنی منزل میں سامانوں کی حفاظت کے لئے ایک جوان لڑکے کو چھوڑ دیا۔ وہ سو گیا اتنے میں ایک چور آیا اور ایک بیگ چرا کر لے بھاگا۔ یہ لوگ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت اقدس
1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت، قسم سوم، باب نہم،ج۲، ص۳۶۵ ملخصاً
میں حاضر تھے کہ ناگہاں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگوں کا ایک بیگ چور لے گیا مگر پھر تمہارے جوان نے اس بیگ کو پا لیا۔ جب یہ لوگ بارگاہ اقدس سے اٹھ کر اپنی منزل پر پہنچے تو ان کے جوان نے بتایا کہ میں سو رہا تھا کہ ایک چور بیگ لے کر بھاگا مگر میں بیدار ہونے کے بعد جب اس کی تلاش میں نکلا تو ایک شخص کو دیکھا وہ مجھ کو دیکھتے ہی فرار ہو گیا اور میں نے دیکھا کہ وہاں کی زمین کھودی ہوئی ہے جب میں نے مٹی ہٹا کر دیکھا تو بیگ وہاں دفن تھا میں اس کو نکال کر لے آیا۔ یہ سن کر سب بول پڑے کہ بلا شبہ یہ رسول برحق ہیں اور ہم کو انہوں نے اسی لئے اس واقعہ کی خبر د ےدی تاکہ ہم لوگ ان کی تصدیق کر لیں۔ ان سب لوگوں نے اسلام قبول کر لیا اور اس جوان نے بھی دربار رسول میں حاضر ہو کر کلمہ پڑھا اور اسلام کے دامن میں آ گیا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت اُبی بن کعب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ جتنے دنوں ان لوگوں کا مدینہ میں قیام رہے تم ان لوگوں کو قرآن پڑھنا سکھا دو۔(1) (مدارج النبوۃ ج۲ ص۳۷۴)
یہ نجران کے نصاریٰ کا وفد تھا۔ اس میں ساٹھ سوار تھے۔ چوبیس ان کے شرفا اور معززین تھے اور تین اشخاص اس درجہ کے تھے کہ انہیں کے ہاتھوں میں نجران کے نصاریٰ کا مذہبی اور قومی سارا نظام تھا۔ ایک عاقب جس کا نام ''عبدالمسیح'' تھا دوسرا شخص سید جس کا نام ''ایہم'' تھا تیسرا شخص ''ابو حارثہ بن علقمہ'' تھا۔ ان لوگوں نے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے بہت سے سوالات کئے اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کے جوابات دئیے یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معاملہ پر گفتگو چھڑ گئی۔ ان لوگوں نے یہ ماننے سے انکار کر دیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کنواری مریم کے شکم سے بغیر باپ کے پیدا ہوئے
1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ وشرح الزرقانی، باب الوفد الثانی والثلا ثون،وفدغامد،ج۵،ص۲۲۵
اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی کہ جس کو ''آیت مباہلہ'' کہتے ہیں کہ
اِنَّ مَثَلَ عِیۡسٰی عِنۡدَ اللہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ ؕ خَلَقَہٗ مِنۡ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ ﴿۵۹﴾اَلْحَقُّ مِنۡ رَّبِّکَ فَلَا تَکُنۡ مِّنَ الْمُمْتَرِیۡنَ ﴿۶۰﴾فَمَنْ حَآجَّکَ فِیۡہِ مِنۡۢ بَعْدِ مَا جَآءَ کَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَ نَا وَاَبْنَآءَکُمْ وَ نِسَآءَ نَا وَ نِسَآءَکُمْ وَاَنۡفُسَنَا وَاَنۡفُسَکُمْ ۟ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللہِ عَلَی الْکٰذِبِیۡنَ ﴿۶۱﴾ (1)
"بےشک حضرت عیسیٰ (علیہ السلام )کی مثال اﷲ کے نزدیک آدم (علیہ السلام) کی طرح ہے انکو مٹی سے بنایا پھر فرمایا ''ہو جا'' وہ فوراً ہو جاتا ہے (اے سننے والے) یہ تیرے رب کی طرف سے حق ہے تم شک والوں میں سے نہ ہونا پھر (اے محبوب)جو تم سے حضرت عیسیٰ کے بارے میں حجت کریں بعد اسکے کہ تمہیں علم آچکا تو ان سے فرما دو آؤ ہم بلائیں اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور اپنی جانوں کو اور تمہاری جانوں کو پھر ہم گڑگڑا کر دعا مانگیں اور جھوٹوں پر اﷲ کی لعنت ڈالیں۔(آل عمران)
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب ان لوگوں کو اس مباہلہ کی دعوت دی تو ان نصرانیوں نے رات بھر کی مہلت مانگی۔ صبح کو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت حسن، حضرت حسین،حضرت علی، حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کو ساتھ لے کر مباہلہ کے لئے کاشانہ نبوت سے نکل پڑے مگر نجران کے نصرانیوں نے مباہلہ کرنے سے انکار کر دیا اور جزیہ دینے کا اقرار کرکے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے صلح کر لی۔ (2)
(تفسیر جلالین وغیرہ)"
"1۔۔۔۔۔۔پ۳،آل عمرٰن:۵۹۔۶۱
2۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،باب الوفدالرابع عشر...الخ،ج۵،ص۱۸۶۔۱۹۰ملتقطًا"
"اس سال کے تمام واقعات میں سب سے زیادہ شاندار اور اہم ترین واقعہ ''حجۃ الوداع'' ہے۔ یہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا آخری حج تھا اور ہجرت کے بعد یہی آپ کا پہلا حج تھا۔ ذوقعدہ ۱۰ھ میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حج کے لئے روانگی کا اعلان فرمایا۔ یہ خبر بجلی کی طرح سارے عرب میں ہر طرف پھیل گئی اور تمام عرب شرفِ ہمرکابی کے لئے اُمنڈ پڑا۔
حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے آخر ذوقعدہ میں جمعرات کے دن مدینہ میں غسل فرما کر تہبند اور چادر زیب تن فرمایا اور نماز ظہر مسجد نبوی میں ادا فرما کر مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے اور اپنی تمام ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہ ن کو بھی ساتھ چلنے کا حکم دیا۔ مدینہ منورہ سے چھ میل دور اہل مدینہ کی میقات ''ذوالحلیفہ'' پر پہنچ کر رات بھر قیام فرمایا پھر احرام کے لئے غسل فرمایا اور حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے اپنے ہاتھ سے جسم اطہر پر خوشبو لگائی پھر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز ادا فرمائی اور اپنی اونٹنی ''قصواء'' پر سوار ہو کر احرام باندھا اور بلند آواز سے ''لبیک'' پڑھا اور روانہ ہو گئے۔ حضرت جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے نظر اُٹھا کر دیکھا تو آگے پیچھے دائیں بائیں حدِ نگاہ تک آدمیوں کا جنگل نظر آتا تھا۔ بیہقی کی روایت ہے کہ ایک لاکھ چودہ ہزار اور دوسری روایتوں میں ہے ایک لاکھ چوبیس ہزار مسلمان حجۃ"
"الوداع میں آپ کے ساتھ تھے۔(1) (زرقانی ج۳ص۱۰۶ و مدارج ج۲ص ۳۸۷)
چوتھی ذوالحجہ کو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے۔ آپ کے خاندان بنی ہاشم کے لڑکوں نے تشریف آوری کی خبر سنی تو خوشی سے دوڑ پڑے اور آپ نے نہایت ہی محبت و پیار کے ساتھ کسی کو آگے کسی کو پیچھے اپنی اونٹنی پر بٹھا لیا۔(2)
(نسائی باب استقبال الحاج ج۲ ص۲۶ مطبوعہ رحیمیہ)
فجر کی نماز آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مقام ''ذی طویٰ'' میں ادا فرمائی اور غسل فرمایا پھر آپ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اور چاشت کے وقت یعنی جب آفتاب بلند ہو چکا تھا تو آپ مسجد حرام میں داخل ہوئے۔ جب کعبہ معظمہ پر نگاہ مہرنبوت پڑی تو آپ نے یہ دعا پڑھی کہ"
اَللّٰھُمَّ اَنْتَ السَّلاَمُ وَمِنْکَ السَّلَامُ حَیِّنَا رَبَّنَا بِالسَّلَامِ اَللّٰھُمَّ زِدْ ھٰذَا الْبَیْتَ تَشْرِیْفًا وَّتَعْظِیْمًا وَّتَکْرِیْمًا وَّمَھَابَۃً وَّزِدْ مَنْ حَجَّہٗ وَاعْتَمَرَہٗ تَکْرِیْمًا وَّتَشْرِیْفًا وَّتَعْظِیْمًا
"اے اﷲ!عزوجل تو سلامتی دینے والا ہے اور تیری طرف سے سلامتی ہے۔ اے رب!عزوجل ہمیں سلامتی کے سا تھ زندہ رکھ۔اے اﷲ!عزوجل اس گھر کی عظمت و شرف اور عزت و ہیبت کو زیادہ کر اور جو اس گھر کا حج اور عمرہ کرے تو اس کی بزرگی اور شرف و عظمت کو زیادہ کر۔
جب حجر اسود کے سامنے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تشریف لے گئے تو حجر اسود پر"
"1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،النوع السادس فی ذکرحجہ وعمرہ،ج۱۱،ص۳۲۹۔۳۳۱
وحجۃ الوداع،ج۴،ص۱۴۶
2۔۔۔۔۔۔سنن النسائی،کتاب مناسک الحج،باب استقبال الحج،الحدیث:۲۸۹۱،ص۴۷۱
ومدارج النبوت، قسم سوم،باب دہم،ج۲،ص۳۸۷"
"ہاتھ رکھ کر اس کو بوسہ دیا پھر خانہ کعبہ کا طواف فرمایا۔ شروع کے تین پھیروں میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ''رمل'' کیا اور باقی چار چکروں میں معمولی چال سے چلے ہر چکر میں جب حجر اسود کے سامنے پہنچتے تو اپنی چھڑی سے حجر اسود کی طرف اشارہ کرکے چھڑی کو چوم لیتے تھے۔ حجر اسود کا استلام کبھی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے چھڑی کے ذریعہ سے کیا کبھی ہاتھ سے چھو کر ہاتھ کو چوم لیا کبھی لب مبارک کو حجر اسود پر رکھ کر بوسہ دیا اور یہ بھی ثابت ہے کہ کبھی رُکن یمانی کا بھی آپ نے استلام کیا۔ (1)
(نسائی ج۲ ص۳۰ و ص۳۱)
جب طواف سے فارغ ہوئے تو مقام ابراہیم کے پاس تشریف لائے اور وہاں دو رکعت نماز ادا کی نماز سے فارغ ہو کر پھر حجر اسود کا استلام فرمایا اور سامنے کے دروازہ سے صفا کی جانب روانہ ہوئے قریب پہنچے تو اس آیت کی تلاوت فرمائی کہ"
اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنۡ شَعَآئِرِ اللہِ (2)
"بے شک صفا اور مروہ اﷲ کے دین کے نشانوں میں سے ہیں۔
پھر صفا اور مروہ کی سعی فرمائی اور چونکہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ قربانی کے جانور تھے اس لئے عمرہ ادا کرنے کے بعد آپ نے احرام نہیں اتارا۔
آٹھویں ذوالحجہ جمعرات کے دن آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم منیٰ تشریف لے گئے اور پانچ نمازیں ظہر، عصر، مغرب، عشاء،فجر، منیٰ میں ادا فرما کر نویں ذوالحجہ جمعہ کے دن آپ عرفات میں تشریف لے گئے۔"
"1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃمع شرح الزرقانی،النوع السادس فی ذکرحجہ وعمرہ صلی اللہ علیہ وسلم،
ج۱۱، ص۳۷۵،۳۷۷۔۳۷۹ملتقطاًومدارج النبوت،قسم سوم،باب دہم،ج۲،ص۳۸۹ملتقطاً
2۔۔۔۔۔۔پ۲،البقرۃ:۱۵۸"
زمانہ جاہلیت میں چونکہ قریش اپنے کو سارے عرب میں افضل و اعلیٰ شمار کرتے تھے اس لئے وہ عرفات کی بجائے ''مزدلفہ'' میں قیام کرتے تھے اور دوسرے تمام عرب ''عرفات'' میں ٹھہرتے تھے لیکن اسلامی مساوات نے قریش کے لئے اس تخصیص کو گوارا نہیں کیا اور اﷲ عزوجل نے یہ حکم دیا کہ
ثُمَّ اَفِیۡضُوۡا مِنْ حَیۡثُ اَفَاضَ النَّاسُ (1)
"(اے قریش) تم بھی وہیں (عرفات) سے پلٹ کر آؤ جہاں سے سب لوگ پلٹ کر آتے ہیں۔
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے عرفات پہنچ کر ایک کمبل کے خیمہ میں قیام فرمایا۔ جب سورج ڈھل گیا تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی اونٹنی ''قصواء'' پر سوار ہو کر خطبہ پڑھا۔ اس خطبہ میں آپ نے بہت سے ضروری احکامِ اسلام کا اعلان فرمایا اور زمانہ جاہلیت کی تمام برائیوں اور بیہودہ رسموں کو آپ نے مٹاتے ہوئے اعلان فرمایا کہ"
اَلَا کُلُّ شَیْءٍ مِّنْ اَمْرِالْجَاہِلِیَّۃِ تَحْتَ قَدَمَیَّ مَوْضُوْعٌ۔
"سن لو!جاہلیت کے تمام دستورمیرے دونوں قدموں کے نیچے پامال ہیں۔(2)
(ابوداؤد ج۱ ص۲۶۳ و مسلم ج۱ ص۳۹۷ باب حجۃ النبی)
اسی طرح زمانہ جاہلیت کے خاندانی تفاخر اور رنگ و نسل کی برتری اور قومیت میں نیچ اونچ وغیرہ تصورات جاہلیت کے بتوں کو پاش پاش کرتے ہوئے اور مساوات اسلام کا عَلَم بلند فرماتے ہوئے تاجدار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے اس تاریخی خطبہ"
"1۔۔۔۔۔۔پ۲،البقرۃ:۱۹۹
2۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،النوع السادس فی ذکرحجہ وعمرہ،ج۱۱،ص۳۸۴،
۳۹۳۔۳۹۵، ۳۹۷ملتقطاًوصحیح مسلم،کتاب الحج،باب حجۃالنبی صلی اللہ علیہ وسلم،
الحدیث:۱۲۱۸،ص۶۳۴"
میں ارشاد فرمایا کہ
یَااَیُّھَا النَّاسُ اَلَا اِنَّ رَبَّکُمْ وَاحِدٌ وَاِنَّ اَبَاکُمْ وَاحِدٌ اَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبِیٍّ عَلٰی أَعْجَمِیٍّ وَلَا لِعَجَمِیٍّ عَلٰی عَرَبِیٍّ وَلَا لِاَحْمَرَ عَلٰی اَسْوَدَ وَلَا لِاَسْوَدَ عَلٰی اَحْمَرَ اِلاَّ بِالتَّقْوٰی(1)(مسند امام احمد)
"اے لوگو!بے شک تمہارا رب ایک ہے اوربے شک تمہارا باپ(آدم علیہ السلام) ایک ہے ۔سن لو!کسی عربی کو کسی عجمی پراورکسی عجمی کوکسی عربی پر،کسی سرخ کو کسی کالے پر اور کسی کالے کو کسی سرخ پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے سبب سے۔
اسی طرح تمام دنیا میں امن و امان قائم فرمانے کے لئے امن و سلامتی کے شہنشاہ تاجداردو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ خدائی فرمان جاری فرمایا کہ"
فَاِنَّ دِمَائَکُمْ وَاَمْوَالَکُمْ عَلَیْکُمْ حَرَامٌ کَحُرْمَۃِ یَوْمِکُمْ ھٰذَا فِیْ شَھْرِکُمْ ھٰذَا فِیْ بَلَدِکُمْ ھٰذَا اِلٰی یَوْمٍ تَلْقَوْنَ رَبَّکُمْ(2)
"تمہارا خون اور تمہارا مال تم پر تاقیامت اسی طرح حرام ہے جس طرح تمہارا یہ دن، تمہارا یہ مہینہ، تمہارا یہ شہر محترم ہے۔ (بخاری و مسلم و ابوداؤد)
اپنا خطبہ ختم فرماتے ہوئے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے سامعین سے فرمایا کہ"
وَاَنْتُمْ مَسْئُوْلُوْنَ عَنِّیْ فَمَا اَنْتُمْ قَائِلُوْنَ
"تم سے خداعزوجل کے یہاں میری نسبت پوچھا جائے گا تو تم لوگ کیا جواب دو گے؟
تمام سامعین نے کہا کہ ہم لوگ خدا سے کہہ دیں گے کہ آپ نے خدا کا پیغام پہنچا دیا اور رسالت کا حق ادا کر دیا۔ یہ سن کر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے آسمان کی"
"1۔۔۔۔۔۔المسند للامام احمد بن حنبل،حدیث رجل من اصحاب النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم،
الحدیث: ۲۳۵۴۸،ج۹،ص۱۲۷
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب الحج،باب الخطبۃایام منی،الحدیث:۱۷۴۱،ج۱،ص۵۷۷ملتقطاً"
"طرف انگلی اٹھائی اور تین بار فرمایا کہ اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ اے اﷲ! تو گواہ رہنا۔(1)
(ابوداؤد ج۱ ص۲۶۳ باب صفۃ حج النبی)
عین اسی حالت میں جب کہ خطبہ میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنا فرض رسالت ادا فرما رہے تھے یہ آیت نازل ہوئی کہ"
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیۡنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیۡکُمْ نِعْمَتِیۡ وَرَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسْلَامَ دِیۡنًا ؕ (2)
آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تمام کر دی اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کر لیا۔
"یہ حیرت انگیز و عبرت خیز واقعہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جس وقت شہنشاہ کونین خدا عزوجل کے نائب اکرم اور خلیفہ اعظم ہونے کی حیثیت سے فرمان ربانی کا اعلان فرما رہے تھے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا تختِ شہنشاہی یعنی اونٹنی کا کجاوہ اور عرق گیر شاید دس روپے سے زیادہ قیمت کا نہ تھا نہ اس اونٹنی پر کوئی شاندار کجاوہ تھا نہ کوئی ہودج نہ کوئی محمل نہ کوئی چتر نہ کوئی تاج ۔
کیا تاریخ عالم میں کسی اور بادشاہ نے بھی ایسی سادگی کا نمونہ پیش کیا ہے؟ اس کا جواب یہی اور فقط یہی ہے کہ ''نہیں۔''
یہ وہ زاہدانہ شہنشاہی ہے جو صرف شہنشاہ دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی شہنشاہیت کا طره امتیاز ہے!"
"1۔۔۔۔۔۔سنن ابی داود،کتاب المناسک،باب صفۃحجۃالنبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم،الحدیث:
۱۹۰۵،ج۲، ص۲۶۹ملتقطاً
2۔۔۔۔۔۔پ۶،المائدۃ:۳ ومدارج النبوت، قسم سوم، باب دہم،ج۲،ص۳۹۴"
خطبہ کے بعد آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ظہر و عصر ایک اذان اور دو اقامتوں سے ادا فرمائی پھر ''موقف'' میں تشریف لے گئے اور جبل رحمت کے نیچے غروبِ آفتاب تک دعاؤں میں مصروف رہے۔ غروب آفتاب کے بعد عرفات سے ایک لاکھ سے زائد حجاج کے ازدحام میں ''مزدلفہ'' پہنچے۔ یہاں پہلے مغرب پھر عشاء ایک اذان اور دو اقامتوں سے ادا فرمائی۔ مشعرِ حرام کے پاس رات بھر امت کے لئے دعائیں مانگتے رہے اور سورج نکلنے سے پہلے مزدلفہ سے منیٰ کے لئے روانہ ہو گئے اور وادی محسر کے راستہ سے منیٰ میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ''جمرہ'' کے پاس تشریف لائے اور کنکریاں ماریں پھر آپ نے بآواز بلند فرمایا کہ
لِتَاخُذُوْا مَنَاسِکَکُمْ فَاِنِّیْ لَا اَدْرِیْ لَعَلِّیْ لَا اَحُجُّ بَعْدَ حَجَّتِیْ ھٰذِہٖ(1)
" حج کے مسائل سیکھ لو! میں نہیں جانتا کہ شاید اس کے بعد میں دوسرا حج نہ کروں گا۔
(مسلم ج۱ ص۴۱۹ باب رمی جمرۃ العقبہ)
منیٰ میں بھی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک طویل خطبہ دیا جس میں عرفات کے خطبہ کی طرح بہت سے مسائل و احکام کا اعلان فرمایا ۔پھر قربان گاہ میں تشریف لے گئے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ قربانی کے ایک سو اونٹ تھے کچھ کو توآپ نے اپنے دست مبارک سے ذبح فرمایا اور باقی حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو سونپ دیا اور گوشت، پوست، جھول، نکیل سب کو خیرات کر دینے کا حکم دیااور فرمایا کہ قصاب کی مزدوری بھی اس میں سے نہ ادا کی جائے بلکہ الگ سے دی جائے۔(2)"
"1۔۔۔۔۔۔صحیح مسلم،کتاب الحج، باب استحباب رمی الجمرۃ العقبۃ...الخ،الحدیث: ۱۲۹۷، ص۶۷۵ ومدارج النبوت، قسم سوم، باب دہم،ج۲،ص۳۹۳،۳۹۵۔۳۹۶ ملتقطاً
2۔۔۔۔۔۔السیرۃ الحلبیۃ، حجۃالوداع،ج۳، ص۳۷۶۔۳۷۷ ملتقطاً"
"قربانی کے بعد حضرت معمر بن عبداﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے سر کے بال اتروائے اور کچھ حصہ حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو عطا فرمایا اور باقی موئے مبارک کو مسلمانوں میں تقسیم کر دینے کا حکم صادر فرمایا۔(1)
(مسلم ج۱ ص۴۲۱ باب بیان ان السنۃ یوم النحر الخ)
اس کے بعد آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مکہ تشریف لائے اور طوافِ زیارت فرمایا ۔"
پھر چاہ زمزم کے پاس تشریف لائے خاندان عبدالمطلب کے لوگ حاجیوں کو زمزم پلا رہے تھے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ مجھ کو ایسا کرتے دیکھ کر دوسرے لوگ بھی تمہارے ہاتھ سے ڈول چھین کر خود اپنے ہاتھ سے پانی بھر کر پینے لگیں گے تو میں خود اپنے ہاتھ سے پانی بھر کر پیتا۔ حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے زمزم شریف پیش کیا اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے قبلہ رخ کھڑے کھڑے زمزم شریف نوش فرمایا۔ پھر منیٰ واپس تشریف لے گئے اور بارہ ذوالحجہ تک منیٰ میں مقیم رہے اور ہر روز سورج ڈھلنے کے بعد جمروں کو کنکری مارتے رہے۔ تیرہ ذوالحجہ منگل کے دن آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے سورج ڈھلنے کے بعد منیٰ سے روانہ ہو کر ''محصب'' میں رات بھر قیام فرمایا ا ور صبح کو نماز فجر کعبہ کی مسجد میں ادا فرمائی اور طواف وداع کرکے انصار و مہاجرین کے ساتھ مدینہ منورہ کے لئے روانہ ہو گئے۔(2)
"1۔۔۔۔۔۔صحیح مسلم،کتاب الحج،باب بیان ان السنۃ...الخ،الحدیث:۱۳۰۵،ص۶۷۸
والمواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،النوع السادس فی ذکرحجہ وعمرہ صلی اللہ تعالٰی
علیہ وسلم،ج۱۱،ص۴۳۷،۴۳۸ملخصاً
2۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواہب،النوع السادس فی ذکرحجہ وعمرہ،ج۱۱،ص۴۶۰۔۴۶۶ملتقطاً"
"راستہ میں مقام ''غدیرخم'' پر جو ایک تالاب ہے یہاں تمام ہمراہیوں کو جمع فرما کر ایک مختصر خطبہ ارشاد فرمایا جس کا ترجمہ یہ ہے:
حمد و ثنا کے بعد: اے لوگو! میں بھی ایک آدمی ہوں ممکن ہے کہ خداعزوجل کا فرشتہ(ملک الموت)جلد آ جائے اور مجھے اس کا پیغام قبول کرنا پڑے میں تمہارے درمیان دو بھاری چیزیں چھوڑتا ہوں۔ ایک خدا عزوجل کی کتاب جس میں ہدایت اورروشنی ہے اور دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں۔ میں اپنے اہل بیت کے بارے میں تمہیں خدا عزوجل کی یاد دلاتا ہوں۔(1) (مسلم ج۱ ص۲۷۹ باب من فضائل علی)
اس خطبہ میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ"
مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ اَللّٰھُمَّ وَالِ مَنْ وَّالَاہُ وَعَادِ مَنْ عَادَاہُ(2)(مشکوٰۃ ص۵۶۵مناقب علی)
"جس کامیں مولا ہوں علی بھی اسکے مولیٰ،خداوندا!عزوجل جو علی سے محبت رکھے اس سے تو بھی محبت رکھ اور جو علی سے عداوت رکھے اس سے تو بھی عداوت رکھ۔
غدیر خم کے خطبہ میں حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے فضائل و مناقب بیان کرنے کی کیا ضرورت تھی اس کی کوئی تصریح کہیں حدیثوں میں نہیں ملتی۔ ہاں البتہ بخاری کی ایک روایت سے پتا چلتا ہے کہ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنے اختیار سے کوئی ایسا کام کر ڈالا تھا جس کو ان کے یمن سے آنے والے ہمراہیوں نے پسند نہیں کیا"
"1۔۔۔۔۔۔صحیح مسلم،کتاب الفضائل، باب من فضائل علی ابن ابی طالب،الحدیث:۲۴۰۸،
ص۱۳۱۲ملتقطاً
2۔۔۔۔۔۔مشکاۃالمصابیح،کتاب المناقب،باب مناقب علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالٰی عنہ،الفصل
الثالث، الحدیث:۶۱۰۳،ج۲،ص۴۳۰"
یہاں تک کہ ان میں سے ایک نے بارگاہ رسالت میں اس کی شکایت بھی کر دی جس کا حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ جواب دیا کہ علی کواس سے زیادہ کا حق ہے۔ ممکن ہے اسی قسم کے شبہات و شکوک کو مسلمان یمنیوں کے دِلوں سے دور کرنے کے لئے اس موقع پر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت علی اور اہل بیت رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کے فضائل بھی بیان کر دیئے ہوں۔ (1)(بخاری باب بعث علی الی الیمن ج۲ ص۲۲۳ و ترمذی مناقب علی)
" بعض شیعہ صاحبان نے اس موقع پرلکھاہے کہ ''غدیر خم''کاخطبہ یہ ''حضرت علی کرم اﷲ تعالیٰ وجہہ الکریم کی خلافت بلا فصل کا اعلان تھا'' مگر اہل فہم پر روشن ہے کہ یہ محض ایک ''تک بندی'' کے سوا کچھ بھی نہیں کیونکہ اگر واقعی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے خلافت بلا فصل کا اعلان کرنا تھا تو عرفات یا منیٰ کے خطبوں میں یہ اعلان زیادہ مناسب تھا جہاں ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں کا اجتماع تھا نہ کہ غدیر خم پر جہاں یمن اورمدینہ والوں کے سوا کوئی بھی نہ تھا۔
مدینہ کے قریب پہنچ کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مقام ذوالحلیفہ میں رات بسر فرمائی اور صبح کو مدینہ منورہ میں نزول اجلال فرمایا۔"
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب بعث علی...الخ،الحدیث:۴۳۵۰،ج۳،ص۱۲۳
وفتح الباری شرح صحیح البخاری،تحت الحدیث:۴۳۵۰،ج۸،ص۵۷"
"اس لشکر کا دوسرا نام ''سریہ اُسامہ'' بھی ہے ۔یہ سب سے آخری فوج ہے جس کے روانہ کرنے کا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حکم دیا۔ ۲۶ صفر ۱۱ھ دوشنبہ کے دن حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے رومیوں سے جنگ کی تیاری کا حکم دیا اور دوسرے دن حضرت اُسامہ بن زید رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کو بلا کر فرمایا کہ میں نے تم کو اس فوج کا امیر لشکر مقرر کیا تم اپنے باپ کی شہادت گاہ مقام ''اُبنٰی'' میں جاؤ اور نہایت تیزی کے ساتھ سفر کرکے ان کفار پر اچانک حملہ کر دو تا کہ وہ لوگ جنگ کی تیاری نہ کر سکیں۔ باوجود یکہ مزاج اقدس ناساز تھا مگر اسی حالت میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خود اپنے دست مبارک سے جھنڈا باندھا اور یہ نشانِ اسلام حضرت اُسامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں دے کر ارشاد فرمایا : ''اُغْزُ بِسْمِ اﷲِ وَفِیْ سَبِیْلِ اللہِ فَقَاتِلْ مَنْ کَفَرَ بِاللہِ''
اﷲ کے نام سے اور اﷲ کی راہ میں جہاد کرو اور کافروں کیساتھ جنگ کرو۔
حضرت اُسامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضرت بریدہ بن الحضیب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو علمبردار بنایا اور مدینہ سے نکل کرایک کوس دور مقام ''جرف'' میں پڑاؤ کیا تا کہ وہاں پورا لشکر جمع ہو جائے۔ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے انصار و مہاجرین کے تمام معززین کو بھی اس لشکر میں شامل ہو جانے کا حکم دے دیا۔ بعض لوگوں پر یہ شاق گزرا کہ ایسا لشکر جس میں انصار و مہاجرین کے اکابر و عمائد موجود ہیں ایک نو عمر لڑکا جس کی"
"عمر بیس برس سے زائد نہیں کس طرح امیر لشکر بنا دیا گیا؟ جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اس اعتراض کی خبر ملی تو آپ کے قلب نازک پر صدمہ گزرا اور آپ نے علالت کے باوجود سر میں پٹی باندھے ہوئے ایک چادر اوڑھ کر منبر پر ایک خطبہ دیا جس میں ارشاد فرمایا کہ اگر تم لوگوں نے اُسامہ کی سپہ سالاری پر طعنہ زنی کی ہے تو تم لوگوں نے اس سے قبل اس کے باپ کے سپہ سالار ہونے پر بھی طعنہ زنی کی تھی حالانکہ خدا کی قسم! اس کاباپ(زید بن حارثہ)سپہ سالار ہونے کے لائق تھااور اس کے بعد اس کا بیٹا (اُسامہ بن زید) بھی سپہ سالار ہونے کے قابل ہے اوریہ میرے نزدیک میرے محبوب ترین صحابہ میں سے ہے جیسا کہ اس کا باپ میرے محبوب ترین اصحاب میں سے تھا لہٰذا اُسامہ(رضی اﷲ تعالیٰ عنہ)کے بارے میں تم لوگ میری نیک وصیت کو قبول کرو کہ وہ تمہارے بہترین لوگوں میں سے ہے۔
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم یہ خطبہ دے کرمکان میں تشریف لے گئے اور آپ کی علالت میں کچھ اور بھی اضافہ ہو گیا۔
حضرت اُسامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حکم نبوی کی تکمیل کرتے ہوئے مقام جرف میں پہنچ گئے تھے اور وہاں لشکر اسلام کا اجتماع ہوتا رہا یہاں تک کہ ایک عظیم لشکر تیار ہوگیا۔ ۱۰ربیع الاول ۱۱ھ کوجہادمیں جانے والے خواص حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے رخصت ہونے کے لئے آئے اور رخصت ہو کر مقام جرف میں پہنچ گئے۔ اس کے دوسرے دن حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی علالت نے اور زیادہ شدت اختیار کر لی۔ حضرت اُسامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مزاج پرسی اور رخصت ہونے کے لئے خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت اُسامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو دیکھا"
مگر ضعف کی وجہ سے کچھ بول نہ سکے، بار بار دست مبارک کو آسمان کی طرف اٹھاتے تھے اور ان کے بدن پر اپنا مقدس ہاتھ پھیرتے تھے۔ حضرت اُسامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ اس سے میں نے یہ سمجھا کہ حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم میرے لئے دعا فرما رہے ہیں ۔اس کے بعد حضرت اُسامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ رخصت ہو کر اپنی فوج میں تشریف لے گئے اور ۱۲ ربیع الاول ۱۱ ھ کو کوچ کرنے کا اعلان بھی فرما دیا۔ اب سوار ہونے کے لئے تیاری کر رہے تھے کہ ان کی والدہ حضرت اُمِ ایمن رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا فرستادہ آدمی پہنچا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نزع کی حالت میں ہیں۔ یہ ہوش ربا خبر سن کر حضرت اُسامہ و حضرت عمر و حضرت ابو عبیدہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم وغیرہ فوراً ہی مدینہ آئے تو یہ دیکھا کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سکرات کے عالم میں ہیں اور اسی دن دوپہر کو یا سہ پہر کے وقت آپ کا وصال ہو گیا۔
اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
یہ خبر سن کر حضرت اُسامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا لشکر مدینہ واپس چلا آیا مگر جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ مسند خلافت پر رونق افروز ہو گئے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بعض لوگوں کی مخالفت کے باوجود ربیع الآخر کی آخری تاریخوں میں اس لشکرکوروانہ فرمایااورحضرت اُسامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ مقام ''اُبنٰی'' میں تشریف لے گئے اور وہاں بہت ہی خونریز جنگ کے بعد لشکر اسلام فتح یاب ہوا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے باپ کے قاتل اور دوسرے کفار کو قتل کیااور بے شمار مال غنیمت لے کر چالیس دن کے بعد مدینہ واپس تشریف لائے۔ (1) (مدارج النبوۃ ج۲ ص۴۰۹ تا ص۴۱۱ و زرقانی ج۳ ص۱۰۷ تا ۱۱۲)
"1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،اخرالبعوث النبویۃ،ج۴،ص۱۴۷۔۱۵۲،۱۵۵ملخصاً
ومدارج النبوت،قسم سوم،باب یازدہم،ج۲،ص۴۰۹،۴۱۰ملخصاً"
حضور رحمۃ للعالمین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا اس عالم میں تشریف لانا صرف اس لئے تھاکہ آپ خداکے آخری اورقطعی پیغام یعنی دین اسلام کے احکام اُس کے بندوں تک پہنچا دیں اورخداکی حجت تمام فرما دیں۔اس کام کوآپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے کیونکر انجام دیا؟ اوراس میں اپ کو کتنی کامیابی حاصل ہوئی؟اس کا اجمالی جواب یہ ہے کہ جب سے یہ دنیا عالَمِ وجود میں آئی ہزاروں انبیاء و رُسل علیہم السلام اس عظیم الشان کام کو انجام دینے کے لئے اس عالم میں تشریف لائے مگرتمام انبیاء ومرسلین کے تبلیغی کارناموں کو اگر جمع کر لیا جائے تو وہ حضور سرور عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے تبلیغی شاہکاروں کے مقابلہ میں ایسے ہی نظر آئیں گے جیسے آفتاب عالم تاب کے مقابلہ میں ایک چراغ یا ایک صحرا کے مقابلہ میں ایک ذرہ یا ایک سمندرکے مقابلہ میں ایک قطرہ۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی تبلیغ نے عالم میں ایسا انقلاب پیدا کر دیا کہ کائنات ہستی کی ہر پستی کو معراج کمال کی سربلندی عطا فرما کر ذلت کی زمین کو عزت کا آسمان بنا دیا اوردین حنیف کے اس مقدس اور نورانی محل کو جس کی تعمیر کے لئے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک تمام انبیاء و رسل معمار بنا کر بھیجے جاتے رہے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خاتم النبیین کی شان سے اس قصر ہدایت کو اس طرح مکمل فرما دیا کہ حضرت حق جل جلالہ نے اس پر
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ (1)
"کی مہر لگا دی۔
جب دین اسلام مکمل ہو چکا اور دنیا میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے تشریف لانے کا مقصد پورا ہو چکا تو اﷲ تعالیٰ کے وعدہ محکم"
اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّہُمۡ مَّیِّتُوۡنَ ﴿۫۳۰﴾ (2)
"1۔۔۔۔۔۔ترجمہ کنزالایمان:آج میں نے تمہارے لئے تمہارادین کامل کردیا۔پ۶،المائدۃ:۳
2۔۔۔۔۔۔ترجمہ کنزالایمان: بےشک تمہیں انتقال فرماناہے اورانکوبھی مرناہے۔ پ۲۳،الزمر:۳۰"
کے پورا ہونے کا وقت آ گیا۔
"حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو بہت پہلے سے اپنی وفات کا علم حاصل ہو گیا تھا اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر لوگوں کو اس کی خبر بھی دے دی تھی۔ چنانچہ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے لوگوں کو یہ فرما کر رخصت فرمایا تھا:''شاید اس کے بعد میں تمہارے ساتھ حج نہ کر سکوں گا۔''(1)
اسی طرح ''غدیر خم'' کے خطبہ میں اسی اندازسے کچھ اسی قسم کے الفاظ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی زبان اقدس سے ادا ہوئے تھے اگرچہ ان دونوں خطبات میں لفظ لعل (شاید) فرماکر ذرا پردہ ڈالتے ہوئے اپنی وفات کی خبر دی مگر حجۃ الوداع سے واپس آ کر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جو خطبات ارشاد فرمائے اس میں لَعَلَّ(شاید)کا لفظ آپ نے نہیں فرمایا بلکہ صاف صاف اور یقین کے ساتھ اپنی وفات کی خبر سے لوگوں کو آگاہ فرما دیا۔
چنانچہ بخاری شریف میں حضرت عقبہ بن عامر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم گھر سے باہر تشریف لے گئے اور شہداء احد کی قبروں پر اس طرح نماز پڑھی جیسے میت پر نماز پڑھی جاتی ہے پھر پلٹ کر منبر پر رونق افروز ہوئے اور ارشاد فرمایا کہ میں تمہارا پیش رو(تم سے پہلے وفات پانے والا) ہوں اور تمہارا گواہ ہوں اور میں خدا کی قسم! اپنے حوض کو اس وقت دیکھ رہا ہوں۔(2)
(بخاری کتاب الحوض ج۲ ص۹۷۵)"
"1۔۔۔۔۔۔تاریخ الطبری،حجۃالوداع،ج۲،ص۳۴۴
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب الرقاق،باب الحوض،الحدیث:۶۵۹۰،ج۴،ص۲۷۰"
"اس حدیث میں اِنِّیْ فَرَطٌ لَّکُمْ فرمایا یعنی میں اب تم لوگوں سے پہلے ہی وفات پا کر جا رہا ہوں تا کہ وہاں جا کر تم لوگوں کے لئے حوض کوثر وغیرہ کا انتظام کروں۔
یہ قصہ مرض وفات شروع ہونے سے پہلے کا ہے لیکن اس قصہ کو بیان فرمانے کے وقت آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اسکا یقینی علم حاصل ہو چکا تھا کہ میں کب اور کس وقت دنیا سے جانے والا ہوں اور مرض وفات شروع ہونے کے بعد تو اپنی صاحبزادی حضرت بی بی فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو صاف صاف لفظوں میں بغیر ''شاید'' کا لفظ فرماتے ہوئے اپنی وفات کی خبر دے دی۔ چنانچہ بخاری شریف کی روایت ہے کہ
اپنے مرض وفات میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو بلایا اور چپکے چپکے ان سے کچھ فرمایا تو وہ روپڑیں۔ پھر بلایا اور چپکے چپکے کچھ فرمایا تو وہ ہنس پڑیں جب ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہ ن نے اس کے بارے میں حضرت بی بی فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے آہستہ آہستہ مجھ سے یہ فرمایا کہ میں اسی بیماری میں وفات پا جاؤں گا تو میں رو پڑی۔ پھر چپکے چپکے مجھ سے فرمایا کہ میرے بعد میرے گھر والوں میں سے سب سے پہلے تم وفات پا کر میرے پیچھے آؤگی تو میں ہنس پڑی۔(1)
(بخاری باب مرض النبی ج۲ ص۶۳۸)
بہر حال حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنی وفات سے پہلے اپنی وفات کے وقت کا علم حاصل ہو چکا تھا کیوں نہ ہو کہ جب دوسرے لوگوں کی وفات کے اوقات سے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اﷲعزوجل نے آگاہ فرما دیا تھا تو اگر خداوند علام الغیوب کے بتادینے سے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنی وفات کے وقت کا قبل از وقت علم ہو گیا تو اس"
1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب مرض النبی ووفاتہ،الحدیث:۴۴۳۳،۴۴۳۴،ج۳،ص۱۵۳
میں کو نسا استبعاد ہے؟ اﷲ تعالیٰ نے تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو علم ماکان و مایکون عطا فرمایا۔ یعنی جو کچھ ہو چکا اور جو کچھ ہو رہا ہے اور جو کچھ ہونے والا ہے سب کا علم عطا فرما کر آپ کو دنیا سے اٹھایا۔چنانچہ اس مضمون کو ہم نے اپنی کتاب ''قرآنی تقریریں'' میں مفصل تحریر کردیا ہے۔
"مرض کی ابتداء کب ہوئی؟ اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کتنے دنوں تک علیل رہے؟ اس میں مؤرخین کا اختلاف ہے۔ بہر حال ۲۰ یا ۲۲ صفر ۱۱ ھ کو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جنۃ البقیع میں جو عام مسلمانوں کا قبرستان ہے آدھی رات میں تشریف لے گئے وہاں سے واپس تشریف لائے تو مزاج اقدس ناساز ہو گیا یہ حضرت میمونہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی باری کا دن تھا۔(1)(مدارج النبوۃ ج۲ ص۴۱۷ و زرقانی ج۳ ص۱۱۰)
دوشنبہ کے دن آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی علالت بہت شدید ہو گئی۔ آپ کی خواہش پر تمام ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہ ن نے اجازت دے دی کہ آپ حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے یہاں قیام فرمائیں۔ چنانچہ حضرت عباس و حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہما نے سہارا دے کر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے حجرهٔ مبارکہ میں پہنچا دیا۔ جب تک طاقت رہی آپ خود مسجد نبوی میں نمازیں پڑھاتے رہے۔ جب کمزوری بہت زیادہ بڑھ گئی تو آپ نے حکم دیا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ میرے مصلی پر امامت کریں۔ چنانچہ سترہ نمازیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے پڑھائیں۔"
"1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،الفصل الاول فی اتمامہ...الخ،ج۱۲،ص۸۳ملخصاً
ومدارج النبوت، قسم چہارم،باب اول،ج۲،ص۴۱۷"
"ایک دن ظہر کی نماز کے وقت مرض میں کچھ افاقہ محسوس ہوا تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ سات پانی کی مشکیں میرے اوپر ڈالی جائیں۔جب آپ غسل فرما چکے تو حضرت عباس اور حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہما آپ کا مقدس بازو تھام کر آپ کو مسجد میں لائے ۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نماز پڑھا رہے تھے آہٹ پاکر پیچھے ہٹنے لگے مگر آپ نے اشارہ سے ان کو روکا اور ان کے پہلو میں بیٹھ کر نماز پڑھائی ۔آ پ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو دیکھ کر حضرت ابوبکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور دوسرے مقتدی لوگ ارکان نماز ادا کرتے رہے۔ نماز کے بعد آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک خطبہ بھی دیا جس میں بہت سی وصیتیں اور احکام اسلام بیان فرما کر انصار کے فضائل اور ان کے حقوق کے بارے میں کچھ کلمات ارشاد فرمائے اور سورهٔ والعصر اور ایک آیت بھی تلاوت فرمائی۔(1) (مدارج النبوۃ ج۲ ص۴۲۵ و بخاری ج۲ ص۶۳۹)
گھر میں سات دینار رکھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا کہ تم ان دیناروں کو لاؤ تا کہ میں ان دیناروں کو خدا کی راہ میں خرچ کر دوں۔ چنانچہ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ذریعے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان دیناروں کو تقسیم کر دیا اور اپنے گھر میں ایک ذرہ بھربھی سونا یا چاندی نہیں چھوڑا۔(2)(مدارج النبوۃ ج۲ ص۴۲۴)
آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے مرض میں کمی بیشی ہوتی رہتی تھی۔ خاص وفات کے"
"1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت، قسم چہارم، باب دوم،ج۲، ص۴۲۵ ملخصاً وصحیح البخاری،
کتاب المغازی، باب مرض النبی ووفاتہ، الحدیث:۴۴۴۲،ج۳،ص۱۵۵مختصراً
وکتاب الاذان، باب من قام...الخ،الحدیث:۶۸۳،ج۱، ص۲۴۳
2۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت،قسم چہارم،باب دوم،ج۲،ص۴۲۴ملخصاً"
"دن یعنی دو شنبہ کے روز طبیعت اچھی تھی۔ حجرہ مسجد سے متصل ہی تھا۔ آپ نے پردہ اٹھا کر دیکھا تو لوگ نماز فجر پڑھ رہے تھے۔ یہ دیکھ کر خوشی سے آپ ہنس پڑے لوگوں نے سمجھا کہ آپ مسجد میں آنا چاہتے ہیں مارے خوشی کے تمام لوگ بے قابو ہو گئے مگر آپ نے اشارہ سے روکا اور حجرہ میں داخل ہو کر پردہ ڈال دیا یہ سب سے آخری موقع تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے جمال نبوت کی زیارت کی۔ حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا رُخِ انور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا قرآن کا کوئی ورق ہے۔ یعنی سفید ہو گیا تھا۔(1)(بخاری ج۲ ص۶۴۰ باب مرض النبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم وغیرہ)
اس کے بعد بار بار غشی طاری ہونے لگی۔ حضرت فاطمہ زہراء رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی زبان سے شدت غم میں یہ لفظ نکل گیا۔ ''وَاکَرْبَ اَبَاہ''ہائے رے میرے باپ کی بے چینی! حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے بیٹی ! تمہارا باپ آج کے بعد کبھی بے چین نہ ہو گا۔(2)(بخاری ج۲ ص۶۴۱ باب مرض النبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)
اس کے بعد بار بار آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم یہ فرماتے رہے کہ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَیْھِمْ یعنی ان لوگوں کے ساتھ جن پر خدا کا انعام ہے اور کبھی یہ فرماتے کہ ''اَللّٰھُمَّ فِی الرَّفِیْقِ الْاَعْلٰی... خداوندا! بڑے رفیق میں اور لَا اِلٰہَ اِلَا اللہُ بھی پڑھتے تھے اور فرماتے تھے کہ بے شک موت کے لئے سختیاں ہیں۔ حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ تندرستی کی حالت میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اکثر فرمایا کرتے تھے کہ پیغمبروں کو اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ خواہ وفات کو قبول کریں یا حیاتِ دنیا کو ۔ جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ"
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب مرض النبی ووفاتہ،الحدیث:۴۴۴۸،ج۳،ص۱۵۶
وکتاب الاذان،باب اھل العلم والفضل...الخ،الحدیث:۶۸۰،ج۱،ص۲۴۲ملتقطاً
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب مرض النبی ووفاتہ،الحدیث:۴۴۶۲،ج۳،ص۱۶۰"
"علیہ وسلم کی زَبانِ مبارک پر یہ کلمات جاری ہوئے تو میں نے سمجھ لیا کہ آپ نے آخرت کو قبول فرما لیا۔(1)(بخاری ج۲ ص۶۴۰ و ص۶۴۱ باب آخر ماتکلم النبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)
وفات سے تھوڑی دیر پہلے حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے بھائی عبدالرحمن بن ابوبکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تازہ مسواک ہاتھ میں لئے حاضر ہوئے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کی طرف نظر جما کر دیکھا۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے سمجھا کہ مسواک کی خواہش ہے۔ انہوں نے فوراً ہی مسواک لے کر اپنے دانتوں سے نرم کی اور دست اقدس میں دے دی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مسواک فرمائی سہ پہر کا وقت تھا کہ سینۂ اقدس میں سانس کی گھرگھراہٹ محسوس ہونے لگی اتنے میں لب مبارک ہلے تو لوگوں نے یہ الفاظ سنے کہ اَلصَّلٰوۃَ وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ نماز اور لونڈی غلاموں کا خیال رکھو۔
پاس میں پانی کی ایک لگن تھی اس میں بار بار ہاتھ ڈالتے اور چہرهٔ اقدس پر ملتے اور کلمہ پڑھتے۔ چادر مبارک کو کبھی منہ پر ڈالتے کبھی ہٹا دیتے۔ حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سر اقدس کو اپنے سینے سے لگائے بیٹھی ہوئی تھیں۔ اتنے میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھا کر انگلی سے اشارہ فرمایا اور تین مرتبہ یہ فرمایا کہبَلِ الرَّفِیْقُ الْاَعْلٰی(اب کوئی نہیں)بلکہ وہ بڑا رفیق چاہیے۔یہی الفاظ زبانِ اقدس پر تھے کہ ناگہاں مقدس ہاتھ لٹک گئے اورآنکھیں چھت کی طرف دیکھتے ہوئے کھلی کی کھلی رہیں اور آپ کی قدسی روح عالَمِ قدس میں پہنچ گئی۔(2)"
(اِنَّا ِﷲِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ) اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب مرض النبی ووفاتہ،الحدیث:۴۴۳۵،۴۴۳۷،
ج۳،ص ۱۵۳،۱۵۴ومدارج النبوت،قسم چہارم،باب دوم،ج۲،ص۴۲۹مختصراً
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب مرض النبی ووفاتہ،الحدیث:۴۴۳۸،ج۳،ص۱۵۴
ومدارج النبوت،قسم چہارم،باب دوم،ج۲،ص۴۲۹ملخصاً"
وَبَارِکْ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ۔
" (بخاری ج۲ ص۶۴۰ وص۶۴۱باب مرض النبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)
تاریخ وفات میں مؤرخین کا بڑا اختلاف ہے لیکن اس پر تمام علماء سیرت کا اتفاق ہے کہ دوشنبہ کا دن اور ربیع الاول کا مہینہ تھا بہر حال عام طور پر یہی مشہور ہے کہ ۱۲ ربیع الاول ۱۱ھ دوشنبہ کے دن تیسرے پہر آپ نے وصال فرمایا۔(1)(واﷲ تعالیٰ اعلم)"
حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی وفات سے حضرات صحابہ کرام اوراہل بیت عظام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو کتنا بڑا صدمہ پہنچا؟ اور اہل مدینہ کا کیا حال ہو گیا؟ اس کی تصویر کشی کے لئے ہزاروں صفحات بھی متحمل نہیں ہو سکتے۔ وہ شمع نبوت کے پروانے جو چند دنوں تک جمال نبوت کادیدار نہ کرتے تو ان کے دل بے قرار اور ان کی آنکھیں اشکبار ہو جاتی تھیں۔ ظاہر ہے کہ ان عاشقانِ رسول پر جان عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے دائمی فراق کا کتنا روح فرسا اورکس قدر جانکاہ صدمہ عظیم ہوا ہو گا؟ جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم بلامبالغہ ہوش و حواس کھو بیٹھے، ان کی عقلیں گم ہو گئیں، آوازیں بند ہو گئیں اور وہ اس قدر مخبوط الحواس ہو گئے کہ ان کے لئے یہ سوچنا بھی مشکل ہو گیا کہ کیا کہیں؟ اور کیا کریں؟ حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ پر ایسا سکتہ طاری ہو گیا کہ وہ اِدھر اُدھر بھاگے بھاگے پھرتے تھے مگر کسی سے نہ کچھ کہتے تھے نہ کسی کی کچھ سنتے تھے۔ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ رنج و ملال میں نڈھال ہو کر اس طرح بیٹھ رہے کہ ان میں اٹھنے بیٹھنے اور چلنے پھرنے کی سکت ہی نہیں رہی۔ حضرت عبداﷲ بن انیس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے قلب پر
1۔۔۔۔۔۔الوفاء باحوال المصطفٰیمترجم،باب وقت وصال،ص۸۱۴ملخصاً
"ایسا دھچکا لگا کہ وہ اس صدمہ کو برداشت نہ کر سکے اور ان کا ہارٹ فیل ہو گیا۔(1)
حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اس قدر ہوش و حواس کھو بیٹھے کہ انہوں نے تلوار کھینچ لی اور ننگی تلوار لے کر مدینہ کی گلیوں میں اِدھر اُدھر آتے جاتے تھے اور یہ کہتے پھرتے تھے کہ اگر کسی نے یہ کہا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی تو میں اِس تلوار سے اس کی گردن اڑا دوں گا۔ (2)
حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ وفات کے بعد حضرت عمر و حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما اجازت لے کر مکان میں داخل ہوئے حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو دیکھ کر کہا کہ بہت ہی سخت غشی طاری ہوگئی ہے۔ جب وہ وہاں سے چلنے لگے تو حضرت مغیرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اے عمر! تمہیں کچھ خبر بھی ہے؟ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا وصال ہو چکا ہے۔ یہ سن کر حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ آپے سے باہر ہو گئے اور تڑپ کر بولے کہ اے مغیرہ! تم جھوٹے ہو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا اس وقت تک انتقال نہیں ہو سکتا جب تک دنیا سے ایک ایک منافق کا خاتمہ نہ ہو جائے۔(3)
مواہب لدنیہ میں طبری سے منقول ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی وفات کے وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ''سُنح'' میں تھے جو مسجد نبوی سے ایک میل کے فاصلہ پر ہے۔ ان کی بیوی حضرت حبیبہ بنت خارجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا وہیں رہتی تھیں۔"
"1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت،قسم سوم،باب دوم،ج۲،ص۴۳۲ملخصاً
والمواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،الفصل الاول فی اتمامہ...الخ،ج۱۲،ص۱۴۲،۱۴۳
2۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت،قسم سوم،باب دوم،ج۲،ص۴۳۲
3۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،الفصل الاول فی اتمامہ...الخ،ج۱۲، ص۱۳۹"
"چونکہ دو شنبہ کی صبح کو مرض میں کمی نظر آئی اور کچھ سکون معلوم ہوا اس لئے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خود حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو اجازت دے دی تھی کہ تم ''سُنح'' چلے جاؤ اور بیوی بچوں کو دیکھتے آؤ۔(1)
بخاری شریف وغیرہ میں ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر ''سُنح'' سے آئے اور کسی سے کوئی بات نہ کہی نہ سنی۔ سیدھے حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے حجرے میں چلے گئے اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے رخ انور سے چادر ہٹا کر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر جھکے اور آپ کی دونوں آنکھوں کے درمیان نہایت گرم جوشی کے ساتھ ایک بوسہ دیا اور کہاکہ آپ اپنی حیات اور وفات دونوں حالتوں میں پاکیزہ رہے۔ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ہر گز خداوند تعالیٰ آپ پر دو موتوں کو جمع نہیں فرمائے گا۔ آپ کی جو موت لکھی ہوئی تھی آپ اس موت کے ساتھ وفات پا چکے۔ اسکے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ مسجد میں تشریف لائے تو اس وقت حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ لوگوں کے سامنے تقریر کر رہے تھے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اے عمر! بیٹھ جاؤ۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے بیٹھنے سے انکار کر دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے انہیں چھوڑ دیا اور خود لوگوں کو متوجہ کرنے کے لئے خطبہ دینا شروع کر دیاکہ (2)
اما بعد! جو شخص تم میں سے محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا اور جو شخص تم میں سے خدا عزوجل کی پرستش کرتا تھا تو خدا زندہ ہے وہ کبھی نہیں مرے گا۔پھر اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ"
"1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،الفصل الاول فی اتمامہ...الخ،ج۱۲،ص۱۳۳،۱۳۴
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب الجنائز،باب الدخول علی المیت...الخ،الحدیث:۱۲۴۱،
۱۲۴۲، ج۱،ص۴۲۱ملخصاً"
عنہ نے سورۂ آل عمران کی یہ آیت تلاوت فرمائی۔
وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدْ خَلَتْ مِنۡ قَبْلِہِ الرُّسُلُ ؕ اَفَا۠ئِنۡ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انۡقَلَبْتُمْ عَلٰۤی اَعْقَابِکُمْ ؕ وَمَنۡ یَّنۡقَلِبْ عَلٰی عَقِبَیۡہِ فَلَنۡ یَّضُرَّ اللہَ شَیْـًٔا ؕ وَسَیَجْزِی اللہُ الشّٰکِرِیۡنَ ﴿۱۴۴﴾ (1)
"اور محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) تو ایک رسول ہیں ان سے پہلے بہت سے رسول ہو چکے تو کیا اگر وہ انتقال فرما جائیں یا شہید ہو جائیں تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ اور جو الٹے پاؤں پھرے گا اﷲ کا کچھ نقصان نہ کریگا اور عنقریب اﷲ شکر ادا کرنے والوں کو ثواب دے گا۔(آل عمران)
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے یہ آیت تلاوت کی تو معلوم ہوتا تھا کہ گویا کوئی اس آیت کو جانتا ہی نہ تھا۔ ان سے سن کر ہر شخص اسی آیت کو پڑھنے لگا۔(2)
(بخاری ج۱ ص۱۶۶ باب الدخول علی ا لمیت الخ و مدارج النبوۃ ج۲ ص۴۳۳)
حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی زبان سے سوره آلِ عمران کی یہ آیت سنی تو مجھے معلوم ہو گیا کہ واقعی نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا۔ پھر حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اضطراب کی حالت میں ننگی شمشیر لے کر جو اعلان کرتے پھرتے تھے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا وصال نہیں ہوا اس سے رجوع کیا اور ان کے صاحبزادے حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ گویا ہم پر ایک پردہ پڑا ہوا تھا کہ اس آیت کی طرف ہمارا دھیان ہی نہیں گیا۔ حضرت ابوبکر"
"1۔۔۔۔۔۔پ۴،ال عمرٰن:۱۴۴
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب الجنائز،باب الدخول علی المیت...الخ،الحدیث:۱۲۴۱،
۱۲۴۲،ج۱،ص۴۲۱"
صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے خطبہ نے اس پردہ کو اٹھا دیا۔(1)(مدارج النبوۃ ج۲ ص۴۳۴)
"چونکہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے وصیت فرما دی تھی کہ میری تجہیز و تکفین میرے اہل بیت اور اہل خاندان کریں۔ اس لئے یہ خدمت آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے خاندان ہی کے لوگوں نے انجام دی۔ چنانچہ حضرت فضل بن عباس و حضرت قثم بن عباس و حضرت علی و حضرت عباس و حضرت اُسامہ بن زید رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے مل جل کر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو غسل دیا اور ناف مبارک اور پلکوں پر جو پانی کے قطرات اور تری جمع تھی حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جوش محبت اور فرط عقیدت سے اس کو زبان سے چاٹ کر پی لیا۔(2)(مدارج النبوۃ ج۲ ص۴۳۸ و ص۴۳۹)
غسل کے بعد تین سوتی کپڑوں کا جو ''سحول'' گاؤں کے بنے ہوئے تھے کفن بنایا گیا ان میں قمیص و عمامہ نہ تھا۔(3) (بخاری ج۱ ص۱۶۹ باب الثیاب البیض للکفن)"
جنازہ تیار ہوا تو لوگ نماز جنازہ کے لئے ٹوٹ پڑے۔ پہلے مردوں نے پھر عورتوں نے پھر بچوں نے نماز جنازہ پڑھی۔ جنازہ مبارکہ حجرہ مقدسہ کے اندر ہی تھا۔ باری باری سے تھوڑے تھوڑے لوگ اندر جاتے تھے اور نماز پڑھ کر چلے آتے تھے لیکن کوئی امام نہ تھا۔ (4)(مدارج النبوۃ ج۲ ص۲۴۰ و ابن ماجہ ص۱۱۸ باب ذکر و فاتہ)
"1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت،قسم چھارم،باب دوم،ج۲،ص۴۳۴
2۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت،قسم چہارم،باب سوم،ج۲،ص۴۳۷،۴۳۸،۴۳۹ملخصاً
3۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب الجنائز،باب الثیاب البیض للکفن،الحدیث:۱۲۶۴،ج۱،ص۴۲۸
4۔۔۔۔۔۔سنن ابن ماجہ،کتاب الجنائز،باب ذکروفاتہ ودفنہ،الحدیث:۱۶۲۸،ج۲،ص۲۸۴،۲۸۵"
"حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے قبر شریف تیار کی جو بغلی تھی۔ جسم اطہر کو حضرت علی و حضرت فضل بن عباس و حضرت عباس و حضرت قثم بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے قبر منور میں اتارا۔(1)(مدارج النبوۃ ج۲ ص۴۴۲)
لیکن ابو داؤد کی روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اُسامہ اورعبد الرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالیٰ عنہما بھی قبر میں اترے تھے۔ (2)(ابو داؤد ج۲ص ۴۵۸ باب کم یدخل القبر)
صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں یہ اختلاف رونما ہوا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو کہاں دفن کیا جائے کچھ لوگوں نے کہا کہ مسجد نبوی میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا مدفن ہونا چاہیے اور کچھ نے یہ رائے دی کہ آپ کو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے قبرستان میں دفن کرنا چاہیے۔ اس موقع پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے کہ ہر نبی اپنی وفات کے بعد اسی جگہ دفن کیا جاتا ہے جس جگہ اس کی وفات ہوئی ہو۔ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو سن کر لوگوں نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے بچھونے کو اٹھایا اور اسی جگہ (حجرۂ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ) میں آپ کی قبر تیار کی اور آپ اسی میں مدفون ہوئے۔(3)(ابن ماجہ ص۱۱۸ باب ذکروفاتہ)
حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے غسل شریف اورتجہیز و تکفین کی سعادت میں حصہ لینے کے لئے ظاہر ہے کہ شمع نبوت کے پروانے کس قدر بے قرار رہے ہوں گے؟"
"1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت، قسم چھارم، باب سوم،ج۲،ص۴۴۱،۴۴۲ ملتقطاً
2۔۔۔۔۔۔سنن ابی داود،کتاب الجنائز،باب کم یدخل القبر،الحدیث:۳۲۰۹،۳۲۱۰،ج۳،ص۲۸۶ملتقطاً
3۔۔۔۔۔۔سنن ابن ماجہ،کتاب الجنائز،باب ذکروفاتہ ودفنہ،الحدیث:۱۶۲۸،ج۲،ص۲۸۴،۲۸۵"
مگر جیسا کہ ہم تحریر کر چکے کہ چونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود ہی یہ وصیت فرما دی تھی کہ میرے غسل اور تجہیز و تکفین میرے اہل بیت ہی کریں ۔ پھرامیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے بھی بحیثیت امیر المؤمنین ہونے کے یہی حکم دیا کہ ''یہ اہل بیت ہی کا حق ہے'' اس لئے حضرت عباس اوراہل بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے کواڑ بند کرکے غسل دیا اور کفن پہنایا مگر شروع سے آخر تک خود حضرت امیر المؤمنین اور دوسرے تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم حجرہ مقدسہ کے باہر حاضر رہے۔(1) (مدارج النبوۃ ج۲ص۴۳۷)
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس زندگی اس قدر زاہدانہ تھی کہ کچھ اپنے پاس رکھتے ہی نہیں تھے۔ اس لئے ظاہر ہے کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے وفات کے بعد کیا چھوڑا ہو گا؟ چنانچہ حضرت عمرو بن الحارث رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ
مَا تَرَکَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عِنْدَ مَوْتِہٖ دِرْھَمًا وَّلَا دِیْنَارًا وَّلَا عَبْدًا وَّلَا اَمَۃً وَّلَا شَیْئًا اِلَّا بَغَلَتَہٗ الْبَیْضَاءَ وَسِلَاحَہٗ وَ اَرْضًا جَعَلَھَا صَدَقَۃً ۔(2)
"حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے وقت نہ درہم و دینار چھوڑا نہ لونڈی و غلام نہ اور کچھ صرف اپنا سفید خچر اور ہتھیار اور کچھ زمین جو عام مسلمانوں پر صدقہ کر گئے چھوڑا تھا۔(بخاری ج۱ ص۳۸۲ کتاب الوصایا)
بہر حال پھر بھی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے متروکات میں تین چیزیں تھیں۔ (۱) بنو نضیر، فدک، خیبر کی زمینیں (۲) سواری کا جانور(۳) ہتھیار۔ یہ تینوں چیزیں قابل ذکر ہیں۔"
"1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت،قسم چھارم،باب سوم،ج۲،ص۴۳۷،۴۳۸ملخصاً
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب الوصایا،باب الوصایا...الخ،الحدیث:۲۷۳۹،ج۲،ص۲۳۱"
بنو نضیر، فدک، خیبر کی زمینوں کے باغات وغیرہ کی آمدنیاں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے ا ور اپنی ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے سال بھر کے اخراجات اور فقراء و مساکین اور عام مسلمانوں کی حاجات میں صرف فرماتے تھے۔ (1)
(مدارج النبوۃ ج۲ ص۴۴۵ و ابو داؤد ج۲ ص۴۱۲ باب فی صفایا رسول اﷲ)
خرچ کرتے رہیں گے جن میں رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم خرچ فرمایا کرتے تھے۔ پھر ان دونوں میں کچھ ان بن ہو گئی اور ان دونوں حضرات نے یہ خواہش ظاہر کی کہ بنو نضیر کی جائیداد تقسیم کرکے آدھی حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی تولیت میں دے دی جائے اور آدھی کے متولی حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ رہیں مگر حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس دخواست کو نا منظور فرما دیا۔(1)
(ابو داؤد ج۲ ص۴۱۳ باب فی وصایا رسول اﷲ و بخاری ج۱ ص۴۳۶ باب فرض الخمس)
لیکن خیبر اور فدک کی زمینیں حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے زمانے تک خلفاء ہی کے ہاتھوں میں رہیں حاکم مدینہ مروان بن الحکم نے اس کو اپنی جاگیر بنا لی تھی مگر حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنے زمانہ خلافت میں پھر وہی عملدرآمد جاری کر دیا جو حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کے دور خلافت میں تھا۔
(2)(ابو داؤد ج۲ ص۴۱۷ باب فی وصایا رسول اﷲ مطبوعہ نامی پریس)
"بہر حال روایات صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وفات اقدس کے وقت جو سواری کے جانور موجود تھے ان میں ایک گھوڑا تھا جس کا نام ""لحیف"" تھا ایک سفید خچر تھا جس کا نام ""دلدل"" تھا یہ بہت ہی عمردراز ہوا۔ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے زمانے تک زندہ رہا اتنا بوڑھا ہو گیا تھا کہ اس کے تمام دانت گر گئے تھے اور آخر میں اندھا بھی ہو گیا تھا۔ ابن عساکر کی تاریخ میں ہے کہ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی جنگ خوارج میں اس پر سوار ہوئے تھے۔(1)"
(زرقانی ج۳ ص۳۸۹)
"ایک عربی گدھا تھا جس کا نام ""عفیر"" تھا ایک اونٹنی تھی جس کا نام ""عضباء و قصواء"" تھا یہ وہی اونٹنی تھی جس کو بوقت ہجرت آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے خریدا تھا اس اونٹنی پر آپ نے ہجرت فرمائی اور اس کی پشت پر حجۃ الوداع میں آپ نے عرفات و منیٰ کا خطبہ پڑھا تھا۔ (واﷲ تعالیٰ اعلم)"
ظروف اور برتنوں میں کئی پیالے تھے ایک شیشہ کا پیالہ بھی تھا۔ ایک پیالہ لکڑی کا تھا جو پھٹ گیا تھا تو حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس کے شگاف کو بند کرنے کیلئے ایک چاندی کی زنجیر سے اس کو جکڑ دیا تھا۔(1)
(بخاری ج۱ ص۴۳۸ باب ماذکر من ورع النبی)
"چمڑے کا ایک ڈول، ایک پرانی مشک، ایک پتھر کا تغار، ایک بڑا سا پیالہ جس کا نام ""السعہ"" تھا، ایک چمڑے کا تھیلا جس میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم آئینہ، قینچی اور مسواک رکھتے تھے، ایک کنگھی، ایک سرمہ دانی، ایک بہت بڑا پیالہ جس کا نام ""الغراء"" تھا، صاع اور مدد و ناپنے کے پیمانے۔
ان کے علاوہ ایک چارپائی جس کے پائے سیاہ لکڑی کے تھے۔ یہ چارپائی حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہدیۃً خدمت اقدس میں پیش کی تھی۔ بچھونا اور تکیہ چمڑے کا تھا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی، مقدس جوتیاں، یہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے اسباب و سامانوں کی ایک فہرست ہے جن کا تذکرہ احادیث میں متفرق طور پر آتا ہے۔(۲)"
تعالیٰ عنہ نے ان تینوں آثار متبرکہ کو اپنے گھر میں محفوظ رکھا تھا۔(1)
(بخاری ج۱ ص۴۳۸ باب ما ذکر من ورع النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم الخ)
اسی طرح ایک موٹا کمبل حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے پاس تھا جن کو وہ بطورتبرک اپنے پاس رکھے ہوئے تھیں اور لوگوں کو اس کی زیارت کراتی تھیں۔ چنانچہ حضرت ابوبردہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ہم لوگوں کو حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی خدمت مبارکہ میں حاضری کا شرف حاصل ہوا تو انہوں نے ایک موٹا کمبل نکالا اور فرمایا کہ یہ وہی کمبل ہے جس میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے وفات پائی۔ (2)
مخرمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے یہ گزارش کی کہ آپ کے پاس رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی جو تلوار (ذوالفقار) ہے کیا آپ وہ مجھے عنایت فرما سکتے ہیں؟ کیونکہ مجھے خطرہ ہے کہ کہیں یزید کی قوم آپ پر غالب آ جائے اور یہ تبرک آپ کے ہاتھ سے جاتا رہے اور اگر آپ نے اس مقدس تلوار کو مجھے عطا فرما دیا تو خدا کی قسم! جب تک میری ایک سانس باقی رہے گی ان لوگوں کی اس تلوار تک رسائی بھی نہیں ہو سکتی مگر حضرت امام زین العابدین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس مقدس تلوار کو اپنے سے جدا کرنا گوارا نہیں فرمایا۔(1)
(بخاری ج۱ ص۴۳۸ باب ما ذکر من ورع النبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)
صحابیِ رسول ہیں اور ہمیں کسی کا بھی کوئی قول ایسا نہیں ملا جس میں انکے صحابی ہونے کی نفی ہو لہذا انکے لئے ایسے الفاظ ہرگز استعمال نہ کئے جائیں.
"مصنف کی طرف سے عذر:کسی عام مسلمان سے بھی یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ وہ کسی صحابی کے بارے میں جان بوجھ کرکوئی نازیبا کلمہ استعمال کرے۔ یقیناً حضرت مصنف علیہ الرحمۃ کے علم میں نہ ہوگا کہ یہ صحابی ہیں کیونکہ یہاں جو معاملہ تھا وہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے عصا کے توڑنے کا تھا جس کی وجہ سے شاید مصنف سے تسامح ہوگیا ورنہ وہ ہرگز ایسی بات صحابی ٔرسول کیلئے نہ لکھتے کیونکہ مصنف نے خود اپنی کتب میں صحابہ کرام علیہم الرضوان کے فضائل بیان فرمائے ہیں جوکہ ان کے راسخ سنی صحیح العقیدہ اور عاشقِ صحابہ کرام علیہم الرضوان ہونے کی دلیل ہے ۔ صحابۂ کرام(علیہم الرضوان)کے بارے میں اسلامی عقیدہ:صحابۂ کرام علیہم الرضوان کے متعلق اہلسنت کا موقف ہے کہ(۱)صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنھم کے باہم جو واقعات ہوئے، ان میں پڑنا حرام، حرام، سخت حرام ہے، مسلمانوں کو تو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ سب حضرات آقائے دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے جاں نثار اور سچے غلام ہیں۔(۲)صحابہ کر ام رضی اﷲ تعالیٰ عنھم انبیا ء نہ تھے، فرشتہ نہ تھے کہ معصوم ہوں۔ ان میں بعض کے لیے لغزشیں ہوئیں مگر ان کی کسی بات پر گرفت اﷲو رسول عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے خلاف ہے۔ (بہار شریعت ۱ ,253مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)تفصیل: مذکورہ واقعہ کی تفتیش کرتے ہوئے ہم نے متعددعربی کتبِ سیر وتاریخ وغیرہ دیکھیں لیکن ان میں ""بدنصیب اور خبیث النفس"" یا اسکی مثل کلمات نہیں ملے چنانچہ ""الاستیعاب"" میں ہے:"
وروی أنّ جہجاہ ھذا ھو الذی تَناوَل العصا مِن یَدِ عثمان وھو یَخطبُ فکَسَرَھا یومئذ, فأَخَذتْہ الأَکِلۃُ فی رکبتہ وکانت عصا رسولِ اللہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم.
(الاستیعاب فی
"معرفۃ الأصحاب334 /1) وفی ""الإصابۃ"" بلفظِ: فوضعہا علی رکبتہ فکسرہا....حتی مات. (الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ - 1 ؍ 622)"
"ترجمہ: اور مروی ہے کہ یہ وہی جہجاہ (بن سعید غفاری رضی اللہ عنہ)ہیں جنھوں نے بحالتِ خطبہ عثمانِ غنی (رضی اللہ عنہ)کے دستِ مبارک سے عصا (چھڑی ) چھین کر اپنے گھٹنے پر رکھ کر توڑ دیا تھا تو (سیدنا)جہجاہ (رضی اللہ عنہ)کو گھٹنے میں زخم ہوگیا یہاں تک کہ وہ رحلت فرما گئے۔ وہ عصا مبارک رسول ِ اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا تھا.اِن کی صحابیت کے دلائل: کتب تراجم میں اِن کے متعلق بیان کیا گیا ہے کہ""وہ بیعتِ رضوان میں حاٖضر تھے"""
شَہِدَ بیعۃَ الرضوانِ بالحدیبیۃ۔
" (الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ 1؍621)اور متعدد کتب میں عصا توڑنے والا واقعہ انہی کا لکھا ہے ، جس کی تائید ""استیعاب"" سے بالخصوص ہوتی ہے کہ انھوں نے پہلے اِن کے ایمان لانے کا واقعہ بیان کیا اور پھر"
""" ھذا ھو الذی تَنَاوَلَ العَصَا"""
کے الفاظ کے ذریعے یہ واضح کر دیا کہ عصا توڑنے والا واقعہ انہی کا ہے۔ (الإستیعاب فی معرفۃ الأصحاب،1 ؍ 334)انکے صحابی ہونے کی صراحت اِن کتب میں بھی کی گئی ہے.(۱) (التمہید لما فی الموطأ من المعانی والأسانید)
فلما أسلمتُ دعانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إلی منزلہ فحلب لی عنزا ،7؍ . (230 (۲) (الثقات لابن حبان)
وکان جہجاہ من فقراء المہاجرین وھو الذی أکل عند النبی صلی اللہ علیہ و سلم وہو کافر فأکثر ثم أسلم فأکل فقال لہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم المؤمن یأکل فی معی واحد والکافر یأکل فی سبعۃ أمعاء (1؍280) (۳)(أسد الغابۃ) ثم أسلم فلم یستتم حلاب شاۃ واحدۃ (1؍451) (۴)(شرح مشکل الآثار للطحاوی)
اسی قسم کے دوسرے اور بھی تبرکات نبویہ ہیں جو مختلف صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے پاس محفوظ تھے جن کا تذکرہ احادیث اور سیرت کی کتابوں میں جا بجا متفرق طور پر مذکور ہے اور ان مقدس تبرکات سے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور تابعین عظام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم کو اس قدر والہانہ محبت تھی کہ وہ ان کو اپنی جانوں سے بھی زیاد ہ عزیزسمجھتے تھے۔
"حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اﷲ تعالیٰ نے جس طرح کمال سیرت میں تمام اولین و آخرین سے ممتاز اور افضل و اعلیٰ بنایا اسی طرح آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو جمالِ صورت میں بھی بے مثل و بے مثال پیدا فرمایا۔ ہم اور آپ حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی شانِ بے مثال کو بھلا کیا سمجھ سکتے ہیں؟ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم جو دن رات سفر و حضر میں جمال نبوت کی تجلیاں دیکھتے رہے انہوں نے محبوب خدا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے جمالِ بے مثال کے فضل و کمال کی جو مصوری کی ہے اس کو سن کر یہی کہنا پڑتا ہے جو کسی مداحِ رسول نے کیا خوب کہا ہے کہ ؎"
"لَمْ یَخْلُقِ الرَّحْمٰنُ مِثْلَ مُحَمَّدٍ
اَبَدًا وَّ عِلْمِیْ اَنَّہٗ لَا یَخْلُقُ"
" یعنی اﷲ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا مثل پیدا فرمایا ہی نہیں اور میں یہی جانتا ہوں کہ وہ کبھی نہ پیدا کرے گا۔(1)"
(حیاۃ الحیوان د میری ج۱ص۴۲)
حسان بن ثابت رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنے قصیدہ ہمزیہ میں جمال نبوت کی شان بے مثال کو اس شان کے ساتھ بیان فرمایا کہ ؎
"وَاَحْسَنَ مِنْکَ لَمْ تَرَقَطُّ عَیْنِیْ!
وَاَجْمَلَ مِنْکَ لَمْ تَلِدِ النِّسَآءُ"
یعنی یا رسول اﷲ!(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) آپ سے زیادہ حسن و جمال والا میری آنکھ نے کبھی کسی کو دیکھا ہی نہیں اور آپ سے زیادہ کمال والا کسی عورت نے جنا ہی نہیں۔
"خُلِقْتَ مُبَرَّئً مِّنْ کُلِ عَیْبٍ!
کَاَنَّکَ قَدْ خُلِقْتَ کَمَا تَشَآءُ(1)"
بہر حال اس پر تمام امت کا ایمان ہے کہ تناسب ِاعضاء اور حسن و جمال میں حضور نبی آخر الزمان صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بے مثل و بے مثال ہیں۔ چنانچہ حضرات محدثین و مصنفین سیرت نے روایات صحیحہ کے ساتھ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ہر ہر عضو شریفہ کے تناسب اور حسن و جمال کو بیان کیا ہے ۔ہم بھی اپنی اس مختصر کتاب میں ’’حلیۂ مبارکہ‘‘ کے ذکر جمیل سے حسن و جمال پیدا کرنے کے لئے اس عنوان پر حضرت مولانا محمد کامل صاحب چراغ ربانی نعمانی ولید پوری رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ کے منظوم حلیہ مبارکہ کے چند اشعار نقل کرتے ہیں تاکہ اس عالم کامل کی برکتوں سے بھی یہ کتاب سرفراز ہو جائے۔ حضرت مولانا موصوف نے اپنی کتاب ’’پنجہ نور‘‘ میں تحریر فرمایا کہ
"روحِ حق کا میں سراپا کیا لکھوں حلیہ نورِ خدا میں کیا لکھوں
پر جمالِ رحمۃٌ للعالمیں جلوہ گر ہو گا مکانِ قبر میں
اس لئے ہے آگیا مجھ کو خیال مختصر لکھ دوں جمالِ بے مثال
تا کہ یاروں کو مرے پہچان ہو اور اس کی یاد بھی آسان ہو
تھا میانہ قد و اوسط پاک تن پر سپید و سرخ تھا رنگ بدن
چاند کے ٹکڑے تھے اعضاء آپ کے تھے حسین و گول سانچے میں ڈھلے
تھیں جبیں روشن کشادہ آپ کی چاند میں ہے داغ وہ بے داغ تھی
دونوں ابرو تھیں مثالِ دو ہلال اور دونوں کو ہوا تھا اِتصال
اِتصال دو مہ ""عیدین"" تھا یاکہ ادنیٰ قرب تھا ’’قوسین‘‘ کا
تھیں بڑی آنکھیں حسین و سرمگیں دیکھ کر قربان تھیں سب حور عیں
کان دونوں خوب صورت ارجمند ساتھ خوبی کے دہن بینی بلند"
"صاف آئینہ تھا چہرہ آپ کا صورت اپنی اس میں ہر اک دیکھتا
تابہ سینہ ریش محبوبِ الٰہ خوب تھی گنجان مو ، رنگ سیاہ
تھا سپید اکثر لباسِ پاک تن ہو ازار و جبہ یا پیر ہن
سبز رہتا تھا عمامہ آپ کا پر کبھی سود و سپید و صاف تھا
میں کہوں پہچان عمدہ آپ کی دونوں عالم میں نہیں ایسا کوئی"
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضور انور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے جسم اقدس کا رنگ گورا سپید تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا آپ کا مقدس بدن چاندی سے ڈھال کر بنایا گیا ہے۔(1)
(شمائل ترمذی ص۲)
حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا جسم مبارک نہایت نرم و نازک تھا۔ میں نے دیباوحریر(ریشمیں کپڑوں) کو بھی آپ کے بدن سے زیادہ نرم و نازک نہیں دیکھا اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ و سلم کے جسم مبارک کی خوشبو سے زیادہ اچھی کبھی کوئی خوشبو نہیں سونگھی۔ (2)
بچھا دیتی تھیں اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اس پر دوپہر کو قیلولہ فرمایا کرتے تھے تو آپ کے جسم اطہر کے پسینے کو وہ ایک شیشی میں جمع فرما لیتی تھیں پھر اس کو اپنی خوشبو میں ملا لیا کرتی تھیں۔ چنانچہ حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے وصیت کی تھی کہ میری وفات کے بعد میرے بدن اور کفن میں وہی خوشبو لگائی جائے جس میں حضورِ انور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے جسم اطہر کا پسینہ ملا ہوا ہے۔(1)
(بخاری ج۲ ص۹۲۹ باب من زار قوماً فقال عندہم و بخاری ج۱ ص۳۶۵ حدیث الافک)
" آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے قد مبارک کا سایہ نہ تھا۔ حکیم ترمذی (متوفی ۲۵۵ھ) نے اپنی کتاب ""نوادر الاصول"" میں حضرت ذکوان تابعی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ سورج کی دھوپ اور چاند کی چاندنی میں رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا سایہ نہیں پڑتا تھا ۔امام ابن سبع رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا قول ہے کہ یہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے خصائص میں سے ہے کہ آپ کا سایہ زمین پر نہیں پڑتا تھا اور آپ نور تھے اس لئے جب آپ دھوپ یا چاندنی میں چلتے تو آپ کا سایہ نظر نہ آتا تھا اور بعض کا قول ہے کہ اس کی شاہد وہ حدیث ہے جس میں آپ کی اس دعا کا ذکر ہے کہ آپ نے یہ دعا مانگی کہ خداوندا! تو میرے تمام اعضاء کو نور بنا دے اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی اس دعا کو اس قول پر ختم فرمایا کہ"
"""وَاجْعَلْنِیْ نُوْرًا"""
"حضرت امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس روایت کو نقل فرمایا ہے اور علامہ حجازی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وغیرہ سے بھی یہی منقول ہے کہ بدن تو بدن، آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے کپڑوں پر بھی کبھی مکھی نہیں بیٹھی، نہ کپڑوں میں کبھی جوئیں پڑیں، نہ کبھی کھٹمل یا مچھر نے آپ کو کاٹا، اس مضمون کو ابو الربیع سلیمان بن سبع رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی کتاب ""شفاء الصدور فی اعلام نبوۃ الرسول"" میں بیان فرماتے ہوئے تحریر فرمایا کہ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نور تھے۔ پھر مکھیوں کی آمد، جوؤں کا پیدا ہونا چونکہ گندگی بدبو وغیرہ کی وجہ سے ہوا کرتا ہے اور آپ چونکہ ہر قسم کی گندگیوں سے پاک اور آپ کا جسم اطہر خوشبو دار تھا اس لئے آپ ان چیزوں سے محفوظ رہے۔امام سبتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بھی اس مضمون کو ""اعظم الموارد"" میں مفصل لکھا ہے۔ (2)"
(زرقانی ج۵ ص۲۴۹)
حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے دونوں شانوں کے درمیان کبوتر کے انڈے کے برابر مہر نبوت تھی۔ یہ بظاہر سرخی مائل اُبھرا ہوا گوشت تھا۔ چنانچہ حضرت جابر بن سمرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے دونوں شانوں کے بیچ میں مہر نبوت کو دیکھا جو کبوتر کے انڈے کی مقدار میں سرخ اُبھرا ہوا ایک غدود تھا۔(3)
یعنی ایک اﷲہے اس کا کوئی شریک نہیں(اے رسول!)آپ جہاں بھی رہیں گے آپ کی مدد کی جائے گی اور ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ
""" کَانَ نُوْرًا یَّتَلَا ْٔ لَا ُٔ """
یعنی مہر نبوت ایک چمکتا ہوا نور تھا۔ راویوں نے اس کی ظاہری شکل و صورت اور مقدار کو کبوتر کے انڈے سے تشبیہ دی ہے۔ (۱)
(حاشیہ ترمذی ج۲ ص۲۰۵ باب ماجاء فی خاتم النبوۃ)
حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضور انور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نہ بہت زیادہ لمبے تھے نہ پستہ قدبلکہ آپ درمیانی قد والے تھے اور آپ کا مقدس بدن انتہائی خوب صورت تھا جب چلتے تھے تو کچھ خمیدہ ہو کر چلتے تھے۔(2)
(شمائل ترمذی ص۱)
اسی طرح حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نہ طویل القامت تھے نہ پستہ قدبلکہ آپ میانہ قد تھے۔ بوقت ِرفتار ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا آپ کسی بلندی سے اتر رہے ہیں۔ میں نے آپ کا مثل نہ آپ سے پہلے دیکھا نہ آپ کے بعد۔(3)
(شمائل ترمذی صفحہ۱)
"حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا حلیہ مبارکہ بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ""ضخم الراس"" یعنی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا سر مبارک ""بڑا"" تھا(جو شاندار اور وجیہ ہونے کا نشان ہے۔) (1)"
رُخِ انور
"جس کے آگے سرسروراں خم رہیں
اُس سرتاج رفعت پہ لاکھوں سلام"
"اتروائے تو وہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں بطور تبرک تقسیم ہوئے اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے نہایت ہی عقیدت کے ساتھ اس موئے مبارک کو اپنے پاس محفوظ رکھا اور اس کو اپنی جانوں سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔
حضرت بی بی اُمِ سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے ان مقدس بالوں کو ایک شیشی میں رکھ لیا تھا جب کسی انسان کو نظر لگ جاتی یا کوئی مرض ہوتا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہااس شیشی کو پانی میں ڈبو کر دیتی تھیں اور اس پانی سے شفاء حاصل ہوتی تھی۔(1)"
(بخاری ج۲ ص۸۷۵ باب مایذکر فی الشیب)
"وہ کرم کی گھٹا گیسوئے مشک سا
لکۂ ابر رأفت پہ لاکھوں سلام"
"حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا چہرۂ منور جمالِ الٰہی کا آئینہ اور انوارِ تجلی کا مظہر تھا۔ نہایت ہی وجیہ،پر گوشت اور کسی قدر گولائی لئے ہوئے تھا۔ حضرت جابر بن سمرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو ایک مرتبہ چاندنی رات میں دیکھا میں ایک مرتبہ چاند کی طرف دیکھتا اورایک مرتبہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کے چہرئہ انور کو دیکھتا تو مجھے آپ کا چہرہ چاند سے بھی زیادہ خوبصورت نظر آتا تھا۔(2)
حضرت براء بن عازب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ کیا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا چہرہ (چمک دمک میں) تلوار کی مانند تھا؟ تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلمکا چہرہ چاند کے مثل تھا۔ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حلیہ مبارکہ کو بیان کرتے ہوئے یہ کہا کہ"
"1…صحیح البخاری،کتاب اللباس،باب مایذکر فی الشیب ،الحدیث:۵۸۹۶،ج۴،ص۷۹
2…الشمائل المحمدیۃ،باب ماجاء فی خلق رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم،الحدیث:۹،ص۲۴"
مَنْ رَاٰہُ بَدِیْھَۃً ھَابَہٗ وَمَنْ خَالَطَہٗ مَعْرِفَۃً اَحَبَّہٗ (1)
(شمائل ترمذی ص۲)
"جو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اچانک دیکھتا وہ آپ کے رعب داب سے ڈر جاتا اور پہچاننے کے بعد آپ سے ملتا وہ آپ سے محبت کرنے لگتا تھا۔
حضرت براء بن عازب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تمام انسانوں سے بڑھ کر خوبرو اور سب سے زیادہ اچھے اخلاق والے تھے۔(2)"
(بخاری ج۱ ص۵۰۲ باب صفۃ النبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)
حضرت عبداﷲ بن سلام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے آپ کے چہرہ انور کے بارے میں یہ کہا:
فَلَمَّا تَبَیَّنْتُ وَجْھَہٗ عَرَفْتُ اَنَّ وَجْھَہٗ لَیْسَ بِوَجْہِ کَذَّابٍ۔(3)
یعنی میں نے جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے چہرئہ انور کو بغور دیکھا تو میں نے پہچان لیا کہ آپ کا چہرہ کسی جھوٹے آدمی کا چہرہ نہیں ہے۔
( مشکوٰۃ ج۱ ص۱۶۸ باب فضل الصدقہ)
"چیز حسن کا معجزہ ہے لیکن خاص کر ان کا چہرہ تو آیت کبریٰ (بہت ہی بڑا معجزہ) ہے۔
ان کے رخسار کے صحن میں ان کے تل کا بلال ان کی روشن پیشانی کی چمک سے صبح صادق کو دیکھ کر اذان کہا کرتا تھا۔"
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کی بھوئیں دراز و باریک اور گھنے بال والی تھیں اور دونوں بھوئیں اس قدر متصل تھیں کہ دور سے دونوں ملی ہوئی معلوم ہوتی تھیں اور ان دونوں بھوؤں کے درمیان ایک رگ تھی جو غصہ کے وقت ابھر جاتی تھی۔(1)
(شمائل ترمذی ص۲)
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ابروئے مبارک کی مد ح میں فرماتے ہیں کہ ؎
"جن کے سجدے کو محرابِ کعبہ جھکی اُن بھوؤں کی لطافت پہ لاکھوں سلام"
"اور حضرت محسن کاکوروی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے چہرہ انور میں محراب ابرو کے حسن کی تصویر کشی کرتے ہوئے یہ لکھا کہ ؎"
" مہ کامل میں مہ نور کی یہ تصویریں ہیں یا کھنچی معرکۂ بدر میں شمشیریں ہیں"
کرتے تھے۔(1)
(زرقانی علی المواہب ج۵ ص۲۴۶ وخصائص کبریٰ ج۱ ص۶۱)
چنانچہ بخاری و مسلم کی روایات میں آیا ہے کہ
اَقِیْمُوا الرُّکُوْعَ وَالسُّجُوْدَ فَوَاللّٰہِ اِنِّیْ لَاَ رَاکُمْ مِنْ بَعْدِیْ(2)
(مشکوٰۃ ص۸۲ باب الرکوع)
"یعنی اے لوگو!تم رکوع و سجود کو درست طریقے سے ادا کرو کیونکہ خدا کی قسم! میں تم لوگوں کو اپنے پیچھے سے بھی دیکھتا رہتا ہوں۔
صاحب ِمرقاۃ نے اس حدیث کی شرح میں فرمایا کہ"
""" وَھِیَ مِنَ الْخَوَارِقِ الَّتِیْ اُعْطِیَھَا عَلَیْہِ السَّلَام"" (3)"
ہے۔ سبحان اﷲ! چشمانِ مصطفی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے اعجاز کی شان کا کیا کوئی بیان کر سکتا ہے؟ اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب قبلہ بریلوی قدس سرہٗ نے کیا خوب فرمایا ؎
"شش جہت سمت مقابل شب و روز ایک ہی حال
دھوم ""والنجم"" میں ہے آپ کی بینائی کی
فرش تا عرش سب آئینہ ضمائر حاضر
بس قسم کھائیے امی تری دانائی کی"
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی متبرک ناک خوبصورت دراز اور بلند تھی جس پر ایک نور چمکتا تھا۔ جو شخص بغور نہیں دیکھتا تھا وہ یہ سمجھتا تھا کہ آپ کی مبارک ناک بہت اونچی ہے حالانکہ آپ کی ناک بہت زیادہ اونچی نہ تھی بلکہ بلندی اس نور کی وجہ سے محسوس ہوتی تھی جو آپ کی مقدس ناک کے اوپر جلوہ فگن تھا۔(1)
(شمائل ترمذی ص۲ وغیرہ)
"نیچی آنکھوں کی شرم و حیا پر درود
اونچی بینی کی رفعت پہ لاکھوں سلام"
حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کے چہرہ انور کا حلیہ بیان کرتے ہیں کہ
"""واسع الجبین"""
یعنی آپ کی مبارک پیشانی کشادہ اور چوڑی تھی۔
"مَتَی یَبْدُ فِی الدَّاجِی الْبَھِیْمِ جَبِیْنُہٗ!
یَلُحْ مِثْلَ مِصْبَاحِ الدُّجَی الْمُتَوَقِّدِ(1)"
یعنی جب اندھیری رات میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کی مقدس پیشانی ظاہر ہوتی ہے تو اس طرح چمکتی ہے جس طرح رات کی تاریکی میں روشن چراغ چمکتے ہیں۔
" آپ کی آنکھوں کی طرح آپ کے کان میں بھی معجزانہ شان تھی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے خود اپنی زبان اقدس سے ارشاد فرمایا کہ"
اِنِّیْ اَرٰی مَالَا تَرَوْنَ وَاَسْمَعُ مَالَا تَسْمَعُوْنَ
(خصائص کبریٰ ج۱ ص۶۷)
"یعنی میں ان چیزوں کو دیکھتا ہوں جن کو تم میں سے کوئی نہیں دیکھتا اور میں ان آوازوں کو سنتا ہوں جن کو تم میں سے کوئی نہیں سنتا۔(2)
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سمع و بصر کی قوت بے مثال اور معجزانہ شان رکھتی تھی۔ کیونکہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم دورو نزدیک کی آوازوں کو یکساں طور پر سن لیا کرتے تھے۔ چنانچہ آپ کے حلیف بنی خزاعہ نے،جیسا کہ فتح مکہ کے بیان میں آپ پڑھ چکے ہیں، تین دن کی مسافت سے آپ کو اپنی امداد و نصرت کے لئے پکارا تو آپ نے ان کی فریاد سن لی۔ علامہ زرقانی نے اس حدیث کی شرح میں فرمایا کہ"
لَا بُعْدَ فِیْ سَمَآعِہٖ صَلَی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَدْ کَانَ یَسْمَعُ اَطِیْطَ السَّمَآءِ
"دور ونزدیک کے سننے والے وہ کان
کان لعل کرامت پہ لاکھوں سلام"
حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کے رخسار نرم و نازک اور ہموار تھے اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا منہ فراخ، دانت کشادہ اور روشن تھے۔ جب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم گفتگو فرماتے تو آپ کے دونوں اگلے دانتوں کے درمیان سے ایک نور نکلتا تھا اور جب کبھی اندھیرے میں آپ مسکرا دیتے تو دندانِ مبارک کی چمک سے روشنی ہو جاتی تھی۔(1)
(شمائل ترمذی ص۲و خصائص کبریٰ ج۱ ص۷۴)
"وہ زباں جس کو سب کن کی کنجی کہیں اس کی نافذ حکومت پہ لاکھوں سلام
اسکی پیاری فصاحت پہ بےحد درود اسکی دلکش بلاغت پہ لاکھوں سلام"
"آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا لعابِ دہن(تھوک)زخمیوں اور بیماریوں کے لئے شفاء اور زہروں کے لئے تریاقِ اعظم تھا۔ چنانچہ آپ معجزات کے بیان میں پڑھیں گے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے پاؤں میں غار ثور کے اندر سانپ نے کاٹا۔ اس کا زہر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے لعابِ دہن سے اتر گیا اور زخم اچھا ہو گیا۔ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے آشوبِ چشم کے لئے یہ لعاب دہن ''شفاء العین'' بن گیا۔ حضرت رفاعہ بن رافع رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی آنکھ میں جنگ بدر کے دن تیر لگا اور پھوٹ گئی مگر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے لعاب دہن سے ایسی شفا حاصل ہوئی کہ درد بھی جاتا رہا اور آنکھ کی روشنی بھی برقرار رہی۔ (زاد المعاد غزوۂ بدر)
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چہرے پر تیر لگا،آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس پر اپنا لعاب دہن لگا دیا فوراً ہی خون بند ہو گیا اور پھر زندگی بھر ان کو کبھی تیر و تلوار کا زخم نہ لگا۔(1)(اصابہ تذکرۂ ابو قتادہ)
شفاء کے علاوہ اور بھی لعاب دہن سے بڑی بڑی معجزانہ برکات کا ظہور ہوا۔ چنانچہ حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے گھر میں ایک کنواں تھا۔ آپ نے اس میں اپنا لعاب دہن ڈال دیا تو اس کا پانی اتنا شیریں ہو گیا کہ مدینہ منورہ میں اس سے بڑھ کر کوئی شیریں کنواں نہ تھا۔(2)(زرقانی ج۵ ص ۲۴۶)"
"1۔۔۔۔۔۔الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ ، ابوقتادۃبن ربعی الانصاری ، ج۷،ص ۲۷۲
2۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،الفصل الاول فی کمال خلقتہ...الخ،ج۵،ص۲۸۹"
"امام بیہقی نے یہ حدیث روایت کی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم عاشوراء کے دن دودھ پیتے بچوں کو بلاتے تھے اور ان کے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈال دیتے تھے۔ اور ان کی ماؤں کو حکم دیتے تھے کہ وہ رات تک اپنے بچوں کو دودھ نہ پلائیں ۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا یہی لعاب دہن ان بچوں کو اس قدر شکم سیر اور سیراب کردیتا تھا کہ ان بچوں کو دن بھر نہ بھوک لگتی تھی نہ پیاس۔(1)(زرقانی ج۵ ص۲۴۶)
جس کے پانی سے شاداب جان و جناں اس دہن کی طراوت پہ لاکھوں سلام
جس سے کھاری کنوئیں شیرۂ جاں بنے اس زلال حلاوت پہ لاکھوں سلام"
"یہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے خصائص میں سے ہے کہ وہ خوب صورت اور خوش آواز ہوتے ہیں لیکن حضورِ سید المرسلین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تمام انبیاء علیہم السلام سے زیادہ خوبرو اور سب سے بڑھ کر خوش گلو، خوش آواز اور خوش کلام تھے،خوش آوازی کے ساتھ ساتھ آپ اس قدر بلند آواز بھی تھے کہ خطبوں میں دور اور نزدیک والے سب یکساں اپنی اپنی جگہ پر آپ کا مقدس کلام سن لیا کرتے تھے۔(2)
(زرقانی ج۴ ص۱۷۸)
جس میں نہریں ہیں شیروشکر کی رواں
اس گلے کی نضارت پہ لاکھوں سلام"
حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے بیان فرمایا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
"1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،الفصل الاول فی کمال خلقتہ...الخ،ج۵،ص۲۸۹
2۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواہب،الفصل الاول فی کمال خلقتہ...الخ،ج۵،ص۴۴۴۔۴۴۵"
وسلم کی گردن مبارک نہایت ہی معتدل،صراحی دار اور سڈول تھی۔ خوبصورتی اور صفائی میں نہایت ہی بے مثل خوب صورت اور چاندی کی طرح صاف و شفاف تھی۔ (1) (شمائل ترمذی ص۲)
"آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس ہتھیلیاں چوڑی، پُرگوشت، کلائیاں لمبی، بازو دراز اور گوشت سے بھرے ہوئے تھے۔(2)(شمائل ترمذی ص۲)
حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کسی ریشم اور دیبا کو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ہتھیلیوں سے زیادہ نرم و نازک نہیں پایا اور نہ کسی خوشبو کو آپ کی خوشبو سے بہتر اور بڑھ کر خوشبودار پایا۔(3)
(بخاری ج۱ ص۵۰۲ باب صفۃ النبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ج۲ ص۲۵۷)
جس شخص سے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مصافحہ فرماتے وہ دن بھر اپنے ہاتھوں کو خوشبو دار پاتا۔ جس بچے کے سر پر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اپنا دست اقدس پھرا دیتے تھے وہ خوشبو میں تمام بچوں سے ممتاز ہوتا۔ حضرت جابر بن سمرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ظہر ادا کی پھر آپ اپنے گھر کی طرف روانہ ہوئے اور میں بھی آپ کے ساتھ ہی نکلا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو دیکھ کر چھوٹے چھوٹے بچے آپ کی طرف دوڑ پڑے تو آپ ان میں سے ہر ایک کے رخسار پر اپنا دستِ رحمت پھیرنے لگے میں سامنے آیا تو میرے رخسار پر بھی آپ نے اپنا"
"1۔۔۔۔۔۔الشمائل المحمدیۃ،باب ماجاء فی خلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،الحدیث:۷،ص۲۱ملتقطاً
2۔۔۔۔۔۔الشمائل المحمدیۃ،باب ماجاء فی خلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،الحدیث:۷،ص۲۱ملتقطاً
3۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المناقب،باب صفۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم،الحدیث:۳۵۶۱،ج۲،ص۴۸۹"
"دستِ مبارک لگا دیا تو میں نے اپنے گالوں پر آپ کے دستِ مبارک کی ٹھنڈک محسوس کی اور ایسی خوشبو آئی کہ گویا آپ نے اپنا ہاتھ کسی عطر فروش کی صندوقچی میں سے نکالا ہے۔ (1)(مسلم ج۲ ص۲۵۶ باب طیب ریحہ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)
اس دست مبارک سے کیسے کیسے معجزات و تصرفات عالم ظہور میں آئے ان کا کچھ تذکرہ آپ معجزات کے بیان میں پڑھیں گے۔ ؎"
"ہاتھ جس سمت اٹھا غنی کردیا موج بحر سماحت پہ لاکھوں سلام
جس کو بار دو عالم کی پروا نہیں ایسے بازو کی قوت پہ لاکھوں سلام
کعبہ دین و ایماں کے دونوں ستون ساعدین رسالت پہ لاکھوں سلام
جس کے ہر خط میں ہے موج نور کرم اُس کف بحر ہمت پہ لاکھوں سلام
نور کے چشمے لہرائیں دریا بہیں انگلیوں کی کرامت پہ لاکھوں سلام"
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا شکم و سینہ اقدس دونوں ہموار اور برابر تھے۔ نہ سینہ شکم سے اونچا تھا نہ شکم سینہ سے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا سینہ چوڑا تھا اور سینہ کے اوپر کے حصہ سے ناف تک مقدس بالوں کی ایک پتلی سی لکیر چلی گئی تھی مقدس چھاتیاں اور پورا شکم بالوں سے خالی تھا۔ ہاں شانوں اور کلائیوں پر قدرے بال تھے۔(2)(شمائل ترمذی ص۲)
"1۔۔۔۔۔۔صحیح مسلم،کتاب الفضائل،باب طیب رائحۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم...الخ،الحدیث: ۲۳۲۹،ص۱۲۷۱
2۔۔۔۔۔۔الشمائل المحمدیۃ،باب ماجاء فی خلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،الحدیث:۷،ص۲۱ملتقطاً"
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا شکم صبروقناعت کی ایک دنیا اور آپ کا سینہ معرفت الٰہی کے انوار کا سفینہ اور وحی الٰہی کا گنجینہ تھا۔ ؎
"آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مقدس پاؤں چوڑے پر گوشت، ایڑیاں کم گوشت والی، تلوا اونچا جو زمین میں نہ لگتا تھا دونوں پنڈلیاں قدرے پتلی اور صاف و شفاف، پاؤں کی نرمی اور نزاکت کا یہ عالم تھا کہ ان پر پانی ذرا بھی نہیں ٹھہرتا تھا۔ (1) (شمائل ترمذی ص۲ومدارج النبوۃ وغیرہ)
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم چلنے میں بہت ہی وقار و تواضع کے ساتھ قدم شریف کو زمین پر رکھتے تھے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ چلنے میں میں نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے بڑھ کر تیز رفتار کسی کو نہیں دیکھا گویا زمین آپ کے لئے لپیٹی جاتی تھی۔ ہم لوگ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ دوڑا کرتے تھے اور تیز چلنے سے مشقت میں پڑ جاتے تھے مگر آپ نہایت ہی وقار و سکون کے ساتھ چلتے رہتے تھے مگر پھر بھی ہم سب لوگوں سے آپ آگے ہی رہتے تھے۔(2)(شمائل ترمذی ص۲ وغیرہ)"
"۔۔۔۔۔۔الشمائل المحمدیۃ،باب ماجاء فی خلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،الحدیث:
۷،ص۲۱ملتقطاً
2۔۔۔۔۔۔الشمائل المحمدیۃ،باب ماجاء فی مشیۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،الحدیث:۱۱۶،ص۸۶"
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم زیادہ تر سوتی لباس پہنتے تھے ۔اون اور کتان کا لباس بھی کبھی کبھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے استعمال فرمایا ہے۔ لباس کے بارے میں کسی خاص پوشاک یا امتیازی لباس کی پابندی نہیں فرماتے تھے۔ جبہ، قبا، پیرہن، تہمد، حلہ، چادر، عمامہ، ٹوپی،موزہ ان سب کو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے زیب تن فرمایا ہے۔ پائجامہ کو آپ نے پسند فرمایا اور منیٰ کے بازار میں ایک پائجامہ خریدا بھی تھا لیکن یہ ثابت نہیں کہ کبھی آپ نے پائجامہ پہنا ہو۔(1)
"آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم عمامہ میں شملہ چھوڑتے تھے جو کبھی ایک شانہ پر اور کبھی دونوں شانوں کے درمیان پڑا رہتا تھا۔آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا عمامہ سفید، سبز، زعفرانی، سیاہ رنگ کا تھا۔ فتح مکہ کے دن آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کالے رنگ کا عمامہ باندھے ہوئے تھے ۔(2)(شمائل ترمذی ص۹ وغیرہ)
عمامہ کے نیچے ٹوپی ضرور ہوتی تھی فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے اور مشرکین کے عماموں میں یہی فرق و امتیاز ہے کہ ہم ٹوپیوں پر عمامہ باندھتے ہیں۔ (3) (ابو داؤد باب العمائم ص ۲۰۹ ج۲ مجتبائی)"
یمن کی تیار شدہ سوتی دھاری دار چادریں جو عرب میں''حبرہ'' یا بردیمانی
"1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی ،الفصل الثالث فیما تدعو ضرورتہ...الخ،ج ۶،
ص۲۵۴۔۳۴۵ ملخصاً وملتقطاً
2۔۔۔۔۔۔الشمائل المحمدیۃ،باب ماجاء فی عمامۃرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،الحدیث:۱۰۷، ۱۱۰،ص۸۲،۸۳
3۔۔۔۔۔۔سنن ابی داود،کتاب اللباس ، باب فی العمائم،االحدیث: ۴۰۷۸،ج۴،ص ۷۶"
"کہلاتی تھیں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو بہت زیادہ پسند تھیں اور آپ ان چادروں کو بکثرت استعمال فرماتے تھے۔ کبھی کبھی سبز رنگ کی چادر بھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے استعمال فرمائی ہے۔(1)
(ابو داؤد ج۲ ص۲۰۷ باب فی الخضرۃ مجتبائی)"
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کملی بھی بکثرت استعمال فرماتے تھے یہاں تک کہ بوقتِ وفات بھی ایک کملی اوڑھے ہوئے تھے۔ حضرت ابوبردہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے ایک موٹا کمبل اور ایک موٹے کپڑے کا تہبند نکالا اور فرمایا کہ انہی دونوں کپڑوں میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے وفات پائی۔(2) (ترمذی ج۱ ص۲۰۶ باب ماجاء فی الثوب)
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی نعلین اقدس کی شکل و صورت اور نقشہ بالکل ایسا ہی تھا جیسے ہندوستان میں چپل ہوتے ہیں۔ چمڑے کا ایک تلا ہوتا تھا جس میں تسمے لگے ہوتے تھے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس جوتیوں میں دو تسمے عام طور پر لگے ہوتے تھے جو کروم چمڑے کے ہوا کرتے تھے۔(3)(شمائل ترمذی ص۷ وغیرہ)
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے سفید، سیاہ، سبز، زعفرانی رنگوں کے کپڑے
"1۔۔۔۔۔۔سنن ابی داود،کتاب اللباس،باب فی لبس الحبرۃ،الحدیث:۴۰۶۰،ج۴،ص۷۱
وباب فی الخضرۃ،الحدیث:۴۰۶۵،ج۴،ص۷۳ملتقطاً
2۔۔۔۔۔۔سنن الترمذی،کتاب اللباس،باب ماجاء فی لبس الصوف،الحدیث:۱۷۳۹،ج۳،ص۲۸۴
3۔۔۔۔۔۔الشمائل المحمدیۃ،باب ماجاء فی نعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،الحدیث:۷۱،۷۲،ص۶۳"
استعمال فرمائے ہیں۔ مگر سفید کپڑا آپ کو بہت زیادہ محبوب و مرغوب تھا، سرخ رنگ کے کپڑوں کو آپ بہت زیادہ ناپسند فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سرخ رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ناگواری ظاہر فرماتے ہوئے دریافت فرمایا کہ یہ کپڑا کیسا ہے؟۔ انہوں نے ان کپڑوں کو جلا دیا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے سنا تو فرمایا کہ اس کو جلانے کی ضرورت نہیں تھی کسی عورت کو دے دینا چاہیے تھا کیونکہ عورتوں کے لئے سرخ لباس پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اسی طرح حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ایک مرتبہ ایک ایسے شخص کے پاس سے گزرے جو دوسرخ رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے تھا اس نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو سلام کیا تو آپ نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا۔(1) (ابو داؤدج۲ ص۲۰۷،۲۰۸ باب فی الحمرۃ)
جب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بادشاہوں کے نام دعوت اسلام کے خطوط بھیجنے کا ارادہ فرمایا تو لوگوں نے کہا کہ سلاطین بغیر مہر والے خطوط کو قبول نہیں کرتے تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی جس پر اُوپر تلے تین سطروں میں
''مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللہِ ''
کندہ کیا ہوا تھا۔(2)(شمائل ترمذی ص۷ وغیرہ)
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو خوشبو بہت زیادہ پسند تھی آپ ہمیشہ عطر کا استعمال
"1۔۔۔۔۔۔سنن ابی داود،کتاب اللباس،باب فی الحمرۃ ،الحدیث:۴۰۶۶،۴۰۶۹،ج۴،ص۷۳،۷۴ملخصاً
2۔۔۔۔۔۔الشمائل المحمدیۃ،باب ماجاء فی خاتم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،الحدیث:۸۵،۸۶،ص۶۹"
فرمایا کرتے تھے حالانکہ خود آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے جسم اطہر سے ایسی خوشبو نکلتی تھی کہ جس گلی میں سے آپ گزر جاتے تھے وہ گلی معطر ہو جاتی تھی۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ مردوں کی خوشبو ایسی ہونی چاہیے کہ خوشبو پھیلے اور رنگ نظر نہ آئے اورعورتوں کے لئے وہ خوشبو بہتر ہے کہ وہ خوشبو نہ پھیلے اور رنگ نظر آئے ۔کوئی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس خوشبو بھیجتا تو آپ کبھی رد نہ فرماتے اور ارشاد فرماتے کہ خوشبو کے تحفہ کو رد مت کرو کیونکہ یہ جنت سے نکلی ہوئی ہے۔(1)(شمائل ترمذی ص۱۵)
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم روزانہ رات کو ''اِثمد'' کا سرمہ لگایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس ایک سرمہ دانی تھی اس میں سے تین تین سلائی دونوں آنکھوں میں لگایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ اثمد کا سرمہ لگایا کرو یہ نگاہ کو روشن اور تیز کرتا ہے اور پلک کے بال اُگاتا ہے۔(2)(شمائل ترمذی ص۵)
گھوڑے کی سواری آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو بہت پسند تھی۔ گھوڑوں کے علاوہ اونٹ، خچر حمار(عربی گدھا جو گھوڑے سے زیادہ خوبصورت ہوتا ہے) پر بھی سواری فرمائی ہے۔ (3)(صحیحین وغیرہ کتب احادیث و سیر)
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا مزاجِ اقدس نہایت ہی لطیف اور نفاست
"1۔۔۔۔۔۔الشمائل المحمدیۃ،باب ماجاء فی تعطر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،الحدیث:۲۰۷، ۲۰۸،۲۱۰،۲۱۱،ص۱۳۰،۱۳۲ملخصاً
2۔۔۔۔۔۔الشمائل المحمدیۃ،باب ماجاء فی کحل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،الحدیث:۴۸،۴۹، ۵۰،ص۵۰،۵۱ملخصاً
3۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب الجہادوالسیر،باب الرد ف علی الحمار،الحدیث:۲۹۸۷،ج۲،
ص۳۰۶وکتاب الاذان،باب ایجاب التکبیر...الخ،الحدیث:۷۳۲،ج۱،ص۲۶۰"
"پسند تھا۔ ایک آدمی کو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے میلے کپڑے پہنے ہوئے دیکھا تو ناگواری کے ساتھ ارشاد فرمایاکہ اس سے اتنا بھی نہیں ہوتا کہ یہ اپنے کپڑوں کو دھو لیا کرے؟ ۔اسی طرح ایک شخص کو دیکھا کہ اس کے بال اُلجھے ہوئے ہیں تو فرمایا کہ کیا اس کو کوئی ایسی چیز(تیل کنگھی) نہیں ملتی کہ یہ اپنے بالوں کو سنوارلے۔(1)
(ابو داؤد ج۲ ص۲۰۷ باب فی الخلقان الخ مجتبائی)
اسی طرح ایک آدمی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس بہت ہی خراب قسم کے کپڑے پہنے ہوئے آگیا تو آپ نے اس سے دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس کیا کچھ مال بھی ہے؟ اس نے عرض کیا کہ جی ہاں میرے پاس اونٹ بکریاں گھوڑے غلام سبھی قسم کے مال ہیں۔ تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب اﷲ تعالیٰ نے تم کو مال دیا ہے تو چاہیے کہ تمہارے اوپر اس کی نعمتوں کا کچھ نشان بھی نظر آئے۔( یعنی اچھے اور صاف ستھرے کپڑے پہنو)(2)(ابو داؤد ج۲ ص۲۰۷ مجتبائی)"
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس زندگی چونکہ بالکل ہی زاہدانہ اور صبر و قناعت کا مکمل نمونہ تھی اس لئے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کبھی لذیذ اور پر تکلف کھانوں کی خواہش ہی نہیں فرماتے تھے یہاں تک کہ کبھی آپ نے چپاتی نہیں کھائی پھر بھی بعض کھانے آپ کو بہت پسند تھے جن کو بڑی رغبت کے ساتھ آپ تناول فرماتے تھے۔ مثلاً عرب میں ایک کھانا ہوتا ہے جو ''حیس'' کہلاتا ہے یہ گھی پنیر اور کھجور ملا کر پکایا جاتا ہے اس کو آپ بڑی رغبت کے ساتھ کھاتے تھے۔
"1۔۔۔۔۔۔سنن ابی داود،کتاب اللباس،باب فی غسل الثوب...الخ،الحدیث:۴۰۶۲،ج۴،ص۷۲
2۔۔۔۔۔۔سنن ابی داود،کتاب اللباس،باب فی غسل الثوب...الخ،الحدیث:۴۰۶۳،ج۴،ص۷۲"
"جوکی موٹی موٹی روٹیاں اکثر غذا میں استعمال فرماتے، سالنوں میں گوشت، سرکہ، شہد، روغن زیتون، کدو خصوصیت کے ساتھ مرغوب تھے۔ گوشت میں کدو پڑا ہوتا تو پیالہ میں سے کدو کے ٹکڑے تلاش کرکے کھاتے تھے۔
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بکری، دنبہ، بھیڑ، اونٹ، گورخر،خرگوش، مرغ، بٹیر، مچھلی کا گوشت کھایا ہے۔ اسی طرح کھجور اور ستو بھی بکثرت تناول فرماتے تھے۔ تربوز کو کھجور کے ساتھ ملا کر، کھجور کے ساتھ ککڑ ی ملا کر، روٹی کے ساتھ کھجور بھی کبھی کبھی تناول فرمایا کرتے تھے۔ انگور، انار وغیرہ پھل فروٹ بھی کھایا کرتے تھے۔
ٹھنڈا پانی بہت مرغوب تھا دودھ میں کبھی پانی ملا کراور کبھی خالص دودھ نوش فرماتے کبھی کشمش اور کھجور پانی میں ملا کر اس کا رس پیتے تھے جو کچھ پیتے تین سانس میں نوش فرماتے۔
ٹیبل(میز)پر کبھی کھانا تناول نہیں فرمایا،ہمیشہ کپڑے یا چمڑے کے دسترخوان پر کھانا کھاتے، مسند یا تکیہ پر ٹیک لگا کر یا لیٹ کر کبھی کچھ نہ کھاتے نہ اس کو پسند فرماتے۔ کھانا صرف انگلیوں سے تناول فرماتے چمچہ کانٹا وغیرہ سے کھانا پسند نہیں فرماتے تھے۔ ہاں ابلے ہوئے گوشت کو کبھی کبھی چھری سے کاٹ کاٹ کر بھی کھاتے تھے۔(1) (شمائل ترمذی)"
احادیث ِکریمہ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے دن رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ ایک خداعزوجل کی عبادت کے
"1۔۔۔۔۔۔الشمائل المحمدیۃ،باب ماجاء فی صفۃ اکل...الخ وباب ماجاء فی صفۃ خبز...الخ
وباب ماجاء فی ادام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،ص۹۵۔۱۱۴ملتقطاً"
"لئے ،دوسرا عام مخلوق کے لئے، تیسرا اپنی ذات کے لئے۔
عام طور پر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا یہ معمول تھا کہ نماز فجرکے بعد آپ اپنے مصلیٰ پر بیٹھ جاتے یہاں تک کہ آفتاب خوب بلند ہو جاتا۔ عام لوگوں سے ملاقات کا یہی خاص وقت تھا لوگ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوتے اور اپنی حاجات و ضروریات کو آپ کی بارگاہ میں پیش کرتے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ان کی ضروریات کو پوری فرماتے اور لوگوں کو مسائل و احکام اسلام کی تعلیم و تلقین فرماتے اپنے اور لوگوں کے خوابوں کی تعبیر بیان فرماتے۔ اس کے بعد مختلف قسم کی گفتگو فرماتے کبھی کبھی لوگ زمانہ جاہلیت کی باتوں اوررسموں کا تذکرہ کرتے اور ہنستے تو حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام بھی مسکرادیتے کبھی کبھی صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم آپ کو اشعار بھی سناتے۔(1)
(مشکوٰۃ ج۲ ص۴۰۶ باب الضحک) (ابو داؤد ج۲ ص۳۱۸ باب فی الرجل یجلس متربعاً)
اکثر اسی وقت میں مال غنیمت اور وظائف کی تقسیم بھی فرماتے۔ جب سورج خوب بلند ہو جاتا تو کبھی چار رکعت کبھی آٹھ رکعت نماز چاشت ادا فرماتے پھر ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے حجروں میں تشریف لے جاتے اور گھریلو ضروریات کے بندوبست میں مصروف ہو جاتے اور گھر کے کام کاج میں ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کی مدد فرماتے۔ (بخاری ج۱ ص۹۳ باب من کان فی حاجۃ اہلہ)
نماز عصر کے بعد آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تمام ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کو شرفِ ملاقات سے سرفراز فرماتے اور سب کے حجروں میں تھوڑی تھوڑی دیر ٹھہر کر کچھ گفتگو فرماتے پھر جس کی باری ہوتی وہیں رات بسر فرماتے، تمام ازواجِ مطہرات رضی اللہ"
"1۔۔۔۔۔۔مشکاۃ المصابیح،کتاب الاداب،باب الضحک،الحدیث:۴۷۴۷،ج۲،ص۱۷۹ملخصاً
وسنن ابی داود،کتاب الادب،باب فی الرجل...الخ،الحدیث:۴۸۵۰،ج۴،ص۳۴۵ملخصاً"
"تعالیٰ عنہن وہیں جمع ہو جاتیں،عشاء تک آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ان سے بات چیت فرماتے رہتے پھر نماز عشاء کے لئے مسجد میں تشریف لے جاتے اور مسجد سے واپس آ کر آرام فرماتے اور عشاء کے بعد بات چیت کونا پسند فرماتے ۔(1) (مسلم ج۱ ص۴۷۲ باب القسم بین الزوجات)
سونا جاگنا
نماز عشاء پڑھ کر آرام کرنا عام طور پر یہی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا معمول تھا، سونے سے پہلے قرآن مجید کی کچھ سورتیں ضرور تلاوت فرماتے اور کچھ دعاؤں کا بھی ورد فرماتے۔ پھر اکثر یہ دعا پڑھ کر دا ہنی کروٹ پر لیٹ جاتے کہ"
اَللّٰھُمَّ بِاسْمِکَ اَمُوْتُ وَاَحْیٰی
یااﷲ! تیرا نام لے کر وفات پاتا ہوں اور زندہ رہتا ہوں۔ نیند سے بیدار ہوتے تو اکثر یہ دعا پڑھتے کہ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَحْیَانَا بَعْدَ مَا اَمَاتَنَا وَاِلَیْہِ النُّشُوْرُ (2)
"اس خداکیلئے حمد ہے جس نے موت کے بعد ہم کو زندہ کیا اوراسی کی طرف حشر ہو گا۔
آدھی رات یا پہر رات رہے بستر سے اٹھ جاتے مسواک فرماتے پھر وضو کرتے اور عبادت میں مشغول ہو جاتے۔ تلاوت فرماتے، مختلف دعاؤں کا وظیفہ فرماتے، خصوصیت کے ساتھ نماز تہجد ادا فرماتے، تہجد کی نماز میں کبھی لمبی لمبی کبھی چھوٹی چھوٹی سورتیں پڑھتے، ضعف پیری میں کبھی کچھ رکعتیں بیٹھ کر بھی ادا فرماتے، نمازِ تہجد کے بعد وتر پڑھتے اور پھر صبح صادق طلوع ہو جانے کے بعد سنت فجر ادا فرما کر نمازِ فجر کے لئے مسجد میں تشریف لے جاتے، کبھی کبھی کئی کئی بار رات میں سوتے اور جاگتے اور قرآن مجید کی آیات تلاوت فرماتے اورکبھی ازواجِ مطہرات رضی اللہ"
"1۔۔۔۔۔۔صحیح مسلم،کتاب الرضاع،باب القسم بین الزوجات...الخ،الحدیث:۱۴۶۲،ص۷۷۰ملخصاً
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب الدعوات،باب وضع الیدالیمنی...الخ،الحدیث:۶۳۱۴،ج۴،ص۱۹۲"
تعالیٰ عنہن سے گفتگو بھی فرماتے۔(صحاح ستہ وغیرہ)
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بہت ہی باوقار رفتار کے ساتھ چلتے تھے۔ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ بوقت رفتار حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ذرا جھک کر چلتے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا آپ کسی بلندی سے اتر رہے ہیں ۔حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اس قدر تیز چلتے تھے کہ گویا زمین آپ کے قدموں کے نیچے سے لپیٹی جا رہی ہے۔ ہم لوگ آ پ کے ساتھ چلنے میں ہانپنے لگتے اور مشقت میں پڑ جاتے تھے مگر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بلا تکلف بغیر کسی مشقت کے تیز رفتاری کے ساتھ چلتے رہتے تھے۔ (1)(شمائل ترمذی ص۹)
حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بہت تیزی کے ساتھ جلدی جلدی گفتگو نہیں فرماتے تھے بلکہ نہایت ہی متانت اور سنجیدگی سے ٹھہر ٹھہر کر کلام فرماتے تھے بلکہ کلام اتنا صاف اور واضح ہوتا تھا کہ سننے والے اس کو سمجھ کر یاد کر لیتے تھے۔ اگر کوئی اہم بات ہوتی تو اس جملہ کو کبھی کبھی تین تین مرتبہ فرما دیتے تاکہ سامعین اس کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیں۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو ''جوامع الکلم'' کا معجزہ عطا کیا گیا تھا کہ مختصر سے جملہ میں لمبی چوڑی بات کو بیان فرما دیا کرتے تھے۔ حضرت ہند بن ابو ہالہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بلا ضرورت گفتگو نہیں فرماتے تھے بلکہ اکثر خاموش ہی رہتے تھے۔ (2) (شمائل ترمذی ص۱۵)
"1۔۔۔۔۔۔الشمائل المحمدیۃ ، باب ماجاء فی مشیۃ رسول اللہ صلی اللہ وسلم،الحدیث:۱۱۶،
۱۱۷،۱۱۸، ص۸۶،۸۷ملخصاً
2۔۔۔۔۔۔الشمائل المحمدیۃ،باب کیف کان کلام رسول اللہ،الحدیث:۲۱۳،۲۱۴،۲۱۵،ص۱۳۴،۱۳۵"
"حضور تاجدارِ دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا دربار سلاطین اور بادشاہوں جیسا دربار نہ تھا۔یہ دربار تخت و تاج، نقیب و دربان، پہرہ دار اورباڈی گارڈ وغیرہ کے تکلفات سے قطعاً بے نیاز تھا۔مسجد نبوی کے صحن میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے ایک چھوٹا سا مٹی کا چبوترہ بنا دیا تھا یہی تاجدار رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا وہ تخت شاہی تھا جس پر ایک چٹائی بچھا کر دونوں عالم کے تاجدار اور شہنشاہ کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم رونق افروز ہوتے تھے مگر اس سادگی کے باوجود جلالِ نبوت سے ہر شخص اس دربار میں پیکر تصویر نظر آتا تھا۔ بخاری شریف وغیرہ کی روایات میں آیا ہے کہ لوگ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دربار میں بیٹھتے تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا ان کے سروں پر چڑیاں بیٹھی ہوئی ہیں کوئی ذرا جنبش نہیں کرتا تھا۔(1)(بخاری ج۱ ص۳۹۸)
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے اس دربار میں سب سے پہلے اہل حاجت کی طرف تو جہ فرماتے اور سب کی درخواستوں کو سن کر ان کی حاجت روائی فرماتے۔ قبائل کے نمائندوں سے ملاقاتیں فرماتے تمام حاضرین کمال ادب سے سر جھکائے رہتے اور جب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کچھ ارشاد فرماتے تو مجلس پر سناٹا چھا جاتا اور سب لوگ ہمہ تن گوش ہو کر شہنشاہ کونین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے فرمان نبوت کو سنتے۔
(بخاری ج۱ ص۳۸۰ شروط فی الجہاد)
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دربار میں آنے والوں کے لئے کوئی روک ٹوک نہیں تھی امیر و فقیر شہری اور بدوی سب قسم کے لوگ حاضر دربار ہوتے اور اپنے اپنے"
1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب الجھادوالسیر،باب فضل النفقۃ فی سبیل اللہ،الحدیث:۲۸۴۲، ج۲،ص۲۶۶ملتقطاً
"لہجوں میں سوال و جواب کرتے کوئی شخص اگر بولتا تو خواہ وہ کتنا ہی غریب و مسکین کیوں نہ ہو مگر دوسرا شخص اگرچہ وہ کتنا ہی بڑا امیر کبیر ہو اس کی بات کاٹ کر بول نہیں سکتا تھا۔ سبحان اﷲ! ؎
وہ عادل جس کے میزان عدالت میں برابر ہیں
غبار مسکنت ہو یا وقارِ تاجِ سلطانی
جو لوگ سوال و جواب میں حد سے زیادہ بڑھ جاتے تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کمال حلم سے برداشت فرماتے اور سب کو مسائل و احکام اسلام کی تعلیم و تلقین اور مواعظ ونصائح فرماتے رہتے اور اپنے مخصوص اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے مشورہ بھی فرماتے رہتے اور صلح و جنگ اور امت کے نظام و انتظام کے بارے میں ضروری احکام بھی صادر فرمایا کرتے تھے۔ اسی دربار میں آپ مقدمات کا فیصلہ بھی فرماتے تھے۔"
نبی و رسول چونکہ دین کے داعی اورشریعت و ملت کے مبلغ ہوتے ہیں اور تعلیم شریعت اور تلقین دین کا بہترین ذریعہ خطبہ اور وعظ ہی ہے اس لئے ہر نبی و رسول کا خطیب اور واعظ ہونا ضروریات ولوازمِ نبوت میں سے ہے۔ یہی و جہ ہے کہ جب اﷲ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنی رسالت سے سرفراز فرما کر فرعون کے پاس بھیجا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس وقت یہ دعا مانگی کہ
قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِیۡ صَدْرِیۡ ﴿ۙ۲۵﴾وَ یَسِّرْ لِیۡۤ اَمْرِیۡ ﴿ۙ۲۶﴾وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِّنۡ لِّسَانِیۡ ﴿ۙ۲۷﴾یَفْقَہُوۡا قَوْلِیۡ ﴿۪۲۸﴾ (1)
اے میرے رب میرا سینہ کھول دے میرے لئے میرا کام آسان کر اور میری زَبان کی گرہ کھول دے کہ وہ لوگ میری بات سمجھیں۔(طہٰ)
1۔۔۔۔۔۔الف پ۱۶،طہ:۲۵۔۲۸
"حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم چونکہ تمام رسولوں کے سردارا اور سب نبیوں کے خاتم ہیں اس لئے خداوند قدوس نے آپ کو خطابت و تقریر میں ایسا بے مثال کمال عطا فرمایا کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم افصح العرب (تمام عرب میں سب سے بڑھ کر فصیح) ہوئے اور آپ کو جوامع الکلم کا معجزہ بخشا گیا کہ آپ کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے ایک ایک لفظ میں معانی و مطالب کا سمندر موجیں مارتا ہوا نظر آتا تھا اور آپ کے جوش تکلم کی تاثیرات سے سامعین کے دلوں کی دنیا میں انقلابِ عظیم پیدا ہو جاتا تھا۔
چنانچہ جمعہ وعیدین کے خطبوں کے سوا سینکڑوں مواقع پر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایسے ایسے فصیح و بلیغ خطبات اور موثر مواعظ ارشاد فرمائے کہ فصحاء عرب حیران رہ گئے اوران خطبوں کے اثرات و تاثیرات سے بڑے بڑے سنگدلوں کے دل موم کی طرح پگھل گئے اور دم زدن میں ان کے قلوب کی دنیا ہی بدل گئی۔
چونکہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مختلف حیثیتوں کے جامع تھے اس لئے آپ کی یہ مختلف حیثیات آپ کے خطبات کے طرز بیان پر اثر انداز ہوا کرتی تھیں۔ آپ ایک دین کے داعی بھی تھے، فاتح بھی تھے، امیر لشکر بھی تھے ،مصلح قوم بھی تھے، فرماں روا بھی تھے، اس لئے ان حیثیتوں کے لحاظ سے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے خطبات میں قسم قسم کا زور بیان اور طرح طرح کا جوشِ کلام ہوا کرتا تھا۔ جوشِ بیان کا یہ عالم تھا کہ بسا اوقات خطبہ کے دوران میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی آنکھیں سرخ اور آواز بہت ہی بلند ہو جاتی تھی اور جلالِ نبوت کے جذبات سے آپ کے چہرۂ انور پر غضب کے آثار نمودار ہو جاتے تھے بار بار انگلیوں کو اٹھا اٹھا کر اشارہ فرماتے تھے گویا ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آپ کسی لشکر کو للکار رہے ہیں۔ (1) (مسلم جلد۱ ص۲۸۴ کتاب الجمعہ)"
1۔۔۔۔۔۔صحیح مسلم،کتاب الجمعۃ،باب تخفیف الصلاۃ والخطبۃ،الحدیث:۸۶۷،ص۴۳۰
"چنانچہ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے پرجوش خطبہ اورتقریر کے جوش و خروش کی بہترین تصویر کھینچتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو منبر پر خطبہ دیتے سنا، آپ فرما رہے تھے کہ خداوند جبار آسمانوں اورزمین کو اپنے ہاتھ میں لے لے گا، پھر فرمائے گا کہ میں جبار ہوں، میں بادشاہ ہوں، کہاں ہیں جبار لوگ؟ کدھر ہیں متکبرین؟ یہ فرماتے ہوئے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کبھی مٹھی بند کر لیتے کبھی مٹھی کھول دیتے اور آپ کا جسم اقدس (جوش میں) کبھی دائیں کبھی بائیں جھک جھک جاتا یہاں تک کہ میں نے یہ دیکھا کہ منبر کا نچلا حصہ بھی اس قدر ہل رہا تھا کہ میں (اپنے دل میں) یہ کہنے لگا کہ کہیں یہ منبر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو لے کر گر تو نہیں پڑے گا۔(1)(ابن ما جہ ص۳۲۶ ذکر البعث)
آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے منبرپر، زمین پر، اُونٹ کی پیٹھ پر کھڑے ہو کر جیسا موقع پیش آیا خطبہ دیا ہے۔ کبھی کبھی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے طویل خطبات بھی دئیےلیکن عام طور پر آپ کے خطبات بہت مختصر مگر جامع ہوتے تھے۔
میدانِ جنگ میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کمان پر ٹیک لگا کر خطبہ ارشاد فرماتے اور مسجدوں میں جمعہ کا خطبہ پڑھتے وقت دستِ مبارک میں ''عصا'' ہوتا تھا۔(2)
(ابن ما جہ ص۷۹ باب ماجاء فی الخطبۃ یوم الجمعۃ)
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے خطبوں کے اثرات کا یہ عالم ہوتا تھا کہ بعض مرتبہ سخت سے سخت اشتعال انگیز موقعوں پر آپ کے چند جملے محبت کا دریا بہا دیتے تھے۔ حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ایک دن آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایسا اثر"
"1۔۔۔۔۔۔سنن ابن ماجہ،کتاب الزھد،باب ذکر البعث ، الحدیث:۴۲۷۵،ج۴،ص۵۰۵
2۔۔۔۔۔۔سنن ابن ماجہ،کتاب اقامۃالصلاۃ،باب ماجاء فی الخطبۃ...الخ،الحدیث:۱۱۰۷،ج۲،ص۱۹"
انگیز اور ولولہ خیز خطبہ پڑھا کہ میں نے کبھی ایسا خطبہ نہیں سنا تھا درمیان خطبہ میں آپ نے یہ ارشاد فرمایا کہ اے لوگو! جو میں جانتا ہوں اگر تم جان لیتے تو ہنستے کم اور روتے زیادہ۔ زبانِ مبارک سے اس جملہ کا نکلنا تھا کہ سامعین کایہ حال ہو گیا کہ لوگ کپڑوں میں منہ چھپا چھپا کر زارو قطار رونے لگے۔(1)(بخاری جلد۲ ص۶۶۵ تفسیر سورۂ مائدہ)
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم باوجود بے شمار مشاغل کے اتنے بڑے عبادت گزار تھے کہ تمام انبیاء و مرسلین علیہم الصلوٰۃ والتسلیم کی مقدس زندگیوں میں اس کی مثال ملنی دشوار ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ تمام انبیاء سابقین کے بارے میں صحیح طور سے یہ بھی نہیں معلوم ہو سکتا کہ ان کا طریقہ عبادت کیا تھا؟ اور ان کے کون کون سے اوقات عبادتوں کے لئے مخصوص تھے؟ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی امتوں میں یہ فخرو شرف صرف حضور خاتم الانبیاء صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم ہی کو حاصل ہے کہ انہوں نے اپنے پیارے رسول اللہ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی عبادات کے تمام طریقوں، ان کے اوقات و کیفیات غرض اس کے ایک ایک جزئیہ کو محفوظ رکھا ہے۔ گھروں کے اندر اور راتوں کی تاریکیوں میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جو اور جس قدر عبادتیں فرماتے تھے ان کو ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن نے دیکھ کر یاد رکھا اور ساری امت کو بتا دیا اور گھرکے باہر کی عبادتوں کو حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے نہایت ہی اہتمام کے ساتھ اپنی آنکھوں سے دیکھ دیکھ کر اپنے ذہنوں میں محفوظ کرلیا اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے قیام و قعود، رکوع و سجوداور ان کی کمیات و کیفیات، اذکار اور دعاؤں کے بعینہ الفاظ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ارشادات اور خضوع و خشوع کی کیفیات کو بھی اپنی یادداشت کے خزانوں میں محفوظ کر
1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب التفسیر،باب لاتسئلواعن اشیاء ...الخ،الحدیث:۴۶۲۱،ج۳،ص۲۱۷
لیا۔ پھر امت کے سامنے ان عبادتوں کا اس قدر چرچا کیا کہ نہ صرف کتابوں کے اوراق میں وہ محفوظ ہو کر رہ گئے بلکہ امت کے ایک ایک فردیہاں تک کہ پردہ نشین خواتین کو بھی ان کا علم حاصل ہو گیا اور آج مسلمانوں کا ایک ایک بچہ خواہ وہ کرۂ زمین کے کسی بھی گوشہ میں رہتا ہو اس کو اپنے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی عبادتوں کے مکمل حالات معلوم ہیں اور وہ ان عبادتوں پر اپنے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی اتباع میں جوش ایمان اور جذبہ عمل کے ساتھ کاربند ہے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی عبادتوں کا ایک اجمالی خاکہ حسب ذیل ہے۔
اعلانِ نبوت سے قبل بھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم غار حرا میں قیام و مراقبہ اور ذکر و فکر کے طور پر خداعزوجل کی عبادت میں مصروف رہتے تھے، نزول وحی کے بعد ہی آپ کو نماز کا طریقہ بھی بتا دیا گیا، پھر شب معراج میں نماز پنجگانہ فرض ہوئی۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نماز پنجگانہ کے علاوہ نماز اشراق، نماز چاشت، تحیۃ الوضوء، تحیۃ المسجد، صلوٰۃ الاوابین وغیرہ سنن و نوافل بھی ادا فرماتے تھے۔ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر نمازیں پڑھا کرتے تھے۔ تمام عمر نماز تہجد کے پابند رہے، راتوں کے نوافل کے بارے میں مختلف روایات ہیں۔ بعض روایتوں میں یہ آیا ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نماز عشاء کے بعد کچھ دیر سوتے پھر کچھ دیر تک اٹھ کر نماز پڑھتے پھر سو جاتے پھر اٹھ کر نماز پڑھتے۔ غرض صبح تک یہی حالت قائم رہتی۔ کبھی دو تہائی رات گزر جانے کے بعد بیدار ہوتے اور صبح صادق تک نمازوں میں مشغول رہتے ۔کبھی نصف رات گزر جانے کے بعد بسترسے اٹھ جاتے اور پھر ساری رات بستر پر پیٹھ نہیں لگاتے تھے اور لمبی لمبی سورتیں نمازوں میں پڑھا کرتے کبھی رکوع و سجود طویل ہوتا کبھی قیام طویل ہوتا۔ کبھی چھ رکعت،کبھی آٹھ رکعت ،کبھی اس
سے کم کبھی اس سے زیادہ۔ اخیر عمر شریف میں کچھ رکعتیں کھڑے ہو کر کچھ بیٹھ کر ادا فرماتے، نمازِ وتر نماز تہجد کے ساتھ ادا فرماتے، رمضان شریف خصوصاً آخری عشرہ میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی عبادت بہت زیادہ بڑھ جاتی تھی۔ آپ ساری رات بیدار رہتے اور اپنی ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن سے بے تعلق ہو جاتے تھے اور گھر والوں کو نمازوں کے لئے جگایا کرتے تھے اور عموماً اعتکاف فرماتے تھے۔ نمازوں کے ساتھ ساتھ کبھی کھڑے ہو کر، کبھی بیٹھ کر، کبھی سربسجود ہو کر نہایت آہ و زاری اور گریہ و بکا کے ساتھ گڑگڑا گڑگڑا کر راتوں میں دعائیں بھی مانگا کرتے، رمضان شریف میں حضرت جبریل علیہ السلام کے ساتھ قرآن عظیم کا دور بھی فرماتے اور تلاوت قرآن مجید کے ساتھ ساتھ طرح طرح کی مختلف دعاؤں کا ورد بھی فرماتے تھے اور کبھی کبھی ساری رات نمازوں اور دعاؤں میں کھڑے رہتے یہاں تک کہ پائے اقدس میں ورم آ جایا کرتا تھا۔ (صحاح ستہ وغیرہ کتب حدیث)
رمضان شریف کے روزوں کے علاوہ شعبان میں بھی قریب قریب مہینہ بھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم روزہ دار ہی رہتے تھے۔ سال کے باقی مہینوں میں بھی یہی کیفیت رہتی تھی کہ اگر روزہ رکھنا شروع فرما دیتے تو معلوم ہوتا تھا کہ اب کبھی روزہ نہیں چھوڑیں گے پھر ترک فرما دیتے تو معلوم ہوتا تھا کہ اب کبھی روزہ نہیں رکھیں گے۔ خاص کر ہر مہینے میں تین دن ایام بیض کے روزے، دو شنبہ و جمعرات کے روزے، عاشوراء کے روزے، عشرہ ذوالحجہ کے روزے، شوال کے چھ روزے، معمولاً رکھا کرتے تھے۔ کبھی کبھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ''صوم وصال'' بھی رکھتے تھے، یعنی کئی کئی دن رات کا ایک روزہ، مگر اپنی امت کو ایسا روزہ رکھنے سے منع فرماتے تھے، بعض صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے
عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) آپ تو صوم وصال رکھتے ہیں ۔ارشاد فرمایا کہ تم میں مجھ جیسا کون ہے؟ میں اپنے رب کے دربار میں رات بسر کرتا ہوں اور وہ مجھ کو (روحانی غذا) کھلاتا اور پلاتا ہے۔(1) (بخاری و مسلم صوم وصال)
چونکہ حضرات انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام پر خداوند قدوس نے زکوٰۃ فرض ہی نہیں فرمائی ہے اس لئے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پرزکوٰۃفرض ہی نہیں تھی۔(2)(زرقانی ج۸ ص۹۰) لیکن آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے صدقات و خیرات کا یہ عالم تھا کہ آپ اپنے پاس سونا چاندی یا تجارت کا کوئی سامان یا مویشیوں کا کوئی ریوڑ رکھتے ہی نہیں تھے بلکہ جو کچھ بھی آپ کے پاس آتا سب خداعزوجل کی راہ میں مستحقین پر تقسیم فرما دیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو یہ گوارا ہی نہیں تھا کہ رات بھر کوئی مال و دولت کا شانہ نبوت میں رہ جائے۔ ایک مرتبہ ایسا اتفاق پڑا کہ خراج کی رقم اس قدر زیادہ آگئی کہ وہ شام تک تقسیم کرنے کے باوجود ختم نہ ہو سکی تو آپ رات بھر مسجد ہی میں رہ گئے جب حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے آکر یہ خبر دی کہ یا رسول اﷲ!(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) ساری رقم تقسیم ہو چکی تو آپ نے اپنے مکان میں قدم رکھا۔ (3)(ابو داؤد باب قبول ہدایاالمشرکین)
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب الصوم،باب الوصال...الخ،الحدیث:۱۹۶۱،ج۱،ص۶۴۵
ووسائل الوصول الی شمائل الرسول،الباب السادس فی صفۃ عبادتہ صلی اللہ علیہ وسلم،
الفصل الثانی فی صفۃ صومہ صلی اللہ علیہ وسلم،ص۲۶۵۔۲۶۸ملتقطاً
2۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،النوع الثالث فی ذکر سیرتہ فی الزکاۃ،ج۱۱،ص۲۰۲
3۔۔۔۔۔۔سنن ابی داود،کتاب الخراج...الخ،باب فی الامام یقبل...الخ،الحدیث:۳۰۵۵،ج۳،
ص۲۳۱ملخصاً"
"اعلانِ نبوت کے بعد مکہ مکرمہ میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے دو یا تین حج کئے۔ (1)
(ترمذی باب کم حج النبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم و ابن ماجہ)
لیکن ہجرت کے بعدمدینہ منورہ سے ۱۰ ھ میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک حج فرمایاجوحجۃ الوداع کے نام سے مشہورہے جس کامفصل تذکرہ گزرچکا۔حج کے علاوہ ہجرت کے بعدآپ نے چارعمرے بھی ادافرمائے۔(2)(ترمذی وبخاری ومسلم کتاب الحج)"
"حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہر وقت ہر گھڑی ہر لحظہ ذکر الٰہی میں مصروف رہتے تھے۔(3)(ابو داؤد کتاب الطہارۃ وغیرہ)
اٹھتے بیٹھتے،چلتے پھرتے،کھاتے پیتے، سوتے جاگتے، وضو کرتے، نئے کپڑے پہنتے، سوار ہوتے، سواری سے اترتے، سفر میں جاتے، سفر سے واپس ہوتے، بیت الخلاء میں داخل ہوتے اور نکلتے، مسجد میں آتے جاتے، جنگ کے وقت، آندھی، بارش، بجلی کڑکتے وقت، ہر وقت ہر حال میں دعائیں وردِ زبان رہتی تھیں۔ خوشی اورغمی کے اوقات میں،صبح صادق طلوع ہونے کے وقت، غروبِ آفتاب کے وقت، مرغ کی آواز سن کر،گدھے کی آواز سن کر،غرض کون سا ایسا موقع تھا کہ آپ کوئی دعا نہ پڑھتے دن ہی میں نہیں بلکہ رات کے سناٹوں میں بھی برابر دعا خوانی اور ذکر الٰہی میں مشغول رہتے یہاں تک کہ بوقتِ وفات بھی جو فقرہ بار بار وردِ زَبان رہا وہ"
اَللّٰھُمَّ فِی الرَّفِیْقِ الْاَعْلٰی
کی دعا تھی۔(صحاح ستہ و حصن حصین وغیرہ کتب احادیث)
"1۔۔۔۔۔۔سنن الترمذی،کتاب الحج،باب کم حج النبی صلی اللہ علیہ وسلم،الحدیث:۸۱۵،ج۲،ص۲۲۰
2۔۔۔۔۔۔سنن التر مذی،کتاب الحج،باب کم اعتمرالنبی صلی اللہ علیہ وسلم،الحدیث:۸۱۷،ج۲،ص۲۲۱
3۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب الاذان،تحت الباب ھل یتتبع المؤذن...الخ،ج۱،ص۲۲۹"
آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ کے بارے میں خلق خدا سے کیا پوچھنا؟ جب کہ خود خالق اخلاق نے یہ فرما دیا کہ
وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیۡمٍ ﴿۴﴾ (1)
"یعنی اے حبیب! بلا شبہ آپ اخلاق کے بڑے درجہ پر ہیں۔
آج تقریباً چودہ سو برس گزر جانے کے بعد دشمنان رسول کی کیا مجال کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو بد اخلاق کہہ سکیں اس وقت جب کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے دشمنوں کے مجمعوں میں اپنے عملی کردار کا مظاہرہ فرما رہے تھے۔ خداوند قدوس نے قرآن میں اعلان فرمایا کہ"
فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللہِ لِنۡتَ لَہُمْ ۚ وَلَوْ کُنۡتَ فَظًّا غَلِیۡظَ الْقَلْبِ لَانۡفَضُّوۡا مِنْ حَوْلِکَ ۪ (2)
"(اے حبیب) خدا کی رحمت سے آپ لوگوں سے نرمی کے ساتھ پیش آتے ہیں اگر آپ کہیں بداخلاق اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے ہٹ جاتے۔(آلِ عمران)
دشمنانِ رسول نے قرآن کی زَبان سے یہ خدائی اعلان سنا مگر کسی کی مجال نہیں ہوئی کہ اس کے خلاف کوئی بیان دیتا یا اس آفتاب سے زیادہ روشن حقیقت کو جھٹلاتابلکہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے بڑے سے بڑے دشمن نے بھی اس کا اعتراف کیا کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بہت ہی بلند اخلاق، نرم خو اوررحیم و کریم ہیں۔"
1۔۔۔۔۔۔پ۲۹،القلم:۴ 2۔۔۔۔۔۔ پ۴،ال عمرٰن:۱۵۹
" بہر حال حضور نبی کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم محاسن اخلاق کے تمام گوشوں کے جامع تھے۔ یعنی حلم و عفو،رحم و کرم، عدل و انصاف، جود و سخا، ایثار و قربانی، مہمان نوازی، عدم تشدد، شجاعت، ایفاء عہد، حسن معاملہ، صبروقناعت، نرم گفتاری، خوش روئی، ملنساری، مساوات، غمخواری، سادگی وبے تکلفی، تواضع وانکساری، حیاداری کی اتنی بلند منزلوں پر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فائز و سرفراز ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے ایک جملے میں اس کی صحیح تصویر کھینچتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ'' کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآنَ'' یعنی تعلیمات قرآن پر پورا پورا عمل یہی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے اخلاق تھے۔(1)
اخلاق نبوت کا ایک مفصل وعظ ہم نے اپنی کتاب ''حقانی تقریریں'' میں تحریر کر دیا ہے یہاں بھی ہم اخلاق نبوت کے ''شجرۃ الخلد'' کی چند شاخوں کے کچھ پھول پھل پیش کر دیتے ہیں تا کہ ہم اور آپ ان پر عمل کرکے اپنی اسلامی زندگی کو کامل و اکمل بنا کر عالم اسلام میں مکمل مسلمان بن جائیں اور دارالعمل سے دارالجزاء تک خداوند عزوجل کے شامیانہ رحمت میں اس کے اعلیٰ و افضل انعاموں کے میٹھے میٹھے پھل کھاتے رہیں۔واللہ تعالٰی ھو الموفق و المعین."
"چونکہ تمام علمی و عملی اور اخلاقی کمالات کا دارومدار عقل ہی پر ہے اس لئے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی عقل کے بارے میں بھی کچھ تحریر کر دینا انتہائی ضروری ہے۔ چنانچہ اس سلسلے میں ہم یہاں صرف ایک حوالہ تحریر کرتے ہیں:
وہب بن منبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں نے اکہتر(۷۱) کتابوں میں یہ"
1۔۔۔۔۔۔دلائل النبوۃ للبیہقی،باب ذکراخباررویت فی شمائلہ...الخ،ج۱،ص۳۰۹
"پڑھا ہے کہ جب سے دنیا عالم وجود میں آئی ہے اس وقت سے قیامت تک کے تمام انسانوں کی عقلوں کا اگر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی عقل شریف سے موازنہ کیا جائے تو تمام انسانوں کی عقلوں کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عقل شریف سے وہی نسبت ہو گی جو ایک ریت کے ذرے کو تمام دنیا کے ریگستانوں سے نسبت ہے۔ یعنی تمام انسانوں کی عقلیں ایک ریت کے ذرے کے برابر ہیں ا ور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی عقل شریف تمام دنیا کے ریگستانوں کے برابر ہے۔اس حدیث کو ابو نعیم محدث نے حلیہ میں روایت کیا اور محدث ابن عساکر نے بھی اس کو روایت کیا ہے۔(1)
(زرقانی ج۴ ص۲۵۰ و شفاء شریف ج۱ ص۴۲)"
حضرت زید بن سعنہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جو پہلے ایک یہودی عالم تھے انہوں نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے کھجوریں خریدی تھیں۔ کھجوریں دینے کی مدت میں ابھی ایک دو دن باقی تھے کہ انہوں نے بھرے مجمع میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے انتہائی تلخ و ترش لہجے میں سختی کے ساتھ تقاضا کیا اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا دامن اور چادر پکڑ کر نہایت تندوتیز نظروں سے آپ کی طرف دیکھا اور چلا چلا کریہ کہاکہ اے محمد! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) تم سب عبدالمطلب کی اولاد کا یہی طریقہ ہے کہ تم لوگ ہمیشہ لوگوں کے حقوق ادا کرنے میں دیر لگایا کرتے ہو اورٹال مٹول کرنا تم لوگوں کی عادت بن چکی ہے۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ آپے سے باہر ہو گئے اور نہایت غضب ناک اور زہریلی نظروں سے گھور گھور کر کہا کہ اے خدا کے دشمن! تو خدا کے رسول سے
1۔۔۔۔۔۔الشفاء بتعریف حقوق المصطفی ، فصل واما وفور عقلہ،ج۱،ص ۶۷
ایسی گستاخی کر رہا ہے؟ خدا کی قسم! اگر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا ادب مانع نہ ہوتا تو میں ابھی ابھی اپنی تلوار سے تیراسر اڑا دیتا۔ یہ سن کر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عمر!رضی اللہ تعالیٰ عنہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ تمہیں تو یہ چاہیے تھا کہ مجھ کو ادائے حق کی ترغیب دے کر اور اس کو نرمی کے ساتھ تقاضا کرنے کی ہدایت کرکے ہم دونوں کی مدد کرتے۔ پھر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اے عمر!رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کو اس کے حق کے برابر کھجوریں دے دو،اور کچھ زیادہ بھی دے دو۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جب حق سے زیادہ کھجوریں دیں تو حضرت زید بن سعنہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اے عمر! میرے حق سے زیادہ کیوں دے رہے ہو؟ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ چونکہ میں نے ٹیڑھی ترچھی نظروں سے دیکھ کر تم کو خوفزدہ کر دیا تھا اس لئے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے تمہاری دلجوئی و دلدا ری کے لئے تمہارے حق سے کچھ زیادہ دینے کا مجھے حکم دیا ہے۔ یہ سن کر حضرت زید بن سعنہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اے عمر!کیا تم مجھے پہچانتے ہو میں زید بن سعنہ ہوں؟ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ تم وہی زید بن سعنہ ہو جو یہودیوں کا بہت بڑا عالم ہے۔ انہوں نے کہا جی ہاں۔ یہ سن کر حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے دریافت فرمایا کہ پھر تم نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ ایسی گستاخی کیوں کی؟ حضرت زید بن سعنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ اے عمر!رضی اللہ تعالیٰ عنہ در اصل بات یہ ہے کہ میں نے توراۃ میں نبی آخر الزمان کی جتنی نشانیاں پڑھی تھیں ان سب کو میں نے ان کی ذات میں دیکھ لیا مگر دو نشانیوں کے بارے میں مجھے ان کا امتحان کرنا باقی رہ گیا تھا۔ ایک یہ کہ ان کا حلم جہل پر غالب رہے گا اور جس قدر زیادہ ان کے ساتھ جہل کا برتاؤ کیا جائے گا اسی قدر ان کا حلم بڑھتا جائے گا۔ چنانچہ میں
"نے اس ترکیب سے ان دونوں نشانیوں کو بھی ان میں دیکھ لیا اور میں شہادت دیتا ہوں کہ یقینا یہ نبی برحق ہیں اور اے عمر!رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں بہت ہی مالدار آدمی ہوں میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنا آدھا مال حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی امت پر صدقہ کر دیا پھر یہ بارگاہ رسالت میں آئے اور کلمہ پڑھ کر دامن اسلام میں آگئے۔(1) (دلائل النبوۃ ج۱ ص۲۳ و زرقانی ج۴ ص۲۵۳)
حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ جنگ ِحنین سے واپسی پر دیہاتی لوگ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے چمٹ گئے اور آپ سے مال کا سوال کرنے لگے،یہاں تک آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو چمٹے کہ آپ پیچھے ہٹتے ہٹتے ایک ببول کے درخت کے پاس ٹھہر گئے۔ اتنے میں ایک بدوی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی چادر مبارک اچک کر لے بھاگا پھر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر ارشاد فرمایا کہ تم لوگ میری چادر تو مجھے دے دو اگر میرے پاس ان جھاڑیوں کے برابر چوپائے ہوتے تو میں ان سب کو تمہارے درمیان تقسیم کردیتا، تم لوگ مجھے نہ بخیل پاؤ گے نہ جھوٹا نہ بزدل۔ (2)(بخاری ج ۱ ص ۴۴۶)
حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ہمراہ چل رہا تھا اور آپ ایک نجرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے جس کے کنارے موٹے اور کھردرے تھے۔ ایک دم ایک بدوی نے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو پکڑ لیا اور اتنے زبردست جھٹکے سے چادر مبارک کو اس نے کھینچا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی نرم و"
"1۔۔۔۔۔۔دلائل النبوۃللبیہقی،باب استبراء زید بن سعنۃ...الخ،ج۱،ص۲۷۸
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری ،کتاب فرض الخمس ، باب ماکان النبی صلی اللہ علیہ وسلم...الخ، الحدیث: ۳۱۴۸،ج۲ ، ص ۳۵۹"
"نازک گردن پر چادر کی کنار سے خراش آ گئی پھراس بدوی نے یہ کہا کہ اﷲ کا جو مال آپ کے پاس ہے آپ حکم دیجئے کہ اس میں سے مجھے کچھ مل جائے۔ حضور رحمتِ عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب اس بدوی کی طرف تو جہ فرمائی تو کمال حلم و عفو سے اس کی طرف دیکھ کر ہنس پڑے اور پھر اس کو کچھ مال عطا فرمانے کا حکم صادر فرمایا۔(1) (بخاری ج۱ ص۴۴۶ باب ماکان یعطی النبی المولفۃ)
جنگ ِاُحد میں عتبہ بن ابی وقاص نے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے دندان مبارک کو شہید کر دیا اور عبداﷲ بن قمیۂ نے چہرۂ انور کو زخمی اور خون آلود کر دیا مگر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان لوگوں کے لئے اس کے سوا کچھ بھی نہ فرمایا کہ"
اَللّٰھُمَّ اھْدِ قَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
"یعنی اے اﷲ! عزوجل میری قوم کو ہدایت دے کیونکہ یہ لوگ مجھے جانتے نہیں۔(2)
خیبر میں زینب نامی یہودی عورت نے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو زہر دیا مگر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس سے کوئی انتقام نہیں لیا، لبید بن اعصم نے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر جادو کیا اور بذریعہ وحی اس کا سارا حال معلوم ہوا مگر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس سے کچھ مواخذہ نہیں فرمایا، غورث بن الحارث نے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے قتل کا ارادہ سے آپ کی تلوار لے کر نیام سے کھینچ لی، جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نیند سے بیدار ہوئے تو غورث کہنے لگا کہ اے محمد! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) اب کون ہے جو آپ کو مجھ سے بچا لے گا؟ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ''اﷲ''۔"
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری ،کتاب فرض الخمس ، باب ماکان النبی صلی اللہ علیہ وسلم...الخ
الحدیث:۳۱۴۹،ج۲ ، ص ۳۵۹
2۔۔۔۔۔۔الشفاء بتعریف حقوق المصطفی ، فصل واما الحلم ...الخ ، ج۱ ، ص ۱۰۵"
"نبوت کی ہیبت سے تلوار اس کے ہاتھ سے گر پڑی اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے تلوار ہاتھ میں لے کر فرمایا کہ بول! اب تجھ کو میرے ہاتھ سے کون بچانے والا ہے؟ غورث گڑ گڑا کر کہنے لگا کہ آپ ہی میری جان بچا دیں، رحمت عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کو چھوڑ دیااور معاف فرما دیا۔ چنانچہ غورث اپنی قوم میں آ کر کہنے لگا کہ اے لوگو! میں ایسے شخص کے پاس سے آیا ہوں جو تمام دنیا کے انسانوں میں سب سے بہتر ہے۔ (1)(شفا قاضی عیاض جلد۱ ص۶۲)
کفار مکہ نے وہ کون سا ایسا ظالمانہ برتاؤ تھا جو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ نہ کیا ہو مگر فتح مکہ کے دن جب یہ سب جباران قریش، انصار و مہاجرین کے لشکروں کے محاصرہ میں محصور و مجبور ہو کر حرم کعبہ میں خوف و دہشت سے کانپ رہے تھے اور انتقام کے ڈر سے ان کے جسم کا ایک ایک بال لرز رہا تھا۔ رسولِ رحمت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان مجرموں اور پاپیوں کو یہ فرما کر چھوڑ دیا اور معاف فرما دیا کہ"
لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ فَاذْھَبُوْا اَنْتُمُ الطُّلَقَاءُ
"آج تم سے کوئی مواخذہ نہیں ہے جاؤ تم سب آزاد ہو۔
ایک کافر کو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم پکڑ کر لائے کہ یا رسول اﷲ!(عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) اس نے آپ کے قتل کا ارادہ کیا تھا وہ شخص خوف و دہشت سے لرزہ براندام ہو گیا۔ رحمۃٌ للعالمین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم کوئی خوف نہ رکھو بالکل مت ڈرو اگر تم نے میرے قتل کا ارادہ کر لیا تھا تو کیا ہوا؟ تم کبھی میرے اوپر غالب نہیں ہو سکتے تھے کیونکہ خداوند تعالیٰ نے میری حفاظت کا وعدہ فرما لیا ہے۔ (2)(شفاء قاضی عیاض جلد۱ ص۶۳ وغیرہ)"
"1۔۔۔۔۔۔الشفاء بتعریف حقوق المصطفی،فصل واما الحلم...الخ،ج۱،ص ۱۰۶،۱۰۷
2۔۔۔۔۔۔الشفاء بتعریف حقوق المصطفی ، فصل اما الحلم...الخ ،ج۱،ص۱۰۸"
لغرض اس طرح کے نبی رحمت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں ہزاروں واقعات ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ حلم و عفو یعنی ایذاؤں کا برداشت کرنا اور مجرموں کو قدرت کے باوجود بغیر انتقام کے چھوڑ دینا اور معاف کر دینا آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی یہ عادت کریمہ بھی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ کا وہ عظیم شاہکار ہے جو ساری دنیا میں عدیم المثال ہے۔ حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ
" وَمَا انْتَقَمَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِنَفْسِہٖ اِلَّا اَنْ تُنْتَھَکَ حُرْمَۃُ اللہِ (1)
(شفاء شریف جلد۱ ص۶۱ وغیرہ و بخاری جلد۱ ص۵۰۳)"
اپنی ذات کے لئے کبھی بھی رسول اﷲ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے کسی سے انتقام نہیں لیا ہاں البتہ اﷲعزوجل کی حرام کی ہوئی چیزوں کا اگر کوئی مرتکب ہوتا تو ضرور اس سے مواخذہ فرماتے۔
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی شانِ تواضع بھی سارے عالم سے نرالی تھی، اﷲ تعالیٰ نے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو یہ اختیار عطا فرمایا کہ اے حبیب!صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اگر آپ چاہیں تو شاہانہ زندگی بسر فرمائیں اور اگر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلمچاہیں تو ایک بندے کی زندگی گزاریں، تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے بندہ بن کر زندگی گزارنے کو پسند فرمایا۔ حضرت اسرافیل علیہ السلام نے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی یہ تواضع دیکھ کر فرمایا کہ یا رسول اﷲ !(عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) آپ کی اس تواضع کے سبب سے اﷲ تعالیٰ نے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو یہ جلیل القدر مرتبہ عطا فرمایا ہے کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری ،کتاب المناقب ، باب صفۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، الحدیث:
۳۵۶۰،ج۲ ، ص۴۸۹"
"تمام اولاد آدم میں سب سے زیادہ بزرگ اور بلند مرتبہ ہیں اورقیامت کے دن سب سے پہلے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنی قبر انور سے اٹھائے جائیں گے اور میدانِ حشر میں سب سے پہلے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم شفاعت فرمائیں گے۔ (1) (زرقانی جلد۴ ص۲۶۲ و شفاء جلد۱ ص۸۶)
حضرت ابو امامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے عصاء مبارک پر ٹیک لگاتے ہوئے کاشانہ نبوت سے باہر تشریف لائے تو ہم سب صحابہ تعظیم کے لئے کھڑے ہو گئے یہ دیکھ کر تواضع کے طور پر ارشاد فرمایا کہ تم لوگ اس طرح نہ کھڑے رہا کرو جس طرح عجمی لوگ ایک دوسرے کی تعظیم کے لئے کھڑے رہا کرتے ہیں میں تو ایک بندہ ہوں بندوں کی طرح کھاتا ہوں اور بندوں کی طرح بیٹھتا ہوں۔(2) (شفاء شریف جلد۱ ص۸۶)
حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ حضور تاجدار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کبھی کبھی اپنے پیچھے سواری پر اپنے کسی خادم کو بھی بٹھا لیا کرتے تھے۔ ترمذی شریف کی روایت ہے کہ جنگ قریظہ کے دن آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سواری کے جانور کی لگام چھال کی رسی سے بنی ہوئی تھی۔(3) (زرقانی جلد۴ ص۲۶۴)
حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم غلاموں کی دعوت کو بھی قبول فرماتے تھے۔ جوکی روٹی اور پرانی چربی کھانے کی دعوت دی جاتی تھی تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اس دعوت کو قبول فرماتے تھے۔ مسکینوں کی بیمارپرسی فرماتے،"
"1۔۔۔۔۔۔الشفاء بتعریف حقوق المصطفی صلی اللہ علیہ وسلم،فصل واماتواضعہ،ج۱، ص۱۳۰
2۔۔۔۔۔۔الشفاء بتعریف حقوق المصطفی ، فصل و اما تواضعہ ، ج۱ ، ص ۱۳۰
3۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،الفصل الثانی فیما اکرمہ اللہ تعالٰی...الخ ،ج۶،ص۴۵"
"فقراء کے ساتھ ہم نشینی فرماتے اور اپنے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے درمیان مل جل کر نشست فرماتے۔ (1)(شفاء شریف جلد۱ ص۷۷)
حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے گھریلو کام خود اپنے دستِ مبارک سے کر لیا کرتے تھے۔ اپنے خادموں کے ساتھ بیٹھ کر کھاناتناول فرماتے تھے اور گھر کے کاموں میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے خادموں کی مدد فرمایا کرتے تھے۔ (2) (شفاء شریف جلد۱ ص۷۷)
ایک شخص دربار رسالت میں حاضر ہوا تو جلالت نبوت کی ہیبت سے ایک دم خائف ہو کر لرزہ براندام ہو گیا اورکانپنے لگا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم بالکل مت ڈرو۔ میں نہ کوئی بادشاہ ہوں، نہ کوئی جبار حاکم، میں تو قریش کی ایک عورت کا بیٹا ہوں جو خشک گوشت کی بوٹیاں کھایا کرتی تھی۔(3)
(زرقانی ج۴ ص۲۷۶ و شفاء جلد۱ ص۷۸)
فتح مکہ کے دن جب فاتحانہ شان کے ساتھ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے لشکروں کے ہجوم میں شہر مکہ کے اندر داخل ہونے لگے تو اس وقت آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر تواضع اور انکسار کی ایسی تجلی نمودار تھی کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اونٹنی کی پیٹھ پر اس طرح سر جھکائے ہوئے بیٹھے تھے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کاسر مبارک کجاوہ کے اگلے حصہ سے لگاہوا تھا۔(4) (شفاء جلد۱ ص۷۷)"
"1۔۔۔۔۔۔الشفاء بتعریف حقوق المصطفی ، فصل واما تو اضعہ،ج۱ ، ص ۱۳۱ ملتقطاً
2۔۔۔۔۔۔الشفاء بتعریف حقوق المصطفی ، فصل واما تو اضعہ،ج۱ ، ص ۱۳۲ ملتقطاً
3۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃمع شرح الزرقانی ،الفصل الثانی فیما اکرمہ اللہ...الخ ، ج۶، ص ۷۱
4۔۔۔۔۔۔الشفاء بتعریف حقوق المصطفی ، فصل واما تو اضعہ...الخ ،ج۱، ص۱۳۲"
"اسی طرح جب حجۃ الوداع میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ایک لاکھ شمع نبوت کے پروانوں کے ساتھ اپنی مقدس زندگی کے آخری حج میں تشریف لے گئے تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی اونٹنی پر ایک پرانا پالان تھا اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے جسم انور پر ایک چادر تھی جس کی قیمت چار درہم سے زیادہ نہ تھی اسی اونٹنی کی پشت پر اور اسی لباس میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خداوند ذوالجلال کے نائب اکرم اور تاجدار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہونے کی حیثیت سے اپنا شہنشاہی خطبہ پڑھا جس کو ایک لاکھ سے زائد فرزندان توحید ہمہ تن گوش بن کر سن رہے تھے۔(1) (زرقانی جلد۴ ص۲۶۸)
حضرت عبداﷲ بن عامر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی نعلین اقدس کا تسمہ ٹوٹ گیا اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے دست مبارک سے اس کو درست فرمانے لگے۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!(عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) مجھے دیجئے میں اس کو درست کر دوں، میری اس درخواست پر ارشاد فرمایا کہ یہ صحیح ہے کہ تم اس کو ٹھیک کر دو گے مگر میں اس کو پسند نہیں کرتا کہ میں تم لوگوں پر اپنی برتری اور بڑائی ظاہر کروں، اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو کسی کام میں مشغول دیکھ کر بار بار درخواست عرض کرتے کہ یارسول اﷲ!(عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) آپ خود یہ کام نہ کریں اس کام کو ہم لوگ انجام دیں گے مگر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یہی فرماتے کہ یہ سچ ہے کہ تم لوگ میرا سب کام کر دو گے مگر مجھے یہ گوارا نہیں ہے کہ میں تم لوگوں کے درمیان کسی امتیازی شان کے ساتھ رہوں۔(2)
(زرقانی جلد۴ ص۲۶۵)"
"1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃمع شرح الزرقانی ،الفصل الثانی فیما اکرمہ اللہ...الخ ، ج۶، ص ۵۴
2۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃمع شرح الزرقانی ،الفصل الثانی فیما اکرمہ اللہ...الخ ، ج۶، ص ۴۹"
"حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنی ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنھن اپنے احباب، اپنے اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم،اپنے رشتے داروں،اپنے پڑوسیوں ہر ایک کے ساتھ اتنی خوش اخلاقی اور ملنساری کا برتاؤ فرماتے تھے کہ ان میں سے ہر ایک آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اخلاقِ حسنہ کا گرویدہ اور مداح تھا،خادم خاص حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کابیان ہے کہ میں نے دس برس تک سفر و وطن میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت کا شرف حاصل کیا مگر کبھی بھی حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے نہ مجھے ڈانٹا نہ جھڑکا اور نہ کبھی یہ فرمایا کہ تو نے فلاں کام کیوں کیا اور فلاں کام کیوں نہیں کیا؟ (1)(زرقانی جلد۴ ص۲۶۶)
حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے زیادہ کوئی خوش اخلاق نہیں تھا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم یا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے گھر والوں میں سے جو کوئی بھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو پکارتا تو آپ لبیک کہہ کر جواب دیتے۔ حضرت جریر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں جب سے مسلمان ہوا کبھی بھی حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مجھے پاس آنے سے نہیں روکا اور جس وقت بھی مجھے دیکھتے تو مسکرا دیتے اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے خوش طبعی بھی فرماتے اور سب کے ساتھ مل جل کر رہتے اور ہر ایک سے گفتگو فرماتے اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے بچوں سے بھی خوش طبعی فرماتے اور ان بچوں کو اپنی مقدس گود میں بٹھا لیتے اور آزاد نیز لونڈی غلام اور مسکین سب کی دعوتیں قبول فرماتے اور مدینہ کے انتہائی حصہ میں رہنے والے مریضوں کی بیمار پرسی کے لئے"
1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃمع شرح الزرقانی ،الفصل الثانی فیما اکرمہ اللہ...الخ ، ج۶، ص ۴۲،۴۳
"تشریف لے جاتے اور عذر پیش کرنے والوں کے عذر کو قبول فرماتے۔(1) (شفاء شریف جلد۱ ص۷۱)
حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ اگر کوئی شخص حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے کان میں کوئی سرگوشی کی بات کرتا تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اس وقت تک اپنا سر اس کے منہ سے الگ نہ فرماتے جب تک وہ کان میں کچھ کہتا رہتا اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی مجلس میں کبھی پاؤں پھیلا کر نہیں بیٹھتے تھے ا ور جو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے سامنے آتا آپ سلام کرنے میں پہل کرتے اور ملاقاتیوں سے مصافحہ فرماتے اور اکثر اوقات اپنے پاس آنے والے ملاقاتیوں کے لئے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنی چادر مبارک بچھا دیتے اور اپنی مسند بھی پیش کر دیتے اور اپنے اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو ان کی کنیتوں اور اچھے ناموں سے پکارتے کبھی کسی بات کرنے والے کی بات کو کاٹتے نہیں تھے۔ ہر شخص سے خوش روئی کے ساتھ مسکرا کر ملاقات فرماتے، مدینہ کے خدام اور نوکر چاکر برتنوں میں صبح کو پانی لے کر آتے تا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ان کے برتنوں میں دست مبارک ڈبو دیں اور پانی متبرک ہو جائے توسخت جاڑے کے موسم میں بھی صبح کو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہر ایک کے برتن میں اپنا مقدس ہاتھ ڈال دیا کرتے تھے اور جاڑے کی سردی کے باوجود کسی کومحروم نہیں فرماتے تھے۔ (2)
(شفاء شریف جلد۱ ص۷۲)
حضرت عمرو بن سائب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میں ایک مرتبہ حضور صلی اﷲ"
"1۔۔۔۔۔۔الشفاء بتعریف حقوق المصطفی ، فصل واما حسن عشرتہ،ج۱ ، ص ۱۲۱
2۔۔۔۔۔۔الشفاء بتعریف حقوق المصطفی،فصل واماحسن عشرتہ،ج۱،ص۱۲۱،۱۲۲ملتقطاً"
"تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے رضاعی باپ یعنی حضرت بی بی حلیمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے شوہرتشریف لائے تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے کپڑے کا ایک حصہ ان کے لئے بچھا دیا اور وہ اس پر بیٹھ گئے پھر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی رضاعی ماں حضرت بی بی حلیمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا تشریف لائیں تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے کپڑے کا باقی حصہ ان کے لئے بچھا دیا پھر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی آئے تو آپ نے ان کو اپنے سامنے بٹھا لیا اور حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت ثویبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے پاس ہمیشہ کپڑا وغیرہ بھیجتے رہتے تھے یہ ابولہب کی لونڈی تھیں اور چند دنوں تک حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو انہوں نے بھی دودھ پلایا تھا۔(1) (شفاء شریف ج۱ ص۷۵)
آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے لئے کوئی مخصوص بستر نہیں رکھتے تھے بلکہ ہمیشہ ازواجِ مطہرات کے بستروں ہی پر آرام فرماتے تھے اور اپنے پیار و محبت سے ہمیشہ اپنی مقدس بیویوں رضی اللہ تعالیٰ عنہ ن کو خوش رکھتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں پیالے میں پانی پی کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو جب پیالہ دیتی تو آپ پیالے میں اسی جگہ اپنا لب مبارک لگا کر پانی نوش فرماتے جہاں میرے ہونٹ لگے ہوتے اور میں گوشت سے بھری کوئی ہڈی اپنے دانتوں سے نوچ کر وہ ہڈی حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو دیتی تو آپ بھی اسی جگہ سے گوشت کو اپنے دانتوں سے نوچ کر تناول فرماتے جس جگہ میرا منہ لگا ہوتا۔ (2) (زُرقانی جلد۴ ص۲۶۹)"
"1۔۔۔۔۔۔الشفاء بتعریف حقوق المصطفی ، فصل واما خلقہ ، ج۱ ، ص ۱۲۸،۱۲۹
2۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،الفصل الثانی فیمااکرمہ اللہ...الخ، ج۶،ص۵۵،۵۶ملتقطاً"
آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم روزانہ اپنی ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن سے ملاقات فرماتے اور اپنی صاحبزادیوں کے گھروں پر بھی رونق افروز ہو کر ان کی خبر گیری فرماتے اوراپنے نواسوں اور نواسیوں کو بھی اپنے پیار و شفقت سے بار بار نوازتے اور سب کی دلجوئی و رواداری فرماتے اور بچوں سے بھی گفتگو فرما کر ان کی بات چیت سے اپنا دل خوش کرتے اور ان کا بھی دل بہلاتے اپنے پڑوسیوں کی بھی خبر گیری اور ان کے ساتھ انتہائی کریمانہ اور مشفقانہ برتاؤ فرماتے الغرض آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے طرزِ عمل اور اپنی سیرت مقدسہ سے ایسے اسلامی معاشرہ کی تشکیل فرمائی کہ اگر آج دنیا آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ پر عمل کرنے لگے تو تمام دنیا میں امن و سکون اور محبت و رحمت کا دریا بہنے لگے اور سارے عالم سے جدال و قتال اور نفاق و شقاق کا جہنم بجھ جائے اور عالم کائنات امن و راحت اور پیار و محبت کی بہشت بن جائے۔
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ''حیاء'' کے بارے میں حضرت حق جل جلالہ کا قرآن میں یہ فرمان سب سے بڑا گواہ ہے کہ
اِنَّ ذٰلِکُمْ کَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنۡکُمْ ۫ (1)
"بے شک تمہاری یہ بات نبی کو ایذا پہنچاتی ہے لیکن وہ تم لوگوں سے حیا کرتے ہیں( اور تم کو کچھ کہہ نہیں سکتے)
آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی شان حیاء کی تصویر کھینچتے ہوئے ایک معزز صحابی حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ''آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کنواری پردہ"
1۔۔۔۔۔۔پ۲۲،الاحزاب:۵۳
"نشین عورت سے بھی کہیں زیادہ حیا دار تھے۔''(1)
(زرقانی جلد۴ ص۲۸۴ و بخاری جلد۱ ص۵۰۳ باب صفۃ النبی)
اس لئے ہر قبیح قول و فعل اور قابل مذمت حرکات و سکنات سے عمر بھر ہمیشہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا دامن عصمت پاک و صاف ہی رہا اور پوری حیات مبارکہ میں وقار و مروت کے خلاف آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے کوئی عمل سرزد نہیں ہوا۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نہ فحش کلام تھے نہ بے ہودہ گو نہ بازاروں میں شور مچانے والے تھے۔ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیا کرتے تھے بلکہ معاف فرما دیا کرتے تھے۔ آپ یہ بھی فرمایا کرتی تھیں کہ کمال حیا کی و جہ سے میں نے کبھی بھی حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو برہنہ نہیں دیکھا۔(2) (شفاء شریف جلد۱ ص۶۹)"
ایفاء عہد اور وعدہ کی پابندی بھی درخت اخلاق کی ایک بہت ہی اہم اور نہایت ہی ہری بھری شاخ ہے۔ اس خصوصیت میں بھی رسول عربی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا خلق عظیم بے مثال ہی ہے۔ حضرت ابو الحمساء رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ اعلان نبوت سے پہلے میں نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے کچھ سامان خریدا اسی سلسلے میں آپ کی کچھ رقم میرے ذمے باقی رہ گئی میں نے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ یہیں ٹھہریئے میں ابھی ابھی گھرسے رقم لا کر اسی جگہ پر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو دیتا ہوں۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اسی جگہ ٹھہرے رہنے کا وعدہ فرما لیا مگر میں گھر آکر اپنا وعدہ
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المناقب،باب صفۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم،الحدیث:۳۵۶۲، ج۲،ص۴۹۰
2۔۔۔۔۔۔الشفاء بتعریف حقوق المصطفی ، فصل واما الحیاء ،ج۱، ص ۱۱۹ملتقطاً"
بھول گیا پھر تین دن کے بعد مجھے جب خیال آیا تو رقم لے کراس جگہ پر پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اُسی جگہ ٹھہرے ہوئے میرا انتظار فرما رہے ہیں۔ مجھے دیکھ کر ذرا بھی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی پیشانی پر بل نہیں آیا اوراس کے سوا آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اور کچھ نہیں فرمایا کہ اے نوجوان !تم نے تو مجھے مشقت میں ڈال دیا کیونکہ میں اپنے وعدے کے مطابق تین دن سے یہاں تمہارا انتظار کر رہاہوں۔ (1) (شفاء شریف ص۷۴)
" خداعزوجل کے مقدس رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تمام جہان میں سب سے زیادہ امین سب سے بڑھ کرعادل اور پاک دامن وراست باز تھے۔ یہ وہ روشن حقیقت ہے کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے بڑے بڑے دشمنوں نے بھی اس کا اعتراف کیا۔ چنانچہ اعلان نبوت سے قبل تمام اہل مکہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو ''صادق الوعد'' اور ''امین'' کے معزز لقب سے یاد کرتے تھے۔ حضرت ربیع بن خثیم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ مکہ والوں کا اس بات پر اتفاق تھا کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اعلیٰ درجہ کے امین اور عادل ہیں اسی لئے اعلان نبوت سے پہلے اہل مکہ اپنے مقدمات اور جھگڑوں کا آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے فیصلہ کرایا کرتے تھے اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے تمام فیصلوں کو انتہائی احترام کے ساتھ بلا چون و چرا تسلیم کر لیتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ یہ امین کا فیصلہ ہے۔ (2)
(شفاء شریف جلد۱ ص۷۸،۷۹)
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کس قدر بلند مرتبہ عادل تھے اس بارے"
"1۔۔۔۔۔۔الشفاء بتعریف حقوق المصطفی ، فصل واما خلقہ...الخ،ج۱،ص ۱۲۶
2۔۔۔۔۔۔الشفاء بتعریف حقوق المصطفی ، فصل واما عدلہ،ج۱ ، ص ۱۳۴ ملتقطاً"
میں بخاری شریف کی ایک روایت سب سے بڑھ کر شاہد عدل ہے۔ قبیلہ قریش کے خاندان بنی مخزوم کی ایک عورت نے چوری کی، اسلام میں چور کی یہ سزا ہے کہ اس کا دایاں ہاتھ پہنچوں سے کاٹ ڈالا جائے۔ قبیلہ قریش کو اس واقعہ سے بڑی فکر دامن گیر ہو گئی کہ اگر ہمارے قبیلہ کی اس عورت کا ہاتھ کاٹ ڈالا گیا تو یہ ہماری خاندانی شرافت پر ایسا بدنما داغ ہو گا جو کبھی مٹ نہ سکے گا اورہم لوگ تمام عرب کی نگاہوں میں ذلیل و خوار ہو جائیں گے اس لئے ان لوگوں نے یہ طے کیا کہ بارگاہ رسالت میں کوئی زبردست سفارش پیش کر دی جائے تا کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اس عورت کا ہاتھ نہ کاٹیں۔ چنانچہ ان لوگوں نے حضرت اسامہ بن زید رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کو جو نگاہ نبوت میں انتہائی محبوب تھے دباؤ ڈال کر اس بات کے لئے آمادہ کر لیا کہ وہ دربار اقدس میں سفارش پیش کریں۔ حضرت اسامہ بن زید رضی اﷲ تعالیٰ عنہما نے اشراف قریش کے اصرار سے متأثر ہو کر بارگاہِ رسالت میں سفارش عرض کر دی یہ سن کر پیشانی نبوت پر جلال کے آثار نمودار ہوگئے اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے نہایت ہی غضب ناک لہجہ میں فرمایا کہ
اَتَشْفَعُ فِیْ حَدٍّ مِنْ حُدُوْدِ اللہِ
کہ اے اسامہ! تو اﷲ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی سزاؤں میں سے ایک سزا کے بارے میں سفارش کرتاہے؟ پھر اس کے بعد آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر ایک خطبہ دیا اور اس خطبہ میں یہ ارشاد فرمایا کہ
یَااَ یُّھَا النَّاسُ اِنَّمَا ضَلَّ مَنْ قَبْلَکُمْ اَنَّھُمْ کَانُوْا اِذَا سَرَقَ الشَّرِیْفُ تَرَکُوْہُ وَاِذَا سَرَقَ الضَّعِیْفُ فِیْھِمْ اَقَامُوْا عَلَیْہِ الْحَدَّ وَاَیْمُ اللہِ لَوْ اَنَّ فَاطِمَۃَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعَ مُحَّمَدٌ یَدَھَا (1)(بخاری جلد۲ ص۱۰۰۳ باب کراہیتہ الشفاعت فی الحدود)
1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب الحدود،باب کراہیۃ الشفاعۃ...الخ،الحدیث:۶۷۸۸،ج۴،ص۳۳۲
اے لوگو! تم سے پہلے کے لوگ اس و جہ سے گمراہ ہو گئے کہ جب ان میں کوئی شریف چوری کرتا تھا تو اس کو چھوڑ دیتے تھے اور جب کوئی کمزور آدمی چوری کرتا تو اس پر سزائیں قائم کرتے تھے خدا کی قسم !اگر محمد کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے گی تو یقینا محمد اس کا ہاتھ کاٹ لے گا۔( صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)
" حضرت خارجہ بن زید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرمایاکرتے تھے کہ حضور نبی کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنی مجلسوں میں جس قدر وقار کے ساتھ رونق افروز رہتے تھے بڑے سے بڑے بادشاہوں کے دربار میں بھی اس کی مثال نہیں مل سکتی۔ حضرت جابر بن سمرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مجلس حلم و حیاء اور خیرو امانت کی مجلس ہوا کرتی تھی۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مجلس میں کبھی کوئی بلند آواز سے گفتگو نہیں کر سکتا تھا اور جب آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کلام فرماتے تھے تو تمام اہل مجلس اس طرح سر جھکائے ہوئے ہمہ تن گوش بن کر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا کلام سنتے تھے کہ گویا ان کے سروں پر چڑیاں بیٹھی ہوئی ہیں۔ حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا ارشاد فرماتی ہیں کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نہایت ہی وقار کے ساتھ اس طرح ٹھہر ٹھہر کر گفتگو فرماتے تھے کہ اگر کوئی شخص آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے جملوں کو گننا چاہتا تو وہ گن سکتا تھا۔ (1)
(شفاء شریف جلد۱ ص۸۰، ۸۱ و بخاری جلد۱ ص۵۰۳)
آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی نشست و برخاست،رفتار و گفتار، ہر ادا میں ایک"
"1۔۔۔۔۔۔ الشفاء بتعریف حقوق المصطفی،فصل واما وقارہ،ج۱،ص۱۳۷۔۱۳۹ملتقطاً
و صحیح البخاری ،کتاب المناقب ، باب صفۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ،الحدیث:
۳۵۶۷، ج۲ ، ص ۴۹۱"
خالص پیغمبرانہ وقار پایا جاتا تھا جس سے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی عظمت نبوت کا جاہ و جلال آفتاب عالم تاب کی طرح ہر خاص و عام کی نظروں میں نمودار رہتا تھا۔
"آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم شہنشاہ کونین اور تاجدار دو عالم ہوتے ہوئے ایسی زاہدانہ اور سادہ زندگی بسر فرماتے تھے کہ تاریخ نبوت میں اس کی مثال نہیں مل سکتی، خوراک و پوشاک، مکان و سامان،رہن سہن غرض حیات مبارکہ کے ہر گوشہ میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا زہداور دنیا سے بے رغبتی کا عالم اس درجہ نمایاں تھا کہ جس کو دیکھ کر یہی کہا جا سکتا ہے کہ دنیاکی نعمتیں اور لذتیں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی نگاہ نبوت میں ایک مچھر کے پر سے بھی زیادہ ذلیل و حقیر ہیں۔
حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس زندگی میں کبھی تین دن لگاتار ایسے نہیں گزرے کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے شکم سیر ہو کر روٹی کھائی ہو ایک ایک مہینہ تک کاشانہ نبوت میں چولہا نہیں جلتا تھا اور کھجور و پانی کے سوا آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے گھر والوں کی کوئی دوسری خوراک نہیں ہوا کرتی تھی۔ حالانکہ اﷲ تعالیٰ نے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے فرمایا کہ اے حبیب! صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اگر آپ چاہیں تو میں مکہ کی پہاڑیوں کو سونا بنا دوں اور وہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ چلتی رہیں اور آپ ان کو جس طرح چاہیں خرچ کرتے رہیں مگر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کو پسند نہیں کیا اور بارگاہِ خداوندی عزوجل میں عرض کیا کہ اے میرے رب!عزوجل مجھے یہی زیادہ محبوب ہے کہ میں ایک دن بھوکا رہوں اور ایک دن کھانا کھاؤں تا کہ بھوک کے دن خوب گڑ گڑا کر تجھ سے دعاءیں مانگوں اور آسودگی"
"کے دن تیری حمد کروں اور تیرا شکر بجا لاؤں۔
حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے بتایا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جس بستر پر سوتے تھے وہ چمڑے کا گدا تھا جس میں روئی کی جگہ درختوں کی چھال بھری ہوئی تھی۔
حضرت حفصہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ میری باری کے دن حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ایک موٹے ٹاٹ پر سویا کرتے تھے جس کو میں دو تہ کرکے بچھا دیا کرتی تھی۔ ایک مرتبہ میں نے اس ٹاٹ کو چار تہ کر کے بچھا دیا تو صبح کو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ پہلے کی طرح اس ٹاٹ کو تم دہرا کرکے بچھا دیا کرو کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ اس بستر کی نرمی سے کہیں مجھ پر گہری نیند کا حملہ ہو جائے تو میری نماز تہجد میں خلل پیدا ہو جائے گا۔ روایت ہے کہ کبھی کبھی حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ایک ایسی چارپائی پر بھی آرام فرمایا کرتے تھے جو کھردرے بان سے بنی ہوئی تھی۔ جب آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بغیر بچھونے کے اس چارپائی پر لیٹتے تھے تو جسم نازک پر بان کے نشان پڑ جایا کرتے تھے۔(1) (شفاء شریف جلد۱ ص۸۲،۸۳ وغیرہ)"
حضور رسول اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی بے مثال شجاعت کا یہ عالم تھا کہ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جیسے بہادر صحابی کا یہ قول ہے کہ جب لڑائی خوب گرم ہو جاتی تھی اور جنگ کی شدت دیکھ کر بڑے بڑے بہادروں کی آنکھیں پتھرا کر سرخ پڑ جایا کرتی تھیں اس وقت میں ہم لوگ رسول اﷲعزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے پہلو میں کھڑے ہوکر اپنا بچاؤ کرتے تھے۔ اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہم سب لوگوں سے زیادہ
1۔۔۔۔۔۔الشفاء بتعریف حقوق المصطفی ، فصل واما زھدہ،ج۱، ص۱۴۰ ۔ ۱۴۲ملتقطاً
"آگے بڑھ کر اور دشمنوں کے بالکل قریب پہنچ کر جنگ فرماتے تھے ۔اور ہم لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر وہ شخص شمار کیا جاتا تھا جو جنگ میں رسول اﷲ عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے قریب رہ کر دشمنوں سے لڑتا تھا۔(1)
حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما فرمایا کرتے تھے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے زیادہ بہادر اور طاقتور، سخی اور پسندیدہ میری آنکھوں نے کبھی کسی کو نہیں دیکھا۔
حضرت براء بن عازب اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے بیان فرمایا ہے کہ جنگ حنین میں بارہ ہزار مسلمانوں کا لشکر کفار کے حملوں کی تاب نہ لا کر بھاگ گیا تھا اور کفار کی طرف سے لگاتار تیروں کا مینہ برس رہا تھا اس وقت میں بھی رسول اﷲ عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے بلکہ ایک سفید خچر پر سوار تھے اور حضرت ابو سفیان بن الحارث رضی اﷲ تعالیٰ عنہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے خچر کی لگام پکڑے ہوئے تھے اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اکیلے دشمنوں کے دل بادل لشکروں کے ہجوم کی طرف بڑھتے چلے جا رہے تھے۔ اور رجز کے یہ کلمات زبان اقدس پر جاری تھے کہ"
اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ (2)
"میں نبی ہوں یہ جھوٹ نہیں ہے میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔
(بخاری جلد۲ ص۶۱۷ باب قول اﷲ و یوم حنین و زرقانی جلد۴ ص۲۹۳)"
"1۔۔۔۔۔۔ الشفاء بتعریف حقوق المصطفی،فصل واما شجاعتہ،ج۱،ص۱۱۶ملخصاً
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب قول اللہ تعالٰی:ویوم حنین...الخ،الحدیث:
۴۳۱۵،۴۳۱۷،ج۳،ص۱۱۰
والمواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،الفصل الثانی فیما اکرمہ اللہ...الخ،ج۶،ص۱۰۱ملخصاً"
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی جسمانی طاقت بھی حد اعجاز کو پہنچی ہوئی تھی اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی اس معجزانہ طاقت و قوت سے ایسے ایسے محیر العقول کار ناموں اور کمالات کا مظاہرہ فرمایا کہ عقل انسانی اس کے تصورسے حیران رہ جاتی ہے۔ غزوۂ احزاب کے موقع پر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم جب خندق کھود رہے تھے ایک ایسی چٹان ظاہر ہو گئی جو کسی طرح کسی شخص سے بھی نہیں ٹوٹ سکی مگر جب آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی طاقت نبوت سے اس پر پھاوڑا مارا تو وہ ریت کے بھر بھرے ٹیلے کی طرح بکھر کر پاش پاش ہو گئی جس کا مفصل تذکرہ جنگ خندق میں ہم تحریر کر چکے ہیں۔(1)
عرب کا مشہورپہلوان رکانہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے سامنے سے گزرا آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کو اسلام کی دعوت دی وہ کہنے لگا کہ اے محمد!( صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) اگر آپ مجھ سے کشتی لڑ کر مجھے پچھاڑ دیں تو میں آپ کی دعوت اسلام کو قبول کر لوں گا۔ حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تیار ہو گئے اور اس سے کشتی لڑ کر اس کو پچھاڑ دیا، پھر اس نے دوبارہ کشتی لڑنے کی دعوت دی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے دوسری مرتبہ بھی اپنی پیغمبرانہ طاقت سے اس کو اس زور کے ساتھ زمین پر پٹک دیا کہ وہ دیرتک اٹھ نہ سکا اور حیران ہو کر کہنے لگا کہ اے محمد !(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) خداکی قسم! آپ کی عجیب شان ہے کہ آج تک عرب کاکوئی پہلوان میری پیٹھ زمین پر نہیں لگا سکا مگر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے دم زدن میں مجھے دو مرتبہ زمین پر پچھاڑ دیا۔ بعض مؤرخین کا قول ہے
1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب غزوۃ الخندق...الخ،الحدیث:۴۱۰۱،ج۳،ص۵۱
کہ رکانہ فوراً ہی مسلمان ہو گیا مگر بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ رکانہ نے فتح مکہ کے دن اسلام قبول کیا۔ واﷲ تعالیٰ اعلم۔(1) (زرقانی جلد۴ ص۲۹۱)
اسی رکانہ کا بیٹا یزید بن رکانہ بھی مانا ہوا پہلوان تھا یہ تین سو بکریاں لے کر بارگاہ نبوت میں حاضر ہوا اور کہا کہ اے محمد! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) آپ مجھ سے کشتی لڑیئے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں نے تمہیں پچھاڑ دیا تو تم کتنی بکریاں مجھے انعام میں دو گے اس نے کہا کہ ایک سو بکریاں میں آپ کو دے دوں گا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تیار ہو گئے اور اس سے ہاتھ ملاتے ہی اس کو زمین پر پٹک دیا اور وہ حیرت سے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا منہ تکنے لگااور وعدہ کے مطابق ایک سو بکریاں اس نے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو دے دیں۔ مگر پھر دوبارہ اس نے کشتی لڑنے کے لئے چیلنج دیا آپ نے دوسری مرتبہ بھی اس کی پیٹھ زمین پر لگا دی اس نے پھر ایک سو بکریاں آپ کو دے دیں۔ پھرتیسری بار اس نے کشتی کے لئے للکارا آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کا چیلنج قبول فرما لیا اور کشتی لڑ کر اِس زورکے ساتھ اس کو زمین پر دے مارا کہ وہ چت ہو گیا، اس نے باقی ایک سو بکریوں کو بھی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا، مگر کہنے لگا کہ اے محمد! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) سارا عرب گواہ ہے کہ آج تک کوئی پہلوان مجھ پر غالب نہیں آ سکا، مگر آپ نے تین بار جس طرح مجھے کشتی میں پچھاڑا ہے اس سے میرا دل مان گیا کہ یقینا آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم خداعزوجل کے نبی ہیں، یہ کہا اورکلمہ پڑھ کر دامن اسلام میں آ گیا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اس کے مسلمان ہو
1۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواہب،الفصل الثانی فیما اکرمہ اللہ...الخ،ج۶،ص۱۰۱،۱۰۲
جانے سے بے حد خوش ہوئے اور اس کی تین سو بکریاں واپس کر دیں۔ (1) (زرقانی جلد۴ ص۲۹۲)
" اسی طرح ابو الاسودجمحی اتنا بڑا طاقتورپہلوان تھا کہ وہ ایک چمڑے پر بیٹھ جاتا تھا اور دس پہلوان اس چمڑے کو کھینچتے تھے تا کہ وہ چمڑا اس کے نیچے سے نکل جائے مگر وہ چمڑا پھٹ پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جانے کے باوجود اس کے نیچے سے نکل نہیں سکتا تھا۔ اس نے بھی بارگاہِ اقدس میں آ کر یہ چیلنج دیا کہ اگر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مجھے کشتی میں پچھاڑ دیں تو میں مسلمان ہو جاؤں گا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اس سے کشتی لڑنے کے لئے کھڑے ہو گئے اور اس کا ہاتھ پکڑتے ہی اس کو زمین پر پچھاڑ دیا۔ وہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی اس طاقت نبوت سے حیران ہو کر فوراً ہی مسلمان ہو گیا۔ (2)
(زرقانی جلد۴ ص۲۹۲)"
" اسی طرح ابو الاسودجمحی اتنا بڑا طاقتورپہلوان تھا کہ وہ ایک چمڑے پر بیٹھ جاتا تھا اور دس پہلوان اس چمڑے کو کھینچتے تھے تا کہ وہ چمڑا اس کے نیچے سے نکل جائے مگر وہ چمڑا پھٹ پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جانے کے باوجود اس کے نیچے سے نکل نہیں سکتا تھا۔ اس نے بھی بارگاہِ اقدس میں آ کر یہ چیلنج دیا کہ اگر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مجھے کشتی میں پچھاڑ دیں تو میں مسلمان ہو جاؤں گا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اس سے کشتی لڑنے کے لئے کھڑے ہو گئے اور اس کا ہاتھ پکڑتے ہی اس کو زمین پر پچھاڑ دیا۔ وہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی اس طاقت نبوت سے حیران ہو کر فوراً ہی مسلمان ہو گیا۔ (2)
(زرقانی جلد۴ ص۲۹۲)"
"حضوراقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی شانِ سخاوت محتاج بیان نہیں۔ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تمام انسانوں سے زیادہ بڑھ کر سخی تھے۔ خصوصاً ماہ رمضان میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی سخاوت اس قدر بڑھ جاتی تھی کہ برسنے والی بدلیوں کو اٹھانے والی ہواؤں سے بھی زیادہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سخی ہو جاتے تھے۔
حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم"
"1۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواہب،الفصل الثانی فیما اکرمہ اللہ ...الخ ، ج۶، ص۱۰۳
2۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،الفصل الثانی فیما اکرمہ اللہ...الخ،ج۶،ص۱۰۳،۱۰۴"
"نے کسی سائل کے جواب میں خواہ وہ کتنی ہی بڑی چیز کا سوال کیوں نہ کرے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے لا (نہیں) کا لفظ نہیں فرمایا۔(شفاء شریف جلد۱ ص۶۵)
یہی وہ مضمون ہے جس کو فرزدق شاعر تابعی متوفی ۱۱۰ ھ نے کیا خوب کہا ہے کہ(1) ؎"
"مَا قَالَ لَا قَطُّ اِلَّا فِیْ تَشَھُّدِہٖ لَوْلاَ التَّشَھُّدُ کَانَتْ لَاؤہٗ نَعَمْ"
اسی کا ترجمہ کسی فارسی کے شاعر نے اس طرح کیا ہے کہ ؎
"نہ گفت لا بزبان مبارکش ہر گز مگر در اشہد ان لا الٰہ الا اﷲ
یعنی حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے کسی سائل کے جواب میں لا(نہیں) کا لفظ نہیں فرمایا بلکہ ہمیشہ نعم(ہاں) ہی کہا مگر کلمہ شہادت میں لا (نہیں) کا لفظ ضرور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر آتا تھا اور اگر کلمہ شہادت میں لا کہنے کی ضرورت نہ ہوتی تو اس میں بھی لا (نہیں) کی جگہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نَعَمْ (ہاں) ہی فرماتے۔
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی سخاوت کسی سائل کے سوال ہی پر محدود و منحصر نہیں تھی بلکہ بغیر مانگے ہوئے بھی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے لوگوں کو اس قدر زیادہ مال عطا فرما دیا کہ عالم سخاوت میں اس کی مثال نادر و نایاب ہے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے بہت بڑے دشمن امیہ بن خلف کافر کا بیٹا صفوان بن امیہ جب مقام ''جعرانہ'' میں حاضر دربار ہوا تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کو اتنی کثیر تعداد میں اونٹوں اور بکریوں کا ریوڑ عطافرما دیا کہ دو پہاڑیوں کے درمیان کا میدان بھر گیا۔"
"1۔۔۔۔۔۔ الشفاء بتعریف حقوق المصطفی،فصل واما الجود والکرم...الخ،ج۱،ص۱۱۱،۱۱۲
والمواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،الفصل الثانی فیما اکرمہ اللہ...الخ،ج۶،ص۱۱۳"
"چنانچہ صفوان مکہ جا کر چلا چلا کر اپنی قوم سے کہنے لگا کہ اے لوگو! دامن اسلام میں آ جاؤ محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) اس قدر زیادہ مال عطافرماتے ہیں کہ فقیری کا کوئی اندیشہ ہی باقی نہیں رہتا اس کے بعد پھر صفوان خود بھی مسلمان ہوگئے۔ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ۔(1) (زرقانی ج۴ ص۲۹۵)
بہر حال آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے جودونوال اور سخاوت کے احوال اس قدر عدیم المثال اور اتنے زیادہ ہیں کہ اگر ان کا تذکرہ تحریر کیا جائے تو بہت سی کتابوں کا انبار تیارہو سکتا ہے مگر اس سے پہلے کے ا وراق میں ہم جتنا اور جس قدر لکھ چکے ہیں وہ سخاوت نبوت کو سمجھنے کے لئے بہت کافی ہے۔ خداوند کریم عزوجلہم سب مسلمانوں کو حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ پرزیادہ سے زیادہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)"
عرب کا مشہور مقولہ ہے کہ
'' کَثْرَۃُ الْاَسْمَآءِ تَدُلُّ عَلٰی شَرَفِ الْمُسَمّٰی''
یعنی کسی چیز کے ناموں کا بہت زیادہ ہونا اس بات کی دلیل ہوا کرتی ہے کہ وہ چیز عزت و شرف والی ہے۔ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو چونکہ خلاق عالم جل جلالہ نے اس قدر اعزاز و اکرام اور عزت و شرف سے سرفراز فرمایا ہے کہ آپ امام النبیّین، سید المرسلین، محبوب رب العالمین عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہیں اس لئے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے اسماء مبارکہ اور القاب بہت زیادہ ہیں۔(2)
"1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،الفصل الثانی فیمااکرمہ اللہ...الخ،ج۶،ص۱۰۹،۱۱۰
2۔۔۔۔۔۔ المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب فی ذکراسمائہ الشریفۃ...الخ،ج۴،ص۱۶۱"
"حضرت جبیر بن مطعم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پانچ نام ہیں میں (۱) ''محمد ''و(۲)''احمد'' ہوں اور میں (۳) ''ماحی'' ہوں کہ اﷲ تعالیٰ میری و جہ سے کفر کو مٹاتا ہے اور میں(۴) ''حاشر'' ہوں کہ میرے قدموں پر سب لوگوں کا حشر ہو گا اور(۵) ''عاقب'' ہوں۔ (1) (یعنی سب سے آخری نبی)(بخاری ج۱ ص۵۰۱ باب ماجاء فی اسماء رسول اﷲعزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)
قرآن مجید میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے القاب و اسماء بہت زیادہ تعداد میں مذکور ہیں۔ چنانچہ بعض علماء کرام نے فرمایا کہ خداوند قدوس کے ناموں کی طرح حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے بھی ننانوے نام اورعلامہ ابن دحیہ نے اپنی کتاب میں تحریر فرمایاکہ اگرحضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ان تمام ناموں کو شمار کیا جائے جو قرآن و حدیث اور اگلی کتابوں میں مذکور ہیں تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ناموں کی گنتی تین سو تک پہنچتی ہے اور بعض صوفیاء کرام کا بیان ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے بھی ایک ہزار نام ہیں اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ناموں کی تعداد بھی ایک ہزار ہے۔ (2)
(زرقانی جلد۳ ص۱۱۸)
بہر حال حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے تمام اسماء مبارکہ میں سے دو نام سب سے زیادہ مشہور ہیں ایک ''محمد'' دوسرا ''احمد'' (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے دادا عبدالمطلب نے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا نام ''محمد'' رکھا اور اسی نام پر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا عقیقہ کیا جب لوگوں نے پوچھا کہ اے عبدالمطلب!آپ نے"
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المناقب،باب ماجاء فی اسماء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،الحدیث: ۳۵۳۲،ج۲، ص ۴۸۴
2۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،باب فی ذکراسمائہ الشریفۃ...الخ،ج۴،ص ۱۶۹"
"اپنے پوتے کا نام ''محمد'' کیوں رکھا آپ کے آباء و اجداد میں کسی کا بھی یہ نام نہیں رہا ہے۔ تو آپ نے جواب دیا کہ میں نے اس نیت سے اور اس امید پر اس بچے کا نام ''محمد'' رکھا ہے کہ تمام روئے زمین کے لوگ اس کی تعریف کریں گے۔ اور ایک روایت میں یہ ہے کہ آپ نے یہ کہا کہ میں نے اس امید پر ''محمد'' نام رکھا کہ اﷲ تعالیٰ آسمانوں میں اس کی تعریف فرمائے گا اور زمین میں خدا کی تمام مخلوق اس کی تعریف کرے گی،اور حضرت عبدالمطلب کی اس نیت اور امید کی و جہ یہ ہے کہ انہوں نے ایک خواب دیکھا تھا کہ میری پیٹھ سے ایک چاندی کی زنجیر نکلی جس کا ایک کنارہ زمین میں ہے اور ایک سرا آسمان کو چھو رہا ہے اور تمام مشرق و مغرب کے انسان اس زنجیر سے چمٹے ہوئے ہیں حضرت عبدالمطلب نے جب قریش کے کاہنوں سے اس خواب کی تعبیر دریافت کی تو انہوں نے اس خواب کی یہ تعبیر بتائی کہ اے عبدالمطلب!آپ کی نسل سے عنقریب ایک ایسا لڑکا پیدا ہو گا کہ تمام اہل مشرق و مغرب اس کی پیروی کریں گے اور تمام آسمان و زمین والے اس کی مدح و ثنا کا خطبہ پڑھیں گے۔ (1) (زرقانی جلد۳ ص۱۱۴ تا ۱۱۵)
اور بعض کا قول ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا نام ''محمد'' رکھا ہے کیونکہ جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ان کے شکم مبارک میں رونق افروز تھے تو انہوں نے خواب میں ایک فرشتہ کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ اے آمنہ!رضی اللہ تعالیٰ عنہ سارے جہان کے سردار تمہارے شکم میں تشریف فرما ہیں جب یہ پیدا ہوں تو تم ان کا نام ''محمد'' رکھنا۔(2) (زرقانی جلد۳ ص۱۱۵)"
"1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب فی ذکراسمائہ الشریفۃ...الخ،ج۴،ص۱۶۱،۱۶۲
2۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،باب فی ذکراسمائہ...الخ،ج۴،ص۱۶۱،۱۶۲ملتقطاً"
"ان دونوں روایتوں میں کوئی تعارض نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ حضرت عبدالمطلب نے اپنے اور حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے خوابوں کی و جہ سے دونوں نے باہمی مشورہ سے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا نام ''محمد'' رکھا ہو۔
اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی جگہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو ''محمد'' کے نام سے ذکر فرمایا ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام ''احمد'' کے نام سے تمام زندگی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ذکر جمیل کا ڈنکا بجاتے رہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے کہ وَمُبَشِّرًام بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْ م بَعْدِی اسْمُہ،ۤ اَحْمَدُط (1) یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام یہ خوشخبری سناتے ہوئے تشریف لائے تھے کہ میرے بعد ایک رسول تشریف لانے والے ہیں جن کا نامِ نامی و اسم گرامی ''احمد '' ہے۔"
آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مشہور کنیت ''ابو القاسم'' ہے۔ چنانچہ بہت سی احادیث میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی یہ کنیت مذکور ہے، مگر حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے روایت کی ہے کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی کنیت ''ابو ابراہیم'' بھی ہے۔ چنانچہ حضرت جبریل علیہ السلام نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو ان لفظوں سے سلام کیا کہ ''السلام علیک یا ابا ابراھیم '' یعنی اے ابراہیم!کے والد آپ پر سلام ۔ (2) (زرقانی جلد۳ ص۱۵۱)
"1۔۔۔۔۔۔پ۲۸،الصف:۶
2۔۔۔۔۔۔ المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،باب فی ذکراسمائہ الشریفۃ...الخ،ج۴،ص۲۲۹"
"حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اے اﷲ کے بندو! تم لوگ دوائیں استعمال کرو اس لئے کہ اﷲ تعالیٰ نے ایک بیماری کے سوا تمام بیماریوں کے لئے دوا پیدا فرمائی ہے۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!(عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) وہ کونسی بیماری ہے جس کی کوئی دوا نہیں ہے؟ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ وہ ''بڑھاپا'' ہے۔ (1) (ترمذی جلد۲ ص۲۵ ابواب الطب)
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما نے روایت کی ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ جن جن طریقوں سے علاج کرتے ہو ان میں سب سے بہتر چار طریقہ علاج ہیں:
سعوط: ناک کے ذریعہ دوا چڑھانا، لَدُوْد: منہ کے کسی ایک جانب سے دوا پلانا، حجامۃ: کسی عضو پر پچھنا لگوا کر خون نکلوا دینا، مَشِیْ:جلاب لینا۔ (2) (ترمذی جلد۲ ص۲۶ ابواب الطب)
بعض دوائیں خودحضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے استعمال فرمائی ہیں اور بعض دواؤں کے اوصاف اور ان کے فوائد سے اپنی امت کو آگاہ فرمایا ہے۔ ہم یہاں ان میں سے تبرکاً چند دواؤں کا ذکر تحریر کرتے ہیں تا کہ ہماری اس مختصر کتاب کے صفحات ''طب نبوی'' کے اہم باب سے محروم نہ رہ جائیں۔
اِثْمَد (سرمہ سیاہ اصفہانی) حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کے بارے"
"1۔۔۔۔۔۔سنن الترمذی،کتاب الطب،باب ماجاء فی الدوائ...الخ،الحدیث:۲۰۴۵،ج۴،ص۴
2۔۔۔۔۔۔سنن الترمذی،کتاب الطب،باب ماجاء فی السعوط،الحدیث:۲۰۵۴،ج۴،ص۸"
"میں ارشاد فرمایا کہ تم لوگ اثمد کو استعمال میں رکھو یہ نگاہ کو تیز کرتا ہے اور پلک کے بال اگاتا ہے۔ (1) (ابن ما جہ ص۲۵۸ باب الکحل بالاثمد)
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کا بیان ہے کہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس ایک سرمہ دانی تھی جس میں اثمد کا سرمہ رہتا تھا اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سونے سے پہلے ہر رات تین تین سلائی دونوں آنکھوں میں لگایا کرتے تھے۔(2)
(شمائل ترمذی ص۵)
حِنایعنی مہندی،حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے کوئی پھنسی نکلتی یا کانٹا چبھ جاتا تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اس پر مہندی رکھ دیا کرتے تھے۔ (3)
(ابن ما جہ ص۲۵۸ ابواب الطب)
اَلْحَبَّۃُ السَّوْدَآءُ(کلونجی جس کو شونیز بھی کہتے ہیں اور بعض جگہ اس کو منگریلا بھی کہا جاتا ہے) حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس کے استعمال کو لازم پکڑو کیونکہ اس میں موت کے سوا سب بیماریوں سے شفاء ہے۔(4)
(ابن ما جہ ص۲۵۴ ابواب الطب و بخاری جلد۲ ص۸۴۸)
اَلتَّلْبِیْنَہ(آٹا،پانی،شہد،تیل ملا کر حریرہ کی طرح بنایا جاتا ہے) حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے گھر والوں میں جب کوئی شخص جاڑا بخار میں مبتلا ہوتا تھا تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اس طعام کے تیار کرنے کا حکم دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ یہ کھانا غمگین آدمی"
"1۔۔۔۔۔۔سنن ابن ماجہ،کتاب الطب،باب الکحل بالاثمد،الحدیث:۳۴۹۵،ج۴،ص۱۱۴
2۔۔۔۔۔۔الشمائل المحمدیۃ،باب ماجاء فی کحل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،الحدیث:۴۹،ص۵۰
3۔۔۔۔۔۔سنن ابن ماجہ ،کتاب الطب ،باب الحناء ، الحدیث: ۳۵۰۲،ج۴، ص ۱۱۷
4۔۔۔۔۔۔سنن ابن ماجہ ،کتاب الطب ، باب الحبۃالسوداء ،الحدیث: ۳۴۴۸،ج۴، ص ۹۳"
"کے دل کو تقویت دیتا ہے اور بیمار کے دل سے تکلیف کو اس طرح دور کر دیتا ہے جس طرح تم لوگ پانی سے اپنے چہروں کے میل کچیل کو دور کر دیتے ہو۔ (1)
(ابن ما جہ ص۲۵۴ ابواب الطب و بخاری جلد۲ ص۸۴۹)
اَلْعَسَل (شہد)حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص نے آ کر شکایت کی کہ اس کے بھائی کو دست آ رہے ہیں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو شہد پلاؤ۔ پھر وہ دوبارہ آیا اور کہنے لگا کہ دست بند نہیں ہوتے۔ ارشاد فرمایا کہ اس کو شہد پلاؤ۔ پھر وہ تیسری بار آکر کہنے لگا کہ دست کا سلسلہ جاری ہے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے پھر شہد پلانے کاحکم دیااس نے کہا کہ یہ علاج تو میں کر چکا ہوں۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ سچاہے اور تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے اسکو شہد پلاؤ اس نے جا کر شہد پلایا تووہ شفا یاب ہو گیا۔(2) (بخاری جلد۲ ص۸۴۸ باب الدواء بالعسل)
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص ہر مہینہ میں تین دن صبح کے وقت شہد چاٹ لیا کرے اس کو کوئی بڑی بلا نہ پہنچے گی۔(3)
(ابن ما جہ ص۲۵۵ ابواب الطب)
آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ دو شفاؤں کو لازم پکڑو، ایک شہد، دوسری قرآن شریف۔(4) (ابن ما جہ ص۲۵۵ باب العسل)
خَلُّ(سرکہ) حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بہترین سالن سرکہ ہے اے"
"1۔۔۔۔۔۔سنن ابن ماجہ ، کتاب الطب ، باب التلبینۃ ، الحدیث: ۳۴۴۵،ج۴، ص ۹۲
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب الطب،باب الدواء بالعسل،الحدیث:۵۶۸۴،ج۴، ص ۱۷
3۔۔۔۔۔۔سنن ابن ماجہ ،کتاب الطب ، باب العسل ، الحدیث: ۳۴۵۰،ج۴، ص ۹۴
4۔۔۔۔۔۔سنن ابن ماجہ ،کتاب الطب ، باب العسل ،الحدیث: ۳۴۵۲،ج۴،ص ۹۵"
"اﷲ!عزوجل سرکہ میں برکت عطا فرما، کیونکہ یہ انبیاء علیہم السلام کا سالن ہے اور جس گھر میں سرکہ ہو گا وہ گھر کبھی محتاج نہیں ہوگا۔ (1) (ابن ما جہ ص۲۴۶ باب الایتدام بالخل)
زَیْت(روغن زیتون)حضورِاقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاکہ تم لوگ روغن زیتون کوسالن کے طورپراستعمال کرو اوراس کوبدن پربھی ملتے رہوکیونکہ یہ مبارک درخت سے نکلاہواہے۔اوردوسری حدیث میں یوں وارد ہواکہ تم لوگ روغن زیتون کو کھاؤاوراس کوبدن میں لگاؤکیونکہ یہ برکت والی چیزہے۔(2) (ابن ما جہ ص۲۴۶باب الزیت)
مُسَمِّن(بدن کو فربہ کرنے والی دوا ) حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ میری والدہ نے جب میری رخصتی کا ارادہ کیا تو میرا علاج کرنے لگیں کہ میں ذرا فربہ بدن ہو جاؤں مگر کوئی علاج کا رگر نہ ہوا۔ مگر جب میں نے ککڑی کو تازہ کھجوروں کے ساتھ کھانا شروع کر دیا تو میں خوب فربہ بدن والی ہو گئی۔(3) (ابن ما جہ ص۲۴۶)
حضرت عبداﷲ بن جعفر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲعزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ککڑی تازہ کھجوروں کے ساتھ تناول فرمایا کرتے تھے۔(4)
(ابن ما جہ ص۲۴۶ باب القثاء والرطب)
عَشَاء(رات کا کھانا) حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ رات کا کھانا ترک نہ کرو،کچھ نہ ملے تو ایک مٹھی کھجور ہی کھا لیا کرو کیونکہ رات کو کھانا چھوڑ دینے سے جلد بڑھاپا آ جاتا ہے۔ (5) (ابن ما جہ ص۲۴۸ باب ترک العشاء)"
"1۔۔۔۔۔۔سنن ابن ماجہ،کتاب الاطعمۃ،باب الائتدام بالخل،الحدیث:۳۳۱۸،ج۴،ص۳۴
2۔۔۔۔۔۔سنن ابن ماجہ،کتاب الاطعمۃ،باب الزیت،الحدیث:۳۳۱۹،۳۳۲۰،ج۴،ص۳۴،۳۵
3۔۔۔۔۔۔سنن ابن ماجہ،کتاب الاطعمۃ،باب القثاء والرطب یجمعان،الحدیث:۳۳۲۴،ج۴،ص۳۷
4۔۔۔۔۔۔سنن ابن ماجہ،کتاب الاطعمۃ،باب القثائ...الخ،الحدیث:۳۳۲۵،ج۴،ص۳۷
5۔۔۔۔۔۔سنن ابن ماجہ ،کتاب الاطعمۃ ، باب ترک العشاء ،الحدیث: ۳۳۵۵،ج۴، ص ۵۰"
"حِمْیَہ(مضر چیزوں سے پرہیز) حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے ساتھ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو لے کر حضرت ام المنذر صحابیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مکان پر تشریف لے گئے انہوں نے کچی پکی کھجوروں کا ایک خوشہ پیش کیا اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اس میں سے کھانے لگے۔ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے بھی ہاتھ بڑھایا تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: اے علی! رضی اللہ تعالیٰ عنہ تم ابھی بیماری سے اٹھے ہو اور نقاہت باقی ہے اس لئے تم اس کو مت کھاؤ۔ اس کے بعد حضرت ام المنذر رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے جو اور چقندر ملا کر کھانا پکایا تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ تم یہ کھاؤ یہ تمہارے لئے بہت زیادہ مفید غذا ہے۔(1)(ابن ما جہ ص۲۵۴ باب الحمیہ)
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم لوگ زبردستی کرکے اپنے مریضوں کو کھانے پینے پر مجبور مت کیا کرو، اﷲ تعالیٰ ان لوگوں کو کھلا پلا دیا کرتا ہے۔ (2)
(ابن ما جہ ص۲۵۴ باب لاتکر ہوا المریض علی الطعام)
زَنْجَبِیْل(سونٹھ) بادشاہ روم نے ایک گھڑا زنجبیل سے بھرا ہوا آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس ہدیۃ ً بھیجا تھا، آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس میں سے ایک ایک ٹکڑا اپنے اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو کھانے کے لئے دیا اس روایت کو ابو نعیم محدث نے اپنی کتاب ''طبِ نبوی'' میں بیان کیا ہے۔ (3) (نشرالطیب)
عَجْوَہ مدینہ منورہ کی کھجوروں میں سے ایک کھجور کا نام ہے اس کے بارے"
"1۔۔۔۔۔۔سنن ابن ماجہ ،کتاب الطب ، باب الحمیۃ ، الحدیث: ۳۴۴۲، ج۴، ص ۹۰
2۔۔۔۔۔۔سنن ابن ماجہ،کتاب الطب،باب لاتکرہوا المریض...الخ،الحدیث:۳۴۴۴،ج۴،ص۹۱
3۔۔۔۔۔۔الطب النبوی لابن قیم الجوزیۃ،زنجبیل،ص۲۷"
"میں ارشاد نبوی ہے کہ ''عجوہ'' جنت سے ہے اور وہ جنون یا زہر سے شفاء ہے۔(1)
(ابن ما جہ ص۲۵۵ باب الکماۃ والعجوۃ)
کَمْأۃجس کو بعض لوگ ککرمتا اور بعض لوگ سانپ کی چھتری کہتے ہیں اس کے بارے میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کماۃ ''مَنّ''کے مثل ہے جو بنی اسرائیل پر نازل ہوا تھا( یعنی جیسے وہ مفت کی چیز اوربہت ہی مفید چیز تھی ایسی ہی یہ ہے) اوراس کا عرق آنکھوں کے لئے شفاء ہے ۔(2)(ابن ما جہ ص۲۵۵ باب الکماۃ و بخاری وغیرہ)
سَنَا( سنامکی ایک دوا ہے) حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تم کس دوا سے جلاب لیتی ہو؟ تو انہوں نے عرض کیا کہ ''شبرم'' سے ،آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تو بہت ہی گرم دوا ہے، پھر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کو سنا کا جلاب لینے کے لئے حکم فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ اگر موت سے شفا دینے والی کوئی چیز ہوتی تو وہ سنا ہے۔(3) (ابن ما جہ ص۲۵۵ باب دواء المشی)
سَنُّوْت اس کے معنی میں شارحین حدیث کا اختلاف ہے مگر اطباء نے ایک خاص تفسیر کو ترجیح دی ہے۔ یعنی وہ شہد جو گھی کے برتن میں رکھا گیا ہو اور اس میں گھی کے کچھ اثرات پہنچ گئے ہوں، حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم لوگ سنا اور سنوت کو استعمال کرتے رہو کہ ان دونوں میں موت کے سوا تمام امراض سے شفاء ہے۔(4) (ابن ما جہ ص۲۵۵ باب السناء و السنوت)"
"1۔۔۔۔۔۔سنن ابن ماجہ،کتاب الطب،باب الکمأۃ والعجوۃ،الحدیث:۳۴۵۳،ج۴،ص۹۵
2۔۔۔۔۔۔سنن ابن ماجہ،کتاب الطب، باب الکمأۃ والعجوۃ،الحدیث: ۳۴۵۴،ج۴،ص ۹۶
3۔۔۔۔۔۔سنن ابن ماجہ ،کتاب الطب، باب دواء المشی ، الحدیث: ۳۴۶۱،ج۴، ص۱۰۰
4۔۔۔۔۔۔سنن ابن ماجہ ،کتاب الطب،باب السناوالسنوت،الحدیث:۳۴۵۷،ج۴،ص۹۷"
"بعض اطباء نے و جہ ترجیح میں کہا ہے کہ شہد اور گھی سے سنا کی اصلاح اور سہال کی اعانت ہو جاتی ہے ۔ (واﷲ تعالیٰ اعلم)
سَمْ( زہر) حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اﷲعزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خبیث دوا یعنی زہر سے منع فرمایا ہے۔ (1)
(ابن ما جہ ص۲۵۵ باب النہی عن الدواء الخبیث)
عُوْد ھِنْدِیْ ( قسط شیریں) حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس عود ہندی کو استعمال میں لایا کرو کیونکہ اس میں سات شفائیں ہیں حلق میں کوّوں کے لئے اس کا سعوط کرنا چاہیے اور نمونیا کے لئے اس کا جوشاندہ پلانا چاہیے۔(2)
(ابن ما جہ ص۲۵۶ باب دواء ذات الجنب)
دوا عِرْقُ النِّسَاء حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اﷲعزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جنگل میں چرنے والی بکری کے سرین کو گلا کر تین ٹکڑے کر لئے جائیں اور تین دن نہار منہ ایک ٹکڑا کھائیں اس میں ''عرق النساء'' کی شفاء ہے۔(3) (ابن ما جہ ص۲۵۶ باب دواعرق النساء)
حرام دوائیں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے بیماری بھی اتاری ہے اور دوا بھی اور ہر بیماری کی دوا بنا دی ہے۔ لہٰذا تم لوگ دواکرو مگر حرام چیز سے دوا علاج مت کرو۔(4)"
"1۔۔۔۔۔۔سنن ابن ماجہ،کتاب الطب،باب النھی عن الدواء الخبیث،الحدیث:۳۴۵۹،ج۴،ص۹۹
2۔۔۔۔۔۔سنن ابن ماجہ،کتاب الطب،باب دواء ذات الجنب،الحدیث:۳۴۶۸،ج۴،ص۱۰۴
3۔۔۔۔۔۔سنن ابن ماجہ،کتاب الطب،باب دواء عرق النسائ،الحدیث:۳۴۶۳،ج۴،ص۱۰۱
4۔۔۔۔۔۔سنن ابی داود،کتاب الطب،باب فی الادویۃ المکروھۃ،الحدیث:۳۸۷۴،ج۴،ص۱۰"
"شراب:حضرت سوید بن طارق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے شراب کے بارے میں دریافت کیا تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کے استعمال سے منع فرمایا۔ پھر دوبارہ پوچھا تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے منع فرمایا، تیسری بار انہوں نے عرض کیا: یا نبی اﷲعزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم یہ تو دوا ہے، آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ''نہیں'' یہ بیماری ہے ۔(1) (ابو داود جلد۲ ص۱۸۵ مجتبائی)
زخموں کا علاج:حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ جنگ احد کے دن حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے دندان مبارک شہید ہو گئے اور لوہے کی ٹوپی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے سر اقدس پر توڑ ڈالی گئی تو حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا چہرۂ انور سے خون دھو رہی تھیں اور حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ڈھال میں پانی رکھ کر زخم پر بہا رہے تھے لیکن جب خون بہنے کا سلسلہ بڑھتا ہی رہا تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کھجور کی چٹائی کا ایک ٹکڑا لیا اور اس کو جلا کر راکھ بنا ڈالا پھر اسی راکھ کو زخموں پر چپکا دیا تو خون بہنا بند ہوگیا۔(2) (ابن ما جہ ص۲۵۶ ابواب الطب)
طاعون:(پلیگ)کے بارے میں حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ایک عذاب ہے جس کو اﷲ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر بھیجا تھا۔ جب تم سنو کہ کسی زمین میں طاعون پھیل گیا ہے تو تم لوگ اس زمین میں داخل نہ ہوا کرو اور جب تمہاری زمین میں طاعون آ جائے تو تم اس زمین سے نکل کر نہ بھاگو۔(3)
(مسلم جلد۲ ص۲۲۸ باب الطاعون)"
"1۔۔۔۔۔۔سنن ابی داود،کتاب الطب،باب فی الادویۃ المکروھۃ،الحدیث:۳۸۷۳،ج۴،ص۱۰
2۔۔۔۔۔۔سنن ابن ماجہ،کتاب الطب،باب دواء الجراحۃ، الحدیث: ۳۴۶۴،ج۴، ص ۱۰۲
3۔۔۔۔۔۔صحیح مسلم،کتاب السلام،باب الطاعون والطیرۃ...الخ،الحدیث:۲۲۱۸،ص۱۲۱۵"
"اناڑی طبیب :حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص علم طب کو نہیں جانتا اور علاج کرتا ہے تو وہ (مریض کو اگر کوئی نقصان پہنچا) ضامن ہے یعنی اس سے نقصان کا تاوان لیا جائے گا۔ (1) (ابن ما جہ ص۲۵۶)
بخار: ایک شخص نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے روبرو بخار کو گالی دی تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم بخار کو گالی مت دو، بخار کی بیماری مریض کے گناہوں کو اس طرح دور کر دیتی ہے جس طرح لوہے کے میل کو آگ دور کر دیتی ہے۔(2)(ابن ما جہ ص۲۵۶ باب الحمیٰ)
بخار کا علاج : حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بخار جہنم کے جوش مارنے سے ہے۔ لہٰذا تم لوگ اس کو پانی سے (پلا کر اور غسل کرا کر) ٹھنڈا کرو۔ (3)
(ابن ما جہ ص۲۵۶ باب الحمی)
نوٹ: بخار کا یہ علاج ایک خاص قسم کے بخار کا علاج ہے جو عرب میں ہوتا ہے جسکواطباء صفراوی بخاریاحمی ناریہ(لولگنے کابخارکہتے ہیں)یہ ہرقسم کے بخارکا علاج نہیں ہے۔(4) (حاشیہ ابن ما جہ ص۲۵۶)
اس لئے ہر قسم کے بخاروں میں یہ علاج کامیاب نہیں ہو سکتا لہٰذا کسی طبیب حاذق سے اچھی طرح بخار کی تشخیص کرا لینے کے بعد ہی اس کا علاج کرانا چاہیے۔
واﷲ تعالیٰ اعلم۔"
"1۔۔۔۔۔۔سنن ابن ماجہ،کتاب الطب،باب من تطبب...الخ،الحدیث:۳۴۶۶،ج۴،ص۱۰۳
2۔۔۔۔۔۔سنن ابن ماجہ ،کتاب الطب ، باب الحمی ، الحدیث: ۳۴۶۹، ج۴،ص ۱۰۴
3۔۔۔۔۔۔سنن ابن ماجہ،کتاب الطب،باب الحمی...الخ،الحدیث:۳۴۷۱،ج۴،ص۱۰۵
4۔۔۔۔۔۔حاشیۃ سنن ابن ماجہ،ابواب الطب،باب الحمی...الخ،حاشیۃ:۶،ص۲۴۸ملخصاً"
خداوند ِ قدوس کے دربار میں بندوں کی دعاؤں کا بہت ہی بڑا درجہ ہے اور دواؤں کی طرح دعاؤں میں بھی خلاقِ عالم جل جلالہٗ نے بڑ ی بڑی خاص خاص تاثیرات پیدا فرما دی ہیں۔ چنانچہ پروردگار عالم عزوجل نے قرآن مجید میں بار بار بندوں کو دعاءیں مانگنے کا حکم دیا اور ارشاد فرمایا کہ
ادْعُوۡنِیۡۤ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ؕ (1)
"یعنی اے بندو! تم لوگ مجھ سے دعاءیں مانگو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا ۔
اور حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے بھی دعاؤں کی اہمیت اور ان کے فوائد کا ذکر فرماتے ہوئے اپنی امت کو دعاءیں مانگنے کی ترغیب دلائی اور فرمایا کہ"
لَیْسَ شَیْیٌ اَکْرَمَ عَلَی اللہِ مِنَ الدُّعَآءِ
یعنی اﷲ تعالیٰ کے دربار میں دعا سے بڑھ کر عزت والی کوئی چیز نہیں ہے۔(2) (ترمذی باب فضل الدعاء ص۱۷۳ جلد۲) اور دعاؤں کی فضیلت و اہمیت کا اظہار فرماتے ہوئے یہاں تک ارشاد فرمایا کہ
اَلدُّعَآءُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ (3)(ترمذی جلد۲ ص۱۷۲)
یعنی دعا عبادت کا مغز ہے اور یہ بھی فرمایا:
مَنْ لَّمْ یَسْئَلِ اللہَ یَغْضَبْ عَلَیْہِ
"جو خدا سے دعا نہیں مانگتا خدا عزوجل اس سے ناراض ہوجاتا ہے۔ (4)
(ترمذی جلد۲ ص۱۷۲ ابواب الدعوات)
اس لئے طب نبوی کی طرح حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ان چند دعاؤں"
"1۔۔۔۔۔۔پ۲۴،المؤمن:۶۰
2۔۔۔۔۔۔سنن الترمذی،کتاب الدعوات،باب ماجاء فی فضل الدعاء،الحدیث:۳۳۸۱،ج۵،ص۲۴۳
3۔۔۔۔۔۔سنن الترمذی،کتاب الدعوات،باب ماجاء فی فضل الدعاء،الحدیث:۳۳۸۲،ج۵،ص۲۴۳
4۔۔۔۔۔۔سنن الترمذی،کتاب الدعوات،باب ماجاء فی فضل الدعاء،الحدیث:۳۳۸۴،ج۵،ص۲۴۴"
کا تذکرہ بھی ہم اس کتاب میں تحریر کرتے ہیں جو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے معمولات میں رہی ہیں اور جن کے فضائل و فوائد سے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی امت کو آگاہ فرما کر ان کے ورد کا حکم فرمایا ہے تاکہ سیرت نبویہ کے اس مقدس باب سے بھی یہ کتاب مشرف ہو جائے اور مسلمان ان دعاؤں کا ورد کرکے دنیا و آخرت کے بے شمار منافع و فوائد سے مالا مال ہوتے رہیں۔
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص صبح و شام کو تین مرتبہ یہ دعا پڑھے تو اس کو دنیا کی کوئی چیز نقصان نہیں پہنچائے گی۔
(ترمذی جلد۲ ص۱۷۳ باب ماجاء فی الدعاء اذا صبح و اذا مسی)
بِسْمِ اللہِ الَّذِیْ لَا یَضُرُّ مَعَ اسْمِہٖ شَیْئٌ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَآءِ وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ (1)
حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص بچھونے پر یہ دعا تین مرتبہ پڑھ کر سوئے گا تو اﷲ تعالیٰ اس کے تمام گناہوں کو بخش دے گا اگرچہ اس کے گناہ درختوں کے پتوں اور ٹیلوں کی ریت کی تعداد میں ہوں۔ (ترمذی جلد۲ ص۱۷۴)
اَسْتَغْفِرُاللہَ الْعَظِیْمَ الَّذِیْ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ (2)
"1۔۔۔۔۔۔سنن الترمذی،کتاب الدعوات،باب ماجاء فی الدعاء اذا اصبح...الخ،الحدیث:۳۳۹۹، ج۵،ص۲۵۰
2۔۔۔۔۔۔سنن الترمذی،کتاب الدعوات،باب ماجاء فی الدعاء اذا اوی...الخ،الحدیث:۳۴۰۸،
ج۵،ص۲۵۵"
حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سوتے وقت یہ دعا پڑھا کرتے تھے:
اَللّٰھُمَّ بِاسْمِکَ اَمُوْتُ وَاَحْییٰ
اور جب نیند سے بیدار ہوتے تو یہ دعا پڑھتے تھے:
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَحْییٰ نَفْسِیْ بَعْدَ مَا اَمَاتَھَا وَاِلَیْہِ النُّشُوْرُ (1)(ترمذی جلد۲ ص۱۷۷)
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص رات میں نیند سے بیدار ہو تو یہ دعا پڑھے پھر اس کے بعد جو دعا مانگے گا وہ قبول ہو گی اور وضو کرکے جو نماز پڑھے گا وہ نماز بھی مقبول ہو جائے گی ۔ (ترمذی جلد۲ ص۱۷۷)
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْیئٍ قَدِیْرٌ وَّسُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُلِلّٰہِ وَلَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکْبَرُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ (2)
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اپنے گھر سے باہر نکلتے وقت یہ دعا پڑھ لے تو اس کی مشکلات دور ہو جائیں گی اور وہ دشمنوں کے شر سے محفوظ رہے گااور شیطان اس سے الگ ہٹ جائے گا۔ (ترمذی جلد۲ ص۱۸۰)
بِسْمِ اللہِ تَوَکَّلْتُ عَلَی اللہِ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ(3)
"1۔۔۔۔۔۔سنن الترمذی،کتاب الدعوات،باب ماجاء فی الدعاء اذا انتبہ...الخ،الحدیث:۳۴۲۸،
ج۵،ص۲۶۳
2۔۔۔۔۔۔سنن الترمذی،کتاب الدعوات،باب ماجاء فی الدعاء اذاانتبہ...الخ،الحدیث:۳۴۲۵،
ج۵،ص۲۶۲
3۔۔۔۔۔۔سنن الترمذی ،کتاب الدعوات،باب مایقول اذاخرج من بیتہ،الحدیث:۳۴۳۷،ج۵،ص۲۷۰"
ارشادِ نبوی ہے کہ جو شخص بازار میں داخل ہوتے وقت ان کلمات کو پڑھ لے تو خداوند تعالیٰ دس لاکھ نیکیاں اس کے نامہ اعمال میں لکھنے کا حکم فرمائے گا اور اس کے دس لاکھ گناہوں کو مٹا دے گا اور اس کے دس لاکھ درجے بلند فرمائے گا۔ (ترمذی جلد۲ ص۱۸۰)
لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ وَھُوَ حَیٌّ لَّا یَمُوْتُ بِیَدِہِ الْخَیْرُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ(1)
حضرت عبداﷲ بن سرجس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جب سفر کے لئے روانہ ہوتے تو یہ دعا پڑھتے تھے۔ (ترمذی جلد۲ ص۱۸۱)
اَللّٰھُمَّ اَنْتَ الصَّاحِبُ فِی السَّفَرِ وَالْخَلِیْفَۃُ فِی الْاَھْلِ اَللّٰھُمَّ اَصْحَبْنَا فِیْ سَفَرِنَا وَاخْلُفْنَا فِیْ اَھْلِنَا اَللّٰھُمَّ اِنِّیْۤ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ وَعْثَآءِ السَّفَرِ وَکَآبَۃِ الْمُنْقَلَبِ وَمِنَ الْحَوْرِ بَعْدَ اْلکَوْرِ(2)
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جب سفر سے لوٹ کر اپنے کاشانۂ نبوت پر مدینہ تشریف لاتے تو یہ دعا پڑھتے۔ (ترمذی جلد۲ ص۱۸۲)
اٰئِبُوْنَ تَائِبُوْنَ عَابِدُوْنَ لِرَبِّنَا حَامِدُوْنَ(3)
"1۔۔۔۔۔۔سنن الترمذی،کتاب الدعوات،باب مایقول اذا دخل السوق،الحدیث:۳۴۳۹،ج۵،ص۲۷۰
2۔۔۔۔۔۔سنن الترمذی،کتاب الدعوات،باب مایقول اذا خرج مسافرا،الحدیث:۳۴۵۰،ج۵،ص۲۷۶
3۔۔۔۔۔۔سنن الترمذی،کتاب الدعوات،باب مایقول اذا قدم من السفر،الحدیث:۳۴۵۱،ج۵،ص۲۷۶"
رحمۃ للعالمین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص سفر میں کسی جگہ پڑاؤ کرے اور یہ دعا پڑھ لے تو اس کو اس جگہ کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچے گا۔(ترمذی جلد۲ ص۱۸۱)
اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّآمَّاتِ مِنْ شَرِّمَا خَلَقَ(1)
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو جب کوئی بے چینی اور پریشانی لاحق ہوا کرتی تھی تو اس وقت آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اس دعا کا ورد فرماتے تھے۔(ترمذی جلد۲ ص۱۸۱)
لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ الْحَلِیْمُ الْحَکِیْمُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ(2)
حضور سرورِ دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص کسی بلا میں مبتلا ہونے والے کو دیکھے (بیمار یا مصیبت زدہ کو) تو یہ دعا پڑھ لے تو تمام عمر وہ اس بلا (بیماری یا مصیبت) سے بچا رہے گا۔ (ترمذی جلد۲ ص۱۸۱)
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ عَافَانِیْ مِمَّا ابْتَلاَکَ بِہٖ وَفَضَّلَنِیْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقَ تَفْضِیْلًا (3)
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جب کسی انسان کو رخصت فرماتے تھے تو یہ کلمات
"1۔۔۔۔۔۔سنن الترمذی،کتاب الدعوات،باب مایقول اذا نزل منزلا،الحدیث:۳۴۴۸،ج۵،ص۲۷۵
2۔۔۔۔۔۔سنن الترمذی،کتاب الدعوات،باب ماجاء مایقول عند الکرب،الحدیث:۳۴۴۶،ج۵،ص۲۷۴
3۔۔۔۔۔۔سنن الترمذی،کتاب الدعوات،باب مایقول اذارأی مبتلی،الحدیث:۳۴۴۳،ج۵،ص۲۷۳"
زبانِ مبارک سے ارشاد فرماتے تھے کہ
اَسْتَوْدِعُ اللہَ دِیْنَکَ وَاَمَانَتَکَ وَخَوَاتِیْمَ عَمَلِکَ (1)(ترمذی جلد۲ ص۱۸۲)
حضرت ابو امامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے سامنے سے جب دستر خوان اٹھایا جاتا تھا تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم یہ دعا پڑھتے تھے۔(ترمذی جلد۲ ص۱۸۳)
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ حَمْدًا کَثِیْرًا طَیِّبًا مُّبَارَکاً فِیْہِ غَیْرَ مُوَدَّعٍ وَّلَا مُسْتَغْنًی عَنْہُ رَبَّنَا (2)
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جب آندھی چلتی تو یہ دعا پڑھتے تھے۔ (ترمذی جلد۲ ص۱۸۳)
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ مِنْ خَیْرِھَا وَخَیْرِ مَا فِیْھَاوَخَیْرِمَا اُرْسِلَتْ بِہٖ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّھَا وَشَرِّمَا فِیْھَا وَشَرِّ مَا اُرْسِلَتْ بِہٖ (3)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام بادلوں کی گرج اور بجلی کی کڑک کے وقت یہ دعا پڑھتے تھے۔ (ترمذی جلد۲ ص۱۸۳)
اَللّٰھُمَّ لَا تَقْتُلْنَا بِغَضَبِکَ وَلَا تُھْلِکْنَا بِعَذَابِکَ وَعَافِنَا قَبْلَ ذٰلِکَ (4)
حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کسی قوم یا کسی لشکر سے جان و
"1۔۔۔۔۔۔سنن الترمذی،کتاب الدعوات،باب مایقول اذاودع انسانا،الحدیث:۳۴۵۴،ج۵،ص۲۷۷
2۔۔۔۔۔۔سنن الترمذی،کتاب الدعوات،باب مایقول اذا فرغ من الطعام،الحدیث:۳۴۶۷،ج۵،ص۲۸۳
3۔۔۔۔۔۔سنن الترمذی،کتاب الدعوات،باب مایقول اذا ھاجت الریح،الحدیث:۳۴۶۰،ج۵،ص۲۸۰
4۔۔۔۔۔۔سنن الترمذی،کتاب الدعوات،باب مایقول اذاسمع الرعد،الحدیث:۳۴۶۱،ج۵،ص۲۸۰"
مال وغیرہ کا خوف ہو تو یہ دعا پڑھے۔ (ابو داؤد جلد۱ ص۲۲۲ مجتبائی)
اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَنَعُوْذُ بِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ (1)
" مشہور صحابی حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضورسیدعالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم
ایک دن مسجد میں تشریف لے گئے تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے وہاں حضرت ابو امامہ انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو دیکھا آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابو امامہ!رضی اللہ تعالیٰ عنہ تم اس وقت میں جب کہ نماز کا وقت نہیں ہے مسجد میں کیوں اور کیسے بیٹھے ہوئے ہو، حضرت ابو امامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ! (عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) میں بہت سے افکار اور قرضوں کے بار سے زیر بار ہو رہا ہوں۔ ارشاد فرمایا کہ کیا میں تم کو ایک ایسا کلام نہ تعلیم کروں کہ جب تم اس کو پڑھو تو اﷲ تعالیٰ تمہاری فکر کو دفع فرما دے اور تمہارے قرض کو ادا کر دے؟ حضرت ابو امامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ کیوں نہیں! یا رسول اﷲ! (عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) ضرور مجھے ارشاد فرمائیے ۔تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم روزانہ صبح و شام کو یہ دعا پڑھ لیا کرو۔(ابو داود جلد۱ ص۲۲۴)"
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْھَمِّ وَالْحُزْنِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْکَسْلِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنَ الْجُبْنِ وَالْبُخْلِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ غَلَبَۃِ الدَّیْنِ وَقَہْرِ الرِّجَالِ
حضرت ابو امامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اس دعا کو پڑھا تو میری فکر جاتی رہی اور خداوند تعالیٰ نے میرے قرض کو بھی ادا فرما دیا۔(2)
"1۔۔۔۔۔۔سنن ابی داود،کتاب الوتر،باب مایقول الرجل اذاخاف قوما،الحدیث:۱۵۳۷،ج۲،ص۱۲۷
2۔۔۔۔۔۔سنن ابی داود ،کتاب الوتر ،باب فی الاستعاذۃ ، الحدیث:۱۵۵۵،ج۲، ص ۱۳۳"
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے دنوں میں سب سے افضل دن جمعہ کا دن ہے۔ لہٰذا اس دن مجھ پر بکثرت درود پڑھا کرو کیونکہ تم لوگوں کا درود شریف میرے حضور پیش کیا جاتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ! (عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) جب قبرشریف میں اپ کاجسم مبارک بکھر کرپرانی ہڈیوں کی صورت میں ہوجائے گا تو ہم لوگوں کا درود شریف کیسے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے دربار میں پیش ہواکریگا؟ تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
اِنَّ اللہَ حَرَّمَ عَلَی الْاَرْضِ اَجْسَادَ الْاَنْبِیَآءِ
یعنی اﷲ تعالیٰ نے حضرات انبیاء علیہم السلام کے جسموں کو زمین پر حرام فرما دیا ہے۔(1)(ابو داود جلد۱ ص ۲۲۱ مجتبائی)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تمام حضرات انبیاء علیہم السلام کے مقدس اجسام انکی مبارک قبروں میں سلامت رہتے ہیں اور زمین پر حضرت حق جل جلالہ نے حرام فرما دیا ہے کہ ان کے مقدس جسموں پر کسی قسم کا تغیر و تبدل پیدا کرے۔ جب تمام انبیاء علیہم السلام کی یہ شان ہے تو پھر بھلا حضور سید الانبیاء و سید المرسلین اور امام الانبیاء و خاتم النبییّن صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے مقدس جسم انور کو زمین کیونکر کھا سکتی ہے؟ اس لئے تمام علماء امت و اولیاء امت کا یہی عقیدہ ہے کہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنی قبر اطہر میں زندہ ہیں اور خداعزوجل کے حکم سے بڑے بڑے تصرفات فرماتے رہتے ہیں اور اپنی خداداد پیغمبرانہ قوتوں اور معجزانہ طاقتوں سے اپنی امت کی مشکل کشائی اور ان کی فریاد رسی فرماتے رہتے ہیں۔
1۔۔۔۔۔۔ سنن ابی داود ،کتاب الوتر ، باب فی الاستغفار، الحدیث: ۱۵۳۱، ج۲، ص ۱۲۵
خوب یاد رکھئے کہ جو شخص اس کے خلاف عقیدہ رکھے وہ یقینا بارگاہِ اقدس کا گستاخ بد عقیدہ، گمراہ اور اہل سنت کے مذہب سے خارج ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ جب تم لوگ مرغ کی آواز سنو تواﷲ تعالیٰ سے اسکے فضل کا سوال کرو کیونکہ مرغ فرشتہ کو دیکھ کربولتا ہے۔(یعنی یہ دعا پڑھو
اَسْئَلُ اللہَ مِنْ فَضْلِہِ الْعَظِیْمِ )(1)(مسلم جلد۲ ص۳۵۱)
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ گدھے کی آواز سن کر شیطان سے اﷲ تعالیٰ کی پناہ مانگو ۔
(یعنی اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ)(2)(مسلم جلد۲ ص۳۵۱)
حضرت عبداﷲ بن قیس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ مجھ سے حضوراقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تیری رہنمائی ایسے کلمہ پر نہ کروں جو جنت کے خزانوں میں سے ہے؟ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!(عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) وہ کون سا کلمہ ہے؟ تو ارشاد فرمایا کہ وہ کلمہ لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ ہے۔ (3) (مسلم جلد۲ ص۳۴۶)
"1۔۔۔۔۔۔صحیح مسلم،کتاب الذکر...الخ،باب استحباب الدعائ...الخ،الحدیث:۲۷۲۹،ص۱۴۶۱
2۔۔۔۔۔۔صحیح مسلم،کتاب الذکر...الخ،باب استحباب الدعائ...الخ،الحدیث:۲۷۲۹،ص۱۴۶۱
3۔۔۔۔۔۔صحیح مسلم،کتاب الذکر...الخ،باب استحباب...الخ،الحدیث:۲۷۰۴،ص۱۴۵۰"
حضورِ انور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو اس دعا کو پڑھتا رہے اس کے لئے جنت واجب ہو گئی۔ وہ دعا یہ ہے:
رَضِیْتُ بِاللہِ رَبًّا وَّبِالْاِسْلَامِ دِیْنًا وَّبِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رُسُوْلًا (1) (ابو داود جلد۱ ص۲۲۱ مجتبائی)
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو مسلمان یقین قلب کے ساتھ دن میں اس دعا کو پڑھ لے گا اگر اس دن شام سے پہلے مرے گا تو جنتی ہو گا ۔اور اگر رات میں پڑھ لے گا اور صبح سے پہلے مرے گا تو جنتی ہو گا اس دعا کا نام سید الاستغفار ہے جو یہ ہے:
اَللّٰھُمَّ اَنْتَ رَبِّیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ خَلَقْتَنِیْ وَاَنَا عَبْدُکَ وَاَنَا عَلٰی عَھْدِکَ وَوَعْدِکَ مَا اسْتَطَعْتُ اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّمَا صَنَعْتُ اَبُوْءُ لَکَ بِنِعْمَتِکَ عَلَیَّ وَ اَبُوْءُ بِذَنْبِیْ فَاغْفِرْلِیْ فَاِنَّہٗ لَایَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ (2)(بخاری جلد۲ ص۹۳۳)
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ اگر کوئی مسلمان اپنی بیوی سے صحبت کرنے سے پہلے یہ دعا پڑھ لے تو اس صحبت سے جو اولاد پیدا ہو گی اس کو کبھی ہر گز شیطان کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ دعا یہ ہے:
بِسْمِ اللہِ اَللّٰھُمَّ جَنِّبْنَا الشَّیْطَانَ وَجَنِّبِ الشَّیْطَانَ مَارَزَقْتَنَا(3)(بخاری جلد۲ ص۹۴۵)
روایت ہے کہ عبدالعزیز بن صہیب اور ثابت بنانی رضی اللہ تعالیٰ عنہما دونوں
"1۔۔۔۔۔۔ سنن ابی داود،کتاب الوتر، باب فی الاستغفار ، الحدیث: ۱۵۲۹، ج۲، ص ۱۲۵
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب الدعوات،باب افضل الاستغفار،الحدیث:۶۳۰۶،ج۴،ص۱۸۹
3۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب الدعوات،باب مایقول اذا اتی اھلہ،الحدیث:۶۳۸۸،ج۴،ص۲۱۴"
حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ثابت بنانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ اے ابو حمزہ! (انس) میں بیمار ہو گیا ہوں۔ حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ کیا میں اس دعا سے تمہارے مرض کا جھاڑ پھونک نہ کر دوں جس دعا سے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مریضوں پر شفا کے لئے دم فرمایا کرتے تھے؟ ثابت بنانی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ کیوں نہیں۔ اس کے بعد حضرت اَنس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے یہ دعا پڑھی کہ
اَللّٰھُمَّ رَبَّ النَّاسِ مُذْھِبَ الْبَاْسِ اِشْفِ اَنْتَ الشَّافِیْ لَا شَافِیَ اِلَّا اَنْتَ شِفَاءً لَا یُغَادِرُ سَقَمًا(1)(بخاری جلد۲ ص۸۵۵ باب رقیۃ النبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)
حضرت اُم المؤمنین بی بی اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے یہ سنا تھا کہ کسی مسلمان کو کوئی مصیبت پہنچے تو وہ
اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِیْ وَاخْلُفْ لِیْ خَیْرًا مِّنْھَا
"پڑھ لے تو اﷲ تعالیٰ اس مسلمان کو اس کی ضائع شدہ چیز سے بہتر چیز عطا فرمائے گا۔
حضرت بی بی اُمِ سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ جب میرے شوہر حضرت ابو سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا انتقال ہو گیا تو میں نے (دل میں) کہا کہ بھلا ابوسلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے بہتر کون مسلمان ہوگا؟ یہ پہلا گھر ہے جو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ پہنچا لیکن پھر میں نے اس دعا کو پڑھ لیا تو اﷲ تعالیٰ نے مجھے ابو سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے بہتر شوہر عطا فرمایا کہ رسول اﷲعزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مجھ سے نکاح فرما لیا۔ (2)(مسلم جلد۱ ص۳۰۰ کتاب الجنائز)"
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب الطب،باب رقیۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم،الحدیث:۵۷۴۲،ج۴،ص۳۲
2۔۔۔۔۔۔صحیح مسلم،کتاب الجنائز،باب مایقال عند المصیبۃ ،الحدیث: ۹۱۸، ص ۴۵۷"
"ان کے مولیٰ کے ان پرکروڑوں درود ان کے اصحاب و عترت پہ لاکھوں سلام
پار ہائے صحف غنچہائے قدس اہل بیت نبوت پہ لاکھوں سلام
اہل اسلام کی مادرانِ شفیق بانوانِ طہارت پہ لاکھوں سلام"
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی نسبت مبارکہ کی و جہ سے ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کا بھی بہت ہی بلند مرتبہ ہے ان کی شان میں قرآن کی بہت سی آیات بینات نازل ہوئیں جن میں ان کی عظمتوں کا تذکرہ اور ان کی رفعت شان کا بیان ہے۔ چنانچہ خداوند قدوس نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ
یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَیۡتُنَّ (1)
"اے نبی کی بیویو! تم اور عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر اﷲ سے ڈرو۔(احزاب)
دوسری آیت میں یہ ارشاد فرمایا کہ"
وَ اَزْوَاجُہٗۤ اُمَّہٰتُہُمْ ؕ (2)
"اور اس(نبی) کی بیویاں ان (مومنین) کی مائیں ہیں۔(احزاب)
یہ تمام امت کا متفق علیہ مسئلہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مقدس بیویاں دو باتوں میں حقیقی ماں کے مثل ہیں۔ ایک یہ کہ ان کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کسی کا"
"1۔۔۔۔۔۔پ ۲۲،الاحزاب:۳۲
2۔۔۔۔۔۔پ ۲۱،الاحزاب:۶"
نکاح جائز نہیں۔ دوم یہ کہ ان کی تعظیم و تکریم ہر امتی پر اسی طرح لازم ہے جس طرح حقیقی ماں کی بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ لیکن نظر اورخلوت کے معاملہ میں ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کا حکم حقیقی ماں کی طرح نہیں ہے۔ کیونکہ قرآن مجید میں حضرت حق جل جلالہ کا ارشاد ہے کہ
وَ اِذَا سَاَلْتُمُوۡہُنَّ مَتَاعًا فَسْـَٔلُوۡہُنَّ مِنۡ وَّرَآءِ حِجَابٍ ؕ (1)
"جب نبی کی بیویوں سے تم لوگ کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگو۔(احزاب)
مسلمان اپنی حقیقی ماں کو تو دیکھ بھی سکتا ہے اور تنہائی میں بیٹھ کر اس سے بات چیت بھی کر سکتا ہے مگر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مقدس بیویوں سے ہر مسلمان کے لئے پردہ فرض ہے اور تنہائی میں انکے پاس اٹھنا بیٹھنا حرام ہے۔
اسی طرح حقیقی ماں کے ماں باپ، لڑکوں کے نانی نانا اور حقیقی ماں کے بھائی بہن، لڑکوں کے ماموں اور خالہ ہوا کرتے ہیں مگر ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے ماں باپ امت کے نانی نانا اور ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے بھائی بہن امت کے ماموں خالہ نہیں ہوا کرتے۔
یہ حکم حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ان تمام ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے لئے ہے جن سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نکاح فرمایا، چاہے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے پہلے ان کا انتقال ہوا ہو یا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد انہوں نے وفات پائی ہو۔ یہ سب کی سب امت کی مائیں ہیں اور ہر امتی کے لئے اس کی حقیقی ماں سے بڑھ کر لائق تعظیم و واجب الاحترام ہیں۔ (2)(زرقانی جلد۳ ص۲۱۶)"
"1۔۔۔۔۔۔پ ۲۲، الاحزاب:۵۳
2۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،باب فی ذکر ازواجہ...الخ ،ج۴،ص۳۵۶۔۳۵۷"
" ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کی تعداد اور ان کے نکاحوں کی ترتیب کے بارے میں مؤرخین کا قدرے اختلاف ہے مگر گیارہ اُمہات المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے بارے میں کسی کا بھی اختلاف نہیں ان میں سے حضرت خدیجہ اور حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کا تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سامنے ہی انتقال ہو گیا تھا مگر نو بیویاں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفاتِ اقدس کے وقت موجود تھیں۔
ان گیارہ اُمت کی ماؤں میں سے چھ خاندان قریش کے اونچے گھرانوں کی چشم و چراغ تھیں جن کے اسماء مبارکہ یہ ہیں:
(۱) خدیجہ بنت خویلد(۲) عائشہ بنت ابوبکرصدیق(۳) حفصہ بنت عمرفاروق
(۴)اُمِ حبیبہ بنت ابو سفیان(۵)اُمِ سلمہ بنت ابو امیہ(۶) سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہن
اورچارازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن خاندان قریش سے نہیں تھیں بلکہ عرب کے دوسرے قبائل سے تعلق رکھتی تھیں وہ یہ ہیں:
(۱)زینب بنت جحش(۲) میمونہ بنت حارث(۳) زینب بنت خزیمہ ''ام المساکین'' (۴) جویریہ بنت حارث اور ایک بیوی یعنی صفیہ بنت حیی یہ عربی النسل نہیں تھیں بلکہ خاندان بنی اسرائیل کی ایک شریف النسب رئیس زادی تھیں۔
اس بات میں بھی کسی مؤرخ کا اختلاف نہیں ہے کہ سب سے پہلے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے نکاح فرمایا اور جب تک وہ زندہ رہیں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے کسی دوسری عورت سے عقد نہیں فرمایا۔(1)
(زرقانی جلد۳ ص۲۱۸ تا ۲۱۹)"
1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،باب فی ذکرازواجہ الطاہرات...الخ،ج۴،ص۳۵۹۔۳۶۲
" یہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی سب سے پہلی رفیقۂ حیات ہیں۔ ان کے والد کا نام خویلد بن اسد اور ان کی والدہ کا نام فاطمہ بنت زائدہ ہے۔ یہ خاندان قریش کی بہت ہی معزز اور نہایت ہی دولت مند خاتون تھیں۔ ہم اِس کتاب کے تیسرے باب میں لکھ چکے ہیں کہ اہل مکہ ان کی پاک دامنی اور پارسائی کی بنا پر انکو ''طاہرہ'' کے لقب سے یاد کرتے تھے۔ انہوں نے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے اخلاق و عادات اور جمالِ صورت و کمالِ سیرت کو دیکھ کر خود ہی حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے نکاح کی رغبت ظاہر کی اور پھر باقاعدہ نکاح ہو گیا جس کا مفصل تذکرہ گزر چکا۔ علامہ ابن اثیر اور امام ذہبی کا بیان ہے کہ اس بات پر تمام اُمت کا اجماع ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر سب سے پہلے یہی ایمان لائیں اور ابتداء اسلام میں جب کہ ہر طرف سے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مخالفت کا طوفان اُٹھ رہا تھا ایسے کٹھن وقت میں صرف انہیں کی ایک ذات تھی جو رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مونس حیات بن کر تسکین خاطر کا باعث تھی۔ انہوں نے اتنے خوفناک اور خطرناک اوقات میں جس استقلال اور استقامت کے ساتھ خطرات و مصائب کا مقابلہ کیا اور جس طرح تن من دھن سے بارگاہ نبوت میں اپنی قربانی پیش کی اس خصوصیت میں تمام ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن پر ان کو ایک خصوصی فضیلت حاصل ہے۔ چنانچہ ولی الدین عراقی کا بیان ہے کہ قول صحیح اور مذہب مختار یہی ہے کہ امہات المؤمنین میں حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سب سے زیادہ افضل ہیں۔
ان کے فضائل میں چند حدیثیں وارد بھی ہوئی ہیں۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ"
"رضی اﷲ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ حضرت جبریل علیہ السلام رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اورعرض کیا کہ اے محمد!(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) یہ خدیجہ ہیں جو آپ کے پاس ایک برتن لے کر آ رہی ہیں جس میں کھانا ہے۔ جب یہ آپ کے پاس آ جائیں تو آپ ان سے ان کے رب کا اور میرا سلام کہہ دیں اور ان کو یہ خوشخبری سنا دیں کہ جنت میں ان کے لئے موتی کا ایک گھر بناہے جس میں نہ کوئی شور ہو گا نہ کوئی تکلیف ہو گی۔(1)(بخاری جلد۱ص۵۳۹ باب تزویج النبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)
امام احمد و ابو داؤد و نسائی،حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے راوی ہیں کہ اہل جنت کی عورتوں میں سب سے افضل حضرت خدیجہ، حضرت فاطمہ، حضرت مریم و حضرت آسیہ ہیں۔(2)(رضی اللہ تعالیٰ عنہن)(زرقانی جلد۳ ص۲۲۳ تا۲۲۴)
اسی طرح روایت ہے کہ ایک مرتبہ جب حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زبانِ مبارک سے حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی بہت زیادہ تعریف سنی تو انہیں غیرت آ گئی اور انہوں نے یہ کہہ دیا کہ اب تو اﷲ تعالیٰ نے آپ کو ان سے بہتر بیوی عطا فرما دی ہے۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ نہیں خدا کی قسم! خدیجہ سے بہتر مجھے کوئی بیوی نہیں ملی جب سب لوگوں نے میرے ساتھ کفر کیا اس وقت وہ مجھ پر ایمان لائیں اور جب سب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے اس وقت انہوں نے میری تصدیق کی اور جس وقت کوئی شخص مجھے کوئی چیز دینے کے لئے"
"1۔۔۔۔۔۔ صحیح البخاری ،کتاب مناقب الانصار ، باب تزویج النبی صلی اللہ علیہ وسلم ...الخ، الحدیث: ۳۸۲۰،ج۲، ص ۵۶۵
والمواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب خدیجۃ ام المؤمنین،ج۴،ص۳۶۳۔۳۶۵،۳۷۱
2۔۔۔۔۔۔المسندللامام احمد بن حنبل،مسندعبداللہ ابن عباس،الحدیث:۲۹۰۳،ج۱،ص۶۷۸"
"تیار نہ تھا اس وقت خدیجہ نے مجھے اپنا سارا مال دے دیا اور انہیں کے شکم سے اﷲ تعالیٰ نے مجھے اولاد عطا فرمائی۔ (1)(زرقانی جلد۳ ص۲۲۴)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ ازواجِ مطہرات میں سب سے زیادہ مجھے حضرت خدیجہ کے بارے میں غیرت آیا کرتی تھی حالانکہ میں نے ان کو دیکھا بھی نہیں تھا۔ غیرت کی وجہ یہ تھی کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بہت زیادہ ان کا ذکر ِخیر فرماتے رہتے تھے اور اکثر ایسا ہوا کرتا تھا کہ آپ جب کوئی بکری ذبح فرماتے تھے توکچھ گوشت حضرت خدیجہ کی سہیلیوں کے گھروں میں ضرور بھیج دیا کرتے تھے اس سے میں چڑ جایا کرتی تھی اور کبھی کبھی یہ کہہ دیا کرتی تھی کہ ''دنیا میں بس ایک خدیجہ ہی تو آپ کی بیوی تھیں۔'' میرا یہ جملہ سن کر آپ فرمایا کرتے تھے کہ ہاں ہاں بے شک وہ تھیں وہ تھیں انہیں کے شکم سے تو اﷲ تعالیٰ نے مجھے اولاد عطا فرمائی۔ (2) (بخاری جلد۱ ص۵۳۹ ذکر خدیجہ)
امام طبرانی نے حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے ایک حدیث نقل کی ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو دنیا میں جنت کا انگور کھلایا۔ اس حدیث کو امام سہیلی نے بھی نقل فرمایا ہے۔(3)(زرقانی جلد۳ص ۲۲۶)
حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا پچیس سال تک حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت گزاری سے سرفراز رہیں، ہجرت سے تین برس قبل پینسٹھ برس کی عمر پا کر ماہ رمضان"
"1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی ، باب خدیجۃ ام المؤمنین ، ج۴، ص ۳۷۲
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب مناقب الانصار،باب تزویج النبی صلی اللہ علیہ وسلم خدیجۃ...الخ، الحدیث: ۳۸۱۸،ج۲،ص۵۶۵
3۔۔۔۔۔۔ شرح الزرقانی علی المواہب ، باب خدیجۃ ام المؤمنین ، ج۴، ص ۳۷۶"
میں مکہ معظمہ کے اندر انہوں نے وفات پائی۔ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ کے مشہور قبرستان حجون (جنت المعلی) میں خود بہ نفس نفیس ان کی قبر میں اتر کر اپنے مقدس ہاتھوں سے ان کو سپرد خاک فرمایا چونکہ اس وقت تک نماز جنازہ کا حکم نازل نہیں ہوا تھا اس لئے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ نہیں پڑھائی۔(1) (زرقانی جلد۳ ص۲۲۷ و اکمال فی اسماء الرجال ص۵۹۳)
" ان کے والد کا نام ''زمعہ'' اور ان کی والدہ کا نام شموس بنت قیس بن عمرو ہے۔ یہ پہلے اپنے چچا زاد بھائی سکران بن عمرو سے بیاہی گئی تھیں۔ یہ میاں بیوی دونوں ابتدائے اسلام میں ہی مسلمان ہو گئے تھے اور ان دونوں نے حبشہ کی ہجرت ثانیہ میں حبشہ کی طرف ہجرت بھی کی تھی، لیکن جب حبشہ سے واپس آ کر یہ دونوں میاں بیوی مکہ مکرمہ آئے تو ان کے شوہر سکران بن عمرو رضی اﷲ تعالیٰ عنہ وفات پا گئے اور یہ بیوہ ہوگئیں ان کے ایک لڑکا بھی تھا جن کا نام ''عبدالرحمن'' تھا۔
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کا بیان ہے کہ حضرت سودہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے ایک خواب دیکھا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پیدل چلتے ہوئے ان کی طرف تشریف لائے اور ان کی گردن پر اپنا مقدس پاؤں رکھ دیا۔ جب حضرت سودہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے اس خواب کو اپنے شوہر سے بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ اگر تیرا خواب سچا ہے تو میں یقینا عنقریب ہی مر جاؤں گا اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تجھ سے نکاح فرمائیں"
"1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی ، باب خدیجۃ ام المؤمنین ، ج۴، ص ۳۷۶
والاکمال فی اسماء الرجال،حرف الخاء ، خدیجۃ بنت خویلد، ص۵۹۳"
"گے۔ اس کے بعد دوسری رات میں حضرت سودہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے یہ خواب دیکھا کہ ایک چاند ٹوٹ کر ان کے سینے پر گرا ہے صبح کو انہوں نے اس خواب کا بھی اپنے شوہر سے ذکر کیا تو ان کے شوہر حضرت سکران رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے چونک کر کہا کہ اگر تیرایہ خواب سچا ہے تو میں اب بہت جلد انتقال کر جاؤں گا اور تم میرے بعد حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے نکاح کرو گی ۔چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ اسی دن حضرت سکران رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بیمار ہوئے اور چند دنوں کے بعد وفات پا گئے۔(1)(زرقانی جلد۳ ص۲۲۷)
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی وفات سے ہر وقت بہت زیادہ مغموم اور اداس رہا کرتے تھے۔ یہ دیکھ کر حضرت خولہ بنت حکیم رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں یہ درخواست پیش کی کہ یارسول اﷲ!(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) آپ حضرت سودہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے نکاح فرمالیں تا کہ آپ کا خانہ معیشت آباد ہو جائے اور ایک وفادار اور خدمت گزار بیوی کی صحبت و رفاقت سے آپ کا غم مٹ جائے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کے اس مخلصانہ مشورہ کو قبول فرما لیا۔چنانچہ حضرت خولہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے باپ سے بات چیت کرکے نسبت طے کرا دی اور نکاح ہو گیا اور یہ اُمہات المؤمنین کے زمرے میں داخل ہو گئیں اور اپنی زندگی بھر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی زوجیت کے شرف سے سرفراز رہیں اور انتہائی والہانہ عقیدت و محبت کے ساتھ آپ کی وفادار اور خدمت گزار رہیں ۔یہ بہت ہی فیاض اور سخی تھیں ایک مرتبہ حضرت امیر المومنین عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے درہموں سے بھرا ہوا ایک تھیلا ان کی خدمت میں بھیجا"
1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب سودۃ ام المؤمنین ، ج۴، ص ۳۷۷۔۳۷۸
"آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے پوچھا یہ کیا ہے؟ لانے والے نے بتایا کہ درہم ہیں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے فرمایا کہ بھلا درہم کھجوروں کے تھیلے میں بھیجے جاتے ہیں یہ کہا اور اٹھ کر اسی وقت ان تمام درہموں کو مدینہ کے فقرا و مساکین پر تقسیم کر دیا۔
حدیث کی مشہور کتابوں میں ان کی روایت کی ہوئی پانچ حدیثیں مذکور ہیں جن میں سے ایک حدیث بخاری شریف میں بھی ہے حضرت عبداﷲ بن عباس اور حضرت یحیی بن عبدالرحمن رضی اﷲ تعالیٰ عنہما ان کے شاگردوں میں بہت ہی ممتاز ہیں۔
ان کی وفات کے سال میں مختلف اور متضاد اقوال ہیں،امام ذہبی اور امام بخاری نے اس روایت کو صحیح بتایا ہے کہ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے آخری دور خلافت ۲۳ھ میں مدینہ منورہ کے اندر ان کی وفات ہوئی لیکن و اقدی نے اس قول کو ترجیح دی ہے کہ ان کی وفات کا سال ۵۴ھ ہے اور صاحب اکمال نے بھی ان کا سنہ وفات شوال ۵۴ھ ہی تحریر کیا ہے مگر حضرت علامہ ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب تقریب التہذیب میں یہ لکھا ہے کہ ان کی وفات شوال ۵۵ھ میں ہوئی ۔(1)واﷲ تعالیٰ اعلم۔
(زرقانی جلد۳ ص۲۲۹ و اکمال ص۵۹۹)"
یہ امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی نورِ نظر اور دخترنیک اختر ہیں۔ ان کی والدہ ماجدہ کا نام ''اُمِ رُومان'' ہے یہ چھ برس کی تھیں جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اعلانِ نبوت کے دسویں سال ماہ شوال میں ہجرت سے تین سال قبل
"1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب سودۃ ام المؤمنین،ج۴،ص۳۷۹۔۳۸۱
والاکمال فی اسماء الرجال ، حرف السین ، سودۃ ، ص۵۹۹"
"نکاح فرمایا اور شوال ۲ ھ میں مدینہ منورہ کے اندر یہ کاشانہ نبوت میں داخل ہو گئیں اور نو برس تک حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی صحبت سے سرفراز رہیں۔ ازواجِ مطہرات میں یہی کنواری تھیں اور سب سے زیادہ بارگاہ نبوت میں محبوب ترین بیوی تھیں۔ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا ان کے بارے میں ارشاد ہے کہ کسی بیوی کے لحاف میں میرے اوپر وحی نازل نہیں ہوئی مگر حضرت عائشہ جب میرے ساتھ بستر نبوت پر سوتی رہتی ہیں تو اس حالت میں بھی مجھ پر وحی الٰہی اترتی رہتی ہے۔(1)
(بخاری جلد۱ ص۵۳۲ فضل عائشہ)
بخاری و مسلم کی روایت ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے فرمایا کہ تین راتیں میں خواب میں یہ دیکھتا رہا کہ ایک فرشتہ تم کو ایک ریشمی کپڑے میں لپیٹ کر میرے پاس لاتا رہا اور مجھ سے یہ کہتا رہا کہ یہ آپ کی بیوی ہیں۔ جب میں نے تمہارے چہرے سے کپڑا ہٹا کر دیکھا تو ناگہاں وہ تم ہی تھیں۔ اس کے بعد میں نے اپنے دل میں کہا کہ اگر یہ خواب اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو وہ اس خواب کو پورا کر دکھائے گا۔(2)(مشکوٰۃ جلد۲ ص۵۷۳)
فقہ و حدیث کے علوم میں ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے اندران کا درجہ بہت ہی بلند ہے۔ دوہزار دو سو دس حدیثیں انہوں نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے روایت"
"1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،باب عائشۃ ام المؤمنین،ج۴،ص۳۸۱۔۳۸۸ملتقطاً
وصحیح البخاری،کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم،باب فضل عائشۃ رضی اللہ عنہا،الحدیث:۳۷۷۵،ج۲،ص۵۵۲
2۔۔۔۔۔۔مشکاۃ المصابیح ،کتاب المناقب،باب مناقب ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم ورضی اللہ عنہن، الحدیث: ۶۱۸۸،ج۲، ص ۴۴۴"
"کی ہیں۔ ان کی روایت کی ہوئی حدیثوں میں سے ایک سو چوہتر حدیثیں ایسی ہیں جو بخاری و مسلم دونوں کتابوں میں ہیں اور چون حدیثیں ایسی ہیں جو صرف بخاری شریف میں ہیں اور اڑسٹھ حدیثیں وہ ہیں جن کو صرف امام مسلم نے اپنی کتاب صحیح مسلم میں تحریر کیا ہے۔ ان کے علاوہ باقی حدیثیں احادیث کی دوسری کتابوں میں مذکور ہیں۔(1)
ابن سعد نے حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے نقل کیا ہے کہ خود حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا فرمایا کرتی تھیں کہ مجھے تمام ازواجِ مطہرات پر ایسی دس فضیلتیں حاصل ہیں جو دوسری ازواجِ مطہرات کو حاصل نہیں ہوئیں۔
(۱)حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے میرے سوا کسی دوسری کنواری عورت سے نکاح نہیں فرمایا۔
(۲)میرے سوا ازواجِ مطہرات میں سے کوئی بھی ایسی نہیں جس کے ماں باپ دونوں مہاجر ہوں۔
(۳)اﷲ تعالیٰ نے میری برأ ت اور پاک دامنی کا بیان آسمان سے قرآن میں نازل فرمایا۔
(۴)نکاح سے قبل حضرت جبریل علیہ السلام نے ایک ریشمی کپڑے میں میری صورت لا کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو دکھلا دی تھی اور آپ تین راتیں خواب میں مجھے دیکھتے رہے۔
(۵)میں اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ایک ہی برتن میں سے پانی لے لے کرغسل کیا کرتے تھے یہ شرف میرے سوا ازواجِ مطہرات میں سے کسی کو بھی نصیب نہیں ہوا۔
(۶)حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نمازتہجد پڑھتے تھے اور میں آپ کے آگے سوئی رہتی تھی اُمہات المؤمنین میں سے کوئی بھی حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی اس کریمانہ محبت سے سرفراز نہیں ہوئی۔"
1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی ، باب عائشۃ ام المؤمنین ، ج۴، ص ۳۸۹
"(۷)میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ ایک لحاف میں سوتی رہتی تھی اور آپ پر خدا کی وحی نازل ہوا کرتی تھی یہ وہ اعزاز خداوندی ہے جو میرے سواحضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی کسی زوجہ مطہرہ کو حاصل نہیں ہوا۔
(۸)وفات اقدس کے وقت میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنی گود میں لئے ہوئے بیٹھی تھی اور آپ کا سر انور میرے سینے اور حلق کے درمیان تھا اور اسی حالت میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا وصال ہوا۔
(۹)حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے میری باری کے دن وفات پائی۔
(۱۰)حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی قبر انور خاص میرے گھر میں بنی۔(1)
(زرقانی جلد۳ ص۳۲۳)
عبادت میں بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکا مرتبہ بہت ہی بلند ہے آپ کے بھتیجے حضرت امام قاسم بن محمد بن ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کا بیان ہے کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا روزانہ بلاناغہ نماز تہجد پڑھنے کی پابند تھیں اور اکثر روزہ دار بھی رہا کرتی تھیں۔
سخاوت اور صدقات و خیرات کے معاملہ میں بھی تمام اُمہات المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہن میں خاص طور پر بہت ممتاز تھیں۔ اُمِ دُرّہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ میں حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے پاس تھی اس وقت ایک لاکھ درہم کہیں سے آپ کے پاس آیا آپ نے اسی وقت ان سب درہموں کو لوگوں میں تقسیم کر دیا اور ایک درہم بھی گھر میں باقی نہیں چھوڑا۔ اس دن میں وہ روزہ دار تھیں میں نے عرض کیا کہ آپ نے سب درہموں کو بانٹ دیا اور ایک درہم بھی باقی نہیں رکھا تا کہ آپ گوشت خرید کر"
1۔۔۔۔۔۔الطبقات الکبری لابن سعد ، باب ذکر ازواج رسول اللہ ، ج۸، ص ۵۰۔۵۱
"روزہ افطار کرتیں تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے فرمایا کہ تم نے اگرمجھ سے پہلے کہا ہوتا تو میں ایک درہم کا گوشت منگا لیتی۔
حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما جو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے بھانجے تھے ان کا بیان ہے کہ فقہ و حدیث کے علاوہ میں نے حضرت عائشہ (رضی اﷲ تعالیٰ عنہا) سے بڑھ کر کسی کو اشعار عرب کا جاننے والا نہیں پایا وہ دوران گفتگو میں ہر موقع پر کوئی نہ کوئی شعر پڑھ دیا کرتی تھیں جو بہت ہی بر محل ہواکرتا تھا۔
علم طب اور مریضوں کے علاج معالجہ میں بھی انہیں کافی بہت مہارت تھی۔ حضرت عروہ بن زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک دن حیران ہو کر حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے عرض کیا کہ اے اماں جان! مجھے آپ کے علم حدیث و فقہ پر کوئی تعجب نہیں کیونکہ آپ نے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی زوجیت اور صحبت کا شرف پایا ہے اور آپ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی سب سے زیادہ محبوب ترین زوجہ مقدسہ ہیں اسی طرح مجھے اس پر بھی کوئی تعجب اور حیرانی نہیں ہے کہ آپ کو اس قدر زیادہ عرب کے اشعار کیوں اور کس طرح یاد ہو گئے؟ اس لئے کہ میں جانتا ہوں کہ آپ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی نور نظر ہیں اور وہ اشعار عرب کے بہت بڑے حافظ و ماہر تھے مگر میں اس بات پر بہت ہی حیران ہوں کہ آخر یہ طبی معلومات اور علاج و معالجہ کی مہارت آپ کو کہاں سے اور کیسے حاصل ہو گئی؟ یہ سن کر حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنی آخری عمر شریف میں اکثر علیل ہو جایا کرتے تھے اور عرب و عجم کے اطباء آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے لئے دوائیں تجویز کرتے تھے اور میں ان دواؤں سے آپ کا علاج کیا کرتی تھی اس لئے"
"مجھے طبی معلومات بھی حاصل ہو گئیں۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے شاگردوں میں صحابہ اور تابعین کی ایک بہت بڑی جماعت ہے اور آپ کے فضائل و مناقب میں بہت سی حدیثیں بھی وارد ہوئی ہیں۔
۱۷ رمضان شب سہ شنبہ ۵۷ھ یا ۵۸ھ میں مدینہ منورہ کے اندر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکا وصال ہوا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپ کی وصیت کے مطابق رات میں لوگوں نے آپ کو جنت البقیع کے قبرستان میں دوسری ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کی قبروں کے پہلو میں دفن کیا۔(1)(اکمال و حاشیہ اکمال ص۶۱۲ و زرقانی جلد۳ ص۲۳۴ تا ۲۳۵)"
" ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے والد ماجد امیر المومنین حضرت عمر ابن الخطاب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہیں اور ان کی والدہ ماجدہ حضرت زینب بنت مظعون رضی اﷲ تعالیٰ عنہا ہیں جو ایک مشہورصحابیہ ہیں۔ حضرت حفصہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی پہلی شادی حضرت خنیس بن حذافہ سہمی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ہوئی ا ور انہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ مدینہ طیبہ کو ہجرت بھی کی تھی لیکن ان کے شوہر جنگ بدر یا جنگ احد میں زخمی ہو کر وفات پا گئے اور یہ بیوہ ہو گئیں پھر رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ۳ھمیں ان سے نکاح فرمایا اور یہ ام المؤمنین کی حیثیت سے کاشانۂ نبوی کی سکونت سے مشرف ہوگئیں۔
یہ بہت ہی شاندار،بلندہمت اور سخاوت شعار خاتون ہیں۔ حق گوئی حاضر جوابی اور فہم و فراست میں اپنے والد بزرگوار کا مزاج پایا تھا۔ اکثر روزہ دار رہا کرتی"
"1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب عائشۃ ام المؤمنین،ج۴،ص۳۸۹۔۳۹۲
والاکمال فی اسماء الرجال،حرف العین ، عائشۃ الصدیقۃ ، ص۶۱۲"
"تھیں اور تلاوت قرآن مجید اور دوسری قسم قسم کی عبادتوں میں مصروف رہا کرتی تھیں۔ ان کے مزاج میں کچھ سختی تھی اسی لئے حضرت امیر المؤمنین عمر بن الخطاب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہروقت اس فکر میں رہتے تھے کہ کہیں ان کی کسی سخت کلامی سے حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی دل آزاری نہ ہو جائے۔ چنانچہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بار بار ان سے فرمایا کرتے تھے کہ اے حفصہ! تم کو جس چیز کی ضرورت ہو مجھ سے طلب کر لیا کرو، خبردار کبھی حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے کسی چیز کا تقاضا نہ کرنا نہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی کبھی ہر گز ہر گز دل آزاری کرنا ورنہ یاد رکھو کہ اگر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تم سے ناراض ہو گئے تو تم خدا کے غضب میں گرفتار ہو جاؤ گی۔
یہ بہت بڑی عبادت گزار ہونے کے ساتھ ساتھ فقہ و حدیث میں بھی ایک ممتاز درجہ رکھتی ہیں۔ انہوں نے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے ساٹھ حدیثیں روایت کی ہیں جن میں سے پانچ حدیثیں بخاری شریف میں مذکور ہیں باقی احادیث دوسری کتب حدیث میں درج ہیں۔
علم حدیث میں بہت سے صحابہ اور تابعین ان کے شاگردوں کی فہرست میں نظر آتے ہیں جن میں خود ان کے بھائی عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بہت مشہور ہیں۔ شعبان ۴۵ھ میں مدینہ منورہ کے اندر ان کی وفات ہوئی اس وقت حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی حکومت کا زمانہ تھا اور مروان بن حکم مدینہ کا حاکم تھا۔ اسی نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور کچھ دور تک ان کے جنازہ کو بھی اٹھایا پھر حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ قبر تک جنازہ کو کاندھا دئیے چلتے رہے۔ ان کے دو بھائی حضرت عبداﷲ بن عمر اور حضرت عاصم بن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما اور ان کے تین بھتیجے حضرت سالم بن عبداﷲ و"
حضرت عبداﷲ بن عبداﷲ و حضرت حمزہ بن عبداﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے ان کو قبر میں اتارا اوریہ جنت البقیع میں دوسری ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے پہلومیں مدفون ہوئیں۔ بوقت وفات ان کی عمر ساٹھ یا تریسٹھ برس کی تھی۔(1) (زرقانی جلد۳ ص۲۳۶ تا ۲۳۸)
ان کا نام ہند ہے اور کنیت ''اُمِ سلمہ'' ہے مگر یہ اپنی کنیت کے ساتھ ہی زیادہ مشہور ہیں۔ ان کے باپ کا نام ''حذیفہ'' اور بعض مؤرخین کے نزدیک ''سہل'' ہے مگر اس پر تمام مؤرخین کا اتفاق ہے کہ ان کی والدہ ''عاتکہ بنت عامر'' ہیں۔ ان کا نکاح پہلے حضرت ابوسلمہ عبداﷲ بن عبدالاسد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ہوا تھاجو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی تھے۔ یہ دونوں میاں بیوی اعلانِ نبوت کے بعد جلد ہی دامن اسلام میں آ گئے تھے اور سب سے پہلے ان دونوں نے حبشہ کی جانب ہجرت کی پھر یہ دونوں حبشہ سے مکہ مکرمہ آ گئے اور مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کا ارادہ کیا۔ چنانچہ حضرت ابو سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اونٹ پر کجاوہ باندھا اور حضرت بی بی اُمِ سلمہ اور اپنے فرزند سلمہ کو کجاوہ میں سوار کر دیا مگر جب اونٹ کی نکیل پکڑ کر حضرت ابو سلمہ روانہ ہوئے تو حضرت اُمِ سلمہ کے میکے والے بنو مغیرہ دوڑ پڑے اور ان لوگوں نے یہ کہا کہ ہم اپنے خاندان کی اس لڑکی کو ہر گز ہر گز مدینہ نہیں جانے دیں گے اور زبردستی ان کو اونٹ سے اتار لیا۔ یہ دیکھ کر حضرت ابو سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے خاندانی لوگوں کو بھی طیش آ گیا اور ان لوگوں نے غضب ناک ہو کر کہا کہ تم لوگ اُمِ سلمہ کو محض اس بنا پر روکتے ہو کہ یہ تمہارے خاندان کی لڑکی ہے تو ہم اس کے بچہ ''سلمہ''کوہرگزہرگزتمہارے پاس نہیں
1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب حفصۃ ام المؤمنین ، ج۴، ص ۳۹۳،۳۹۶
رہنے دیں گے اس لئے کہ یہ بچہ ہمارے خاندان کا ایک فرد ہے۔ یہ کہہ کر ان لوگوں نے بچہ کو اس کی ماں کی گود سے چھین لیا مگر حضرت ابو سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ہجرت کا ارادہ ترک نہیں کیا بلکہ بیوی اور بچہ دونوں کو چھوڑ کر تنہا مدینہ منورہ چلے گئے۔ حضرت بی بی اُمِ سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا اپنے شوہر اوربچے کی جدائی پر صبح سے شام تک مکہ کی پتھریلی زمین میں کسی چٹان پر بیٹھی ہوئی تقریباً سات دنوں تک زارو قطار روتی رہیں ان کا یہ حال دیکھ کر ان کے ایک چچا زاد بھائی کو ان پر رحم آ گیا اور اس نے بنو مغیرہ کو سمجھا بجھا کر یہ کہا کہ آخر اس مسکینہ کو تم لوگوں نے اس کے شوہر اور بچے سے کیوں جدا کر رکھا ہے؟ تم لوگ کیوں نہیں اس کو اجازت دے دیتے کہ وہ اپنے بچہ کو ساتھ لے کر اپنے شوہر کے پاس چلی جائے۔ بالآخر بنو مغیرہ اس پر رضامند ہو گئے کہ یہ مدینہ چلی جائے۔ پھر حضرت ابوسلمہ کے خاندان والے بنو عبدالاسد نے بھی بچے کو حضرت اُمِ سلمہ کے سپرد کر دیا اور حضرت اُمِ سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا بچہ کو گود میں لے کر اونٹ پر سوار ہو گئیں اور اکیلی مدینہ کو چل پڑیں مگر جب مقام ''تنعیم'' میں پہنچیں تو عثمان بن طلحہ سے ملاقات ہوگئی جو مکہ کا مانا ہوا ایک نہایت ہی شریف انسان تھا اس نے پوچھا کہ اے اُمِ سلمہ! کہاں کا ارادہ ہے؟ انہوں نے کہا کہ میں اپنے شوہر کے پاس مدینہ جارہی ہوں۔ اس نے کہاکہ کیا تمہارے ساتھ کوئی دوسرا نہیں ہے؟ حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے درد بھری آواز میں جواب دیا کہ نہیں میرے ساتھ اﷲ اور میرے اس بچہ کے سوا کوئی نہیں ہے۔ یہ سن کر عثمان بن طلحہ کی رگ شرافت پھڑک اُٹھی اور اس نے کہا کہ خداکی قسم! میرے لئے یہ زیب نہیں دیتا کہ تمہاری جیسی ایک شریف زادی اور ایک شریف انسان کی بیوی کو تنہا چھوڑ دوں۔ یہ کہہ کر اس نے اونٹ کی مہار اپنے ہاتھ میں لے لی اور
"پیدل چلنے لگا حضرت اُمِ سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ خدا کی قسم! میں نے عثمان بن طلحہ سے زیادہ شریف کسی عرب کو نہیں پایا۔ جب ہم کسی منزل پر اترتے تو وہ الگ کسی درخت کے نیچے لیٹ جاتا اور میں اپنے اونٹ کے پاس سو رہتی۔ پھر روانگی کے وقت جب میں اپنے بچہ کو گود میں لے کر اونٹ پرسوارہو جاتی تو وہ اونٹ کی مہار پکڑ کر چلنے لگتا۔ اسی طرح اس نے مجھے قبا تک پہنچا دیا اور وہاں سے وہ یہ کہہ کر مکہ چلا گیا کہ اب تم چلی جاؤ تمہارا شوہر اسی گاؤں میں ہے۔ چنانچہ حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہااس طرح بخیریت مدینہ منورہ پہنچ گئیں۔(1)(زرقانی جلد۳ ص۲۳۹)
یہ دونوں میاں بیوی عافیت کے ساتھ مدینہ منورہ میں رہنے لگے مگر ۴ ہجری میں جب ان کے شوہر حضرت ابو سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا انتقال ہو گیا تو باوجودیکہ ان کے چند بچے تھے مگر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان سے نکاح فرما لیا اور یہ اپنے بچوں کے ساتھ کاشانہ نبوت میں رہنے لگیں اور ام المؤمنین کے معزز لقب سے سرفراز ہو گئیں۔
حضرت بی بی ام سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا حسن و جمال کے ساتھ ساتھ عقل و فہم کے کمال کا بھی ایک بے مثال نمونہ تھیں۔ امام الحرمین کا بیان ہے کہ میں حضرت ام سلمہ کے سوا کسی عورت کو نہیں جانتا کہ اس کی رائے ہمیشہ درست ثابت ہوئی ہو۔ صلح حدیبیہ کے دن جب رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے لوگوں کو حکم دیا کہ اپنی اپنی قربانیاں کرکے سب لوگ احرام کھول دیں اور بغیر عمرہ ادا کئے سب لوگ مدینہ واپس چلے جائیں کیونکہ اسی شرط پر صلح حدیبیہ ہوئی ہے۔ تو لوگ اس قدر رنج و غم میں تھے کہ ایک شخص"
"1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی ،باب فی ذکرازواجہ...الخ،ج۴،ص۳۶۰وباب ام سلمۃ
ام المؤمنین ، ج۴، ص ۳۹۶،۳۹۸"
"بھی قربانی کے لئے تیار نہیں تھا ۔حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے اس طرزِ عمل سے روحانی کوفت ہوئی اور آپ نے معاملہ کا حضرت بی بی ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے تذکرہ کیا تو انہوں نے یہ رائے دی کہ یارسول اﷲ!( صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ) آپ کسی سے کچھ بھی نہ فرمائیں اورخوداپنی قربانی ذبح کرکے اپنا احرام اتار دیں۔ چنانچہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا یہ دیکھ کرکہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے احرام کھول دیا ہے سب صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم مایوس ہو گئے کہ اب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم صلح حدیبیہ کے معاہدہ کو ہر گز ہر گز نہ بدلیں گے اس لئے سب صحابہ نے بھی اپنی اپنی قربانیاں کرکے احرام اتار دیا اور سب لوگ مدینہ منورہ واپس چلے گئے۔
حسن و جمال اور عقل و رائے کے ساتھ ساتھ فقہ و حدیث میں بھی ان کی مہارت خصوصی طور پر ممتاز تھی۔ تین سو اٹھتر حدیثیں انہوں نے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے روایت کی ہیں اور بہت سے صحابہ و تابعین حدیث میں ان کے شاگرد ہیں اور ان کے شاگردوں میں حضرت عبداﷲ بن عباس اور حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم بھی شامل ہیں۔ مدینہ منورہ میں چوراسی برس کی عمر پا کر وفات پائی اور ان کی وفات کا سال ۵۳ھ ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور یہ جنت البقیع میں ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے قبرستان میں مدفون ہوئیں۔ بعض مؤرخین کا قول ہے کہ ان کے وصال کا سال ۵۹ھ ہے ا ور ابراہیم حربی نے فرمایا کہ ۶۲ھ میں ان کا انتقال ہوااوربعض کہتے ہیں کہ ۶۳ھ کے بعد ان کی وفات ہوئی ہے۔ (1)واﷲ تعالیٰ اعلم۔(زرقانی جلد۳ ص۲۳۸ تا ۲۴۲ و اکمال و حاشیۂ اکمال ص۵۹۹)"
"1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب ام سلمۃ ام المؤمنین،ج۴،ص۳۹۶۔۴۰۳وباب
امر الحدیبیۃ،ج۳،ص ۲۲۶
ومدارج النبوت ، قسم پنجم ، باب دوم ،ج۲، ص۴۷۶"
" ان کااصلی نام ''رملہ''ہے۔یہ سردارمکہ ابوسفیان بن حرب کی صاحبزادی ہیں اور ان کی والدہ کا نام صفیہ بنت ابوالعاص ہے جو امیر المؤمنین حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی پھوپھی ہیں۔
یہ پہلے عبید اﷲ بن جحش کے نکاح میں تھیں اورمیاں بیوی دونوں نے اسلام قبول کیا اور دونوں ہجرت کرکے حبشہ چلے گئے تھے۔ لیکن حبشہ پہنچ کر ان کے شوہر عبیداﷲ بن جحش پر ایسی بدنصیبی سوار ہو گئی کہ وہ اسلام سے مرتد ہو کر نصرانی ہوگیا اور شراب پیتے پیتے نصرانیت ہی پروہ مر گیا۔
ابن سعد نے حضرت ام حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے یہ روایت کی ہے کہ انہوں نے حبشہ میں ایک رات میں خواب دیکھا کہ ان کے شوہر عبید اﷲ بن جحش کی صورت اچانک بہت ہی بدنما اور بدشکل ہو گئی وہ اس خواب سے بہت زیادہ گھبرا گئیں۔ جب صبح ہوئی تو انہوں نے اچانک یہ دیکھا کہ ان کے شوہر عبیداﷲ بن جحش نے اسلام سے مرتد ہو کر نصرانی دین قبول کر لیا ،حضرت ام حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے اپنے شوہر کو اپنا خواب سنا کر ڈرایا اور اسلام کی طرف بلایا مگر اس بدنصیب نے اس پر کان نہیں دھرا اور مرتد ہونے ہی کی حالت میں مر گیا مگر حضرت ام حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا اپنے اسلام پر استقامت کے ساتھ ثابت قدم رہیں۔جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو ان کی حالت معلوم ہوئی تو قلب نازک پر بے حد صدمہ گزرا اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کی دلجوئی کے لئے حضرت عمرو بن امیہ ضمری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو نجاشی بادشاہِ حبشہ کے پاس بھیجا اور خط لکھا کہ تم میرے وکیل بن کر حضرت ام حبیبہ کے ساتھ میرا نکاح کر دو۔"
"نجاشی کو جب یہ فرمان نبوت پہنچا تو اس نے اپنی ایک خاص لونڈی کو جس کا نام ''ابرہہ'' تھا حضرت ام حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے پاس بھیجا اور رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے پیغام کی خبر دی۔ حضرت ام حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اس خوشخبری کو سن کر اس قدر خوش ہوئیں کہ اپنے کچھ زیورات اس بشارت کے انعام میں ابرہہ لونڈی کو انعام کے طور پر دے دئیے اور حضرت خالد بن سعید بن ابی العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جو ان کے ماموں کے لڑکے تھے اپنے نکاح کا وکیل بنا کر نجاشی کے پاس بھیج دیا ۔نجاشی نے اپنے شاہی محل میں نکاح کی مجلس منعقد کی اور حضرت جعفر بن ابی طالب اور دوسرے صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کو جو اس وقت حبشہ میں موجود تھے اس مجلس میں بلایا اور خود ہی خطبہ پڑھ کر سب کے سامنے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا حضرت بی بی ام حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے ساتھ نکاح کر دیا اور چار سو دینار اپنے پاس سے مہر ادا کیا جو اسی وقت حضرت خالد بن سعید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے سپرد کر دیا گیا۔ جب صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اس نکاح کی مجلس سے اٹھنے لگے تو نجاشی بادشاہ نے کہا کہ آپ لوگ بیٹھے رہیے انبیاء علیہم السلام کا یہ طریقہ ہے کہ نکاح کے وقت کھانا کھلایا جاتا ہے۔ یہ کہہ کر نجاشی نے کھانا منگایا اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم شکم سیر کھانا کھا کر اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوئے پھر نجاشی نے حضرت شرحبیل بن حسنہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ساتھ حضرت ام حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو مدینہ منورہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیج دیا اور حضرت ام حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حرم نبوی میں داخل ہو کر ام المؤمنین کا معزز لقب پا لیا۔
حضرت ام حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا بہت پاکیزہ ذات و حمیدہ صفات کی جامع اور نہایت ہی بلند ہمت اور سخی طبیعت کی مالک تھیں اور بہت ہی قوی الایمان تھیں۔ ان کے"
"والد ابو سفیان جب کفر کی حالت میں تھے اور صلح حدیبیہ کی تجدید کے لئے مدینہ آئے تو بے تکلف ان کے مکان میں جا کر بستر نبوت پر بیٹھ گئے۔ حضرت ام حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے اپنے باپ کی ذرا بھی پروا نہیں کی اور یہ کہہ کر اپنے باپ کو بستر سے اٹھا دیا کہ یہ بستر نبوت ہے۔ میں کبھی یہ گوارا نہیں کر سکتی کہ ایک ناپاک مشرک اس پاک بستر پر بیٹھے۔
حضرت ام حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے پینسٹھ حدیثیں رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے روایت کی ہیں جن میں سے دو حدیثیں بخاری و مسلم دونوں کتابوں میں موجود ہیں اور ایک حدیث وہ ہے جس کو تنہا مسلم نے روایت کیا ہے۔ باقی حدیثیں حدیث کی دوسری کتابوں میں موجود ہیں۔ان کے شاگردوں میں ان کے بھائی حضرت امیر معاویہ اور ان کی صاحبزادی حضرت حبیبہ اور ان کے بھانجے ابو سفیان بن سعید رضی اﷲ تعالیٰ عنہم بہت مشہور ہیں۔
۴۴ھ میں مدینہ منورہ کے اندر ان کی وفات ہوئی اور جنت البقیع میں ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے حظیرہ میں مدفون ہوئیں۔ (1)
(زرقانی جلد۳ ص ۲۴۲ تا ۲۴۵ و مدارج النبوۃ ج۲ ص۴۸۱ تا ۴۸۲)"
یہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی پھوپھی حضرت امیمہ بنت عبدالمطلب کی صاحبزادی ہیں۔حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہ
"1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب ام حبیبۃ ام المؤمنین،ج۴،ص۴۰۳،۴۰۸
ومدارج النبوت ، قسم پنجم ،باب دوم ، ج ۲ ،ص۴۸۱،۴۸۲"
رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ان کا نکاح کرا دیا تھا مگر چونکہ حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا خاندانِ قریش کی ایک بہت ہی شاندار خاتون تھیں اور حسن و جمال میں بھی یہ خاندانِ قریش کی بے مثال عورت تھیں اور حضرت زید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو گو کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے آزاد کرکے اپنا متبنیٰ(منہ بولا بیٹا) بنا لیا تھا مگر پھر بھی چونکہ وہ پہلے غلام تھے اس لئے حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا ان سے خوش نہیں تھیں اور اکثر میاں بیوی میں ان بن رہا کرتی تھی یہاں تک کہ حضرت زید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ان کو طلاق دے دی۔ اس واقعہ سے فطری طور پر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے قلب نازک پر صدمہ گزرا۔ چنانچہ جب ان کی عدت گزر گئی تو محض حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی دلجوئی کے لئے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے پاس اپنے نکاح کا پیغام بھیجا۔ روایت ہے کہ یہ پیغام بشارت سن کر حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے دو رکعت نماز ادا کی اور سجدہ میں سر رکھ کر یہ دعا مانگی کہ خداوندا! تیرے رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مجھے نکاح کا پیغام دیا ہے اگر میں تیرے نزدیک ان کی زوجیت میں داخل ہونے کے لائق عورت ہوں تو یااﷲ!عزوجل تو ان کے ساتھ میرا نکاح فرما دے ان کی یہ دعا فوراً ہی قبول ہو گئی اور یہ آیت نازل ہو گئی کہ
فَلَمَّا قَضٰی زَیۡدٌ مِّنْہَا وَطَرًا زَوَّجْنٰکَہَا (1)
"جب زید نے اس سے حاجت پوری کر لی (زینب کو طلاق دے دی اور عدت گزر گئی) تو ہم نے اس (زینب) کا آپ کے ساتھ نکاح کر دیا۔(احزاب)
اس آیت کے نزول کے بعد حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے مسکراتے ہوئے فرمایا"
1۔۔۔۔۔۔پ۲۲،الاحزاب:۳۷
"کہ کون ہے جو زینب کے پاس جائے اور اس کو یہ خوشخبری سنائے کہ اﷲ تعالیٰ نے میرا نکاح اس کے ساتھ فرما دیا ہے۔ یہ سن کر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ایک خادمہ دوڑتی ہوئی حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے پاس پہنچیں اور یہ آیت سنا کر خوشخبری دی۔ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہااس بشارت سے اس قدر خوش ہوئیں کہ اپنا زیور اتار کر اس خادمہ کو انعام میں دے دیا اور خود سجدہ میں گر پڑیں اور اس نعمت کے شکریہ میں دو ماہ لگاتار روزہ دار رہیں۔
روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اس کے بعد ناگہاں حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے مکان میں تشریف لے گئے انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) بغیر خطبہ اور بغیر گواہ کے آپ نے میرے ساتھ نکاح فرما لیا؟ ارشاد فرمایا کہ تیرے ساتھ میرا نکاح اﷲ تعالیٰ نے کر دیا ہے اور حضرت جبریل علیہ السلام اور دوسرے فرشتے اس نکاح کے گواہ ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کے نکاح پر جتنی بڑی دعوت ولیمہ فرمائی اتنی بڑی دعوت ولیمہ ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن میں سے کسی کے نکاح کے موقع پر بھی نہیں فرمائی۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے ساتھ نکاح کی دعوت ولیمہ میں تمام صحابہ کرام کو نان و گوشت کھلایا۔
ان کے فضائل و مناقب میں چند احادیث بھی مروی ہیں۔ چنانچہ روایت ہے کہ ایک دن رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری وفات کے بعد تم ازواجِ مطہرات میں سے میری وہ بیوی سب سے پہلے وفات پا کر مجھ سے آن ملے گی جس کا ہاتھ سب سے زیادہ لمبا ہے۔ یہ سن کر تمام ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن نے ایک لکڑی سے اپنا ہاتھ ناپا تو حضرت سودہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا ہاتھ سب سے زیادہ لمبا نکلا لیکن جب"
"حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن میں سے سب سے پہلے حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہانے وفات پائی تو اس وقت لوگوں کو پتا چلا کہ ہاتھ لمبا ہونے سے مراد کثرت سے صدقہ دیناتھا۔ کیونکہ حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا اپنے ہاتھ سے کچھ دستکاری کا کام کرتی تھیں اور اس کی آمدنی فقراء و مساکین پر صدقہ کر دیا کرتی تھیں۔
ان کی وفات کی خبر جب حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے پاس پہنچی تو انہوں نے کہا کہ ہائے ایک قابل تعریف عورت جو سب کے لئے نفع بخش تھی اور یتیموں اور بوڑھی عورتوں کا دل خوش کرنے والی تھی آج دنیا سے چلی گئی، حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ میں نے بھلائی اور سچائی میں اور رشتہ داروں کے ساتھ مہربانی کے معاملہ میں حضرت زینب سے بڑھ کر کسی عورت کو نہیں دیکھا۔
منقول ہے کہ حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن سے اکثر یہ کہا کرتی تھیں کہ مجھ کو خداوند تعالیٰ نے ایک ایسی فضیلت عطا فرمائی ہے جو ازواجِ مطہرات میں سے کسی کو بھی نصیب نہیں ہوئی کیونکہ تمام ازواجِ مطہرات کا نکاح تو ان کے باپ داداؤں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ کیا لیکن حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ میرا نکاح اﷲ تعالیٰ نے کر دیا۔
انہوں نے گیارہ حدیثیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے روایت کی ہیں جن میں سے دو حدیثیں بخاری و مسلم دونوں کتابوں میں مذکور ہیں۔ باقی نو حدیثیں دوسری کتب احادیث میں لکھی ہوئی ہیں۔
منقول ہے کہ جب حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی وفات کا حال امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو معلوم ہوا تو آپ نے حکم دے دیا کہ مدینہ کے ہر"
کوچہ و بازار میں یہ اعلان کر دیا جائے کہ تمام اہل مدینہ اپنی مقدس ماں کی نمازِ جنازہ کے لئے حاضر ہو جائیں۔ امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خود ہی ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور یہ جنت البقیع میں دفن کی گئیں۔ ۲۰ھ یا ۲۱ ھ میں ۵۳ برس کی عمر پا کر مدینہ منورہ میں دنیا سے رخصت ہوئیں۔(1)(مدارج النبوۃ جلد۲ ص۴۷۶ تا ۴۷۸ وغیرہ)
زمانہ جاہلیت میں چونکہ یہ غرباء اور مساکین کو بکثرت کھانا کھلایا کرتی تھیں اس لئے ان کا لقب ''ام المساکین''(مسکینوں کی ماں) ہے پہلے ان کا نکاح حضرت عبداﷲ بن جحش رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ہوا تھا مگر جب وہ جنگ احد میں شہید ہو گئے تو ۳ھ میں حضوراکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان سے نکاح فرما لیا اور یہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے نکاح کے بعد صرف دو مہینے یا تین مہینے زندہ رہیں اور ربیع الآخر ۴ھ میں تیس برس کی عمر پاکر وفات پا گئیں اور جنت البقیع کے قبرستان میں دوسری ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے ساتھ دفن ہوئیں یہ ماں کی جانب سے حضرت ام المؤمنین بی بی میمونہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی بہن ہیں۔ (2)(زرقانی جلد۳ ص۲۴۹)
ان کے والد کا نام حارث بن حزن ہے اور ان کی والدہ ہند بنت عوف ہیں ۔ حضرت میمونہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا نام پہلے ''برہ ''تھا لیکن حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کا نام بدل کر ''میمونہ '' (برکت دہندہ) رکھ دیا۔
"1۔۔۔۔۔۔ مدارج النبوت ، قسم پنجم ، باب دوم ، ج ۲ ، ص۴۷۶، ۴۷۹
2۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب زینب ام المساکین والمؤمنین،ج۴،ص۴۱۶،۴۱۷"
" یہ پہلے ابو رہم بن عبدالعزیٰ کے نکاح میں تھیں مگر جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم
۷ ھ میں عمرۃ القضاء کے لئے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے تو یہ بیوہ ہو چکی تھیں حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ان کے بارے میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے گفتگو کی اور آپ نے ان سے نکاح فرما لیا اور عمرۃ القضاء سے واپسی پر مقام ''سرف'' میں ان کو اپنی صحبت سے سرفراز فرمایا۔
حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سگی بہنیں چار ہیں جن کے نام یہ ہیں:
(۱)ام الفضل لبابۃ الکبریٰ: یہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی بیوی ہیں اور حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ان ہی کے شکم سے پیدا ہوئے۔
(۲)لبابۃ الصغریٰ: یہ حضرت خالد بن الولید سیف اﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی والدہ ہیں۔
(۳)عصماء: یہ ابی بن خلف سے بیاہی گئی تھیں۔ انہوں نے اسلا م قبول کیا اور صحابیات میں ان کا شمار ہے۔
(۴)عِزّہ:یہ بھی صحابیہ ہیں جو زیاد بن مالک کے گھر میں تھیں۔
حضرت میمونہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی ان سگی بہنوں کے علاوہ وہ بہنیں جو صرف ماں کی جانب سے ہیں وہ بھی چار ہیں جن کے نام یہ ہیں:
(۱)اسماء بنت عمیس: یہ پہلے حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے گھر میں تھیں ان سے عبداﷲ وعون و محمد رضی اﷲ تعالیٰ عنہم تین فرزند پیدا ہوئے پھر جب حضرت جعفر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ''جنگ موتہ'' میں شہید ہو گئے تو ان سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے نکاح کر لیا اور ان سے محمد بن ابوبکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ پیدا ہوئے پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی وفات کے بعد حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ان سے عقد"
"فرما لیا اور ان سے بھی ایک فرزند پیدا ہوئے جن کا نام ''یحیی'' تھا۔
(۲)سلمیٰ بنت عمیس: یہ پہلے سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے نکاح میں آئیں اور ان سے ایک صاحبزادی پیدا ہوئیں جن کا نام ''امۃ اﷲ'' تھا حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد ان سے شداد بن الہاد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے نکاح کر لیا اور ان سے عبداﷲ و عبدالرحمن رضی اﷲ تعالیٰ عنہما دو فرزند پیدا ہوئے۔
(۳)سلامہ بنت عمیس: ان کا نکاح عبداﷲ بن کعب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ہوا تھا۔
(۴)ام المؤمنین حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا جو ام المساکین کے لقب سے مشہورہیں جن کا ذکرخیر اوپر گزر چکا ہے۔
حضرت میمونہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی والدہ ''ہند بنت عوف'' کے بارے میں عام طور پر یہ کہا جاتا تھا کہ دامادوں کے اعتبار سے روئے زمین پر کوئی بڑھیا ان سے زیادہ خوش نصیب نہیں ہوئی کیونکہ ان کے دامادوں کی فہرست میں مندرجہ ذیل ہستیاں ہیں۔
(۱) رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم (۲) حضرت ابوبکر (۳) حضرت علی(۴)حضرت حمزہ(۵) حضرت عباس(۶)حضرت شداد بن الہاد۔رضی اللہ تعالیٰ عنہم یہ سب کے سب بزرگوار ''ہند بنت عوف'' رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے داماد ہیں۔ (1)
(زرقانی جلد۳ ص۲۵۱ و مدارج جلد۲ ص۴۸۴)
حضرت بی بی میمونہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے کل چھہتر حدیثیں مروی ہیں جن میں سے سات حدیثیں ایسی ہیں جو بخاری و مسلم دونوں کتابوں میں مذکور ہیں اور ایک"
"1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی ، باب میمونۃ ام المؤمنین ،ج۴،ص۴۱۸،۴۱۹
ومدارج النبوت ، قسم پنجم ، باب دوم ،ج ۲،ص۴۸۳،۴۸۴"
"حدیث صرف بخاری میں ہے اور ایک ایسی حدیث ہے جو صرف مسلم میں ہے اور باقی حدیثیں احادیث کی دوسری کتابوں میں مذکور ہیں۔
یہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی آخری زو جہ مبارکہ ہیں ان کے بعد حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے کسی دوسری عورت سے نکاح نہیں فرمایا ان کے انتقال کے سال میں مؤرخین کا اختلاف ہے۔ مگر قول مشہور یہ ہے کہ انہوں نے ۵۱ ھ میں بمقام ''سرف'' وفات پائی جہاں رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان سے زفاف فرمایا تھا۔ ابن سعد نے واقدی سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے ۶۱ھ میں وفات پائی اور ابن اسحاق کا قول ہے کہ ۳ ۶ھ ان کے انتقال کا سال ہے۔ واﷲ تعالیٰ اعلم۔
ان کی وفات کے وقت ان کے بھانجے حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما موجود تھے اور انہوں ہی نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی نماز جنازہ پڑھائی اور ان کو قبر میں اتارا، محدث عطا ء کا بیان ہے کہ ہم لوگ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کے ساتھ حضرت بی بی میمونہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے جنازہ میں شریک تھے۔ جب جنازہ اٹھایا گیا تو حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما نے بہ آواز بلند فرمایا کہ اے لوگو! یہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی بیوی ہیں۔ تم لوگ ان کے جنازہ کو بہت آہستہ آہستہ لے کر چلو اور ان کی مقدس لاش کو نہ جھنجھوڑو۔حضرت یزید بن اصم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگوں نے حضرت بی بی میمونہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو مقام سرف میں اسی چھپر کی جگہ میں دفن کیا جس میں رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو پہلی بار اپنی قربت سے سرفراز فرمایا تھا۔ (1)(زرقانی جلد۳ ص۲۵۳)"
"1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب میمونۃ ام المؤمنین،ج۴،ص۴۲۳،۴۲۴
ومدارج النبوت ، قسم پنجم ، باب دوم،ج۲،ص ۴۸۵"
یہ قبیلہ بنی مصطلق کے سردار اعظم حارث بن ابوضرار کی بیٹی ہیں ''غزوہ مریسیع'' میں جو کفار مسلمانوں کے ہاتھوں میں گرفتار ہو کر قیدی بنائے گئے تھے ان ہی قیدیوں میں حضرت جویریہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا بھی تھیں۔ جب قیدیوں کو لونڈی غلام بنا کر مجاہدین پر تقسیم کر دیا گیا تو حضرت جویریہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاحضرت ثابت بن قیس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے حصہ میں آئیں۔ انہوں نے ان سے مکاتبت کر لی یعنی یہ لکھ کر دے دیا کہ تم اتنی اتنی رقم مجھے دے دو تو میں تم کو آزاد کر دوں گا، حضرت جویریہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!( صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) میں اپنے قبیلے کے سردار اعظم حارث بن ابوضرار کی بیٹی ہوں اور مسلمان ہو چکی ہوں۔ ثابت بن قیس نے مجھے مکاتبہ بنا دیا ہے مگر میرے پاس اتنی رقم نہیں ہے کہ میں بدل کتابت ادا کرکے آزاد ہو جاؤں اس لئے آپ اس وقت میں میری مالی امداد فرمائیں کیونکہ میرا تمام خاندان اس جنگ میں گرفتار ہو چکا ہے اور ہمارے تمام مال و سامان مسلمانوں کے ہاتھوں میں مال غنیمت بن چکے ہیں اور میں اس وقت بالکل ہی مفلسی و بے کسی کے عالم میں ہوں۔ حضوررحمۃٌ للعالمین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو ان کی فریاد سن کر ان پر رحم آگیا، آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر میں اس سے بہتر سلوک تمہارے ساتھ کروں تو کیا تم اس کو منظور کر لو گی؟ انہوں نے پوچھا کہ یارسول اﷲ!(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) آپ میرے ساتھ اس سے بہتر سلوک کیا فرمائیں گے؟ آپ نے فرمایا کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ تمہارے بدل کتابت کی تمام رقم میں خود تمہاری طرف سے ادا کر دوں اور پھر تم کو آزاد کرکے میں خود تم سے نکاح کر لوں تا کہ تمہارا خاندانی اعزاز و وقار
"برقرار رہ جائے۔ یہ سن کر حضرت جویریہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی شادمانی و مسرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ انہوں نے اس اعزاز کو خوشی خوشی منظور کر لیا۔ چنانچہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے بدل کتابت کی ساری رقم ادا فرما کر اور ان کو آزاد کرکے اپنی ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن میں شامل فرما لیا اور یہ ام المؤمنین کے اعزاز سے سرفراز ہو گئیں۔
جب اسلامی لشکر میں یہ خبر پھیلی کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت جویریہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے نکاح فرما لیا تو تمام مجاہدین ایک زبان ہو کر کہنے لگے کہ جس خاندان میں رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے نکاح فرما لیا اس خاندان کا کوئی فرد لونڈی غلام نہیں رہ سکتا۔ چنانچہ اس خاندان کے جتنے لونڈی غلام مجاہدین اسلام کے قبضہ میں تھے فوراً ہی سب کے سب آزاد کر دئیے گئے۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا یہ فرمایا کرتی تھیں کہ دنیا میں کسی عورت کا نکاح حضرت جویریہ کے نکاح سے بڑھ کر مبارک نہیں ثابت ہواکیونکہ اس نکاح کی وجہ سے تمام خاندان بنی مصطلق کو غلامی سے نجات حاصل ہو گئی۔(1)
(زرقانی جلد۳ ص۲۵۴)
حضرت جویریہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے میرے قبیلے میں تشریف لانے سے تین رات پہلے میں نے یہ خواب دیکھا تھا کہ مدینہ کی جانب سے ایک چاند چلتا ہوا آیا اور میری گود میں گر پڑا میں نے کسی سے اس خواب کاتذکرہ نہیں کیا لیکن جب رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مجھ سے نکاح فرما لیا تو میں نے سمجھ لیا کہ یہی اس خواب کی تعبیر ہے۔ (2)(زرقانی جلد۳ ص۲۵۴)"
"1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب جویریۃ ام المؤمنین،ج۴،ص۴۲۴۔۴۲۶
2۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواہب ، باب جویریۃ ام المؤمنین ،ج۴، ص ۴۲۶"
" ان کا اصلی نام ''برہ'' (نیکوکار) تھا لیکن چونکہ اس نام سے بزرگی اور بڑائی کا اظہار ہوتا تھا اس لئے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کا نام بدل کر ''جویریہ'' (چھوٹی لڑکی) رکھ دیا یہ بہت ہی عبادت گزار عورت تھیں نماز فجر سے نماز چاشت تک ہمیشہ اپنے ورد و وظائف میں مشغول رہا کرتی تھیں۔(1)(مدارج جلد۲ ص۴۷۹)
حضرت جویریہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے دو بھائی عمرو بن الحارث اور عبداﷲ بن حارث اور ان کی ایک بہن عمرہ بنت حارث یہ تینوں بھی مسلمان ہوکرشرف صحابیت سے سربلندہوئے۔
ان کے بھائی عبداﷲ بن حارث کے اسلام لانے کا واقعہ بہت ہی تعجب خیز بھی ہے اور دلچسپ بھی،یہ اپنی قوم کے قیدیوں کو چھڑانے کے لئے دربار رسالت میں حاضر ہوئے ان کے ساتھ چند اونٹنیاں اور لونڈی تھی۔ انہوں نے ان سب کو ایک پہاڑ کی گھاٹی میں چھپا دیا اور تنہا بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور اسیرانِ جنگ کی رہائی کے لئے درخواست پیش کی۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم قیدیوں کے فدیہ کے لئے کیا لائے ہو؟ انہوں نے کہا کہ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ سن کر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری وہ اونٹنیاں کیا ہوئیں؟ اور تمہاری وہ لونڈی کدھر گئی؟ جسے تم فلاں گھاٹی میں چھپا کر آئے ہو۔ زبان رسالت سے یہ علم غیب کی خبر سن کر عبداﷲ بن حارث حیران رہ گئے کہ آخر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو میری لونڈی اور اونٹنیوں کی خبر کس طرح ہو گئی ایک دم ان کے اندھیرے دل میں حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ"
1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم پنجم ، باب دوم ، ج۲، ص ۴۷۹
"علیہ وسلم کی صداقت اور آپ کی نبوت کا نور چمک اٹھا اور وہ فوراً ہی کلمہ پڑھ کر مشرف بہ اسلام ہو گئے۔ (1)(کتاب الاستیعاب)
حضرت جویریہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے سات حدیثیں بھی رسول اللہ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے روایت کی ہیں جن میں سے دو حدیثیں بخاری شریف میں اور دو حدیثیں مسلم شریف میں ہیں باقی تین حدیثیں دوسری کتابوں میں مذکور ہیں۔ اور حضرت عبداﷲ بن عمر، حضرت عبید بن سباق اور ان کے بھتیجے حضرت طفیل رضی اﷲ تعالیٰ عنہم وغیرہ نے ان سے روایت کی ہے۔(2)( مدارج النبوۃ جلد۲ ص۴۸۱وزرقانی جلد۳ص۲۵۵ )
۵۰ھ میں پینسٹھ برس کی عمر پا کر انہوں نے مدینہ طیبہ میں وفات پائی اور حاکم مدینہ مروان نے ان کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور یہ جنت البقیع کے قبرستان میں مدفون ہوئیں۔(3)(زرقانی جلد ۳ ص ۲۵۵ و مدارج النبوۃجلد ۲ ص ۴۸۱)"
ان کا اصلی نام زینب تھا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کا نام ''صفیہ'' رکھ دیا۔ یہ یہودیوں کے قبیلہ بنو نضیر کے سردار اعظم حیی بن اخطب کی بیٹی ہیں اور ان کی ماں کا نام ضرہ بنت سموئل ہے۔ یہ خاندان بنی اسرائیل میں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں اور ان کا شوہر کنانہ بن ابی الحقیق بھی بنو نضیر کا رئیس اعظم تھا جو جنگ خیبر میں قتل ہو گیا۔
"1۔۔۔۔۔۔الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب،حرف العین،عبداللہ بن الحارث الخزاعی،ج۳،ص۲۰
2۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب جویریۃ ام المؤمنین،ج۴،ص ۴۲۸
ومدارج النبوت ، قسم پنجم ، باب دوم،ج۲،ص۴۸۱
3۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی ، باب جویریۃ ام المؤمنین، ج۴، ص ۴۲۸"
" محرم ۷ھ میں جب خیبرکومسلمانوں نے فتح کر لیااورتمام اسیران جنگ گرفتار کرکے اکٹھا جمع کئے گئے تو اس وقت حضرت دحیہ بن خلیفہ کلبی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور ایک لونڈی طلب کی، آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم اپنی پسند سے ان قیدیوں میں سے کوئی لونڈی لے لو۔ انہوں نے حضرت صفیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو لے لیامگر ایک صحابی نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) حضرت صفیہ بنو قریظہ اور بنو نضیر کی شاہ زادی ہیں۔ ان کے خاندانی اعزاز کا تقاضا ہے کہ آپ ان کو اپنی ازواجِ مطہرات میں شامل فرما لیں۔ چنانچہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو حضرت دحیہ کلبی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے لے لیا اور ان کے بدلے میں انہیں ایک دوسری لونڈی عطا فرما دی پھر حضرت صفیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو آزاد فرما کر ان سے نکاح فرما لیا اور جنگ خیبر سے واپسی میں تین دنوں تک منزل صہبا میں ان کو اپنے خیمہ کے اندر اپنی قربت سے سرفراز فرمایا اور دعوت ولیمہ میں کھجور، گھی، پنیر کا مالیدہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو کھلایا جس کا مفصل تذکرہ جنگ خیبر میں گزر چکا۔ حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت بی بی صفیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا پر بہت ہی خصوصی توجہ اور انتہائی کریمانہ عنایت فرماتے تھے اور اس قدر ان کا خیال رکھتے تھے کہ حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا پر غیرت سوار ہو جایا کرتی تھی۔
منقول ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے حضرت بی بی صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے بارے میں یہ کہہ دیا کہ ''وہ تو پستہ قد ہے'' تو حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عائشہ! تو نے ایسی بات کہہ دی کہ اگر تیرے اس کلام کو دریا میں ڈال دیا جائے تو دریا متغیر ہو جائے گا۔(یعنی یہ غیبت ہے جو بہت ہی گندی بات ہے)"
"اسی طرح ایک مرتبہ ایک سفر میں حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا اونٹ زخمی ہوگیا اور حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے پاس ایک فاضل اونٹ تھا حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے زینب! تم اپنا اونٹ صفیہ کو دے دو۔ حضرت زینب نے طیش میں آکر کہہ دیا کہ میں اس یہودیہ کو اپنی کوئی چیز نہیں دوں گی۔ یہ سن کر حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہاپر اس قدر خفا ہو گئے کہ دو تین ماہ تک ان کے بستر پر آپ نے قدم نہیں رکھا۔ (1)(مدارج النبوۃ جلد۲ ص۴۸۳)
ترمذی شریف کی روایت ہے کہ ایک روز نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے دیکھا کہ حضرت صفیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا رو رہی ہیں آپ نے رونے کا سبب پوچھا تو انہوں نے کہا : یا رسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ نے یہ کہا ہے کہ ہم دونوں دربار رسالت میں تم سے بہت زیادہ عزت دار ہیں کیونکہ ہمارا خاندان حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے ملتا ہے۔ یہ سن کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے صفیہ!تم نے ان دونوں سے یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ تم دونوں مجھ سے بہتر کیونکر ہو سکتی ہو۔ حضرت ہارون علیہ السلام میرے باپ ہیں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام میرے چچا ہیں اور حضرت محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم میرے شوہر ہیں۔(2)(زرقانی جلد۳ ص۲۵۹)
انہوں نے دس حدیثیں بھی حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے روایت کی ہیں جن"
"1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی ، باب صفیۃ ام المؤمنین ،ج۴ ، ص ۴۲۸۔۴۳۲
ومدارج النبوت ، قسم پنجم ، باب دوم ،ج ۲ ، ص۴۸۲،۴۸۳
2۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواہب ،باب صفیۃ ام المؤمنین ج۴، ص ۴۳۵
وسنن الترمذی،کتاب المناقب،باب فضل ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم،الحدیث:۳۹۱۸،
ج۵،ص۴۷۴"
"میں سے ایک حدیث بخاری و مسلم دونوں کتابوں میں ہے اور باقی نو حدیثیں دوسری کتابوں میں درج ہیں۔
ان کی وفات کے سال میں اختلاف ہے و اقدی کا قول ہے کہ ۵۰ ھ میں ان کی وفات ہوئی ۔اور ابن سعد نے لکھا ہے کہ ۵۲ ھ میں ان کا انتقال ہوا ۔ بوقت رحلت ان کی عمر ساٹھ برس کی تھی یہ بھی مدینہ کے مشہور قبرستان جنت البقیع میں سپرد خاک کی گئیں۔ (1)(زرقانی جلد۳ ص۲۵۹ و مدارج جلد۲ ص۴۸۳)
یہ شہنشاہ مدینہ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی وہ گیارہ ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن ہیں جن پر تمام مؤرخین کا اتفاق ہے۔ ان میں سے حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا تو ہجرت سے پہلے ہی انتقال ہوچکا تھااورحضرت زینب بنت خزیمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا جن کا لقب ''ام المساکین '' ہے۔ ہم پہلے بھی تحریر کر چکے ہیں کہ نکاح کے دو تین ماہ بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سامنے ہی یہ وفات پا گئی تھیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی رحلت کے وقت آپ کی نو بیویاں موجود تھیں جن میں سے آٹھ کی آپ باریاں مقرر فرماتے رہے کیونکہ حضرت سودہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے اپنی باری کا دن حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو ہبہ کردیا تھا۔ ان نو مقدس ازواج میں سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی رحلت کے بعد سب سے پہلے حضرت زینب بنت جحش رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے وفات پائی اور سب کے بعد آخر میں ۶۲ھ یا ۶۳ھ میں حضرت بی بی ام سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے رحلت فرمائی ان کی وفات کے بعد دنیا امہات المؤمنین سے خالی ہو گئی۔"
"1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی ، باب صفیۃ ام المؤمنین ،ج۴، ص ۴۳۶
ومدارج النبوت،قسم پنجم ، باب دوم ،ج ۲،ص۴۸۳"
مذکورہ بالا ازواجِ مطہرات کے علاوہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی چار باندیاں بھی تھیں جو آپ کے زیر تصرف تھیں جن کے نام حسب ذیل ہیں:
" ان کو مصر و سکندریہ کے بادشاہ مقوقس قبطی نے بارگاہِ اقدس میں چند ہدایااور تحائف کے ساتھ بطورہبہ کے نذر کیاتھا۔ان کی ماں رومی تھیں اورباپ مصری اس لیے یہ بہت ہی حسین و خوبصورت تھیں۔یہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ام ولد ہیں کیونکہ آپ کے فرزند حضرت ابراہیم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ان ہی کے شکم مبارک سے پیداہوئے تھے۔
کنیزہونے کے باوجود حضوراقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ان کو پردہ میں رکھتے تھے اور ان کیلئے مدینہ طیبہ کے قریب مقام عالیہ میں آپ نے ایک الگ گھر بنوا دیا تھا جس میں یہ رہاکرتی تھیں اورحضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام ان کے پاس تشریف لے جایا کرتے تھے۔ واقدی کا بیان ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد حضرت امیر المؤمنین ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی زندگی بھر ان کے نان و نفقہ کا انتظام کرتے رہے اور ان کے بعد حضرت امیر المؤمنین عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ خدمت انجام دیتے رہے۔ یہاں تک کہ ۱۵ ھ یا ۱۶ھ میں ان کی وفات ہوگئی اور امیرالمؤمنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی نمازِجنازہ میں شرکت کیلئے خاص طور پر لوگوں کو جمع فرمایا اور خود ہی ان کی نمازِجنازہ پڑھا کر ان کو جنت البقیع میں مدفون کیا۔(1)
(زرقانی جلد ۳ ص ۲۷۱ تا ۲۷۲)"
1۔۔۔۔۔۔ المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی ، باب ذکر سراریہ ، ج۴، ص ۴۵۹۔۴۶۱
" یہ یہود کے خاندان بنو قریظہ سے تھیں، گرفتار ہو کر رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس آئیں مگر انہوں نے کچھ دنوں تک اسلام قبول نہیں کیا جس سے حضوراقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ان سے ناراض رہا کرتے تھے مگر ناگہاں ایک دن ایک صحابی نے آکر یہ خوشخبری سنائی کہ یا رسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) ریحانہ نے اسلام قبول کرلیا۔ اس خبر سے آپ بے حد خوش ہوئے اور آپ نے ان سے فرمایا کہ اے ریحانہ! اگر تم چاہو تو میں تم کو آزاد کرکے تم سے نکاح کر لوں۔ مگر انہوں نے یہ گزارش کی کہ یارسول اﷲ!( صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) آپ مجھے اپنی لونڈی ہی بنا کر رکھیں۔ یہی میرے اور آپ دونوں کے حق میں اچھا اور آسان رہے گا۔
یہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سامنے ہی جب آپ حجۃ الوداع سے واپس تشریف لائے ۱۰ ھ میں وفات پاکر جنت البقیع میں مدفون ہوئیں۔(1) (زرقانی جلد ۳ ص ۲۷۳)"
یہ پہلے حضرت زینب بنتِ جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی مملوکہ لونڈی تھیں۔ انہوں نے ان کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں بطور ہبہ کے نذر کر دیا اور یہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کاشانہ نبوت میں باندی کی حیثیت سے رہنے لگیں۔(2) (زرقانی جلد ۳ ص ۲۷۴)
"1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی ،باب ذکر سراریہ ، ج۴، ص ۴۶۲
2۔۔۔۔۔۔ شرح الزرقانی علی المواہب ، باب ذکر سراریہ ، ج۴، ص ۴۶۳"
مذکورہ بالا باندیوں کے علاوہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی ایک چوتھی باندی صا حبہ بھی تھیں جن کے بارے میں عام طور پر مؤرخین نے لکھا ہے کہ ان کا نام معلوم نہیں۔ یہ بھی کسی جہاد میں گرفتار ہو کر بارگاہِ اقدس میں آئی تھیں اور حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی باندی بن کر آپ کی صحبت سے سرفراز ہوتی رہیں۔(1)(زرقانی جلد ۳ ص ۲۷۴)
" اس بات پر تمام مؤرخین کا اتفاق ہے کہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی اولاد کرام کی تعداد چھ ہے۔ دو فرزند حضرت قاسم و حضرت ابراہیم اور چار صاحبزادیاں حضرت زینب و حضرت رقیہ و حضرت ام کلثوم و حضرت فاطمہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہم) لیکن بعض مؤرخین نے یہ بیان فرمایا ہے کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ایک صاحبزادے عبداﷲ بھی ہیں جن کا لقب طیب و طاہر ہے۔ اس قول کی بنا پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مقدس اولاد کی تعداد سات ہے۔ تین صاحبزادگان اورچار صاحبزادیاں، حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اﷲتعالیٰ علیہ نے اسی قول کو زیادہ صحیح بتایا ہے۔ اس کے علاوہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس اولاد کے بارے میں دوسرے اقوال بھی ہیں جن کا تذکرہ طوالت سے خالی نہیں۔
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ان ساتوں مقدس اولاد میں سے حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شکم سے تولد ہوئے تھے باقی تمام اولاد کرام حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بطن مبارک سے پیداہوئیں۔ (2)
(زرقانی جلد ۲ ص۱۹۳ و مدارج النبوۃ جلد ۳ ص ۴۵۱)"
"1۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواہب ، باب ذکر سراریہ ، ج ۴، ص ۴۶۳
2۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی ، باب ذکر اولاد ہ الکرام،ج۴،ص۳۱۳،۳۱۴
ومدارج النبوت ، قسم پنجم ، باب اول ، ج ۲ ، ص۴۵۰، ۴۵۱"
اب ہم ان اولادِکرام کے ذکر ِ جمیل پر قدرے تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالتے ہیں۔
یہ سب سے پہلے فرزند ہیں جو حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی آغوش مبارک میں اعلانِ نبوت سے قبل پیدا ہوئے۔ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی کنیت ابوالقاسم ان ہی کے نام پر ہے۔ جمہور علماء کا یہی قول ہے کہ یہ پاؤں پر چلنا سیکھ گئے تھے کہ ان کی وفات ہوگئی اور ابن سعد کا بیان ہے کہ ان کی عمر شریف دو برس کی ہوئی مگر علامہ غلابی کہتے ہیں کہ یہ فقط سترہ ماہ زندہ رہے۔(1) واﷲ اعلم۔ (زرقانی جلد۳ ص ۱۹۴)
ان ہی کا لقب طیب و طاہر ہے۔ اعلانِ نبوت سے قبل مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے اور بچپن ہی میں وفات پا گئے۔(2)
یہ حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی اولاد مبارکہ میں سب سے آخری فرزند ہیں۔ یہ ذوالحجہ ۸ ھ میں مدینہ منورہ کے قریب مقام ''عالیہ'' کے اندر حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے شکم مبارک سے پیدا ہوئے۔ اس لیے مقام عالیہ کادوسرا نام ''مشربۂ ابراہیم ''بھی ہے۔ ان کی ولادت کی خبر حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت ابو رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مقام عالیہ سے مدینہ آ کر بارگاہِ اقدس میں سنائی۔ یہ خو ش خبری سن کر حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے انعام کے طور پر حضرت
"1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی ، باب فی ذکر اولادہ الکرام ، ج۴، ص ۳۱۶
2۔۔۔۔۔۔ المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی ، باب فی ذکر اولادہ الکرام ، ج۴، ص ۳۱۴"
ابو رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک غلام عطا فرمایا۔ اس کے بعد فوراً ہی حضرت جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو ''یااباابراہیم'' (اے ابراہیم کے باپ) کہہ کر پکارا، حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بے حد خوش ہوئے اور ان کے عقیقہ میں دو مینڈھے آپ نے ذبح فرمائے اور ان کے سر کے بال کے وزن کے برابر چاندی خیرات فرمائی اور ان کے بالوں کو دفن کرادیا اور ''ابراہیم'' نام رکھا، پھر ان کو دودھ پلانے کے لیے حضرت ''ام سیف'' رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سپرد فرمایا۔ ان کے شوہر حضرت ابو سیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوہاری کا پیشہ کرتے تھے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بہت زیادہ محبت تھی اورکبھی کبھی آپ ان کو دیکھنے کے لیے تشریف لے جایا کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ہم رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت ابوسیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مکان پر گئے تو یہ وہ وقت تھا کہ حضرت ابراہیم جان کنی کے عالم میں تھے۔ یہ منظر دیکھ کر رحمتِ عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ اس وقت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یاسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کیا آپ بھی روتے ہیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ اے عوف کے بیٹے!یہ میرا رونا ایک شفقت کا رونا ہے۔ اس کے بعد پھر دوبارہ جب چشمان مبارک سے آنسو بہے تو آپ کی زبان مبارک پریہ کلمات جاری ہوگئے کہ
اِنَّ الْعَیْنَ تَدْمَعُ وَ الْقَلْبَ یَحْزَنُ وَلَا نَقُوْلُ اِلاَّ مَا یَرْضٰی رَبُّنَا وَاِنَّا بِفِرَاقِکَ یَا اِبْرَاہِیْمُ لَمَحْزُوْنُوْنَ
آنکھ آنسو بہاتی ہے اور دل غمزدہ ہے مگر ہم وہی بات زبان سے نکالتے ہیں جس سے ہمارا رب خوش ہو جائے اور بلاشبہ اے ابراہیم! ہم تمہاری جدائی سے بہت زیادہ غمگین ہیں۔
جس دن حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتقال ہوا اتفاق سے اسی دن سورج میں گرہن لگا۔ عربوں کے دلوں میں زمانہ جاہلیت کایہ عقیدہ جما ہوا تھا کہ کسی بڑے آدمی کی موت سے چاند اور سورج میں گرہن لگتا ہے۔ چنانچہ بعض لوگوں نے یہ خیال کیا کہ غالباً یہ سورج گرہن حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کی و جہ سے ہوا ہے۔ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس موقع پر ایک خطبہ دیا جس میں جاہلیت کے اس عقیدہ کا ردفرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ
اِنَّ اْلشَّمْسَ وَالْقَمَرَ اٰیَتَانِ مِنْ اٰیٰاتِ اﷲِ لَایَنْکَسِفَانِ لِمَوْتِ اَحَدٍ وَلَا لِحَیَاتِہٖ فَاِذَا رَاَیْتُمُوْھَا فَادْعُوا اللہَ وَصَلُّوْا حَتّٰی یَنْجَلِیْ (بخاری جلد ۱ ص۱۴۵ باب الدعاء فی الکسوف)
"یقینا چاند اور سورج اﷲ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ کسی کے مرنے یا جینے سے ان دونوں میں گرہن نہیں لگتا جب تم لوگ گرہن دیکھو تو دعائیں مانگو اور نماز کسوف پڑھو یہاں تک کہ گرہن ختم ہو جائے۔
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ میرے فرزند ابراہیم نے دودھ پینے کی مدت پوری نہیں کی اور دنیا سے چلا گیا۔ اس لیے اﷲ تعالیٰ نے اس کے لیے بہشت میں ایک دودھ پلانے والی کو مقرر فرما دیا ہے جو مدت رضاعت بھر اس کو دودھ پلاتی رہے گی۔(1)(مدارج النبوۃ جلد ۲ ص ۲۵۴)
روایت ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت ابراہیم رضی اﷲتعالیٰ عنہ کو"
"1۔۔۔۔۔۔ صحیح البخاری،کتاب الکسوف،باب الدعاء فی الکسوف،الحدیث:۱۰۶۰،ج۱،ص۳۶۳
ومدارج النبوت ، قسم پنجم ، باب اول ، ج ۲ ، ص ۴۵۲۔۴۵۴
وصحیح البخاری،کتاب الجنائز،باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم انابک...الخ،
الحدیث:۱۳۰۳،ج۱،ص۴۴۱"
"جنت البقیع میں حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر کے پاس دفن فرمایا اور اپنے دستِ مبارک سے ان کی قبر پر پانی کا چھڑکاؤ کیا۔(1)(مدارج النبوۃ جلد۲ ص ۴۵۳)
بوقت وفات حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر شریف ۱۷ یا ۱۸ ماہ کی تھی۔ واﷲ تعالیٰ اعلم(2)"
" یہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی صاحبزادیوں میں سب سے بڑی تھیں۔ اعلانِ نبوت سے دس سال قبل جب کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی عمرشریف تیس سال کی تھی مکہ مکرمہ میں ان کی ولادت ہوئی۔ یہ ابتداء اسلام ہی میں مسلمان ہوگئی تھیں اور جنگ ِبدر کے بعد حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ بلالیا تھا اور یہ ہجرت کرکے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ تشریف لے گئیں۔
اعلانِ نبوت سے قبل ہی ان کی شادی ان کے خالہ زاد بھائی ابوالعاص بن ربیع سے ہوگئی تھی۔ ابوالعاص حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بہن حضرت ہالہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بیٹے تھے۔ حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سفارش سے حضرت ز ینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کاابوالعاص کے ساتھ نکاح فرمادیا تھا۔ حضرت ز ینب تومسلمان ہوگئی تھیں مگر ابوالعاص شرک و کفر پر اڑا رہا۔ رمضان ۲ھ میں جب ابوالعاص جنگِ بدر سے گرفتار ہو کرمدینہ آئے۔ اس وقت تک حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا مسلمان ہوتے ہوئے مکہ مکرمہ ہی میں مقیم تھیں۔ چنانچہ ابوالعاص کو قید"
"1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم پنجم ، باب اول ، ج ۲ ،ص۴۵۳
2۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب فی ذکر اولادہ الکرام ،ج۴،ص۳۵۰"
"سے چھڑانے کے لیے انہوں نے مدینہ میں اپنا وہ ہار بھیجا جو ان کی ماں حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان کو جہیز میں دیاتھا۔ یہ ہار حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا اشارہ پاکر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے حضرت ز ینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس واپس بھیج دیا اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ابوالعاص سے یہ وعدہ لے کر ان کو رہا کر دیا کہ وہ مکہ پہنچ کر حضرت ز ینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو مدینہ منورہ بھیج دیں گے۔ چنانچہ ابوالعاص نے اپنے وعدہ کے مطابق حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہاکو اپنے بھائی کنانہ کی حفاظت میں '' بطن یا جج'' تک بھیج دیا۔ ادھر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک انصاری کے ساتھ پہلے ہی مقام '' بطن یا جج'' میں بھیج دیا تھا۔ چنانچہ یہ دونوں حضرات '' بطن یا جج'' سے اپنی حفاظت میں حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو مدینہ منورہ لائے۔
منقول ہے کہ جب حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا مکہ مکرمہ سے روانہ ہوئیں تو کفار قریش نے ان کاراستہ روکا یہاں تک کہ ایک بدنصیب ظالم ''ہباربن الاسود''نے ان کو نیزہ سے ڈرا کر اونٹ سے گرا دیا جس کے صدمہ سے ان کا حمل ساقط ہوگیا۔ مگر ان کے دیور کنانہ نے اپنے ترکش سے تیروں کو باہر نکال کر یہ دھمکی دی کہ جو شخص بھی حضرت زینب کے اونٹ کا پیچھا کریگا۔ وہ میرے ان تیروں سے بچ کر نہ جائے گا۔ یہ سن کر کفار قریش سہم گئے۔ پھر سردار مکہ ابو سفیان نے درمیان میں پڑ کر حضرت ز ینب رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے لیے مدینہ منورہ کی روانگی کے لیے راستہ صاف کرا دیا۔
حضرت ز ینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ہجرت کرنے میں یہ دردناک مصیبت پیش آئی اسی لیے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کے فضائل میں یہ ارشاد فرمایا کہ"
ھِیَ اَفْضَلُ بَنَاتِیْ اُصِیْبَتْ فِیَّ
یعنی یہ میری بیٹیوں میں اس اعتبار سے بہت ہی زیادہ فضیلت والی
"ہیں کہ میری جانب ہجرت کرنے میں اتنی بڑی مصیبت اٹھائی۔ اس کے بعد ابوالعاص محرم ۷ ھ میں مسلمان ہو کر مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کرکے چلے آئے اور حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ رہنے لگے۔(1) (زرقانی جلد ۳ ص ۱۹۵ تا ۱۹۶)
۸ ھ میں حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وفات ہوگئی اور حضرت ام ایمن و حضرت سودہ بنت زمعہ و حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہن نے ان کوغسل دیا اورحضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کے کفن کے لیے اپنا تہبند شریف عطا فرمایا اور اپنے دستِ مبارک سے ان کو قبر میں اتارا۔
حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی اولاد میں ایک لڑکا جس کانام ''علی'' اور ایک لڑکی حضرت ''امامہ'' تھیں۔ ''علی'' کے بارے میں ایک روایت ہے کہ اپنی والدہ ماجدہ کی حیات ہی میں بلوغ کے قریب پہنچ کر وفات پا گئے لیکن ابن عساکر کا بیان ہے کہ نسب ناموں کے بیان کرنے والے بعض علماء نے یہ ذکر کیاہے کہ یہ جنگ یرموک میں شہادت سے سرفراز ہوئے۔(2)(زرقانی جلد ۳ ص ۱۹۷)
حضرت امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بڑی محبت تھی۔ آپ ان کو اپنے دوش مبارک پر بٹھا کر مسجد نبوی میں تشریف لے جاتے تھے۔
روایت ہے کہ ایک مرتبہ حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں بطور ہدیہ کے ایک حلہ بھیجا جس کے ساتھ سونے کی ایک انگوٹھی بھی تھی"
"1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب فی ذکر اولاد الکرام،ج۴،ص۳۱۸۔۳۱۹
ومدارج النبوت ، قسم پنجم ، باب اول ، ج ۲ ، ص ۴۵۵۔۴۵۶
2۔۔۔۔۔۔ المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب فی ذکر اولاد ہ الکرام،ج۴،ص۳۱۸،۳۲۱
ومدارج النبوت ، قسم پنجم ، باب اول ،ج ۲،ص۴۵۷"
"جس کا نگینہ حبشی تھا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ انگوٹھی حضرت امامہ کو عطا فرمائی۔
اسی طرح ایک مرتبہ ایک بہت ہی خوبصورت سونے کا ہار کسی نے حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو نذر کیا جس کی خوبصورتی کو دیکھ کر تمام ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن حیران رہ گئیں۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی مقدس بیویوں سے فرمایا کہ میں یہ ہار اس کو دوں گا جو میرے گھر والوں میں مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے۔ تمام ازواجِ مطہرات نے یہ خیال کرلیا کہ یقینا یہ ہار حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو عطا فرمائیں گے مگر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت امامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو قریب بلایا اور اپنی پیاری نواسی کے گلے میں اپنے دستِ مبارک سے یہ ہار ڈال دیا۔(1)(زرقانی جلد ۳ ص۱۹۷)"
" یہ اعلان نبوت سے سات برس پہلے جب کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی عمر شریف کا تینتیسواں سال تھاپیداہوئیں اور ابتداء اسلام ہی میں مشرف بہ اسلام ہوگئیں۔ پہلے ان کا نکاح ابولہب کے بیٹے ''عتبہ'' سے ہوا تھا لیکن ابھی ان کی رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ ''سورہ تبت یدا'' نازل ہوگئی۔ ابو لہب قرآن میں اپنی اس دائمی رسوائی کا بیان سن کر غصہ میں آگ بگولا ہوگیا اور اپنے بیٹے عتبہ کو مجبور کردیا کہ وہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو طلاق دے دے۔ چنانچہ عتبہ نے طلاق دے دی۔
اس کے بعد حضوراقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کانکاح حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کردیا۔ نکاح کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت بی بی رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ساتھ لے کر مکہ سے حبشہ کی طرف"
1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی ، باب فی ذکر اولاد ہ الکرام ، ج ۴، ص ۳۲۱
"ہجرت کی پھر حبشہ سے مکہ واپس آ کر مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی اور یہ میاں بیوی دونوں ''صاحب الہجرتین''(دو ہجرتوں والے)کے معززلقب سے سرفراز ہوگئے۔ جنگ ِ بدر کے دنوں میں حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بہت سخت بیمار تھیں۔ چنانچہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جنگ ِ بدر میں شریک ہونے سے روک دیا اور یہ حکم دیا کہ وہ حضرت بی بی رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی تیمارداری کریں۔حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جس دن جنگ ِ بدر میں مسلمانوں کی فتح مبین کی خوشخبری لے کر مدینہ پہنچے اسی دن حضرت بی بی رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بیس سال کی عمر پا کر وفات پائی۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جنگ ِ بدر کے سبب سے ان کے جنازہ میں شریک نہ ہوسکے۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اگرچہ جنگ ِ بدر میں شریک نہ ہوئے لیکن حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو جنگ ِ بدر کے مجاہدین میں شمار فرمایا اور جنگ ِ بدر کے مالِ غنیمت میں سے ان کو مجاہدین کے برابر حصہ بھی عطا فرمایا اور شرکاء جنگ ِ بدر کے برابر اجر عظیم کی بشارت بھی دی۔
حضرت بی بی رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے شکم مبارک سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک فرزند بھی پیدا ہوئے تھے جن کا نام ''عبداﷲ'' تھا۔ یہ اپنی ماں کے بعد ۴ ھ میں چھ برس کی عمر پا کر انتقال کرگئے۔(1)( رضی اللہ تعالیٰ عنہ)(زرقانی جلد ۳ ص۱۹۸ تا ۱۹۹)"
یہ پہلے ابولہب کے بیٹے ''عتیبہ'' کے نکاح میں تھیں لیکن ابولہب کے مجبور کر دینے سے بدنصیب عتیبہ نے ان کو رخصتی سے قبل ہی طلاق دے دی اور اس ظالم نے
1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب فی ذکر اولادہ الکرام ، ج۴،ص۳۲۲،۳۲۴
"بارگاہِ نبوت میں انتہائی گستاخی بھی کی۔ یہاں تک کہ بدزبانی کرتے ہوئے حضور رحمۃٌ للعالمین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر جھپٹ پڑا اور آپ کے مقدس پیراہن کو پھاڑ ڈالا۔ اس گستاخ کی بے ادبی سے آپ کے قلب نازک پر انتہائی رنج و صدمہ گزرا اورجوش غم میں آپ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکل پڑے کہ ''یا اﷲ! اپنے کتوں میں سے کسی کتے کو اس پر مسلط فرما دے۔''
اس دعاء نبوی کا یہ اثر ہواکہ ابولہب اورعتیبہ دونوں تجارت کے لیے ایک قافلہ کے ساتھ ملک شام گئے اور مقامِ ''زرقا'' میں ایک راہب کے پاس رات میں ٹھہرے راہب نے قافلہ والوں کو بتایا کہ یہاں درندے بہت ہیں۔ آپ لوگ ذرا ہوشیار ہو کر سوئیں۔ یہ سن کر ابولہب نے قافلہ والوں سے کہا کہ اے لوگو!محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) نے میرے بیٹے عتیبہ کے لیے ہلاکت کی دعا کر دی ہے۔ لہٰذا تم لوگ تمام تجارتی سامانوں کو اکٹھا کرکے اس کے اوپرعتیبہ کا بستر لگادو اور سب لوگ اس کے ارد گرد چاروں طرف سو رہو تاکہ میرا بیٹا درندوں کے حملہ سے محفوظ رہے۔ چنانچہ قافلہ والوں نے عتیبہ کی حفاظت کا پورا پورا بندوبست کیا لیکن رات میں بالکل ناگہاں ایک شیر آیا اور سب کو سونگھتے ہوئے کود کر عتیبہ کے بستر پرپہنچا اور اس کے سر کو چبا ڈالا۔ لوگوں نے ہر چند شیر کو تلاش کیا مگر کچھ بھی پتا نہیں چل سکا کہ یہ شیر کہاں سے آیا تھا؟ اور کدھر چلا گیا۔(1)(زرقانی جلد ۳ ص ۱۹۷ تا۱۹۸)
خدا کی شان دیکھئے کہ ابولہب کے دونوں بیٹوں عتبہ اور عتیبہ نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی دونوں شہزادیوں کو اپنے باپ کے مجبور کرنے سے طلاق دے دی مگر عتبہ"
1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب فی ذکر اولادہ الکرام،ج۴، ص ۳۲۵،۳۲۶
"نے چونکہ بارگاہِ نبوت میں کوئی گستاخی اور بے ادبی نہیں کی تھی۔ اس لیے وہ قہرالٰہی میں مبتلا نہیں ہوابلکہ فتح مکہ کے دن اس نے اور اس کے ایک دوسرے بھائی ''معتب'' دونوں نے اسلام قبول کرلیا اور دستِ اقدس پر بیعت کرکے شرف صحابیت سے سرفراز ہوگئے۔ اور ''عتیبہ'' نے اپنی خباثت سے چونکہ بارگاہِ اقدس میں گستاخی و بے ادبی کی تھی اس لیے وہ قہر قہار و غضب جبار میں گرفتار ہو کر کفرکی حالت میں ایک خونخوار شیر کے حملہ کا شکار بن گیا۔(والعیا ذ باﷲ تعالیٰ منہ)
حضرت بی بی رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وفات کے بعد ربیع الاول ۳ ھ میں حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت بی بی ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نکاح کر دیا مگر ان کے شکم مبارک سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ شعبان ۹ ھ میں حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے وفات پائی اورحضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور یہ جنۃ البقیع میں مدفون ہوئیں۔(1)
(زرقانی جلد۳ ص۲۰۰)"
یہ شہنشاہِ کونین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی سب سے چھوٹی مگر سب سے زیادہ پیاری اورلاڈلی شہزادی ہیں۔ ان کا نام ''فاطمہ'' اورلقب ''زہرا'' اور ''بتول'' ہے۔ ان کی پیدائش کے سال میں علماء مؤرخین کااختلاف ہے۔ ابو عمر کا قول ہے کہ اعلان نبوت کے پہلے سال جب کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی عمر شریف اکتالیس برس کی تھی یہ پیدا ہوئیں اور بعض نے لکھا ہے کہ اعلان نبوت سے ایک سال قبل ان کی ولادت ہوئی اور
1۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواہب ،باب فی اولاد ہ الکرام ، ج۴، ص ۳۲۷
"علامہ ابن الجوزی نے یہ تحریر فرمایا کہ اعلان نبوت سے پانچ سال قبل ان کی پیدائش ہوئی۔(1)واﷲ تعالیٰ اعلم۔(زرقانی جلد ۳ ص۲۰۲ تا ۲۰۳)
اﷲ اکبر! ان کے فضائل و مناقب کاکیا کہنا؟ ان کے مراتب و درجات کے حالات سے کتب احادیث کے صفحات مالامال ہیں۔ جن کاتذکرہ ہم نے اپنی کتاب ''حقانی تقریریں'' میں تحریر کر دیا ہے۔ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ یہ سیدۃ نساء العالمین(تمام جہان کی عورتوں کی سردار) اور سیدۃ نساء اہل الجنۃ (اہل جنت کی تمام عورتوں کی سردار) ہیں۔ ان کے حق میں ارشاد نبوی ہے کہ فاطمہ میری بیٹی میرے بدن کی ایک بوٹی ہے جس نے فاطمہ کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔(2)
(مشکوٰۃ ص۵۶۸ مناقب اہل بیت وزرقانی جلد۳ص۲۰۴)
۲ ھمیں حضرت علی شیر خدارضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کا نکاح ہوا اور ان کے شکم مبارک سے تین صاحبزادگان حضرت حسن، حضرت حسین، حضرت محسن رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور تین صاحبزادیوں زینب و ام کلثوم و رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہن کی ولادت ہوئی۔ حضرت محسن و رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہماتو بچپن ہی میں وفات پاگئے۔ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح امیرالمؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوا۔ جن کے شکم مبارک سے آپ کے ایک فرزند حضرت زید اور ایک صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہماکی پیدائش ہوئی اور"
"1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی ، باب فی ذکر اولادہ الکرام ، ج۴، ص ۳۳۱
2۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،باب فی ذکر اولادہ الکرام،ج۴،ص۳۳۵،۳۳۶
ومشکاۃ المصابیح،کتاب المناقب،باب مناقب اھل بیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم،الحدیث: ۶۱۳۸،۶۱۳۹،ج۲،ص۴۳۵،۴۳۶"
"حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شادی حضرت عبداﷲ بن جعفر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ہوئی۔
(1)(مدارج النبوۃ جلد ۲ ص۴۶۰)
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے وصال شریف کا حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے قلب مبارک پر بہت ہی جانکاہ صدمہ گزرا۔ چنانچہ وصال اقدس کے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کبھی ہنستی ہوئی نہیں دیکھی گئیں۔ یہاں تک کہ وصال نبوی کے چھ ماہ بعد ۳ رمضان ۱۱ ھ منگل کی رات میں آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ حضرت علی یاحضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور سب سے زیادہ صحیح اورمختار قول یہی ہے کہ جنۃ البقیع میں مدفون ہوئیں۔(2)(مدارج النبوۃ جلد ۲ ص ۴۶۱)"
" حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے چچاؤں کی تعداد میں مؤرخین کااختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک ان کی تعداد نو، بعض نے کہاکہ دس اور بعض کا قول ہے کہ گیارہ مگر صاحب مواہب لدنیہ نے ''ذخائر العقبیٰ فی مناقب ذوی القربیٰ'' سے نقل کرتے ہوئے تحریر فرمایا کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے والد ماجد حضرت عبداﷲ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ عبدالمطلب کے بارہ بیٹے تھے جن کے نام یہ ہیں:
(۱)حارث(۲)ابوطالب(۳)زبیر(۴) حمزہ(۵)عباس(۶)ابولہب
(۷) غیداق(۸) مقوم(۹) ضرار(۱۰) قثم(۱۱) عبدالکعبہ(۱۲) جحل۔
ان میں سے صرف حضرت حمزہ وحضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے اسلام"
"1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم پنجم ،باب اول ، ج ۲ ، ص ۴۶۰
والمواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب فی ذکر اولادہ الکرام ، ج۴،ص۳۴۰،۳۴۱
2۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم پنجم ، باب اول ، ج ۲ ، ص۴۶۱"
"قبول کیا۔ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت ہی طاقتور اور بہادر تھے۔ ان کو حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اسد اﷲ واسد الرسول (اﷲ ورسول کا شیر) کے معزز و ممتاز لقب سے سرفراز فرمایا۔ یہ ۳ھ میں جنگ ِ اُحد کے اندر شہید ہو کر ''سید الشہداء'' کے لقب سے مشہورہوئے اورمدینہ منورہ سے تین میل دور خاص جنگ ِ اُحد کے میدان میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مزارِ پر انوار زیار ت گاہ عالم اسلام ہے۔
حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فضائل میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں۔ حضوراقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کے اور ان کی اولاد کے بارے میں بہت سی بشارتیں دیں اور اچھی اچھی دعائیں بھی فرمائی ہیں۔
۳۲ھ یا ۳۳ھ میں ستاسی یا اٹھاسی برس کی عمر پاکر وفات پائی اور جنۃ البقیع میں مدفون ہوئے۔ (1)(زرقانی جلد۳ ص۲۷۰ تا۲۸۵ و مدارج جلد ۲ص۲۸۸)"
" آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی پھوپھیوں کی تعداد چھ ہے جن کے نام یہ ہیں:
(۱)عاتکہ(۲) امیمہ(۳) ام حکیم(۴) برہ(۵)صفیہ (۶)اروی۔
ان میں سے تمام مؤرخین کا اتفاق ہے کہ حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اسلام قبول کیا۔ یہ زبیر بن العوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ ہیں۔ یہ بہت ہی بہادر اورحوصلہ مند خاتون تھیں۔ غزوہ خندق میں انہوں نے ایک مسلح اور حملہ آور یہودی کو تنہا ایک چوب سے مار کر قتل کر دیاتھا۔جس کا تذکرہ غزوہ خندق میں گزرچکا اور یہ بھی"
"1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،الفصل الرابع فی اعمامہ...الخ،ج۴،ص۴۶۴،۴۶۵
وباب ذکر بعض مناقب العباس،ج۴،ص۴۸۵،۴۸۶ملتقطاً
ومدارج النبوت ، قسم پنجم ،باب سوم ،ج۲،ص۴۹۰، ۴۹۳ملخصاً"
"روایت ہے کہ جنگ ِ اُحد میں بھی جب مسلمانوں کا لشکر بکھر چکا تھا یہ اکیلی کفار پر نیزہ چلاتی رہیں۔ یہاں تک کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو ان کی غیرمعمولی شجاعت پر انتہائی تعجب ہوا اور آپ نے ان کے فرزند حضرت زبیررضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مخاطب فرما کر ارشاد فرمایا کہ ذرااس عورت کی بہادری اور جاں نثاری تو دیکھو۔ ۲۰ھ میں تہتر برس کی عمر پاکر مدینہ منورہ میں وفات پاکرجنۃ البقیع میں مدفون ہوئیں۔(1)
(زرقانی جلد ۳ ص۲۸۷تاص ۲۸۸)
حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے علاوہ اروی و عاتکہ و امیمہ کے اسلام میں مؤرخین کا اختلاف ہے۔ بعضوں نے ان تینوں کو مسلمان تحریر کیا ہے اور بعضوں کے نزدیک ان کا اسلام ثابت نہیں۔(2)واﷲ تعالیٰ اعلم۔(زرقانی جلد۳ ص ۲۸۷)"
" یوں تو تمام ہی صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم حضور شمع نبوت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پروانے تھے اور انتہائی جاں نثاری کے ساتھ آپ کی خدمت گزاری کے لیے سبھی تن من دھن سے حاضر رہتے تھے مگر پھر بھی چند ایسے خوش نصیب ہیں جن کا شمار حضور تاجدارِ رسالت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے خصوصی خدام میں ہے۔ ان خوش بختوں کی مقدس فہرست میں مندرجِ ذیل صحابہ کرام خاص طور پر قابل ذکر ہیں:
(۱)حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ !یہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ مشہور و ممتاز خادم ہیں۔ انہوں نے دس برس مسلسل ہر سفرو حضر میں آپ کی"
"1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب ذکر بعض مناقب العباس،ج۴،ص۴۸۸،۴۹۰
2۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب فی ذکر بعض مناقب العباس،ج۴،ص۴۹۰۔۴۹۲ملتقطاً"
وفادارانہ خدمت گزاری کا شرف حاصل کیاہے۔ ان کے لیے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خاص طور پر یہ دعا فرمائی تھی کہ
'' اَللّٰھُمَّ اَکْثِرْ مَالَہٗ وَوَلَدَہٗ وَاَدْخِلْہُ الْجَنَّۃَ''
"یعنی اے اﷲ! اس کے مال اور اولاد میں کثرت عطا فرما اور اس کو جنت میں داخل فرما۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ان تین دعاؤں میں سے دو دعاؤں کی مقبولیت کا جلوہ تو میں نے دیکھ لیا کہ ہر شخص کا باغ سال میں ایک مرتبہ پھلتا ہے اور میرا باغ سال میں دو مرتبہ پھلتا ہے۔ اور پھلوں میں مشک کی خوشبو آتی ہے۔ اور میری اولاد کی تعداد ایک سو چھ ہے جن میں ستر لڑکے اور باقی لڑکیاں ہیں۔ اور میں امید رکھتا ہوں کہ میں تیسری دعا کا جلوہ بھی ضرور دیکھوں گا۔ یعنی جنت میں داخل ہو جاؤں گا۔ انہوں نے دو ہزار دو سو چھیاسی حدیثیں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے روایت کی ہیں اور حدیث میں ان کے شاگردوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان کی عمر سو برس سے زائد ہوئی۔ بصرہ میں ۹۱ھ یا ۹۲ھ یا ۹۳ھ میں وفات پائی۔(1)(زرقانی جلد ۳ ص ۲۹۶ تا ص۲۹۷)
(۲)حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ !یہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لیے وضو کرانے کی خدمت انجام دیتے تھے۔ یعنی پانی اور مسواک وغیرہ کا انتظام کرتے تھے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو جنت کی بشارت دی تھی۔ ۶۳ھ میں وفات پائی۔ (2)
(زرقانی جلد ۳ ص ۲۹۷)
(۳)حضرت ایمن بن ام ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ !حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک چھوٹی مشک"
"1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب فی خدمہ صلی اللہ علیہ وسلم...الخ،ج۴،ص۵۰۶،۵۰۷
ومدارج النبوت ، قسم پنجم ، باب چہارم ، ج ۲ ، ص۴۹۴،۴۹۵ملخصاً
2۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،باب فی خدمہ صلی اللہ علیہ وسلم...الخ،ج۴،ص۵۰۷،۵۰۸"
"جس سے آپ استنجا اوروضو فرمایا کرتے تھے ہمیشہ آپ ہی کی تحویل میں رہا کرتی تھی۔ یہ جنگ حنین کے دن شہادت سے سرفراز ہوئے۔(1)(زرقانی جلد ۳ ص۲۹۷)
(۴)حضرت عبداﷲا بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ !یہ نعلین شریفین اور وضو کا برتن اور مسند و مسواک اپنے پاس رکھتے تھے۔ اور سفر و حضر میں ہمیشہ یہ خدمت انجام دیا کرتے تھے۔ ساٹھ برس سے زیادہ عمر پاکر ۳۲ ھ یا۳۳ھ میں بعض کا قول ہے کہ مدینہ میں اور بعض کے نزدیک کوفہ میں وصال فرمایا۔ (2)(زرقانی جلد ۳ ص ۲۹۷ تا ۲۹۸)
(۵) حضرت عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ! یہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی سواری کے خچر کی لگام تھامے رہتے تھے۔ قرآن مجیداور فرائض کے علوم میں بہت ہی ماہر تھے اور اعلیٰ درجہ کے فصیح خطیب اور شعلہ بیان شاعر تھے۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی حکومت کے دور میں ان کو مصر کا گورنر بنادیا تھا۔ ۵۸ھ میں مصر کے اندر ہی ان کا وصال ہوا۔(3)(زرقانی جلد ۳ ص ۲۹۹)
(۶) حضرت اسلع بن شریک رضی اللہ تعالیٰ عنہ !یہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے اونٹ پر کجاوہ باندھنے کی خدمت انجام دیاکرتے تھے۔(4)
(۷)حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ! یہ بہت ہی قدیم الاسلام صحابی ہیں۔ انتہائی تارک الدنیا اورعابد و زاہد تھے اور دربار نبوت کے بہت ہی خاص خادم تھے۔ ان کے فضائل میں چند حدیثیں بھی وارد ہوئی ہیں۔ ۳۱ھ میں مدینہ منورہ سے کچھ دور ''ربذہ''"
"1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،باب فی خدمہ صلی اللہ علیہ وسلم...الخ،ج۴،ص۵۰۸
2۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،باب فی خدمہ صلی اللہ علیہ وسلم...الخ،ج۴،ص۵۰۸،۵۰۹
3۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،باب فی خدمہ صلی اللہ علیہ وسلم...الخ،ج۴،ص۵۱۰۔۵۱۱
4۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب فی خدمہ صلی اللہ علیہ وسلم...الخ،ج۴،ص۵۱۱"
"نامی گاؤں میں ان کاوصال ہوا اور حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔(1)(زرقانی جلد ۳ ص ۳۰۰)
(۸) حضرت مہاجر مولیٰ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما !یہ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے آزاد کردہ غلام تھے۔ شرف صحابیت کے ساتھ ساتھ پانچ برس تک حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت کا بھی شرف حاصل کیا۔ بہت ہی بہادر مجاہد بھی تھے۔ مصر کو فتح کرنے والی فوج میں شامل تھے۔ کچھ دنوں تک مصر میں رہے۔ پھر ''طحا'' چلے گئے اور وہاں اپنی وفات تک مقیم رہے۔(2) (زرقانی جلد۳ ص۳۰۱)
(۹) حضرت حنین مولیٰ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما !یہ پہلے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے غلام تھے اور دن رات آپ کی خدمت کرتے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے انہیں اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عطا فرما دیا اور یہ حضرت عباس کے غلام ہوگئے۔ لیکن چند ہی دنوں کے بعد حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو اس لیے آزاد کردیا تاکہ یہ دن رات بارگاہِ نبوت میں حاضر رہیں اورخدمت کرتے رہیں۔(3)(زرقانی جلد۳ ص ۳۰۱)
(۱۰) حضرت نعیم بن ربیعہ اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ !یہ بھی خادمانِ بارگاہِ رسالت کی فہرست خاص میں شمار کیے جاتے ہیں۔(4)(زرقانی جلد ۳ ص ۳۰۱)
(۱۱) حضرت ابوالحمراء رضی اللہ تعالیٰ عنہ! ان کانام ہلال بن الحارث تھا۔ یہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام اور خادم خاص ہیں۔ وفات نبوی کے بعد یہ مدینہ سے"
"1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ و شرح الزرقانی،باب فی خدمہ صلی اللہ علیہ وسلم...الخ،ج۴،ص۵۱۳۔۵۱۴
2۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ و شرح الزرقانی،باب فی خدمہ صلی اللہ علیہ وسلم...الخ،ج۴،ص۵۱۴
3۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ و شرح الزرقانی،باب فی خدمہ صلی اللہ علیہ وسلم...الخ،ج۴،ص۵۱۴،۵۱۵
4۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،باب فی خدمہ صلی اللہ علیہ وسلم...الخ،ج۴،ص۵۱۵"
"''حمص'' چلے گئے تھے اور وہیں ان کی وفات ہوئی۔(1)(زرقانی جلد ۳ ص ۳۰۱)
(۱۲) حضرت ابوالسمع رضی اللہ تعالیٰ عنہ !حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے غلام تھے پھر آپ نے ان کو آزاد فرما دیا مگر یہ دربار نبوت سے جدا نہیں ہوئے بلکہ ہمیشہ خدمت گزاری میں مصروف رہے۔ حضور علیہ ا لصلوٰۃ والسلام کو اکثر یہی غسل کرایا کرتے تھے۔ ان کا نام ''اِیاد'' تھا۔(2)(زرقانی جلد ۳ص ۳۰۱)"
" کفار چونکہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے جانی دشمن تھے اور ہر وقت اس تاک میں لگے رہتے تھے کہ اگر اک ذرا بھی موقع مل جائے تو آپ کو شہید کر ڈالیں۔ بلکہ بارہا قاتلانہ حملہ بھی کر چکے تھے۔ اس لیے کچھ جاں نثار صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم باری باری سے راتوں کو آپ کی مختلف خوابگاہوں اور قیام گاہوں کا شمشیر بکف ہو کر پہرہ دیا کرتے تھے۔ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب کہ یہ آیت نازل ہوگئی کہ وَاللہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ ط(3) یعنی ''اﷲ تعالیٰ آپ کو لوگوں سے بچائے گا۔'' اس آیت کے نزول کے بعد آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب پہرہ دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے مجھ سے وعدہ فرما لیا ہے کہ وہ مجھ کو میرے تمام دشمنوں سے بچائے گا۔ ان جاں نثار پہرہ داروں میں چند خوش نصیب صحابہ کرام خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں جن کے اسماء گرامی یہ ہیں۔
(۱)حضرت ابو بکر صدیق (۲) حضرت سعد بن معاذ انصاری (۳) حضرت محمد"
"1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ و شرح الزرقانی،باب فی خدمہ صلی اللہ علیہ وسلم...الخ،ج۴،ص۵۱۵
2۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ و شرح الزرقانی،باب فی خدمہ صلی اللہ علیہ وسلم...الخ،ج۴،ص۵۱۵،۵۱۶
3۔۔۔۔۔۔پ۶،المائدۃ:۶۷"
بن مسلمہ (۴) حضرت ذکوان بن عبدقیس (۵) حضرت زبیر بن العوام (۶) حضرت سعد بن ابی وقاص (۷) حضرت عباد بن بشر (۸) حضرت ابو ایوب انصاری (۹)حضرت بلال (۱۰) حضرت مغیرہ بن شعبہ۔(1)(رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین)
" جو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم قرآن کی نازل ہونے والی آیتوں اور دوسری خاص خاص تحریروں کو حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق لکھا کرتے تھے ان معتمد کاتبوں میں خاص طور پر مندرجہ ذیل حضرات قابل ذکر ہیں:
(۱) حضرت ابو بکر صدیق (۲) حضرت عمر فاروق (۳) حضرت عثمان غنی (۴)حضرت علی مرتضی (۵) حضرت طلحہ بن عبیداﷲ (۶) حضرت سعد بن ابی وقاص (۷) حضرت زبیر بن العوام (۸) حضرت عامر بن فہیرہ (۹) حضرت ثابت بن قیس (۱۰) حضرت حنظلہ بن ربیع (۱۱) حضرت زید بن ثابت (۱۲) حضرت ابی بن کعب (۱۳) حضرت امیر معاویہ (۱۴) حضرت ابو سفیان۔(2)(رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین)
(مدارج النبوۃ جلد۲ ص ۵۲۹ تا ۵۴۰)"
یوں تو بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مدح و ثنا میں قصائد لکھنے کی سعادت سے سرفراز ہوئے مگر دربارِ نبوی کے مخصوص شعراء کرام تین ہیں جو نعت گوئی کے ساتھ ساتھ کفار کے شاعرانہ حملوں کا اپنے قصائد کے
"1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب فی خدمہ صلی اللہ علیہ وسلم...الخ،ج۴،ص۵۱۹۔۵۲۲ملتقطاً
2۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم پنجم ، باب ہفتم ، ج۲ ، ص۵۲۹۔۵۴۰ملتقطاً"
"ذریعہ دندان شکن جواب بھی دیا کرتے تھے۔
(۱) حضرت کعب بن مالک انصاری سلمیرضی اللہ تعالیٰ عنہ جو جنگ تبوک میں شریک نہ ہونے کی و جہ سے معتوب ہوئے مگر پھر ان کی توبہ کی مقبولیت قرآن مجید میں نازل ہوئی۔ ان کا بیان ہے کہ ہم لوگوں سے حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ مشرکین کی ہجو کرو کیونکہ مومن اپنی جان اور مال سے جہاد کرتا رہتا ہے اور تمہارے اشعار گو یا کفار کے حق میں تیروں کی مار کے برابر ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت یا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سلطنت کے دور میں ان کی وفات ہوئی۔ (1)
(۲) حضرت عبداﷲ بن رواحہ انصاری خزرجی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے فضائل و مناقب میں چند احادیث بھی ہیں۔ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو ''سید الشعراء'' کا لقب عطا فرمایا تھا۔ یہ جنگ موتہ میں شہادت سے سرفراز ہوئے۔(2)
(۳) حضرت حسان بن ثابت بن منذر بن عمرو انصاری خزرجی رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ دربار رسالت کے شعراء کرام میں سب سے زیادہ مشہور ہیں۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کے حق میں دعا فرمائی کہ اَللّٰھُمَّ اَیِّدْہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ یعنی یا اﷲ! حضرت جبریل علیہ السلام کے ذریعہ ان کی مدد فرما ۔اور یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جب تک یہ میری طرف سے کفار مکہ کو اپنے اشعار کے ذریعہ جواب دیتے رہتے ہیں اس وقت تک حضرت جبریل علیہ السلام ان کے ساتھ رہا کرتے ہیں۔ ایک سو بیس برس کی عمر پا کر ۵۴ھ میں وفات پائی۔ ساٹھ برس کی عمر زمانہ جاہلیت میں گزاری اور ساٹھ برس کی عمر خدمت اسلام میں"
"1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب فی مؤذنیہ وخطبائہ...الخ ،ج۵، ص۷۵
2۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب فی مؤذنیہ وخطبائہ...الخ ،ج۵، ص۷۵"
"صرف کی۔ یہ ایک تاریخی لطیفہ ہے کہ ان کی اور ان کے والد ''ثابت'' اور ان کے دادا ''منذر'' اور نگر دادا ''حرام'' سب کی عمریں ایک سوبیس برس کی ہوئیں۔(1)
(زرقانی جلد ۳ ص ۳۷۲ تا ۳۷۳)"
" حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے خصوصی مؤذنوں کی تعداد چارہے:
(۱) حضرت بلال بن رباح رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
(۲) حضرت عبداﷲ بن ام مکتوم(نابینا) رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ یہ دونوں مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے مؤذن ہیں۔
(۳) حضرت سعد بن عائذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو ''سعد قرظ'' کے لقب سے مشہور ہیں۔ یہ مسجد قبا کے مؤذن ہیں۔
(۴) حضرت ابو محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ مکہ مکرمہ کی مسجد حرام میں اذان پڑھا کرتے تھے۔(2) (زرقانی جلد ۳ ص۶۹ ۲تا ص۲۷۱)"
"1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،باب فی مؤذنیہ وخطبائہ...الخ،ج۵،ص۷۶،۷۷
2۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب فی مؤذنیہ وخطبائہ...الخ،ج۵،ص۷۰۔۷۳"
"صاحبِ رجعتِ شمس و شق القمر نائب دستِ قدرت پہ لاکھوں سلام
فرش تا عرش ہے جس کے زیرِ نگیں اس کی قاہر ریاست پہ لاکھوں سلام"
" حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام سے ان کی نبوت کی صداقت ظاہر کرنے کے لیے کسی ایسی تعجب خیز چیز کا ظاہر ہونا جو عادۃً نہیں ہوا کرتی اسی خلاف عادت ظاہر ہونے والی چیز کا نام معجزہ ہے۔(1)
معجزہ چونکہ نبی کی صداقت ظاہر کرنے کے لیے ایک خداوندی نشان ہوا کرتا ہے۔ اس لیے معجزہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ خارق عادت ہو۔ یعنی ظاہری علل و اسباب اور عادات جاریہ کے بالکل ہی خلاف ہو ورنہ ظاہر ہے کہ کفار اس کو دیکھ کر کہہ سکتے ہیں کہ یہ تو فلاں سبب سے ہواہے اور ایسا تو ہمیشہ عادۃًہوا ہی کرتاہے۔ اس بنا پر معجزہ کے لیے یہ لازمی شرط ہے بلکہ یہ معجزہ کے مفہوم میں داخل ہے کہ وہ کسی نہ کسی اعتبار سے اسباب عادیہ اور عادات جاریہ کے خلاف ہواور ظاہری اسباب و علل کے عمل دخل سے بالکل ہی بالاترہو، تاکہ اس کو دیکھ کر کفاریہ ماننے پر مجبور ہو جائیں کہ چونکہ اس چیز کا کوئی ظاہری سبب بھی نہیں ہے اور عادۃً کبھی ایسا ہوا بھی نہیں کرتا اس لیے بلاشبہ اس چیز کا کسی شخص سے ظاہر ہونا انسانی طاقتوں سے بالاتر کارنامہ ہے۔ لہٰذا یقینا یہ شخص اﷲ کی طرف سے بھیجا ہوا اور اس کا نبی ہے۔"
1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، المقصد الرابع فی معجزاتہ...الخ ، ج۶،ص۴۰۶ملخصاً
" جب معجزہ کے لیے یہ ضروری اور لازمی شرط ہے کہ وہ کسی نہ کسی لحاظ سے انسانی طاقتوں سے بالاتر اور عادات جاریہ کے خلاف ہو۔ اس بنا پر اگر بغور دیکھا جائے تو خارق عادت ہونے کے اعتبار سے معجزات کی چار قسمیں ملیں گی جو حسب ِذیل ہیں:
اول : بذات خود وہ چیز ہی ایسی ہو جو ظاہری اسباب و عادات کے بالکل ہی خلاف ہو جیسے حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا چاند کو دو ٹکڑے کرکے دکھا دینا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا کا سانپ بن کر جادوگروں کے سانپوں کو نگل جانا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مردوں کو زندہ کر دینا وغیرہ وغیرہ۔
دوم: بذات خود وہ چیز تو خلاف عادت نہیں ہوتی مگر کسی خاص وقت پر بالکل ہی ناگہاں نبی سے اس کا ظہور ہو جانااس اعتبار سے یہ چیز خارق عادت ہو جایا کرتی ہے لہٰذا یہ بھی معجزہ ہی کہلائے گا۔ مثلاً جنگ ِ خندق میں اچانک ایک خوفناک آندھی کا آ جانا جس سے کفار کے خیمے اکھڑ اکھڑکر اڑ گئے اور بھاری بھاری دیگیں چولھوں پر سے الٹ پلٹ کر دور جا کر گر پڑیں یا جنگ ِ بدر میں تین سو تیرہ مسلمانوں کے مقابلہ میں کفار کے ایک ہزار لشکر جرار کا جو مکمل طور پر مسلح تھے شکست کھا کر مقتول و گرفتار ہو جانا۔ ظاہر ہے کہ آندھی کاآنا یاکسی لشکر کا شکست کھا جانا یہ بذات خود کوئی خلافِ عادت بات نہیں ہے بلکہ یہ تو ہمیشہ ہواہی کرتا ہے لیکن اس ایک خاص موقع پر جب کہ رسول کو تائید ربانی کی خاص ضرورت محسوس ہوئی بغیر کسی ظاہری سبب کے بالکل ہی اچانک آندھی کا آ جانا اور کفار کا باوجود کثرت تعداد کے قلیل مسلمانوں سے"
"شکست کھا جانا اس کو تائید خداوندی اور غیبی امداد و نصرت کے سوا کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ اس لحاظ سے یقینا یہ عادات جاریہ کے خلاف اور ظاہری اسباب و علل سے بالاتر ہے۔ لہٰذا یہ بھی یقینا معجزہ ہے۔
سوم: ایک صورت یہ بھی ہے کہ نہ تو بذات خود وہ واقعہ خلاف عادت ہوتا ہے نہ اس کے ظاہر ہونے کے وقت خاص میں خلافِ عادت کوئی بات ہوتی ہے۔ مگر اس واقعہ کے ظاہر ہونے کا طریقہ بالکل ہی نادر الوجود اور خلافِ عادت ہوا کرتا ہے۔ مثلاً انبیاء علیہم السلام کی دعاؤں سے بالکل ہی ناگہاں پانی کا برسنا، بیماروں کا شفایاب ہوجانا، آفتوں کا ٹل جانا۔
ظاہر ہے کہ یہ باتیں نہ تو خلاف عادت ہیں نہ ان کے ظاہر ہونے کا کوئی خاص وقت ہے بلکہ یہ باتیں تو ہمیشہ ہوا ہی کرتی ہیں لیکن جن طریقوں اور جن اسباب سے یہ چیزیں وقوع پذیر ہوئیں کہ ایک دم ناگہاں نبی نے دعا مانگی اور بالکل ہی اچانک یہ چیزیں ظہور میں آگئیں۔ اس اعتبار سے یقینا بلاشبہ یہ ساری چیزیں خارق عادات اور ظاہری اسباب سے الگ اور بالاتر ہیں۔ لہٰذا یہ چیزیں بھی معجزات ہی کہلائیں گے۔
چہارم:کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ نہ تو خود واقعہ عادات جاریہ کے خلاف ہوتا ہے نہ اس کا طریقہ ظہور خارق عادت ہوتا ہے لیکن بلا کسی ظاہری سبب کے نبی کو اس واقعہ کا قبل از وقت علم غیب حاصل ہو جانا اور واقعہ کے وقوع سے پہلے ہی نبی کا اس واقعہ کی خبر دے دینا یہ خلاف عادت ہوتا ہے۔ مثلاً حضرات انبیاء علیہم السلام نے واقعات کے ظہور سے بہت پہلے جو غیب کی خبریں دی ہیں یہ سب واقعات اس اعتبار"
"سے خارق عادات اور معجزات ہیں۔ چنانچہ مسلم شریف کی روایت ہے کہ ایک روز بہت ہی زوردار آندھی چلی اس وقت حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مدینہ سے باہر تشریف فرما تھے آپ نے اسی جگہ فرمایا کہ یہ آندھی مدینہ کے ایک منافق کی موت کے لیے چلی ہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ جب لوگ مدینہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ مدینہ کا ایک منافق اس آندھی سے ہلاک ہوگیا۔(1)(مشکوٰۃ شریف جلد ۲ ص ۵۳۷ باب المعجزات)
غور کیجئے کہ اس واقعہ میں نہ تو آندھی کا چلنا خلافِ عادت ہے نہ کسی آدمی کا آندھی سے ہلاک ہونا اسباب و عادات کے خلاف ہے کیونکہ آندھی ہمیشہ آتی ہی رہتی ہے اور آندھی میں ہمیشہ آدمی مرتے ہی رہتے ہیں لیکن اس واقعہ کا قبل از وقت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو علم ہو جانا اور آپ کا لوگوں کو اس غیب کی خبر پر قبل از وقت مطلع کردینا یقینا بلاشبہ یہ خرق عادات اور معجزات میں سے ہے۔"
ہر نبی کا معجزہ چونکہ اس کی نبوت کے ثبوت کی دلیل ہوا کرتا ہے اس لیے خداوند عالم نے ہر نبی کو اس دور کے ماحول اور اس کی امت کے مزاج عقل و فہم کے مناسب معجزات سے نوازا۔ چنانچہ مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور میں چونکہ جادو اور ساحرانہ کارنامے اپنی ترقی کی اعلیٰ ترین منزل پر پہنچے ہوئے تھے اس لیے اﷲ تعالیٰ نے آپ کو ''یدبیضا'' اور'' عصا ''کے معجزات عطا فرمائے جن سے آپ نے جادوگروں کے ساحرانہ کارناموں پر اس طرح غلبہ حاصل فرمایا کہ تمام جادوگر سجدہ میں گر پڑے اور آپ کی نبوت پر ایمان لائے۔
1۔۔۔۔۔۔مشکاۃ المصابیح ،کتاب احوال القیامۃ ...الخ ،باب المعجزات ، الحدیث: ۵۹۰۰، ج۲ ، ص۳۸۷
" اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں علم طب انتہائی معراج ترقی پر پہنچا ہوا تھا اور اس دور کے طبیبوں اور ڈاکٹروں نے بڑے بڑے امراض کا علاج کرکے اپنی فنی مہارت سے تمام انسانوں کو مسحور کر رکھا تھااس لیے اﷲ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مادرزاد اندھوں اور کوڑھیوں کو شفا دینے اور مردوں کو زندہ کر دینے کا معجزہ عطا فرمایا جس کو دیکھ کر دور مسیحی کے اطباء اور ڈاکٹروں کے ہوش اڑ گئے اور وہ حیران و ششدر رہ گئے اور بالآخر انہوں نے ان معجزات کو انسانی کمالات سے بالاتر مان کر آپ کی نبوت کا اقرار کرلیا۔
اسی طرح حضرت صالح علیہ السلام کے دور بعثت میں سنگ تراشی اور مجسمہ سازی کے کمالات کا بہت ہی چرچا تھااس لیے خداوند قدوس نے آپ کو یہ معجزہ عطا فرما کر بھیجا کہ آپ نے ایک پہاڑی کی طرف اشارہ فرما دیا تو اس کی ایک چٹان شق ہوگئی اور اس میں سے ایک بہت ہی خوبصورت اور تندرست اونٹنی اور اس کا بچہ نکل پڑا اور آپ نے فرمایا کہ"
ہٰذِہٖ نَاقَۃُ اللہِ لَکُمْ اٰیَۃً (1)
"یہ اﷲ کی اونٹنی ہے جو تمہارے لیے معجزہ بن کر آئی ہے۔
حضرت صالح علیہ السلام کی قوم آپ کا یہ معجزہ دیکھ کر ایمان لائی۔
الغرض اسی طرح ہر نبی کو اس دور کے ماحول کے مطابق اور اس کی قوم کے مزاج اور ان کی افتاد طبع کے مناسب کسی کو ایک، کسی کو دو، کسی کو اس سے زیادہ معجزات ملے مگر ہمارے حضور نبی آخرالزمان صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم چونکہ تمام نبیوں کے بھی نبی ہیں"
1۔۔۔۔۔۔پ ۸، الاعراف:۷۳
اور آپ کی سیرتِ مقدسہ تمام انبیاء علیہم السلام کی مقدس زندگیوں کا خلاصہ اور آپ کی تعلیم تمام انبیا ء کرام علیہم السلام کی تعلیمات کا عطر ہے اورآپ دنیا میں ایک عالمگیر اورابدی دین لے کر تشریف لائے تھے اور عالم کائنات میں اولین و آخرین کے تمام اقوام و ملل آپ کی مقدس دعوت کے مخاطب تھے، اس لیے اﷲ تعالیٰ نے آپ کی ذات مقدسہ کو انبیاء سابقین کے تمام معجزات کا مجموعہ بنا دیا اور آپ کو قسم قسم کے ایسے بے شمار معجزات سے سرفراز فرمایا جو ہر طبقہ، ہر گروہ،ہر قوم اور تمام اہل مذاہب کے مزاجِ عقل و فہم کے لیے ضروری تھے۔ اسی لیے آپ کی صورت و سیرت آپ کی سنت و شریعت آپ کے اخلاق و عادات آپ کے دن رات کے معمولات غرض آپ کی ذات و صفات کی ہر ہر ادااور ایک ایک بات اپنے دامن میں معجزات کی ایک دنیا لیے ہوئے ہے۔ آپ پر جو کتاب نازل ہوئی وہ آپ کا سب سے بڑا اور قیامت تک باقی رہنے والا ایسا ابدی معجزہ ہے جس کی ہر ہر آیت آیاتِ بینات کی کتاب اور جس کی سطر سطر معجزات کا دفتر ہے۔ آپ کے معجزات عالم اعلیٰ اور عالم اسفل کی کائنات میں اس طرح جلوہ فگن ہوئے کہ فرش سے عرش تک آپ کے معجزات کی عظمت کا ڈنکا بج رہاہے۔ روئے زمین پر جمادات، نباتات، حیوانات کے تمام عالموں میں آپ کے طرح طرح کے معجزات کی ایسی ہمہ گیر حکمرانی و سلطنت کا پرچم لہرایا کہ بڑے بڑے منکروں کو بھی آپ کی صداقت و نبوت کے آگے سرنگوں ہونا پڑااور معاندین کے سوا ہر انسان خواہ وہ کسی قوم و مذہب سے تعلق رکھتا ہو اور اپنی افتاد طبع اور مزاج عقل کے لحاظ سے کتنی ہی منزل بلند پر فائز کیوں نہ ہو مگر آپ کے معجزات کی کثرت اور ان کی نوعیت و عظمت کو دیکھ کر اس کو اس بات پر ایمان لانا ہی پڑا کہ بلاشبہ آپ نبی برحق اور خدا کے
سچے رسول ہیں۔ خود آپ کی جسمانی و روحانی خداداد طاقتوں پر اگر نظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ آپ کی حیات مقدسہ کے مختلف دور کے محیر العقول کارنامے بجائے خود عظیم سے عظیم تر معجزات ہی معجزات ہیں۔ کبھی عرب کے ناقابل تسخیر پہلوانوں سے کشتی لڑکر ان کو پچھاڑ دینا، کبھی دم زدن میں فرش زمین سے سدرۃ المنتہیٰ پر گزرتے ہوئے عرشِ معلیٰ کی سیر، کبھی انگلیوں کے اشارہ سے چاند کے دو ٹکڑے کردینا، کبھی ڈوبے ہوئے سورج کو واپس لوٹا دینا، کبھی خندق کی چٹان پر پھاوڑا مارکر روم وفارس کی سلطنتوں میں اپنی امت کو پرچم اسلام لہراتا ہوا دکھا دینا، کبھی انگلیوں سے پانی کے چشمے جاری کر دینا، کبھی مٹھی بھر کھجور سے ایک بھوکے لشکر کو اس طرح راشن دینا کہ ہر سپاہی نے شکم سیر ہو کر کھالیا وغیرہ وغیرہ معجزات کا ظاہر کر دینا یقینا بلاشبہ یہ وہ معجزانہ واقعات ہیں کہ دنیا کا کوئی بھی سلیم العقل انسان ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
" حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے معجزات کی تعداد کا ہزار دو ہزار کی گنتیوں سے شمار کرنا انتہائی دشوار ہے۔ کیونکہ ہم تحریر کر چکے ہیں کہ آپ کی ذات مقدسہ تمام انبیاء سابقین علیہم الصلوٰۃ والتسلیم کے معجزات کا مجموعہ ہے۔ اور ان کے علاوہ خداوند قدوس نے آپ کو دوسرے ایسے بے شمار معجزات بھی عطا فرمائے ہیں جو کسی نبی و رسول کو نہیں دئیے گئے۔ اس لیے یہ کہنا آفتاب سے زیادہ تابناک حقیقت ہے کہ آپ کی مقدس زندگی کے تمام لمحات درحقیقت معجزات کی ایک دنیا اور خوارق عادات کا ایک عالم اکبر ہیں۔
ظاہرہے کہ جب بڑی بڑی عظیم و ضخیم کتابوں کے مصنفین حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے تمام معجزات کو اپنی اپنی کتابوں میں جمع نہیں فرما سکے تو ہماری اس مختصر کتاب"
کا تنگ دامن بھلا ان معجزات کثیرہ کا کس طرح متحمل ہو سکتاہے؟ لیکن مثل مشہور ہے کہ ''مَالَا یُدْرَکُ کُلُّہ، لَا یُتْرَکُ کُلُّہ،'' یعنی جس چیز کو پورا پورا نہ حاصل کیا جا سکے اس کو بالکل ہی چھوڑ دینا بھی نہیں چاہے۔ اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ اپنی اس مختصر کتاب میں چند معجزات کا بھی ذکر کروں تاکہ اس کتاب کا دامن معجزات نبوت کے گلہائے رنگارنگ سے بالکل ہی خالی نہ رہ جائے۔ چونکہ ہم عرض کر چکے کہ ہمارے حضور نبی آخرالزمان صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے معجزات عالم اسفل ہی تک محدود نہیں بلکہ عالم اسفل وعالم اعلیٰ دونوں جہانوں میں معجزات نبویہ کی حکمرانی ہے اس لیے ہم چند اقسام کے معجزات کی چند مثالیں مختلف عنوانوں کے تحت درج کرتے ہیں۔
حضور خاتم النبیین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے معجزات میں ''شق القمر'' کا معجزہ بہت ہی عظیم الشان اور فیصلہ کن معجزہ ہے۔ حدیثوں میں آیا ہے کہ کفارمکہ نے آپ سے یہ مطالبہ کیا کہ آپ اپنی نبوت کی صداقت پر بطور دلیل کے کوئی معجزہ اور نشانی دکھائیے۔ اس وقت آپ نے ان لوگوں کو ''شق القمر'' کا معجزہ دکھایا کہ چاند دو ٹکڑے ہو کر نظر آیا۔ چنانچہ حضرت عبداﷲ بن مسعود، حضرت عبداﷲ بن عباس و حضرت انس بن مالک و حضرت جبیر بن مطعم و حضرت علی بن ابی طالب و حضرت عبداﷲ بن عمر، حضرت حذیفہ بن یمان وغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اس واقعہ کی روایت کی ہے۔(1) (زرقانی علی المواہب جلد۵ ص ۱۲۴)
1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی ،المقصد الرابع فی معجزاتہ...الخ ،ج۶، ص۴۷۲، ۴۷۳ ملخصاً
" ان روایات میں سب سے زیادہ صحیح اورمستند حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے جو بخاری و مسلم و ترمذی وغیرہ میں مذکور ہے۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس موقع پر موجود تھے اور انہوں نے اس معجزہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ ان کا بیان ہے کہ
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے زمانے میں چاند دو ٹکڑے ہوگیا۔ ایک ٹکڑا پہاڑ کے اوپر اور ایک ٹکڑا پہاڑ کے نیچے نظر آ رہاتھا۔ آپ نے کفار کو یہ منظر دکھا کر ان سے ارشاد فرمایا کہ گواہ ہو جاؤ گواہ ہو جاؤ۔(1)(بخاری جلد ۲ ص ۷۲۱،ص ۷۲۲ باب قولہ وانشق القمر)
ان احادیث مبارکہ کے علاوہ اس عظیم الشان معجزہ کاذکر قرآن مجید میں بھی ہے۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے کہ"
اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَ انۡشَقَّ الْقَمَرُ ﴿۱﴾وَ اِنۡ یَّرَوْا اٰیَۃً یُّعْرِضُوۡا وَ یَقُوۡلُوۡا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ ﴿۲﴾ (2)
"قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا اور یہ کفار اگر کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو اس سے منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ جادو تو ہمیشہ سے ہوتاچلا آیا ہے۔(قمر)
اس آیت کا صاف و صریح مطلب یہی ہے کہ قیامت قریب آ گئی اور دنیا کی عمر کا قلیل حصہ باقی رہ گیا کیونکہ چاند کادو ٹکڑے ہو جانا جو علامات قیامت میں سے تھا وہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہو چکا مگر یہ واضح ترین اور فیصلہ کن معجزہ دیکھ کر بھی کفار مکہ مسلمان نہیں ہوئے بلکہ ظالموں نے یہ کہا کہ محمد( صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ) نے"
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب التفسیر،باب وانشق القمر...الخ،الحدیث:۴۸۶۴،۴۸۶۵، ج۳، ص ۳۳۹،۳۴۰
2۔۔۔۔۔۔پ۲۷،القمر: ا،۲"
ہم لوگوں پر جادو کر دیا اور اس قسم کی جادو کی چیزیں تو ہمیشہ ہوتی ہی رہتی ہیں۔
" آیت مذکورہ بالا کے بارے میں بعض ان ملحدین کا جو معجزہ شق القمر کے منکر ہیں یہ خیال ہے کہ اس شق القمر سے مراد خالص قیامت کے دن چاند کا ٹکڑے ٹکڑے ہونا ہے جب کہ آسمان پھٹ جائے گا اور چاند ستارے جھڑ کر بکھر جائیں گے۔
مگر اہل فہم پر روشن ہے کہ ان ملحدوں کی یہ بکواس سراسر لغو اور بالکل ہی بے سروپا خرافات والی بات ہے کیونکہ اولاً تو اس صورت میں بلا کسی قرینہ کے انشق (چاندپھٹ گیا) ماضی کے صیغہ کوینشق(چاندپھٹ جائے گا) مستقبل کے معنی میں لینا پڑے گا جو بالکل ہی بلا ضرورت ہے۔ دوسرے یہ کہ چاند شق ہونے کا ذکر کرنے کے بعد یہ فرمایا گیا ہے کہ"
وَ اِنۡ یَّرَوْا اٰیَۃً یُّعْرِضُوۡا وَ یَقُوۡلُوۡا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ ﴿۲﴾ (1)
"یعنی شق القمر کی عظیم الشان نشانی کو دیکھ کر کفار نے یہ کہا کہ یہ جادو ہے جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔
ظاہر ہے کہ جب کفار مکہ نے شق القمر کا معجزہ دیکھا تو اس کو جادو کہا ورنہ کھلی ہوئی بات ہے کہ قیامت کے دن جب آسمان پھٹ جائے گا اورچاند ستارے ٹکڑے ٹکڑے ہو کر جھڑ جائیں گے اور تمام انسان مرجائیں گے تو اس وقت اس کو جادو کہنے والا بھلا کون ہوگا؟ اس لیے بلاشبہ یقینا اس آیت کے یہی معنی متعین ہیں کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے زمانے میں چاند پھٹ گیا اور اس معجزہ کو دیکھ کر کفار نے اس کو جادو کا کرتب بتایا۔"
1۔۔۔۔۔۔پ ۲۷، القمر: ۲
" ہاں البتہ یہا ں ایک سوال پیدا ہوتا ہے جو اکثر لوگ پوچھا کرتے ہیں کہ شق القمر کا معجزہ جب مکہ میں ظاہر ہوا تو آخر یہ معجزہ دوسرے ممالک اور دوسرے شہروں میں کیوں نہیں نظر آیا؟
اس سوال کا یہ جواب ہے کہ اولاً تو مکہ مکرمہ کے علاوہ دوسرے شہروں کے لوگوں نے بھی جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے اس معجزہ کو دیکھا۔ چنانچہ حضرت مسروق نے حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے کہ یہ معجزہ دیکھ کر کفار مکہ نے کہاکہ ابو کبشہ کے بیٹے (محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ) نے تم لوگوں پر جادو کر دیا ہے۔ پھر ان لوگوں نے آپس میں یہ طے کیا کہ باہر سے آنے والے لوگوں سے پوچھنا چاہے کہ دیکھیں وہ لوگ اس بارے میں کیاکہتے ہیں؟ کیونکہ محمد( صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم )کاجادو تمام انسانوں پر نہیں چل سکتا۔ چنانچہ باہر سے آنے والے مسافروں نے بھی یہ گواہی دی کہ ''ہم نے بھی شق القمر دیکھا ہے۔''(1)
(شفاء قاضی عیاض جلد ۱ ص ۱۸۳)
اور اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ دوسرے ممالک اور شہروں کے باشندوں نے اس معجزہ کو نہیں دیکھا تو کسی چیز کو نہ دیکھنے سے یہ کب لازم آتا ہے کہ وہ چیز ہوئی ہی نہیں۔ آسمان میں روزانہ قسم قسم کے آثار نمودار ہوتے رہتے ہیں۔ مثلاً رنگ برنگ کے بادل، قوس قزح، ستاروں کا ٹوٹنا، مگر یہ سب آثار انہی لوگوں کو نظر آتے ہیں جو اتفاق سے اس وقت آسمان کی طرف دیکھ رہے ہوں دوسرے لوگوں کو نظر نہیں آتے۔"
1۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواہب ،المقصد الرابع فی معجزاتہ...الخ ،ج۶، ص۴۷۵،۴۷۶
" اسی طرح دوسرے ممالک اور شہروں میں یہ معجزہ نظر نہ آنے کی ایک و جہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اختلاف مطالع کی و جہ سے بعض مقامات پر ایک وقت میں چاند کا طلوع ہوتا ہے اور اس وقت میں دوسرے شہروں کے اندر چاند کا طلوع ہی نہیں ہوتا اسی لیے جب چاند میں گرہن لگتا ہے تو تمام ممالک میں گرہن نظر نہیں اتا۔ اور بعض مرتبہ ایسا بھی ہوتاہے کہ دوسرے ملکوں اور شہروں میں ابریا پہاڑ وغیرہ کے حائل ہوجانے سے کسی کسی وقت چاند نظر نہیں آتا۔
اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم یہاں وہ نقشہ بعینہ نقل کر دیں جو قاضی محمد سلیمان صاحب سلمان منصور پوری نے اپنی کتاب ''رحمۃ للعالمین'' میں تحریر کیاہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس وقت مکہ مکرمہ میں ''معجز ہ شق القمر'' واقع ہوا اس وقت دنیا کے بڑے بڑے ممالک میں کیااوقات تھے؟ اس نقشہ کی ذمہ داری مصنفِ ''رحمۃ للعالمین'' کے اوپر ہے۔ ہم صرف نقل مطابق اصل ہونے کے ذمہ دار ہیں۔ ان کی عبارت اورنقشہ حسب ذیل ہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔
اس سے بڑھ کر اب ہم دکھلانا چاہتے ہیں کہ اگر مکہ معظمہ میں یہ واقعہ رات کو ۹بجے وقوع پذیر ہوا تو اس وقت دنیا کے بڑے بڑے ممالک میں کیا اوقات تھے۔
نام ملک گھنٹہ منٹ دن یارات
ہندوستان ۱۲ ۵۰ رات
ماریشس ۱۱ ۲۰ رات
رومانیا، بلگیریا، ٹرکی، یونان،جرمن ۸ ۲۰ دن
لکسمبرگ، ڈنمارک، سویڈن ۸ ۲۰ دن"
"آئس لینڈ، مڈیریا ۵ ۲۰ دن
مشرقی برازیل ۳ ۲۰ بعدنیم شب
متوسط برازیل وچلی ۲ ۲۰ بعد نیم شب
برٹش کولمبیا ۱۰ ۲۰ قبل دوپہر
لوکون ۹ ۲۴ قبل دوپہر
برہما ۱ ۵۰ بعد نیم شب
سمالی لینڈ مڈغاسکر ۱۰ ۲۰ رات
ریاستہائے ملایا ۲ ۲۰ بعد نیم شب
جزائر سنڈوک ۷ ۵۰ دن
انگلستان،آئرلینڈ، فرانس،بلجیم،اسپین،پرتگال،جبل الطارق، الجیریا
۶ ۲۰ دن
پیرو، پتامہ، جمیکا، بھاہن، امریکہ ۱ ۲۰ بعدنیم شب
سموآ ۶ ۲۰ دن
نیوزی لینڈ ۶ ۵۰ صبح
تسمانیہ، وکٹوریا، نیو ساؤتھ ویلز ۵ ۲۲ صبح
جنوبی آسٹریلیا ۴ ۵۰ صبح
جاپان، کوریا ۴ ۲۰ بعد دوپہر
مغربی آسٹریلیا، شمالی بورنیو،جزائرفلپائن، ہانگ کانگ چین
۳ ۲۰ بعد دوپہر
یہ نقشہ اوقات اسٹینڈرڈ ٹائم کے حساب سے ہے۔(رحمۃ للعالمین جلد سوم ص ۱۹۰)"
" حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے آسمانی معجزات میں سورج پلٹ آنے کامعجزہ بھی بہت ہی عظیم الشان معجزہ اور صداقتِ نبوت کا ایک واضح ترین نشان ہے۔ اس کا واقعہ یہ ہے کہ حضرت بی بی اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ ''خیبر'' کے قریب ''منزل صہبا'' میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نماز عصر پڑھ کر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گود میں اپنا سر اقدس رکھ کر سو گئے اور آپ پر وحی نازل ہونے لگی۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سراقدس کو اپنی آغوش میں لیے بیٹھے رہے۔ یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا اور آپ کو یہ معلوم ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نماز عصر قضا ہوگئی تو آپ نے یہ دعا فرمائی کہ ''یااﷲ! یقینا علی تیری اور تیرے رسول کی اطاعت میں تھے لہٰذا تو سورج کو واپس لوٹا دے تاکہ علی نماز عصر ادا کرلیں۔''
حضرت بی بی اسماء بنت عمیس کہتی ہیں کہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ڈوبا ہوا سورج پلٹ آیا اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر اور زمین کے اوپر ہر طرف دھوپ پھیل گئی۔(1)(زرقانی جلد ۵ ص ۱۱۳ و شفاء جلد ۱ ص ۱۸۵ و مدارج النبوۃ جلد۲ ص ۲۵۲)
اس میں شک نہیں کہ بخاری کی روایتوں میں اس معجزہ کا ذکر نہیں ہے لیکن یاد رکھیے کہ کسی حدیث کا بخاری میں نہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ حدیث بالکل ہی بے اصل ہے۔ امام بخاری کو چھ لاکھ حدیثیں زبانی یاد تھیں۔ انہی حدیثوں میں سے چن کر انہو ں نے بخاری شریف میں اگر مکر رات و متابعات کو شامل کرکے شمار کی جائیں تو صرف نو ہزار بیاسی حدیثیں لکھی ہیں اور اگر مکر رات و متابعات کو چھوڑ کر گنتی"
1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی ، باب رد الشمس لہ ، ج۶، ص ۴۸۴،۴۸۵
"کی جائے تو کل حدیثوں کی تعداد دو ہزار سات سو اکسٹھ ۲۷۶۱رہ جاتی ہیں۔ (1) (مقدمہ فتح الباری)
باقی حدیثیں جو حضرت امام بخاری علیہ الرحمۃ کو زبانی یاد تھیں۔ ظاہر ہے کہ وہ بے اصل اور موضوع نہ ہوں گی بلکہ وہ بھی یقینا صحیح یا حسن ہی ہوں گی تو آخر وہ سب کہاں ہیں؟ اور کیا ہوئیں؟ تو اس بارے میں یہ کہنا ہی پڑے گا کہ دوسرے محدثین نے انہی حدیثوں کو اور کچھ دوسری حدیثوں کو اپنی اپنی کتابوں میں لکھا ہوگا۔ چنانچہ منزل صہبامیں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نماز عصر کے لیے سورج پلٹ آنے کی حدیث کو بہت سے محدثین نے اپنی اپنی کتابوں میں لکھا ہے۔ جیسا کہ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ حضرت امام ابو جعفر طحاوی، احمد بن صالح، و امام طبرانی وقاضی عیاض نے اس حدیث کو اپنی اپنی کتابوں میں تحریر فرمایا ہے اور امام طحاوی نے تو یہ بھی تحریر فرمایا ہے کہ امام احمد بن صالح جو امام احمد بن حنبل کے ہم پلہ ہیں، فرمایا کرتے تھے کہ یہ روایت عظیم ترین معجزہ اور علامات نبوت میں سے ہے لہٰذا اس کو یاد کرنے میں اہل علم کو نہ پیچھے رہناچاہے نہ غفلت برتنی چاہے۔(2)
(مدارج النبوۃ جلد ۲ ص ۲۵۴)
بہرحال جن جن محدثین نے اس حدیث کو اپنی اپنی کتابوں میں لکھا ہے ان کی ایک مختصر فہرست یہ ہے:"
"1۔۔۔۔۔۔مقدمۃ فتح الباری،الفصل الاول،ج۱،ص۱۰
2۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب ششم ، ج ۲ ، ص ۲۵۴ملتقطاً"
"(۱) حضرت امام ابوجعفرطحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے مشکل الآثارمیں
(۲) حضرت امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے مستدرک میں
(۳) حضرت امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے معجم کبیرمیں
(۴) حضرت حافظ ابن مردویہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مرویات میں
(۵) حضرت حافظ ابوالبشررحمۃ اللہ علیہ نے الذریۃ الطاہرہ میں
(۶) حضرت قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے شفاء شریف میں
(۷) حضرت خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے تلخیص المتشابہ میں
(۸) حضرت حافظ مغلطائی رحمۃ اللہ علیہ نے الزہرالباسم میں
(۹) حضرت علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ نے عمدۃ القاری میں
(۱۰) حضرت علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے کشف اللبس میں
(۱۱) حضرت علامہ ابن یوسف دمشقی رحمۃ اللہ علیہ نے مزیل اللبس میں
(۱۲) حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے ازالۃ الخفاء میں
(۱۳) حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے مدارج النبوۃمیں
(۱۴) حضرت علامہ محمد بن عبدالباقی رحمۃ اللہ علیہ نے زرقانی علی المواہب میں
(۱۵) حضرت علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ نے مواہب لدنیہ میں
اس حدیث پر علامہ ابن جوزی نے اپنی عادت کے موافق جو جرحیں کی ہیں اور اس حدیث کو موضوع قرار دیا ہے، حضرت علامہ عینی نے عمدۃ القاری جلد ۷ ص ۱۴۶ میں تحریر فرمایا ہے کہ علامہ ابن جوزی کی جرحیں قابل التفات نہیں ہیں، حضرت"
امام ابو جعفر طحاوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس حدیث کو سندیں لکھ کر فرمایا کہ
ھٰذَانِ الْحَدِیْثَانِ ثَابِتَانِ وَرُوَاتُھُمَا ثِقَاتٌ۔۔۔۔۔۔(1)
"یعنی یہ دونوں روایتیں ثابت ہیں اور ان کے راوی ثقہ ہیں۔ (شفاء شریف جلد۱ ص ۱۸۵)
اسی طرح حضرت شیخ عبدالحق محدت دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بھی علامہ ابن جوزی کی جرحوں کو رد کردیا ہے اور اس حدیث کے صحیح اورحسن ہونے کی پرزور تائید فرمائی ہے۔(2) (مدارج النبوۃ جلد ۲ ص ۲۵۴)
اسی طرح ازالۃ الخفاء میں علامہ محمد بن یوسف دمشقی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی کتاب ''مزیل اللبس عن حدیث ردالشمس'' کی یہ عبارت منقول ہے کہ"
"اعلم ان ھذا الحدیث رواہ الطحاوی فی کتابہ ''شرح مشکل الاثار'' عن اسماء بنت عمیس من طریقین وقال ھذان الحدیثان ثابتان ورواتھما ثقات ونقلہ قاضی عیاض فی''الشفاء''والحافظ ابن سید الناس فی ''بشری اللبیب''والحافظ علاء الدین مغلطائی فی کتابہ ''الزھر الباسم'' وصححہ ابوالفتح الازدی وحسنہ ابو زرعۃ بن العراقی وشیخنا الحافظ جلال الدین السیوطی فی ''الدرر المنتشرۃ فی الاحادیث المشتھرۃ''وقال الحافظ احمد بن صالح و ناہیک بہ لاینبغی لمن سبیلہ العلم التخلف عن حدیث اسماء لانہ من اجل علامات النبوۃ وقدانکرالحفاظ علی ابن الجوزی ایرادہ الحدیث فی''کتاب الموضوعات''
(3)(التقریر المعقول فی فضل الصحابۃ واہل بیت الرسول ص ۸۸)"
"1۔۔۔۔۔۔الشفاء بتعریف حقوق المصطفی ، فصل فی انشقاق القمر وحبس الشمس ، ج۱ ، ص ۲۸۴
2۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب ششم ، ج ۲ ، ص ۲۵۴
3۔۔۔۔۔۔ازالۃ الخفائ،مقصد دوم،امامآثر امیر المؤمنین...الخ،ج۴،ص۴۸۸"
تم جان لو کہ اس حدیث کو امام طحاوی نے اپنی کتاب ''شرح مشکل الآثار'' میں حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے دوسندوں کے ساتھ روایت کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ دونوں حدیثیں ثابت ہیں اور ان دونوں کے روایت کرنے والے ثقہ ہیں اور اس حدیث کو قاضی عیاض نے ''شفاء'' میں اور حافظ ابن سیدالناس نے ''بشری اللبیب'' میں اورحافظ علاء الدین مغلطائی نے اپنی کتاب ''الزہرالباسم'' میں نقل کیا ہے اور ابوالفتح ازدی نے اس حدیث کو ''صحیح'' بتایا اور ابوزرعہ عراقی اور ہمارے شیخ جلال الدین سیوطی نے ''الدررالمنتشرہ فی الاحادیث المشہترہ'' میں اس حدیث کو ''حسن'' بتایا اور حافظ احمد بن صالح نے فرمایا کہ تم کو یہی کافی ہے اور علماء کو اس حدیث سے پیچھے نہیں رہنا چاہے کیونکہ یہ نبوت کے بہت بڑے معجزات میں سے ہے اور حدیث کے حفاظ نے اس بات کو برا مانا ہے کہ ''ابن جوزی'' نے اس حدیث کو ''کتاب الموضوعات'' میں ذکر کر دیا ہے۔
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے آسمانی معجزات میں سے سورج پلٹ آنے کے معجزہ کی طرح چلتے ہوئے سورج کا ٹھہر جانا بھی ایک بہت ہی عظیم معجزہ ہے جو معراج کی رات گزر کر دن میں وقوع پذیر ہوا۔ چنانچہ یونس بن بکیر نے ابن اسحق سے روایت کی ہے کہ جب کفار قریش نے حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے اپنے اس قافلہ کے حالات دریافت کیے جو ملک شام سے مکہ آ رہا تھا تو آپ نے فرمایا کہ ہاں میں نے تمہارے اس قافلہ کو بیت المقدس کے راستہ میں دیکھا ہے اور وہ بدھ کے دن مکہ آ جائے گا۔ چنانچہ قریش نے بدھ کے دن شہر سے باہر نکل کر اپنے قافلہ کی آمد کا
"انتظار کیایہاں تک کہ سورج غروب ہونے لگااور قافلہ نہیں آیا اس وقت حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے بارگاہ الٰہی میں دعا مانگی تو اﷲ تعالیٰ نے سورج کو ٹھہرا دیا اور ایک گھڑی دن کو بڑھا دیا۔ یہاں تک کہ وہ قافلہ آن پہنچا۔(1) (زرقانی جلد ۵ ص ۱۱۶ و شفاء جلد۱ ص ۱۸۵)
واضح رہے کہ ''حبس الشمس'' یعنی سورج کو ٹھہرا دینے کا معجزہ یہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی کے لیے مخصوص نہیں بلکہ انبیاء سابقین میں سے حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کے لیے بھی یہ معجزہ ظاہر ہو چکاہے جس کا واقعہ یہ ہے کہ جمعہ کے دن وہ بیت المقدس میں قوم جبارین سے جہاد فرما رہے تھے ناگہاں سورج ڈوبنے لگا اور یہ خطرہ پیدا ہوگیا کہ اگر سورج غروب ہوگیاتو سنیچر کا دن آ جائے گا اورسنیچر کے دن موسوی شریعت کے حکم کے مطابق جہاد نہ ہو سکے گا تو اس وقت اﷲ تعالیٰ نے ایک گھڑی تک سورج کو چلنے سے روک دیا یہاں تک کہ حضرت یوشع بن نون علیہ السلام قوم جبارین پر فتح یاب ہوکر جہاد سے فارغ ہوگئے۔ (2)(تفسیر جلالین سورہ مائدہ ص ۹۸و تفسیر جمل جلد۱ ص ۴۸۰)"
حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے آسمانی معجزات میں سے معراج کا واقعہ بھی بہت زیادہ اہمیت کاحامل اور ہماری مادی دنیا سے بالکل ہی ماوراء اور عقل انسانی کے قیاس و گمان کی سرحدوں سے بہت زیادہ بالاتر ہے۔
"1۔۔۔۔۔۔ا لشفاء بتعریف حقوق المصطفی ، فصل فی ا نشقاق القمر و حبس الشمس ، ج۱ ، ص ۲۸۴،۲۸۵
2۔۔۔۔۔۔حاشیۃ الجمل علی الجلالین وتفسیر الجلالین ، سورۃ المائدۃ ، تحت الایۃ:۲۶،ج۲، ص ۲۰۸ملخصاً"
" معراج کادوسرا نام''اسراء'' بھی ہے۔''اسراء'' کے معنی رات کو چلانا یا رات کو لے جانا چونکہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے واقعہ معراج کو خداوند ِعالم نے قرآن مجید میں سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا(1)کے الفاظ سے بیان فرمایا ہے اس لیے معراج کا نام''اسراء''پڑ گیا اور چونکہ حدیثوں میں معراج کا واقعہ بیان فرماتے ہوئے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے''عُرِجَ بِیْ'' (مجھ کو اوپر چڑھایا گیا) کا لفظ ارشاد فرمایا اس لیے اس واقعہ کانام ''معراج'' پڑا۔
احادیث و سیرت کی کتابوں میں اس واقعہ کو بہت کثیر التعداد صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے بیان کیا ہے۔ چنانچہ علامہ زرقانی نے ۴۵ صحابیوں کو نام بنام گنایا ہے جنہوں نے حدیث معراج کو روایت کیاہے جیسا کہ ہم اپنی کتاب ''نورانی تقریریں'' میں اس کاکسی قدر مفصل تذکرہ تحریر کر چکے ہیں۔(2)"
معراج کی تاریخ، دن اور مہینہ میں بہت زیادہ اختلافات ہیں۔ لیکن اتنی بات پر بلا اختلاف سب کااتفاق ہے کہ معراج نزول وحی کے بعداور ہجرت سے پہلے کا واقعہ ہے جو مکہ معظمہ میں پیش آیا اور ابن قتیبہ دینوری(المتوفی ۲۶۷ھ)اور ابن عبدالبر(المتوفی ۴۶۳ھ)اور امام رافعی وامام نووی نے تحریر فرمایا کہ واقعہ معراج رجب کے مہینے میں ہوا۔ اور محدث عبدالغنی مقدسی نے رجب کی ستائیسویں بھی متعین کر دی
"1۔۔۔۔۔۔بپ ۱۵، بنی اسراء یل:۱
2۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،المقصد الخامس فی تخصیصہ...الخ،ج۸، ص ۲۵۔۲۷"
ہے اور علامہ زرقانی نے تحریر فرمایا ہے کہ لوگوں کا اسی پر عمل ہے اور بعض مؤرخین کی رائے ہے کہ یہی سب سے زیادہ قوی روایت ہے۔(1) (زرقانی جلد ۱ ص ۳۵۵ تا ص ۳۵۸)
جمہور علماء ملت کا صحیح مذہب یہی ہے کہ معراج بحالت بیداری جسم و روح کے ساتھ صرف ایک بار ہوئی جمہور صحابہ و تابعین اور فقہاء محدثین نیز صوفیہ کرام کا یہی مذہب ہے۔ چنانچہ علامہ حضرت ملا احمد جیون رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ (استاد اورنگ زیب عالمگیر بادشاہ) نے تحریر فرمایا کہ
وَالْاَصَحُّ اَنَّہٗ کَانَ فِی الْیَقْظَۃِ بِجَسَدِہٖ مَعَ رُوْحِہٖ وَعَلَیْہِ اَھْلُ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ فَمَنْ قَالَ اِنَّہٗ بِالرُّوْحِ فَقَطْ اَوْ فِی النَّوْمِ فَقَطْ فَمُبْتَدِعٌ ضَالٌّ مُضِلٌّ فَاسِقٌ (2)(تفسیرات احمدیہ بنی اسرائیل ص ۴۰۸)
اور سب سے زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ معراج بحالت بیداری جسم و روح کے ساتھ ہوئی یہی اہل سنت وجماعت کا مذہب ہے۔ لہٰذا جو شخص یہ کہے کہ معراج فقط روحانی ہوئی یا معراج فقط خواب میں ہوئی وہ شخص بدعتی و گمراہ اور گمراہ کن و فاسق ہے۔
کیا معراج میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خداوند تعالیٰ کو دیکھا؟ اس مسئلہ میں سلف صالحین کا اختلاف ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور بعض صحابہ نے فرمایا
"1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی ، باب وقت الاسراء ، ج۲ ، ص ۷۰،۷۱ ملتقطاً
2۔۔۔۔۔۔التفسیرات الاحمدیۃ ، سورۃ بنی اسراء یل ، ص۵۰۵"
کہ معراج میں آپ نے اﷲ تعالیٰ کو نہیں دیکھا اور ان حضرات نے
مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰی ﴿۱۱﴾ (1)
"کی تفسیر میں یہ فرمایاکہ آپ نے خدا کو نہیں دیکھا بلکہ معراج میں حضرت جبریل علیہ السلام کو انکی اصلی شکل و صورت میں دیکھا کہ ان کے چھ سو پرتھے اور بعض سلف مثلاً حضرت سعید بن جبیر تابعی نے اس مسئلہ میں کہ دیکھایا نہ دیکھا کچھ بھی کہنے سے توقف فرمایا مگر صحابہ کرام اور تابعین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی ایک بہت بڑی جماعت نے یہ فرمایا ہے کہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے سر کی آنکھوں سے اﷲ تعالیٰ کو دیکھا۔(2)(شفاء جلد۱ ص ۱۲۰ تا ۱۲۱)
چنانچہ عبداﷲبن الحارث نے روایت کیا ہے کہ حضرت عبداﷲ بن عباس اور حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہما ایک مجلس میں جمع ہوئے توحضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ کوئی کچھ بھی کہتا رہے لیکن ہم بنی ہاشم کے لوگ یہی کہتے ہیں کہ بلاشبہ حضرت محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یقیناً اپنے رب کو معراج میں دو مرتبہ دیکھا۔ یہ سن کر حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس زور کے ساتھ نعرہ مارا کہ پہاڑیاں گونج اٹھیں اور فرمایا کہ بے شک حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خدا سے کلام کیا اور حضرت محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خدا کو دیکھا۔
اسی طرح حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے"
مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰی ﴿۱۱﴾ (3)
کی تفسیر میں فرمایا کہ نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا۔ اسی طرح حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے
"1۔۔۔۔۔۔پ۲۷،النجم:۱۱
2۔۔۔۔۔۔الشفاء بتعریف حقوق المصطفی ، فصل واما رؤیتہ لربہ،ج۱،ص۱۹۶، ۱۹۷ ملخصاً
3۔۔۔۔۔۔پ۲۷،النجم:۱۱"
"کہ''رَأیْتُ ربِّیْ'' یعنی میں نے اپنے رب کو دیکھا۔
محدث عبدالرزاق ناقل ہیں کہ حضرت امام حسن بصری اس بات پر حلف اٹھاتے تھے کہ یقینا حضرت محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا اور بعض متکلمین نے نقل کیا ہے کہ حضرت عبداﷲ بن مسعود صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی یہی مذہب تھا اورابن اسحق ناقل ہیں کہ حاکم مدینہ مروان نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کیا کہ کیاحضرت محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا؟ تو آپ نے جواب دیا کہ ''جی ہاں''
اسی طرح نقاش نے حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں ذکر کیا ہے کہ آپ نے یہ فرمایا کہ میں حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے مذہب کا قائل ہوں کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خدا کو دیکھا، دیکھا ،دیکھا، اتنی دیر تک وہ دیکھاکہتے رہے کہ ان کی سانس ٹوٹ گئی۔(1) (شفاء جلد۱ ص ۱۱۹ تا ص ۱۲۰)
صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے شریک بن عبداﷲ نے جو معراج کی روایت کی ہے اس کے آخر میں ہے کہ"
حَتّٰی جَآءَ سِدْرَۃَ الْمُنْتَھیٰ وَدَنَا الْجَبَّارُ رَبُّ الْعِزَّۃِ فَتَدَلّٰی حَتّٰی کَانَ مِنْہُ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنیٰ۔(2)(بخاری جلد ۲ ص ۱۱۲۰ با ب قول اﷲ: وکلم اﷲ ۔ الخ)
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سدرۃ المنتہیٰ پر تشریف لائے اور عزت والا جبار (اﷲ تعالیٰ) یہاں تک قریب ہوا اور نزدیک آیا کہ دو کمانوں یا اس سے بھی کم کا فاصلہ رہ گیا۔
"1۔۔۔۔۔۔الشفاء بتعریف حقوق المصطفی ، فصل وامارؤیتہ لربہ،ج۱،ص۱۹۶،۱۹۷
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری ،کتاب التوحید، باب قولہ تعالٰی: وکلم اللہ موسی...الخ، الحدیث: ۷۵۱۷،ج۴، ص۵۸۰،۵۸۱"
" بہرحال علماء اہل سنت کا یہی مسلک ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے شبِ معراج میں اپنے سر کی آنکھوں سے اﷲ تعالیٰ کی ذات مقدسہ کا دیدار کیا۔
اس معاملہ میں رویت کے علاوہ ایک روایت بھی خاص طور پر قابل تو جہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اپنے محبوب کو اﷲ تعالیٰ نے انتہائی شوکت و شان اور آن بان کے ساتھ اپنا مہمان بنا کر عرش اعظم پر بلایا اور خلوت گاہ راز میں ۔۔۔۔۔کے نازو نیاز کے کلاموں سے سرفراز بھی فرمایا ۔مگر ان بے پناہ عنایتوں کے باوجود اپنے حبیب کو اپنا دیدار نہیں دکھایا اورحجاب فرمایا یہ ایک ایسی بات ہے جو مزاج عشق و محبت کے نزدیک مشکل ہی سے قابل قبول ہو سکتی ہے کیونکہ کوئی شاندار میزبان اپنے شاندار مہمان کو اپنی ملاقات سے محروم رکھے اور اس کو اپنا دیدار نہ دکھائے یہ عشق و محبت کا ذوق رکھنے والوں کے نزدیک بہت ہی ناقابل فہم بات ہے۔ لہٰذا ہم عشق بازوں کا گروہ تو امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی طرح اپنی آخری سانس تک یہی کہتا رہے گا کہ
؎
اور کوئی غیب کیا تم سے نہاں ہو بھلا جب نہ خدا ہی چھپا تم پہ کروڑوں درود
(اعلیٰ حضرت رحمہ اﷲ تعالیٰ )"
معراج کی رات آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے گھر کی چھت کھلی اور ناگہاں حضرت جبرئیل علیہ السلام چند فرشتوں کے ساتھ نازل ہوئے اور آپ کوحرم کعبہ میں لے جا کر آپ کے سینہ مبارک کو چاک کیا اور قلب ِانور کو نکال کر آب ِزمزم سے دھویا پھر ایمان و حکمت سے بھرے ہوئے ایک طشت کو آپ کے سینے میں انڈیل کر شکم کا
"چاک برابر کر دیا۔ پھر آپ براق پر سوار ہو کر بیت المقدس تشریف لائے۔ براق کی تیز رفتاری کا یہ عالم تھا کہ اس کا قدم وہاں پڑتا تھا جہاں اس کی نگاہ کی آخری حد ہوتی تھی۔ بیت المقدس پہنچ کر براق کو آپ نے اس حلقہ میں باندھ دیا جس میں انبیاء علیہم السلام اپنی اپنی سواریوں کو باندھا کرتے تھے پھر آپ نے تمام انبیاء اور رسولوں علیہم السلام کو جو وہاں حاضر تھے دو رکعت نماز نفل جماعت سے پڑھائی۔(1) (تفسیر روح البیان جلد ۵ ص ۱۱۲)
جب یہاں سے نکلے تو حضرت جبریل علیہ السلام نے شراب اور دودھ کے دو پیالے آپ کے سامنے پیش کیے آپ نے دودھ کا پیالہ اٹھا لیا۔ یہ دیکھ کر حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا کہ آپ نے فطرت کو پسند فرمایا اگر آپ شراب کا پیالہ اٹھا لیتے تو آپ کی امت گمراہ ہو جاتی۔ پھر حضرت جبریل علیہ السلام آپ کو ساتھ لے کر آسمان پر چڑھے پہلے آسمان میں حضرت آدم علیہ السلام سے، دوسرے آسمان میں حضرت یحیی و حضرت عیسیٰ علیہما السلام سے جو دونوں خالہ زاد بھائی تھے ملاقاتیں ہوئیں اور کچھ گفتگو بھی ہوئی۔ تیسرے آسمان میں حضرت یوسف علیہ السلام ،چوتھے آسمان میں حضرت ادریس علیہ السلام اورپانچویں آسمان میں حضرت ہارون علیہ السلام اورچھٹے آسمان میں حضرت موسیٰ علیہ السلام ملے اور ساتویں آسمان پر پہنچے تو وہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی وہ بیت المعمور سے پیٹھ لگائے بیٹھے تھے جس میں روزانہ ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں۔ بوقتِ ملاقات ہر پیغمبر نے ''خوش آمدید! اے پیغمبر صالح ''کہہ کر آپ کا استقبال کیا۔ پھر آپ کو جنت کی سیر کرائی گئی۔ اس کے بعد آپ سدرۃ المنتہیٰ پر پہنچے۔ اس درخت"
1۔۔۔۔۔۔تفسیرروح البیان ،پ۱۵،الاسرائ،تحت الایۃ:۱،ج۵،ص ۱۰۶۔۱۱۲ملتقطاً
پر جب انوار الٰہی کا پر توپڑا تو ایک دم اس کی صورت بدل گئی اور اس میں رنگ برنگ کے انوار کی ایسی تجلی نظر آئی جن کی کیفیتوں کو الفاظ ادا نہیں کر سکتے۔ یہاں پہنچ کر حضرت جبریل علیہ السلام یہ کہہ کر ٹھہر گئے کہ اب اس سے آگے میں نہیں بڑھ سکتا۔ پھر حضرت حق جل جلالہٗ نے آپ کو عرش بلکہ عرش کے اوپر جہاں تک اس نے چاہا بلا کر آپ کو باریاب فرمایا اور خلوت گاہ راز میں نازو نیاز کے وہ پیغام ادا ہوئے جن کی لطافت و نزاکت الفاظ کے بوجھ کو برداشت نہیں کر سکتی۔ چنانچہ قرآن مجیدمیں
فَاَوْحٰۤی اِلٰی عَبْدِہٖ مَاۤ اَوْحٰی ﴿ؕ۱۰﴾ (1)
"کے رمزو اشارہ میں خداوند قدوس نے اس حقیقت کو بیان فرما دیا ہے۔(2)
بارگاہ الٰہی میں بے شمار عطیات کے علاوہ تین خاص انعامات مرحمت ہوئے جن کی عظمتوں کو اﷲ و رسول کے سوا اور کون جان سکتا ہے۔
(۱) سورۂ بقرہ کی آخری آیتیں۔ (۲) یہ خوشخبری کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی امت کا ہر وہ شخص جس نے شرک نہ کیا ہو بخش دیاجائے گا۔ (۳) امت پر پچاس وقت کی نماز۔
جب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ان خداوندی عطیات کو لے کر واپس آئے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آپ سے عرض کیاکہ آپ کی امت سے ان پچاس نمازوں کا بار نہ اٹھ سکے گا لہٰذا آپ واپس جاےئے اور اﷲ تعالیٰ سے تخفیف کی درخواست کیجئے۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مشورہ سے چند بارآپ بارگاہ الٰہی میں آتے جاتے اور عرض پرداز ہوتے رہے یہاں تک کہ صرف پانچ وقت کی نمازیں رہ گئیں اور اﷲ تعالیٰ"
"1۔۔۔۔۔۔پ۲۷،النجم:۱۰
2۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم اول ،باب پنجم ، ج۱، ص ۱۶۲۔۱۶۴ملتقطاً
والمواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،المقصدالخامس فی تخصیصہ...الخ،ج۸،ص۳۰۔۳۷"
"نے اپنے حبیب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے فرمایا کہ میرا قول بدل نہیں سکتا۔ اے محبوب ! آپ کی امت کے لیے یہ پانچ نمازیں بھی پچاس ہوں گی۔ نمازیں تو پانچ ہوں گی مگر میں آپ کی امت کو ان پانچ نمازوں پر پچاس نمازوں کااجرو ثواب عطا کروں گا۔
پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم عالم ملکوت کی اچھی طرح سیر فرما کر اور آیات الٰہیہ کا معاینہ و مشاہدہ فرما کر آسمان سے زمین پر تشریف لائے اوربیت المقدس میں داخل ہوئے اور براق پر سوار ہو کر مکہ مکرمہ کے لیے روانہ ہوئے۔ راستہ میں آپ نے بیت المقدس سے مکہ تک کی تمام منزلوں اور قریش کے قافلہ کو بھی دیکھا۔ ان تمام مراحل کے طے ہونے کے بعد آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مسجد حرام میں پہنچ کر چونکہ ابھی رات کا کافی حصہ باقی تھا سوگئے اور صبح کو بیدار ہوئے اور جب رات کے واقعات کا آپ نے قریش کے سامنے تذکرہ فرمایا تو رؤسائے قریش کو سخت تعجب ہوا یہاں تک کہ بعض کو رباطنوں نے آپ کو جھوٹا کہا اور بعض نے مختلف سوالات کیے چونکہ اکثر رؤسائے قریش نے بار بار بیت المقدس کو دیکھا تھا اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کبھی بھی بیت المقدس نہیں گئے ہیں اس لیے امتحان کے طور پر ان لوگوں نے آپ سے بیت المقدس کے درودیوار اور اس کی محرابوں وغیرہ کے بارے میں سوالوں کی بوچھاڑ شروع کر دی۔ اس وقت اﷲ تعالیٰ نے فوراً ہی آپ کی نگاہ نبوت کے سامنے بیت المقدس کی پوری عمارت کا نقشہ پیش فرما دیا۔ چنانچہ کفار قریش آپ سے سوال کرتے جاتے تھے اور آپ عمارت کو دیکھ دیکھ کر ان کے سوالوں کا ٹھیک ٹھیک جواب دیتے جاتے تھے۔ (بخاری کتاب الصلوٰۃ، کتاب الانبیاء ،کتاب التوحید، باب المعراج وغیرہ مسلم باب المعراج و شفاء جلد۱ ص ۱۸۵ و تفسیر روح المعانی جلد ۱۵ ص ۴تا ص ۱۰ وغیرہ کا خلاصہ)"
امام علائی نے اپنی تفسیر میں تحریر فرمایا ہے کہ معراج میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے پانچ قسم کی سواریوں پر سفر فرمایا مکہ سے بیت المقدس تک براق پر،بیت المقدس سے آسمان اول تک نور کی سیڑھیوں پر، آسمان اول سے ساتویں آسمان تک فرشتوں کے بازوؤں پر، ساتویں آسمان سے سدرۃ المنتہیٰ تک حضرت جبریل علیہ السلام کے بازو پر، سدرۃ المنتہیٰ سے مقام قاب قوسین تک رفرف پر۔(1) (تفسیر روح المعانی جلد ۱۵ ص ۱۰)
" بیت المقدس سے مقام قاب قوسین تک پہنچنے میں آپ نے دس منزلوں پر قیام فرمایا اور ہر منزل پر کچھ گفتگو ہوئی اور بہت سی خداوندی نشانیوں کو ملاحظہ فرمایا۔
(۱)آسمان اول (۲)دوسراآسمان (۳)تیسراآسمان (۴)چوتھاآسمان (۵) پانچواں آسمان (۶) چھٹاآسمان (۷) ساتواں آسمان (۸)سدرۃ المنتہیٰ (۹) مقام مستویٰ جہاں آپ نے قلم قدرت کے چلنے کی آوازیں سنیں (۱۰) عرش اعظم (2)(تفسیر روح المعانی جلد ۱۵ ص ۱۰)"
حضرت انس بن مالک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ عرب میں نہایت ہی سخت قسم کا قحط پڑا ہوا تھا اس وقت جب کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم خطبہ کے لیے منبر پر
"1۔۔۔۔۔۔تفسیرروح المعانی،پ۱۵، الاسرائ،تحت الایۃ: ۱، ج۱۵،ص۱۴
2۔۔۔۔۔۔تفسیرروح المعانی ،پ۱۵،الاسرائ،تحت الایۃ:۱،ج۱۵، ص ۱۵ملخصاً"
چڑھے تو ایک اعرابی نے کھڑے ہو کر فریاد کی کہ یا رسول اﷲ!(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) بارش نہ ہونے سے جانور ہلاک اور بال بچے بھوک سے تباہ ہو رہے ہیں لہٰذا آپ دعا فرمائیے۔ اس وقت آسمان میں کہیں بدلی کا نام و نشان نہیں تھا مگرجوں ہی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک اٹھایا ہر طرف سے پہاڑوں کی طرح بادل آکر چھا گئے اور ابھی آپ منبر پر سے اترے بھی نہ تھے کہ بارش کے قطرات آپ کی نورانی داڑھی پر ٹپکنے لگے اور آٹھ دن تک مسلسل موسلادھار بارش ہوتی رہی یہاں تک کہ جب دوسرے جمعہ کو آپ خطبہ کے لیے منبر پر رونق افروز ہوئے تو وہی اعرابی یاکوئی دوسرا کھڑا ہوگیا اور بلند آواز سے فریاد کرنے لگاکہ یارسول اﷲ!( صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) مکانات منہدم ہوگئے اور مال مویشی غرق ہوگئے لہٰذا دعا فرمائیے کہ بارش بند ہوجائے۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے پھر اپنا مقدس ہاتھ اٹھا دیا اور یہ دعا فرمائی کہ ''اَللّٰھُمَّ حَوَالَیْنَا وَلَا عَلَیْنَا'' اے اﷲ ! ہمارے ارد گرد بارش ہو اور ہم پر نہ بارش ہو۔پھر آپ نے بدلی کی طرف اپنے دستِ مبارک سے اشارہ فرمایا تو مدینہ کے ارد گرد سے بادل کٹ کر چھٹ گیا اور مدینہ اور اس کے اطراف میں بارش بند ہوگئی۔ (1)(بخاری جلد ۱ ص ۱۲۷ باب الاستسقاء فی الجمعہ)
یہ چند آسمانی معجزات جو مذکور ہوئے اس بات کی دلیل ہیں کہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم خداکی عطا کی ہوئی طاقت سے آسمانی کائنات میں بھی تصرفات فرماتے ہیں اور آپ کی خداداد سلطنت کی حکمرانی زمین ہی تک محدود نہیں بلکہ آسمانی
1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب الاستسقائ،باب من تمطر فی المطر ...الخ ، الحدیث: ۱۰۳۳، ج۱، ص۳۵۳
"مخلوقات میں بھی آپ کی حکومت کا سکہ چلتا ہے۔ چنانچہ ترمذی شریف کی حدیث ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہر نبی کے لیے دو وزیر آسمان والوں میں سے اور دو وزیر زمین والوں میں سے ہوا کرتے ہیں اور میرے دونوں آسمانی وزیر ''جبریل و میکائیل'' ہیں اور میرے زمین کے دونوں وزیر ''ابوبکر و عمر ''ہیں۔(1) (مشکوٰۃ جلد ۲ ص ۵۶۰ باب مناقب ابوبکر و عمر)
ظاہر ہے کہ کسی بادشاہ کے وزیر اس کی سلطنت کی حدود ہی میں رہا کرتے ہیں۔ اگر آسمانوں میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی سلطنت خداداد نہ ہوتی تو حضرت جبرئیل و میکائیل علیہماالسلام آپ کے دو وزیروں کی حیثیت سے بھلا آسمانوں میں کس طرح مقیم رہے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ شہنشاہ مدینہ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی بادشاہی بہ عطاء الٰہی زمین و آسمان کی تمام مخلوقات پر ہے ۔ ؎
صاحب رجعت شمس و شق القمر نائب دست قدرت پہ لاکھوں سلام
عرش تا فرش ہے جس کے زیر نگیں اس کی قاہر ریاست پہ لاکھوں سلام"
رسول اعظم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے معجزات نبوت میں سے قرآن مجید بھی ایک بہت ہی جلیل القدر معجزہ اور آپ کی صداقت کا ایک فیصلہ کن نشان ہے۔بلکہ اگر اس کو ''اعظم المعجزات'' کہہ دیاجائے تو یہ ایک ایسی حقیقت کا انکشاف ہوگا جس کی پردہ پوشی ناممکن ہے کیونکہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے دوسرے معجزات تو اپنے وقت پر ظہور پذیر ہوئے اور آپ کے زمانے ہی کے لوگوں نے اس کو دیکھا مگر قرآن مجید
1۔۔۔۔۔۔سنن الترمذی،کتاب المناقب،باب فی مناقب ابو بکروعمررضی اللہ عنہما،الحدیث: ۳۷۰۰،ج۵،ص ۳۸۲
"آپ کا وہ عظیم الشان معجزہ ہے کہ قیامت تک باقی رہے گا۔
کون نہیں جانتا کہ اﷲ تعالیٰ نے فصحاء عرب کو قرآن کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک بار اس طرح چیلنج دیا کہ"
قُلۡ لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الۡاِنۡسُ وَالْجِنُّ عَلٰۤی اَنۡ یَّاۡتُوۡا بِمِثْلِ ہٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاۡتُوۡنَ بِمِثْلِہٖ وَلَوْ کَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیۡرًا ﴿۸۸﴾ (1)
"( اے محبوب ) فرما دیجئے کہ اگر تمام انسان و جن اس کام کے لیے جمع ہوجائیں کہ قرآن کا مثل لائیں تو نہ لا سکیں گے اگرچہ ان کے بعض بعض کی مدد کریں۔(بنی اسرائیل)
مگر کوئی بھی اس خداوندی چیلنج کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہوا۔ پھر قرآن نے ایک بار اس طرح چیلنج دیا کہ"
قُلْ فَاۡتُوۡا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِہٖ (2)
"یعنی اگر تم لوگ پورے قرآن کا مثل نہیں لا سکتے تو قرآن جیسی دس ہی سورتیں بنا کر لاؤ۔(ہود)
مگر انتہائی جدوجہد کے باوجود یہ بھی نہ ہو سکا۔ پھر قرآن نے اس طرح للکارا کہ"
وَ اِنۡ کُنۡتُمْ فِیۡ رَیۡبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَاۡتُوۡا بِسُوۡرَۃٍ مِّنۡ مِّثْلِہٖ ۪ وَادْعُوۡا شُہَدَآءَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیۡنَ ﴿۲۳﴾ (3)
(اے حبیب)آپ فرما دیجئے کہ اگر تم لوگوں کو اس میں کچھ شک ہو جو ہم نے اپنے خاص بندے پر نازل فرمایا ہے تو تم اس جیسی ایک ہی سورۃ لے آؤ اور اﷲ کے سوا اپنے تمام حمایتیوں کو بلا لو اگر تم سچے ہو۔(بقرۃ)
"1۔۔۔۔۔۔ پ ۱۵،بنی اسراء یل: ۸۸
2۔۔۔۔۔۔پ۱۲، ہود:۱۳
3۔۔۔۔۔۔پ۱،البقرۃ:۲۳"
اﷲ اکبر! قرآن عظیم کی عظیم الشان و معجزانہ فصاحت و بلاغت کا بول بالا تو دیکھو کہ عرب کے تمام وہ فصحاء و بلغاء جن کی فصیحانہ شعر گوئی اور خطیبانہ بلاغت کا چار دانگ عالم میں ڈنکا بج رہا تھا مگر وہ اپنی پوری پوری کوششوں کے باوجود قرآن کی ایک سورۃ کے مثل بھی کوئی کلام نہ لا سکے۔ حد ہوگئی کہ قرآن مجید نے فصحاء عرب سے یہاں تک کہہ دیا کہ
فَلْیَاۡتُوۡا بِحَدِیۡثٍ مِّثْلِہٖۤ اِنۡ کَانُوۡا صٰدِقِیۡنَ ﴿ؕ۳۴﴾ (1)
"یعنی اگر کفار عرب سچے ہیں تو قرآن جیسی کوئی ایک ہی بات لائیں۔(سورہ طور)
الغرض چار چار مرتبہ قرآن کریم نے فصحاء عرب کو للکارا، چیلنج دیا، جھنجھوڑا کہ وہ قرآن کامثل بنا کر لائیں ۔مگر تاریخ عالم گواہ ہے کہ چودہ سو برس کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود آج تک کوئی شخص بھی اس خداوندی چیلنج کو قبول نہ کر سکا اور قرآن کے مثل ایک سورۃ بھی بنا کر نہ لا سکا۔ یہ آفتاب سے زیادہ روشن دلیل ہے کہ قرآن مجید حضور خاتم النبیین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا ایک لاثانی معجزہ ہے جس کا مقابلہ نہ کوئی کر سکا ہے نہ قیامت تک کر سکتا ہے۔"
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے معجزات میں سے آپ کا ''علم غیب'' بھی ہے ۔اس بات پر تمام امت کا اتفاق ہے کہ علم غیب ذاتی تو خدا کے سوا کسی اور کو نہیں مگر اﷲ اپنے برگزیدہ بندوں یعنی اپنے نبیوں اور رسولوں وغیرہ کو علم غیب عطا فرماتا ہے۔ یہ علم غیب عطائی کہلاتا ہے قرآن مجید میں ہے کہ
1۔۔۔۔۔۔پ۲۷،الطور:۳۴
عٰلِمُ الْغَیۡبِ فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیۡبِہٖۤ اَحَدًا ﴿ۙ۲۶﴾اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنۡ رَّسُوۡلٍ (1)
"(اﷲ) عالم الغیب ہے وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے۔ ( جن)
اسی طرح قرآن مجید میں دوسری جگہ اﷲ عزوجل نے ارشاد فرمایا کہ"
وَمَا کَانَ اللہُ لِیُطْلِعَکُمْ عَلَی الْغَیۡبِ وَلٰکِنَّ اللہَ یَجْتَبِیۡ مِنۡ رُّسُلِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ۪ (2)
"اﷲ کی شان نہیں کہ اے عام لوگو! تمہیں غیب کا علم دے دے۔ ہاں اﷲ چن لیتا ہے اپنے رسولوں میں سے جسے چاہے۔(آل عمران)
چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو بے شمار غیوب کا علم عطا فرمایا ۔اور آپ نے ہزاروں غیب کی خبریں اپنی امت کو دیں جن میں سے کچھ کا تذکرہ تو قرآن مجید میں ہے باقی ہزاروں غیب کی خبروں کا ذکر احادیث کی کتابوں اور سیرو تواریخ کے دفتروں میں مذکور ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ"
تِلْکَ مِنْ اَنۡۢبَآءِ الْغَیۡبِ نُوۡحِیۡہَاۤ اِلَیۡکَ (3)
"یہ غیب کی خبریں ہیں جن کو ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں۔( ھود)
ہم یہاں ان بے شمار غیب کی خبروں میں سے مثال کے طور پر چند کا ذکر تحریر کرتے ہیں۔ پہلے ان چند غیب کی خبروں کا تذکرہ ملاحظہ فرمائیے جن کا ذکر قرآن مجید میں ہے۔"
"1۔۔۔۔۔۔پ۲۹،الجن:۲۶۔۲۷
2۔۔۔۔۔۔پ۴،ال عمرٰن:۱۷۹
3۔۔۔۔۔۔پ۱۲،ہود:۴۹"
" ۶۱۴ء میں روم اور فارس کے دونوں بادشاہوں میں ایک جنگ ِعظیم شروع ہوئی چھبیس ہزاریہودیوں نے بادشاہ فارس کے لشکرمیں شامل ہوکرساٹھ ہزارعیسائیوں کا قتل عام کیا یہاں تک کہ ۶۱۶ میں بادشاہ فارس کی فتح ہوگئی اور بادشاہ روم کا لشکر بالکل ہی مغلوب ہوگیا اور رومی سلطنت کے پرزے پرزے اڑگئے۔ بادشاہ روم اہل کتاب اور مذہباً عیسائی تھا اور بادشاہ فارس مجوسی مذہب کا پابند اور آتش پرست تھا۔ اس لیے بادشاہ روم کی شکست سے مسلمانوں کو رنج و غم ہوا اورکفار کو انتہائی شادمانی و مسرت ہوئی۔ چنانچہ کفار نے مسلمانوں کو طعنہ دیا اور کہنے لگے کہ تم اور نصاریٰ اہل کتاب ہو اور ہم اور اہل فارس بے کتاب ہیں جس طرح ہمارے بھائی تمہارے بھائیوں پر فتح یاب ہو کر غالب آ گئے اسی طرح ہم بھی ایک دن تم لوگوں پر غالب آجائیں گے۔ کفار کے ان طعنوں سے مسلمانوں کو اور زیادہ رنج و صدمہ ہوا۔
اس وقت رومیوں کی یہ افسوسناک حالت تھی کہ وہ اپنے مشرقی مقبوضات کا ایک ایک چپہ کھو چکے تھے۔ خزانہ خالی تھا۔ فوج منتشر تھی ملک میں بغاوتوں کا طوفان اٹھ رہا تھا۔ شہنشاہ روم بالکل نالائق تھا۔ ان حالات میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ بادشاہ روم بادشاہ فارس پر غالب ہو سکتا تھا مگر ایسے وقت میں نبی صادق نے قرآن کی زبان سے کفار مکہ کو یہ پیش گوئی سنائی کہ"
"الٓـمّٓ ﴿۱﴾ۚغُلِبَتِ الرُّوۡمُ ۙ﴿۲﴾فِیۡۤ اَدْنَی الْاَرْضِ وَ ہُمۡ مِّنۡۢ بَعْدِ غَلَبِہِمْ سَیَغْلِبُوۡنَ ۙ﴿۳﴾فِی بِضْعِ سِنِیۡنَ ۬ؕ
(1)"
رومی مغلوب ہوئے پاس کی زمین میں اوروہ اپنی مغلوبی کے بعدعنقریب غالب ہوں گے چندبرسوں میں۔(روم)
1۔۔۔۔۔۔پ۲۱،الروم:۱۔۴
چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ صرف نو سال کے بعد خاص ''صلح حدیبیہ'' کے دن بادشاہ روم کا لشکر اہل فارس پر غالب آ گیا اور مخبر صادق کی یہ خبر غیب عالم وجود میں آگئی۔
حضوراقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جس بے سروسامانی کے ساتھ ہجرت فرمائی تھی اور صحابہ کرام جس کسمپرسی اور بے کسی کے عالم میں کچھ حبشہ، کچھ مدینہ چلے گئے تھے۔ ان حالات کے پیش نظر بھلا کسی کے حاشیہ خیال میں بھی یہ آ سکتا تھا کہ یہ بے سروسامان اور غریب الدیار مسلمانوں کا قافلہ ایک دن مدینہ سے اتنا طاقتور ہو کر نکلے گا کہ وہ کفار قریش کی ناقابل تسخیر عسکری طاقت کو تہس نہس کر ڈالے گا جس سے کافروں کی عظمت و شوکت کا چراغ گل ہو جائے گااور مسلمانوں کی جان کے دشمن مٹھی بھر مسلمانوں کے ہاتھوں سے ہلاک و برباد ہو جائیں گے۔ لیکن خداوند علام الغیوب کامحبوب دانائے غیوب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہجرت سے ایک سال پہلے ہی قرآن پڑھ پڑھ کر ا س خبر غیب کا اعلان کر رہا تھا کہ
"ہَا وَ اِذًا لَّا یَلْبَثُوۡنَ خِلٰفَکَ اِلَّاقَلِیۡلًا ﴿۷۶﴾
(1)"
"اگر وہ تم کو سرزمین مکہ سے گھبرا چکے تاکہ تم کو اس سے نکال دیں تو وہ اہل مکہ تمہارے بعد بہت ہی کم مدت تک باقی رہیں گے۔(بنی اسرائیل)
چنانچہ یہ پیش گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی اور ایک ہی سال کے بعد غزوہ بدر میں مسلمانوں کی فتح مبین نے کفار قریش کے سرداروں کا خاتمہ کر دیا اور کفار مکہ کی لشکری طاقت کی جڑ کٹ گئی اور ان کی شان و شوکت کا جنازہ نکل گیا۔"
1۔۔۔۔۔۔پ۱۵،بنی اسراء یل:۷۶
ہجرت کے بعد کفارِ قریش جوشِ انتقام میں آپے سے باہر ہوگئے اور بدر کی شکست کے بعد تو جذبہ انتقام نے ان کو پاگل بنا ڈالا تھا۔تمام قبائل عرب کوان لوگوں نے جوش دلادلاکرمسلمانوں پریلغارکردینے کے لئے تیارکردیاتھا۔ چنانچہ مسلسل آٹھ برس تک خونریز لڑائیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ جس میں مسلمانوں کو تنگ دستی، فاقہ مستی، قتل و خونریزی، قسم قسم کی حوصلہ شکن مصیبتوں سے دوچار ہونا پڑا۔ مسلمانوں کو ایک لمحہ کے لیے سکون میسر نہیں تھا۔ مسلمان خوف و ہراس کے عالم میں راتوں کو جاگ جاگ کر وقت گزارتے تھے اور رات رات بھر رحمت عالم کے کاشانہ نبوت کا پہرہ دیا کرتے تھے لیکن عین اس پریشانی اور بے سروسامانی کے ماحول میں دونوں جہان کے سلطان صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے قرآن کا یہ اعلان نشر فرمایا کہ مسلمانوں کو ''خلافت ارض'' یعنی دین و دنیا کی شہنشاہی کا تاج پہنایا جائے گا۔ چنانچہ غیب داں رسول نے اپنے دلکش اور شیریں لہجہ میں قرآن کی ان روح پرور اور ایمان افروز آیتوں کو علی الاعلان تلاوت فرمانا شروع کر دیا کہ
وَعَدَ اللہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمۡ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبْلِہِمْ ۪ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَہُمْ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًا ؕ (1)
تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور عمل صالح کیا خدا نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ ان کو زمین کا خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اس نے ان کے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا اور جو دین ان کے لیے پسند کیا ہے اس کو مستحکم کر دے گا اور ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا۔(سورہ نور)
1۔۔۔۔۔۔پ۱۸، النور:۵۵
مسلمان جن نامساعد حالات اور پریشان کن ماحول کی کشمکش میں مبتلا تھے ان حالات میں خلافتِ ارض اور دین و دنیا کی شہنشاہی کی یہ عظیم بشارت انتہائی حیرت ناک خبر تھی بھلا کون تھا جو یہ سوچ سکتا تھا کہ مسلمانوں کا ایک مظلوم و بے کس گروہ جس کو کفار مکہ نے طرح طرح کی اذیتیں دے کر کچل ڈالا تھا اور اس نے اپنا سب کچھ چھوڑ کر مدینہ آ کر چند نیک بندوں کے زیرسایہ پناہ لی تھی اور اس کو یہاں آ کر بھی سکون و اطمینان کی نیند نصیب نہیں ہوئی تھی بھلا ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ اس گروہ کو ایسی شہنشاہی مل جائے گی کہ خدا کے آسمان کے نیچے اور خدا کی زمین پر خدا کے سواان کو کسی اور کا ڈر نہ ہوگا۔بلکہ ساری دنیا ان کے جاہ و جلال سے ڈر کر لرزہ براندام رہے گی مگر ساری دنیا نے دیکھ لیا کہ یہ بشارت پوری ہوئی اور ان مسلمانوں نے شہنشاہ بن کر دنیا پر اس طرح کامیاب حکومت کی کہ اس کے سامنے دنیا کی تمام متمدن حکومتو ں کا شیرازہ بکھر گیااور تمام سلاطین عالم کی سلطانی کے پرچم عظمت اسلام کی شہنشاہی کے آگے سرنگوں ہوگئے۔کیا اب بھی کسی کو اس پیشین گوئی کی صداقت میں بال کے کروڑویں حصہ کے برابر بھی شک و شبہ ہو سکتا ہے۔
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ سے اس طرح ہجرت فرمائی تھی کہ رات کی تاریکی میں اپنے یارِغار کے ساتھ نکل کر غار ثور میں رونق افروز رہے۔ آپ کی جان کے دشمنوں نے آپ کی تلاش میں سرزمین مکہ کے چپے چپے کو چھان مارا اور آپ ان دشمنوں کی نگاہوں سے چھپتے اور بچتے ہوئے غیر معروف راستوں سے مدینہ منورہ پہنچے۔ ان حالات میں بھلا کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ آ سکتا تھا کہ رات
کی تاریکی میں چھپ کر روتے ہوئے اپنے پیارے وطن مکہ کو خیرباد کہنے والا رسولِ برحق ایک دن فاتح مکہ بن کرفاتحانہ جاہ و جلال کے ساتھ شہر مکہ میں اپنی فتح مبین کا پرچم لہرائے گااور اس کے دشمنوں کی قاہر فوج اس کے سامنے قیدی بن کر دست بستہ سر جھکائے لرزہ براندم کھڑی ہوگی۔ مگر نبی غیب داں نے قرآن کی زبان سے اس پیشین گوئی کا اعلان فرمایا کہ
"اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللہِ وَ الْفَتْحُ ۙ﴿۱﴾وَ رَاَیۡتَ النَّاسَ یَدْخُلُوۡنَ فِیۡ دِیۡنِ اللہِ اَفْوَاجًا ۙ﴿۲﴾فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَ اسْتَغْفِرْہُ ؕؔ اِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًا ٪﴿۳﴾
(1)"
"جب اﷲ کی مدد اور فتح(مکہ)آ جائے اور لوگوں کو تم دیکھو کہ اﷲ کے دین میں فوج فوج داخل ہوتے ہیں تو اپنے رب کی ثنا کرتے ہوئے اُس کی پاکی بولو اور اس سے بخشش چاہو بے شک وہ بہت توبہ قبول کرنے والا ہے۔(سورہ نصر)
چنانچہ یہ پیش گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی کہ ۸ھ میں مکہ فتح ہوگیا اور آپ فاتح مکہ ہونے کی حیثیت سے افواجِ الٰہی کے جاہ و جلال کے ساتھ مکہ مکرمہ کے اندر داخل ہوئے اور کعبہ معظمہ میں داخل ہو کر آپ نے دوگانہ ادا فرمایا اور اہل عرب فوج درفوج اسلام میں داخل ہونے لگے ۔حالانکہ اس سے قبل اِکادُکا لوگ اسلام قبول کرتے تھے۔"
جنگ بدر میں جب کہ کل تین سو تیرہ مسلمان تھے جو بالکل ہی نہتے، کمزور اور
1۔۔۔۔۔۔پ۳۰،النصر:۱۔۳
بے سروسامان تھے بھلا کسی کے خیال میں بھی آ سکتا تھا کہ ان کے مقابلہ میں ایک ہزار کا لشکر جرار جس کے پاس ہتھیار اور عسکری طاقت کے تمام سامان و اوزار موجود تھے شکست کھا کر بھاگ جائے گااورستر مقتول اور ستر گرفتار ہو جائیں گے مگر جنگ بدر سے برسوں پہلے مکہ مکرمہ میں آیتیں نازل ہوئیں اور رسول برحق نے اقوام عالم کو کئی برس پہلے جنگ بدر میں اس طرح اسلامی فتح مبین کی بشارت سنائی کہ
اَمْ یَقُوۡلُوۡنَ نَحْنُ جَمِیۡعٌ مُّنۡتَصِرٌ ﴿۴۴﴾سَیُہۡزَمُ الْجَمْعُ وَ یُوَلُّوۡنَ الدُّبُرَ ﴿۴۵﴾ (1)
کیا وہ کفار کہتے ہیں کہ ہم سب متحد اور ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔ یہ لشکر عنقریب شکست کھا جائیگا اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے۔
وَلَوْ قٰتَلَکُمُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَوَلَّوُا الْاَدْبَارَ ثُمَّ لَا یَجِدُوۡنَ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیۡرًا ﴿۲۲﴾ (2)
اور اگرکفارتم(مسلمانوں)سے لڑیں گے تویقیناوہ پیٹھ پھیرکربھاگ جائیں گے پھر وہ کوئی حامی و مدد گار نہ پائیں گے۔( فتح)
مدینہ منورہ اور اس کے اطراف کے یہودی قبائل بہت ہی مالدار، انتہائی جنگجو اور بہت بڑے جنگ باز تھے اور ان کو اپنی لشکری طاقت پر بڑا گھمنڈ اور ناز تھا۔ جنگ ِبدر میں مسلمانوں کی فتح مبین کا حال سن کر ان یہودیوں نے مسلمانوں کو یہ طعنہ دیا کہ قبائل قریش فنون جنگ سے ناواقف اوربے ڈھنگے تھے اس لیے وہ جنگ ہار گئے
"1۔۔۔۔۔۔پ۲۷،القمر:۴۴۔۴۵
2۔۔۔۔۔۔پ۲۶،الفتح :۲۲"
اگر مسلمانوں کو ہم جنگ بازوں اور بہادروں سے پالا پڑا تو مسلمانوں کو ان کی چھٹی کا دودھ یاد آ جائے گا۔ اور واقعی صورتحال ایسی ہی تھی کہ سمجھ میں نہیں آ سکتا تھا کہ مٹھی بھر کمزوراوربے سروسامان مسلمانوں سے قبائل یہودکایہ مسلح ومنظم لشکرکبھی شکست کھا جائے گا۔ مگر اس حال و ماحول میں غیب داں رسول نے قرآن کی زبان سے اس غیب کی خبر کا اعلان فرمایا کہ
وَلَوْ اٰمَنَ اَہۡلُ الْکِتٰبِ لَکَانَ خَیۡرًا لَّہُمۡ ؕ مِنْہُمُ الْمُؤْمِنُوۡنَ وَاَکْثَرُہُمُ الْفٰسِقُوۡنَ ﴿۱۱۰﴾لَنۡ یَّضُرُّوۡکُمْ اِلَّاۤ اَذًی ؕ وَ اِنۡ یُّقَاتِلُوۡکُمْ یُوَلُّوۡکُمُ الۡاَدۡبَارَ ۟ ثُمَّ لَا یُنۡصَرُوۡنَ ﴿۱۱۱﴾(1)
"اگر اہل کتاب ایمان لے آتے توان کے لیے یہ بہترہوتاان میں کچھ ایماندار اوراکثرفاسق ہیں اوروہ تم (مسلمانوں) کو بجز تھوڑی تکلیف دینے کے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے اور اگر وہ تم سے لڑیں گے تویقینا پشت پھیر دیں گے پھر ان کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔(آل عمران)
چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ یہود کے قبائل میں سے بنوقریظہ قتل کر دئیے گئے اور بنو نضیر جلا وطن کر دئیے گئے اور خیبر کو مسلمانوں نے فتح کر لیا اور باقی یہود ذلت کے ساتھ جزیہ ادا کرنے پر مجبور ہوگئے۔"
قرآن مجید کی پیشگوئیاں اور غیب کی خبریں صرف انہیں جنگوں کے ساتھ مخصوص و محدود نہیں تھیں جو عہد نبوی میں ہوئیں بلکہ اس کے بعد خلفاء کے دور خلافت
1۔۔۔۔۔۔پ۳،ال عمرٰن :۱۱۰،۱۱۱
میں عرب و عجم میں جو عظیم و خوں ریزلڑائیاں ہوئیں ان کے متعلق بھی قرآن مجید نے پہلے سے پیشگوئی کر دی تھی جو حرف بحرف پوری ہوئی۔ مسلمانوں کو رُوم و ایران کی زبردست حکومتوں سے جو لڑائیاں لڑنی پڑیں وہ تاریخ اسلام کے بہت ہی زریں اوراق اور نمایاں واقعات ہیں مگر قرآن مجید نے برسوں پہلے ان جنگوں کے نتائج کا اعلان ان لفظوں میں کر دیا تھا۔
"قُلۡ لِّلْمُخَلَّفِیۡنَ مِنَ الْاَعْرَابِ سَتُدْعَوْنَ اِلٰی قَوْمٍ اُولِیۡ بَاۡسٍ شَدِیۡدٍ تُقَاتِلُوۡنَہُمْ اَوْ یُسْلِمُوۡنَ ۚ
(1)"
"جہاد میں پیچھے رہ جانے والے دیہاتیوں سے کہہ دو کہ عنقریب تم کو ایک سخت جنگجو قوم سے جنگ کرنے کے لیے بلایا جائے گا تم لوگ ان سے لڑوگے یا وہ مسلمان ہو جائیں گے۔( فتح)
اس پیش گوئی کا ظہور اس طرح ہوا کہ روم و ایران کی جنگجو اقوام سے مسلمانوں کو جنگ کرنی پڑی جس میں بعض جگہ خونریز معرکے ہوئے اور بعض جگہ کے کفار نے اسلام قبول کرلیا۔ الغرض اس قسم کی بہت سی غیب کی خبریں قرآن مجید میں مذکور ہیں جن کو غیب داں رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے واقعات کے واقع ہونے سے بہت پہلے اقوام ِعالم کے سامنے بیان فرما دیا اور یہ تمام غیب کی خبریں آفتاب کی طرح ظاہر ہو کر اہل عالم کے سامنے زبان حال سے اعلان کر رہی ہیں اور قیامت تک اعلان کرتی رہیں گی کہ
چشم اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے رفعت شانِ رفعنا لک ذِکرک دیکھے"
1۔۔۔۔۔۔پ۲۶،الفتح:۱۶
"ابتداء اسلام میں مسلمان جن آلام و مصائب میں گرفتار اور جس بے سروسامانی کے عالم میں تھے اس وقت کوئی اس کو سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ چند نہتے، فاقہ کش اور بے سروسامان مسلمان قیصر و کسریٰ کی جابر حکومتوں کا تختہ الٹ دیں گے۔ لیکن غیب جاننے والے پیغمبر صادق نے اس حالت میں پورے عزم و یقین کے ساتھ اپنی امت کو یہ بشارتیں دیں کہ اے مسلمانوں! تم عنقریب قسطنطنیہ کو فتح کروگے اور قیصر و کسریٰ کے خزانوں کی کنجیاں تمہارے دست تصرف میں ہوں گی۔ مصر پر تمہاری حکومت کا پرچم لہرائے گا۔ تم سے ترکوں کی جنگ ہوگی جن کی آنکھیں چھوٹی چھوٹی اور چہرے چوڑے چوڑے ہوں گے اور ان جنگوں میں تم کو فتح مبین حاصل ہوگی۔(1)
(بخاری جلد۱ ص ۵۰۴ تاص ۵۱۳باب علامات النبوۃ)
تاریخ گواہ ہے کہ غیب داں نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی دی ہوئی یہ سب غیب کی خبریں عالم ظہورمیں آئیں۔"
عین اس وقت جب کہ قیصر و کسریٰ کی حکومتوں کے پرچم انتہائی جاہ و جلال کے ساتھ دنیا پر لہرا رہے تھے اور بظاہر ان کی بربادی کا کوئی سامان نظر نہیں آ رہا تھا مگر غیب داں نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی امت کو یہ غیب کی خبر سنائی کہ
اِذَا ھَلَکَ کِسْرٰی فَلاَ کِسْرٰی بَعْدَہٗ وَاِذَا ھَلَکَ قَیْصَرُ فَلاَ قَیْصَرَ بَعْدَہٗ وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ لَتُنْفَقَنَّ کُنُوْزُھُمَا فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ۔(1)(بخاری جلد۱ ص ۵۱۱ باب علامات النبوۃ)
"جب کسریٰ ہلاک ہوگا تو اس کے بعد کوئی کسریٰ نہ ہوگا اور جب قیصر ہلاک ہوگا تو اس کے بعد کوئی قیصر نہ ہوگااوراس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمدکی جان ہے ضرور ان دونوں کے خزانے اﷲ تعالیٰ کی راہ میں (مسلمانوں کے ہاتھ سے) خرچ کیے جائیں گے۔
دنیا کا ہر مؤرخ اس حقیقت کا گواہ ہے کہ حضرت امیر المؤمنین فاروق اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں کسریٰ اور قیصر کی تباہی کے بعد نہ پھر کسی نے سلطنت فارس کا تاج خسروی دیکھا نہ رومی سلطنت کا روئے زمین پر کہیں وجود نظر آیا۔ کیوں نہ ہو کہ یہ غیب داں نبی صادق کی وہ غیب کی خبریں ہیں جو خداوند علّامُ الغیوب کی وحی سے آپ نے دی ہیں۔ بھلا کیونکر ممکن ہے کہ غیب داں نبی کی دی ہوئی غیب کی خبریں بال کے کروڑویں حصہ کے برابر بھی خلاف واقع ہو سکیں۔"
حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یمن و شام و عراق کے فتح ہونے سے برسوں پہلے یہ غیب کی خبر دی تھی کہ یمن فتح کیا جائے گا تو لوگ اپنی سواریوں کو ہنکاتے ہوئے اور اپنے اہل و عیال اور متبعین کو لے کر (مدینہ سے) یمن چلے آئیں گے حالانکہ
1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المناقب ،باب علامات النبوۃ فی الاسلام،الحدیث:۳۶۱۸، ج۲، ص۵۰۶
"مدینہ ہی کا قیام ان کے لیے بہتر تھا۔ کاش وہ لوگ اس بات کو جان لیتے۔
پھر شام فتح کیا جائے گا تو ایک قوم اپنے گھر والوں اور اپنے پیروی کرنے والوں کو لے کر سواریوں کو ہنکاتے ہوئے(مدینہ سے)شام چلی آئے گی حالانکہ مدینہ ہی ان کے لیے بہتر تھا کاش !وہ لوگ اس کو جان لیتے۔
پھر عراق فتح ہوگا تو کچھ لوگ اپنے گھر والوں اور جوان کا کہنا مانیں گے ان سب کو لے کر سواریوں کو ہنکاتے ہوئے (مدینہ سے) عراق آ جائیں گے حالانکہ مدینہ ہی کی سکونت ان کے لیے بہتر تھی کاش! وہ اس کو جان لیتے۔ (1) (مسلم جلد ۱ ص ۴۴۵ باب ترغیب الناس فی سکنی المدینہ)
یمن ۸ھ میں فتح ہوااور شام و عراق اس کے بعد فتح ہوئے لیکن غیب جاننے والے مخبر صادق صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے برسوں پہلے یہ غیب کی خبریں دے دی تھیں جو حرف بحرف پوری ہوئیں۔"
حضرت ابو ذر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کابیان ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم لوگ عنقریب مصر کو فتح کرو گے اور وہ ایسی زمین ہے جہاں کا سکہ ''قیراط'' کہلاتا ہے۔ جب تم لوگ اس کو فتح کرو تو اس کے باشندوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا کیونکہ تمہارے اور ان کے درمیان ایک تعلق اور رشتہ ہے۔ (حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی والدہ ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہامصر کی تھیں جن کی اولاد میں سارا عرب ہے۔)اور جب تم دیکھنا کہ
1۔۔۔۔۔۔صحیح مسلم ،کتاب الحج، باب الترغیب فی المدینۃ...الخ ، الحدیث:۱۳۸۸، ص۷۱۹
وہاں ایک اینٹ بھر جگہ کے لیے دو آدمی جھگڑا کرتے ہوں تو تم مصر سے نکل جانا۔ چنانچہ حضرت ابو ذررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خود اپنی آنکھ سے مصر میں یہ دیکھا کہ عبدالرحمن بن شرحبیل اور ان کے بھائی ربیعہ ایک اینٹ بھر جگہ کے لیے لڑ رہے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت ابو ذر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی وصیت کے مطابق مصر چھوڑ کر چلے آئے۔ (1)(مسلم جلد۲ ص ۳۱۱ باب وصیۃ النبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)
" بیت المقدس کی فتح ہونے سے برسوں پہلے حضورِ اقدس مخبر صادق صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے غیب کی خبر دیتے ہوئے اپنی امت سے ارشاد فرمایا کہ
قیامت سے پہلے چھ چیزیں گن رکھو(۱) میری وفات (۲) بیت المقدس کی فتح (۳) پھر طاعون کی وبا جو بکریوں کی گلٹیوں کی طرح تمہارے اندر شروع ہو جائے گی۔(۴) اس قدر مال کی کثرت ہو جائے گی کہ کسی آدمی کو سو دینار دینے پر بھی وہ خوش نہیں ہوگا۔ (۵) ایک ایسا فتنہ اٹھے گا کہ عرب کاکوئی گھر باقی نہیں رہے گا جس میں فتنہ داخل نہ ہوا ہو۔ (۶) تمہارے اور رومیوں کے درمیان ایک صلح ہوگی اور رومی عہد شکنی کریں گے وہ اَسی جھنڈے لے کر تمہارے اوپر حملہ آور ہوں گے اورہر جھنڈے کے نیچے بارہ ہزار فوج ہوگی۔(2)(بخاری جلد۱ ص ۴۵۰ باب مایحذرمن الغدر)"
حضرت عدی بن حاتم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں بارگاہ رسالت میں
"1۔۔۔۔۔۔صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ، باب وصیۃ النبی با ھل مصر، الحدیث:۲۵۴۳،ص۱۳۷۶
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب الجزیۃ والموادعۃ، باب مایحذر من الغدر، ا لحدیث:۳۱۷۶،ج۲،ص ۳۶۹"
"حاضر تھا تو ایک شخص نے آکر فاقہ کی شکایت کی پھر ایک دوسرا شخص آیا اس نے راستوں میں ڈاکہ زنی کا شکوہ کیا۔ یہ سن کر شہنشاہِ مدینہ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عدی ! اگر تمہاری عمر لمبی ہوگی تو تم یقینا دیکھو گے کہ ایک پردہ نشین عورت اکیلی ''حیرہ'' سے چلے گی اور مکہ آکر کعبہ کا طواف کرے گی اور اس کو خداکے سوا کسی کا کوئی ڈر نہیں ہوگا۔
حضرت عدی کہتے ہیں کہ میں نے اپنے دل میں کہا کہ بھلا قبیلہ ''طی'' کے وہ ڈاکو جنہوں نے شہروں میں آگ لگا رکھی ہے کہاں چلے جائیں گے؟
پھر آپ نے ارشاد فرمایا کہ اگر تم نے لمبی عمر پائی تو یقینا تم دیکھو گے کہ کسریٰ کے خزانوں کو مسلمان اپنے ہاتھوں سے کھولیں گے اور اے عدی!اگر تمہاری زندگی دراز ہوئی تو تم ضرور ضرور دیکھو گے کہ ایک آدمی مٹھی بھر سونا یا چاندی لے کر تلاش کرتا پھرے گا کہ کوئی اس کے صدقہ کو قبول کرے مگر کوئی شخص ایسا نہیں آئے گا جو اس کے صدقہ کو قبول کرے(کیونکہ ہر شخص کے پاس بکثرت مال ہوگا اور کوئی فقیر نہ ہوگا۔) حضرت عدی بن حاتم کابیان ہے کہ اے لوگو!یہ تو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ واقعی ''حیرہ''سے ایک پردہ نشین عورت اکیلی طوافِ کعبہ کے لیے چلی آئی ہے اور وہ خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتی اور میں خود ان لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے کسریٰ بن ہرمز کے خزانوں کو کھول کر نکالا۔ یہ دو چیزیں تو میں نے دیکھ لیں اے لوگو!اگر تم لوگوں کی عمریں دراز ہوئیں تو یقینا تم لوگ تیسری چیز کو بھی دیکھ لو گے کہ کوئی فقیر نہیں ملے گا جو صدقہ قبول کرے۔(1)(بخاری جلد۱ ص ۵۰۷ تاص۵۰۸ باب علامات النبوۃ)"
1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری ،کتاب المناقب ،باب علامات النبوۃ فی الاسلام ،الحدیث:۳۵۹۵، ج۲، ص ۴۹۹
" جنگ خیبر کے دوران ایک دن غیب داں نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ کل میں اس شخص کے ہاتھ میں جھنڈا دوں گا جو اﷲ و رسول سے محبت کرتا ہے اور اﷲ و رسول اس سے محبت کرتے ہیں اور اسی کے ہاتھ سے خیبر فتح ہوگا۔ اس خوشخبری کو سن کر لشکر کے تمام مجاہدین نے اس انتظار میں نہایت ہی بے قراری کے ساتھ رات گزاری کہ دیکھیں کون وہ خوش نصیب ہے جس کے سر اس بشارت کا سہرا بندھتا ہے۔ صبح کو ہر مجاہد اس امید پر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا کہ شاید وہی اس خوش نصیبی کا تاجدار بن جائے۔ ہر شخص گوش برآواز تھا کہ ناگہاں شہنشاہ مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ علی بن ابی طالب کہاں ہیں؟ لوگوں نے کہا کہ یا رسول اﷲ! صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ان کی آنکھوں میں آشوب ہے۔ ارشاد فرمایا کہ قاصد بھیج کر انہیں بلاؤ جب حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ دربار رسالت میں حاضر ہوئے تو حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن لگا کر دعا فرما دی جس سے فی الفور وہ اس طرح شفایاب ہوگئے کہ گویا انہیں کبھی آشوب چشم ہوا ہی نہیں تھا۔ پھر آپ نے ان کے ہاتھ میں جھنڈا عطا فرمایا اور خیبر کا میدان اسی دن ان کے ہاتھوں سے سر ہوگیا۔(1)
(بخاری جلد ۲ ص ۶۰۵ باب غزوہ خیبر)
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دن قبل ہی یہ بتا دیا کہ کل حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ خیبر کو فتح کریں گے۔ مَاذَا تَکْسِبُ غَدًاط (2)یعنی ''کل کون کیا کریگا'' کا علم غیب ہے جو اﷲ تعالیٰ نے اپنے رسول کو عطا فرمایا۔"
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری ،کتاب المغازی ، باب غزوۃ خیبر ،الحدیث:۴۲۱۰،ج۳، ص ۸۵
2۔۔۔۔۔۔پ۲۱،لقمٰن:۳۴"
حضرت سفینہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے بعد تیس برس تک خلافت رہے گی اس کے بعد بادشاہی ہو جائے گی۔ اس حدیث کو سنا کر حضرت سفینہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ تم لوگ گن لو! حضرت ابو بکر کی خلافت دو برس اور حضرت عمر کی خلافت دس برس اور حضرت عثمان کی خلافت بارہ برس اور حضرت علی کی خلافت چھ برس یہ کل تیس برس ہوگئے۔رضی اللہ تعالیٰ عنہم(1) (مشکوٰۃ جلد۲ ص ۴۶۲ کتاب الفتن)
" حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ۷۰ ھ کے شروع اور لڑکوں کی حکومت سے پناہ مانگو۔(2) (مشکوٰۃ جلد ۲ ص ۳۲۳)
اسی طرح حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کی تباہی قریش کے چند لڑکوں کے ہاتھوں پر ہوگی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اس حدیث کو سنا کر فرمایا کرتے تھے کہ اگر تم چاہو تومیں ان لڑکوں کے نام بتا سکتا ہوں وہ فلاں کے بیٹے اور فلاں کے بیٹے ہیں۔(3)(بخاری جلد ۱ ص ۵۰۹ باب علامات النبوۃ)
تاریخ اسلام گواہ ہے کہ ۷۰ ھ میں بنوامیہ کے کم عمر حاکموں نے جو فتنے برپا"
"1۔۔۔۔۔۔مشکاۃ المصابیح ،کتاب الرقاق ،الفصل الثانی ، الحدیث:۵۳۹۵،ج۲،ص۲۸۱
2۔۔۔۔۔۔مشکاۃ المصابیح ،کتاب الامارۃوالقضاء ،الفصل الثالث ، الحدیث:۳۷۱۶،ج۲، ص۱۱
3۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المناقب،باب علامات النبوۃ فی الاسلام،الحدیث:۳۶۰۵،ج۲،ص۵۰۱"
کیے واقعی یہ ایسے فتنے تھے کہ جن سے ہر مسلمان کو خدا کی پناہ مانگنی چاہے۔ ان واقعات کی برسوں پہلے نبی برحق صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خبر دی جو یقینا غیب کی خبر ہے۔
" حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲتعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک تم لوگ ایسی قوم سے نہ لڑو گے جن کے جوتے بال کے ہوں گے اور جب تک تم لوگ قوم ترک سے نہ لڑو گے جو چھوٹی آنکھوں والے، سرخ چہروں والے، چپٹی ناکوں والے ہوں گے۔ ان کے چہرے گویا ہتھوڑوں سے پیٹی ہوئی ڈھالوں کی مانند (چوڑے چپٹے) ہوں گے اور ان کے جوتے بال کے ہوں گے۔
اوردوسری روایت میں ہے کہ تم لوگ ''خوزوکرمان'' کے عجمیوں سے جنگ کرو گے جن کے چہرے سرخ، ناکیں چپٹی ،آنکھیں چھوٹی ہوں گی۔
اورتیسری روایت میں یہ ہے کہ قیامت سے پہلے تم لوگ ایسی قوم سے جنگ کرو گے جن کے جوتے بال کے ہوں گے وہ اہل ''بارز''ہیں۔(یعنی صحراؤں اور میدانوں میں رہنے والے ہیں۔)(1)(بخاری جلد ۱ ص ۵۰۷ باب علامات النبوۃ)
غیب داں نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ خبریں اس وقت دی تھیں جب اسلام ابھی پورے طور پر زمین حجاز میں بھی نہیں پھیلا تھا ۔مگر تاریخ گواہ ہے کہ مخبر صادق صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی یہ تمام پیشگوئیاں پہلی ہی صدی کے آخر تک پوری ہوگئیں کہ مجاہدین"
1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتا ب المناقب،باب علامات النبوۃ فی الاسلام،الحدیث:۳۵۸۷، ۳۵۹۱، ج۲، ص۴۹۷،۴۹۸ملتقطاً
اسلام کے لشکروں نے ترکوں اور صحراؤں میں رہنے والے بربریوں سے جہاد کیا اور اسلام کی فتح مبین ہوئی اور ترک و بربری اقوام دامن اسلام میں آ گئیں۔
" حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہندوستان میں اسلام کے داخل اور غالب ہونے کی خوشخبری سناتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا کہ
میری امت کے دو گروہ ایسے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے ان دونوں کو جہنم سے آزاد فرما دیا ہے۔ ایک وہ گروہ جو ہندوستان میں جہاد کریگا اور ایک وہ گروہ جو حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے ساتھ ہوگا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہا کرتے تھے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہم مسلمانوں سے ہندوستان میں جہاد کرنے کا وعدہ فرمایا تھا تو اگر میں نے وہ زمانہ پالیا جب تو میں اس کی راہ میں اپنی جان و مال قربان کر دوں گا اور اگر میں اس جہاد میں شہید ہوگیاتو میں بہترین شہید ٹھہروں گا اور اگر میں زندہ لوٹا تو میں دوزخ سے آزاد ہونے والا ابو ہریرہ ہوں گا۔(1)(نسائی جلد ۲ ص ۶۳ باب غزوۃ الہند)
امام نسائی نے ۳۰۲ھ میں وفات پائی اور انہوں نے اپنی کتاب سلطان محمود غزنوی کے حملہ ہندوستان ۳۹۲ھ سے تقریباً سو برس پہلے تحریر فرمائی۔
تمام دنیا کے مؤرخین گواہ ہیں کہ غیب داں نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی زبان قدسی بیان سے ہندوستان کے بارے میں سینکڑوں برس پہلے جس غیب کی خبر کا اعلان فرمایا تھا وہ حرف بحرف پوری ہو کر رہی کہ محمد بن قاسم نے سرزمین سندھ و مکران پر جہاد"
1۔۔۔۔۔۔سنن النسائی،کتاب الجہاد،باب غزوۃالھند،الحدیث:۳۱۷۱،۳۱۷۲،ص۵۱۷
"فرمایا اور محمود غزنوی و شہاب الدین غوری نے ہندوستان کے سومنات و اجمیر وغیرہ پر جہاد کرکے اس ملک میں اسلام کا پرچم لہرایا۔یہاں تک کہ سرزمین ہند میں ناگالینڈ کی پہاڑیوں سے کوہ ہندوکش تک اور راس کماری سے ہمالیہ کی چوٹیوں تک اسلام کا پرچم لہرا چکا ۔حالانکہ مخبر صادق صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ پیشین گوئی اس وقت دی تھی جب اسلام سرزمین حجاز سے بھی آگے نہیں پہنچ پایا تھا۔ ان غیب کی خبروں کو لفظ بلفظ پورا ہوتے ہوئے دیکھ کر کون ہے جو غیب داں نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دربار میں اس طرح نذرانہ عقیدت نہ پیش کریگا کہ ؎
سرعرش پر ہے تری گزر دل فرش پر ہے تری نظر
ملکوت و ملک میں کوئی شے نہیں وہ جوتجھ پہ عیاں نہیں
(اعلیٰ حضر ت بریلوی علیہ الرحمۃ)"
جنگ ِبدر میں لڑائی سے پہلے ہی حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم صحابہ کو لے کر میدان جنگ میں تشریف لے گئے اور اپنی چھڑی سے لکیر کھینچ کھینچ کربتایا کہ یہ فلاں کافر کی قتل گاہ ہے۔ یہ ابوجہل کا مقتل ہے۔ اس جگہ قریش کافلاں سردار مارا جائے گا۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کابیان ہے کہ ہر سردار قریش کے قتل ہونے کے لیے آپ نے جو جو جگہیں مقرر فرما دی تھیں اسی جگہ اس کافر کی لاش خاک و خون میں لتھڑی ہوئی پائی گئی۔(1)(مسلم جلد ۲ ص ۱۰۲ باب غزوہ بدر)
1۔۔۔۔۔۔صحیح مسلم ،کتاب الجھاد والسیر، باب غزوۃ بدر ، الحدیث:۱۷۷۹،ص۹۸۱
" حضرت رسول خدا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے مرض وفات میں حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو اپنے پاس بلاکر ان کے کان میں کوئی بات فرمائی تو وہ رونے لگیں۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد ان کے کان میں ایک اور بات کہی تو وہ ہنسنے لگیں۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو یہ دیکھ کر بڑا تعجب ہوا۔ انہوں نے حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے اس رونے اورہنسنے کا سبب پوچھا؟ تو انہوں نے صاف کہہ دیا کہ میں رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا راز ظاہر نہیں کر سکتی۔ جب حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی تو حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے دوبارہ دریافت کرنے پر حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے کہا کہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے پہلی مرتبہ میرے کان میں یہ فرمایا تھا کہ میں اپنی اسی بیماری میں وفات پا جاؤں گا۔ یہ سن کر میں فرط غم سے رو پڑی پھر فرمایا کہ اے فاطمہ ! میرے گھر والوں میں سب سے پہلے تم وفات پا کرمجھ سے ملو گی۔ یہ سن کر میں ہنس پڑی کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے میری جدائی کا زمانہ بہت ہی کم ہوگا۔(1)(بخاری جلد ۱ ص ۵۱۲)
اہل علم جانتے ہیں کہ یہ دونوں غیب کی خبریں حرف بحرف پوری ہوئیں کہ آپ نے اپنی اسی بیماری میں وفات پائی اورحضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا بھی صرف چھ مہینے کے بعد وفات پا کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جا ملیں۔"
1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری ،کتاب المناقب ، باب علامات النبوۃ فی الاسلام ، الحدیث:۳۶۲۶، ج۲، ص۵۰۷، ۵۰۸وکتاب الاستئذان ، باب من ناجی بین یدی الناس...الخ،الحدیث: ۶۲۸۵، ج۴،ص ۱۸۴
" جس سال حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس دنیا سے رحلت فرمائی ،پہلے ہی سے آپ نے اپنی وفات کا اعلان فرمانا شروع کر دیا۔ چنانچہ حجۃ الوداع سے پہلے ہی حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن کاحاکم بنا کر روانہ فرمایا تو ان کے رخصت کرتے وقت آپ نے ان سے فرمایا کہ اے معاذ! اب اس کے بعد تم مجھ سے نہ مل سکو گے جب تم واپس آؤ گے تو میری مسجد اور میری قبر کے پاس سے گزرو گے۔(1)(مسند امام احمد بن حنبل جلد ۵ ص ۳۵)
اسی طرح حجۃ الوداع کے موقع پر جب کہ عرفات میں ایک لاکھ پچیس ہزار سے زائد مسلمانوں کا اجتماع عظیم تھا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے وہاں دوران خطبہ میں ارشاد فرمایا کہ شاید آئندہ سال تم لوگ مجھ کو نہ پاؤ گے۔(2)
اسی طرح مرض وفات سے کچھ دنوں پہلے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کو یہ اختیاردیا تھا کہ وہ چاہے تو دنیا کی زندگی کو اختیار کر لے اور چاہے تو آخرت کی زندگی قبول کرلے تو اس بندے نے آخرت کو قبول کرلیا۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ رونے لگے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگوں کو بڑا تعجب ہواکہ آپ تو ایک بندے کے بارے میں یہ خبر دے رہے ہیں تو اس پر حضرت ابو بکر( رضی اﷲ تعالیٰ عنہ )کے رونے کا کیا موقع ہے؟ مگر جب حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کے چند ہی دنوں کے بعد وفات"
"1۔۔۔۔۔۔المسندللامام احمد بن حنبل ، مسند الانصار ، الحدیث:۲۲۱۱۵،ج۸، ص ۲۴۳
2۔۔۔۔۔۔تاریخ الطبری ،حجۃ الوداع ، الحدیث:۳۰۱،ج۲،ص۳۴۴"
"پائی تو ہم لوگوں کو معلوم ہواکہ وہ اختیار دیا ہوا بندہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہی تھے اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہم لوگوں میں سے سب سے زیادہ علم والے تھے۔
( کیونکہ انہوں نے ہم سب لوگوں سے پہلے یہ جان لیا تھا کہ وہ اختیار دیا ہوا بندہ خود حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہی ہیں۔)(1)
(بخاری جلد ۱ ص ۵۱۹ باب قول النبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سدواالابواب الخ)"
" حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ایک مرتبہ حضرت ابو بکر و حضرت عمر و حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کو ساتھ لے کر اُحد پہاڑ پر چڑھے۔ اس وقت پہاڑ ہلنے لگا تو آپ نے فرمایا کہ اے احد!ٹھہر جااور یقین رکھ کہ تیرے اوپر ایک نبی ہے ایک صدیق ہے اور دو (عمرو عثمان) شہید ہیں۔(2) (بخاری جلد ۱ ص ۵۱۹ باب فضل ابی بکر)
نبی اور صدیق کو تو سب جانتے تھے لیکن حضرت عمر اورحضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کی شہادت کے بعد سب کو یہ بھی معلوم ہوگیا کہ وہ دو شہید کون تھے۔"
حضرت ابو سعید خدری و حضرت ام سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کا بیان ہے کہ حضرت عمار رضی اﷲ تعالیٰ عنہ خندق کھود رہے تھے اس وقت حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت عمار
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری ،کتاب فضائل ا صحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، باب قول النبی سدوا الابواب ...الخ، الحدیث:۳۶۵۴،ج۲،ص۵۱۷
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب فضائل اصحاب النبی،باب قول النبی لوکنت متخذا...الخ، الحدیث: ۳۶۷۵، ج۲،ص۵۲۴"
"رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے سر پر اپنا دستِ شفقت پھیر کر ارشاد فرمایا کہ افسوس!تجھے ایک باغی گروہ قتل کریگا۔(1)(مسلم جلد ۲ ص ۳۹۵ کتاب الفتن)
یہ پیشگوئی اس طرح پوری ہوئی کہ حضرت عمار رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جنگ صفین کے دن حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھے اورحضرت معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ساتھیوں کے ہاتھ سے شہید ہوئے۔
اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ جنگ صفین میں حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ یقینا حق پر تھے اور حضرت معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا گروہ یقینا خطا کا مرتکب تھا۔ لیکن چونکہ ان لوگوں کی خطا اجتہادی تھی لہٰذا یہ لوگ گنہگارنہ ہوں گے کیونکہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ کوئی مجتہد اگر اپنے اجتہاد میں صحیح اور درست مسئلہ تک پہنچ گیا تو اس کو دوگنا ثواب ملے گا اور اگر مجتہد نے اپنے اجتہاد میں خطا کی جب بھی اس کو ایک ثواب ملے گا۔ (2)(حاشیہ بخاری بحوالہ کرمانی جلد ۱ ص ۵۰۹ باب علامات النبوۃ)
اس لیے حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی شان میں لعن طعن ہرگز ہرگز جائز نہیں کیونکہ بہت سے صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم اس جنگ میں حضرت معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھے۔
پھر یہ بات بھی یہاں ذہن میں رکھنی ضروری ہے کہ مصری باغیوں کاگروہ جنہوں نے حضرت امیرالمؤمنین عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا محاصرہ کرکے ان کو شہید کر دیا تھا یہ لوگ جنگ صفین میں حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے لشکر میں شامل ہو کر حضرت امیر"
"1۔۔۔۔۔۔صحیح مسلم ،کتاب الفتن...الخ،باب لاتقوم الساعۃ...الخ،الحدیث:۲۹۱۵،۲۹۱۶، ص۱۵۵۸
2۔۔۔۔۔۔حاشیۃ صحیح البخاری،کتاب المناقب،باب علامات النبوۃ...الخ،حاشیۃ:۱۱،ج۱،ص۵۰۹"
"معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے لڑ رہے تھے تو ممکن ہے کہ گھمسان کی جنگ میں انہی باغیوں کے ہاتھ سے حضرت عمار رضی اﷲ تعالیٰ عنہ شہید ہوگئے ہوں۔ اس صورت میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بالکل صحیح ہوگا کہ ''افسوس اے عمار! تجھ کو ایک باغی گروہ قتل کریگا ''اور اس قتل کی ذمہ داری سے حضرت معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا دامن پاک رہے گا۔
واﷲ تعالیٰ اعلم۔
بہرحال حضرت معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی شان میں لعن طعن کرنا رافضیوں کا مذہب ہے حضرات اہل سنت کو اس سے پرہیز کرنا لازم و ضروری ہے۔"
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مدینہ کے ایک باغ میں ٹیک لگائے ہوئے بیٹھے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ دروازہ کھلوا کر اندر آئے تو آپ نے ان کو جنت کی بشارت دی ۔پھر حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ آئے تو آپ نے ان کو بھی جنت کی خوشخبری سنائی۔ اس کے بعد حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ آئے تو آپ نے ان کو جنت کی بشارت کے ساتھ ساتھ ایک امتحان اور آزمائش میں مبتلا ہونے کی بھی اطلاع دی۔ یہ سن کر حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے صبر کی دعا مانگی اور یہ کہا کہ خدامددگار ہے۔(1)(مسلم جلد ۲ ص ۲۷۷ باب فضائل عثمان)
حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور بعض دوسرے صحابہ کرام حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ
1۔۔۔۔۔۔صحیح مسلم ،کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل عثمان بن عفان،الحدیث: ۶۱۵۹،ص۱۳۰۸
" علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ میں بتادوں کہ سب سے بڑھ کر دو بدبخت انسان کون ہیں؟ لوگوں نے عرض کیاکہ ہاں یا رسول اﷲ!( صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم )بتائیے ۔آپ نے ارشاد فرمایاکہ ایک قوم ثمود کا سرخ رنگ والا وہ بدبخت جس نے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کو قتل کیا اور دوسرا وہ بدبخت انسان جو اے علی!تمہارے یہاں پر (گردن کی طرف اشارہ کیا) تلوار مارے گا۔(1)
(مستدرک حاکم جلد ۳ ص ۱۴۰ تاص ۱۴۱مطبوعہ حیدرآباد)
یہ غیب کی خبر اس طرح ظہور پذیر ہوئی کہ ۱۷ رمضان ۴۰ ھ کو عبدالرحمن بن ملجم خارجی نے حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ پر تلوار سے قاتلانہ حملہ کیا جس سے زخمی ہو کر دو دن بعد حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ شہادت سے سرفراز ہوگئے۔(2) (تاریخ الخلفاء)"
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حجۃ الوداع میں مکہ معظمہ جا کر اس قدر شدید بیمار ہوگئے کہ ان کو اپنی زندگی کی امید نہ رہی۔ ان کو اس بات کی بہت زیادہ بے چینی تھی کہ اگر میں مر گیا تو میری ہجرت نامکمل رہ جائے گی۔ حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ آپ نے ان کی بے قراری دیکھ کر تسلی دی اور ان کے لیے دعا بھی فرمائی اور یہ بشارت دی کہ امید ہے کہ تم ابھی نہیں مرو گے بلکہ تمہاری زندگی لمبی ہوگی اور بہت سے لوگوں کو تم سے نفع اور بہت سے لوگوں کو تم سے نقصان پہنچے گا۔(3)(بخاری جلد ۱ ص ۳۸۳ کتاب الوصایا)
"1۔۔۔۔۔۔المستدرک للحاکم،کتاب معرفۃالصحابۃ،باب وجہ تلقیب علی بابی تراب،الحدیث: ۴۷۳۴،ج۴، ص۱۱۶
2۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفائ، فصل فی مبایعۃ علی رضی اللہ عنہ...الخ ، ص۱۳۹
3۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری ،کتاب الوصایا، باب ان یترک ورثتہ...الخ، الحدیث: ۲۷۴۲،ج۲،ص۲۳۲"
یہ حضرت سعد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے لیے فتوحات عجم کی بشارت تھی۔ کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ حضرت سعد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اسلامی لشکر کا سپہ سالار بن کر ایران پر فوج کشی کی اور چند سال میں بڑے بڑے معرکوں کے بعد بادشاہ ایران کسریٰ کے تخت و تاج کو چھین لیا۔ اس طرح مسلمانوں کو ان کی ذات سے بڑا فائدہ اور کفار مجوس کو ان کی ذات سے نقصان عظیم پہنچا۔ ایران حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں فتح ہوا اور اس لڑائی کانقشہ جنگ خود امیرالمؤمنین نے ماہرین جنگ کے مشوروں سے تیار فرمایا تھا۔
" حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک حجاز کی زمین سے ایک ایسی آگ نہ نکلے جس کی روشنی میں بصریٰ کے اونٹوں کی گردنیں نظر آئیں گی۔ (1) (مسلم جلد ۲ ص۳۹۳ کتاب الفتن)
اس غیب کی خبر کا ظہور ۶۵۴ ھ میں ہوا۔چنانچہ حضرت امام نووی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے اس حدیث کی شرح میں تحریر فرمایا کہ یہ آگ ہمارے زمانے میں ۶۵۴ ھ میں مدینہ کے اندر ظاہر ہوئی۔ یہ آگ اس قدر بڑی تھی کہ مدینہ کے مشرقی جانب سے لے کر ''حرہ'' کی پہاڑیوں تک پھیلی ہوئی تھی اس آگ کا حال ملک شام اور تمام شہروں میں تواتر کے طریقے پر معلوم ہوا ہے اورہم سے اس شخص نے بیان کیاجو اس وقت مدینہ میں موجود تھا۔(2)(شرح مسلم نووی جلد ۲ ص ۳۹۳ کتاب الفتن)"
"1۔۔۔۔۔۔صحیح مسلم،کتاب الفتن،باب لاتقوم الساعۃ...الخ،الحدیث:۲۹۰۲،ص۱۵۵۲
2۔۔۔۔۔۔شرح مسلم للنووی،کتاب الفتن ، ج۲، ص۳۹۳"
اسی طرح علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ نے تحریر فرمایا ہے کہ ۳ جمادی الآخرۃ ۶۵۴ ھ کو مدینہ منورہ میں ناگہاں ایک گھرگھراہٹ کی آواز سنائی دینے لگی پھر نہایت ہی زوردار زلزلہ آیا جس کے جھٹکے تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد دو دن تک محسوس کیے جاتے رہے۔ پھر بالکل اچانک قبیلہ قریظہ کے قریب پہاڑوں میں ایک ایسی خوفناک آگ نمودار ہوئی جس کے بلند شعلے مدینہ سے ایسے نظر آ رہے تھے کہ گویا یہ آگ مدینہ منورہ کے گھروں میں لگی ہوئی ہے۔ پھر یہ آگ بہتے ہوئے نالوں کی طرح سیلاب کے مانند پھیلنے لگی اور ایسا محسوس ہونے لگا کہ پہاڑیاں آگ بن کر بہتی چلی جا رہی ہیں اور پھر اس کے شعلے اس قدر بلند ہوگئے کہ آگ کا ایک پہاڑ نظر آنے لگا اور آگ کے شرارے ہر چہار طرف فضاؤں میں اڑنے لگے۔ یہاں تک کہ اس آگ کی روشنی مکہ مکرمہ سے نظر آنے لگی اور بہت سے لوگوں نے شہر بصریٰ میں رات کو اسی آگ کی روشنی میں اونٹوں کی گردنوں کو دیکھ لیا۔ اہل مدینہ آگ کے اس ہولناک منظر سے لرزہ براندام ہو کردہشت اور گھبراہٹ کے عالم میں توبہ اوراستغفار کرتے ہوئے حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے روضہ اقدس کے پاس پناہ لینے کے لیے مجتمع ہوگئے۔ ایک ماہ سے زائد عرصہ تک یہ آگ جلتی رہی اور پھر خود بخود رفتہ رفتہ اس طرح بجھ گئی کہ اس کا کوئی نشان بھی باقی نہیں رہا۔(1)(تاریخ الخلفاء ص ۳۲۴)
حضرت حذیفہ بن یمان صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ خدا کی قسم! میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھی بھول گئے ہیں یا جانتے ہوئے انجان بن رہے ہیں۔
1۔۔۔۔۔۔ تاریخ الخلفاء،المستعصم باللہ عبداللہ بن المستنصرباللہ، ص۴۶۵
" واﷲ! دنیا کے خاتمہ تک جتنے فتنوں کے ایسے قائدین ہیں جن کے متبعین کی تعداد تین سو یا اس سے زائد ہوں ان سب فتنوں کے علمبرداروں کا نام، ان کے باپوں کا نام، ان کے قبیلوں کا نام رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہم لوگوں کو بتادیا ہے۔(1)
(ابوداود جلد ۲ ص ۲۳۱ کتاب الفتن)
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ قیامت تک پیدا ہونے والے گمراہوں اور فتنوں کے ہزاروں لاکھوں سرداروں اور علمبرداروں کے نام مع ولدیت و سکونت حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو بتا دئیے۔ ظاہر ہے کہ یہ علم غیب ہے جو اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو عطا فرمایا۔"
مسلم شریف کی حدیث ہے، حضرت عمرو بن اخطب انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہم لوگوں کو نماز فجر پڑھا کر منبر پر تشریف لے گئے اور ہم لوگوں کو خطبہ سناتے رہے یہاں تک کہ نماز ظہر کا وقت آ گیا۔ پھر آپ نے منبر سے اتر کر نماز ظہر ادافرمائی۔ پھر خطبہ دینے میں مشغول ہوگئے یہاں تک کہ نماز عصر کا وقت ہوگیا۔ اس وقت آپ نے منبر سے اتر کر نماز عصر پڑھائی پھر منبر پر چڑھ کر خطبہ پڑھنے لگے یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا تو اس دن بھر کے خطبہ میں حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہم لوگوں کو تمام ان واقعات کی خبر دے دی جو قیامت تک ہونے والے تھے تو جس شخص نے جس قدر زیادہ اس خطبہ کو یادرکھا وہ ہم صحابہ میں سب سے زیادہ علم والاہے۔(2)(مشکوٰۃ جلد ۲ ص ۵۴۳)
"1۔۔۔۔۔۔سنن ابی داود،کتاب الفتن والملاحم،باب ذکر الفتن ودلائلھا،الحدیث:۴۲۴۳،ج۴،ص۱۲۹
2۔۔۔۔۔۔مشکاۃ المصابیح،کتاب احوال القیامۃ...الخ،باب فی المعجزات،ا لحدیث:۵۹۳۶،ج۲،ص۳۹۷"
مذکورہ بالا واقعات ان ہزاروں واقعات میں سے صرف چند ہیں جن میں حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے غیب کی خبریں دی ہیں۔بلاشبہ ہزاروں واقعات جو صحاح ستہ اور احادیث کی دوسری کتابوں میں ستاروں کی طرح چمک رہے ہیں، امت کو جھنجھوڑ کر متنبہ کر رہے ہیں کہ اول سے ابد تک کے تمام علوم غیبیہ کے خزانوں کو علام الغیوب جل جلالہٗ نے اپنے حبیب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے سینہ نبوت میں ودیعت فرما دیا ہے۔ لہٰذا ہر امتی کو یہ عقیدہ رکھنا لازمی اور ضروری ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو علم غیب عطا فرمایا ہے۔ یہ عقیدہ قرآن مجید کی مقدس تعلیم کا وہ عطر ہے جس سے اہل سنت کی دنیائے ایمان معطر ہے جیسا کہ خود خداوند عالم جل مجدہ، نے ارشاد فرمایا کہ
وَعَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ ؕ وَکَانَ فَضْلُ اللہِ عَلَیۡکَ عَظِیۡمًا ﴿۱۱۳﴾ (1)
"اﷲ نے آپ کو ہر اس چیز کا علم عطا فرما دیا جس کو آپ نہیں جانتے تھے اور آپ پر اﷲ کا بہت ہی بڑا فضل ہے۔
اس موضوع پر سیر حاصل بحث ہماری کتاب(قرآنی تقریریں) میں پڑھئے۔"
1۔۔۔۔۔۔پ ۵، النساء: ۱۱۳
ہم پہلے تحریر کر چکے ہیں کہ حضورشہنشاہ کونین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے معجزات کی حکمرانی کا پرچم عالم کائنات کی تمام مخلوقات پر لہرا چکاہے۔ چنانچہ چند آسمانی معجزات کاتذکرہ توہم تحریر کرچکے ہیں اب مناسب معلوم ہوتاہے کہ روئے زمین پر ظاہر ہونے والے بے شمار معجزات کی چند مثالیں بھی تحریر کردی جائیں تاکہ ناظرین کے ذہنوں میں اس حقیقت کی تجلی آفتاب کی طرح روشن ہو جائے کہ خدا کی مخلوقات میں کوئی ایسا عالم نہیں جہاں رحمۃٌ للعالمین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے معجزات و تصرفات کی سلطنت کا سکہ نہ چلتا ہو۔
غزوۂ خندق کے بیان میں ہم تفصیل کے ساتھ لکھ چکے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم مدینہ کے چاروں طرف کفار کے حملوں سے بچنے کے لیے خندق کھود رہے تھے اتفاق سے ایک بہت ہی سخت چٹان نکل آئی صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اپنی اجتماعی طاقت سے ہر چند اس کو توڑنا چاہا مگر وہ کسی طرح نہ ٹوٹ سکی، پھاوڑے اس پر پڑ پڑ کر اُچٹ جاتے تھے۔ جب لوگوں نے مجبور ہو کر خدمت اقدس میں یہ ماجرا عرض کیا تو آپ خود اٹھ کر تشریف لائے اور پھاوڑا ہاتھ میں لے کر ایک ضرب لگائی تو وہ چٹان ریت کے بھربھرے ٹیلوں کی طرح چور ہو کر بکھر گئی۔(1)(بخاری جلد ۲ ص ۵۸۸ خندق)
ہر شخص جانتا ہے کہ فتح مکہ سے پہلے خانہ کعبہ میں تین سو ساٹھ بتوں کی پوجا
1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب غزوۃ الخندق،الحدیث:۴۱۰۱،ج۳،ص۵۱
ہوتی تھی۔ فتح مکہ کے دن حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کعبہ میں تشریف لے گئے، اس وقت دست مبارک میں ایک چھڑی تھی اور آپ زبان اقدس سے یہ آیت تلاوت فرما رہے تھے کہ
وَ قُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَہَقَ الْبَاطِلُ ؕ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَہُوۡقًا ﴿۸۱﴾ (1)
"حق آگیا اور باطل مٹ گیا یقینا باطل مٹنے ہی کے قابل تھا۔
آپ اپنی چھڑی سے جس بت کی طرف اشارہ فرماتے تھے وہ بغیر چھوئے ہوئے فقط اشارہ کرتے ہی دھم سے زمین پر گر پڑتاتھا۔(2) (مدارج النبوۃ جلد ۲ ص ۲۹۰ بخاری جلد ۲ ص ۶۱۴)"
حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضورِ انور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ مکرمہ میں ایک طرف کو نکلا تو میں نے دیکھا کہ جو درخت اور پہاڑ بھی سامنے آتا ہے اس سے
''اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اﷲِ ''
"کی آواز آتی ہے اور میں خود اس آواز کو اپنے کانوں سے سن رہا تھا۔(3)
(ترمذی جلد ۲ ص ۲۰۳ باب ماجاء فی آیات نبوۃ النبی)
اسی طرح حضرت جابر بن سمرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ"
"1۔۔۔۔۔۔پ ۱۵،بنی اسرء یل:۸۱
2۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب ہفتم ، ج ۲ ، ص۲۹۰
3۔۔۔۔۔۔سنن الترمذی ،کتاب المناقب ، باب ماجاء فی آیات اثبات نبوۃ...الخ، الحدیث: ۳۶۴۶،ج۵،ص ۳۵۹"
علیہ وسلم نے فرمایا کہ مکہ میں ایک پتھر ہے جو مجھ کو سلام کیا کرتا تھا میں اب بھی اس کو پہچانتا ہوں۔(1)(ترمذی جلد ۲ ص ۲۰۳)
" بخاری شریف کی یہ روایت چند اوراق پہلے ہم تحریر کر چکے ہیں کہ ایک دن حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے ساتھ حضرت ابو بکر و حضرت عمر و حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کو لے کر احد پہاڑ پر چڑھے پہاڑ (جوشِ مسرت میں) جھوم کر ہلنے لگا اس وقت آپ نے پہاڑ کو ٹھوکر مار کر یہ فرمایا کہ ''ٹھہر جا'' اس وقت تیری پشت پر ایک پیغمبر ہے اور ایک صدیق ہے اور دو (حضرت عمرو حضرت عثمان) شہید ہیں۔(2)
(بخاری جلد ۱ ص ۵۱۹ باب فضل ابی بکر)"
مسلم شریف کی حدیث میں حضرت سلمہ بن اکوع رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جنگ حنین میں جب کفار نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو چاروں طرف سے گھیر لیا تو آپ اپنی سواری سے اتر پڑے اورزمین سے ایک مٹھی مٹی لے کرکفار کے چہروں پر پھینکی اور''شَاھَتِ الْوُجُوْہُ'' فرمایاتو کافروں کے لشکر میں کوئی ایک انسان بھی باقی نہیں رہا جس کی دونوں آنکھیں اِسی مٹی سے نہ بھر گئی ہوں چنانچہ وہ سب اپنی اپنی آنکھیں ملتے ہوئے پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے اور شکست کھا گئے اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان
"1۔۔۔۔۔۔سنن الترمذی،کتاب المناقب،باب ماجاء فی آیات اثبات نبوۃ...الخ،الحدیث:۳۶۴۴، ج۵،ص۳۵۸
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری ،کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم، باب قول النبی: لوکنت متخذا خلیلا،ج۲،ص ۵۲۴"
"کے اموال غنیمت کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم فرما دیا۔(1)
(مشکوٰۃ جلد ۲ ص ۵۳۴ باب المعجزات)
اسی طرح ہجرت کی رات میں حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے کاشانہ نبوت کا محاصرہ کرنے والے کافروں پر جب ایک مٹھی خاک پھینکی تو یہ مٹھی بھر مٹی تمام کافروں کے سروں پر پڑ گئی۔(2)(مدارج جلد ۲ ص ۵۷)"
مذکورہ بالا پانچوں مستند واقعات گواہی دے رہے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے معجزات و تصرفات کی حکمرانی عالم جمادات پر بھی ہے اورعالم جمادات کی ہر ہر چیز جانتی پہچانتی اور مانتی ہے کہ آپ اﷲ تعالیٰ کے رسول برحق ہیں اور آپ کی اطاعت و فرمانبرداری کو عالم جمادات کا ہر ہر فرد اپنے لیے لازم الایمان اورواجب العمل جانتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ کااشارہ پاکر کنکریوں نے کلمہ پڑھا،آپ کے دست مبارک میں سنگریزوں نے خدا کی تسبیح پڑھی، آپ کی دعا پر دیواروں نے ''آمین'' کہا۔(3) (دلائل النبوت و شفاء جلد ۱ ص ۲۰۱ تا ۲۰۲)
"1۔۔۔۔۔۔صحیح مسلم ،کتاب الجھاد والسیر، باب فی غزوۃ حنین،الحدیث:۱۷۷۷،ص۹۸۱
2۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم اول ، باب دوم،ج ۲، ص۵۷
3۔۔۔۔۔۔الشفاء بتعریف حقوق المصطفی، الباب الرابع،فصل ومثل ھذا...الخ،ج۱،ص۳۰۶،۳۰۷"
رسالت میں حاضر ہوا اور اس نے آپ سے عرض کیا کہ مجھے یہ کیونکر یقین ہو کہ آپ خدا کے پیغمبر ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ اس کھجورکے درخت پر جو خوشہ لٹک رہا ہے اگر میں اس کو اپنے پاس بلاؤں اور وہ میرے پاس آ جائے تو کیا تم میری نبوت پر ایمان لاؤ گے؟ اس نے کہا کہ ہاں بے شک میں آپ کا یہ معجزہ دیکھ کر ضرور آپ کوخدا کا رسول مان لوں گا۔ آپ نے کھجور کے اس خوشہ کو بلایا تو وہ فوراً ہی چل کر درخت سے اترا اور آپ کے پاس آ گیا پھر آپ نے حکم دیا تو وہ واپس جا کر درخت میں اپنی جگہ پر پیوست ہوگیا۔ یہ معجزہ دیکھ کر وہ اعرابی فوراً ہی دامن اسلام میں آگیا۔(1) (ترمذی جلد ۲ ص ۲۰۳ باب ماجاء فی آیات نبوۃ النبی الخ)
حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ ہم لوگ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے۔ ایک اعرابی آپ کے پاس آیا،آپ نے اس کو اسلام کی دعوت دی، اس اعرابی نے سوال کیا کہ کیا آپ کی نبوت پر کوئی گواہ بھی ہے؟ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہاں یہ درخت جو میدان کے کنارے پر ہے میری نبوت کی گواہی دے گا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس درخت کو بلایا اور وہ فوراً ہی زمین چیرتا ہوا اپنی جگہ سے چل کر بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوگیا اور اس نے بہ آواز بلند تین مرتبہ آپ کی نبوت کی گواہی دی۔ پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کو اشارہ فرمایا تو وہ درخت زمین میں چلتا ہوا اپنی جگہ پر چلاگیا۔
1۔۔۔۔۔۔سنن الترمذی،کتاب المناقب،باب ماجاء فی آیات اثبات نبوۃ...الخ،الحدیث:۳۶۴۸، ج۵،ص ۳۶۰
محدث بزارو امام بیہقی و امام بغوی نے اس حدیث میں یہ روایت بھی تحریر فرمائی ہے کہ اس درخت نے بارگاہِ اقدس میں آ کر
''اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اﷲ ''
"کہا، اعرابی یہ معجزہ دیکھتے ہی مسلمان ہوگیا اور جوشِ عقیدت میں عرض کیا کہ یارسول اﷲ!(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) مجھے اجازت دیجئے کہ میں آپ کو سجدہ کروں۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ اگر میں خدا کے سوا کسی دوسرے کو سجدہ کرنے کاحکم دیتا تو میں عورتوں کوحکم دیتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کیا کریں۔ یہ فرما کر آپ نے اس کو سجدہ کرنے کی اجازت نہیں دی۔ پھر اس نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) اگر آپ اجازت دیں تو میں آپ کے دست مبارک اور مقدس پاؤں کو بوسہ دوں۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کو اس کی اجازت دے دی۔ چنانچہ اس نے آپ کے مقدس ہاتھ اور مبارک پاؤں کو والہانہ عقیدت کے ساتھ چوم لیا۔(1) (زرقانی جلد ۵ ص ۱۲۸ تاص ۱۳۱)
اسی طرح حضرت جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ سفرمیں ایک منزل پر حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم استنجا ء فرمانے کے لیے میدان میں تشریف لے گئے مگر کہیں کوئی آڑ کی جگہ نظر نہیں آئی ہاں البتہ اس میدان میں دو درخت نظر آئے جو ایک دوسرے سے کافی دوری پر تھے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک درخت کی شاخ پکڑکر چلنے کا حکم دیا تو وہ درخت اس طرح آپ کے ساتھ ساتھ چلنے لگا جس طرح مہار والا اونٹ مہار پکڑنے والے کے ساتھ چلنے لگتا ہے پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے دوسرے درخت کی ٹہنی تھام کر اس کو بھی چلنے کا اشارہ فرمایا تو وہ بھی چل پڑا اور دونوں درخت ایک دوسرے سے مل گئے اور آپ نے اس کی آڑ میں اپنی حاجت رفع فرمائی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حکم دیا تو وہ دونوں درخت"
1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی، باب کلام الشجرلہ وسلامھاعلیہ...الخ،ج۶،ص۵۱۷۔۵۱۹
"زمین چیرتے ہوئے چل پڑے اور اپنی اپنی جگہ پر پہنچ کر جا کھڑے ہوئے۔(1)(زرقانی جلد ۵ ص ۱۳۱تاص ۱۳۲)
انتباہ
یہی وہ معجزہ ہے جس کو حضرت علامہ بو صیری علیہ الرحمۃ نے اپنے قصیدہ بردہ میں تحریر فرمایا کہ ؎"
"جَاءَ تْ لِدَعْوَتِہِ الْاَشْجَارُ سَاجِدَۃً
تَمْشِیْ اِلَیْہِ عَلٰی سَاقٍ بِلَا قَدَمٖ"
یعنی آپ کے بلانے پر درخت سجدہ کرتے ہوئے اور بلا قدم کے اپنی پنڈلی سے چلتے ہوئے آپ کے پاس حاضر ہوئے ۔نیز پہلی حدیث سے ثابت ہوا کہ دیندار بزرگوں مثلا علماء و مشائخ کی تعظیم کے لیے ان کے ہاتھ پاؤں کو بوسہ دینا جائز ہے۔ چنانچہ حضرت امام نووی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی کتاب''اذکار''میں اورہم نے اپنی کتاب ''نوادرالحدیث'' میں اس مسئلہ کو مفصل تحریر کیا ہے۔ واﷲ تعالیٰ اعلم۔
حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ دو صحابی حضرت اُسید بن حضیر اور عبادبن بشر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما اندھیری رات میں بہت دیر تک حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے بات کرتے رہے جب یہ دونوں بارگاہ رسالت سے اپنے گھروں کے لیے روانہ ہوئے تو ایک کی چھڑی ناگہاں خود بخود روشن ہوگئی اور وہ دونوں اسی چھڑی کی روشنی میں چلتے
1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب کلام الشجرلہ وسلامھاعلیہ...الخ ،ج۶، ص ۵۲۰،۵۲۱
"رہے جب کچھ دورچل کردونوں کے گھروں کاراستہ الگ الگ ہو گیاتودوسرے کی چھڑی بھی روشن ہوگئی اور دونوں اپنی اپنی چھڑیوں کی روشنی کے سہارے سخت اندھیری رات میں اپنے اپنے گھروں تک پہنچ گئے۔(1)(مشکوٰۃ جلد ۲ ص ۵۴۴ و بخاری جلد ۱ ص ۵۳۷)
اسی طرح امام احمد نے حضرت ابوسعید خدری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت قتادہ بن نعمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھی رات سخت اندھیری تھی اور آسمان پر گھنگھور گھٹا چھائی ہوئی تھی۔ بوقت روانگی حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے انہیں درخت کی ایک شاخ عطا فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ تم بلاخوف و خطر اپنے گھر جاؤ یہ شاخ تمہارے ہاتھ میں ایسی روشن ہو جائے گی کہ دس آدمی تمہارے آگے اور دس آدمی تمہارے پیچھے اس کی روشنی میں چل سکیں اور جب تم گھر پہنچو گے تو ایک کالی چیز کو دیکھو گے اس کو مار کر گھر سے نکال دینا۔ چنانچہ ایسا ہی ہواکہ جوں ہی حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاشانۂ نبوت سے نکلے وہ شاخ روشن ہوگئی اور وہ اسی کی روشنی میں چل کر اپنے گھر پہنچ گئے اور دیکھا کہ وہاں ایک کالی چیز موجود ہے آپ نے فرمان نبوت کے مطابق اس کو مار کر گھر سے باہر نکال دیا۔(2) (الکلام المبین فی آیات رحمۃ للعالمین ص ۱۱۶)"
جنگِ بدر کے دن حضرت عکاشہ بن محصن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی تلوار ٹوٹ گئی تو حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو ایک درخت کی ٹہنی دے کر فرمایا کہ ''تم اس
"1۔۔۔۔۔۔مشکاۃ المصابیح،کتاب الفضائل والشمائل،باب الکرامات،الحدیث:۵۹۴۴،ج۲،ص۳۹۹
2۔۔۔۔۔۔المسند للامام احمد بن حنبل،مسندابی سعید الخدری،الحدیث:۱۱۶۲۴،ج۴،ص۱۳۱"
"سے جنگ کرو'' وہ ٹہنی ان کے ہاتھ میں آتے ہی ایک نہایت نفیس اور بہترین تلوار بن گئی جس سے وہ عمر بھر تمام لڑائیوں میں جنگ کرتے رہے یہاں تک کہ حضرت امیرالمؤمنین ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں وہ شہادت سے سرفراز ہوگئے۔
اسی طرح حضرت عبداﷲ بن جحش رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی تلوار جنگِ اُحد کے دن ٹوٹ گئی تھی تو ان کو بھی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک کھجور کی شاخ دے کر ارشاد فرمایا کہ '' تم اس سے لڑو'' وہ حضرت عبداﷲ بن جحش رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں آتے ہی ایک بَرّاق تلوار بن گئی۔ حضرت عبداﷲ بن جحش رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی اس تلوار کا نام ''عرجون''تھا یہ خلفاء بنو العباس کے دور حکومت تک باقی رہی یہاں تک کہ خلیفہ معتصم باﷲ کے ایک امیر نے اس تلوار کو بائیس دینار میں خریدا اور حضرت عکاشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی تلوار کا نام''عون'' تھا،یہ دونوں تلواریں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے معجزات اور آپ کے تصرفات کی یادگار تھیں۔(1)(مدارج النبوۃ جلد۲ ص۱۲۳)"
مسجد نبوی میں پہلے منبر نہیں تھا، کھجور کے تنا کا ایک ستون تھا اسی سے ٹیک لگا کر آپ خطبہ پڑھا کرتے تھے ۔ جب ایک انصاری عورت نے ایک منبر بنوا کر مسجد نبوی میں رکھا تو آپ نے اس پر کھڑے ہو کر خطبہ دینا شروع کر دیا ناگہاں اس ستون سے بچوں کی طرح رونے کی آواز آنے لگی اور بعض روایات میں آیا ہے کہ اونٹنیوں کی طرح بلبلانے کی آواز آئی ۔یہ راویانِ حدیث کے مختلف ذوق کی بنا پر رونے کی مختلف تشبیہیں ہیں راویوں کا مقصود یہ ہے کہ درد فراق سے بلبلا کر اور بے قرار ہو کر ستون
1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ،باب چہارم ، ج ۲ ، ص۱۲۳ملخصاً
"زار زار رونے لگااور بعض روایتوں میں یہ بھی آیا ہے کہ ستون اس قدر زور زور سے رونے لگا کہ قریب تھا کہ جوش گریہ سے پھٹ جائے اور اس رونے کی آواز کو مسجد نبوی کے تمام مصلیوں نے اپنے کانوں سے سنا۔ ستون کی گریہ و زاری کو سن کر حضور رحمۃٌ للعالمین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم منبر سے اتر کر آئے اور ستون پر تسکین دینے کے لئے اپنا مقدس ہاتھ رکھ دیا اور اس کو اپنے سینہ سے لگا لیا تو وہ ستون اس طرح ہچکیاں لے لے کے رونے لگا جس طرح رونے والے بچے کو جب چپ کرایا جاتا ہے تو وہ ہچکیاں لے لے کر رونے لگتا ہے۔ بالآخر جب آپ نے ستون کو اپنے سینہ سے چمٹا لیا تو وہ سکون پا کر خاموش ہو گیا اور آپ نے ارشاد فرمایا کہ ستون کا یہ رونا اس بنا پر تھا کہ یہ پہلے خدا کا ذکر سنتا تھا اب جو نہ سنا تو رونے لگا۔(1) (بخاری جلد۱ ص۲۸۱ باب النجار و ص۵۰۶ باب علامات النبوۃ)
اور حضرت بریدہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں یہ بھی وارد ہے کہ حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس ستون کو اپنے سینہ سے لگا کر یہ فرمایا کہ اے ستون! اگر تو چاہے تو میں تجھ کو پھر اسی باغ میں تیری پہلی جگہ پر پہنچا دوں تا کہ تو پہلے کی طرح ہرا بھرا درخت ہو جائے اور ہمیشہ پھلتا پھولتا رہے اور اگر تیری خواہش ہو تو میں تجھ کو باغ بہشت کا ایک درخت بنا دینے کے لئے خدا سے دعا کر دوں تا کہ جنت میں خدا کے اولیاء تیرا پھل کھاتے رہیں۔ یہ سن کر ستون نے اتنی بلند آواز سے جواب دیا کہ آس پاس کے لوگوں نے بھی سن لیا، ستون کا جواب یہ تھا کہ یا رسول اﷲ!( صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) میری یہی تمنا ہے کہ میں جنت کا ایک درخت بنا دیا جاؤں تا کہ خدا کے اولیاء میرا پھل کھاتے رہیں اور مجھے حیات جاودانی مل جائے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ"
1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المناقب،باب علامات النبوۃ فی الاسلام،الحدیث:۳۵۸۴، ج۲ ،ص۴۹۶
"اے ستون! میں نے تیری اس آرزو کو منظور کر لیا۔ پھر آپ نے سامعین کو مخاطب کرکے فرمایا کہ اے لوگو! دیکھو اس ستون نے دارالفناء کی زندگی کو ٹھکرا کر دارالبقاء کی حیات کو اختیار کر لیا۔(1) (شفاء شریف جلد۱ص ۲۰۰)
ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ستون کو اپنے سینہ سے لگا کر ارشاد فرمایا کہ مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے کہ اگر میں اس ستون کو اپنے سینہ سے نہ چمٹاتا تو یہ قیامت تک روتا ہی رہتا۔
واضح رہے کہ گریۂ ستون کا یہ معجزہ احادیث اور سیرت کی کتابوں میں گیارہ صحابیوں سے منقول ہے جن کے نام یہ ہیں:(۱)جابر بن عبد اﷲ(۲)اُبی بن کعب(۳)انس بن مالک(۴)عبد اﷲ بن عمر(۵) عبد اﷲ بن عباس(۶) سہل بن سعد(۷) ابو سعید خدری(۸) بریدہ (۹) ام سلمہ (۱۰) مطلب بن ابی وداعہ (۱۱) عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم، پھر دور صحابہ کے بعد بھی ہر زمانے میں راویوں کی ایک جماعت کثیرہ اس حدیث کو روایت کرتی رہی یہاں تک کہ علامہ قاضی عیاض اور علامہ تاج الدین سبکی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہمانے فرمایاکہ گریۂ ستون کی حدیث''خبرمتواتر''ہے۔(2)
(شفاء شریف جلد۱ ص۱۹۹ و الکلام المبین ص۱۱۶)
اس ستون کے بارے میں ایک روایت ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کو اپنے منبر کے نیچے دفن فرما دیا اور ایک روایت میں آیا ہے کہ آپ نے اس کو مسجد نبوی کی چھت میں لگا دیا ۔ان دونوں روایتوں میں شارحین حدیث نے اس طرح"
"1۔۔۔۔۔۔الشفاء بتعریف حقوق المصطفی ،فصل فی قصۃ حنین الجذع ، ج۱، ص ۳۰۴،۳۰۵
2۔۔۔۔۔۔الشفاء بتعریف حقوق المصطفی ، فصل فی قصۃ حنین الجذع، ج۱، ص ۳۰۳،۳۰۴
و المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی ، باب حنین الجذع شوقاالیہ ، ج۶، ص ۵۲۴"
"تطبیق دی ہے کہ پہلے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کو دفن فرما دیا پھر اس خیال سے کہ یہ لوگوں کے قدموں سے پامال ہو گا اس کو زمین سے نکال کر چھت میں لگا دیا اس طرح زمین میں دفن کرنے اور چھت میں لگانے کی دونوں روایتیں دو وقتوں میں ہونے کے لحاظ سے درست ہیں۔ واﷲ تعالیٰ اعلم۔
پھر حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعد جب تعمیر جدید کے لئے مسجد نبوی منہدم کی گئی اور یہ ستون چھت سے نکالا گیا تو اس کو مشہور صحابی حضرت ابی بن کعب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ایک مقدس تبرک سمجھ کر اٹھا لیا اور اس کو اپنے پاس رکھ لیا یہاں تک کہ یہ بالکل ہی کہنہ اور پرانا ہو کر چور چور ہو گیا۔
اس ستون کو دفن کرنے کے بارے میں علامہ زرقانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ نکتہ تحریر فرمایا ہے کہ اگرچہ یہ خشک لکڑی کا ایک ستون تھا مگر یہ درجات و مراتب میں ایک مردمومن کے مثل قرار دیا گیا کیونکہ یہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عشق و محبت میں رویا تھا اور رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ عشق و محبت کا برتاؤ یہ ایمان والوں ہی کا خاصہ ہے۔(1) (واﷲ تعالیٰ اعلم) (شفاء شریف جلد۱ ص۲۰۰ وزرقانی جلد۵ ص۱۳۸)"
احادیث کی اکثر کتابوں میں چند الفاظ کے تغیر کے ساتھ یہ روایت مذکور ہے کہ ایک انصاری کا اونٹ بگڑ گیاتھا اور وہ کسی کے قابو میں نہیں آتا تھا بلکہ لوگوں کو کاٹنے کے لئے حملہ کیا کرتا تھا۔ لوگوں نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو مطلع کیا۔ آپ نے
"1۔۔۔۔۔۔الشفاء بتعریف حقوق المصطفی ، فصل فی قصۃ حنین الجذع ، ج۱، ص ۳۰۴
و شرح الزرقانی علی المواہب ،باب حنین الجذع شوقاالیہ ، ج۶، ص ۵۳۴"
خود اس اونٹ کے پاس جانے کا ارادہ فرمایا تو لوگوں نے آپ کو روکا کہ یا رسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) یہ اونٹ لوگوں کو دوڑ کر کتے کی طرح کاٹ کھاتا ہے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا'' مجھے اس کا کوئی خوف نہیں ہے'' یہ کہہ کر آپ آگے بڑھے تو اونٹ نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سامنے آکر اپنی گردن ڈال دی اور آپ کو سجدہ کیا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کے سر اور گردن پر اپنا دست شفقت پھیر دیا تو وہ بالکل ہی نرم پڑ گیا اور فرمانبردار ہو گیا اور آپ نے اس کو پکڑ کر اس کے مالک کے حوالہ کر دیا۔ پھریہ ارشاد فرمایا کہ خدا کی ہر مخلوق جانتی اور مانتی ہے کہ میں اﷲ کا رسول ہوں لیکن جنوں اور انسانوں میں سے جو کفار ہیں وہ میری نبوت کا اقرار نہیں کرتے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اونٹ کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھ کر عرض کیا کہ یا رسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)جب جانور آپ کو سجدہ کرتے ہیں تو ہم انسانوں کو تو سب سے پہلے آپ کو سجدہ کرنا چاہیے یہ سن کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کسی انسان کا دوسرے انسان کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو میں عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کیا کریں۔ (1)(زرقانی جلد۵ ص۱۴۰ تا ص۱۴۱ و مشکوٰۃ جلد۲ ص۵۴۰ باب المعجزات)
ایک بار حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ایک انصاری کے باغ میں تشریف لے گئے وہاں ایک اونٹ کھڑا ہوا زور زور سے چلا رہا تھا۔ جب اس نے آپ کو دیکھا تو ایک دم بلبلانے لگا اور اس کی دونوں آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے قریب جا کر اس کے سر اور کنپٹی پر اپنا دست شفقت پھیرا تو وہ تسلی پا کر بالکل
1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب سجودالجمل وشکواہ الیہ،ج۶،ص۵۳۸۔۵۴۴ملخصاً
خاموش ہوگیا۔ پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے لوگوں سے دریافت فرمایا کہ اس اونٹ کا مالک کون ہے؟ لوگوں نے ایک انصاری کا نام بتایا، آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فوراً ان کو بلوایا اور فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے ان جانوروں کو تمہارے قبضہ میں دے کر ان کو تمہارا محکوم بنا دیا ہے لہٰذا تم لوگوں پر لازم ہے کہ تم ان جانوروں پر رحم کیا کرو تمہارے اس اونٹ نے مجھ سے تمہاری شکایت کی ہے کہ تم اس کو بھوکا رکھتے ہو اور اس کی طاقت سے زیادہ اس سے کام لے کر اس کو تکلیف دیتے ہو۔(1)(ابو داود جلد۱ ص۳۵۲ مجتبائی)
حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک نو عمر لڑکا تھا اور مکہ میں کافروں کے سردار عقبہ بن ابی معیط کی بکریاں چرایا کرتا تھا اتفاق سے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا میرے پاس سے گزر ہوا، آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ اے لڑکے! اگر تمہاری بکریوں کے تھنوں میں دودھ ہو تو ہمیں بھی دودھ پلاؤ، میں نے عرض کیا کہ میں ان بکریوں کا مالک نہیں ہوں بلکہ ان کا چرواہا ہونے کی حیثیت سے امین ہوں، میں بھلا بغیر مالک کی اجازت کے کس طرح ان بکریوں کا دودھ کسی کو پلا سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تمہاری بکریوں میں کوئی بچہ بھی ہے میں نے کہا کہ ''جی ہاں'' آپ نے فرمایا اس بچے کو میرے پاس لاؤ۔ میں لے آیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس بچے کی ٹانگوں کو پکڑ لیا اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کے تھن کو اپنا مقدس ہاتھ لگا دیا تو اس کا تھن دودھ سے بھر گیا پھر ایک گہرے پتھر میں آپ نے اس کا دودھ دوہا، پہلے خود پیا
1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی ، باب سجود الجمل وشکواہ الیہ ،ج۶،ص۵۴۳
"پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پلایا ۔حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد مجھ کو بھی پلایا پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس بکری کے تھن میں ہاتھ مار کر فرمایا کہ اے تھن! تو سمٹ جا چنانچہ فوراً ہی اس کا تھن سمٹ کر خشک ہو گیا۔
حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں اس معجزہ کو دیکھ کر بے حد متاثر ہوا اور میں نے عرض کیا کہ آپ پر آسمان سے جو کلام نازل ہوا ہے مجھے بھی سکھائیے ۔آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ضرور سیکھو تمہارے اندر سیکھنے کی صلاحیت ہے۔ چنانچہ میں نے آپ کی زبان مبارک سے سن کر قرآن مجید کی ستر سورتیں یاد کر لیں۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہا کرتے تھے کہ میرے اسلام قبول کرنے میں اس معجزہ کو بہت بڑا دخل ہے۔(1) (طبقات ابن سعد ج۱ ص۱۲۲)"
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک بھیڑئیے نے ایک بکری کو پکڑ لیالیکن بکریوں کے چرواہے نے بھیڑئیے پر حملہ کرکے اس سے بکری کو چھین لیا۔ بھیڑیا بھاگ کر ایک ٹیلے پر بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ اے چرواہے! اﷲ تعالیٰ نے مجھ کو رزق دیا تھا مگر تو نے اس کو مجھ سے چھین لیا۔ چرواہے نے یہ سن کر کہا کہ خدا کی قسم! میں نے آج سے زیادہ کبھی کوئی حیرت انگیز اور تعجب خیز منظر نہیں دیکھا کہ ایک بھیڑیا عربی زبان میں مجھ سے کلام کرتا ہے۔ بھیڑیا کہنے لگا کہ اے چرواہے! اس سے کہیں زیادہ عجیب بات تو یہ ہے کہ تو یہاں بکریاں چرا رہا ہے اور تو اس نبی کو چھوڑے اور ان سے منہ موڑے ہوئے بیٹھا ہے جن سے زیادہ بزرگ اور بلند مرتبہ کوئی نبی نہیں آیا۔
1۔۔۔۔۔۔الطبقات الکبری لابن سعد ، باب ومن خلفاء ...الخ،عبداللہ بن مسعود،ج۳،ص۱۱۱
اس وقت جنت کے تمام دروازے کھلے ہوئے ہیں اور تمام اہل جنت اس نبی کے ساتھیوں کی شانِ جہاد کا منظر دیکھ رہے ہیں اور تیرے اور اس نبی کے درمیان بس ایک گھاٹی کا فاصلہ ہے۔ کاش! تو بھی اس نبی کی خدمت میں حاضر ہو کر اﷲ کے لشکروں کا ایک سپاہی بن جاتا۔ چرواہے نے اس گفتگو سے متاثر ہو کر کہا کہ اگر میں یہاں سے چلا گیا تو میری بکریوں کی حفاظت کون کریگا؟ بھیڑئیے نے جواب دیا کہ تیرے لوٹنے تک میں خود تیری بکریوں کی نگہبانی کروں گا۔ چنانچہ چرواہے نے اپنی بکریوں کو بھیڑئیے کے سپرد کر دیا اور خود بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر مسلمان ہو گیا اور واقعی بھیڑئیے کے کہنے کے مطابق اس نے نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے اصحاب کو جہاد میں مصروف پایا۔ پھر چرواہے نے بھیڑئیے کے کلام کا حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے تذکرہ کیا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم جاؤ تم اپنی سب بکریوں کو زندہ و سلامت پاؤ گے۔ چنانچہ چرواہا جب لوٹا تو یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گیا کہ بھیڑیا اس کی بکریوں کی حفاظت کر رہا ہے اور اس کی کوئی بکری بھی ضائع نہیں ہوئی ہے چرواہے نے خوش ہو کر بھیڑئیے کے لئے ایک بکری ذبح کرکے پیش کر دی اور بھیڑیا اس کو کھا کر چل دیا۔(1)(زرقانی جلد۵ ص۱۳۵ تا ص۱۳۶)
حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ قبیلہ بنی سلیم کا ایک اعرابی ناگہاں حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی نورانی محفل کے پاس سے گزرا آپ اپنے اصحاب کے مجمع میں تشریف فرما تھے۔ یہ اعرابی جنگل سے ایک گوہ پکڑ کر لارہا تھا
1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،باب کلام الذئب وشھادتہ...الخ،ج۶،ص۵۴۹
اعرابی نے آپ کے بارے میں لوگوں سے سوال کیا کہ وہ کون ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ اﷲ کے نبی ہیں۔ اعرابی یہ سن کر آپ کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا کہ مجھے لات و عزیٰ کی قسم ہے کہ میں اس وقت تک آپ پر ایمان نہیں لاؤں گا جب تک میری یہ گوہ آپ کی نبوت پر ایمان نہ لائے، یہ کہہ کر اس نے گوہ کو آپ کے سامنے ڈال دیا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے گوہ کو پکارا تو اس نے ''لَبَّیْکَ وَسَعْدَیْکَ''اتنی بلند آواز سے کہا کہ تمام حاضرین نے سن لیا۔ پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تیرا معبود کون ہے؟ گوہ نے جواب دیا کہ میرا معبود وہ ہے کہ اس کا عرش آسمان میں ہے اور اس کی بادشاہی زمین میں ہے اور اس کی رحمت جنت میں ہے اور اس کا عذاب جہنم میں ہے۔ پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے پوچھا کہ اے گوہ! یہ بتا کہ میں کون ہوں؟ گوہ نے بلند آواز سے کہا کہ آپ رب العالمین کے رسول ہیں اور خاتم النبیین ہیں جس نے آپ کو سچا مانا وہ کامیاب ہو گیا اور جس نے آپ کو جھٹلایا وہ نامراد ہو گیا۔ یہ منظر دیکھ کر اعرابی اس قدر متاثر ہو ا کہ فوراً ہی کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا اور کہنے لگا کہ یا رسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) میں جس وقت آپ کے پاس آیا تھا تو میری نظر میں روئے زمین پر آپ سے زیادہ ناپسند کوئی آدمی نہیں تھا لیکن اس وقت میرا یہ حال ہے کہ آپ میرے نزدیک میری اولاد بلکہ میری جان سے بھی زیادہ پیارے ہو گئے ہیں۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا کے لئے حمد ہے جس نے تجھ کو ایسے دین کی ہدایت دی جو ہمیشہ غالب رہے گا اور کبھی مغلوب نہیں ہو گا۔ پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کو سورۂ فاتحہ اور سورۂ اخلاص کی تعلیم دی ۔اعرابی قرآن کی ان دو سورتوں کو سن کر کہنے لگا کہ میں نے بڑے بڑے فصیح و بلیغ، طویل و مختصر ہر قسم کے کلاموں کو سنا ہے مگر خدا کی قسم! میں
نے آج تک اس سے بڑھ کر اور اس سے بہتر کلام کبھی نہیں سنا۔ پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے فرمایا کہ یہ قبیلہ بنی سلیم کا ایک مفلس انسان ہے تم لوگ اس کی مالی امداد کر دو۔یہ سن کر بہت سے لوگوں نے اس کو بہت کچھ دیا یہاں تک کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو دس گابھن اونٹنیاں دیں۔ یہ اعرابی تمام مال و سامان کو ساتھ لے کر جب اپنے گھر کی طرف چلا تو راستے میں دیکھا کہ اس کی قوم بنی سلیم کے ایک ہزار سوار نیزہ اور تلوار لئے ہوئے چلے آ رہے ہیں۔ اس نے پوچھا کہ تم لوگ کہاں کے لئے اور کس ارادہ سے چلے ہو؟ سواروں نے جواب دیا کہ ہم لوگ اس شخص سے لڑنے کے لئے جا رہے ہیں جو یہ گمان کرتا ہے کہ وہ نبی ہے اور ہمارے دیوتاؤں کو برا بھلا کہتا ہے۔ یہ سن کر اعرابی نے بلند آواز سے کلمہ پڑھا اور اپنا سارا واقعہ ان سواروں سے بیان کیا۔ ان سواروں نے جب اعرابی کی زبان سے اس کا ایمان افروز بیان سنا تو سب نے
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ
پڑھا ۔پھر سب کے سب بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوئے تو حضورِ انور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اس قدر تیزی کے ساتھ ان لوگوں کے استقبال کے لئے کھڑے ہوئے کہ آپ کی چادر آپ کے جسم اطہر سے گر پڑی اور یہ لوگ کلمہ پڑھتے ہوئے اپنی اپنی سواریوں سے اتر پڑے اور عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!( صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم )آپ ہمیں جو حکم دیں گے ہم آپ کے ہر حکم کی فرمانبرداری کریں گے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم لوگ حضرت خالد بن الولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جھنڈے کے نیچے جہاد کرتے رہو۔ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کا بیان ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے زمانے میں بنی سلیم کے سوا کوئی قبیلہ بھی ایسا نہیں تھا جس کے ایک ہزار آدمی بہ یک
وقت مسلمان ہوئے ہوں۔ اس حدیث کو طبرانی و بیہقی و حاکم و ابن عدی جیسے بڑے بڑے محدثین نے روایت کیا ہے۔(1)(زرقانی ج۵ ص۱۴۸ تا ص۱۴۹)
1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب حدیث الحمار ، ج۶،ص ۵۵۴۔۵۵۷
"تمام دنیا جانتی ہے کہ مسلمانوں کا ابتدائی زمانہ بہت ہی فقر و فاقہ میں گزرا ہے۔ کئی کئی دن گزر جاتے تھے کہ ان لوگوں کو کوئی چیز کھانے کے لئے نہیں ملتی تھی۔ ایسی حالت میں اگر رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا یہ معجزہ ان فاقہ زدہ مسلمانوں کی نصرت و دستگیری نہ کرتا تو بھلا ان مفلس اور فاقہ مست مسلمانوں کا کیا حال ہوتا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے آسمان سے اترنے والے دسترخوان کی سات روٹیوں اور سات مچھلیوں سے کئی سو آدمیوں کو شکم سیر کر دیا۔ یقینا یہ ان کا بہت ہی عظیم الشان معجزہ ہے جس کا ذکر انجیل و قرآن دونوں مقدس آسمانی کتابوں میں مذکور ہے۔ لیکن حضور رحمۃ للعالمین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے دست مبارک سے سینکڑوں مرتبہ اس قسم کی معجزانہ برکتوں کا ظہور ہوا کہ تھوڑا سا کھاناپانی سینکڑوں بلکہ ہزاروں انسانوں کو شکم سیر اور سیراب کرنے کے لئے کافی ہو گیا۔ اس قسم کے سینکڑوں معجزات میں سے مندرج ذیل چند معجزات آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے معجزانہ تصرفات کی آیات بینات بن کر احادیث کی کتابوں میں اس طرح چمک رہے ہیں جس طرح آسمان پر اندھیری راتوں میں ستارے چمکتے اور جگمگاتے رہتے ہیں۔"
ایک دن حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اپنے گھر میں آئے اور اپنی بیوی حضرت اُمِ سلیم رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے کہا کہ کیا تمہارے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے؟ میں نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی کمزور آواز سے یہ محسوس کیا کہ آپ بھوکے ہیں۔ اُمِ سلیم
رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے جو کی چند روٹیاں دوپٹے میں لپیٹ کر حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ آپ کی خدمت میں بھیج دیں۔ حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جب بارگاہِ نبوت میں پہنچے تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مسجد نبوی میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے مجمع میں تشریف فرما تھے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا ابو طلحہ نے تمہارے ہاتھ کھانا بھیجا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ''جی ہاں''یہ سن کر آپ اپنے اصحاب کے ساتھ اٹھے اور حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مکان پر تشریف لائے۔ حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے دوڑ کر حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس بات کی خبردی، انہوں نے بی بی اُمِ سلیم سے کہا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ایک جماعت کے ساتھ ہمارے گھر پر تشریف لا رہے ہیں۔ حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے مکان سے نکل کر نہایت ہی گرم جوشی کے ساتھ آپ کا استقبال کیا آپ نے تشریف لاکر حضرت بی بی اُمِ سلیم رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے فرمایا کہ جو کچھ تمہارے پاس ہو لاؤ ۔ انہوں نے وہی چند روٹیاں پیش کر دیں جن کو حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ بارگاہ رسالت میں بھیجا تھا ۔آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حکم سے ان روٹیوں کا چورہ بنایا گیا اور حضرت بی بی اُمِ سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس چورہ پر بطور سالن کے گھی ڈال دیا، ان چند روٹیوں میں آپ کے معجزانہ تصرفات سے اس قدر برکت ہوئی کہ آپ دس دس آدمیوں کو مکان کے اندر بلا بلا کر کھلاتے رہے اور وہ لوگ خوب شکم سیر ہو کر کھاتے اور جاتے رہے یہاں تک کہ ستر یا اسی آدمیوں نے خوب شکم سیر ہو کر کھا لیا۔(1) (بخاری جلد۱ ص۵۰۵ علامات النبوۃ و بخاری جلد۲ ص۹۸۹)
1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المناقب،باب علامات النبوۃ فی الاسلام ، الحدیث: ۳۵۷۸، ج۲، ص ۴۹۴
حضرت جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے والد یہودیوں کے قرضدار تھے اور جنگِ اُحد میں شہید ہو گئے، حضرت جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!( صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم )میرے والد نے اپنے اوپر قرض چھوڑ کر وفات پائی ہے اور کھجوروں کے سوا میرے پاس قرض ادا کرنے کا کوئی سامان نہیں ہے، صرف کھجوروں کی پیداوار سے کئی برس تک یہ قرض ادا نہیں ہو سکتا آپ میرے باغ میں تشریف لے چلیں تا کہ آپ کے ادب سے یہودی اپنا قرض وصول کرنے میں مجھ پر سختی نہ کریں۔ چنانچہ آپ باغ میں تشریف لائے اور کھجوروں کا جو ڈھیر لگا ہوا تھا اس کے گرد چکر لگا کر دعا فرمائی اور خود کھجوروں کے ڈھیر پر بیٹھ گئے۔آپ کے معجزانہ تصرف اور دعا کی تاثیر سے ان کھجوروں میں اس قدر برکت ہوئی کہ تمام قرض ادا ہو گیا اور جس قدر کھجوریں قرضداروں کو دی گئیں اتنی ہی بچ رہیں۔(1)(بخاری ج۲ ص۵۰۵ علامات النبوۃ)
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں کچھ کھجوریں لے کر حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!( صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) ان کھجوروں میں برکت کی دعا فرما دیجئے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کھجوروں کو اکٹھا کرکے دعاءِ برکت فرما دی اور ارشاد فرمایا کہ تم ان کو اپنے توشہ دان میں رکھ لو اور تم جب چاہو ہاتھ ڈال کر اس میں سے نکالتے رہو لیکن کبھی توشہ دان جھاڑ کر بالکل خالی نہ کر دینا ۔چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تیس برس تک ان کھجوروں کو
1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری ،کتاب المناقب،باب علامات النبوۃ فی الاسلام ، الحدیث: ۳۵۸۰، ج۲، ص ۴۹۵
"کھاتے اور کھلاتے رہے بلکہ کئی من اس میں سے خیرات بھی کر چکے مگر وہ ختم نہ ہوئیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہمیشہ اس تھیلی کو اپنی کمر سے باندھے رہتے تھے یہاں تک کہ حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے دن وہ تھیلی ان کی کمر سے کٹ کر کہیں گر گئی۔(1)(مشکوٰۃ جلد۲ ص۵۴۲ معجزات و ترمذی جلد۲ ص۲۲۴مناقب ابوہریرہ)
اس تھیلی کے ضائع ہونے کا حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو عمر بھر صدمہ اور افسوس رہا۔ چنانچہ وہ حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے دن نہایت رقت انگیز اور درد بھرے لہجہ میں یہ شعر پڑھتے ہوئے چلتے پھرتے تھے کہ ؎"
"لِلنَّاسِ ھَمٌّ وَ لِیْ ھَمَّانِ بَیْنَھُمْ
ھَمُّ الْجِرَابِ وَھَمُّ الشَّیْخِ عُثْمَانَا(2)
(مرقاۃ شرح مشکوٰۃ)"
لوگوں کے لئے ایک غم ہے اور میرے لئے دو غم ہیں ایک تھیلی کا غم دوسرے شیخ عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا غم۔
حضرت اُمِ مالک رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے پاس ایک کپہ تھا جس میں وہ حضور نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس ہدیہ میں گھی بھیجا کرتی تھیں اس کپے میں اتنی عظیم برکتوں کا ظہور ہوا کہ جب بھی اُمِ مالک رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے بیٹے سالن مانگتے تھے اور گھر میں کوئی سالن نہیں ہوتا تھا تو وہ اس کپے میں سے گھی نکال کر اپنے بیٹوں کو دے دیا کرتی تھیں۔
"1۔۔۔۔۔۔سنن الترمذی،کتاب المناقب،باب مناقب ابی ھریرۃرضی اللہ عنہ،الحدیث:۳۸۶۵، ج۵،ص۴۵۴
2۔۔۔۔۔۔مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح،کتاب الفضائل،تحت الحدیث:۵۹۳۳،ج۱۰،ص۲۷۰"
ایک مدت دراز تک وہ ہمیشہ اس کپے میں سے گھی نکال نکال کر اپنے گھر کا سالن بنایا کرتی تھیں۔ ایک دن انہوں نے اس کپے کو نچوڑ کر بالکل ہی خالی کر دیا جب بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئیں تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا تم نے اس کپے کو نچوڑ ڈالا؟ انہوں نے کہا کہ ''جی ہاں'' آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم اس کپے کو نہ نچوڑتیں اور یوں ہی چھوڑ دیتیں تو ہمیشہ اس میں سے گھی نکلتا ہی رہتا۔ (1)اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ (مشکوٰۃ جلد۲ ص۵۳۷ باب المعجزات)
" حضرت سمرہ بن جندب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس ایک پیالہ بھر کر کھانا تھا، ہم لوگ دس دس آدمی باری باری صبح سے شام تک اس پیالہ میں سے لگاتار کھاتے رہے۔ لوگوں نے پوچھا کہ ایک ہی پیالہ تو کھانا تھا تو وہ کہاں سے بڑھتا رہتا تھا؟ (کہ لوگ اس قدر زیادہ تعداد میں دن بھر اس کو کھاتے رہے) تو انہوں نے آسمان کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ '' وہاں سے''(2)
(ترمذی جلد۲ ص۲۰۳ باب ماجاء فی آیات نبوۃ النبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)"
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم چودہ سو اشخاص کی جماعت کے ساتھ ایک سفر میں تھے، صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے بھوک سے بے تاب ہو کر سواری کی اونٹنیوں کو
"1۔۔۔۔۔۔مشکاۃ المصابیح،کتاب احوال القیامۃوبدء الخلق،باب فی المعجزات،الحدیث:۵۹۰۷، ج۲، ص۳۸۹
2۔۔۔۔۔۔سنن الترمذی،کتاب المناقب،باب ماجاء فی آیات اثبات نبوۃ...الخ،الحدیث:۳۶۴۵، ج۵،ص۳۵۸"
ذبح کرنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے منع فرما دیااور حکم دیا کہ تمام لشکر والے اپنا اپنا توشہ ایک دستر خوان پر جمع کریں ۔چنانچہ جس کے پاس جو کچھ تھا لا کر رکھ دیا تو تمام سامان اتنی جگہ میں آ گیا جس پر ایک بکری بیٹھ سکتی تھی لیکن چودہ سو آدمیوں نے اس میں سے شکم سیر ہو کر کھا بھی لیا ا ور اپنے اپنے توشہ دانوں کو بھی بھر لیا کھانے کے بعد آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے پانی مانگا،ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک برتن میں تھوڑاسا پانی لائے ،آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کو پیالہ میں انڈیل دیا اور اپنا دستِ مبارک اس میں ڈال دیا تو چودہ سو آدمیوں نے اس سے وضو کیا۔(1)(مسلم جلد۲ ص۸۱ باب استحباب خلط الازواد)
ایک سفر میں حضور انور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سو تیس صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم ہمراہ تھے، آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان لوگوں سے دریافت فرمایا کہ کیا تم لوگوں کے پاس کھانے کا سامان ہے؟ یہ سن کر ایک شخص ایک صاع آٹا لایا اور وہ گوندھا گیا پھر ایک بہت تندرست لمبا چوڑا کافر بکریاں ہانکتا ہوا آپ کے پاس آیا۔ آپ نے اس سے ایک بکری خریدی اور ذبح کرنے کے بعد اس کی کلیجی کو بھوننے کا حکم دیا پھر ایک سو تیس آدمیوں میں سے ہر ایک کا اس کلیجی میں سے ایک ایک بوٹی کاٹ کر حصہ لگایا، اگر وہ حاضر تھا تو اس کو عطا فرما دیا اوراگر وہ غائب تھا تو اس کا حصہ چھپا کر رکھ دیا، جب گوشت تیار ہوا تو اس میں سے دو پیالہ بھر کر الگ رکھ دیا پھر باقی گوشت اور ایک صاع آٹے کی روٹی سے ایک سوتیس آدمیوں کی جماعت شکم سیر کھا کر آسودہ
1۔۔۔۔۔۔صحیح مسلم،کتاب اللقطۃ،باب استحباب خلط الازواد...الخ،الحدیث:۱۷۲۹،ص۹۵۲
"ہو گئی اور دو پیالہ بھر کر گوشت فاضل بچ گیا جس کو اونٹ پر لاد لیا گیا۔(1)
(بخاری جلد۲ ص۸۱۱ باب من اکل حتی شبع)"
ایک دن حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھوک سے نڈھال ہو کر راستے میں بیٹھ گئے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سامنے سے گزرے تو ان سے انہوں نے قرآن کی ایک آیت کو دریافت کیا مقصد یہ تھا کہ شاید وہ مجھے اپنے گھر لے جا کر کچھ کھلائیں گے مگر انہوں نے راستہ چلتے ہوئے آیت بتا دی اور چلے گئے۔ پھر حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اس راستہ سے نکلے ان سے بھی انہوں نے ایک آیت کا مطلب پوچھا غرض وہی تھی کہ وہ کچھ کھلا دیں گے مگر وہ بھی آیت کا مطلب بتا کر چل دئیے۔ اس کے بعد حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تشریف لائے اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چہرہ کو دیکھ کر اپنی خداداد بصیرت سے جان لیا کہ ''یہ بھوکے ہیں'' آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے انہیں پکارا ،انہوں نے جواب دیا اور ساتھ ہو لئے جب آپ کا شانۂ نبوت میں پہنچے تو گھر میں دودھ سے بھرا ہوا ایک پیالہ دیکھا گھر والوں نے آپ کو اس شخص کا نام بتلایا جس نے دودھ کا یہ ہدیہ بھیجا تھا۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ جاؤ اور تمام اصحابِ صفہ کو بلا لاؤ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے دل میں سوچنے لگے کہ ایک ہی پیالہ تو دودھ ہے اس دودھ کا سب سے زیادہ حق دار تو میں تھا اگر مجھے مل جاتا تو مجھ کو بھوک کی تکلیف سے کچھ راحت مل جاتی اب دیکھئے اصحاب صفہ کے آ جانے کے بعد بھلا اس میں سے کچھ مجھے ملتا ہے یا نہیں؟ ان
1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب الاطعمۃ،باب من اکل حتی شبع،الحدیث:۵۳۸۲،ج۳،ص ۵۲۳
"کے دل میں یہی خیالات چکر لگا رہے تھے مگر اﷲ و رسول عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی اطاعت سے کوئی چارہ نہ تھا؛ لہٰذا وہ اصحاب صفہ کوبلا کر لے گئے یہ سب لوگ اپنی اپنی جگہ ایک قطار میں بیٹھ گئے پھر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ ''تم خود ہی ان سب لوگوں کو یہ دودھ پلاؤ۔''چنانچہ انہوں نے سب کو پلانا شروع کر دیا جب سب کے سب شکم سیر پی کر سیراب ہوگئے تو حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے دست رحمت میں یہ پیالہ لے لیا اور حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی طرف دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا کہ اب صرف ہم اور تم باقی رہ گئے ہیں آؤ بیٹھو اور تم پینا شروع کر دو۔ انہوں نے پیٹ بھر دودھ پی کر پیالہ رکھنا چاہا تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ''اور پیو'' چنانچہ انہوں نے پھر پیا لیکن آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بار بار فرماتے رہے کہ ''اور پیو اور پیو'' یہاں تک کہ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) مجھے اس ذات کی قسم ہے جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے کہ اب میرے پیٹ میں بالکل ہی گنجائش نہیں رہی۔ اس کے بعد حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے پیالہ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور جتنا دودھ بچ گیا تھا آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بسم اﷲ پڑھ کے پی گئے۔(1) (بخاری جلد۲ ص۹۵۵ تا ص۹۵۶ باب کیف کان عیش النبی)
یہی وہ معجزہ ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ ؎
کیوں جناب بوہریرہ کیساتھاوہ جام شیر جس سے ستر صاحبوں کا دودھ سے منہ پھر گیا"
1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب الرقاق،باب کیف کان عیش النبی ...الخ،الحدیث:۶۴۵۲، ج۴،ص۲۳۴
ہم غزوہ خیبر کے بیان میں مفصل طور پر یہ معجزہ تحریر کرچکے ہیں کہ جب آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فتح کا جھنڈا عطا فرمانے کے لئے حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو طلب فرمایا تو معلوم ہوا کہ ان کی آنکھوں میں آشوب ہے اور مسند احمد بن حنبل کی روایت سے پتا چلتا ہے کہ یہ آشوب چشم اتنا سخت تھا کہ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ان کا ہاتھ پکڑ کر لائے تھے ۔آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن لگا دیا اور دعا فرما دی تو وہ فوراً ہی شفاء یاب ہو گئے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان کی آنکھوں میں کبھی درد تھا ہی نہیں اور وہ اسی وقت جھنڈا لے کر روانہ ہو گئے اور جوش جہاد میں بھرے ہوئے انتہائی جانبازی کے ساتھ جنگ کی اور خیبر کا قلعہ ان کے دستِ حق پرست سے اسی دن فتح ہو گیا۔(1)(بخاری جلد۱ ص۵۲۵ مناقب علی بن ابی طالب)
واقعہ ہجرت میں ہم تفصیل کے ساتھ لکھ چکے ہیں کہ جب غارِ ثور میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے پاؤں میں سانپ نے کاٹ لیا اور درد و کرب کی شدت سے بے تاب ہو کر رو پڑے تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کے زخم پر اپنا لعاب دہن لگا دیا جس سے فوراً ہی درد جاتا رہا اور سانپ کا زہر اتر گیا۔(2) (زرقانی علی المواہب جلد۱ ص۳۳۹)
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری ،کتاب فضائل اصحاب النبی ، باب مناقب علی بن ابی طالب...الخ ، الحدیث: ۳۷۰۱،ج۲،ص ۵۳۴
والمسند للامام احمد بن حنبل،مسند المدنیین،حدیث ابن الاکوع،الحدیث:۱۶۵۳۸، ج۵، ص۵۵۶۔۵۵۷
2۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی ، باب ھجرۃ المصطفی ...الخ ،ج۲، ص ۱۲۱"
بخاری شریف کی ایک طویل حدیث میں مذکور ہے کہ حضرت عبداﷲ بن عتیک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جب ابو رافع یہودی کو قتل کرکے واپس آنے لگے تو اس کے کوٹھے کے زینے سے گر پڑے جس سے ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی اور ان کے ساتھی ان کو اٹھا کر بارگاہ نبوت میں لائے، حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کی زبان سے ابو رافع کے قتل کا سارا واقعہ سنا پھر ان کی ٹوٹی ہوئی ٹانگ پر اپنا دستِ مبارک پھیر دیا تو وہ فوراً ہی اچھی ہو گئی اور یہ معلوم ہونے لگا کہ ان کی ٹانگ میں کبھی کوئی چوٹ لگی ہی نہ تھی۔(1)(بخاری جلد۲ ص۵۷۷ باب قتل ابی رافع)
غزوۂ خیبر میں حضرت سلمہ بن اکوع رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی ٹانگ میں تلوار کا زخم لگ گیا، وہ فوراً ہی بارگاہ نبوت میں حاضر ہو گئے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کے زخم پر تین مرتبہ دم کر دیا پھر انہیں درد کی کوئی شکایت محسوس نہیں ہوئی صرف زخم کا نشان رہ گیا تھا۔(2)(بخاری جلد۲ ص۶۰۵ غزوۂ خیبر)
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں ایک اندھا حاضر ہوا اور اپنی تکالیف بیان کرنے لگا،آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تمہاری خواہش ہو تو
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب قتل ابی رافع عبداللہ بن ابی الحقیق،الحدیث: ۴۰۳۹، ج۳،ص ۳۱
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری ،کتاب المغازی ،باب غزوۃ خیبر ، الحدیث: ۴۲۰۶، ج۳، ص ۸۳"
میں دعا کر دوں اور اگر چاہو تو صبر کرو یہی تمہارے لئے بہتر ہے۔ اس نے درخواست کی کہ یارسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) میری بینائی کے لئے دعا فرما دیجئے۔آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم اچھی طرح وضو کرکے یہ دعا مانگو کہ ''خداوندا!اپنے رحمت والے پیغمبر کے وسیلہ سے میری حاجت پوری کر دے'' ترمذی اور حاکم کی روایت میں اتنا ہی مضمون ہے مگر ابن حنبل اور حاکم کی دوسری روایت میں اس کے بعدیہ بھی ہے کہ اس نابینا نے ایسا کیا تو فوراً ہی اچھا ہو گیا اور اس کی آنکھوں پر بھر پور روشنی آ گئی۔(1) (مسند ابن حنبل جلد۴ ص۱۳۸ و مستدرک جلد۱ ص۵۲۶)
حجۃ الوداع کے موقع پر حضور انور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں قبیلہ ''خثعم'' کی ایک عورت اپنے بچے کو لے کر آئی اور کہنے لگی کہ یا رسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) یہ میرا اکلوتا بیٹا بولتا نہیں ہے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے پانی طلب فرمایا ا ور اس میں ہاتھ دھو کر کلی فرما دی اورارشاد فرمایا کہ یہ پانی اس بچے کو پلا دو اور کچھ اس کے اوپر چھڑک دو۔ دوسرے سال وہ عورت آئی تو اس نے لوگوں سے بیان کیا کہ اس کا لڑکا اچھا ہو گیا اور بولنے لگا۔(2) (ابن ما جہ ص۲۶ باب النشرہ)
جنگ ِ اُحد میں حضرت قتادہ بن نعمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی آنکھ میں ایک تیر لگا جس سے ان کی آنکھ ان کے رخسار پر بہ کر آ گئی، یہ دوڑ کر حضور رسولِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ
"1۔۔۔۔۔۔المسند للامام احمد بن حنبل ، حدیث عثمان بن حنیف ،الحدیث: ۱۷۲۴۰،۱۷۲۴۱، ج۶، ص ۱۰۶،۱۰۷
2۔۔۔۔۔۔سنن ابن ماجہ ، کتاب الطب ، باب النشرۃ ،الحدیث: ۳۵۳۲، ج۴، ص ۱۲۹"
"علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے، آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فوراً ہی اپنے دست مبارک سے ان کی بہی ہوئی آنکھ کو آنکھ کے حلقہ میں رکھ کراپنا مقدس ہاتھ اس پرپھیر دیاتواسی وقت ان کی آنکھ اچھی ہو گئی اور یہ آنکھ ان کی دوسری آنکھ سے زیادہ خوبصورت اور روشن رہی۔
ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم چاہو تو تمہاری آنکھ کو تمہارے حلقہ چشم میں رکھ دوں اوروہ اچھی ہو جائے اور اگر تم چاہو تو صبر کرو اور تمہیں اس کے بدلے پر جنت ملے گی۔ انہوں نے عرض کیا کہ یارسول اﷲ! ( صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم )جنت بلا شبہ بہت ہی بڑی نعمت ہے مگر مجھے کانا ہونا بہت برا معلوم ہوتا ہے اس لئے آپ میری آنکھ اچھی کر دیجئے اور میرے لئے جنت کی دعا بھی فرما دیجئے۔ حضور رحمۃ للعالمین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنے اس جاں نثار پر پیار آگیا اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کی آنکھ کو حلقہ چشم میں رکھ کر ہاتھ پھیر دیا تو ان کی آنکھ بھی اچھی ہو گئی اور ان کے لئے جنتی ہونے کی دعا بھی فرما دی اور یہ دونوں نعمتوں سے سرفراز ہوگئے۔ (1) (الکلام المبین ص۷۸ بحوالہ بیہقی)
فائدہ
یہ معجزہ بہت ہی مشہور ہے اور حضرت قتادہ بن نعمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں ہمیشہ اس بات کا تفاخر رہا کہ ان کے جد اعلیٰ کی آنکھ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے دست مبارک کی برکت سے اچھی ہو گئی۔ چنانچہ حضرت قتادہ بن نعمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے پوتے حضرت عاصم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جب خلیفہ عادل حضرت عمر بن عبدالعزیز اموی"
1۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواہب ، باب غزوۃ احد ، ج۲، ص ۴۳۲
رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دربار خلافت میں پہنچے تو انہوں نے اپنا تعارف کراتے ہوئے اپنا یہ قطعہ پڑھا کہ ؎
"اَنَا ابْنُ الَّذِیْ سَالَتْ عَلَی الْخَدِّ عَیْنُہٗ فَرُدَّتْ بِکَفِّ الْمُصْطَفٰی اَحْسَنَ الرَدّٖ
فَعَادَتْ کَمَا کَانَتْ لِاَوَّلِ اَمْرِھَا فَیَا حُسْنَ مَا عَیْنٍ وَّ یَا حُسْنَ مَا رَدّٖ"
یعنی میں اس شخص کا بیٹا ہوں کہ جس کی آنکھ اس کے رخسار پر بہ آئی تھی تو حضرت مصطفی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ہتھیلی سے وہ اپنی جگہ پر کیا ہی اچھی طرح سے رکھ دی گئی تو پھر وہ جیسی پہلے تھی ویسی ہی ہو گئی تو کیا ہی اچھی وہ آنکھ تھی اور کیا ہی اچھا حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا اس آنکھ کو اس کی جگہ رکھنا تھا۔(1)(الکلام المبین ص۸۹)
ایک عورت اپنے بیٹے کو لے کر حضور رسالت مآب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس آئی اور عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!( صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم )میرے اس بچے پر صبح و شام جنون کا دورہ پڑتا ہے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس بچے کے سینے پر اپنا دستِ رحمت پھیر دیا اور دعا دی تو اس بچے کو ایک زوردار قے ہوئی اور ایک کالے رنگ کا (کتے کا) پِلاّ قے میں گرا جو دوڑتا پھر رہا تھا اور بچہ شفایاب ہو گیا۔ (2)(مشکوٰۃ جلد۲ ص۵۴۱ معجزات)
حضرت یعلیٰ بن مرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے ایک سفر میں رسول
"1۔۔۔۔۔۔شرح الزرقانی علی المواہب ، باب غزوۃ احد ، ج۲، ص ۴۳۳
و الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب ،حرف القاف، قتادۃ بن النعمان ، ج۳، ص ۳۳۹
2۔۔۔۔۔۔مشکاۃ المصابیح ،کتاب احوال القیامۃ وبدء الخلق،باب فی المعجزات،الحدیث:۵۹۲۳، ج۲، ص۳۹۴"
"اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے تین معجزات دیکھے۔ پہلا معجزہ یہ کہ ایک اونٹ کو دیکھا کہ اس نے بلبلا کر اپنی گردن آپ کے سامنے ڈال دی۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس اونٹ کے مالک کو بلایا اور اس سے فرمایا کہ اس اونٹ نے کام کی زیادتی اور خوراک کی کمی کا مجھ سے شکوہ کیا ہے لہٰذا تم اس کے ساتھ اچھا سلوک کرتے رہو۔
دوسرا معجزہ یہ کہ ایک منزل میں آپ سو رہے تھے تو میں نے دیکھا کہ ایک درخت چل کر آیا اور آپ کو ڈھانپ لیا پھر لوٹ کر اپنی جگہ پر چلا گیا۔ جب آپ بیدار ہوئے اور میں نے آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس درخت نے اپنے رب سے اجازت طلب کی تھی کہ وہ مجھے سلام کرے تو خدا نے اس کو اجازت دے دی اور وہ میرے سلام کے لئے آیا تھا۔
تیسرا معجزہ یہ کہ ایک عورت اپنے بچے کو لے کر آئی جو جنون کا مریض تھا تو نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس بچے کے نتھنے کو پکڑ کر فرمایاکہ ''نکل جا کیونکہ میں محمد رسول اﷲ ہوں'' پھر ہم وہاں سے چل پڑے اور جب واپسی میں ہم اس جگہ پہنچے اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس عورت سے اس کے بچے کے بارے میں دریافت فرمایا تو اس نے کہا کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے کہ آپ کے تشریف لے جانے کے بعد سے اس بچے کو کو ئی تکلیف ہوتے ہوئے ہم نے نہیں دیکھا۔ (1)
(مشکوٰۃ جلد ۲ص۵۴۰معجزات)"
محمد بن حاطب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ایک صحابی ہیں یہ بچپن میں اپنی ماں کی گود سے
1۔۔۔۔۔۔مشکاۃ المصابیح،کتاب احوال القیامۃ وبدء الخلق، باب فی المعجزات،الحدیث:۵۹۲۲، ج۲،ص۳۹۳
آگ میں گر پڑے اور کچھ جل گئے، ان کی ماں ان کو لے کر خدمت اقدس میں آئیں تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنا لعاب دہن ان پر مل کر دعا فرمادی ۔ محمد بن حاطب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی ماں کہتی تھیں کہ میں بچے کو لے کر وہاں سے اٹھنے بھی نہیں پائی تھی کہ بچے کا زخم بالکل ہی اچھا ہو گیا۔(1)(مسند ابن حنبل جلد ۴ص۲۵۹وخصائص کبریٰ جلد ۲ص۶۹)
تغیر الفاظ اور چند جملوں کی کمی بیشی کے ساتھ بخاری شریف کی متعد د روایتوں میں اس معجزہ کا ذکر ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنے حافظہ کی کمزوری کی شکایت کی تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اپنی چادر پھیلاؤ۔ انہوں نے پھیلا یا، آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک اس چادر پر ڈالا پھر فرمایا کہ اب اس کو سمیٹ لو ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایسا ہی کیا اس کے بعد سے پھر میں کوئی بات نہیں بھولا ۔(2)(بخاری شریف جلد ۱ص۲۲باب حفظ العلم)
یہ ہم پہلے تحریر کر چکے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہم السلام کی دعاؤں سے بالکل ناگہاں عادت جاریہ کے خلاف کسی غیر متوقع بات کا ظاہر ہو جانا اس کا بھی معجزات ہی میں شمارہے۔اسی لیے اﷲ تعالیٰ حضرات انبیاء علیہم السلام کی دعاؤں سے بڑی بڑی مشکلات کو حل فرما دیتا ہے اور قسم قسم کی بلائیں ٹل جاتی ہیں اوربہت سی غیرمتوقع چیزیں
"1۔۔۔۔۔۔الخصائص الکبری للسیوطی،باب ایاتہ فی ابراء المرضی...الخ، ج۲،ص ۱۱۵
و المسند للامام احمد بن حنبل،مسند المکیین،حدیث محمد بن حاطب ...الخ،الحدیث: ۱۵۴۵۳،ج۵،ص ۲۶۵
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری ،کتاب العلم ، باب حفظ العلم ،الحدیث: ۱۱۹،ج۱، ص ۶۲"
ظہور میں آجاتی ہیں۔ چنانچہ حضورخاتم النبیین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے معجزات میں سے آپ کی دعاؤں کی مقبولیت بھی ہے کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب بھی مشکلات یا طلب حاجات کے وقت خدا کی امداد غیبی کا سہارا ڈھونڈھتے ہوئے دعائیں مانگیں تو ہر موقع پر حق تعالیٰ نے آپ کی دعاؤں کے لیے مقبولیت کا دروازہ کھول دیا اور آپ کی دعاؤں سے ایسی ایسی خلاف امید اور غیر متوقع چیزیں عالم وجود میں آگئیں کہ جن کو معجزات کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا، ان میں سے چند معجزات کا تذکرہ حسب ذیل ہے۔
جب کفار قریش حضوراقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم پر بے پناہ مظالم ڈھانے لگے جو ضبط و برداشت سے باہر تھے تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان شریروں کی سر کشی کا علاج کرنے کے لیے ان لوگوں کے حق میں قحط کی دعاء فرمادی۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے ان لوگوں پر قحط کا ایسا عذاب شدید بھیجا کہ اہل مکہ سخت مصیبت میں مبتلا ہوگئے یہاں تک کہ بھوک سے بے تاب ہو کر مر دار جانوروں کی ہڈیاں اور سوکھے چمڑے اُبال اُبال کر کھانے لگے ۔بالآخر اس کے سوا کوئی چارہ نظر نہ آیا کہ رحمۃٌ للعالمین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی بارگاہ ِرحمت کا دروازہ کھٹکھٹائیں اور ان کے حضور میں اپنی فریاد پیش کریں۔ چنانچہ ابو سفیان بحالت کفر چند رؤسائے قریش کو ساتھ لے کر آپ کے آستانہ رحمت پر حاضر ہوئے اور گڑ گڑ ا کر کہنے لگے کہ اے محمد! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ) تمہاری قوم برباد ہو گئی ، خدا سے دعا کرو کہ یہ قحط کا عذاب ٹل جائے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو ان لوگوں کی بے قراری اور گریہ وزاری پر رحم آگیا ۔ چنانچہ آپ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے فوراً ہی آپ کی دعا مقبول ہوئی اور اس قدر زور دار
"بارش ہوئی کہ سارا عرب سیراب ہو گیا اور اہل مکہ کو قحط کے عذاب سے نجات ملی۔(1)
(بخاری جلد ۱ص ۱۳۷ابو اب الا ستسقاء وبخاری جلد۲ ص ۷۱۴تفسیر سورۂ دخان)"
ایک مرتبہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم صحن حرم میں نماز پڑھ رہے تھے کہ کفار قریش کے چند سر کش شریروں نے بحالت نماز آپ کی مقدس گردن پر ایک اونٹ کی اوجھڑی لا کر ڈال دی اور خوب زور زور سے ہنسنے لگے اور مارے ہنسی کے ایک دوسرے پر گرنے لگے۔ حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے آکر اس اوجھڑی کو آپ کی پشت اطہر سے اٹھایا ۔ جب آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے سجدہ سے سر اٹھایا تو ان شریروں کا نام لے لے کر نام بنام یہ دعا مانگی کہ یا اﷲ ! تو ان سبھوں کو اپنی گرفت میں پکڑ لے ۔ چنانچہ یہ سب کے سب جنگِ بدر میں انتہائی ذلت کے ساتھ قتل ہوکر ہلاک ہو گئے۔(2)(بخاری جلد ۲ص۵۶۵غزوہ بدر)
پہلے مدینہ کی آب و ہوا اچھی نہ تھی، وہاں قسم قسم کی وباؤں کا اثر تھا۔ چنانچہ ہجرت کے بعد اکثر مہاجرین بیمار پڑ گئے اور بیماری کی حالت میں اپنے وطن مکہ کو یاد کرکے پر درد لہجے میں اشعار پڑھا کرتے تھے، آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان لوگوں کا یہ حال دیکھ کر یہ دعا فرمائی کہ ''الٰہی ! مدینہ کو بھی ہمارے لئے ویسا ہی محبوب کر دے جیسا کہ مکہ محبوب ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ محبوب بنا دے۔ الٰہی! ہمارے ''صاع'' اور
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب الاستسقائ،باب دعاء النبی صلی اللہ علیہ وسلم...الخ الحدیث: ۱۰۰۷،ج۱،ص۳۴۵وکتاب التفسیر،باب ثم تولواعنہ...الخ،الحدیث:۴۸۲۴،ج۳،ص۳۲۳
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب الوضوئ،باب اذا القی علی ظہرالمصلی...الخ،الحدیث: ۲۴۰، ج۱،ص۱۰۲"
"''مد'' میں برکت دے اور مدینہ کو ہمارے لئے صحت بخش بنا دے اور یہاں کے بخار کو ''جحفہ'' میں منتقل کردے۔''آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی دعا حرف بحرف مقبول ہوئی اور مہاجرین کو شہر مدینہ سے ایسی الفت اور والہانہ محبت ہو گئی کہ وہی حضرت ابوبکر و حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہما جو چند روز پہلے مدینہ کی بیماریوں سے گھبرا اٹھے تھے اور اپنے وطن مکہ کی یاد میں خون رلانے والے اشعار گایا کرتے تھے، اب مدینہ کے ایسے عاشق بن گئے کہ پھر کبھی بھول کر بھی مکہ کی سکونت کا نام نہیں لیا اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اﷲ تعالیٰ نے خواب میں یہ دکھلا دیا کہ مدینہ کی وبائیں مدینہ سے دفع ہو گئیں اور مدینہ کی آب و ہوا صحت بخش ہو گئی۔(1)
(بخاری جلد۱ ص۵۵۸ باب مقدم النبی و بخاری جلد۲ ص۱۰۴۲ باب المرأۃ السوداء)"
ایک روز حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت بی بی اُمِ حرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے مکان میں کھانے کے بعد قیلولہ فرما رہے تھے کہ ناگہاں ہنستے ہوئے نیند سے بیدار ہوئے، حضرت بی بی اُمِ حرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے ہنسی کی وجہ دریافت کی تو ارشاد فرمایا کہ میری امت میں مجاہدین کا ایک گروہ میرے سامنے پیش کیا گیا جو جہاد کی غرض سے دریا میں کشتیوں پر اس طرح بیٹھا ہوا سفر کریگا جس طرح تخت پر بادشاہ بیٹھے رہا کرتے ہیں۔ یہ سن کر انہوں نے درخواست کی کہ یا رسول اﷲ!( صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) دعا فرما دیجئے کہ میں بھی ان مجاہدین کے گروہ میں شامل رہوں۔ آپ نے دعا فرما دی۔ چنانچہ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں جب بحری جنگ کا سلسلہ شروع
1۔۔۔۔۔۔صحیح ا لبخاری،کتاب مناقب الانصا ر،باب مقدم النبی...الخ،الحدیث:۳۹۲۶،ج۲،ص۶۰۱
ہوا تو حضرت بی بی اُمِ حرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہا بھی مجاہدین کی اس جماعت کے ساتھ کشتی پر سوار ہو کر روانہ ہوئیں اور دریا سے نکل کر جب خشکی پر آئیں تو سواری سے گر کر شہادت کا شرف حاصل کیا۔(1) (بخاری جلد۲ ص۱۰۳۶ باب الرویا بالنہار)
حضرت ابو قتادہ صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے حق میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ دعا فرما دی کہ
اَفْلَحَ وَجْھُکَ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَہٗ فِیْ شَعْرِہٖ وَبَشَرِہٖ.
"یعنی فلاح والا ہوجائے تیرا چہرہ ،یااﷲ! اس کے بال اور اس کی کھال میں برکت دے۔
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ستر برس کی عمر پا کر وفات پائی مگر ان کا ایک بال بھی سفید نہیں ہوا تھا نہ بدن میں جھریاں پڑی تھیں، چہرے پر جوانی کی ایسی رونق تھی کہ گویا ابھی پندرہ برس کے جوان ہیں۔(2) (الکلام المبین ص۶۸ بحوالہ دلائل النبوۃ بیہقی)"
حضرت ابوطلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی بیوی حضرت اُمِ سلیم رضی اﷲ تعالیٰ عنہا بڑی ہوشمند اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی نہایت ہی جاں نثار تھیں ان کا بچہ بیمار ہو گیا اور حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ گھر سے باہر ہی تھے کہ بچے کا انتقال ہو گیا۔ حضرت اُمِ سلیم رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے بچے کو الگ مکان میں لٹا دیا اور جب حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ مکان میں داخل ہوئے اور بیوی سے پوچھا کہ بچہ کیسا ہے؟ بیوی نے جواب دیا کہ اس کا سانس ٹھہر گیا ہے اور مجھے اُمید ہے کہ وہ آرام پا گیا ہے۔ حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب الجھادوالسیر،باب الدعاء بالجھادوالشھادۃ...الخ،الحدیث: ۲۷۸۸،۲۷۸۹،ج۲،ص۲۵۰
2۔۔۔۔۔۔الشفا بتعریف حقوق المصطفی،الجزء الاول،ص۳۲۷"
"نے یہ سمجھا کہ وہ اچھا ہے۔ چنانچہ دونوں میاں بیوی ایک ہی بستر پر سوئے لیکن صبح کو جب ابو طلحہ غسل کرکے مسجد نبوی میں نمازِ فجر کے لئے جانے لگے تو بیوی نے بچے کی موت کا حال سنا دیا۔ حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے رات کا سارا ماجرا بارگاہِ نبوت میں عرض کیا تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ خداوند تعالیٰ تمہاری آج کی رات میں برکت عطا فرمائے گا۔ چنانچہ اس رات کی برکت مقررہ مہینوں کے بعد ظاہر ہوئی کہ حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے فرزند حضرت عبداﷲ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیدا ہوئے اور حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو اپنی گود میں بٹھا کر اور عجوہ کھجور کو چباکر ان کے منہ میں ڈالا اور ان کے چہرے پر اپنا دست رحمت پھرا دیا اور عبداﷲ نام رکھا۔
ایک انصاری حضرت عبایہ بن رفاعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ دعاءِ نبوی کی برکت کا یہ اثر ہوا کہ میں نے ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نو اولادوں کو دیکھا جو سب کے سب قرآن مجید کے قاری تھے۔(1)
(مسلم جلد۲ ص۲۹۲ باب فضائل اُمِ سلیم و بخاری جلد۱ ص۱۷۴ باب من لم یظہر حزنہ عند المصیبۃ)"
حضرت جریر بن عبداﷲ صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھوڑے کی پیٹھ پر جم کر بیٹھ نہیں سکتے تھے حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو ''ذوالخلصہ'' کے بت خانہ کو توڑنے
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب الجنائز،باب من لم یظہرحزنہ عندالمصیبۃ،الحدیث:۱۳۰۱، ج۱،ص۴۴۰
وصحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ،باب من فضائل ابی طلحۃالانصاری،الحدیث: ۲۱۴۴،ص۱۳۳۳"
کے لئے بھیجنا چاہا تو انہوں نے یہی عذر پیش کیا کہ یا رسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) میں گھوڑے پر جم کر بیٹھ نہیں سکتا۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کے سینے پر ہاتھ مارا اور یہ دعا فرمائی کہ ''یااﷲ! اس کو گھوڑے پر جم کر بیٹھنے کی قوت عطا فرما اور اس کو ہادی و مہدی بنا'' اس دعا کے بعد حضرت جریر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ گھوڑے پر سوار ہوئے اور قبیلہ احمس کے ایک سو پچاس سواروں کا لشکر لے کر گئے اوراس بت خانہ کو توڑ پھوڑ کر جلا ڈالا اور مزاحمت کرنے والے کفار کو بھی قتل کر ڈالا جب واپس آئے تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کے لئے اور قبیلہ احمس کے حق میں دعا فرمائی۔(1) (مسلم جلد۲ ص۲۹۷ فضائل جریر)
" حضرت طفیل دوسی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) قبیلۂ دوس نے اسلام کی دعوت قبول کرنے سے انکار کر دیا، لہٰذا آپ اس قبیلہ کی ہلاکت کے لئے دعا فرما دیجئے۔ لوگوں نے آپس میں یہ کہنا شروع کر دیا کہ اب آپ کی دعاءِ ہلاکت سے یہ قبیلہ ہلاک ہو جائے گا۔ لیکن رحمتِ عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے قبیلۂ دوس کے لئے یہ رحمت بھری دعا فرمائی کہ''الٰہی! تو قبیلۂ دوس کو ہدایت دے اور ان کو میرے پاس لا۔''
رحمۃ للعالمین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی یہ دعا قبول ہوئی۔ چنانچہ پورا قبیلہ مسلمان ہو کر بارگاہ نبوت میں حاضر ہو گیا۔(2)(مسلم جلد۲ ص۳۰۷ باب فضائل غفار و دوس وغیرہ)"
"1۔۔۔۔۔۔صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ،باب من فضائل جریربن عبد ا للہ،الحدیث:۲۴۷۶،ص۱۳۴۵
2۔۔۔۔۔۔صحیح مسلم ،کتاب فضائل الصحابۃ ،باب دعاء النبی بغفار واسلم ،الحدیث: ۲۵۲۴،ص۱۳۶۷"
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے سامنے ایک شخص بائیں ہاتھ سے کھانے لگا، آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ''دائیں ہاتھ سے کھاؤ'' اس نے غرور سے کہا کہ ''میں دائیں ہاتھ سے نہیں کھا سکتا۔'' چونکہ اس مغرور نے گھمنڈ سے ایسا کہا تھا اس لئے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ''خدا کرے ایسا ہی ہو'' چنانچہ اس کے بعد ایسا ہی ہوا کہ وہ اپنے دائیں ہاتھ کو اٹھا کر واقعی اپنے منہ تک نہیں لے جا سکتا تھا۔ (1) (مسلم جلد۲ ص۱۷۲ باب آداب الطعام)
خدا عزوجل کے حکم سے مردوں کو زندہ کر دینا یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ایک بہت ہی مشہور معجزہ ہے مگر چونکہ اﷲ تعالیٰ نے حضور رحمۃللعالمین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو تمام انبیاء علیہم السلام کے معجزات کا جامع بنایا ہے اس لئے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو بھی اس معجزہ کے ساتھ سرفراز فرمایا ہے۔ چنانچہ اس قسم کے چند معجزات احادیث اور سیرت نبویہ کی کتابوں میں مذکور ہیں۔
روایت ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک شخص کو اسلام کی دعوت دی تو اس نے کہا کہ میں اس وقت تک آپ پر ایمان نہیں لا سکتا جب تک کہ میری مردہ بچی زندہ نہ ہو جائے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم مجھے اس کی قبر دکھاؤ۔ اس نے اپنی لڑکی کی قبر دکھا دی حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس لڑکی کا نام لے کر پکارا تو اس
1۔۔۔۔۔۔صحیح مسلم،کتاب الاشربۃ،باب اداب الطعام والشراب...الخ،الحدیث:۲۰۲۱،ص۱۱۱۸
لڑکی نے قبر سے نکل کر جواب دیا کہ اے حضور! میں آپ کے دربار میں حاضر ہوں۔ پھر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس لڑکی سے فرمایا کہ ''کیا تم پھر دنیا میں لوٹ کر آنا پسند کرتی ہو؟ لڑکی نے جواب دیا کہ ''نہیں یا رسول اﷲ!صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم میں نے اﷲ تعالیٰ کو اپنے ماں باپ سے زیادہ مہربان اور آخرت کو دنیا سے بہتر پایا۔'' (1)(زرقانی علی المواہب جلد۵ ص۸۲ ۱ و شفاء جلد۱ص۲۱۱)
حضرت جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ایک بکری ذبح کرکے اس کا گوشت پکایا اور روٹیوں کا چورہ کرکے ثرید بنایا اور اس کو بارگاہ نبوت میں لے کر حاضر ہوئے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اس کو تناول فرمایا جب سب لوگ کھانے سے فارغ ہوگئے تو حضور رحمتِ عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے تمام ہڈیوں کو ایک برتن میں جمع فرمایا اور ان ہڈیوں پر اپنا دستِ مبارک رکھ کر کچھ کلمات ارشاد فرما دئیے تو یہ معجزہ ظاہر ہوا کہ وہ بکری زندہ ہو کر کھڑی ہو گئی اور دم ہلانے لگی پھر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے جابر! تم اپنی بکری اپنے گھر لے جاؤ۔ چنانچہ حضرت جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جب اس بکری کو لے کرمکان میں داخل ہوئے تو ان کی بیوی نے حیران ہو کر پوچھا کہ یہ بکری کہاں سے آگئی؟ حضرت جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ ہم نے اپنی اس بکری کو رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے لئے ذبح کیا تھا، انہوں نے اﷲ تعالیٰ سے دعا مانگی تو اﷲ تعالیٰ نے اس بکری کو زندہ فرما دیا۔ یہ سن کر ان کی بیوی نے بلند آواز سے کلمۂ شہادت پڑھا۔اس حدیث کو جلیل القدر محدث ابو نعیم نے روایت کیا ہے اور مشہور حافظ
1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی ،باب ابراء ذوی العاھات...الخ ،ج۷،ص ۶۱،۶۲
الحدیث محمد بن المنذر نے بھی ''کتاب العجائب و الغرائب'' میں اس حدیث کو نقل فرمایا ہے۔(1) (زرقانی علی المواہب جلد۵ ص۱۸۴ و خصائص کبریٰ جلد۳ ص۶۷)
حضرت سواد بن قارب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ایک جن میرا تابع ہو گیا تھا۔ وہ آئندہ کی خبریں مجھے دیا کرتا تھا اور میں لوگوں کو وہ خبریں بتا کر نذرانے وصول کیا کرتا تھا۔ ایک بار اس جن نے مجھے آکر جگایا اور کہا کہ اٹھ اور ہوش میں آ، اگر تجھ میں کچھ شعور ہے تو چل اور بنی ہاشم کے سردار کے دربار میں حاضر ہو کر ان کا دیدار کر جولوی بن غالب کی اولاد میں پیغمبر ہو کر تشریف لائے ہیں۔ حضرت سواد بن قارب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ مسلسل تین راتیں ایسی گزریں کہ میرا یہ جن مجھے نیند سے جگا جگا کر برابر یہی کہتا رہا یہاں تک کہ میرے دل میں اسلام کی اُلفت و محبت پیدا ہو گئی اور میں اپنے گھر سے روانہ ہو کر مکہ مکرمہ میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہو گیا۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مجھے دیکھ کر ''خوش آمدید'' کہا اور فرمایا کہ میں جانتا ہوں کہ کس سبب سے تم یہاں آئے ہو۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!( صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) میں نے آپ کی مدح میں ایک قصیدہ کہا ہے پہلے آپ اس کو سن لیجئے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پڑھو۔ چنانچہ میں نے اپنا قصیدۂ بائیہ جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مدح میں نظم کیا تھا پڑھ کر رحمتِ عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو سنایا اس قصیدہ کا آخری شعر یہ ہے کہ
1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی ، باب ابراء ذوی العاھات ...الخ ،ج۷، ص ۶۶
وَکُنْ لِّیْ شَفِیْعًا یَوْمَ لَا ذُوْشَفَاعَۃٍ سِوَاکَ بِمُغْنٍ عَنْ سَوَادِ بْنِ قَارِبٍ
یعنی آپ اس دن میرے شفیع بن جائیے جس دن آپ کے سواسواد بن قارب کی نہ کوئی شفاعت کرنے والا ہو گا نہ کوئی نفع پہنچانے والا ہو گا۔ اس حدیث کو امام بیہقی نے روایت فرمایا ہے۔ (1) (الکلام المبین ص۸۷ بحوالہ بیہقی)
ابن سعد نے جعد بن قیس مرادی سے روایت کی ہے کہ ہم چار آدمی حج کا ارادہ کرکے اپنے وطن سے روانہ ہوئے یمن کے ایک جنگل میں ہم لوگ چل رہے تھے کہ ناگہاں اشعار پڑھنے کی آواز آئی ہم نے ان اشعار کو غور سے سنا تو ان کا مضمون یہ تھا کہ اے سوارو! جب تم لوگ زمزم اور حطیم پر پہنچو تو حضرت محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں ہمارا سلام عرض کر دینا جن کو اﷲ تعالیٰ نے اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے اور ہمارا یہ پیغام بھی پہنچا دینا کہ ہم آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے دین کے فرماں بردار ہیں کیونکہ حضرت مسیح بن مریم علیہ السلام نے ہم لوگوں کو اس بات کی وصیت فرمائی تھی۔ (یقینا یہ یمن کے جنگل میں رہنے والے جنوں کی آواز تھی۔ )(الکلام المبین ص۹۳ بحوالہ ابن سعد)
خطیب حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے راوی ہیں کہ ہم لوگ ایک سفر میں رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ آپ ایک کھجور کے درخت کے نیچے تشریف فرما تھے کہ بالکل ہی اچانک ایک بہت بڑے کالے سانپ نے آپ کی طرف رُخ کیا،لوگوں نے اس کو مار ڈالنے کا ارادہ کیا لیکن آپ نے فرمایا کہ اس کو
1۔۔۔۔۔۔ دلائل النبوۃ للبیہقی،جماع ابواب المبعث،حدیث سواد بن قارب...الخ،ج۲،ص۲۵۰
"میرے پاس آنے دو۔ جب یہ آپ کے پاس پہنچا تو اپنا سر آپ کے کانوں کے پاس کر دیا۔ پھر آپ نے اس سانپ کے منہ کے قریب اپنا منہ کرکے چپکے چپکے کچھ ارشاد فرمایا اس کے بعد اسی جگہ یکبارگی وہ سانپ اس طرح غائب ہو گیا کہ گویا زمین اس کو نگل گئی۔ حضرت جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) آپ نے سانپ کو اپنے کانوں تک پہنچنے دیا یہ منظر دیکھ کر ہم لوگ ڈر گئے کہ کہیں یہ سانپ آپ کو کاٹ نہ لے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ سانپ نہیں تھا بلکہ جنوں کی جماعت کا بھیجا ہوا ایک جن تھا۔ فلاں سورہ میں سے کچھ آیتیں یہ بھول گیا۔ ان آیتوں کو دریافت کرنے کے لئے جنوں نے اس کو میرے پاس بھیجا تھا۔ میں نے اس کو وہ آیتیں بتا دیں اور وہ ان کو یاد کرتا ہوا چلا گیا۔
(الکلام المبین ص۹۴)"
" احادیث کی تلاش و جستجو سے پتا چلتا ہے کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مبارک انگلیوں سے تقریباً تیرہ مواقع پر پانی کی نہریں جاری ہوئیں۔ ان میں سے صرف ایک موقع کا ذکر یہاں تحریر کیا جاتا ہے۔
۶ھ میں رسول اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم عمرہ کا ارادہ کرکے مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کے لئے روانہ ہوئے اور حدیبیہ کے میدان میں اتر پڑے۔ آدمیوں کی کثرت کی وجہ سے حدیبیہ کا کنواں خشک ہو گیا اور حاضرین پانی کے ایک ایک قطرہ کے لئے محتاج ہو گئے۔ اس وقت رحمتِ عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے دریائے رحمت میں جوش"
"آگیا اور آپ نے ایک بڑے پیالے میں اپنا دستِ مبارک رکھ دیا تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مبارک انگلیوں سے اس طرح پانی کی نہریں جاری ہو گئیں کہ پندرہ سو کا لشکر سیراب ہوگیا۔ لوگوں نے وضو و غسل بھی کیا جانوروں کو بھی پلایا تمام مشکوں اور برتنوں کو بھی بھر لیا۔ پھر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے پیالہ میں سے دست مبارک کو اٹھا لیا اور پانی ختم ہو گیا۔ حضرت جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے لوگوں نے پوچھا کہ اس وقت تم لوگ کتنے آدمی تھے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ ہم لوگ پندرہ سو کی تعداد میں تھے مگر پانی اس قدر زیادہ تھا کہ لَوْکُنَّا مِائَۃَ اَلْفٍ لَکَفٰنَا ۔(1)(مشکوٰۃ جلد۲ ص۵۳۲ باب المعجزات)
اگر ہم لوگ ایک لاکھ بھی ہوتے تو سب کو یہ پانی کافی ہو جاتا۔ یہ حدیث بخاری شریف میں بھی ہے اور حضرت جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے علاوہ حضرت انس و حضرت براء بن عازب رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کی روایتوں سے بھی انگلیوں سے پانی کی نہریں جاری ہونے کی حدیثیں مروی ہیں ملاحظہ فرمائیے۔(بخاری جلد۱ ص۵۰۴ و ص۵۰۵ علامات النبوۃ)
سبحان اﷲ!اسی حسین منظر کی تصویر کشی کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اﷲتعالیٰ علیہ نے کیا خوب فرمایا ؎
اُنگلیاں ہیں فیض پر ٹوٹے ہیں پیاسے جھوم کر
ندیاں پنج آبِ رحمت کی ہیں جاری واہ واہ"
ایک نصرانی مسلمان ہو کر دربار نبوت میں رہنے لگا سورۂ بقرہ اور سورۂ آل عمران پڑھ چکا تھا۔ خوشخط کاتب تھا اس لئے اس کو وحی لکھنے کی خدمت سپرد کر دی گئی۔
1۔۔۔۔۔۔مشکاۃ المصابیح،کتاب احوال القیامۃوبدء الخلق،باب المعجزات،الحدیث:۵۸۸۲، ج۲،ص ۳۸۳
مگر یہ بدنصیب پھر کافر و مرتد ہو کر کفار سے جا ملا اور کہنے لگا کہ نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بس اتنا ہی علم رکھتے ہیں جتنا میں ان کو لکھ کر دے دیا کرتا تھا۔ قہر الٰہی نے اس گستاخ کو اپنی گرفت میں پکڑ لیا اور یہ مر گیا۔ نصرانیوں نے اس کو دفن کیا مگر زمین نے اس کی لاش کو باہر پھینک دیا، نصرانیوں نے گہری قبر کھود کر تین مرتبہ اس کو دفن کیا مگر ہر مرتبہ زمین نے اس کی لاش کو باہر پھینک دیا۔ چنانچہ نصرانیوں نے بھی اس بات کا یقین کر لیا کہ اسکی لاش کو زمین کے باہر نکال پھینکنا یہ کسی انسان کا کام نہیں ہے اس لئے ان لوگوں نے اس کی لاش کو زمین پر ڈال دیا۔(1)(بخاری جلد۱ ص۵۱۱ علامات النبوۃ)
حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
نُصِرْتُ بِالصَّبَا وَاُھْلِکَتْ عَادُ بِالدَّبُوْرِ
(بخاری جلد۲ ص۵۸۹ غزوۂ خندق) یعنی پُروا ہوا سے میری مدد کی گئی اور قوم عاد پچھوا ہو اسے ہلاک کی گئی۔(2)
اس کا واقعہ یہ ہے کہ غزوۂ خندق میں قبائل قریش و غطفان اور قریظہ و بنی النضیر کے یہود اور دوسرے مشرکین نے متحدہ افواج کے دل بادل لشکروں کے ساتھ مدینہ پر چڑھائی کر دی اور مسلمانوں نے مدینہ کے گرد خندق کھود کر ان افواج کے حملوں سے پناہ لی تو ان شیطانی لشکروں نے مدینہ کا ایسا سخت محاصرہ کر لیا کہ مدینہ کے اندر مدینہ کے باہر سے ایک گیہوں کا دانہ اور ایک قطرہ پانی کا جانا محال ہو گیا تھا۔ صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم ان مصائب و شدائد سے گو پریشان حال تھے مگر ان کے جوش ایمانی کے استقلال میں بال برابر فرق نہیں آیا تھا۔ ٹھیک اسی حالت میں نبی اکرم صلی
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المناقب،باب علامات النبوۃ...الخ، ا لحدیث :۳۶۱۷،ج۲، ص۵۰۶
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب غزوۃ الخندق...الخ،الحدیث:۴۱۰۵،ج۳،ص۵۳"
اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا یہ معجزہ ظاہر ہوا کہ پورب کی طرف سے ایک ایسی زور دار آندھی آئی جس میں کڑاکے کا جاڑا بھی تھا اوراس میں اس شدت کے جھونکے اور جھٹکے تھے کہ گردوغبار کا بادل چھا گیا۔ کفار کی آنکھیں دھول اور کنکریوں سے بھر گئیں ان کے چولہوں کی آگ بجھ گئی اور بڑی بڑ ی دیگیں چولہوں سے الٹ پلٹ کر دور تک لڑھکتی ہوئی چلی گئیں، خیموں کی میخیں اکھڑ گئیں اور خیمے اڑ اڑ کر پھٹ گئے، گھوڑے ایک دوسرے سے ٹکرا کر لڑنے لگے، غرض یہ آندھی کفار کے لئے ایک ایسا عذاب شدید بن کر ان پر مسلط ہو گئی کہ کفار کے قدم اکھڑ گئے ان کی کمر ہمت ٹوٹ گئی اور وہ فرارپر مجبور ہو گئے اور بدحواسی کے عالم میں سر پر پیر رکھ کر بھاگ نکلے۔ یہی وہ آندھی ہے جس کا ذکر خداوند قدوس نے اپنی کتاب مقدس قرآن مجید میں ان لفظوں کے ساتھ ارشاد فرمایا کہ
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوۡا نِعْمَۃَ اللہِ عَلَیۡکُمْ اِذْ جَآءَتْکُمْ جُنُوۡدٌ فَاَرْسَلْنَا عَلَیۡہِمْ رِیۡحًا وَّ جُنُوۡدًا لَّمْ تَرَوْہَا ؕ وَ کَانَ اللہُ بِمَا تَعْمَلُوۡنَ بَصِیۡرًا ۚ﴿۹﴾(1)
اے ایمان والو! اﷲ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب تم پر کچھ لشکر آئے تو ہم نے ان پر آندھی اور وہ لشکر بھیجے جو تمہیں نظر نہ آئے اور اﷲ تمہارے کاموں کو دیکھتا ہے۔(احزاب)
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے معجزات میں بہت سے ایسے واقعات ہیں کہ آگ ان چیزوں کو نہ جلا سکی جن کو آپ کی ذات سے کوئی تعلق رہا ہو۔
1۔۔۔۔۔۔پ۲۱،الاحزاب:۹
" چنانچہ قطب الدین قسطلانی علیہ الرحمۃ نے اپنی کتاب ''جمل الایجاز فی الاعجاز'' میں لکھا ہے کہ وہ آگ جو رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی خبر غیب کے مطابق ۶۵۴ھ میں مدینہ منورہ کے پاس قبیلہ قریظہ کی پہاڑیوں سے نمودار ہوئی وہ پتھروں کو جلا دیتی تھی اور کچھ پتھروں کو گلا دیتی تھی۔ یہ آگ جب بڑھتے بڑھتے حرم مدینہ کے قریب ایک پتھر کے پاس پہنچی جس کا آدھا حصہ حرم مدینہ میں داخل تھا اور آدھا حصہ حرم مدینہ سے خارج تھا تو پتھر کا جو حصہ خارجِ حرم تھا اس کو اس آگ نے جلا دیا لیکن جب اس نصف حصہ تک پہنچی جو حرم مدینہ میں داخل تھا تو فوراً ہی وہ آگ بجھ گئی۔
اسی طرح امام قرطبی علیہ الرحمۃ نے تحریر فرمایا ہے کہ وہ آگ مدینہ طیبہ کے قریب سے ظاہر ہوئی اور دریا کی طرح موج مارتی ہوئی یمن کے ایک گاؤں تک پہنچ گئی اور اس کو جلا کر راکھ کر دیا مگر مدینہ طیبہ کی جانب اس آگ میں سے ٹھنڈی ٹھنڈی نسیم صبح جیسی ہوائیں آتی تھیں۔ اس آگ کا واقعہ چند اوراق پہلے ہم مفصل طور پر لکھ چکے ہیں۔ (الکلام المبین ص۱۰۷)
اسی طرح ''نسیم الریاض'' میں لکھا ہے کہ ''عدیم بن طاہر علوی'' کے پاس چودہ موئے مبارک تھے انہوں نے ان کو امیر حلب کے دربار میں پیش کیا۔ امیر حلب نے خوش ہو کر اس مقدس تحفہ کو قبول کیا اور علوی صاحب کی انتہائی تعظیم و تکریم کرتے ہوئے ان کو انعام و اکرام سے مالا مال کر دیالیکن اس کے بعد جب دوبارہ علوی صاحب امیر حلب کے دربار میں گئے تو امیر نے تیوری چڑھا کر بہت ہی ترش روئی کے ساتھ بات کی اور ان کی طرف سے نہایت ہی بے التفاتی کے ساتھ منہ پھیر لیا۔ علوی صاحب نے اس بے توجہی اور ترش روئی کا سبب پوچھاتو امیر حلب نے کہا کہ میں نے لوگوں"
"کی زبانی یہ سنا ہے کہ تم جو موئے مبارک میرے پاس لائے تھے ان کی کچھ اصل اور کوئی سند نہیں ہے۔ علوی صاحب نے کہا کہ آپ ان مقدس بالوں کو میرے سامنے لائیے۔ جب وہ آ گئے تو انہوں نے آگ منگوائی اور موئے مبارک کو دہکتی ہوئی آگ میں ڈال دیا پوری آگ جل جل کر راکھ ہو گئی مگر موئے مبارک پر کوئی آنچ نہیں آئی بلکہ آگ کے شعلوں میں موئے مبارک کی چمک دمک اور زیادہ نکھر گئی ۔یہ منظر دیکھ کر امیر حلب نے علوی صاحب کے قدموں کا بوسہ لیا اور پھر اس قدر انعام وا کرام سے علوی صاحب کو نوازا کہ اہل دربار ان کے اعزاز و وقار کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ (الکلام المبین ص۱۰۸)
اسی طرح حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دستر خوان کی روایت مشہور ہے کہ چونکہ اس دستر خوان سے حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک اور روئے اقدس کو صاف کر لیا تھا اس لئے یہ دسترخوان آگ کے جلتے ہوئے تنور میں ڈال دیا جاتاتھا مگر آگ اس کو جلاتی نہیں تھی بلکہ اس کو صاف وستھرا کر دیتی تھی۔(1) (مثنوی شریف مولانا رومی)"
یہ سلطان کونین و شہنشاہ دارین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ان ہزاروں معجزات میں سے صرف چند ہیں جن کے تذکروں سے احادیث و سیرت نبویہ کی کتابیں مالا مال ہیں ہم نے ان چند معجزات کو بلا کسی تصنع کے سادہ الفاظ میں نہایت ہی اختصار کے ساتھ تحریر کر دیا ہے تا کہ ان نورانی معجزات کو پڑھ کر ناظرین کے سینوں میں عظمت
1۔۔۔۔۔۔مثنوی مولانا روم(مترجم)،دفترسوم،ص۵۸
"مصطفی اور محبت رسول کے ہزاروں ایمانی چراغ روشن ہو جائیں اور ہر مسلمان اپنے پیارے نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی تعظیم و تکریم اور ان کے اکرام و احترام کی رفعت کو پہچان لے اور اس کے گلشن ایمان میں ہر لحظہ اور ہر آن محبت و عظمت رسول کے ہزاروں پھول کھلتے رہیں اور وہ جوشِ عرفان و جذبہ ایمان کے ساتھ دونوں جہاں میں یہ اعلان کرتا رہے کہ ؎
اللہ کی سر تا بقدم شا ن ہیں یہ ان سا نہیں انسان وہ انسان ہیں یہ
قرآن تو ایمان بتاتا ہے انہیں ایمان یہ کہتا ہے مری جان ہیں یہ
اور شاید ان لوگوں کو بھی اس سے کچھ عبرت حاصل ہو جنہوں نے سیرت نبویہ کے موضوع پر قلم گھس کر اور کاغذ سیاہ کرکے سرور انبیاء، محبوب کبریا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس پیغمبرانہ زندگی کو ایک عام انسان کے روپ میں پیش کیا ہے اور بار بار اپنے اس مکروہ نظریہ اور گندے نصب العین کا اعلان کرتے رہتے ہیں کہ پیغمبر خدا کی سیرت میں ایسے کمالات کا ذکر نہیں کرنا چاہیے جس سے لوگ پیغمبر اسلام کو عام انسانوں کی سطح سے اونچاسمجھنے لگیں۔ (والعیاذ باﷲ)
بہر حال اس پر تمام اہل حق کا اجماع و اتفاق ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے تمام انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام کو جن جن معجزات سے سرفراز فرمایا ہے ان تمام معجزات کو حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ذات والاصفات میں جمع فرما دیا ہے اور ان کے علاوہ بے شمار ایسے معجزات سے بھی حضرت حق جل جلالہ نے اپنے آخری پیغمبر، شفیع محشر صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو ممتاز فرمایا جو آپ کے خصائص کہلاتے ہیں۔ یعنی یہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے وہ کمالات و معجزات ہیں جو کسی نبی و رسول کو نہیں عطا کئے گئے مثلاً۔"
" (۱)آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا پیدائش کے اعتبار سے ''اول الانبیاء'' ہونا جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ کَانَ نَبِیًّا وَّ اٰدَمُ بَیْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ یعنی حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اس وقت شرف نبوت سے سرفراز ہو چکے تھے جب کہ حضرت آدم علیہ السلام جسم و روح کی منزلوں سے گزر رہے تھے۔(1)(زرقانی علی المواہب جلد۵ ص۲۴۲)
(۲)آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا خاتم النبیین ہونا۔
(۳)تمام مخلوق آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے لئے پیدا ہوئی۔
(۴)آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا مقدس نام عرش اور جنت کی پیشانیوں پر تحریر کیا گیا۔
(۵)تمام آسمانی کتابوں میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بشارت دی گئی۔
(۶)آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت کے وقت تمام بت اوندھے ہو کر گر پڑے۔
(۷)آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا شق صدر ہوا۔
(۸)آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو معراج کا شرف عطا کیا گیا اور آپ کی سواری کے لئے براق پیدا کیا گیا۔
(۹)آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی کتاب تبدیل و تحریف سے محفوظ کر دی گئی اور قیامت تک اس کی بقاء و حفاظت کی ذمہ داری اﷲ تعالیٰ نے اپنے ذمہ کرم پر لے لی۔
(۱۰)آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو آیۃ الکرسی عطا کی گئی۔
(۱۱)آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو تمام خزائن الارض کی کنجیاں عطا کر دی گئیں۔"
1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،الفصل الرابع مااختص بہ...الخ،ج۷،ص ۱۸۶
" (۱۲)آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو جوامع الکلم کے معجزہ سے سرفراز کیا گیا۔
(۱۳) آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو رسالت عامہ کے شرف سے ممتاز کیا گیا۔
(۱۴)آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تصدیق کے لئے معجزہ شق القمر ظہور میں آیا۔
(۱۵)آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے لئے اموال غنیمت کو اﷲ تعالیٰ نے حلال فرمایا۔
(۱۶)تمام روئے زمین کو اﷲ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے لئے مسجد اور پا کی حاصل کرنے (تیمم) کا سامان بنا دیا۔
(۱۷) آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعض معجزات(قرآن مجید)قیامت تک باقی رہیں گے۔
(۱۸)اﷲ تعالیٰ نے تمام انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کو ان کا نام لے کر پکارا مگر آپ کو اچھے اچھے القاب سے پکارا۔
(۱۹)اﷲ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو ''حبیب اﷲ'' کے معزز لقب سے سر بلند فرمایا۔
(۲۰)اﷲ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی رسالت، آپ کی حیات،آپ کے شہر،آپ کے زمانے کی قسم یاد فرمائی۔
(۲۱)آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تمام اولاد آدم کے سردار ہیں۔
(۲۲) آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اﷲ تعالیٰ کے دربار میں ''اکرم الخلق'' ہیں۔
(۲۳) قبر میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ذات کے بار ے میں منکر و نکیر سوال کریں گے۔
(۲۴) آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعد آپ کی ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے ساتھ نکاح کرنا حرام ٹھہرایا گیا۔"
" (۲۵)ہر نمازی پر واجب کر دیا گیا کہ بحالت نماز اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ کہہ کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو سلام کرے۔
(۲۶)اگر کسی نمازی کو بحالت نماز حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پکاریں تو وہ نماز چھوڑ کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی پکار پر دوڑ پڑے یہ اس پر واجب ہے اورایسا کرنے سے اس کی نماز فاسد بھی نہیں ہو گی۔
(۲۷)اﷲ تعالیٰ نے اپنی شریعت کا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو مختار بنا دیا ہے، آپ جس کے لئے جو چاہیں حلال فرما دیں اور جس کے لئے جو چاہیں حرام فرما دیں۔
(۲۸)آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے منبر اور قبر انور کے درمیان کی زمین جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔
(۲۹)صور پھونکنے پر سب سے پہلے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اپنی قبر انور سے باہر تشریف لائیں گے۔
(۳۰)آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو مقام محمود عطا کیا گیا۔
(۳۱) آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو شفاعت کبریٰ کے اعزاز سے نوازا گیا۔
(۳۲) آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو قیامت کے دن ''لواء الحمد'' عطا کیا گیا۔
(۳۳) آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔
(۳۴) آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو حوض کوثر عطا کیا گیا۔
(۳۵) قیامت کے دن ہر شخص کا نسب و تعلق منقطع ہو جائے گا مگر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا نسب و تعلق منقطع نہیں ہو گا۔
(۳۶)آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی نبی کے پاس حضرت اسرافیل علیہ السلام نہیں اترے۔"
" (۳۷)آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دربار میں بلند آواز سے بولنے والے کے اعمال صالحہ برباد کردئیے جاتے ہیں۔
(۳۸)آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو حجروں کے باہر سے پکارنا حرام کر دیا گیا۔
(۳۹)آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ادنیٰ سی گستاخی کرنے والے کی سزا قتل ہے۔
(۴۰)آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو تمام انبیاء علیہم السلام سے زیادہ معجزات عطا کئے گئے۔ (1)
(فہرست زرقانی علی المواہب جلد۵)"
1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،الفصل الرابع مااختص بہ...الخ،ج۷،ص۱۸۵۔۳۸۸
" ہم غریبوں کے آقا پہ بے حد درود
ہم فقیروں کی ثروت پہ لاکھوں سلام"
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی امت کی ہدایت واصلاح اور ان کی صلاح و فلاح کے لئے جیسی جیسی تکلیفیں برداشت فرمائیں اور اس راہ میں آپ کو جو جو مشکلات درپیش ہوئیں ان کا کچھ حال آپ اس کتاب میں پڑھ چکے ہیں۔ پھر آپ کو اپنی امت سے جو بے پناہ محبت اور اسکی نجات و مغفرت کی فکر اور ایک ایک امتی پر آپ کی شفقت و رحمت کی جو کیفیت ہے اس پر قرآن میں خداوند قدوس کا فرمان گواہ ہے کہ
لَقَدْ جَآءَکُمْ رَسُوۡلٌ مِّنْ اَنۡفُسِکُمْ عَزِیۡزٌ عَلَیۡہِ مَاعَنِتُّمْ حَرِیۡصٌ عَلَیۡکُمۡ بِالْمُؤْمِنِیۡنَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۲۸﴾ (1)
"بے شک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پربہت ہی نہایت ہی رحم فرمانے والے ہیں۔(سورہ توبہ)
پوری پوری راتیں جاگ کر عبادت میں مصروف رہتے اور امت کی مغفرت کے لئے دربار باری میں انتہائی بے قراری کے ساتھ گریہ و زاری فرماتے رہتے۔ یہاں تک کہ کھڑے کھڑے اکثر آپ کے پائے مبارک پر ورم آ جاتا تھا۔
ظاہر ہے کہ حضور سرور انبیاء، محبوب کبریا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی امت کے"
1۔۔۔۔۔۔پ۱۱،التوبۃ:۱۲۸
"لئے جو جومشقتیں اٹھائیں ان کا تقاضا ہے کہ امت پر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے کچھ حقوق ہیں جن کو ادا کرنا ہر امتی پرفرض و واجب ہے۔
حضرت علامہ قاضی عیاض رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ نے آپ کے مقدس حقوق کو اپنی کتاب ''شفاء شریف'' میں بہت ہی مفصل طورپر بیان فرمایا۔ ہم یہاں انتہائی اختصار کے ساتھ اس کا خلاصہ تحریر کرتے ہوئے مندرج ذیل آٹھ حقوق کا ذکرکرتے ہیں۔
(۱) ایمان بالرسول (۲) اتباع ِسنت رسول
(۳)اطاعتِ رسول (۴)محبتِ رسول
(۵)تعظیم ِرسول (۶)مدح رسول
(۷)درود شریف (۸)قبرانور کی زیارت(1)"
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت پر ایمان لانا اور جو کچھ آپ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے لائے ہیں، صدق دل سے اس کو سچا ماننا ہر ہر امتی پر فرض عین ہے اور ہر مومن کا اس پر ایمان ہے کہ بغیر رسول پر ایمان لائے ہوئے ہر گز ہرگز کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا قرآن میں خداوند عالم جل جلالہ کا فرمان ہے کہ
وَ مَنۡ لَّمْ یُؤْمِنۡۢ بِاللہِ وَ رَسُوۡلِہٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْکٰفِرِیۡنَ سَعِیۡرًا ﴿۱۳﴾ (2)
"جو اﷲ اوراسکے رسول پر ایمان نہ لایاتو یقینا ہم نے کافروں کیلئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔(فتح)
اس آیت نے نہایت وضاحت اور صفائی کے ساتھ یہ فیصلہ کر دیا کہ جو لوگ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت پر ایمان نہیں لائیں گے وہ اگرچہ خدا کی توحید کا عمر"
"1۔۔۔۔۔۔الشفاء بتعریف حقوق المصطفی،القسم الثانی فیمایجب علی الانام...الخ،الجزء الثانی،ص۲
2۔۔۔۔۔۔پ۲۶،الفتح:۱۳"
بھر ڈنکا بجاتے رہیں مگر وہ کافر اور جہنمی ہی رہیں گے۔ اس لئے اسلام کا بنیادی کلمہ یعنی کلمۂ طیبہ
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ
ہے، یعنی مسلمان ہونے کے لئے خدا کی توحید اور رسول کی رسالت دونوں پر ایمان لانا ضروری ہے۔(1)
حضوراقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ اور آپ کی سنت مقدسہ کی اتباع اور پیروی ہر مسلمان پر واجب و لازم ہے۔ رب العزت جل جلالہ کا فرمان ہے کہ
قُلْ اِنۡ کُنۡتُمْ تُحِبُّوۡنَ اللہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحْبِبْکُمُ اللہُ وَ یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوۡبَکُمْ ؕ وَاللہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۳۱﴾ (2)
"(اے رسول)فرما دیجئے کہ اگرتم لوگ اﷲ سے محبت کرتے ہو تومیری اتباع کرواﷲ تم کواپنا محبوب بنا لے گااورتمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور اﷲ بہت زیادہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔(آل عمران)
اسی لئے آسمان امت کے چمکتے ہوئے ستارے، ہدایت کے چاند تارے، اﷲ و رسول کے پیارے صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم آپ کی ہر سنت کریمہ کی اتباع اور پیروی کو اپنی زندگی کے ہر دم قدم پر اپنے لئے لازم الایمان اور واجب العمل سمجھتے تھے اور بال برابر بھی کبھی کسی معاملہ میں بھی اپنے پیارے رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس سنتوں سے انحراف یا ترک گوارا نہیں کر سکتے تھے۔(3)"
"1۔۔۔۔۔۔الشفاء بتعریف حقوق المصطفی،القسم الثانی فیمایجب علی الانام...الخ،الباب
الاول فی فرض الایمان بہ...الخ، الجزء الثانی،ص۲۔۳ملخصاً
2۔۔۔۔۔۔پ۳،ال عمرٰن:۳۱
3۔۔۔۔۔۔الشفاء بتعریف حقوق المصطفی،القسم الثانی فیمایجب علی الانام...الخ،الباب الاول فی
فرض الایمان بہ...الخ، فصل واماوجوب...الخ،الجزء الثانی،ص۸۔۹ملخصاً"
امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنی وفات سے صرف چند گھنٹے پہلے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے دریافت کیا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے کفن مبارک میں کتنے کپڑے تھے اور آپ کی وفات کس دن ہوئی؟ اس سوال کی وجہ یہ تھی کہ آپ کی یہ انتہائی تمنا تھی کہ زندگی کے ہر ہر لمحات میں تو میں نے اپنے تمام معاملات میں حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مبارک سنتوں کی مکمل طور پراتباع کی ہے۔ مرنے کے بعد کفن اور وفات کے دن میں بھی مجھے آپ کی اتباعِ سنت نصیب ہو جائے۔
(1) (بخاری جلد۱ ص۱۸۶ باب موت یوم الاثنین)
" ایک مرتبہ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا گزر ایک ایسی جماعت پر ہوا جس کے سامنے کھانے کے لئے بھنی ہوئی مسلّم بکری رکھی ہوئی تھی۔ لوگوں نے آپ کو کھانے کے لئے بلایا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ کہہ کرکھانے سے انکار کر دیا کہ حضور نبی کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم دنیا سے تشریف لے گئے اور کبھی جو کی روٹی پیٹ بھر کر نہ کھائی میں بھلا ان لذیذ اور پر تکلف کھانوں کو کھانا کیونکر گوارا کر سکتا ہوں۔(2)
(مشکوٰۃ جلد۱ ص۴۴۶ باب فضل الفقرا ء)"
منقول ہے کہ حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا مکان مسجد نبوی سے ملا ہوا تھا اور اس مکان کاپرنالہ بارش میں انے جانے والے نمازیوں کے اوپرگراکرتاتھا۔امیرالمؤمنین
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب الجنائز،باب موت یوم الاثنین،الحدیث:۱۳۸۷،ج۱،ص۴۶۸
2۔۔۔۔۔۔مشکوۃ المصابیح،کتاب الرقاق،باب فضل الفقراء...الخ،الحدیث:۵۲۳۸،ج۲،ص۲۵۴"
"حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس پرنالہ کو اکھاڑ دیا ۔حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ آپ کے پاس آئے اور کہا کہ خدا کی قسم! اس پرنالہ کو رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے میری گردن پر سوار ہو کر اپنے مقدس ہاتھوں سے لگایا تھا۔ یہ سن کر امیر المؤمنین نے فرمایا کہ اے عباس! مجھے اسکا علم نہ تھا اب میں آپ کو حکم دیتا ہوں کہ آپ میری گردن پر سوار ہو کر اس پر نالہ کو پھر اسی جگہ لگا دیجئے چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔(1)
(وفاء الوفا جلد۱ ص۳۴۸)"
یہ بھی ہر امتی پر رسول خد ا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا حق ہے کہ ہر امتی ہر حال میں آپ کے ہرحکم کی اطاعت کرے اورآپ جس بات کاحکم دے دیں بال کے کروڑویں حصہ کے برابر بھی اس کی خلاف ورزی کا تصور بھی نہ کرے کیونکہ آپ کی اطاعت اور آپ کے احکام کے آگے سر تسلیم خم کر دینا ہر امتی پر فرض عین ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد خداوندی ہے کہ
"(1)اَطِیۡعُوا اللہَ وَاَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ
(2)"
حکم مانو اللہ کااور حکم مانو رسول کا ۔(نساء)
(2) مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ(3)
جس نے رسول کاحکم مانابے شک اس نے اﷲ کا حکم مانا۔(نساء)
"1۔۔۔۔۔۔وفاء الوفاء باخباردارالمصطفی،الباب الثالث،الفصل الثانی عشرفی زیادۃعمر...الخ،
ج۱، ص ۴۸۶ملتقطاً
2۔۔۔۔۔۔ پ۵،النساء:۵۹
3۔۔۔۔۔۔پ۵،النساء:۸۰"
(۳)وَمَنۡ یُّطِعِ اللہَ وَالرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیۡقِیۡنَ وَالشُّہَدَآءِ وَالصّٰلِحِیۡنَ ۚ وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا ﴿ؕ۶۹﴾ (1)
"اورجواﷲ اوراس کے رسول کاحکم مانے تو اسے ان کا ساتھ ملے گا جن پر اﷲ نے انعام فرمایا یعنی انبیاء اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ یہ کیا ہی اچھے ساتھی ہیں۔(نساء)
قرآن مجید کی یہ مقدس آیات اعلان کر رہی ہیں کہ اطاعتِ رسول کے بغیر اسلام کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا اور اطاعت رسول کرنے والوں ہی کے لئے ایسے ایسے بلند درجات ہیں کہ وہ حضرات انبیاء و صدیقین اور شہداء و صالحین کے ساتھ رہیں گے۔
ہر امتی کے لئے اطاعت رسول کی کیا شان ہونی چاہیے اس کا جلوہ دیکھنا ہو تو اس روایت کو بغور پڑھئیے۔"
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما نے روایت کی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ سونے کی انگوٹھی پہنے ہوئے ہے۔آپ نے اس کے ہاتھ سے انگوٹھی نکال کر پھینک دی اور فرمایا کہ کیا تم میں سے کوئی چاہتا ہے کہ آگ کے انگارہ کو اپنے ہاتھ میں ڈالے؟ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے تشریف لے جانے کے بعد لوگوں نے اس شخص سے کہا کہ تو اپنی انگوٹھی کو اٹھا لے اور( اس کو بیچ کر) اس سے نفع اٹھا۔ تو اس نے جواب دیا کہ خدا کی قسم!جب رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس انگوٹھی کو پھینک دیا تو اب میں اس انگوٹھی کو کبھی بھی نہیں اٹھا سکتا۔( اور وہ اس کو چھوڑ کر چلا گیا) (2)(مشکوٰۃ جلد۲ ص۳۷۸ باب الخاتم)
"1۔۔۔۔۔۔پ۵،النساء:۶۹
2۔۔۔۔۔۔مشکاۃ المصابیح،کتاب اللباس،باب الخاتم،الحدیث:۴۳۸۵،ج۲،ص۱۲۳"
اسی طرح ہر امتی پر رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا حق ہے کہ وہ سارے جہان سے بڑھ کر آپ سے محبت رکھے اور ساری دنیا کی محبوب چیزوں کو آپ کی محبت کے قدموں پر قربان کر دے ۔خداوند قدوس جل جلالہ کا فرمان ہے کہ
قُلْ اِنۡ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَاَبْنَآؤُکُمْ وَ اِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیۡرَتُکُمْ وَ اَمْوَالُۨ اقْتَرَفْتُمُوۡہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَہَاۤ اَحَبَّ اِلَیۡکُمۡ مِّنَ اللہِ وَرَسُوۡلِہٖ وَجِہَادٍ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ فَتَرَبَّصُوۡا حَتّٰی یَاۡتِیَ اللہُ بِاَمْرِہٖ ؕ وَاللہُ لَایَہۡدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیۡنَ ﴿٪۲۴﴾
"(اے رسول)آپ فرمادیجئے اگرتمہارے باپ اورتمہارے بیٹے اورتمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈرہے اورتمہارے پسندیدہ مکان یہ چیزیں اﷲ اور اسکے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو یہاں تک کہ اﷲ اپنا حکم لائے اور اﷲ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔ ( توبہ)
اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر مسلمان پر اﷲ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی محبت فرض عین ہے کیونکہ اس آیت کا حاصل مطلب یہ ہے کہ اے مسلمانو! جب تم ایمان لائے ہو اور اﷲ و رسول کی محبت کا دعویٰ کرتے ہو تو اب اس کے بعد اگر تم لوگ کسی غیر کی محبت کو اﷲ و رسول کی محبت پر ترجیح دو گے تو خوب سمجھ لو کہ تمہارا ایمان اور اﷲ و رسول کی محبت کا دعویٰ بالکل غلط ہو جائے گا اور تم عذاب الٰہی اور قہر خداوندی سے نہ بچ سکوگے۔"
1۔۔۔۔۔۔پ۱۰،التوبۃ:۲۴
"نیز آیت کے آخری ٹکڑے سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جس کے دل میں اﷲ و رسول کی محبت نہیں یقینا بلا شبہ اس کے ایمان میں خلل ہے۔
حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں۔(1)
(بخاری جلد۱ ص۷ باب حب الرسول)
حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کو حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے کتنی والہانہ محبت تھی اگر آپ کو اس کی تجلیوں کانظارہ کرناہے تومندرجہ ذیل واقعات کو عبرت کی نگاہوں سے دیکھئے اور عبرت حاصل کیجئے۔"
آپ جنگ ِ اُحد کے بیان میں پڑھ چکے ہیں کہ شیطان نے بے پرکی یہ خبر اڑا دی کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم شہید ہو گئے۔ یہ ہولناک خبر جب مدینہ منورہ میں پہنچی تو وہاں کی زمین دہل گئی یہاں تک کہ وہاں کی پردہ نشین عورتوں کے دل و دماغ میں صدمات غم کا بھونچال آ گیا اور قبیلہ بنی دینار کی ایک عورت اپنے جذبات سے مغلوب ہو کر اپنے گھرسے نکل پڑی اورمیدان جنگ کی طرف چل پڑی راستے میں اس کو اپنے باپ اوربھائی اور شوہر کی شہادت کی خبر ملی مگر اس نے اس کی کوئی پروا نہیں کی اور لوگوں سے یہی پوچھتی رہی کہ مجھے یہ بتاؤ کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کیسے ہیں؟ جب اسے بتایا گیا کہ الحمد ﷲ!آپ ہر طرح بخیریت ہیں تواس سے اس بڑھیا کی تسلی نہیں ہوئی
1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب الایمان،باب حب الرسول من الایمان،الحدیث:۱۵،ج۱،ص۱۷
"اور کہنے لگی کہ تم لوگ مجھے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا دیدار کرا دو۔ جب لوگوں نے اس کو رحمت عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے قریب لے جا کر کھڑا کر دیا اور اس نے جمال نبوت کو دیکھا تو بے اختیار اس کی زبان سے یہ جملہ نکل پڑا کہ کُلُّ مُصِیْبَۃٍ بَعْدَکَ جَلَلٌ آپ کے ہوتے ہوئے ہر مصیبت ہیچ ہے ۔(1)(سیرۃ ابن ہشام جلد۳ ص۹۹ مطبوعہ مصر)
بڑھ کر اُس نے رُخِ انور کو جو دیکھا تو کہا!
توسلامت ہے تو پھر ہیچ ہیں سب رنج و الم
میں بھی اور باپ بھی شوہر بھی برادر بھی فدا
اے شہہ دیں!ترے ہوتے کیا چیز ہیں ہم"
حضرت ثمامہ بن اثال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ایمان لا کر کہنے لگے کہ اے محمد( صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) خدا کی قسم!پہلے میرے نزدیک روئے زمین پر کوئی چہرہ آپ کے چہرہ سے زیادہ مبغوض نہیں تھالیکن آج آپ کا وہی چہرہ مجھے سب چہروں سے زیادہ محبوب ہے۔ خدا کی قسم!میرے نزدیک کوئی دین آپ کے دین سے زیادہ مبغوض نہ تھا۔ مگر اب آپ کا وہی دین میرے نزدیک سب دینوں سے زیادہ محبوب ہے۔ خداکی قسم! میرے نزدیک کوئی شہر آپ کے شہر سے زیادہ مبغوض نہ تھا۔ لیکن اب آپ کا وہی شہر میرے نزدیک تمام شہروں سے زیادہ محبوب ہے۔ (2)(بخاری جلد۲ ص۶۲۷ باب وفد بنی حنیفہ)
حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی وفات کا وقت آیا تو ان کی بیوی نے غم سے نڈھال
"1۔۔۔۔۔۔السیرۃ النبویۃلابن ھشام،غزوۃاحد،شان عاصم بن ثابت،ص۳۴۰ملخصاً
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب وفدبنی حنیفۃ...الخ،الحدیث:۴۳۷۲،ج۳،ص۱۳۱"
ہو کر کہا کہ''وا حزناہ'' (ہائے رے غم) یہ سن کر حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے بستر موت پر تڑپ کر کہا کہ
وَا طَرَبَاہُ غَدًا اَلْقَی الْاَحِبَّۃَ مُحَمَّدًا وَّحِزْبَہٗ (1)(زرقانی علی المواہب)
واہ رے خوشی میں کل تمام دوستوں سے یعنی محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب سے ملوں گا۔
حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے کسی نے سوال کیا کہ آپ کو رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے کتنی محبت ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ خدا کی قسم!حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہمارے مال،ہماری اولاد،ہمارے باپ ،ہماری ماں اورسخت پیاس کے وقت پانی سے بھی بڑھ کر ہمارے نزدیک محبوب ہیں۔(2)(شفاء شریف جلد۲ ص۱۸)
حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا پاؤں سن ہو گیا۔ لوگوں نے ان کو اس مرض کے علاج کے طور پر یہ عمل بتایا کہ تمام دنیا میں آپ کو سب سے زائد جس سے محبت ہواس کو یاد کرکے پکارئیے یہ مرض جاتا رہے گا۔ یہ سن کر آپ نے''یامحمداہ'' کا نعرہ مارا اور آپ کا پاؤں اچھا ہو گیا۔(3)(شفاء شریف جلد۲ ص۱۸)
"1۔۔۔۔۔۔الشفاء بتعریف حقوق المصطفی،القسم الثانی فیمایجب علی الانام...الخ،الباب
الثانی،فصل فیماروی عن السلف والائمۃ،الجزء الثانی،ص۲۳
2۔۔۔۔۔۔الشفاء بتعریف حقوق المصطفی،القسم الثانی،الباب الاول،فصل فیماروی عن السلف
والائمۃ،الجزء الثانی،ص۲۲
3۔۔۔۔۔۔الشفاء بتعریف حقوق المصطفی،القسم الثانی،الباب الاول،فصل فیماروی عن السلف
والائمۃ،الجزء الثانی،ص۲۳"
" حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کابیان ہے کہ ایک درزی نے حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی دعوت کی میں بھی ساتھ میں تھا۔ جوکی روٹی اور شوربا آپ کے سامنے لایا گیا جس میں خشک گوشت کی بوٹیاں اور کدو کے ٹکڑے پڑے ہوئے تھے۔میں نے دیکھا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پیالے کے اطراف سے کدو کے ٹکڑے تلاش کرکے تناول فرماتے تھے۔ اسی لئے میں اس دن سے کدو کو ہمیشہ محبوب رکھتا ہوں۔(1)
(بخاری جلد۲ ص۸۱۷ باب المرق)
منقول ہے کہ حضرت امام ابو یوسف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (شاگرد امام ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ) کے سامنے اس روایت کا ذکر آیا کہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو کدو بہت زیادہ پسند تھا۔ اس مجلس میں ایک شخص نے کہہ دیا کہ''اَنَامَااُحِبُّہ،'' (میں تو اس کو پسند نہیں کرتا) یہ سن کر حضرت امام ابو یوسف نے تلوار کھینچ لی اور فرمایا کہ جَدِّدِ الْاِسْلَامَ وَاِلَّا قَتَلْتُکَ (2)اپنے ایمان کی تجدید کرو ورنہ میں تجھ کو قتل کر ڈالوں گا۔ (مرقاۃ شرح مشکوٰۃ ج۲ ص۷۷)"
عبدہ بنت خالد بن معدان کا بیان ہے کہ ہر رات حضرت خالد بن معدان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جب اپنے بستر پر لیٹتے تو انتہائی شوق و اشتیاق کے ساتھ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کبار،مہاجرین و انصار کو نام لے لے کر یاد کرتے اور یہ دعا مانگتے کہ یا اﷲ! میرا دل ان حضرات کی محبت میں بے قرار ہے اورمیرا اشتیاق اب حد
"1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب الاطعمۃ،باب المرق،الحدیث:۵۴۳۶،ج۳،ص۵۳۷
2۔۔۔۔۔۔شرح ا لشفاء للقاضی عیاض،القسم الثانی،الباب الثانی،فصل فی علامۃمحبتہ صلی اللہ علیہ وسلم ج۲، ص۵۱
1"
"سے بڑھ چکا ہے لہٰذا تو مجھے جلد وفات دے کر ان لوگوں کے پاس پہنچا دے۔ یہی کہتے کہتے ان کو نیند آ جاتی تھی۔ اﷲ اکبر ؎ (1) (شفاء شریف جلد۲ ص۱۷)
میں سو جاؤں یامصطفی کہتے کہتے کھلے آنکھ صل علیٰ کہتے کہتے"
" واضح رہے کہ محبتِ رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا دعویٰ کرنے والے تو بہت لوگ ہیں۔ مگر یاد رکھئے کہ اس کی چند نشانیاں ہیں جن کو دیکھ کر اس بات کی پہچان ہوتی ہے کہ واقعی اس کے دل میں محبت رسول کا چراغ روشن ہے۔ ان علامتوں میں سے چند یہ ہیں۔
(۱)آپ کے اقوال و افعال کی پیروی، آپ کی سنتوں پر عمل، آپ کے اوامرو نواہی کی فرمانبرداری، غرض شریعت مطہرہ پر پورے طور سے عامل ہو جانا۔
(۲)آپ کا ذکر شریف بکثرت کرنا، بہت زیادہ درود شریف پڑھنا، آپ کے ذکر کی مجالس مقدسہ مثلاًمیلادشریف اوردینی جلسوں کاشوق اوران مجالس مبارکہ میں حاضری۔
(۳)حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور تمام ان لوگوں اوران چیزوں سے محبت اور ان کا ادب و احترام جن کورسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے نسبت وتعلق حاصل ہے۔ مثلاً صحابہ کرام، ازواجِ مطہرات،اہل بیت اطہار رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین،شہر مدینہ،قبرانور،مسجد نبوی، آپ کے آثارشریفہ و مشاہد مقدسہ، قرآن مجید و احادیث مبارکہ، سب کی تعظیم و توقیر اور ان کا ادب و احترام کرنا۔
(۴)حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے دوستوں سے دوستی اور ان کے دشمنوں یعنی بددینوں، بد مذہبوں سے دشمنی رکھنا۔"
1۔۔۔۔۔۔الشفاء بتعریف حقوق المصطفی ، فصل فیما روی عن السلف والائمۃ...الخ ،ج۲، ص ۲۱
(۵)دنیا سے بے رغبتی اور فقیری کو مالداری سے بہتر سمجھنا۔ اس لئے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ مجھ سے محبت کرنے والے کی طرف فقر و فاقہ اس سے بھی زیادہ جلدی پہنچتا ہے جیسے کہ پانی کا سیلاب اپنے منتہٰی کی طرف۔(1) (ترمذی جلد۲ ص۵۸ ابواب الزہد)
اُمت پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حقوق میں ایک نہایت ہی اَہم اور بہت ہی بڑا حق یہ بھی ہے کہ ہر امتی پر فرض عین ہے کہ حضوراکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور آپ سے نسبت و تعلق رکھنے والی تمام چیزوں کی تعظیم و توقیر اور ان کا ادب و احترام کرے اور ہرگزہرگزکبھی ان کی شان میں کوئی بے ادبی نہ کرے۔ احکم الحاکمین جل جلالہٗ کا فرمان والا شان ہے کہ
اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیۡرًا ۙ﴿۸﴾لِّتُؤْمِنُوۡا بِاللہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ تُعَزِّرُوۡہُ وَ تُوَقِّرُوۡہُ ؕ وَ تُسَبِّحُوۡہُ بُکْرَۃً وَّ اَصِیۡلًا ﴿۹﴾ (2)
بے شک ہم نے تمہیں (اے رسول) بھیجا حاضر و ناظر اور خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا تا کہ اے لوگو! تم اﷲ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اﷲ کی پاکی بولو۔(فتح)
حضرت علامہ قاضی عیاض رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ اس بات پرتمام علماء امت کا اجماع ہے کہ
"1۔۔۔۔۔۔سنن الترمذی ،کتاب الزھد ،باب ماجاء فی فضل الفقر ، الحدیث:۲۳۵۷،ج۴، ص ۱۵۶
2۔۔۔۔۔۔پ۲۶،الفتح:۸،۹"
" حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو گالی دینے والا یا ان کی ذات،ان کے خاندان، اُن کے دین،ان کی کسی خصلت میں نقص بتانے والا یا اس کی طرف اشارہ کنایہ کرنے والا یا حضور کو بدگوئی کے طریقے پر کسی چیزسے تشبیہ دینے والا یا آپ کو عیب لگانے والا یا آپ کی شان کو چھوٹی بتانے والا یا آپ کی تحقیر کرنے والا بادشاہ اسلام کے حکم سے قتل کر دیا جائے گا۔ اسی طرح حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر لعنت کرنے والا یا آپ کے لئے بددعا کرنے والا یا آپ کی طرف کسی ایسی بات کی نسبت کرنے والا جو آپ کے منصب کے لائق نہ ہو یا آپ کے لئے کسی مضرت کی تمنا کرنے والا یا آپ کی مقدس جناب میں کوئی ایسا کلام بولنے والا جس سے آپ کی شان میں استخفاف ہوتا ہو یا کسی آزمائش یا امتحان کی باتوں سے آپ کو عار دلانے والا بھی سلطان اسلام کے حکم سے قتل کر دیا جائے گا۔ اور وہ مرتد قرار دیا جائے گا اور اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی اور اس مسئلہ میں علماء امصار اور سلف صالحین کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ایسا شخص کافر قرار دے کر قتل کر دیا جائے گا۔ محمدبن سحنون علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی شان میں بدزَبانی کرنے والا اور آپ کی تنقیص کرنے والا کافر ہے اور جو اس کے کفر اور عذاب میں شک کرے وہ بھی کافر ہے اور توہین رسالت کرنے والے کی دنیامیں یہ سزا ہے کہ وہ قتل کر دیاجائے گا۔(1) (شفاء شریف جلد۲ ص۱۸۹ و ص۱۹۰)
اسی طرح حضرت علامہ قاضی عیاض رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلقین یعنی آپ کے اصحاب، آپ کے اہل بیت، آپ کی ازواج مطہرات وغیرہ کو گالی دینے والے کے بارے میں فرمایا کہ"
1۔۔۔۔۔۔الشفاء بتعریف حقوق المصطفی،الباب الاول فی بیان ماہوفی حقہ...الخ، ج۲، ص ۲۱۴، ۲۱۶
" حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اہل بیت و آپ کی ازواج مطہرات اور آپ کے اصحاب کو گالی دینا یا انکی شان میں تنقیص کرنا حرام ہے اور ایسا کرنے والا ملعون ہے۔ (1)
(شفاء شریف جلد۲ ص۲۶۶)
یہی و جہ ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا اس قدر ادب و احترام کرتے تھے اور آپ کی مقدس بارگاہ میں اتنی تعظیم و تکریم کا مظاہرہ کرتے تھے کہ حضرت عروہ بن مسعود ثقفی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جب کہ مسلمان نہیں ہوئے تھے اور کفار مکہ کے نمائندہ بن کر میدان حدیبیہ میں گئے تھے تو وہاں سے واپس آ کر انہوں نے کفار کے مجمع میں علی الاعلان یہ کہا تھا کہ
اے میری قوم! میں نے بادشاہ رُوم قیصر اور بادشاہ فارس کسریٰ اور بادشاہ حبشہ نجاشی سب کا دربار دیکھا ہے مگر خدا کی قسم! میں نے کسی بادشاہ کے درباریوں کو اپنے بادشاہ کی اتنی تعظیم کرتے نہیں دیکھا جتنی تعظیم محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ) کے اصحاب محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی کرتے ہیں۔(2)(بخاری جلد۱ ص۳۸۰ باب الشروط فی الجہاد وغیرہ)
چنانچہ مندرجہ ذیل مثالوں سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے اصحاب کبار اپنے آقائے نامدار کے دربار میں کس قدر تعظیم و تکریم کے جذبات سے سرشار رہتے تھے۔"
حضرت امیر المؤمنین علی مرتضیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حاضرین مجلس کے ساتھ حضور
"1۔۔۔۔۔۔الشفاء بتعریف حقوق المصطفی ، فصل ومن سب آل بیتہ...الخ،ج۲، ص ۳۰۷
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب الشروط،باب الشروط فی الجھاد...الخ،الحدیث:۲۷۳۱،۲۷۳۲،
ج۲،ص۲۲۵"
"علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت مقدسہ کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ جس وقت آپ کلام فرماتے تھے توآپ کی مجلس میں بیٹھنے والے صحابہ کرام اس طرح سرجھکاکر خاموش اورسکون کے ساتھ بیٹھے رہاکرتے تھے کہ گویاانکے سروں پرپرندے بیٹھے ہوئے ہیں۔ جس وقت آپ خاموش ہو جاتے توصحابہ کرام گفتگو کرتے اورکبھی آپ کے سامنے کلام میں تنازعہ نہیں کرتے اور جو آپ کے سامنے کلام کرتا آپ توجہ کے ساتھ اس کے کلام کو سنتے رہتے یہاں تک کہ وہ خاموش ہو جاتا۔ (1)
(شمائل ترمذی ص۲۵ باب ماجاء فی خلق النبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)"
حضرت عمروبن العاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنے بسترموت پراپنے صاحبزادے سے اپنی زندگی کے تین دور کا تذکرہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ میری پہلی حالت یہ تھی کہ میں کفر کی حالت میں سب سے زیادہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا جانی دشمن تھا۔ اگر میں اس حالت میں مر جاتا تو یقینا میں دوزخی ہوتا۔ دوسری حالت مسلمان ہونے کے بعد تھی کہ کوئی شخص میرے نزدیک رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے زیادہ محبوب نہ تھااور میری آنکھوں میں آپ سے زیادہ عظمت و جلالت والا کوئی بھی نہ تھا ۔ اور میں آپ کی ہیبت کی و جہ سے آپ کی طرف نظر بھر کر دیکھ نہیں سکتا تھا۔ یہی و جہ ہے کہ اگر مجھ سے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا حلیہ دریافت کیا جائے تو میں اچھی طرح بیان نہیں کر سکتا اگر میں اس حال پر مر گیا تو مجھے امید ہے کہ میں اہل جنت میں سے ہوتا۔ تیسری حالت میری گورنری اور حکومت کی تھی جس میں مجھے اپنا حال معلوم نہیں۔ (2) (مسلم جلد۱ ص۷۶ باب کون الاسلام یہدم ماقبلہ)
"1۔۔۔۔۔۔الشمائل المحمدیۃ ،باب ماجاء فی خلق رسول اللہ ، الحدیث:۳۳۴،ص ۱۹۸
2۔۔۔۔۔۔صحیح مسلم ،کتاب الایمان ، باب کون الاسلام ...الخ، الحدیث:۱۲۱،ص ۷۴"
" امیر المؤمنین حضرت عثمان بن عفان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضرت قباث بن اُشیم سے پوچھا کہ تم بڑے ہو یا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم؟ انہوں نے کہا کہ بڑے تو رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہی ہیں مگر میری پیدائش حضور سے پہلے ہوئی ہے۔(1)
(ترمذی جلد۲ ص۲۰۲ باب ماجاء فی میلاد النبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)"
حضرت براء بن عازب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے کچھ دریافت کرنے کا ارادہ رکھتا تھا مگر کمالِ ادب اور آپ کی ہیبت سے برسوں دریافت نہیں کر سکتا تھا۔ (2) (شفاء شریف جلد۲ ص۳۲)
" حضوراقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ذات مقدسہ کے ادب و احترام کو حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اپنے ایمان کی جان سمجھتے تھے۔ بلکہ وہ چیزیں کہ جن کو آپ کی ذات والا سے کچھ تعلق و انتساب ہو ان کی تعظیم و توقیر کو بھی اپنے لئے لازم الایمان جانتے تھے۔ اسی طرح تابعین اور دوسرے سلف صالحین بھی آپ کے تبرکات کا بے حد احترام اور ان کا اعزاز و اکرام کرتے تھے۔ اس کی چند مثالیں ہم ذیل میں تحریر کرتے ہیں جو اہل ایمان کے لئے نہایت ہی عبرت خیز و نصیحت آموز ہیں۔
(۱)حضرت خالد بن ولید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی ٹوپی میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے چند"
"1۔۔۔۔۔۔سنن الترمذی،کتاب المناقب،باب ماجاء فی میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم،الحدیث: ۳۶۳۹،ج۵،ص۳۵۶
2۔۔۔۔۔۔الشفاء بتعریف حقوق المصطفی،فصل فی عادۃالصحابۃ فی تعظیمہ...الخ،ج۲،ص ۴۰"
"مقدس بال سلے ہوئے تھے۔ کسی جنگ میں ان کی ٹوپی سر سے گر پڑی تو آپ نے اتنا زبردست حملہ کر دیا کہ بہت سے مجاہدین شہید ہو گئے۔ آپ کے لشکر والوں نے ایک ٹوپی کے لئے اتنے شدید حملہ کو پسند نہیں کیا۔ لوگوں کا طعنہ سن کر آپ نے فرمایا کہ میں نے ٹوپی کے لئے یہ حملہ نہیں کیا تھا بلکہ میرے اس حملہ کی یہ و جہ تھی کہ میری اس ٹوپی میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے موئے مبارک ہیں مجھے یہ اندیشہ ہو گیا کہ میں ان کی برکتوں سے کہیں محروم نہ ہو جاؤں اور یہ کفار کے ہاتھوں میں نہ پہنچ جائیں اس لئے میں نے اپنی جان پر کھیل کر اس ٹوپی کو اٹھا کر ہی دم لیا۔(1) (شفاء شریف جلد۲ ص۴۴)
(۲)حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲتعالیٰ عنہما حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے منبر شریف پر جس جگہ آپ بیٹھتے تھے خاص اس جگہ پر اپنا ہاتھ پھرا کر اپنے چہرے پر مسح کیا کرتے تھے۔ (2) (شفاء شریف جلد۲ ص۴۴)
(۳)حضرت ابو محذورہ رضی اﷲتعالیٰ عنہ جو صحابی اور مسجد حرام کے مؤذن ہیں ان کے سر کے اگلے حصہ میں بالوں کا ایک جوڑا تھا۔ جب وہ زمین پر بیٹھتے اور اس جوڑے کو کھول دیتے تو بال زمین سے لگ جاتے تھے۔ کسی نے ان سے کہا کہ آپ ان بالوں کو منڈواتے کیوں نہیں؟ آپ نے جواب دیا کہ میں ان بالوں کو منڈوا نہیں سکتا کیونکہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے میرے ان بالوں کو اپنے دست مبارک سے مسح فرما دیا ہے۔(3)
(شفاء شریف جلد۲ ص۴۴)
(۴)حضرت ثابت بنانی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے حضرت انس بن مالک"
"1۔۔۔۔۔۔الشفاء بتعریف حقوق المصطفی ، فصل ومن اعظامہ واکبارہ...الخ ، ج۲، ص ۵۶،۵۷
2۔۔۔۔۔۔الشفاء بتعریف حقوق المصطفی،فصل ومن اعظامہ واکبارہ...الخ ،ج۲، ص ۵۷
3۔۔۔۔۔۔الشفاء بتعریف حقوق المصطفی،فصل ومن اعظامہ واکبارہ...الخ ،ج۲، ص ۵۶"
"صحابی رضی اﷲتعالیٰ عنہ نے یہ فرمائش کی کہ یہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا مقدس بال ہے میں جب مر جاؤں توتم اس کو میری زبان کے نیچے رکھ دینا۔ چنانچہ میں نے ان کی وصیت کے مطابق ان کی زبان کے نیچے رکھ دیا اور وہ اسی حالت میں دفن ہوئے۔(1) (اصابہ ترجمہ انس بن مالک)
اسی طرح حضرت عمر بن عبدالعزیز اموی خلیفہ عادل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی وفات کا وقت آیا تو انہوں نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے چند موئے مبارک اور ناخن دکھا کر لوگوں سے وصیت فرمائی کہ ان تبرکات کو آپ لوگ میرے کفن میں رکھ دیں۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ (2)(طبقات ابن سعد جلد۵ص۳۰۰)
(۵)حضرت امام شافعی رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ کا بیان ہے کہ حضرت امام مالک رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ نے مجھ کو چند گھوڑے عنایت فرمائے تو میں نے عرض کیا کہ ایک گھوڑا آپ اپنی سواری کے لئے رکھ لیجئے توآپ نے فرمایاکہ مجھ کوبڑی شرم آتی ہے کہ جس شہرکی زمین میں حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم آرام فرمارہے ہیں اس شہر کی زمین کومیں اپنی سواری کے جانور کے کھروں سے روندواؤں۔(چنانچہ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی زندگی بھر مدینہ ہی میں رہے مگرکبھی کسی سواری پرمدینہ منورہ میں سوار نہیں ہوئے۔ ) (3) (شفاء شریف ج۲ص۴۴)
(۶)حضرت احمد بن فضلویہ جن کا لقب زاہدہے، یہ بہت بڑے مجاہد تھے اور تیراندازی میں بہت ہی باکمال تھے۔ ان کا بیان ہے کہ جب سے مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے کمان بھی اُٹھائی ہے۔ اس وقت سے"
"1۔۔۔۔۔۔الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ ، انس بن مالک بن النضر ،ج۱،ص۲۷۶
2۔۔۔۔۔۔الطبقات الکبری لابن سعد ، عمربن عبدالعزیز،ج۵،ص۳۱۸
3۔۔۔۔۔۔الشفاء بتعریف حقوق المصطفی،فصل ومن اعظامہ واکبارہ...الخ ،ج۲، ص ۵۷"
"میں کمان کا اتنا ادب و احترام کرتا ہوں کہ بلا وضو کسی کمان کو ہاتھ نہیں لگاتا۔ (1)
(شفاء شریف جلد ۲ ص ۴۴)
(۷)حضرت امام مالک رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ کے سامنے کسی نے یہ کہہ دیا کہ ''مدینہ کی مٹی خراب ہے ''یہ سن کر حضرت امام موصوف نے یہ فتویٰ دیا کہ اس گستاخ کو تیس درے لگائے جائیں اوراس کو قید میں ڈال دیا جائے اور یہ بھی فرمایا کہ اس شخص کو قتل کر دینے کی ضرورت ہے جو یہ کہے کہ مدینہ کی مٹی اچھی نہیں ہے۔(2)(شفاء شریف جلد۲ ص۴۴)
(۸)ایک دن سقیفۂ بنی ساعدہ میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ رونق افروز تھے۔ آپ نے حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ ہمیں پانی پلاؤ۔ چنانچہ حضرت سہل بن سعد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ایک پیالہ میں آپ کو پانی پلایا۔ حضرت ابوحازم کا بیان ہے کہ ہم لوگ حضرت سہل بن سعد کے یہاں مہمان ہوئے تو انہوں نے وہی پیالہ ہمارے واسطے نکالا اور برکت حاصل کرنے کے لئے ہم لوگوں نے اسی پیالے میں پانی پیا۔ اس پیالہ کو حضرت عمر بن عبدالعزیز اموی خلیفہ عادل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضرت سہل بن سعد سے مانگ کر اپنے پاس رکھ لیا۔ (3)
(صحیح مسلم جلد۲ ص۱۶۹ باب اباحۃ النبیذالذی الخ)
(۹)جب بنوحنیفہ کا وفد بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا تو اس وفد میں حضرت سیار بن طلق یمامی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی تھے انہوں نے عرض کیا کہ یارسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) مجھے اپنے پیراہن شریف کا ایک ٹکڑا عنایت فرمائیے میں اس سے اپنا دل بہلایا کروں گا۔"
"1۔۔۔۔۔۔الشفاء بتعریف حقوق المصطفی،فصل ومن اعظامہ واکبارہ...الخ ،ج۲، ص ۵۷
2۔۔۔۔۔۔الشفاء بتعریف حقوق المصطفی،فصل ومن اعظامہ واکبارہ...الخ ،ج۲، ص ۵۷
3۔۔۔۔۔۔صحیح مسلم ،کتاب الاشربۃ ، باب اباحۃ النبیذ...الخ،الحدیث:۲۰۰۷،ص۱۱۱۲"
حضور نے ان کی درخواست منظور فرما کر ان کو پیراہن شریف کا ایک ٹکڑا دے دیا۔ ان کے پوتے محمد بن جابر کا بیان ہے کہ میرے والد کہتے تھے کہ وہ مقدس ٹکڑا برسہا برس ہمارے پاس تھا اور ہم اس کو دھوکر بغرض شفاء بیماروں کو پلایا کرتے تھے۔(1) (اصابہ ترجمہ سیار بن طلق)
" ایک صحابیہ حضرت کبشہ انصاریہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے گھر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تشریف لے گئے اور ان کی مشک کے منہ سے آپ نے اپنامنہ لگا کر پانی نوش فرما لیا تو حضرت کبشہ رضی اﷲتعالیٰ عنہا نے اس مشک کا منہ کاٹ کر تبرکاً اپنے پاس رکھ لیا ۔ (2)
(ابن ماجہ ص۲۵۳ باب الشرب قائماً)
(۱۱)حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس تلوار ''ذوالفقار'' حضرت زین العابدین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے پاس تھی۔ جب حضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد وہ مدینہ منورہ واپس آئے تو حضرت مسور بن مخرمہ صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ان سے کہا مجھے یہ خطرہ محسوس ہو رہا ہے کہ بنو امیہ آپ سے اس تلوار کو چھین لیں گے۔ اس لئے آپ مجھے وہ تلوار دے دیجئے جب تک میرے جسم میں جان ہے کوئی اِس کو مجھ سے نہیں چھین سکتا۔ (3) (بخاری جلد۱ ص۴۳۸ باب ما ذکر من درع النبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)"
"1۔۔۔۔۔۔الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،سیار بن طلق الیمامی ،ج۳، ص ۱۹۴
2۔۔۔۔۔۔سنن ابن ماجہ ،کتاب الاشربۃ، باب الشرب قائما،الحدیث:۳۴۲۳،ج۴، ص ۸۰
3۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب فرض الخمس،باب ماذکرمن درع النبی...الخ،الحدیث:
۳۱۱۰،ج۲،ص۳۴۴"
" ہر اُمتی پر یہ بھی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا حق ہے جس کو ادا کرنا امت پر لازم ہے کہ رسول اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مدح و ثنا کا ہمیشہ اعلان اور چرچا کرتے رہیں اور ان کے فضائل و کمالات کو علی الاعلان بیان کرتے رہیں۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فضائل و محاسن کا ذکر جمیل رب العالمین جل جلالہ اور تمام انبیاء و مرسلین علیہم الصلاۃوالتسلیم کا مقدس طریقہ ہے۔حضرت حق جل مجدہ، نے قرآن کریم کو اپنے حبیب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مدح و ثناء کے قسم قسم کے گلہائے رنگا رنگ کا ایک حسین گلدستہ بنا کر نازل فرمایا ہے اور پورے قرآن میں آپ کی مقدس نعت و صفات کی آیات بینات اس طرح چمک چمک کر جگمگا رہی ہیں جس طرح آسمان پر ستاروں کی برات اپنی تجلیات کا نور بکھیرتی رہتی ہے۔ اور انبیاء سابقین کی مقدس آسمانی کتابیں بھی اعلان کر رہی ہیں کہ ہر نبی و رسول، اﷲ کے حبیب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مدح و ثنا کا نقیب اور ان کے فضائل و محاسن کا خطیب بن کر عمر بھر فضائل مصطفی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے فضل و کمال اور ان کے جاہ و جلال کا ڈنکا بجاتا رہا۔ یہی و جہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے مقدس دور میں ہزاروں اصحاب کبار ہر کوچہ و بازار اور میدان کارزار میں نعتِ رسول کے نغموں سے انقلاب عظیم برپا کرکے ایسے ایسے عظیم شاہکار عالم وجود میں لائے کہ کائنات ہستی میں ہدایت کی نسیم بہار سے ہزاروں گلزار نمودار ہو گئے۔ اور دورِ صحابہ سے آج تک پیارے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے خوش نصیب مداحوں نے نظم و نثر میں نعت پاک کا جتنا بڑا ذخیرہ جمع کر دیا ہے کہ اگر ان کا شمار کیا جائے تو دفتروں کے اوراق تو کیا روئے زمین کی وسعت بھی ان کی تاب نہ لا سکے گی۔"
" حضرت حسان بن ثابت اورحضرت عبداﷲ بن رواحہ، کعب بن زہیر وغیرہ صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے دربار نبوت کا شاعر ہونے کی حیثیت سے ایسی ایسی نعت پاک کی مثالیں پیش کیں کہ آج تک بڑے بڑے با کمال شعراء ان کو سن کر سر دھنتے رہتے ہیں اور اِنْ شاءَ اﷲ تعالیٰ قیامت تک حضور سرور عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مدح و ثنا کا چرچا نظم و نثر میں اسی شان سے ہوتا رہے گا۔ ؎
رہے گا یوں ہی ان کا چرچا رہے گا پڑے خاک ہو جائیں جل جانے والے"
ہر مسلمان پر واجب ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھتا رہے۔ چنانچہ خالق کائنات جل جلالہ کا حکم ہے کہ
اِنَّ اللہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَ سَلِّمُوۡا تَسْلِیۡمًا ﴿۵۶﴾ (1)
"بے شک اﷲ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں اے مومنو!تم بھی ان پر درود بھیجتے رہو اور ان پر سلام بھیجتے رہو جیسا کہ سلام بھیجنے کا حق ہے۔(احزاب)
حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کاارشاد ہے کہ جو مجھ پر ایک مرتبہ درود شریف بھیجتا ہے اﷲ تعالیٰ اس پر دس مرتبہ درود شریف (رحمت) بھیجتا ہے۔(2)
اﷲ اکبر!شہنشاہ کونین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی شان محبوبیت کا کیا کہنا؟ ایک حقیر و ذلیل بندہ خدا کے پیغمبر جمیل کی بارگاہِ عظمت میں درود شریف کا ہدیہ بھیجتا ہے تو خداوند"
"1۔۔۔۔۔۔پ۲۲،الاحزاب:۵۶
2۔۔۔۔۔۔صحیح مسلم،کتاب الصلوۃ،باب الصلوۃعلی النبی صلی اللہ علیہ وسلم...الخ، الحدیث: ۴۰۸،ص۲۱۶"
"جلیل اس کے بدلے میں دس رحمتیں اس بندے پر نازل فرماتا ہے۔
درود شریف کے فضائل و فوائد بہت زیادہ ہیں یہاں بہ نظر اختصار ہم نے اس کا ذکر نہیں کیا۔ خداوند کریم ہم تمام مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ درود شریف پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)"
حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے روضۂ مقدسہ کی زیارت سنت موکدہ قریب واجب ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ
وَلَوْ اَنَّہُمْ اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمْ جَآءُوۡکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُوۡلُ لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّابًا رَّحِیۡمًا ﴿۶۴﴾ (1)
"اور اگریہ لوگ جس وقت کہ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں آپ کے پاس آجاتے اور خداسے بخشش مانگتے اوررسول ان کے لئے بخشش کی دعا فرماتے تو یہ لوگ خدا کو بہت زیادہ بخشنے والا مہربان پاتے۔( نساء)
اس آیت میں گناہگاروں کے گناہ کی بخشش کے لئے ارحم الراحمین نے تین شرطیں لگائی ہیں اول دربار رسول میں حاضری۔ دوم استغفار۔ سوئم رسول کی دعائے مغفرت۔اور یہ حکم حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ظاہری دنیوی حیات ہی تک محدود نہیں بلکہ روضہ اقدس میں حاضری بھی یقینا دربار رسول ہی میں حاضری ہے۔ اسی لئے علماء کرام نے تصریح فرما دی ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دربار کا یہ فیض آپ کی وفات اقدس سے منقطع نہیں ہوا ہے۔ اس لئے جو گناہگار قبر انور کے پاس حاضر ہو جائے اور"
1۔۔۔۔۔۔پ۵،النساء:۶۴
"وہاں خدا سے استغفار کرے اور چونکہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تو اپنی قبر انور میں اپنی امت کے لئے استغفار فرماتے ہی رہتے ہیں۔ لہٰذا اس گناہگار کے لئے مغفرت کی تینوں شرطیں پائی گئیں۔ اس لئے ان شاء اﷲ تعالیٰ اس کی ضرور مغفرت ہو جائے گی۔
یہی و جہ ہے کہ چاروں مذاہب کے علماء کرام نے مناسک حج و زیارت کی کتابوں میں یہ تحریر فرمایا ہے کہ جو شخص بھی روضہ منورہ پر حاضری دے اس کے لئے مستحب ہے کہ اس آیت کو پڑھے اور پھر خدا سے اپنی مغفرت کی دعا مانگے۔
مذکورہ بالا آیت مبارکہ کے علاوہ بہت سی حدیثیں بھی روضہ منورہ کی زیارت کے فضائل میں واردہوئی ہیں جن کوعلامہ سمہودی رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ نے اپنی کتاب''وفاء الوفا'' اور دوسرے مستند سلف صالحین علماء دین نے اپنی اپنی کتابوں میں نقل فرمایا ہے۔ ہم یہاں مثال کے طور پر صرف تین حدیثیں بیان کرتے ہیں۔"
(۱) مَنْ زَارَ قَبْرِیْ وَجَبَتْ لَہٗ شَفَاعَتِیْ(1)(دار قطنی و بیہقی وغیرہ)
جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لئے میری شفاعت واجب ہو گئی۔
(2) مَنْ حَجَّ الْبَیْتَ وَلَمْ یَزُرْنِیْ فَقَدْ جَفَانِیْ(2)(کامل ابن عدی)
جس نے بیت اﷲ کا حج کیا اور میری زیارت نہ کی اس نے مجھ پر ظلم کیا۔
(۳) مَن زَارَ نِیْ بَعْدَ مَوْتِیْ فَکَاَنَّمَا زَارَنِیْ فِیْ حَیَاتِیْ وَمَنْ مَّاتَ بِاَحَدِ الْحَرَمَیْنِ بُعِثَ مِنَ الْاٰمِنِیْنَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ (3)(دار قطنی وغیرہ)
جس نے میری وفات کے بعد میری زیارت کی اس نے گویا میری حیات
"1۔۔۔۔۔۔سنن الدار قطنی ،کتاب الحج ، باب المواقیت، الحدیث:۲۶۶۹،ج۲،ص ۳۵۱
2۔۔۔۔۔۔الکامل فی ضعفاء الرجال ، النعمان بن شبل الباھلی البصری،ج۸، ص ۲۴۸
3۔۔۔۔۔۔سنن الدار قطنی ، کتاب الحج ، باب المواقیت، الحدیث:۲۶۶۸،ج۲، ص ۳۵۱"
"میں میری زیارت کی اور جو حرمین شریفین میں سے ایک میں مر گیا وہ قیامت کے دن امن والوں کی جماعت میں اٹھایا جائیگا۔
اسی لئے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے مقدس زمانے سے لے کر آج تک تمام دنیا کے مسلمان قبر منور کی زیارت کرتے اور آپ کی مقدس جناب میں توسل اور استغاثہ کرتے رہے ہیں اور ان شاء اﷲ تعالیٰ قیامت تک یہ مبارک سلسلہ جاری رہے گا۔
چنانچہ حضرت امیر المؤمنین علی مرتضیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ وفات اقدس کے تین دن بعد ایک اعرابی مسلمان آیا اور قبر انور پر گر کر لپٹ گیا پھر کچھ مٹی اپنے سر پر ڈال کر یوں عرض کرنے لگا کہ
یا رسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) آپ نے جو کچھ فرمایا ہم اس پر ایمان لائے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ پر قرآن نازل فرمایا جس میں اس نے ارشاد فرمایا:"
وَلَوْاَنَّھُمْ اِذْظَّلَمُوْآ اَنْفُسَھُمْ...الخ (1)
"تو یا رسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)میں نے اپنی جان پر (گناہ کرکے )ظلم کیا ہے اس لئے میں آپ کے پاس آیا ہوں تا کہ آپ میرے حق میں مغفرت کی دعا فرمائیں۔ اعرابی کی اس فریاد کے جواب میں قبر انور سے آواز آئی کہ ''اے اعرابی! تو بخش دیا گیا۔'' (2)(وفاء الوفا جلد۲ ص۴۱۲)
ضروری تنبیہ
ناظرین کرام یہ سن کر حیران ہوں گے کہ میں نے بچشم خود دیکھا ہے کہ گنبد خضرا کے اندرمواجہہ اقدس اوراس کے قریب مسجدنبوی کی دیواروں پرقبرانورکی زیارت"
"1۔۔۔۔۔۔پ۵،النسآء:۶۴
2۔۔۔۔۔۔وفاء الوفاء للسمہودی ، الفصل الثانی فی بقیۃ ادلۃ الزیارۃ...الخ،ج۲، ص ۱۳۶۱"
کے فضائل کے بارے میں جو حدیثیں کندہ کی ہوئی تھیں، نجدی حکومت نے ان حدیثوں پرمسالہ لگوا کر ان کو مٹانے کی کوشش کی ہے اگرچہ اب بھی اس کے بعض حروف ظاہر ہیں۔ اسی طرح مسجد نبوی کے گنبدوں کے اندرونی حصہ میں قصیدہ بردہ شریف کے جن اشعار میں توسل واستغاثہ کے مضامین تھے ان سب کومٹادیاگیاہے۔باقی اشعارباقی گنبدوں پر اس وقت تک باقی تھے۔ میں نے جو کچھ دیکھا ہے وہ جولائی ۱۹۵۹ء کا واقعہ ہے اسکے بعد وہاں کیا تبدیلی ہوئی اس کا حال نئے حجاج کرام سے دریافت کرنا چاہیے۔
" بعض لوگ انبیاء کرام اور اولیاء و شہداء کے مزاروں کی طرف سفر کرنے کو حرام و ناجائز بتاتے ہیں۔ چنانچہ وہابیوں کے مورث اعلیٰ ابن تیمیہ نے تو کھلے الفاظ میں یہ فتویٰ دے دیا کہ حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے روضہ مبارکہ کے قصد سے سفر کرنا گناہ ہے اس لئے اس سفر میں نمازوں کے اندر قصر جائز نہیں۔ (معاذ اﷲ)
ابن تیمیہ کے اس فتویٰ سے شام و مصر میں بہت بڑا فتنہ برپا ہو گیا۔ چنانچہ شامیوں نے ابن تیمیہ کے بارے میں علماء حق سے استفتاء طلب کیا اور علامہ برہان بن کاح فزاری نے تقریباً چالیس سطروں میں فتویٰ لکھ کر ابن تیمیہ کو ''کافر'' بتایا اور علامہ شہاب بن جہبل نے اس فتویٰ پر اپنی مہر تصدیق لگائی۔ پھر مصر میں یہی فتویٰ حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی،چاروں مذاہب کے قاضیوں کے سامنے پیش کیا گیا۔ چنانچہ علامہ بدر بن جماعہ شافعی نے اس پر یہ فیصلہ تحریر فرمایا کہ ابن تیمیہ کو ایسے فتاویٰ باطلہ سے بزجر وتوبیخ منع کیا جائے اگر باز نہ آئے تو اس کو قید کردیا جائے اورمحمد بن الجریری حنفی نے یہ حکم دیا کہ اسی وقت بلا کسی شرط کے اُس کو قید کیا جائے اور محمدبن ابی بکر مالکی نے یہ"
حکم دیا کہ اس کو اس قسم کی زجرو توبیخ کی جائے کہ وہ ایسے مفاسد سے باز آ جائے اور احمد بن عمر مقدسی حنبلی نے بھی ایسا ہی حکم لکھا نتیجہ یہ ہوا کہ ابن تیمیہ شعبان ۷۲۶ھ میں دمشق کے قلعہ کے اندر قید کیا گیا اور جیل خانہ ہی میں ۲۰ ذوالقعد ۷۲۸ھ کو وہ اس دنیا سے رخصت ہوا۔مواخذہ اخروی ابھی باقی ہے۔(1)(منقول ازسیرت رسول عربی ص۵۳۳)
ابن تیمیہ اوراس کی معنوی اولاد یعنی فرقہ وہابیہ قبر انور کی زیارت سے منع کرنے کے لئے بخاری کی اس حدیث کو بطور دلیل کے پیش کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ اِلَّا اِلٰی ثَلٰثَۃِ مَسَاجِدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ مَسْجِدِ الرَّسُوْلِ وَمَسْجِدِ الْاَقْصٰی.(2)
" کجاوے نہ باندھے جائیں مگر تین ہی مسجدوں یعنی مسجد حرام و مسجد رسول و مسجد اقصیٰ کی طرف۔ (بخاری جلد۱ ص۱۵۸ باب فضل الصلوٰۃ فی مسجد مکۃ و المدینۃ)
اس حدیث کا سیدھا سادہ مطلب جس کو تمام شراح حدیث نے سمجھا ہے یہی ہے کہ تمام دنیامیں تین ہی مسجدیں یعنی مسجدحرام،مسجدرسول،مسجداقصیٰ ایسی مساجد ہیں جن کو تمام دنیا کی مسجدوں پر اجروثواب کے معاملہ میں ایک خاص فضیلت حاصل ہے۔ لہٰذا ان تین مسجدوں کی طرف کجاوے باندھ کر دور دور سے سفر کرکے جانا چاہیے لیکن ان تین مسجدوں کے سوا چونکہ دنیا بھر کی تمام مسجدیں اجروثواب کے معاملہ میں برابر ہیں۔"
"1۔۔۔۔۔۔سیرت رسول عربی ، باب امت پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق کا بیان ، ص۵۰۵
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری ،کتاب فضل الصلاۃ فی مسجد مکۃ والمدینۃ، باب فضل الصلاۃ...الخ،
الحدیث: ۱۱۸۹،ج۱، ص ۴۰۱"
"اس لئے ان تین مسجدوں کے سوا کسی دوسری مسجد کی طرف کجاوے باندھ کر دور دور سے سفر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس حدیث کو مشاہدہ مقابر کی طرف سفر کرنے یا نہ کرنے سے تو کوئی تعلق نہیں ہے۔
اگر اس بات کو عالموں کی زبان میں سمجھنا ہو تو یوں سمجھئے کہ اس حدیث میں اِلَّا اِلٰی ثَلٰثَۃِ مَسَاجِدَ مستثنیٰ مفرغ ہے اور'' مستثنیٰ مفرغ'' میں ''مستثنیٰ منہ'' ہمیشہ وہی مقدر مانا جائے گاجو مستثنیٰ کی نوع ہو مثلاً''مَا جَاءَ نِیْ اِلَّا زَیْدٌ''میں لفظ جِسْمٌ یا حَیْوَانٌ کو مستثنیٰ منہ مقدر نہیں مانا جائے گا اور اس عبارت کا مطلب"
''مَاجَاءَ نِیْ جِسْمٌ اِلَّا زَیْدٌ''یا''مَاجَاءَ نِیْ حَیْوَانٌ اِلَّا زَیْدٌ''
نہیں مانا جائے گا بلکہ اس کا مطلب یہی مانا جائے گا کہ
''مَا جَاءَ نِیْ رَجُلٌ اِلَّا زَیْدٌ''
تو اس حدیث میں بھی ''مستثنیٰ منہ'' بجز لفظ ''مسجد'' اور کوئی دوسرا ہو ہی نہیں سکتا لہٰذا حدیث کی اصل عبارت یہ ہوئی کہ
''لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ اِلٰی مَسْجِدٍ اِلَّا اِلٰی ثَلٰثَۃِ مَسَاجِدَ ''
"یعنی تین مسجدوں کے سوا کسی دوسری مسجد کی طرف کجاوے نہ باندھے جائیں۔
چنانچہ اس حدیث کی بعض روایات میں یہ لفظ آیابھی ہے۔مثلاًایک روایت میں یوں آیا ہے کہ"
لاینبغی للمطی ان یشد رحالہ الی مسجد یبتغی فیہ الصلاۃ غیر المسجد الحرام والمسجد الاقصیٰ ومسجدی ھذا(1)(قسطلانی و عمدۃ القاری)
"یعنی سواریوں پر کجاوے کسی مسجد کی طرف بقصد نماز نہ باندھے جائیں سوائے مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ اور میری اس مسجد کے۔
ملاحظہ فرمائیے کہ اس حدیث میں مستثنیٰ منہ ذکرکر دیا گیاہے اور وہ اِلٰی مَسْجِدٍ"
1۔۔۔۔۔۔عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری،کتاب فضل الصلوۃ فی مسجدمکۃ والمدینۃ، باب فضل الصلاۃ فی مسجدمکۃ...الخ،تحت الحدیث:۱۱۸۹،ج۵،ص۵۶۳،۵۶۴،۵۶۶
ہے بہر حال وہابیہ خذلہم اﷲ نے عداوت رسول میں اس حدیث کا مطلب بیان کرنے میں اتنی بڑی جہالت کا ثبوت دیا ہے کہ قیامت تک تمام اہل علم انکی اس جہالت پر ماتم کرتے رہیں گے۔
حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو بارگاہ الٰہی میں وسیلہ بنا کر دعا مانگنا جائز بلکہ مستحب ہے۔ اسی کو توسل و استغاثہ و تشفع وغیرہ مختلف الفاظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خدا کے دربار میں وسیلہ بنا نا یہ حضرات انبیاء مرسلین کی سنت اور سلف صالحین کا مقدس طریقہ ہے۔ اور یہ توسل حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت شریفہ سے پہلے آپ کی ظاہری حیات میں اور آپ کی وفات اقدس کے بعد تینوں حالتوں میں ثابت ہے۔ چنانچہ ہم یہاں تینوں حالتوں میں آپ سے توسل کرنے کی چند مثالیں نہایت ہی اختصار کے طورپر ذکرکرتے ہیں۔
روایت ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے دنیا میں آ کرباری تعالیٰ سے یوں دعا مانگی کہ
یَارَبِّ اَسْئَلُکَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ اَنْ تَغْفِرَ لِیْ
"اے میرے پروردگار! میں تجھ سے محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے معاف فرما دے۔
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے آدم ! تم نے محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کو کس طرح پہچانا حالانکہ میں نے ابھی تک ان کو پیدا بھی نہیں فرمایا؟ حضرت آدم علیہ السلام"
نے عرض کیا کہ اے میرے پروردگار! جب تو نے مجھے پیدا فرما کر میرے بدن میں روح پھونکی تو میں نے سر اٹھا کر دیکھا کہ عرش مجید کے پایوں پر لا الٰہ الا اﷲ محمد رسول اﷲلکھا ہوا ہے۔ اس سے میں نے سمجھ لیا کہ تو نے جس کے نام کو اپنے نام کے ساتھ ملا کر عرش پر تحریر کرایا ہے وہ یقینا تیرا سب سے بڑا محبوب ہو گا۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے آدم (علیہ السلام) بے شک تم نے سچ کہا وہ میرے نزدیک تمام مخلوق سے زیادہ محبوب ہیں چونکہ تم نے ان کو میرے دربار میں وسیلہ بنایا ہے اس لئے میں نے تم کو معاف کر دیا اور سن لو کہ اگر محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) نہ ہوتے تو میں تم کو پیدا نہ کرتا۔ اس حدیث کو امام بیہقی نے روایت فرمایا ہے۔(1) (روح البیان سورۂ احزاب ص۲۳۰)
حضرات صحابہ کرام آپ کی مقدس مجالس میں حاضر ہو کر جس طرح اپنی دین و دنیا کی تمام حاجتیں طلب فرماتے تھے اسی طرح اپنی دعاؤں میں آپ کو وسیلہ بھی بنایا کرتے تھے۔ بلکہ خود حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے بعض صحابہ کو یہ تعلیم دی کہ وہ اپنی دعاؤں میں رسول کی مقدس ذات کو خداوند تعالیٰ کے دربار میں وسیلہ بنائیں۔ چنانچہ ''معجزات'' کے ذکر میں آپ ایک نابینا کے بارے میں یہ حدیث پڑھ چکے کہ ایک نابینا بارگاہ اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ آپ اﷲ تعالیٰ سے دعا کردیں کہ وہ مجھے عافیت بخشے آپ نے فرمایا کہ اگرتو چاہے تو میں دعا کر دیتا ہوں اور اگر تو چاہے تو صبر کر صبر تیرے حق میں اچھا ہے۔ جب اس نے دعا کے لئے اصرار کیا تو آپ نے اس کو حکم دیا کہ تم اچھی طرح وضو کرکے یوں دعا مانگو کہ
1۔۔۔۔۔۔تفسیر روح البیان ، الجزء الثانی والعشرون ، سورۃ الاحزاب ، ج۷،ص۲۳۰
اَللّٰھُمَّ اِنّیْ اَسْئَلُکَ وَاَتَوَجَّہُ اِلَیْکَ بِنَبِیِّکَ مُحَمَّدٍ نَبِیِّ الرَّحْمَۃِ یَامُحَمَّدُ اِنِّیْ تَوَجَّھْتُ بِکَ اِلٰی رَبِّیْ فِیْ حَاجَتِیْ ھٰذِہٖ لِتُقْضٰی لِیْ اَللّٰھُمَّ فَشَفِّعْہُ فِیَّ
"یااللہ! میں تیری بارگاہ میں سوال کرتا ہوں اور تیرے نبی،نبی رحمت کا وسیلہ پیش کرتا ہوں یا محمد! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) میں نے اپنے پروردگار کی بارگاہ میں آپ کا وسیلہ پیش کیا ہے اپنی اس ضرورت میں تا کہ وہ پوری ہو جائے یا اﷲ! تو میرے حق میں حضور کی شفاعت قبول فرما۔
اس حدیث کو ترمذی و نسائی نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے فرمایا کہ ھذا حدیث حسن صحیح غریب اور امام بیہقی و طبرانی نے بھی اس حدیث کو صحیح کہا ہے مگر امام بیہقی نے اتنا اور کہا ہے کہ اس نابینا نے ایسا کیا اور اس کی آنکھیں اچھی ہوگئیں۔ (1)(وفاء الوفا جلد۲ ص۴۳۰)"
" حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کاجب انتقال ہوا اور ان کی قبر تیار ہو گئی تو خود حضوراکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے ان کی قبر کی لحد کھودی پھر اس قبر میں لیٹ کر آپ نے یوں دعا فرمائی کہ
یااﷲ!میری ماں(چچی)فاطمہ بنت اسد کو بخش دے اوراس پر اس کی قبر کو کشادہ فرما دے۔ بوسیلہ اپنے نبی کے اور ان نبیوں کے وسیلہ سے جو مجھ سے پہلے ہوئے ہیں کیونکہ تو ارحم الراحمین ہے۔ (2) (وفاء الوفاء جلد۲ ص۸۹)"
"1۔۔۔۔۔۔سنن الترمذی ،کتاب احادیث شتی ، باب:۱۱۸، الحدیث:۳۵۸۹،ج۵، ص ۳۳۶
و وفاء الوفا ء للسمہودی،الفصل الثالث فی تو سل الزائرو تشفعہ...الخ،ج۲،ص۱۳۷۲
2۔۔۔۔۔۔وفاء الوفاء للسمہودی،الفصل السادس القبور التی نزلھا رسول اللہ...الخ،ج۲،ص۸۹۸۔۸۹۹"
" جب حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بچپن میں ابو طالب کی کفالت میں تھے تو حضور کی یہ چچی یعنی ابو طالب کی بیوی فاطمہ بنت اسد آپ کا بڑا خاص خیال رکھتی تھیں یہ اسی احسان کا بدلہ تھا کہ آپ نے ان کو اپنی چادر مبارک کا کفن پہنایا اور خود اپنے دست رحمت سے اُن کی قبر کی لحدکھودی اور ان کی قبر میں کچھ دیر لیٹ کر دعا فرمائی۔
اﷲ اکبر! واللہ!اس قبر میں قیامت تک رحمت کے پھولوں کی بارش ہوتی رہے گی جس قبر والے پرر حمۃ للعالمین کی رحمت کا اتنا بڑا بڑاکرم ہوا۔"
اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِکْ عَلٰی نَبِیِّکَ نَبِیِّ الرَّحَمْۃِ وَاٰلِہِ وَصَحْبِہٖ دَائِمًا اَبَدًا
وفات اقدس کے بعد بھی حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم اپنی حاجتوں اور مصیبتوں کے وقت حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنی دعاؤں میں وسیلہ بنایا کرتے تھے بلکہ آپ کو پکار کر آپ سے استغاثہ کیا کرتے تھے۔
حضرت امیر المؤمنین فاروق اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں قحط پڑگیا تو حضرت بلال بن حارث صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی قبر انور پر حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اﷲ !(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) اپنی امت کے لئے بارش کی دعا فرمائیں وہ ہلاک ہو رہی ہے۔ رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خواب میں ان سے ارشاد فرمایا کہ تم حضرت عمر کے پاس جا کر میرا سلام کہو اوربشارت دے دو کہ بارش ہو گی اور یہ بھی کہہ دو کہ وہ نرمی اختیار کریں ۔اس شخص نے بارگاہ خلافت میں حاضر ہو کر خبر کر دی۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ یہ سن کر روئے پھر کہا اے رب! میں
کوتاہی نہیں کرتا مگر اسی چیز میں کہ جس سے میں عاجز ہوں۔(1)(وفاء الوفاء)
" امیر المؤمنین حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضرت عبداﷲ بن قرط رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ اپنا خط امیر لشکر حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے نام مقام ''یرموک'' میں بھیجا اور سلامتی کی دعا مانگی۔ حضرت عبداﷲ بن قرط رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جب مسجدنبوی سے باہر آئے تو ان کو خیال آیا کہ مجھ سے بڑی غلطی ہوئی کہ میں نے روضہ اقدس پر سلام نہیں عرض کیا۔ چنانچہ واپس جا کر جب قبر انور کے پاس حاضر ہوئے تو وہاں حضرت عائشہ، حضرت عباس و حضرت علی و حضرت امام حسن و حضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہم حاضر تھے۔ حضرت عبداﷲ بن قرط رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ان حضرات سے جنگ یرموک میں اسلام کی فتح کے لئے دعا کی درخواست کی تو حضرت علی و حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما نے ہاتھ اٹھا کر یوں دعا مانگی کہ
یا اﷲ!ہم اس نبی مصطفی اور رسول مجتبیٰ کہ جن کے وسیلہ سے حضرت آدم علیہ السلام کی دعا قبول ہو گئی اور خدا نے ان کو معاف فرما دیا ان ہی کے وسیلہ سے دعا کرتے ہیں کہ تو حضرت عبداﷲ بن قرط پر اس کا راستہ آسان کر دے اور دور کو نزدیک کردے اور اپنے نبی کے اصحاب کی مدد فرما کر ان کو فتح عطا فرما دے۔
اس کے بعدحضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضرت عبداﷲ بن قرط رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ اب آپ جائیے۔ اﷲ تعالیٰ حضرت عمر و عباس و علی و حسن و حسین و ازواج نبی (رضی اﷲ تعالیٰ عنہم)کی دعا کو رد نہیں فرمائے گا جب کہ ان لوگوں نے اس کی بارگاہ میں"
1۔۔۔۔۔۔وفاء الوفاء للسمھودی ، الفصل الثالث فی توسل الزائر وتشفعہ...الخ،ج۲، ص۱۳۷۴
اس نبی کا وسیلہ پکڑا ہے جو اکرم الخلق ہیں۔(1)(فتوح الشام جلد اول ص۱۰۵)
" حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جب ان کے دور خلافت میں قحط پڑ جاتا تھا تو وہ بارش کے لئے اس طرح دعا مانگا کرتے تھے کہ
یااﷲ! ہم تیرے نبی کو وسیلہ بنا کر دعا مانگا کرتے تھے تو اس وقت تو ہم کو بارش دیاکرتاتھااب ہم تیرے دربارمیں تیرے نبی کے چچا(حضرت عباس)کو وسیلہ بناکر دعا کرتے ہیں لہٰذا تو ہم کو بارش عطا فرما۔(2)
(بخاری جلد۱ ص۱۳۷ باب سوال الناس الامام الاستسقاء)
الغرض صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین کے بعد تابعین و تبع تابعین اور دوسرے سلف صالحین نے ہمیشہ حضور رحمۃللعالمین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ذات اقدس سے توسل و استغاثہ کا سلسلہ جاری رکھا اور بحمدہ تعالیٰ اہل سنت و جماعت میں آج تک اس کا سلسلہ جاری ہے۔ اور ان شاء اﷲ تعالیٰ قیامت تک جاری رہے گا۔ اس سلسلہ میں سینکڑوں ایمان افروز واقعات پیش نظر ہیں۔ لیکن کتاب کے طویل ہو جانے کا خطرہ قلم پر کرفیو لگائے ہوئے ہے پھر بھی چند واقعات تحریر کرتا ہوں۔"
مشہور حافظ الحدیث حضرت محمد بن منکدر (متوفی ۲۰۵ھ) کا بیان ہے کہ ایک
"1۔۔۔۔۔۔فتوح الشام،جبلۃ بن الایہم،الجزء۱،ص۱۶۷۔۱۶۹
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری ،کتاب الاستسقاء ، باب سؤال الناس الامام ...الخ ،الحدیث:۱۰۱۰،
ج۱، ص ۳۴۶"
شخص نے میرے والد کے پاس اسّی دینار بطور امانت رکھے اور یہ کہہ کر جہاد میں چلا گیا کہ میری واپسی تک اگر تمہیں اس کی ضرورت پڑے تو خود خرچ کر لینا۔ والد نے قحط سالی میں یہ رقم خرچ کر ڈالی۔ اس شخص نے جہاد سے واپس آ کر اپنی رقم کا مطالبہ کیا۔ والد نے اس سے وعدہ کر لیا کہ کل آنا اور رات مسجد نبوی میں گزاری کبھی قبر انور سے لپٹتے، کبھی منبر اطہر سے چمٹتے اسی حال میں صبح کر دی ابھی کچھ اندھیرا ہی تھا کہ ناگہاں ایک شخص نمودار ہوا وہ یہ کہہ رہا تھا کہ اے ابو محمد! یہ لو۔ والد نے ہاتھ بڑھایا تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ ایک تھیلی ہے جس میں اسی دینار ہیں صبح کو والد نے وہی دینار اس شخص کو دے دئیے۔(1)
مشہوربزرگ اورصوفی حضرت ابن جلادرحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ کابیان ہے کہ میں مدینہ منورہ میں داخل ہوا اور فاقہ سے تھامیں نے قبر انور پر حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)میں اپ کامہمان ہوں اتناعرض کرکے میں سوگیا۔خواب میں حضورنبی اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مجھے ایک روٹی عنایت فرمائی آدھی میں نے کھالی۔ جب آنکھ کھلی تو آدھی روٹی میرے ہاتھ میں تھی۔ (2)
امام ابو بکر مقری کہتے ہیں کہ میں اور امام طبرانی اور ابو شیخ تینوں حرم نبوی میں فاقہ سے تھے جب عشاء کا وقت آیا تو میں نے قبر شریف کے پاس حاضر ہو کر عرض کیا یارسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ) ''ہم لوگ بھوکے ہیں۔'' یہ عرض کرکے میں لوٹ آیا۔ امام ابو القاسم طبرانی نے مجھ سے کہا کہ بیٹھو رزق آئے گا یا موت۔ ابوبکر مقری کا بیان
"1۔۔۔۔۔۔وفاء الوفاء للسمھودی،الفصل الثالث فی توسل الزائر...الخ،ج۲،ص ۱۳۸۰،۱۳۸۱
2۔۔۔۔۔۔وفاء الوفاء للسمہودی ، الفصل الثالث فی توسل الزائر...الخ،ج۲،ص ۱۳۸۰،۱۳۸۱"
ہے کہ میں اور ابو الشیخ تو سو گئے مگر طبرانی بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک علوی نے آ کر دروازہ کھٹکھٹایا۔ ہم نے کھولا تو کیا دیکھتے ہیں کہ ان کے ساتھ دو غلام ہیں جن میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں ایک ٹوکری ہے جو قسم قسم کے کھانوں سے بھری ہوئی ہے۔ ہم لوگوں نے بیٹھ کر کھایا اور خیال کیا کہ بچے ہوئے کھانے کو غلام لے لے گا مگر وہ باقی کھانا بھی ہمارے پاس چھوڑ کر چلا گیا۔ جب ہم کھانے سے فارغ ہوئے تو علوی نے ہم سے کہا کہ کیا تم نے حضور نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے فریاد کی تھی کیونکہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خواب میں مجھے حکم دیا کہ میں تمہارے پاس کچھ کھانا لے جاؤں۔(1)
" ایک شخص نے روضہ اقدس کے پاس نماز فجر کے لئے اذان دی اور جونہی اس نے ''اَلصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ'' کہا، خدا م ِمسجد میں سے ایک شخص نے اٹھ کر اس کو ایک تھپڑ مارا۔ اس شخص نے رو کر عرض کیا کہ یا رسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) ''آپ کے حضور میں میرے ساتھ یہ سلوک کیا جاتا ہے؟'' اسی وقت اس خادم پر فالج گرا۔ اسے وہاں سے اٹھا کر لے گئے اور وہ تین دن کے بعد مر گیا۔(2)
(تذکرۃ الحفاظ، مصباح الظلام و کتاب الوفاء وغیرہ)
الغرض حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاء عظام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم سے توسل اور استغاثہ جائز بلکہ مستحسن ہے۔ یہی و جہ ہے کہ لاکھوں علماء ربانیین و اولیاء کاملین ہر دور میں بزرگان دین سے نظم و نثرمیں توسل واستغاثہ کرتے رہے اوریہی اہل سنت و جماعت کا مقدس مذہب ہے۔"
"1۔۔۔۔۔۔وفاء الوفاء للسمہودی ، الفصل الثالث فی توسل الزائر...الخ،ج۲،ص ۱۳۸۰،۱۳۸۱
2۔۔۔۔۔۔وفاء الوفاء للسمہودی ، الفصل الثالث فی توسل الزائر وتشفعہ ...الخ ،ج۲، ص ۱۳۸۲"
حضرت امامِ اعظم کا استغاثہ
"یَا سَیِّدَ السَّادَاتِ جِئْتُکَ قَاصِدًا
اَرْجُوْا رِضَاکَ وَاَحْتَمِیْ بِحِمَاکَ
اَنْتَ الَّذِیْ لَوْلَاکَ مَا خُلِقَ امْرَؤٌ
کَلًّا وَّ لَا خُلِقَ الْوَرٰی لَوْلَاکَ
اَنَا طَامِعٌ بِالْجُوْدِ مِنْکَ وَلَمْ یَکُنْ
لِاَ بِیْ حَنِیْفَۃَ فِی الْاَنَامِ سِوَاکَ
(قصیدۂ نعمانیہ)"
ترجمہ: اے سید السادات! میں آپ کے پاس قصد کرکے آیا ہوں میں آپ کی خوشنودی کا امیدوار ہوں اور آپ کی پناہ گاہ میں پناہ گزین ہوں۔ آ پ کی وہ ذات ہے کہ اگر آپ نہ ہوتے تو کوئی آدمی پیدا نہ کیا جاتا اور نہ کوئی مخلوق عالم وجود میں آتی۔ میں آپ کے جود و کرم کا امیدوار ہوں۔ آپ کے سوا تمام مخلوق میں ابو حنیفہ کا کوئی سہارا نہیں!
"واخر دعوٰنا ان الحمد ﷲ رب العٰلمین واکرم الصلوٰۃ وافضل السلام
علی سید المرسلین واٰلہ الطیبین اصحابہ المکرمین وعلٰی اھل طاعتہ
اجمعین برحمتہ وھو ارحم الراحمین اٰمین یارب العالمین ."